Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Amir > Volume 4 Issue 2 of Al-Amir

ماحولیاتی و موسمیاتی تغیرات سے متعلق عوامی ذمہ داریاں اور آگہی ( سیرت النبیﷺ کی روشنی میں) Public Responsibilities and Awareness Regarding the Environmental and Climate Changes (In the light of the Prophet's life) |
Al-Amir
Al-Amir

Article Info
Authors

Volume

4

Issue

2

Year

2023

ARI Id

1682060063651_3226

Pages

23-39

PDF URL

https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/48/48

Chapter URL

https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/48

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

@page { size: 8.27in 11.69in; margin-left: 1.2in; margin-right: 1.2in; margin-top: 0.5in; margin-bottom: 0.5in } @page:first { } p { margin-bottom: 0.1in; direction: rtl; line-height: 115%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.western { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", serif; font-size: 14pt } p.cjk { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14pt } p.ctl { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14pt } p.sdfootnote-western { margin-bottom: 0in; direction: rtl; font-family: "Calibri", serif; font-size: 10pt; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.sdfootnote-cjk { margin-bottom: 0in; direction: rtl; font-family: "Calibri"; font-size: 10pt; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.sdfootnote-ctl { margin-bottom: 0in; direction: rtl; font-family: "Arial"; font-size: 10pt; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } a:link { color: #0000ff; text-decoration: underline } em { font-style: italic } a.sdfootnoteanc { font-size: 57% }

أﻷمِیر:جلد4؍ شمارہ 2 ..( جولائی–ستمبر2320ء) (1)

ماحولیاتی و موسمیاتی تغیرات سے متعلق عوامی ذمہ داریاں اور آگہی ( سیرت النبیﷺ کی روشنی میں)

P ublic Responsibilities and Awareness Regarding the Environmental and Climate Changes (In the light of the Prophet's life)

Yasir Abbas

Doctoral Candidate, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.

y742581@gmail.com

Picture 315057519

M alik Akhtar Hussain

Assistant Professor, Department of Pakistan Studies, Allama Iqbal Open University, Islamabad a.hussain@aiou.edu.pk

Muaaz Shahid

Doctoral Candidate, Dept. of Usul-ud-Din, University of Karachi.

muaaz1248@gmail.com

Allah has made the man as his caliph on earth and created the natural resources of the universe for the sake of human beings. Due to advancement of industrialization the natural resources and environment have been threatened while the environmental pollution has become an international challenge in modern times. Some of the guiding principles mentioned in the Sirat-un-Nabiare helpful in basic guidance of humanity, such as the prohibition of extravagance and oppression, the gratitude for divine blessings, the observance of the rights of worship, and so on. However, there are certain rules and decrees that provide specific guidelines for the protection and proper use of certain natural resources, such as water, trees, agriculture, forests, wind, etc. That some of them have been ordered to perform their duties, Such as the commands to plant trees, to keep water clean, to cultivate, to raise animals and to be gentle with them, etc. Such as prohibitions of cutting down trees unnecessarily, of polluting water, of spoiling fields, and the prohibition of cruelty to animals, etc. In this study, these demands have been explained in some detail in the light of Quran and Hadiths.

Key Words: Environment, Pollution, Responsibilities, Sirat -un-Nabi

Picture 13

تعارف:

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیگر ضروریاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ صاف ستھراماحول بھی مہیا کیا ہے۔لیکن گزرتے وقت کے ساتھ انسا ن کی بے احتیاطی نے اس ماحول کو آلودہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں سارا نقصان انسان ہی کواٹھانا پڑرہا ہے۔اسلام نے ماحول کو صاف رکھنےکی ترغیب دی ہے اور ماحول کی حفاظت اور اس کو آلودگی سے بچانے میں مؤثر کردار ادا کرنے والے اساسی عناصر (زمین، پانی اور ہوا ) کو صاف رکھنے کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ افسوس کہ انسان نے ان تعلیمات کو بھلا دیا ہےجس کی وجہ سے آج پوری دنیا ماحولیاتی آلودگی جیسے خطرناک مسئلے سے دو چار ہے۔جگہ جگہ پڑے ہوئے گندگی کے ڈھیر،عام راستوں اورگزرگاہوں میں کوڑا کرکٹ اور پلاسٹک تھیلوں کی بھر مار، تمباکو نوشی اورمشینوں کے بے دریغ استعمال سے دھوئیں کی کثرت، گاڑیوں،رکشوں،موٹر سائیکلوں، فیکٹریوں اور ہوائی جہازوں کے شور وشغف سے ہمارا ماحول آلودہ ہو چکا ہے، جس کے نتیجے میں کئی اقسام کی بیماریاں اور موسمی تغیرات سمیت کئی مسائل آج کے جدید دور کے لئے ایک بڑا چیلنج بنتے جا رہے ہیں، لہٰذا ان آلودگیوں سے نمٹنے کے لئے نبی کریمﷺ کی ہدایات پر تدبر و تفکر کرکے اُن پر عمل پیرا ہونااس وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس آرٹیکل میں سیرتِ طیبہ اور تعلیماتِ نبویﷺ کی روشنی میں اُن ہدایات پر بحث کی گئی ہےجو ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ اور ایک صاف ستھرے ماحول کے ضامن ہیں۔

ماحول کاتعارف:

لغوی مفہوم :لغوی اعتبار سےعربی زبان میں ماحول کے لئے"البيئة"کا لفظ استعمال ہوتا ہے،جس کا مادہ"بوأ" ہے۔ لغتِ عربی میں"بوأ" کا مادہ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔چنانچہ یہ لفظ گناہ کے اعتراف اور اقرارکے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جیساکہ کہا جاتا ہے:

باء له بذنبه، أي: اعترف له بذنبه، وباء بدم فلان، أي : أقرّ به۔ 1

مشہور معنی نزول اور اقامت ہے، جیساکہ عربی محاورے میں کہا جاتا ہے: تبوأت منزلاً " میں گھر اترا"۔ اسی طرح لفظ "الباءة" نکاح، جماع اور گھر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور لفظ"البيئة" کا معنی ہے گھر اور ماحول بھی ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی اسی معنی میں مستعمل ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ "2

"اور وہ لوگ جو اپنے گھروں میں مقیم ہیں۔"

اصطلاحی مفہوم:ماہرین نے ماحول کی کئی تعریفیں کی ہیں،جن کااس مختصر مقالے میں ذکر تطویل کا باعث ہے اس وجہ سے صرف ایک ہی تعریف پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ محمد عبدالقادرماحول کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"الوسط أو المجال المكاني الذي يعيش فيه الإنسان، بما يضم من ظواهر طبيعية وبشرية يتأثر بها ويؤثر فيها"3

"وہ مرکز یا جگہ جہاں انسان زندگی بسر کرتا ہے، بشمول ان طبعی اور بشری مظاہر کے جن سے انسان متاثر ہوتا ہےاور ان پر اثر انداز ہوتا ہے۔"

1972ء میں انسانی ماحول کے حوالے سے جو بین الاقوامی کانفرس سٹاک ہولم "Stockholm" ہوئی ، اس میں ماحول کامفہوم نہایت اختصار کے ساتھ انہی الفاظ میں بیان کیا گیا۔

آلودگی کا تعارف:

لغوی مفہوم :عربی زبان میں آلودگی کے لئے "تلوث" کا لفظ استعمال ہوتا ہے، تلوث، لوث سے ماخوذ ہے جس کے معانی خراب ہونا اور گدلاکردینا ہے۔4

اصطلاحی مفہوم: آلودگی کی اصطلاحی تعریف کے حوالے سے اہل علم نے کئی تعریفیں کی ہیں،خوفِ طوالت سے بچنے کے لئے صرف ایک تعریف ذکر کی جاتی ہےدکتور عبد الکریم سلامہ آلودگی کی تعریف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

"هو إدخال الإنسان مباشرة أو بطريق غير مباشر لمواد أو لطاقة في البيئة والذي يستتبع نتائج ضارة، علي نحو يعرض الصحة الإنسانية للخطر ويضر بالمواد الحيوية وبالنظم البيئية وينال من قيم التمتع بالبيئة، أو يعوق الاستخدامات الأخرى المشروعة للوسط"5

"انسان کا براہِ راست یا بالواسطہ طور پر ماحول میں کوئی مواد یا توانائی ڈالنا جو نقصان دہ نتائج کا حامل ہواور جس سے انسانی صحت خطرے سے دوچار ہوجائےاور جو زندگی کے وسائل اور ماحولیاتی نظاموں کو نقصان پہنچائےیا ماحول سے متعلق دوسرے جائز استعمالات سے مانع ہو۔"

اسلام کی تجاویزاوراقدامات

قرآن کریم واضح الفاظ میں پوری انسانیت کویہ پیغام دیتاہےکہ یہ دنیا برتنےکےلیےانسان کوعطاکردی گئی ہے۔ اس میں موجود تمام نعمتیں انسان کےلیےوقف ہیں، مگراس کا ادب یہ ہےکہ انسان صرف ان نعمتوں کو استعمال کرے، انہیں حدِاعتدال سےنکل کرفسادکی حدود میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔

1۔ زمینی آلودگی

زمینی آلودگی کو مٹی کی آلودگی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ گندی نالیوں سے خارج ہونے والے کیمیائی مواد اور گندگی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔دکانوں اور گھروں کے سامنے گندگی کے ڈھیر، راستوں اورگزرگاہوں میں کوڑا کرکٹ ، پلاسٹک کے تھیلے اور بوتلیں،کیمیائی مادےاور کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ مٹی کو آلودہ کرتا ہے۔ مٹی کی آلودگی کی وجہ سے زمین کی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہےاور جو فصلیں اور سبزیاں ایسی زمینوں میں اُگائی جاتی ہیں، ان میں زہریلے مادے اور جراثیم سرایت کرجاتے ہیں۔ جن کا استعمال انسانی صحت کے لئے مضر ہے۔6

نبی کریمﷺ نے ماحول کو صاف رکھنے اور زمینی آلودگی سے بچنے کی ترغیب دی ہےاور اس کا اہتمام کیا ہے، آپﷺ کا ارشاد ہے:

"فضلنا على الناس بثلاث: جعلت صفوفنا كصفوف الملائكة، وجعلت لنا الأرض كلها مسجدا، وجعلت تربتها لنا طهورا، إذا لم نجد الماء"7

"ہمیں سابقہ امتوں پر تین چیزوں کی وجہ سے فضیلت دی گئی ہے، ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح ہوتی ہیں اور ہمارے لئے تمام روئے زمین مسجد بنا دی گئی ہےاور پانی نہ ملنے کی صورت میں اس کی مٹی ہمارے لئے پاک کرنے والی بنادی گئی۔"

زمینی آلودگی کے سدباب کے لئےنبی کریم ﷺ کی تدابیر

نبی کریم ﷺ نے زمینی آلودگی کے سدباب کے لئے ہدایات بیان فرمائی ہیں، جن پر عمل کئے بغیر آلودگی کی روک تھام نہ صرف مشکل ہےبلکہ ناممکن ہے۔ اس لئے عام شہریوں اور حکومت و ذمہ دار لوگوں کا ان اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے، تاکہ معاشرہ اس مشکل سے نکلنے میں کامیاب ہوسکے۔ زمینی آلودگی کے حوالے سےاصول اور ہدایات حسبِ ذیل ہیں:

(الف)۔ گندگی پھیلانے کی قباحت سے آگہی

معاشرے میں گندگی پھیلانے کی روک تھام کےحوالے سے اسلامی تعلیمات کی آگہی ازحد ضروری ہے، نبی کریمﷺ نے جو وعیدات بیان فرمائی ہیں،اُن سے لوگوں کو باخبر رکھنا چاہئے ۔اس میدان میں صاحبانِ منبر ومحراب اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کہ وہ عوام کو سمجھائیں کہ معاشرے میں گندگی پھیلانا گناہ کا عمل ہے ۔ چنانچہ آپﷺ نے اس شخص کو ملعون قرار دیا ہے جو راستوں اور لوگوں کی بیٹھنے کی جگہ میں گندگی ڈالتا ہے۔آپﷺ کا ارشاد ہے:

" اتَّقُوا اللاَّعِنَيْنِ » قَالُوا: وَمَا اللاَّعِنَانِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ الَّذِى يَتَخَلَّى فِى طَرِيقِ النَّاسِ وَظِلِّهِمْ"8

"لعنت کا سبب بننےوالی دو باتوں سے بچو، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ: وہ دو باتیں کیا ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ایک یہ کہ آدمی لوگوں کی گزرگاہوں اور راستوں پر قضائے حاجت کرے اور دوسرا عمل یہ ہے (آدمی لوگوں کی نشست وبرخاست کی جگہ) سایہ کی جگہ میں پیشاب وغیرہ کرکے گندگی پھیلائے۔"

(ب)۔ تکلیف دہ چیز کو اٹھانے کی ترغیب دینا

زمینی آلودگی سے بچاؤ کے لئے دوسری تدبیر یہ ہے کہ تکلیف دہ چیز کو اٹھا کر دور ایسے مقام پر پھینکا جائے جہاں کسی کی تکلیف کا سبب نہ ہو۔آلودگی سے زیادہ مضر اور نقصان دہ چیز اور کیا ہوگی؟ آلودہ اور تکلیف دہ ماحول کو ختم کرنے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ نبی کریم ﷺ نے راستے سے تکلیف دہ چیز اُٹھانے کو ایمان کا شعبہ قرار دیا ہے، آپﷺ کا ارشاد ہے:

"الإيمان بضع وسبعون شعبة أعلاها شهادة أن لا إله إلا الله وأدناها إماطة الأذى عن الطريق"9

"ایمان کے ستر سے زیادہ شعبے ہیں، اعلیٰ شعبہ لا إله إلا الله ہے اور ادنیٰ شعبہ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے۔"

ان تعلیمات کی روشنی میں بحیثیت مسلمان آج اگر ہم اپنے گرد وپیش ماحول کو دیکھ لیں تو ہمارے راستوں میں کس قدر زیادہ گندگی ہوا

کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے زمینی آلودگی سے بچنے کے لئے پہلا ہدف یہ قرار دیا ہے کہ لوگوں کی گزرگاہوں اور بیٹھنے کی جگہ میں گندگی نہ پھیلائی جائے ۔ اسی طرح ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے بھی حکوت کے ساتھ ساتھ عام شہری اپنا فریضہ سمجھ کر اس کام میں بھرپور کردار ادا کریں تاکہ اس اہم مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔

(ج)۔ صاف ماحول کی فراہمی کے لئے اقدمات

ماحول کو گندگی سے صاف کرنا چاہیئے۔ نبی کریمﷺ نے صفائی کا حکم دیا ہے کہ جہاں گندگی ہو اُس کو صاف کیاجائےیہاں تک کہ مسجد میں تھوک صاف کرنے کا بھی آپﷺ نے حکم دیا ہے، ارشاد ہے:

"إِذَا تَنَخَّمَ أَحَدُكُمْ فِي الْمَسْجِدِ فَلْيُغَيِّبْ نُخَامَتَهُ، أَنْ يُصِيبَ جِلْدَ مُؤْمِنٍ أَوْ ثَوْبِهِ فَيُؤْذِيَهُ"10

اگر کسی نے غلطی سے معاشرے میں گندگی پھیلائی تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس گندگی کو صاف کرلے، جیساکہ مسجد میں تھوک کے عمل کا کفارہ نبی کریمﷺ نےاس کی صفائی کو قرار دیا۔ اس حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ گندگی پھیلانے کی سزا اسی گندگی کی صفائی ہے۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

"الْبُزَاقُ فِي الْمَسْجِدِ خَطِيئَةٌ، وَكَفَّارَتُهَا دَفْنُهَا"11

"مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اس کو دفن کرنا ہے۔"

اس حدیث کی شرح میں محمد بن محمد البکری لکھتے ہیں:

"والأمر بتنزيه المسجد عن الأقذاروجوباً عن القذر النجس أو المقذر للمكان كنحو ماء غسل، وأكل طعام يتلوث منه المكان، وندبا فيما ليس كذلك"12

اس دورمیں ہمارے گردوپیش صاف ماحول کی فراہمی کے لئے جن اقدامات کی ضرورت ہے، اس حوالے سے میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ماحول کو صاف رکھنے کے حوالے سے جن جن اقدامات کی ضرورت ہے اس کی نشاندہی کرنا اور جن امور سے اجتناب کی ضرورت ہے ،ان کو واضح کرنامیڈیا کے فرائض میں شامل ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز کو چاہئے کہ وہ اس موضوع پر اہل علم حضرات کے لیکچرز چلائیں اور اس موضوع پر مباحثوں اور مکالموں کا اہتمام کر یں تاکہ لوگوں میں اس اہم مسئلے کے بارے میں آگہی پیدا ہوجائے۔

2۔ آبی آلودگی

پانی میں نقصان دہ مواد کے شامل ہونے کی وجہ سے گندا اور ناقابلِ استعمال ہونے کو آبی آلودگی کہتے ہیں۔ آبی آلودگی کی اہم وجہ صنعتی فاضل مادے ہیں جو کہ نہروں،جھیلوں اور دریاؤں میں خارج کیے جاتے ہیں ۔ پانی چونکہ امت کی مشترکہ ملکیت ہےاور کسی کو اس سلسلے میں کسی پر فوقیت نہیں ہے،اس لئے اس کی حفاظت بھی تمام لوگوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:

"المسلمون شركاء في ثلاث في الماء والاكلاء والنار وثمنه حرام"

"تین چیزوں میں لوگ شریک ہیں، پانی میں، گھاس میں اور آگ میں اور اس پر پیسے لینا حرام ہے۔"

آبی آلودگی کے سدباب میں نبی کریم ﷺ کی حکمتِ عملی

اس حوالے سے سیرت طیبہ کی تعلیمات انتہائی مؤثر ہیں، اس لئے آبی آلودگی کے روک تھام کی ان تعلیمات پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

(الف) ۔ پانی کو گندگی سے بچانے کی ترغیب

نبی کریمﷺ نے پانی کو صاف رکھنے کی تاکید کی ہے اور اس میں گندگی ڈالنے سے منع فرمایا ہے،تاکہ لوگ آبی آلودگی کےمضر اثرات سے بچ سکیں۔چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

"لا يبولن أحدكم في الماء الدائم ولا يغتسل فيه من الجنابة"13

"تم میں سے کوئی کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے اور نہ ہی جنابت کی حالت میں غسل کرے۔"

نبی کریمﷺ کا کھڑے پانی میں پیشاب اور غسل جنابت سےمنع فرمانا پانی کوآلودگی سے محفوظ رکھنےکا ایک عمومی قاعدہ ہے جوپانی کے کھڑے رہنے کی وجہ سےپیدا ہونے والی خطرناک آلودگی کی نشاندہی کرتا ہے۔

اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ماحول میں ہونے والی منفی تبدیلیوں کی روک تھام کے لئے شجر کاری کی جائے،فیکٹریوں اور گھروں کے فضلات کو پانی میں نہ پھینکا جائے،زہریلے دھوئیں کے اخراج پر کنٹرول کیا جائے۔عوام میں حفظان صحت کے امور سے متعلق شعور دیا جائے کہ اگر انہوں نے اپنے ماحول کو صاف و شفاف نہ رکھا تو ایک دن وہ ان کی ہلاکت کا باعث بنے گا یعنی اگر ہم آلودگی کو نہ مٹا سکے تو آلودگی ہمیں مٹا دے گی۔

(ب)۔ ضرورت سے زیادہ پانی کے استعمال سے گریز

پانی کا زیادہ استعمال بھی آبی آلودگی کا سبب بنتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے آبی آلودگی سے بچنے کے لئے پانی کے زیادہ استعمال کو اسراف قرار دیا ہے،یہاں تک کہ وضواور طہارت میں بھی زیادہ پانی استعمال کرنے سےمنع فرمایا ہے۔آپﷺکا حضرت سعدؓ کے پاس سے گزر ہواجب کہ وہ وضو کررہے تھےتو فرمایا:

"مَا هَذَا السَّرَفُ» فَقَالَ: أَفِي الْوُضُوءِ إِسْرَافٌ، قَالَ: «نَعَمْ، وَإِنْ كُنْتَ عَلَى نَهَرٍ جَارٍ"14

"یہ کیسا اسراف ہے، توحضرت سعدؓکہنے لگے: کیا وضوکے پانی میں بھی اسراف ہے؟ توآپﷺ نے فرمایا: ہاں اگرچہ بہتادریا ہی کیوں نہیں ہو۔"

سیرت طیبہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ جو بات بیان فرماتے خود اس کا عملی نمونہ تھے، چنانچہ آپﷺ نے جہاں پانی کے زیادہ استعمال سے منع فرمایا تو خود بھی اس معاملے میں احتیاط فرماتے تھے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہے:

"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغتسل بالصاع ويتوضأ بالمد"15

"رسول اللہﷺ ایک مد[16]پانی سے وضو اور ایک صاع[17]پانی سےغسل فرماتے تھے۔"

اس بات کی ضرورت ہے، ہم جو لوگوں کو یہ کہہ رہے ہیں کہ پانی کا استعمال کم کریں تو ہمیں بھی اس پر عمل کرنا چاہیئےاور اپنےآپ اور اپنے گھر سے شروع کرکے پانی کے استعمال میں کمی لانی ہے۔ یہ آبی آلودگی کی روک تھام میں ایک مؤثر حکمتِ عملی ہے۔ ہر جگہ پانی کا استعمال بہت زیادہ ہے، چاہے وہ گھر ہو یا ہجرہ، مسجد ہو یا مدرسہ، لیکن ہر کام کی ذمہ داری حکومت اور ریاست کے کھاتے میں ڈالنا بھی انصاف کا تقاضا نہیں۔ اس لئے اہل اور اہل قلم لوگوں کو چاہیئےکہ وہ اپنے مواعظ ونصائح اور اپنے قلم سے لوگوں میں یہ شعور اور آگہی پیدا کریں۔

(ج)۔پانی کےپائپوں اور ٹینکوں کو صاف رکھنے کی تاکید

نبی کریمﷺ نے نہ صرف پانی کو صاف رکھنے اور آلودگی سے بچانےکے لئے پانی کے زیادہ استعمال سے منع ہونے کی تاکید کی ہے بلکہ اُن برتنوں کو بھی صاف اور بند رکھنے کا حکم دیا ہے جن میں پانی رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ آپﷺ کا ارشاد ہے:

"غطوا الإناء وأوكوا السقاء فإن في السنة ليلة ينزل فيها وباء لا يمر بإناء ليس عليه غطاء أو سقاء ليس عليه وكاء إلا نزل فيه من ذلك الوباء"18

پانی کو صاف رکھنے کے لئے اس حد تک کوشش کی گئی ہے کہ پانی کے برتنوں اور ٹینکوں کومحفوظ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ آج کل پانی جن پائپوں میں آتا ہے وہ زنگ آلودہ پائپ ہوا کرتے ہیں اور جن ٹینکوں میں پانی رکھا جاتا ہے وہ اکثر گندےہوا کرتے ہیں،جس کی وجہ سے لوگ قسم قسم کےموذی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔

(د)۔ پانی صاف رکھنے میں ہرقسم کی احتیاطی تدابیرکا استعمال

آپﷺ نے پانی کو آلودگی سے بچانے کے لئے پانی کے برتن میں سانس لینے یا پھونکنے سے بھی منع کردیا ہے۔ چنانچہ آپﷺکا ارشاد ہے:

"إذا شرب أحدكم فلا يتنفس في الاناء"19

"جب تم میں سےکوئی پانی پیئے تو برتن کے اندر سانس نہ لے۔"

اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے آبی آلودگی سے بچنے کے لئے برتن میں بھی سانس لینے سے منع فرمایا جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر ممکن پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جائے چند مقامات ایسے ہیں جہاں سے پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے ۔

3۔ ہوائی آ لودگی

ہوا میں آلودگی عموماً گاڑیوں یا کارخانوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جدید تحقیقات سے یہ بات معلوم ہوئی ہےکہ گھروں میں کھانا پکانے کے عمل کے دوران اٹھنے والے دھوئیں سےبھی خواتین اور بچےبہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اگر صرف کھانا پکانے کے لیے محفوظ چولہے ہی فراہم کر دیئے جائیں تو دنیا میں لاکھوں افراد کی جانیں بچ سکتی ہیں۔20

ہوائی آلودگی کی روک تھام کے لئے احتیاطی تدابیراور سیرت طیبہ

ہوائی آلودگی صحت کے لئے انتہائی مضر ہےہوائی آلودگی کی روک تھام میں جنگلات اور پودے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ،اس لئے نبی کریم ﷺ نے شجرکاری کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے، اور اس کی کٹائی سے سختی سے منع فرمایا ہے، آپﷺ کا ارشاد ہے:

"إِنَّ صَيْدَ وَجٍّ وَعِضَاهَهُ حَرَامٌ مُحَرَّمٌ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ"

"وادی وج میں شکار کرنا اور اس کے درخت کاٹناحرام ہے۔"

نبی کریم ﷺ کے ارشادات اور عملی زندگی سے فضائی آلودگی کے حوالے سے جو راہنمائی ملتی ہے وہ اس دورمیں ہوائی آلودگی کے سدباب میں اہم کردارادا کرسکتے ہیں، اس سلسلے کے چند اہم تدابیر حسب ذیل ہیں:

(الف)۔ دھوئیں اور دیگر مضر عناصر کی روک تھام

فقہائے اسلام نے دھوئیں کو آلودگی کا مصدر قرار دیتے ہوئے اس کی تمام اقسام کو مضر اور نقصان دہ قرار دیا ہے۔قرآن کریم نے عذاب اليم سے اس کا وصف بیان فرمایاہے[21] ،جیساکہ قرآن کریم میں ہے:

"فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ"22

"تو اس دن کا انتظار کروکہ جب آسمان سے صاف دھواں نکلے گا۔"

قرآن کریم اورسنت نبویﷺ نے آج سے صدیوں پہلے دھوئیں کو مضراور نقصان دہ قرار دیا ہے آج کے جدید دور نے اس کی تصدیق کی اور دھوئیں کو نہ صرف یہ کہ نقصان دہ قرار دیا بلکہ اس حوالے سے مختلف ہلاکتوں کی بھی نشاندہی کی۔

گھریلو ضروریات کے علاوہ آج کل پلاسٹک کے تھیلوں اور دیگر اشیاءکے ساتھ استعمال ہونے والے پلاسٹک کے لفافوں کا بہت زیادہ استعمال ہوگیاہےجس کو لوگ جلاکر ماحول کو آلودہ کرتےہیں۔ اسی طرح تمباکو نوشی اورمشینوں کے بے دریغ استعمال سے جو دھواں پیدا ہوتا ہے اس کی روک تھام کے لئے منصوبہ بندی ہونا چاہیئے۔ ہمارے ملک میں جن گاڑیوں،رکشوں،موٹر سائیکلوں، فیکٹریوں کا استعمال ہوتا ہے وہ حقیقت میں دھوئیں کی ایسی مشینیں ہوا کرتے ہیں جن کا استعمال ترقی یافتہ ملکوں میں نہیں ہوسکتا ہے۔

(ب)۔ بد بو پھیلانے والی اشیاء پر پابندی لگانا

آلودگی کے حوالے سے عمومی اسلامی تعلیمات آئی ہیں جب کہ ہوائی یا فضائی آلودگی کے خطرے سے آگہی کے لئے اس قسم کی آلودگی کے حوالے سے خصوصی تعلیمات آئی ہیں۔ اس بابت میں نبی کریمﷺ نے مسجد جاتے وقت لہسن اور دیگر بدبودار اشیاءکھانے سے منع فرمایا ہےتاکہ دیگر نمازیوں کو کوئی تکلیف نہ ہو۔آپﷺ کا ارشاد ہے:

"مَنْ أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلًا فَلْيَعْتَزِلْنَا، أَوْ لِيَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا، وَلْيَقْعُدْ فِي بَيْتِه"23

"جس نے لہسن یا پیاز کھایا وہ ہم سے جدا ہوجائے، یا اس طرح فرمایا: وہ ہماری مسجد سے علیحدہ ہوجائے اور اس کو چاہیئے کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھ جائے۔"

اس سلسلے میں ان کارخانوں کو بند کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے جو زہریلی گیس پید اکرتی ہیں، جس سے بدبو بھی آتی ہے اور مضر صحت بھی ہے۔ اس حوالے سے قانون سازی تو ہوئی ہے لیکن حقیقتاً اس پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ان قوانین پر سختی سے عمل کیا جائےتاکہ ہوائی آلودگی کے مضر اثرات پر قابو پایا جاسکے۔

(ج)۔ شجر کاری کی ترغیب اورکٹائی کی روک تھام

نبی کریم ﷺ نے ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کے لئے درخت لگانے کی ترغیب دی ہے اور اس عمل کو صدقہ جاریہ قرار دیا ہے۔ آپﷺ نے شجر کاری کی فضیلت اور اہمیت کی وضاحت کرتےہوئے فرمایا:

"ما من مسلم يغرس غرسا أو يزرع زرعا فيأكل منه إنسان أو طير أو دابة إلا كان له صدقة"24

"جومسلمان شخص بھی کوئی درخت لگاتا ہے یا کوئی فصل کاشت کرتا ہے اور اس سے کوئی پرندہ، انسان یا چوپایہ کھاتا ہے تو اسے صدقے کا ثواب ملتا ہے۔"

اس حوالے سے شجرکاری کی مہم تو تقریباً زور وشور سے جاری ہے لیکن اس کے مقابلے میں درختوں کی کٹائی کا سلسلہ اس سے کہیں زیادہ ہے،جس کی وجہ سے آکسیجن دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔یہ ایک المناک حقیقت ہےکہ روزانہ کے حساب سے نباتات وحیوانات کی تقریباً دس قسمیں ختم ہوتی جارہی ہیں اور بارشیں برسانے والے جنگلات کے پندرہ ایکڑ سالانہ تباہ کئے جارہے ہیں اور دنیا میں موت کے گھاٹ اترنے والی چیزوں کا پچھتر فیصد حصہ ماحولیاتی آلودگی کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔25

اس لئے حکومت کا یہ اہم فریضہ ہے کہ جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے جو قانون سازئی ہوئی ہے اس کو عملی جامہ پہنایا جائےتاکہ جنگلات کی وجہ سے آلودگی کو کم کیا جاسکے۔

4۔ صوتی آلودگی

شور کی وجہ سے ماحول میں صوتی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔شور گاڑیوں، لاوڈسپیکروں اور مشینوں کی آوازوں سے پیدا ہوتاہے۔ شور وغل سےانسانی صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہےاورانسان اعصابی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوجاتا ہےاسی لئے قرآن کریم میں عام بول چال کے سلسلے میں آواز کو پست رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِك"26

"اور اپنی آواز کو پست رکھو۔"


صوتی آلودگی کے حوالے سے احتیاطی تدابیر

صوتی آلودگی سے بچنے کے لئے سب سے پہلے آوازوں کو پست کرناچاہیئے چاہےوہ اپنی آواز ہو یا لاؤڈ سپیکر کی آواز، مشین کی آواز ہویا گاڑی کی آواز، ہر اُس آواز کو پست کرنا ہے جو انسانی سماعت پر اثرانداز ہوتی ہو۔

1۔ شوروغل کی روک تھام کے لئے عملی حکمتِ عملی

شوروغل کے روک تھام کے لئے موثرعملی حکمتِ عملی ہونی چاہیئے، اس حوالے سے لاوڈ سپیکر کے استعمال اور کارخانوں کی بھاری مشینریوں کے شور وغل کو کم کرنے کے لئے تدابیر کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بلند آواز سے منع فرمایا ہے، ارشاد ہے:

"وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِير"27

"اور اپنی چال میں اعتدال کئے رہنا، اور بولتے وقت ذرا آواز نیچی رکھناکیونکہ نا پسندیدہ ترین آواز تو گدھے کی آواز ہے۔"

چونکہ آلودگی کی تمام قسمیں بشمولِ صوتی آلودگی انسان کے لئے مضر ہیں اور نبی کریم ﷺ نے نقصان اور ضرر سے بچنے کے لئے ایسا ارشاد فرمایا ہے جو آلودگی سمیت دیگر مقامات پر ضرر کی صورت ایک عمومی قاعدے کی حیثیت رکھتا ہے، نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:

"لا ضرر ولا ضرار"28

"نہ کسی کو نقصان پہنچانے میں پہل کرو اور نہ ہی نقصان کے بدلے نقصان پہنچاؤ۔"

2۔ آواز میں اعتدال سے کام لینا

اسلام نے جہاں تمام معاملات میں اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیا ہے،وہاں آواز کے بارے میں بھی میانہ روی کا درس دیا ہےاور افراط وتفریط سے بچنے کی تلقین کی ہے ، جیساکہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا"29

"اور نماز نہ بلند آ واز سے پڑھو اور نہ آہستہ بلکہ اس کے بیچ کا طریقہ اختیار کرو۔"

نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ آپﷺ نے اس باب میں باقاعدہ صحابہ کرامؓ کی عملی تربیت فرمائی، اور ان کو آواز میں افراط وتفریط سے بچنے اور اس میں میانہ روی کی تعلیم دینے کے لئے عملی اقدامات فرمائے۔ چنانچہ حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے:

"رسول اللہ ﷺ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گزرے جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے اور پست آواز میں تلاوت کر رہے تھے، اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گزرے جو بلند آواز سے قراءت کرتے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، جب وہ دونوں آپﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو آپﷺ نے حضرت ابو بکر سے فرمایا آپ آہستہ آواز سے کیوں نماز پڑھ رہے تھے ؟انہوں نے کہا کہ میں جس سے سرگوشی کر رہا تھا وہ میری آواز سن رہا تھا اور حضرت عمر سے پوچھا کہ آپ کیوں بلند آواز سے نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے کہا کہ میں اونگھنے والوں کو جگانا چاہ رہا تھا۔ اس پر آپﷺ نے حضرت ابو بکر سے فرمایا اپنی آواز کو کچھ بلند کر دو اور حضرت عمر سے فرمایا کہ اپنی آواز کو کچھ پست کر لو۔"30

3۔ صوتی آلودگی پھیلانے والوں کے خلاف تادیبی کاروائی

جولوگ صوتی آلودگی پھیلاتے ہیں اُن کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہیئے تاکہ آئندہ کے لئے لوگ اس قبیح فعل سے باز آجائیں۔نبی کریمﷺ نے صحابہ کرامؓ کو سمجھایا جس کی وجہ سے صحابہ کرامؓ اس حوالے سے محتاط رہتے تھےجیساکہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ مسجد نبویﷺ میں طائف کے دو آدمی بلند آواز سے باتیں کررہے تھے، حضرت عمرؓ نےاُن کا یہ عمل دیکھ اُن کو بلایا اور فرمایا:

"لو كنتما من أهل البلد لأوجعتكما، ترفعان أصواتكما في مسجد رسول الله؟!"

"اگرآپ شہر والوں میں سے ہوتے تو میں تمہیں سزا دیتا۔ کیاتم رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں آوازیں بلند کرتے ہو۔"

اس حدیث کی تشریح میں دکتور احمد عبدالکریم تحریرفرماتے ہیں:

"يدل الحديث على كراهة رفع الصوت عموماً واستقباح فعله ، لما في ذلك من ذهاب بالسكون والهدوء وإضرار بحاسة السمع"31

"یہ حدیث بلند آواز کی کراہت اور اس فعل کی قباحت پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ اس میں آرام وسکون متاثر ہو جاتا ہے اور سننے کی حس کو نقصان پہنچتا ہے۔"

5-معاشرتی آلودگی

عہدحاضرمیں انسانیت کے لئے جو مسائل زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں ان میں سب سے اہم بدعنوانی اورکرپشن کا مسئلہ ہے یہ ایک ایسا مسئلہ ہےجس سےآج پورا انسانی معاشرہ پریشان ہے۔ معاشرےکوگھن کی طرح چا ٹ کر کھوکھلا کرنے والی اس مہلک بیماری کا کوئی علاج دنیا کےپاس نہیں ہے چنانچہ قرآن مال کو نا جائز طریقوں سے کما نے کو حرام قرار دیتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے۔

"یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ إِنَّ اللّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْما"32

"اے ایمان والو ااپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناجائز طریقے سے مت کھاؤ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ تمہاری آپسی رضامندی سے کوئی سمجھوتا ہو گیا ہو۔ اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔ بلاشبہ اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے"

معاشرتی آلودگی کے حوالے سے احتیاطی تدابیر

جہاںتک معاشرتی آلودگی کےخاتمہ کامسئلہ ہے تو اسلام ہی وہ مذہب ہے جو اس ناگ کا سرکچل کر ہراس سوراخ کو بند کرتا ہے جہاں سے اس کے سر نکالنے کا اندیشہ ہو۔ وہ اس مہلک بیماری کا نہ صرف مکمل علاج کرتا ہے بلکہ اس کو پیدا کرنے والے جراثیموں کی بھی نسل کشی کردیتاہے۔ معاشرتی آلودگی کی روک تھام کے لئے چند تدابیر حسب ذیل ہیں:

1-حرام کمائی کی ممانعت

غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ بندوں کے حقوق کی پامالی میں حرام کمائی کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے حرام کمائی اور اس کی تمام شکلوں کو نا جائز ٹھہرایا ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے:

’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْماً إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِیْ بُطُونِہِمْ نَاراً وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْر‘‘َ33

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ یتیموں کا مال ظلم کے ذریعے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں کو آگ سے بھرتے ہیں۔ اور بہت جلد ہی وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈالے جائیں گے۔

آج سب سے زیادہ کرپشن رشوت کی شکل میں پھیل رہی ہے۔ رشوت ہی ہے جس کے ذریعے مستحقین کو ان کے حق سے محروم کر کے ان کا حق دوسروں کو دلوا دیا جاتا ہے۔ رشوت کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:

’’وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْنَکُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُواْ فَرِیْقاً مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُون‘‘۔34

"اور آپس میں تم ایک دوسرے کے مال کو ناجائز اور غلط طریقوں سے مت کھاؤ اور نہ انھیں حاکموں کے پاس لے جاؤ کہ (رشوت دے کر یا طاقت کے بل بوتے) لوگوں کا مال جانتے بوجھتے ہڑپ کر جاؤ"

ایسی سخت وعیدوں کے بعد بھی اگر کوئی مال حرام سے اپنے پیٹ کو بھرتا ہے، اور خدا کے بندوں کا استحصال کر تا ہے، تو ایسا شخص معاشرے کو تباہی میں ڈال رہا ہے۔ اور اس طرح کے لوگوں کا علاج سخت ترین قوانین کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔

2-ناپ تول میں کمی کی ممانعت

بازار تجارت ہو یا گھریلوو باہمی معاملات، اسلام اس بات کی شدید مذمت کرتا ہے کہ جھوٹ اور دھوکے کے ذریعہ لوگوں کا حق مارا جائے، اورناپ تول میں کمی کر کے عوام کو ان کی چیزیں گھٹا کر دی جائیں۔ ارشاد خداوندی ہے:

’’وَإِلَی مَدْیَنَ أَخَاہُمْ شُعَیْباً قَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّہَ مَا لَکُم مِّنْ إِلَہٍ غَیْرُہُ قَدْجَاء تْکُم بَیِّنَۃٌ مِّن رَّبِّکُمْ فَأَوْفُواْ الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْیَاء ہُمْ وَلاَ تُفْسِدُواْفِیْ الأَرْضِ بَعْدَإِصْلاَحِہَاذَلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْن‘‘۔35

"اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا۔ انھوں نے کہا: اے میری قوم، صرف اللہ کی عبادت کو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ تمہارے رب کی جانب سے تمہارے پاس کھلی نشانیاں آچکی ہیں۔ چنانچہ تم لوگ ناپ تول پوری پوری کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں سے گھٹا کر مت دو۔ اور زمین میں اس کی درستگی کے بعد بگاڑ مت پیدا کرو۔ یہ سب تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو)"

3-سود کی حرمت و شناعت

معاشرے میں بدعنوانی کو بڑھا وا دینے میں سود کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ آج سود کی وجہ سے دنیا کا معاشی نظام تباہ برباد ہو کر رہ گیا ہے۔ اسلام سود کو حرام و ناجائز قرار دیتا ہے اور سود خوری کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ تجارت دونوں فریق کے درمیان نفع و نقصان میں شرکت کے ساتھ ہونا چاہئے۔ صرف یک طرفہ فائدہ حاصل کرنا اور یک طرفہ نقصان اٹھانا بالکل درست نہیں۔ ارشاد خدا وندی ہے:

’’الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ الرِّبَا لاَ یَقُومُونَ إِلاَّ کَمَا یَقُومُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا‘36

"جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ( قیامت میں ) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر پاگل بنا دیا ہو، یہ اس لئے ہوگا کہ انھوں نے کہا تھا کے تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیاہے ور سود کو حرام قرار دیا ہے"

سود کتنی بڑی لعنت ہے کہ اس کے تعلق سے نبی ﷺ کا ارشاد ہے:

«لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ» ، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ» 37

"نبی پاک ﷺ نے لعنت فرمائی سود کھانے والے پر، سود کھلانے والے پر، سود کو لکھنے والے پر اور سود پر گواہ بننے والوں پر۔ اور فرمایا کہ (گناہ کے سلسلے میں ) یہ سب برابر ہیں "

4-شراب اور جوے پر پابندی

لوگوں کو بد عنوان بنا نے اور انسانی معاشرے میں بگاڑ اور فساد پیدا کرنے میں شراب اور جوئے کا بہت بڑا کردار ہے۔ یومیہ ہزاروں گھر انھیں کی وجہ سے ٹوٹ جاتے ہیں اور سالانہ لاکھوں لوگ نشہ خوری کے سبب ہلاک ہوجاتے ہیں۔ انسانی زندگیوں کو تباہ کر نے والے اس ناسور کے تعلق سے اللہ کا فرمان ہے:

’’إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون‘‘۔ 38

"اے ایمان والو! یقیناََ شراب اور جوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے )فال کا تیر(سب)ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے کوسوں دور رہو، تاکے تم کامیاب ہو سکو"

بھلے ہی شراب اور جوئے سے لوگ کتنا ہی نفع کماتے ہوں لیکن ان سے ہونے والے نقصان کے سامنے ان کا نفع بہت معمولی ہے۔

ماحولیاتی مسائل، جن کے گرداب میں آ ج پوری دنیا مبتلا ہے، انسان کی خود اپنی حماقت کا نتیجہ ہے۔ اور اس کا بڑا سبب انسان کا اپنے مقام کو نہ پہچاننا، جس کی وجہ سے اس سے نیچے اتر آنا ہے۔ انسان اگر اپنے فطری مقام پر برقرار رہتا تویہ مسائل پیدا ہی نہ ہوتے، یاکم از کم اس قدر سخت صورت حال پیدا نہ ہوتی۔ اسلام نےخصوصاً نبی کریم ﷺ نے اس حوالے سے جس قدر بھی بنیادی عنوان بنتے ہیں، ہرایک کے بارے میں کہیں مفصل کہیں اجمالی طور پر ہدایت فراہم کر دی ہیں، اور چودہ صدی گزرنے کے باوجود ان کی اہمیت آج بھی واضح ہے، یہ تعلیمات اگر آج ہماری زندگی کا حصہ بن جائیں تو ہمارا ماحول از خود فطری اصولوں پر استوار ہو سکتا ہے۔

نتائجِ بحث:

ماحولیاتی و موسمیاتی تغیرات سے متعلق عوامی ذمہ داریاں اور آگہی ( سیرت النبیﷺ کی روشنی میں) کے عنوان سے کی جانے والی اس تحقیق سے جو نتائج اخذ ہوئے وہ درج ذیل ہیں:

1۔ماحولیاتی آلودگی عالمی سطح پر ایک خطرناک مسئلہ بنتا جارہا ہے، سیرت طیبہ کی رو سے اس کے سدِ باب کے لئے کاوشیں تمام افرادِمعاشرے کی ذمہ داری ہیں اس لئے مل کر اس کے خلاف جدوجہد کرنا امت کی ذمہ داری ہے۔

2۔زمینی آلودگی کا ممکنہ حل صفائی ہے اورمٹی کو گندگی سے پاک وصاف رکھنا ہے، نبی کریم ﷺ نے بھی اپنی تعلیمات سے اس بات کی ترغیب دی ہے جو اس مسئلے کا بہترین حل ہے۔

3۔آبی آلودگی کی روک تھام کے لئے نبی کریمﷺ کی کاوشیں قابل تقلید نمونہ ہیں۔پانی کو صاف رکھنا اور گندگی سے بچانا، اسی طرح پانی کے برتنوں کو صاف رکھنا اور پانی کے اسراف سے بچنا آبی آلودگی سے بچنے کے لئے راہنما اصول اور مؤثر احتیاطی تدابیرہیں۔

4۔ہوائی آلودگی کے بنیادی عناصر مثلاً زہریلی گیسوں اور دھوئیں کی روک تھام کے لئے سیرتِ طیبہ کی روشنی میں مؤثر حکمتِ عملی تجویز کی گئی ہے۔اس قسم کی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لئے شجرکاری کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور جنگلات کی کٹائی سے منع ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔

5۔صوتی آلودگی کی روک تھام کے لئے بھی سیرت طیبہ نے ایسے اصول پیش کئے ہیں جن پر عمل کرنے سے صوتی آلودگی میں کمی ہوسکتی ہے۔

سفارشات:

1۔ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے اسلامی تعلیمات سے لوگوں کی اگہی اہل علم کی ذمہ داری ہے، اس میدان میں صاحبانِ ممبر ومحراب اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کہ وہ عوام کو سمجھائیں کہ وہ ان اعمال وافعال کا حصہ نہ بنیں جو ماحولیاتی آلودگی کا سبب ہوں۔

2۔ما حولیاتی آلودگی پر منعقدکردہ کانفرنسوں میں پیش کئے گئے مقالہ جات کو اربابِ مدارس اور صاحبانِ ممبر ومحراب تک پہنچانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس موضوع پر ان اسلامی تعلیمات کو پڑھ کر عوام الناس تک یہ اہم پیغام پہنچائیں۔

3۔اس موضوع پر لکھے گئے مقالہ جات کو اخبارات اور دیگر رسائل وجرائد میں شائع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں میں اس حوالے سے آگہی پیدا ہوجائے۔

4۔اگر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا اس حوالے سے بھرپور کردار ادا کرے اور عوام میں یہ شعور بیدار کرے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب نہ بنیں، تو اس سے اس خطرناک عالمی مسئلے میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔

5۔حکومت اپنی ذمہ داری ادا کرکے مختلف کانفرسوں کا انعقاد کرے اور ماہرین کی آراء کی روشنی میں قانون سازی کرے ، پھر اس کو عملی جامہ پہنائےتاکہ اس مسئلے کا تدارک ہوسکے۔

6۔ ماحول کے تحفظ کے حوالے سے انسان میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے والے عوامل اسلامی تعلیمات میں موجود ہیں لہذا ریاستی سطح پر لوگوں کو بنیادی اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

7۔ ماحول کے تحفظ کے حوالے سے رسول اکرمﷺ کی سیرت طیبہ سے آگاہی مہم کا ریاستی سطح پر اہتمام کیا جانا چاہیے۔

8۔ لوگوں کے اندر ماحول کے تحفظ کا اجتماعی شعور اجاگر کرنے کے حوالے سے شہر، گلی، محلے کی سطح پر اقدامات انجام دیے جانے چاہئیں۔

9۔ کسانوں کی بھرپور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور شجر کاری کو ریاستی سطح پر فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔

10۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو بچوں اور نوجوانوں کو ماحول کے ساتھ دوستی کا سبق پڑھانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

11۔ کارخانہ جات کو شہروں سے دور رکھنے کا اہتمام اور ممکنہ حد تک زیاں آور ذرات کو ماحول میں چھوڑنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ نیز صنعتکاروں کو ذاتی مفادات پر قومی اور انسانی مفادات کو فوقیت دینی چاہیے ۔





1Zain al-dīn Al-Rāzī, Mukhtār Al-ṣihāh (Beirut: Maktaba Labnān, 1995 AD), 1 : 28.

2Al-Ḥashr : 9.

3Muḥammad ‘Abd al-Qādir Al-Faqī, Al-Bei’at, Mashākilihā Wa Qaẓāyāhā Wa ḥimāyatihā Min al-talūth (Maktabah Ibn-e-Sīnā, 1999 AD), 14.

4Muḥammad Bin Mukarram Bin Manẓūr, Lisān al-‘arab, Mādah (Lūth), 2 : 187.

5Dr. ‘Abd al-karīm Salāmah, Qānūn ḥimāyat al-Bai’at al-Islāmī Maqāranihā Bil Qawānīn al-Waḍi‘ah (Beirūt: Dār Ibn-e ḥazm, SN), 28.

6Mu’aqaf al-qur’ān Min al-Ba‘th al-Bashrī Bil Baī’at, 5.

7Muslim Bin al-Ḥajjāj, Al-Jāmi‘ Al-Ṣaḥīḥ, Bāb: Ja‘alat Lil Arḍ Masjidan Watahūran, 521.

8Aḥmad Bin Al-Ḥussain Al-Bahaqī, Al-Sunan al-Kubrā (Haiderabad: Majlis Dā’irat Al-ma‘ārif al-Nizāmia, 1334 AH), 1: 97.

9Ibn-eḤabbān, Al-Saḥīḥ, Bāb: Al-Imān Biḍ‘un Wa Sab‘ūna Shu‘bah, Hadith No. 191.

10Ibn-e-Khuzaimah, Al-Ṣahīḥ, Bāb: Zik al-‘ilat Al-Latī Lahā Amrun Bi dafni Al-Nukhāmati Fi al-Masjid, Hadith no. 1311.

11Ibn-eḤabbān, Al-Saḥīḥ, Bāb: Zikr al-Akhbāru ‘an Kaffāratu al-Khatī’at al-latī Taktubu Liman Biṣiqqin Fi al-masjid, Hadith No. 1637.

12Muḥammad ‘Alī Al-Bikrī, Dalīl al-Fāliḥīn Li ṭurqi Riyāḍ al-Sāliḥīn (Beirūt: Dār al-m‘rifah Lil ṭabā‘at, 2004 AD), 8 : 517.

13Sulemān Bin Ash‘ath, Al-Sunan Abī Dā’ūd, Bāb: Fī Bi’ri Biḍā‘at, Hadith No.70.

14Muḥammad bin Yazīd Ibn-e-Mājjah, Al-Sunan, Bāb: Mā Jā’a Fī al-Qaṣdi Fī al-Wuḍū’I Wa Karāhiyati al-Ta‘addī Fīhi, Hadith No. 425.

15Al-Tiyālsī, Al-Musnad, Hadīth No. 1668.

16Ibn-e-‘Ābidīn, Muḥammad Amīn, Radd al-Muḥtār (Beirūt: Dār al-Fikr, 2nd Edition, 1992 AD), 1 : 158.

17صاع ایک پیمانہ ہےجس میں چار مد آتے ہیں Al-maūsū‘ah al-Faqīhat al-Kuwītiyat, Wazārat al-Auqāf Wa al-shi’ūn al-Islāmiyyah (Al-Kuwīt: Dār al-Salāsil 2nd Edition, SN), 38 : 296.

18Abī ‘Awānah, Al-Mustakhraj, Fī Bayān al-Akhbār al-mūjibati Taghṭiyyati al-anā’u wa īkā’u, Hadīth no. 8608.

19Ibn-e-Abī Sheibah, Al-Muṣannaf, Kitāb al-ashribat, Hadīth no. 34.

20 http://www.bbc.com/urdu/science/2014/03/140325_air_pollution_danger_zs

21Al-Bei’at wa al-ḥuffāẓ ‘Alaīhā min Manẓūr Islāmī, 75.

22Al-Dukhān: 10,11.

23Ibn-e-Khuzaimah, Al-Ṣahīḥ, Hadith no. 1664.

24Abī ‘Awānah, Al-Mustakhraj, Hadīth no. 8608.

25 Dr. Muḥammad al-Ziyādī, Al-Islām wa al-bei’at, 26.

26Luqmān: 19.

27Luqmān: 19.

28Mu’attā Imām Mālik, Bab: Al-Qaẓā’ Fī almirāfi, Hadīth No. 31.

29Al-Asrā’: 110.

30 Al-Mustadrak ‘Alā Al-Ṣaḥīḥein Lil Ḥākim, Hadīth no. 1168.

31Qānūn ḥimāyat al-baī’at al-Islāmī Maqāranan Bil Qawānīn al-Waḍ‘iyyah, 339-341.

32Al-Nisā’: 29.

33Al-Nisā’: 10.

34Al-Baqarah: 188.

35Al-A‘rāf: 84

36Al-Baqarah: 275.

37Muslim Bin al-Ḥajjāj, Al-Jāmi‘ Al-Ṣaḥīḥ, Bāb: La‘ni Akali al-Ribwā wa Mu’kilihī, Hadīth no. 1598.

38Al-Mā’idah: 90.

Malik Yar Muhammad (MYM) Research Center (SMC-Private) Limited, Bahawalpur

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index