3
2
2022
1682060063651_3215
69-91
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/43/45
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/43
Courtesy of humanity Religion Islam Hinduism respect and self-respect are superior to all other forms of life.
أ ﻷمِیر:جلد3؍ شمارہ 2 ..( جولائی–دسمبر2 220ء) )83(
اسلام اورہندومت میں احترام انسانیت: ایک تقابلی جائزہ
Respect of Humanity in Islam and Hinduism: A Comparative Study
Imran Aslam
Prof. Dr Sajid Asdullah
Every person in the world deserves respect since he or she is a fellow human. Respect for mankind has been preached by all major world faiths. Saying that respect is the shared inheritance of all humanity will not be incorrect. The key and distinctive feature of a nation's development is respect for one another. How many countries and cultures achieved greatness just by showing mutual respect? Humanity's dignity is constantly being violated in the modern world. Everywhere, the need for murder is high. Sincerity, truth, human equality, and ideals are being replaced by dishonesty, greed, enmity, and selfishness as the standards of human respect change. And The resources are used to guide the process. The noblest creation is man, and it is his fundamental right to be treated with respect and reverence. No one can therefore perceive how his self-respect is being compromised. Because human respect and dignity are currently being trampled underfoot, it is crucial to bring up issues like respect for humanity and explain the position and status of people in light of religious texts. By doing so, it will be possible to gauge the significance of human blood and stop the current travesty of human respect and dignity. This essay will attempt to give a comparative review of the reverence and respect that people have for Islam.
Keywords: Courtesy of humanity, Religion, Islam, Hinduism, respect, and self-respect are superior to all other forms of life.
تعارف:
اللہ تعالیٰ جو اس ساری کائنات کا خالق ومالک ہے، اپنی مملکت کے اس حصے میں جسے ہم زمین کہتے ہیں انسان کو پیدا کیا۔ اسے کائنات پر غوروحوض کرنے اور سمجھنے کی قوت عطا کی۔ اسے اچھائی اور برائی میں فرق کرنے کی تمیز عطا کی۔ اپنی مرضی کا انتخاب کرنے اور ارادے کی آزادی عطا کی اور زمین پر اپنا خلیفہ بنایا۔
اس منصب پر فائز کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے اچھی طرح سے اس کے کانوں میں یہ بات ڈال دی کہ تمہارا اور تمام جہان کا مالک ومعبود اور حاکم میں ہوں۔ دنیا کی یہ زندگی جس میں تمہیں اختیارات دے کر بھیجا دراصل تمہارا یہ امتحان ہے۔
یہ امتحان ایک مقررہ مدت تک ہے، جس کے بعد تمہیں میرے حضور پیش ہونا ہے اور اس دن تمہارے اعمال کی پڑتال کرکے فیصلہ ہو گا کہ کون امتحان میں کامیاب رہا ہے اور کون ناکام تمہارے لیے صحیح یہی ہے کہ مجھے اپنا معبود اور حاکم تسلیم کرو۔ جو ہدایت میں بھیجوں اس کے مطابق دنیا میں کام کرنا اور دنیا کو عارضی ٹھکانہ سمجھ کر گزاروں تاکہ فلاح پاؤ اس کے بجائے جو بھی راستہ اختیار کرو گے وہ شیطان کا راستہ ہوگا جس کی سزا جہنم ہے۔
دنیامیں آنےوالاہرشخص احترام قابل ہےاس لیےکہ وہ انسان ہے۔تمام مذاہب نےعالم نےاحترام انسانیت کادرس دیاہے۔اگرہم کہیں کہ کراہ ارضی پررہنےوالےلوگوں میں جومشترک چیزپائی جاتی ہےوہ احترامِ انسانیت ہے۔بطورانسان ایک دوسرے کااحترام اقوام کی ترقی کارازاورامتیازہے۔ کتنی ہی ایسی قومیں اورثقافتیں ہیں جوصرف اس لیےقابل رشک ہوتیں ہیں کہ وہ ایک دوسرےکا احترام کرتی ہیں ۔
موجودہ دورمیں ہرطرف انسانیت کی عزت کوپامال کیاجارہاہے۔ ہرطرف قتل وغارت کابازارگرم ہے۔احترامِ انسانی کےرویوں کے پیمانےبھی تبدیل ہوتےجارہےہیں، خلوص،سچائی، انسانی مساوات جیسی اقدارکی جگہ دھوکہ، فریب، حرص ،لالچ، حسد اور خود غرضی جیسے عناصرلے رہے ہیں ۔ آج انسان کا احترام انسان ہونے کے ناطے نہیں کیا جارہا، بلکہ اس کی عزت و احترام اس کے معا شرتی رتبے، اختیار ،عہدہ اور وسائل کے مطابق عزت دی جارہی ہے۔انسان اشرف المخلوقات ہے اورجائز عزت وتکریم اس کا بنیادی حق ہےاس لیے کوئی انسان اپنی عزت ِنفس کو مجروح ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ اسی لیے احترامِ انسانیت جیسے موضوعات کو سامنے لانا اور مذہبی کتابوں کی روشنی میں انسان کا مقام و مرتبہ بیان کرنا بے حد ضروری ہو گیا ہے، تاکہ جو آج انسان کی عزت وتوقیر کو پاؤں تلے کچلا جارہا ہے، لوگوں کو انسانوں کا صحیح مقام وحیثیت کے بارے میں آگاہ کیا جائے تاکہ انسانی خون کی اہمیت کا اندازہ ہو سکے۔ اسلام اور ہندومت میں جو احترام و توقیر حضرت انسان کو حاصل ہے اس حوالے سے ایک تقابلی جائزہ اس مقالہ میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔
انسان کی حیثیت ومقام:
انسان کی حیثیت کا تعین اللہ تعالیٰ نے خود ہی متین کر دیا ہے، یعنی"خلیفۃ الارض"زمین پر اللہ کا نائب"جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے:
"وَاِذْقَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًقَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚوَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ قَال َاِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ"1
" اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا: میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں تو انہوں نے عرض کیا : کیا تو زمین میں اسے نائب بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گاحالانکہ ہم تیری حمد کرتے ہوئے تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں ۔ فرمایا:بیشک میں وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے۔"
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی تخلیق کے متعلق بتایا ہے اور اس کے ساتھ فرشتوں کو بھی اس بات کے بارے میں آگا ہ کیا کہ میں زمین میں اپنا ایک نائب بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے رب ذوالجلال کی بارگاہ میں انسان میں پائی جانے والی خامیوں کو بیان کیااور کہا کہ ہم تیری حمد وثنا کرنے والے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا: جوبات میں جانتا ہوں تمہیں اس کا علم نہیں ہے ۔
اسی طرح ایک اور جگہ ہے :
"لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْم"2
" بیشک یقیناہم نے آدمی کو سب سے اچھی صورت میں پیدا کیا ۔"
اللہ تعالیٰ نے انسان کی عظمت کو بیان کرنے سے پہلےچار چیزوں کا ذکرکیا اور پھر اس کے ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے آدمی کو سب سے اچھی شکل وصورت میں پیدا کیا ،ہر طرح سے اس کی مناسبت کا خیال رکھانہ ہی اسے کہیں سے جھکا ہوا، اور نہ ہی بہت بلند وبالا بنایا بلکہ اس کو بہت احسن صورت بخشی ہے۔ سب سے بڑھ کر انسان کو سمجھ ، فہم ، عقل ، شعور، آگہی اور نطق کے ملکہ سے مزین کر کے تمام مخلوقات پر افضلیت عطا کی ۔
اسی طرح ارشاد ہے کہ
"وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ"3
"اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں ۔ "
اس آیت مبارکہ میں رب تعالیٰ نے انسانوں اور جنوں کی پیدائش کا مقصد بتایا ہے ۔ یہ نہیں کہ انسان اور جن صرف دنیا کی رنگینوں میں مگن ہو کر رہ جائیں بلکہ ان کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت و پہچان اور عبادت ہے ۔مختصراًیہ کہ انسان اللہ تعالیٰ کا زمین پر نائب ہے۔ اللہ نے اس کی تخلیق اچھے طریقے سے کی اور انسان کو پیدا کرنے کا مقصد اپنی عبادت کرنا اور اطاعت وفرمانبرداری بجا لانا ہے۔
اگر ہم دنیا میں موجود تمام مذاہب میں انسانیت کے احترام کی بات کریں تو ان مذاہب کی تعلیمات میں انسانیت کی جو حیثیت ہے اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگی کہ تمام مذاہب دنیاوی حیثیت سے انسانوں کی خدمت، دوستی اور بھائی چارے کی تعلیم دیتے ہیں اور اس کا اہم ترین پہلو خدمت خلق اور انسان دوستی ہے اسی نسبت سے اہل مذاہب باہمی اور سماجی ہم آہنگی قائم کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔
ہر مذہب احترام انسانیت کا درس دیتا ہے، اسی طرح اسلام بھی انسان کی عزت و توقیر کا قائم رکھتا ہے ۔ اسلام امن وسلامتی کا علمبردارہونے کے ساتھ اور پوری مخلوق کو اللہ کا کنبہ قرار دیتا ہے۔ یعنی رنگ ونسل کے امتیازات کو ختم کرکےبنی نوع آدم کے ہر فرد کے ساتھ حسن سلوک اور اس کی عزت وآبرو کی حفاظت کا درس دیتا ہے۔اسلام انسانی اقدار کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ اعلیٰ انسانی اقدار کے تحفظ اور انسانیت کے احترام کا بنیادی منشورپیش کرتا ہے۔ اسلام نے تو انسان کو اس قدر عزت بخشی کے اس کو اشرف المخلوقات قرار دے دیا ۔ انسان (اشرف المخلوقات)ہونے کے ناطے اسے پوری کائنات پر فضیلت وبرتری عطا کی گئی ہے۔ رب کائنات کا ارشاد ہے کہ"ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی۔" اور قرآن میں کئی جگہ پورے اہتمام کے ساتھ انسانوں کو ایک دوسرے کا احترام اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی اور حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی تلقین کی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر محسن انسانیتﷺ کی زندگی کا مقصد ہی دنیا میں انسانی ا قدار کا تحفظ کرنا تھا۔
اسلام میں تکریم انسانیت:
اسلام کا دنیائے انسانیت پر یہ ایک بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے دیگر مذاہب اور مفکرین کی آراء کے برعکس انسان کو ایک معزز مخلوق ایک مکرم ومعظم ہستی اور افضل ترین مخلوق قرار دیا۔اسلام سے قبل اسی انسان کی کوئی خاطر خواہ نہیں تھی،اسلام نے انسان کو عزت و عظمت عطا فرمائی اور قرآن مجید کی اس امر پر بشارت موجود ہے کہ ہر انسان معزز ومکرم بنا کر بھیجا گیا ہے اور اب یہ انسان کے اختیار میں ہے کہ "احسن تقدیم"کی راہ اختیار کرتا ہے یا"اسفل السافلین" کی ہستیاں اختیار کرتا ہے۔ انسان رب تعالیٰ کی خصوصی تخلیق ہے۔ اس کو دوسری مخلوقات سے بہترین صورت میں پیدا کیا، بلکہ خاک کے اس پتلے میں اپنی روح پھونکی اور اسے مسجود ملائکہ بنا دیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"فَاِذَا سَوَّیْتُه وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَه سٰجِدِیْنَ"4
" تو جب میں اسے ٹھیک کرلوں اور میں اپنی طرف کی خاص معز ز ر وح اس میں پھونک دوں تو اس کے لیے سجدے میں گر جانا۔"
اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم میں روح پھونکنے اور سجدہ تعظیمی کے بارے میں ارشاد فرمایا اور انسان کی عزت و عظمت کو بیان کیا گیا ہے کہ انسان کو فرشتوں نے بھی سجدہ کیا ہے ۔ دوسری طرف رنگ ونسل اور وطن وزبان کی بنیا دپر تمام تر تشریحات کو بے معنی وبے وقعت قرار دے دیا ۔اور ان تمام حوالوں کو اضافی اور تعارفی قرار دیا،یعنی عزت کا معیار صرف تقویٰ ہے نہ کہ دنیاوی دولت۔ ارشاد ہے کہ
"یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّاخَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍوَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْااِنَّاَكْرَمَكُمْ عِنْدَاللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ"5
" اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایاتاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے ۔"
حسب و نسب کے اعتبار سے ایک دوسرے پر کسی کو بھی فضیلت و فوقیت نہیں کیونکہ قبیلے،خاندان تو صرف پہچان کے لئے ہیں اور اگر دیکھا جائے تو سبھی کے جد امجد تو حضرت آدم ہی ہیں ۔ انسان کی شرافت وفضیلت حسب و نسب میں نہیں بلکہ پرہیزگاری میں ہے۔
تکریم انسانیت کے اساس بیان کرتے ہوئے آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
" کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ ۔"6
آپﷺ کی انہیں تعلیمات کا نتیجہ تھا کہ عرب معاشرے میں جہاں نسلی تفریق وبرتری کا اظہار ایک روایت کی حیثیت رکھتا تھا جس کا اندازہ ہم اس مثال سے لگا سکتے ہیں کہ تقویٰ کی بدولت صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو سیدنا کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور موذن جیسے باوقار منصب پر ان کے فائز ہونے پر کسی طرف سے بھی کوئی اعتراض نہیں بلند ہوا۔
ہندومت میں تکریم انسانیت:
موجودہ دور میں ہر طرف قتل وغارت عام ہو رہی ہواور انسانی خون پانی سے بھی سستا تصور کیا جاتاہے۔ اس وقت انسانیت کی عزت و تکریم کو واضح کرنا اور مذہبی کتابوں کی روشنی میں انسانیت کے مقام کو بیان کرنا بہت ضروری ہوگیاہے۔ تاکہ ایسے ماحول میں انسان کو انسان کا مقام یاد دلایا جائے اور یوں خون انسانی کی ارزانی کو روکنے کی کوشش کی جا سکےگی ۔ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں پہلے انسان کو ’’منو‘‘ کہا گیا ہے۔ مہا بھارت میں منو کے بارے میں ہے کہ
"منو کو اعلیٰ علم وحکمت سے سیراب کیا گیا اور وہ ساری انسانیت کا مورث بنا۔ اسی لیے انہیں مانو کہا جاتا ہے۔ تمام لوگ بشمول برہمن،کشتری اور دیگر منو کی ہی اولاد ہیں۔"7
ہندو مذہب میں تعلیم دی گئی ہے کہ مجموعی طورپرانسانیت کو نقصان پہنچانے والے تین دشمنوں ہیں ۔ جس سے معاشرے میں بگاڑ اور افراتفری پیدا ہو سکتی ہے وہ تین دشمن یہ ہیں:
۱) خواہشات ۲) قہر وغصہ ۳) حرص
یعنی انسانوں میں اگر یہ تین بیماریاں پیدا ہو جائیں تو وہ معاشرہ تباہی کی طرف گامزن ہو جاتا ہے، بارہا یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اکثر جھگڑے کی بنیاد انہیں تین چیزوں میں سے کوئی ایک بنتی ہے اور معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔جیسے کہ اگر انسان میں حرص، غصہ یا دوسروں کو دیکھ دیکھ کر وہ سب حاصل کرنے کی خواہشات بھرنے لگ جائے وہ انسان ہر وہ جائز وناجائز طریقہ اختیار کرے گا جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا۔ جیسا کہ رگ وید میں ہے کہ
"Now man has three nost dangerous enemies, called carnal desire, wrath and greed. "
انسان کی تکریم میں سب سے بڑی رکاوٹ جو ہندوؤں میں پائی جاتی ہے وہ ذات پات کا طبقاتی نظام ہے جس نے انسانیت کی تکریم کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ہندوانہ نظام میں انسانوں کو پیدائش کی بنیاد پر اعلیٰ و ادنیٰ قرار دیا گیا ہے ۔پھر انہیں اعلیٰ وادنیٰ قسموں کو’’ذات پات ‘‘ کی اصطلاح میں بیان کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جو افراد اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں ،اس نظام کے تحت ان کے بچے بھی اسی اعلیٰ ذات کے ہی سمجھے جائیں گے۔ اس کے برعکس جن افراد کو ذات پات کے لحاظ سے ادنیٰ سمجھا گیا ہے ، ان کے بچوں کو بھی ادنیٰ ہی سمجھا جائے گا۔ اس نظام نے برہمن کو اعلیٰ اور شودر کو نیچ ذات تصور کیا ہے۔ انسان کی تخلیق کے بارے میں منو شاستر میں جس طرح کی روایات بیان کی گئی ہیں وہ انسان کی تذلیل خود کررہی ہیں جس کا اندازہ ذیل کے اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے۔
"ابتدا میں ایک ہی روح تھی یہ روح جب اپنے اردگر دیکھتی ہے تو اسے اپنے سوا کچھ نظر نہ آتا۔ یہ روح پکارتی یہاں میں ہوں تب اس لمحے"مس"کا تصور قائم ہوا وہ روح ایک ساتھی کی خواہشمند تھی۔ اس نے ایک مرد اور عورت کو مربوط صورت میں بنایا پھر انہیں دو حصوں میں الگ کیا ۔ مرد شوہر بن گیا اور عورت بیوی یعنی ابتداء میں مرد اور عورت ایک ہی جسم تھے۔ پھر ازدواجی تعلقات پیدا ہوئے جن کے نتیجےمیں مخلوق پیدا ہوئی۔ پھر اس نےخیال کیا کہ ایک روح سے پیدا ہوتے ہوئے ازدواجی تعلقات کو قائم کرنا غلط بات ہے۔ اس لیے خود کو چھپا لیا اور گائے بن گئی۔ اس کا خاوند بیل بن گیا پھر صحبت سے گائے اور بیل پیدا ہوئے پھر وہ گھوڑی بن گئی اور وہ گھوڑا اور ان کے اختلاط سے گھوڑے پیدا ہوئے اسی طرح تمام زندہ مخلوق پیدا ہوئی یہاں تک کے تمام کیڑے مکوڑوں کی بھی ایسے پیدائش ہوئی۔"8
یہ عقیدہ یا سوچ انسانی تذلیل کے لیے کافی ہے۔
موازنہ:
اللہ تعالیٰ جو کائنات ارضی کا خالق ومالک ہے۔ رب تعالیٰ نے اپنی مملکت میں حضرت انسان کو اپنا خلیفہ بنایا۔ اسلام کہتا ہے کہ انسان رب تعالیٰ کی خصوصی تخلیق ہے اسے بہترین صورت میں پیدا کیا، بلکہ اس میں اپنی روح پھونکی۔ جیسا کہ قرآن میں ہے کہ پس جب میں اسے پوری طرح بنا دو اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اسے سجدہ کرنا۔ یعنی آدم کو تعظیمی سجدہ کروایا انسانی عظمت کو وقار کی دولت بخشی ۔
جب کہ اس کے برعکس ہندو مذہب کے مطابق روح حوا کی تھی وہ تنہائی میں ڈر گئی توپھر اس کی دلجوئی کی خاطر ایک مرد کو اس کے لیے پیدا کیایعنی ایک جسم سے مرد اور عورت پیدا ہوئے ۔ جب کہ قرآن اس کے بارے میں ہماری رہنمائی ایسے کرتا ہے ارشاد باری تعالیٰ جس کا مفہوم ہے کہ"اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بےشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔"
اسلام کی نظر میں بطور انسان کسی کو بھی کسی پر فضلیت حاصل نہیں ہے ۔
جب کہ ہندو مذہب میں ذات پات کا ایک طبقاتی نظام قائم ہے، جس میں اعلیٰ اور ادنیٰ کا معیار قائم ہے۔
اسلام نے عزت و قاراور بہتر ہونے کی وجہ تقوی کو قرار دیا ہے ۔
ہندو مذہب میں عزت وقاراس شخص کے حصے میں آتا ہے جو برہمن کے ہاں پیدا ہو۔ جب کہ شودر کے ہاں پیدا ہونا ہی ذلت و رسوائی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
اسلام میں مساوات کا درس:
اسلام نے تمام انسانوں کو برابر حقوق عطا کیے ہیں اور اس میں نسب، ذات، رنگ، قومیت، زبان، عقیدے اور وطن کی کوئی تمیز نہیں رکھی۔ اسلام مساوات کا درس دیتا ہے۔اسلام نےاس بات کوواضح کیاہےکہ سب انسان،انسان ہونےکی حیثیت سےبرابرہیں۔کیونکہ ان کاباپ آدم ، اورماں حوا ہیں اوران کوایک ہی جان سےوجودملا۔ اگرانسانوں میں کسی لحاظ سےکچھ فرق کیاجاسکتاہےتووہ اطاعت ونافرمانی،تقویٰ اورغیرتقویٰ کی بنیادپرفرق ہوسکتاہےاس کےعلاوہ انسان ہونےکےناطےتمام انسان برابرہیں۔ حضورﷺ کےعطا کردہ انسانی حقوق کےتصورنےعرب معاشرےکومساوات کی ایسی انقلاب آفریں تعلیم دی جس نےنسلی وقبائلی برتری کےتمام بتوں کو پاش پاش کر دیا ۔ اوریہ انسانی مساوات ہمیں اسلامی زندگی کے ہرہرگوشےمیں نظرآتی ہے۔ارشادربانی ہے:
"وَلِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ"9
"اور ہر ایک کے لیے ان کے اعمال سے درجات ہیں اور تیرا رب ان کے اعمال سے بے خبر نہیں ۔"
مزید اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"وَ لِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْاۚوَ لِیُوَفِّیَهُمْ اَعْمَالَهُمْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ"10
"اور سب کے لیے ان کے اعمال کے سبب درجات ہیں اور تاکہ اللہ انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دے اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔"
انسانوں میں برابری کایہ تصوراسلام کا ہی عطا کردہ ہے ۔ بیت المقدس کے عیسائیوں نے جب مصالحت پر آمادگی کو ظاہر کیا اور اپنے اطمینان قلب کے لیے یہ خواہش ظاہر کی کہ امیر المومنین خود یہاں آکر اپنے ہاتھ سے معاہدہ لکھیں۔ جب یہ خبر حضرت عمر ؓ کو دی گئی،تو آپ نے اکابر صحابہ ؓ سے مشورہ کیا اوررجب 16ھ کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ حضرت عمرؓ کا یہ سفر نہایت سادگی سے شروع ہوا،اور تاریخ انسانی میں مساوات کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کیا گیا جو صر ف اور صرف اسلام کا ہی خاصہ ہے کہ جب ایک وسیع سلطنت کا امیر المومنین فاتح کی حیثیت سے بیت المقدس میں داخل ہوتا ہے تو اپنے غلام کے اونٹ کی مہار کو تھامے ہو ئے پیدل بیت المقدس کی سرزمین میں داخل ہوتا ہے اورانسانی تاریخ میں مساوات و برابری کا ایک نیا باب رقم کرتا ہے ۔ خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہؓ کے اجتماع سے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
"کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ۔ "11
یہ تو تھا اسلام کے تصور مساوات کا مختصر سا جائزہ جس سے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام اونچ نیچ، اعلیٰ و ادنی کے تصور کا قائل نہیں فوقیت کا معیار خوف خدا اور سوائے تقویٰ کے کچھ نہیں۔
ہندومذہب میں مساوات:
ہندو مذہب ذات پات کی طبقاتی تقسیم پر مشتمل مذہب ہے جس میں مساوات کا قائم رکھنا یا مساوات کو اس معاشرے میں رائج کرنا ایک ناممکن امر ہے، جب تک اس نظام میں ذات پات کا تصور موجود ہے۔ وید کے مطابق ہندو مذہب نے انسان کوچار ذاتوں پرتقسیم کر دیا ہے :
۱۔برہمن ۲۔کشتری ۳۔ویش ۴۔ شودر
جن میں سے برہمن سب سے زیادہ معزز ذات سمجھی جاتی ہے اور شودر ذات والوں کو سب سے گھٹیا ذات سمجھی جاتی ہے گویا ہندومت میں ذات پات کی تفریق ہی عزت اور ذلت کا معیار قائم کرتی ہے۔ ہندو تہذیب میں پیوست اس طبقاتی نظام کے متعلق تمام ہندو متون مقدسہ میں سب مقامات پر تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ دنیا کی آبادی کے لیے اپنے منہ سے اور اپنے بازوؤں سے اور اپنی رانوں سے اور پیروں سے برہمن کو، کشتری کو، ویش کو اور شودر کو پیدا کیا ہے۔یعنی کہ ہندو مذہب میں مساوات کے تصور کو ذات پات کے نظام نے منفی کردیا ہے۔اسی طرح ایک اور جگہ ذات پات کےاسی طبقاتی نظام کو بیان کیا گیا ہےکہ برہمنوں کی پیدائش پرتن کے دماغ ہوئی ، کشتری کی پیدائش اس کے بازوؤں سے، ویش کا جنم اس کی رانوں سے اور اس کے پاؤں سے شودرکا جنم ہوا ۔ اس طرح ہندو مذہب میں طبقاتی نظام کا سلسلہ جو شروع سے ہی موجود ہے اس تقسیم کو ختم کرنا ناممکن ہے ۔
ان چاروں ذاتوں میں شودر کو نیچ تصور کیا گیا ہے۔ اسے حیوان سے بھی بدترین مخلوق تصور کیا گیا ہے۔ جبکہ برہمن کو اس قدر مرعات بخشی گئیں ہیں کہ چاہے وہ گناہ کرے، زنا کرے، کچھ بھی حرام کرے اسے سزا نہیں ملنی چاہیے۔ وہ ہر چیز کا مالک ہے۔
موازنہ:
اسلام مساوات کا درس دیتا ہے جیسا کہ"ہر ایک کے لیے اس کے عمل کا مطابق درجے ہیں"اور مزید قرآن کہتا ہے کہ"ہم نے قبائل پہچان کے لیے بنائے ہیں" اور مزید نبی کریمﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع بھی مساوات کا درس دیتا ہے ۔جس میں فرمایا:" کسی عربی کوکسی عجمی پر،کسی عجمی کوکسی عربی پر،کسی سرخ رنگ والےکوکالےرنگ والےپراورکسی سیاہ رنگ والےکوسرخ رنگ والےپرکوئی فضیلت وبرتری حاصل نہیں، مگرتقویٰ کےساتھ"۔یعنی ایساشخص جس کوکم درجہ کاتصورکیاجاتاہے وہ بھی تقوی اورپرہیزگاری کی وجہ سےوہ عزت وتو قیر حاصل کرسکتاہے۔
اگر ہم ہندو مذہب کی بات کریں تو ہندو مذہب میں قائم ذات پات کے طبقاتی نظام اور مساوات نے ہی اس تصور کو الٹ کر دیا ہے، جس میں ایک طرف صرف برہمن کے ہاں پیداہونے کو سب سے اعلیٰ تصور کیا جاتاہے اور شودر کو سب سے نیچ ذات تصورکیا جاتا ہے جس کا محض کام ہی سب کی خدمت کرنا ہے۔ اسلام نے ذاتوں اور قبیلوں کا مقصد صرف اور صرف ایک دوسرے کی پہچان اور تعارف بتایا ہے، لیکن ہندومت میں اعلیٰ اور ادنیٰ کا معیارہی ذاتوں کی بدولت ہے۔جس کی ذات اعلیٰ ہے وہ اعلیٰ ہی تصور کیا جائے گا اگرچہ اس میں کتنی ہی خامیاں کیوں نہ ہوں ۔ اور جو کم ذات ہے وہ کم ذات ہی تصور کیا جائےگا اگرچہ اس میں کتنی خوبیاں پائی جائیں ۔
اسلام میں انسانی جان قربانی کی ممانعت:
اسلام دین فطرت ہے اور فطرت انسانی کے تمام تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہے ۔ معاشرہ انسان نفوس کے وجود کی ہی بنا پر وجود میں آتا ہے اس لیے حیات انسانی کی حفاظت جو کسی بھی معاشرے کے قیام کی بنیادی ضرورت ہے۔ اسلام نے حیات انسانی کو اولیت دیتے ہوئے ہر انسان کی جان کو محترم قرار دیا ہے۔اور زندہ رہنا ہر انسان کابنیادی حق ہے۔ دوسروں کو زندہ رہنے دینا اس کا فرض ہے۔اسلام نے تو زندگی کو بچانے کی خاطر حالت اضطراری میں جان بچانے کی خاطر حرام کردہ چیز سے بھی جان بچانے کا حکم دیا ہے ۔ اگرچہ اسلام نے اس چیز کو حرام قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود انسانی جان کو بچانے کی خاطر اسے بھی حالت مجبوری میں اس کی بھی اجازت دی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ شرک باللہ اور ماں باپ کی نافرمانی ہے اور کسی جان کا ناحق قتل ہے۔ ارشاد باریٰ تعالیٰ ہے کہ
"مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَاقَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَمَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا"12
"جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک جان کو (قتل سے بچا کر) زندہ رکھا اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا۔"
ایک انسان کاجان بوجھ کر قتل کر دینا گویا تمام انسانیت کوقتل کرنا ہے۔ انسان کی جان کی قدروقیمت کا اندازہ نبی کریمﷺ کی اس حدیث سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نزدیک مومن کے جسم وجان اور عزت وآبرو کی اہمیت بیت اللہ سے بھی زیادہ ہے۔اس کے علاوہ بھی بہت سی آیات اور احادیث سے انسانی جان کی حرمت کے بارے میں راہنمائی ملتی ہے ، جو انسانی جان و عزت کی اہمیت پر دلالت کرتی ہیں۔
ہندو مذہب میں انسانی جان کی قربانی:
"ہندومذہب میں قربانی کی رسم کو"یگیہ"کی رسم بھی کہا جاتا ہے۔"13یہ رسم بہت پرانی ہے۔ اس رسم کے تحت نہ صرف جانوروں بلکہ انسانوں کو بھی دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے قربان کیا جاتا تھا۔ اس قدیم رسم کے متعلق معروف مورخ اے ایل ہاشم لکھتے ہیں:
"خفیہ رسوم کی ادائیگی کے موقع پر انسانی قربانی کے لیے لڑکیوں کے اغوا کے واقعات ملتے ہیں ہمیں دُرگا کے مندر کے متعلق بھی معلوم ہے کہ جہاں روزانہ ایک انسان کو بھینٹ چڑھایا جاتا تھا۔"14
اس طرح تقسیم برصغیر سے اب تک سینکڑوں مسلمانوں کے خون سے ہولی منائی گئی، جیسا کہ ذیل کے واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے:
"بھارت میں ہندومسلم کے ساتھ گزشتہ۵۰سالوں میں ہندو بلوائیوں نے منظم حکمت عملی کے تحت ۲۵ ہزار مرتبہ مسلمانوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی۔ بشارت میں چھپنے والی رپورٹوں کے مطابق ان ہولیوں میں تقریباً اڑھائی لاکھ بے گناہ مسلمان مارے گئے۔ نصف صدی کے فسادات میں محتاط اندازے کے مطابق ۳۵ ارب روپے کی مسلم املاک کو لوٹا اور برباد کیا گیا ۔"15
"اس کے علاوہ ہندوؤں میں ایک اور رسم ادا کی جاتی تھی جسے ستی کی رسم کہتے تھے۔"16اس رسم کے مطابق شوہر کے فوت ہو جانے کے بعد بیوی اپنے شوہر کی میت کے ساتھ اس کی چتا میں مل کر خودسوزی کرکے مر جاتی تھی۔ ہندو عقیدے کے مطابق وہ اس طرح اپنے شوہر کے ساتھ وفا کرتی تھی۔ لہٰذا عورت شوہر کی چتا پر جل کر مر جاتی ہے وہ پاکباز اور باعفت سمجھی جاتی ہے۔
موازانہ:
اسلام ہر انسان کی جان کو محترم قرار دیتا ہے۔ ارشاد باری ہے: "جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک جان کو (قتل سے بچا کر) زندہ رکھا اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا۔"اس کے علاوہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نزدیک مومن کے جسم وجان اور عزت وآبرو کی اہمیت کعبۃ اللہ سے بھی زیادہ ہے۔اسلام نےتو ایک انسان کے قتل کو تمام انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ اسلام انسانی جان کے اور انسانی قربانی کے خلاف ہے۔
جب کہ ہندومذہب میں انسانی قربانی کا تصور بہت قدیم ہے ۔ہندو اپنے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیےانسانی قربانی کو بھی جائز تصور کرتے ہیں ۔ خاوند کے مرنے کے بعد اس کی بیوی سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیاجاتااور پھر اس فعل کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور اگر کوئی عورت ایسے نہیں کرتی تو معاشرے میں ذلت و رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ۔ ہندو مذہب میں انسانوں کی قربانی کی اس رسم سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے ہاں انسانی جان کی قدرومنزلت کیا ہے؟
اسلام کی دشمنوں کے ساتھ سلوک کرنے کی تعلیمات:
اسلام امن کا دعی ہے اور اس نے ہر موقع پر امن کا ہی پیغام دیا ہے ۔ امن ہو یا جنگ اسلام نے ہر حالت میں اپنے مخالفین کے ساتھ بہتر ین رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ انسانیت کو جو درس اسلام نے دیا وہ سب کے سامنے ہے۔ عین جنگ کی حالت میں بھی مساوات کادامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے دیا۔ نبی کریمﷺجب مجاہدین کو روانہ کرتے تو اس وقت انسانی اقدار سے متعلق باقاعدہ ہدایات دی جاتی تھیں۔ چنانچہ آپﷺ سپہ سالار اور فوج کو خوف خدا کی نصیحت کرتے۔کمزرو اورناتواں سے درگزر حتی کہ سایہ دار شجر کو بھی ضائع کرنے منع کرتے ۔ ارشاد ہے کہ
"اغزوا بسم اللہ وفي سبیل اللہ، فقاتلوامن کفر بالله، ولا تغدروا ولا تغلوا ولا تمثلوا ولا تقتلوا ولیدًا"17
"جاؤ اللہ کا نام لے کر اور اللہ کی راہ میں لڑو ان لوگوں سے جو اللہ سے کفر کرتے ہیں مگر جنگ میں کسی سے بدعہدی نہ کرو غنیمت میں خیانت نہ کرو مثلہ نہ کرو اور کسی بچے کو قتل نہ کرو۔"
اسی طرح قرآن میں اللہ ارشاد فرماتا ہے کہ
"وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِه"18
" اور اگر تم (کسی کو)سزا دینے لگو تو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہو ۔"
اسلام امن و سلامتی کا داعی ہے اور کسی بھی جاندارکو تکلیف دینا جائز قرار نہیں دیتا۔ اس آیت کریمہ میں بھی انسان کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے اگرچہ انسان حالت جنگ میں بھی مر جائے تب بھی اس عظمت کا خیال رکھا ہے اور اس کا مثلہ کرنے سے منع کردیا ہے ۔ اسلام ہر حال میں امن وامان کو ترجیح دیتا ہے۔ اس لیے اسلام نے اپنے دشمن کی صلح کی پیش کش کوقبول کرنے کا حکم دیا ہے خواہ وہ دشمن کیسا بھی ہو ۔اسلام صرف کا حکم ہی نہیں دیتا بلکہ پیغمبر اسلام ﷺ اور صحابہ کرام کی زندگی میں اس کے عملی نمونے بھی ملتے ہیں ۔
ہندو مذہب کی تعلیمات دشمنوں کے بارے:
ہندودھرم مخالفین کے ساتھ سخت رویہ رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ سوامی دیانند بانی آریہ سماج یجروید کی تعلیمات کی روشنی میں مخالفین کے بارے میں لکھتا ہے کہ ان کے ساتھ سخت سلوک کیا جائے اس نے خود بھی ایسا ہی کیا۔ مندرجہ ذیل اقتباسات سے ہندومت کا تشدد پسند ہونا ثابت ہوتا ہے۔
"دھرم کے مخالفین کو زندہ آگ میں جلادو۔"19
"دشمنوں کے کھیتوں کو اجاڑو یعنی بیل، بکری اور لوگوں کو بھوکا مار کر ہلاک کردو۔"20
"اپنے مخالفوں کو درندوں سے پھڑوا دو۔"21
"مخالفوں کا جوڑ جوڑ اور بند بند کاٹ دیا جائے۔"22
"اے اندر دیوتا ہمارا دیا ہوا سوم رس تجھے خوش اور متوالا کرے تو ہمیں دھن، دولت دے اور وید کے دشموں کو تباہ اور ہلاک کر۔"23
ان اقتباسات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندو دھرم ایک شدت پسند دھرم ہے جو کہ اپنے مخالفین کے ساتھ انتہائی شدت پسند رویہ اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔
موازنہ :
انسانیت کے احترام میں اسلام نے ہر شہری کو ایک جیسا مقام و مرتبہ بخشا ہے۔ لیکن سیاسی حقوق کی بنا پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان جو فرق اور تخصیص موجودہے، یہ فرق بھی ذمہ داریوں کہ وجہ سے، اس کے علاوہ بنیادی حقوق میں تو سب ہی یکساں ہیں۔ اس بات کا اندازہ نبی کریمﷺ کے فرامین سےبا آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ آپﷺ کے ارشادات عالیہ اسے اس بات کااندازہ ہوتا ہے کہ آپﷺ نے ایک مصلح کے طور پر نہ صرف مسلمان کے حقوق کو واضح کیا بلکہ غیر مسلموں کے حقوق کا بھی اتنا ہی خیال رکھا ہے جتنا کہ مسلمانوں کے حقوق کا خیال کیا ہے۔اس کی واضح مثال ہم کوآپﷺ کے آخری خطبہ حجۃ الوداع سے بھی لگاجاسکتا ہے ۔ اس خطبہ میں تمام انسانوں کو برابری کا درجہ عطا کی گیا ہے۔ اگر کسی کو فضیلت کا مقام دیا تو وہ بھی تقویٰ کی بنیاد پر بخشاہے۔ آپﷺ اس خطبہ میں ہر ایک کے حقوق کو واضح کر دیا ہے ، ان میں عورتوں ، ہمسایوں کے حقوق کا خیال کرنے کا فرمایا،اورسب سے بڑھ جو طبقہ سب سے زیادہ کمزور سمجھا جاتا تھا وہ غلام تھے تو خاص طور پراس خطبہ میں غلاموں کے حقوق کی بات فرمایا ان (غلاموں)کے بارےمعاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی رہنمائی کی ہے ۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو ہدایت دیتا ہے اللہ کی راہ میں اس سے لڑو جو اللہ سے کفر کرتے ہیں، نہ بدعہدی کرو، نہ خیانت کرو، نہ فصلوں کو خراب کرو،نہ ہی سائے شجردار کوختم کرو، نہ لاشوں کی بے حرمتی کرویعنی مثلہ نہ کرو اور نہ بچوں کو،نہ بوڑھوں کو،نہ عورتوں کو قتل کرو اور نہ ہی ان کو جو تمہارے خلا ف ہتھیار اٹھائیں چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔
جب کہ ہندو دھرم نہایت شدت پسند رویہ رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ ہندو دھرم اپنے دشمنوں کو آگ میں زندہ جلانے ، کھیتوں، جانوروں کو تباہ کرنے کا حکم دیتا ہے ، اور اس کے علاوہ درندوں کے آگے ڈالنے کو بھی کوئی معیوب بات نہیں سمجھتا،انسان کا مثلہ کرنے کی تعلیم دیتا ہےاور یہاں تک کہ انسان کے جوڑ جوڑ کاٹ ڈالو۔دشمنوں کو بتاہ وبرباد کرنے کو دیوتاؤں کی خوشی کا سبب قرار دیتا ہے ۔
اسلام میں بندگی:
اسلام بندگی کا درس دیتا ہے۔ عرف عام میں بندگی سے مراد عبادات، آداب تسلیم یا غلام کے ہیں۔ بندگی سے مراد وہ عبادت وریاضت ہے، جس پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنا مقصد حیات یعنی اللہ کی معرفت حاصل کر لیتا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے:
"وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ"24
"اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔"
یعنی اللہ نے ہمیں تخلیق کرنے کا مقصد بیان کر دیا ہے کہ میری عبادت کرنی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بندگی کیا ہے؟ نماز، روزہ، تسبیح، نوافل، صدقات کا نام بندگی ہے تو اس کے لیے فرشتے کافی تھے جیسا کہ
"اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ o وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ"25
"سورج، چاند مقررہ حساب سے چل رہے ہیں اور سبزے اور درخت سجدہ کررہے ہیں۔"
ان آیات میں دو عظیم نعمتوں کا ذکر کر ان سے حاصل ہونے والے فائدوں کو بیا ن کیا گیا ہے ۔ ان کے آپس میں تعلق کو بھی بیان کیا ہے کہ ایک کا تعلق دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ اس سےیہ بھی ظاہر ہوا کہ تمام کائنات اور مخلوقات اللہ کی پاکی بیان کررہی ہے۔ بندگی کا اصل توحید کا ربانی اور عملی اظہار ہے۔ جنہیں اللہ کی ذات کے علاوہ اپنے دل سے ہر دوسری چیز نفسانی خواہشات، لالچ، طمع، حرس، غرور، تکبر، جھوٹ نکال دینے کا نام توحید ہے۔
دین اسلام کے مطابق آخرت کی کامیابی اور نجات کے دو طریقے ہیں۔۱)ایمان،۲)عمل اور عبادات کی دو قسمیں ہیں بدنی اور مالی ان دنوں کی ادائیگی کا نام بندگی ہے۔ بندگی کی ایک قسم سز وجزا کا تصور بہت اہمیت رکھتا ہے۔قرآن میں ہے کہ
"لِیَجْزِیَ اللّٰهُ كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ"26
"تاکہ اللہ ہر شخص کو ان اعمال کا بدلہ دے جو اس نے کما رکھے ہیں۔ بے شک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔"
مزید ارشاد ہوتا ہے:
"كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ رَهِیْنَةٌۙ"27
"ہرشخص کوان کا بدلہ جو اس نے کما رکھے ہیں۔"
اس آیت میں انسانوں اور جنوں کے اعمال کی بنا پر جنت اور جہنم کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا ۔ یعنی انسان کو دنیا میں اعمال کے بدلے میں آخرت میں اس کا بدلہ دیاجائے گا۔ بندگی ہی کی ایک قسم نکاح ہے۔ اسلام نے مرد وعورت کے تعلق کو نکاح کی صورت میں حلال قرار دیا ہے۔ارشاد ہوتا ہے:
"سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا"28
"پاک ہے وہ ذات جس نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کیے ہیں۔"
اس آیت میں مردو زن کے زوجین (جوڑے ) کی اقسام کو بیان کیا ہے اس میں بتایا ہےکہ اللہ تعالیٰ کسی بھی شریک اور عیب سے مبرا ہے۔ جانداروں میں جوڑے (مذکر و مؤنث ) کا بھی ذکر کیا ہے ۔ اسلام نے نکاح کو حلال اور اس کے علاوہ کسی بھی قسم کے تعلق کو حرام قرار دیا ہے۔ نکاح کے علاوہ زنا قرار دیا ہے، جس کی سزا دنیا اور آخرت دونوں میں ہے۔
ہندو مذہب میں عدم بندگی:
اسلام کے برعکس ہندو مذہب کسی ایک عقیدہ پر مبنی نہیں ہے،بہت سارےعقائد کا مجموعہ ہے۔ لیکن پھر بھی اس کی مذہبی کتابوں میں عقیدہ توحید اور دین حق کی نشانیاں واضح طور پر پائی جاتیں ہیں۔ ہندو مذہب میں بھی ایک خدا کا تصور بالکل اسی طرح موجود ہے جس طرح اسلام نے ایک خدا کے تصور کو پیش کیا ہے۔جیساکہ
"ایک ہی ایسا ہے جس کی عبادت اور پرستش کی جائے جو ایک الٰہ ہے، مالک ہے، اس کے سوا کوئی پوجا کے عبادت کے لائق نہیں ہے اور کبھی نہیں۔"29
اسی طرح
"اے برہما کی رچنا کرنے والے سب سے عظیم خدا تو میرا صحیح مارگ دوشن کر ایسا مارگ دوشن کر میں جنت کی طرف آجاؤں اور گھمنڈ کپٹ جھل ان چیزوں سے محبت دور رکھ۔ اے ایشور میں تیری پراتھنا اور تیری ارچنا اور تیرا چرن کرتا ہوں۔"30
"وہ تمام جاندار اور بے جان دنیا کا بڑی شان وشوکت کے ساتھ اکیلا حکمران ہے وہ انسانوں اور جانوروں کا رب ہے ہم کس کی حمد کرتے ہیں اور نذرانے چڑھاتے ہیں۔"31
"اے انسانوں اپنے ایشور کو پہچانوکیونکہ وہ ایک ایشور تمہارا پیدا کرنے والا ہے۔ اس ایشور نے تمہیں ہوا دیا، اگنی دیا، دھرتی دیا، آسمان دیا، جل دیا، تم اپنے ایشور کو پہچانو جس نے تمہیں اتنے انعامات دیئے۔ اے انسانوں اگر تم مجھے نہیں پہچانو گے تو بہت گمراہی میں ہو گے۔"32
ان اقتباسات سے صاف ظاہر ہو رہا ہے، عقیدہ واحدانیت پر ہندو یقین رکھتے ہیں لیکن اس کےعلاوہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اوروں کو بھی شریک مانتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بندگی کے لیے باقی تعلیمات ہیں۔ مثلاً ہندو مذہب میں نجات کے تین طریقے ہیں، علم عمل، ریاضت جن کو پورا کرکے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔
"اسی طرح ہندو مذہب کے عقائد میں آواگون کا عقیدہ شامل ہے۔ جس کے مطابق ہر انسان ایک مرتبہ مرنے کے بعد دوبارہ جنم لے گا۔"33
اسی طرح ایک عقیدہ نیوگ ہے جس میں ایک عورت بیوہ ہونے کی صورت میں یا اولاد نہ ہونے کی صورت میں دوسرے مرد سے ازدواجی تعلقات قائم کر سکتی ہے۔ اس کے ذریعے دس تک بچے پیدا کرنے کی اجازت ہے۔ ہندو مذہب میں عمل بازم کا نظریہ بھی اہمیت رکھتا ہے، یعنی جو وہ عمل کرتا ہے دوسرے جنم میں وہی کاٹتا ہے۔
موازنہ:
اسلام واحدانیت کا درس دیتا ہے اور تمام مسلمان اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کی گواہی دیتے ہیں اور اسی کی عبادت کرتے ہیں۔
ہندو مذہب میں بھی واحدانیت کا تصور پایا جاتا ہےلیکن اس کو عملی طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔
اسلام آخروی کامیابی کے لیے اللہ کے احکامات حقوق العباد اور حقوق اللہ کی ادائیگی پر زور دیتا ہے۔
ہندو مذہب میں نجات کے تین طریقے ہیں: علم، عمل اور ریاضت۔
اسلام کے مطابق زندگی ایک ہی ہے مرنے کے بعد دوبارہ اس دنیا میں جنم نہیں ہوگا۔ البتہ یوم حشر کو تمام انسانوں کو زندہ کیا جائے گا، انسان کی دنیاوی زندگی کی جواب دہی ہوگی اور پھر اس کے لئے سزاوجزا کا فیصلہ ہو گا۔
ہندوؤں میں آواگون کا عقیدہ پایا جاتا ہے، جس کے مطابق ہر انسان مرنے کے بعد دوبارہ جنم لے گا۔ اور پھر اگر یہ روح پاکیزہ ہے تو نیک قالب کا روپ دھار لیتی ہے اور اگر بر ی روح ہو گی تو پھر وہ برے قالب کی تلاش میں رہے گی ۔
اسلام نے عورت کو نکاح کا حکم دیا اس کے بغیر مردوعورت کا تعلق گناہ اور حرام ہے، جس کی سزا دنیا اور آخرت میں ہے۔
ہندوؤں میں عقیدہ بنوگ پایا جاتا ہے، جس کے مطابق اگر کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے یا اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو تو وہ کسی غیر مرد سے اولاد پیدا کر سکتی ہے۔
احترام انسانیت وہ صفت اور خوبی ہے جس سے انسانیت کا دوام وابستہ ہے۔ اگر ہم یوں کہیں کہ احترام انسانیت دنیا میں بسنے والوں کا مشترکہ ورثہ ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ ایک دوسرے کا احترام مذہب اقوام کی ترقی کا نام ہے انسانیت کی ترقی اور انسانیت کی عظمت واحترام کا حکم دیا ہے۔ قران کریم میں ارشاد ہوتا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے نبی آدم کو معظم اور قابل احترام اور لائق بنایا ہے۔ اس لیے سبھی انسان برابر ہیں کسی کو فوقیت حاصل نہیں سوائے تقویٰ کے۔ جب کہ ہندومذہب میں اس معاملے میں دوہرا معیار پایا جاتا ہے کہ ایک طرف تو ہندو دھرم انسانیت کا درس دیتا ہے اور انسانیت کو اپنا مذہب ماننا ہے، لیکن اس کی مذہبی کتابیں ذات پات کی تقسیم کا درس دیتی ہیں، جس کے مطابق اعلیٰ اور ادنیٰ کا معیار ہے اور اعلیٰ کے لیے پیشےبھی اعلیٰ خود ہی نافذ کر دیئے۔ ادنیٰ کے لیے صرف خدمت گار کا کام ہے۔
اسلام میں جان کا تحفظ:
احترام انسانیت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ انسانی جان کو تحفظ فراہم کیا جائے اور اسے جسمانی حوالے سے جزوییا کلی طور پر کسی طرح بھی نقصان اور ضرر نہ پہنچایا جائے، چونکہ جزوی طور پر (زخم کی صورت) یا کلی طور پر ایک انسانی جان کو نقصان پہنچانا احترام انسانیت کے کس قدر منافی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک انسان کے قتل کو کل انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ
"وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّابِالْحَقِّ"34
" اور جس جان کی اللہ نے حرمت رکھی ہے اسے ناحق قتل نہ کرو۔ "
انسانی جان کو جتنی عزت اسلام نے بخشی اس قدر کسی بھی مذہب میں عزت نہیں دی گئی ۔ اسلام نے تو کسی انسان کے بےجاقتل کو گناہ کبیرہ کہا ہے ۔ اگر کسی جان کو قتل کرنے کی اجازت ہے تو اس کی بھی بعض صورتیں ہیں جن میں سے ایک قصاص ہے ۔ قصاص میں بھی عام اجازت نہیں دی بلکہ اس میں بھی کئی باتوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے ۔لیکن افسوس کہ آج کا انسان ان حدود سے تجاوز کر رہاہے اورایک دوسرے کی جانوں کو ضائع کر رہا ہے ۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ
"وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ مِنْ اِمْلَاق"35
" اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد قتل نہ کرو۔"
اسلام نے دور جاہلیت کے رسم ورواج کی بھی بیخ کنی کی ہے ۔ان میں ایک رسم یہ بھی تھی کہ لوگ اپنی اولاد کو بھوک کی وجہ مار دیتے تھے اس کو بھی ختم کیا گیا اور اس آیت میں بتایا ہے کہ نہ تم ان کو کچھ دیتے ہو بلکہ تم کو بھی اللہ ہی رزق دیتا ہے تو تم ان کی جان کو کیوں خت کرتے ہو۔
اسی نظریے کی تائید نبی کریمﷺ نے اپنے آخری خطبے میں ارشاد فرمایا کہ
"لوگوں تمہارے خون، مال اور عزتیں ایک دوسرے پر قطعاً حرام کر دی گئیں ہمیشہ کے لیے ان چیزوں کی حرمت ایسی ہی ہے جیسی آج تمہارے لیے اس دن کے بعد خبردار ایسا نہ ہو کہ تم میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو اور کفار میں شامل ہو جاؤ۔"36
قرآن وحدیث کی تعلیمات سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی جان کی کتنی زیادہ اہمیت اسلام کی نظر میں ہے۔ اسلام ایک دوسرے سے بھلائی ا ور خیرخواہی کا درس دیتا ہے۔
ہندومت میں جان کا تحفظ:
ہندودھرم جو کہ ذات پات کی تقسیم میں جکڑا ہوا دھرم ہے جس میں اعلیٰ اور ادنیٰ کا معیار قائم ہے۔ شودر ذات کو نیچ خیال کیا جاتا ہے، جس کی جان کی کوئی قدروقیمت نہیں جیسا کہ
"شودر کو قتل کرنے کی صورت میں بھی برہمن یہی عمل چھ ماہ کرے گا۔ وہ ایک برہمن کو دس سفید گائیں اور بیل بھی دے سکتا ہے۔ بلی، نیل کنٹھ، مینڈک، کتے، اُلو اور کوے کو مارنے کا کفارہ بھی شودر کے قتل کرنے کےکفارے جیسا ہے۔ "37
مطلب یہ ہے سودر کی جان کی کوئی اہمیت ہی نہیں اسے جانوروں سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہندو مذہب میں جانوروں کے علاوہ انسانوں کو بھی اپنے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے قربان کیا جاتا رہا ہے، لیکن اب اس پر حکومت نے پابندی لگائی ہے، لیکن پھر بھی کٹر مذہب پرست ہندو چوری چھپے انسان کی قربانی کررہے ہیں۔
موازنہ:
دنیاوی اعتبار سےبہتر اس شخص کو جانا جاتا ہے، جو دوسرے انسانوں کا احترام کرے گا ۔ رب ذوالجلال کا پیغام بھی انسانیت تک حضرت انسان تک پہنچا ۔ انسان کا عزت و احترام یہ ہے کہ اس کی اچھی خوبیوں اور صلاحیتوں کی حفاظت کی جائے۔ اس کہ بہتر طریقے سے ان کی نشوونماکرنے کےلیےوہ تمام سہولتیں پہنچائیں جائیں جن سے اس کی خوبیوں حفاظت ہوجائے۔ خاص وعام کی کوئی اس میں بھی تفریق نہیں۔ پھر سوال یہ پیدا ہوگا کہ ہم انسانیت کا احترام کریں تو کیوں ؟ اس سوال ایک کا مختصر اورجامع جواب یہ ہے کہ انسان کائنات ارضی میں خدا کی عظیم الشان مخلوق ہے اور سب سے بڑھ کر زمین پر خدا کا خلیفہ ہے۔اسلام نے کسی بھی جان کو حقیر جاننے سے منع کیا ہے۔
اسلام نے ہر جان کو محترم ٹھہرایا ہے ۔اور جان کو بچانا فرض قرار دیا ہے اللہ کہتا ہے: رحمن کے بندے کسی جان کو نہ حق قتل نہیں کرتے اور نہ مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل کرتے۔ اسلام نے ایک دوسرے کی عزت جان ومال کی حفاظت کا درس دیا ہے ۔
جب کہ ہندو دھرم میں انسانی جان کی قدرومنزلت کا بھی ایک الگ ہی تصور ہے۔ جیسے کہ شودر کی جان کی کوئی اہمیت نہیں۔ برہمن جب چاہیں چھوٹی سی غلطی کی سزا موت کی صورت میں اسے دے سکتے ہیں۔ اس عمل پر پھر ان کو گناہ بھی کوئی نہیں ہوگا۔ اور تو اور ہندو دھرم میں تو دیوتاؤں کی خوشی حاصل کرنے کے لیےبھی انسانی قربانی کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔
اسلام میں اخلاقیات:
اخلاقیات ہی واحد ایسی چیز ہے جو انسان کو جانداروں سے ممتازکرتی ہے۔ اسلام نے ایمان اور اخلاق کو دو الگ الگ چیزیں کے طور پر پیش نہیں کیا بلکہ اسلام نے تو ایک مسلمان کی پہچان ہی اخلاق کو قرار دیاہے۔ اچھے اخلاق کا ہونا ہی مومن کی علامت قرار دیا گیا ہے، بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے مسلمان ہی وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں ،یہ ہو نہیں سکتا ایک مسلمان ایمان کا تو دعویٰ کرے، مگر وہ اخلاقیات سے عاری ہو۔ ہمارے پیارےنبی کریمﷺ کائنات میں اخلاق کا سب سے اعلیٰ نمونہ تھے، جس پر اللہ کریم کی کتاب”لاریب“ مہر تصدیق کررہی ہے۔ارشاد ہے کہ
"وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ"38
" اور بیشک تم یقینا عظیم اخلاق پر ہو ۔"
اسی طرح نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ میں اخلاق ِاعلیٰ کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ نبی کریم کا ارشاد ہے کہ
"أَکمل المؤمنین اَیْماناً أحسنِھم خُلْقًا"39
" سب سے زیادہ کامل ایمان والا مومن وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والا ہو ۔"
ان ارشادات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام اخلاقیات پر کتنا زور دیتاہے۔ انسانیت کا احترام اسی صورت ہو سکتا ہے جب لوگ اخلاق کی پاسداری کریں۔
ہندومت میں اخلاقیات:
یہ نہیں ہے کہ ہندو مذہب میں انسانی اخلاق کی تعلیم موجود نہیں ہے ۔ بلکہ ہندو مذہب میں بھی اخلاق کی تعلیم موجود ہے، اخلاق پر بات کرتے ہوئے اتھروید میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اخلاقی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر قسم کے غلط خواب وخیالات دیکھنے سے پرہیز کریں، کیونکہ غلط خواب اور غلط سوچ ہی انسان کو انسان کا دشمن بنا سکتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو مذہب غلط خواب و خیال سے محض اس لئے روکے کہ ان کی وجہ سے انسا ن ایک دوسرے کا دشمن بن سکتا ہے ، اس میں اخلاق کی تعلیم موجود نہ ہو۔ اسی وجہ سے غلط خواب اور غلط اعمال سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے اور ہر قسم کے غلط خیالات کو دشمن کی طرف منتقل کرنے کی دعا کی گئی ہے۔جیسا کہ
"We transfer every eve dream upon our enemy, as one repays a sixteenth, an eight, or a debt. "
اتھروید کی اس عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندومت اخلاقیات پر زور دیتا ہے۔
موازنہ:
انسان اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ سے انسان کو باقی تمام جانداروں سے افضل قرار دیا گیا ہے اور عقل کی بناء پر غیر معمولی صلاحیتوں اور خوبیوں کا حامل ہے۔ وہ نہ صرف خود کو ماحول کے موافق بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، بلکہ ضرورت پڑنے پر گردوپیش کو بھی اپنی سہولتوں کی خاطر تبدیل کرنے اور اس میں موافقت پیدا کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ انسان فطرتاً ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کو زیادہ پسندکرتاہے۔ اس کے علاوہ ضروریات زندگی کی تکمیل بھی اس کو گروہوں میں رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس لحاظ دیکھیں تو انسانی زندگی معاشرے کے ہر ایک فرد سے جڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے فرد اور معاشرہ ایک ہی اکائی ہیں، ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم بھی ہیں۔اخلاق عالیہ کی وجہ سے ان کو فوقیت ملتی ہے۔
اسلام کی نظر میں اخلاق سب سے عمدہ عمل ہے اس سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ہے ۔ اسلام کہتا ہے کہ کامل مومن وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اعلیٰ ہے۔ اسلام نے اخلاق حسنہ پر بہت زور دیا ہے ۔نبی کریم ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد بھی اخلاق کی تکمیل کو قرار دیا ہے ۔
جب کہ ہندو مذہب کہتا ہے کہ جب تک انسان اپنے نفس کی اصلاح نہیں کرتا تب تک وہ اخلاق کے اعلیٰ درجے پر نہیں پہنچ سکتا۔ہندو مذہب میں غلط تصورات کو انسان کا سب سے بڑا دشمن کہا گیا ہے ۔ انہیں غلط تصور و خیالات کی وجہ سے انسان کو ایک دوسرے کا دشمن قراردیا جاتا ہے۔
اسلام میں عدل وانصاف:
قرآن حکیم نے زندگی کے تمام معاملات کو عدل اور انصاف پر استوار کرنے کی تعلیم دے کر ہر شخص کو بے لاگ انصاف کے حصول کا حق عطا کر دیا ہے۔ قرآن حکیم کے نزول کا بنیادی مقصد ہی معاشرتی اور ریاستی معاملات کو عدل وانصاف پر استوار کرنا ہے، تاکہ اسلامی معاشرے کا کوئی فرد ظلم اور استحصال کا شکار نہ ہو۔ ارشاد ربانی ہے کہ
"اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْابِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِه اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا"40
"بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں ان کے سپرد کرو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو بیشک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ سننے والا ،دیکھنے والا ہے۔"
اسی طرح ایک دوسری جگہ فرمایا:
"اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى"41
"بیشک اللہ عدل اور احسان اور رشتے داروں کو دینے کا حکم فرماتا ہے۔"
ان قرآنی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عدل وانصاف قائم کرنے کا حکم دیا ہے، تاکہ کسی کے حقوق کی حق تلفی نہ ہو جہاں عدل ہوگا وہاں معاشرے ترقی کرتے ہیں۔
ہندومت میں عدل وانصاف:
ہندومت کے مطابق بادشاہ اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ جو انصاف سے محروم ہوا انہیں انصاف فراہم کیا جائے۔”نریندر راضی“ کہتے ہیں کہ بادشاہ کو اس پر توجہ دینی چاہیے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے اور بڑے قاضی کی بھی رائے لینی چاہیے۔“ وہ عام مشاہدہ رکھتے ہیں کہ بادشاہ کو گواہان کی موجودگی میں فیصلہ کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے ایک سنجیدہ تشخیص ہے کہ گواہوں کی موجودگی کے باوجود فیصلے میں تاخیر انصاف کی فراہمی کو غلط ثابت کرتی ہے یا غلط بنا دیتی ہے، جبکہ منو کے قانون ذات پات کا نظام اس میں حائل ہوتا ہے۔ جس میں برہمن اگر کوئی جرم بھی کرتا ہے تو اسے سخت سزا دینے سے منع کیا گیا ہے۔
"سزائے موت کے عوض، برہمن کا صرف سرمونڈا جائے گا، لیکن ادنیٰ ذات کے لوگوں کو سزائے موت دی جائے گی، کسی برہمن نے خواہ کتنے ہی جرم کیوں نہ کیے ہوں،اس کے باوجود بھی اسے موت کی سزا نہیں دی جائے گی۔ بادشاہ یاتو اسے ملک بدر کر دے گا، یا اس کی جائیداد ضبط کرلے گا ، لیکن اس کے جسم پر ضرب تک نہیں لگائی جائے گی ۔ کیونکہ ہندومت میں برہمن کے قتل سے بڑا جرم کرہ ارض پر کوئی گنا ہ نہیں، چنانچہ بادشاہ کو برہمن کے قتل کا خیال بھی ذہن میں نہیں لانا چاہیے۔"42
اور اسی طرح مزید آتا ہے کہ
"برہمن کی ملکیت گائے چرانے، بانجھ گائے، نتھنی رسی،یا برہمن کی ملکیت دوسرے مویشی چرانے والے (مجرم) کا آدھا پاؤں کاٹ دینا چاہیے۔"43
ہندو دھرم اپنے آپ کو سیکولر سٹیٹ کہنے والا جس میں انصاف کا دوہرا معیار قائم ہے۔ اس نظام میں اعلیٰ طبقے کو ہلکی سزااور چھوٹے طبقے کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔
موازنہ:
اسلام کہتا ہے کہ امانتیں ان لوگوں کے سپرد کرو جو اس کے اہل ہیں یعنی اقتدار اہل لوگوں کے ہاتھوں میں دو لوگوں کے درمیان فیصلے عدل سے کرو۔ کسی کی بھی طرفدار سے منع کیا گیا ہے، حق تلفی سے منع کیا گیا ہے۔
جب کہ نریندر راضی کہتے ہیں کہ باشاہ کو قانون کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔ گواہان کی شاہد کے بعد انصاف سے فیصلہ کرنا چاہیے۔ فیصلے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، لیکن ذات پات کا نام عدل وانصاف میں حائل ہے۔ اونچ نیچ کا نظام حائل ہے، برہمن کو ہر جرم سے بری الذمہ قرار دیا گیا ہے۔ وہ چاہے شودر کا قتل بھی کر دے سزا نہیں پائے گا، جبکہ شودر اگر برہمن کی نشست پر بیٹھ بھی جائے اس کی پشت داغنے کا حکم ہے۔
مختصراً اگر ہم اسلام اور ہندومذہب میں سماجی اعتبار سے احترام انسانیت کا جائزہ لیں تو ہم یہ کہیں گے کہ اسلام ہر لحاظ سے بہتاعلیٰ اور مکمل دین ہے، جس نے اپنے ماننے والوں اور غیر مسلمانوں سب کے ساتھ احترام اور عدل وانصاف کا حکم دیتا ہے۔ اسلام میں امیر، غریب، سیاہ، سفید، اقتدار کوئی اہمیت نہیں رکھتا سوائے تقوی اور پرہیز گاری کے ہندومذہب احترام انسانیت کی بات تو بہت کرتا ہے، لیکن اس کو اپنانے میں ناکام ہے، جس کی وجہ ان کا طبقاتی نظام ہے، جس نے اس پورے معاشرے کو جکڑ رکھا ہے، جب تک اس طبقاتی نظام کی اصلاح نہیں ہو جاتی ہندو مذہب میں انسانیت کو وہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا جو اسلام نے دیا ہے۔
غیر مذاہب سے تعامل کے بارے میں رویہ
اسلام دنیامیں انسانیت کاعلمبردارہے۔ہرفردسےحسن سلوک کی تعلیم دینےوالےدین میں کوئی ایسااصول یاضابطہ روانہیں رکھاگیاجو شرف انسانیت کےخلاف ہو۔اسلامی ریاست اپنی اقلیتوں کوبھی ان تمام حقوق کامستحق قراردیتاہے،جن کی وجہ سے ایک مثالی معاشرہ قائم کیاجاسکتاہے۔ ذیل میں ہم اسلام کی تعلیمات کاخلاصہ پیش کرنےکی کوشش کریں گےوہ تعلیمات جواسلام نےغیرمسلموں کے حقوق کےبارےمیں دی ہیں۔
غیر مسلموں کےبارےمیں اسلامی تعلیمات :
اسلام کی نظرمیں اقلیتوں کو زندہ رہنےکےلئےبھی وہی حقوق ملنےچاہیں جومسلمانوں کوحاصل ہوتےہیں۔ ان تمام حقوق میں سےپہلاحق جوغیرمسلموں اورمسلمانوں دونوں کوحاصل ہے وہ حق،جان کی حفاظت ہےکہ جس طرح اسلام مسلمان کی جان کی حفاظت کوضروری سمجھتاہےبالکل اسی طرح اقلیتوں کی جان کی بھی حفاظت کرتاہے۔ جو انہیں ہرقسم کےخارجی اورداخلی ظلم وزیادتی کےخلاف میسرہو گا۔ تاکہ وہ مکمل طورپرامن وسکون کی زندگی گزارسکیں۔ نبیﷺ نےخطبہ حجۃالوداع کےموقع پرپوری نسل نوع انسانی کی عزت وآبرواور مال و جان کاتحفظ فراہم کرتےہوئے ارشادفرمایا:
"ان دمَاوکُم وَامواَلکم وَألحرافیکُم عَلیْکُم حَرَامَاَّء کَتَرمّۃ یَومِکُم ہذَا فِی شہِرکُم ہَذَا فِی بَلِدکُم ہَذَا اِلی یَومِ تلقَونَ رَیَّکُم"44
"بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے لیے اس دن کی حرمت اس مہینے میں اور تمہارے لیے اس شہر میں ہے یہاں تک کہ تم اپنے رب سے جا ملو۔"
اسلام کسی بھی انسان اورکسی بھی مذہب کےپیروکارکوناحق قتل کرنےاور اس کامال لوٹنےاس کی عزت پرحملہ کرنے،اس کی تذلیل کرنےکو نہ صرف حرام قراردیتاہےبلکہ ایسےفعل کےمرتکب شخص کوالمناک سزاکی وعیدسنائی گئی ہے۔قرآن مجیدمیں ارشادباری تعالیٰ ہے:
"مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا"45
"جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد کے قتل کر دیا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا۔"
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تخلیق کیا پھر اس میں لاتعداد مخلوقات کوپیدا کیا، جن میں چرند، پرند، حیوانات، نباتات اور جمادات وغیرہ شامل ہیں ان میں سے حضرت انسان کو اشرف المخلوقات کا تاج پہناکر سب مخلوقات پر فوقیت بخشی ۔
"وَلَقَدْکَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ ……وَفَضَّلْنٰھمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا"46
"اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی…… اور ہم نے ان کو بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔"
اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہ صرف اشرف المخلوقات بنایا بلکہ اس کو اپنا نائب ہونے کا مرتبہ بھی عطا کیا۔ اور اسے عقل اور قوت گویائی جیسی نعمتوں سے نواز کر تما م مخلوقات پر برتری عطا فرمائی ۔ انسانیت کی ہدایت ورہنمائی کے لیے مختلف زمانوں میں اپنے برگزیدہ بندے جنہیں انبیاء ورسل ؑکہا جاتا ہے ان کو بھیجا،جو انسانوں کی صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے رہے۔ ہدایت و رہنمائی کا یہ سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہو ا اور اس سلسلے کی آخری کڑی حضرت محمدﷺ خاتم الرسل ہیں۔ آپ کی تعلیمات تمام کائنات کے بسنے والے انسانوں کے لیے تاقیامت رشد وہدایت کا ذریعہ ہے۔ اسلام انسان کو اشرف المخلوقات قرار دے کر نہ صرف اس کے شرف کو بڑھتا ہے بلکہ منکرین سے بھی حق انسانیت کو چھینتا نہیں،بلکہ ان کو بھی حق انسانیت دیتے ہوئے ان کی عزت و تکریم کا پوراپورا خیال رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن کریم غیر مسلم اقلیتوں کو برا بھلا کہنے سے بھی منع فرماتا ہے۔
(ا)غیر مسلم شہریوں کے قتل کی ممانعت:
اسلامی ریاست میں جس طرح ایک مسلمان کے خون کی قدرومنزلت ہے اسی طرح اسلامی ریاست میں آباد غیرمسلم شہریوں کے خون کی قیمت کو بھی کبھی کم تصور نہیں کیا ۔ اسی لیے تو غیر مسلم کو قتل کرنےکی ممانعت ہے۔ کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کو قتل کردے۔قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ
"مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا"47
"جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے قتل کیا ، یا زمین میں فساد کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا، تو گویا اس نے تمام انسانیت کو قتل کر ڈالا۔"
اس آیت کریمہ میں "نَفْسًا" کا لفظ عام ہے۔ لہٰذا اس کا اطلاق بھی عموم پر ہوگا۔ یعنی کسی بھی انسانی جان کو ناحق قتل کردینااس میں شامل ہے ،بغیر کسی تفریق کہ اس کا تعلق کس بھی مذہب سے ہے ۔یعنی انسان خون اسلام کی نظر میں برابر ہے بغیر کسی مذہب کے تفریق کے ۔ اسی طرح احادیث مبارکہ ہے کہ
"مَن قَتَلَ مُعَاہِدا فِی غَیرِ لکنھہِ حَرمَ اللّٰہ عَلَیہِ الجَنَّۃَ"48
"جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری کو ناحق قتل کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام فرما دے گا۔"
امام حاکم اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ صحیح الاسناد حدیث ہے۔اس حدیث میں معاہدہ کا لفظ استعمال کیا گیا جس سے مراد ایسےتمام شہری ہیں جو اس معاہدے کے تحت اسلامی ریاست کے باشندوں میں شامل ہوتے ہیں ۔ تو ان کی جان کی حفاظت اسلامی ریاست کی ذمہ داری بن جاتی ہے ۔
(۲)غیر مسلم مذہبی رہنماؤں کے قتل کی ممانعت:
اسلام غیر مسلم مذہبی رہنماؤں کے قتل کی بھی ممانعت کرتا ہے۔جیسے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے
"کَانَ رَسُول اللّٰہﷺ اذا بَعَثَ جُیُوشہ قَالَ! لَاتعدِ رُوا وَلا تَعلَّوا وَلا تُمثَلَّوا وَلَا تقتُلُوا ابولدَانَ وَلا اَصحَابَ الصَّوامِعِ"49
"حضور نبی کریمﷺ جب اپنے لشکروں کو روانہ کرتے تو حکم فرماتے غداری نہ کرنا، دھوکہ نہ دینا، نعشوں کی بے حرمتی نہ کرنا اور بچوں اور پادریوں کو قتل نہ کرنا۔"
اسلام جب اقلیتوں کی جان کی حفاظت کی بھی ذمہ داری لیتا ہے پھر کس طرح ممکن ہے وہ غیر مسلم رہنماؤں کی جان لے گا ۔ درجہ بالا حدیث مبارکہ سے واضح طور پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام کی نظر میں کسی بھی قوم کے مذہبی رہنماؤں کا قتل، عام حالات کے علاوہ ، دوران جنگ میں بھی جائز نہیں۔
(۳)قصاص اور دیت:
اسلام نے انسان جان کی حفاظت کی خاطر سخت سے سخت اقدامات اٹھائے ہیں ۔ کسی بھی شخص کا ناحق قتل کرنے والے قاتل پر قصاص کو لازم قرار دیا ہے، جب کہ قتل خطاء یعنی غلطی سے کسی کا قتل ہو جانے کی صورت میں بھی دیت کی ادائیگی کو واجب قرار دیا گیا ہے۔تاکہ انسانی جان کی حفاظت ہو سکے اور انسانی جان کو جس قدر ہو محفوظ بنایا جاسکے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃ یّٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ"50
"اور تمہارے لیے قصاص میں ہی زندگی ہے اے عقلمند لوگو تاکہ تم خون ریزی سے بچو۔"
ایک اور روایت کے مطابق حضرت علیؓ نے فرمایاکہ
"اِذَا قَتَلَ الْمُسْلِمَ النَّصرانِیَّ قَتَلَ بِہٍ"51
"اگر کسی مسلمان نے عیسائی کو قتل کیاتو اس کے بدلے میں وہ مسلمان قصاصاً قتل کیا جائے گا۔"
اگرچہ آئمہ کرام نے اس حدیث کی وضاحت یوں کی ہے کہ یہاں غیر مسلم سے مراد وہ شخص ہے جو پُرامن شہری نہیں، بلکہ اس سے مرادصرف حربی غیر مسلم ہے، جو میدان جنگ میں لڑتے ہوئے مارا جاتا ہے تو اس بنا پر کوئی قصاص واجب نہیں ہوگا۔
(۴) غیر مسلم شہریوں کا مال لوٹنے کی ممانعت:
اسلام جیسے انسانی جان کی حفاظت کے لئے اقدامات کرتا ہے، اور انسانی جان کی قدرومنزلت کو اجاگر کرتا ہے بلکل اسی طرح اسلام دوسروں کے مال کی حفاظت کا بھی خیال کرتا ہے اور (مال ) لوٹنے کوبھی حرام قرار دیا ہے۔ارشاد باریٰ تعالیٰ ہے کہ
"وَلَاتَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهآاِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًامِّنْ اَمْوَالِالنَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ"52
"اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناجائزطریقے نہ کھایا کرو، اور نہ مال کو حاکموں تک پہنچایا کرو ۔کہ اس کی وجہ سے لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم ناجائز طریقے سے کھا سکو۔ حالانکہ یہ بات تمہارے علم میں بھی ہو۔"
حضور نبی کریمﷺ نے بھی دوسروں کے مال کو لوٹنا حرام قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے کہ
"اِنَّ دِمَاکُم وَالَکُم عَلیکم حَرَام"53
"بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر حرام ہیں۔"
اسلام اقلیتوں کی نہ صرف کی جانوں کی حفاظت کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے مالوں کی حفاظت کی ذمےداری بھی لیتا ہے۔ ہر دور میں مسلمانوں کا اس بات پر اجماع رہا ہے۔ اسلامی ریاست میں جس قدر غیر مسلم شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کا اہتمام کیا جاتا ہےشایدہی کسی معاشرے میں اس کی مثال ملتی ہو۔ نہ صرف جان بلکہ ان کے اموال کی حفاظت کوبھی اتنا ہی ضروری سمجھاجاتا ہے جتنا مسلمانوں کے اموال کی حفاظت کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی مسلمان ان کی شراب یا خذیر کو ضائع کردے تو اسلام ان اشیاء (جوکہ اسلام میں حرام ہیں ) ان کے ضائع کرنے پر جرمانے کو ادا کرنا لازمی قرار دیتا ہے۔
(۵) تذلیل کی ممانعت:
جس طرح اسلام مسلمانوں کی عزت و توقیر کو پامال کردینے کوحرام تصورکرتا ہے۔ بالکل اسی طرح غیر مسلم شہریوں کی عزت و آبرو کو پامال کرنے کو بھی حرام و ناجائز سمجھتا۔ اسلام تو اقلیتوں کے حقوق کا اس قدرخیال کرتا ہے کہ کسی بھی مسلمان کواس بات کی بھی اجازت نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کے ساتھ گالی گلوچ کرے، اس پر تہمت لگائےاور یہاں تک کہ اس کی غیبت کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے ۔
اسلام کی نظر میں سبھی برابر ہیں اسلام بادشاہ و غریب شریف ورزیل،عزیزوبیگانہ سب کے لئے ایک ہی قانون رکھتا ہے اس میں کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں۔ ایک دفعہ گورنر مصر عمروبن العاص ؓ کے صاحبزادے عبداللہ نے ایک شخص کو بے وجہ مارا، یہ معاملہ خلیفہ وقت امیر المؤمنین حضرت عمرؓ کے پاس لایا گیا توآپ نے فورا گورنر مصر کی اس کے بیٹے کے ساتھ طلبی کی اور فریقین کی بات کو سنا جب خلیفہ وقت کو معلوم ہو گیا کہ اس واقعے میں گورنر مصر کے بیٹے کی غلطی ہے تو حضرت عمرؓ نے اسی مضروب سے ان کے کوڑے لگوائے، اس حضرت عمروبن العاص ؓ بھی موقع پر موجود تھے،دونوں باپ بیٹے خاموشی سے عبرت کا تماشا دیکھتے رہے اورکچھ نہ کہا۔ آپ نے گورنر مصر حضرت عمرو بن العاصؓ کے بیٹے سے فرمایا کہ
"متى استعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحراراً؟"54
"تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے، حالانکہ ان کی ماؤں نےتو انہیں آزاد جنا تھا؟"
قرآنی آیات اور احادیث نبوی سے یہبات واضح ہوجاتی ہے کہ کسی بھی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی بھی غیر مسلم شہری کو محض اس بنا پر قتل کر دے ،یا اس کا مال لوٹ لےیاپھر اس کے مال کو ضائع کردے ، یا اس کی عزت و آبرو کو پامال کردے کہ وہ شخص غیر مسلم ہے۔ اسلام غیر مسلم شہریوں کی نہ صرف جان ومال ، عزت آبرو کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے، بلکہ یہاں تک کہ ان کی عبادت گاہوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔اور اسی کا نام ہی تو احترام انسانیت ہے۔یہی وجہ ہے اسلام کو انسانیت کا مذہب بھی کہا جاتا ہے۔
غیر مذاہب کے بارے میں ہندومت کی تعلیمات:
دنیاکے قدیم ترین اورپیچیدہ مذاہب میں سے ایک سے مذہب ہندومت ہے۔ آج کل دنیامیں پائے جانے والے فعال مذاہب تقریباً چھٹی صدی قبل مسیح میں یا بعد میں شروع ہوئے، جبکہ ہندومت کے کچھ مذہبی نظریات اور صورتیں ایسی بھی ہیں جو تین ہزار سال قبل مسیح میں یا اس کے بعد میں شروع ہوئیں ۔
"ہندومت میں تقریباً ہراس مذہب کی کوئی نہ کوئی صورت یا انداز ملتا ہے، جو قابل غور یا فعال رہا ہو۔ یہ عموماً ہندوستان کے لوگوں پر لاگو ہوتا ہے۔ اگرچہ اپنی پوری تاریخ میں بہت سے لوگ ہندومت میں داخل ہوئے مگر یہ بدھ مت ، عیسائیت اور اسلام کی طرح بھی ایک فعال تبلیغی مذہب نہ بن سکا۔"55
ہندومت کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس نے بہت سے مذاہب کو اپنے اندر سمو رکھا ہے ۔ اس لے ہندو اپنے علاوہ باقی تمام مذاہب کے لوگوں کو نیچ اور حقیر خیال کرتے ہیں اوران تما م کو اقلیت کا درجہ دیتے ہیں۔ ہندو دھرم میں اقلیتوں کو مذہبی آزادی ، حق رائے دہی ، انصاف کا نہ ملنا، بنیادی حقوق سے محرومی، غربت، بے روزگاری، تشدد، دہشت گردی، انتہاء پسندی جیسے مسائل کا ہمیشہ سے ہی سامناکرنا پڑا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے خاتمے کے لیے بھارت حکومت کبھی سنجیدہ نہیں ہوئی ،بلکہ نسلی تعصب کی بنا پر اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ معروف بھارتی مصنفہ ارون دتی رائے نے ۲۳دسمبر۲۰۱۵ء کو بمبئی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
"بھارت میں اقلیتیں خوف کے ماحول میں رہ رہی ہیں اور تشدد پرستی کے بڑھتے ہوئے جارحانہ رویوں کو عدم رواداری کے چھوٹے سے نام میں موسوم نہیں کیا جاسکتا۔"56
یونائیٹڈ سٹیٹ(U.S) کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے کمیشن (USCRIE)کی سالانہ رپورٹ ۲۰۱۸ء کے مطابق:
"آخری عشرے سے ہندوقومیت پسند گروہوں کی کثیر الجہتی مہم کی وجہ سے اقلیتوں کے حالات بگڑ گئے ہیں۔ تشدد اور غنڈہ گردی سے لے کر سیاسی طاقت کے خاتمے، حق رائے دہی سے محرومی اور اختلافی پن جیسے مسائل کا سامنا کررہی ہیں۔"57
مزیدیہ کہ اقلیتوں کو ہندو بالادستی قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جانا بھی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ مثلاً:
"اطلاعات کے مطابق دسمبر۲۰۱۴ء میں آگرہ پر عوامی اجتماع میں سینکڑوں مسلمان جبری طورپر ہندوازم میں تبدیل کیے گئے۔"58
غیر مذاہب کے بارے میں ہندو مذہب کی کتابوں میں درج ذیل اقتباسات ملتے ہیں:
"اے اگنی! ہماری مذاحمت کرنے والی جماعتوں کو مغلوب کر ہمارے دشمنوں کو بھگا دے۔ اے اجیت! دیوتاؤں کو نہ ماننے والے حریفوں کو قتل کر، اپنے پجاری کو عظمت وشوکت نصیب کر۔"59
سوامی دیانند بانی آریہ سماجی یجروید کی تعلیم کی روشنی میں مخالفین کے بارے میں لکھتا ہے کہ ان کے ساتھ نہایت سخت سلوک کیا جائے اس نے خود بھی ایسا ہی کیا وہ کہتا ہے کہ
"دھرم کے مخالفوں کو زندہ آگ میں جلادو۔"60
"اے اندر دیوتا ہمارا دیا ہوا سوم رس تجھے خوش اور متوالا کرے تو ہمیں دھن، دولت دے اور وید کے دشموں کو تباہ اور ہلاک کر۔"61
یعنی ہندو دھرم نے غیر مذاہب کے ساتھ نہایت سخت رویہ رکھنے کی تلقین کی ہے۔ ان کے مطابق ہندودھرم کے مخالف جو مذاہب ہیں ان کو زندہ آگ میں جلا دینا چاہیے۔ ان کا جوڑ جوڑ اور بند بند کاٹ دیا جائے ان کو پاؤں تلے کچل دیا جائے، ان پر رحم نہ کھایا جائے۔
ہندوؤں کو سب سے زیادہ نفرت مسلمانوں سے ہے۔ اس کی وجہ ماضی میں مسلمانوں کا ان پر حاکمیت کرنا ہے۔ اس لیے وہ نہیں چاہتے مسلمان دوبارہ ان پر غلبہ حاصل کریں اور دوسری وجہ ہندو دھرم میں رائج ذات پات کا طبقاتی نظام ہیں۔ جس کے مطابق صرف اور صرف برہمن کو ہی حکمرانی کرنے کا حق حاصل ہے، چونکہ وہ برہما کے سر سے پیدا ہوئے ہیں۔ا س لحاظ سے سب سے اعلیٰ ہیں۔ سب سے نیچ شودر قوم ہیں جن کا کام باقی لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔ ہندودھرم کے مطابق ان چاروں ذاتوں کے علاوہ جو بھی مذہب یا لوگ ہیں وہ بھی شودر کا درجہ رکھتے ہیں، ان کو دھرم کے مخالفین خیال کرتے ہیں۔ جن کو زندہ آگ میں جلانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان کی مقدس کتابوں نے ہندوستانی آئین اقلیتوں کو وہ سب حقوق دیتا ہے جو ایک آزاد ریاست میں اقلیتوں کے لیے بین الاقوامی سطح پر طے شدہ ہیں اور جو انسانیت کے لیے ضروری ہیں،یعنی جان ومال وعزت آبرو کا تحفظ آئین دیتا ہے، جب کہ ویدوں کے مطابق دھرم کے مخالفین کو زندہ آگ میں جلانے کا حکم ہے۔
موازنہ:
اسلام ا ور ہندو دھرم غیر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ ذیل میں ہم دونوں مذاہب کا مختصراً موازنہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
٭ اسلام غیر مسلموں کے معبودؤں کو برا بھلا کہنے سے منع کرتا ہے۔
٭ بلاوجہ قتل سے منع فرماتا ہے۔
٭ ارشاد نبویﷺ ہے کہ"جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری کو ناحق قتل کرے گا اللہ اس پر جنت حرام کردےگا۔"
٭ مذہبی رہنماؤں کے قتل کی ممانعت کرتا ہے۔
٭ اسلام نے ناحق قتل کرنے کی صورت میں قصاص لازم کیا ہے۔
٭ ایک دوسرے کا مال لوٹنے سے منع فرماتا ہے۔
٭ ایک دوسرے کی عزت آبرو کی حفاظت کی تلقین کرتا ہے۔
٭ ہندودھرم میں سب سے اعلیٰ ومالک برہمن ہے وہ اگر کسی کا قتل کردے اسے سخت سزا نہیں دی جائے گی۔
٭ برہمن کسی کا مال حاصل کرنا چاہے تو وہ کر سکتا ہےجس طرح مرضی حاصل کرے اس پر اسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی ، اسی طرح اگر کسی کی عزت و آبرو کو بھی خاک میں ملا دے گا تو بھی اس سے کچھ پوچھا جائے گا ،کیونکہ برہمن مالک ہے۔
٭ ہندو دھرم کے مطابق دھرم کے مخالفین کو زندہ آگ میں جلادو۔
٭ اسی طرح شودروں یا اقلیتوں کے لیے سخت سزا کا حکم ہے، نہ وہ برہمن، کشتری وغیرہ کو قتل کر سکتا ہے نہ وہ ان کی عزت پر حملہ کر سکتا ہے۔ شودروں کو سخت سزا دینے کا حکم ہے۔
٭ شودروں کو جائیداد جمع کرنے کا بھی حق نہیں۔
اسلام کسی بھی انسان اور کسی بھی مذہب کے پیروکار کو زندہ رہنے کا پورا پورا حق دیتا ہے اور اس کو ناحق قتل کرنے،اس کا مال لوٹنے، اور اس کی عزت پر حملہ کرنے یا اس کی تذلیل کرنے کو نہ صرف حرام قرار دیتا ہے بلکہ ایسے فعلکرنے والے شخص کو المناک سزا کی وعید سناتاہے۔ اور نہ ہی کسی غیر مسلم کواس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اسلام قبول کرے ۔ اسلامی تاریخ میں کسی بھی اسلامی ریاست نے غیر مسلم باشندوں اس وجہ سے زبردستی نہیں کی کہ وہ جبرا اسلام کو قبول کریں ۔
جبکہ اس کے برعکس ہندو مذہب میں دوسرے مذاہب کے ساتھ سخت سے سخت روایہ کو بھی جائز تصورکرتا ہے اوران کواپنا مذہب چھوڑ کر ہندو ، مذہب اپنانےاپنانے پر مجبور کرتا ہے۔اورتو اور ہندو مت کی مقدس کتابوں میں موجود ہے جو ہندو دھرم کے مخالف کے مخالف ہو اس کو زندہ آگ میں جلادو۔ ایسے ہی اقلیتوں کی بھی شودروں والی حیثیت بن جاتی ہے ۔
اسلامی ریاست کی خصوصیات میں سےایک خاصیت یہ بھی ہےکہ اسلامی ریاست میں غیرمسلم شہریوں کوبھی وہی حقوق حاصل ہوتے ہیں جومسلمانوں کوحاصل ہوتےہیں۔ ان حقوق میں سےسب سےپہلا حق جواسلامی حکومت کی طرف سےسب کویکساں طور پرحاصل ہوتاہےوہ حق،حفاظت جان ہے۔جوانہیں ہر ستم کےخارجی اورداخلی ظلم وزیادتی کےخلاف مکمل طورپرحاصل ہوتاہے۔ جبکہ اس کےبرعکس ہندومت غیرمذاہب کےساتھ سخت سےسخت روایہ اختیار کرتا ہے اوران کواسلام چھوڑ کر ہندومت کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔جبکہ ان کی مقدس کتب میں ہندو دھرم کے مخالفوں کو زندہ آگ میں جلانے کا حکم موجود ہے۔ اسی طرح اقلیتوں کوبھی شودروں کی سی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام سے بڑھ کر کوئی بھی مذہب انسانیت کے احترام اور تحفظ کا ضامن نہیں ہے۔
خلاصہ بحث
انسان تمام کائنات کی مخلوقات سے الگ اور ممتاز حیثیت رکھتا ہے ۔ اپنے تخلیق عمل کی وجہ سے ہی تما م مخلوقات سے جدا ہو جاتا ہے۔ اس لحاظ سے حضرت انسان خالق کائنات کی ایک علیحدہ اور خصوصی تخلیق ہے۔ خدا تعالیٰ نے اسے دیگر تمام مخلوقات کے مقابلے میں بہترین صورت میں پیدا کیا۔ اس کو تمام مخلوقات پر بزرگی، فوقیت اور فضیلت عطا کی اور اشرف المخلوقات ہونے کا سہرا اس کے سر سجایا۔ یہ بزرگی و فضیلت اور عظمت وکمال انسان کو محض انسان ہونے کی بنا پر حاصل ہے۔
مقالہ ہذا"عصر حاضر میں احترام انسانیت: اسلام اور ہندومت کے تناظر میں تطبیقی جائزہ"میں اسلام اور ہندومت میں احترام انسانیت کی تعلیمات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں ان سب مذاہب میں انسانیت کے احترام کا پہلو کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔لیکن اگر ہم ہندومت کی بات کریں،توان میں ذات پات کی طبقاتی تقسیم موجود ہے یہ نظام انسانیت کا قاتل سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح یہودیت اور عیسائیت میں بھی انسانیت کے احترام کا ذکر ملتا ہے، لیکن ان میں نسلی امتیاز زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان میں اگر انسانیت کا کہیں تصور پایا بھی جاتا ہے تو اس کی وجہ دنیاوی اسباب ہیں۔ اگر ہم بدھ مت کی بات کریں تو بدھ کی تعلیمات انسانیت کے احترام کا درس دیتی ہیں۔ بدھ کے ماننے والے آج بھی ان تعلیمات پر عمل کررہے ہیں۔ ہم جتنے بھی ماہرین سماجیات کے نظریات کو پڑھ لیں۔ اُن تمام نے اپنے نظریات میں انسانیت کو موضوع بنایا ہے۔ ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں انسانیت کے احترام کا درس دیا ہے۔اور انہیں نےدنیا کا سب سے بڑا نسان اسی کو قرار دیا ہے جس نے انسانیت کا سب سے زیادہ احترام کیا اور ہر انسان کو اس کا مقام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جو پیغاماسلام لے کرآیا ہےیہ پوری انسانیت کے لئے خدا کا سب سے بڑا اور آخری پیغام ہے۔ انسانیت کا صحیح معنوں میں احترام یہ ہے کہ ہر انسان کی اچھی صلاحیتوں کی حفاظت کی جائے اور ان کی نشوونما کے لیے تمام ممکن سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔تاکہ ان صلاحیتوں سے ہر کوئی فائدہ حاصل کرسکے ، اور اس میں خاص وعام کی کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔
قرآن نےواضح طورپربتادیاہےکہ مردہویا عورت،میری نظر میں تم سب برابرہو۔تمہارےکسی بھی اعمال کومحض اس لیےنہیں ضائع کیاجائےگاکہ فلاں عورت ہےیامرداورقرآن نےیہ بات کی بھی وضاحت پہلےکی طرح پھرکردی ہےتم سب کا جداعلیٰ ایک ہی ہے اورتم سب ایک ہی جنس سےپیداکیےگئےہو۔اس لیے بنا کسی تفریق کے سب انسان برابر ہیں، کسی انسان کی عزت واحترام صرف اس وجہ سے نہ کیا جائے کہ وہ دولت مند ہے یا اعلیٰ عہدے پر فائز ہے صرف اور صرف تقویٰ کی بنا پر انسان کو دوسرو انسان پر فضیلت حاصل ہے۔ اس کا بہترین نمونہ نماز میں نظر آتا ہے۔ جس میں امیر،غریب، صاحبِ اقتدار سب ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ آپﷺ کے ارشادات سے باآسانی اندازہ ہوتا ہے کہ آپﷺ نے نہ صرف مسلمان کے حقوق بلکہ غیر مسلمان کے حقوق کا بھی کتنا خیال رکھا ہے جس کی واضح مثال ہم آپﷺ کے آخری خطبہ حجۃ الوداع سے بھی لگاسکتے ہیں۔ جس میں آپ نے تمام انسانوں کو برابری کا درجہ دیا، کسی کو اگر فضیلت ہے تو وہ تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ اس خطبہ میں آپﷺ نے عورتوں کے حقوق، ہمسایوں کے حقوق اور خاص طور پر غلاموں کے حقوق پر بات کی اور فرمایا ان کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ انسان کےبنیادی حقوق کےبارےمیں اسلام کاتصور ،بنیادی طورپربنی نوع انسان کےاحترام اورباہمی مساوات پرمبنی ہے۔رب ذوالجلال نےبنی نوع انسان کوباقی تمام مخلوق پرعظمت وفوقیت بخشی ہے۔اسلام نے ہرانسان کوخواہ اس تعلق دنیاکےکسی بھی ملک سےہو،وہ مسلمان ہویاغیرمسلم محض انسان ہونےکی حیثیت سےاس کےکچھ حقوق مقررکئےہیں،ان حقوق کواداکرنا ہرمسلمان کافرض و لازم ہے۔ان ہی حقوق کواقوام متحدہ کےچارٹربرائےانسانی حقوق میں شامل کیا گیا ہے۔ ان حقوق میں جوحق تمام انسانوں کاحاصل ہیں،ان میں جینےکاحق،مساوات کاحق،اظہارِرائےکی آزادی، معاشی،سماجی،ثقافتی، تعلیم و صحت، حق خودارادیت اور دیگر حقوق بلاامتیاز برابری کی سطح پر سب کویکساں طور پر حاصل ہوتے ہیں۔
ہندومت جہاں ذات پات کی طبقاتی تقسیم میں انسانیت کا استحصال کررہا ہے وہیں پر کچھ اچھی باتیں بھی اس مذہب میں پائی جاتی ہیں جیسے کہ صدقات وخیرات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ دوسروں کے مال پر نظر رکھنے سے منع کرتا ہے دوسروں کے ساتھ امن ومحبت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ شودروں پر مذہبی تعلیم پر پابندی لگاتا ہے۔ ان کو نیچ خیال کرتا ہے۔ برہمن کو سب سے اعلیٰ اور مالک کا رتبہ دیتا ہے۔ اسی مذہب کے عدم تشدد کا تصور بھی دیا ہے، یعنی ہندومذہب میں دوہرا معیار قائم ہے۔ اس کی وجہ متعدد دیوتاؤں کی پوجا ہے۔ سینکڑوں خداؤں کی موجودگی میں اس مذہب میں عملی زندگی پر طبقے کا ایک الگ خدا ہے۔ ہندومت چار طبقوں پر مشتمل ہے جس میں اعلیٰ اور ادنیٰ کا معیار قائم ہیں اور سب طبقات کے حقوق و فرائض کا تعین بھی کردیا گیا ہے۔ برہمن سب سے اعلیٰ اور حکمران طبقہ ہے۔ شودر سب سے نیچ جس کا کام سب کی خدمت کرناہے۔ ہندومت کی مقدس کتب میں آزادی تعلیم، مساوی حقوق، اقلیتوں کے حقوق، حق آزادی رائے، جان کا تحفظ، عدل و انصاف کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن اس نظام میں قائم ذات پات کی طبقاتی تقسیم ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
احترام انسانیت دنیامیں بسنےوالوں کامشترکہ ورثہ ہے۔ایک دوسرےکااحترام مذہب اقوام کی ترقی کانام ہے انسانیت کی ترقی اورانسانیت کی عظمت واحترام کاحکم دیاہے۔ قران کریم میں ارشادہوتاہے،جس کامفہوم یہ ہےکہ ہم نےنبی آدم کومعظم اورقابل احترام اور لائق بنایا ہے۔ اس لیے سبھی انسان برابر ہیں کسی کو فوقیت حاصل نہیں سوائے تقویٰ کے۔ جب کہ ہندومذہب میں اس معاملے میں دوہرا معیار پایا جاتا ہے کہ ایک طرف تو ہندو دھرم انسانیت کا درس دیتا ہے اور انسانیت کو اپنا مذہب ماننا ہے، لیکن اس کی مذہبی کتابیں ذات پات کی تقسیم کا درس دیتی ہیں، جس کے مطابق اعلیٰ اور ادنیٰ کا معیار ہے اور اعلیٰ کے لیے پیشے بھی اعلیٰ خود ہی نافذ کر دیئے۔ ادنیٰ کے لیے صرف خدمت گار کا کام ہے۔ مختصراً اگر ہم اسلام اور ہندومذہب میں احترام انسانیت کا جائزہ لیں تو ہم یہ کہیں گے کہ اسلام ہر لحاظ سے بہت اعلیٰ اور مکمل دین ہے، جس نے اپنے ماننے والوں اور غیر مسلمانوں سب کے ساتھ احترام اور عدل وانصاف کا حکم دیتا ہے۔ اسلام میں امیر، غریب، سیاہ، سفید، اقتدار کوئی اہمیت نہیں رکھتا سوائے تقوی اور پرہیز گاری کے ہندومذہب احترام انسانیت کی بات تو بہت کرتا ہے، لیکن اس کو اپنانے میں ناکام ہے، جس کی وجہ ان کا طبقاتی نظام ہے، جس نے اس پورے معاشرے کو جکڑ رکھا ہے، جب تک اس طبقاتی نظام کی اصلاح نہیں ہو جاتی ہندو مذہب میں انسانیت کو وہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا جو اسلام نے دیا ہے۔
اس مقالے کے آخر میں اسلام اور ہندومت کے غیر مذاہب سے تعامل کے بارے میں رویہ جات کو بھی بیان کیا گیا ہے کہ اسلامی ریاستاپنے غیر مسلم شہریوں کو وہی حقوق دیتی ہے جواس ریاست کے مسلمانوں شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں، ان حقوق میں سے پہلا حق جو اسلامی حکومت کی طرف سے سب کویکساں طور پر حاصل ہوتا ہے وہ حق ،جان کی حفاظت ہے ۔ جو انہیں ہر ستم کے خارجی اور داخلی ظلم وزیادتی کے خلاف حاصل ہے۔اس کے برعکس ہندومت غیر مذاہب کے ساتھ سخت اور یہ اپنانے کی ترغیب دیتا ہے ان کی مقدس کتب کے مطابق دھرم کے مخالفوں کو زندہ آگ میں جلانے کا حکم ہے اور اسی طرح اقلیتوں کو بھی شودروں کی سی حیثیت حاصل ہے یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام انسانیت کے احترام اور تحفظ کا ضامن ہے۔
تجاویز و سفارشات
اسلام مساوات کا درس دیتا ہے یعنی امیر غریب اعلی ادنی کے معیار کو ختم کرتا ہے ہندو مذہب میں بھی ذات پات کے نظام میں جو اعلی ادنی کی تقسیم قائم کی ہے اسے ختم کیا جانا چاہیے ۔
اسلام حقوق و فرائض کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے تاکہ سب کے حقوق یکساں ادا ہوتے رہے ہندو مذہب میں بھی حقوق و فرائض کی ادائیگی کو یقینی بنایا جانا چاہیے تاکہ کسی کے حقوق سلب نہ ہوں چاہے وہ ادنیٰ ذات سے کیوں نہ ہوں۔
ہندوؤں میں یہ احساس اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ انسان کا احترام دنیاوی اسباب کی بنا پر نہیں اخلاق کی بنا پر ایک دوسرے پر برتری ہونی چاہیے ۔
برہمن میں یہ شعور پیدا کرنے چاہیے کہ شودر بھی ان کی طرح انسان ہیں بحیثیت انسان شودر کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو برہمن کو حاصل ہیں۔
ہندوؤں میں جو اعلیٰ اور ادنیٰ کا معیار قائم ہے۔ اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے جیسے گاندھی کہتا ہے کہ انسانیت میرا مذہب ہے۔
ہندوؤں میں کرم یا عمل کے عقیدے کو زیادہ پرموٹ کیا جائے یعنی جیسا عمل کرو گے ویسا ہی اجر ملے گا۔ اس عقیدے کو اپنانے سے ہندوؤں میں جو تشدد کا رویہ ہے نچلی ذات کے لوگوں کے ساتھ راو رکھا جاتا اسے کم کرنے میں مدد ملے گی۔
منو شاستر کے علاوہ جتنی بھی ہندوؤں کی مقدس کتب ہیں انسانیت کا درس دیتی ہیں لیکن ذات پات کا نظام اس کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے ہندوؤں میں اس طبقاتی تقسیم کو ختم کیا جائےاور انسان کو بحیثیت انسان کو عزت و عظمت ملے۔
1Al-Baqarah, 2:30
2Al-Ṭīn, 95:4
3Al-Zāriyāt, 51:56
4Al-Ḥajar, 15:29
5Al-Ḥujrāt, 49:13
6 Ahmad bin Muhammad Ibn e Hanbal, Al-Musnad, (Cairo: Mu’assah Al-Risālah), Hadith No: 22978.
7Mahā Bhārat, Kitāb Ārī Parwā, Samjho Paro.
8Upanishad, Adhyāye 1, Brahmā 4.
9Al-An’ām, 6:132.
10Al-Ahqāf, 46:19.
11Aḥmad bin Ḥanbal, Al-Musnad, Hadith No: 22536.
12Al-Mā’yedah, 5:32.
13Hafiz Muhammad Shāriq, Hindū mat kā Tafṣīlī Muṭāli‘a (Karāchī: Idara Teḥqīqāt Maẓahib, 2017 AD), 306.
14A. L. Hashim, Hindustānī Tehzīb kī Dāstān (Lāhore: Nigārishāt Publishers, 2008 AD),184.
15Amīr Hamza, Insāniyat kā Qātil Hindū Dharm (Lāhore: Dār al-ṣuffah Publications), 41.
16Hafiz Muhammad Shāriq, Hindū mat kā Tafseelī Mutāliya, p.276
17Muhammad bin Essa Tirmidī, Al-Sunan Tirmidī, Research: Ahmad Muhammad Shakir, Fūwād Abdul Bāqī, (Cairo: Dār Al-Haitham), 423/2.
18Al-Nahal, 16:126
19Rig Veid, Mandal 10, Sūkat 91, Manatr 12-16
20Rig Veid, Adhyaye 13, Mantar 12
21Rig Veid, Adhyaye 13, Mantar 12
22Rig Veid, Adhyaye 13, Mantar 12
23ṣām Veid, Adhyāe 11, Mantar 1
24Al-Zāriyāt, 51, 56
25Al-Rahmān, 55:5
26Ibrāhīm, 14:51
27Al-Muddassar, 74:38
28Yāsīn, 36:36
29Rig Veid, Mandal 8, Salūk 1
30Rig Veid, Mandal 8, Salūk 1
31Rig Veid, Mandal 8, Salūk 1
32Dr. Ajay Mālvī, Shirī Mad Bhagwat Gītā (Ilāhabad: Rujhān Publications, 2006), Adhāye 3-10
33Prof. Yousaf Khan, Adyān aur Mazāhib ka Taqābulī Muṭālia (Lāhore: Bait ul ‘Ilm), 48.
34Al-Asrā, 17:33
35Al-Anām, 6:151
36Muhammad bin Yazeed Ibn e Mājah, Al-Sunan (Qāiro: Dār al-Tāṣīl), Hadith No: 3055.
37Mano, Mano Dharm, Chap.11, Salūk 132
38Al-Qalam, 68:4
39 Muhammad bin Essa Tirmidī, Al-Sunan, Research:Ahmad Muhammad Shakir, Fūwād Abdul Bāqī, 421/2
40Al-Nisā, 4:58
41Al-Nahal, 16:90
42 Mannū Dharm Shāstar, Translator: Arshad Rāzī (Lāhore: Nigārshāt Publishers, 2007 AD), Chap Ashlūk 11, Salūk 371-373
43Mannū Dharm Shāstar, Translator: Arshad Rāzī, Chap Ashlūk 11, Salūk 371-373
44 Muhammad bin Ismā’īl Bukhari, Al-ṣahī, Kitāb Al-Hajj, Bāb Al-Khutbah, Hadith No: 1454.
45Al-Māyedah, 5:36
46Banī-Isrā‘īl, 17:70
47Al-Māyedah, 5:36
48 Ahmad bin Shoaib al-Nisā’ī, Al-Sunan, (Qāiro: Dār al-Tā’ṣīl), Hadith No: 474.
49Ahmad bin Hanbal, Al-Musnad, 330/1, Hadith No:2728.
50Al-Baqarah, 2:179
51Muslim Bin al-Ḥajjāj, Sahīh Muslim, Kitāb Al-Diyāt, Bāb Lā Yaqtul al-Muslim Bil Kāfir Hadith No: 6517.
52Al-Baqarah, 2:188
53Muḥammad bin Ismā‘īl Bukhari, Al-Sahīh, Bāb Al-Khutbah Ayyām Fī, 420/2, Hadith No:1454.
54Alā ud Dīn Alī Muttaqī, , Kanz ul-Ummāl (Karachi: Dār ashā’at, 2009), 455/2.
55Lewis Mour, Mazāhib ālam kā Encyclopedea (Lahore: Nigarshāt, 2003), 162.
56 www.hilal.gov.pk/urdu.artical
57 www.fas.org/sgp/crs/row/r45303
58 www.hamanrightscommission.house.gov
59Yajur Veid, Adhyāye, 37/9.
60Rag Veid, Mandal 10, Sūkat 91, Mantar 14.
61Ṣām Veid, Adhyāye 17, Mantar 39.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 3 Issue 2 | 2022 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2022 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2022 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2022 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2022 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |