Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Amir > Volume 4 Issue 1 of Al-Amir

استنباطِ احکام میں ضعیف حدیث کا مقام اور فقہاء کی آراء کا تجزیاتی مطالعہ Analytical study of the Status of hadith e Da’eef in the interpretation of rulings and the opinions of the jurists |
Al-Amir
Al-Amir

Article Info
Authors

Volume

4

Issue

1

Year

2023

ARI Id

1682060063651_3217

Pages

27-51

PDF URL

https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/51/51

Chapter URL

https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/51

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

@page { size: 8.27in 11.69in; margin-left: 1.2in; margin-right: 1.2in; margin-top: 0.5in; margin-bottom: 0.5in } p { margin-bottom: 0.1in; direction: rtl; line-height: 115%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.western { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", serif; font-size: 14pt } p.cjk { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14pt } p.ctl { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14pt } p.sdfootnote-western { margin-bottom: 0in; direction: rtl; font-family: "Calibri", serif; font-size: 10pt; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.sdfootnote-cjk { margin-bottom: 0in; direction: rtl; font-family: "Calibri"; font-size: 10pt; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.sdfootnote-ctl { margin-bottom: 0in; direction: rtl; font-family: "Arial"; font-size: 10pt; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } a:link { color: #0000ff; text-decoration: underline } a.sdfootnoteanc { font-size: 57% }

أﻷمِیر:جلد4؍ شمارہ 1 ..( جنوری–جون3 220ء) )13(

استنباطِ احکام میں ضعیف حدیث کا مقام اور فقہاء کی آراء کا تجزیاتی مطالعہ

Analytical study of the Status of hadith e Da’eef in the interpretation of rulings and the opinions of the jurists

Yasir Abbas

There are two main sources of Islam, one is the Book of Allah and the other is the Sunnah and Sira of the Prophet (peace be upon him). The Qur'an is the final collection of 23 years of divine revelation revealed to the Holy Prophet (PBUH) whose literal and spiritual preservation was undertaken by Allah Almighty Himself. Therefore, the Qur'an is the only book in the world which has one letter, one action and one line in its original state just as it was revealed to the pure heart of the Holy Prophet (sws) and the Holy Prophet (sws). The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) told the Sahaabah. That is why the greatest truth of Islam, the book is the living Qur'an. The second major basis of the reality of Islam is the pure Sira and Sunnah of the Prophet of Humanity, the Servant of the Universe. Like the Qur'an al-Hakim, every moment, every day and every angle of the life of the author of the Qur'an is in front of everyone like an open book with all its mysteries. Even in front of one's own and in front of others. A da’if hadith is a hadith which does not fulfil the conditions of the sahih or hassan hadith.

Ruling: There is a difference of opinion between the ‘ulema on the ruling on acting upon weak hadiths. The reliable opinion is that weak hadiths can be acted upon for virtuous supererogatory deeds (fada’il al a’mal), for religious exhortation, and stories, and similar things that are not connected to legal rulings and tenants of belief.

Keywords: Hadith, Hadith e Da’eef, Derivation of Ahkaam, Jurists, Different opinions.

دین اسلام کے بنیادی مآخذ دو ہیں، ایک کتاب اللہ اور دوسری سنت و سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ قرآن حکیم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترنے والی 23 سالہ وحی الہٰی کا وہ حتمی مجموعہ ہے جس کی لفظی ومعنوی حفاظت کا ذمہ خود اللہ رب العزت نے اٹھایا۔ چنانچہ قرآن حکیم دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جس کا ایک ایک حرف ایک ایک حرکت اور ایک ایک سطر اسی طرح اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جس طرح یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر پر اترا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو سنایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام کی سب سے بڑی حقانیت، کتاب زندہ قرآن ہے۔ حقانیت اسلام کی دوسری بڑی اساس پیغمبر انسانیت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و سنت مطہرہ ہے۔ قرآن حکیم کی طرح صاحب قرآن کی زندگی کا بھی ایک ایک لمحہ، ایک ایک دن اور ایک ایک زاویہ اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ ایک کھلی کتاب کی طرح ہر شخص کے سامنے موجود ہے۔ اپنوں کے سامنے بھی اور غیروں کے سامنے بھی۔

اس میں شک نہیں کہ اصل کتابِ ہدایت قرآن کریم ہے ،حدیثِ نبوی اس کی تفسیر وتشریح ہے، جس کو نظر انداز کرکے صرف قرآن کے ذریعہ راہ یاب نہیں ہوا جاسکتا، جیساکہ قرآنی ارشاد اس پر صریح دلالت کررہا ہے:

وَأَنزَلۡنَآ إِلَيۡكَ ٱلذِّكۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيۡهِمۡ وَلَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُونَ1

اور حدیث ایک اتھاہ سمندر ہے، سرکار دوعالم ﷺ کی تئیس سالہ زندگی میں آپ کے اقوال، افعال، تقریرات خلقی وخُلقی احوال کا مجموعہ جو دربار نبوی کے حاضرباش صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعہ نقل در نقل ہوتا ہوا امت کوپہنچا ہے، روایت ودرایت کے اعتبار سے اس کی صحت وصداقت کو جانچنے کے لئے محدثین اور فقہاء امت نے اس قدر ممکنہ تدابیر وقوانین اپنائے جو صرف اور صرف اسی امت محمدیہ کی خصوصیت ہیں، ثبوت واستناد کے اعتبار سے حدیثوں کے مختلف درجات قائم کئے ،جن کو صحیح، حسن، ضعیف وغیرہ سے جانا جاتا ہے ، چنانچہ عمل اور استدلال کے اعتبار سے بھی ان میں فرق مراتب لابدی امر ہے۔

آنحضرتﷺ نے اپنی زبانِ مبارک سے حدیث کی کسی طرح تقسیم نہیں کی؛ نہ آپ کے صحابہ نے آپ کی تعلیم کوکسی تقسیم میں اُتارا؛ تاہم اس پہلے دور میں یہ بات مسلمانوں میں مسلم تھی کہ حضورﷺ کی جملہ تعلیمات خواہ وہ کسی قسم کے تحت آتی ہوں، سب الہٰی ہدایت ہیں اور سب ضیاءِ رسالت سے مستنیر اور جملہ عالم کے لیئے جلوہ فگن اور فیض رساں ہیں۔ بعد میں جب فتنے پیدا ہونے شروع ہوئے اور تدلیس کی کوششیں کی جانے لگیں تو اس میدان میں علماء اُصول اُترے اور سہولت فہم کے لیئے انہوں نے ان کے انواع واقسام پر غور کیا؛ اسناد کے حالات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے مختلف جہات سے اس الہٰی ہدایت کا استقراء فرمایا اور مختلف اقسام حدیث تعیین کردیں۔انہوں نے اس فن پر اُصولی گفتگو کی، ان اصولوں کوقرآن وحدیث سے استنباط کیا، ان پر علمی بحثیں کیں، اختلافات پیدا کیئے اور حل کیئے۔ انکے اس تجربہ اور معرفت کے نتیجہ میں احادیث مختلف قسموں میں تقسیم ہوئی ہیں، حدیث کا تعلق چونکہ زیادہ تراعمال، ان کے مسائل اور پھرفضائل سے ہے، اس لیئے حدیثیں ہرباب کی مناسبت اور ضرورت کے مطابق مختلف پیمانوں میں قبول ہوتی رہی ہیں ۔

حدیث کا لغوی معنی

لسان العرب میں ہے:

الحدیث نقیض القدیم ... والحدیث کون الشيء لم یکن، ... والحدیث الجدید من الاشیاء، والحدیث الخبر یأتي علی القلیل والکثیر والجمع أحادیث 2

حدیث قدیم کا نقیض (یعنی مقابل مخالف) ہے، حدیث شیٴ کا ہوجانا جو پہلے نہیں تھی، بمعنی جدید اور نئی، بمعنی خبر خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر، اور جمع احادیث ہے۔

علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں:

كلّ كلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له:حديث، قال عزّ وجلّ: وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً 3

ہر وہ کلام جو انسان تک پہنچتا ہے کان کی جانب سے یا وحی کی جانب سے بیداری یا خواب کی حالت میں اسے حدیث کہا جاتا ہے۔ اللہ عزّ وجلّ کا ارشاد ہے: واذ اَسرّ النبیّ“ الآیة اور جب کہ کہی نبی نے اپنی بعض بیوی سے ایک بات۔

حدیث کا اصطلاحی معنی

شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی صحیح بخاری کے باب الحرص علی الحدیث کے تحت لکھتے ہیں:

” الْمُرَادُ بِالْحَدِيثِ فِي عُرْفِ الشَّرْعِ مَا يُضَافُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَأَنَّهُ أُرِيدَ بِهِ مُقَابَلَةُ الْقُرْآنِ لِأَنَّهُ قَدِيمٌ “ 4

حدیث سے مراد شرعی ودینی عرف واصطلاح میں وہ امور ہیں، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہیں، ”ما یضاف الی النبی“ میں حافظ عسقلانی رحمة الله عليه نے جس عموم کی جانب اشارہ کیا تھا، ان کے تلمیذ رشید حافظ سخاوی نے اپنی ذکر کردہ تعریف میں اسی کی تشریح و توضیح کی ہے۔ ”واللہ اعلم“

حافظ سخاوی ”حدیث“ کی تعریف ان الفاظ سے کرتے ہیں:

وَ (الْحَدِيثُ) لُغَةً: ضِدُّ الْقَدِيمِ، وَاصْطِلَاحًا: مَا أُضِيفَ إِلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَوْلًا لَهُ أَوْ فِعْلًا أَوْ تَقْرِيرًا أَوْ صِفَةً، حَتَّى الْحَرَكَاتُ وَالسَّكَنَاتُ فِي الْيَقَظَةِ وَالْمَنَامِ، فَهُوَ أَعَمُّ مِنَ السُّنَّةِ [الْآتِيَةِ قَرِيبًا] ، وَكَثِيرًا مَا يَقَعُ فِي كَلَامِ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَمِنْهُمُ النَّاظِمُ، مَا يَدُلُّ لِتَرَادُفِهِمَا5

حدیث لغت میں حادث ونوپید کے معنی میں ہے اور اصطلاح محدثین میں حدیث وہ سب چیزیں ہیں جو نبی علیہ الصلوٰة والسلام کی جانب منسوب ہیں (یعنی) آپ صلى الله عليه وسلم کا قول، یا فعل، یا آپ کا کسی امر کو ثابت اور برقرار رکھنا، یا آپ کی صفات؛ حتی کہ بیداری اور نیند میں آپ کی حرکت وسکون (یہ سب حدیث ہیں لہٰذا اس تعریف کی رو سے یہ سنت سے عام ہے، (جبکہ) علمائے حدیث (جن میں ناظم یعنی الفیة الحدیث کے مصنف حافظ عراقی بھی ہیں) کا کلام کثرت سے یوں واقع ہوا ہے، جو حدیث وسنت کے ترادف اور ایک ہونے کو بتارہا ہے۔

اور بعض محدثین نے حدیث کی تعریف میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی صفات، اور خوابوں کا بھی؛ بلکہ بحالت نوم یا بیداری آپ کے حرکات وسکنات کا اضافہ کیا ہے؛ لہٰذا ان کی تعریف کے لحاظ سے حدیث میں سنت کے اعتبار سے وسعت و عمومیت ہوگی۔

حدیث صحیح کی پانچ شرطیں ہیں: 1۔سند کا اتصال2۔ راویوں کی عدالت3۔ضبط 4۔شذوذ 5۔علت قادحہ سے محفوظ ہونا۔

حدیث حسن بھی انہیں صفات کی حامل ہوتی ہے، البتہ اس کے کسی راوی میں ضبط کے اعتبار سے معمولی کمی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی حدیث نہ تو صحیح کہی جاسکتی ہے اور نہ ہی ضعیف میں شمار ہوتی ہے۔

حسن کی ایک قسم وہ ضعیف ہے جو تعدد طرق کی وجہ سے قوت پاکر حسن بن جاتی ہے اور جو حدیث اس سے بھی فروتر ہو وہ ضعیف کہلاتی ہے، جس کے مراتب مختلف ہوتے ہیں، سب سے گھٹیا موضوع ہے۔

صحیح اور حسن کے تو قابل استدلال ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ چنانچہ جمیع ابواب دین میں ان سے استدلال کیا جاتا ہے، البتہ ضعیف کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور کا خیال ہے کہ احکام یعنی حلال وحرام کے باب میں تو ضعیف کو حجت نہیں بنایا جاسکتا ہے، البتہ فضائل اعمال ترغیب وترہیب، قصص، مغازی وغیرہ میں اس کو دلیل بنایا جاسکتا ہے بشرطیکہ موضوع نہ ہو ، چنانچہ ابن مہدی،امام احمدوغیرہم سے منقول ہے:

(إِذَا رُوِّينَا عَنِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي ‌الْحَلَالِ ‌وَالْحَرَامِ وَالْأَحْكَامِ، شَدَّدْنَا فِي الْأَسَانِيدِ وَانْتَقَدْنَا فِي الرِّجَالِ، وَإِذَا رُوِّينَا فِي الْفَضَائِلِ وَالثَّوَابِ وَالْعِقَابِ، سَهَّلْنَا فِي الْأَسَانِيدِ وَتَسَامَحْنَا فِي الرِّجَالِ)6

بعض کے نزدیک باب احکام میں بھی حجت ہے، جبکہ دوسرے بعض کے نزدیک سرے سے حجت نہیں۔

وَمَنَعَ ابْنُ الْعَرَبِيِّ الْمَالِكِيُّ الْعَمَلَ بِالضَّعِيفِ مُطْلَقًا.وَلَكِنْ قَدْ حَكَى النَّوَوِيُّ فِي عِدَّةٍ مِنْ تَصَانِيفِهِ إِجْمَاعَ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَغَيْرِهِمْ عَلَى الْعَمَلِ بِهِ فِي الْفَضَائِلِ وَنَحْوِهَا خَاصَّةً.فَهَذِهِ ثَلَاثَةُ مَذَاهِبَ7

حدیثِ ضعیف

حدیثِ ضعیف کی تعریف میں متقدمین اور متأخرین کی الگ الگ رائیں ہیں، متقدمین کی اصطلاح میں"ضعیف" وہ حدیث کہلاتی ہے جومنکر اور باطل نہ ہو اور اس کےراوی متہم بالکذب نہ ہو؛ گویا متقدمین کے یہاں حدیث صحیح ہی کی ایک قسم "حدیثِ ضعیف" ہے اور اسے متأخرین کی اصطلاح میں "حدیثِ حسن" کہا جاتا ہے اور متقدمین نے یہ طے کررکھا تھا کہ اس ضعیف حدیث کے خلاف اگرکوئی حدیث صحیح نہ ہو توپھر اس حدیثِ ضعیف (حدیثِ حسن عندالمتأخرین) پر عمل کیا جائے گا اور اسے قیاس پربھی ترجیح دی جائے گی۔

علامہ ذہبی، ’’الموقظہ‘‘ میں حدیث ضعیف کی بحث میں لکھتے ہیں :

مَا نَقَصَ عَنْ دَرَجَةِ الْحَسَنِ قَلِيْلاً.

علامہ ذہبی حدیث ضعیف کی بہت ہی جامع اور لطیف تعریف کرتے ہیں کہ حدیث ضعیف وہ ہے ’’جو درجہ حسن سے تھوڑی سی ناقص اور کمزور ہو‘‘۔ اور یہ اس لئے ضعیف ہے کہ اس میں لوگوں کو ترددّ پیدا ہو جاتا ہے کہ یہ درجہ حسن میں داخل ہوتی ہے یا نہیں۔ پس قلیل سا نقص واقع ہو جائے تو وہ ضعیف ہو جاتی ہے۔

کجا یہ کہ قلیل نقص درجہ ’’حسن‘‘ میں ہو جائے تو اس کو ضعیف کا درجہ دیا جائے اور کجا یہ کہ اس کو موضوع اور مردود سمجھ کر رد کردیا جائے، یہ علم ہے اور وہ جہالت کی انتہا ہے۔علامہ ذہبی اس کے بعد ایک اور لطیف بات لکھتے ہیں کہ:وَاٰخِرُ مَرَاتِبِ حَسَن هِیَ اَوَّلُ مَرَاتِبِ الضَّعِيْف.’’حسن کا آخری مرتبہ ضعیف کا پہلا درجہ ہے‘‘۔

لیکن متأخرین کی اصطلاح میں "حدیثِ ضعیف" وہ کہلاتی ہے جس میں حدیث صحیح وحسن کے شرائط نہ پائے جائیں، اس کے راوی غیرعادل یامتہم بالکذب، یامستورالحال ہوں اور وہ متعدد طرق سے مروی بھی نہ ہو یااس میں شذوذ وعلتِ خفیہ ہوں یہ اسباب کسی حدیث کوضعیف قرار دینے کے لیے کافی ہیں۔8


حدیثِ ضعیف کا ضعف ختم ہوسکتا ہے

اگرحدیث ضعیف ہے تواس کا ضعف مختلف قرائن سے دور ہوسکتا ہے، ان میں سے ایک تعدد طرق ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرحدیث ضعیف کئی سندوں سے مروی ہو تواس کی وجہ سے وہ ضعف سے نکل جاتی ہے اور اسے قوی ومعتبر اور لائق عمل قرار دیا جاتا ہے، محدثین کی اصطلاح میں اس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں، حافظ بن حجرؒ کی تفصیل کے مطابق یہ حدیث مقبول ومعتبر کی چار اقسام میں سے ایک ہیں۔9

بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حسن لغیرہ بھی اصل میں ضعیف ہی ہے؛ مگرکسی قوت پہونچانے والے امر کی وجہ سے اس میں حسن پیدا ہو جاتاہے۔

"الحسن لغيره أصله ضعيف وإنماطرأعليه الحسن بالعاضد الذي عضده"۔10

ترجمہ:حسن لغیرہ دراصل ضعیف ہی ہے اور اس میں حسن دیگر روایات کے اس کی تائید کرنے کی وجہ سے پایا جاتا ہے۔

لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ضعف کسی راوی کے فسق یاکذب بیانی کی وجہ سے نہ ہو؛ کیونکہ تعددِطرق ان کے کذب وفسق کے احتمال کو ختم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔

دوسرا قرینہ یہ ہے کہ وہ حدیث ضعیف کسی اصل شرعی ودلیلِ شرعی کے موافق ہو؛ خواہ کوئی نص قرآنی ہویاقولِ صحابی ہو یاشریعت کا کوئی قاعدہ وضابطہ ہو۔

اس کے علاوہ بھی کچھ قرائن ہیں جو کہ حدیث ضعیف کوتقویت پہنچاتے ہیں؛ اسی لیے حافظ ابنِ حجرؒ نے نخبہ میں ذکرفرمایا ہے کہ؛ اگرکوئی ایسا قرینہ مل جائے جوحدیث ضعیف کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کو راجح بتائے تواس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں۔

ضعیف کی اقسام

زمانہ قدیم میں حدیث کی دوہی قسمیں ہوا کرتی تھیں؛ لیکن سب سے پہلے جس نے احادیث کوتین قسموں میں منقسم کیا وہ حضرت امام ترمذیؒ کی شخصیت ہے، صحیح، حسن، ضعیف، ان ہی کی اس تقسیم کومدنظر رکھتے ہوئے احادیث ضعیف کی پھر چارقسمیں سامنے آتی ہیں:

  • وہ ضعیف جس کا ضعف تعددِ طرق اور دیگرقرائن سے دور ہوجاتا ہو

  • ضعیف متوسط الضعف

  • ضعیف شدید الضعف

  • موضوع۔

    فقہاء کا اختلاف

    قسم اوّل سے توباتفاق احتجاج واستدلال جائز ہے اور قسم سوم وچہارم سے باتفاق استدلال کرنا درست نہیں ہے؛ البتہ قسمِ دوم سے استدلال کی امام احمدؒ وامام اعظمؒ وغیرہ گنجائش دیتے ہیں؛ جب کہ بہت سے علماء اس سے منع کرتے ہیں۔

    حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کے شرائط

    حافظ ابن حجرؒ نے حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کی تین شرطیں بیان کی ہیں:

  • اس حدیث کا ضعف ضعفِ شدید نہ ہو یعنی اس کا راوی کا ذب اور دروغ گوئی میں مشہور نہ ہو اور نہ فاحش غلطیوں کا مرتکب ہو

  • حدیث جس مفہوم پر مشتمل ہو اس کی ایسی بنیاد موجود ہو جومعمول بہ ہو، یعنی اس پر عمل کرنا اپنے اندر غرابت کا کوئی پہلو نہ رکھتا ہو اور اسلام کے ثابت اور مقرر ومعروف قواعد کے خلاف نہ ہو

  • دورانِ عمل اس کے ثبوت کا عقیدہ نہ رکھا جائے؛ بلکہ ازروئے احتیاط اس پر عمل ہو، یعنی اس طور پر نہ قبول کی جائے کہ واقعتاً یہ حدیث صحیح النسبت ہے؛ بلکہ اس بناء پر عمل کیا جائے کہ ممکن ہے کہ نفس الامر میں اس کی نسبت آپﷺکی طرف درست ہو۔11

    اگر کوئی شخص غلطی سے ضعیف حدیث پر عمل کرتا رہا ہےلیکن وہ عمل دیگر صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے تو وہ اللہ کے ہاں مقبول وماجور ہے،اور اگر وہ عمل دیگر احادیث سے ثابت نہ ہو تو جہالت کی بنیاد پران شاء اللہ اس کا وہ عمل اللہ کے ہاں قابل معافی ہے۔کیونکہ حدیث نبویﷺ ہے:

    «إِنَّ اللَّهَ قَدْ ‌تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ»12

    اللہ تعالی نے میری امت سے غلطی سے، بھول کر، یا مجبور ہو کر کیے گئے اعمال سے در گزر کر لیا ہے۔

    ضعیف حدیث باب احکام میں

    جہاں تک احکامِ شرعیہ میں ضعیف حدیث کے استعمال کا تعلق ہے تو جمہور محدثین وفقہاء کے طرز عمل سے صاف ظاہر ہے کہ ضعیف سے حکم شرعی پر استدلال کیا جاسکتا ہے ،جبکہ ضعف شدید نہ ہو یعنی سند میں کوئی متہم یا کذاب راوی نہ ہو، ضعیف حدیث سے استدلال کی چند صورتیں ہیں۔

    پہلی صورت

    مسئلہ میں اس کے علاوہ کوئی مضبوط دلیل نہ ہو، مختلف مکاتب فکر کے تعلق سے اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

    الف :۔ حنفیہ

    امام ابوحنیفہکا ارشاد ہے:

    إنَّ ضَعِيفَ الْأَثَرِ ‌أَوْلَى ‌مِنْ ‌الْقِيَاسِ۔13

    یعنی باب میں اگر ضعیف حدیث بھی موجود ہو تو قیاس نہ کرکے اس سے استدلال کیا جائے گا۔

    محقق ابن الہمامفرماتے ہیں:

    الاستحباب یثبت بالضعیف غیر الموضوع

    ضعیف جو موضوع کی حد تک نہ پہنچی ہوئی ہو، اس سے استحباب ثابت ہوتا ہے۔

    ب:۔ مالکیہ

    امام مالککے نزدیک مرسل بمعنی عام منقطع حجت ہے، جو جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے ،مالکیہ کی معتمد ترین کتاب نشر النبود علی مراقی السعود میں ہے:،

    علم من ‌احتجاج ‌مالك ومن وافقه بالمرسل إن كلا من المنقطع والمعضل حجة عندهم لصدق المرسل بالمعنى الأصولي على كل منهما 14

    ج:۔ شافعیہ

    مرسل حدیث امام شافعیکے نزدیک ضعیف ہے، لیکن اگر باب میں صرف مرسل ہی ہو تو وہ اس سے احتجاج کرتے ہیں، حافظ سخاوینے

    ماوردی کے حوالہ سے یہ بات فتح المغیث میں نقل کی ہے۔

    حافظ ابن قیمنے نقل کیا ہے :

    وَقَدَّمَ الشَّافِعِيُّ خَبَرَ تَحْرِيمِ صَيْدِ وَجٍّ مَعَ ضَعْفِهِ عَلَى الْقِيَاسِ، وَقَدَّمَ خَبَرَ جَوَازِ الصَّلَاةِ بِمَكَّةَ فِي وَقْتِ النَّهْيِ مَعَ ضَعْفِهِ15

    کہ امام شافعی کے نزدیک ضعیف حدیث قیاس پر مقدم ہے۔ چنانچہ انہوں نے صیدؤج(طائفہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے ، شوافع کے نزدیک وہاں شکار کرنا منع ہے)۔ کی حدیث کو ضعیف کے باوجود قیاس پر مقدم کیا۔ حرم مکی کے اندر اوقات مکروہہ میں نماز پڑھنے کے جواز

    والی حدیث کو ضعیف کے باوجود قیاس پر مقدم کیا۔

    ‌مَنْ ‌قَاءَ أَوْ رَعَفَ فَلِيَتَوَضَّأْ وَلِيَبْنِ عَلَى صَلَاتِهِ

    کو اپنے ایک قول کے مطابق باوجود ضعف کے قیاس پر ترجیح دی۔

    د:۔حنابلہ

    ابن النجار حنبلی نے شرح الکوکب المنیر میں امام احمد کایہ قول نقل کیا ہے:

    لَسْت ‌أُخَالِفُ مَا ضَعُفَ مِنْ الْحَدِيثِ إذَا لَمْ يَكُنْ فِي الْبَابِ مَا يَدْفَعُهُ 16

    یعنی باب میں ضعیف حدیث ،ہواور اس کے معارض کوئی دلیل نہ ہو تو میں اس کو چھوڑ تا نہیں ہوں۔

    حافظ ہروی نے ذم الکلام میں امام عبد اللہ بن احمد سے نقل کیا ہے کہ :

    قُلْتُ لِأَبِي رَجُلٌ وَقَعَتْ لَهُ مَسْأَلَةٌ وَفِي الْبَلَدِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِيهِ ضَعْفٌ وَفَقِيهٌ مِنْ أَهْلِ الرَّأْيِ أَيُّهُمَا يَسْأَلُ قَالَ لَا يَسْأَلُ أَهْلَ الرَّأْيِ ‌ضَعِيفُ ‌الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ قَوِيِّ الرَّأْيِ17

    میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ ایک شخص کو مسئلہ درپیش ہے، اور شہر میں ایک محدث ہے جو ضعیف ہے (ایک روایت میں، جو صحیح وسقیم میں تمیز نہیں کرپاتا) اور ایک فقیہ ہے جو اہل رائے وقیاس میں سے ہے، وہ کس سے مسئلہ پوچھے؟ فرمایا: اہل رائے سے تو پوچھے نہیں، کیونکہ ضعیف الحدیث ،قوی الرأے سے بہتر ہے۔

    فقہ حنبلی کی مستند ترین کتاب المغنی میں ابن قدامہنے لکھا کہ:

    فإن ‌النوافل والفضائل لا يشترط ‌صحة ‌الحديث فيها18

    نیز امام کے خطبہ کے دوران حاضرین کے احتباء (اس طرح بیٹھنا کہ سرین زمین پر ہو، دونوں گھٹنے کھڑے ہوں اور دونوں بازؤں یا کسی کپڑے وغیرہ سے انہیں باندھ لیا جائے) کی بابت لکھا کہ کوئی حرج نہیں،کیونکہ چند ایک صحابہ سے مروی ہے، لیکن بہتر نہ کرنا ہے، کیونکہ حضورﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے امام کے خطبہ کے دوران حبوة سے منع فرمایا ہے، اس لئے اگرچہ حدیث ضعیف ہے ،افضل حبوة کا ترک ہی ہے۔

    ھ:۔ فقہاء محدثین

    حافظ ذہبیؒ نے امام اوزاعی کے متعلق لکھا کہ: وہ مقطوعات اور اہل شام کے مراسیل سے استدلال کرتے تھے۔

    امام ابوداودکے متعلق حافظ ابن مندہ نے کہا:

    وَيُخْرِجُ الْإِسْنَادَ الضَّعِيفَ إِذَا ‌لَمْ ‌يَجِدْ ‌فِي ‌الْبَابِ غَيْرَهُ؛ لِأَنَّهُ أَقْوَى عِنْدَهُ مِنْ رَأْيِ الرِّجَالِ19

    یعنی امام ابوداودکا مذہب ہے کہ جب کسی باب میں انہیں ضعیف حدیث کے علاوہ کوئی حدیث نہیں ملتی تو اسی کا اخراج کر لیتے ہیں، کیونکہ ضعیف حدیث ان کے نزدیک قیاس سے قوی تر ہے۔

    و:۔ ظاہریہ

    ابومحمد ابن حزم ظاہری جن کا تشدد مشہور ہے، محلی میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھنے سے متعلق حدیث بروایت حسن بن علیلائے، اور اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ:

    وَهَذَا الْأَثَرُ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ مِمَّا يُحْتَجُّ بِمِثْلِهِ فَلَمْ نَجِدْ فِيهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - غَيْرَهُ20

    یہ حدیث اگرچہ اس لائق نہیں کہ اس سے استدلال کیا جائے، لیکن چونکہ رسول اللہﷺ سے اس سلسلہ میں اور کوئی حدیث ہمیں نہیں ملی ،اس لئے ہم اسے اختیار کرتے ہیں۔

    دوسری صورت

    اگر ضعیف حدیث پر عمل کرنے میں احتیاط ہو تو اس کو تمام حضرات اختیار کرتے ہیں، چنانچہ امام نووینے اذکار میں عمل بالضعیف کی استثنائی

    صورتوں کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

    إلا أن يكون في احتياطٍ في شيء من ذلك، كما إذا وردَ حديثٌ ‌ضعيفٌ ‌بكراهة بعض البيوع أو الأنكحة، فإن المستحبَّ أن يتنزّه عنه21

    اس کی شرح میں ابن علان نے مثال دی کہ جیسے فقہاء کرام نے دھوپ سے گرم کئے ہوئے پانی کے استعمال کو مکروہ لکھا ہے، حدیث حضرت عائشہکی بناء پر جو ضعیف ہے۔

    تیسری صورت

    اگر کسی آیت یا صحیح حدیث میں دو یا دو سے زائد معنوں کا احتمال ہو اور کوئی ضعیف حدیث ان معانی میں سے کسی ایک معنی کو راجح قرار دیتی ہو، یا دو یا چند حدیثیں متعارض ہوں اور کوئی حدیث ضعیف ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دیتی ہو تو علماء امت اس موقع پر ضعیف حدیث کی مدد سے ترجیح کا کام انجام دیتے ہیں۔

    کچھ اور صورتیں

    اس کے علاوہ کسی ثابت شدہ حکم کی مصلحت وفائدہ معلوم کرنے کے سلسلہ میں بھی ضعیف کا سہارا لیا جاتا ہے، نیز حدیث ضعیف اگر متلقی بالقبول ہوجائے اور اس کے مطابق فقہاء یا عام امت کا عمل ہوجائے تو ضعیف، ضعیف ہی نہیں رہتی اور اس کے ذریعہ وجوب اور سنیت تک کا ثبوت ہوتا ہے۔

    سید احمد بن الصدیق الغماری المالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

    احکام شرعیہ میں ضعیف سے استدلال کوئی مالکیہ ہی کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ تمام ائمہ استدلال کرتے ہیں ، اس لئے یہ جو مشہور ہے کہ احکام کے باب میں ضعیف پر عمل نہیں کیا جائے گا۔اپنے عموم واطلاق پر نہیں ہے، جیساکہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں، کیونکہ ہر مسلک کی ان احادیث احکام کا آپ جائزہ لیں ،جن سے سب نے یا بعض نے استدلال کیا ہے تو آپ کومجموعی طور سے ضعیف حدیثوں کی مقدار نصف یا اس سے بھی زائد ملے گی، ان میں ایک تعداد منکر، ساقط، اور قریب بموضوع کی بھی ملے گی، البتہ بعض کے متعلق وہ کہتے ہیں اس کو تلقی بالقبول حاصل ہے بعض کے متعلق اس کے مضمون پر اجماع منعقد ہے بعض کے متعلق یہ قیاس کے موافق ہے مگر ان سب کے علاوہ ایسی بہت سی حدیثیں بچیں گی جن سے ان کی تمام ترعلتوں کے باوجود استدلال کیا گیا ہے اور یہ قاعدہ کہ احکام میں ضعیف حدیث پر عمل نہیں کیا جائے گا یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے، کیونکہ شارع علیہ السلام سے جو کچھ منقول ہے ،اگرچہ اس کی سند ضعیف ہو ،اسے چھوڑ کر دوسری دلیل اختیار نہیں کی جاسکتی، اور ضعیف کے متعلق یہ قطعی نہیں کہاجا سکتا کہ یہ آں حضرت ﷺ سے ثابت نہیں ہے، جبکہ وہ موضوع نہ ہو، یا اس سے قوی اصل شرعی سے معارض نہ، لہذا اقوی دلیل کی عدم موجودگی میں ضعیف سے استدلال کو ہمیں برا سمجھنے کی بجائے اولیٰ بلکہ واجب کہنا چاہئے، ہاں یہ بات ضرور بری ہے کہ اس کے تئیں یہ رویہ اپنائیں کہ پسندیدگی اور اپنے مذہب کے موافق ہونے کے وقت تو اس پر عمل کریں اور ناپسندیدگی یا اپنے مذہب کے خلاف ہونے پر ضعیف کہہ کرردکردیں انتہی۔22

    خلاصہ کلام یہ کہ جب باب احکام میں ضعیف حدیث مقبول تو دیگر ابواب میں بدرجہ اولیٰ مقبول ہوگی۔

    ضعیف حدیث باب احکام کے علاوہ میں

    جیساکہ عرض کیا گیا کہ ضعیف غیر موضوع عقائد واحکام کے علاوہ جمہور کے نزدیک قابل عمل ہے، عقائد واحکام کے باب میں تشدد اور فضائل ،ترغیب وترہیب اور مناقب وغیرہ میں تساہل کی بات حافظ سخاوینے امام احمد،ابن معین،ابن المبارک،سفیان ثوریاورابن عینیہسے نقل کی ہے۔

    حافظ نووینے تو اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے، اپنی کتاب جزء اباحة القیام لاہل الفضلمیں فرماتے ہیں۔

    امام نووی نے اصول حدیث و اصول روایات کی کتاب میں لکھا ہے:

    وَيَجُوزُ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَغَيْرِهِمُ التَّسَاهُلُ فِي الْأَسَانِيدِ وَرِوَايَةُ مَا سِوَى الْمَوْضُوعِ مِنَ الضَّعِيفِ، وَالْعَمَلُ بِهِ مِنْ غَيْرِ بَيَانِ ضَعْفِهِ فِي غَيْرِ صِفَاتِ اللَّهِ تَعَالَى وَالْأَحْكَامِ ‌كَالْحَلَالِ ‌وَالْحَرَامِ23

    ترجمہ: اہل حدیث کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل (نرمی) برتنا اور موضوع کو چھوڑ کر ضعیف حدیثوں کو روایت کرنا اور ان پر عمل کرنا ان کا ضعف بیان کیے بغیر جائز ہے؛ مگر اللہ کی صفات اور حلال و حرام جیسے احکام کی حدیثوں میں ایسا کرنا جائز نہیں ہے

    امام نووی کی الاربعین اور اس کی شرح فتح المبین لابن حجر المکی الہیثمی کے الفاظ میں:

    وقد اتفق العلماء على ‌جواز ‌العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال) لأنه إن كان صحيحًا في نفس الأمر. . فقد أعطي حقه من العمل به، وإلَّا. . لم يترتب على العمل به مفسدة تحليلٍ ولا تحريم، ولا ضياع حقٍّ للغير24

    یعنی فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کے بارے میں علماء کا اتفاق ہے، کیونکہ اگر وہ واقعتاً صحیح تھی تو اس کا حق اس کو مل گیا، ورنہ اس پر عمل کرنے سے نہ تو حرام کو حلال کرنا لازم آیا اور نہ اس کے برعکس اور نہ ہی کسی غیر کا حق پامال کرنا۔

    معلوم ہوا کہ مسئلہ اجماعی ہے، اور کوئی بھی حدیث ضعیف کو شجرہٴ ممنوعہ قرار نہیں دیتا، لیکن چند بڑے محدثین واساطین علم کے نام ذکر کئے جاتے ہیں، جن کے متعلق یہ نقل کیا جاتا ہے کہ وہ فضائل میں بھی ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے قائل نہیں ہے۔

    ان اساطین میں امام بخاری، مسلم،یحی بن معیناورابوبکر بن العربیہیں، تفصیل کا تو موقع نہیں، آیئے ان حضرات کی آراء کے متعلق کچھ تحقیق کرلیں:

    امام بخاریکا موقف

    جہاں تک صحیح بخاری کا تعلق ہے تو اولاً: اس میں امام نے صرف صحیح حدیثوں کا التزام کیا ہے، لہذا اس میں کسی ضعیف حدیث کانہ ہونااس بات کو مستلزم نہیں کہ امام کے نزدیک ضعیف سرے سے ناقابل عمل ہے، جیساکہ کسی حدیث کا اس میں نہ ہونا اس بات کو مستلزم نہیں کہ وہ غیر صحیح ہے، چنانچہ خود آپ نے احادیث آداب واخلاق کا ایک گراں قدر مجموعہ الادب المفردمرتب فرمایا، جس کی شرط یقیناً ان کی جامع صحیح سے بہت فروتر ہے، حتی کہ عصر حاضر کے بعض علم برداران حفاظت سنت کو صحیح الادب المفرد اور ضعیف الادب المفرد کے جراحی عمل کی مشقت اٹھانی پڑی۔

    اس کتاب میں امام بخاری نے ضعیف احادیث وآثار کی ایک بڑی مقدار تخریج کی ہے، بلکہ بعض ابواب تو آبادہی ضعیف سے ہیں ،اور آپ نے ان سے استدلال کیا ہے، چنانچہ اس کے رجال میں ضعیف، مجہول، منکر الحدیث اور متروک ہر طرح کے پائے جاتے ہیں۔

    صحیح بخاری میں متکلم فیہ رجال کی حدیثیں

    ثانیا خود الجامع الصحیح میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن کی روایت میں کوئی متکلم فیہ راوی موجود ہے، جس کی حدیثیں ،محدثین کے اصول پر کسی طرح حسن سے اوپر نہیں اٹھ سکتی، بلکہ بعض حدیثوں میں ضعیف راوی منفرد ہے، اور اس کو داخل صحیح کرنے کی اس کے علاوہ کوئی تاویل نہیں ہوسکتی کہ اس کا مضمون غیر احکام سے متعلق ہے، اور شارحین نے یہی تاویل کی بھی ہے۔ ملاحظہ ہوں چند مثالیں:1- حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری میں محمد بن عبد الرحمن الطُفاوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:

    وَقَالَ أَبُو زرْعَة مُنكر الحَدِيث وَأورد لَهُ بن عدي عدَّة أَحَادِيث وَقَالَ إِنَّه لَا بَأْس بِهِ قلت لَهُ فِي البُخَارِيّ ثَلَاثَة أَحَادِيث لَيْسَ فِيهَا شَيْء مِمَّا استنكره بن عدي ------- ثَالِثهَا فِي الرقَاق كن فِي الدُّنْيَا كَأَنَّك غَرِيب الحَدِيث فَهَذَا الحَدِيث قد تفرد بِهِ الطفَاوِي وَهُوَ من غرائب الصَّحِيح وَكَأن البُخَارِيّ لم يشدد فِيهِ لكَونه من أَحَادِيث التَّرْغِيب والترهيب25

    یہ حدیث صحیح بخاری کی غریب حدیثوں میں سے ہے۔

    یعنی کن فی الدنیا کأنک غریب (بخاری کتاب الرقاق) حدیث کی روایت میں محمد بن عبد الرحمن الطفاوی منفرد ہے، حافظ فرماتے ہیں: شاید کہ امام بخاری نے اس کے ساتھ تساہل کا معاملہ صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ یہ ترغیب وترہیب کی حدیثوں میں سے ہے۔

    حَدَّثَنَا ‌أُبَيُّ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ عَنْ ‌أَبِيهِ عَنْ ‌جَدِّهِ قَالَ: «كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ‌حَائِطِنَا فَرَسٌ يُقَالُ لَهُ اللُّحَيْفُ» (کتاب الجہاد باب اسم الفرس والحمار)

    حافظنے تہذیب التہذیب میں ابی بن عباس بن سہل کی بابت امام احمد، نسائی، ابن معیناور امام بخاریسے تضعیف کے جملے نقل کئے، عقیلی نے کہا :اس کی کئی حدیثیں ہیں اور کسی پر اس کی متابعت نہیں کی گئی ہے۔

    ‌مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ عَنْ ‌طَلْحَةَ عَنْ ‌مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: «رَأَى سَعْدٌ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ لَهُ فَضْلًا عَلَى مَنْ دُونَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ تُنْصَرُونَ وَتُرْزَقُونَ إِلَّا ‌بِضُعَفَائِكُمْ.» ۔

    (کتاب الجہاد وباب من استعان بالضعفاء والصالحین فی الحرب)

    محمد بن طلحة بن مصرف الکوفی ان کا سماع اپنے والد سے کم سنی میں ہوا تھا، امام نسائی، ابن معین، ابن سعدوغیرہ نے ان کو ضعیف کہاہے ،تقریب میں ہے:

    محمد ابن طلحة ابن مصرف اليامي كوفي ‌صدوق ‌له أوهام وأنكروا سماعه من ‌أبيه ‌لصغره ۔ 26

    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مقدمہ میں فرماتے ہیں۔

    صحیح بخاری میں ان کی تین حدیثیں ہیں، دو تو متابعت کی وجہ سے درجہ صحت کو پہنچ جاتی ہے، تیسری (مذکورہ بالا حدیث) ہے، اس کی روایت میں محمد بن طلحہ منفرد ہیں، مگر یہ فضائل اعمال سے متعلق ہے یعنی فضائل اعمال کی حدیث ہونے کی وجہ سے چشم پوشی کی گئی۔

    امام مسلم کا موقف

    علامہ جمال الدین رحمہ اللہ نے امام مسلم کے متعلق دلیل یہ دی کہ انہوں نے مقدمہ میں ضعیف ومنکر احادیث کے روایت کرنے والوں کی سخت مذمت کی ہے اور اپنی صحیح میں ضعیف حدیث کا اخراج نہیں کیا ہے، لیکن امام مسلم کی اس تشنیع سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ضعفاء سے روایت کرنا مطلقاً ناجائز ہے، انہوں نے تو صحیح حدیثوں کو جمع کرنے والے پر یہ بات ضروری قرار دی ہے کہ وہ مشہور ثقہ راویوں کی حدیثوں کو تلاش کرکے جمع کرے، ضعیف حدیث کے علی الاطلاق مردود ہونے پر ان سے کوئی صراحت منقول نہیں ہے۔تاہم امام مسلم نے بعض ضعفاء کی حدیثیں صحیح میں متابعات وشواہد کے طور پر اخراج کی ہیں، آپ نے مقدمہ میں حدیثوں کی تین قسمیں قرار دی ہیں۔

    1-وہ حدیثیں جو حفاظ متقنین کی روایت سے ہیں۔2- وہ حدیثیں جو ایسے لوگوں کی روایت سے ہیں جو حفظ واتقان میں متوسط اور بظاہر جرح سے محفوظ ہیں۔3- وہ حدیثیں جو ضعفاء ومتروکین کی روایت سے ہیں۔

    امام مسلم کی اس صراحت اور صحیح میں ان کے طرز عمل کے درمیان تطبیق میں شراح نے مختلف باتیں کہی ہیں، قاضی عیاضنے جو توجیہ کی، علامہ ذہبیاور نووینے ا س کو پسند کیا، ا س کا خلاصہ یہ ہے:

    امام مسلم نے جن تین طبقات کا ذکر کیا ہے ،ان میں سے آخری طبقہ ان رواة کا ہے جن کے متہم ہونے پر تمام یا اکثر علماء کا اتفاق ہے، اس سے پہلے ایک طبقہ ہے جس کا ذکر امام نے اپنی عبارت میں نہیں کیا ہے ، اور وہ ، وہ لوگ ہیں جن کو بعض تو متہم سمجھتے ہیں اور بعض صحیح الحدیث قرار دیتے ہیں۔ یہ کل چار طبقے ہوئے، میں نے امام مسلم کو پایا کہ وہ پہلے دونوں طبقوں کی حدیثیں لاتے ہیں، اس طرح کہ باب میں اولاً طبقہٴ اولیٰ کی حدیث تخریج کرتے ہیں پھر مزید تقویت کے لئے طبقہ ثانیہ کی حدیثیں ذکر کرتے ہیں اور جب کسی باب میں طبقہٴ اولیٰ سے کوئی حدیث ان کے پاس نہیں ہوتی تو ثانیہ ہی کی حدیث پر اکتفاء کرتے ہیں، پھر کچھ ایسے لوگوں کی حدیثیں بھی تخریج کرتے ہیں جن کی بعض نے تضعیف اور بعض نے توثیق کی ہوتی ہے،رہے چوتھے طبقہ کے لوگ تو ان کو آپ نے ترک کردیا ہے۔27

    امام ذہبیفرماتے ہیں:

    میں کہتاہوں کہ طبقہٴ اولیٰ وثانیہ کی حدیثیں مساویانہ طور پر لیتے ہیں، ثانیہ کی معدود ے چند کو چھوڑ کر جس میں وہ کسی قسم کی نکارت سمجھتے ہیں، پھر متابعات وشواہد کے طور پر طبقہٴ ثالثہ کی حدیثیں لیتے ہیں ،جن کی تعداد بہت زیادہ نہیں، اصول میں تو ان کی حدیثیں شاید وباید ہی لیتے ہیں، یہ عطاء بن السائب، لیث بن ابی سلیم، یزید بن ابی زیاد، ابان بن صمعہ، محمد بن اسحاق اور محمد بن عمرو بن علقمہ اور ان کی حیثیت کے لوگ ہیں۔28


    یحیٰ بن معینکا موقف

    ابن سید الناس نے تو عیون الاثر میں یحی بن معینکا مذہب مطلقاََردہی نقل کیا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ ان کا مذہب جمہور کے موافق ہے، شواہد درج ذیل ہیں:

    جیساکہ اوپر مذکور ہوا ،حافظ سخاوینے فتح المغیث میں جن چند لوگوں سے (عقائد واحکام میں تشدد فضائل وغیرہ میں تساہل) نقل کیا ہے، ان میں ابن معینبھی ہیں۔

    شیخ احمد محمد نور سیف نے مقدمہ تاریخ ابن معین میں لکھا کہ: یحیی بن معینکی محمد بن اسحاق کے متعلق جو رائیں منقول ہیں ،ان سے قطعاً یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اس کی حدیثیں مطلقاً قابل ترک ہیں، چنانچہ فرمایا:

    ثقة، ولکن لیس بحجة

    ابن اسحاق کے شاگرد زیاد بن عبد اللہ البکائی کے متعلق فرمایا:

    لیس بشئ ، لابأس بہ فی المغازی، واما فی غیرہا، فلا

    معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک مغازی وغیرہ میں تو ابن اسحاق اور ان کے شاگرد مقبول ہیں، احکام وغیرہ میں نہیں۔

    الکامل لابن عدی میں ہے:

    بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيى بْنَ مَعِين يَقُولُ ‌إِدْرِيسُ ‌بْنُ ‌سِنَانٍ يُكْتَبُ مِنْ حَدِيثِهِ الرِّقَاقُ29

    ابن معین کے نزدیک ادریس بن سنان کی حدیث رقاق (آداب وفضائل) کے باب میں قابل قبول ہے، جبکہ یہ ضعیف ہیں۔

    ابوبکر بن العربی کا موقف

    یہ مالکی المسلک فقیہ ہیں، ان سے ایسی کوئی صراحت تو نہیں ملی جس سے ثابت ہو کہ ان کے نزدیک فضائل اعمال میں ضعیف حدیث قابل عمل نہیں، البتہ اس کے برعکس ثابت ہے۔ 1-مرسل حدیث جوجمہور محدثین وشافعیہ کے نزدیک ضعیف ہے ،مالکیہ کے نزدیک اس سے استدلال درست ہے، وہ خود اس بات کو نقل کرتے ہیں:

    المرسل عند نا حجة فی احکام الدین من التحلیل والتحریم، وفی الفضائل، وثواب العبادات، وقد بینا ذلک فی اصول الفقہ۔30

    ضعیف کے معمول بہ ہونے کی صراحت خود فرما تے ہیں:

    روی ابو عیسی حدیثاً مجہولاً: ان شئت شمتہ، وان شئت فلا وہو ان کان مجہولاً ،فانہ یستحب العمل بہ ،لانہ دعاء بخیر، وصلة للجلیس،وتوددلہ31

    یعنی اگرچہ یہ حدیث مجہول کی روایت سے ہے، لیکن اس پر عمل کرنا مستحب ہے، کیونکہ اس میں خیر کی دعاء ہم نشین کی دل بستگی اور اس سے

    محبت کا اظہار ہے۔

    ابوشامہ مقدسیکا موقف

    محدث ابو شامہ مقدسی کی بات شیخ طاہر الجزائرینے توجیہ النظر 2/657 میں نقل کی ہے، انہوں نے اپنی کتاب الباعث علی انکار البدع والحوادث میں حافظ ابن عساکر دمشقی کی ایک مجلس املاء کے حوالہ سے ماہ رجب کی فضیلت کے متعلق تین حدیثیں ذکر کیں۔ اس کے بعد لکھا کہ:

    وَكنت أود أَن الْحَافِظ لم يذكر ذَلِك فَإِن فِيهِ تقريرا لما فِيهِ من ‌الْأَحَادِيث ‌الْمُنكرَة فقدره كَانَ أجل من أَن يحدث

    عَن رَسُول الله ص = بِحَدِيث يرى أَنه كذب وَلكنه جرى فِي ذَلِك على عَادَة جمَاعَة من أهل الحَدِيث يتساهلون فِي أَحَادِيث فَضَائِل الْأَعْمَال الخ۔32

    یعنی کاش کہ ابن عساکر ان حدیثوں کو بیان نہ کرتے ،کیونکہ ا س سے منکر حدیثوں کو رواج دینا ہے، آپ جیسے محدث کی شایان شان نہیں کہ ایک حدیث جس کو غلط سمجھ رہے ہیں، بیان کریں۔ لیکن محدثین کی ایک جماعت جو فضائل اعمال میں تساہل بر تتی ہے کے طریقہ کو آپ نے اختیار کیا۔

    ابن تیمیہ کا موقف

    ابن تیمیہ بھی فضائل وغیرہ میں ضعیف پر عمل کے مسئلہ میں جمہور سے الگ نہیں ہوسکے، اس دعویٰ کا بین ثبوت ان کی کتاب الکلم الطیب ہے، اس میں ضعیف حدیثوں کی تعداد کتنی ہے ،جنہوں نے صحیح الکلم الطیب اور ضعیف الکلم الطیب میں خط امتیاز قائم کرنے کا کار نامہ انجام دیا ہے۔

    قَوْلُ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ: إذَا جَاءَ ‌الْحَلَالُ ‌وَالْحَرَامُ شَدَّدْنَا فِي الْأَسَانِيدِ؛ وَإِذَا جَاءَ التَّرْغِيبُ وَالتَّرْهِيبُ تَسَاهَلْنَا فِي الْأَسَانِيدِ؛ وَكَذَلِكَ مَا عَلَيْهِ الْعُلَمَاءُ مِنْ الْعَمَلِ بِالْحَدِيثِ الضَّعِيفِ فِي فَضَائِلِ الْأَعْمَالِ33

    ترجمہ : ابن تیمیہ، امام احمدؒ کا قول نقل کرتے فرماتے ہیں کہ : جب حلال و حرام کی بات آۓ گی تو اسانید (سندوں) کی جانچ پرکھ میں سختی سے کام لیں گے، اور جب ترغیب (نیکی کا شوق دلانے) اور ترھیب (برائی کا خوف دلانے) کی بات آۓ گی تو ہم اسانید میں تساہل (نرمی) برتینگے، اسی طرح فضائل اعمالمیں جس ضعیف حدیث کے عمل کرنے پر علماء ہیں.

    علامہ شوکانیکا موقف

    اگرچہ علامہ شوکانی کی الفوائد المجموعہ کی عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث مطلقاً ناقابل عمل ہے، لیکن ان کی اہم ترین تصنیف نیل الاوطار کی یہ عبارت ا س کی نفی کرتی ہے:

    وَالْآيَاتُ وَالْأَحَادِيثُ الْمَذْكُورَةُ فِي الْبَابِ تَدُلُّ عَلَى ‌مَشْرُوعِيَّةِ ‌الِاسْتِكْثَارِ مِنْ الصَّلَاةِ مَا بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، وَالْأَحَادِيثُ وَإِنْ كَانَ أَكْثَرُهَا ضَعِيفًا فَهِيَ مُنْتَهِضَةٌ بِمَجْمُوعِهَا لَا سِيَّمَا فِي فَضَائِلِ الْأَعْمَالِ۔34

    اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب وعشاء کے درمیان نوافل کی کثرت سے متعلق اکثر حدیثیں اگرچہ ضعیف ہیں لیکن مجموعی حیثیت سے مضبوط ہیں ،خاص کر فضائل اعمال میں۔ نیز آپ کی کتاب تحفة الذاکرین کا مطالعہ کرنے والا شخص تو ہمت ہی نہیں کرسکتا کہ ان کی طرف زیر بحث مسئلہ میں خلاف جمہور رائے کا انتساب کرے، کیونکہ وہ تو ضعاف سے بھری پڑی ہے

    ان معروضات سے یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ ضعیف حدیث جبکہ موضوع نہ ہو، باب احکام وعقائد کے علاوہ میں اجماعی طور سے پوری امت کے نزدیک قابل عمل ہے، اور چونکہ فضائل، مناقب، ترغیب وترہیب سیر ومغازی کی احادیث کے ذریعہ غفلت سے بیداری اور دین پر عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اس لئے پورے شد ومد سے ان کے خلاف ہوا کھڑا کیا گیا ہے، تاکہ مذہبی احکام کی اہمیت کم سے کم تر ہوجائے ،پھر زیاں کے بعد زیاں کا احساس تک باقی نہ رہے۔ یالیت قومی یعلمون۔

    ضعیف حدیث پر عمل کے شرائط

    ہاں یہ ضرور ہے کہ ضعیف حدیث کا ثبوت محتمل ہوتا ہے اس لئے اس سے استدلال کے وقت کچھ امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔

    ضعیف حدیث پر عمل کے لئے تین شرطیں ہیں:

    ‌شَرْطُ ‌الْعَمَلِ ‌بِالْحَدِيثِ الضَّعِيفِ عَدَمُ شِدَّةِ ضَعْفِهِ، وَأَنْ يَدْخُلَ تَحْتَ أَصْلٍ عَامٍّ، وَأَنْ لَا يُعْتَقَدَ سُنِّيَّةُ ذَلِكَ الْحَدِيثِ35

    1-یہ کہ ضعف غیر شدید ہو، چنانچہ وہ حدیث جس کی روایت تنہا کسی ایسے شخص کے طریق سے ہو جو کذاب یا متہہم بالکذب یا فاحش الغلط ہو خارج ہوگی۔

    2-اس کا مضمون قواعد شرعیہ میں سے کسی قاعدہ کے تحت آتا ہو چنانچہ وہ مضمون خارج از عمل ہوگا جو محض اختراعی ہو۔ اصول شرعیہ میں سے کسی اصل سے میل نہ کھاتا ہو (ظاہر ہے اس کا فیصلہ دیدہ در، بالغ نظر فقہاء ہی کر سکتے ہیں، جو ہر کہہ دمہ کے بس کی بات نہیں)

    3-اس پر عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کا عقیدہ نہ رکھا جائے، بلکہ صرف اس کے ثواب کے حصول کی امید کے ساتھ کیا جائے، مبادا آں حضرت ا کی جانب ایک بات جو واقع میں آپ نے نہ فرمائی ہو، اس کا آپ کی طرف منسوب کرنا لازم آجائے۔

    فضائل اعمال اور ترغیب وترہیب کا فرق

    واضح رہے کہ اہل علم ضعیف حدیث کے قابل قبول ہونے کے مواقع کو بیان کرتے ہوئے اپنی عبارتوں میں فضائل اعمال اور ترغیب وترہیب دولفظوں کا استعمال کرتے ہیں فضائل اعمال کااطلاق ایسے موقعوں پر کرتے ہیں جہاں کوئی مخصوص عمل پہلے سے کسی نص صحیح یا حسن سے ثابت ہونے کی بجائے کسی ضعیف حدیث میں اس عمل کا ذکر اور اس کی فضیلت آئی ہو اور علماء امت اور فقہاء کرام اس ضعیف حدیث ہی کی بنیاد پر اس عمل کو مستحب قرار دیتے ہیں، مذکورہ بالا شرطوں کے ساتھ ، مثلاً مغرب کے بعد چھ رکعات کا پڑھنا، قبر میں مٹی ڈالتے وقت مخصوص دعاء کا پڑھنا مستحب قرار دیا گیا ہے (جیساکہ گذرا) اور جیسے اذان میں ترسل (ٹھہر ٹھہر کر کلمات اذان ادا کرنا) اور اقامت میں حدر (روانی سے ادا کرنا) مستحب ہے ترمذی کی حدیث ضعیف کی وجہ سے جو عبد المنعم بن نعیم کے طریق سے روایت کرکے کہتے ہیں ہذا اسناد مجہول اور عبد المنعم کو دار قطنی وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ ان مثالوں میں مذکورہ بالا شرطیں پائی جارہی ہیں۔

    اور ترغیب وترہیب کا اطلاق ایسے مواقع میں کرتے ہیں جہاں کہ وہ مخصوص عمل کسی نص قرآنی، حدیث صحیح یا حسن سے ثابت ہو، اور کسی حدیث ضعیف میں ان اعمال کے کرنے پر مخصوص ثواب کا وعدہ اور نہ کرنے یا کوتاہی کرنے پر مخصوص وعید وارد ہوئی ہو۔ چنانچہ اس مخصوص وعدہ اور وعید کو بیان کرنے کے لئے ضعیف سے ضعیف حدیث کو مذکورہ بالا شرطوں کے بغیر بھی بیان کرنا جائز قرار دیتے ہیں اس لئے کہ اس میں اس حدیث سے کسی طرح کا کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا، اور فضائل میں جو استحباب ثابت ہوتا ہے وہ بربنائے احتیاط ہے، اور بعض شوافع کے نزدیک تو استحباب حقیقةً حکم اصطلاحی ہی نہیں ہے، اس لئے کوئی اشکال نہیں، امام بیہقی رحمہ اللہ دلائل النبوة میں فرماتے ہیں۔

    واما النوع الثانی من الاخبار ، فہی احادیث اتفق اہل العلم بالحدیث علی ضعف مخرجہا وہذا النوع علی ضربین ضرب رواہ من کان معروفاً بوضع الحدیث والکذب فیہ فہذا الضرب لایکون مستعملاً فی شئ من امور الدین الا علی وجہ التلیین۔وضرب لایکون راویہ متہماً بالوضع غیر انہ عرف بسوء الحفظ وکثرة الغلط فی روایاتہ او یکون مجہولاً لم یثبت من عدالتہ وشرائط قبول خبرہ ما یوجب القبول، فہذا الضرب من الاحادیث لایکون مستعملاً فی الاحکام، وقد یستعمل فی الدعوات، والترغیب والترہیب، والتفسیر، والمغازی فیما لایتعلق بہ حکم انتہی۔36

    اور ترغیب وترہیب کے لئے مذکورہ نرمی محدثین کے طرز عمل سے ظاہر ہے ۔

    ضعیف حدیث اور قوت استدلال

    فقہ اسلامی کی بنیاد جن چار چیزوں پر ہے ان میں سے ایک اہم ماخذ حدیثِ نبویﷺبھی ہے، جس کے بیان ونقل میں انتہائی حزم واحتیاط سے کام لیا گیا ہے، ماضی میں بعض اسباب کے تحت احادیث کووضع کرنے اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی ناپاک سازش کی گئی تھی، جن کے خلاف محدثین نے سخت محاذ آرائی کی؛ اِسی پسِ منظر میں"ائمۂ جرح وتعدیل" کی جماعت کا ظہور ہوا؛ جنھوں نے موضوع اور من گھڑت احادیث کو چھانٹ کر موضوعات کے نام سے الگ کردیا اور راویوں کے حالات کو مدنظررکھتے ہوئے ان کے احوال واعمال کے مطابق احادیث کی تقسیم کردی، ان ہی اقسام میں ایک "ضعیف" حدیث بھی ہے، جو فی الحال موضوعِ بحث ہے، اس کے تحت تعارف، حکم اور اس میں فقہاء کا اختلاف اور دیگرضروری امور کو بیان کیا جائے گا:

    حدیثِ ضعیف اور قیاس کا تعارض

    جب کہیں حدیث ضعیف اور قیاس میں تضاد نظر آئے توفقہاء کرامؓ کے اس سلسلے میں دونقطہ نظر ہیں۔

    حنفیہ وحنابلہ

    ان حضرات کا موقف یہ ہے کہ ضعیف حدیث کی موجودگی میں قیاس کوئی معنی نہیں رکھتا؛ بلکہ قیاس کی طرف جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، حدیث اگرچہ ضعیف ہے؛ لیکن بہرِحال موجود توہے اور اس میں صحت کا بھی پہلو ہے؛ اس لیے قیاس کے مقابلہ میں حدیثِ ضعیف ہی کو ترجیح دی جائے گی چنانچہ امام احمد کا قول خود ان کے فرزندِارجمند حضرت عبداللہ نقل کرتے ہیں کہ ضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح حاصل ہوگی۔

    ایک مرتبہ عبداللہ نے اپنے والد امام احمدؒ سے دریافت کیا :

    الرجل تنزل به النازلة وليس يجد إلا قوما من أصحاب الحديث والرواية لا علم لهم بالفقه وقوما من أصحاب الرأي من يسأل فقال يسأل أصحاب الحديث ولا يسأل أصحاب الرأي ‌ضعيف ‌الحديث خير من الرأي قال أبو محمد فالجواب37

    کہ کسی جگہ ایک محدث ہیں جودرسِ حدیث دیا کرتے ہیں اور وہ حدیث کی صحت وضعف میں تمیز نہیں کرپاتے اور اسی جگہ ایک صاحب رائے شخص موجود ہو، جواپنی رائے اور قیاس سے مسائل کو حل کرتا ہو اور ایک ایسا شخص جوعلم سے ناواقف حلال وحرام میں تمیز خود سے نہ کرپاتا ہو تووہ مسئلہ کس سے دریافت کرے، محدث سے یاصاحبِ رائے سے؟ امام احمدؒ نے فرمایا محدث سے مسئلہ دریافت کرے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام احمدؒ کا مسلک یہ ہے کہ ضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح دی جائے گی۔

    شوافع اور مالکیہ

    امام شافعیؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگرنصِ قرآنی اور حدیثِ صحیح نہ ہوتوپھر حدیثِ ضعیف کونظر انداز کرکے قیاس کرنا واجب ہوگا، ٹھیک اسی طرح مالکیہ میں سے قاضی ابوالفرج اور ابوبکر الابہریؒ کا بھی یہی کہنا ہے کہ حدیثِ ضعیف پر قیاس کوترجیح حاصل ہوگی۔38

    ضعیف حدیث اور عقائد

    جمہور فقہاء کا مذہب یہی ہے کہ عقائد کے ثبوت کے لیے مشہور یامتواتر حدیث ضروری ہے، حدیث ضعیف اور خبرِواحد اثبات عقائد کے لیے کافی نہیں ہے، امام احمدؒ نے اگرچہ خبرواحد سے عقائد کے باب میں استدلال کیا ہے لیکن وہ بھی حدیثِ ضعیف کے بارے میں اس بات کے قائل ہیں کہ حدیثِ ضعیف سے عقائد کے باب میں استدلال کرنا درست نہیں ہے؛ چنانچہ سیدشریف احمدجرجانیؒ فرماتے ہیں کہ "حدیثِ ضعیف" سے صفاتِ باری وعقائد میں استدلال کرنا جائز نہیں۔

    ایک شبہ

    یہاں اس شبہ کا ازالہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سابق میں احناف وحنابلہ کا یہ مسلک بیان کیا گیا کہ وہ حدیث ضعیف کومعتبر مانتے ہیں اور فقہ حنفی سے کچھ ایسے مسائل بھی ذکر کئے گئے جن میں محض حدیث ضعیف کی بناء پرقیاس کوچھوڑدیا گیا ہے، بظاہر یہ دعویٰ سابقہ تصریحات کے خلاف ہے؛ لیکن یہ شبہ اس لیے نہیں کیا جاسکتاکیونکہ حدیث ضعیف کی اصطلاح درحقیقت دو ہیں، ایک متاخرین کی اصطلاح ہے، جس کی وضاحت اسی مقالہ کے ابتداء میں کی جاچکی ہے اور دوسری اصطلاح متقدمین کی ہے (اس کی وضاحت بھی ابتداء میں آچکی ہے) کہ وہ حضرات حسن لغیرہ کو بھی ضعیف کے ہی درجہ میں شمار کیا کرتے تھے؛ چنانچہ علامہ ابنِ قیم رقمطراز ہیں:

    وَلَيْسَ الْمُرَادُ بِالْحَدِيثِ الضَّعِيفِ فِي اصْطِلَاحِ السَّلَفِ هُوَ الضَّعِيفُ فِي اصْطِلَاحِ الْمُتَأَخِّرِينَ، بَلْ مَا يُسَمِّيهِ الْمُتَأَخِّرُونَ حَسَنًا قَدْ يُسَمِّيهِ الْمُتَقَدِّمُونَ ‌ضَعِيفًا39

    ترجمہ:سلف کی اصطلاح میں حدیثِ ضعیف سے مراد وہ حدیث نہیں ہے جسے متاخرین حدیث ضعیف کہتے ہیں؛ کیونکہ متقدمین کی اصطلاح میں اس حدیث کو بھی ضعیف کہہ دیا جاتا ہے جسے متاخرین نے حسن کا درجہ دیا ہے۔

    اس لیے فضائل کے باب کے علاوہ جہاں کہیں احناف وحنابلہ حدیث ضعیف کو قابلِ حجت شمار کرتے ہیں اس سے مراد متقدمین کی اصطلاح ہیں اور اس سے "حدیث حسن" ہی مراد ہے، متاخرین کی اصطلاح کے مطابق حدیث ضعیف مراد نہیں ہے۔

    ضعیف حدیث اور فضائل

    علامہ سخاویؒ نے اس تعلق سے کافی طویل بحث کی ہے اور اس سلسلہ میں متعدد مذاہب کو نقل کیا ہے، جن میں سے ایک حافظ الحدیث امام مسلمؒ اور دیگرمحدثین اور ابنِ حزمؒ کا ہے کہ ضعیف حدیث کسی بھی باب میں حجت نہیں بن سکتی، چاہے وہ فضائل کا باب ہی کیوں نہ ہو؛ البتہ اگرمتقدمین کی اصطلاح کے مطابق ضعیف حدیث ہو کہ اس کے طرق متعدد ہوں جس کی وجہ سے اس کا ضعف ختم ہوجاتا ہے تواس سے فضائل کے باب میں استدلال کرنا درست ہوگا ابنِ حزم کہتے ہیں کہ ضعیف حدیث کے مقابلہ میں قیاس اولیٰ ہے؛ کیونکہ حدیثِ ضعیف آپؐ سے ثابت نہیں ہے، رائے میں اگرغلطی ہوگی توشرعاً وہ معاف ہے؛ بلکہ اس پر اجتہاد کا ثواب بھی ملے گا۔40

    دوسرا مذہب جس کو علامہ سخاویؒ نے جمہور کا مذہب کہہ کر بیان کیاہے اور حافظ ابنِ حجر مکیؒ اور ملا علی قاریؒ نے بھی جسے جمہور کا اجماعی مسلک قرار دیا ہے کہ فضائل کے باب میں حدیث ضعیف پر عمل کرنا جائز ہے۔

    اس لیے فضائل کے باب میں حدیث ضعیف کا اعتبار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

    خلاصہ کلام:

    حدیثِ ضعیف (قوی بتعدد طرق)وہ حدیث ہے جس کی سند موجود ہو (یعنی موضوع اور من گھڑت نہ ہو) لیکن اس کے راوی باعتبار یادداشت یاعدالت کے کمزور ہوں؛ لیکن اگراسے دوسری سندوں سے تائید حاصل ہوتو یہ قبول کی جاسکتی ہے، حدیث ضعیف کا بھی اپنا ایک وزن ہے، یہ من گھڑت نہیں ہوتی۔ضعیف حدیث کی سندیں گووہ اپنی جگہ ضعیف ہوں؛ لیکن اس کے راویوں کا اگران پہلے راویوں سے مل کر روایت کرنے کا مظنہ نہ ہو تواس تعدد طرق سے حدیث ضعیف قوی ہوکر حسن لغیرہ تک پہنچ جائے گی؛ لیکن اس کا فیصلہ حاذق محدثین ہی کرسکتے ہیں، نہ کہ ہرایک کواس کا حق دیا جائے نہ ہرایک اس کا اہل ہے۔اعتقاد میں حدیث ضعیف کافی نہیں دوسرا درجہ احکام کا ہے کہ اُن کے لئے اگرچہ اُتنی قوت درکار نہیں پھر بھی حدیث کا صحیح لذاتہ خواہ لغیرہ یا حسن لذاتہ یا کم سے کم لغیرہ ہونا چاہئے، جمہور علماء یہاں ضعیف حدیث نہیں سنتے۔ تیسرا مرتبہ فضائل ومناقب کا ہے یہاں باتفاقِ علماء ضعیف حدیث بھی کافی ہے،مثلاً کسی حدیث میں ایک عمل کی ترغیب آئی کہ جو ایسا کرے گااتنا ثواب پائے گایاکسی نبی یاصحابی کی خُوبی بیان ہوئی کہ اُنہیں اللہ عزوجل نے یہ مرتبہ بخشا،یہ فضل عطا کیا، تو ان کے مان لینے کوضعیف حدیث بھی بہت ہے۔حدیث ِضعیف احکام میں بھی مقبول ہے جبکہ محلِ احتیاط ہو۔حدیثِ ضعیف پر عمل کیلئے خاص اس فعل میں حدیث ِصحیح کا آنا ضروری نہیں ۔

    مصادرومراجع

    قرآن کریم

    ابن منظور،محمد بن مكرم بن على، أبو الفضل ،لسان العرب ، دار صادر – بيروت

    اصفہانی، أبو القاسم الحسين بن محمد، المفردات في غريب القرآن ، دار القلم، الدار الشامية - دمشق بيروت

    عسقلانی ، أحمد بن علي بن حجر ،فتح الباري شرح صحيح البخاري، دار المعرفة – بيروت

    السخاوي ، محمد بن عبد الرحمن بن محمد ، فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي، مكتبة السنة - مصر

    الجصاص ، أحمد بن علي أبو بكر ، أحكام القرآن ، دار الكتب العلمية بيروت - لبنان

    ابن عابدين ، محمد أمين بن عمر ، رد المحتار على الدر المختار ، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمصر

    ابن رشد الحفيد ، محمد بن أحمد بن محمد ، بداية المجتهد ونهاية المقتصد ، دار الحديث - القاهرة

    السيوطي ، جلال الدين ، تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي، دار طيبة

    ابن ماجة ، أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني ، ابن ماجہ ، دار إحياء الكتب العربية - فيصل عيسى البابي الحلبي

    الأندلسي، ابن حزم، المحلی ، دار الفكر - بيروت

    العلوي ، عبد الله بن إبراهيم ، نشر البنود على مراقي السعود ، مطبعة فضالة بالمغرب

    ابن قيم ، محمد بن أبي بكر بن أيوب ، إعلام الموقعين عن رب العالمين، دار الكتب العلمية – ييروت

    ابن النجار ، محمد بن أحمد بن عبد العزيز ، شرح الكوكب المنير ، مكتبة العبيكان

    الهروي ، عبد الله بن محمد بن علي ، ذم الكلام وأهله ، مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة

    ابن قدامة ، عبد الله بن أحمد ، المغني لابن قدامة ، مكتبة القاهرة

    النووي، يحيى بن شرف ، الأذكار للنووي ، دار ابن حزم للطباعة والنشر

    الغُمَارِي ، أحمد بن محمد بن الصدِّيق ، المثنونی والتبار ، دار عالم الكتب، بيروت - لبنان

    الهيتمي ، أحمد بن محمد بن علي ، الفتح المبين بشرح الأربعين ، دار المنهاج، جدة - المملكة العربية السعودية

    العسقلاني ، أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر ، فتح الباري شرح صحيح البخاري، دار المعرفة - بيروت

    العسقلاني ، أحمد بن علي بن محمد ، تقريب التهذيب ، دار الرشيد - سوريا

    الذهبي ، محمد بن أحمد بن عثمان ، سير أعلام النبلاء ، مؤسسة الرسالة

    الجرجاني ، أبو أحمد بن عدي ، الكامل في ضعفاء الرجال ، دار الكتب العلمية - بيروت

    ابن العربی،محمد بن عبداللہ،عارضۃ الاحوذی

    السمعوني ، طاهر بن صالح ، توجيه النظر إلى أصول الأثر ، مكتبة المطبوعات الإسلامية - حلب

    ابن تیمیہ، أحمد بن عبد الحليم ، مجموع الفتاوى ، مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف

    الشوكاني ، محمد بن علي ، نيل الأوطار ، دار الحديث، مصر

    البيهقي، أحمد بن الحسين بن علي ، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة ،دار الكتب العلمية، دار الريان للتراث

    ابن حزم ، علي بن أحمد ، الإحكام في أصول الأحكام ، دار الآفاق الجديدة، بيروت

    ابن قيم ، محمد بن أبي بكر بن أيوب ، إعلام الموقعين عن رب العالمين، دار الكتب العلمية – ييروت



    Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.

    1 النحل:44

    2 ابن منظور،محمد بن مكرم بن على، أبو الفضل ،لسان العرب ، دار صادر – بيروت، ج2،ص131

    3 اصفہانی، أبو القاسم الحسين بن محمد، المفردات في غريب القرآن ، دار القلم، الدار الشامية - دمشق بيروت ، ج1،ص222

    4 عسقلانی ، أحمد بن علي بن حجر ،فتح الباري شرح صحيح البخاري، دار المعرفة – بيروت ،ج1،ص193

    5 السخاوي ، محمد بن عبد الرحمن بن محمد ، فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي، مكتبة السنة - مصر الطبعة: الأولى، 1424هـ / 2003م،ج1،ص193

    6 السخاوي ، محمد بن عبد الرحمن ، فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي، مكتبة السنة – مصر الطبعة: الأولى،2003م ، ج1،ص350

    7 السخاوي ، محمد بن عبد الرحمن ، فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي، مكتبة السنة – مصر الطبعة: الأولى،2003م ، ج1،ص351

    8 الجصاص ، أحمد بن علي أبو بكر ، أحكام القرآن ، دار الكتب العلمية بيروت - لبنان الطبعة: الأولى، 1415هـ/1994مـ ،ج1،ص386

    9 ابن عابدين ، محمد أمين بن عمر ، رد المحتار على الدر المختار ، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمصر الطبعة: الثانية، 1386 هـ = 1966 م ، ج1،ص253

    10 ابن رشد الحفيد ، محمد بن أحمد بن محمد ، بداية المجتهد ونهاية المقتصد ، دار الحديث - القاهرة 2004،ج1،ص43

    11 السيوطي ، جلال الدين ، تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي، دار طيبة،ج1،ص298

    12 ابن ماجة ، أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني ، ابن ماجہ ، كِتَابُ الطَّلَاقِ، بَابُ طَلَاقِ الْمُكْرَهِ وَالنَّاسِي، دار إحياء الكتب العربية - فيصل عيسى البابي الحلبي ، ج 1 ،ص659، ح 2043

    13 الأندلسي، ابن حزم، المحلی ، دار الفكر - بيروت،ج9،ص191

    14 العلوي ، عبد الله بن إبراهيم ، نشر البنود على مراقي السعود ، مطبعة فضالة بالمغرب ، ج2،ص63

    15 ابن قيم ، محمد بن أبي بكر بن أيوب ، إعلام الموقعين عن رب العالمين، دار الكتب العلمية – ييروت الطبعة: الأولى، 1411هـ - 1991م، ج1،ص26

    16 ابن النجار ، محمد بن أحمد بن عبد العزيز ، شرح الكوكب المنير ، مكتبة العبيكان الطبعة الثانية 1418 هـ - 1997 مـ ، ج2،ص573

    17 الهروي ، عبد الله بن محمد بن علي ، ذم الكلام وأهله ، مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة الطبعة: الأولى، 1418هـ -1998م ، ج2،ص180

    18 ابن قدامة ، عبد الله بن أحمد ، المغني لابن قدامة ، مكتبة القاهرة ، 1389هـ - 1969م ، ج2،ص98

    19 السيوطي ، عبد الرحمن بن أبي بكر ، تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي، دار طيبة ، ج1،ص183

    20 الأندلسي، ابن حزم، المحلی ، دار الفكر - بيروت،ج3،ص61

    21 النووي، يحيى بن شرف ، الأذكار للنووي ، دار ابن حزم للطباعة والنشر الطبعة: الأولى، 1425 هـ - 2004 م ، ص36

    22 الغُمَارِي ، أحمد بن محمد بن الصدِّيق ، المثنونی والتبار ، دار عالم الكتب، بيروت - لبنان ، ج1،ص180

    23 السيوطي ، جلال الدين ، تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي، دار طيبة،ج1،ص350

    24 الهيتمي ، أحمد بن محمد بن علي ، الفتح المبين بشرح الأربعين ، دار المنهاج، جدة - المملكة العربية السعودية الطبعة: الأولى، 1428 هـ - 2008 م ، ص109

    25 العسقلاني ، أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر ، فتح الباري شرح صحيح البخاري، دار المعرفة - بيروت، 1379، ج1،ص440

    26 العسقلاني ، أحمد بن علي بن محمد ، تقريب التهذيب ، دار الرشيد - سوريا الطبعة الأولى،1986ـ ،ص485

    27 النووي ، محيي الدين يحيى بن شرف ، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، دار إحياء التراث العربي - بيروت الطبعة: الثانية، 1392، ج1،ص24

    28 الذهبي ، محمد بن أحمد بن عثمان ، سير أعلام النبلاء ، مؤسسة الرسالة ، 1405هـ، ج12،ص575

    29 الجرجاني ، أبو أحمد بن عدي ، الكامل في ضعفاء الرجال ، دار الكتب العلمية - بيروت-لبنان الطبعة: الأولى 1418 هـ - 1997 مـ ، ج2،ص34

    30 ابن العربی،محمد بن عبداللہ،عارضۃ الاحوذی،ج2،ص237

    31 ابن العربی،محمد بن عبداللہ،عارضۃ الاحوذی،ج10،ص205

    32 السمعوني ، طاهر بن صالح ، توجيه النظر إلى أصول الأثر ، مكتبة المطبوعات الإسلامية - حلب الطبعة: الأولى 1416 هـ - 1995 مـ ، ج2،ص657

    33 ابن تیمیہ، أحمد بن عبد الحليم ، مجموع الفتاوى ، مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف 1995،ج18،ص65

    34 الشوكاني ، محمد بن علي ، نيل الأوطار ، دار الحديث، مصر ، 1413هـ - 1993م ، ج3،ص68

    35 ابن عابدين ، محمد أمين بن عمر ، رد المحتار على الدر المختار ، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمصر الطبعة: الثانية، 1386 هـ = 1966 م ، ج1،ص128

    36 البيهقي، أحمد بن الحسين بن علي ، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة ،دار الكتب العلمية، دار الريان للتراث الطبعة: الأولى - 1408١ هـ - 1988 م، ج1،ص33

    37 ابن حزم ، علي بن أحمد ، الإحكام في أصول الأحكام ، دار الآفاق الجديدة، بيروت ،ج6،ص153

    38 ابن رشد الحفيد ، محمد بن أحمد بن محمد ، بداية المجتهد ونهاية المقتصد ، دار الحديث - القاهرة 2004،ج1،ص29

    39 ابن قيم ، محمد بن أبي بكر بن أيوب ، إعلام الموقعين عن رب العالمين، دار الكتب العلمية – ييروت الطبعة: الأولى، 1411هـ - 1991م، ج1،ص61

    40 النووي ، محيي الدين يحيى بن شرف ، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، دار إحياء التراث العربي - بيروت الطبعة: الثانية، 1392، ج1،ص60


  • Loading...
    Issue Details
    Id Article Title Authors Vol Info Year
    Id Article Title Authors Vol Info Year
    Similar Articles
    Loading...
    Similar Article Headings
    Loading...
    Similar Books
    Loading...
    Similar Chapters
    Loading...
    Similar Thesis
    Loading...

    Similar News

    Loading...
    About Us

    Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

    Whatsapp group

    asianindexing@gmail.com

    Follow us

    Copyright @2023 | Asian Research Index