3
2
2022
1682060063651_3214
48-68
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/44/44
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/44
Convergence of beliefs Unity and solidarity Interdisciplinary Shared
تقارب عقائد کے حوالے سے علمائے اہل سنت کی کاوشیں: ایک تحقیقی جائزہ )60(
تقارب عقائد کے حوالے سے علمائے اہل سنت کی کاوشیں: ایک تحقیقی جائزہ
Efforts of Islamic Scholars regarding Closeness of Muslim Faith: An Exploratory Study
Tajamal Hussain
Dr. Muhammad Rizwan Mahmood
Many beliefs in Masalik are common, while the differences are very few and minor. But false powers are promoting extremist thinking based on these minor differences, which is poison for the Muslim Ummah. Convergence of beliefs is very important for the survival of the Muslim Ummah. This unity should not be temporary but it should be a message of intellectual and spiritual, material well-being, spiritual growth and evolution of mental development and the unity should be universal. No matter how many differences there are between the two groups, despite this, there is also a commonality in many matters. For convergence of beliefs, it is necessary to develop these common issues instead of conflicting issues. So that the atmosphere of hatred is reduced and the atmosphere of unity and unity is created. The history of Islam is a witness to the fact that according to Imams, jurists, muhaddith, and commentators, there have been differences in many issues. Even despite this difference, love, goodwill, brotherhood, and unity also remained. Respect for each other is also necessary for intercultural tolerance and harmony. In the paper under study, an introductory review of the written efforts made by the scholars and scholars of Masalik Ahl-e-Sunnah for the convergence of beliefs will be presented which, on one hand, will help in establishing an atmosphere of harmony between people of different faiths and on the other hand will reduce the severity and differences.
Key words: Convergence of beliefs, Unity & solidarity, Interdisciplinary, Shared, Sub-differences, Islamic Scholars, Universal.
تمہید:
عقیدہ اس یقین کانام ہےجس کی وجہ سےانسان عقل سے سوچ کر ، کان سے سن کر اور قانون فطرت کے ذریعے فیصلے کر نے کا ملکہ حاصل کرتا ہے ۔ یہ فیصلے اس قدر مکمل اور یقینی ہوتے ہیں جوعقل ونقل کی ہرکسوٹی پرپورااترتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب انسان کسی بات پر اپنا عقیدہ قائم کر لیتا ہے پھر اس بات کو دل و دماغ کے ذریعے بر حق سمجھتا ہے ۔تو پھر اس کو اس عقیدےسےکوئی طاقت نہیں ہٹا سکتی اورنہ ہی دل میں شک و شبہات کی کوئی گنجائش پیدا ہوتی ہے ۔
دنیا میں بہت سے ادیان موجود ہیں ،ان ادیان میں اگر غور وفکر کیا جائے تو ان کے درمیا ن وجہ امتیاز اکثرو بیشتر عقیدہ ہی کار فرما ہے ۔ یہ عقائد عموما انسان کے بچپن اور لڑکپن کے زمانے میں ہی اس کے ذہین میں راسخ ہو جاتے ہیں اور پھر ساری زندگی ان مٹ نشانات کی طرح اس کے سا تھ رہتے ہیں۔
عقائد میں بہت سے اصولوں میں اہل سنت (اہل حدیث ،دیوبندی اور بریلوی )کے علماء متفق ہیں ۔ جیسےکہ اللہ تعالی کواس کی ذات و صفات میں ایک ماننا، سارے انبیاء اور رسولوں کو برحق تسلیم کرنا، تمام کتب سماویہ کو انبیائے کرام پر نازل ہونے اور اس حالت میں ان کے درست و قابل عمل ہونے، فرشتوں کو اللہ تعالی کے خاص بندے ہونے، قیامت کے دن تمام مخلوق کو اللہ تعالی کےسامنےحاضرہونےاوراپنے اعمال کےمطابق جزاوسزاکافیصلہ ہونے،تمام اچھی بری چیزوں کا اللہ تعالی کی طرف سے ہونے اور انسان کےمختارو مطلق مجبورمحض ہونے کے درمیان ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمام انبیائے کرام علیہم السلام کے آخر میں آنے ،کسی بھی نبی کی توہین کے ناجائز ہونے، اللہ تعالی کی نعمتوں سے بھرے گھر جنت کے موجود ہونے اور اللہ تعالی کے جلال کا مظہر جہنم کے موجود ہونے میں مسالک اہل سنت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ۔ یہ وہ عقائد ہیں جن اہل سنت متفق ہیں ۔ تمام مسالک کے علماء نے اس لحاظ کاوشیں کیں اور فروعی اختلافات کو نظر انداز کیا ۔
مسالک میں ایسے عقائد کی کثرت ہے جو مشترک ہیں ، جب کہ اختلافات بہت ہی کم اور معمولی ہیں عموما اختلافات فروعی ، اجتہادی اور ترجیحی نوعیت کےہیں ۔ مگر باطل طاقتیں ان فروعی اختلافات کوبنیاد بناکر شدت پسندانہ سوچ کو رائج کر رہی ہیں، جو کہ امت مسلمہ کے لیے زہر قاتل ہے۔
تقارب عقائدامت مسلمہ کی بقا ء کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ یہ اتحاد وقتی نہ ہوبلکہ یہ فکری و روحانی ، مادی خوش حالی ، روحانی بالیدگی اور ذہنی نشو و نما کے ارتقاء کا پیغام ہو اور اتحاد ہمہ گیر ہو۔ دو گروہوں کے درمیان خواہ کتنا ہی اختلاف ہو اس کے باوجود بہت سے معاملات میں اشتراک بھی پایا جاتا ہے تقارب عقائد کےلیے ضروری ہےکہ اختلافی امور کی بجائے ان مشتر ک امور کو پروان چڑھایا جائے ۔ تاکہ نفرت کی فضاء کم ہو اور اتحاد و یگانگت کی فضا پیدا ہو۔
تاریخِ اسلام گواہ ہےکہ ائمہِ کرام ،فقہاءکرام ،محدثین،مفسرین کےنزدیک بہت سےمسائل میں باہم اِختلاف رہاہے۔ اس اِختلاف کےباوجودباہمی محبت،خیرخواہی،بھائی چارہ اوراتحادبھی قائم رہا۔ایسےہی بین المسالک برداشت اورہم آہنگی کےلیےایک دوسرےکااحترام بھی ضروری ہے ۔
زیر مطالعہ مقالہ میں مسالکِ اہلسنت کے علماء و مشاہیر کی جانب سے تقارب عقائد کے لیے کی جانے والی تحریری کاوشوں کا تعارفی جائزہ پیش کیا جائے گا۔ جس سے ایک طرف تو مختلف مسالک کے لوگوں کے درمیان ہم آہنگی کی فضاقائم کرنےمیں مددملےگی تودوسری طرف شدت و اختلافات میں کمی واقع ہو گی۔
تقارب عقائد کے حوالے سے ان تمام کاوشوں کی تفصیل میں جانےسےپہلےضروری ہےکہ عقیدہ کا لغوی اور اصطلاحی معنی کی وضاحت کر دی جائے ۔ذیل میں عقیدہ کا معنی و مفہوم تفصیلا بیان کیا جاتا ہے :
عقیدہ کا لغوی مفہوم :
لغت میں عقیدہ کے اصلی حروف ع ،ق ،د (عقد) ہے یہ ”عقدالحبل“ سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے اس نے رسی کو گرہ دی ۔انسان کے پختہ اور اٹل نظریات کو عقیدہ کہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یقین ، اعتبار ، بھروسہ اور ایمان وغیرہ کے معنی بھی آتے ہیں ۔ عقیدہ کی جمع عقائد بھی آتی ہے ۔جبکہ اردو میں ”عقیدوں اور عقیدے“ (0)کے الفاظ بھی جمع کے طور استعمال ہوتے ہیں ۔ "العقید" معاہدہ کرنے والے کو کہاجاتا ہے ۔g
المنجد میں ہے: وہ بات جس پر دل و دماغ پختگی کے ساتھ قائم ہیں جس کو انسان دین سمجھتا ہے اور اس کا اعتقاد رکھتا ہے۔(0)
عقیدہ کا اصطلاحی معنی :
عقیدہ کا اصطلاحی معنی کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر انیس ابراہیم لکھتے ہیں:
"العقیدۃ الحکم الذی لا یقبل الشک فیہ لدیٰ معتقدہ وفی الدین مایقصدبہ الاعتقاد دون العمل کعقیدۃ وجود اللہ و بعثہ الرسل" (0)
عقید ہ وہ حکم ہے جس میں اس کا معتقدشک کو قریب نہیں آنے دیتااورعلوم دینہ میں اس سے مراد اعتقاد ہے عمل نہیں ، جیسے اللہ کے وجود کا عقیدہ انبیاء علیھم السلام کی بعثت کا عقیدہ ۔
نواب صد یق حسن خان قنوجی ابجد العلوم میں لکھتے ہیں :
"العلم المتعلق بالاحکام الفرعیۃیسمی علم الشرائع والاحکام و باالاحکام الاصلیۃ ای الاعتقادبہ یسمی علم التوحید والصفات"(0)
فروعی احکام کے علم کا نام علم الشرائع والاحکام ہےاور احکام اصلیہ (احکام اعتقادیہ ) کا علم التوحید و الفصات کا نام ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ علم التوحید و الصفات ہی اصل علم ہے۔عقیدہ کا درست ہونا بہت ضروری ہے اگر اعمال صالحہ بھی ہوں اور عقیدہ ٹھیک نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
لغوی اور اصطلاحی معنی میں مطابقت:
عقیدہ "عقد "سےبنا ہے جس کا معنی ہے گرہ لگانا ،جس طرح کوئی اپنا جملہ سامان اکٹھا کر کے اس پر گرہ لگاتا ہے۔ یابائع اور مشتری جمیع امور یا معاملات کوپورا کرنے کے بعد اپنے مبیع کے متعلق عقد کرتےہیں یعنی گرہ لگاتے ہیں ۔اسی طرح کسی بھی عقیدہ کاحامل کسی چیز کے متعلق اپنے جمیع خیالات و نظریات کو سمیٹ کر اس پر اپنا عقیدہ بنا لیتا ہے ، یعنی گرہ لگا دیتا ہے تو کہا جاتا ہے اس کا اس چیز کے بارے میں یہ عقیدہ ہے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ حقیقت کے مطابق ہو یا مخالف۔ اور اس جگہ مطابقت معنوی پائی جارہی ہے ۔
اس سے واضح ہوا کہ نظریہ وحدت ادیان کے قائلین باوجود اپنے دعویٰ اسلام کے خود مسلمان نہیں رہتے اخروی کامیابی کے لیے رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر حال میں اقرار ضروری ہے۔ مسلمانوں میں عقائد کے اختلافات زمانہ تابعین میں پھوٹ پڑے تھے ۔جن میں معتزلہ، جہمیہ، قدریہ، جبریہ، اور روافض و خوارج کی تحریکیں بڑے زورسے چلیں ۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم میں سے کوئی بھی ان کے ساتھ نہیں گیا ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روش اختیار کرنے والے تابعین کہلائے ۔ ان کے طریقے کو چھوڑنے والے اہل بدعت کہلائے۔ صحابہ کرام کی پیروی کرنے والے اہل سنت کہلائے۔
”وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْ “ (0)
”پیغمبر جو تم کو دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو“
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّه مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِه جَهَنَّمَ وَسَآءَتْ مَصِیْرًا۠" (0)
"اورجو شخص سیدھا راستہ معلوم ہو جانے کے بعد بھی پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے علاوہ راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اس کو ادھر ہی چلنے دیں گے ۔ قیامت کے دن جہنم میں داخل کریں گے اور بے شک وہ بری جگہ ہے" ۔
شریعت میں اعتماد اور یقین تین مصادر پر ہے جو کتاب اللہ ، سنت اور اجماع ہے ۔ یہ تینوں دین اسلام کے اساس ہیں ۔
اختلاف عقائد کا تاریخی پس منظر:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ تک اسلام ایک نہایت اجمالی اور سادہ چیز تھی۔ اس کی تعلیمات میں عقائد کی مباحث کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا۔ اس کا سلسلہ تب شروع ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد مہمات کا آغاز ہوا۔ تاہم اس دور میں بھی مہمات ملکی میں مصروف صحابہ کرام کےہاں ذات و صفات کی ابحاث کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا۔بلکہ بات صرف ایک خدا کی شہادت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی گواہی دینے تک محدود تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی تھی جن کو مہمات ملکی میں زیادہ شغف نہ تھا بلکہ وہ زیادہ تر علمی اشغال میں مصروف رہتے تھے علمی اشغال میں مصروف رہنے والے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں عقائد کے ضمن میں بعض اہم مسائل زیر بحث رہتے تھے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے دور میں عقائد سے متعلق جو مسائل پیدا ہوئے ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
1: صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی ایک جماعت کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کوئی انسان فطرتاً شقی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس میں اس کے ماں باپ کا دخل ہوتا ہے، تاہم بعض صحابہ کرام اس کے برعکس تھے۔
ان کی دلیل یہ حدیث پاک ہے:
"کل مولود یولد علی الفطرۃ حتی یکون ابواہ یہودانہ وینصرانہ"(0)
"ہر پیدا ہونے والا فطرت (اسلام ) پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اس کویہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں"
جبکہ دوسری رائے کے حامل صحابہ کرام کی دلیل یہ حدیث ہے:
" الشقی من شقی فی بطن امہ والسیعد من سعد فی بطن امہ"(0)
"شقی (بد بخت ) اپنے ماں کے شکم سے شقی ہوتا ہےاور سعید اپنی ماں کے شکم سے سعید ہوتاہے"
2: بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا نظریہ تھا۔ کہ معراج کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کو دیکھا تھا مگر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نقطہ نظر اس کے برعکس تھا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:
" رایت ربی فی احسن صورۃ فوضع کفہ بین کتفی حتی وجدت برد اناملہ بین ثدیی"(0)
میں نے اپنے رب کو بہترین صورت میں دیکھا۔ اس نے اپنا دست قدرت میرے شانوں کے درمیان میں رکھا اور اس کی ٹھنڈ ک محسوس کی ۔
اسی طرح ایک روایت ہے:
"فاذا کان یوم القیامۃ راہ المؤمن کما یرون القمر لیلۃالبدر"(0)
"پس جب قیامت کا دن ہو گا مؤمن اللہ تعالیٰ کو دیکھے گا جیسے وہ چودھویں رات کے چاند کو دیکھتاہے"
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی دلیل یہ قرآنی آیت ہے:
"لَاتُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ" (0)
"آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں "
بعض محققین کے مطابق اس سے مراد رؤیت دنیا ہے۔لیکن جمہور عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے نقطہ نظر سے متفق ہیں۔
3: بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ مردے پر نوحہ کرنے سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔ مگر اس کے برعکس بعض اصحاب رسول اس کے قائل نہیں تھے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے:
"ان المیت یعذب ببکاء الحی علیہ"(0)
"بے شک مردے کو اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب کیا جاتا ہے"
لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی دلیل یہ آیت تھی:
"أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ" (0)
"کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی "
4: صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم میں سے بعض سماع موتیٰ کے قائل تھے مگر بعض اصحاب رسول اس کے قائل نہیں تھے۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی وہ جماعت جو سماع موتیٰ کی قائل نہیں تھی ان کی دلیل درج ذیل آیات تھیں۔
"فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى"(0)
" پس بے شک تم مردوں کو نہیں سنا سکتے "
اسی طرح ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
" وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ"(0)
"اور تم انہیں سنانے والے نہیں جو قبروں میں پڑے ہیں "
لیکن صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی جو جماعت سماع موتیٰ کی قائل تھی ان کی دلیل یہ تھی:
"ان رسول اللہ وقف علی قلیب بدر فقال: یا عتبہ بن ربیعہ،ویا شیبۃ بن ربیعہ،ویافلان ویا فلان، ھل وجدتم ما وعدکم ربکم حقا، فقد وجدنا ما وعدنا ربناحقا"(0)
"بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے کنویں پر کھڑے ہو کر فرمایا: اے عتبہ بن ربیعہ اور اے شیبہ بن ربیعہ ، اور فلاں اور اے فلاں! کیا جو کچھ تمہارے رب نے تمہارے لئے وعدہ کر رکھا تھا اسے تم نے سچاپالیا، پس تحقیق ہم نے سچا پالیا جو ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا تھا"
یہ وہ مسائل تھے جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم میں عقائد کے حوالے سے زیر بحث رہے تاہم ایک بڑی تعداد ان مسائل کی بھی تھی جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کے اعمال کے حوالے سے زیر بحث رہے اور انہیں مختلف فیہ مسائل پر فقہاء نےفقہ کی بنیادبھی رکھی تھی۔
مثلاحضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آگ میں پکی ہوئی چیز کے کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ جب یہ روایت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کےسامنے بیان کی گئی تو انہوں نے فرمایا اگر ایسا ہے تو پھرگرم پانی کے استعمال سےبھی وضوکرنا لازم ہوگا۔ گویا اس سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ حدیث رسول کےحوالے سےصحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم میں عقلی دلیل سے استدلال کو بھی اہمیت دی جاتی تھی۔
عقائدکے متعلق ابحاث کا سلسلہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے دور سے شروع ہوچکا تھا، مگر اس دور کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ مسائل مسلمانوں میں کبھی بھی تفرقہ کا باعث نہیں بنے اور نہ کبھی کسی صحابی نے دوسرے صحابی کا اس بنا پر بائیکاٹ کیا کہ وہ میرے نقطہ نظر سے اختلاف رکھتا ہے۔اختلاف عقائد کو بنیادی طور پر چھ مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
1 پہلا مرحلہ:
پہلا مرحلہ قرون اولیٰ کا دور تھا جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم میں عقائد کے ضمن میں بعض علمی مسائل زیر بحث آئے۔ اس حوالے سے بعض اصحاب مثلا حضرت عائشہ صدیقہؓ،حضرت ابوہریرہؓ،سیدناابنِ عباسؓ،سیدناعبداللہ بن مسعودؓاورسیدناعبداللہ بن عمرؓ نےاس موضوع میں خصوصی دلچسپی لی۔
دوسرا مرحلہ:
خوارج اور معتزلہ کا مرحلہ کہلاتا ہے جس میں واصل بن عطاء(700 تا 749 ء) ، ثمامہ بن اشرس(840م)، ابوالہذیل العلاف (753 تا 841 ء) ، ابراہیم بن یسار النظام ( 845م) اور جاحظ (775 تا 868ء) وغیرہ نےاس علم پر کام کیا۔"اس دور میں علم العقائد کی مباحث میں یونانی فلسفے کے اثرات بھی داخل ہوئے"(0) اس دور میں لوگوں کے درمیان میں باہمی اختلافات شروع ہوئے تاہم یہ مکمل دور خوارج اور معتزلہ سے منسوب ہے۔
3 تیسرا مرحلہ:
علم العقائد کے تیسرے مرحلے کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب معتزلہ کے دلائل کے رد میں پہلی مرتبہ خود ان ہی میں سے اشاعرہ اور ماتریدیہ کے مکاتب فکر وجود آئے۔ اس دور کا آغاز ابو الحسن الاشعری ( 874 تا 932 ء) اورابو منصور ماتریدی ( 852 تا 944 ء) سے شروع ہوا۔ اور بعد میں"ابوبکر الباقلانی ( 950 تا 1013ء) اور امام الحرامین الجوینی ( 1028 تا 1085 ء) نے ان کے اس کام کو آگے بڑھایا"(0) اس دور میں معتزلہ کے دلائل کو عقل کی بنیاد پر پرکھنے اور ان کا رد کرنے کی روایت پروان چڑھی۔
4 چوتھا مرحلہ:
عقائد کا چوتھا مرحلہ امام غزالی (1058 تا 1111ء) اور امام رازی ( 1149 تا 1210ء) کا دور کہلاتا ہے۔"امام غزالی اور امام رازی نےعلم العقائد میں شامل یونانی فلسفے کے اثرات کو زائل کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اس ضمن میں متعدد دلائل کے ذریعے فلسفے کے بخیے ادھیڑ دیئے" (0) تاہم اس حوالے سے بہت سے ایسے مسائل بھی انہوں نے قلم بند کیے جو اسلام مخالف نہیں تھے اور فی نفسہ ہی درست بھی تھے۔
5 پانچواں مرحلہ:
علم العقائد میں پانچواں دور تب شروع ہوا جب خود اشاعرہ کے مختلف فیہ مسائل پر بھی نقد کا آغاز ہوا، چنانچہ :"ابن رشد ( 1126 تا 1198 ء) نے اشاعرہ کے دلائل پر نقد کرتے ہوئے ثابت کیا کہ فلسفے کو مکمل طور پر رد کر دینا قطعی درست نہیں"(0) بعد ازاں امام ابن تیمیہ ( 1263 تا 1328 ء) نے بھی اشاعرہ کے بعض مسائل پر نہایت آزادی اور بے باکی سے نکتہ چینی کی اس دور کی خاص بات یہ ہے کہ اشاعرہ کا اثر ختم ہوگیا۔
6 چھٹا مرحلہ:
ابن رشد اور ابن تیمیہ کے بعد اسلامی علوم و فنون کو جو زوال آیا اس کا اثر علم العقائد پر بھی پڑا ۔ پھر ایک طویل عرصے کے بعد امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1703 تا 1762 ء ) سے علم العقائد کا چھٹا دور شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنے دور تک گئے علم العقائد پر نظر ڈالی اور اس کی خوبیوں اور خامیوں کا نا صرف بڑی آزادی سے تجزیہ کیا بلکہ اسے کئی نئی جہات سے روشناس کروایا۔ اسی زمانےمیں سرسید احمد خان (1817 تا 1898ء) نے نصوص کی عقلی توجیہات پر بحث کی جس نے مباحث کے ایک نئے دور کو جنم دیا۔تاہم ان کی فکر پر معتزلہ کی چھاپ کا اثر بہت نمایاں ہے۔ اسی وجہ سے اس کو علماء کے حلقوں میں زیادہ شہرت حاصل نہیں ہوسکی۔
اگرچہ عقائد سے متعلق مباحث کا سلسلہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے دور سے شروع ہو چکا تھا لیکن اس کی باقاعدہ بنیاد تابعین کے دور میں پڑی جو بنوامیہ کا دور بھی کہلاتا ہے۔ پھر عباسی دور میں جب یونانی فلسفے کی کتب کے عربی تراجم ہوئے اور ان کتب پر متاثر ہو کر ایک بڑے طبقے نے اہل علم سے عقائد کے متعلق مسائل کا عقلی جواب طلب کیا تو حالات ایک دوسرا رخ اختیار کرگئے۔اس وقت کے علماء نے اس عمل کی شدید مخالفت کی اور واضح کیا کہ عقائد کے مسئلےمیں موشگافیاں نہ کی جائیں ۔ دوسری طرف اہل علم کا ایک بڑا طبقہ اس پر متفکر ہوا کہ عقائد سے متعلق ان مسائل کا جواب اگر نہ دیا گیا تو عوام میں شدید مایوسی پیدا ہوگی ۔ بعید نہیں کے بہت سے لوگ اپنا دین ہی تبدیل کر لیں۔ چنا نچہ اسی سبب سے علم العقائد کا باقاعدہ دور شروع ہوا ۔
"اہل علم کے ایک طبقے کے نزدیک سب سے پہلا اختلاف جو عقائد کے متعلق پیدا ہوا وہ کلام الہی کی نسبت سے پیدا ہوا اسی مناسبت سے اسے علم عقائد کا نام دیا گیا "(0)
کیوں کہ اس علم کےاپنے خدوخال واضح نہیں تھے اور نہ ہی اس کی حدود اور دائرہ کار کا تعین کیا گیا تھا اس لیے یہ علم لوگوں کی رہنمائی کرنے کے بجائے ان میں علمی و فکری انتشار کا باعث بن گیا۔علم العقائد کی ایجاد کے بعد اس میں فلسفے کی بہت سی اصلاحات بھی شامل ہوگئیں ۔ علماء کے لیے ان دونوں میں باہمی امتیاز کرنا مشکل ہوگیا اور چونکہ یونانی فلسفے کو علماء کے ہاں پہلے ہی کوئی اچھی شہرت حاصل نہ تھی اس لیے اس کو علماء نے کلی طور پر رد کر دیا۔ اسی وجہ سے ان دونوں کے درمیان عقائد کے معاملے میں ایک طویل اختلافی سلسلہ شروع ہوا۔دونوں مکاتب فکر کی جانب سے سینکڑوں کتابیں ایک دوسرے کے رد میں لکھی گئیں ۔
"پہلی صدی ہجری سے لے کر پانچویں صدی ہجری تک اس کا زور رہا اور عباسی خلفاء میں سے اکثر نے اس کی سرپرستی کی لیکن پھر اس کا زوال شروع ہوگیا"(0)
طویل عرصہ کے بعد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انہوں نے ایک نئے انداز میں اس دوری کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ ان کے زمانے تک بڑی تعداد میں عقائد سے متعلق کتب لکھی جا چکی تھیں لیکن احکام شریعت کی علل و اسباب پر باقاعدہ کچھ نہیں لکھا گیا تھا۔ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم اسرار دین کے موضوع پر "حجۃ اللہ البالغہ" کے نام سے باقاعدہ کتاب تصنیف فرمائی۔
شروع میں تو لوگوں پر قرآن وحدیث کا اثر بہت گہرا تھا۔ اس لیے عقائد کے معاملے میں کسی بھی طرح کی موشگافی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔عقائد کی مباحث کو عوامی سطح پر بھی کوئی خاص مقبولیت نہ تھی اس لئے اس کی مخالفت اور اس پر سخت گرفت سے ڈرتے تھے ۔ لیکن عباسی عہد میں اس کو بطور فن کافی مقبولیت حاصل ہوئی اور کچھ سیاسی پشت پناہی بھی حاصل ہوگئی۔
برصغیر پاک و ہند میں کئی مسالک اور مذہب کے لوگ موجود تھے ۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد یہاں پر اب تین بڑے مسالک موجود ہیں جن میں (1) اہل حدیث (2) دیوبندی (3) بریلوی شامل ہیں۔
1: مسلک اہل حدیث
پاکستان میں پائے جانے والے اہل سنت کے مسالک میں سے ایک مسلک اہل حدیث ہے اس مسلک کے ماننے والوں نے اپنی نسبت کو محدثین کی فکر کی طرف منسوب کیا ہے اس مسلک کی بنیا دی فکر میں یہ بات شامل ہے کہ یہ شریعت کے بنیادی ماخذ قرآن و حدیث سے بغیر کسی واسطے کےدین کی دعوت دیتے ہیں۔ اس مسلک کے ماننے والے قدیم روایات سے اپنے تعلق کا دعوی کرتے ہیں ۔ اہل حدیث علماء کا نظریہ ہے کہ یہ کوئی نئی جماعت نہیں بلکہ کتاب و سنت کی وہی جماعت ہے جو عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عہد صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ اس مسلک کے ماننے والے اپنی بات پر یہ دلیل دیتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جس طرف بھی گئے ان کے ساتھ ہی نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی حدیث بھی وہاں تک پہنچ گئی۔
تدوین حدیث کے دور اور خیر قرون میں حدیث پاک سے تعلق رکھنے والےاور عمل بالحدیث کی دعوت دینے والے محدثین بھی اپنے لئے "اہل حدیث" اور "اہل الاثر" (0)کا لفظ استعمال کیا کرتے تھے۔ مسلک حدیث کے ماننے والے بھی اسی فکر پر پابند ہونے کے دعوے دار ہیں۔وہ بھی اصحاب حدیث ہی تھے جنہوں نے جس سرزمین پر قدم رکھا اسی جگہ مکتب اہل حدیث وجود میں آگیا۔
تحریک اہل حدیث کی بنیاد:
برصغیر میں تحریک اہل حدیث کو باقاعدہ ایک فکر کے طور پر ابتدائی مراحل میں متعارف کروانے والوں میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے خاندان کا عمل دخل ہے۔ بیسویں صدی ہجری کے آغاز میں آل انڈیا "اہل حدیث" کانفرنس منعقد ہوئی جہاں سید نذیر حسین رحمتہ اللہ علیہ نے شاہ ولی اللہ کی فکر کو ایک تحریک کی شکل عطا ءکی اور اپنی تبلیغ و تدریس کے ذریعے اس تحریک میں نئی جان پیدا کر دی۔ اس فکر کے ماننے والوں کو مختلف ممالک میں مختلف ناموں سے پکارا جانے لگا :
"اہل حدیث، وہابی،اثری اور عرب ممالک میں اہل السنہ،سلفی، وہابی اوراہل حدیث وغیرہ کے ناموں سے جانے جاتے ہیں"(0)
پاکستان میں اس وقت مسلک اہلحدیث کی ترجمان بہت سی جماعتیں اور انجمنیں موجود ہیں۔ جن میں سب سے بڑی جماعت "مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان" ہے اس کے علاوہ دوسری نمائندہ جماعتوں میں "جماعت اہلحدیث" "جمعیت اہل سنت" اور "مرکزی جمعیت اہلحدیث عالمی" وغیرہ شامل ہیں۔
مسلک اہل حدیث کے مشاہیر علمائے کرام:
مسلک اہل حدیث سے تعلق رکھنے والی ہزاروں معاصرو معروف شخصیات اس دنیا میں موجود ہیں اور سینکڑوں گزرچکی ہیں جن کی اس مسلک کے لئے بے پایاں خدمات ہیں ۔ اسی مناسبت سے ان میں سے چند مشاہیر علماء کرام کا مختصر سا تعارف پیش کیا جاتا ہے ۔
1: سید نذیر حسین محدث دہلوی:سید نذیر حسین محدث دہلوی 1805ء کو ہندوستان کے ضلع منگیرہ میں پیدا ہوئے۔ اور 1902 میں اس جہان فانی سے پردہ فرما گئے "(0)،2: نواب صدیق حسن خان:نواب صدیق حسن خان 1832کو بریلی میں پیدا ہوئے۔ (0)آخری ایام تکلیف میں گزارے اور 1890ء میں اس دنیا کو خیر آباد کہہ دیا ۔، 3: محمد حسین بٹالوی:محمد حسین بٹالوی 1841ء کو ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ (0)دین اسلام کی خدمات کرتےہوئے 1338ھ میں دار فانی سے کوچ کر گئے ۔، 4: ثناء اللہ امرتسری:ثناء اللہ امرتسری 1868ءکو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ فالج کی وجہ 1948ء میں عالم فانی کو الوداع کہہ گئے"(0)،5: محمد بن ابراہیم جونا گڑھی:محمد بن ابراہیم1890 ء کو جونا گڑھ میں پیدا ہوئے۔ (0)اور 28 فروری 1941ء کو جونا گڑھ میں انتقال کیا۔
2: مسلک دیوبند
1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کرلیا۔ مسلمانوں کو سیاسی اقتدار کے ساتھ نہ صرف معاشرت و معیشت میں نقصان ہوا بلکہ تعلیمی نظام بھی درہم برہم ہوگیا۔ انگریزوں نے جو نظام تعلیم نافذ کیا اس کو مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں نے بہت جلدی قبول کیا۔ برطانوی مفکر اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ ہم جو نظام تعلیم نافذ کرنے والے ہیں وہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کے منافی ہے ۔علمائے ہند انگریز کے اس خطرےکو بہت جلد بھانپ گئےتھے 1803 ء میں جب انگریز ملک کے بیشتر حصوں پر قابض ہوئے تو علمائے کرام نے انگریز سامراج کے خلاف تحریکیں شروع کر دیں۔
ملکی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئےشاہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک تاریخی جملہ کہا:
"آج کے بعد برصغیر دارالحرب ہے"۔(0)
برطانوی مظالم روکنے کے لیے مسلمانوں نے جید علمائے کرام کو شہید ہوتے دیکھا، جنازوں میں جم غفیر بھی دیکھا، ہزاروں مسلمانوں نے جانیں قربان کیں لیکن اس کے باوجود ہندوستان برطانوی حکومت کے تسلط سے نہ بچ سکا ۔ انگریزوں نے ہندوستان میں اثر و رسوخ کے ساتھ نیا طرز تعلیم متعارف کروا یا تو مسلمانوں نے بغیر کسی خوف و خطر کے اس کو رد کر دیا۔اور اس کے مقابلے میں مدارس کا قیام تیزی سے شروع کیا۔
مسلک دیوبندکے مشاہیر علماء کرام:
دارالعلوم دیوبند سے مستفیض ہونے والی سینکڑوں شخصیات گزرچکی ہیں اور موجود بھی ہیں جن کی اس ادارے (دارالعلوم دیوبند) کے لئے بے پایاں خدمات ہیں ۔جن کی وجہ سے مدرسہ کی مقبولیت نہ صرف ہندوستان میں ہوئی بلکہ دوسرے ممالک سے بھی طلباء کا رجحان و میلان اس طرف ہوا ۔اور علوم اسلامیہ کے لیےطلباء تشریف لانا شروع ہوئے اسی مناسبت سے ان میں سے چند مشاہیر علماء کرام کا مختصر سا تعارف پیش کیا جاتا ہے ۔جنہوں نے اس کا ر خیر کے لیے اپنی زندگیاں وقف کیں۔
1: رشید احمد گنگوہی:رشید احمد گنگوہی 1827ءکو گنگوہ میں پیدا ہوئے۔ (0)دارالعلوم کی خدمت کرتے ہوئے 1905ء میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔، 2: محمد قاسم نانوتوی:محمد قاسم نانوتوی ضلع سہارن پور میں1833ء کو پیدا ہوئے ۔ اور 1880ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے (0)،3: حاجی سید محمد عابد:سید محمد عابد کا سن ولادت 1834ء ہے ۔ (0) آپ 1912ء میں اس دنیا فانی سے پردہ فرما گئے ۔ ،4: محمود الحسن دیوبندی:محمود الحسن دیوبندی 1851 ء کو بریلی میں پیدا ہوئے ۔ (0)دین اسلام کے لئے جدوجہد کرتے 1920ءمیں دار فانی سے رخصت ہو گئے۔،5: اشرف علی تھانوی:اشرف علی تھانوی 1863ء میں پیدا ہوئے ۔ (0)دین اسلام کے ہر شعبہ میں قلم اٹھایا ۔ اور1943ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
3:مسلک بریلوی
مسلمانوں نے برصغیر پاک و ہند پر بہت عرصہ تک حکمرانی کی۔ جس میں غیر مسلموں کو پوری طرح مذہبی رسومات کو ادا کرنے کی آزادی اور شہری حقوق بھی حاصل تھے ۔ انگریز سامراج نے اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ نااہل حکمرانوں کی بدولت برصغیر پر قبضہ کرکے اپنی حکمرانی رائج کرلی۔انگریز کو برصغیر میں جس قوم سے سب سے زیادہ خطرہ تھا وہ قوم مسلمان تھی ۔ کیونکہ مسلمانوں نے طویل عرصہ تک برصغیر پر حکومت کی تھی ۔ دوسری وجہ مسلمان قوم کا جذبہ جہاد تھا ۔ جو انہیں کسی بھی وقت جنگ کے لیے تیار کر سکتا تھا ۔ اسی خطرے کے پیش نظر انگریز سامراج نے مسلمانوں کو آپس میں توڑنے کی کوششیں کیں۔انگریزوں نے مسلمانوں کے ایمان کو شکوک و شبہات میں ڈالنے کے لئے عیسائی مشنریز کا سہارا لیا ۔ تو دوسری جانب مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کے لیے غلام احمد قادیانی کی شکل میں ایک تیر پھینکا ۔
"جس نے نبی ہونے کا دعوی کیا ۔ فتنہ قادیانیت کو علماء کرام نے مدلل انداز میں رد کیا اور خوب اس کی مذمت کی۔ جس میں احمد رضا خان بریلوی نے بھی اس فتنہ کی بھرپور حوصلہ شکنی کرتے ہوئے وحدت ملت پر زور دیا ۔ مرزا قادیانی کا قلع قمع کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا " (0)
جنگ آزادی کے مختلف مسالک کے علماء اور زعماء نے مسلمانوں کے ایمان کو بچانے اور دین اسلام کی بقا کی خاطرکئی تنظیمیں تشکیل دیتے رہے ۔ جب ہندوستان میں مسلم لیگ قائم ہوئی تو اس خطے میں بسنے والے مسلمان کسی مسلک کی شناخت کے بغیر اس میں شامل ہوتے چلے گئے ۔ اگر انہیں مسلکی اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلم لیگ میں شامل ہونے والے زیادہ تر بریلوی مسلک کے لوگ تھے۔
بریلوی مسلک کے مشاہیر علمائے کرام :
بریلوی مسلک کے پس منظر اور اس کے آغاز و ارتقا کو مختصر بیان کرنے کے بعد ان مشاہیر علماء کرام کا بھی مختصر تعارف کروایا جاتا ہے جنہوں نے مسلک بریلوی کے فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
1: احمدرضاخان بریلوی:احمدرضاخان بریلوی میں۱۸۵۶ءکوپیداہوئے ۔ (0) آخری ایام تک مصروف زندگی بسر کی اور 1921ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔،2: محمد حامد رضا خان بریلوی:محمد حامد رضا خان 1875 ء کو بریلی میں پیدا ہوئے ۔ (0)اور 1943ء میں وصال فرما گئے۔،3: مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی:مولانا نعیم الدین مراد آبادی 1883 ء کو پیدا ہوئے۔ (0)اور 1948 ء میں وفات پاگئے۔، 4: مفتی احمد یار خان نعیمی:مفتی احمد یار خان نعیمی 1894 ءکو ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ (0)خود کو درس و تدریس میں مصروف رکھااور 1971ءمیں انتقال فرما گئے ۔،5: محمد عبدالستار خان نیازی:محمد عبدالستار خان نیازی 1915ء میانوالی میں ہوئے ۔ (0)2 مئی 2001ء کو اس دار فانی سے کوچ فرما گئے۔
تقاربِ عقائد کے لیے علماءاہل سنت کی کوششیں
پاکستان میں موجودمسالک (اہل حدیث،دیوبندی ،بریلوی )کےدرمیان اِختلافات جہاں دینِ اسلام کےلیےسوالیہ نشان ہیں۔دنیابھرکے مسلمانوں کی ساخت کواس مسلکی رویےکی وجہ سےبہت نقصان ہورہاہے۔دیوبندی،بریلوی دونوں امام ابو حنیفہ کےمقلدہیں اورعقائد میں دونوں امام ابوالحسن اشعری اورامام ابومنصورماتریدی کومقتدامانتےہیں۔مگراس کےباوجوددونوں کےدرمیان اِختلاف پایاجاتاہے۔آج ضرورت اس امرکی ہےکہ مسلکی اختلافات ختم کیےجائیں۔ اورقرآن و سنت کےتناظرمیں مسلمانوں کےدرمیان اتحادواتفاق پیداکرنے کی کوشش کی جائے۔تمام مسالک (اہل حدیث،دیوبندی، بریلوی)کےعلماءنے امت میں قربت پیداکرنےکےلیےکوشش کی ہے ۔
اہل حدیث مکتبہ فکرتقارب کی کاوشیں:
مسلکِ اہلِ حدیث میں سےمحمداسحاق صاحب امت کادردرکھنےوالےعالمِ دین تھے۔امتِ مسلمہ کےمسلکی اِختلافات کوکم کرنےکی کوشش میں رہتےتھے ۔اسی اِختلاف کوکم کرنےکی ایک کوشش" وحدت امت" رسالہ ہے:
مصنف کاتعارف:
"محمداسحاق بن میاں منشی 15جُون 1935ء کوتحصیل و ضلع فیصل آبادگاؤں رڑاٹاہلی میں پیدا ہوئے۔دارالعُلوم،چک جھمرہ میں مولاناامدادالحق دیوبندی فاضل دارالعلوم دیوبندانڈیا سےدرس وتدریس کاسلسلہ جاری رکھا"(0) آپ کی تصانِیف میں تین کتب ہیں رسالہ وحد ت امت خطبات اسحاق ، حج و عمرۃ۔آپ 18 اگست 2013 کو اس دار فانی سے کوچ فرماگئے۔
رسالہ کا تعارف:
نام رسالہ: وحدت ِامت
مصنف: مولانامحمداسحاق
اشاعتِ نہم: جنوری2005ء
ناشر: مکتبہ مِلیہ،فیصل آباد
صفحات: ۹۵
دراصل یہ رسالہ مولانامحمداسحاق کاخطبہ جمعہ ہےجوکہ 8رمضان المبارک 1412ھ کوجامعہ مسجد کریمیہ فیصل آباد میں دیا گیا۔ مولانا محمد اسحاق پنجابی زبان میں گفتگوکیا کرتے تھے ۔ یہ خطبہ بھی پنجابی زبان پر مشتمل تھا ۔ بعد میں اردو زبان میں لکھاگیا۔پیش لفظ میں دورحاضر میں ملتِ اسلامیہ کودرپیش چیلنجوں سےآگاہ کیاہے اوراس بات کوواضح کیاہےکہ امت مسلمہ کی مسالک کی تفریق انتہائی افسوسناک پہلو ہے ۔مسلمانوں کی باہمی تفرقہ بندیاں امتِ مسلمہ کےلئےبہت بڑے نقصان کاسبب ہیں اوریہ دشمنانِ اسلام کی سازش ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی گروہِ انسانی کوبرےاعمال کی بناپرعذاب میں مبتلاکرتاہےتواس کی مختلف صورتوں میں سےایک صورت یہ ہوتی ہےکہ اللہ تعالی اس گروہ کومتفرق کردیتاہے جس کی بناپراس کی طاقت ختم ہوجاتی ہے،جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
"اَوۡ يَلۡبِسَكُمۡ شِيَـعًا وَّيُذِيۡقَ بَعۡضَكُمۡ بَاۡسَ بَعۡضٍ" (0)
"یاوہ تمہیں فرقہ فرقہ کردےاورتمہیں ایک دوسرےکی لڑائی کامزہ چکھادے۔"
اس رسالہ میں یہ موقف اختیارکیاگیاہے۔ کہ مختلف اسلامی فرقوں کو نہ تو ایک دوسرے کی تکفیر کرنی چاہیے اور نہ ہی محض فقہی اختلاف کی بنا پرایک دوسرےکی اقتداء میں نماز باجماعت سےگریزکرناچاہیے۔لیکن وہ گروہ جوحضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےبعدکسی مدعی نبوت کے قائل ہوں ، انہیں ہم اسلامی فرقوں میں شمار ہی نہیں کرتے کیونکہ وہ خود کو ملت اسلامیہ سےخارج کرچکےہیں۔
عالم اسلام اس بات پردست وگریباں ہیں کہ ہاتھ کھول کرنماز پڑھیں یا باندھ کر۔ جبکہ دشمنان اسلام ان کے ہاتھ کاٹنے کی فکر میں ہیں۔ اتحاد ملت کی جتنی اشد ضرورت ہمیں آج ہے۔ اس سے پہلے شایدکبھی بھی نہ تھی۔ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کےدرمیان اختلافات جوتاریخ کےمختلف ادوار میں کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتےرہے ہیں،مگر اس پرآشوب دور میں اس نہج پرپہنچ گئےہیں کہ ایک دوسرےکےخلاف مسلمان گروہ منظم کیےجارہےہیں اورصرف فقہی اختلافات کی بناپر ایک جماعت جماعت دوسری جماعت کونیست ونابودکرنےکی کوشش میں ہے۔ ہمارےبعض علماء اپنے ہی بھائیوں کو تکفیر کی چھری سے ذبح کر رہےہیں۔ مسلمانوں کےدرمیان نفرت اتنی بڑھ گئی ہےکہ ان کوایک دوسرے کاوجودبرداشت کرنابھی گوارانہیں۔
مناظراسلام ثناءاللہ امرتسری سے کسی نے پوچھا کہ : آپ مقلدین مذہب اربعہ کوعمومااور حنفیہ کو خصوصا کافرکہتے ہیں۔دائرہ اسلام سے خارج تصورکرتےہیں کیاان کےکفرکےمتعلق کوئی تحریر بھی شائع کی ہے ۔
ثناءاللہ امرتسری نے جواب میں لکھا:
"مجھےاس سوال کا جواب دیتے ہوئے شرم آتی ہے کہ یہ سوال مجھ جیسے شخص سے کیوں پوچھاگیا جس نےکبھی کسی کےفتوئے کفرپردستخط نہیں کیےکیونکہ میرا اس بات میں وہی مسلک ہےجو امام ابوحنیفہ کاہے"
"لا نکفر اھل القبلۃ"(0)
"اہل قبلہ کی تکفیر جائز نہیں"
کسی حدیث کی صحت کے بارے میں شعبہ کا اظہار کرنے پر کوئی کافر نہیں ہوتا۔ جب تک وہ دیدہ دلیری سے یہ نہ کہہ دے کہ ہاں میں مانتا ہوں قرآن میں یہ لکھا ہے لیکن میں نہیں مانتا۔ یا حدیث کے بارے میں ایسے الفاظ اداکرے لیکن اگر کوئی حدیث کی صحت کے بارے میں شک کرتا ہے یا کوئی شخص کسی آیت کے مفہوم کے بارے میں اختلاف کرتاہے تو اسے سمجھانا بہتر ہوگا نہ کہ اسے دائرہ اسلام سے ہی خارج کر دیا جائے۔ ہمیں چاہئے کہ تمام فروعی مسائل کو بھلا کر تمام مسالک کا احترام کریں جب تک کوئی فرد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوآخری نبی مانتا ہے وہ آپ کا دینی بھائی ہے۔ اگر کوئی فرد راہ راست سے بھٹکاہویااس کےمسائل کوآپ غلط تصورکرتے ہیں تو اسےپیار محبت سے سمجھانےکی کوشش کریں۔
ہر فرقہ اپنے عقائداور فقہ کی تدوین کر چکاہے، ایک آدمی تو اپنا مسلک چھوڑکردوسرے مسلک شامل ہو سکتاہے نا کہ تمام کا تمام فرقہ۔ آج دنیا بھرکی تخلیقی قوتیں اسلام کے خلاف محاذ آرا ہیں کئی خطوں میں مسلمانوں کاخون بہہ رہاہے۔خون مسلم کی ارزانی پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کا اتحاد وقت کی پکارہے۔تبلیغی مساعی بے ثمر ثابت ہو رہی ہے۔ خدارا ہوش میں آئیں اور امت مسلمہ کو کمزور نہ کر یں جوبھی کلمہ گوہے اس کا احترام کریں۔
دیوبندی مکتبہ فکرتقارب کی کاوشیں:
مسلک دیوبند میں سے جن علماء نے تقارب عقائد کے لیے کاوشیں کیں ان میں سے ایک مولانا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی شخصیت بہت نمایاں ہے ۔آپ امت مسلمہ کے مسلکی اختلافات کو کم کرنے اور امت کو متحد کرنے کی کوشش میں رہتے تھے ۔ اسی اختلاف کو کم کرنے کی ایک کوشش"فیصلہ ہفت مسئلہ" رسالہ ہے:
مصنف کا تعارف:
آپ 1814ءکوقصبہ نانوتہ ضلع سہارن پورمیں پیدا ہوئے۔ جوآپ کا ننھیال تھا۔ آپ کا آبائی وطن تھانہ بھون یو ۔ پی ہے۔
"آپ کا نام آپ کے والدمرحوم نے امداد حسین رکھا تھا۔ لیکن حضرت شاہ محمداسحاق صاحب نبیرہ شاہ عبدالعزیزصاحب نےامداد اللہ کے لقب سے ملقب فرمایا چنانچہ اس نام کو حاجی صاحب نے بھی ترک کردیا۔کتابوں اور خطوط میں ہمیشہ امداد اللہ ہی لکھا"(0)
عبدالرشید ارشد آپ کے بارے میں فرماتے ہیں :
" آپ نسلا فاروقی تھے آپ کا سلسلہ نسب پچیس واسطوں سے سلسلہ تصوف کے مشہور بزرگ حضرت ابراہیم بن ادھم سےملتاہے"(0)
حاجی صاحب نے اگرچہ رسمی طور پر زیادہ علم حاصل نہیں کیا اور نہ ہی کسی درسگاہ سے آپ کی باقاعدہ وابستگی رہی۔ اس کے باوجود علم کس قدرتھا؟
اس کے بارے میں مولانا اشرف علی تھانوی لکھتےہیں:
"حضرت حاجی صاحب نے صرف قافیہ تک پڑھا تھا اور ہم نے اتنا پڑھا ہے کہ ایک اور قافیہ لکھ دیں مگر حضرت کے علوم ایسے تھے کہ آپ کےسامنے علماء کی کوئی حقیقت نہ تھی ہاں اصلاحا ت ضرور بولتےتھے" (0)
حاجی صاحب کی تصنیفات بنیادی طور پر دوقسم کی ہیں۔ ایک وہ جو کردار و شخصیت کی صورت میں ہوتی ہیں۔دوسری قسم وہ ہے جوالفاظ وقرطاس کی رونق ہوتی ہیں۔انسان کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو وہ بہرحال فانی ہی ہے۔ کوئی انسان اس کارخانہ قدرت میں ناگزیر نہیں ۔ حاجی صاحب 1899ء میں داغ مفارقت دے گئے۔آپ جنت المعلی میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی مکی کےمتصل دفن ہوئے۔
کتاب کا تعارف:
نام کتاب : فیصلہ ہفت مسئلہ
مصنف: حاجی امداداللہ مہاجر مکی
اشاعت دوم: جون1973ء
ناشر: محکمہ اوقاف،پنجاب
صفحات: 40
فیصلہ ہفت مسئلہ کا تجزیہ:
یہ کتاب (فیصلہ ہفت مسئلہ) حاجی امداداللہ مہاجر مکی کی لکھی ہوئی ہے ۔جس میں ان مسائل کی وضاحت کی گئی ہے جن کی وجہ سے اہل سنت (بریلوی ، دیوبندی اورا ہل حدیث ) علماء اور عوام میں اکثر اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اس کتاب میں ان اختلافات کو ذکر کیا گیا ہےاور ان سے بچنے کا طریقہ بھی واضح کیا گیا ہے ۔اکثر اختلافا ت فروعیہ ہیں جس سے طرح طرح کے فسادات برپا ہوتے ہیں ۔جس سے خواص کے وقت اور عوام کے دین ضائع ہونے کا خدشہ رہتا ہے ۔ ان سات مسائل میں سے پانچ عملی ہیں اور دو علمی ہیں ۔ جس مسئلہ میں زیادہ بحث ہوتی اس کو پہلے بیان کیا اور جس میں کم اس کو بعد میں اسی ترتیب سے ان سات مسائل کو ذکر کیا گیا ہے ۔
مولود شریف:
ولادت مصطفےٰ ﷺ کے ذکر میں تو کسی کو اختلاف نہیں مگر اس کی تاریخ مقرر کرنا اور قید لگانے پر اعتراض ہے ۔ جن میں سے قیام یعنی کھڑے ہو کر سلام پڑھنا ہے ۔ بعض علماءاس قیام سے منع کر تے ہیں :
"کل بدعۃ ضلالۃ"(0)
"ہر بدعت گمراہی ہے "
اس حدیث کی وجہ سے اور اکثر اس کی اجازت دیتے ہیں ۔
"مَن اَحدثَ فِی امرناھذامالیس مِنہُ فھو رَد" (0)
"جس نےہمارےدین میں کوئی ایسی نئی بات ایجادکی جواس میں سےنہ ہو، وہ مردودہے۔ "
اگرکوئی (تاریخ ، قیام ،وغیرہ) کو عبادت نہیں سمجھتا صرف مصلحت خیال کرتا ہےاور حضور ﷺ کے ذکر کے احترام کی وجہ سے کرتا ہے تو یہ بدعت نہیں ہے ۔ اگر ان مصلحتوں کو بعض مخصوص باتوں(نماز، روزہ) کی طرح عبادت سمجھتا ہے تو یہ بدعت ہے ۔
اختلافی مسائل میں ہر ایک فریق کے پاس دلائل موجود ہوتے ہیں، فرق صرف قوت یا ضعف کا ہوتا ہے ۔ دوسرے فریق کے ساتھ بغض و کینہ ، نفرت و تحقیر کرنا اور فاسق و گمراہ کہنا مناسب نہیں ، دونوں فریقوں کو آپس میں پیار محبت، سلام دعا اور روابط رکھنے چاہیے ۔
فاتحہ مروجہ:
میت کی روح کو ایصال ثواب پہنچانے میں کسی بھی مکتبہ فکر کو اختلاف نہیں ۔ اس جگہ بھی اگر کوئی فاتحہ کو مخصوص کرے اور اس کو فرض یا واجب سمجھےتو یہ ممانعت کا باعث ہو گا۔ اگر کسی مصلحت کی وجہ سے ان کو اپنایا ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ۔مروجہ طریقہ فاتحہ پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شروع میں کھانا پکا کر مسکینوں کو کھلایا دیا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کے اس کا ثواب میت کو پہنچ جائے ۔ لیکن بعد میں مسکینوں کو بہت کم کھلایا جانے لگا۔ اگر اس کو ختم کر دیں تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ۔
عرس اور سماع:
عرس کا لفظ " نعم کنومۃ العروس"(0)سے لیا گیا ہے مرنے کے بعد صالح بندے سے کہا جاتا ہے "سو جاؤ دلہن کی نیند"اللہ کے مقبول بندوں کی موت محبوب حقیقی سے ملاقات ہوتی ہے ۔ عرس کی رسم جاری کرنے کا مقصد مرنے والوں کی روحوں کو ایصال ثواب کرنا ہوتا ہے ۔ عرس کی اصلیت میں کوئی حرج نہیں بلکہ احادیث سے اس کا جواز بھی نکلتاہے "لا تتخذواقبری عیدا"(0) یعنی میری قبر کو میلہ مت بنانااس حدیث کے صحیح معنی یہ ہیں: کہ میلہ سے مراد خوشیاں ،زیب و زینت ، دھوم دھام کا اہتمام ہے۔ قبور کی زیارت کا مقصدعبرت اور آخرت کو یاد کرنا ہے، نہ کہ اس سے غافل ہونااور نہ ہی اس کے یہ معنی ہیں کہ قبر پر جمع ہونا ہی معنی ہے ۔ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی اور کھانا تقسیم کرنا دونوں ہی جائز ہیں ۔ حاجی صاحب یہ بھی ہر سال اپنے پیرو مرشد کے لیے ایصال ثواب کرتے ہیں اگر وقت ہو تو مولود شریف بھی پڑھا جاتا ہے ۔
غیر اللہ کو پکارنا:
پکارنے میں مختلف مقاصد ہوتے ہیں کبھی اظہار شوق، حسرت، کسی کو سنانا یا پھر پیغام دینے کے لیے ۔ غائب مخلوق کو محض یاد کرنے یا دل کو تسلی دینے یا عاشق کا اپنے محبوب کے نام کو پکارنا کے دل کو تسلی ہو تو اس میں کوئی گناہ نہیں ۔ اس قسم کا پکارنا صحابہ کرام سے بہت سی روایات سے ثابت ہے۔ مخاطب کو سنانا مقصود ہو تواگر و ہ باطنی مشاہدہ کررہاہو تو یہ بھی جائز ہے ۔ اگر مشاہدہ نہیں کررہااور خبر پہنچنے کا کوئی ذریعہ دلیل سے ثابت ہو اس صور ت میں بھی جائز ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے درود شریف کو ملائکہ حضورﷺکی بارگاہ میں پہنچاتے ہیں ۔نہ مشاہدہو، نہ پیغام پہنچانا مقصودہو،نہ پیغام پہنچانے کی کوئی دلیل ہو تو ایسا پکارنا منع ہے۔
اگر کوئی شخص کسی ولی کو پکارتاہے نہ سنانا مقصود، نہ ہی کوئی دلیل شرعی ہے، اور علم غیب کا بھی دعویٰ ہے تو یہ شرک سے ملتا جلتا ہے۔ اس کو بے دھڑک کفر اور شرک کہ دیناجرات کی بات ہے۔پکارنے والا شخص سمجھ دار ہے تو اس کے بارے میں حسن ظن کیا جائے گا۔ عام آدمی ہے تو اس کے عقیدے کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔جو خرابی ہو اس سے منع کردیا جائے اور اصل عمل کر لینے دیا جائے ۔
جماعت ثانیہ :
دوسری جماعت کے بارے میں بہت پہلے سے اختلاف چلا آرہا ہے امام اعظم علیہ الرحمۃ اس کو پسند نہیں کرتے، اور امام یوسف چند شرائط کے ساتھ اجازت دیتے ہیں، دونوں طرف دلیلیں موجود ہیں ۔ جماعت ثانیہ کو مکروہ کہا جاتا مکروہ کہنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ جماعت اولی کم ہو جائے گی ۔ جہاں پر جماعت ثانیہ نہ ہوتی ہو وہاں پر تنہاپڑھ لے اور جہاں پر ہوتی ہو وہاں پر شریک ہو جائے ۔
امکان نظیر و امکان کذب:
یہ دونوں مسئلے بہت ہی باریک ہیں مگر ان دونوں پر اعتقاد رکھنا چاہیے۔
ایک: "اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡر"(0)
یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
خدا اگر ہر چیز پر قادر ہےتو کیا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظیرلانے پر(امکان نظیر)یا جھوٹ بولنے پر (امکان کذب)قادرہے۔
دوسرا: "سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ"(0)
یعنی اللہ تعالیٰ تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے۔
جیسے اپنے قول کی مخالفت کرنایا ایسی بات کی خبر دینا جو حقیقت میں واقع نہ ہو۔ دونوں طرف دلیلیں موجود ہوں اور ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوں تو اس پر زیادہ گفتگو کرنے سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ جیسے کے تقدیر کے مسئلے میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سختی سے اس پر گفتگو کرنے کی ممانعت فرمائی ۔ ان دونوں مسئلوں میں جب عقلی اور نقلی دلیلوں کے اختلاف کی وجہ سخت دشواری ہے۔ پھر بھی اگر ان مسئلوں میں طبع آزمائی ضروری ہی کرنی ہے توتنہائی میں کریں اور اگر تحریر کی ضرورت ہو تو خط ہی کافی ہیں ۔نہ کہ رسالے اور کتابیں اور اگر اسی کا شوق ہے تو پھر عربی میں یہ شوق پورا کرلیں تاکہ عوام اس سے محفوظ رہ سکے۔
مسلک دیوبند میں سے اتحاد کی کوششیں کرنے والوں میں سے ایک مفتی محمد شفیع صاحب ہیں ۔امت مسلمہ کے درمیان دوریاں ختم کرنے اور قربتیں پیدا کرنے کے لیے آپ کی تصنیف "وحدت امت" کے نام سے ہے۔
مصنف کا تعارف:
دارالعلوم دیوبند کے ممتاز عالم دین مفتی محمد شفیع 1896 ء کو ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ رشید احمد گنگوہی نے آپ کا نام محمد شفیع تجویز فرمایا۔ دیوبند کے زمانے میں مسند دارالافتاء پر کئی سال تک فائز رہے۔ پاکستان بننے کے بعد کراچی تشریف لے آئے تو:
"دستور ساز اسمبلی کے بورڈ آف تعلیمات اسلام کے رکن کی حیثیت سے دستور اسلامی کی ترتیب میں بھر پور حصہ لیا"(0)
1951ء میں دارالعلوم کے نام سے ایک دینی مدرسے کی بنیاد رکھی ۔ پاکستان میں دیوبندمسلک کے عظیم داعی اور ترجمان ہونے کی حیثیت سے بہت سی کتابیں لکھیں ۔ دین اسلام کی خدمت کرتے ہوئے 1976ء کی ایک شب کو یہ چراغ بجھ گیا ۔
رسالہ کاتعارف:
نام رسالہ: وحدتِ اُمت
مصنف: مولانامفتی محمدشفیع
اشاعتِ دوم: رمضان المبارک 2006ء
ناشر: طارِق اکیڈمی،فیصل آباد
صفحات: 80
رسالہ کا تجزیہ:
یہ رسالہ مفتی محمدشفیع صاحب کی دوتقاریرکی تحریری شکل ہےجس میں سےایک وحدتِ امت کےموضوع پرہے ،جبکہ دوسری تقریر "اختلافاتِ امت اوران کاحل" کےعنوان پرمشتمل ہے۔دونوں تقریروں میں ایک ہی نقطہ نظربیان کیاگیاہے۔کتابچہ نہایت مختصرمگرجامع،تمام انسانیت کوایک وحدت اورخصوصا ًملتِ اِسلامیہ کوایک پلیٹ فارم پراکٹھا کرنےکےلئے ایک راستہ فراہم کرتاہے۔ آپ لکھتےہیں کہ اختلافِ رائےایک فطری وطبعی امرہےجس سےنہ کبھی انسانوں کاکوئی گروہ خالی رہانہ رہ سکتاہے۔معلوم ہواکہ اختلافِ رائےعقل ودیانت سےپیداہوتاہے۔ اس لیےاس کواپنی ذات کےاعتبارسےمضمون نہیں کہاجاسکتا۔
اس رسالہ میں افتراق امت کے اسبا ب بیان کئے اور حل بھی واضح کیے ۔ پیغمبرانہ دعوت کے عناصر کی طرف توجہ دلائی ، انبیاء علیہم السلام کے اسوہ حسنہ کو اپنانے کی نصیحت کی ، دوسروں سےپہلے اپنی اصلاح کی تلقین فرمائی۔ پاکستان میں موجود مسالک کے درمیان اختلافات جہاں دین اسلام کے لیے سوالیہ نشان ہیں۔وہیں پر پوری دنیا کے مسلمانوں کی ساخت کو اس مسلکی رویہ کی وجہ سے بہت نقصان ہو رہا ہے ۔
بریلوی مکتبہ فکرتقارب کی کاوشیں:
مسلک بریلوی میں سے جن علماء نے قارب عقائد کے لیے کوششیں کیں ان میں سے مولانا عبدالستار خان نیازی کی شخصیت بہت نمایاں ہے۔آپ نے مسلکی اختلافات کو کم کرنے اور امت مسلمہ کو متحد کرنے کی غرض سے "اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ضرورت "کے عنوان سے کتاب تحریر کی:
مصنف کا تعارف:
مولانامحمدعبدالستارخان نیازی بن ذوالفقارعلی خان نیازی کی پیدائش ۱۹۱۵ء میں پٹیالہ،تحصیل عیسیٰ خیل ،ضلع میانوالی میں ہوئی ۔اسلامیہ کالج لاہورکےاسلامک ڈیپارٹمنٹ کےصدررہے۔۱۹۴۶ء سےلےکر ۱۹۵۱ء تک پنجاب اسمبلی کےرکن رہے۔۱۹۵۳ءمیں تحریکِ ختمِ نبوت کےسلسلےمیں انہیں پھانسی کی سزاسنائی گئی۔
"تحریکِ نظامِ مصطفی کےجنرل سیکرٹری رہے، اور مرکزی جمعیت علمائے پاکستان کے 1973 سے 1979 تک جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ 1987ء میں انہیں گولڈ میڈل سے نوازا گیا "(0)
1988ء سے 1990ء تک ممبرقومی اسمبلی رہے۔ مذہبی امورکے وفاقی وزیر اورسینیٹربھی رہے۔ 1989ءمیں جمعیت علمائےپاکستان کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ 2 مئی 2001ءکواس دار فانی سےکوچ فرماگئے۔
کتاب کاتعارف:
نام کتاب: اتحادبین المسلمین وقت کی اہم ضرورت
مصنف: مولانامحمدعبدالستارخان نیازی
اشاعت دوم: مئی 1985ء
ناشر: مکتبہ رضویہ،لاہور
صفحات: 160
کتاب کاتجزیہ:
"اتحادبین المسلمین وقت کی اہم ضرورت" اپنےعنوان کےحوالےسےاہم کتاب ہے۔ایک طرف اس موضوع پرجہاں کتابوں کی کمی ہے، تودوسری طرف واضح لائحہ عمل اورحل کابھی فقدان ہے۔زیادہ تر کتب محض مسئلہ کی اہمیت پر ہیں۔ دو ٹوک حل بہت کم پیش کیا گیا ہے۔ مذکورہ کتاب اس حوالے سے ایک اچھی کوشش ہے۔ مگر مصنف نے اپنی مسلکی جانب داری کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے مسلک کی تعبیر و تجاویز کو حق گردانا ہے ،کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔پہلےحصےمیں "اتحادبین المسلمین وقت کی اہم ضرورت" میں امت کے لئے اتحادکے لیے چار نکاتی فارمولا پیش کیا گیا ہے۔دوسرے حصے میں فرقہ واریت کی وجوہات اور حل کے لیے تجاویز پیش کی گئی ہیں :
اتحاد ملت کے نکات:
پہلانکتہ:
پاکستان کی تمام جماعتیں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی اور شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی کے افکار ونظریات پرا صولا متفق ہیں ۔ لہذا ہم اپنے تمام تما م متنازعہ فیہ امور ان کے عقائدو نظریات کی روشنی میں حل کریں۔
دوسرانکتہ:
حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی چشتی صابری کی عظمت اور مرتبے کو سب لو گ تسلیم کرتے ہیں۔تمام اکابر علماء دیوبند بالواسطہ یا بلا واسطہ حاجی صاحب کے ارادت میں شامل ہیں ۔ برصغیر یا عالم اسلام میں جس قدراختلافی مسائل پائے جاتے ہیں ان سب کا جامع و مانع حل انھوں نے پیش کر دیا ہے۔اگر تمام مکاتب فکر کے علماء اور متبعین حاجی صاحب کی تصنیف " فیصلہ ہفت مسئلہ" کو حکما مان لیں تو فرقہ وارانہ اختلافات بہت حد تک ختم ہو سکتے ہیں ۔
تیسرانکتہ:
علمائے دیوبند " المہند" میں درج شدہ فیصلوں کو اختلافی مسائل میں نافذالعمل کر لیں تو تمام متنازعہ فیہ عقائد و نظریات کا نہایت ہی معقول و مدلل جواب مل سکتا ہے۔ اپنے اس عقائد نامے کو حکما ماننے کے بعد دوسرا اقدام یہ کریں کہ پبلک پلیٹ فارم سے اپنے مخالفین کے خلاف طعن تشنیع سے مکمل اجنتاب کریں۔
چوتھانکتہ:
انگریزی محاورہ ہے (Live and let others live) "زند ہ رہو اور زند ہ رہنے دو"۔ اگر کوئی مسلمان حضور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام پڑھتا ہےتو اسے پڑھنے دیں اور جو خاموشی سے بیٹھ کر درود شریف پڑھے اس تو اسے مجبور نہ کیا جائے کہ وہ کھڑے ہو کر بلند آواز سے ضرور پڑھے۔
تمام مسلمان نماز میں " السلام علیک ایھا النبی" پڑھ کرحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر سلام بھیجتے ہیں ۔تو نماز کے بعد میں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔خانقاہوں اور اوقاف کے جھگڑے اسی جذبے سے ختم ہو سکتے ہیں، کہ مسجدوں میں کسی کو نماز پڑھنے سےمنع نہ کیا جائے۔ جن لوگوں نے مسجد تعمیر کی ہو ان ہی کے مسلک کی انتظامیہ ہو ۔ اگر اس طرح سب فرقے مل کر مرکزی نکتہ عظمت و وقار کو سامنے رکھیں تو پھر اختلاف باقی نہیں رہتا۔
دوسرے حصہ میں تتمہ الموافقات اور مآخذو مراجع کو واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
بریلوی مسلک کےعلمائے کرام میں سے اتحاد کی کوششیں کرنے والوں میں سے ڈاکٹر محمدطاہرالقادری کام نام بھی بہت نمایاں ہے ۔امت مسلمہ کے درمیان عقائد و نظریات میں پائے جانے والے اختلاف کوکم کرنے کے لیے آپ کی تصنیف "فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے ؟" یہ ایک عمدہ کاوش ہے۔
مصنف کا تعارف:
دورحاضر کے عظیم اِسلامی مفکر، پروفیسرڈاکٹرمحمدطاہرالقادری پاکستان کےشہر جھنگ میں ۱۹۵۱ء میں پیداہوئے۔آپ نےجدیدعلوم کے ساتھ ساتھ قدیم اِسلامی علوم بھی حاصل کیے۔
"پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔اےاورقانون کےاِمتحانات اَعلیٰ اِعزازات کےساتھ پاس کیےاور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔" (0)
اِسلامی علوم وفنون اورمنقولات ومعقولات کادرس اوراَسانیدواِجازات اپنےوالدگرامی سمیت ایسےجیدشیوخ اورکبارعلماءسےحاصل کی ہیں جنہیں گزشتہ صدی میں اِسلامی علوم کی حجت تسلیم کیاجاتاہے۔
نام کتاب: فرقہ پرستی کاخاتمہ کیونکرممکن ہے؟
مصنف: پروفیسرڈاکٹرمحمدطاہرالقادی
اشاعتِ ششم: فروری۲۰۰۱ء
ناشر: منہاج القرآن پرنٹرز
کتاب کاتجزیہ:
کتاب ہذافرقہ پرستی کے خاتمہ کےحل کےلئےبہت عمدہ،رہنماکتاب ہے۔ابتدامیں تفرقہ بازی کے نقصانات کو بیان کیا گیا ہے۔جس میں اسلامی معاشرے کے قیام کے انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری کے بارے میں بتایا گیا ہے ، اور تفرقہ پروری کی موت کو کفر کی مو ت کہا ہے ۔اس کے بعدفرقہ پرستی کا ممکنہ لائحہ عمل بتایا گیا ہے ، جس میں مشترک پہلووں کو اپنانے کا کہاگیا ہے۔ عملی ، اقتصادی اور اخلاقی زندگی کی اصلاح کے بارے میں توجہ دلائی ۔ کلمہ گو کو بلاجواز شرعی کا فر کہنے سے منع کیاگیا دینی تعلیم کے لیے مشترک اداروں کو قائم کرنے کی تجویز دی ۔ فرقہ پرستی پر مبنی تقریروں پر پابندی لگائی جائے ۔ تمام مکاتب فکر کے نمائند ہ علماء پر مشتمل سپریم کونسل ہو۔ مذہبی سطح پرمنفی اور تخریبی سرگرمیوں کے خلاف عبرتناک تعزیرات کا نفاذ ہو۔
فاضل مُصنف نےقرآن وحدیث اورتاریخِ اسلام کےواقعات سےاستنباط کیاہے۔فرقہ پرستی کےخلاف نظریاتی اورفکری بنیادیں فراہم کی ہیں۔کتاب کاانداز بیان سادہ قابل فہم اورمنطقی ہے،کتاب میں ربط ہے،عنوانات فرقہ پرستی کےخاتمہ کاممکنہ لائحہ عمل پیش کرنےاوران کی وضاحت کرنےسےمتعلق ہیں، فرقہ پرستی کےاسباب بتائےگئےہیں اوراس کےخاتمہ کےلیےسفارشات بھی مرتب کی گئی ہیں۔
تقارب ِعقائدکےلئےبین المسالک میں برداشت اورہم آہنگی ایک دوسرےکااحترام بہت ضروری ہے ،دیوبندی،بریلوی دونوں امام اعظم ابو حنیفہ کےمقلدہیں اورعقائد میں دونوں امام ابوالحسن اشعری اورامام ابومنصور ماتریدی کومقتدہ مانتےہیں،لیکن اس کےباوجوددونوں کےدرمیان اختلاف موجودہے۔آج وقت کی اہم ضرورت ہےکہ مسلکی اختلافات کوختم کیاجائےاورقرآن وسنت کی روشنی میں مسلمانوں کےدرمیان اتحادواتفاق پیداکرنےکی کوشش کی جائے ۔
خلاصۃ البحث:
اللہ تعالی نےاس کائنات میں بسنےوالےانسانوں کی رشدوہدایت کےلئےانبیاءکرام علیہم السلام کومبعوث فرمایا۔ رسالت و نبوت کا یہ سلسلہ رسول اللہﷺکی آمد کے بعد منقطع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چھوڑی ہوئی علمی وراثت کو سمجھنے کے لئے کئی قسم کےعلمی اختلاف اور عقائد و نظریات نے جنم لیا۔
فقہائےاربعہ؛امام مالک،امام ابوحنیفہ، امام شافعیؒ اورامام احمدبن حنبؒہ اوردیگرائمہ مجتہدین نےقرآن و سنت کی روشنی میں اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺکےمطلوب ومنشا کو پانے کے لئے بھرپور کوشش کی۔ باہمی اختلاف کے باوجود آپس میں پیار و محبت سے رہتے ۔
بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلام دشمن عناصر نے حاملین اسلام کےعقائد و نظریات کو انتشار و افتراق اور فرقہ واریت کے زہر سے بھرنا شروع کر دیا۔اب یہ عالم ہے کہ ہر دوسرا شخص اپنے عقائد و نظریات کے متعلق متفکر ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سلف صالحین کی روایت پر عمل کرتے ہوئے۔آپس میں اتحاد و اتفاق کی فضاء کو قائم کیا جائے۔ اور دوسروں کے عقائد و نظریات کے بارے میں وسعت پیدا کی جائے، کیونکہ اتحاد و اتفاق وقت کی اہم ضرورت ہے؟پاکستان کے دینی ادب اور اتحاد پر لکھی گئی مندر جہ بالا تحریروں کے تحقیقی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں اتحاد و اتفاق مسلمانوں کے لئے وقت کی سب سے اہم اور بنیادی ضرورت ہے۔ فرقہ واریت کے خاتمہ کے لئے پاکستان میں لکھی گئی کتب میں سے مولانا محمد اسحاق احمد کی "وحدت امت" اور مفتی محمد شفیع کی تقریر "وحدت امت" اور مولانا عبدالستار خان نیازی کی "اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ضرورت" اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی کتاب "فیصلہ ہفت مسئلہ" اور ڈاکٹر طاہر القادری کی کتاب "فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟" فرقہ واریت کے سدباب کے موضوع پر اہم ترین کتابیں ہیں۔ جن کی وجہ سے مسلمان اپنے فروعی اختلافات کو ختم کرنے اور امت مسلمہ میں اتحادپیداکرنےمیں اہم کرداراداکرسکتی ہیں۔ملتِ اِسلامیہ میں باہمی یگانگت واخوت ،اتحادواتفاق کاسبب بن سکتی ہیں۔
سفارشات
ملکی اور مسلکی اعتبارسے جس قدر آج اتحاد کی ضرورت ، شائد اس سے پہلے اس کی اتنی اشد ضرورت نہیں تھی ۔ آج جس جگہ پر بھی ظلم وستم ہو رہا ہو وہاں مظلوم مسلمان ہوگا۔ مسلمانوں میں بھی کہیں عقائد کے جھگڑے ، تو کہیں لسانی فسادات ، تو کہیں علاقائی تنازات اور کہیں مسلکی اختلافات جو عقائد کے تقارب کی راہ میں حائل ہیں ۔ اگر کبھی اتحاد ہو بھی جائے تو وہ (اتحاد)وقتی طور پر ہوتا ہے۔ دیر پا اتحاد کے لیے کچھ ایسے اصولوں کو اپنانا اور ان پر عمل کرنا ہو گا ،تاکہ اتحاد کے مطلوبہ اوصاف حاصل ہو سکیں ۔ ایسے اوصاف جس پر عمل کے بغیر امت مسلمہ کامیاب و کامراں نہیں ہو سکتی وہ اوصاف درج ذیل ہیں۔
ہر قسم کی عصبیت مثلاشخصی، گروہی اور مسلکی سے اجتناب کرنا چاہیے۔
دوسروں کےبارے میں حسن ظن رکھا جائےوہ اپنے ہوں یا غیر۔
ایک دوسرے پر طعن و تشنیع اور الزام سے مکمل طور پر بچا جائے ۔
جن امور میں اختلاف ہوان میں نرمی و فیاضی کامعاملہ اختیار کیا جائےاورسختی سے اجتناب کریں ۔
اگر کبھی بحث و مباحثہ کی ضرورت پیش آئےتو اس میں بھی احسن طریقہ اختیار کیا جائے۔
فکرو اعتقاد میں اعتدال کی راہ اختیار کی جائے ۔
اسی طرح امت مسلمہ میں اتحاد وقربت کے بہت سے مشترک امور اور ذرائع موجود ہیں۔اگر ان مشترک امور کو اپنایا جائے، اور اس پر عمل کیا جائے تو اتحادو قربت راہ پر گامزن ہونا بہت آسان ہوگاجس کے لیے در ج ذیل باتوں پر عمل کرنا ہوگا:
کلمہ پڑھنے والے مسلمانوں کی تکفیر سے اجتناب کرنا۔
علمی اختلاف کے اسباب کا گہرا مطالعہ و فہم پر عبور حاصل کیا جائے۔
اہم مسائل کی طرف خصوصیت سے توجہ دی جائےفروعی مسائل سے گریز کیا جائے۔
امور اختلافی میں اعتدال سے کام لیا جائے اور تشدد سے اجتناب کیا جائے۔
مشتبہات سےبچا جائے اورمحکمات پر توجہ دی جائے ۔
امت مسلمہ کے مفاد کوتمام طرح کے گروہی مفاد ات پر ترجیح دی جائے۔
ایسے مسائل جو متفق علیہ ہیں ان میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا جائے۔
حقیقی اور مجازی مسائل و معاملات میں اعتدال کو اختیار کریں۔
M.Phil Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, Riphah International University Faisalabad tajamalchan1@gmail.com
Assistant Professor/Incharge, Dept. of Islamic Studies, Riphah International University Faisalabad
0 Feroz ud Din, Moulvī, Feroz ul Lughāt, Lahore, Feroz Sons, 2011, p.953
0 Uthmāni, Khalil Ashraf, Al-Munjad Arbī Urdū, Karachi, Dār Al Ashā’at, 1994, p.668
0 Anees, Ibrāhīm, Dr, Al-Moujam Al-Waseet, Iran, 620/2
0 Al-Qanoujī, Siddique Hassan khan, Abjad ul Uloom, Damascus, Dār al Kutub al Ilmiyah, 1978, 68/3
0 Al-Hashar, 59:7
0 Al-Nisā, 4:115
0 Muslim bin Hujjāj, Al-Jāmi AL- Sahīh, Beirut, Dār al Kutub al Ilmiyah, 1992, Hadith: 6755
0 Ibid, Hadith: 2645
0 Tirmidī, Muhammad bin Essa, Al-Sunan, Beirut, Dār al Kutub al Ilmiyah, 1992, Hadith: 3235
0 Ahmad bin Hanbal, Al-Musnad, Beirut, Dār al Kutub al Ilmiyah, 1994, Hadith: 8613
0 Al Anām, 6:103
0 Bukhari, Muhammad bin Ismail, Al-Jāmi Al- Sahīh, Beirut, Dār al Kutub al Ilmiyah, 1992, Hadith: 1290
0 Al-Najam, 53:38
0 Room, 30:52
0 Al-Fātir, 35:22
0 Bukhari, Al Jāmi Al Sahīh, Hadith: 33946
0 Siddique Hassan Khan, Abjad ul Uloom, 450/2
0 Muhammad Abdūhū, Tariq A. Haleem Khan, Al-Moutazlah: Bain al qadeem wa al Hadith, Dār ul Arqum, 1978, p.37
0 Al Ghazali, Muhammad, Al-Munqiz Min al-Zalāl, Istanbul, Maktabah Aishaq, 1976, p.88
0 Rushd, Muhammad bin Ahmad, Kitāb Fasl al-Maqāl wa Taqreer mā baina al-Sharia wa al-Hikmah Min al-Ittesāl, Beirut, Dār al Mashriq, p.22, 23
0Jābir Idrīs ‘Alī Mīr, Al-Mu‘tazilah: Manhaj al-Salf wa al-Mutakalymīn (Madinah Munawarah: Azwā AL-Salf, 1998 AD), 1/57-58.
0 Abū Muḥammad Zohrā, Tārīkh al-Jaddal (Beirūt: Dār al-Fikr Al-‘Arbī, S.N), 241.
0 Muḥammad Ibrāhīm Siyalkotī, Tārīkh e Ehl-e-Ḥadith (Lāhore: Maktabah Quddusiyah, S.N), 158.
0 Muḥammad Shafīq khan Pisroarī, Laqab e Ehl-e-Ḥadith (Lāhore: Markazī Jam‘īyat Ehl-e-Ḥadith Pākistān, S.N), 169.
0 Qāzī Muḥammad Aslam, Tehrīk e Ehl-e-Ḥadith Tārīkh key Āyīney mein (Lāhore: Maktabah Quddusiyah, 2005 AD), 323.
0 ‘Atīq Amjad, Nawāb Siddique Ḥassan kī Khidmāt-e-Ḥadith (Lāhore: Maktabah Islāmiyah, 2011 AD), 705.
0 Muḥammad Bahā ud-dīn,Tārīkh Ehle-e-hadīth (Lāhore: Maktabah Islāmiyah, 2011 AD), 705.
0 Abū Yaḥyā Khān Nushehrvī, Nuqūsh Abū al-wafā (Lāhore: Idārah Tarjumān al-Sunnah, 1949 AD), 21.
0 ‘Abdul Rashīd ‘Irāqī, Chālīs ‘Ulamā Ehl-e-Ḥadīth (Lāhore: Nu‘mānī Kutub Khāna, 1995 AD), 156.
0 Faisal Aḥmad Bhatklī, Teḥrīk e Āzādī mein ‘Ulamā ka kirdār (Lakhnau: Majlis e Teḥqīqāt wa Nashriyāt-e-Islām, 2015 AD), 244.
0Muḥammad Zyed Nadvī, Dār al-‘Ulūm Deoband kī Markaziyat aik Musallamah Ḥaqīqat (Lakhnau: Idārah Dār al-Ulūm Nadvatul ‘Ulamā, 2019), 15.
0 Muḥammad Ya‘qūb Nānutvī, ḤāLāT-e-Tayyib (India U.P: Ilāhī Baksh Academy, 1297 AD), 33.
0Muḥammad Allah Qāsmī, Dār al-‘Ulūm Deoband kī Jām‘e wa Mukhtaṣar Tārīkh (Dehlī: Sheikh al-Hind Academy Dār al-‘Ulūm Deoband, 1992 AD), 443.
0 Sheikh Muḥammad Abū Bakar, Maulāna Maḥmūd Ḥassan Sheikh al-Ḥind (Lāhore: Iqrā Qurān Acedemy, 2012 AD), 7.
0 Muḥammad Tayyib, Tārīkh Dār al-Ulūm Deoband (Karāchī: Maktabah Dār al-‘Ulūm, 1972 AD), 59.
0 Ahamd Raza Khan, Imām, Fatāwā Ridwiyyah, Lahore, Maktabah Ridwiyyah, 2012, p.11
0 Ridwī, Zafeer ud Dīn, Hayāt e Ā’lā Hazrat, Lahore, Maktabah Nabawiyyah, 2003, p.56
0 Muhammad Masūd Ahmad, Dr., Khulfā e Ālā Hazrat, Lahore, Raza Academy, 1998, p.76
0 MURADABADI, Muhammad Naeem ud Din, Kitāb ul Aqā’id, Karachi, Matkatah Madina, 2004, p.11
0 Siddiqui, Bilal Ahamad, Hālāt e Zindagī Muftī Ahmad Yār Khān, Gujrat, Naeemī Kutub Khana,2004, p10
0 S. Muhammad Munir Ahamd, Waffiyāt Nāmwarān e Pakistan, Lahore, Noumāni Kutub Khānah, p.495
0 Muhammad Ishāq, Moulānā, Khutbāt e Is’hāq, Faisalabad, Maktabah Takbīr, 2005, 6/1
0 Al-Anām, 6:65
0 Fatāwā Sanāiyah, 363/1 ref. Haft Rozah Ahl-Hadith, September 7, 1917
0 Anwār ul Hassan, Sher koti, Prof., Hayāt e Imdād, Karachi, Madrassah Arbiyah, 1965, p.54
0Arshad, Abdul Rasheed, 20 Barray Musalmān, Lahore, Maktabah Rasheediyah, p.84
0 Thānwī, Ashraf Ali, Arwā e Thalathah, Karachi, Dār Al Ashā’at, p.172
0 Tirmidī, Muhammad bin Essa, Al-Sunan, Hadith: 2676
0 Muslim bin Hujjāj, Al-Jāmi Al-Sahīh, Beirut, Dār Al-Kutub Al-Ilmiyah, 1992, Hadith: 4493
0 Tirmidi, Al-Sunan, Hadith: 1071
0 Ahmad bin Hanbal, Al-Musnad, Lahore, Maktabah Rahmāniah, 2012, Hadith: 8586
0 Al-Baqarah, 2:20
0 Al-Sāff’āt, 37:159
0Muhammad Tayyab, Tārīkh Dār ul Uloom Deoband, Karachi, Maktabah Dār ul Uloom, p.59
0 S, Muhammad Munir Ahamd, Waffiyāt Nāmwarān e Pakistan, p.495
0 Minhājian, Abdul Sattār, Sheikh al Islam Dr. Tahir ul Qādrī, Tanqīd, Kārnāmay, Tā,sarāt, Minhāj al-Faisalabad, Qur’ān Books, 2021, p.23
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 3 Issue 2 | 2022 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2022 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2022 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2022 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2022 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |