4
1
2023
1682060063651_3218
52-71
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/50/50
أ ﻷمِیر:جلد4؍ شمارہ 1 ..( جنوری–جون3 220ء) )62(
ڈاکٹر فاروق احمدخان کی تفسیری خدمات اور آپ کے تفردات کا تجزیاتی مطالعہ
An Analytical Study of Dr. Farooq Ahmed's Tafsir Services and His Distinctions
Liaqat Begum
For the guidance of humanity, God revealed the Holy Quran. It is the only book which is recited the most. Those who read and teach this book have been called the best people. From the blessed life of the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) till today, scholars have tried their best to make common sense for the less educated people. And Muhadithin have to bind chapters of "Kitab al-Tafseer and Chapters of Commentary" in their own books. Companions and many commentators interpreted. Some of the interpretations were translated into different languages so that common people can benefit from it. Scholars of the Indian sub-continent also interpreted the Holy Quran for the understanding of common people. A link in the same series is Dr. Muhammad Faruk Khan's "Asan Tarin Tarjuma Wa Tafsir" which is written in simple Urdu language. Dr. Sahib's separateness on special topics makes the reader ponder.
Keywords: Dr. Muhammad Farooq Khan, Qur’an, Asan Tarin Tarjuma wa Tafsir, Mufassirin, Distinctions.
تعارف:
قرآنِ مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے او ر اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا بھرمیں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ اسے پڑھنے پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہتر ین لوگ قراردیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پرثواب عنایت کرتے ہیں۔ دور ِصحابہ سے لے کر دورِ حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم وتشریح اور ترجمہ وتفسیرکرنے کی خدمات سر انجام دیں اور ائمہ محدثین نے کتبِ احادیث میں باقاعدہ ابواب التفسیر کے نام سےباب قائم کیے۔اور مختلف ائمہ نے عربی زبان میں مستقل بیسیوں تفاسیر لکھیں ہیں۔ جن میں سے کئی تفسیروں کے اردو زبان میں تراجم بھی ہوچکے ہیں ۔
ماضی قریب میں برصغیرِ پاک وہند کے تمام مکتب فکر کےعلماء نے قرآن مجید کی اردو تفاسیر لکھنے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ زیر تبصرہ ڈاکٹر محمد فارق خان کی "قرآن مجید آسان ترین ترجمہ و تفسیر" واقعی آسان اور سادہ اردو زبان میں لکھی گئی ایک قابلِ تحسین کاوش ہے جو کہ تین جلدوں پر مشتمل ہے ۔ ہر اہم موضوع اور خاص مقامات پر بحث کی گئی ہے جو قاری کو مزید غور و فکر پر آمادہ کرتی ہے۔ترجمہ و تفسیر میں بقول ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب مندرجہ ذیل تفاسیر سے استفادہ کیا گیا ہے۔ تفسیر کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ آخر میں مشکل الفاظ مع ترجمہ اور ضمائر کی دو فہرستیں ضمیمہ کے طور پر بنائی ہیں اور ان کا ترجمہ غالباً مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر تدبر قرآن سے لیا ہے ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب چونکہ ایک میڈیکل ڈاکٹر تھے۔ وہ کوئی مفسر، محدث یا فقہیہ نہیں تھے اور نہ اس شعبے کا تھا لیکن وہ ایک مصنف، مقرر ، واعظ، دانشور، مصلح اور داعی ضرور تھے جس نے مختلف تفاسیر کا مطالعہ کر کے ایک تفسیر لکھنے کی ہمت کی ہے۔
ڈاکٹر فاروق احمد خان کے احوال و آثار:
دنیا ازحد قربانیوں اور عظیم شخصیات سے بھری پڑی ہے اپنے مقرر وقت میں رب العزت نے پاک نفوس پیدا کیے جو جہد مسلسل کرتے رہے اور دین و دنیا میں روشنیاں بڑھاتے گئے۔ انہی عظیم لوگوں میں ایک ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب تھے۔ آپ1956ء میں محمد اکبر خان کے گھر نواں کلی ضلع صوابی مردان میں پیدا ہوئے (1) ڈاکٹر محمد فاروق خان معروف پاکستانی ماہر نفسیات، اسلامک سکالر اور وائس چانسلر جامعہ سوات تھے۔
تعلیم و تدریس:
آپ نے ابتدائی تعلیم صوابی میں حاصل کی بعد ازاں کوہاٹ کیڈٹ سے ایف ایس سی کی ڈگری اعلی نمبروں سے حاصل کی۔ 1974 ءمیں گورنمنٹ کالج آف مردان سے وکالت کی ڈگری حاصل کی خیبر میڈیکل کالج سےایم بی بی ایس کیا اور کالوخان مردان میں میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے جاب کی۔
"1980ءمیں شادی ہوئی اور اسی سال فیملی کے ہمراہ آسٹریلیا میڈیکل میں تخصص کےلیے چلے گئے 1984 میں واپسی ہوئی وطن آ کر مردان کے علاقے بغدادہ میں آپ نے اپنانجی کلینک کھولا اور وہی پیشہ ور کام کرتے رہے"(2)
دینی افکار:
1993 میں جاوید احمد غامدی صاحب کے افکار ونظریات آپ کے دل کو بھائے اور آپ ان کے دفتر "المورد" لاہور چلے گئے اپنے دینی سفر کو جاری رکھتے ہوئے وہاں آپ نے تفسیر، حدیث اور فقہ کا مطالعہ کیا غامدی صاحب کی فکر سے اس قدر متاثر ہوئے کہ تا مرگ اس فکر کی اشاعت اور تبلیغ میں سر گرم رہے۔
"حکومت پاکستان نے آپ کو بطور اولین چانسلر جامعہ سوات مقرر کیا۔ آپ کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہ امتیاز سے بھی نوازا"(3)
تخریب کاروں کے خلاف محاذ آرائی:
آپ نے سوات میں دین اسلام کی حقیقی فکر کو پروموٹ کیا جب وہاں دہشتگردوں کا شور برپا تھا ایسی تنظیمیں پروان چڑھ رہی تھیں جو نوجوانوں کو اسلام کے نام پر دہشت اور بربریت پر ابھار رہی تھیں ۔
"جہالت، بربریّت، غُربت، پسماندگی اور معاشرتی آمریّت کے شکنجوں میں پھنسے قیدیوں کو رہائی دلائی اور دین کی اصل صورت کو اجاگر کیا کہ دین امن و سلامتی کا مذہب ہے اور یہ کبھی بھی عدم برداشت، وحشت، جبر، قتل اور ناحق فسادات فی الارض کا داعی نہیں ہوسکتا"(4)
آپ نے سوات میں تعلیمی اور دینی اقدار کا استدلال کیا بچوں پر تشدد اور انکی نفسیاتی بحالی کےلئے کام شروع کیا یونیورسٹی کی بنیاد رکھی نوجوانوں کو کلاشنکوف کی بجائے کتب سے روشناس کروایا۔حکومتی ذمہ داران انتظامیہ کی توجہ تخریب نگاروں کی طرف دلائی فوجی آپریشن کے ذریعے تخریب نگار تنظیموں کا تدارک کروایا وہاں کے لوگوں کو پریشان کن حالات سے نکال کر خوشحالی کے پرامن راستہ سے استوار کروانے میں آپ نے کلیدی کردار ادا کیا۔
شہادت:
آپ نے اُس وقت سوات میں علم کا چراغ جلایا جب سوات میں قدم رکھنا محال تھا۔دوست احباب نے کہا جان کو خطرہ ہےآپ ہمیشہ اطمینان رکھتے ہوئے کہتے تھے۔جس نے جان دی ہے وہ اسے اپنی راہ میں قبول کرتا ہے تو سعادت ہے۔آپ کی زندگی دینی استدلال کے ساتھ نمودار ہوتی رہی بلاآخر یہی آوازِ مردِ مجاہد آپکی شہادت کا موجب بنی ۔
"10 اکتوبر 2010 مردان میں صوابی روڈ پرڈیفیس کانونی میں اپنے مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھے کہ کچھ لوگ مریضوں کے روپ میں اندر آئے اور موقع پاتے ہی گولیوں کی بوچھاڑ کردی"(5)
مختلف شخصیات کے تعریفی کلمات:
فغان نیم شبی بے نوائے راز نہیں، حصہ اول، حصہ دوم، انتخاب: خورشید احدیم ندیم، مرتب: عقیل احمد انجم
ڈاکٹر فاروق خان اور ان کی کتاب، اکیسویں صدی اور پاکستان (جناب مجیب الرحمٰن شامی، ایڈیٹر پاکستان اخبار)
ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب ایک مرد مجاہد (محمد راشد)
ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کچھ یادیں کچھ باتیں (کوکب شہزاد)
ایک مجاہد کی شہادت (ڈاکٹر شہزاد سلیم)
ڈاکٹر کی شہادت ایک لمحہ فکریہ (ڈاکٹر محمد خالد مسعود)
آج سورج جلد غروب ہو گیا (نعیم احمد بلوچ)
اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ (سلیم صافی کالم نگار روز نامہ جنگ)
ڈاکٹر فاروق خان شہید، ڈاکٹر ممتاز احمد، ڈائریکٹر، اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔(6)
ڈاکٹر فاروق خان نامور روشن خیال اور اعلی شخصیت کے حامل انسان تھے ۔ ہمہ وقت مسکراہٹ بکھیرنا آپکا شیوہ تھا ۔آپ علم و ادب، کتب شناسی، سیاست، اور خدمت خلق کے دلدادہ تھے۔ آپ کی شخصیت کئی رنگوں کی حامل تھی آپ بیک وقت مصنف ، مقرر، داعی، مصلح، واعظ مکالمہ نگار ، دانش ور، سیاست نگار اور مزید براں دکھی انسانیت کا درد کرکھنے والے نفیس داعی تھے۔
تصانیف:
تصانیف آپ کی زندگی کا اہم پہلو تھا۔آپ نے اسلام میں خواتین کےمقام و مرتبہ ،حدود و تعزیراتِ کے پیچیدہ نظریات ،جہاد و قتال اور جدید اذہان کےاسلام کے بارے میں شبہات اور سوالات ،ان سب موضوعات پر تفصیل کیساتھ لکھا اور درجن بھر کتابیں اردو/انگلش میں تصنیف کیں۔ آپ کی معروف تصانیف میں:
آسان ترین ترجمہ و تفسیر پاکستان اور اکیس ویں صدی (اردو)
جہاد قتال چند اہم مباحث (اردو) اسلام کیا ہے؟ (اردو)
مسئلہ کشمیر (اردو و انگریزی) متبادل بیانیہ،مذہب سیاست اور عالم اسلام
فیملی پلاننگ اور اسلام جدید ذہن کے شبہات اور اسکا ازالہ۔ کتابچہ
امت مسلمہ کامیابی کا راستہ۔ دو حصے اسلام اور عورت
What is Islam? Struggle for Islamic revolution
Islam and the modern world American and the Muslim world
Jihad Versus terrorism in the perspective of Kashmir issue.
اسکے علاوہ تقریباً ۵۰۰ آرٹیکلز مختلف موضوعات پر لکھے تھے"(7)
آپکی خواہش تھی کہ علومِ اسلامیہ کو عام فہم بنایا جائے اور اس خواہش کے پیشِ نظر آپ نے قرآن مجید کے رائج اردو تراجم کی خوبیوں کو اپنے ترجمہ قرآن میں اکھٹا کیا تاکہ ایک عام پڑھا لکھا آدمی قرآن مجید کیساتھ آسانی سے وابستہ ہو سکے۔
تفسیر کا تعارف:
ڈاکٹر محمد فارق خان کی تفسیر "قرآن مجید آسان ترین ترجمہ و تفسیر" واقعی آسان اور سادہ اردو زبان میں لکھی گئی ایک قابلِ تحسین کاوش ہے جو کہ تین جلدوں پر مشتمل ہیں:
جلد1: سورۃالفاتحہ تا سورۃ التوبہ
جلد 2: سورۃ یونس تا سورۃ الاحزاب
جلد 3: سورۃ سبا تا سورۃ الناس
یہ آسان ترین زبان میں لکھی گئی ہے۔
صرف تین جلدوں میں ہے۔
نہ بہت مختصر نہ بہت طویل بلکہ درمیانی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔
ہر اہم موضوع اور خاص مقامات پر بحث کی گئی ہے جو قاری کو مزید غور و فکر پر آمادہ کرتی ہے۔
ترجمہ ڈاکٹر فاروق خان کا اپنا کیا ہوا نہیں بلکہ کئی اہم تراجم سے اخذ کیا گیا ہے۔
ترجمہ و تفسیر میں بقول ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب مندرجہ ذیل تفاسیر سے استفادہ کیا گیا ہے۔
"ترجمہ و تفسیر قرآن از مولانا محمود الحسن، مولانا شبیر احمد عثمانی
معارف القرآن از مولانا مفتی محمد شفیع
ترجمۃ القرآن از مولانا احمد رضا خان بریلوی
تفہیم القرآن از مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی
تفسیر ماجدی از مولانا عبدالماجد دریا آبادی
تدبر قرآن از مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان از مولانا محمد جونا گڑھی
البیان از جناب جاوید احمد غامدی"(8)
بعض اہم موضوعات میں اگر مفسرین کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے تو وہ اختلاف بھی ذکر کرتے ہیں اور مختلف مفسرین کی آراء نقل کر کے ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دیتے ہیں راقمہ کے علم کے مطابق ترجمہ میں زیادہ تر مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کے ترجمے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں اور تفسیر میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی تفسیر اور آراء کو ترجیح دیتے ہیں۔ معرکۃ الارآء مسئلہ میں کبھی کبھار مولانا مودودی اور مولانا تقی عثمانی صاحب کے موقف کو ترجیح دیتے ہیں۔
خاص بات یہ ہے کہ بڑے کھلے دل سے ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب نے اجازت دی ہے کہ قارئین اس کے نقطہ نظر کا تنقیدی جائزہ بھی لے سکتے ہیں ویسے تو بہت سارے لوگ قلم اٹھا کر لکھتے ہیں لیکن راقمہ کی نظر سے پہلی دفعہ یہ جملہ گزرا کہ مصنف خود اس بات کا اعتراف کرے کہ قارئین میری نقطہ نظر کا تنقیدی جائزہ بھی لے سکتے ہیں۔ جو کہ ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کی تحمل مزاجی، صبر اور اعلیٰ ظرفی کی اعلیٰ مثال ہے۔
تفسیر کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ آخر میں مشکل الفاظ مع ترجمہ اور ضمائر کی دو فہرستیں ضمیمہ کے طور پر بنائی ہیں اور ان کا ترجمہ غالباً مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر تدبر قرآن سے لیا ہے ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب چونکہ ایک میڈیکل ڈاکٹر تھے۔ وہ کوئی مفسر، محدث یا فقہیہ نہیں تھے اور نہ اس شعبے کا تھا لیکن وہ ایک مصنف، مقرر ، واعظ، دانشور، مصلح اور داعی ضرور تھے جس نے مختلف تفاسیر کا مطالعہ کر کے ایک تفسیر لکھنے کی ہمت کی ہے۔
اس تفسیر میں ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کبھی کبھار اپنے تصانیف کا حوالہ بھی دیتے ہیں جس میں زیادہ نمایاں، اسلام کیا ہے جہاد، قتال اور عالم اسلام، اسلام اور عورت وغیرہ۔
تفسیر کی تصنیف و تالیف کے دوران دوست احباب منع بھی کرتے رہے کہ اس کی ضرورت نہیں لیکن ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کی خواہش تھی کہ علوم اسلامیہ کو عام فہم بنایا جائے اور اس خواہش کے پیش نظر آپ نے قرآن مجید کے رائج اردو تراجم کی خوبیوں کو اپنی تفسیر، آسان ترین ترجمہ و تفسیر قرآن میں اکٹھا کیا تاکہ ایک عام پڑھا لکھا آدمی بھی قرآن مجید کے ساتھ آسانی سے وابستہ ہو سکے۔ یہ ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کی زندگی کا اہم پہلو تھا کہ انہوں نے دنیاوی کامرانیوں کے ساتھ ساتھ اپنی ابدی زندگی کا بھی چراغ روشن رکھا۔ جو آج بھی ’’المورد‘‘ مکتبہ کی زینت بنی ہے اور لوگ اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔
آسان ترین ترجمہ و تفسیر میں ڈاکٹر محمد فاروق خان کے کچھ نمایاں تفردات بھی ہیں جو کہ اس مقالہ میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
قرآن مجید آسان ترین ترجمہ و تفسیراز ڈاکٹر محمد فاروق خان کے تفردات:
قرآن مجید آسان ترین ترجمہ و تفسیر از ڈاکٹر محمد فاروق خان کے کچھ نمایاں تفردات ہیں ۔ مقالہ ہذا میں چند تفردات پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ڈاکٹر محمد فاروق خان نے قرآن مجید کا واقعی آسان ترجمہ وتفسیر کرتے ہوئے قرآن مجید کے سات ابواب بنائے ہیں۔
حروف مقطعات سے مراد ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کے نزدیک انسان پر اللہ تعالیٰ کے احسان مثلاً گفتار و تحریر کی صلا حیت وغیرہ، کی یا د دہانی ہے۔
ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کے رائے کے مطابق قرآن نے یہود و نصاریٰ کو مؤحد قرار دیا ہے۔ منافقین مسلمان معاشرے میں ضم ہو گئے اور ان کے خلاف کوئی جہاد نہیں ہوتا۔
امت وسط سےمراد صرف صحابہ کرام کی جماعت ہے۔ جہاد سے مراد عمومی جد و جہد ہے۔
حرام چیزیں صرف وہ ہیں جو قرآن نے حرام قرار دیے اس کے علاوہ باقی انسانی فطرت کی آواز ہے۔
معجزات کو سائنس قرارد یتے ہیں۔
پردے کے احکامات امہات المؤمنین کیلئے خاص ہیں۔
ہر قسم دنیاوی تفریح کو جائز قرار دیتے ہوئے مردوں و عورتوں کا مل کر کھانا ،گفتگو وتفریح کو جائز قرار دیتے ہیں۔
نبی اور رسولؐ میں فرق کرتے ہوئے دنیاوی عذاب کےمستحقین صرف رسول ؐ کے براہ راست مخاطبین قرار دیتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کے رائے کے مطابق رسولوں کو نشانی صرف اس وقت دی جاتی ہےجب قوم کی ہلاکت کا وقت آجاتاہے۔ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کے رائے کے مطابق اس لیے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی ایسا معجزہ یا نشانی عطا نہیں کی گئی۔ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کے نزدیک تصویر بنانا بالکل جائزہے ممانعت صرف شرک و بے حیائی کی وجہ سے ہے۔بیک وقت تین طلاقیں واقع نہیں ہوتی اور فوری اور غصہ میں دی گئی طلاق کے بارے میں بھی ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کی یہی رائے ہے۔سود کی حرمت کےبارے میں ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کی رائے یہ ہے کہ اگر حکومت معیشت کے ارتقاء کو پہنچے تو ان کو یہ حق حاصل ہے کہ سود کو ممنوع قرار دیں ۔
ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کے قول کے مطابق:
” قوم لوط پر جب عذاب آیا تھا تو اینٹوں کی بنی ہوئی دیواریں ان کے اوپر گر گئی تھیں۔ اور اصحاب الفیل پر پتھر قریش کے لوگوں نے برسائے۔“(9)
حروف مقطعات کے حوالے سےتفرد:
"الٓمٓ"(10)
"الم"
ڈاکٹر فاروق خان رقم طرازہیں:
"قرآن مجید کی کئی سورتوں کےا ٓغاز میں چند حروف علیحدہ علیحدہ نازل کیے گئے ہیں انہیں حروفِ مقطعات کہتے ہیں۔ اس عاجز کے نزدیک اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے اس احسان کی یاد دہانی جو حروف کی ادائیگی کے ذریعے سے انسان کو گفتار اور تحریر کی صلاحیت عطا کرنے کی صورت میں فرمائی جس کی وجہ سے انسان انسان بنا"(11)
حروف مقطعات کی تشریح کرتے ہوئے مفسرین کا اس میں بہت اختلاف رہا ہے بعض لوگ کہتے ہیں یہ:
"سِرٌّ بَیْنَ اللہِ وَرَسُوْلِہِ"(12)
"یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان راز ہے"
اور دوسرے لوگوں کو اس پر مطلع نہیں کیا گیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہر کتاب کے اسرار ہوتے ہیں اور قرآن مجید کے اسرار اوائل سور یعنی حروف مقطعات ہیں اور بعض لوگوں کے نزدیک دوسرے لوگ بھی اس کا مفہوم جانتے ہیں اور انہوں نے مختلف تاویلات بھی ذکر کی ہیں جیسا کہ مجدد الف ثانی کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر حروف مقطعات کی تاویل کو ظاہر فرمایا۔
صاحبِ تفسیر کا شجر ممنوعہ کے حوالے سے تفرد:
"فَاَزَلَّھُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْھَا فَاَخْرَجَھُمَا مِمَّا كَانَا فِیْهِ۪ وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُو وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ"(13)
"پھر شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور جس حالت میں وہ تھے اس سے نکلوا کر چھوڑا ہم نے حکم دیا اب یہاں سے اتر جاؤ اب تم ایک دوسرے کے دشمن ہو تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور گزر بسر کرنا ہے"
ڈاکٹر صاحب کے نزدیک:
"یعنی اس درخت کا پھل کھانے سے ان کے جسم اور سوچ میں تبدیلی آ گئی۔ اس درخت کو قرآن مجید میں ایک اور جگہ ’’شجرۃ الخلد‘‘ یعنی ہمیشگی کا درخت کہا گیا ہے اس درخت کا پھل کھانے کی وجہ سے ان سے جنت کا لباس واپس لے لیا گیا اور وہ ایک دوسرے کے سامنے برہنہ ہو گئے"(14)
حضرت آدم اور حوا علیھما السلام کا شجر ممنونہ کے پھل کھانا اجتہادی غلطی یا نسیان کی وجہ تھا۔
یہاں پر ڈاکٹر فاروق خان صاحب کا تفرد یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت آدم و حوا علیھما السلام کے اس درخت کے پھل کھانے سے ان کے جسم اور سوچ میں تبدیلی آ گئی، جو کہ قرآن و حدیث کے صریح خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ درخت کی کوئی ایسی خاصیت بیان کی ہے کہ اس درخت کے پھل کھانے سے جسم اور سوچ میں تبدیلی آ سکتی ہے اور نہ بطور سزا اس طرح کی تبدیلی کا کوئی ذکر آیا ہے نہ کسی حدیث میں جسم اور سوچ کی تبدیلی کا ذکر آیا ہے نہ کسی مفسر نے اس آیت کی کوئی ایسی تفسیر کی ہے۔
صاحبِ تفسیر کا سیدناآدم ؑ کے نسیان کے حوالے سے تفرد:
"وَ لَقَدْ عَھِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا"(15)
"ہم نے اس سے پہلے آدم علیہ السلام پر ایک عہد کی ذمہ داری ڈالی تھی مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے اس میں عزم کی پختگی نہ پائی"
ڈاکٹر فاروق خان لکھتے ہیں:
"یہاں آدمؑ کے واقعے کا ایک ٹکڑا اس غرض سے بیان کیا جا رہا ہے کہ یہ بتایا جائے کہ جلد بازی، بے صبری اور کسی بات پر اچھی طرح غور و فکر کیے بغیر عمل کرنے کے کیا نتائج نکلتے ہیں"(16)
تمام مفسرین کی رائے یہ ہے کہ آدمؑ کا معاملہ کوئی قصدی و ارادی ،سر کشی اور تکبر کی بنیاد پر نہ تھا بلکہ بھول میں پڑ جانے اور عزم وارادے کی کمزوری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تھا اور اس نے اللہ تعالیٰ کا حکم یاد رکھنے کی کوشش نہ کی جو اسے سمجھایا گیا تھا اس وجہ سے ان پر عتاب بھی کیا گیا کہ ایسے امور میں کیوں مشغول ہوئے جن کی وجہ سے ان پر نسیان طاری ہوا حالانکہ ان کو معلوم ہے کہ شیطان ان کا کھلا دشمن ہے۔
یہاں پر ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کی رائے یہ ہے کہ آدمؑ کا واقعہ یہاں پر اس غرض سے بیان کیا جا رہا ہے کہ جلد بازی، بے صبری اور کسی بات پر غور و فکر کیے بغیر کیا نتائج نکلتے ہیں جبکہ دوسرے مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس واقعے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کس طرح شیطان کے بہکاوے میں آ جاتاہے اور یہ امر قدیم ہے حضرت آدمؑ کو بھی بتایا گیا تھا کہ شیطان ان کا کھلا دشمن ہے اور وہ بھول گئے اس طرح ان کی اولاد بھی بھول جاتی ہے۔
صاحبِ تفسیر کا لفظ رزق کے حوالے سے تفرد:
"فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ اَنْۢبَتَھَا نَبَاتًا حَسَنًا وَّ كَفَّلَھَا زَكَرِیَّا كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْھَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ"(17)
"چنانچہ اس کے رب نے اس بچی کو اس اپنی پسندیدگی کی قبولیت سے نوازا اس کو بہترین طریقے سے پروان چڑھایا اور زکریا کو اس کا سرپرست بنایازکریا جب بھی اس کے پاس خصوصی کمرے میں جاتا تو وہاں رزق کا سامان ہوتا اس نے پوچھااے مریم یہ چیز تمہیں کہاں سے حاصل ہوتی ہے؟اس نے کہا اللہ کی طرف سے ہے اللہ جس پر چاہے بے حساب فضل فرماتا ہے"
ڈاکٹر فاروق خان لکھتے ہیں:
"سامان رزق سے مراد کھانے پینے کے سامان کے ساتھ ساتھ حکمت و معرفت بھی ہے وحی ہدایت کے لیے بھی رزق کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی حکمت و ہدایت کی یہ باتیں تم نے کہاں سے سیکھی ہیں۔"(18)
بعض مفسرین اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:
"زکریا علیہ السلام جو اس وقت تک بے اولاد تھے تو نوجوان اور نیک صالحہ لڑکی کو دیکھ کر ان کے دل میں بھی فطرتاً نیک اولاد کی تمنا پیدا ہوئی اور پھر یہ ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اس گوشہ نشین لڑکی کو رزق پہنچا رہا ہے وہی اللہ مجھے بھی اس بڑھاپے میں اولاد دینے پر قادر ہے"(19)
یہاں پرڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کاتفردیہ ہے کہ وحی و ہدایت کے لیے بھی رزق کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جو کہ دوسری تفاسیر سے یہ بات منفرد ہے۔ باقی تفاسیر میں راقمہ کے علم کے مطابق ایسی کوئی بات نہیں ملی کہ وحی اور ہدایت کے لیے رزق کا لفظ استعمال کیا گیا ہو اور نہ عربی لغت کے اعتبار سے وحی کے لیے رزق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے عموماً مفسرین نے یہاں پر رزق سے مراد کھانے پینے کی چیزیں اور بغیر موسم کے پھل کے معنی میں لیا ہے کیونکہ اگر یہاں پر لفظ "رزق" وحی کے معنی میں لیا جائے تو پھر لازم آتا ہے کہ مریمؑ پر وحی نازل ہوئی اور پوری تاریخ میں عورت پر وحی نازل نہیں ہوئی حالانکہ زکریا علیہ السلام خود نبی تھے پھر وہ رزق کے بارے میں نہ پوچھتے اور وَجَدَ کے لفظ سے صاف واضح ہے کہ وہاں پر کوئی کھانے پینے کی چیز پھل وغیرہ پڑے تھے جو حضرت زکریا ؑ نے دیکھے اور تعجب سے پوچھا کہ یہ ہے کہاں سے آتے ہیں۔
صاحب تفسیر کالفظ مسیح کے حوالے سے تفرد:
"اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْھًافِی الدُّنْیَاوَالْاٰخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ"(20)
"یاد کرو جب فرشتوں نے کہا اے مریم علیہ السلام اللہ تمہیں اپنی طرف سے ایک کلمہ کی خوشخبری دیتا ہے اس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا اور دنیا اور آخرت دونوں میں معزز اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہوگا"
ڈاکٹر محمد فاروق خاں صاحب رقم طراز ہیں:
"مسیح حضرت عیسیٰؑ کا لقب ہے بنی اسرائیل کے ہاں روایت تھی کہ ہر آنے والے نبی اور بادشاہ کو اس کا پیش رو نبی سر پر تیل مل کر اس کو اپنا جانشین بناتا لیکن حضرت عیسیٰؑ پیدائش مسیح تھے بخاری کی روایات کے مطابق ان کے سر کا یہ حال تھا کہ مسلسل تیل ٹپک رہا ہو اسی لیے ان کےلیے انجیل میں "خدا کا مسیح" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں یعنی جس کو خدا نے براہِ راست مسح سےسرفراز کیا ہو"(21)
یہاں پر بھی ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کی رائے باقی مفسرین سے مختلف ہے جمہور مفسرین نے اس آیت کی بنیاد پر مسیح لفظ کے معنی یہ بیان کیاہے کہ عیسیٰؑ مادر زاد آندھوں یا برص کےمرض والوں کےسر پر ہاتھ پھیرتے تو وہ اللہ کے حکم سے تندرست ہو جاتے تھے اور یہ عیسیٰؑ کا معجزہ تھا کیونکہ ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے ان کے حالات کے مطابق معجزات عطا کیے حضرت عیسیٰؑ کے دور میں چونکہ طب کا بڑا چرچا تھا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کے ہاتھوں ایسامعجزہ صادر فرمایا کہ اللہ کے حکم سے صرف ہاتھ پھیرنے سے مادر زاد آندھے اور برص کی بیماری والے ٹھیک ہو جاتے تھے اسی بنا پر مسیح کے معنی ہے مسح کرنےو الا یا مسیح کےمعنی سیاحت کرنے والا کہ حضرت عیسیٰؑ نزول کے بعد پوری دنیا میں سیاحت کریں گے۔ یا یہ ہے کہ حدیث کے مطابق تین لوگ شیطان سےمحفوظ رہے اور اس میں ایک حضرت عیسیٰؑ کہ جب وہ پیدا ہوئے تو فرشتوں نے اپنے پروں کے ساتھ مسح کیا۔
حضرت موسیٰؑ کا دیدارِ الٰہی کے حوالے سے صاحبِ تفسیر کا تفرد:
"وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى ثَلٰثِیْنَ لَیْلَةً وَّ اَتْمَمْنٰھَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّهٖۤ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةًوَ قَالَ مُوْسٰى لِاَخِیْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَ اَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْن"(22)
"ہم نے موسی علیہ السلام کو تیس راتوں کے لیے کوہ سینا پر طلب کیا اور پھر اس میں دس راتوں کا اضافہ کر دیا مدت چالیس راتوں میں پوری ہوگی جانے سے پہلے مسلسل اپنے بھائی ہارون علیہ السلام سے کہا میری قوم کی جان نشینی کرو ان کی اصلاح کرتے رہو اور مفسدوں کے طریقے کی پیروی نہ کرو"
ڈاکٹرفاروق خان صاحب کے نزدیک:
"حضرت موسیٰؑ کو شریعت دینے اور ذاتی تربیت کے لئے کوہِ طور پر بلایا گیا تھا مگر وہ انتہائی خوشی کی وجہ سے وقت مقررہ سے پہلے وہاں پہنچ گئے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس جلدی پر گرفت کی اور مدت چالیس دن تک بڑھا دی۔ دراصل اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جانب حق میں بھی تجاوز ہو جائے تو اللہ کی طرف سے اس پر تنبیہ ہوتی ہے"(23)
بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ جب حکم خداوندی کے تحت حضرت موسیٰؑ کو ہ سینا پر طلب کیے گئے تاکہ انہیں شریعت عطا فرمائی جائے تو یہ اس سلسلے کی پہلی طلبی تھی اور اس کے لیے چالیس دن کی میعاد مقرر کی گئی تھی کہ حضرت موسیٰؑ ایک پورا چلہ پہاڑ پر گزاریں اور روزے رکھ کرشب و روز عبادت اور تفکر و تدبر کر کے دل و دماغ کو یکسو کر کے اس قول کو تفصیل سے اخذ کرنے کی استعداد اپنے اندر پیدا کریں جو ان پر نازل کیا جانے والا تھا (24)
اس آیت کے بارے میں بھی ڈاکٹرفاروق خان صاحب کی رائے باقی مفسرین سے مختلف ہےڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کہتے ہیں کہ جب موسیٰ کو بلایا گیا تو وہ انتہائی خوشی کی وجہ سے وقت مقرہ سے پہلے پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے اس جلدی پر موسیٰؑ کی گرفت کی اور مدت چالیس دن تک بڑھا دی یعنی یہ موسیٰؑ کی جانب حق میں تجاوز تھی جس پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کے طور پر وہاں مدت بڑھا دی جبکہ دوسرے مفسرین کے نزدیک تیس دن موسیٰ کی تربیت اور استعداد پیدا کرنے کے لیے اور باقی دس دنوں میں تورات نازل ہوئی اور موسیٰؑ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام بھی ہوئے ان دنوں میں یا تیس دنوں میں تربیت اور شریعت اور باقی دس دن ان منتخب اسرائیلیوں کے لیے جو حضرت موسیٰؑ کے ساتھ کوہ طور پر گئے تھے۔
یہاں پر ڈاکٹر فاروق خان صاحب کا تفرد یہ ہے کہ جب موسیٰؑ نے دیدار الٰہی کی التجا کی ’’تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے بلکہ پہاڑ کی طرف دیکھ اگر وہ ا پنی جگہ قائم رہ جائے ،تو مجھے دیکھ سکے گا چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر تجلی کی تو ریزہ ریزہ کر دیا، دیکھنے کو اس پر محمول کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ موسیٰؑ کو سبق دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کو اپنے حواس کے پیمانوں پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔
عجلتِ موسیٰ ؑ کے بارے میں صاحبِ تفسیر کا تفرد:
"وَ مَاۤ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ یٰمُوْسٰى"(25)
"اے موسی تم کو کیا چیز اپنی قوم سے پہلے لے آئی"
ڈاکٹر فاروق خان صاحب اس بارے میں کہتے ہیں :
"موسیٰ علیہ السلام اپنے پرور دگار کو خوش کرنے کے لیے اپنی قوم سے پہلے چلے آئے یہ جانب حق ایک لغزش تھی، مگر بہر حال تھی تو عجلت لیکن یہی جلدی موسیٰ علیہ السلام کے لیے ایک شدید آزمائش اور انکی قوم کے لیے ایک سخت فتنہ بن گئی۔ بت پرست مصریوں کے ساتھ ایک لمبا عرصہ گزارنے کے بعد بنی اسرائیل کے ہاں بھی بت پرستی کی خواہش موجود تھی۔ ایسے حالات کے اندر موسیٰ علیہ السلام کی چند روز کی غیر حاضری بھی قوم کے لیے آزمائش بن سکتی تھی اس کا نتیجہ اس خطر ناک شکل میں سامنے آیا حضرت موسیٰؑ کی زندگی سے اس واقعے کو قرآن مجید نے خاص طور پر اس لیے نمایاں کیا ہے کہ یہ بتایا جائے کہ دین کے راستے میں صبر اور انتظار ہی کی روش صحیح راستہ ہے"(26)
مفسرین کے نزدیک اصل واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰؑ اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور اس کا کلام سننے کے شوق میں جلدی روانہ ہوئے تو بنی اسرائیل کی دیکھ بال کے لیے اپنے بھائی ہارون کو خلیفہ مقرر کر دیا وہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ نے پوچھا اے موسیٰ آپ نے اپنی قوم کو چھوڑ کر آنے میں کیوں جلدی کی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب عالم ہے لیکن حضرت موسیٰؑ کی عزت افزائی اور تسکین دل کے لیے یہ سوال فرمایا تو حضرت موسیٰؑ اللہ تعالیٰ کے جلال کی وجہ سے بجائے اس کے کہ وہ لوگ میرے پیچھے آ رہے ہیں عجلت کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے رب میں نے تیرے پاس آنے میں اس لیے جلدی کی تاکہ تو راضی ہو جائے ۔یعنی شدت شوق سے کی وجہ سے صبر نہ کر سکے اور بنی اسرائیل نے تو موسیٰؑ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ حضرت موسیٰؑ کے واپس آنے تک دین کے احکام پر عمل کرتے رہیں گے اور پھر انہوں ے قبطیوں نے بد ترین عمل کیا کہ فرعون کی اطاعت تو نہ کی لیکن گو سالہ پرستی میں مشغول ہوگئے۔(27)
اس آیت میں حضرت موسیٰ کے واقعے کا جو پہلو بیان کیا گیا ہے اس کے بارے میں ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کی رائے یہ ہے کہ یہ خاص طور پر اس لیے نمایاں کیا ہے کہ یہ بتایا جائے کہ دین کے راستے میں صبر اور انتظار ہی کی روش صحیح راستہ ہے یعنی کہ جب موسیٰؑ اپنے پرودگار کو خوش کرنے کے لیے قوم سے پہلے چلے آئے تو یہ عجلت اور جلدی تھی اور یہ جانب حق ایک لغزش تھی اور موسیٰؑ کی چند روز کی غیر حاضری قوم کے لیے آزمائش بن سکتی تھی۔یہ بھی ڈاکٹر صاحب کا تفردہے۔
نبی کی بشارت کے حوالے سے صاحبِ تفسیر کاتفرد:
"یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّا"(28)
"یحیی علیہ السلام اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لیں ہم نے ان کو بچپن سے ہی فیصلہ کی قوت عطا فرمائی"
ڈاکٹرفاروق خان صاحب نبی کی بشارت کے حوالے سے کہتے ہیں:
"زکریا کے بیٹے یحییٰؑ کو اللہ نے اپنی طرف سے ایک بے مثال انسان بنایا پروردگار نے بچپن میں ہی ان کو حکم یعنی حق وباطل میں امتیاز کی صلاحیت بخشی۔ دوسرے لوگوں میں یہ صلاحیت بہت بعد میں جا کر پیدا ہوتی ہے۔ پروردگار نے ان کو"حنان" کا لقب بھی دیا اس کا مطلب ہے محبت ذوق و شوق اور سوز و گداز۔ اسی لیے انہوں نے ساری زندگی بنی اسرائیل کی اصلاح کے سوا اور کوئی کام نہیں کیا۔ وہ جنگل کے شہد اور اس کی ٹڈیوں پر گزارہ کرتے صرف کمبل اوڑھتے۔ انہوں نے کوئی گھر نہیں بنایا اور بالآخر اس زمانے کے یہودی فرماں روا نے جیل میں ڈالا اور پھر شہید کر دیا ۔یحییٰؑ کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ وہ خود نبی تھے اور ان کو بطور خاص یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ آنے والے رسول یعنی مسیحؑ کی منادی لوگوں کو دیں۔ا نبیاء کی پوری تاریخ میں اس طرح کی ذمہ داری صرف یحییٰؑ کو دی گئی تھی"(29)
یہاں پر ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کی آخری بات کہ یحییٰ ؑ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ خود نبی تھے اور ان کو بطورِ خاص یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ آنے والے رسول یعنی مسیح کی منادی لوگوں کو دیں انبیاء کی پوری تاریخ میں اس طرح کی ذمہ داری صرف حضرت یحییٰؑ کو دی گئی تھی۔ یہ نکتہ قابلِ غور ہے کیونکہ بنی اسرائیل کےتمام انبیاء کویہ کام سونپا گیا تھا اور سابقہ انبیاء آنے والے انبیاء کے منادی دیتے اور خاص طور جو عیسیٰؑ نے احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشخبری دی ہے۔
معلوم ہو اکہ انبیاء کی تاریخ میں صرف یحییٰؑ کو یہ کام نہیں سونپا گیا بلکہ ہرنبی نے آنے والےنبی کی بشارت دی ہے لہٰذایہ بھی ڈاکٹر فاروق خان کا تفرد ہے۔
رسول اور نبی میں فرق کے حوالے سے صاحبِ تفسیر کا تفرد:
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا"(30)
"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کتاب میں موسی علیہ السلام کے حالات کو یادکرو اسے اللہ نے اپنے لیے خالص کیا ہوا تھا اور وہ ایک رسول نبی تھا"
ڈاکٹرفاروق خاں اس کی وضاحت کرتے ہیں:
"موسیٰ علیہ السلام نبی ہونے کے ساتھ ساتھ رسول بھی تھے نبیوں میں سے رسول کا مرتبہ ایک خاص درجہ ہے جو انہی پیغمبروں کو عطا کیا جاتا ہے جن کی بات کو اللہ اس دنیا میں ان مخاطبین کے لیے ایک عدالت بنا دیتا ہے"(31)
بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ نبی اور رسول دونوں کے اصطلاحی معنی ہیں وہ انسان اور بشر جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام کی تبلیغ کے لیے مخلوق کی طرف بھیجا ہو بعض لوگ اس میں فرق کرتے ہیں کہ نبی سے مراد وہ جس پر وحی نازل کی گئی ہو اور رسول وہ جس پر کتاب بھی نازل کی گئی ہو اور وحی بھی۔ احادیث کے مطابق 313 یا 315 رسول اور ایک لاکھ چوبیس ہزار کم وبیش نبی آئے ہیں۔
یہاں پر ڈاکٹر فاروق خان صاحب کا تفرد یہ ہے کہ نبیوں میں رسول کا مرتبہ ایک خاص درجہ ہے جو ان پیغمبروں کو عطا کیا جاتا ہے جن کی بات کو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ان کے مخاطبین کے لیے عدالت بنا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ڈاکٹر فاروق صاحب نے بہت ساری آیات میں اس طرح کی رائے ظاہر کی ہے۔
جبکہ دوسرے مفسرین کے نزدیک رسول اور نبی میں اس طرح کا کوئی فرق نہیں لہٰذا یہ ڈاکٹرفاروق خان صاحب کی انفرادی رائے ہے۔
انبیاء کےمعجزات کے حوالے سے صاحبِ تفسیر کاتفرد:
"وَ قَالُوْا لَوْ لَا یَاْتِیْنَا بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ اَوَ لَمْ تَاْتِهِمْ بَیِّنَةُ مَا فِی الصُّحُفِ الْاُوْلى"(32)
"منکرین حق کہتے ہیں کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کی طرف سے ہمارے لیے کوئی نشانی کیوں نہیں لایا اگلے صحیفوں میں جو کچھ درج ہیں کیا اس کی دلیل ان کے پاس نہیں پہنچی"
اس کے بارے میں ڈاکٹر فاروق خان کا تفرد یہ ہے :
"اللہ کی طرف سے پہلے اتاری گئی کتابوں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ رسول کو نشانی صرف اس وقت دی جاتی ہے جب اتمام حجت کے بعد قوم کو ہلاک کرنا مقصود ہو اور یا پھر اس وقت جب رسول کو کسی ایسی مہم پر بھیجنے کا فیصلہ ہو جس میں طاقت ور دشمن کے مقابلے کے لیے معجزے کے ہتھیار سے لیس ہونا ضروری ہے چونکہ اللہ ابھی سر زمین عرب کے لوگوں کو مہلت دینا چاہتا تھا اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس طرح کی کوئی نشانی نہیں اتاری گئی"(33)
یہاں پر ڈاکٹرفاروق خان صاحب کا تفردیہ ہے کہ معجزات کے لیے سائنس کالفظ استعمال کرتے ہیں جو باقی مفسرین کے نزدیک معجزات ہی ہیں۔
شق القمر کے حوالے سے صاحبِ تفسیر کی رائے:
"اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ"(34)
"قیامت قریب آگئی اور چاند شق ہوگیا"
یعنی چاند کا پھٹ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن جس قیامت سے لوگوں کو خبردار کر رہا ہے اور رسول کی مخاطب قوم کو جس ہلاکت کی دھمکی دے رہا ہے وہ واقع ہو سکتی ہے اور واقع ہو کر رہے گی یوں تو آسمان و زمین کے چپے چپے پر اللہ کی قدرت و حکمت کی نشانیاں موجود ہیں اور آئے دن نئی نئی نشانیاں بھی ظاہر ہوتی رہتی ہیں لیکن رسولوں کی بعثت کے زمانے میں اللہ خاص طور پر ایسی نشانیاں ظاہر فرماتا ہے جس سے رسول کے دعوے کی تصدیق ہوتی ہے۔ صحیح روایات کے مطابق اس طرح کی ایک نشانی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکی دور میں ہجرت سے پانچ برس پہلے چاند کے پھٹنے کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ وہ چاند کی چودھویں رات تھی۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منیٰ میں تشریف فرما تھے یکایک چاند پھٹ گیا۔ اس کا ایک ٹکرا ایک طرف علیحدہ ہو گیا اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف۔ یہ کیفیت بس ایک لحظہ ہی رہی اور پھر دونوں ٹکڑے باہم جڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا "محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم پر جادو کر سکتے ہیں، لیکن تمام لوگوں پر تو نہیں کر سکتے۔ باہر کے لوگوں کو آنے دو۔ ان سے پوچھیں گے کہ کیا انہوں نے بھی یہ واقعہ دیکھا ہے یا نہیں۔" جب باہر سے کچھ لوگ آئے تو انہوں نے گواہی دی کہ وہ بھی یہ منظر دیکھ چکے ہیں۔
کچھ مفسرین درج بالا وضاحت سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان میں کچھ قدیم مفسرین بھی شامل ہیں۔ ان کے خیال میں اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: "قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ جائے گا" گویا ان کے خیال میں قرب قیامت کے قریب یہ واقعہ رونما ہو گا۔ عربی زبان کے لحاظ سے یہ معنی لینا ممکن ہے اور قرآن مجید میں اس کے بہت سے نظائر موجود ہیں۔ اس گروہ کے خیال میں درج بالا واقعے پر تین اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ عام حالات میں یہ ممکن نہیں کہ چاند جیسے عظیم وجود کے دو ٹکڑے پھٹ کر الگ ہو جائیں اور اس کے بعد پھر باہم جڑ جائیں۔ دوسرا یہ ہے کہ اگر ایسا واقعہ ہوا ہوتا تو یہ دنیا بھر میں مشہور ہو جاتا ، تاریخوں میں اس کا ذکر آتا اور علم نجوم کی کتابوں میں اسے بیان کیا جاتا۔ تیسرا یہ ہے کہ اس واقعے سے متعلق روایات میں آپس میں بہت کچھ اختلاف و تضاد ہے۔
اس عاجز کے نزدیک ان دونوں گروہوں کے موقف میں تطبیق ممکن ہے۔ وہ یہ ہے کہ سینکڑوں برس میں ایک دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ کچھ لمحوں کے لیے مریخ زمین کے بہت قریب آ جاتا ہے اور مریخ اور ہمارا چاند کچھ لمحوں کے لیے ایک ایسا منظر بنا دیتے ہیں جیسے ہمارے چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی قدرت الٰہی کی ایک نشانی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی کی طرف توجہ دلائی ہو گی۔ جہاں تک قرآن مجید کے بیان کا تعلق ہے تو وہ قرب قیامت سے متعلق ہے۔(35)
واقعہ معراج کے حوالے سے صاحبِ تفسیر کا تفرد:
"سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَااِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ"(36)
"پاک ہے جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ سننے والا دیکھنے والا ہے"
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
"اس آیت میں اس عظیم واقعے کا ذکر کیا گیا ہے جو عام طور پر "معراج" کے نام سے مشہور ہے۔ اس آیت میں"مسجد اقصیٰ"سے مراد دراصل بیت المقدس ہے۔ اقصیٰ کے معنی "دور والی" کے ہیں۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پروردگار نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا ایک سفر انتہائی معجزانہ طریقے سے کرایا، تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ اہم نشانیاں دکھائی جا سکیں"(37)
واقعۂ معراج کے متعلق اہلِ علم میں بہت اختلاف موجود ہے۔ مثلاً یہ ہے کہ کیا یہ سفر خواب کی حالت میں۔ حضرت عائشہؓ ، حضرت انسؓ بن مالک اور بہت سے دوسرے اہلِ علم کا نقطۂ نطریہ ہے کہ یہ واقعہ روحانی طور پر پیش آیا تھا۔ اس کے برعکس اکثر اہلِ علم کا موقف یہ ہے کہ یہ واقعہ بیداری کی حالت میں جسم و روح، دونوں کی موجودگی میں ہوا تھا۔ اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ نجم میں بیان کردہ واقعات اکٹھے پیش آئے تھے یا یہ علیحدہ علیحدہ اوقات میں وقوع پذیر ہوئے تھے۔ اس معاملے میں بھی اختلاف ہے کہ یہ واقعات کب اور کتنی مرتبہ پیش آئے تھے۔ اس واقعے کی جو تفصیلات روایات میں آتی ہیں، ان میں بھی آپس میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر فاروق خان فرماتے ہیں:
وہ کون سی نشانیاں تھیں جن کا مشاہدہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کرایا گیا، اس کی تفصیل صرف اللہ کے علم میں ہے۔ تاہم قرآن کے دوسرے مقامات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان مشاہدات کا ایک حصہ یقیناً یہ بھی ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے سے ایک نئی امت مسلمہ تشکیل دی جا رہی ہے جو قیامت تک دین کی دعوت کا کام کرے گی اور اللہ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد و نصرت کی جائے گی۔(38)
عموماً مفسرین کی رائے یہ ہے کہ قرآن مجید یہاں صرف مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانے کی تصریح کرتا ہے اور اس سفر کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا اس سے زیادہ کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتائی گئی لیکن حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعے کی تفصیلات بکثرت صحابہ سے مروی ہیں ۔
اس واقعے کی جو تفصیلات احادیث میں ذکر ہوئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ "رات کے وقت جبرئیل ؑ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھا کر مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک بُراق پر لے گئے وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انبیاء علیھم اسلام کے ساتھ نماز ادا کی پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم بالا کی طرف لے چلے اور وہاں مختلف طبقات سماوی میں مختلف جلیل القدر انبیاء سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ہوئی آخر نگار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتہائی بلندیوں پر پہنچ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے اور اس حضوری کے موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم ہوا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس کی طرف پلٹے اور وہاں سے مسجد حرام واپس تشریف لائے"(39)
دوسری بات یہ ہے کہ اس سفر کی کیفیت کیا تھی؟ یہ عالم خواب میں پیش آیا تھا یا بیداری میں اور آیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بذاتِ خود تشریف لے گئے تھے یا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے محض روحانی طور پر ہی آپ کو یہ مشاہدہ کرا دیا گیا۔
ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کے تفردات واقعہ معراج کے حوالے سے:
۱۔ معجزانہ سفر کا ذکر مسجد حرام سے مسجداقصی تک کرتے ہیں۔
۲۔ سارے حقائق و مشاہدات کو تمثیلی رنگ کے قرار دیتے ہیں۔
۳۔ عالم بالا کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔
۴۔ جس وقت معراج کا واقعہ پیش آیا اس وقت کوئی مسجد بظاہر موجود نہیں تھی۔
۵۔ مسجد کی بنیاد رکھنے کو حضرت عمرؓ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
مقامِ محمود کے حوالے سے صاحبِ تفسیر کا تفرد:
"وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا"(40)
"اور رات کے کچھ حصہ میں تہجد اداکرو یہ خاص تمہارے لیے زیادہ ہے قریب ہے کہ تمہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں"
ڈاکٹر فاروق احمد لکھتے ہیں:
"مقام محمود کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں ایک ایسا مقام مل کر رہے گا جب ایک عظیم امت کی زبانوں پر تمہارے لیے ترانہ حمد ہو گا اور وہ تم سے اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبت کریں گے"(41)
مقام محمود کے مختلف معنی مفسرین نے ذکر کیے ہیں اور اس کی تائید میں احادیث بھی نقل کرتے ہیں:
۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شفاعت کبریٰ عطا فرمانا۔
۲۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حمد کا جھنڈا عطا فرمانا۔
۳۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دُوزخ سے مسلمانوں کو نکالنے کے لیے شفاعت کا اذن عطا فرمانا۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ مقامِ محمود سے مراد یہ ہے کہ دنیا و آخرت میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے مقام و مرتبےپر پہنچانا کہ ہر طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مدح و ستائش کی بارش ہو اور محمود خلائق کے مرتبے پر فائز کرنا یعنی کہ دنیا میں وہ مخالفتوں، بدنامیوں اور جھوٹے الزمات کا طوفان جو مخالفین نے برپا کر رکھا ہے مگر وہ وقت بھی دور نہیں کہ ساری دنیا تمہاری تعریفوں سے گونج اٹھے گی اور آخرت میں بھی ممدوح ہو کر رہو گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام شفاعت پر کھڑا ہونا بھی اس مرتبہ محمودیت کا ایک حصہ ہے۔ یہاں پر بھی ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کی رائے باقی مفسرین سے مختلف ہے کیونکہ مقام محمود کے حوالے سے مفسرین کے مختلف اقوال سے مراد شفاعت کبریٰ، یا حمد کا جھنڈا یا مسلمانوں کو دوزخ سے نکالنے کے لیے شفاعت کی اجازت ہے جبکہ ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کے نزدیک امت کی زبانوں پرترانہ حمد ہے یعنی کہ امت کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی جان سے بڑھ کر محبت کریں گے۔
یہود و نصاریٰ کےحوالےسے صاحب تفسیرکی رائے:
” وَ لَتَجِدَنَّهُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَیٰوةٍ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا وَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍ وَ مَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَوَ اللّٰهُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُوْنَ “(42)
”اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم انہیں سب سے بڑھ کر جینے کا حریص پاؤ گے اس معاملے میں وہ مشرکین سے بھی بڑھ کر ہےہیں ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ کاش وہ ہزار سال جیتا رہے حالانکہ اگر یہ عمر بھی اس کو مل جائے تو اس سے وہ اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے گا اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو دیکھ رہا ہے “
ڈاکٹر فاروق خان لکھتے ہیں:
’’اگرچہ یہودیوں اور عیسائیوں کے عقائد میں شرک کی آمیزش موجود ہے لیکن قرآن مجید نے ان کو اہلِ کتاب اور بنیادی طور پر موحد قرار دیا ہے کیونکہ وہ خود اپنے آپ کو موحد کہتے ہیں اس کے برعکس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے مشرکین اپنے آپ کو مشرک قرار دیتے تھے (جیسے ہندوؤں کے بعض گروہ آج بھی اپنے آپ کو مشرک قرار دیتے ہیں) اس لیے قرآن مجید نے صرف انہیں مشرک قرار دیا۔یہ نکتہ ان بعض انتہا پسند مسلمان گروہوں کے لیے خصوصی اہمیت اور غور کا باعث ہے جو بعض اختلافات کی بنا پر بعض دوسرےمسلمان گروہوں کو کافر اور مشرک قرار دیتے ہیں۔‘‘(43)
بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں یہود کے خلاف ایک حجت قائم کی گئی ہے کہ اگر تمہارا دین برحق ہے اور آخرت میں صرف تم جنت کے مستحق ہو تو موت کی تمنا کرو لیکن معاملہ یہ ہے کہ جینے کی حریص کو مشرکین سے بھی زیادہ لمبی زندگی کی خواہش رکھتے ہیں خواہ وہ عزت کی زندگی ہو یا ذلت کی۔
یہاں پرڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کاتفرد یہ ہے کہ اگر چہ یہود و نصاریٰ کے عقائد میں شرک کی آمیزش موجود ہے لیکن قرآن نے ان کو اہلِ کتاب اور بنیادی طور پر مؤحد قرار دیا جبکہ دوسرے مفسرین کے نزدیک یہاں پر یہود کی خباثتیں بیان ہو رہی ہیں اور اس آیت میں ان کے خلاف حجت اور ان کے دعویٰ استحقاق جنت کی تردید ہو رہی ہے اس کے علاوہ نہ یہاں پر نہ قرآن کے کسی اور آیت سے یہود کے مؤحد ہونے کا ثبوت ملتا ہے بلکہ ان کے شرک کا واضح ذکر آیا ہے:
وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُنِ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصَاری الْمَسیحُ ابْنُ اللہ۔۔۔(44)
(یہود کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے) (نعوذ باللہ)۔
لہٰذایہ بھی ڈاکٹر صاحب کا تفرد ہے۔
لفظ کتاب اور حکمت کے بارے میں صاحب تفسیر کی رائے:
” رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ‘‘ (45)
”روردگار ہمارے اولاد میں سے ایک ایسا رسول اٹھا جو انہیں تیری آیات سنائے انہیں قانون و حکمت کی تعلیم دے اور اس طرح انہیں پاکیزہ بنائے یقینا تو بڑا ہی زبردست اور بڑی حکمت والا ہے “
ڈاکٹر فاروق خان کہتے ہیں:
قرآن میں جہاں بھی الکتاب و الحکمۃ کے الفاظ آئے ہیں وہاں الکتاب سے مراد قانون یعنی شریعت ہوتی ہے کیونکہ عربی زبان میں الکتاب جس طرح خط و کتابت کے معنی میں آتا ہے اس طرح قانون کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جبکہ الحکمۃ سے مراد دین کی حقیقت اور ایمان و اخلاق کا فلسفہ ہوتا ہے قرآن ان دونوں کامجموعہ ہے۔(46)
کتاب و حکمت سے مراد بعض لوگوں کے نزدیک قرآن مجید میں بیان کیے ہوئے احکام ہیں کہ ان پر عمل کر کے دکھائیں اور اس میں خیالات، اخلاق، معاشرت، معیشت سیاست وغیرہ کے حوالے سے احکام شامل ہیں۔ (47)
حکمت سے مراد یہاں بعض لوگوں کے نزدیک "قرآن کے ناسخ و منسوخ اور محکم و متشابہہ کو جاننا یا قرآن کے اسرار و دقائق کو جاننا ہے بعض کہتے ہیں کہ حکمت سے مراد احادیث یعنی سنت رسول ہیں"(48)
یہاں پر بھی ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب اور دورے مفسرین کے رائے میں تھوڑا سا فرق ہے کیونکہ دوسرے مفسرین کے نزدیک ’’حکمت‘‘ سے مراد احادیث بھی ہو سکتا ہے اور محکم اور متشابہہ یا قرآن کے اسرار و دقائق کو جاننا بھی ہو سکتا ہے جبکہ ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب نے حکمت سے مراد دین کی حقیقت اور ایمان و اخلاق کا فلسفہ ذکر کیا ہے۔
صاحبِ تفسیر کا امت کا وسط کے حوالےسے تفرد:
"وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَھِیْدًا وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْھَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِـعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِ وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ"(49)
"اسی طرح اے صحابہ ہم نے تو تمہیں درمیان کی ایک جماعت بنا دیا ہے تاکہ تم سب لوگوں پر دین کی شہادت دینے والے بنو اور اللہ کا رسول تم پر یہ شہادت دے اس سے پہلے جس قبلے پر تم تھے اسے تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے اس میں شبہ نہیں کے یہ ایک بھاری آزمائش تھی مگر ان کے لیے کچھ بھی سخت ثابت نہ ہوئی جو اللہ کی ہدایت سے فیضیاب تھے اللہ ایسا نہیں ہے کہ سخت آزمائشوں سے تمہارے ایمان کو ضائع کرنا چاہے اللہ تو لوگوں کے لئے بڑا مہربان ہے اور سراسر رحمت ہے "
ڈاکٹر صاحب کے نزدیک:
"امت وسط یعنی درمیان کی جماعت سے مراد صحابہ کرام ہیں یہ بات آگے کے الفاظ سے واضح ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ صرف انہی کو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے براہِ راست دین کی دعوت دی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان پر گواہی دیں گے کہ انہوں نے اس دین کو قبول کر لیا تھا اسی طرح صرف صحابہ کرامؓ کا قول و فعل ہی اس قابل تھا کہ وہ باقی لوگوں پر دین کو اپنی حقیقی شکل میں واضح کر سکیں بعد میں آنے والے مسلمانوں کا قول و کردار اور نظم اجتماعی اس قابل نہ تھا کہ وہ یہ شہادت دیں کہ انہوں نے اللہ کا دین اپنی مکمل حالت میں باقی دنیاتک پہنچا دیا ہے"(50)
امت وسط عرف میں وسط سے مراد وہ کیفیت جو افراط و تفریط کے درمیان ہو جیسے اسراف اور بخل کے درمیان سخاوت اور متوسط ہونا مستلزم ہے۔
یہاں پرڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب امت وسط سے مراد صحابہ کی جماعت لیتے ہیں جبکہ مؤثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ صحابہؓ نیک عادل اور گواہی کے مستحق تھے لیکن صحابہ کرامؓ کے علاوہ تمام امت مسلمہ بھی ثانیا اس میں شامل ہیں اور حدیث سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ امت مسلمہ بھی اس میں شامل ہے۔ لہٰذا یہ ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کی انفرادی رائےہے۔
دخولِ جنت کےحوالے سےصاحبِ تفسیر کاتفرد:
"قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَ اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَةٌ وَّ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ"(51)
" اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے کہو میں بتاؤں کہ ان چیزوں سے بہتر کیا ہے اللہ سے ڈر کر رہنے والوں کے لئے ان کے پروردگار کے ہاں آخرت میں باغات ہیں جن میں نہریں بہتی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے پاکیزہ جوڑے ہوں گے اور سب سے بڑھ کر اللہ کی خوشنودی ہے یقینا اللہ اپنے ان بندوں کو دیکھ رہا ہے "
ڈاکٹر صاحب کے نزدیک:
"جنت میں داخلے سے پہلے اللہ ہر شخص کو انتظار کروا کر یا سزا دے کر پاکیزہ بنائے گا اس کے بعد اسے جنت میں داخل کیا جائے گا چنانچہ وہاں پر میاں بیوی خالصتاً ایک دوسرے کے لیے ہوں گے اور کسی کو بے وفائی کا ڈرنہ ہو گا"(52)
عموماً مفسرین اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اچھے ٹھکانے کا ذکر کیا اور اس آیت میں اس ٹھکانے کی تفصیل بیان فرمائی یعنی جنت کی کہ" اس میں باغات ہیں جن میں مسلمان ہمیشہ رہیں گے اور حیض و نفاس اور ہر قسم کی برائیوں سے پاک و صاف بیویاں ہوں گی اور روح کی لذت کے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا جو سب سے بڑی نعمت ہے"(53)
لیکن اس کے ساتھ شرط یہ ہے کہ وہ سارے انعامات اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے وہ مومن اور متقی لوگ جو گناہ کبیرہ سے اور گناہ صغیرہ پر اصرار سے اجتناب کرتے ہیں۔
یہاں پرڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کاتفرد یہ ہے کہ جنت میں داخلے سے پہلے اللہ تعالیٰ ہر شخص کو انتظار کروا کر یا سزا دے کر پاکیزہ بنائے گا اور پھر اس کے بعد اسے جنت میں داخل کروائے گا جبکہ دوسرے مفسرین کے نزدیک آیت کی رو سے ایمان و تقویٰ شرط ہے انتظار یا سزا کا کوئی ذکر دوسری تفاسیر میں نہیں کہ ہر شخص کو کروایا جائے گا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر منحصر ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بے حساب کتاب جنت میں داخل کرے گا۔
منافقین کے حوالے سے صاحبِ تفسیر کاتفرد:
"اِذْ ھَمَّتْ طَّایِٕفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا وَاللہُ وَلِيُّھُمَا وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ"(54)
"اور یاد کرو جب تم میں سے دو گروہوں نے حوصلہ چھوڑنے کا ارادہ کیا حالانکہ اللہ ان کا مددگار تھا اور ایمان والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے "
ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کہتے ہیں:
"یہ دونوں گروہ بنو سلمہ اور بنو حارثہ تھے جن پر منافقین کے طرزِ عمل کی وجہ سے مایوسی طاری ہو گئی یہاں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ان دونوں گروہوں کو مسلمانوں میں قرار دیا گیا گویا اس سے پہلے جو تین سو منافقین لشکر چھوڑ گئے تھے ان کے نفاق کے سبب وہ مسلمانوں کا حقیقی حصہ ہی تھے اس کے باوجود عملی اعتبار سے یہ منافقین مسلمانوں کی سوسائٹی کا حصہ ہی رہے نماز، کھانا پینا، شادی بیاہ غرض یہ ہے کہ ہر چیز میں وہ مسلمانوں کے ساتھ اکٹھے ہی رہے۔ آخر وقت تک ان میں کسی کو بھی عملاً کوئی سزا نہیں دی گئی۔ بعض منافقین نے ایسی سازشیں بھی کیں جن کی سزا موت ہو سکتی تھی تاہم ان سے بھی درگزر کیا گیا۔ ایسا دو وجوہات کی بنا پر کیا گیا۔ ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کوبتا دیا جائے کہ اسلامی معاشرہ کتنا وسیع الظرف ہوتا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی ریاست کو مشکلات پیش آنے کا اندیشہ ہو تو حکمران کو حکمت کے تقاضے کے تحت درگزر اور چشم پوشی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے"(55)
مفسرین اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ شوال 3ھ کا واقعہ ہے کہ کفار تین ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تجربہ نگار صحابہؓ کی رائے یہ تھی کہ مدینے کے اندر مدافعت کی جائے اور کچھ لوگوں نے مدینہ سے باہر جا کر مقابلہ کرنے کا مشورہ دیا۔ ان میں ایک عبداللہ بن اُلجد بھی تھے۔ لیکن چونکہ ان کی رائے پر عمل نہیں کیا گیا اس لیے عبداللہ بن اُبی تین سو ساتھیوں کو لے کر مقامِ شوط سے واپس چلے گئے تو ان کی اس حرکت کی وجہ سے مسلمانوں میں سخت اضطراب پھیل گیا حتیٰ کہ بنو حارثہ اور بنو سلمہ نے بھی پلٹ جانے کا ارادہ کر لیا لیکن پھر اولوالعزم صحابہ کرامؓ کی کوششوں سے یہ اضطراب رفع ہو گیا۔
اس طرح ایک روایت کے مطابق جب عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر واپس چلا گیا تو مسلمانوں کی دو جماعتوں کے دل بیٹھ گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بچا لیا کیونکہ ان کی ہمتیں پست تو ہو گئی تھیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔
خلاصہ بحث:
مقالہ ہذا میں ڈاکٹرمحمد فاروق خان کی " تفسیر آسان ترین ترجمہ و تفسیر " کی تفسیری خدمات و تفردات کا تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے ۔ جس میں ڈاکٹر فاروق احمد خان کے احوال و آثار کو بیا ن کیا گیاہے ۔آپ کی تصانیف کے بارے میں بتایا گیا ۔آپ کی تفسیر آسان ترین ترجمہ و تفسیر تین جلدوں پر مشتمل ہے۔اس تفسیر میں آپ کا اپنا ترجمہ کیا ہوا نہیں ہے بلکہ مختلف مصنفین کے تراجم کو جمع کیا ہے ۔تراجم میں جہاں پرمترجمین کے مابین اختلاف ہو تو آپ زیادہ تر مولانا امین احسن اصلاحی کے ترجمے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مفسرین کے اختلاف کو اختلاف ذکر کرتے ہیں اور مختلف مفسرین کی آراء نقل کر کے ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دیتے ہیں۔ تفسیر میں جاوید احمد غامدی کی تفسیر اور آراء کو ترجیح دیتے ہیں۔ معرکۃ الارآء مسئلہ میں کبھی کبھار مولانا مودودی اور مولانا تقی عثمانی کے موقف کو ترجیح دیتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب نے اجازت دی ہے کہ قارئین اس (آسان ترین ترجمہ و تفسیر) کے نقطہ نظر کا تنقیدی جائزہ بھی لے سکتے ہیں۔ جو کہ ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کی تحمل مزاجی، صبر اور اعلیٰ ظرفی کی اعلیٰ مثال ہے۔مشکل الفاظ مع ترجمہ اور ضمائر کی دو فہرستیں ضمیمہ کے طور پر بنائی ہیں ۔
آسان ترین ترجمہ و تفسیر کے حوالے سے اگر ڈاکٹر فاروق خان کے تفردات کی بات جائے تو ان میں سے پہلا تفرد حروف مقطعات کے حوالے سےہے۔آپ اس سے اللہ تعالیٰ کے اس احسان کی یاد دہانی جو حروف کی ادائیگی کے ذریعے سے انسان کو گفتار اور تحریر کی صلاحیت عطا کرنے کی صورت میں فرمائی جس کی وجہ سے انسان انسان بنا اسے مراد لیتے ہیں جبکہ دیگر اس سے مراد اللہ اور اس کے رسول کے درمیان راز لیتے ہیں۔شجر ممنوعہ کے حوالے سے آپ تفردیہ ہے آپ اس سے جسم اور سوچ میں تبدیلی کا آ جانامرادلیتے ہیں ۔سیدناآدم ؑ کے نسیان کے حوالے سےبھی ڈاکٹر صاحب کاباقی مفسرین سے تفردہے آپ اس سے جلد بازی، بے صبری اور کسی بات پر اچھی طرح غور و فکر کیے بغیر عمل کرنے کے کیا نتائج مراد لیتے ہیں۔ لفظ رزق کے حوالے سے تفردیہ ہے کہ آپ نے رزق کا لفظ کھانے پینے کے علاوہ حکمت و معرفت اور وحی و ہدایت کے لیے بھی رزق کا لفظ استعمال کیا ہے۔
حضرت موسیٰؑ کے دیدارِ الٰہی کے حوالے سے صاحبِ تفسیر کا تفردیہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر تجلی کی تو ریزہ ریزہ کر دیا،اس دیکھنے کو اس پر محمول کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ موسیٰؑ کو سبق دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کو اپنے حواس کے پیمانوں پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔رسول اور نبی میں فرق کے حوالے سے ڈاکٹر فاروق خان صاحب کا تفرد یہ ہے کہ نبیوں میں رسول کا مرتبہ ایک خاص درجہ ہے جو ان پیغمبروں کو عطا کیا جاتا ہے جن کی بات کو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ان کے مخاطبین کے لیے عدالت بنا دیتا ہے۔انبیاء کےمعجزات کے حوالے سے ڈاکٹرفاروق خان صاحب کا تفردیہ ہے کہ معجزات کے لیے سائنس کالفظ استعمال کرتے ہیں جو باقی مفسرین کے نزدیک معجزات ہی ہیں۔شق القمر کےبارئے میں آپ کہتے ہیں سینکڑوں برس میں ایک دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مریخ اور ہمارا چاند کچھ لمحوں کے لیے ایسا منظر بنا دیتے ہیں جیسے ہمارے چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے ہوں اورکہتے ہیں جہاں تک قرآن مجید کے بیان کا تعلق ہے تو وہ قرب قیامت سے متعلق ہے۔واقعہ معراج کے حوالے سے بھی آپ کا تفردہے آپ معجزانہ سفر کا ذکر مسجد حرام سے مسجداقصی تک کرتے ہیں۔ سارے حقائق و مشاہدات کو تمثیلی رنگ کے قرار دیتے ہیں۔عالم بالا کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔جس وقت معراج کا واقعہ پیش آیا اس وقت کوئی مسجد بظاہر موجود نہیں تھی۔مسجد کی بنیاد رکھنے کو حضرت عمرؓ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔مقامِ محمود ، ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کے نزدیک امت کی زبانوں پرترانہ حمد ہے یعنی کہ امت کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی جان سے بڑھ کر محبت کریں گے۔دخولِ جنت کےحوالے ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کاتفرد یہ ہے کہ جنت میں داخلے سے پہلے اللہ تعالیٰ ہر شخص کو انتظار کروا کر یا سزا دے کر پاکیزہ بنائے گا اور پھر اس کے بعد اسے جنت میں داخل کروائے گا ۔
Mphil Research Scholar, Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, Riphah International University, Islamabad.
1. Inṭerview from Mumtaz-Ul-Dīn, Liaqat Begum (Mardan: Defence Colony, 20 June 2021, 5pm).
2. Inṭerview from Mumtaz-Ul-Dīn, Liaqat Begum (Mardan: Defence Colony, 20 June 2021, 5pm).
3۔ Inṭerview from Mumtaz-Ul-Dīn, Liaqat Begum (Mardan: Defence Colony, 20 June 2021, 5pm).
4۔ Inṭerview from Mumtaz-Ul-Dīn, Liaqat Begum (Mardan: Defence Colony, 20 June 2021, 5pm).
5۔ Inṭerview from Mumtaz-Ul-Dīn, Liaqat Begum (Mardan: Defence Colony, 20 June 2021, 5pm).
6۔www.drfarooqkhan.com,Retrived at,10-06-2021,10:15pm
7۔ Inṭerview from Mumtaz-Ul-Dīn, Liaqat Begum (Mardan: Defence Colony, 20 June 2021, 5pm).
8 ۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr (Lahore: Fine Printers), 1-2.
9۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr, 53/2.
10۔Al-Baqrah:1:2.
11۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr), 15/1.
12 Ghulām Rasūl Sa‘īdī,Tibyān-al-Quraān, (Lahore:Rumi Publications and Printers, June1999 AD), 262/1.
13۔Al-Baqrah:36:2.
14۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr, 53/2.
15۔Ṭāha: 115:20.
16۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr, 241/2.
17۔Āl-e- ‘Īmrān:37:3.
18۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr, 126/1.
19۔Abu-al-‘Alā Modudī, Tafhīm-ul- Qur’ān, 248/1.
20۔Āl-e- ‘Īmrān:45:3.
21۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr , 126/1.
22۔Al-A‘rāf:7,142
23۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr, 352/1.
24۔Ghulām Rasūl Sa‘īdī,Tibyān-al-Quraān, 161/2.
25۔ Ṭāha, 83:20.
26۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr, 236/2.
27۔Ghulām Rasūl Sa‘īdī,Tibyān-al-Quraān, 417/7.
28۔Maryam:12:19.
29۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr , 214/2.
30۔Maryam, 51:19.
31۔ Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr, 219/2.
32۔Ṭāha, 133:20.
33۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr, 243/2.
34۔Al-Qamar:1,54
35۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr, 235/3.
36۔ Banī Isrāīl,1:17.
37۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr, 163/2.
38۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr, 164/2.
39۔Abu-al-‘Alā Modudī, Tafhīm-ul- Qur’ān, 588/2.
40۔Banī Isrāīl, 7917.
41۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr , 180/2.
42۔Al-Baqrah, 96:2.
43۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr, 45/2.
44۔Al-Taubah, 30:9
45۔Al-Baqrah,129:2.
46۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr, 56/1.
47۔Abu-al-‘Alā Modudī, Tafhīm-ul- Qur’ān, 112/1.
48۔Ghulām Rasūl Sa‘īdī,Tibyān-al-Quraān, 550/1.
49۔Baqra:2,143
50۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr, 60/1.
51۔Āl-‘Īmran:3,15
52۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr, 119/1.
53۔Ghulām Rasūl Sa‘īdī,Tibyān-al-Quraān, 84/2.
54۔Al-e-‘Īmrān:3,122
55۔Dr. Muḥammad Farooq Khān, Qur’ān Āsān tarjuma-wa-tafsīr, 149/1.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |