Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of World Researches > Volume 1 Issue 1 of Journal of World Researches

ا حتساب اور احتساب بیوروکا تصور سیرت النبی ﷺ کے تناظر میں اجمالی جائزہ |
Journal of World Researches
Journal of World Researches

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2021

ARI Id

1682060064183_2128

Pages

12-21

PDF URL

https://jwr.bwo.org.pk/index.php/jwr/article/download/2/24

Chapter URL

https://jwr.bwo.org.pk/index.php/jwr/article/view/2

Subjects

Quran-e- Aval humanity Accountability oppression Dewan al-Ahtsab welfare legislators judiciary

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

کسی بھی ملک کی معاشرتی اور معاشی بقا کے لیے احتساب کا نظام بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔ اس نظام کے ذریعے مختلف شعبہ جات میں ہونے والی بد عنوانیوں اور اخلاقی بے ضابطیگیوں کو روکا جا سکتا ہے۔ نبی کریم ﷺنے جب مدینہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تو اسلامی احکامات کی روشنی میں احتساب کے لیے بنیادی ادارے مقننہ ، انتظامیہ ،عدلیہ بنائے۔ اسلامی ریاست کے انتظامی اداروں میں ایک ادارہ احتساب بیورو بھی تھا ان اداروں کا مقصد انسانیت کی ترقی ، فلاح و بہبود اور انسداد مظالم کا خاتمہ تھا ۔

اس مقالے کا مقصد قرن اول میں موجود انتظامی ادارہ احتساب کی اہمیت کو واضح کرنا اور یہ کہ نبی کریم ﷺکے دور میں یہ ایک فعال ادارہ تھا اور اس ادارہ کی نظر میں تمام لوگ برابر تھے اور ان کو ان کے جرم کی سزا دی جاتی تھی ۔نبی کریم ﷺ نے احتساب کے جو ادارے متعارف کروائے ایسے ادارےاس سے پہلے نہ تھے ۔یہ ادارے اگرچہ کہ اپنی ابتدائی شکل میں تھے لیکن بعد میں آنے والے مسلمان حکمرانوں نے ان کو مکمل نظام کی صورت دی جس کے ذریعے کرپٹ مافیا کی بیخ کنی کی گئی ۔آج موجودہ دور میں بھی یہی ادارے موجود ہیں لیکن ان کے نام بدل دئیے گے ہیں ۔ بعض غیر مسلم ممالک نے اومبڈس مین کے نام سے اپنے ممالک میں ایسے ادارے قائم کیے ہیں ۔

سوال تحقیق :

1 احتساب کا ادارہ ریاست کے نظام کو مربوط اور منظم کرتا ہے۔

2 ریاستی ادارے نظام احتساب کے بغیر بہتر کار کردگی نہیں دے سکتے ۔

3 مالی معاملات میں بد عنوانی اور کرپشن کی صورت میں احتساب بیورو احتساب کرتا ہے ۔

4 شعبہ ہائے ریاست میں احتساب بیورو ملاوٹ ، دھوکہ دہی ، ناپ تول میں کمی اور ناجائز معاملات کی روک تھام کرتا ہے ۔

5 معاشرے کے بگاڑ اور بہتری کے لیے احتساب بیورو کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔

سابقہ کام کا جائزہ :

اس عنوان کے تحت 2009ء میں ایم فل کی سطح پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں مقالہ "اسلام کا دیوانی نظام اور احتساب پاکستان "2011ء میں بہاولپور یونیورسٹی میں ایم فل کی سطح پر مقالہ " اسلام کا عسکری نظام اور احتساب " اور 2008ء میں گومل یونیورسٹی میں ایم اےکی سطح پر " اسلام کا نظام احتساب " مقالہ لکھا گیا لیکن "احتساب اوراحتساب بیورو کا تصور سیرت نبوی ﷺ کے تناظر میں " پر اب تک کوئی کام نہیں ہوا ۔اس مقالہ میں احتساب اور احتساب بیورو کی اہمیت اور ضرورت اور ان اداروں کے فرائض منصبی سیرت نبوی ﷺ کے تناظر میں جائزہ لیا جائے گا ۔

تعارف:

قرآن مجید اور سنت نبویﷺ میں اُمت مسلمہ کو جو فرائض اور ذمہ داریاں بطور اُمت وسط و خیرالامم سپرد کی ان کی انجام دہی کا تنظیمی ذریعہ ہمارے سامنے خلافت و امامت ہی کی صورت میں ہے۔ اقامت صلوٰۃ اور زکوۃ کے نظام کا نفاذ حدود ، تعزیرات اور بین الاقوامی قانون اور ان احکامات پر عمل درآمد کروانا ریاست کی ذمہ داری ہے ۔تمام اجتماعی ذمہ داریوں کو پورا کرنا تمام اُمت مسلمہ کے لیے فرض کفایہ ہے اور امامت یعنی حکومت وقت اس فرض کو اُمت مسلمہ کے نائب کے طور پر انجام دیتی ہے ۔ امام قرطبی ان ذمہ داریوں اور ان کی انجام دہی پر بات کرتے ہوئے سورۃ نور کی دوسری آیت کی تفسیر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں :

" الخطاب للمسلمین ، لاءن اقامۃ مراسیم الدین واجبۃ علی المسلمین ،ثم الامام نیوب عنھم، اذلایمکنھم الاجتماع علی اقامۃ الحدود"1

"یہ خطاب تمام مسلمانوں سے ہے اس لئے کہ دین کے احکام کو قائم کرنا سب مسلمانوں کی مجموعی ذمہ داری ہے ، حکومت کی حیثیت صرف ان کے نائب کی ہے اس لئے کہ سب مسلمان مل کر حدود کا نفاذ نہیں کر سکتے"

حکمران عوام کا نمائندہ اور حضور نبی کریم ﷺ کا جانشین ہوتا ہے اسلامی ریاست کے حکمران کی دو حیثیتں ہوتی ہیں ایک نبی ﷺ کا جانشین اور دوسرا عوام کا نمائندہ اس کے ذمہ کئئ ذمہ داریاں ہوتی ہیں ان میں سے ایک اہم ذمہ داری اخلاقی ذمہ داری ہے وہ اسلامی اخلاقیات اور اقدار کی نشونما ، بقا و تحفظ اور اس کے ساتھ ساتھ غیر اخلاقی اقدار کی بیخ کنی کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ اسلام میں امر بالعروف اور نہی عن المنکر کو ایک فریضہ قرار دیا ہے ۔ اجتماعی اور ریاستی سطح پر کسی باقاعدہ ادارے کے بغیر اس فریضے کو ادا نہیں کیا جا سکتا اس لیے قرن اوّل میں "حسبہ "کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا جس کو اُردو میں احتساب کا نام دیا گیا ہے ۔

ریاست کی بقا اور استحکام کے لیے جس طرح مقّننہ اور عدلیہ کا نظام اہم ہے وہاں احتساب کا نظام بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے اسلام ہمہ گیر نظام کا حامل دین ہے جس کا اپنا قانون حیات ہے یہ نظام ایک ایسا نظام ہے جو زندگی کے دونوں شعبہ جات انفرادی اور اجتماعی کو بہت اہمیت دیتا ہے ۔نبی کریم ﷺنے زندگی کے ہر شعبہ جات کے لیے رہنما اُصول مرتب کیے ہیں جن کو سامنے رکھ کر ہم نہ صرف دنیا میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ان جامع تعلیمات سے زندگی کے دوسرے شعبوں کے لیے بہترین لائحہ عمل فراہم ہوتا ہے ۔ 2

آنحضور ﷺ نے مدینہ کی ریاست کو جن دساتیرپر استوار کیا ان سے ملکی نظام چلانے ، حکمرانی و سیاست کرنے اور ان نظاموں کو بہترین اور فعال بنانے کے لیے مکمل اور ابدی ہدایت دی جن پر عمل پیرا ہو کر اُمت مسلمہ کو مسائل کی دلدل سے نکال کر اُن کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکتا ہے ۔نبی کریم ﷺنے مدینہ کی ریاست میں مقننہ ،عدلیہ اور انتظامیہ جیسے ادارے متعارف کروائے جو اس سے پہلے متعارف نہ تھے ۔ اور ایک اہم ادارہ احتساب بھی بنایا جن کا مقصد انسانیت کی ترقی ، فلاح و بہبود اور لوگوں کو مظالم کے ظلم سے نجات دلانا اور لوگوں کو ان کے حقوق فراہم کرنا تھا ۔

کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ اس کے معاشی ،معاشرتی اقتصادی ، سیاسی نظام مستحکم اور پائیدار ہو وہاں اس کے احتسابی نظام کا مضبوط اور مستحکم ہونا بھی بہت ضروری ہے ۔اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ نظام کائنات کے خطہ زمین پر فساد کا پھیلنا اور انسانوں کا ایک دوسرے پر ظلم و ستم اور جبرو تشدد کرنا اور زمین پر بد امنی پھیل جانا انسان کی اپنی سیاہ کاریوں ، برائیوں اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہے ۔ ان تمام برائیوں کا سبب یہ ہے کہ جب انسان اللہ کے احکامات سےغافل ہوتا ہے اور اپنے فرائض سے روگردانی کرتا ہے تو تباہی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان آہستہ آہستہ برائی میں دھنستا چلا جاتا ہے اور واپسی کا کو ئی راستہ نہیں بچتا ۔3

انسان اگر اللہ کے بتائے ہوئے احکا مات کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے اور اپنے فرائض و حقوق کو ادا کرتا اور نواہی و منکرات سے اجتناب کرتا ہے تو ایسا انسان اپنا محاسبہ بھی خود کرتارہتا ہےجس کی وجہ سے نہ صرف اس کی اپنی زندگی بھی محفوظ ہوتی ہے اور دنیا کے نظام کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا ۔قرآن پاک میں اس بات کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اعمال کا نتیجہ کہا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "

"ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ

الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ "4

"خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تاکہ خدا ان کو انکے بعض عملوں کا مزہ چکھائے عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں"

جو لوگ اللہ کی زمین میں فساد کرتے ہیں اور اس میں ناحق خون کرتے ہیں تواللہ ان کو ان کے جرم کے بدلے تباہ و برباد کر دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ آخرت کی سزا سے پہلے اس دنیا میں انسانوں کو ان کے تمام اعمال کا نہیں بلکہ بعض اعمال کا برا نتیجہ اس لیے دکھاتا ہے کہ وہ حقیقت کو سمجھیں اور اپنے تخیلات کی غلطی کو محسوس کر کے اس عقیدہ صالحہ کی طرف رجوع کریں ۔

" یہ فساد صرف اس لیے پھیلا ،یہ طوفان فقط اس لئے برپا ہوا کہ اللہ اس کے ذریعے مخلوق کو بد اعمالیوں کا مزا چکھانا چاہتا ہے تاکہ جن کی قسمت میں ہدایت ہو وہ غلط راستے سے لوٹ کرراہ راست اور صراطِ مستقیم پر واپس آ جائیں "5

احتساب کا مفہوم :

احتساب کا مطلب حساب کتاب ،گنتی ، عیب و صواب کی جانچ پڑتال ، باز پرس ، دیکھ بھال ، جائزہ اور روک ٹوک کے ہیں اللہ کی صفات میں سے ایک صفت "الحسیب" بھی ہے ۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ:

" و کفی باللہ حسیبا "6

"اور اللہ حساب لینے کے لیے کافی ہے "

لغوی معنی :

یہ باب افعال کا مصدر ہے اس کا مجرد حَسبَ ہے جس کے بارے میں علامہ جوہری فرماتے ہیں :"حسب حسبہ احسبہ بالضعم حسبا و حسابا و حسبانا و حسابۃ ، اذ عددتۃ"7

احتساب ح،ص،ب کے الفاظ سے مرکب ہے جس کے مختلف علماء نے مختلف معانی بیان کیے ہیں جن میں چند یہ ہیں ۔

1۔باب نصر سے حسبہ، حسابًا وحسباً،حسباناًاور حسبہ و حسابۃ کے معنی شمار کرنے اور گننے کے ہیں

2۔ حاسبہ محا سبۃ و حساباً حساب کی جانچ پڑتال کرنا ۔

3۔تحاسباً ، آپس کے حساب کی جانچ پڑتال کرنا ، آپس کا حساب درست کرنا ۔

"احتساب ان معانی میں بھی مستعمل ہے

(1) حتسب الامر ، شمار کرنا ، گمان کرنا

(2) احتسب ما عند فلان ، دوسروں کے پاس موجود چیز کا حساب ، شمار ،آزمائش کرنا

(3) حتسب علیہ الامر ، امر منکر سے منع کرنا

(4) احتسب عنہ ، رک جانا باز رہنا " 8

احتساب کی اصطلاحی تعریف:

اصطلاح شرعی میں احتساب سے مراد جب نیکی ترک ہو جائے اس وقت معروف کا حکم دینا اور جب برائی کا ارتکاب ظاہر ہو تو منکر سے روکنا اور لوگوں کے درمیان صلح کرانا احتساب ہے ۔

امام غزالی نے احتساب کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :

"عبارۃ عن المنع عن منکرلحق اللہ صیانۃ للممنوع عن مقارفۃ المنکر"9

"احتساب سے مراد یہ ہے کہ اللہ سے متعلق کسی منکر کو ناپسندیدہ کام کے ارتکاب سے روکا جائے تاکہ جس کو روکا جارہا ہے وہ اس برائی کے ارتکاب سے باز رہے"

امام شافعی فقیہ قاضی ابو الحسن علی بن احمد بن حبیب البصری البغدادی الماوردی نے اور اسی کے زمانے کے ایک مشہور حنبلی فقیہ قاضی ابو یعلی محمد بن الحسین الضرٗاء نے احتساب کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :۔

"ھو امر بالمعروف اذاظھرترکہ و نھی عن المنکر اذا ظھر فعلہ" 10

"احتساب سے مراد اچھائی کا حکم دینا جب اس کو چھوڑ دینا عام ہو جائے اور(لوگ) کھلم کھلا اس کو چھوڑا جانے لگے ، اور برائی سے روکنا جبکہ اس کو کھلم کھلا کیا جانے لگے "

قرن اوّل کی پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد:

نبی کریم ﷺ جب مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے آئے تو آپ نے یہاں ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جس میں تما م لوگوں کے حقوق و فرائض کا خیال رکھا گیا اور جن لوگوں سے خطرہ تھا اُن کے ساتھ آپ ﷺ نے معاہدے کیے۔ آپﷺ نے لوگوں کو ضابطے اور قانون کے مطابق زندگی گزرانے کا سلیقہ سکھایا اور یہ تعلیم دی کہ لا قانونیت سے معاشرتی نظام بگڑتا اور امن و امان تباہ ہو جاتا ہے ۔ آپ ﷺ نے بڑی طاقتوں سے خطرہ محسوس کیا اور ان سے معاشرتی امن وامان کی خاطر معاہدے کیے تاکہ دینا کے متعصب اور تنگ ظرف یہ الزام عائد نہ کر سکیں کہ فرزندان اسلام برسراقتدار آنے کے بعد اپنی نظریاتی اختلاف رکھنے والی رعایا اور اقلیت کے ساتھ متشددانہ یا انتہا پسندانہ سلوک روا رکھتے ہیں ۔

"میثاق مدینہ، عام مورخین کے نزدیک ایک دفاعی معاہدہ تھا، لیکن اگر غور سے اس کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ یہ دنیا کی تاریخ ساز اور انقلاب انگیز دستاویز تھی اس کے نتیجے میں ایسی نظریاتی اور فلاحی ریاست وجود میں آئی جس نے انسانی تاریخ کے دھارے کا رُخ موڑ دیا اس دستاویز میں ریاست کی بنیادی پالیسی ، شہریوں کے حقوق و فرائض ،ریاست کے دفاع و استحکام کا لائحہ عمل تجویز کیا گیا "11

اسلامی نظام حکومت کی اساس:

مدینہ میں جو اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا اُس کی اساس ہی اس عقیدے پر تھی کہ اللہ ہی خالق و مالک ہے اور حکومت و سلطنت اللہ کی ہے انسان اُس کا نائب ہے ہی قرآن میں اساس کو بیان کیا گیا ہے :

"إنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ"12

"خدا کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے اس نہ ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو"

پھر اس کے بندوں میں سے اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار کچھ لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے عطاکیا ہےاگر کوئی حاکم ریاست اللہ تعالیٰ کے تفویض کردہ اختیارات سے تجاوز کرے اور اسلامی ریاست میں من چاہے احکامات کا نفاذ کرنے لگے تو اللہ حاسب بھی ہے اور جب وہ احتساب کرے گا تو کوئی بچ نہیں سکے گا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

"أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ"13

"سن لو کہ حکم اسی کا ہے اور وہ نہایت جلد حساب لینے والا ہے"

درحقیقیت کسی بھی اسلامی ریاست میں حکمران کی چار بنیادی ذمہ داریاں ہیں نماز کا قائم کرنا ، زکوۃ کا نظام قائم کرنا ،نیکی کا حکم دینا اور منکر سے منع کرنا ۔ انسانیت کی فلاح و بہبود انہی نکات میں مضمر ہے ان کی معاشی ، معاشرتی اور سماجی حقوق کا تحفظ انہی چار باتوں کے ذریعے ممکن ہے۔

"اسلام نے امیر ریاست کے فرائض متعین کیے ہیں، امیر کے لیے ضروری ہے کہ وہ رعایا کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے معروف کی تاکید اور منکرات کی روک تھام کرے عہد ے کی حرص نہ کرے ۔ امیر کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ اپنی حکمرانی کو بنیاد بنا کر اپنے لئے ترجیحی سہولتیں حاصل نہ کرے ، عوام کے لئے امیر تک پہنچنے میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں اور وہ امور سلطنت اپنے ساتھیوں کے مشورے سے انجام دے ۔ امیر کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ عوام کی معاشی حالت کا وقتا فوقتاجائزہ لیتا رہے تاکہ وہ پر سکون ، مطمئن اور آسودہ حال زندگی بسر کر سکیں"14

محکمہ احتساب(احتساب بیورو) کی ضرورت :

ریاست کی معاشرتی ، معاشی اور اخلاقی زندگی میں احتسابی اداروں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتامعاشرے میں پیدا ہونی والی بد عنوانیوں اور خیانت کی بنا پر ریاست کی زندگی میں عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے ان احتسابی اداروں کا کردار عدم توازن کو دور کرنے کے لیے ایک مسلمہ حقیقت رکھتا ہے ۔ ریاست کا یہ ادارہ ملازمین کے عمومی کردار کا جائزہ لیتا ہے تاکہ بد عنوانیوں ، خیانت اور اختیارات کا جائزہ لیا جا سکے اور ناجائز استعمال پر ان کو سزا دی جائے ۔

"اسی طرح محکمہ احتساب کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دھوکہ بازوں اور کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کرنے والوں کا قلع قمع کرے کیوں کے یہ وہ لوگ ہیں جو اُمت کی بہبود و ترقی اور اس کے مصلح کے سب سے بڑے دُشمن ہیں"15

خواجہ نظام الملک طوسی فرماتے ہیں کہ ریاست کے معاشی امور میں بالخصوص تجارتی بد عنوانیوں کی اصلاح کے لئے محتسب کا تقرر انتہائی ضروری قرار دیتے ہیں وہ بیان کرتے ہیں :

"ہر شہر میں محتسب کا تقرر کیا جائے جس کا فرض ہو کہ ترازؤں اور نرخوں کو صحیح رکھے خریدوفروخت کی نگرانی کرے تاکہ اس میں کوئی خرابی راہ نہ پا سکے نیز تاجر دھوکا اوربد دیانتی نہ کریں عمال محصول کے طور پر صرف جائز مال لوگوں سے وصول کریں اور دوسرے یہ کہ حصول مال میں سختی نہ کریں"16

اسلامی نظام جن اصولوں پر قائم ہے وہ اپنی خصوصیات کی بنا پرپر تمام دنیا کے معاشرتی نظاموں سے منفرد ہے اسلام کا معاشرتی نظام خیر و اصلاح ، طہارت و تقدس ، ہمدردی و خیر خواہی اور اعتدال و توازن پر قائم ہے ۔ ان تمام خصوصیات کے باوجود ہر ادارے میں احتساب کے ادارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔

مولانا ابو الکلام آزادؒ لکھتے ہیں :

"احتساب ایک سنہری زنجیر ہے ، جس میں تمدن ، اخلاق ، مذہب اور معاشرت کی تمام جزئیات جکڑی ہوئی ہیں ، اگر اس کی بندش ڈھیلی پڑ جائے تو دفعتاً نظام عالم کی ایک ایک کڑی درہم برہم ہو جائے ، اسی غرض سے دنیا نے احتساب کو مختلف صورتوں میں قائم کھا "17

قرن اوّل کے احتساب کے ادارے:

قرن اوّل میں نبی کریم ﷺنے مسلمانوں کی اس طرح تربیت کی کہ ہر مسلمان اپنے آپ کو محتسب خیال کرتا تھا ۔ اسلامی اخلاقیات کی ترویج اقدار کی بالادستی کے لیے مقدور بھر جہدو جہد کرتا تھا ۔احتساب اور حسبہ کا ادارہ ہمیشہ ہی ایک عدالتی یا نیم عدالتی ادارہ سمجھا گیا ہے۔ صدر اسلام میں جب رسولﷺ اور خلفائے را شدین خود براہ راست عدالتی اپیل کے فرائض انجام دیتے تھے تو حسبہ کی اعلیٰ ترین عدالت یعنی محتسب اعلیٰ کے ذمہ داریاں بھی اکثر و بیشتر خود ہی انجام دیتے لیکن جوں جوں اسلامی ریاست کی حدود پھیلتی گئیں حکومت کے کام میں بھی وسعت پیدا ہوئی اور سارے ادارے علیحدہ ہو گئے اس طرح پہلی صدی کے اواخر تک حسبہ کا باقاعدہ اور مستقل بالذات ادارہ وجود میں آ چکا تھا اور مجموعی نظام عدل کا حصہ بن چکا تھا۔ احتساب کا ادارہ ادارہ قضااور ادارہ مظالم کے درمیان ایک بین بین حیثیت رکھتا ہے ۔ "احتساب اور قضا دو پہلوؤں میں سے بالکل ایک پہلو ہے دو پہلوں میں احتساب کی حیثیت قضا ء سے کم اور دو پہلوؤں میں زیادہ ہے" 18

ہر مسلمان فرض سمجھتا تھا کہ لوگوں کو اچھائی کی طرف مائل کرے اور اسے برائیوں سے دور رہنے کا درس دے اس سلسلے میں قرآن نے بھی مسلمانوں کو ایک دوسرے کا دوست اور ہمدرد کہا ہے اس لیے سب کو اچھی بات کی تلقین کرتے ہیں اسی طرح رسول اللہ نے شوہر اور بیوی دونوں کو راعی کہا ہے اور خاندان کے افراد کو ان کی رعایا بس جس طرح چرواہا اپنے گلے کی حفاظت کرتا ہے اس کے کھانے ، حفاظت اور بہبود کا خیال رکھتا ہے اسی طرح باپ اپنے بال بچوں کا خیال رکھتا ہے ان کو نیکیاں کرنے اور برائی سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔ ایک اچھا معاشرہ اپنے مسلمان بھائیوں کا خیال رکھتا ہےوہ ان کو برائیوں کے ارتکاب سے بچاتاہے ۔ جبکہ معاشرے میں کچھ ایسے بھی افراد ہوتے ہیں جو ڈنڈے کے بغیر بد اخلاقی سے باز نہیں آتے ایسے لوگوں کو برائی کرنے اور برائی پھیلانے سے باز رکھنے کے لیے سزا کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ریاستی اور حکومتی سطح پرایسے ہی لوگوں کے تنقینہ دماغ کے لیے احتساب کا ادارہ بہت ضروری ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ:

" رسول اللہﷺ بعض اوقات سارے صحابہ کرام کو بھی اس طرح کے کاموں کے لیے بازار بھتیجے رہتے تھے ایسی طرح کا ایک واقع التراتیب الادار میں بیان ہیں "19

قرآن مجید کی سورۃ حج کی آیت نمبر 41 میں یہ بات واضح طور پر بیان کیا ہے کہ احتساب کے کام کو مسلمانوں کے اہم ریاستی اور حکومتی کاموں میں سے ایک بتایا گیا ہے جس معاشرے میں لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے کام کو چھوڑ ا ہےان کو رسول اللہ ﷺ نے اجتماعی طور عذاب الہیٰ میں مبتلا ہو جانے کے خطرہ سے متنبہ فرمایا ہے۔

"سرکاری سطح پر اس کی ضرورت اسلامی ریاست کے روز آغاز ہی سی محسوس کی گئی جب تک ریاست مدینہ کی حدود تک محدود رہی اس وقت تک رسول اللہ ﷺ بنفس نفیس ہی اس کام کو انجام دیا کرتے تھے چنانچہ اس کام کے مقصد کے لیے آپ ﷺ وقتافوقتابازار کا چکر لگاتے اور غلط کام دیکھتے تو فوراً متنبہ فرماتے تھے" 20

احتساب اور محکمہ قضاء :

احتساب محکمہ قضاء اور محکمہ مظالم کے درمیان ایک محکمہ ہے اس کی محکمہ قضاء سے دو باتوں کی وجہ سے حیثیت کم ہے اور دو باتوں کی وجہ سے حیثیت زیادہ ہے ۔ جن باتوں میں اس کی حیثیت برابر ہے ان میں ایک یہ ہے کہ" حقوق الناس میں سے تین قسم کے دعوے محتسب کے ہاں کئے جاسکتے ہیں اور محتسب ان کی سماعت کر سکتا ہے :

(1 ) ناپ تول میں کمی کا دعویٰ

(2) بیع یا ثمن میں دخل اور کھوٹ کا دعویٰ

(3) واجب الادا دین کو باوجود قدرت کے نہ دینے اور ٹالنے کا دعویٰ"21

محتسب کا کام ہے کہ دینداری کی باتوں کو جاری رکھے اور بری باتوں کا استیصال کرے اور ضرورت پڑنے پر پولیس سے مدد لے ۔جن دو باتوں میں یہ محکمہ محکمہ قضاء سے کم ہے ان میں سے پہلی بات یہ ہے محتسب کو عام دعوؤں کی سماعت کا حق نہیں ہے مثلاً عقود معاملات ، حقوق و مطالبات وغیرہ محکمہ احتساب کی کاروائی ان کاموں میں ہوتی ہے جن کا مجرم جرم کا عتراف کرے جن امور کا مجرم انکار کرے ان کا تعلق محکمہ احتساب سے نہیں ہے ۔

جن دو باتوں میں محکمہ احتساب محکمہ قضاء سے زائد ہے ان میں سے سچی بات یہ ہے کہ محتسب خود تلاش و تجسس کر کے ایسے مقدمات پکڑ سکتا ہے جن کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے تعلق ہے یہ ضروری نہیں کہ کوئی اُن کا دعویدار اور ہو اور قاضی کے پاس کوئی تاوقتیکہ دعویدار اور داد خواہ نہ ہو ایسا نہیں کر سکتا ۔اگر قاضی ایسا کرے تو ظالم اور حدود اختیارات سے باہر قدم رکھنے والا ہے ۔

احتساب کی اقسام :

قرآن و سنت کی روشنی میں احتساب کی دو اقسام ہیں ایک انفرادی احتساب اور دوسرا اجتماعی احتساب ہے ۔ انفرادی احتساب خود احتسابی کا نام ہے جبکہ اجتماعی احتساب معاشرے میں رہ کر معاشرے کو بہتر بنانا اور ان کی برائیوں کو دور کرنا ہے ۔

انفرادی احتساب :

ایک مثالی اسلامی معاشرے میں حکمرانوں کو اجتماعی احتساب کے ساتھ ساتھ خود احتسابی پر بھی زور دینا چاہیے کیو نکہ کوئی بھی حکمران ،حکمران بننے سے پہلے اسی معاشرے کا ایک فرد ہوتا ہے اس لیے جہاں دوسرے افراد کے لئے اپنے آپکو مسلسل خود احتسابی کے عمل سے گزارنا لازمی امر ہے وہیں اس عمل کی ذمہ داری حکمرانوں پرزیادہ شدت سے عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ صرف اپنے اعمال کے ذمہ دار نہیں پوری سلطنت کے مسئول بھی ہیں اور ان کے ذمہ صرف اپنے فرائض کا محاسبہ نہیں اپنے ماتحتوں اور ریاست کے تمام ذمہ داروں اور عہدے داروں کا احتساب بھی ہے جو اجتماعی احتساب کا حصہ ہے اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

"أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَالْإِمَامُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ الرَّجُلِرَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ"22

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آگاہ ہو جاؤ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس امام (امیرالمؤمنین) لوگوں پر نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہو گا اور کسی شخص کا غلام اپنے سردارکے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پرسش ہو گی۔"

مولانا ابو الکلام آزاد احتساب کے بارے میں کہتے ہیں کہ :

"احتساب کی ترتیب اصلاح نفس سے شروع ہو کر بالترتیب محتسب کے قبیلے اور قوم تک منتہی ہوتی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرض احتساب اسی ترتیب سے ادا فرمایا "23

خود احتسابی ایک اہم وصف ہے اس کے بارے میں قرآن نے بھی بہت زور دیا ہے قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہی :

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ "24

"اے ایمان والو ! خدا سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل (یعنی فروائے قیامت) کیلئے کیا (سامان) بھیجا ہے اور ہم پھر کہتے ہیں کہ خدا ہی سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔"

"یعنی قبل اس کے کہ تمہارا روز قیامت محاسبہ کیا جائے تم اپنے آپ کا خود احتساب کرو اور غور کرو کہ اس روز کے لیے جب تم اپنے رب کے حضور پیش کیے جاؤ گئے تم نے نیک اعمال کا کیا کچھ ذخیرہ کر رکھا ہے ؟ اور جان لو کہ تمہارا پروردگار تمہارے تمام حالات اور اعمال سے بخوبی واقف ہے ، اس سے نہ کوئی بڑا عمل مخفی ہے نہ کوئی چھوٹی چیز " 25

حکمرانوں میں خود احتسابی کا جذبہ زیادہ ہونا چاہیے کیونکہ لوگ بھی اپنے حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں اُن کی خواہشیں ، تمنائیں اورعادات ویسی ہی ہو جاتی ہیں جیسی ان کے حکمرانوں کی ہوتی ہیں ۔حضرت عمر فارق رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ :

"اعلم ان العامل اذا زاغ زاغت رعیۃ ، واشقی الناس من شقیت بہ رعیتہ"26

" جان لو کہ جب حاکم کج روی کا شکار ہوتا ہے اس کی رعایا بھی کج رو ہو جاتی ہے اور جس حاکم کی وجہ سے اس کی رعایا کج رو ہو گی وہ بد ترین انسان ہو گا۔"

اجتماعی احتساب :

احتساب کی دوسری قسم اجتماعی احتساب ہے جس سے مراد معاشرے کے تمام افراد کا محاسبہ ہے ۔ معاشرے میں جرائم ، بد نامی اور برائیوں کو دور کرنے کے لیے اجتماعی احتساب ضروری ہے ۔معاشرے کی درستگی اور ترقی کے لیے اجتماعی احتساب لازمی ہے ۔جس معاشرے میں اجتماعی احتساب نہ ہو گا وہ معاشرہ روز بروز زوال کا شکار ہو گا ۔اجتماعی احتساب کا عمل عدلیہ اور نظام قضاء کے ذریعے ہوتا ہے اگر عدالتی نظام عادلانہ ، منصفانہ اور شفاف نہ ہو گا تو وہ ملک و معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا ۔ اسلام میں اجتماعی احتساب کی بنیاد احکام الہیہ پر ہو گی ۔ قرآن و سنت کے خلاف فیصلے نہ تو عدل و انصاف کے تقاضے پورے کر سکیں گے ۔ قرآن کریم نے نہایت سخت تردید کی ہے اور فرمایا:

"وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ" 27

"جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ تعلیمات کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ ظالم ہیں"

احتساب کا مثالیں قرن اوّل میں :

اسلامی ریاست میں احتساب کا آغاز نبی کریم ﷺ نے شروع دن سے ہی شروع کر دیا اور جب تک ریاست مدینہ کی حدود محدود رہیں آپ ﷺ نے اس کام کو خود سر انجام دیا اس مقصد کے لیے آپ ﷺ گلی بازاروں کے چکر لگایا کرتے تھے اور اگر کوئی غلط کام دیکھتے تو اس سے منع فرماتے تھے ۔

ایک مشہور واقع ہے جس کو امام مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کیا ہےکہ:

"ایک بار رسول اللہ ﷺ اسی غرض سے بازار کا معائنہ فرمانے کے لیے تشریف لے کر گئے ، وہاں ایک صاحب گندم فروخت کر رہے تھے اور گندم کا ڈھیر سامنے لگا ہوا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے گندم کے ڈھیر میں دست مبارک ڈالا تو نیچے سے گیلا نکلا اور انگلیوں کو تری محسوس ہوئی آپ ﷺ نے فرمایا گندم والے یہ کیا ہے ؟ اُن صاحب نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺبارش میں بھیگ گیا تھا ، فرمایا اس گیلے گندم کو اُوپر کیوں نہیں رکھا ؟ جواب دیا یا رسول اللہ پھر کون خریدتا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ایسا نہیں کرنا چاہیے یاد رکھو جو کائی اس طرح کی ہیرا پھیری یا دھوکہ بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں" 28

ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے حضرت زبیر بن العوام اور ایک انصاری کے مابین جھگڑے کو ختم کروایا جو کہ زمین کو سیراب کرنے کے حوالے سے تھا آپ ﷺ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ پہلے تم اپنی زمین سیراب کر لیا کرو پھر انصاری اس پر انصاری نے نبی کریم سے فرمایا :

"یا رسول اللہ آپ ﷺ " بیشک وہ آپ ﷺ کی پھو پھی کا بیٹا ہے آپ کو یہ بات ناگوار گزری غصہ آ گیا اور فرمایا زبیر اجرہ علی بطنہ حتی یبلغ الماء الی الکعبین زبیر پانی آنے دینا چاہیے یہاں تک کہ گھٹنوں تک پہنچ جائے "29

ایک دفعہ آپ ﷺ کو بازار جانے کا اتفاق ہوا تو کسی شخص کو کوئی چیز تولتے ہوئے دیکھی تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا :

"اتزن وارجح اچھی طرح تولو اور جھکتا ہوا تولو"30

نبی کریم ﷺ نے مظلوموں کو اُن کا حق دلوایا ابن اسحاق کا بیان ہے :

"ایک مرتبہ اراش قبلیے کا ایک شخص فروخت کے لئے کچھ اونٹ لے کر مکے آیا ، ابو جہل نے اس کے اُونٹ خرید لیے اور جب اس نے قیمت طلب کی تو ٹال مٹول کرنے لگا ۔ اراشی نے تنگ آ کر ایک روز حرم کعبہ میں قریش کے سرداروں کو جا پکڑا اور مجمع عام میں فریاد شروع کر دی ،دوسری طرف حرم کے ایک کونے میں نبی کریم ﷺ تشریف فرما تھے ، قریش کے سرداروں نے اس شخص سے کہا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے ، دیکھوں وہ صاحب جو اس کونے میں بیٹھے ہوئے ہیں ان سے جا کر کہو وہ تمہارا حق دلا دیں گئے ۔ چنانچہ اراشی نبی ﷺ کے پاس چلا گیا اور قریش کے کے سرداروں نے کہا آج لطف آئے گا ۔ اراشی نے جا کر آپ ﷺ سے شکایت بیان کی ، آپ ﷺ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر ابو جہل کے مکان کی طرف روانہ ہوگے ، سرداروں نے ایک آدمی پیچھے لگا دیا کہ جو کچھ گزرے اس کی خبر لا کر دے ۔ نبی کریم ﷺ سیدھے ابو جہل کے دروازے پے پہنچے اور کنڈی کھٹکھٹائی ۔ اس نے پوچھا کون ہے ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا محمد ﷺ وہ حیران ہو گیا باہر آیا ، آپﷺ نے اس سے کہا کہ اس شخص کا حق ادا کروہ سیدھا اندر گیا اور اس کے اونٹوں کی قیمت لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی ۔ قریش کے مخبر نے یہ حال دیکھ کر حرم کی طرف دوڑا اور سرداروں کو سارا ماجرہ سنا دیا کہ جب ابو جہل نکلا تو محمد ﷺکو دیکھ کر اس کا رنگ فق ہو گیا اور جب آپ نے اس سے کہا تو ایسامعلوم ہوتا تھا کہ جیسے اس کے جسم میں سے جان نہ ہو "31

اسی طرح نبی کریم نے دھوکہ کرنے سے منع فرمایا ایک حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :

"نبی کریم ﷺایک قصاب کے پاس سے گزرے جو بکری کی کھال اتار رہا تھا اور اس میں ہوا بھر رہا تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا جس نے دھوکہ کیا وہ ہم میں سے نہیں بکری کی کھال اور گوشت کو جدا کرو لیکن پانی نہ لگاؤ "32

نبی کریم ﷺنے صدقات لینے کے لیے کسی کو بھیجا تو جو مال ملا اس کے بارے میں بھی محاسبہ کیا گیا حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کو بنی سلیم کے صدقات وصول کرنے کے لیے عامل مقرر کیا تو جب وہ مال لے کر آیا تو اُس نے اس میں سے اپنا حصہ مقرر کر لیا جس کے بارے میں حضور نبی کریمﷺ نے ان کا احتساب کیا :

‏‏‏‏ " فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "مَا بَالُ الْعَامِلِ نَبْعَثُهُ فَيَأْتِي، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ هَذَا لَكَ وَهَذَا لِي، ‏‏‏‏‏‏فَهَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ فَيَنْظُرُأَيُهْدَى لَهُ أَمْ لَا"33

"پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے، سفیان ہی نے یہ روایت بھی کی کہ پھر آپ منبر پر چڑھے پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا کہ اس عامل کا کیا حال ہو گا جسے ہم تحصیل کے لیے بھیجتے ہیں پھر وہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مال تمہارا ہے اور یہ میرا ہے۔ کیوں نہ وہ اپنےباپ یا ماں کے گھر بیٹھا رہا اور دیکھا ہوتا کہ اسے ہدیہ دیا جاتا ہے یا نہیں"

صحابہ کرام اور احتساب :

حضور رحمت عالم ﷺ کی رحلت کے بعد خلفائے راشدین کا دور شروع ہوا تو اس میں بھی عدل و انصاف ، حاکمیت اور جواب دہی کے لازمی اجزاء تھے ۔نبی کریم کے عہد میں احتساب کے لیے کوئی عامل مقرر نہیں کیے تھے لیکن جب فتوحات کے نتیجہ میں اسلامی ریاست کی حدود وسیع ہو گئی تو احتساب کے لیے عامل مقرر کئے گے ۔

"جب اسلامی ریاست کی حدو د مدینہ سے باہر پھیلی تو اس کام کے لیے مستقلاً آدمی مقرر کر دیے گئے ۔ چنانچہ مدینہ منورہ میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور مکہ مکرمہ میں قروسعید بن العاص کو محتسب مقرر" 34

حضرت ابو بکر صدیق رضی عنہ کا دور حکومت مختصر تھا جو تقریباً دو سال پر محیط ہے آپ رضی اللہ کا سارا زمانہ شدید ہنگامی حالات میں گزرا ۔ جنگوں ، بغاوتوں اور شورشوں کو ہی فرو کرنے میں سارا وقت صرف ہو گیا اس لئے اُن کے دور کے نظام حسبہ کی تفصیلات نہیں ملتیں ۔ وہ ہر معاملہ میں انتہائی کوشش کرتے تھے انہوں نے ہر اس نظم کو جوں کا توں باقی رہنے دیا جو رسول اللہ ﷺکے مبارک زمانہ سے چلا آ رہا تھا ۔ عہد نبوی میں جو اصحاب محتسبین مقرر ہوئے تھےاور جو فرائض ان لوگوں کے سپرد کیے تھے وہ عہد صدیقی میں بھی اسی طرح قائم رہے ۔ خلفاء نے اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کیا ۔ خلیفہ اول ام المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بار خلافت سنبھالتے ہوئے ہی جو پہلا خطبہ دیا تو ارشاد فرمایا :

"یا ایھا الناس ! انما انا متبع ، ولست بمبتدع ، فان انا احسنت فاعینو نی روان انا زغت فقو مونی "35

"اے لوگو ! میں دین میں نئے طریقے وضع کرنے والا نہں ہوں میں تو ( حضور ﷺ کے طریقے اور سنت کی ) اتباع کرنے والا ہوں ، سو اگر تم دیکھو میں خوش اسلوبی سے اپنے فرائض انجام دےرہا ہوں تو مجھ سے تعاون کرو اور دیکھوکہ میں راہ حق سے بھٹک رہا ہوں تو مجھے سیدھا کرو "

"حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کبھی اچھا کھانا نہیں کھایا ، ایک مرتبہ اہل خانہ نے میٹھا کھانے کی خواہش کی تو فرمایا کہ میں اس سے زیادہ بیت المال سے نہیں لے سکتا اور جب اہلیہ محترمہ نے پیٹ کاٹ کر ایک مدت میں کچھ رقم جمع کی تو بیت المال کے منتظم کو لکھ بھیجا کہ اتنی رقم میرے وظیفے سے کم کر لی جائے کیونکہ اس سے کم میں بھی میں گزارا ہو جاتا ہے اس سے بڑھ کر بچی ہوئی رقم بھی بیت المال کو واپس کر دی"36

حضرت عمر فا روق رضی اللہ عنہ جب بھی اپنے گورنروں اور عمال کو روانہ کیا تو یہ ہدایت فرماتے تھے :

"لا تر کبوا بردونا ، ولا تا کلوا نقیا، ولا تلبسوا رقیقا ، الا تغلقو ا ابوابکم دون ھوائج الناس ، فان فعلتم شیئا من ذالک فقد حلت بکم العقوبۃ"37

"عمدہ ترکی گھوڑے پر سوار مت ہونا ، میدہ استعمال نہ کرنا باریک پوشاک مت پہننا اور نہ ضرورت مندوں پر اپنے دروازے بند کرنا اگر ان میں سے کوئی بات کی تو تمہارے لئے سزا حلال ہو جائے گئی"

ان تمام باتوں کی وجہ یہ تھی کہ حکمران عامتہ الناس سے بڑھ کر عیاشی والی زندگی نہ اپنالیں اور اس طرح حکمران خادم بننے کی بجائے مخدوم بن جائیں گئے ۔اسلام کا مقصد تو ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے جس میں طبقاتی تقسیم نہ ہو اور جو خود دکھ اور مشکلات کو برداشت کرنے والے ہوں مگر عوام کے لیے سایہ دار درخت کی مانند ہوں پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جب آپ رضی اللہ عنہ کو خبر ملتی کہ کسی عامل نے خلاف ورزی کی ہے تو آپ اس کا احتساب کرتے تھے ان کے خلاف تادیبی کاروائی بھی کی ۔

"حضرت عمرفاروق رضی اللہ کے دور میں محمد بن مسلمہؓ کی حیثیت انسپکٹر جنرل جیسی تھی جو افسروں کی نگرانی کرتے تھے۔حضرت عمرؓ حج کے موقع پر کھلی کچہری لگاتے اور مختلف علاقوں سے آنے والے حاجیوں کی شکایات سنتے اس موقع پر گورنروں اور افسروں کی حاضری یقینی بناتے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کی خبر گیری کرتے تھے ۔آپ رضی اللہ عنہ اپنے پاس آنے والے وفود سے پوچھا کرتے تھے کہ تمہارا امیر کیسا ہے ؟ کیا وہ تمہارے بیماروں کی عیادت کرتا ہے َ کمزوروں کے ساتھ وہ کیسا سلوک کرتا ہے؟ بے کسوں کے دروازے پر بیٹھنے میں وہ اپنی ہتک تو محسسوس نہیں کرتا ؟ اگر انہیں جواب نفی میں ملتا اور معلوم ہوتا کہ وہ انکی ہدایت کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے فوراً معزول کر دیتے " 38

علامہ ابن تیمیہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں:

" آپ بحثیت محتسب بازاروں میں گشت لگاتے ہاتھ میں درہ ہوتا اور کسی قسم کی ملاوٹ یا کھوٹ کرنا ظاہر ہو جاتا تو حفظ احتسابی کردار کی ادائیگی کے لیے وہ حرکت میں آ جاتے ۔ ایک بار کوئی شخص دودھ میں پانی ملا کر فروخت کر رہا تھا آپ رضی اللہ عنہ نے اس کا سارا ملاوٹ شدہ دودھ ضبط کر کے زمین پر بہا کر تلف کر دیا "39

"کوفہ کے کچھ لوگوں نے امیر سعد بن ابی وقاص کے بارے میں حضرت عمرؓ سے شکایت کی یہ ایک نازک مرحلہ تھا جب نہاوند میں مجوسیوں کا فوجی لشکر مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے زور و شور سے تیاریاں کررہا تھا۔ حضرت عمرؓ کو احساس تھا کہ سعد بن ابی وقاص کے خلاف شکایت فتنہ و فساد کے لیے کی جارہی ہے مگر آپؓ نے اس معاملے کو التواء میں نہ ڈالا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ احتساب اور انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے شکایت کرنے والوں سے کہا ''تمہارے برے ارادے کی دلیل یہ ہے کہ تم ایسے وقت میں یہ معاملہ پیش کررہے ہو جب دشمنوں اور مسلمانوں کی جنگی تیاریاں انتہائی عروج پر ہیں۔ تاہم اللہ کی قسم تمہارے معاملے کی تحقیق سے کوئی چیز میرے لیے مانع نہیں ہوسکتی اگرچہ دشمن تم پر حملہ آور ہی کیوں نہ ہوجائے"40

"حضرت عمرؓ خود بھی احتساب کے لیے تیار رہتے تھےایک بار ایک شخص نے آپؓ سے سوال کیا کہ انہوں نے اپنے لمبے کرتے کے لیے کپڑا کہاں سے حاصل کیا ہے۔ آپؓ نے ناراض ہونے کی بجائے وضاحت کی کہ آپؓ نے اپنے بیٹے کے حصے کا کپڑا اپنے حصے کے کپڑے میں شامل کرکے لمبا کرتا سلوایا ہے"41

"لیکن ان سب اقدامات کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ محسوس کیا کہ بے پناہ مصروفیات کے باعث اس کام پر شاید توجہ نہ دے سکیں اس لیے آپ نے مدینہ میں باقاعدہ محتسبین مقرر کر دیئے اور حضرت عبداللہ بن عتبہ بن مسعود کو مدینہ کو پوری اسلامی ریاست کا محتسب اعلیٰ اور حضرت سائب بن یزید کو نائب محتسب اعلیٰ مقرر کیا "42

اسی طرح خلیفہ سوم نے بھی احتساب کی روایت کو قائم رکھا :

"خلیفہ چہارم حضرت علی کرّم اللہ وجھہ الکریم کوایک معاملے میں قاضی شریح کے سامنے پیش ہونا پڑا توقاضی نے خلیفہ کے لیے نرم لب و لہجہ اپنایا جسکا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے برا منایا۔یہ اور اس قسم کے بے شمار اور واقعات ہیں جس میں مسلم حکمرانوں نےخود کو قانون سے بالا تر نہیں سمجھااورالزامات لگنے کی صورت میں قاضی کے سامنے غیر مشروط طور پر پیش ہوئے"43

اسلامی نظام میں احتساب کے اصول :

اسلام نے جونظام فکروعمل عالم انسانیت کو عطا کیا وہ ہر لحاظ سے مکمل اور احسن ہےاس نظام کا ایک اہم ادارہ احتساب ہے۔اسلامی تعلیمات سے عیاں ہے کہ بے لاگ احتساب کے بغیر عدل اجتماعی کا قیام ناممکن ہے۔نبی کریم ﷺ کی ذات میں ہی نظام عدل کی دونوں جہتیں پہلو بہ پہلو موجود تھیں۔گویا آپ ﷺ محتسب بھی تھے اور قاضی بھی۔ ان دونوں پہلوں میں خفیف سا فرق پایا جاتا ہے لیکن یہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ،کتا ب اﷲ اور سنت رسول اﷲ ﷺ سے ہمیں اسلامی نظام احتساب کے کے چند اصول واضح ہو تے ہیں۔

خود احتسابی کا اصول :

کتاب و سنت نے اس بات کو مسلمانوں کے ذہن میں راسخ کردیا کہ اصل میں سننے والی اور دیکھنے والی اﷲ تعالی کی ذات ہے اور وہ لوگوں کا محاسبہ کرنے والا ہے ۔انسانوں کی دی ہوئی سزا قابل برداشت ہو سکتی ہے لیکن محتسب کائنات کی سزااپنی ہئیت و کمیت میں انسانی تصور سے کہیں زیادہ ہے۔ جن اسلامی معاشرہ میں اللہ پر ایمان لایا جاتا ہے تو پھر وہ معاشرہ تقوی کا مرقع بن جاتا ہے اور اپنے جرم کے لیے خود کو قانون کے حوالے کردیتا تاکہ پاک ہو جائےیہ وہ واحد محتسب کاخوف تھا کہ انسان اندر تک گناہ دھلتے چلے گئے ۔ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ :

"حضرت سلیمان بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ماعز بن مالک نبی کریم ﷺکہ پاس آئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول! مجھے پاک کریں۔ آپ ﷺنے فرمایا تیرے لئے ہلاکت ہو واپس جا، اللہ سے معافی مانگ اور اس کی طرف رجوع کر۔ تو وہ تھوڑی دور ہی جا کر لوٹ آئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! ----آپ ﷺنے حکم دیا تو اسے رجم کیا گیا اور لوگ اس کے بارے میں دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ یہ ہلاک ہوگیا اور اس کے گناہ نے اسے گھیر لیا اور دوسرے کہنے والے نے کہا کہ ماعز کی توبہ سے افضل کوئی توبہ نہیں۔ وہ نبی کریم ﷺکے پاس لایا گیا اس نے اپنا ہاتھ آپﷺ کے ہاتھ میں رکھ کر عرض کیا مجھے پتھروں سے قتل کردیں"44

احتساب کا اصول سب کے لیے:

اسلامی نظر میں احتساب کے معاملے میں امیر،غریب،عالم ،جاہل،گورے،کالے،حکمران،عوام سب برابر تھے ۔ آپ ﷺ نے قوانین کے بلاامتیاز نفاذ کے سلسلے میں ہمیشہ اہم اقدامات کئے اور ریاست کے تمام اراکین پر بلا تخصیص ان پر قوانین کو لاگو کیا اور اس سلسلے میں نہ کسی کی سفارش منظور کی اور نہ رعایت کی قبلیہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کا ارتکاب کیا اور وہ گرفتار ہوئی ، چونکہ اس کا تعلق بڑے خاندان سے تھا اس لئے یہ کوشش کی گئی کہ اس پر حد سرقہ جاری نہ ہو ، آپ ﷺ سے بہت قربت رکھنے والے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں سفارش کروائی گئی مگر آپﷺ نے اس تعلق کی خاطر باوجود نہ صرف ان کی سفارش قبول نہیں فرمائی بلکہ ان پر غصے کا اظہار فرمایااور ارشاد فرمایا:

اے اسامہ کیا تم حدود خداوندی میں سفارش کرتے ہو ؟اور پھر لوگوں کو جمع کر کے خطاب فرمایا ،اس میں فرمایا :

"تم سے پہلے کی امتیں اس لیے تباہ ہو گیئں کہ جب معزز آدمی کوئی جرم کرتا تو درگزر کرتے اور اگر کوئی معمولی حیثیت کا آدمی جرم کر بیٹھتا تو اس کو سزا دیتے ، خدا کی قسم اگر محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہ بھی چوری کرتی تو محمد ﷺ اس کا بھی ہاتھ کاٹتا "45

حضرت ابوذر غفاری رضی اﷲ عنہ نے جب حضرت بلال کے بارے میں ناپسندیدہ الفاظ کہے تو محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا تم میں جاہلیت کی رمق باقی ہے۔ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھانے جب ام المومنین حضرت صفیہ رضی اﷲ عنھا کے بارے میں کہا کہ وہ پستہ قد ہیں تو محسن انسانیت ﷺ نے انکا احتساب کرتے ہوئے فرمایا" اس بات کے اثر سے اگر تمہاری زبان سمندر میں ڈالی جائے تو سمندر کا ذائقہ بدل جائے"46

یکساں احتساب کا اصول :

اسیران بدر میں حضرت نبی کریم ﷺ کے چچا بھی موجود تھے ،یکساں احتساب کے اصول کے مطابق ان سے بھی وہی سلوک روا رکھا گیا جو باقی جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا گیا۔حتی کہ جب رات گئے بے چینی اور بے قراری میں نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور کبھی ادھر کروٹ اور کبھی ادھر کروٹ لیتے تو صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی کے پوچھنے پر فرمایا کہ چچا عباس کی آہیں سونے نہیں دیتیں،صحابہ کرام نے ان کے چچا کی رسیاں ڈھیلی کر دی لیکن آپ کو یہ بات گراں گزری اور آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ چونکہ سب لوگوں کا جرم ایک جیسا ہے تو پھر سزا بھی ایک جیسی ہونی چاہیے صرف چچا عباس کی رسیاں ڈھیلی کیوں ہوں سب اسیران کو آسودہ کر دو۔یہ وہ رحمت عالم جو سب کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ کیا کرتے تھے۔

محتسب خود بھی قابل احتساب:

اسلامی نظام احتساب میں کوئی بھی احتساب کے عمل سے بالا تر نہیں ہےجو جس مقام و منصب پر ہے اس کے احتساب کے لیے نظام کی گرفت موجود ہے۔ آپ ﷺ نے اسلامی ریاست کے حاکم اور قاضی ہونے کے با وجود اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا :

"اے لوگو! میرا تمہارے پاس سے جانے کا زمانہ قریب آ گیا ہے اس لیے جس کی کمر پر میں نے مارا ہو تو میری کمر حاضر ہے وہ بدلہ لے لیے ۔ آگاہ ہو جاؤ ! اور جس کو میں نے برا بھلا کہا ہو وہ مجھ سے بدلہ لے لیے ۔ جس کا مجھ سے کوئی مال کا مطالبہ ہو تو مجھ سے لے لیے ۔ کوئی شخص یہ مت خیال کرے کہ مجھ سے بدلہ لینے سے میرے دل میرے دل میں بغض پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ۔ آگاہ ہو جاؤ ! بغض رکھنا نہ میری طبعیت میں ہے نہ میرے لیے موزوں ہے ۔ خوب سمجھ لو تم سے مجھے وہ شخص زیادہ محبوب ہے جو مجھ سے اپنا حق وصول کر لے ۔پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے لوگو! جس کے ذمے کسی کا حق ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کا حق ادا کر دے اور دنیا کی رسوائی کا خیال نہ کرے ۔ آگاہ ہو جاؤ دنیا کی رسوائی آخرت کی رسوائی سے بہت کم ہے" 47

نتیجہ خیز،سبق آموزاور عبرت انگیز احتساب :

اسلامی تاریخ کو دیکھا جائے تو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ احتساب کا عمل محض سزا کے لیے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصدقابل احتساب امور کی تکرار کو معاشرے میں کم سے کم درجہ تک لے جانا بھی ہے۔اس کے لیے لازمی ہے کہ احتساب فوری،نتیجہ خیز،سبق آموزاور عبرت انگیزہو اوراس عمل کے دہرانے والے کو سوچتے ہی گزشتہ عامل کا انجام آنکھوں میں گھوم جائےشاید اسی لیے قرآن نے حکم دیا کہ مجرمین کو لوگوں کے سامنے سزا دی جائے۔

"غزوہ احزاب سے واپسی پر جب آپ ﷺ نے امیرالمجاہدین ﷺ ام سلیم کے ہتھیار اتارے اور غسل فرما نے لگے تو جبریل نے آکر عرض کی کہ آپ نے ہتھیار اتار دیے کیا؟اور ابھی فرشتوں نے تواتارے ہی نہیں۔چنانچہ آپ ﷺ نے دوران غسل صحابہ کرام کو پیغام بھیجا کہ اتنی سرعت کے ساتھ بنی قریظہ کی طرف بڑھو کہ عصر وہیں پہنچ کر ادا کرو۔یہ احتساب اتنی فوری نوعیت کا تھا کہ دشموں کے مکہ پہنچنے سے قبل غداروں کے گریبان تک مسلمانوں کا ہاتھ پہنچ گیا۔اس فوری،نتیجہ خیز،سبق آموزاور عبرت انگیز احتساب کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ پھر ایک طویل عرصہ تک درہ غداری بند ہو گئی اس احتسابی عمل میں بنی قریظہ کے 400افراد کو تہہ تیغ کر دیا گیا "48

خلاصہ بحث:

احتساب کا ادراہ کسی بھی ریاست کا اہم ادارہ ہوتا ہے اس کی اہمیت ہمیں قرن اول پر نظر ثانی کرنے سے پتا چلتی ہے کہ نبی کریم ﷺ اس ادارہ کو اہم سمجھتے تھے ۔آپ ﷺخود اس کام کے لیے تیار ہوئے اور اس کے لیے خدمات پیش کیئں ۔ ریاست کی افادیت کو برقرار رکھنے کے لیے نظام احتساب کا ادارہ لازمی جز ہے اس ادراہ سے ریاست کا نظام مربوط اور ادارے فعال ہوتے ہیں جس ریاست میں مانیٹرنگ اور نظام احتساب نہ ہو گا وہاں ادارے چوری غفلت اور تساہل پسندی کا شکار ہو جائیں گے ۔ نبی کریم ﷺکے ساتھ ساتھ خلفاءراشدین رضی اللہ عنہم نے بھی اس ادارے کو اپنے اپنے عہد میں مضبوط اور منظم طریقے سے قائم رکھا اور اس پر عمل بھی کیا ۔احتساب کا تعلق ریاست کے تمام اداروں سے تھا کہ کوئی ادارہ اور فرد اس ادارے کے اثر سے بچ نہیں سکتا ۔ ریاست میں جہاں معروف چھوڑ ا جا رہا ہو اور منکر فروغ پا چکا ہو تو وہاں حسبہ معروف کے فروغ اور منکر کو ختم کرنے میں مصروف ہو گا اس کے ساتھ ساتھ ریاست میں بد عنوانیوں اور کرپش و رشوت ستانی کے خاتمے کے لیے احتساب بیورو کا ادارہ میدان کار عمل میں آئے گا تاکہ ریاست میں سے برائی کو ختم کیا جاسکے ۔


1مصادر و مراجع

امام قرطبی،الجامع لاحکام القرآن (تفسیر طبری) ، ج: 12، ص، 161، موسسۃ الرسلۃ ،2006ء

2سید عزیز الرحمن ، تعمیر شخصیت و فلاح انسانیت ۔ زوارا اکیڈمی پبلی کشینزکراچی ، 1992، ص 15

3 ڈاکٹر محمود احمد غامدی ، آداب قاضی۔ ادارہ تحقیقات اسلامی لاہور، ص 242

4 القرآن31:41

5 سید ابو الاعلیٰ مودودی، اسلامی ریاست ، اسلامی پبلیکیشنز، ص،378

6 القرآن،4:6

7 الجوہری، اسمائیل بن حماد،( 393ھ) الصحاح فی اللغۃ، ج:1،ص: 125، دار العلم للملابیین ، ط،4، بیروت، 1990ء

8 فیروز الدین مولوی، فیروز الغات اردو، جامع فیروز سنز لمیٹڈ لاہور ، 1992ء،ص 73

9 امام غزالی،احیاء علوم ، جلد دوم ، ص، 323، طبع قاہرہ

10 المارودی ،الاحکام السلطانیہ ، طبع قاہرہ ، 1966،ص 240

11 مجاہد الحسینی ،رسول اللہ کا نظام امن عالم ،2007ء،سیرت مرکز ، فیصل آباد ،ص، 31

12 القرآن،12:40

13 القرآن ، 6: 62

14 سید فضل الرحمن ، ہادی اعظم ، ادارہ مجددیہ ، کراچی 1991، ص،297

15 ابن الحکمیہ السیاستہ الشرعیہ ( ترجمہ پروفیسر شاہین لودھی ) ، فاروق کتب خانہ ، ملتان ، ا993، ص،481

16 طوسی ، نظام الملک ، سیاست نامہ ، ترجمہ محمد منور ،مجلس ترقی ادب 2 نرسنگ درس گاڈن کلب روڈ، ص،49

17 ابوالکلام آزاد مولوی ، ترجمان قرآن ، پاکستان اکاومی لاہور ، ص،299

18 ڈاکٹر محمود احمد غامدی ،ادب قاضی،ادارہ تحقیقات اسلامی ،1993ء، 16

19 الکتابی ، عبدالحی ، الترتیب الادار ،جلد اول ، حقوق الطبع ،ص : 285

20 ڈاکٹر محمود احمد غامدی ،ادب قاضی،ادارہ تحقیقات اسلامی ،1993ء ،ص،9

21 ایضاً،ص،308

22 امام مسلم بن حجاج قیشیری،مسلم ،ج،3 ص 775، 7138

23 ابوالکلام آزاد ، رسول رحمت ، پاکستان اکاومی لاہور ،ص: 701

24 القرآن، 18:59

25 ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر،ج،4،ص 42، دار طبیہ کراچی ، 1999ء

26 مولانا محمد ظفر الدین مفتاحی ندوی ، اسلام کا نظام امن ،ایچا یم سعید کمپنی کراچی ، 1981،ص

27 القرآن ، 5: 45

28 مسلم بن حجاج قیشیری،صحیح مسلم ، جلد دوم ، ص 109

29 محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري ،صحیح بخاری ، ج، سوم ، 1472

30 مسلم بن حجاج قیشیری،صحیح مسلم ، جلد دوم ، ص ،1313

31 ابن ہشام ، سیرت ابن ہشام ،ج2 ،ص : 133، دارا معرفت،لبنان

32 کنز العمال ، باب العش ، رقم الحدیث ، 9976 ، مکتبہ المدینہ، 2011ء

33 بخاری،محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة ،،بخاری بَابُ هَدَايَا الْعُمَّالِ،رقم،7174

34 الکتابی ، عبدالحی ، الترتیب الادار ،جلد اول ، حقوق الطبع ،ص : 287

35 ابو عبید بن قاسم سلام ، کتاب الاموال ۔ مکتبہ التجارہ الکبریٰ ، ص،5

36 محمد حسین ھیگل،اشہر مشاہیر اسلام ، مکتبہ جدید ،ج 1 ص ، 93

37 ابن تیمہ ، الحسبہ فی الاسلام ، ترجمہ طفیل ضغیم انصاری ،البدر پبلی کیشنر ، 1984ءص،5

38 محمد حسین ھیگل،اشہر مشاہیر اسلام ، مکتبہ جدید ،ج 1 ص ، 393

39 ابن تیمیہ الحسبہ فی السلام ، ترجمہ طفیل ضغیم انصاری ، ج،1، 1984،ص، 90 ، البدر پبلی کیشنر

40 الطبری،تاریخ الرسل و الملوک ، ج:9، ص 262، بیروت

41 علامہ شبلی نعمانی ،الفاروق،دارالاشاعت، کراچی، ص، 323

42 ا ابو اسحاق بن ابی عون (322ھ)،الالتشبیھاب ، ج،2 ص،576

43 ڈاکٹر محمود احمد غامدی ،ادب قاضی،ادارہ تحقیقات اسلامی ،1993ء،ص، 328

44 مسلم بن حجاج قیشیری،صحیح مسلم ، جلد دوم ، ص ،1938

45 بخاری ، الصحیح ، کتاب الحدود ، باب کراھیۃ الشفاعتہ فی الحد ،ج، 4، ص، ا12،

46 شبلی نعمانی ،سیرت النبی، دارالاشاعت کراچی ، 1985، ج،4 ، ص،203

47 الحافظ الھیثمی،مجمع الزوائد ، ج، ص،596، رقم،1452دارا الکتب العلمیہ،2001ء

48 محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري ،بخاری، 1567، ج، سوم

Page No. 1



Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...