Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of World Researches > Volume 1 Issue 1 of Journal of World Researches

بچوں کے اہم حقوق سیرت طیبہﷺ کی روشنی میں |
Journal of World Researches
Journal of World Researches

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2021

ARI Id

1682060064183_2129

Pages

22-36

PDF URL

https://jwr.bwo.org.pk/index.php/jwr/article/download/3/25

Chapter URL

https://jwr.bwo.org.pk/index.php/jwr/article/view/3

Subjects

Important Rights of Children Seerat-e-Tayyeba (ﷺ) Islam and Rights Islam and Children Hadith Quran Rights in Islam

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

ابتدائیۃ:

بارانِ رحمت، جس طرح کھیتوں، کھلیانوں، ٹیلوں اور پہاڑوں پر ہر جگہ یکساں برستی ہے اور پیاسی زمین کو سیراب کرتی ہے اسی طرح رسولِ رحمت ﷺ کا پیار، محبت اور شفقت، مرد، خواتین، بوڑھوں، جوانوں اور بچوں سب کے لئے بے کنار سمندر کی طرح موجزن ہے۔ ہر ایک کا یہی دعویٰ تھا کہ رسولِ اللہ ﷺ کے پیار و محبت کی نظر کرم سب سے زیادہ اُسے ہی حاصل تھی۔ کیا عظیم اور خوش قسمت وہ نفوس اِنسانی تھے، جنہیں لمحہ بہ لمحہ اور قدم بہ قدم رسولِ رحمت ﷺ کے پیار اور محبت کی نعمت فراواں نصیب ہوئی۔ اس پیار اور محبت کی اتنی جہتیں اور پہلو ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں، انسانوں پر ہی نہیں حیوانات، نباتات، جمادات اور نہ جانے کہاں کہاں اس پیار اور محبت کے جلوے آنکھوں کو خیرہ کئے دیتے ہیں۔ اسی لئے آپ کو رحمۃ للعالمین کے شرف سے نوازا گیا ہے۔ بچے ماں باپ، خاندان، قوم و ملت کا مستقبل ہیں اور یہ مستقبل عہد حاضر کے بدلتے حالات و مغربی اثرات کے سبب مخدوش ہوتا جا رہا ہے۔

بچوں کی اہمیت

قرآن کریم نے بچوں کی قسم کھائی ہے (قرآن، 1:90) ان کی پیدائش کو خوشی کی خبر قرار دیا (قرآن، 7:19) بچیوں کی پیدائش پر غم زدگی کی مذمت کی (قرآن، 58-59:16) آنکھوں کی ٹھنڈک (قرآن، 74:58) دنیا کی زینت (قرآن، 64:18) اور جنت کی تتلیاں قرار دیا ہے اور اعلان کیا ہے ''مَنْ لَّایَرْحَمْ لَایُرْحَمْ '' (مسلم ،204ھ۔261م، 77:7) جو ان سے رحم کا معاملہ نہیں کرتا ہے وہ خود بھی کسی رحم کا مستحق نہیں ہے، دوسری جگہ فرمایا وہ ہم میں سے نہیں ہے (ترمذی 322:4 ، ابوداؤد، 202ھـ۔ 275م، 233:5 ) آپ ﷺ بچوں کے بارے میں دعاء فرماتے تھے۔ ''اللھم ارحمھما فانی ارحمھما'' (بخاری، 194ھ ۔ 256م، 76:7)، نیک اولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں، جس کی خواہش انبیاءؑ نے بھی کی ہے، حضرت زکریاؑ نے دعا کی۔ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآئِO (قرآن، 38:3)

اے رب مجھے اپنے پاس سے نیک اولاد عطا فرما، بیشک تو دعائیں سننے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انہیں نبی جیسی اولاد عطا فرمائی اور مسلمانوں کو بھی اسی قسم کی دعاء کی تلقین عطا فرمائی، ارشاد ربانی ہے:

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (قرآن،74:25)

اے رب ہمیں نیک جوڑا عطا فرما اور نیک اولاد عطا فرما جو آنکھوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ ہو اور ہمیں متقیوں کا رہنما بنا۔

اللہ تعالیٰ نے مال و اولاد کو دنیا کی زینت قرار دیا ہے (قرآن،46:18) جن کے بغیر زندگی بے رونق ہے۔(قرآن،41: 3) جس کے بغیر انسان بے یارومددگار ہے دنیا میں یہ الٰہی مدد ہے(قرآن،6-17،23:26) بشرطیکہ نیک اولاد ہو ورنہ مال و اولاد دونوں آزمائش ہیں(قرآن،15:64) دونوں دنیاوی و آخروی اعتبار سے تباہی کا ذریعہ ہیں(قرآن،14:64) لیکن اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت دنیا وی و أخروی کامیابی کا ذریعہ ہے، ارشاد ربانی ہے:

یَاَ ایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَ اَھْلِیْکُمْ نَارًا (قرآن،6:66)

یعنی انسان پر لازم ہے خود بھی جہنم سے بچے اور اپنے اہل و عیال کو بھی بچائے۔

بچوں کے حقوق کا تقابلی مطالعہ

آپ ﷺ نے فرمایا: کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ (التبریزی، 433ھ ۔ 510م، 227:2), تم میں سے ہر فرد اپنے ماتحتوں پر نگران و ذمہ دار ہے، اور ہر فرد سے (خواہ مرد ہو یا عورت)اپنے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

ماتحت میں دیگر افراد کے ساتھ اولاد بھی شامل ہیں، اس حکم کے ذریعہ جہاں بچوں کی تعلیم و تربیت کا حکم دیا گیا وہاں سربراہ کو اہل خانہ کا محافظ بھی قرار دیا گیا ہے، اور مالک ہونے کے اس فلسفہ کو ختم کیا گیا ہے جو اسلام سے قبل اقوام عالم میں پایا جاتا تھا۔ بہت سی اقوام و ملل میں یہ تصور موجود تھا کہ جس نے بچہ کو پیدا کیا ہے وہی اس کی زندگی کا مالک ہے، بچوں کی زندگی کے مالک والدین ہیں۔ یہی وجہ ہے متعدد باپ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی بیٹیاں اپنے نکاح میں لے لیں، اپنی اولادوں کو متعدد وجوہات کی بنیاد پر قتل کیا، جس میں مذہبی قربانی کے لئے، جادو ٹونہ کے لئے، عورت ہونے کے سبب رزق کے سبب وغیرہ حتی کہ حکومت وقت نے بھی بچے قتل کرائے جیسے فرعون نے بنی ا سرائیل کی بچیوں کو زندہ رکھا، بچوں کو قتل کرایا۔(قرآن،49:2، 41:7، 6:14)

زمانہ جاہلیت میں بچوں کو زندہ رکھا جاتا، بچیوں کو قتل کردیا جاتا، اسلام نے ہر ذی روح کے زندہ رہنے کے حق کو تسلیم کیا اور اعلان کیا، رزاق انسان نہیں اللہ تعالیٰ ہے(قرآن،58:51) تم کسی انسان کی جان کے مالک نہیں، لہٰذا کسی کا قتل بہت بڑا گناہ ہے(قرآن،31:17) بلکہ کمزوروں کی جان بچانے کے لئے ہی جہاد فرض کیا گیا ہے(قرآن،75:4) اگر کسی کے نسب کا علم نہیں پھر بھی اسے زندگی کا حق ہے اور وہ مسلمانوں کا دینی بھائی ہے(قرآن،5:23) اس کی رضاعت و کفالت(قرآن،233:2) والدین، حکومت اور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ کوئی معاشرہ اگر ان ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتا تو اس معاشرہ کو تباہی سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچاسکتی ہے۔

مغرب نے اپنی زندگی کے لئے جن راستوں کا انتخاب کیا، یعنی کم بچے خوشحال گھرانہ، بغیر شادی خانہ آبادی، ہم جنس پرستی، مادر پدر جنسی آزادی، بیوی و اولاد کی عدم کفالت، پرسنل لائف میں عدم مداخلت وغیرہ ان غیرفطر ی امور کے جب نتائج سامنے آنے لگے تو انہیں بچوں کے حقوق یاد آئے اور قانون سازیاں کرنی پڑیں۔

مغرب میں بچوں کے ساتھ اچھا رویہ نہیں تھا، انہیں بھیڑئے، بھوتوں، کالے آدمی، سزائے موت کے منظر سے خوف زدہ کیا جاتا تھا، ناجائز اولاد اور کمزور و معزور بچوں کو قتل کر دیا کیا جاتا تھا۔ دیوتاؤں کے لئے اپنے اور خریدے ہوئے بچے قربان کئے جاتے تھے۔ عمارت کی تعمیر میں مضبوطی کے لئے بچوں کا جسم و خون شامل کیاجاتا تھا، عیسائیوں کے بعض معابد آج بھی انسانی کھوپڑیوں سے تعمیر شدہ سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ بچوں کو گروی اور یرغمالی کے طور پر رکھا جاتا تھا، ۳۷۴ عیسوی میں پہلی دفعہ بچوں کے قتل کی ممانعت کا قانون بنایا گیا ہے۔ (مبارک علی: 325) آج بھی مغربی معاشرہ بچوں کے لئے بدترین ہے، ڈاکٹر شوارز (Schwarz,88) کے مطابق برطانیہ میں ہر سال اسی ہزار ناجائز بچے پیدا ہوتے ہیں۔ سوروکن (Sorokin 13-14) کے مطابق امریکہ میں 1927ء میں ایک ہزار میں سے اٹھائیس بچے ناجائز پیدا ہوتے تھے۔ یہ رپورٹیں اسقاط حمل کے علاوہ ہیں۔طلاق کی کثرت کے سبب بچے فارمی مرغیوں کی طرح (Child Care Centers) میں پل رہے ہیں۔ یہی حالت فرانس کی ہے (مودودیؒ 1983م، 40) جس کے ازالہ کے لئے پہلے 20 نومبر 1989ء میں کانفرنس ہوئی، پھر ستمبر 1990ء میں بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے زیر اہتمام نیویارک میں کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں قوانین وضع کئے گئے (نذر الحفیظ: 70-71)

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی

جو شاخ نازک پہ آشیانہ ہوگا ناپائیدار ہوگا

بچہ کی تعریف:

قرآن کریم نے بچہ کی پیدائش سے قبل کے چار مراحل کا ذکر کیا ہے پہلے مٹی سے تخلیق کیا (قرآن، 5:22) پھر انسانی نطفہ سے پیدائش ہوئی (قرآن، 3:16، 5:22)، نطفہ علقہ میں پھر مضغۃ میں تبدیل ہوتا ہے(قرآن، 5:22) پھر بچہ پیدا ہوتا ہے، جب تک ماں کے پیٹ میں ہے اسے جنین کہا جاتا ہے(غازی، 2010م، 131)، بچہ کو عربی میں طفل (قرآن، 31:24، 5:22، 67:40، 59:24) اور صبی کہا جاتا ہے (قرآن، 12:19، 29:19) صبیّ کی بھی دو قسمیں ہیں، غیر ممیز سات سال تک کی عمر کا بچہ، ممیز سات سال سے زیادہ عمر والا بچہ (الناطفی، 185)، اسے تین ادوار میں بھی تقسیم کیا گیا ہے۔ 1۔غیر ممیز، 2۔ممیز، 3۔بلوغت (بھنسی، 10-6:4) بلوغت کی علامات (احتلام، حمل، حیض وغیرہ، سے) ظاہر ہوتی ہے یا عمر سے جو کہ کم از کم لڑکی کے لئے نو لڑکے کے لئے بارہ ہے (غازی 2010م، 103) زیادہ سے زیادہ لڑکی کے لئے سترہ، لڑکے کے لئے اٹھارہ سال ہے۔(غازی 2010م، 104)

حقوق کی اقسام

حقوق میں بعض کی حیثیت محض اخلاقی ہوتی ہے، مثلاً بڑوں کا حق ادب، چھوٹوں کا حق شفقت، ضرورت مند کا حق امداد، مہمان کا حق تواضع وغیرہ، اور بعض کو قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً حق ملکیت، حق اجرت، حق مہر اور حق معاوضہ وغیرہ۔ یہ ایسے حقوق ہیں جن کا تعلق کسی مفاد سے ہوتا ہے اور ملک کا قانون اس مفاد کو تسلیم کرکے اسے عدلیہ کے ذریعہ قابل حصول بنا دیتا ہے۔ قانونی حقوق (Legal Rights) جو مثبت حقوق (Positive Rights) کہلاتے ہیں۔

فرد کے حقوق کا ایک اور دائرہ ریاست سے تعلق کا ہے۔ اس دائرہ میں ایک وسیع الاختیار اور کثیر الوسائل ریاست کے مقابلہ میں فرد کو جو حقوق دیئے جاتے ہیں انہیں ہم بنیادی حقوق (Fundamental Rights) کہتے ہیں۔ ان حقوق کے لئے بنیادی انسانی حقوق (Basic Human Rights) اور انسان کے پیدائشی (Birth Rights of Man) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اسلام نے انسان کو بالخصوص بچوں کو جو حقوق عطا فرمائے ہیں وہ دنیا کے کسی بھی قدیم یا جدید مذہب و تہذیب نے نہیں دیئے ہیں۔ لیکن یہ انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے کہ بچوں کے حقوق کے حوالہ سے اسلام ہی کو سب سے زیادہ بدنام کیا گیا ہے اور یہ پروپیگنڈا اتنی شدت و تکرار کے ساتھ کیاگیا ہے، غیروں کے ساتھ اپنے بھی متاثر ہوچکے ہیں۔

حقوق کی بنیادی طور سے کتنی قسمیں ہیں اس میں مختلف آراء ہیں، پہلی رائے یہ ہے کہ تمام حقوق فی الحقیقت حقوق اللہ ہیں۔(محمد صلاح الدین، 173)، دوسری رائے یہ ہے کہ حقوق کی بنیادی طور سے دو قسمیں ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں: ''حقوق کی دو قسمیں ہیں منہیات اور مأمورات (تھانوی، 1943م، 43)، اور پہلی رائے کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں، حقوق العباد درحقیقت حقوق اللہ ہی ہیں(تھانوی، 1943م، 45)، پھر حقوق العباد کی تین قسمیں بیان کی ہیں، بد نیہ، مالیہ، عرضیہ (تھانوی، 1943ء، 52، 244)

فقہ اسلامی کی رو سے حقوق کی چار اقسام ہیں: 1-حقوق اللہ (Purcrights of God)، 2-حقوق العباد (Pure Rights of Peoples)، 3-الجمع بین الحقین مع غلبۃ الاوّل (Combination of both with predominance of the first)، 4-الجمع بین الحقین مع غلبۃ الثانی (منہاج، 113)(Combination of both with predominance of the second)، یہی چار قسمیں ڈاکٹر عبدالناصر موسیٰ نے بیان کی ہیں۔(ابوالبصل، 239)، جدید فقہی مباحث کے مقالہ نگار نے ۴۹ قسمیں بیان کی ہیں(قاسمی، 200) لیکن زیادہ صحیح یہ ہے کہ حقوق کی بنیادی طور سے تین قسمیں ہیں، جیسا ڈاکٹر وھبہ الزحیلی نے لکھا ہے: ''حقوق اللہ، حقوق العباد اور حقوق مشترکہ(الزحیلی،14:4)

حقوق کا تعارف

حق کی جمع حقوق ہے اس کے معنی ہیں وہ بات جو ثابت ہو اور اس سے انکار ممکن نہ ہو(القونوی، 216) حق کے لئے انگلش میں Truth, Justice, Right کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں(Al-Khudrawi,10)، ''لفظ حق'' حقیقت اور صدق کے معنی میں بھی کچھ فرق کے ساتھ مستعمل ہے(العسکری، 45، 59) اردو میں مطابقت اور موافقت کے معنی میں مستعمل ہے، قرآن میں حق کا لفظ دو سو ستائیس مرتبہ آیا۔(عبدالباقی، 265) او ر تین معانی میں مستعمل ہوا ہے۔ ثابت کرنے (سرور حسین، 325) اور سچ کے معنی ہیں۔(سرورحسین،326) الحق کا لفظ اللہ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے۔(قرآن، 25:24۔ 30:31)، گائس ایزیجیوفار(Gaiuse, 3) بنیادی حقوق کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے۔

انسانی یا بنیادی حقوق جدید نام ہے ان حقوق کا جنہیں روایتی طور پر فطری حقوق کہا جاتا ہے اور اس کی تعریف یوں ہوسکتی ہے کہ وہ اخلاقی حقوق جو ہر انسان کو ہر جگہ اور ہمہ وقت اس بنیاد پر حاصل رہتے ہیں کہ وہ دوسری تمام مخلوقات کے مقابلہ میں اس اعتبار سے ممتاز ہے کہ وہ ذی شعور و ذی اخلاق ہے۔ انصاف کو بری طرح پامال کئے بغیر کوئی بھی شخص ان حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔(Gaiuse, 3)

علامہ شامیؒ نے حق کی تعریف کرتے ہوئے لکھا: الحق مایستحقہ الرجل(شامی، 1252م، 188:4 ) ''حق وہ ہے انسان جس کا مستحق ہو'' شیخ شلبی فرماتے ہیں:

فالحق فی الشریعۃ لایکون حقا الا إذا اقرہ الشرع و حکم بوجودہ و اعترف لہ بالحمایۃ و لہذا فان مصادر الحقوق فی الشریعۃ ھو الشریعۃ نفسہا ولا یوجد حق شرعی الاولہٗ۔(شلبی، 165)

شریعت کی نگاہ میں حق وہی امر کہلائے گا جس کا شریعت اقرار و اعتراف کرتی ہو اس لئے شرعی مأخذ کے ذریعہ ہی کسی شرعی حق کو پہچانا جاسکتا ہے۔

اصول قانون کے مطابق جب ہم حق کا لفظ اصطلاحی زبان میں استعمال کرتے ہیں تو اس کا متبادل فرض ہوتا ہے(عزیز احمد، 193)

اسلام جامع مذہب ہے، اس کی تعلیمات میں ہمہ گیریت ہے، وہ جہاں بچوں کے حقوق متعین کرتا ہے وہیں ان کی ذمہ داریوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے تاکہ معاشرہ متوازن رہے۔ معاشرہ کو متوازن رکھنے کے لئے اسلام کی متوازن و معتدل تعلیمات کو فروغ دینے میں ہی ہماری اور امت مسلمہ کی کامیابی ہے۔ جہاں تک بچوں کے حقوق کا تعلق ہے ان حقوق کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

(1) پیدائش سے پہلے کے حقوق

(2) پیدائش کے بعد کے حقوق

مغرب نے جن حقوق کی تعیین کی ہے ان کا تعلق فقط بعد از ولادت سے ہے، جبکہ اسلام نے ولادت سے قبل کے حقوق بھی متعین کئے ہیں۔

پیدائش سے پہلے کے حقوق

پیدائش سے مراد وہ عرصہ ہے جب لڑکا اور لڑکی نکاح کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں اور نسل انسانی کے فروغ میں اپنا رول ادا کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ نیک اولاد کی دعاء کریں، والدین کی دعائیں اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہیں اس لئے ہم اسے بھی اولاد کے حقوق میں شمار کرتے ہیں۔

1۔ نیک اولاد کی دعاء کرنا ہے:

اولاد کے حقوق میں سے پہلا حق یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے نیک اولاد کی دعائیں کرے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس عمل کو مومنین کی صفت قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا .(قرآن: 74:25)

مسلمان یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں نیک جوڑے اور اولادوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا۔

اولاد بہت بڑی نعمت ہے بالخصوص نیک اولاد والدین کا فرض ہے کہ جب انہیں اولاد کی نعمت سے نوازا جائے تو اس کی نیکی کی دعائیں رب تعالیٰ سے کرتے رہیں، چنانچہ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ثَلاَثُ دَعْواتٍ یستجاب لھن لا شک فیھن دعوۃ المظلوم، و دعوۃ المسافر، ودعوۃ الوالد لولدہ(ابن ماجہ، 209ھـ ۔273م، 225)

تین دعائیں ایسی ہیں جن کی قبولیت میں کوئی شک و شبہ نہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والد کی اپنی اولاد کے لئے دعا۔

سیرت نگاروں نے ایک دلچسپ واقعہ نقل کیا ہے، جب مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آگئے بہت عرصہ تک کسی مہاجر کے گھر میں اولاد نہ ہوئی اس لئے یہودیوں نے جو اسلام اور مسلمانوں کے شدید دشمن تھے، یہ افواہ پھیلا دی کہ ہم نے مسلمانوں پر جادو کر دیا ہے، لہٰذا اب ان کے ہاں اولاد نہ ہوگی۔ یہودی بار بار یہی بات کہہ کر مسلمانوں کو دکھ دیا کرتے تھے۔

جب مسلمانوں کی ہجرت کو تقریباً ایک سال ہونے والا تھا، حضرت اسماءؓ (جو أم المؤمنین عائشہؓ کی بہن تھیں) کے ہاں بیٹا پیدا ہوا، ان کے شوہر کا نام حضرت زبیرؓ تھا۔ انہوں نے اپنے اس بیٹے کا نام عبداللہ رکھا۔ یہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ آنے والے مسلمانوں کی سب سے پہلی اولاد ہیں، اس لئے مسلمانوں نے خوب خوشی منائی اور خوب زور زور سے اللہ اکبر پکارا تاکہ یہودیوں کا منہ کالا ہو۔ وہ اس خبر کو سن کر بہت شرمندہ ہوئے کیونکہ اب ان کی یہ جھوٹی افواہ غلط ثابت ہوچکی تھی۔

رسول اللہ ﷺ کے ایک بیٹے ابراہیم تھے جن کی والدہ کا نام ماریہؓ قبطیہ تھا۔ عرب دستور کے مطابق آپ ﷺ نے انہیں پرورش کے لئے حضرت اُم سیفؓ کے سپرد کردیا تھا جو مدینہ سے تین چار میل دور عوالی میں رہتی تھیں۔ آپ ﷺ کبھی کبھی اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لئے اُم سیفؓ کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ بچے کو اپنی گود میں لیتے، منہ چومتے، دیر تک پیار کرتے رہتے اور پھر واپس مدینہ منورہ تشریف لے آتے تھے۔ ام سیف کے شوہر لوہار تھے اس لئے اُن کے گھر میں دھواں بھی ہوتا تھا مگر آپ ﷺ کو اپنے پیارے بیٹے حضرت ابراہیم کی محبت میں اس دھوئیں کی بھی پرواہ نہ ہوتی تھی۔

حضرت ابراہیم، اُم سیف ؓ کے گھر میں بیمار ہوگئے جب آپ ﷺ کو اطلاع ملی تو ان کے گھر تشریف لے گئے۔ بچے کے آخری سانس جاری تھے۔ آپ ﷺ نے اُسے اپنی گود میں میں لے لیا اس کی طرف دیکھنے سے آپ ﷺ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ آپ ﷺ کے ایک صحابی حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے جو آپ ﷺ کے ساتھ موجود تھے، آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر عرض کیا: ''یا رسول اللہ ! آپ ﷺ کی بھی یہ حالت ہے؟'' یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا: ''آنکھیں آنسو بہاتی ہیں، دل غم گین ہے لیکن ہم وہی کہیں گے جو ہمارے رب کی مرضی ہو۔ اے ابراہیم ہم تیری جدائی میں بہت غم گین ہیں''۔

2۔ پیدائش جائز و حلال طریقہ سے ہو:

بچہ کا دوسرا حق یہ ہے کہ حلال نطفہ سے ہو، یعنی زنا کے نتیجہ میں نہ ہو اس کا نسب متعین ہو اس کے باپ کا علم ہو، معاشرتی شناخت حاصل ہو، معاشرہ میں مقام حاصل کرنے کے لئے خاندان و قبیلہ ملے یہی وجہ ہے نکاح کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

فَا نْکِحُوْ ا مَا طَابَ لَکُم مِّنَ النِّسِآ ئِ مَثْنٰی وَ ثَلاثَ وَ رُباعَ (قرآن،3:4)

نکاح کرو دو خواتین سے تین سے چار سے۔

یعنی بغیر نکاح کے توالد و تناسل کا سلسلہ نہیں ہونا چاہئے، یہی وجہ ہے اس برے عمل کی بدترین سزا رجم (سزائے موت) مقرر کی گئی ہے، ہر ذی عقل واقف ہے، حرامی بچہ کا کوئی ذاتی قصور نہیں ہوتا ہے، لیکن والدین کے گناہ کو چھپانے کے لئے اسے قتل کردیا جاتا ہے، حالانکہ اس کے برعکس ہونا چاہئے۔

3۔ بچہ کی پرورش رزق حلال سے کی جائے:

بچہ کا تیسرا حق ہے رزق حلال یعنی والدین اسے حلال رزق فراہم کریں، حلت کی دو صورتیں ہیں یعنی حلال غذا کی فراہمی والدین حلال غذائیں استعمال کریں تاکہ جو حمل ٹہرے وہ بھی رزق حلال کا نتیجہ ہو، دوسری صورت یہ ہے کہ رزق تو حلال ہے، لیکن حرام ذریعہ سے حاصل کیا گیا ہے، مثلاً رشوت، چوری، ڈاکہ، غصب کے ذریعہ حاصل کیا ہوا مال بھی اولاد پر اثرانداز ہوتا ہے، ایسے مال سے پرورش پانے والا جسم دنیاوی و اخروی اعتبار سے سعادت و خیر کا ذریعہ و منبع نہیں بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے آپ ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے، جس کی حرام لقمہ سے پرورش ہوتی ہے اس کی چالیس دن تک دعاء قبول نہیں ہوتی۔

4۔ بچہ کی زندگی کی حفاظت کی جائے:

زندگی اللہ دیتا ہے اسی کو واپس لینے کا حق ہے یہی وجہ ہے قتل کو بدترین جرم قرار دیا گیا ہے خواہ اپنی اولاد کا ہو۔

قُلْ تَعَا لَوْ ا اَتْلُ مَا حَرَّ مَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اَلَّا تُشْرِ کُوْ ا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِا لْوَالِدَیْنِ اِحْسَا نًا وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَ کُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّا ھُمْ وَ لَا تَقْرَبُوْا الْفَوَا حِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ وَ لَا تَقْتُلُوْا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِا لْحَقِّ ۱ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ O (قرآن، 151:6)

آپ کہئے کہ آؤ میں تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرمادیا ہے، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ، اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو، اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو، ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں، اور بے حیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاؤ، خواہ وہ اعلانیہ ہوں یا پوشیدہ، اور جس کا خون کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے اس کو قتل مت کرو۔ ہاں مگر حق کے ساتھ، اسی کا تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو۔

اللہ تعالیٰ نے ''سورہ الاسراء'' میں اس مضمون کو اس طرح سے بیان فرمایا ہے کہ:

وَ لَا تَقْتُلُوْآ اَوْ لَا دَ کُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَا قٍ نَحْنُ نَرْ زُ قُھُمْ وَ اِ یَّا کُمْ اِ نَّ قَتْلَھُمْ کَا نَ خِطْاً کَبِیْرًا O (قرآن، 31:17)

اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولادوں کو مار نہ ڈالو! انہیں اور تمہیں ہم ہی روزی دیتے ہیں، یقینا ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔

قتل کا ایک سبب رزق تھا کہ پال پوس کر لڑکی جوان کریں گے پھر وہ دوسرے کے گھر چلی جائے گی، دوسرے جاہلانہ غیرت تھی کہ کوئی ان کا داماد بنے گا، تیسرا سبب یہ فلسفہ تھا کہ اولاد ہماری ملکیت ہے، ہم خواہ زندہ رکھیں یا قتل کردیں، قرآن کریم نے تینوں اسباب کو غلط قرار دے کر حق حیات کا دفاع کیا ہے۔ بچہ کی پیدائش کے بعد بہت سے حقوق متعین ہو جاتے ہیں، لیکن زندگی ایسا حق ہے جو پیدائش سے قبل ہی شریعت متعین کر دیتی ہے، یہی وجہ ہے فقہ کی تمام کتابوں میں دیت الجنین کی بحث موجود ہے، زمانہ جاہلیت میں مکمل حمل کی ہلاکت پر بھی قصاص تھا، اسلام نے اس کی جگہ دیت مقرر کی ہے، (یہ بحث مستقل مقالہ کی محتاج ہے) یہی وجہ ہے اسقاط حمل کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، میں نے اسی وجہ سے اس حق کو قبل از ولادت میں شمار کیا ہے۔ زندگی کا تحفظ، بیماری سے بچانا بھی ہے، اگر بیمار ہو جائے علاج کرانا، وبائی امراض سے حفاظت کرنا موروثی بیماریوں سے بچانے کی پیش بندی کرنا، خطرناک مقامات، جہاں جان ضائع ہونے کا خدشہ ہو اس سے محفوظ رکھنے کے اقدامات کرنا وغیرہ۔

5۔ بچہ کو بہتر ماحول فراہم کرنا:

پانچواں حق یہ ہے کہ حمل ٹہرنے کے بعد ولادت تک ماں خود کو نیک کاموں میں مصروف رکھے، جسمانی صحت کا خیال رکھے، برے اشغال سے دور رہے، عبادت، تلاوت قرآن کریم اور ذکر و اذکار وغیرہ کا خصوصی اہتمام کریں تاکہ بچہ پر نیک اثرات مرتب ہوں۔ بچہ جب ماں کے رحم میں موجود ہوتا ہے تو وہ ماں کے تمام اثرات کو قبول کرتا ہے، جو ولادت کے بعد اس پر ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں، رحم دراصل بچہ کے لئے ماں کی پہلی گود ہے۔ یہاں تک کہ ایسے واقعات رونما ہوئے کہ اگر ماں قرآن کریم کی تلاوت کرتی تھی تو بچے بھی اس قرآنی حصہ کے حافظ پیدا ہوئے ہیں۔

پیدائش کے بعد کے حقوق

1۔بچہ کا اچھا نام رکھا جائے:

بچہ کی پیدائش کے بعد پہلا حق یہ ہے کہ اس کا اچھا نام رکھا جائے۔ نام بچہ کو شناخت فراہم کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ نام کے شخصیت پر اثرات ہوتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

کُلُّ غُلٓامٍ مُرْتَھِنٌ بَعِقَیْقَتِہٖ تُذْبَحُ عَنْہُ یَومَ السَّابِعْ، وَیُحْلَقُ رَأْسَہٗ وَیُسَمّٰی (ابن ماجۃ، (209ھـ، 273م)، 3165، ابوداؤد، (202ھـ ۔ 275م) 2837، نسائی، 4225)

بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے، جو ساتویں دن اس کی طرف سے ذبح کیا جائے گا، اور اس کا نام رکھا جائے گا، اور اس کے سر کے بال اتارے جائیں گے۔ یعنی ساتویں دن اس کا نام رکھنا چاہئے۔

نبی کریم ﷺ نے ناموں کے بارے میں بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا:

إِنَّ أَحَبَّ أَسْمَائِ کُمْ إِلٰی اللّٰہِ: عَبْدُ اللّٰہِ، وَ عَبْدُ الرَّحْمٰن (مسلم (204ھـ ۔ 261م)، 5587)

تمہارے ناموں میں سے اللہ کو سب سے زیادہ محبوب نام: عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔اور ایک روایت میں ''حارث'' نام بھی پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔(البانی، 1420م، 904م)

اسی طرح ہر وہ نام جو بامعنی و خوبصورت ہو اور مشرکانہ مفاھیم سے منزہ ہو، اس لئے کہ بچوں پرناموں کا اثر پڑتا ہے، اور بچہ کے نام میں محمد یا احمد یعنی اسماء نبوی نبوی کا سابقہ و لاحقہ بھی لگانا چاہئے تاکہ آپ ﷺ سے نام کی نسبت بھی پیدا ہو جائے، اس موضوع پر مستقل کتابیں تیار ہوچکی ہیں، جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ عقیقہ سنت ہے، ساتویں یا چودھویں یا اکیسویں دن بچی کی جانب سے ایک بکری، بچہ کی جانب سے دو بکرے قربان کرنا چاہئیں، اور سر کے بالوں کے ہم وزن چاندی یا مساوی رقم صدقہ میں خرچ کرنی چاہئے، میرا خیال ہے عقیقہ بیشک سنت ہے لیکن اگر والدین مالدار ہیں تو یہ بھی بچہ کے حقوق کے زمرے میں شامل ہونا چاہئے، اس لئے کہ احادیث میں اس کے بہت سے فوائد و فضائل بیان کئے گئے ہیں۔

2۔بچوں کے درمیان عدل و مساوات قائم کرنا ہے ہے:

اولاد میں عدل و مساوات کے متعلق امام بخاری و مسلم نے سیدنا نعمان بن بشیرؓ کی حدیث ذکر کی ہے، وہ فرماتے ہیں میرے والد مجھے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا میں نے اپنے اس لڑکے کو اپنا ایک غلام ہدیہ کردیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے اسی طرح اپنے ہر لڑکے کو ہدیہ کیا ہے؟ عرض کیا: نہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فَارجعہ(بخاری، (164ھـ، 256م، 2586) تو پھر اس سے بھی واپس لے لو۔

دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے ایسا سلوک اپنے تمام لڑکوں کے ساتھ کیا ہے؟ عرض کیا: نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:

اِتَّقُوْا اللّٰہَ اَعْدِلُوْا فِیْ اَوْلآدِکُمْ

اللہ سے ڈرو، اور اپنے بچوں میں عدل و مساوات کا معاملہ کرو۔

ایک تیسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''کیا تم نے اسی طرح تمام لڑکوں کو غلام دیا ہے؟ عرض کیا: نہیں تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

فَلٓا تُشْھِدْنِیْ عَلٰی جَوْرٍ، أَیَسُرُّکَ أَنْ یَکُوْنَوا إِلَیْکَ فِیْ الْبِّرِ سَوائً؟ قَالَ بَلٰی : قَالَ إِذًا (بخاری، 194ھـ ۔ 256م، 2650)، (مسلم، 204ھـ ۔ 261م، 4186)

تو پھر مجھے گواہ نہ بناؤ میں ظلم و زیادتی کا گواہ نہیں بنوں گا، پھر فرمایا: کیا تمہارے لئے یہ بات خوش آئند نہیں ہوگی کہ وہ سب بھی تمہارے ساتھ برابری کا سلوک کریں؟ عرض کیا: کیوں نہیں؟ تو آپ ﷺنے فرمایا: لہٰذا تم بھی ان کے ساتھ برتاؤ میں تفریق و امتیاز نہ کرو۔

یعنی اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنے ورثاء بالخصوص اولاد میں جائداد تقسیم کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے سب بچوں کو برابر مال و جائداد دے، کم زیادہ نہیں، اسی طرح اگر کپڑے وغیرہ بنائے، تو سب بچوں بچیوں میں مساوات قائم رکھے یہ عدل و مساوات تمام معاملات میں ہونا چاہئے، البتہ قلبی میلان پر کوئی گرفت نہیں، بعض بچے باصلاحیت ہوتے ہیں یا ماں باپ سے زیادہ محبت کرتے ہیں یا زیادہ ذمہ دار ہوتے ہیں، ماں باپ بھی ان سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔

آپ ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کے دو بچے تھے ایک لڑکا جس کا نام علی تھا اور دوسری لڑکی جو امامہ کہلاتی تھیں۔ آپ ﷺ کو ان دونوں بچوں سے بہت پیار تھا۔ نماز پڑھتے وقت کبھی کبھار بی بی امامہ کو اپنے کندھوں پر سوار کرلیا کرتے تھے۔

حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے آپ ﷺ کے لئے ایک قیمتی اور خوب صورت انگوٹھی تحفہ کے طور بھیجی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ''یہ انگوٹھی میں اس کو دوں گا جو مجھے سب سے بڑھ کر پیارا ہے'' لوگوں کا خیال تھا کہ آپ ﷺ یہ انگوٹھی اپنی نیک اور بہت عقل مند بیوی سیدنا عائشہؓ کو دیں گے، کیونکہ وہ آپ ﷺ کو بہت عزیز تھیں لیکن آپ ﷺ نے امامہؓ کو بلوایا اور وہ انگوٹھی ان کی انگلی میں پہنا دی۔ اس وقت وہ بچی تھیں۔ بعض روایات میں ہے حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے انگوٹھی نہیں بلکہ ہار تحفہ کے طور پر بھیجا تھا جسے آپ ﷺ نے امامہؓ کے گلے میں ڈال دیا۔

آپ ﷺ اسامہؓ کو بہت محبوب رکھتے تھے اور اپنے نواسوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے ساتھ اپنی محبت اور شفقت میں حضرت اسامہؓ کو بھی شامل کرتے تھے۔ دس گیارہ سال عمر تک انہیں آپ ﷺ کے گھروں اور بیویوں کے درمیان آنے جانے کی اجازت رہی۔ حضرت اسامہؓ ابھی بچے ہی تھے کہ ایک دفعہ گھر میں داخل ہونے کے لئے دروازے کی چوکھٹ کو پھلانگتے ہوئے گر پڑے ان کے ماتھے سے خون بہنے لگا۔ آپ ﷺ نے اُٹھ ان کا خون صاف کیااور زخم پر اپنا لعان دہن لگادیا جس سے ان کا زخم ٹھیک ہوگیا۔ حضرت اسامہؓ خود بیان فرماتے ہیں کہ ''رسول اللہ ﷺ مجھے پکڑتے اور اپنی دائیں ران پر بٹھاتے اور اپنے نواسے حسن کو پکڑتے اور انہیں اپنی بائیں ران پر بٹھاتے، پھر ہم دونوں کو ملاکر دعا کرتے: ''الٰہی میں ان دونوں پر رحم کرتا ہوں، تو بھی ان پر رحم فرما۔'' (بخاری، 194ھـ ۔ 256م، 76:7)

سیدنا فاطمہؓ آپ ﷺ کے انتقال کے وقت آپ ﷺ کے پاس موجود تھیں۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ میری بیٹی فاطمہؓ دنیا کی بہترین خاتون ہے۔ ایک بار آپ ﷺ نے فرمایا ''فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو غصہ دلایا اور ناراض کیا، اس نے مجھے غصہ دلایا اور ناراض کیا''۔ آپ ﷺ نے ان کا نکاح حضرت علیؓ سے کردیا تھا۔ آپ ﷺ کو اتنی ہی محبت حضرت علیؓ اور اپنے نواسوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ سے بھی تھی، آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے: ''جن سے تم ناراض ہوگے میں بھی ان سے ناخوش ہوں گا۔ جن سے تمہاری لڑائی ہے، ان سے میری بھی لڑائی ہے۔ جس سے تمہاری صلح ہے اس سے میری بھی صلح ہے۔'' والدین اگر بچوں کے درمیان مساوات قائم رکھیں توبچے بھی آپس میں ایک دوسرے سے حسد و بغض نہیں رکھتے۔

3۔ بچہ کی کفالت کرنا لازم ہے:

بچہ کی کفالت کرنا اس میں تمام ضروریات زندگی کا پورا کرنا شامل ہے۔ یعنی اس کے لئے مناسب غذا کا انتظام کرنا جس سے وہ بہتر نشوونما پاسکے، بچہ کے لئے ایسا لباس فراہم کرنا جس میں سردی، گرمی سے محفوظ رہے، ایسی جگہ رہائش فراہم کرنا، جہاں وہ سردی، گرمی سے محفوظ رہے، پرسکون نیند حاصل کرسکے یہ بچہ کا حق ہے۔

4۔ بچہ کے مال کی حفاظت کرنا چاہئے:

اگر بچہ کو وراثت یا گفٹ میں کوئی مال یا جائداد ملی ہے، تو جب تک بلوغت یا رشد کی عمر تک نہ پہنچ جائے، اس کے مال کی حفاظت کرنا بچہ کا حق ہے، اگر والدین ضرورتمند ہوں تو فقط بقدر ضرورت ہی اس کے مال کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔

5۔ بچہ کی عزت و آبرو کا تحفظ کرنا چاہئے:

عزت و آبرو کے تحفظ کا مطلب ہے بچہ کی تذلیل نہ کی جائے، اسے باعزت نام و القاب سے پکارا جائے، حقارت کا رویہ نہ اپنایا جائے، غلط کاموں پر اس کی سرزنش ضرور کی جائے، لیکن اصلاح کی نیت سے مولانا اشرف علی تھانویؒ نے تربیت اولاد کے حوالہ سے اصلاح کے طریقے تفصیل سے بیان کئے ہیں، عزت و آبرو کے تحفظ کا مطلب یہ بھی ہے کہ انہیں بری صحبت سے بچایا جائے تاکہ وہ اخلاقی و جنسی برائیوں سے محفوظ رہیں۔

6۔ بچہ کے ساتھ شفقت سے پیش آنا چاہئے:

یعنی بچوں سے محبت اور شفقت ان کا حق ہے، سیدنا عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:

مَنِ ابْتَلٰی مِنْ ھٰذِہٖ الْبِنَاتِ بِشَی ئٍ فَأَحْسَنَ إِلَیْھِنَّ کُنَّ لَہٗ سِتْراً مِنَ النَّارِ (بخاری، 194ھـ ۔ 256م، 5995)

جس بندے یا بندی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیٹیوں کی پرورش کی ذمہ داری ڈالی گئی، اور اس نے اچھا سلوک کیا، تو یہ بیٹیاں اس کے لئے دوزخ سے بچاؤ کا سامان بن جائیں گی۔

سیدنا ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

لٓایَکُوْنُ لِأَحَدٍثَلٓاثَ بَنَاتٍ، أَوْثَلٓاثَ أَخَوَاتٍ فَیُحْسِنُ اِلَیْھِنَّ دَخَلَ الْجَنَّۃَ (ألبانی، 1420ھـ، 103)

جس کسی کی بھی تین بیٹیاں یا بہنیں ہوں وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اسے جنت ملے گی۔

نبی کریم ﷺ نے شفقت کے حوالے سے ایک اچھے معاشرہ کے قیام کے لئے روشن ہدایت فرمائی۔

مَنْ لَمْ یَرْ حَمْ صَغِیْرَنَا وَلَمْ یَوْقِّرْ کَبِیْرَنَاَ ، فَلَیْسَ مِنَّا (الترمذی، 1322:4 ۔ 1919، ابن حنبل، 164ھـ ۔ 241م، 207:2)

جو شخص ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا، اور ہمارے بڑوں کی توقیر نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(ترمذی، 322:4، ابوداؤد، 202ھـ ۔ 275م، 233:5)

اور آپ ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے:

مَنْ لٓا یَرْحَمْ لٓایُرْحَمْ (بخاری، 194ھـ، 5997، ألبانی، 1420ھـ، 2196) جو شخص رحم نہیں کرتا، اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔ یعنی بچے غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن ان کے ساتھ محبت کا رویہ اپنانا چاہئے شریعت نے اسی لئے بچوں پر فرائض کی ادائیگی کو لازمی قرار نہیں دیا نہ ان کے لئے سزائیں مقرر کی ہیں۔

حضرت جابرؓ بن سمرہ جو آپ ﷺ کے صحابی تھے، اپنے بچپن کا واقعہ سناتے ہیں کہ میں نے ایک بار رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، پھر آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ سامنے سے اور بچے بھی آگئے آپ ﷺ نے سب بچوں کو پیار کیا اور مجھے بھی پیار کیا۔

ایک دفعہ آپ ﷺ اپنے نواسے حضرت حسنؓ کو پیار سے چوم رہے تھے کہ اقرعؓ بن حابس نے جو وہاں موجود تھے حیران ہوکر کہا: یا رسول اللہ! میرے تو دس بیٹے ہیں لیکن میں نے کبھی کسی کو پیار نہیں کیا، مگر آپ ﷺ تو بوسہ دیتے ہیں''۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا'' اس میں ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ اگر تم بچوں سے پیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم سے پیار کرے گا۔ آپ ﷺ بچوں کو قطار میں جمع کرکے دوڑ لگواتے کہ دیکھیں کون ہمیں پہلے چھوتا ہے، بچے دوڑتے ہوئے آتے ہیں، کوئی سینہ مبارک پر گرتا، کوئی پیٹ مبارک پر آپ ﷺ جیتنے والوں کو انعام دیتے۔ جب آپ ﷺ کسی بچے کو دیکھتے یا ا س سے ملتے تو محبت اور خوشی آپ ﷺ کے چہرے پر نظر آنے لگتی تھی۔ کبھی کبھی آپ ﷺ اپنے دوستوں کے بچوں کو اٹھاکر کھلایا کرتے تھے۔ جب لڑکوں کے پاس سے گزرتے تو ان کو سلام کرتے۔ ایک دفعہ آپ ﷺ اپنے چھوٹے نواسے حضرت حسینؓ کو پیار سے چوم رہے تھے کہ پاس بیٹھے ہوئے ایک دیہاتی نے حیران ہو کر کہا: ''آپ ﷺ بچوں کو پیار سے بوسہ دیتے ہیں؟ ہم تو ایسا ہرگز نہیں کرتے'' اس کی بات سن کر آپ ﷺ نے فرمایا: ''اگر تیرے دل سے اللہ تعالیٰ نے رحم نکال دیا ہے تو اس میں میرا کیا اختیار ہے''۔ یعنی تمہارے اندر رحم نہیں ہے اس لئے تم بچوں سے پیار نہیں کرتے ہو۔ بچوں سے آپ ﷺ کو بہت دلچسپی تھی۔ ان کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرتے، پیار کرتے اور ان کے لئے دعا فرماتے۔ جب ننھے ننھے بچے آپ ﷺ کی خدمت میں لائے جاتے تو آپ ﷺ ان کو اپنی گود میں لے لیتے اور ان کو بہلانے کے لئے عجیب کلمات فرماتے۔ ایک دفعہ ایک بچے کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا: ''بچے تو اللہ کے باغ کے پھول ہیں'' ۔

آپ ﷺ کی ایک زوجہ محترمہ کا نام ام سلمہؓ تھا جن کے پہلے شوہر حضرت ابوسلمہؓ کے شہید ہو جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان سے نکاح کرلیا تھا۔ ان کے ساتھ پہلے شوہر کی ایک چھوٹی سی بیٹی تھی جن کا نام برہ تھا۔ آپ ﷺ نے ان کا نام برہ سے بدل کر زینبؓ رکھ دیا اور ان کی پرورش بہت پیار و محبت سے کی۔ جب کبھی آپ غسل فرماتے تو ننھی زینبؓ آہستہ آہستہ چلتے پھرتے آپ ﷺ کے پاس آجاتیں۔ آپ ﷺ پیار سے ان کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارتے جس سے وہ بہت خوش ہوتی تھیں۔

یہ زینبؓ ایسی نصیب والی تھیں کہ رسولِ ﷺ نے جو پانی ان کے منہ پر بچپن میں کئی بار چھڑکا تھا، اس کی برکت سے ان کے چہرے پر بڑھاپے میں بھی جوانی کی طرح رونق رہی اور چہرہ دیکھ کر کوئی انہیں بوڑھی نہیں کہہ سکتا تھا بلکہ دیکھنے میں ہمیشہ جوان نظر آتی تھیں۔ ابوعمیرؓ چھوٹے بچے تھے انہوں نے شوق سے ایک ممولا پال رکھا تھا جس سے وہ بہت پیار کرتے تھے۔ سارا دن اس سے کھیلتے رہتے اور دل بہلاتے تھے۔ آپ ﷺ ام سلیمؓ کے گھر کبھی کبھی تشریف لے جایا کرتے تھے اور ابو عمیرؓ سے پیار کیا کرتے تھے۔ ایک بار آپ ﷺ ان کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ ابوعمیرؓ اداس بیٹھے ہیں۔ آپ ﷺ نے ان کی والدہ ام سلیمؓ سے دریافت فرمایا کہ آج ابوعمیرؓ خاموش اور اداس کیوں ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ''یا رسول اللہ ﷺ! اس کا ممولا جس سے یہ کھیلا کرتا تھا، آج مرگیا ہے اس لئے اداس ہے'' آپ ﷺ نے ابوعمیرؓ کو اپنے پاس بلایا اور بڑی محبت سے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا:

''اے عمیرؓ تمہارے ممولے کو کیا ہوگیا'' آپ ﷺ کی یہ بات سن کر ابوعمیرؓ بے اختیار ہنس پڑے، ان کی اداسی دور ہوگئی اور پھر کھیل کود میں لگ گئے۔

خالدؓ بن سعید کی پیاری بیٹی کو لوگ أم خالدؓ کہتے تھے۔ آپ ﷺ اس بچی سے بھی بہت پیار کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ ﷺ کو کسی نے تحفہ میں ایک خوبصورت پھول دار کالی چادر دی۔ آپ ﷺ نے حاضرین سے پوچھا، بتاؤ یہ چادر کس کو دوں، لوگ آپ ﷺ کی یہ بات سن کر خاموش رہے۔

خود فرمایا: ام خالدؓ کو بلاؤ اس پر ایک صحابیؓ بھاگتے ہوئے ام خالدؓ کے گھر گئے اور ان سے کہا کہ تمہیں رسول اللہ ﷺ نے یاد کیا ہے۔ وہ فوراً آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، تو آپ ﷺ نے یہ چادر انہیں دے دی اور فرمایا: ''پہنو اور استعمال کرو''۔ چادر پر بنے ہوئے بیل بوٹوں پر اپنا مبارک ہاتھ رکھا اور فرمایا: ''ام خالدؓ، دیکھو یہ کتنے خوب صورت ہیں''

یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئیں، ایک مرتبہ ام خالدؓ اپنے والد حضرت خالدؓ بن سعید کے ساتھ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اس وقت انہوں نے سرخ کرتہ پہن رکھا تھا۔ آپ ﷺ نے انہیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمایا: ''بہت خوبصورت بہت خوبصورت''۔ بچی آپ ﷺ کی یہ بات سن کر بہت خوش ہوئی۔

7۔ بچہ کو تعلیم دلوانا چاہئے:

ارشاد نبوی ﷺ ہے: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی مُسْلِمٍ (ابن ماجۃ، 209ھـ ۔ 273م، 22)

علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو نیکی کی تعلیم دیں اور برائی سے بچنے کی تلقین کریں۔ حصول علم ہر بچہ پر لازمی قرار دیا گیا ہے، علم کو دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں، ایک علم الفرائض ہے، یعنی بچہ کو قرآن کریم کی تعلیم دی جائے، فرائض کی تعلیم دی جائے مثلاً نماز، روزہ وغیرہ تاکہ شریعت کے مطابق وہ زندگی گزار سکے اور دوسرے علوم عصریہ ہیں، یعنی ایسے علوم جو زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہیں، انہیں حاصل کرنے کے اسباب و مواقع فراہم کئے جائیں، یعنی ایسا علم و ہنر جو حلال ہو اور ذریعہ معاش بن سکے، اس کا دائرہ بہت وسیع ہے، اس حق پر مستقل تصانیف موجود ہیں، لہٰذا طویل بحث کی ضرورت نہیں ہے۔

8۔ بچہ کو عمدہ تربیت دینی چاہئے:

تربیت وسیع مفہوم کا حامل لفظ ہے جس میں ذہنی و فکری تربیت، جسمانی تربیت اور اخلاقی تربیت شامل ہیں، بچہ کی جتنی اچھی تربیت ہوگی وہ معاشرہ میں اتنا ہی بہتر رول ادا کرسکے گا۔

آپ ﷺ سیدنا خدیجہ ؓ کے مشورے اور رضامندی سے اپنے چچازاد بھائی حضرت علیؓ کو جن کی عمر چار پانچ سال تھی، اپنے گھر لے آئے، جہاں ان کی بہترین انداز میں پرورش ہونے لگی۔ اس گھر میں علیؓ بہت خوش تھے۔ یہاں ان کی خوراک، پوشاک اور تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام تھا انہیں محبت اور پیار سے بلایا جاتا تھا۔ حضرت علیؓ چھوٹی سی عمر میں بھی بہت عمدہ عادات کے مالک تھے۔ وہ نہایت فرماں بردار، خوش اخلاق اور ہنس مکھ تھے، اس لئے گھر والے ان کی پیاری عادتوں اور بھولی اداؤں کو پسند کرتے تھے۔ گھر کا ہر فرد انہیں عزت اور محبت سے نوازتا تھا۔

حضرت علیؓ کئی سال تک اس گھر میں پلتے رہے، جب حضرت علیؓ کی عمر نو سال ہوئی تو انہوں نے ایک روز رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا تو بہت حیران ہوئے، حضرت علیؓ نے آپ ﷺ سے دریافت کیا کہ آپ ﷺ کیا کر رہے تھے؟ آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کو بتایا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے، کیونکہ نماز پڑھنا اللہ کا حکم ہے۔ اس کے بعد علیؓ نے بھی نماز پڑھنی شروع کردی۔ ایک دن علیؓ آپ ﷺ کے ساتھ پہاڑ کی ایک گھاٹی میں چھپ کر نماز پڑھ رہے تھے انہیں ابوطالب نے اس حالت میں دیکھ لیا اور تھوڑی دیر کھڑے دیکھتے رہے، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا: ''یہ کیا دین ہے جو آپ نے اختیار کرلیا ہے''۔ آپ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا: ''ہمارے دادا حضرت ابراہیمؑ کا یہی دین تھا، اور نماز اس دین کا ایک رکن ہے''۔ یہ سن کر ابوطالب بولے: ''میں اس دین کو اختیار تو نہیں کرسکتا، لیکن آپ ﷺ کو اجازت ہے اور کوئی شخص آپ ﷺ کو تنگ نہ کرے گا''

جب آپ ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے تو انصار کے لوگوں میں سب سے پہلے بشیرؓ کے گھر میں نعمان پیدا ہوئے جس پر انصار نے بڑی خوشی منائی۔ حضرت بشیرؓ اپنے اس ننھے فرزند نعمانؓ کو اکثر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے جایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نعمان سے بہت پیار کیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کے پاس تحفے میں ا نگوروں کی ایک ٹوکری کسی نے بھیجی۔ آپ ﷺ نے انگوروں کے کے دو خوشے نعمانؓ کو عطا کئے اور فرمایا: ''ان میں سے ایک تمہارا ہے، اور دوسرا تمہاری ماں کا''۔ نعمانؓ یہ انگور لے کر اپنے گھر کی طرف چل دیئے اور راستے میں سب انگور خود کھا گئے اور ماں کو بتایا تک نہیں۔ چند دنوں کے بعد پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: ''نعمان! کیا تم نے وہ انگور اپنی ماں کو دے دیئے تھے''؟ نعمانؓ بولے: ''یا رسول اللہ ﷺ نہیں دیئے'' آپ ﷺ نے پوچھا: ''پھر انگور کہاں گئے''؟ نعمانؓ نے جواب دیا: ''میں نے خود ہی کھالئے تھے'' آپ ﷺ نعمانؓ پر ناراض نہ ہوئے بلکہ مسکراتے ہوئے نعمانؓ کے کان مروڑے اور پیار سے فرمایا: تم بڑے مکار ہو کہ اپنی ماں کا حصہ بھی خود ہی کھا گئے۔ آپ ﷺ اس طرح چھوٹے بچوں کی خطاؤں کو معاف فرماکر ان سے محبت فرماتے اور دل لگی بھی کرتے تھے۔

حضرت انسؓ جو مالک کے بیٹے تھے۔ ان کی والدہ کا نام ام سلیمؓ تھا۔ جب آپ ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ میں آباد ہوگئے تو ایک دن ام سلیمؓ جو آپ ﷺ کی بہت خدمت کیا کرتی تھیں، اپنے بیٹے کو لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اس وقت حضرت انسؓ کی عمر نو یا دس سال تھی۔ آپ بہت خوب صورت، عقل مند اور فرماں بردار تھے۔ ام سلیمؓ نے عرض کیا: ''یا رسول اللہﷺ! یہ میرا بیٹا ہے۔ میں اسے آپ ﷺ کی خدمت کے لئے لائی ہوں، اسے قبول فرمائیں یہ لکھنا پڑھنا جانتا ہے (یعنی اسے اپنا PA رکھ لیں)، آپ ﷺ نے انسؓ کے سرپر محبت سے ہاتھ پھیرا ان کے لئے برکت کی دعا کی اور اپنی خدمت کے لئے قبول فرمالیا۔ حضرت انسؓ کے والد اس وقت فوت ہوچکے تھے، جب ان کی عمر آٹھ سال تھی، اس لئے ان کی والدہ ام سلیمؓ نے ابوطلحہؓ سے نکاح کیا جو بہت بہادر انسان تھے۔

حضرت انسؓ نے آپ ﷺ کی خدمت کا یہ دستور بنایا کہ نماز فجر سے تھوڑا پہلے حاضر ہوتے اور دوپہر تک کام کرتے۔ پھر دوپہر کو تھوڑی دیر کے لئے اپنے گھر واپس آتے اور پچھلے پہر پھر حاضر ہوجاتے۔ عصر کی نماز تک وہیں رہتے اور نماز کے بعد واپس اپنے گھر آجاتے، البتہ کبھی کبھی رات گئے تک بھی وہاں رہتے تھے۔ حضرت انسؓ خود فرماتے ہیں: ''میں نے دس سال آپ ﷺ کی خدمت میں گزارے، لیکن آپ ﷺ نہ تو کبھی مجھ سے ناراض ہوئے اور نہ کبھی مجھے ڈانٹ ڈپٹ کی، یہاں تک کہ کبھی یہ بھی نہ فرمایا کہ فلاں کام کیوں کیا یا فلاں کام کیوں نہیں کیا۔ اگر کبھی میرے ہاتھ سے کوئی نقصان بھی ہوگیا تو آپ ﷺ نے مجھے کبھی برا بھلا نہیں کہا۔ اگر گھر والوں میں سے کسی نے کچھ کہا تو آپ ﷺ فرماتے: ''رہنے دو، کچھ نہ کہو۔ اگر قسمت میں نقصان نہ ہوتا تو یہ نقصان ہرگز نہ ہوتا''

ایک مرتبہ انسؓ اپنے گھر کی طرف جا رہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ کچھ لڑکے کھیل رہے تھے۔ انسؓ بھی ان کے پاس کھڑے ہوگئے، اور تماشا دیکھنے لگے۔ اتنے میں آپ ﷺ وہاں تشریف لائے۔ لڑکوں نے جب دور سے آپ ﷺ کو آتے دیکھا تو انسؓ سے کہا کہ حضور ﷺ تشریف لا رہے ہیں۔ انسؓ بھاگنے کے بجائے وہاں نہایت ادب سے کھڑے رہے۔ آپ ﷺ نے قریب پہنچ کر ان کا ہاتھ پکڑا اور کسی کام کے لئے جانے کا حکم دیا۔ وہ فوراً روانہ ہوگئے آپ ﷺ ان کی واپسی تک وہاں دیوار کے سائے میں بیٹھے ان کا انتظار کرتے رہے۔ حضرت انسؓ جب وہ کام کرکے واپس آئے تو انہیں گھر جانے کی چھٹی ملی۔ دیر سے اپنے گھر پہنچے تو ان کی والدہ نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو کہا کہ حضور ﷺ کے ایک کام سے چلا گیا تھا، اس لئے دیر ہوگئی۔ والدہ نے پوچھا کیا کام تھا تو آپؓ نے جواب دیا: ''امی جان آپ ﷺ نے مجھے یہ بات کسی کوبتانے سے منع فرما دیا ہے، اس لئے میں آپ کو نہیں بتاؤں گا۔''

ان کی والدہ اس پر بہت خوش ہوئیں کہ میرا بیٹا وعدے کا پکا ہے، اور راز چھپانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ماں نے کہا: ''شاباش! بیٹا یہ بات کسی کو نہ بتانا''۔ چنانچہ انسؓ نے یہ بات ساری زندگی کسی کو نہ بتائی، آپ ﷺ کو انسؓ سے بہت محبت تھی اور پیار سے بیٹا یا پیارے انس کہہ کر بلاتے تھے۔ اکثر پیار ومحبت سے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا کرتے تھے۔

ایک دفعہ آپ ﷺ نے انسؓ سے فرمایا: ''اے میرے چھوٹے بچے جہاں تک ہو سکے دن رات اس طرح گزارو کہ تیرے دل میں کسی کے خلاف کوئی میل نہ ہو''۔

کبھی کبھی انسؓ سے مذاق بھی کرلیتے تھے، ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ''اے دو کانوں والے''

آپ ﷺ حضرت انسؓ کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرا کرتے تھے، اس لئے آپؓ کی والدہ ام سلیمؓ نے کہا بیٹے میں نہ تو خود تمہارے بال کاٹوں گی نہ کسی کو کاٹنے دوں گی، آپ ﷺ کبھی کبھی جوشِ محبت میں ان بالوں کو کھینچا بھی کرتے تھے۔ ایک دفعہ جب آپ ﷺ ان کے گھر میں تشریف فرما تھے تو انسؓ کی والدہ ام سلیمؓ نے عرض کیا:

یا رسول اللہ ﷺ! میرے بچے کے لئے دعا فرمائیں'' آپ ﷺ انسؓ کے لئے بہت دیر تک دعا کرتے رہے اور آخر میں فرمایا: ''اے اللہ! تو اس کے مال اور اولاد میں کثرت بخش اور اسے جنت میں داخل کر''

اس پیاری دعا کا اثر یہ ہوا کہ انسؓ جب بڑے ہوئے تو اپنی برادری میں مال و دولت میں سب سے بڑھ گئے اور اولاد اس کثرت سے ہوئی کہ ان کی وفات کے وقت ان کے بیٹے، بیٹیوں اور پوتے پوتیوں کی تعداد سو سے زیادہ تھی۔

9۔ بچہ کو نماز کی ادائیگی کا پابند بناناچاہئے:

اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا ابراہیمؓ کی دعا نقل فرمائی ہے کہ انہوں نے اپنے رب سے یہ دعا کی کہ وہ انہیں اور ان کی اولاد کو نماز کا پابند بنادے، اور ان کی تمام دعاؤں کو بالعموم اور اس دعاء کو بالخصوص قبول فرمالے۔

رَ بِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰو ۃِ وَ مِنْ ذُ رِّ یَّتِیْ رَ بَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُ عَآ ئِ (قرآن، 40:14)

اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ، اور میری اولاد کو بھی، اے ہمارے رب! میری دعا قبول فرما۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مُرُّوْا صِبْیَانَکُمْ بِالصَّلٓاۃِ إِذًا بَلَغُوْا سَبْعاً ، وَاضْرِ بُوْھُمْ عَلَیْھَا إِذاً بَلَغُوْا عَشْراً ، وَفَرِّ قُوْا بَیْنَھُمْ فِیْ الْمَضَاجِعِ (ابن حنبل، 164ھـ ۔ 241م، 181:2)

جب تمہارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو ان کو نماز کا حکم دو، اور اگر دس سال کے ہو جائیں تو ان کو نماز کے لئے مارو، اور انہیں ا لگ الگ سلاؤ۔

اس سے ڈانٹ ڈپٹ کی سختی مراد ہے، جسمانی تشدد کی اجازت نہیں، نماز کی تلقین دراصل انبیاء ؑ کی سنت ہے، حضرت سیدنا عیسیٰؑ سے متعلق قرآن مجید میں ہے:

وَ کَا نَ یَاْ مُرُ اَ ھْلَہٗ بِا لصَّلٰو ۃِ وَ الزَّ کوٰ ۃِ وَ کَا نَ عِنْدَ رَ بِّہٖ مَرْ ضِیًّا (قرآن، 55:19)

وہ اپنے گھر والوں کو برابر نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے، اپنے پروردگار کی بارگاہ میں پسندیدہ اور مقبول تھے۔

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں۔

وَ اْ مُرْ اَ ھْلَکَ بِالصَّلٰو ۃِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیھَا لَا نَسْئَلُکَ رِ زْ قًا نَحْنُ نَرْ زُ قُکَ وَالْعَا قِبِۃُ لِلتَّقْوٰ ی (قرآن، 132:20)

اپنے گھر کے لوگوں پر نماز کی تاکید رکھیں، اور خود بھی اس پر پابندی کیجئے، ہم آپ سے روزی نہیں مانگتے، بلکہ ہم خود آپ کو روزی دیتے ہیں، آخرت کا انجام پرہیزگاری ہی کا ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں پوری امت مراد ہے، یعنی سب لوگ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں، آپ ﷺ اس حکم میں بدرجہ اولیٰ داخل ہیں۔

10۔ بچہ کا حق ہے کہ شادی کے قابل ہونے پر نکاح کرا دیا جائے:

والدین کی ذمہ داری ہے جب اولاد بالغ ہو جائے تو ان کا نکاح کرادیں تاکہ بچے غلط راستوں سے محفوظ رہیں، غلط جوڑے کے انتخاب سے محفوظ رہیں۔ جائداد کی تقسیم کے خوف سے یا کسی اور غیر شرعی سبب سے تاخیر کی صورت میں اگر اولاد گناہ کی مرتکب ہو تو والدین بھی گناہ گار ہوں گے۔

واضح رہے شریعت نے نکاح کے لئے عمر کی کوئی شرط نہیں رکھی ہے، البتہ رخصتی اس وقت ہونی چاہئے جب لڑکی اور لڑکا بالغ ہو جائے۔

11۔ بچہ کو وراثت ملنی چاہئے:

اللہ تعالیٰ نے تمام ورثاء کے حقوق متعین فرما دیئے ہیں، لہٰذا وراثت سے کسی کو محروم کرنے کا حق نہیں ہے، خواہ لڑکا ہو یا لڑکی محروم کرنا کبھی عاق کی صورت میں ہوتا ہے اور کبھی قرآن کریم سے شادی کی صورت میں شرعاً اس کا نفاذ نہیں ہوتا، بعض افراد اپنی زندگی میں یہ عمل کرتے ہیں کہ ایک بچہ کو مال و جائیداد دیا، دوسرے کو محروم کردیا یا ایک کو زیادہ دیا دوسرے کو کم دیا شرعاً یہ بھی ظلم ہے، اس کی بھی اجازت نہیں، آپ ﷺ نے ایسی تقسیم پر گواہ بننے سے انکار کردیا تھا جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے۔

12۔ بچوں کے لئے جائداد چھوڑنی چاہئے:

حضرت سیدنا سعد بن أبی وقاصؓ سے روایت ہے کہ میں مکہ میں بیمار تھا، اور رسول اللہ ﷺ میری عیادت کو تشریف لائے، میں نے عرض کیا: حضور ﷺ میرے پاس مال ہے، کیا میں اپنا سارا مال خیرات کرنے کی وصیت کرسکتا ہوں؟ فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: اچھا تو نصف مال؟ فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: اچھا تو ایک تہائی سہی، فرمایا:

وَ الُّئُلُثُ کَثِیِر ، إِنَّکَ اَنْ تَدْعُ وَرَثَتَکَ اَغْنِیَائَ خَیْرُمِّنْ أَنْ تَدْعُھُمْ عَالَۃً یَتَکَفَّقُوْنَ النَّاسَ فِیْ أَیْدِیْھِمْ، وَانِکَّ مَھْمَا اَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَۃٍ فَاِنَّھَا صَدَقَۃٌ حَتَّی الُّلْقَمَۃُ تَرْفَعَھَا اِلٰی فَیْ إِمْرَ أًتِکَ، وَعَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّرْفَعکَ فَیَنْتِفِعَ بِکَ نَاسٌ ویُضَرَّبِکَ آخَرُوْنَ(بخاری، 194ھـ ۔ 256م، 2742)

خیر! مگر تہائی بھی بہت ہے، اگر تم اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ کر مرو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو محتاج چھوڑ کر مرو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں، اور تم جو کچھ مال خرچ کرو گے وہ تمہارے واسطے صدقہ (ثواب) ہے، حتیٰ کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو، اور امید تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو زندہ رکھے گا اور تمہارے ذریعہ سے کسی کو نفع اور کسی کو ضرر پہنچے گا۔

کچھ بچے وہ ہوتے ہیں جنہیں خصوصی بچے یا خصوصی سلوک کے مستحق بچوں سے تعبیر کرسکتے ہیں یہ وہ بچے ہیں جن کے حقوق کا تعلق فقط ان کے ماں باپ سے نہیں بلکہ معاشرہ کے ہر ماں باپ یا ہر فرد سے ہے انہیں دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ یتیم بچوں کے حقوق۔معذور بچوں کے حقوق۔

13۔ یتیم بچہ پرورش اور کفالت کا حق دار ہے:

یتیم اس بچہ کو کہا جاتا ہے بچپن میں جس کے والد کا انتقال ہوگیا ہو معاشرہ میں ایسے بچوں پر توجہ نہیں دی جاتی ہے اسلام نے ان پر توجہ دینے کی خصوصی ہدایات دی ہیں ان کی تعلیم، تربیت و کفالت کے خصوصی حقوق و فضائل بیان کئے ہیں، اس لئے کہ آپ ﷺ خود بھی یتیم ہی نہیں در یتیم تھے۔

ایک یتیم بچہ جس کا نام بشیر تھا، اپنے شہید والد حضرت حقربہؓ کے غم میں نڈھال گلی کی ایک نکڑ میں پریشان کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، وہ سخت اداس اور بے چین دکھائی دیتا تھا۔ اتنے میں وہاں سے رسول اللہ ﷺ کا گزر ہوا جب اس پر نگاہ پڑی تو آپ ﷺ فوراً اس کی طرف تشریف لے گئے اور قریب جاکر اس سے دریافت فرمایا کہ ''تم کیوں اداس ہو اور کیوں تمہارے آنسو بہہ رہے ہیں؟'' اس نے عرض کیا: ''یا رسول اللہﷺ! میرے والد حقربہ ؓ جنگ میں شہید ہوگئے ہیں اب مجھے سنبھالنے والا کوئی نہیں رہا، اس لئے بے چین اور اداس ہوں'' ۔

رسول اللہ ﷺ تو یتیموں اور بے بس لوگوں پر بہت مہربان تھے۔ آپ ﷺ کو اس پر بہت ترس آیا آپ ﷺ نے اس کے سر پر محبت اور شفقت سے اپنا دست مبارک پھیرتے ہوئے فرمایا: ''میرے بیٹے کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ عائشہؓ تمہاری ماں اور محمد ﷺ تمہارا باپ ہو''۔

آپ ﷺ کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ پیارے بشیر تم فکر نہ کرو، میں تمہارا باپ ہوں اور میری بیوی عائشہؓ تمہاری ماں ہے۔ ہم دونوں تمہیں ماں باپ کا پیار دیں گے اور محبت سے تمہاری پرورش کریں گے، اس لئے اب تم اداس اور پریشان نہ ہو۔

14۔ معذور بچوں کی معاونت و کفالت انکا حق ہے:

معذور بچے ہوں یا بڑے ان کے ساتھ طعن و تشنیع کے جملوں کا استعمال یا ترس کھانے کا رواج ہے، جس سے معذور فرد میں خود اعتمادی کے بجائے بے چارگی کا رویہ پروان چڑھتا ہے، ایسے افراد کے ساتھ ثانوی سلوک کی ممانعت کی گئی ہے ان سے مساویانہ سلوک اور رعایت کا حکم دیا گیا ہے اور ترغیب دی گئی ہے کہ ایسے افراد کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ تعاون و کفالت کا رویہ اختیار کیا جائے تاکہ وہ معاشرہ میں اپنا کردار ادا کرسکیں، یہ ان کا حق ہے اور ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔

15۔ بچوں سے ملازمت اور پر مشقت کام نہ کروایا جائے:

اسلام کی عمومی تعلیمات سے واضح ہوتا ہے بچہ سے مشقت والے کام نہ کروائے جائیں، بالخصوص مزدوری و ملازمت اس لئے کہ یہ عمر کھیلنے اور تعلیم حاصل کرنے کی ہے بچہ فل ٹائم یا پارٹ ٹائم کمانے لگتا ہے، تو اس کی توجہ فوائد پر مرتکز ہو جاتی ہے، نہ اس کا دل و دماغ تعلیم میں لگتا ہے نہ دیگر امور میں جبکہ بچہ کو پہلے مرحلہ میں اپنی صلاحیتیں علوم و فنون کے حصول پر صرف کرنی چاہئے، جب ان علوم کی تکمیل ہو جائے گی، تو یقیناً وہ انجینئر بن کر صنعت کار بن کر باہنر فن کار بن کر معاشرہ کی بہترین خدمت کرسکے گا، البتہ بچوں کو فنون کی جزوقتی ٹریننگ کی گنجائش ہے۔ تاکہ اس کے ہاتھ میں ہنر آجائے۔

خلاصہ بحث:

بچے ہمارا مستقبل ہیں، ہمیں پورے خلوص کے ساتھ ان کی بہتری کے لئے سوچنا چاہئے، ہماری سوچ وحی الٰہی اور أسوہ حسنہ ﷺ کے ماتحت ہوگی تو یقیناً نتائج اچھے ہوں گے۔ اسلام جامع مذہب ہے اور اس کی تعلیمات افراط و تفریط سے پاک ہیں۔

جو حقوق اسلام نے عطا کئے ہیں، وہ متوازن و مفید ہیں ملک میں اس کا سختی سے نفاذ ہونا چاہئے تاکہ پاکستان مستحکم ہو اور بچوں کا مستقبل محفوظ ہو جائے۔


حوالہ جات

  • ابن ماجۃ ، ابو عبداللہ محمد بن یزید، (209ء۔273م) (2006ء) ، سنن ابن ماجۃ، اردو بازار، لاہور، مکتبۃ العلم ابواب الدعاء 225، ابواب الذبائح 3165، باب فضل قال العلماء والحث علی طلب العلم، 22

  • احمد ابن حنبل (165ھـ ۔ 241م) مسند، احمد بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ 207:2

  • ابو الاعلی مودودی، (1983ءم)، اسلام اور ضبط ولادت، مطبوعہ لاہور، 40

  • ابو البصل، دکتور عبدالناصر موسی (2000ء) نظریۃ الحکم القضائی فی الشریعۃ والقانون، الاردن، دارالنفائس 242-239

  • ابوداؤد، سلیمان بن اشعت السبحستانی (202ھـ-275م) (2019ء)، سنن أبوداؤد، کراچی مکتبۃ البشریٰ، کتاب الادب، باب فی الرحمۃ، 233:5، کتاب الضحایا 2837

  • البخاری، محمد بن اسماعیل (194ھ-256م) (2010ء) صحیح البخاری، کراچی، مکتبۃ البشریٰ، کتاب الادب، باب وضع، الصبی علی الفخذ 76:7، کتاب الشہادات باب لایشہد، 2650، کتاب الھبۃ، 2586، کتاب الادب باب رحمۃ الولد، 97-5995، کتاب الوصایا، 2742

  • البخاری، محمد بن اسماعیل (2018ء) صحیحح البخاری، کتاب الوصایا، باب أن یترک ورثتہ، اغنیاء، 2742

  • الألبانی، محمد ناصر الدین (1420م)، (2009م) صحیح الأدب المفرد، لاہور، مکتبۃ، قدوسیۃ: 103:1

  • التبریزی، ولی الدین محمد بن عبداللہ (433ھـ-510م) (2014ء) مشکوۃ المصابیح، چیچہ وطنی، مکتبۃ المحمدیۃ، کتاب الامارۃ، 227:2

  • الترمذی، محمد بن عیسیٰ (279م۔2010ء) سنن الترمذی، کراچی مکتبۃ البشریٰ، کتاب البر، باب ماجاء فی رحمۃ الصبیان، 1322:4-1919، 77:7

  • الزحیلی، ڈاکٹر وھبۃ (2010ء) الفقہ الاسلامی وأدلتہ، پشاور پاکستان، 14:4

  • العسکری، أبی ھلال (2000ء)، الفروق الغویۃ، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 45، 59

  • القونوی، قاسم بن عبداللہ امیر علی (1986ء) انیس الفقہا، جدہ سعودی عرب، دارالوفاء، 216

  • الناطفی، أبی العباس احمد بن محمد بن عمر (1997ء) جمل الاحکام، مکۃ المکرمۃ، مکتبۃ نزار مصطفی الباز، 185

  • النسائی، احمد بن شعیب، (2001ء) سنن نسائی، مکتبۃ دار الحضارۃ، للنشر والتوزیع، کتاب العقیقۃ، 4225:1

  • بھنسی، ڈاکٹر احمد فتحی (1991ء) الموسوعۃ الجنائیۃ، بیروت، دارالنھضۃ العربیۃ، 10-6:4

  • تھانوی، محمد اشرف علی (1980ء)، حقوق العباد، کراچی، مکتبہ تھانوی، 43

  • سرور حسین خان، (1992ء( جہاں گیر قرآنی اشاریہ، کراچی، مکتبۃ اشاعت تعلیمات القرآن، 326-325

  • شبلی (2010ء)، المدخل الفقی الاسلامی، بیروت، لبنان، 165

  • عبدالباقی، محمد فواد (1376ھـ)، المعجم المفہرس، تہران، 266-265

  • عزیز احمد (1987ء) اصول قانون، کراچی، غضنفر اکیڈمی، 193

  • غازی، محمود احمد (2010م)، (1990ء) احکام بلوغت، اسلام آباد، ادارہ تحقیقات اسلامی، 132-131

  • قاسمی، مجاہد الاسلام (1996ء)، جدید فقہی مباحث، کراچی، ادارۃ القرآن، 205-200

  • مبارک علی، (1995ء)، تاریخ اور دانش، لاہور، فکشن ہاؤس، 235

  • محمد بن عابدین شامی (1252ھـ)، (2009ء) فتاویٰ شامی، ردالمختار علی الدرالمختار، شرح تنویر الابصار، کراچی، ایم ایچ سعید

  • محمد صلاح الدین (1987ء)، بنیادی حقوق، لاہور، ادارہ ترجمان القرآن، 193

  • مسلم، مسلم بن الحجاج القشیری، (204ھـ- 261م)، (2019ء)، صحیح المسلم، کراچی، مکتبۃ انعامیۃ، کتاب الفضائل، باب رحمۃ الصبیان و العیال، 77:7، کتاب الادب 5587، کتاب الھبات، 4186، 418

  • منہاج (سہ ماہی) (1983ء) ، اسلامی نظام عدل نمبر، لاہور، مرکز تحقیق، دیال سنگھ لائبریری، 113

  • ندوی، نذرالحفیظ (2001ء)، مغربی میڈیا اور اس کے اثرات، ناظم آباد کراچی، مجلس نشریات اسلام، 70-71

  • Al-Khudrawis Deeb (1995), A dictionary of Islamic, terms, Beirut, Al-Yamamah.

  • Gaiues, Ejefor (1964) Protection of Humanright underth Law, London, Butter Worths 03

  • Schwarz, Dr. Oswald (1951), The Psy chology of sex, London, Pelican Book.88

  • Sorokin, pitirim, A (1956), The American Sex Revolution, Boston 13-14.



    Page No. 22



 

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...