Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Amir > Volume 4 Issue 1 of Al-Amir

کتب علوم الحدیث میں امثال فقہیہ پر اختلاف مسالک کے اثرات؛ ایک تحقیقی جائزہ The effects of differences of Masalik on the Jurisprudential proverbs stated in the books of hadith studies |
Al-Amir
Al-Amir

Article Info
Authors

Volume

4

Issue

1

Year

2023

ARI Id

1682060063651_3220

Pages

92-114

PDF URL

https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/53/52

Chapter URL

https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/53

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

@page { size: 8.27in 11.69in; margin-left: 1.2in; margin-right: 1.2in; margin-top: 0.5in; margin-bottom: 1in } p { margin-bottom: 0.1in; direction: rtl; color: #000000; line-height: 115%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.western { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", serif; font-size: 14pt } p.cjk { font-family: "MS Mincho"; font-size: 14pt } p.ctl { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 15pt } h1 { margin-top: 0.33in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #2e74b5; line-height: 100%; text-align: justify; page-break-inside: avoid; orphans: 2; widows: 2; background: transparent; page-break-after: avoid } h1.western { font-family: "Calibri Light", serif; font-size: 14pt; font-weight: bold } h1.cjk { font-family: ; font-size: 14pt; font-weight: bold } h1.ctl { font-family: "Times New Roman"; font-size: 14pt; font-weight: bold } h2 { margin-top: 0in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #000000; line-height: 115%; text-align: right; page-break-inside: auto; orphans: 0; widows: 0; background: transparent; page-break-after: auto } h2.western { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", serif; font-size: 14pt; font-weight: bold } h2.cjk { font-family: "Times New Roman"; font-size: 14pt; font-weight: bold } h2.ctl { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14pt; so-language: ur-PK; font-weight: bold } h4 { margin-top: 0in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #000000; line-height: 80%; text-align: right; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } h4.western { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", serif; font-size: 12pt } h4.cjk { font-family: ; font-size: 12pt } h4.ctl { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12pt; so-language: ur-PK } p.sdfootnote-western { margin-left: 0.2in; text-indent: -0.2in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #000000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", serif; font-size: 13pt; so-language: x-none; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.sdfootnote-cjk { margin-left: 0.2in; text-indent: -0.2in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #000000; font-family: "Times New Roman"; font-size: 13pt; so-language: x-none; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.sdfootnote-ctl { margin-left: 0.2in; text-indent: -0.2in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #000000; font-family: "Times New Roman"; font-size: 13pt; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } h2.????-20 { font-size: 20pt; page-break-after: avoid } a:link { color: #0563c1; text-decoration: underline } a.sdfootnoteanc { font-size: 57% }

کتب علوم الحدیث میں امثال فقہیہ پر اختلاف مسالک کے اثرات؛ ایک تحقیقی جائزہ )102(

کتب علوم الحدیث میں امثال فقہیہ پر اختلاف مسالک کے اثرات؛ ایک تحقیقی جائزہ

The effects of differences of Masalik on the Jurisprudential proverbs stated in the books of hadith studies

Muhammad Ata-ul-Mustafa

Dr. Hafiz Masood Qāsim

The foundation of the Sharia is revelation, revelation is the name of two things, the Qur'an and the Sunnah, since both are related to the news, and to convey the news to others, narrators are needed, so for the propagation of the Qur'an and the Sunnah to future generations. It was necessary to have narrators, the narrators of the Holy Qur'an are called Qira, the narrators of the Sunnah are called Muhaddith, the traditions of the Holy Qur'an are called 'Qara'at' and the traditions of the Sunnah are called 'Ahadith'.

Both the Qur'an and the Sunnah are revelations, but still there are some differences between them which are explained in detail in the Book of Principles. It was a difficult task, and the significant efforts made by the Muhadditheen in this regard were more famous and campaigned than the knowledge of al-Qaraat and recitation. He became famous with this, and some people even got the wrong impression that he had nothing to do with jurisprudence, and this wrong impression was reinforced by the behavior of the some Narrators.

In reasoning and deriving from the Sunnah, there were many disorders and factors that gave birth to different schools of jurisprudence. For example, a hadith revealed to an imam or a jurist during reasoning has a hidden reason that is not revealed to anyone else. Therefore, there is a difference in argumentation. Similarly, sometimes the hadeeth is correct in a certain issue in front of a jurist, while on the other hand, it is weak in the opinion of another, which leads to diversity in argumentation.

When the jurists differed in the derivation of the issues and rulings, in fact, these are cases of priority and non-priority, in which there is, however, scope that any position can be declared preferred based on arguments.

Keywords: Hadith, Muhaddithin, Jurisprudential Proverbs, School of Thoughts, Differences.

تعارف:

شریعت کی بنیاد وحی ہے ، وحی دو چیزوں کا نام ہے ، قرآن اور سنت ، چونکہ دو نوں کا تعلق خبر سے ہے ، اور خبر دوسرے تک پہنچانے کے لیے ناقلین کی ضرورت ہوتی ہے ، اس لیے قرآن وسنت کی آئندہ نسلوں تک تبلیغ کے لیے ناقلین یعنی راویوں کا ہونا ضروری تھا ، قرآن مجید کے راوی قراء کہلائے ، سنت کے راوی محدثین کہلائے ، قرآن مجید کی روایات ’ قرأت ‘ اور سنت کی روایات ’ احادیث ‘ کہلائیں ۔

قرآن وسنت دونوں وحی ہیں ، لیکن پھر بھی ان میں کچھ فروق ہیں جو کتب اصول میں شرح و بسط سے بیان کیے گئے ہیں ، ان فروق کی وجہ سے سنت کی روایات یعنی احادیث کی حفاظت پر زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت تھی ، کیونکہ یہ نسبتا مشکل کام تھا ، اور محدثین نے اس سلسلے میں جو نمایاں جہود سر انجام دیں ، وہ بھی علم القرأت اور قراء کی نسبت زیادہ مشہور اور مہم گردانی گئیں ، حفظ سنت کے فریضے کی ادائیگی کو محدثین نے اس جانفشانی اور تندہی سے سرا نجام دیا کہ وہ اسی کے ساتھ مشہور ہوگئے ، اور بعض لوگوں کو یہاں تک غلط فہمی ہوئی کہ شاید فقہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ، اور اس غلط تاثر کو تقویت چندراویوں کے طرز عمل سے بھی ملی ۔

سنت سے استدلال واستنباط میں کئی عوارض اور عوامل ایسے پیش آئے جن سے مختلف مذاہبِ فقہیہ کو وجود ملا۔مثال کے طور پر ایک امام یا فقیہ کے ہاں دورانِ استدلال سامنے آنے والی حدیث میں کوئی مخفی سبب ہوتا ہےجو کسی دوسرے کے سامنے نہیں ہوتا۔لہٰذااستدلال میں اختلاف آجاتا ہے۔اسی طرح بسااوقات کسی فقیہ کے سامنے کسی خاص مسئلہ میں حدیث صحیح ہوتی ہے جبکہ اس کے بالمقابل دوسرے کے پاس ضعیف،جس سےاستدلال میں تنوّع آجاتا ہے۔ مسائل واحکام کے استنباط میں فقہاء نے جب اختلاف کیا تو درحقیقت یہ ترجیح وعدمِ ترجیح کی صورتیں ہیں،جن میں بہرحال گنجائش موجود ہے کہ دلائل کی بنیاد پر کوئی بھی موقف راجح قرار دیا جاسکتا ہے۔

علوم الحدیث کی کتب میں بیان کردہ امثال فقہیہ کے تناظر میں مختلف شرعی مسائل کے اندر فقہاء کے مابین اختلاف بعض اوقات احادیث کے عدم ہونے یا غیر عدم ہونے کی بناء پر بھی پایا جاتا ہے۔بعض اوقات احادیث میں تعارض آجاتا ہے یا مشترک المعنی الفاظ آجاتے ہیں تو ان الفاظ کی تشریحات میں اور اس تعارض کو ختم کرنے کی تشریحات میں فقہاء کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس مقالہ میں کتب حدیث میں سے فقہی امثال کو بیان کیا گیا ہے ،اور حدیث کے ضمن میں مثالیں بھی دی گئی ہیں ۔ ان میں احناف ، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کی بھی مثالیں دیں ہیں اور اس کی وضاحت کے لئے دلائل بھی پیش کئے گئے ہیں ۔فقہی مباحث کو جمع کر کے ان کا تجزیہ کیا ہے۔ایک مسئلہ پر حدیث کو بیان کر کے اسی کے مطابق احناف ، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کے دلائل کی حدیثوں کو نقل کر کے اس میں سے مسئلے کا استنباط کیا ہے ۔ اور آخر میں تمام مسالک کے راجع قول کو بیان کیا ہے ۔

مقالہ ہذا میں کتب حدیث میں وارد امثال فقہیہ (بدنی عبادتیں ، یتیم کے مال میں زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں اس میں اہل علم کی رائے ، جمع بین الصلوتین کا فقہا ء کے نزدیک حکم)کی بناپر اختلاف مسالک کے اثرات کو بیا ن کیا جائے گا۔

خبر واحد کے رد و قبول کے ذیل میں بیان ہونے والی امثال فقیہ

مثال نمبر 1:کتاب قواعد التحدیث

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوْسیَ بْنِ اَعْیَنَ قَّالَ حَدَّثَنَا اَبِیْ عَنْ عَمْرِ و بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عُبِیْدِ اللہِ بْنِ اَبِیْ جَعْفَرٍ اَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرٍ حَدَّثَہٗ عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْھَا اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ مَّاتَ وَعَلَیْ صِیْامٌ عَنْہُ وَلِیُّہٗ تَابَعَہٗ ابْنُ وَھْبٍ عَنْ عَمْرٍو وَرَوَاہُ یَحْيَ بْنُ اَیُّوبَ، عَنِ ابْنِ اَبِیْ جَعْفَرٍ)1(

امام بخاری روایت کرتے ہیں: کہ ہمیں محمد بن خالد نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا: ہمیں محمد بن موسیٰ بن اعین نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں میرے والد نے حدیث بیان کی از عمر و بن الحارث از عبید اللہ بن ابی جعفر کہ محمد بن جعفر نے ان کو حدیث بیان کی ازعروہ از حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص فوت ہوگیا اور اس کے ذمہ روزے تھے تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے۔ محمد بن موسیٰ کے والد کی متابعت ابن وہب نے کی ہے از عمرو اور اس حدیث کو یحيٰ بن ایوب نے ازابن ابی جعفر روایت کیا ہے۔

حدیث مذکور کے رجال

محمد بن خالد، کے متعلق اختلاف ہے ابو نصر اور حاکم نے کہا: یہ خلی ہیں اور اپنے دادا کی طرف منسوب ہیں کیونکہ ان کا نام محمد بن یحٰي بن عبداللہ بن خالد ہے اور ابن عدی نے شیوخ بخاری میں بیان کیا ہے کہ یہ محمد بن خالد بن جبلہ الرافعی ہیں اور رافع یہ ہے کہ محمد بن عبداللہ بن خالد بن خلی ہیں ، امام بخاری ان کو ان کے والد کی طرف منسوب کیا۔ (2) محمد بن موسیٰ بن اعین ابویحٰي الجزری (3) ان کے والد موسیٰ بن اعین الجزری ابوسعید ہیں یہ 195 یا 197 میں فوت ہوگئے تھے (4) عمرو بن حارث بن یعقوب انصاری ابوامیہ مؤدب (5) عبداللہ بن ابی جعفر یسار اموی قرشی (6) محمد بن جعفر بن زید بن عوام (7) عروہ بن زبیر (8) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کی سند میں آٹھ رجال ہیں اور اس کی نظیر صحیح البخاری میں بہت کم ہے۔)2(

اس حدیث کی عنوان کے ساتھ مطابقت اس جملہ میں ہے جو شخص اس حال میں فوت ہوگیا کہ اس کے ذمہ روزے تھے تواس کا ولی اس کی طرف روزے رکھےگا۔

میت کے قضاء روزوں کے متعلق اختلاف مسالک کے اثرات:

علامہ ابوالحسن علی بن خلف ابن بطال مالکی قرطبی متوفی (449ھ) لکھتے ہیں:

علماء کا اس شخص کے متعلق اختلاف ہے جو رمضان کے مہینہ میں فوت ہوگیا اور اس کے ذمہ رمضان کے روزے تھے ایک جماعت نے کہا کہ اس کی طرف سے روزے رکھنا جائز ہے یہ طاؤس ، حسن بصری ،زہری اور قتادہ کا قول ہے ابو ثور اور اہل ظاہر کا بھی یہی مذہب ہے اور انہوں نے صحیح بخاری کی مذکور الصدر حدیث سے استدلال کیا ہے۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کہا ہے کہ نذر کے روزے میت کی طرف سے اس کا ولی رکھے گا ، اور رمضان کے قضاء روزوں میں میت کی طرف سے کھانا کھلائے گا۔

حضرت ابن عمر ، حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ کہا ہے کہ کوئی شخص کسی کی طرف سے روزہ نہیں رکھے گا، یہ امام مالک، امام شافعی اور امام حنیفہ کا مذہب ہے ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رمضان کے قضاءرزوں میں میت کی طرف سے کھانا کھلایا جائے گا اور اس کی طرف سے روزے نہیں رکھے جائیں گے۔

علامہ ابن القصار نے کہا ہے کہ صحیح بخاری کی اس حدیث میں جو مذکور ہے کہ میت کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا، اس کی تاویل یہ ہے کہ وہ اس کی طرف سے کھانا کھلائے گا اور اس کاکھانا کھلانا اس کی طرف سے روزے رکھنے کے قائم مقام ہے اور جب اس نے اس کی طرف سے کھانا کھلایا یعنی ہر روزے کے عوض دو کلو گندم یا چار کلو کھجور دے دیں تو گویا میت کے ولی نے اس کی طرف سے روزے رکھ لیے۔

علامہ المہلب مالکی متوفی(435ھ )نے کہا ہے کہ اگر میت کی طرف سے کوئی بدنی عمل کرنا جائز ہوتا تو لوگ میت کی طرف سے نماز پڑھ لیتے اور اس کی طرف سے ایامن لے آتے اور اگر یہ جائز ہوتا تو رسول اللہﷺ تمام لوگوں سے زیادہ اس پر حریص تھے کہ وہ اپنے چچا ابو طالب کی طرف سے ایمان لے آتے کیونکہ آپ کو ان کے ایمان کی بہت خواہش تھی ، اور ایمان لانا قلب کا عمل ہے اور قلب بھی بدن کے اعضاء میں سے ایک عضو ہے، حالانکہ تمام اُمت کا اس پر اجماع ہے کہ کسی شخص کا دوسرے کی طرف سے ایمان لانا جائز ہے نہ کسی شخص کا دوسرے کی طرف نماز پڑھنا جائز ہے ، سو اسی طرح کسی شخص کا دوسرے کی طرف سے روزہ رکھنا بھی جائز نہیں ہے۔

میں کہتا ہوں کہ علامہ مہلب کو اپنی دلیل میں رسول اللہﷺ کا ذکر نہیں کرنا چاہیے تھا کیونک یہ ایک نوع کی بے ادبی ہے۔ علامہ ابن القصار مالکی کہتے ہیں کہ جب بہت بوڑھے شخص کی زندگی میں اس طرف سے روزہ نہیں رکھا جاتا بلکہ اس کی طرف سے روزہ کا فدیہ دیا جاتا ہے تو اس کی موت کے بعد تو یہ زیادہ لائق ہے کہ اس کی طرف سے روزہ نہ رکھا جائے بلکہ فدیہ دیا جائے۔

فقہاء احناف ، امام شافعی ، امام احمد ، اسحاق اور ابو ثور کا یہ مذ ہب ہے کہ میت نے خواہ وصیت نہ کی ہو، پھر بھی اس کے مال سے روزوں کا فدیہ دیا جائے مگر امام ابو حنیفہ نے یہ کہا ہے کہ اس کی موت سے یہ حکم ساقط ہوگیا، اور امام مالک نے یہ کہا ہے کہ میت کی طرف سے اس کے وارثوں کے اوپر کھانا کھلانا واجب نہیں ہے، سوا اس صورت کے کہ اس نے وصیت کی ہو تو پھر میت کے تہائی مال سے اس کے روزوں کے عوض کھانا کھلایا جائے۔

اس پر جن فقہاء نے یہ کہا ہے کہ میت کی طرف سے کھانا کھلانا واجب ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے قضاء روزوں کو قرض کے مشابہ قرار دیا ہے اور ہم یہ کہتے ہیں کہ ان روزوں کی قضاء یہ ہے کہ ہر روزہ کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔(3)

میت کے قضاء روزوں کے متعلق فقہاء احناف کا مسلک

علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی(۸۵۵ھ) لکھتے ہیں:

اس مسئلہ میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر میت نے وصیت کی تھی کہ اس سے جوروزے قضاء ہوگئے ہیں، ان کی طرف سے کھانا کھلایا جائے تو ہر روزے کے عوض 4 کلو کھجوریں یا کشمش یا دو کلو گندم مسکین کو دئیے جائیں اور اگر میت نے وصیت نہیں کی تھی تو پرپھر ورثاء پر کچھ لازم نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارا استدلال درج ذیل احادیث سے ہے:

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :

" جو شخص فوت ہوگیا اور اس پر ایک ماہ کے روزے ہوں تو اس کے ہر روزے کے عوض ایک دن ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے " (4)

اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد امام ترمذی لکھتے ہیں:

اس باب میں اہل علم کا اختلاف ہے بعض علماء نے کہا ہے کہ میت کی طرف سے روزے رکھے جائیں گے امام احمد اور اسحاق نے یہ کہا ہے کہ جب میت پر نذر کے روزے ہوں تو اس کی طرف روزے رکھے جائیں گے اور جب اس پر قضاء رمضان کے روزے ہوں تو اس کی طرف سے کھانا کھلایا جائے گا، امام مالک سفیان اور امام شافعی نے کہا ہے کہ" کوئی شخص کسی کی طرف سے روزہ نہیں رکھے گا"۔ (5)

امام مالک روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا جاتا کہ آیا کوئی شخص کسی کی طرف سے روزہ رکھ سکتا ہے یا کوئی شخص کسی طرف سے نماز پڑھ سکتا ہے؟ تو وہ کہتے تھے کہ کوئی شخص کسی طرف سے روزہ نہ رکھے اور نہ کوئی شخص کسی کی طرف سے نماز پڑھے۔(6)

میت کے قضاء روزوں کے متعلق متأخرین کا مسلک

شیخ وحید الزمان متوفی(1328ھ) صحیح بخاری کی زیر بحث حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

متأخرین کا مذہب باب کی حدیث پر ہے کہ اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے اور شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے۔ امام شافعی سے بیہقی نے بہ سند صحیح روایت کیا ہے کہ جب کوئی صحیح حدیث میرے قول کے خلاف مل جائے تو اس پر عمل کرو اور میری تقلید نہ کرو، امام مالک اور امام ابوحنیفہ نے اس حدیث صحیح کے برخلاف یہ اختیار کیا ہے کہ کوئی کسی کی طرف سے روزہ نہیں رکھ سکتا ۔(7)

میت کی طرف سے قضاء روزے رکھنے کے خلاف حافظ ابن حجر عسقلانی کے دلائل

حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی(۸۵۲ھ) لکھتے ہیں:

اس باب کی حدیث کا علامہ ماوردی نے یہ جواب دیا ہے کہ میت کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے ، اس کا معنی یہ ہے کہ وہ ایسافعل کرے جو روزے کے قائم مقام ہے یعنی کھانا کھلائے، اس کی نظیر یہ حدیث ہے کہ جب مسلمان کو پانی نہ ملے تو مٹی مسلمان کا وضوء ہے اس حدیث میں بدل (مٹی) کو مبدل منہ (وضوء) کا نام دیا گیا ہے اور فقہاء احناف نے ان احادیث سے استدلال کیا ہے:

حضر ت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے سوال کیا گیا کہ ایک عورت مرگئی ہے اور اس پر روزے تھے، حضرت عائشہ نے فرمایا :

"اس کی طرف سے طعام کھلایا جائے گا"(8)

نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :

"اپنے مُردوں کی طرف سے روزے نہ رکھو اور ان کی طرف سے کھانا کھلاؤ"(9)

سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ :

"جو شخص رمضان میں بیمار ہوگیا اور اس نے روزے نہیں رکھے حتیٰ کہ وہ فوت ہوگیا تو اس کی طرف سے ہر روز دو کلو گندم کھلائی جائے گی"10

عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

"کوئی شخص کسی طرف سے نماز نہ پڑھے اور نہ کوئی شخص کسی کی طرف سے روزہ رکھے لیکن اس کے ہر روزہ کے عوض ایک دن دو کلو گندم کھلائی جائے گی"(11)

حضرت عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی روایات میں تعارض کے جوابات

حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم کی صحیح بخاری میں روایات یہ ہیں کہ میت کی طرف سے روزے رکھے جائیں اور ان کے مذکورہ فتاویٰ یہ ہیں کہ میت کی طرف سے روزے نہ رکھے جائیں اور جب راوی کی روایت اور اس کے فتویٰ میں تعارض ہو تو اس کے فتویٰ پر عمل کیا جاتا ہے کیونکہ ہوسکتا ہے جو روایت اس کی طرف منسوب ہے وہ صحیح نہ ہو یا وہ روایت اس کے نزدیک منسوخ ہوچکی ہو، نیز جو روایات ان کی طرف منسوب ہیں، ان میں میت کی طرف سے روزہ رکھنے کا جواز ہے اور جو اُن کےفتاویٰ ہیں ان میں میت کی طرف سے روزے رکھنے کی ممانعت ہے اور جب کوئی حدیث یا قول حلت اور حرمت میں متعارض ہو تو حرمت کو ترجیح دی جاتی ہے لہٰذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ کو ترجیح دی جائے گی نہ کہ ان کی روایات کوترجیح دی جائے گی۔

صحیح بخاری کے باب مذکور کی حدیث مذکور کے ضعف پر فنّی اور فقہی دلائل

امام بخاری کی روایت مذکورہ جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے :میت کی طرف سے روزے رکھے جائیں اس کے متعلق حافظ بدرالدین محمودبن احمد عینی متوفی(855ھ) لکھتے ہیں:

اس حدیث کا جواب یہ ہے کہ مھنئ نے کہا: میں نے امام احمد بن حنبل سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کے متعلق سوال کیا کہ جو شخص مر گیا اور اس پر روزے ہوں۔ تو امام ابو عبداللہ احمد بن حنبل نے کہا: یہ حدیث محفوظ نہیں ہے، اس حدیث کی سند میں عبداللہ بن ابی جعفر ہے اور وہ منکر الاحادیث ہے اور وہ فقیہ تھا جبکہ حدیث میں وہ اس پائے کا نہیں ہے، اور امام بیہقی نے کہا: میں نے اپنے بعض اصحاب کو دیکھاوہ حضرت عائشہ کی اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے تھے کیونکہ عمارہ بن عمیر نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ ایک عورت فوت ہوگئی اور اس پر روزے تھے تو حضرت عائشہ نے فرمایا: اس کی طرف سے کھانا کھلایا جائے گا اور ایک اور سند کے ساتھ حضرت عائشہ سے مروی ہے : اپنے مردوں کی طرف سے روزے نہ رکھو اور ان کی طرف سے کھانا کھلاؤ پھر امام بیہقی نے کہا: ان دونوں حدیثوں میں نظر ہے اور اس عبارت پر کوئی اضافہ نہیں کیا ۔

علامہ عینی فرماتے ہیں کہ امام طحاوی نے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے عمرہ بن عبدالرحمٰن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ میری ماں فوت ہوگئی اور اس پر رمضان کے روزے تھے کیا یہ صحیح ہے کہ میں ان کی طرف سے رمضان کے روزے رکھوں؟ انہوں نے کہا: نہیں! لیکن تم ان کی طرف سے ہر روزے کے عوض ایک مسکین پر صدقہ کرو تو یہ تمہارے روزے رکھنے سے بہتر ہے ۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

فقہاء احناف کے مؤقف پر مزید احادیث اور آثار

امام عبدالرزاق اپنی سند کے ساتھ حضرت عبادہ بن نسی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

"جو شخص رمضان میں بیمار ہوگیا، پھر وہ بیمار ہی رہا حتٰی کہ وہ فوت ہوگیا اس کی طرف سے کھانا نہیں کھلایا جائے گا اور اگر وہ تندرست ہوگیا اور اس نے روزوں کی قضاء نہیں کی حتٰی کہ وہ فوت ہوگیا تو اس کی طرف سے کھانا کھلایا جائے گا"(12)

ابن طاؤس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا:

"جب کوئی شخص رمضان میں بیمار ہوگیا، پھر وہ مسلسل بیمار رہا حتیٰ کہ وہ مر گیا تو اس کی طرف سے ہر روزہ کے عوض دو کلو گندم کھلائی جائے گی۔(13)

امام عبدالرزاق نے ازمعمر ازقتادہ روایت کی ہے میت کی طرف طعام کھلایا جائے گا۔(14)

ابن التمیمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نےابن سیرین سے طاؤس کا قول ذکرکیا تو انہوں نے اس کو بہت پسند کیا۔

ابن جریج بیان کرتے ہیں کہ میں نےعطاء سے پوچھا :

" ایک شخص پورا رمضان بیمار رہا ، پھر تندرست ہوگیا ابھی اس نے قضاء روزے نہیں رکھے تھے حتٰی کہ وہ فوت ہوگیا انہوں نے کہا: اس کی طرف سے تیس مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے گا، ہر ایک کو ایک کلو ، میں نے پوچھا: ایک آدمی پورے رمضان میں بیمارہا ، پھر تندرست ہوگیا، اس نے قضاء روزے نہیں رکھے تھے حتیٰ کہ دوسرا رمضان آگیا، پھر وہ اس رمضان میں یا اس کے بعد فوت ہوگیا انہوں نے کہا: اس کی طرف سے ساٹھ مسکینوں کو ساٹھ کلو کھانا کھلایا جائے گا۔)15(

معمر بیان کرتے ہیں کہ قتادہ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص پورا رمضان بیمار رہا ، پھر تندرست ہوگیا، اس نے قضاء روزے نہیں رکھے تھے ، حتٰی کہ دوسرا رمضان آگیا وہ اس رمضان میں یا اس کے بعد فوت ہوگیا انہوں نے کہا: اس کی طرف سے پہلے رمضان کے ہر روزے کے عوض دو مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے گا۔

معمر بیان کرتے ہیں کہ ابن جریج اور عطاء نے کہا:

"میت کی طرف سے (ہر روزہ کے عوض) ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے گا")16(

محمد بن عبدالرحمٰن بن ثوبان انصاری بیان کرتےہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص فوت ہوگیا اور اس کے اوپر رمضان کے روزے تھے اور اس پر دوسرے مہینہ کے نذر کے روزےبھی تھے، انہوں نے کہا:

"اس کی طرف سے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے گا")17(

تجزیہ

فقہاء کا اس پر اجماع ہے کہ کوئی شخص دوسرے کی طرف سے نماز نہیں پڑھ سکتا، پس اسی طرح روزوں کا حکم ہونا چاہیے کیونکہ یہ دونوں بدنی عبادتیں ہیں اور علامہ ابن القصار مالکی نے کہا ہے کہ جب کسی بوڑھے شخص کی طرف سے اس کی زندگی میں روزے رکھنا جائز نہیں ہیں بلکہ اس کی طرف سے فدیہ دیا جاتا ہے تو اس کے مرنے کے بعد اس کی طرف سے روزے رکھنا کیوں کر جائز ہوگا۔لہٰذا کھانا کھلانے کے عمل کو ترجیح حاصل ہے اور وہی نافذ العمل ہے۔

مثال نمبر 2:کتاب قواعد التحدیث

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّھْرِیّ عَنْ سَالِمٍ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ اَبٌیْہِ عَنِ النّبِّیِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِذَا اسْتَاْذَنَتِ امْرَاۃُ اَحَدِکُمْ فَلَا یَمْنَعْھَا۔)18(

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

"ہمیں مسدد نے حدیث بیان کی انہوں نے بیان کیا کہ ہمیں یزید بن زریع نے حدیث بیان کی از معمر الزہری از سالم بن عبداللہ از والد خود رضی اللہ عنہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کی بیوی اجازت طلب کرے تووہ اس کو منع نہ کرے"

خواتین کے مسجد میں جانے کے متعلق فقہاء مالکیہ کا مسلک

علامہ ابوالحسن علی بن خلف ابن بطال مالکی قرطبی متوفی(446ھ)لکھتے ہیں:

عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے خاوند یا سرپرست کی اجازت کے بغیر مسجد میں جائے اور خاوند کو چاہیے کہ وہ عورت کو مسجد میں نماز پڑھنے کےلیے جانے سے اور جس کام میں اس کی دینی منفعت ہو، اس سے اس کو منع نہ کرے۔ یہ اس صورت میں محمول ہے جب عورت پر فتنہ کا خطرہ نہ ہو اور اس زمانہ کے حالات میں فتنہ اور فساد کا غلبہ ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب فتنہ اور فساد کا غلبہ ہو تو خواتین کو مسجد کی طرف نہیں جانا چاہیے۔

اس حدیث میں جو عورتوں کے مسجد میں جانے کا ذکر ہے امام مالک کے نزدیک اس سے مراد بوڑھی عورتیں ہیں، اشہب نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ بوڑھی عورتیں مسجد میں جائیں لیکن بہ کثرت آنا جانا نہ رکھیں اور جوان عورتیں ایک دو مرتبہ چلی جائیں اور وہ اپنے گھر والوں کی نماز جنازہ پڑھنے کےلیے جاسکتی ہیں۔

امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ نے کہا: میں عورتوں کے نمازِ جمعہ اور فرض نمازوں کےلیے مسجد میں جانے کو مکروہ قرار دیتا ہوں اور بوڑھی عورتوں کےلیے فجر اور عشاء کی نماز پڑھنے کےلیے مسجد میں جانے کی اجازت دیتا ہوں اس کے علاوہ نہیں ۔

امام ابویوسف نے کہا: بوڑھی عورتوں کےلیے نمازوں کےلیے مسجد میں جانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور جوان عورت کے نکلنے کو مکروہ قرار دیتا ہوں ، الثوری نے کہا: عورت خواہ بوڑھی ہو، اس کے گھر سے نکلنے میں کوئی خیر نہیں ہے، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا :عورت چھپائی جانے والی چیز ہے اللہ کے نزدیک اس کی مقرب نماز گھر کی کوٹھڑی میں ہے، جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کو جھانک کر دیکھتا ہے۔

ابراہیم النخفی اپنے گھر کی خواتین کے جمعہ اور جماعت کےلیے مسجد میں جانے کو مکروہ کہتے ہیں۔)19(

خواتین کے مسجد میں جانے کے متعلق فقہاء حنبلیہ کا مسلک

علامہ زین الدین بن شہاب الدین ابن رجب حنبلی متوفی(795ھ) لکھتے ہیں:

مردوں کے ساتھ جماعت میں خواتین کے مسجد میں نماز پڑھنے کے مسئلہ میں فقہاء کا اختلاف ہے، بعض فقہاء نے اس کو ہر حال میں مکروہ کہا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی یہی مؤقف ہے۔

امام احمد بن حنبل نے کہا: میں اس زمانہ میں عورتوں کے نکلنے کو مکروہ کہتا ہوں کیونکہ وہ فتنہ اور آزمائش ہیں۔

امام ابوحنیفہ سے ایک روایت یہ ہے کہ وہ عیدین کے سوا گھروں سے نہ نکلیں۔

بعض فقہاء نے بوڑھی عورتوں کو نکلنے کی اجازت دی ہے اور جوان عورتوں کو منع کیا ہے، یہ امام کا قول ہے اور ایک روایت کے مطابق امام شافعی ، امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے اور ہمارے اصحاب حنبلیہ کا بھی یہی قول ہے۔)20(

خواتین کے مسجد میں جانے کے متعلق فقہاء شافعیہ کا مسلک

علامہ یحيٰ بن شرف نووی شافعی متوفی(676ھ) لکھتے ہیں:

عورتوں پر جماعت فرض نہیں ہے فرض عین نہ فرض کفایہ لیکن ان کےلیے جماعت سے نماز پڑھنا مستحب ہے، پھر اس میں دو صورتیں ہیں، ان کے حق میں مردوں کی طرح جماعت سے نماز پڑھنا مستحب ہے اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ ان کے حق میں مردوں کی طرح جماعت سے نماز پڑھنا مؤکد نہیں ہے، اس لیے ان کا جماعت ترک کرنا مکروہ نہیں ہے اور مردوں کے حق میں جماعت کو ترک کرنا مکروہ ہے اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ ان کے حق میں جماعت سے نماز پڑھنا سنت ہے اور گھروں میں ان کا جماعت سے نماز پڑھنا افضل ہے اور اگر مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا ارادہ کریں تو جوان عورتوں کےلیے مکروہ ہے اور بوڑھی عورتوں کے لیے مکروہ نہیں ہے۔ )21(

خواتین کے مسجد میں جانے کے متعلق فقہاء احناف کا مسلک

عورتوں کے حق میں جماعت سے نماز پڑھنے کےلیے مسجد میں حاضر ہونا مکروہ ہے اور شارحین نے کہا ہے کہ اس سے مراد ہے :" جو ان عورتوں کا جانا مکروہ ہے ، اس سے تمام جماعات مراد ہیں، خواہ جمعہ کی جماعت ہو، عید کی جماعت ہو، نماز کسوف کی جماعت ہو یا نماز استسقاء کی جماعت ہو۔ امام شافعی نے کہا ہے کہ ان کا گھر سے نکلنا مباح ہے، ہمارے اصحاب نے کہاہے کہ ان کے گھر سے نکلنے میں فتنہ کا خوف ہے اور حرام کا سبب ہے اور جو حرام کا سبب ہو وہ حرام ہے اور خاص طور پر اس زمانہ میں جب کہ فساد اور بے راہ روی عام ہوچکی ہے ، صاحب ھدایہ نے کہا ہے کہ بوڑھی عورت فجر ، مغرب اور عشاء میں گھر سے نکلے تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس وقت امن ہوتا ہے یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مؤقف ہے اور امام ابویوسف اور امام محمد نے یہ کہا ہے کہ بوڑھی عورت تمام نمازوں کےلیے گھر سے نکلے کیونکہ اس کی طرف رغبت کم ہوتی ہے ، اورحسن بن زیاد نے امام ابوحنیفہ سے ایک یہ روایت بیان کی ہے کہ خواتین نماز کےلیے گھر سے نکلیں اور آخری صفوں میں کھڑی ہوں اور مردوں کے ساتھ نماز پڑھیں کیونکہ وہ جماعت کی اہل ہیں اور مردوں کی تابع ہیں اور امام ابوسف نے امام ابوحنیفہ سے یہ روایت بیان کی ہے کہ خواتین نمازیوں کی تعداد میں اضافہ کےلیے مسجد میں آئیں اور مسجد کےایک کونے میں کھڑی ہوں اور نماز نہ پڑھیں کیونکہ نبی ﷺ نے حائضہ عورتوں کو اسی طرح کا حکم دیا ہے (یعنی نماز نہ پڑھنے کا )کیونکہ وہ نماز کی اہل نہیں ہیں")22(

تجزیہ

خواتین نماز کےلے گھر سے نکلیں اور آخری صفوں میں کھڑی ہوں اور مردوں کے ساتھ نماز پڑھیں کیونکہ وہ جماعت کی اہل ہیں اور مردوں کی تابع ہیں اور امام ابوسف نے امام ابوحنیفہ سے یہ بھی یہی منقول ہے کہ خواتین نمازیوں کی تعداد میں اضافہ کےلیے مسجد میں آئیں اور مسجد کےایک کونے میں کھڑی ہوں اور نماز نہ پڑھیں کیونکہ نبی ﷺ نے حائضہ عورتوں کو اسی طرح کا حکم دیا ہے۔ جبکہ مالکی جواز کے قائل ہیں ، جبکہ شوافع کے نزدیک عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔

مثال نمبر 3:کتاب دراسات فی اصول الحدیث

حَدَّثَنَا اَبُوْ عَاصِمِ الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ صَیْفیِ عَنْ زَکَرِیَّاءَ اِسْحَاقَ عَنْ یَحْیَ ابْنِ عَادِ اللہِ بْنَ صَیْفِی عَنْ اَبِی مَعْبَدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ تَعْالیٰ عَنْھُمَا اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ بَعَثَ مُعَاذًا رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ اِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ اُدْعُھُمْ اِلیٰ شَھَادَۃِ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنِیْ رَسُوْلُ اللہِ فَاِنْھُمْ اَطَاعُوْ لِذٰلِکَ فَاَعْلِمْھُمْ اَنَّ اللہَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَّ لَیْلَۃٍ فَاِنْ ھُمْ طَاعُوْ الِذٰلِکَ فَاَعْلِمْھُمْ اَنَّ اللہَ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَۃً فِیْ اَمْوَالِھِمْ تُوْ خَذُ مِنْ اَغْنِیَا نِھِمْ وَتُردُّ عَلیٰ لُقرَائھِمِ(23

امام بخاری روایت کرتے ہیں: ہمیں ابو عاصم الضحاک بن مخلد نے حدیث بیان کی از زکریا بن اسحاق از یحيٰ بن عبداللہ بن صیفی از ابی معبد از حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وہ بیان کرتے ہیں کہ بنیﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا پس فرمایا: ان کو دعوت دو کہ وہ یہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں اور بے شک میں اللہ کا رسول ہوں، پس اگر وہ اس کی اطاعت کرلیں تو پھر ان کو یہ خبر دو کہ اللہ نے ان پر ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ، پس اگر وہ اس کی اطاعت کرلیں تو پھر ان کو خبر دو کہ بے شک اللہ نے ان کے مالوں میں ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مال دار لوگوں سے لی جائے گی اور ان کے فقراء پر لوٹا دی جائے گی۔

یتیم کے مال سے زکوٰۃ کی ادائیگی ے متعلق اختلاف مسالک کے اثرات

حدیث مذکور کے رجال

(1) ابو عاصم الضحاک بن مخلد (2) زکریاء بن اسحاق (3) یحيٰ بن عبداللہ بن صیفی مولیٰ عثمان رضی اللہ عنہ (4)ابو سعید مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہ (5)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ۔(24)

اس حدیث کی باب کے ساتھ مطابق اس طرح ہے کہ اس حدیث میں زکوٰۃ کی فرضیت بیان کی گئی ہے۔

حضرت معاذ کو یمن بھیجنے کی تاریخ

اس حدیث میں مذکور ہے نبیﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا۔ جب نبیﷺ(9ھ) میں تبوک سے واپس آئے تو آپ نے حضرت معاذرضی اللہ عنہ کو اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کو یمن کی طرف بھیجا ، نبیﷺ نے ان کو یمن کا والی اور قاضی بنا کر بھیجا تھا۔ اس کو تاریخ میں ربیع الثانی(10ھ) اور ربیع الثانی(9ھ) کے بھی اقوال ہیں۔ (25)

اس حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا ہے: ان کے مال دار لوگوں سے زکوٰۃ لی جائے گی اور ان کے فقراء پر لوٹا دی جائے گی۔

علامہ ابو سلیمان احمد بن محمد الخطابی الشافع المتوفی(388ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

اس سے معلوم ہوا ہے کہ ایک شہر کی زکوٰۃ دوسرے شہر کی طرف منتقل نہ کی جاتی، جس شہر کے مال دار لوگوں سے زکوٰۃ و صول کی گئی ہے وہ اسی شہر کے فقراء پر خرچ کی جائے گی اور یہ امام شافعی کا مذہب ہے۔(26)

ہم کہتے ہیں کہ ”فقرائھم“ کی ضمیر اس شہر کے فقراء کی طرف راجع نہیں ہے بلکہ فقراء مسلمین کی طرف راجع ہے ، خواہ اس شہر کے فقراء ہوں یا کسی اور شہر کے فقراء ہوں۔

قرآن مجید میں میں مصارف زکوٰۃ میں مطلقاً فقراء کا ذکر فرمایا ہے اور یہ قید نہیں لگائی کہ ایک شہر کی زکوٰۃ کو اسی شہر کے فقراء پر صرف کیا جائے۔

آئمہ ثلاثہ کا یتیم کے مال میں زکوٰۃ کو واجب کرنا اور امام ابو حنیفہ کا اس کے مال سے وجوب زکوٰۃ کو ساقط کرنا

نیز علامہ خطابی شافعی متوفی(388ھ) لکھتے ہیں:

اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ نابالغ بچہ جب مال دار ہو تو اس کے مال میں زکوٰۃ واجب ہوگی جس طرح جب وہ بچہ فقیر ہو تو اس کےلیے زکوٰۃ کا لینا جائز ہے۔(27)

ازالمثنیٰ ابن الصباح از عمرو بن شعیب وہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتےہیں کہ نبیﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا، اس میں فرمایا: جو شخص ایسے یتیم کا والی ہو جس کا مال ہو وہ اس مال میں تجارت کرے اور اس کو ترک نہ کرے حتٰی کہ اس کو صدقہ کہاجائے ۔ امام ترمذی نے کہا: اس حدیث کی سند میں کلام ہے کیونکہ المثنیٰ بن الصباح حدیث میں ضعیف قرار دیا جاتا ہے۔)28(

امام ترمذی اس حدیث کی روایت میں منفرد ہیں۔

امام ترمذی متوفی(279ھ) اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

اہل علم کا اس باب میں اختلاف ہے نبیﷺ کے متعدد اصحاب نے کہا ہے کہ یتیم کے مال میں زکوٰۃ واجب ہے ان میں حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم ہیں، امام مالک ، اما م شافعی ، امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی مذہب ہے اور اہل علم کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ یتیم کے مال میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی، سفیان ثوری ، عبداللہ بن المبارک (اور امام ابوحنیفہ) کا یہی مذہب ہے۔

عمر و بن شعیب یہ محمد بن عبداللہ بن عمرو بن العاص کے بیٹے ہیں، شعیب نے اپنے دادا عبداللہ بن عمرو سے حدیث سنی ہے ، یحيٰ بن سعید نے عمر و بن شعیب کی حدیث میں کلام کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ہمارے نزدیک ضعیف ہے اور جس نے ان کی حدیث کو ضعیف کہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو کے صحیفہ سے حدیث کو روایت کرتے ہیں اور اکثر اہل علم عمرو بن شعیب کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں ان میں امام احمد اور اسحاق وغیرہ ہیں۔(29)

زکوٰۃ کا لغوی اور شرعی معنی زکوٰۃ کے وجوب کا سبب اور زکوٰۃ کی حکمتیں

زکوٰۃ کا لغت میں معنی ہے : بڑھنا کہا جاتا ہے : ”زکا الزرع“ کھیتی بڑھ گئی اور اس کا معنی پاکیزہ کرنا بھی ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى۔(30)

جس نے اپنے نفس کو پاکیزہ کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔

زکوٰۃ کا شرعی معنی ہے : جب نصاب کی مقدار پر ایک سال گزر جائے تو اس مال میں سے ایک حصہ غیر ہاشمی فقیر کو دے دیا جائے اگر سونا چاندی یا نقد روپیہ ہو تو اس میں چالیسواں حصہ دیا جائے ، سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی ہے اور نقد روپیہ جو چاندی کے نصاب کے برابر ہو، چونکہ چاندی کی قیمت بدلتی رہتی ہے ،اس لیے نقد روپیہ نصاب بھی بدلتا رہتا ہے۔

زکوٰۃ کے وجوب کا سبب نصاب کی مقدار کا مالک ہونا ہے اور وہ شخص عاقل ، بالغ اور آزاد ہو۔

زکوٰۃ کی حکمتیں یہ ہیں کہ مسلمان گناہوں کے میل سے اور بخل سے پاک ہوجاتا ہے اس کا آخرت میں درجہ قرب اللہ ہوتا ہے اور ضرورت مندوں کے ساتھ حسن سلوک ہوتا ہے۔(31)

تجزیہ

اہل علم کا اس باب میں اختلاف ہے نبیﷺ کے متعدد اصحاب نے کہا ہے کہ یتیم کے مال میں زکوٰۃ واجب ہے ان میں حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم ہیں، امام مالک ، اما م شافعی ، امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی مذہب ہے اور اہل علم کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ یتیم کے مال میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی، سفیان ثوری ، عبداللہ بن المبارک (اور امام ابوحنیفہ) کا یہی مذہب ہے۔

مثا ل نمبر 4:کتاب دراسات فی اصول الحدیث

وراث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں۔

اس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وارث کےلیے وصیت کرنا جائزہ نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوْسُفَ عَنْ وَّرْقَاء عَن ابْن اَبِیْ نَجِیْحٍ عَنْ عَطْاءٍعَنِ عَبَّا سِ رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْھُمَا قَالَ کَانَ الْمَالُ لِلْوَلَدِ وَکَانَتِ الْوَصَیَّۃُ لِلوَالِدَیْنِ فَنَسَخَ اللہُ مِنْ ذٰلِکَ مَا اَحَبَّ فَجَعَلَ لِلذَّکَرِ مِثْلَ حَظِّ الْاُنْئَبَیْنِ وَجَعَلَ لِلْاَ بَوْیْنِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مَنْھُمَا السُّدُسَ وَجَعَلَ لِلْمَرْاَۃِ الثُّمُنَ وَالرَّبُعَ وَلِلزَّوْجِ الشَّطْرَ وَالرُّبْعَ (32)

امام بخاری روایت کرتے ہیں: ہمیں محمد بن یوسف نے حدیث بیان کی از ورقاء از ابن ابی نجیح از عطاء از حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وہ بیان کرتے ہیں کہ مال اولاد کےلیے ہوتا تھا اور وصیت والدین کے لیے ہوتی تھی، پھر اس میں اللہ نے جو چاہا وہ منسوخ کردیا، پس مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصوں کے برابر کردیا ، اور ماں باپ میں سے ہر ایک کےلیے چھٹا حصہ کردیا اور بیوی کےلیے (اولاد ہو تو) چوتھائی حصہ کردیا۔

حدیث مذکور کے رجال

(1) محمد بن یوسف الفریابی (2) ورقاء بن عمر بن کلیب ابو بشر الیشکری ، یہ اصل میں خوارزم کے تھے، ایک قول یہ ہے کہ کوفہ کے تھے ، انہوں نے مدائن میں رہائش رکھی(3) عبداللہ بن ابی الجیح (4) عطاء ابن ابی رباح (5) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ۔(33)

اس حدیث میں مذکور ہے کہ والدین کےلیے وصیت منسوخ ہوگئی اور اس کے بدل ان کےلیے وراثت کا حصہ قرار کردیا گیا ، اس سے معلوم ہوا کہ جب والدین کو وراثت مل گئی پھر ان کےلیے وصیت جائز نہیں اور جب والدین کی وصیت جائز نہیں تو دیگر ورثاء کےلیے بہ طریق اولیٰ وصیت جائز نہیں ہے۔

ورثاء کی طرف وصیت کے جواز و عدم جواز میں اختلاف مسالک کے اثرات

علامہ ابوالحسن علی بن خلف ابن بطال مالکی متوفی(9 44ھ) لکھتے ہیں:

علماء کا اس پر اجماع ہے کہ وارث کےلیے وصیت جائز نہیں ہے، حضرت ابوا مامہ بابلی سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وارث کےلیے وصیت جائز نہیں ہے۔ الحدیث۔(34)

فقہاء کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ ورثاء کےلیے وصیت جائز ہے اور ان کےلیے اس میں رجوع کا حق نہیں ہے ، یہ عطاء حسن بصری ، ابن ابی لیلیٰ ، زہری ، ربیعہ اور اوزاعی کا قول ہے ، اور دوسری جماعت نے کہا ہے کہ وہ اگر چاہیں تو اس میں رجوع کرسکتے ہیں یہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، شریح حکم ، طاؤس ، ثوری، امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد اور ابو ثور کا قول ہے۔

امام مالک نے کہا ہے : جب ورثاء نے اس کی صحت کے زمانہ میں وصیت کی اجازت دے دی تووہ اس وصیت سے رجوع کر سکتے ہیں، اور اگر انہوں نے اس کے مرض میں وصیت کی اجازت دی ہے اور اس وقت کہ جب ان کو مال سے محجوب کیا جائے تو یہ جائز ہے اور یہ اسحاق کا قول ہے۔

پہلے قول کی دلیل یہ ہے کہ وصیت کی ممانعت دوسرے ورثاء کی وجہ سے تھی پس جب انہوں نے وصیت کی اجازت دے دی تو یہ وصیت جائز ہوگئی اس کی نظیر یہ ہے کہ ایک شخص پر کچھ لوگوں کا مال واجب ہو تو جب وہ لوگ اس کو قرض سےبری کردیں تو وہ بَری ہو جائے گا اور اس پر اتفاق ہے کہ جب کوئی شخص کسی اجنبی کےلیے تہائی مال سے زیادہ کرے اور ورثاء اس کی اجازت دے دیں تو یہ جائز ہے۔

جن لوگوں نے اس میں رجوع کو جائز قرار دیا ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ جس وقت انہوں نے اس وصیت کو جائز کہا تھا اس وقت وہ اس مال کے مالک نہیں تھے وہ اس مال کے مالک وصیت کرنے والے کی موت کے بعد ہوں گے اور کبھی وارث اس سے پہلے فوت ہوجاتا ہے اور وہ وارث نہیں ہوتا اور دوسرا وارث ہوجاتا ہے اور اس نے اجازت دی ہے، جس کا اس میں کوئی حق نہیں تھا، لہٰذا اس سے کوئی چیز لازم نہیں ہوگی۔

امام مالک کی دلیل یہ ہے کہ جب وصیت کرنے والا تندرست تھا تو وہ اپنے پورےمال کا حق دار تھا کہ اس میں جو چاہے کرے پس جب ورثاء نے اس کی صحت میں اجازت دے دی تو انہوں نے ایسی چیز کو ترک کردیا جو ان کےلیے واجب نہیں تھی اور جب انہوں نے اس کے مرض میں اجازت دی ہے تو انہوں نے اپنے حق کو ترک کردیا، اب ان کےلیے اس میں رجوع کرنا

جائز نہیں ہے۔(35)

تجزیہ

فقہاء کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ ورثاء کےلیے وصیت جائز ہے اور ان کےلیے اس میں رجوع کا حق نہیں ہے دوسری جماعت نے کہا ہے کہ وہ اگر چاہیں تو اس میں رجوع کرسکتے ہیں، اور زیادہ مناسب بات یہی ہے کہ رجو ع کیا جا سکتا ہے۔

مثال نمبر5:کتاب دراسات اصول الحدیث

ظہر کی نماز کو عصر تک مؤ خر کرنے میں اختلاف مسالک کے اثرات

اس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ظہر کی نماز کو اول وقت سے لیکر عصرکے وقت تک مؤخر کرنا جائز ہے اور اس یہ مراد نہیں ہے کہ دو نمازوں کو ملا کر ایک وقت میں پڑھا جائے۔

حَدَّثَنَااَبُو النُّعْمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ھُوَ ابْنُ زَیْدٍ عَنْ عَمْرِ و بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ صَلّٰی بِالْمَدِیْنَۃِ سَبْعاً وَثَمَانِیاً اَلظُّھْرَ وَالْعَصْرَ ، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءِ ، فَقَالَ اَیّْبُ لَعَلَّہٗ فِیْ لَیْلَۃٍ مَطِیْرَۃٍ؟ قَالَ عَسیٰ(36)

امام بخاری روایت کرتےہیں: ہمیں ابوالنعمان نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا: ہمیں حماد نے حدیث بیان کی اور وہ ابن زید ہے ، از عمرو بن دینار از جابر بن زید از حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہ رسول اللہﷺ نے مدینہ منورہ میں سات رکعات اور آٹھ رکعات نماز پڑھی ، ظہر اور عصر کی اور مغرب اور عشاء کی۔ا یوب نے کہا: شاید یہ بارش کی رات تھی؟انہوں نے کہا: یہ (بارش) متوقع تھی۔

دو نمازوں کو ملا کر پڑھنے کی کیفیت

اس حدیث کی باب کے عنوان کے ساتھ مطابقت اس جملہ میں ہے: رسول اللہﷺ نے مدینہ میں سات رکعات اور آٹھ رکعات نماز پڑھی، ظہر اور عصر کی اور مغرب اور عشاء کی یعنی آپ نے ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات نماز اس طرح پڑھی کہ ظہر کوعصر کے وقت تک مؤخر کیا اور عصر کی نماز کو اس کے ابتدائی وقت میں پڑھا پھر مغرب کی نماز کو عشاء کے وقت تک مؤخر کیا اور عشاء کو ابتدائی میں پڑھا اور اس طرح آپ نے صورۃ دونمازوں کو جمع کیا ، اور حقیقۃً جمع نہیں کیا کیونکہ ہر نماز اپنے وقت میں پڑھی۔

علامہ ابن بطال کے امام ابوحنیفہ پر دو مثل سائے اور ظہر اور عصر کے درمیان فاصلہ قرار دینے کے اعتراض۔

علامہ ابو الحسن علی بن خلف ابن بطال مالکی متوفی(449ھ) لکھتے ہیں:

امام مالک نے اس حدیث کی یہ تاویل کی ہے کہ ان نمازوں کو جمع کرنا بارش کے موقع پر تھا، جیسا کہ ایوب نے اس حدیث کی تاویل کی ہے اور یہی امام شافعی کا قول ہے اور اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ نماز کے اوقات مشترک ہیں، اور اس حدیث میں امام شافعی کے اس قول کا رد ہے کہ ظہر کے آخر وقت اور عصر کے اول وقت کے درمیان فاصلہ ہے، جس میں ظہر کی کوئی نماز جائز ہے نہ عصر کی اور اس حدیث میں اس شخص کا بھی رد ہے جو کہتاہے کہ عصر کا وقت اس وقت تک داخل نہیں ہوتا جب تک کہ ہر چیز کا سایا دو مثل نہ ہوجائے اور وہ امام ابوحنیفہ ہیں، اور رد کی وجہ یہ ہے کہ نبیﷺ نے ظہر اور عصر کی نمازوں کے درمیان فاصلہ کو نہیں بیان فرمایا اگر ان کے درمیان فاصلہ ہوتا تو اس فاصلہ کو نبیﷺ بیان فرماتے َ۔(37)

تجزیہ

شوافع کے نزدیک نماز کے اوقات مشترک ہیں،جبکہ احناف کے نزدیک ظہر کے آخر وقت اور عصر کے اول وقت کے درمیان فاصلہ ہے، جس میں ظہر کی کوئی نماز جائز ہے نہ عصر کی اور اس حدیث میں اس شخص کا بھی رد ہے جو کہتاہے کہ عصر کا وقت اس وقت تک داخل نہیں ہوتا جب تک کہ ہر چیز کا سایا وہ مثل نہ ہوجائے ۔

مثال نمبر6:کتاب دراسات فی اصول الحدیث

حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے بیان فرمایا: ”ولی کے بغیر نکاح نہیں منعقد ہوتا۔“(38)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں جس عورت نے اپنےولیوں کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے اس کا نکاح باطل ہے اس کا نکاح باطل ہے پس اگر اس نے عورت کے ساتھ دخول کرلیا تو اس کے ساتھ دخول کی وجہ سے اس کو نصف مہر دینا ہوگا پھر ولیوں میں تنازع ہو تو جس کا کوئی ولی نہیں ہے تو اس کا ولی سلطان ہے۔(39)

حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ وہ ابن حجش کے نکاح میں تھیں تو وہ ان کے نکاح میں فوت ہوگئے اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سرزمین حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی تو پھر نجاشی نے حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح رسول اللہﷺ سے کردیا اورآپ اس وقت حبشہ میں تھیں۔(40)

امام بخاری نے اس عنوان پر اس آیت سے استدلال کیا ہے :

وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ(41)

اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں ان کے (ان ہی پہلے) خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے نہ روکو جب وہ دستور کے مطابق ایک دوسرے سے راضی ہوجائیں۔

اس آیت سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مطلقہ عورتوں کے ولیوں کو اس سے منع فرمایا ہے کہ اگر وہ اپنے پہلے شوہروں کے ساتھ نکاح کرنا چاہیں تو وہ اس کو منع نہ کریں پس اگر عقد نکاح عورتوں کی طرف مفوض نہ ہوتا تو وہ عورتیں ممنوعات نہ ہوتیں۔

علامہ عینی فرماتے ہیں میں کہتاہوں کہ اس آیت کے استدلال مکمل نہیں ہوتا کیونکہ ظاہر کلام یہ ہے کہ یہ خطاب ان شوہروں سے ہے جو اپنی بیویوں سے عقد نکاح کرتے ہیں پھر عدت پوری ہونے کے بعد ان کو دوسری جگہ نکاح کرنے سے اپنی غیرت اور حمیت کی وجہ سے روکتے ہیں اور یہ حمیت جاہلیہ تھی وہ اپنی بیویوں کو اس سے روکتے تھے کہ وہ عدت کے بعد جس سے چاہیں نکاح کرلیں۔اگر تم یہ سوال کرو کہ یہ آیت تو حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کے متعلق نازل ہوئی ہے جیسا کہ امام بخاری کی روایت عنقریب آئے گی اور امام ابوداؤد ، امام ترمذی اور امام نسائی نے بھی اس کی روایت کی ہے حدیث میں ہے:

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری بہن تھی جس کا میں نے اپنے چچا کے بیٹے سے نکاح کردیا تھا پھر اس نے پس جس نے یہ کہا کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا اس نے یہ استدلال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان عورتوں کے ممانعت نکاح کو ترک کردو اور اس میں یہ دلیل ہے کہ عورتوں کے عقد نکاح کی ولایت ان کے ولیوں کی طرف ہے۔ علامہ عینی فرماتے ہیں: یہ حدیث متعدد وجوہ مختلفہ سے روایت کی گئی ہے اور اسی طرح اس کے سبب نزول میں بھی متعدد روایات ذکر کی گئی ہیں بعض مفسرین نے کہا: اس آیت میں عورت کے ولیوں کو خطاب ہے اور اور بعض مفسرین نے کہا: اس آیت میں مطلقعہ عورتوں کے شوہروں کو خطاب ہے اور بعض نے کہا: اس آیت میں تمام لوگوں سے خطاب ہے سو اس بناء پر اس آیت سے امام بخاری کا استدلال مکمل نہیں ہوگا ۔ نیز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے اس وجہ سے منع کیا ہو کہ وہ اپنی بہن کو مراجعت کی ترغیب دینا چاہتے ہوں وہ مراجعت سے توقف کرتی تھیں تو انہوں نے اس توقف کو ترک کرنے کا حکم دیا۔امام ابوبکر بن الجصاص نے حضرت معقل کی اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ روایت اہل نقل کے مذہب کے مطابق ثابت نہیں ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک جمہول راوی ہے اور رہی حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کی حدیث تو وہ مرسل ہے اوررہی آیت تو اس میں مطلعقہ عورتوں کے شوہروں سے خطاب ہے نہ کہ ان کے ولیوں سے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔(42)

النساء کے عموم میں بیوہ اور کنواری عورتوں کے داخل ہونے کے اعتبار سے فقہی قاعدہ

علامہ عینی اس تعلیق کی شرح میں لکھتے ہیں : اس آیت میں وَاِذَ طَلَّقْتُمْ النِّسَآئَ فرمایا اور النسآ کے عموم میں بیوہ اور کنواری عورتیں دونوں داخل ہیں۔

وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ۔(43)

اور مشترکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔

اس آیت کے حکم میں بیوہ اور اسی طرح کنواری عورتیں دونوں داخل ہیں۔

تجزیہ

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عورت کے ولیوں سے خطاب فرمایا ہے اور ان کو اس سے منع فرمایا ہے کہ وہ اپنے زیر سرپرستی یا زیر پرورش مسلمان لڑکیوں کا مشرکین سے نکاح کردیں، اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ عورتوں کے نکاح کا معاملہ خود ان عورتوں کی طرف نہیں بلکہ ان عورتوں کے ولیوں اور سرپرستوں کی طرف مفوض ہے ۔

مثال نمبر7: خبر واحد کی مختلف انواع کے ذیل میں بیان ہونے والی امثال فقہیہ

جمع رسول اللہ بین الظہر والعصر والمغرب والعشاء من غیرخوف ولاسفر (44)

الجمع بین الصلواتین میں اختلاف مسالک کے اثرات

جمع کی دو قسمیں ہیں۔ (1) جمع حقیقی (2) جمع صوری۔

جمع حقیقی : ایک نماز کے وقت میں دو نمازوں کو پڑھنا۔

جمع صوری۔ دو نمازوں کو صرف صورتاً جمع کرنا، بایں طور کہ ایک نماز کو اپنے وقت کے آخری حصہ میں پڑھے اور دوسری نماز کو اپنے اول وقت میں پڑھے۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک۔۔ جمع صوری جائز اور جمع حقیقی صرف عرفات اور مزدلفہ میں جائز ہے اس کے علاوہ (دوسرے مواقع میں) ناجائز ہے۔

قرآن کریم آیت ہے :۔

إنَّ الصَّلوۃ کَانَتْ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا۔)45(

کہ بے شک نماز مؤمنوں پر اپنے وقت میں فرض کی گئی ہے۔

"امامیت جبرائیل علیہ السلام والی حدیث کہ آپ علیہ السلام نے اوقات صلوۃ کی تعلیم دینے کے

لیے دو دن آکر رسول اللہﷺ کو امامت کرائی" (46)

(3) ترمذی میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ کے پاس ایک آدمی نماز کے اوقات معلوم کرنے کےلئے آیا۔ آپﷺ نے دو دن اس کو مدینہ میں رکھا اور عملاً اوقات صلوٰۃ کی تعلیم دی۔(47)

آئمہ ثلاثہ رحہم اللہ کے نزدیک ۔۔۔ جمع حقیقی ( جمع الصلوٰ تین) مطلقاً جائز ہے۔

دلیل ۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔

”قال جمع رسول اللہ ﷺ فی غزوۃ تبوک بین الظہروبین المغرب والعشاء (48)

کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ تبوک میں ظہر اور عصر کی نمازوں اور مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع فرمایا ہے۔

جواب۔ حدیث جمع صوری پر محمول ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے سفر میں ایک نماز آخر وقت میں پڑھی ، تھوڑا سا انتظار کیا، پھر دوسری نماز اس کے اول وقت میں پڑھی۔

دوسرا مقصدجمع بین الصلوتین/ دونمازوں کو جمع کرنا:

اول : دو نمازوں کو جمع کرنے کی مشروعیت حنفیہ کے سوا جمہور کے نزدیک ظہر اور عصر کی جمع تقدیم یعنی ظہر کے وقت میں اور جمع تاخیریعنی عصر کے وقت میں دونوں جائز ہیں تو اس میں ظہر کی طرح جمع تقدیم جائز ہے۔ اسی طرح مغرب اور عشاء میں جمع تقدیم اور تاخیر دونوں جائز ہیں ۔ البتہ قصر کی طرح طویل سفر (۸۹ کلو میٹر ) میں جائز ہے۔

جمع بین الصلو تین ظہر اور عصر میں اور مغرب اور عشاء ہوتی ہے۔ پہلی نماز کے وقت میں جمع کو جمع تقدیم اور دوسری نماز کے وقت میں جمع کو جمع تاخیر کہتے ہیں۔ البتہ دو نمازوں کو جمع کرنا افضل ہے اس سے اختلاف سے بھی بچت ہوجاتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پرہمیشگی نہیں کی اگر یہ افضل ہوتا تو قصر کی طرح اس پربھی ہمیشگی فرماتے۔

جمع تاخیر کی دلیل حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ والی احادیث ہیں جو صیحین میں آئی ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج کےمائل ہونے سے پہلے سفر کرتے تو ظہر و عصر تک مؤخر کر دیتے پر ٹھہر کر دونوں کو جمع فرمادیتے اور اگر سفر سے پہلے سورج مائل ہو جاتا تو ظہر پڑھتے اور پھر سوار ہوتے۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے کہ انہیں گھر والوں میں سے کسی کی مدد کے لیے بلایا گیا تو انہیں تیز چلنا پڑا۔ انھوں نے مغرب کوشفق غروب ہونے تک مؤخر کیا پھر رک کر دو نمازوں کو جمع کیا۔ اور انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو جب تیز چلنا ہوتا تھا تو اس طرح کرتے تھے۔

جمع تقدیم کی دلیل حضرت معاذ رضی الله عنہ والی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم غزوہ تبوک میں جب مغرب کے بعد سفر کرتےتو عشاء جلدی پڑھتے ۔ اسے مغرب کے ساتھ پڑھ لیتے۔

حنفیہ فر ماتے ہیں کہ دو موقعوں کے علاوہ جمع بین الصلوتین جائز نہیں ۔ ایک توحاجی کے لیے عرفہ کے دن ظہر اور عصر کی جمع تقدیم ایک اذان اور دو ا قامتوں کے سا تھ۔ اس لئے کہ عصر اپنے مقررہ وقت سے پہلے ادا کی جاتی ہے اس لئے اس کی اقامت الگ ہوگی تا کہ لوگوں کو پتہ چل جائے ۔ دوسرا مزدلفہ کی رات مغرب اور عشاء کی جمع تاخیر ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ یہاں عشاء اپنے وقت پر ہوئی ہے اس لئے علیحد ہ ا قامت کی ضرورت نہیں۔

ان کی دلیل یہ ہے کہ نماز کے اوقات تواتر سے ثابت ہیں ۔ انہیں خبر واحد کی وجہ سے ترک کرنا جائز نہیں۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جیسے شیخین نے روایت کیا ہے قسم اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ رسول الله صلی علیہ وسلم نے کوئی نماز اس کے وقت کے علاوہ نہیں پڑھی سوائے دو نمازوں کے ۔ عرفہ میں ظہر اور عصر کو جمع کیا ہے اور مزدلفہ میں مغرب اورعشاء کی۔

حق یہ ہے کہ جمع بین الصلوٰتین جائز ہے اس لئے کہ یہ سنت سے ثابت ہے۔ اور سنت قرآن کی طرح شریعت کا ماخذ ہے۔

دوم : جمع بین الصلو تین کے اسباب اور شرطیں

جمع تقدیم و تاخیر کو جائز کہنے والوں کا اتفاق ہے کہ تین احوال میں جمع جائز ہے۔ سفر ، بارش اسی طرف برف اور او لے اور عرفہ او مزدلفہ کی جمع۔ ان کے علاوہ دیگر احوال میں اور جمع کے صحیح ہونے کی شرطوں میں اختلاف ہے۔

مالکیہ فرماتے ہیں کر ظہر اور عصر میں اور مغرب اور عشاء میں جمع تقدیم اور جمع تاخیر کے اسباب چھ ہیں : سفر بارش ، اندھیر ے میں کیچڑ، بے ہوشی و غیرعرفہ اور مزدلفہ۔

ان سب صورتوں میں جمع الصلو تین جائز ہے سوائےعرفہ اور مزدلفہ کے کہ یہاں جمع سنت ہے۔

سفر میں جمع مطلقا جائز ہے چاہے سفر لمبا ہو یا چھوٹا۔ بشرطیکہ سفر خشکی کا ہو بحری نہ ہو اس لیے کہ رخصت کو اپنی مورد پر بند ر کھتے ہیں ۔ اسی طرح وہ مسافر گناہ والا اورلہولعب والا سفر نہ کر رہا ہو۔

سفر میں جمع تقدیم کے جواز کی شرطیں

جب ظہر کا وقت داخل ہوتو مسافر اپنے پڑاؤ والی جگہ میں آرام کر رہا ہو۔

۲۔عصر کے وقت سے پہلے کوچ کرنے کی نیت ہو اور آرام کے لیے اگلا پڑا ؤسورج غروب ہونے کے بعد کرنا ہو۔ اگر اصفرارشمس سے پہلے آرام کرنے کی نیت کی ہو تو صرف ظہر پڑھے گا اور عصر کو اپنے اختیاری وقت تک مؤخر کرنا واجب ہوگا۔ اگر پہلے بھی پڑھ لی تو ادا ہوجائے گی۔

اگر اصفرارشمس کے بعد اور غروب سے پہلے آرام کی نیت کی ہوتو ظہر کو اپنے وقت میں پڑھے اور عصر میں اختیار ہے چاہے تو پہلے پڑھے اور چاہے تو بعد میں جب آرام کے لئے رکے اس وقت پڑھ لے۔

اگر ظہر کا وقت داخل ہوتے وقت سفر جاری تھا تو اگر اس نے سورج کے اصفرار کے وقت یا اس سے پہلے رکنے کی نیت کی ہے تو ظہرمؤخرکردے اور عصر کے ساتھ جمع تاخیر کر دے۔ اگر غروب کے بعد رکنے کی نیت کی ہوتو دونوں نمازوں میں جمع صوری کر ے ظہر کو اس کے آخری اختیاری وقت میں پڑھے اور عصر کو اس کے پہلے اختیاری وقت میں پڑھے۔

مغرب اور عشاء کی بھی یہی تفصیل ہے۔ بس زوال ( وقت ظہر) کی جگہ غروب آفتاب آ جائے گا غروب کی جگہ طلوع فجر آ جائے گا اور اصفرار شمس کی جگہ رات کے آخری دوثلث آ جائیں گے۔

مرض پیٹ درد کے مریض وغیرہ کے لیے جمع صوری جائز ہے کہ پہلے فرض کو اس کے اختیاری وقت کے آخر میں اور دوسرے فرض کو اس کے اختیاری وقت کے شروع میں ادا کرے۔ اس صورت میں فائدہ یہ ہوگا کہ جمع صوری مگر وہ نہیں ہوگی ۔ تندرست آ دمی کے لیے جمع صوری مکروہ ہوتی ہے۔

جیسے دوسری نماز ( عصر اور عشاء )کے وقت بے ہوش ہونے سر چکرانے یا بخار کا خوف ہوتو وہ دوسری نماز کو پہیلی کے ساتھ پڑھ سکتا ہے۔ راجح قول کے مطابق یہ جائز ہے۔

بارش اور کیچڑبارش برف اوراو لے یا اندھیر ے میں کپچڑ با لفعل موجود ہو یا متوقع ہی ہوصرف جمع تقدیم کو جان کر تے ہیں وہ بھی مغرب اور عشاء مسجد میں باجماعت پڑھنے والوں کے لیے جب کہ بارش زیادہ ہو اور تمام لوگ اپنے سر ڈھانپنے لگیں ۔ اسی طرح کیچڑ اورمٹی بھی اتنی زیاد ہو کہ متوسط قسم کے لوگ جوتی نہ پہن سکیں۔ جمع صرف اسی وقت جائز ہے جب کیچڑ اور اند ھیر ادونوں ہوں ۔ کسی ایک کے پائے جانے سے جمع جائز نہیں۔

اگر جمع بین الصلو تین کے شروع ہونے کے بعد بارش ختم ہوئی تو اسے جاری رکھنا جائز ہے مشہور یہ ہے کہ یہ دونوں نماز میں الگ الگ اذان اور اقامت کے ساتھ ہوں گی پہلی اذان مغرب کے لیے منارے پر بلند آواز سے ہوئی۔ دوسری آذان آہستہ سے مسجد کے اندر ہوگی نہ کہ منارے پر اذان کے لیے مغرب پڑھنے میں تین رکعت کی مقدار تاخیر کرنا مستحب ہے۔ پھر مسجد میں نفل پڑھے بغیر گھروں کو لوٹ جائیں ۔ اس لئے کہ اس وقت نفل مکروہ ہیں جمع کے بعدشفق غروب ہونے تک مسجد میں نفل اور وتر نہیں پڑھ سکتے۔

دونوں نمازوں کے درمیان نفل نہیں پڑھے جائیں گے نفلی مکر وہ ہیں لیکن جمع کے صحیح ہونے سے مانع نہیں۔ یہ جمع مسجد کے پڑوسی کے لیے جائز نہیں اگر چہ وہ مریض ہواور اس کے لیے مسجد جانا مشکل ہو یاعورت ہو اور اس سے فتنے کاخدشہ ہو۔

اسی طرح جمع اس کے لیے بھی جائز نہیں جو مسجد میں اکیلے نماز پڑھے۔ ہاں اگر وہ امام راتب ہو اور اسے اپنے گھر لوٹنا ہوتو وہ اکیلا بھی نمازوں کو جمع کر سکتا ہے۔ وہ جامع اور امامت دونوں کی نیت کرےگا۔ اس لیے کہ یہ بمنزلہ جماعت ہے۔ پہلی نماز میں جمع کی نیت کرنا واجب ہے جیسا کہ امامت کی نیت۔)49)

تجزیہ

مریض کو اگر اپنی عقل کے کھو جانے کا خوف ہو یا اس کے لیے زیادہ آسانی ہوتو جمع کر سکتا ہے اور اس کا وقت پہلی نماز کا وقت ہے۔جمع بین الصلوتین کو فقہا ء نے جائز قرار دیا ہے ۔

خلاصۃ البحث

مختلف مسالک کے فقہاء کےدرمیان اجتہادی اختلافات کی وجوہات میں سے ایک وجہ احادیث کے ردوقبول اور احادیث کی صحت کو واضح کرنا ہے۔بعض اوقات احادیث میں تعارض آجاتا ہے یا مشترک المعنی الفاظ آجاتے ہیں تو ان الفاظ کی تشریحات میں اور اس تعارض کو ختم کرنے کی تشریحات میں فقہاء کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔معلوم ہواعلوم الحدیث کی کتب میں بیان کردہ امثال فقہیہ کے تناظر میں مختلف شرعی مسائل کے اندر فقہاء کے مابین اختلاف بعض اوقات احادیث کے عدم ہونے یا غیر عدم ہونے کی بناء پر بھی پایا جاتا ہے۔مثال کے طورپر عند الحنفیہ جو رفع الیدین تکبیرات الاحرام کے علاوہ جو رفع الیدین نماز کے اندر ہے۔ عند الحنفیہ اسکی احادیث منسوخ ہیں جبکہ عند الشوافع اور عند الاحنابلہ یہ احادیث منسوخ نہیں جبکہ یہ صحیح ہیں یعنی اس تناظر میں رفع الیدین کرنا واجب ہے یہ ناسخ و منسوخ کا معاملہ ہے عند الحنفیہ جو اصول نسخ ہے اسکی بنا پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ عند الحنفیہ جو اصول نسخ حدیث ہے اس میں اور عندالشوافع و حنابلہ اصول نسخ حدیث میں فرق پائے جانے کی وجہ سے رفع الیدین میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ جیسا کہ حدیث عند الحنفیہ اس حدیث کی صحت باقیوں کے مقابلے میں کیا ہے؟جس سے اختلاف مسالک کے اثرات واضح ہو جاتے ہیں ۔ جیسا کہ شرعی احکامات کے اخذ و استنباط میں احادیث نبوی ﷺ کی صحت اور اسماء الرجال جرح و تعدیل تعارض بین الحدیث کے علاوہ دیگر اصول حدیث بھی اہمیت کے حامل ہیں۔اس کی بناء پر یہ ناسخ بنتی ہے یا نہیں یہ امام ابوحنیفہ اور باقی آئمہ کے درمیان اختلاف کا موجب ٹھہرا ہے لہٰذا بنیادی طور پر تو موجب اختلاف اصول الحدیث میں سے ایک اصول ۔ اصول نسخ فی الحدیث آگیا ہے۔ان مذکورہ عبارات کے تناظر میں اختلاف مسالک کے اعتبار سے اثرات اب بھی موجود ہیں ۔

مثال کے طور یہ حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ کی ایک رائے ہے کہ پانی پاک ہی ہوتا ہے چاہے ماء قلیل ہویا ماء کثیر جب تک کہ اس میں نجاست غالب ہو کر ظاہر نہ ہوجائے جبکہ فقہاء احناف اور شوافع ماء قلیل و ماء کثیر کا فرق کرتے ہیں لیکن اگر ہم تطبیق کی صورت میں دیکھیں تو الگ ایسی صورت بن سکتی ہے کہ جہاں پر پانی کی بہت زیادہ قلت ہوتی ہے وہاں فقہ مالکیہ سے مسئلہ کا اخذ و استنباط کیا جاسکتا ہے اور جہاں پر پانی کی کثرت ہوتی ہے وہاں احتیاطاً فقہاء شوافع یا احناف کی آراء کو لیا جاسکتا ہے۔

لہذا کتب علوم الحدیث میں اختلاف مسالک کےاثرات کا دائرہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی فقہی بنیادوں کے اعتبار سےاب بھی موجود ہے۔ اور تاصبح قیامت موجود رہے گا جو کہ اِس عنوان حسن و جامعیت ہےایسے مسئلہ جمع بین الصلوٰاتین میں جیسا کہ فقہاء احناف ایک طرف دوسرے فقہاء دوسری طرف ہیں۔

Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, Qurtuba University of Science and Information Technology D.I.Khan. ataulmustafa1802@gmail.com

Assistant Professor, Dept. of Islamic Studies,

University of Agriculture Faisalabad hafizqasim@uaf.edu.pk


1 بخاری، محمد بن اسماعیل ، رقم الحدیث : 1951

2عینی ، بدرالدین ،عمدۃ القاری ،دارالکتب العلمیہ ،بیروت، 1998ءج11، ص83

3البکری ابی الحسن ، شرح ابن بطال، درالکتب العلمیہ ، بیروت ،2005ء، ج4،ص84۔85

4سنن ترمذی، رقم الحدیث718

5سنن ترمذی ،ص229

6مؤطا ، مالک بن انس ،مؤطا امام مالک ، مکتبۃ البشری ، کراچی ، 2010ء کتاب الصیام ، ج1،ص196، حدیث:43

7تیسیر الباری ، ج2،ص310

8سنن بیہقی ، ج4،ص257

9سنن بیہقی ، ج4،ص257

10الصنعانی ، عبد الرازق بن ھمام، مصنف عبدالرزاق ، دارالکتب بیروت،1461ھ ،ص181

11بیہقی، احمد بن حسین، السنن الکبریٰ، مؤسستہ الرسالۃ ، بیروت 1421ھ، ج3،ص257

12مصنف عبدالرزاق ،ج4،ص182

13ایضاً

14ایضا

15مصنف عبدالرزاق ، ج4،ص183

16ایضا،ج4،ص184

17ایضا،ص4، ص184،سنن بیہقی ،ج4، ص254

18 بخاری، محمد بن اسماعیل ، رقم الحدیث : 1923

19شرح ابن بطال ، ج2، ص543

20عسقلانی ، احمد بن حسن ، فتح الباری ، داراابن الجوزیہ ، ریاض، 1417ھ، ج 5، ص309،

21الہی ، محمد عاشق، دارالکتب العلمیہ ، بیروت 1412ھ ، روضۃ الطالبین ، ج1، ص444

22عمدۃ القاری ، ج6، ص224

23 الکوفی ، ابی بکر عبداللہ ، مصنف ابن ابی شیبہ ،مترجم محمد ادریس سرور، مکتبہ رحمانیہ ، لاہور، 2013ء، ج3، ص14

24عمدۃ القاری ، ج8، ص337

25عمدۃ القاری ،ج8 ص338

26الخطابی ، ابو سلمان بن حمد، اعلام السنن ، دارالکتب العلمیہ ، بیروت 1428ھ ،ج1، ص379

27اعلام السنن ، ج1،ص379

28سنن ترمذی، رقم الحدیث 241

29سنن ترمذی، ص291

30 الشمس: 15

31عمدۃ القاری ، ج8، ص335

32 مصنف ابی شیبہ ،ج1، ص149،

33عمدۃ القاری ، ج14،ص54

34سنن ترمذی ، رقم الحدیث:2120

35شرح ابن بطال ، ج8 ص121۔120

36 صحیح بخاری ، رقم الحدیث، 543

37شرح ابن بطال ، ج2، ص226

38سنن ابوداؤد ،رقم الحدیث، 1881

39سنن ترمذی ، رقم الحدیث،1102

40سنن نسائی،رقم الحدیث،335

41البقرہ: 232

42عمدۃ القاری ج20، ص171۔170

43البقرہ:221

44قدامہ ،المغنی ، ج 2، ص120

45 النساء :103

46ابوداؤد ، ج1 ، ص76

47ترمذی، رقم الحدیث، 2413

48 صحیح مسلم، رقم الحدیث، 7016

49 سنبھلی ، عبدالغفور، کتاب اختلاف آئمۃ الفقہاء فی لمہمتہ ،اسلامی کتب خانہ ، کراچی ، 2015ء ، ج1،ص37

Loading...
Issue Details
Showing 1 to 5 of 5 entries
Showing 1 to 5 of 5 entries
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index