4
1
2023
1682060063651_3216
1-26
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/49/49
أﻷمِیر:جلد4؍ شمارہ 2 ..( جولائی–ستمبر3220ء) )9(
غزواتِ نبویہ ﷺ میں اہلِ کتاب کے ساتھ اخلاقِ حسنہ کے مظاہر
Manifestations of Akhlaq-e-Hasanah (good manners) with the People of the Book (Ehl-e-Kitab) in Ghazwat-e-Nabawiyyah ﷺ
Muhammad Adnan:
When we study about the life of Holy Prophet (ﷺ), his life demand from Muslims to protect the dignity and honour of their Muslim brothers. They not only protect or care the right of their Muslim brothers in their life but also protect their dignity after their death.
In the light of Holy Prophet Life the circle of human rights is so vast. In this, his life teaches us the turidicul, rights, marriage, settlement different between good or evil, isonomy and the verses of martyr and the noble behaviour with Jews and Christians.
There is a big role of ethics on the human personality. The ethics is the tester of good or bad person Human with the noble ethics the Muslims. To be remembered as staying up all the night and to fast. The ethics play important role in the life of Human.
In the life of Prophet (ﷺ) we know about his good deeds and noble behavior with non Muslims. The success of the Holy Prophet preaching is only because of his ethics and truthness.
Islam Universal Religion. It’s Teachings and pregnative system is the everlasting. In this modern period there is no way except Islam to get Rid the unsolved problems of the age. The beloved Prophet (ﷺ) “Sira Mubarak” the way of light only. There is aspect of the life without the real pregnative system. Peace and the War both are in the teaching of the Holy Prophet (ﷺ). Peace, progress contentment, satisfaction, true, unity, brotherhood in the lightment of the “Uswa Hasna”. Let’s seek the real way in our beloved Prophet (ﷺ).
Key Words: Holy Prophet, Ghazwa, Akhlaq-e-Hasanah, Ehl-e-Kitab, War, Ethics.
تعارف:
غیر مسلموں کی ایک قسم وہ ہے جن کا دین آسمانی ہے اور جنھیں ہم اہل کتاب کہتے ہیں مثلاً یہودی اورعیسائی،غیر مسلموں کی دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کا دین خود ان کا وضع کردہ ہے اور ان میں بت پرستی پائی جاتی ہے۔مثلاً ہندو جو کہ بت پرست ہیں یا مجوسی جو کہ آگ پرست ہیں ۔اسلامی شریعت میں دوسری قسم کے غیر مسلموں کے مقابلہ میں پہلی قسم کے غیر مسلموں کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔چنانچہ اسلام نے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال قراردیا ہے اور ان کی عورتوں سے شادی جائز قراردی ہے: چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿اليَومَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبـٰتُ وَطَعامُ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حِلٌّ لَكُم وَطَعامُكُم حِلٌّ لَهُم وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ المُؤمِنـٰتِ وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم إِذا اٰتَيتُمُوهُنَّ أُجورَهُنَّ مُحصِنينَ غَيرَ مُسـٰفِحينَ وَلا مُتَّخِذى أَخدانٍ وَمَن يَكفُر بِالإيمـٰنِ فَقَد حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِى الْآخِرَةِ مِنَ الخـٰسِرينَ ﴾1 "کل پاکیزه چیزیں آج تمہارے لئے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعده نکاح کرو یہ نہیں کہ اعلانیہ زنا کرو یا پوشیده بدکاری کرو، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وه ہارنے والوں میں سے ہیں"
ان کی عورتوں سے شادی کی اجازت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سارے سسرالی رشتہ دار اہل کتاب ہیں اور اس کے بچے کے ماموں خالہ نانا نانی وغیرہ بھی اہل کتاب ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں تسامح اور رواداری کی یہ عظیم ترین مثال ہے۔
اہلِ کتاب سے مراد یہود و نصارٰ ی ہیں جیسا کہ قرآن ِ کریم میں واضح ہے اِنہیں کتابی اِس لئے کہا جاتا ہے کہ اِن کی طرف کتابیں نازل ہوئی ہیں جو اِنہیں ایک خدا کی عبادت کی طرف دعوت دیتی ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل نازل ہوئی ہے اور شریعتِ مطہرہ میں اِن کے احکام مشرکین سے مختلف ہیں جیسا کہ اہلِ کتاب کا ذبیحہ کھانا اور اُن کی پاکیزہ خواتین کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے جبکہ مشرکین کے ساتھ ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
چنانچہ اللہ رب العزت قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ﴾ [2].
ترجمہ: ’’اﷲتمھیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سےانصاف کابرتاؤ برتو۔ بیشک انصاف والے ،اﷲکو محبوب ہیں‘‘
اسلام اُن کفار کے ساتھ حُسن ِ سلوک کا حکم دیتا ہے کہ جو جنگ نہیں کرتے اور اپنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں جبکہ دلی محبت اِن سے حرام ہے کیونکہ دلی محبت کا تعلق باطن کے ساتھ ہوتا ہے اور حُسنِ سلوک کا تعلق ظاہر کے ساتھ ہوتا ہے ۔ چنانچہ شیخ الاسلام ابنِ حجر عسقلانی علیہ الرحمہ(متوفی ۸۵۲ھ) لکھتے ہیں:’’البرُ والصلةُ والإحسانُ لا یستلزمُ التحاببَ والتوادَ المنهيُ عنه ‘‘[3]’’’’کہ کفارکے ساتھ اچھا سلوک ، صلہ رحمی اور نیکی کرنا ان سے اُس محبت اور دوستی کو مستلزم نہیں کرتا ہے کہ جس سے منع کیا گیا ہے‘‘ ۔
رسول اللہﷺ جہاں پر مسلمانوں کے لئے رحمت و شفقت بنا کر بھیجے گئے وہیں پر آپ ﷺکفار کے ساتھ بھی حُسنِ سلوک کا مظاہرہ فرماتے پھر چاہے حالتِ جنگ ہوتی یاحالتِ امن، ہر حال میں رسول اللہ ﷺ امن کا ساتھ دیتے اور کفار و مشرکین خصوصا اہلِ کتاب کے ساتھ آپ حُسنِ سلوک کا مظاہرہ فرماتے ۔ جب رسول اللہﷺ مدینہ ہجرت فرما کر تشریف لائے تو وہاں پر یہود کی ایک بڑی جماعت موجود تھی جن کے ساتھ رسول اللہﷺ نے معاہدہِ امن فرماکر قیام فرمایا۔ اگر کوئی یہود ی بیمار ہوجاتا تو رسول اللہﷺ اُسکی عیادت کو تشریف لے جاتے ، اگر کسی یہودی کی طرف سے کوئی تحفہ پیش کیا جاتا تو رسول اللہ ﷺ اُسے قبول فرماتے ، اور اگر کوئی یہود ی ظلم کرتا تو آپ ﷺ اُسے معاف فرما دیتے جیسا کہ ایک یہودی عورت نے رسول اللہﷺ کو زہر آلود بکری کا کندھا پیش کیا تو رسول اللہﷺ نے اُسے معاف فرمادیا اور قتل نہ کرنے کا حکم دیا۔ رسول اللہﷺ اِن سے تجارت کرتے ہوئے نرمی کرتے اور اُن پر ظلم نہ کرتے اور ہمیشہ اہلِ کتاب کے ساتھ عاجزی سے پیش آتے۔
رسول اللہﷺ کے اکثر غزوات میں اہلِ کتاب جن کے ساتھ معاہدہ ہوتا تو رسول اللہﷺ اُن کے مال ، جان و اولاد سب کے تحفظ کی ضمانت دیتے، اور صحابہِ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو سختی سے اِس بات کا حکم دیتے کہ اِن ذمیوں اور معاہدین کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہ پہنچے۔چنانچہ امام بخاری(متوفی 256ھ) اِس ضمن میں ایک حدیث روایت کرتے ہیں: عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: ((مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيْحَهَا تُوْجَدُ مِنْ مَسِيْرَةِ أَرْبَعِيْنَ عَامًا))[4].
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس نے کسی معاہد (جن غیر مسلموں کے ساتھ اسلامی حکومت کا معاہدہ ہو) کو (بغیر کسی جرم کے) قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے‘‘۔
یہاں معاہد سے مُراد ہر وہ شخص ہے کہ جسے امان یعنی پناہ دے دی گئی ہوعام ازیں کہ وہ جزیہ لے کر دی گئی ہو، بادشاہ کی طرف سے جنگ بندی کی وجہ سے دی گئی ہویا کسی مسلمان نے کسی اہلِ کتاب کو امان دی ہو جیسا کہ علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:’’والمرادُ به منْ لهُ عهدٌ معَ المسلمينَ سواءً كانَ بعقدِ جزيةٍ أو هدنةٍ من سلطانٍ أو أمانٍ منْ مسلمٍ‘‘[5]۔کہ اِس سے مُراد وہ شخص ہے کہ جسکا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ ہوا ہو عام ازیں کہ وہ جزیہ سے ہو سلطان کی طرف سے جنگ بندی کی وجہ سے ہو یا کسی مسلمان کی طرف سے امان سے ہو۔
یعنی جس شخص نے بغیر کسی جرم کے کسی معاہد کو قتل کیا ، مذکورہ حدیث میں اگرچہ بغیر جرم کے الفاظ ذکر نہیں کئے گئےلیکن مفہوم یہی لئے جارہے ہیں ، اگر معاہد اپنے وعدہ کو توڑتا ہے، یا کسی سازش میں ملوث ہوتا ہے تو اُسے سزا دی جائے گی۔ لیکن سزا حاکمِ وقت دلوائے گا۔ گویا کہ عموما رسول اللہﷺ کسی معاہد کے ساتھ وہی سلوک روا رکھتے کہ جو ایک عام مسلم کے ساتھ ہوتا ، اُسکے نفع و نقصا ن میں شریک ہوتے اور اُسکے دکھ سکھ کو بانٹے ، لیکن اگر وہ ظلم کرتا یا اپنی حدود سے نکلتا تو اُسے سزا دی جاتی۔
اہلِ کتاب کی پراپرٹی کوواپس کرنا
رسو ل اللہﷺ کی یہ شان تھی کہ آپ ﷺ ناحق کسی کا مال قبضہ نہ کرتے اور نہ ہی اِسکا حکم صادر فرماتے، بلکہ اگر آپ ﷺ کو معلوم ہوتا کہ یہود و نصریٰ کا مال مسلمانوں نے ناحق قبضہ کر رکھا تو آپ ﷺ اُسے فورا واپس کرنے کے احکامات صادر فرماتے۔ ایسا ہی ایک واقعہ غزوہِ خبیر کے موقع پر پیش آیا کہ جب رسول اللہﷺ اپنا لشکر لے کر خبیر کی طرف روانہ ہوئے تو لوگوں نے شور مچانا شروع کردیا کہ رسول اللہﷺ لشکر لے کر آگئے قلعے کے دروازے بند ہوگئے مگر وہاں پر ایک حبشی ملا جو خبیر والوں کی بکریاں چرایا کرتاتھا ، جب یہودی جنگ کی تیاریاں کرنے لگے تو اُس نے پوچھا کہ آخر تم لوگ کس سے جنگ کے لئے تیاریاں کررہے ہو ؟ یہودیوں نے کہا:’’ کہ آج ہم اس شخص سے جنگ کریں گے جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہ سن کر اُس کے دل میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ملاقات کا جذبہ پیدا ہوا۔ چنانچہ یہ بکریاں لئے ہوئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو گیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے دریافت کیا :’’کہ آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اُس کے سامنے اسلام پیش فرمایا۔ اُس نے عرض کیا :’’کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو مجھے خداوند تعالیٰ کی طرف سے کیا اجر و ثواب ملے گا ؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’کہ تم کو جنت اور اس کی نعمتیں ملیں گی‘‘۔ اُس نے فوراً ہی کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔ پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ’’یہ بکریاں میرے پاس امانت ہیں‘‘۔ اب میں ان کو کیا کروں ؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کہ تم ان بکریوں کو قلعہ کی طرف ہانک دو اور ان کو کنکریوں سے مارو۔ یہ سب خود بخود اپنے مالک کے گھر پہنچ جائیں گی‘‘۔ چنانچہ یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ انہوں نے بکریوں کو کنکریاں مار کر ہانک دیا اور وہ سب اپنے مالک کے گھر پہنچ گئیں[6]۔
رسول اللہ ﷺ نے کس خوبصورت انداز میں خبیر کے یہود کی بکریوں کو واپس لوٹانے کا حکم فرمایاورنہ رواج کے مطابق اگر چاہتے تو وہ سب رکھ لیتے لیکن یہ ظلم اور غصب ہوتا جبکہ رسول اللہﷺ کو اللہ نے ہر عیب سے پاک پیدا فرمایا ہے ۔ اِسی لئے تو تاجدارِ انبیاء ﷺ نے اُس حبشی غلام کو کہا کہ یہ بکریاں قلعے کی طرف ہانک دو اور وہ سب بکریاں قلعے پہنچ گئیں اور وہ حبشی غلام کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا اور رسول اللہﷺ کی طرف سے لڑتے لڑتے شہید ہوگیا۔ یہ رسول اللہﷺ کا اعلیٰ اخلاق تھا کہ آپ ﷺنے حالت جنگ میں ایک دشمن کی بکریاں اسے واپس دلوا کر یہ تعلیم دی کہ جنگ اپنے مقام پر ہے جبکہ دیانت و امانت اپنے مقام پر ہے۔ صلح و جنگ اور دیانت و انصاف کے تقاضوں کو بیک وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
جان کی دشمن یہود ی عورت کو معافی
امام بخاری(متوفی 256ھ) اپنی صحیح میں لکھتے ہیں:
عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ امْرَأَةً يَهُوْدِيَةً أَتَتْ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِشَاة مَسْمُوْمَة، فَأَکَلَ مِنْهَا، فَجِيئَ بِهَا إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَسَأَلَهَا عَنْ ذَالِکَ؟ فَقَالَتْ: أَرَدْتُ لِأَقْتُلَکَ، قَالَ: مَا کَانَ اللهُ لِيُسَلِّطَکِ عَلٰی ذَاکِ، قَالَ: أَوْ قَالَ: عَلَيَّ، قَالَ: قَالُوْا: أَ لَا نَقْتُلُهَا؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَمَا زِلْتُ أَعْرِفُهَا فِي لَهَوَاتِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم [7].
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی عورت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بکری کا زہر آلود گوشت لے کر آئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس گوشت میں سے تھوڑا سا کھایا ، پھر اُس عورت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس عورت سے اِس گوشت کے متعلق پوچھا تو اُس نے کہا: ’’ میں نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا‘‘، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تجھے اِس پر قادرنہیں کرے گا‘‘۔ راوی بیان کرتے ہیں: یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر قادر نہیں کرے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: (یا رسول اللہﷺ!) کیا ہم اِسے قتل نہ کر دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں (اور اس یہودی عورت کو معاف فرما دیا)۔ راوی کہتے ہیں کہ اُس زہر کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ میں ہمیشہ پایا گیا۔
یہ واقعہ غزوہِ خیبر کے موقع پر پیش آیا جیسا کہ امام بخاری(متوفی 256ھ) نے کتاب المغازی میں غزوہِ خیبر کے باب میں اِس واقعہ کو درج فرما کر اور علامہ ابنِ حجر عسقلانی و دیگر شراحِ حدیث نے اِسکی وضاحت فرماکر واضح کر دیا ہے اوراُس عورت کا نام زینب بنت الحارث تھا جو کہ سلام بن مشکم کی بیوی تھی اور خبیر کے پہلوان مرحب کی بہن تھی ۔ اِس عورت کے قتل میں اختلاف پایا جاتا ہے اصح یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے اِسے معاف فرمادیا اور قتل کرنے کا حکم صادر نہیں فرمایا۔
لیکن آخر وقت تک اُس زہر آلود گوشت کا اثر رسول اللہﷺ کے اندر رہا ، مگر تاجدارِ انبیاءﷺ کااعلیٰ اخلاق دیکھیں کہ ایک یہودی عورت جنگ کے وقت آپ ﷺ کو نعوذباللہ شہید کرنے کی کوشش کرتی ہے اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوتی ہے مگر رسول للہﷺ افاقہ پانے کے بعد اُسے معاف فرمادیتے ہیں ۔ یہ اہلِ کتاب کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ تھا کہ ایک دشمن کی بیوی اور ایک دشمن کی بہن کو معاف فرمادیا۔
غیر مسلمین کے ساتھ ہمارا رویہ سنجیدہ اور نہایت عمدہ ہونا چاہئے ۔ اور ضرورت اِس امرکی ہے کہ مسلمانوں کے اذہان میں اِس سلسلے میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ، جسکا خاتمہ از حد ضروری ہے اور اسلام کا صحیح مؤقف پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض شدت پسند مسلمانوں کا کفار و غیر مسلمین کے ساتھ رویہ انتہائی نازیبا ہوتا ہے جو اُن کا اپنا ذاتی عمل ہوتا ہے نہ کہ اسلام کا ۔اور غیر مسلمین یہ سمجھتے ہیں کہ شاید اسلام کا ہی بتایا ہوا یہ دین و تہذیب ہے جبکہ ایسابالکل بھی نہیں ہے۔ بحیثیت مسلم ہمیں یہ سمجھنا اور جاننا چاہئے کہ انسان ہونے کے ناطے ہر شخص کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا ضروری ہے ۔خواہ اُسکا تعلق کسی بھی مذہب، دین ، قوم اور مسلک سے ہو۔چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو محترم و مکرم پیدا کیا ہے اِس لئے ہم پر لازم ہے کہ ہم ہر انسان کی عزت کریں ۔
رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے اگر کسی یہودی کا بھی جنازہ گزرتا تو آپ کھڑے ہوجاتے۔ اور پوچھنے پرفرماتے :’’ کیا یہ انسان نہیں ہے؟ گویا کہ رسول اللہﷺ کے نزدیک عزت کے لائق ہر انسان ہے۔رسول اللہﷺ اہلِ کتاب کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی نہ فرماتے بلکہ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا بھی تو اُسے معاف فرمادیتے۔ رسول اللہﷺ معاہد کے ساتھ ہمیشہ نرمی اور حُسنِ سلوک روارکھنے کی تلقین فرماتے اور حکم دیتے کہ کوئی کسی معاہد کو قتل نہ کرے ورنہ اُسے جنت کی خوشبو سے بھی محروم کر دیا جائے گا۔ آپ ﷺ اہلِ کتاب خصوصا یہود و نصاریٰ کے بچوں اور خواتین کے ساتھ نرمی کا حکم دیتے ۔ اور اگر کوئی یہودی اور عیسائی اسلام قبول کرتے تو آپ ﷺ اُنکے غیر مسلمین آقاؤں کے اموال کو فوراً واپس کرنے کا حکم دیتے جو بھی اُن کے پاس ہوتے ۔جیسا کہ غزوہِ خیبر کے موقع پر ایک غلام مسلمان ہوا تو اُسکے پاس خیبر والوں کی بکریاں تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے اُسے وہ بکریاں فورا قلعے کی طرف ہانکنے کا حکم دیا ۔ یہ رسول اللہﷺ کا عمدہ اخلاق تھا کہ آپ ﷺ حالتِ جنگ میں بھی غیر مسلمین کے اموال کو غصب کرنے کا کبھی نہ سوچتے ؛ کیونکہ یہ ظلم ہے اور اللہ کے انبیاء ظلم نہیں کرتے اور نہ ہی کسی کا مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں۔
حتیٰ کہ رسول اللہﷺ اپنے دشمنوں کو بھی معاف فرمادیتے جیسا کہ ذکر کیا کہ ایک کتابیہ عورت نے رسول اللہﷺ کو زہر دینے کی گھٹیا سازش کی اور رسول اللہﷺ کو اُس نے زہر کھلابھی دیا مگر رسول اللہﷺ نے اُس یہودی عورت کو معاف فرمادیا۔ حالانکہ در اصل وہ رسول اللہﷺ کو شہید کرنے کے ذہن سے آئی تھی۔ رسول اللہﷺ ہمہ وقت انسانیت سے پیار کرنے کا حکم دیتے اور ہر ایک سے اُنسیت و محبت کا درس دیتے۔ اور یہ بھی جائز نہیں کہ کسی شخص کو جبراً اور ظلماً مسلمان کیا جائے ، اسلام امن کا دین ہے اور امن سے ہی پھیلا ہے۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی اسلام پھیلا تو اپنے اخلاقِ حسنہ سے پھیلا ہے ۔جس طرح لوگ آج کل دھماکے اور بچوں کو قتل کر کے اسلام پھیلانے کو کوشش کرتے ہیں۔ ایسے کبھی اسلام نہیں پھیلے گا۔
ہر مسلم کا یہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ اللہ رب العزت نے عدل و انصاف اور اخلاقِ حمیدہ کو اپنانے کا حکم دیا ہے اور اخلاقِ رذیلہ سے رُکے رہنے کا حکم دیا ہے۔اللہ رب العزت ظلم وستم اور بداخلاقی کا حکم نہیں دیتا خواہ معاملہ کفار کے ساتھ ہو یا مسلمان کے ساتھ ۔ جیسا کہ قرآنِ حکیم میں بھی ارشادِ باری تعالیٰ کا خلاصہ ہے کہ ’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں اتنا نہ اُبھارے کہ تم عدل و انصاف سے ہی پھر جاؤ بلکہ فرمایا تم عدل کرو اور یہ خُدا ترسی کے زیادہ لائق ہے۔
کسی بھی اسلامی ریاست میں رہنے والی غیر مسلم اقلیت کو اسلام کی اصطلاح میں ذمی کہا جاتا ہے ۔ذمی کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ اللہ اُسکے رسول اور مسلمانوں کی پناہ میں آگئے ہیں ۔اب اُن کی حفاظت مسلمانوں کے پاس ہے اُن کی جان و مال و آبرو کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ نجران سے ایک عیسائی وفد حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی غرض سے مدینہ آیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس وقت عصر کی نماز سے فراغت کے بعد مسجد نبوی ہی میں تشریف فرماتھے۔اسی درمیان میں عیسائیوں کی عبادت کا وقت ہوگیا۔چنانچہ وہ عیسائی مسجد نبوی کے اندر اپنی عبادت کرنے لگے۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین انھیں روکنے کے لیے آگے بڑھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انھیں اپنی عبادت کرنے دو۔چنانچہ مسجد نبوی کےاندر ان عیسائیوں نے اپنی عبادت ادا کی۔ یہ رسول اللہﷺ کا اعلیٰ اخلاق تھا ۔ دُنیامیں جتنے بھی مذاہب پائے جاتے ہیں اُن میں انتہاء پسندی عروج پر ہے مگر اسلام امن کا گہوارہ ہے ۔
قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے عملی نمونوں کو دیکھ کر یہ سمجھنا کس قدر آسان ہے کہ اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور خاص کر ان غیر مسلموں کے ساتھ جو کسی اسلامی ملک میں اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔غور کریں کہ جب کسی اسلامی ملک میں غیر مسلم اقلیت کے ساتھ اچھے برتاؤ کی اتنی تاکید ہے تو کسی کافر ملک میں مسلم اقلیت کے لیے یہ بات کس قدراہم ہے کہ وہ غیر مسلم اکثریتی فرقہ کے ساتھ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ذرا سوچیں تو سہی کہ اگر ہم غیر مسلموں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کریں گے اور ان کے ساتھ بداخلاقی کا مظاہرہ کریں گے تو پھر ہم کس منہ سے غیر مسلموں سے کہہ سکیں گے کہ اسلام اچھے اخلاق کا حکم دیتا ہے۔اور اسلام بہت اچھا مذہب ہے ۔ہم کیسے انھیں اسلام کی طرف راغب کرسکیں گے۔ہماری بداخلاقی دیکھ کر تو وہ اور بھی ہم سے دور ہوجائیں گے،ہم سے نفرت کریں گے اور ہمارے دشمن بن جائیں گے اورآج کل یہی کچھ ہورہاہے۔
غزواتِ نبویہ ﷺ میں کفارو مشرکین کے ساتھ اخلاقِ حسنہ کے مظاہر
رسول اللہﷺ نہ صرف مسلمانوں بلکہ کفار و مشرکین کے ساتھ بھی حُسنِ سلوک کا مظاہرہ فرماتے۔حالتِ جنگ ہو یا امن ، ہر حال میں رسول اللہﷺ کفار و مشرکین کے ساتھ اخلاقِ حسنہ کے ساتھ پیش آتے۔ حضورﷺنے غیر مسلموں سے حسن سلوک رواداری اور ان کے حقوق کا تحفظ صرف عام حالات میں ہی نہیں کیا بلکہ جنگ کی حالت میں بھی اس کا عملی نمونہ پیش کرکے دکھایا جس میں آج بھی قومیں ہر طرح کی فریب دہی جائز سمجھتی ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے دشمن کو پسپا کرنے کا نہیں جانے دیتیں اس جنگی حالت میں بھی حضور نے حسن سلوک کی ایسی اعلیٰ مثالیں قائم کیں کہ انسانی عقل جنہیں دیکھ کے دنگ رہ جاتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ اپنے دشمن کفار و مشرکین کے بچوں کے ساتھ بھی پیار فرماتے، اُن کے بیماروں کی تیماداری کرتے، اُن کی خواتین کی حفاظت فرماتے، حالتِ جنگ میں بھی اپنے دشمنوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرتے۔ رسول اللہﷺ کی شدیدخواہش ہوتی کہ کفار کے لئے دعائے رحمت کی جائے ؛تاکہ وہ خدا کی توحید کی تبلیغ کا پیغام سُنیں، اور حقیقت کو سمجھیں ، اِسی لئے رسول اللہ ﷺ ہمیشہ کفار کے لئے دعا فرماتے۔ اب ذیل میں چند ایسی امثلہ پیش کی جارہی ہیں کہ جن میں رسول اللہﷺ کا کفار و مشرکین کے ساتھ حالتِ جنگ یا جنگ کے زمانہ میں حُسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا گیا۔
حضرت دعثور کے قبول ِ اسلام کاواقعہ
جب رسول اللہﷺ غزوہِ ذی امر یا غزوہِ غطفان کے لئے تشریف لے کر جا رہے تھے تو اُس وقت بنو ثعلبہ اور بنو محارب کی فوج کا سپہ سالار نجد کا مشہور بہادر دعثور بن حارث محاربی 450 افراد کا لشکر لے کر پہاڑوں میں چھپ گیا اورحضور ﷺایک درخت کے نیچے لیٹ کر اپنے کپڑے سکھانے لگے۔ پہاڑ کی بلندی سے کافروں نے دیکھ لیا کہ آپ بالکل اکیلے اور اپنے اصحاب سے دور ہیں، ایک دم دعثور بجلی کی طرح پہاڑ سے اتر کر ننگی شمشیر ہاتھ میں لیے ہوئے آیااور حضور ﷺ کے سرِ انور پر ۰تلوار بلند کرکے بولا کہ:’’ بتائیے اب کون ہے جو آپ کو مجھ سے بچا لے؟ آپ ﷺنے جواب دیا :’’کہ میرا اﷲ مجھ کو بچا لے گا‘‘۔ تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی اور دعثور کانپنے لگ گیا۔ رسول اﷲﷺ نے فوراً تلوار اٹھا لی اور فرمایا :’’کہ بول اب تجھ کومیری تلوار سے کون بچائے گا؟ دعثور نے کانپتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا:’’ کہ کوئی نہیں‘‘۔ رحمۃ للعالمینﷺ کو اس کی بے کسی پر رحم آ گیااور آپ نے اس کا قصور معاف فرما دیا۔ دعثور اس اخلاقِ نبوت سے بے حد متاثرہوااور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیااور اپنی قوم میں آ کر اسلام کی تبلیغ کرنے لگا۔[8]
یہ رسول اللہﷺ کا ایک غیر مسلم سپہ سالار کے ساتھ حُسنِ سلوک تھا کہ جب اُسے تلوار بے نیام رسول اللہﷺ کی گردن پر رکھ دی تھی گویا اب اُسکا خون حلال ہوگیا تھا مگر تاجدارِ انبیاء ﷺنے اُسے معاف فرمادیا، اور نتیجہ یہ نکلا کہ دعثور کہ جو ایک وقت میں کفار کی فوج کا سالار تھا، کلمہ پڑھ کر دائرہِ اسلام میں داخل ہو کر تبلیغِ اسلام میں لگ گیا اور یوں دعثور سے حضرت دعثور رضی اللہ تعالیٰ عنہ پکارا جانے لگا، اور اِس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر وقت ہر شخص کو اللہ رب العزت کی ذات پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور اپنے مشکلات میں اُسے ہی یاد کرنا چاہئے، تاکہ ہر مصبیت سے چھٹکارا پایا جا سکے۔ اور یہ ایمان کا بلند ترین مقام ہے۔
کفار کے لئے دعائے ہلاکت نہ کرنا
رسول اللہﷺ کو اللہ رب العزت نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانیت کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا آپ ﷺ اپنے دشمنوں کے لئے دعائے ہلاکت نہ فرماتے جبکہ اِسکے برعکس اگر دوسرے انبیائے کرام کو دیکھا جائے تو جب وہ اپنی قوم کے ظلم و ستم سے تنگ آتے یا تو اُنہیں چھوڑ کر چلے جاتے جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام نے کیا یا پھر اپنی قوم کی تباہی و بربادی کی دعا کر دیتے جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے کیا کہ آپ نے اپنی قوم سے تنگ آکر اُن کی ہلاکت کی دعا کی جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے: ﴿وَقَالَ نُوحٌ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا﴾9’’ اور نوح نے کہا اے اللہ ! زمین پر کسی کافر کے گھر کو مت چھوڑ‘‘ یعنی اُنہیں تباہ وبرباد فرما ۔ جبکہ رسول اللہﷺ ایسا نہ فرماتے بلکہ کفار کی ہدایت کی دعا فرماتے اور فرماتے اے صحابہ مجھے اِن کفار کی نسل سے فرماں بردار نظر آرہےہیں۔ چنانچہ مام ترمذی(متوفی 279ھ) اپنی سُنن میں لکھتے ہیں:
’’ عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ أَخْرَقَتْنَا نِبَالُ ثَقِيفٍ فَادْعُ اللَّهَ عَلَيْهِمْ. قَالَ: ((اللَّهُمَّ اهْدِ ثَقِيفًا))[10].
’’حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا:’’ یا رسول اللہﷺ ! قبیلہ بنو ثقیف کے تیروں نے ہمیں چھلنی کر دیا ہے ، آپ اُن کے لئے دعائے ہلاکت فرمائیں، تو رسول اللہﷺ نے یوں دعا فرمائی:’’ اے اللہ ! تو ثقیف کو ہدایت عطا فرما‘‘۔
یہ واقعہ غزوہِ طائف میں محاصرہ کے دوران پیش آیا، لیکن رسول اللہﷺ نے بجائے اُن کی ہلاکت کے اُن کے اسلام میں داخل ہونے کے لئے اللہ کی بارگاہ میں دعا فرمائی۔ یہ رسول اللہﷺ کا اعلیٰ اخلاقی نمونہ تھا جہاں پر بنو ثقیف کی وجہ سے کئی مسلمان زخمی ہوگئے اور شہید بھی ہوگئے وہیں پر رسول اللہﷺ کی رحمت و محبت جوش ماررہی تھی اور آپ ﷺ اِن کفار کو معاف فرما رہے تھے۔ اور اُن کی اسلام میں شمولیت کی دعا کر ررہے تھے۔ کیونکہ اللہ کا نبی لوگوں کو مارنے مروانے کے لئے نہیں آتا بلکہ اُنہیں جہنم سے بچانے کے لئے آتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کفار کے خلاف دعا ئے ہلاکت کرنے سے بچتے اور اگر آپ سے کہا جاتا کہ آپ اُن کے خلاف دعائےہلاکت کریں تو آپ ﷺ فرماتے :’’ مجھے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے نہ کہ لعنت بھیجنے والا چنانچہ اما م مسلم حدیث ذکر کرتے ہیں:
’’ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، اُدْعُ عَلَی الْمُشْرِکِيْنَ، قَالَ: ((إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً))[11]
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا: (یا رسول اللہ!) مشرکین کے خلاف دعائے ہلاکت کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ مجھے لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا گیا، مجھے تو صرف (سراپا) رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔
کس طرح خوبصورت انداز میں رسول اللہﷺ نے صحابہِ کرام کو دعائے ہلاکت کرنے سے منع فرمادیا کہ مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ سراپا رحمت اور شفقت بنا کر مبعوث کیا گیا ہے، جس کی شان ہی رحمت وشفقت ہو وہ بھلا کیسے دعائے ہلاکت کے لئے ہا تھ بلند کر سکتا ہے اور اگر کہیں پر رسول اللہﷺ نے دعائےہلاکت کی تو وہ بحکمِ خداوندی تھا جو کہ وحی کے ذریعے سے آپ ﷺ کو حکم دیا گیا تھا۔ اِنہی اخلاقیات کا نتیجہ ہے اور اخلاص کا فیض ہے کہ جان کے دشمن بھی نسل در نسل آپ ﷺکی غلامی میں آگئے۔
کفار کو حالتِ جنگ میں پانی فراہم کرنا
رسول اللہﷺ نہ صرف حالتِ امن میں بلکہ حالتِ جنگ میں بھی اپنے دشمنوں کے ساتھ نرمی کا سلوک رکھتے، اگر اُنہیں کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو آپ ﷺ اُنہیں پیش فرماتے، چنانچہ جب غزوہ ِ بدر کے موقع پر کفار کے پاس پانی نہیں تھا تو رسول اللہﷺ کے قبضہ میں موجود کنویں سے اگر کفار پانی لینا چاہتے تو رسول اللہﷺ اُنہیں پانی عطا فرماتے جیسا کہ ابن ہشام اپنی سیرت میں لکھتے ہیں:’’کہ جب جنگِ بدر کے موقع پر رسول اللہﷺ کا لشکر پانی کے پڑاؤپر تھا تو اگر دشمن کے لوگ پانی لینے آتے تو آپ ﷺ اُنہیں اجازت دے دیتے اور وہ پانی لے کر واپس چلے جاتے‘‘[12]۔
تاجدارِ انبیاء خاتم النبین ﷺ دشمن سے اگر لڑتے تو اللہ کی رضا کے لئے لڑتے ، کبھی اپنے نفس کے لئے لڑائی نہیں کی اور نہ ہی تلوار کو نکالا۔اگر دشمن بھوکا ہوتا تو آپ ﷺ اُنہیں کھانا عطا فرماتے ، اگر وہ پیاسا ہوتاتو اُسے پانی دیا جاتا۔ کتنےغیر مسلم صرف رسول اللہﷺ کااعلیٰ اخلاق ہی دیکھ کر کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوجاتے۔ جنگ میں عمومی حالات کی بنسبت حالتِ غضب میں سخت اور کئی ناجائز اُمور بھی جائز سمجھے جاتے ہیں لیکن سراپارحمت نبی ﷺ نے حالتِ جنگ میں اپنی کرم نوازیوں میں اضافہ فرمایا اور اِس طرح دشمنوں کے دل جیت لئے۔
حالتِ جنگ میں مثلہ سے منع کرنا
رسول اللہﷺ اپنے اصحاب کو ہمیشہ مثلہ کرنے سے منع فرماتے جبکہ اہلِ عرب میں مثلہ کرنے کو باعثِ افتخار سمجھا جاتا تھا ۔ علامہ ابنِ اثیر جزری (متوفی 606ھ) لکھتے ہیں:
’’ومثلةٌ بالقتيلِ، إذا جدعت أنفُهُ، أو أذنُهُ، أو مذاكيرهُ، أو شيئاً من أطرافِه‘‘13
’’مقتول کو مثلہ کرنے سے مُراد اُسکا ناک، کان یااُسکے اعضائے جنسی یا جس کے کی حصے کو کاٹنا’’ مثلہ‘‘ کہلاتا ہے‘‘۔
عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((اغْزُوا بِاسْمِ اللهِ، وَفِي سَبِيلِ اللهِ، وَقَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، اغْزُوا وَلاَ تَغْدِرُوا، وَلاَ تَغُلُّوا، وَلاَ تُمَثِّلُوا ...))[14]
حضرت سلیمان بن بُریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ خدا کے نام پر خدا کی راہ میں جہاد کرو خدا کے منکروں سے اور نہ مثلہ کرو نہ بدعہدی نہ خیانت ‘‘۔
اہلِ عرب کے نزدیک یہ عام تھا کہ حالتِ جنگ میں غصہ کی بناء پر اپنےمخالف کو قتل کرنے کے بعد اُسکےجسمانی اعضاء کاٹ دئیے جاتے جیسا کہ حضرت سیدنا امیرِ حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بدتر سلوک کیا گیا، تو رسول اللہﷺ نے اپنے پیروکاروں کو اِس سے سختی سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’وَلاَ تُمَثِّلُوا‘‘کہ مثلہ نہ کرنا ، یعنی کسی دشمن کو یاتو قتل کر دینایا معاف کردینا اِسکے برعکس اِسکے جسمانی اعضاء کو تکلیف مت دینا۔اِس طرح رسول اللہﷺ نے کفار کے مُردوں کا بھی خیال رکھا اور اُن کی شکل بگاڑنے سے منع فرمادیا۔
عبد الرحمٰن مبارکپوری مذکورہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"وكره أهل العلم المثلة" أي حرموها فالمراد بالكراهة التحريم وقد عرفت في المقدمة أن السلف رحمهم الله يطلقون الكراهة ويريدون بها الحرمة‘‘.[15] کہ اہلِ علم نے مثلہ کرنے کو مکروہ کہا ہے یعنی اُن کے نزدیک یہ مکروہِ تحریمی ہے جو حرام ہے اور میں نے مقدمہ میں دیکھا کہ اسلاف رحمہم اللہ مثلہ کرنے پر مکروہ کا اطلاق کرتے مگر اِس سے مُراد حرمت لیتے۔ تو معلوم ہوا کہ علماء و محدثین کے نزدیل مثلہ کرنا حرام ہے ۔ اور اِسکی حرمت نبی خاتم النبین ﷺ کے حکم اور عمل سے مستفاذ ہے۔
کفار کے بچوں خواتین اور بوڑھوں کو قتل کرنے سے منع کرنا
رسول اللہ ﷺ ہمیشہ بڑوں کو احترام دیتے اور چھوٹوں پر شفقت فرماتے ، جنگ پر جاتے ہوئے خاتم المرسلین ﷺ ہمیشہ اپنے اصحاب کو نصیحت فرماتے کہ کفار کے چھوٹے بچوں ، خواتین اور بوڑھوں کا خاص خیال رکھا جائے ، وہ چھوٹے بچے، خواتین اور بوڑھے کہ جو نہ جنگ کر سکیں اور نہ ہی ہتھیار اُٹھاکر میدان میں آئیں تو اُنہیں نہ قتل کرنا۔ چنانچہ امام مسلم اور امام ابو داود اپنی حدیث کی کُتب میں ایک طویل حدیث ذکرکرتے ہیں جس میں سے یہ بھی الفاظ ہیں((ولاَ تقتُلُوا وَلِيداً))[16]ابو داو‘د کے الفاظ ((وَلَا تَقْتُلُوا شَيْخًا فَانِيًا وَلَا طِفْلًا وَلَا صَغِيرًا وَلَا امْرَأَةً))[17]یعنی رسول اللہﷺ فرماتے:’’ چھوٹے بچے کو قتل نہ کرنا، شیخ ِ فانی(بوڑھے شخص ) کو قتل نہ کرنا، اور نہ ہی طفل(دودھ پیتے بچے) کو اور نہ چھوٹے بچے کواور نہ ہی کسی عورت کو۔
کیونکہ عموما ایسا ہی ہوتا ہے کہ ایسے بچے ، بوڑھے اور خواتین جنگ نہیں کرتیں، بلکہ یہ اپنے بڑوں کے یا اپنے سرداروں کے ماتحت آتے ہیں۔ بچے اِس لئے کہ جنگ کے مکلف نہیں ہوتے ، خواتین اور بوڑھے کمزور جسم کے مالک ہوتے ہیں۔ رسول اللہﷺ کو اگر معلوم ہوتا کہ کسی نے بچوں کو قتل کیا تو آپﷺ اِس پر غضب فرماتے چنانچہ حدیثِ نبوی میں ہے:
’’عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ سَرِيْعٍ رضي الله عنه قَالَ: کُنَّا فِي غَزَاة فَأَصَبْنَا ظَفَرًا وَقَتَلْنَا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ حَتّٰی بَلَغَ بِهِمُ الْقَتْلُ إِلٰی أَنْ قَتَلُوْا الذُّرِّيَةَ فَبَلَغَ ذَالِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: ((مَا بَالُ أَقْوَامٍ بَلَغَ بِهِمُ الْقَتْلُ إِلٰی أَنْ قَتَلُوْا الذَّرِيَةَ أَ لَا لَا تَقْتُلُنَّ ذُرِّيَةً أَ لَا لَا تَقْتُلَنَّ ذُرِّيَةً قِيْلَ: لِمَ يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَلَيْسَ هُمْ أَوْلَادُ الْمُشْرِکِيْنَ؟ قَالَ: أَوَ لَيْسَ خِيَارُکُمْ أَوْلَادَ الْمُشْرِکِيْنَ))‘‘.
’حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں شریک تھے (ہم لڑتے رہے یہاں تک) کہ ہمیں غلبہ حاصل ہوگیا اور ہم نے مشرکوں کو (خوب) قتل کیا حتی کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگوں نے (بعض) بچوں کو بھی قتل کر ڈالا۔ یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جن کے قتل کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے بچوں تک کو قتل کر ڈالا۔ خبردار! بچوں کو ہرگز ہرگز قتل نہ کرو، خبردار! بچوں کو ہرگز ہرگز قتل نہ کرو، عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کیوں؟ کیا وہ مشرکوں کے بچے نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے جو (آج) بہتر لوگ ہیں (کل) یہ بھی مشرکوں کے بچے نہیں تھے؟‘‘۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا :یارسول اللہﷺ! ’’إِنَّمَا هُمْ أَبْنَاءُ الْمُشْرِکِيْنَ، فَقَالَ: ((خِيَارُکُمْ أَبْنَاءُ الْمُشْرِکِيْنَ، أَ لَا، لَا تُقْتَلُ الذُّرِّيَةُ، کُلُّ نَسَمَة تُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ، حَتّٰی يُعْرِبَ عَنْهَا لِسَانُهَا، فَأَبَوَاهَا يُهَوِّدَانِهَا وَيُنَصِّرَانِهَا))‘‘.
وہ مشرکین کے بچے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے بہترین لوگ بھی تو مشرکین کے بچے ہیں (یعنی اُن کے والدین مشرک تھے)۔ خبردار! بچوں کو جنگ کے دوران قتل نہ کیا جائے ہر جان فطرت پر پیدا ہوتی ہے یہاں تک کہ اُس کی زبان اُس کی فطرت کا اظہار نہ کردے، پھر اُس کے والدین اُسے یہودی یا نصرانی بناتے ہیں۔‘‘
اِن احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺکفار ومشرکین کے بچوں کو قتل کرنے سے منع فرماتے ، اور اگر کوئی مزاحمت کرنے کی کوشش کرتا تو آپﷺ اُسے یہ فرماتے:’’ کیا تم میں سے بہترین جو لوگ ہیں وہ مشرکین کے بچے نہ تھے جیسا کہ حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر اصحابِ رسول کہ اُن کے والد یا والدین مشرک تھے۔ تو اِس لئے رسول اللہﷺ اِس سے سختی سے منع فرمادیتے۔ اور فرماتے :’’بچوں کا کوئی گناہ یا قصور نہیں ہے، ہر بچہ تو فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہ اُنکے والدین کا جرم ہے کہ اُسے وہ یہودی یا عیسائی بنادیں۔
حتیٰ کہ ایک مرتبہ ایک مشرک عورت کو جب قتل کردیا گیا تو رسول اللہﷺ نے سختی سے منع فرمایا چنانچہ حدیث میں ہے:
’’ عَنْ رَبَاحِ بْنِ رَبِيْعٍ رضي الله عنه قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي غَزْوَة، فَرَأَی النَّاسَ مُجْتَمِعِيْنَ عَلٰی شَيئٍ، فَبَعَثَ رَجُـلًا فَقَالَ: انْظُرْ عَـلَامَ اجْتَمَعَ هٰـوُلَاءِ؟ فَجَاءَ فَقَالَ: عَلَی امْرَأَة قَتِيْلٍ، فَقَالَ: ((مَا کَانَتْ هٰذِه لِتُقَاتِلَ، قَالَ: وَعَلَی الْمُقَدِّمَةِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيْدِ، فَبَعَثَ رَجُـلًا فَقَالَ: قُلْ لِخَالِدٍ: لَا يَقْتُلَنَّ امْرَأَةً وَلَا عَسِيْفًا)). وفي رواية: ((لَا تَقْتُلَنَّ ذُرِّيَةً وَلَا عَسِيْفًا))[18].
’’حضرت رباح بن ربیع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک غزوہ میں ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا بہت سے لوگ کسی چیز کے پاس جمع ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو یہ دیکھنے کے لئے بھیجا کہ لوگ کس چیز کے پاس جمع ہوئے ہیں۔ اُس نے آکر بتایا: ’’ایک مقتول عورت کے پاس‘‘تو فرمایا:’’ یہ تو جنگ نہیں کرتی تھی‘‘۔ حضرت رباح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اگلے دستے کے کمانڈر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا:’’ خالد سے کہنا:’’ (مشرکین کی) عورتوں اور خدمت کرنے والوں کو ہرگز ہرگز قتل نہ کرو‘‘ ایک روایت میں ہے: ’’بچوں اور خدمت گاروں کو ہرگز ہرگز قتل نہ کرو‘‘۔
کس خوبصورت انداز میں رسول اللہﷺ نے حکمت واضح فرمادی کہ یہ عورت قتال تو نہیں کرتی تھی، پھر کیوں اِسے قتل کر دیا گیا؟ اورجب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کمانڈ میں ایک لشکر جانے لگا تو رسول اللہﷺ نے اُنہیں خوب تاکید فرمائی کہ کسی مشرکہ عورت کو قتل نہ کرنا اور نہ ہی غلاموں اور بچوں کو۔ اِس سے رسول اللہﷺ کا حُسنِ سلوک واضح ہوگیا کہ آپﷺ بچوں، خواتین اور غلاموں کوقتل کرنے کے خلاف تھے، کیونکہ یہ لاچار ہوتے ہیں جبکہ تلوار ظالم کے خلاف بلندکی جاتی ہے۔
حالتِ جنگ میں امن کا اعلان کرنا
جب بھی کوئی طاقت والی قوم کسی دوسری قوم پر چڑھائی کرتی ہے تو وہ اُس دن کسی کو معاف نہیں کرتی کیونکہ اُس دن اُن کے پاس طاقت ہوتی ہے، وہ بچوں، خواتین، بوڑھے حتیٰ کہ درخت اور جانوروں کو بھی جلا دیتے ہیں، ہمارے سامنے ہلاکو خان اور چنگیز خان کی مثالیں موجود ہیں کہ جنہوں نے بغداد میں خون کی وادیاں بہا دیں اور بغیر کسی وجہ سے مسلمانوں کا خون بہادیا۔ اِسکے برعکس رسول اللہ ﷺ جب اپنی مکمل طاقت کے ساتھ مکۃ المکرمہ میں داخل ہوتے ہیں تو اُس وقت رسول اللہﷺ نے سوائے چند ایک گستاخ کے سب کو معاف فرمادیا۔
چنانچہ اِس ضمن میں امام مسلم اپنی صحیح میں لکھتے ہیں:
’’ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم (في يوم فتح مکة): مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ أمِنٌ، وَمَنْ أَلْقَی السِّلَاحَ فَهُوَ أمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَه فَهُوَ أمِنٌ‘‘[19].
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اُسے امان حاصل ہے، جو شخص ہتھیار پھینک دے اُسے امان حاصل ہے، جو شخص اپنے گھر کے دروازے بند کر لے اُسے امان حاصل ہے‘‘۔
یہ رسول اللہﷺ کا ابو سفیان کے دل کو سکون دینے اور اُن کی عزت کو مزید بڑھانے کے لئے ایسا اقدام تھا کہ جو بھی ابو سفیان کے گھر داخل ہو جائے گا وہ امن پا جائے گا۔اور یہ رسول اللہﷺ کا خاص منہج تھا کہ جو آپ ﷺ کو زیادہ تکلیف دیتا تو آپ ﷺ اُسکے ساتھ حُسنِ سلوک کا بھی زیادہ اہتمام فرماتے، اور پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ جو شخص اپنا اسلحہ پھینک دے گا اور اپنا دروازہ بند کر لے گا وہ بھی امن پا جائے گا اور ایسا ہی ہوا جس جس نے مزاحمت کی جیسا کہ عکرمہ کی قیامت میں ایک لشکر نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مزاحمت کی تو چندکفار واصلِ جہنم ہوگئےاور جو جو مزاحمت سے بچ گیا وہ نجات پاگیا۔ یہ رسول اللہﷺ کا حُسنِ اخلاق ہی تو تھا کہ ابو سفیان کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور حضرت عکرمہ بھی ، اور کئی کفار اسلام میں داخل ہوگئے۔
اور یہ رسول اللہﷺ کا اعلیٰ اخلاقی نمونہ ہی تو تھا کہ آپﷺ نے عام امن کا اعلان کردیا اور ہر ایک کو معاف فرمادیا، جبکہ رسول اللہﷺ کے جانی دشمن، آپ ﷺ کو مکہ سے نکال دینے والے دشمن حتیٰ کہ کئی ایک غزوات میں رسول اللہﷺ کے مد مقابل اور کئی صحابہ وصحابیات کے قاتل لوگ وہاں موجود تھے مگر رحمۃ اللعالمین نبی نے سب کو معاف فرمادیا۔
کفار کے املاک کو نقصان پہنچانے سے منع فرمانا
اسلام میں جہاں پر اُن لوگوں کو قتل کرنا جائز نہیں کہ جو جنگ نہ کریں تو وہی پر کفار کے املاک یعنی اُن کے درخت اور اُن کے جانور اور اُن کی عمارات کو بھی نقصان پہنچانا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے جب غزوہ ِ موتہ کے لئے تیس ہزار کا لشکرِ جرار تیار کروایا تو اُن کو اپنی وصیت فرماتے ہوئے چند چیزوں سے منع فرمایا کہ بچوں کو قتل نہ کرنا، درختوں کو مٹ کاٹنا، اُن کی عمارات کو منہدم مت کرنا چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((اغزوا باسمِ اللهِ فقاتلوا عدوَ اللهِ وعدوَكم بالشامِ، وستجدون فيها رجالاً في الصوامعِ معتزلينَ فلا تتعرضوا لهم، ولا تقتلوا امرأةً ولا صغيراً ولا بصيراً فانياً، ولا تقطعوا شجراً ولا تهدموا بناءً))[20]
کہ اللہ کے نام سے اللہ کے دشمنوں سے شام میں لڑو،عنقریب تمہیں وہاں پر چرچ میں کچھ لوگ ملیں گے جو جنگ سے اعراض کئے ہوئے ہوں گے تم اُن کے درپے مت ہونا، کسی عورت، چھوٹے بچے اور بوڑھے کو قتل مت کرنا، اور نہ ہی کسی درخت کو کاٹنا اور نہ ہی کوئی عمارت منہدم کرنا۔
کیا ہی خوبصورت وصیت فرمائی رسول اللہﷺ نے ، اور کتنی عظیم جوامع الکلم ارشاد فرمائے چودہ سو سال بعد بھی جنرل اسمبلی نے یہی جنگ کے قوانین رکھیں ہیں کہ جنگ میں بچوں، بوڑھے ، خواتین، علماء وصوفیاء کو قتل نہ کیا جائے اور نہ ہی درختوں کو کاٹا جائے اور نہ ہی کسی عمارت کو تباہ کیا جائے۔ املاک کی حفاظت کرنا رسول اللہﷺ کا اہم فریضہ ہوتا تھا؛ کیونکہ جس جگہ کو جنگ سے جیتا جاتا وہاں کی عمارات اور درخت بھی مسلمانوں کے ہی حصہ میں آتے ۔ اِس لئے رسول اللہﷺ کفار کے املاک کو نقصان پہنچانے سے منع کرتے۔ حتیٰ کہ اُن کے علماء کو بھی منع کرتے کیونکہ اللہ جب اُنہیں حقیقت سے آشنا کرتا تو وہ بھی اسلام قبول کر لیتے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے کہ وہ یہود کے ایک بہت بڑے عالم تھے مگر اسلام کی حقانیت کو جان گئے اور اسلام میں آگئے۔
رسول اللہ ﷺ ہر حال میں کفار و مشرکین کے ساتھ بھی حُسنِ سلوک کو روا رکھتے ، کبھی کسی غیر مسلم پر ظلم نہ کرتے اور نہ ہی زیادتی کرتے اور نہ ہی کسی غیر مسلم کا مال ناحق طور پر استعمال کرتے ۔ بلکہ جس طرح آپ ﷺ مسلمین کے لئے رحمت تھے ایسے ہی کفار کے لئے بھی آپﷺ رحمت تھے۔ اِسی لئے حضرت دعثور جب بنو ثعلبہ کے سپہ سالارتھے اور رسول اللہﷺ کے سامنے تلوار بے نیام لے کر آئے اورکہا کہ یارسول اللہ! اب آپ کو کون مجھ سے بچائے گا تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ‘‘ تو اُن کے ہاتھ سے تلوار گر گئی تورسول اللہﷺ نے تلوار کو اُٹھاتے ہوئے فرمایا:’’دعثور ! اب تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟ تو خیر وہی دعثور جو ایک وقت میں کفار کی فوج کا سپہ سالار تھا تو رسول اللہﷺ کے اعلیٰ اخلاق کو دیکھ کر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔
رسول اللہﷺ کفار کے ظلم کے خلاف اُن کے لئے دعائے ہلاکت نہ فرماتے ۔ حتیٰ کہ آپ ﷺ کو لہوولہان کر دیا جاتا مگر آپ ﷺ اُن کے لئے ہدایت کی ہی دعا فرماتے اور صحابہِ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو فرماتے :’’ مجھے اِن کفار کی نسل سے فرماں بردار نظر آرہے ہیں‘‘۔ طائف والوں اور مکہ والوں نے کیا کیا ظلم نہ کئے تھے رسول اللہﷺ پر مگرخاتم النبین ﷺ نے فتحِ مکہ کے موقع پر اُن سب کو معاف فرمادیا۔ اور نہ صرف معاف فرمایا بلکہ امن بھی عطا فرمایا۔ اور رسول اللہﷺ کفار کو لعن طعن کرنے سے بچتے اور صحابہ کو بھی حکم دیتے ۔اور فرماتے :’’ مجھے تو اللہ نے رحمت بنا کر بھیجا ہے نہ کہ لعنت کرنے والا بنا کر۔
رسول اللہﷺ کفار کے خلاف تلوار کبھی اپنی ذات کے لئے نہ نکالتے بلکہ آپ کا مقصد احیائے کلمۃ اللہ ہوتا اور احیائے دینِ متین ہوتا، حالتِ جنگ میں اگر کسی غیر مسلم کو پانی کی ضرورت ہوتی تو آپ ﷺ اُنہیں پانی عطا فرماتے جیسا کہ غزوہِ بدر میں ہوا کہ دشمن کے لوگ پانی لینے آتے تو رسول اللہﷺا ُنہیں پانی عطا فرما دیتے ۔ جنگ کے دوران کفار کی اشکال کو بگاڑنے سے منع کرتے اور کفار کے بچوں، خواتین اور بوڑھو ں کو بھی قتل کرنے سے روکتے ۔رسول اللہ ﷺ سختی سے منع فرماتے کہ کفار کے املاک، اُنکی عبادت گاہوں ، اُنکی کھیتی باڑی اور جانوروں کو بھی حالتِ جنگ میں نقصان نہ پہنچایا جائے۔ حتیٰ کہ کفار کے بچوں کے قتل کرنے سے متعلق کسی صحابی نے عرض کیا:’’حضور! یہ بھی تو کفار کے بچے ہیں اِنہیں بھی قتل کردینا چاہئے ‘‘ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’تم بھی تو کفار کی ہی اُولاد تھے‘‘۔
’’ غزواتِ نبویہ ﷺ میں قیدیوں کے ساتھ اخلاقِ حسنہ کے مظاہر‘‘
زمانہِ جاہلیت میں قیدیوں کے ساتھ نازیبا سلوک کیا جاتا، اُن پر طرح طرح کے عجیب و غریب قسم کے مظالم ڈھائے جاتے ، اُنہیں معاشرہ کا سب سے کمزورطبقہ سمجھا جاتا تھا ۔ غلاموں کے چہروں پر مارا جاتا، اُن کے لئے جینے کے لئے کچھ نہ ہوتا بس وہ مرنے کے لئے ہی پیدا ہوتے یہ تصور عام تھا۔ اتنے میں رحمتِ دو عالم حضرت محمد ﷺ کا ظہور ہوا تو جہاں پر آپ نےآزاد والدین، اولاد، رشتہ دار، بیوی اور بچوں کو حقوق عطا فرمائے، وہاں پر آپ ﷺ نے اسیروں اور قیدیوں کو بھی حقوق عطا فرمائے۔ آپ دیکھ لیں آج کے دور میں کس طرح غیر مسلمین مسلمانوں کے قیدیوں کے ساتھ بُرا سلوک کر رہے ہیں، کشمیر، برمہ، انڈیا، فلسطین، شام اور عراق کے قیدیوں کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ کہیں تو مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے اور کہیں اُن کی خواتین کے ساتھ ظلم وزیادتی، کہیں مسلمان بچوں کو تعلیم سے دور رکھا جا رہا ہے تو کہیں علاج سے ۔ کیا کچھ نہیں ہو رہا ہے مسلم اقوام کے ساتھ مگر دوسری طرف کیا رسول اللہ ﷺ آج سے چودہ برس قبل قیدیوں پر ظلم و ستم کرنے پر قادر نہ تھے؟ کیا رسول اللہﷺ کفار کی نسل کشی کرنے پر قادر نہ تھے؟یہ سب ممکن تھا اور علاج بھی مگر آپ ﷺ نے ایسا کرنے سے صحابہ کو بھی منع کیا اور ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی کہ جناب رسول اللہﷺ نے قیدیوں کے ساتھ ظلم و ستم کیا ہو، اِسکی اجازت دی ہویا اِسے سراہا ہو۔ ذیل میں چند امثلہ ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ قیدیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا حکم
امام طبرانی (متوفی 360ھ) لکھتے ہیں: ’’ جنگِ بدر میں جب کفار کو قیدی بنا کر رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے صحابہ کو حکم فرمایا کہ اِن قیدیوں کے ساتھ حُسن ِ سلوک کا مظاہر کیا جائے اور اِن کے ساتھ اکرام (Respect)کے ساتھ پیش آیا جائے‘‘[21]۔
یعنی صرف اِس لئے اُن پر ہر طرح کی بدسلوکی نہ کی جائے کہ یہ دشمن ہیں اور قیدی بھی بلکہ دشمن ہو اور قید میں بھی تو وہ انسانیت سے نہیں نکلتا تو اُسے اُس کے انسانی حقوق بہر حال دے جائیں گے اور اُسکی انسانیت کی توہین نہیں کی جائے گی۔
قیدیوں کے طعام و لباس کا اعلیٰ انتظام
قیدیوں کے اعلیٰ طعام و قیام اور لباس کا اہتما م کرنا اِس سے پہلے شعور نہ تھا بلکہ اُن کے تو یہ حقوق سلب کئے جاتے ہیں لیکن رحمتِ دو عالم ﷺ نے اُن کو بھی تمام بنیادی حقوق دئیے اور رسول اللہ ﷺ نے جب اپنے اصحاب کو قیدیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا حکم دیا تو صحابہ نے اُس حکم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے خود اپنے اپنے گھروں سے اُن کےلئے کھانوں کا بندو بست کیا اور اُن کے لئے کھانے لے کر آئے ‘‘[22]۔
اور رسول اللہﷺ نے قیدیوں کی جہاں پر خوراک کا خیال رکھا وہاں پر ہی آپ ﷺ نے اُن کے لباس کو بھی مدِ نظر رکھا ، چنانچہ جب ہوازن کے قیدی دربارِ مصطفیٰﷺ میں لائے گے تو آپ ﷺ نے اُن کے لئے عمدہ کپڑے خریدنے کا حکم فرمایا اور پھر وہ کپڑے اُن قیدیوں کو زیبِ تن کیے گئے ‘‘[23]۔
یہ رسول اللہﷺ کا اخلاقِ حسنہ ہی تھا ورنہ اُس دور میں جہاں پر آدمی کو خود کے لئے پہننے کو کپڑے آسانی سے میسر نہیں ہوتے تھے دوسروں کو اور وہ بھی قیدی کو اعلیٰ لباس دینا کیسے روا ہو سکتا تھا ، مگر آقا علیہ السلام قیدیوں کو اچھے اچھےاور عمدہ لباس عطا کرتے تھے ۔ اور اُن کی عزتِ نفس کا خیال رکھتے تھے اوریہ رسول اللہﷺ کا حُسنِ اخلاق تھا جس نے اُن کو اسلام کے ساتھ مانوس کیا اور پھر وہ لوگ ہمیشہ کے لئے اسلام کا طوق ِ غلامی گلے میں ڈال کر دُنیا او رآخرت کی قید سے آزاد ہوگئے۔ ایسے ہی امام بخاری (متوفی256ھ) علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب الجامع الصحیح میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں رسول اللہﷺ کا قیدیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک واضح ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی قیدی بن کرا ٓئے تو اُس کی عزتِ نفس کا پورا خیال رکھا جائے ۔
’’لَمَّا كَانَ يَوْمَ بَدْرٍ أُتِيَ بِأُسَارَى، وَأُتِيَ بِالعَبَّاسِ وَلَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ ثَوْبٌ، ((فَنَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ قَمِيصًا، فَوَجَدُوا قَمِيصَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ يَقْدُرُ عَلَيْهِ، فَكَسَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهُ، فَلِذَلِكَ نَزَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَمِيصَهُ الَّذِي أَلْبَسَهُ))[24]۔
’’جب بدر کے دن قیدیوں کو دربارِ گوہر بار میں لایاگیا تو اُن میں (رسول اللہﷺ کے چچا ) حضرت عباس بھی تھے اور اُن پر کوئی کپڑا نہیں تھا پس رسول اللہﷺ نے اُن کے لئے عبد اللہ بن اُبی(رئیس المنافقین) سے قمیض لے لی (کیونکہ وہ قدمیں اُن کے برابر تھا ) اور وہ حضرت عباس کو پہنا دی ، پس اِسی لئے رسول اللہﷺ نے عبد اللہ بن اُبی کو حالتِ نزع میں اپنی قمیض پہنائی تھی‘‘۔(تاکہ احسان اِس دُنیا میں اُتر جائے)
یہ رسول اللہﷺ کا قیدیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا مظاہرہ تھا کہ حضرت عباس کے پاس عمدہ لباس نہ تھا تو آپ نے اُن کے لئے عمدہ لباس کودیکھا آپ طویل القامت تھے ، کسی کا لباس آپ کو پورا نہ آیا تو عبد اللہ بن اُبی کا لباس لے کر آپ کو پہنایا گیا اور پھر جب وہ منافق مرنے لگا تو رسو ل اللہﷺ نے اُسے اپنا کرتہ عطا فرمایا جس میں اُسے دفنایا گیا اور اُس میں ہی اُسے کفن دیا گیا تاکہ اُس کے اچھے کام کا اجر اِسی دنیا میں ہی مل جائے ۔ علامہ بدر الدین عینی اور ابنِ حجر عسقلانی علیہ الرحمہ اور اکثر شراحِ حدیث اِس مذکورہ حدیث کے تحت لکھتے ہیں: ’’کہ بدر کے مشرکین قیدی برہنہ حالت میں پیش کئے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے اُن کو کپڑے پہنائے کیونکہ مشرکین کی شرمگاہ کو بھی دیکھنا جائز نہیں ہےاور یہ آپ ﷺ کا احسانِ عظیم تھا اُن قیدیوں پر اور حُسنِ اخلاق کا ایک نمایاں نمونہ تھا[25]۔
قیدیوں کی رہائش گاہ کا انتظام
عرب میں یہ دستور تھا کہ قیدیوں کے ساتھ انتہائی نازیبا سلوک کیا جاتا جس سے اُن کی عزتِ نفس کوبہت مجروح کیا جاتا اور اُن کے ساتھ بدترین جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ۔ لیکن جناب رسول اللہﷺ نے اُن کے طعام ولباس کا عمدہ انتظام فرمانے کے ساتھ اُن کے رہنے کے لئے بھی اچھی جگہ میں رکھنے کا حکم فرمایا تاکہ اُن کی انسانی عزت مجروح نہ ہو اِس لئے قیدی آپ کی قید میں آزاد سے زیادہ آسانی محسوس کرتے ۔تو آپ ﷺ قیدیوں کے لئے یا تو کسی صحابی کے گھر کو منتخب فرماتےاور یہ کسی اعزاز سے کم نہ ہوتا اُن کے لئے تو وہ صحابی اُس کی رہائش کے علاوہ خاطرخواہ اُس قیدی کی خدمت بھی کرتا جیسا کہ تفسیر روح المعانی میں ہے:’’حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس کوئی قیدی لایا جاتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم صحابہِ کرام کے حوالے کرتے، اس سے فرماتے کہ اس قیدی کے ساتھ حسن سلوک کرو، وہ قیدی ان کے پاس دو تین دن رہتا، اس صحابی کا عالم یہ ہوتا کہ وہ اپنی ذات پر قیدی کو ترجیح دیتے‘‘[26]۔ اور یہ تاریخِ انسانی میں منفرد انداز ہے کہ قیدی کو گھر میں رکھا جاتااور دوسرا مقام جس میں قیدیوں کو رکھا جاتا وہ مسجد ہوتی ، اور مسجد میں رکھنے کا بڑا سبب یہی تھا کہ یہ قیدی مسلمانوں کی عبادات کو دیکھیں اور اِ نکے دل نرم ہوسکیں اور یہ اسلام سے متأثر ہوں ۔ اور پھر پانچ وقت مختلف لوگوں سے ملنے اور بات چیت کا موقع ملتا ہے۔اسلام میں قید کا مقصد صرف سزا نہیں بلکہ اُن کی اصلاح بھی ہے۔
امام بخاری(متوفی 256ھ) علیہ الرحمہ نے اپنی الجامع میں ایک باب کا عنوان یہ رکھا ہے :’’باب الاغتسال إذا أسلم، وربط الأسير أيضا في المسجد‘‘باب کا عنوان ہے کہ جب کوئی شخص اسلام لائے تو وہ غسل کرے اور قیدی کو مسجد میں پابند کرنا‘‘ اِ س باب میں ہے’’كان شريح:’’يأمر الغريم أن يحبس إلى سارية المسجد‘‘کہ قاضی شریح قیدی کے بارے حکم دیتے تھے کہ اِسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دو‘‘ اور اِس کے بعدحضرت ثمامہ ابنِ اثال کے اسلام کی روایت درج کی گئی ہے:
’’بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ، فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ: ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ، فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي المَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ»، فَانْطَلَقَ إِلَى نَخْلٍ قَرِيبٍ مِنَ المَسْجِدِ، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ دَخَلَ المَسْجِدَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ‘‘[27]
کہ رسول اللہﷺ نے نجد کی طرف ایک گھڑ سوار لشکر بھیجا تو اُ ن میں بنی حنیفہ میں سے ایک شخص کو قیدی بنا کر لایاگیا جسے ثمامہ بن اُثال کہتے ہیں ، پس صحابہ نے اُسے مسجد کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا جب رسول اللہﷺ کا وہاں سے گزر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا:’ ’ اِسے آزاد کر دو‘‘، تو وہ مسجد کے قریب ایک باغ کے پاس گیا اور وہاں پر غسل کیا پھر مسجد میں آیا اور کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔
رسول اللہﷺنےملاحظہ فرمالیا کہ ثمامہ نے جو منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور جو اخلاق کا ملاحظہ وہ کر چکا ہے اب اُسے آزاد کیاجائے تو یہ اسلام قبول کئے بغیر واپس نہیں جائے گا اِس لئے رسول اللہﷺ نے اُسے آزاد فرما دیا اور پھر ثمامہ نے ہمیشہ کے لئے خود کو آپ ﷺ کی غلامی میں دے دیا۔ اگر آپ ﷺ حضرت ثمامہ کو آزاد نہ کرتے یا پھر اُنہیں آگے فروخت کر دیتے تو یہ آپ ﷺ کا حق بھی تھا اور رواج بھی لیکن آپ ﷺ کے اخلاق ِ حسنہ کے برعکس تھا اِس لئے آپ ﷺ نے اُسے فروخت نہیں کیا بلکہ اُسے ہمیشہ کے لئے گویا خرید لیا۔
دین اسلام سے پہلے یہ رواج چلا آ رہا تھا کہ جنگ کی صورت میں فاتح مفتوح کے تمام جنگی قیدیوں کو غلام بنا لیا کرتا تھا اور اس سے نہایت ہی غیر انسانی سلوک کیا کرتا تھا۔ نہ صرف فوجیوں کو بلکہ ان کے ساتھ ساتھ مفتوحہ ممالک کے عام لوگوں کو بھی غلام بنا لیا جاتا تھا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت، 1950ء میں جنیوا کنونشن کے نافذ ہونے تک یہ سلوک جائز اور درست سمجھا جاتا تھا۔ جنیوا کنونشن سے تیرہ سو برس پہلے ہی قرآن مجید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی مکی زندگی ہی میں جنگی قیدیوں سے انسانی سلوک کرنے کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ باری تعالیٰ نے اہلِ ایمان کی یہ علامت بیان فرمائی ہے:
﴿وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاء وَلَا شُكُور﴾[28]۔
اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اَسِیر(قیدی) کو ان سے کہتے ہیں ہم تمہیں خاص اللہ کے لیے کھانا دیتے ہیں تم سے کوئی بدلہ یا شکر گزاری نہیں مانگتے۔
مسلمانوں کی پہلی باقاعدہ جنگ، جنگ بدر کے موقع پر قیدیوں سے متعلق یہ قانون بیان کر دیا گیا۔
﴿فَإِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا﴾ [29]۔
تو جب کافروں سے تمہارا سامنا ہوتو گردنیں مارنا ہے( یعنی اُنکو قتل کرو) یہاں تک کہ جب اُنہیں خوب قتل کرلو تو مضبوط باندھو پھر اس کے بعد چاہے احسان کرکے چھوڑ دو چاہے فدیہ لے لو ،یہاں تک کہ لڑائی اپنا بوجھ رکھ دے۔
اس آیت میں جنگی قیدیوں کے ساتھ دو ہی معاملات کرنے کا حکم دیا گیا۔ ایک تو یہ کہ انہیں بطور احسان رہا کر دیا جائے اور دوسرایہ کہ انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تمام جنگوں کا اگر تفصیل سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کے بین الاقوامی جنگی قانون کے تحت بسا اوقات دشمن کے جنگی قیدیوں کو غلام بنایا گیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذاتی طور پر کوشش کر کے انہیں غلامی سے نجات دلائی۔ بسا اوقات آپ نے خود فدیہ ادا کر کے دشمن کے جنگی قیدیوں کو رہائی عطا فرمائی۔ بعض اوقات آپ نے دشمن ہی کی کسی خاتون سے سسرالی رشتہ قائم کر کے مسلمانوں کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ ان جنگی قیدیوں کو آزاد کر دیں اور بعض اوقات آپ نے ذاتی طور پر ترغیب دلا کر ان قیدیوں کو غلامی سے بچایا۔یعنی آپ نے ہمیشہ غلاموں کو آزاد کرنے کو ترجیح بھی دی اور ترغیب بھی۔
اگر دیکھا جائے تو رسول اللہﷺ سے لڑنے والی چار بڑی اقوام تھیں جن میں قریشِ مکہ، عرب کے یہود، لوٹ مارکرنے والے وحشی عرب قبائل، سلطنتِ روم۔ اِن چاروں گروہوں سے رسول اللہ ﷺ نے اپنی ساری زندگی میں 72 سے زائد لشکر بھیجے مگر سب کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو قرآن میں اللہ نے بیا ن کیا ہے یا تو فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا یا پھر احسان و نیکی کے ساتھ رہا کر دیا گیا اور بہت کم ایسے تھے کہ جن کو غلام بناکر رکھا گیا اور جن کو غلام بنایا گیا اُن کے مکمل حقوق کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا اور پھر اسلامی قوانین کے تحت مختلف طرح اُن کو آزاد کرنے کے طریقے وضع کئے گئے مثلا اگر کوئی شخص غلطی سے کسی مسلمان کو قتل کرے تو اُس کا کفارہ ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا ہے، ایسے ہی قسم کو توڑنے ، ظہار کرنے وغیرہ ہر مقام پر اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو غلام آزاد کرنے کا حکم کرنے کا حکم دیا ۔ اور یہ رسول اللہ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق کی ہی علامت تھی۔ اور قیدیوں کی ضروریات کو پورا کیا جاتا، کچھ عرصہ اُن سے خدمت لینے کے بعد اُ نہیں احسن طریقے سے رہا کر دیا جاتا، دورانِ قید ، قیدیوں کی اخلاقی تربیت کی جاتی ۔ اُنہیں اخلاقیات پڑھائی جاتی اوراُنہیں اسلام کی تعلیم دی جاتی اگر کوئی قیدی اسلام قبول کر لیتا تو اُسے فورا رہا کر دیا جاتااور حکومتی سطح پر کفار قیدیوں کو مسلمان قیدیوں کے عوض تبادلہ بھی کر لیا جاتا۔
قیدی خواتین/لونڈیوں اور باندیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک
اہلِ عرب میں یہ رواج تھا کہ مردوں کی طرح خواتین بھی جنگ کا حصہ ہوتیں، مگر مسلمانوں کے برعکس کفار کی خواتین کا کام جنگ میں ناچ گانا اور فوجیوں کی راحت وسکون ہوا کرتا تھا ۔ جب کہ اسلام میں یہ سب ممنوع ہے اگر کوئی مسلمہ عورت جنگ کا حصہ بنتی تو وہ مسلمانوں کی جرح پٹی کا کام کرتی اور اُن کو پانی پلانے کا۔ اور جب جنگ مسلمان جیت لیتے اور اُن کے لوگ گرفتار ہوجاتے تو وہ مر د وعورت حسبِ رواج مسلمانوں کے غلام وباندیاں بن جاتے تو کفار کے مال و دولت کی طرح اُن کی خواتین بھی مسلمانوں کے قبضہ میں آجاتیں۔ اُن خواتین کو لونڈی یا باندی کا نام دیا جاتا۔
کفار کی خواتین کو فی الفور رہا کرنے کی بجائے اُنہیں مسلمان مجاہدین کے حصے میں دے دیا جاتا اور اُن خواتین کو کم و بیش وہی حقو ق (Rights) حاصل ہوتے جو مسلمانوں کی ازواج کو ہوتے۔ اور وہ مسلمانوں کے قبضہ میں رہتیں اور اگر کسی طرح اُن کو وہ خاوند پسند نہ ہوتے یا وہ آقا پسند نہ ہوتے تو اُنہیں یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ مکاتبت[30] کر لیں یااُمِ ولد[31] کا اعزاز حاصل کر لیں۔ اور ایسا اِس لئے ہوتا تھا کہ عرب کی خواتین میں سے جس کا جنگ میں شوہر،باپ یا بھائی قتل ہوجاتا تو وہ اپنی عزت کو فروخت کر کے اپنا پیٹ پالتی تھی مگر اسلام نے ایسی خواتین کو مردوں کے حصے میں دے دیا اور حکم دیا’’کہ جیسے تم کھاؤ ایسے ہی اِن غلاموں و لونڈیوں کو کھلاؤ، اورجیسا تم پہنو ویسا ہی اِن کو پہناؤ‘‘؛ تاکہ یہ معاشرہ میں کسی غیر اخلاقی حرکت کا باعث نہ بنیں اور نہ ہی معاشی پریشانی کا شکار ہو کر خود کشی کریں۔کفار کے برعکس مسلمانوں نے ہمیشہ لونڈیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا اورخود رسول اللہﷺکا سلوک تو بہت ہی بے مثال تھا جسکی چند امثلہ ذیل میں لکھی جاتی ہیں۔
غزوات النبیﷺ میں قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ
غزوہِ بدر میں ستر قیدی پکڑے گئے جو فدیہ دے سکا تو وہ آزاد ہو گیا اور جو فدیہ نہ دے سکا تو اُسے کہا گیا کہ وہ مسلمانوں کے بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھائے اورپھر اُسے رہا کر دیا گیا۔اور کچھ قیدیوں کے بطور احسان رہا کر دیا گیا۔
غزوہِ بنی قینقاع میں اِ س قبیلہ کے قلعہ کا جب پندرہ روز تک محاصرہ کیا گیا تو وہاں سے اُن سب کو قیدی بنا لیا گیا جو بعد میں اُن سب کو رسول اللہﷺ نے رہا کر دیا۔
غزوہِ ذی امر میں دشمنوں کا ایک شخص قیدی بنا جو کلمہ پڑھ کرمسلمان ہو گیا۔
غزوہِ خیبر کے موقع پر حی بن اخطب کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آزاد کر کے اُن سے رسول اللہ ﷺ نے نکاح کیا اور یوں اُن سے سسرالی رشتہ قائم فرمایا اور صحابہ کو ترغیب دلائی کہ اِس قبیلہ کے لوگوں کو آزاد کر دیا جائے۔
مسلمانوں اور قریش کے درمیان حدیبیہ میں دس سال تک جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ قریش نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے حلیف قبیلے بنو خزاعہ پر حملہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کے جرم میں مکہ پر حملے کی تیاری شروع کر دی۔ جب قریش کو اس کا علم ہوا تو ان کے سردار ابوسفیان رضی اللہ عنہ معاہدے کی تجدید کے لئے مدینہ آئے لیکن انہیں انکار کر دیا گیا۔ اس کے بعد حضور نے دس ہزار صحابہ کے لشکر کے ساتھ مکہ پر حملہ کیا اور بغیر جنگ کے اسے فتح کر لیا۔ مکہ کے تمام افراد کو فتح کے بعد قیدی بنانے کی بجائے انہیں بطور احسان آزاد کر دیا گیا۔
غزوہِ حُنین میں رسول اللہﷺ نے 6000 افراد کو جنگی قیدی بنایا مگر بعد میں سب کو رہا کر دیا وہ اِس طرح بنو ہوازن کا ایک گروہ مسلمان ہو کر دربارِ مصطفیٰ ﷺ میں حاضر ہو گیا ۔ اور عرض کی یا رسول اللہﷺ! آپ اِ ن قیدیوں کو رہا کریں تو آپ ﷺنے اپنے حصے کے غلاموں کو رہا کر دیا، اور باقی صحابہ کو بھی ترغیب دلائی وہ بھی اپنے اپنے حصے کے قیدیوں کو رہا کرتے گئے ۔ یہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کا قیدیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا ہی تو مظاہرہ تھا۔
خلاصہ یہ ہو اکہ رسول اللہﷺ نے غزوہِ بدر اور سریہ بنی فزارہ کے قیدیوں سے فدیہ لے کر رہا کر دیا ، یعنی بدر کے قیدیوں سے فدیہ لیکر اُنہیں آزادی عطا فرما دی یا پھر اُنہیں کہا گیا کہ وہ مسلمانوں کے بچوں کو پڑھائیں، اور سریہ بنی فزارہ کے قیدیوں کے عوض مسلمان قیدیوں کو چھڑا یا گیا۔
اکثر بڑی جنگوں جن میں بالخصوص غزوہِ بنو قینقاع، بنونضیر، حدیبیہ اور فتحِ مکہ شامل ہیں میں قیدیوں کو بطور احسان رہا کر دیا گیا۔ جبکہ چار غزوات یعنی غزوہِ بنو عبد المصطلق، بنو قریظہ، خبیر اور حنین کے غزوات شامل ہیں میں قیدی بنائے گئے مگر وہ بھی بعد میں رہا کر دیئے گے کسی عوض میں یا پھر بطور احسان یا پھر بطور شفاعت۔
حضرت ثمامہ بن اثال کے ساتھ حُسنِ سلوک کا واقعہ
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر نجد کی طرف بھیجا تو وہ بنو حنیفہ کے ایک آدمی کو لائے جسے ثمامہ بن اثال اہل یمامہ کا سردار کہا جاتا تھا ۔صحابہ نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا :’’اے ثمامہ کیا خبر ہے؟ اس نے عرض کیا:’’ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !خیر ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کریں تو ایک خونی آدمی کو قتل کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان فرمائیں تو شکر گزار آدمی پر احسان کریں گے اور اگر مال کا ارادہ فرماتے ہیں تو مانگیئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت کے مطابق عطا کیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ویسے ہی چھوڑ کر تشریف لے گئے یہاں تک کہ اگلے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے ثمامہ! تیرا کیا حال ہے؟ اس نے کہا :’’میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان کریں تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کریں تو ایک خونی آدمی کو ہی قتل کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال کا ارادہ رکھتے ہیں تو مانگیئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا جائے گا ‘‘۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی طرح چھوڑ دیا یہاں تک کہ اگلے روز آئے تو فرمایا :’’اے ثمامہ تیرا کیا حال ہے ؟اس نے کہا :’’میری وہی بات ہے جو عرض کر چکا ہوں ،اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان فرمائیں تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کریں تو ایک طاقتور آدمی کو ہی قتل کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال کا ارادہ کرتے ہیں تو مانگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا جائے گا، رسول اللہ نے فرمایا:’’ ثمامہ کو چھوڑ دو، وہ مسجد کے قریب ہی ایک باغ کی طرف چلا، غسل کیا پھر مسجد میں داخل ہوا اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم زمین پر کوئی ایسا چہرہ نہ تھا جو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے زیادہ مبغوض ہو پس اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس مجھے تمام چہروں سے زیادہ محبوب ہو گیا ہے اور اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے زیادہ ناپسندیدہ شہر میرے نزدیک کوئی نہ تھا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر میرے نزدیک تمام شہروں سے زیادہ پسندیدہ ہو گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر نے مجھے اس حال میں گرفتار کیا کہ میں عمرہ کا ارادہ رکھتا تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مشورہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بشارت دی اور حکم دیا کہ وہ عمرہ کرے جب وہ مکہ آیا تو اسے کسی کہنے والے نے کہا :’’کیا تم’’ صابی ‘‘یعنی بے دین ہو گئے؟ اس نے کہا:’’ نہیں بلکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا ہوں، اللہ کی قسم تمہارے پاس یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہ آئے گا یہاں تک کہ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت مرحمت نہ فرما دیں‘‘[32]۔
اِس واقعہ سے رسول اللہ ﷺ کی اپنی قیدیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کی واضح مثال نظر آرہی ہے ۔ حضرت ثمامہ بن اثال ایک طاقتور اور مالدار انسان تھے ، تین بار اُنہوں نے آفر کی کہ اگر رسول اللہ ﷺ کو مال و دولت چاہئے تو بتائیں وہ آپ کو مال و دولت دینے کو تیار تھے۔ مگر رسول اللہ ﷺ نے بغیر کسی دولت و لالچ کے اُنہیں آزاد کر دیا کیونکہ آپﷺ نگاہِ نبوت سے دیکھ رہے تھے کہ یہ ایمان لائیں گے اور ہوا بھی ایسا ہے اور پھر وہی شخص جس نے کہا کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے مجھے رسول اللہﷺ سب سے ناپسندیدہ شخصیت تھے مگر اسلام لاتے ہی اُن کاسینہ منور بایمان ہو گیا اور دل نورِ الہٰی سے بھر گیا اور کہنے لگے اب مجھے آپ سے زیادہ خوبصورت اور پیارا کوئی نہیں لگتا۔ اور آپ ﷺ کے شہر سے زیادہ اچھا شہر کوئی نہیں لگتا۔ یہ سب رسول اللہﷺ کے اخلاقِ حسنہ کی ہی مثال تھی کہ قیدی بھی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔
مطعم بن عدی اور رسول اللہﷺ کا فرمان
یہ قبیلہ قریش کا ایک مشرک سردار تھا جس نے رسول اللہﷺ کے لئے نمایا ں کردار ادا کیا، جب رسول اللہﷺ کو اور آپ کے قبیلہ بنو ہاشم کو محصور کر کے شعبِ ابی طالب میں بھیج دیا گیا تو اِس مہم کو ختم کروانے میں سب سے بڑا کردا ر اِسی کا ہی تھا اور پھر عرب کے دستور کے مطابق دوبارہ مکہ میں آنے کے لئے یہ بھی ضروری تھا آپ ﷺ کسی عرب سردار کی امان میں ، تو اِس سلسلہ میں بھی مطعم بن عدی نے نمایاں کردار ادا کیا، یہی وہ شریف النفس انسان تھا کہ جس کے چاروں بیٹوں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی تلواروں کے سایہ میں مکہ میں داخل کیا اور امان دی جبکہ رسول اللہﷺ نے مکہ کے کئی سرداروں کو پیغام بھجوایا تھا مگر قبول اِسی نے ہی کیا مگر یہ شخص غزوہِ بدر سے پہلے ہی ایک سو سال کی عمر پا کر فوت ہو گیا۔
علامہ بدر الدین عینی لکھتے ہیں: ’’بدرکی فتح کے بعد جب ستر مشرکینِ مکہ بطور قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے تو نبی کریم ﷺاُس وقت بھی مطعم بن عدی کا احسان نہیں بھولے اور فرمایا :’’اگر آج مطعم زندہ ہوتا اوران قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے مجھے سفارش کرتا تو میں ان تمام قیدیوں کو اُس کی خاطر آزادکردیتا‘‘[33]۔
حاتم طائی کی اولاد بارگاہِ مصطفیٰ میں
ربیع الآ خر ۹ ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں ایک سو پچاس سواروں کو اس لئے بھیجا کہ وہ قبیلہ “طی” کے بت خانہ کو گرا دیں۔ ان لوگوں نے شہر فلس میں پہنچ کر بت خانہ کو منہدم کر ڈالا اور کچھ اونٹوں اور بکریوں کو پکڑ کر اور چند عورتوں کو گرفتار کرکے یہ لوگ مدینہ لائے۔ ان قیدیوں میں مشہور سخی حاتم طائی کی بیٹی بھی تھی۔ حاتم طائی کا بیٹا عدی بن حاتم بھاگ کر ملک ِ شام چلا گیا۔ حاتم طائی کی لڑکی جب بارگاہ رسالت میں پیش کی گئی تو اس نے کہا یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں ” حاتم طائی ‘‘ کی لڑکی ہوں۔ میرے باپ کا انتقال ہو گیا اور میرا بھائی ” عدی بن حاتم ” مجھے چھوڑ کر بھاگ گیا۔ میں ضعیفہ ہوں آپ مجھ پر احسان کیجئے خدا آپ پر احسان کرے گا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو چھوڑ دیا اور سفر کے لئے ایک اونٹ بھی عنایت فرمایا۔ اور رسول اللہﷺ نے اُنہیں ڈوپٹہ عطا فرمایا۔یہ مسلمان ہو کر اپنے بھائی عدی بن حاتم کے پاس پہنچی اور اس کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اخلاقِ نبوت سے آگاہ کیا اور رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بہت زیادہ تعریف کی۔ عدی بن حاتم اپنی بہن کی زبانی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلق عظیم اور عاداتِ کریمہ کے حالات سن کر بے حد متاثر ہوئے اور بغیر کوئی امان طلب کئے ہوئے مدینہ حاضر ہو گئے۔ لوگوں نے بارگاہ نبوت میں یہ خبر دی کہ عدی بن حاتم آ گیا ہے۔ حضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انتہائی کریمانہ انداز سے عدی بن حاتم کے ہاتھ کو اپنے دست ِ رحمت میں لے لیا اور فرمایا کہ اے عدی ! تم کس چیز سے بھاگے ؟ کیا ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ ‘‘کہنے سے تم بھا گے ؟ کیا خدا کے سوا کوئی اور معبود بھی ہے ؟ عدی بن حاتم نے کہا کہ ” نہیں ” پھر کلمہ پڑھ لیا اور مسلمان ہو گئے ان کے اسلام قبول کرنے سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس قدر خوشی ہوئی کہ فرطِ مسرت سے آپ کا چہرۂ انور چمکنے لگا اور آپ نے ان کو خصوصی عنایات سے نوازا34۔
یہ واقعہ اِس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ اسلام رسول اللہﷺ نے ظلم و ستم سے نہیں بلکہ پیار و محبت سے پھیلایا ہے۔ جِسے رسول اللہﷺ قید سے آزاد کر رہے تھے وہ اور اُسکا بھائی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسلام کی قیود میں آگئے ۔ جو رسول اللہﷺ کے بارے غلط تاثر رکھتے تھے وہ آپ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق سے متاثر ہوکر دائرہِ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اور اِس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر عرب کے شرفاء کے خاندان سے کوئی قیدی بن کر آتا تو رسول اللہ ﷺ نہ صرف اُنہیں آزاد فرمادیتے بلکہ اُن کی شایانِ شان اُنہیں لباس، سواری اور کھانا عطا فرماتے ۔ جیسے حاتم طائی کی بیٹی کو رسول اللہ ﷺ نے عمدہ سواری، سر پر چادر اور کھانا عطا فرمایا ، تحفہ کے طور پر اُس کے سر پر چادر عنائت فرمادی۔ آپ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق سے وہ اِس قدر متاثر ہوئی کہ شام میں اپنے بھائی کو بھی لے کر دربارِ مصطفیٰ ﷺ میں حاضر ہوگئی اور دونوں نے اسلام قبول کر لیا۔
ابو سفیان اور اُسکے ساتھی قیدیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک
فتحِ مکہ سے قبل جب رسول اللہﷺ ایک عظیم لشکر لے کر نکلے تو رات کو مکہ سے باہر ایک جگہ پڑاؤ ڈالا،اُدھر ابو سفیان اور اس کے ساتھی سردار رات کو شہر مکہ کی گشت پر نکلے، تو یہ ان گنت روشنیاں دیکھ کر واقعی حیران و ششدر رہ گئے۔ابو سفیان کہنے لگا:’’خدا کی قسم میں نے آج تک اتنا بڑا لشکر اور آگ نہیں دیکھی‘‘،وہ ابھی یہ اندازے ہی لگا رہے تھے کہ اتنا بڑا لشکر کس قبیلے کا ہوسکتا ہے؟ کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرکردگی میں مسلمانوں کے گشتی دستے نے ان کو پکڑ لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔اس موقع پرحضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دشمنِ اسلام ابو سفیان کو قتل کرنا چاہا لیکن رسول اللہﷺ تو اس کے لیے پہلے امن کا اعلان کر چکے تھے کہ ابوسفیان بن حرب کسی کو ملے تو اسے کچھ نہ کہا جائے ۔یہ گویا آپ ﷺ کی طرف سے ابو سفیان کی ان مصالحانہ کوششوں کا احترام تھا جو اس نے معاہدہ شکنی کے خوف سے مدینے آکر چالاکی سے کی تھیں اور ان کی کوئی قیمت نہ تھی،لیکن آپﷺ کی رحمت بھی تو بہانے ڈھونڈتی تھی‘‘[35]۔
چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو سفیان کو پناہ دی۔صبح جب ابو سفیان دوبارہ آپﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ ﷺنے فرمایا:’’ابو سفیان!کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم گواہی دو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں؟۔ ’’تب ابو سفیان نے بے ساختہ یہ گواہی دی کہ میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان، آپﷺ نہایت حلیم ، شریف اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔اگر خدا کے سوا کوئی اور معبود ہوتاوہ ضرور ہماری مدد کرتا البتہ آپﷺ کی رسالت کے قبول کرنے میں ابھی کچھ تامّل ہے[36]۔لیکن اِس کے بعد وہ مسلمان ہوگیا۔
اِ ن واقعات و حالات سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اپنوں کے ساتھ بھی محبت فرماتے اور غیروں کے ساتھ مزید محبت وحُسنِ سلوک کا مظاہرہ فرماتے ۔ اِسی وجہ سے آپ ﷺ کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ ابو سفیان جیسے قریشِ عرب کے سردار اور ثمامہ بن اثال جیسے طاقتور لوگ بھی اسلام میں آگئے ۔ کچھ عرصہ پہلے فروری 2019 ءمیں انڈیا کے چند پائلٹ پاکستان کی حد میں آئے، پاک فوج کے جوانوں نے اُن کا تعاقب کیا او رایک غیر مسلم پائلٹ ’’ ابھی نندن ‘‘نامی پکڑا گیا، مگر پاکستانی افواج نے کیا خوب حُسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا ، اور عزت کے ساتھ اُسے رہا بھی کر دیا۔ یہ باہمی مصالحت کی اچھی مثال ہے جس کے پیچھے آپ ﷺکی حُسنِ سیرت کا نمونہ موجود ہے۔
قیدیوں کے لئے رسول اللہﷺ کی وصیت
رسول اللہﷺ قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت فرمایا کرتے تھے اور اُنہیں کسی طرح کی کوئی تکلیف نہ پہنچے اِس بارے رسول اللہﷺ اپنے اصحاب کو ترغیب دلاتے ۔ اِس بارے احادیث میں وضاحت سے موجود ہے۔
عَنْ أَبِي عَزِيزِ بْنِ عُمَيْرِ ابْنِ أَخِي مُصْعَبِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ: كُنْتُ فِي الْأُسَارَى يَوْمَ بَدْرٍ، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «اسْتَوْصُوا بِالْأُسَارَى خَيْرًا» , وَكُنْتُ فِي نَفَرٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَكَانُوا إِذَا قَدِمُوا غَدَاءَهُمْ أَوْ عَشَاءَهُمْ أَكَلُوا التَّمْرَ وَأَطْعَمُونِي الْخُبْزَ بِوَصِيَّةِ وَآلِهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهُمْ [37]۔
’’حضرت ابو عزیز بن عمیر بن اخی مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں بدر کے دن قیدیوں کے ساتھ تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ قیدیوں کے ساتھ بھلائی کرو‘‘، اور میں انصار کے ایک گروہ کے ساتھ تھا جب کبھی اُن کو صبح و شام کھانا پیش کیا جاتا تو وہ خود کھجور کھاتے اور مجھے روٹی دیتے صرف اِس وجہ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے اُنہیں وصیت کی تھی‘‘۔
اِس سے واضح ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ کس طرح حالتِ جنگ میں بھی قیدیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا مظاہرہ فرماتے اور خود بھی اِس پر عمل کرتے اور دوسروں کو بھی اِس پر عمل کرنے کو حکم دیتے ، جیسا کہ اِس حدیثِ مبارکہ میں رسول اللہﷺ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا اور پھر صحابہ نے اُس کی عملی تصویر بن کر دکھایا اور خود کھجوریں کھا کر گزارا کرتے اور اپنے ساتھ قیدیوں کو روٹیاں کھلاتے۔حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ اُس زمانہ میں روٹی ملنا بہت مشکل کام تھا صحابہ جو کی روٹی کھاتے اور وہ بھی بڑی مشکل سے ملتی ، لیکن جب وہ بھی روٹی پیش کی جاتی تو صحابہِ کرام خود تو کھجور یں کھا لیتے اورقیدیوں کوروٹیاں کھلاتے ، یہ رسول اللہﷺ کی تعلیم کا وہ حصہ تھا کہ جس پر صحابہ نے عمل کیا اپنے تو دور اُنہوں کے کفار و مشرکین کے ساتھ بھی وہ سلوک کردکھایا کہ غیر بھی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔
کُتبِ تاریخ کی ورق گردانی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ اور اسلام سے بڑھ کر کسی مذہب اور تحریک نے قیدیوں کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کبھی نہیں کیا جتنا کہ اسلام نے کیا ۔ رسول اللہﷺ کی سیرتِ طیبہ کی روشنی میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ قیدیوں کے ساتھ اتنا اچھا سلوک فرماتےکہ وہ آپ ﷺ کے حُسنِ سلوک کو دیکھ کر اسلام قبول کر لیتے۔قیدیوں کو یا تو مسجد میں رکھا جاتا یا پھر کسی نہ کسی صحابی کے گھر میں ٹھہرایا جاتا ، ابتداءً اسپیشل کوئی قید خانہ موجود نہ تھا مگر پھر بھی اُن کی سہولیات کے پیشِ نظر احسن اقدامات اُٹھائے جاتے۔ قیدیوں کوا علیٰ قسم کے کھانے جو صحابہ خود کھاتے وہی اُنہیں بھی پیش کیئے جاتے ۔ اُن کے لبا س کا بھی خیال رکھا جاتا۔جس زمانہ میں خود پہنے کو بمشکل لباس دستیاب ہوتا تھا وہیں پر قیدیوں کو اعلیٰ لباس مہیا کیا جاتا۔
غزوات النبیﷺ میں قیدی ہونے والی خواتین لونڈیوں، باندیوں اور بچو ں کے ساتھ انتہائی نرمی کا سلوک اپنایاجاتا۔ اُن خواتین کو یا تو آزاد کر کے اُن سے نکاح کر لیا جاتا یاپھر اُنہیں اُم ولد بنا کر اُن سے اولاد حاصل کی جاتی جیسا کہ رسول اللہﷺ نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آزاد فرما کر اُن سے نکاح کیا۔ حاتم طائی کی بیٹی ایک غزوہ میں قیدی ہوکر آئی تو رسول اللہﷺ نے اُن کا ادب و احترام کیا اور اُن کے سر پر چادر دے کر اُنہیں اور اُن کے قبیلے والوں کو رہا کر دیا ۔ اور رسول اللہ ﷺ نے اُسے اعلیٰ قسم کی سواری اور کھانا بھی پیش فرمایا۔
کون نہیں جانتا کہ ابو سفیان کتنا بڑا رسول اللہﷺ کا دشمن تھا ہرغزوہ میں وہ رسول اللہﷺ کا مد ِ مقابل تھا ۔ مگر فتحِ مکہ کے موقع پر رسول اللہﷺ نے اُنہیں بھی معا ف فرمادیا اور بو جہل کے بیٹے عکرمہ کو بھی معاف فرمادیا۔ یہ رسول اللہﷺ کاعمدہ اخلاق تھا کہ جس کی بدولت مکہ میں سے ایک ہی دن میں دو ہزار سے زائد لوگ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے آخری وقت میں بھی جو وصیت کی وہ یہی تھی کہ قیدیوں کے ساتھ اچھا سلو ک کیا جائے اور اُنہیں کسی قسم کے تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
خلاصۃ البحثمقالہ ہذا بعنوان’’غزواتِ نبویہ میں اخلاقِ حسنہ کے مظاہر کا تحقیقی جائزہ(عصرِ حاضر کے تناظر میں)میں ایک ایسا عنوان ہے کہ جس کی اخلاقی لحاظ سے بھی ضرورت تھی ۔ مقالہ میں اخلاقِ حسنہ کی اہمیت و فضیلت قرآن واحادیث سے بیان کرنے کے بعد اِسکی غزوات النبیﷺ میں اہمیت کو بیان کیا گیا ہے کہ کس کس انداز میں رسول اللہﷺ اپنے غزوات میں اخلاق حسنہ کے ساتھ پیش آتے۔ اِس میں کوئی ابہام نہیں کہ رسول اللہﷺ رحمۃ اللعالمین ہیں لیکن حالتِ جنگ میں جہاں کوئی کسی پر رحم نہیں کرتا مگر تاجدارِ انبیاء ﷺ سب کے لئے رحمت ہوتے۔
رسول اللہﷺ حالتِ جنگ میں بچوں، خواتین، بوڑھوں، غلاموں، مذہبی رہنماؤوں اور لاچار لوگوں کو قتل کرنے سے منع فرماتے۔ آپ ﷺ حالتِ جنگ میں دشمنوں کے ساتھ انتہائی احسن انداز میں پیش آتے۔ آپﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں ستائیں غزوات لڑے اور کئ ایک جنگی جھڑپ بھی ہوئیں مگر کبھی کسی کافر کو اپنے ہاتھ سے قتل نہ کیا۔رسول اللہﷺ قیدیوں کے ساتھ بہترین سلوک فرماتے حتیٰ کہ وہ قیدی آپ ﷺ کے اخلاقِ حسنہ سے متاثر ہوکر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجاتے۔
رسول اللہﷺ کے غزوات کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا کہ آپ ﷺ کفار کی لاشوں کا مثلہ کرنے ، اُن کو قتل کرنے کے بعد ظلم کرنے اور اُن کی میتوں کی بے حرمتی کرنے کے سخت خلاف تھے ۔ آپﷺ حالتِ جنگ میں دشمنوں کو پانی لینے کی اجازت دیتے، اُن کے املاک کو نقصان پہنچانے سے منع کرتے۔ کفار کی زراعت و کھیتی باڑی اور اشجار کو کاٹنے اور نقصان پہنچانے سے منع فرماتے۔ حتیٰ کہ کفار کی عبادت گاہوں کو بھی منہدم کرنے سے روکتے۔
رسول اللہﷺ اہلِ کتاب کے ساتھ خصوصی تعاون فرماتے اور اگر اِن کی خواتین قیدی بن کر آتیں تو اُن میں سے بعض کے ساتھ نکاح بھی فرمالیتے جیسا کہ حضرت صفیہ کے ساتھ آپ ﷺ نے نکاح فرمایا۔ اور عرب کے شرفاء و معززین کے ساتھ انتہائی عزت کےساتھ پیش آتے جیسا کہ حاتم طائی کی بیٹی اور اُن کے قبیلے والوں کے ساتھ آپﷺ نے سلوک فرمایا اور اُنہیں مع اُن کے قبیلے کے افراد کو آزاد فرمادیا اور اُنہیں بہترین سواری اور لباس بھی عطا فرمایا۔
رسول اللہﷺ اپنے شہداء اور اُن کے اہل وعیال کے ساتھ بہت ہی پیار و محبت سے پیش آتے ، اُن کے طعام کا انتظام فرماتے ، اُن کے بچوں کی پرورش کا ذمہ کسی ذمہ دار صحابی کو عطا فرماتے ۔ اور شہداء کے اجسام کو ادب وا حترام کے ساتھ زمین کے سپرد کرتے ۔ کفار کے چنگل میں پھنسے شہداء کی میت کو اُن سے چھڑواکر دفن فرماتے ۔ غازیان کو پورا پورا حصہ دیتے اور اُن کی حوصلہ افزائی فرماتے۔
نتائج البحثمقالہ ہذا بعنوان’’غزواتِ نبویہ میں اخلاقِ حسنہ کے مظاہر کا تحقیقی جائزہ(عصرِ حاضر کے تناظر میں) کا جائزہ لیتے ہوئے درج ذیل نتائج اخذ ہوئے:
غزوہ کی تعریف میں محققین کے نزدیک اختلاف پایا جاتا ہے کہ غزوہ کس لڑائی کو کہا جاتا ہے۔
رسول اللہﷺ کے غزوات کی تعداد میں محدثین و اہلِ سیر کے نزدیک اختلاف پایا جاتا ہے بعض کے نزدیک 27،بعض کے نزدیک 25 اور بعض کے نزدیک 29 ہے ۔ مگر مقالہ نگار نے مشہور تعداد 27 کو ذکر کیا ہے۔
رسول اللہﷺ کے غزوات کو بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ موجودہ دور میں حالتِ جنگ میں رسول اللہﷺ کے اخلاقِ حسنہ کی تعلیمات سے استفادہ کی شدیدضرورت ہے۔
رسول اللہﷺ نے نہ صرف مسلمان شہداء بلکہ غیر مسلمین کے مقتولین کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا اور اُنہیں کسی قسم کے نقصان سے بچانے کے احکامات ارشاد فرمائے۔
جو مقاصدجہاد یا جنگوں سے حاصل نہ ہوئے وہ اُن جنگوں میں اخلاقِ نبویہ سے حاصل ہوئے۔
اگر اُمتِ مسلمہ رسول اللہﷺ کے اخلاقِ حسنہ کو اپنا لے تو دُنیا کی کوئی طاقت اِسے مغلوب نہیں کر سکتی ۔
رسول اللہﷺ اپنے وعدہ کو پورا فرماتے ، کسی کافر کو بھی عمومی حالات اور نہ جنگوں میں دھوکہ دیتے ۔
مقالہ ہذا کا مطالعہ کرنے سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ بچوں، خواتین، بوڑھوں اور مذہبی راہنماؤں کے ساتھ ہر حال میں اچھا سلوک کیا جائے اور سیرتِ طیبہ کی روشنی میں اِن اعلیٰ اخلاق کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔
صحابہِ کرام علیھم الرضوان کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے جو حالتِ جنگ اور بعد جنگ نبی کریم ﷺ کے اخلاقِ کریمہ سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے ۔
Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.
1 Maīda:55/5.
2 Mῡmtaḥīnh7/60.
3 Aḥmad bin ‘Ili bin ḥajar al ‘īsqīlanī, fatḥ -al- barī sharḥa bῡkharī,(Beirūt: Dār -al- M‘arifah 1379H),233/5.
4 Muḥammad bin ‘Ismael -al- bῡkharī, Al jamῡ -al- mῡsnad al saḥīḥ bῡkharī,( Dār tῡq -al- Najāt, 1422H), 2995.
5 Aḥmad bin ‘Ili bin ḥajar al ‘Asqalānī, fatḥ -al- barī sharḥa bῡkharī,(Beirūt: Dār -al- M‘arifah 1379H),259/12.
6 Sheikh Abdul Ḥaq Mῡḥdth DeḥlvĪ, Madar -al- Nabῡwat, 240/.
7 Muḥammad bin ‘Ismael -al- bῡkharī, Al jamῡ -al- mῡsnad al saḥīḥ bῡkharī,( Dār tῡq -al- Najāt, 1422H), 2617.
8 ‘Abdul Malīk Bin Hasḥam, Alsiratῡ -al- nbvīya lībīn Hasham, (Beirūt: Dār -al- Jaīal, 1411H),46/2.
9 Nῡah:26/71.
10 Muḥammad Bin ‘Aīsa -al- Tarmzī, (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyah, 1998AD),3942.
11 Mῡslīm Bin -al- ḥajajaj -al- Qashīrī Nīshapῡrī -al- Mῡsnad -al- Saḥīḥ -al- Mῡkhtasar, (Beirūt: Dār Iḥyā -al- Tῡrath -al-‘Arabiyah, 1992), 2599.
1312 Mῡjīd -al- Dīn Ibn Athīr, -Al- Nahiya f ī Gharīb -al-ḥadīth -al-Āthar, (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyah,1399 AH), 294/4.
1413 Abu Dawῡd, Sῡlaīman bin -Al-Āshāth -al- Sījīstānī, Sῡnan Abī Dawῡd, (Beirūt: Maktabah tul Āsrīya,), 2613.
1514 Abu -Al-Āla Muḥammad bin ‘Abd -al- Raḥman -al-Mῡbarakfῡrī, Taḥafa -al-Aḥwāzī bshrḥ Jam’I -al-Tīrmīdhī, (Al-Madīnah -al-Mῡnawarah:Al- Maktabah tul Salfīyah, 1383 AH), 664/4.
1615 Mῡslīm Bin -al- ḥajajaj -al- Qashīrī Nīshapῡrī -al- Mῡsnad -al- Saḥīḥ -al- Mῡkhtasar, (Beirūt: Dār Iḥyā -al- Tῡrath -al-‘Arabiyah, 1992),1731.
1716 Abu Dawῡd, Sῡlaīman bin -Al-Āshāth -al- Sījīstānī, Sῡnan Abī Dawῡd, (Beirūt: Maktabah tul ‘Āsrīya,), 2614.
1817 Abu Dawῡd, Sῡlaīman bin -Al-Āshāth -al- Sījīstānī, Sῡnan Abī Dawῡd, (Beirūt: Maktabah tul Āsrīya,), 2669.
1918 Mῡslīm Bin -al- ḥajajaj -al- Qashīrī Nīshapῡrī -al- Mῡsnad -al- Saḥīḥ -al- Mῡkhtasar, (Beirūt: Dār Iḥyā -al- Tῡrath -al-‘Arabiyah, 1992),1780.
2019Muḥammad bin Afīfī -al-Bajῡrī -al-Khīzrī, Nῡr al-Yaqīn fī Sīrah Sayyid -al-Mῡrslaīn, (Damīshq: Dar al-Fīḥa’a, 1425 AH), 1/191.
2120 Abῡ al-Qasīm Sῡlaīman bin Aḥmad -āl-Ṭībranī, -Al-Mῡjam -ῡl-Kabīr, (Beirūt: Dār Iḥyā -al- Tῡrath -al-‘Arabiyah,1983), 25.
2221 ‘Imad al-Dīn Abῡl -al-Fīda Isma‘īl Ibn Kathīr, Tafsīr -al-Qῡrān -al-‘Azīm, (Qῡrṯuba: Maktabah ῡlad ῡl-Sheīkh), 8/295.
2322 Aḥmad bin al-ḥusayn bin ‘Ali Abῡ Bakr -al-Bayhaqī, dalā –al- nabῡwat w m‘īrīfa Saḥīb -al-Sharīa, (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyah,1405),264/5.
2423 Muḥammad bin ‘Ismael -al- bῡkharī, Al jamῡ -al- mῡsnad al saḥīḥ bῡkharī,( Dār tῡq -al- Najāt, 1422H),3008.
2524 Aḥmad bin Hῡsain -al- Ghaītabi -al- ḤanĪf Badr ῡl-Dīn -al-‘Aīny, ‘Īmada -al-Qarī Sharḥ Saḥīḥ Al- bῡkharī, (Beirūt: Dār Iḥyā -al- Tῡrath -al-‘Arabiyah), 257/14.
2625 Shaḥab ῡl-Dīn Maḥmud bin ‘Abdῡllaḥ -al-Hῡsseīnī -al-Ālusī, Rῡh al-Mā‘anī fī Tafsīr -al-Qῡrān -al-‘Azīm wl- Sab ῡl-Masthanī, (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyah,1415 AH), 29/155.
2726 Muḥammad bin ‘Ismael -al- bῡkharī, Al jamῡ -al- mῡsnad al saḥīḥ bῡkharī,( Dār tῡq -al- Najāt, 1422H),462.
2827 Daḥr 76:8-9.
2928 Muḥammad 4 :47.
3029 آقا کا غلام سے مالی معاہدہ کرنا کہ وہ اسے جب قسط وار مقررہ مقدار مال ادا کردےگا تو ازاد ہوجائے گا۔
3130 ام ولداس زر خرید کنیز کو کہا جاتا ہے جو اپنے مالک کے بچے کی ماں بن جائے۔ ماں بنتے ہی اس کنیز کو بیچنا حرام ہو جاتا ہے اور کئی احکام میں وہ آزاد عورت کے احکام پر عمل کرتی ہے۔ نیز اپنے مالک کی موت کے ساتھ ہی آزاد ہو جاتی ہے۔
3231 Mῡslīm Bin -al- ḥajajaj -al- Qashīrī Nīshapῡrī -al- Mῡsnad -al- Saḥīḥ -al- Mῡkhtasar, (Beirūt: Dār Iḥyā -al- Tῡrath -al-‘Arabiyah, 1992),1764.
3332 Aḥmad bin Hῡsain -al- Ghaītabi -al- ḤanĪf Badr ῡl-Dīn -al-‘Aīny, ‘Īmada -al-Qarī Sharḥ Saḥīḥ Al- bῡkharī, (Beirūt: Dār Iḥyā -al- Tῡrath -al-‘Arabiyah),119/17.
3433 Muḥammad al-Zarqanī al-Malīkī, Sharḥ al-Zarqanī ‘Al- Mῡḥb –al- Dῡnyah al-Muḥammadīyah, (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyah,1417 AH), 53/3.
3534 ‘Abdul Malīk Bin Hasḥam, Alsiratῡ -al- nbvīya lībīn Hasham, (Beirūt: Dār -al- Jaīal, 1411H), 90/4.
3635 ‘Abdul Malīk Bin Hasḥam, Alsiratῡ -al- nbvīya lībīn Hasham, (Beirūt: Dār -al- Jaīal, 1411H), 46/4.
3736 Aḥmad bin Ayῡb Abῡ al-Qāsīm al-Tabaranī, Al-Mῡj‘am al- Saghīr, (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyah, Dar ‘Ammar, 1405 AH), 409, 250/1.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 4 Issue 1 | 2023 | ||
Volume 4 Issue 1 | 2023 | ||
Volume 4 Issue 1 | 2023 | ||
Volume 4 Issue 1 | 2023 | ||
Volume 4 Issue 1 | 2023 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |