2
2
2022
1682060069195_3113
https://www.ijpstudies.com/index.php/ijps/article/download/33/16
تعارف
نسل انسانی کی کو ئی فطری یا اصلی زبان ہے؟یہ قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ ہے یا نہیں لیکن لوگوں نے زبان کی اصلیت جاننے کے لیے کئی تجربات کیے۔مثال کے طورپر مغل بادشاہ اکبر نے چند بچوں کو ایک ایسے گھرمیں پالا جہاں صرف گونگے بہرے ان کی خدمت کرتے تھے، اور کسی انسانی آواز کو ان تک نہ پہنچنے دیا گیا۔ جب یہ بچے جوان ہوئے تو بولنے کے قابل نہ تھے۔ بھیڑیے یا دوسرے جانوروں کے درمیان جو بچے پروان چڑھتے ہیں وہ کسی انسانی زبان بولنے کے قابل نہیں ہوتے، بلکہ جانوروں جیسی آوازیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں،شاید انسانوں کے پاس کوئی فطری یا اصلی زبان نہیں ہے۔ وہ محض اپنے ارد گرد بولی جانے والی زبان کو سن کر سیکھ لیتے ہیں۔(رحمٰن،2017) زبان ایک ایسا بنیادی ادارہ ہے جسے انسان کی معاشرت پسند طبیعت نے تخلیق کیا زبان بنیادی طور پر انسان کی معاشرتی ضروریات پوری کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔زبان نہ ہو تو سارا معاشرہ گونگا اور بہرہ ہو جائے نہ کوئی کسی سے بات کرے اور نہ کوئی کسی کی بات سُنے نہ معاشرت پیدا ہو اور نہ ہی ثقافت ترقی کرے۔ دُنیا کے سارے کام رُک جائیں اور زندگی بسر کرنا دوبھر ہو جائے۔
زبان ہی ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے سہارے ایک انسان دوسرے انسان کے تجربات، خیالات، محسوسات اور جذبات میں شریک ہو تا ہے اور اسی عمل سے اس کے طرزِفکر وعمل میں مما ثلت پیدا ہوتی ہے طرزِفکروعمل کی یہی مماثلت کسی معاشرے میں تہذیبی و معاشرتی یکجہتی پیدا کر کے ایک مشترکہ ثقافت کو جنم دیتی ہے۔(جالبی، 2008)ملک وقوم کی ترقی کا دارو مدار زبان پر ہے۔قوم کی ذہنی تعمیروترقی میں زبانوں کا کلیدی کردار ہوتا ہے زبان تہذیب و ثقافت کی انسانی قدروں اور انسانیت کو فروغ عطاکرتی ہے۔زبانوں میں ملک وقوم کا مشترکہ ثقافتی اثاثہ پوشیدہ ہوتا ہے زبان نہ صرف تہذیب وتمدن اور متحدہ اتفاق و اتحاد کے فروغ پر زور دیتی ہے بلکہ قوموں کی نشوونمااور شناخت میں زبان کی بڑی اہمیت و کردار ہے۔ بقولِ عکسی مُفتی: "قوموں کی نشوونما اور شناخت میں زبان کی بڑی اہمیت ہے۔یوں کہیئے کہ زبان ہی سے اجتماعیت کا احساس ہو تا ہے۔ زبان ہی سماجی ارتقاء کاوسیلہ ہے۔" (مفتی، 2014)زبان کو واضح طور پر سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل ماہرین ِ لسانیات کی چند تعریفو ں کو پیش کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر گیان چند جین نے زبان کی تعریف پیش کی ہے، وہ لکھتے ہیں: "زبان بلمقصد، من مانی، قابلِ تجزیہ، صوتی علامات کا وہ نظام ہے جس کے ذریعے ایک انسانی گروہ کے افراد اپنے خیالات و جذبات کی ترسیلِ باہمی کرتے ہیں۔ (جین، 1985)
ایف،ڈی، سا سور، زبان کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے: "زبان خیالات کے اظہار کرنے والی علامتوں کا نظام ہے۔"
اے،ہِل لکھتا ہے کہ: "زبان انسانی عمل کی ابتدائی عمل کی ابتدائی لیکن خاصی مکمل صورت ہے اس کی علامتیں اعضائے نطق سے ادا ہو نے والی آوازوں سے تشکیل پاتی ہیں اورمختلف زمروں اور سانچوں میں ترکیب پاکر پیچیدہ لیکن متوازن ساخت کو جنم دیتی ہیں۔ علامتوں کے سیٹ(Sets) کو زبان کے وجود سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ان سے معنی ومطلب مراد لیے جا تے ہیں لیکن علامت اور معنی کا باہمی ربط اور رشتہ حقیقی اورمنطقی نہیں ہوتابلکہ اختیاری، مفاہمانہ اور متفق ہوتاہے، لسانی گروہ کی ماضی کے تابع، ذہنوں میں سفر کرتارہتاہے۔یہ علامتیں بیک وقت خارجی محرکات کی قائم مقام بھی بن جاتی ہیں اور تا ثرات اور جوابی عمل کی بدل بھی اور مزیدمحرکات اور تاثرات کی داعی ہو تی ہیں، جن کی وجہ سے بات چیت فوری طبعی محرک کی پابندنہیں رہتی۔زبان کی سا خت اتنی کامل اور اجزا ا تنے مکمل ہوتے ہیں کہ بولنے والے کے لیے ہرقسم کے ذہنی و جذباتی تجربوں کو لسانی ڈھا نچوں میں ڈھالنے کے امکانات مہیا ہو جاتے ہیں۔"
جی،رے، ویر کی تعریف جامع ہے، وہ لکھتا ہے: "زبان ایک وسیلہ ہے جو با معنی ترکیبوں میں ظاہر ہو نے والی ان متعدد آوازوں کا سہارا لیتا ہے جو علامتی ڈھانچے ترکیب دیتی ہیں۔اس کے ذریعے سے خواہشات اور موضوعی و معروضی طور پر ادراک کیے گئے حقائق کا اظہار وابلاغ کیا جاتا ہے اور خیالات و افکار کی تدوین کی جاتی ہے۔ اسے با ہمی افہام و تفہیم، ذہنی رابطوں، غور وفکر، شعور وآگہی کے لیے تجسس کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔(نعمت اللہ،2000)
زبان کی ان تعریفوں کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ زبان نطقی آوازوں پر مشتمل نظام ہے، جس کا تعلق انسان کی زبان سے ہے۔ انسان نے اپنی ایجادات میں دیگر بیش بہا ایجادات کے علاوہ جو قابل تحسین ایجاد کی اور جس کے بل بوتے پر ترقی کی کئی منازل طے کیں وہ زبان ہی ہے۔ انسان کی طویل تہذیبی تاریخ میں سب سے زیادہ قابلِ تعریف کارنامہ زبان کی ایجاد ہے۔ زبان زندگی کے لیے ہوا اور پانی کی طرح ناگزیر تو نہیں ہے لیکن انسان کی سماجی اور انفرادی ضرورتیں بھی اس کے بغیر پوری نہیں ہو سکتیں، زبان ہی کے ذریعے انسان اپنے خیالات، جذبات اور احسا سات کی ترسیل کر تا ہے۔اپنی سماجی، معاشی اور معاشرتی ضرورتوں کی تکمیل بھی زبان کے وسیلے سے کرتا ہے۔ (احمد، 2013) یہ بتانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کہ زبان کب پیدا ہوئی،ممکن ہے انسان کے وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ زبان کا وجود ممکن ہوا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ زبان آج کی کسی ترقی یافتہ زبان کی پیش رو رہی ہو ممکن ہے ابتداء میں انسان نے اپنے سماجی اور معاشی ضرورتوں اور اپنے جذبات کے لئے کُچھ آوازیں نکالی ہوں گی اور وہی آوازیں آہستہ آہستہ کسی زبان کی ایجاد کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہوں۔
اردو زبان کا آغاز و ارتقاء (مختصر تاریخی جائزہ):
ہندوستان میں مسلمانوں کے آمد سے تاریخ کا ایک بالکل نیا دور شروع ہوا۔ حکومت کے طور طریقوں میں فرق آیا تہذیب کے خاکے میں نئے رنگ ابھرنے شروع ہوئے، رہن سہن، رسم ورواج اور بول چال میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں بتدریج ایک نیا تمدن ظاہر ہوا جو زمانے کے ساتھ ساتھ نکھرتا سنورتا اور مضبوط ہوتا گیا۔اس زبردست اور ہمہ گیر تہذیبی انقلاب میں زبان کا بڑا درجہ اور ادب کی بڑی حیثیت ہے،سماج میں جو تبدیلیاں ہو تی ہیں وہ زبان وادب میں خاص شان و اثر کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں۔(قریشی، 1969)اُردوزبان کے رشتے اگر چہ برصغیر پاک و ہند کی قدیم مقامی بولیوں کے ساتھ وابستہ ہیں لیکن اسے با وقار ادبی زبان بنانے میں برصغیر کے مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس زبان نے ابتدائی دور میں مسلمانوں کے ساتھ شمال سے جنوب کی جانب سفر کیا۔ (سدید، 1991)اُردو قدیم ہندکی آریائی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی سیدھا کھڑا ہوا، اوپر کی جانب اور بلند وغیرہ کے ہیں۔ یونانی میں یہ لفظ اُور ٹھوس، لاطینی زبان میں آرڈوئس(بلند) اور رِگ وید میں اوردھو بولا جاتا ہے، (سہیل بخاری) جبکہ یہ لفظ آج بھی ترکی زبان میں اُردو (ORDU)کی صورت میں انہی معانوں میں مروّج و مستعمل ہے۔ جیسے فوجی کلب کیلئے "اُردو ایوی" کی اصطلاح، شاہی لشکر کے لیے"اُردوئے مرکزی"، فوجی ہیڈ کوارٹر کے لئے "اُردو قادیسی" اورانہیں معنوں میں اُردو سے مرکب دوسری اصطلاحیں رائج ہیں۔ (فوق، 1986)اسی طرح ترکی کی جدید لغات میں اُردو کے معنی اُردوزبان کے بھی بتائے جاتے ہیں اور "ORDU"ہی نے یہاں "URDU"کی شکل اختیار کر لی ہے۔اُردو مسلمانوں کی ہند میں آمد سے پہلے بھی دہلی میں بولی جاتی تھی۔ اس کا قدیم نام کیا تھا یہ بتانا مشکل ہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس کواُردو مسلمانوں کی آمد کے بعد سے کہا گیا۔(سبزواری، 1961)اُردو زبان کی تاریخ ایک طرح سے ہندوستان کے ہزارسالہ دور کی داستان ہے۔ اسی زمانے میں ہندوستان کی دوسری جدید زبانوں کی بھی توسیع ہوئی۔ اس ہزار برس میں ہندوستانی معاشرہ عروج و زوال اور تغیر کے جن ادوار سے گزرا اس کا اثر یہاں کی ہر زبان اورادب پر پڑا، کسی پر کم اور کسی پر ذیادہ یعنی تاریخی اور ثقافتی صورت حال نے کسی زبان یا بولی کو آگے بڑھایا اور کسی کی باڑھ روک دی۔ ہندوستان کی تاریخ سے یہ بات واضح ہے کہ آریائی زبانوں کے دور سے پہلے یہاں دراوڑی زبان اور ثقافت کوبڑا عروج حاصل ہواتھا جس میں آسٹرک، دراوڑ اور دوسری قوموں کی بولیوں اور تہذیبو ں کی آمد سے اُٹھنے والی لہریں بھی دیکھی جاسکتی ہیں،غالباً یہ کہنا ٹھیک ہو گا کہ دراوڑ ثقافت نے سابقہ ثقافتوں کی بہت سی خصوصیات کو اپنے اندر سمیٹ لیا تھا۔
آریا قوم کا اپنی بولیوں کے ساتھ ہندوستان میں انا دراوڑی زبان کے عروج کے بعد ملک کی تاریخ میں دوسری اہم تبدیلی تھی۔ ان کے بعد ویدک تہذیب نے اہمیت اختیار کرلی جس کا اظہار سنسکرت زبان میں ہوا۔ ہندوستان کی پوری تاریخ میں یہ دانشوروں اور اعلیٰ طبقے کے تعلیم یافتہ افراد کی زبان رہی، کبھی بول چال اور عام استعمال کی زبان نہ بن سکی۔ اس کا عروج صرف مذہب سے وابستہ رہا اسی لیے جب ہندوستانی سماج میں مذہبی تغیرات ہوئے تو سنسکرت کو بھی پیچھے ہٹنا پڑا اس کو سب سے بڑی چوٹ اس وقت لگی جب بُدھ اور جین متوں نے جنم لیا اور ہندوستانی زبانوں کی تاریخ میں سنسکرت کے علاوہ پراکرت (مقامی زبانوں کا مجموعہ) کو بھی بڑھنے اور پھیلنے کا موقع ملا۔(حسین،1999)
اٹھارویں صدیں عیسوی میں محمد بن قاسم کے حملے سے مسلمان سندھ میں پہنچے ہیں، اسی لیے قیاس یہی ہے جس کو ہم آج اُردو کہتے ہیں اس کا ہیولٰہ اسی وادی سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔(ڈاکٹرکے۔ایس۔بیدی) حا فظ محمود شیرانی کا ستدلال یہ ہے کہ محمود غزنوی(799-1030ء) کے حملوں سے مسلمانوں کا پنجاب سے رابطہ شروع ہوتا ہے۔ محمود غزنوی نے پنجاب کے ہندو راجہ کی مسلسل بد عہدیوں سے تنگ آکر1022ءمیں اسے غزنی حکومت میں شامل کر لیا۔ بعدازاں 1193ء میں جب قطب الدین ایبک نے دہلی پر قبضہ کیا۔ تو پہلی مرتبہ مسلمانوں نے پنجاب سے باہر قدم نکالے لیکن ایک دوسرے سے رابطہ رہا، اس دوران میں بعض صوفیاء کی تبلیغی سر گرمیوں کی وجہ سے اسلام کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ یوں مذہب، سیاست اور تقافت غرض یہ کہ ہر لحاظ سے پنجابی اور فارسی باہم آمیزش ہو تی گئیں۔جس نے اس بولی کی صورت اختیار کی جو بلآخر اردو زبان کہلائی۔(اختر، 1971) اُردو زبان کی ترویج میں اس وقت ایک نیا مو ڑ آیا جب مغل دارالحکومت شا ہ جہان کے زمانے میں آگرہ سے دہلی منتقل ہوا۔ اس منتقلی نے کھڑی بولی اُردو کو اپنی نشوونما کا نادر موقع فراہم کیا جدید تحقیق کے مطابق شاہ جہان کے دور کے شاعرچند ربھان برہمن کا ذکر ملتا ہے اور محقیقین بر ہمن کی غزل کو اُردو کی پہلی غزل قرار دیتے ہیں۔چندر بھان بر ہمن کی پیدائش 1574ء میں بتائی جاتی ہے جبکہ اس کا انتقال 1662ء میں ہوا۔
اُردوکے اولین دیگر شعری نمو نوں میں محمد افضل پانی پتی کی مثنوی" بکٹ کہانی" کے علاوہ شاہ سیّد برکت اللہ مارہروی کا کلام" ریختہ" بھی موجود ہے۔ نثر میں جو تصانیف ملتی ہیں ان میں میر عبدالواسع بانسوی کی غرائب اللغات ہے جو اُردو ادب کی پہلی لغت سمجھی جاتی ہے جسے بعض تصحیح کے ساتھ خان آرزو نے نورالالفاظ کے نام سے پھر مرتب کیا۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ساتھ اُردو زبان و ادب کا فروغ ہو تا رہا۔اس ضمن میں دہلی کالج اور وہا بی مصنفین کی تصانیف سر سیّد تحریک کی سلیس نثر کا پیش خیمہ ثا بت ہوئیں۔ اس سے قبل فورٹ ولیم کالج جو گِل کرائسٹ کی سربراہی میں قائم ہوا تھا، نے اُردو نثر کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی زمانے میں انگریزی اور دیگر زبانوں کے الفاظ اُردو میں داخل ہونے لگے تھے۔(ڈاکٹرریاض احمد)
اُردو کی تاریخ با بائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے بغیر نا مکمل ہے، جنہوں نے اُردو کو تنا ؤر درخت بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ مولوی عبدالحق نے اُردو زبان کی ترقی کی ہمیشہ خواہش کی اور اس کے فروغ کے لیے ہر وقت مصروف ِعمل رہے۔ اس حوالے سے انہوں نے بہت سے عملی کام کیے۔خصوصاً جب انہیں محکمہ تعلیم کی اہم زمہّ داری بطور مہتمم تعلیمات اور نگ آباد ملی،تو انھوں نے تعلیم کے میدان میں اُردو کے فروغ کے لیے بھرپور کوشش کی اس حوالے سے نئے مدارس کا قیامِ عمل میں لایاگیا اور پہلے سے مو جو د مدارس میں اُردو کی تعلیم کی خصوصی مواقع پیدا کیے گئے۔(عباس، 2010) دراصل مولوی عبدالحق اُردو زبان کے فروغ اور تحفظ کے لیے مختلف ذرائع کو بیک وقت استعمال کر رہے تھے۔ اس حوالے سے انجمن ترقی اُردو کا پلیٹ فارم ان کے لیے بہترین محاذ ثابت ہوا۔ انہو ں نے بہترین افرادی قوّت کے ذریعے یہاں سے نہ صرف اُردو مخالف سیاسی اور حکومتی چالوں کو ناکام بنایا،بلکہ بہت سے ایسے عملی اقدامات کئے جن کے ذریعے وہ اُردو کو اتنا طاقتور بنا دینا چاہتے تھے کہ اس کے مقابل کو ئی اور زبان ٹھہر نہ سکے۔ چنانچہ انجمن ِترقی اُردو کے تحت پریس قائم کرکے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا گیا۔خصوصاً زبان و ادب کی قدیم کتابوں کو سامنے لایا گیا تا کہ اُردو زبان کی بنیادوں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
اسی طرح اشاعتی سلسلے شروع کیے گئے جن میں اُردو کے لیے ایک معیاری لغت مرتب کرنے کا بہت بڑا منصو بہ بھی شامل تھا۔ اسی طرح اُردو میں اصطلاحات کی کمی کو پورا کرنے اور اس حوالے سے موجود مسائل کے حل کے لیے باقاعدہ طور پر قواعد پر کام کرنا بھی اُردو کے فروغ اور تحفظ کی انہی کو ششوں کا حصّہ تھا۔(عنبرین، 2009)الغرض ڈاکٹر مولو ی عبدالحق اُردو کے پہلے ادیب کہے جا سکتے ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی نہ صرف اُردو زبان و ادب کی خدمت کی بلکہ تصنیف و تالیف میں بھی مصروف رہے، بابائے اُردو کی والہانہ کاوشوں نے اُردو کو دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کی صف میں نمایا ں مقام پر لا کھڑا کیا۔
تحریکِ پاکستان اور اُردو زبان:
بر صغیر پاک وہند کی تاریخ میں1946ء کا سال سیاسی جوڑ توڑ، جماعتی اختلافات اور خوں ریزی کے لیے یادگار رہے گا۔ ساتھ ساتھ اُردو دُشمنی کی جدید ترین تحریکات اپنی نوعیت اور حیثیت کے اعتبار سے تادیر کانٹے کی طرح کھٹکتی رہیں گی۔۳۲ مارچ "یومِ پاکستان" برطانیہ کا وزارتی مشن ہندو ستان پہنچ گیااور سیاسی گفت و شنید کا آغاز ہوا۔ مسلم لیگ نے 31 مارچ کے انتخابات میں حیرت انگیز کا میابی حاصل کی، 17 اپریل کو ہندوستان کی نئی اسمبلیوں کی لیگی ممبروں کا اجتماع دہلی میں اس عزم کا اظہار تھا کہ مسلمانوں کا مقصد نظریہ پاکستان ہے۔ (ظفرالحسن، 1995) دنیا میں قوموں کے لیے ان کی زبان حریت کی علامت ہے، محبت کا پیغام ہے اور علم کی نشانی ہے۔ ہمیں بھی محدود مفادات سے با لاتر ہو کر، تعصبات سے دامن چھڑا کر اگر قومی زندگی میں آزادی کی نعمت کے ادراک کی توفیق ملے تو پھر ہمیں اس حقیقت کے شعور میں بھی زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ قوموں کی زند گی میں قومی زبان مرکزی اور محوری اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
28 اگست کو محمد علی جناح کا پیغامِ عید مسلمانوں کو ان الفاظ میں دیا گیا کہ "اپنے آپ کو منظم اور مضبوط کرو اور یکجہتی اختیار کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے اور ہم یقینا کامیاب ہوں گے۔" یکم ستمبر کو بمبئی (اب ممبئی)میں فرقہ ورانہ فسادات شروع ہوئے اسی طرح کے واقعات پورے ہندوستان میں شروع ہوگئے۔ بابائے اُردو مولوی عبدالحق صاحب (مرحو م) لکھتے ہیں، "اُردو نے ہر قومی تحریک اور خاص کر پاکستان کے بنانے میں بڑی مدد کی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ابتدا ہی اُردو تحریک سے شروع ہوئی ہے۔"(کاظمی، 1986) 1946ء میں انجمن کی چار نئی شاخیں علی الترتیب جبل پور (سی۔پی)، مدراس، علی نگر ضلع سارن (بہار) اور دیواس(مالوہ) میں قائم ہوئیں اور چند دیگر جدید شاخوں کے الحاق کی کاروائی آخری سال میں جاری تھی۔ اس طرح1946ء تک انجمن کی شاخوں کی مجموعی تعداد 69تھی۔ انجمن ترقی اُردو کے مسلسل پرو پیگنڈے کے نتیجے میں مقامی اُردو داں حضرات نے دارالمطالعہ عام کے انتظام میں کافی حصّہ لینا شروع کر دیا تھا،1946 تا 1947۱ ء کا سال پُر آشوب تھا۔ سہیل عظیم آبادی انجمن ترقی اُردو کے ایک ذیلی ادارہ چھوٹا ناگ پور (بالسم ضلع اکولہ، برار) کا مہتمم تھا، اس کے حالا ت روز بروز نا ساز گار ہوتے گئے اور انجمن ترقی اُردو کی مالی حالت کمزور ہو چکی تھی ہندوستان کی تقسیم سے کئی مسائل اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔انہوں نے اپنے اس جد و جہد کی تفصیل ڈاکٹر سیّد حامد حسن کے نام ایک خط میں یوں بیان کی ہے ، "میں انجمن ترقی اُردو کے ایک ذیلی ادارہ چھوٹا ناگ پور اُردو مرکز ایک چھوٹا ادارہ تھا، میں اسکے تحت چھو ٹے چھوٹے اسکول قائم کرتا تھا، سات سال میں لگ بھگ تین اسکول قائم کیے تھے لیکن ملک کی تقسیم نے سب کو ختم کر دیا۔دہلی میں انجمن برباد ہوگئی مولوی صاحب پاکستان چلے گئے اور کوئی دلچسپی لینے والا نہیں رہا،مرکزکو بند کرنا پڑا۔" (ظفرالحسن، 1995)بابائے اُردو مولوی عبدالحق صاحب کے پاکستان آنے کا سبب یہ تھا کہ ان کے خیال میں ہندوستان کی بہ نسبت پاکستان میں اُردو کا مستقبل ذیادہ تابناک ہے۔ وہ ساری زندگی یک نکاتی پرو گرام، ترقی اُردو پر عمل پیرا رہے۔ ان کے نزدیک ان کا وطن وہ تھا جہاں ان کی زبان محفوظ ہو۔ پاکستان پہنچ کر وہ اُردو کی ترویج و ترقی میں لگ گئے اور بڑی کوششوں کے بعد انہوں نے کراچی میں اُردو کالج قائم کر دیا۔ قا ئد اعظم محمد علی جناح نے اپنی سیاسی بصیرت اور عوام کے تعاون سے قوم کے لیے جس مملکت کی تعمیر کی تھی اس کے تقاضوں کا انہیں پوری طرح احساس تھا،وہ اس بات کا بھی گہرا شعور رکھتے تھے کہ یہ ایک قوم ہے جس کے لیے یہ وطن حاصل کیا گیا ہے۔ایک زبان اس کی بنیادی ضرورت ہے جو اب بکھرے ہوئے لوگوں کو ایک رشتے میں منسلک کر سکے گی اور جو ان کے لیے وحدت،یکجہتی اور یگانگت کی بنیاد بن جائے گی۔ چنانچہ انہوں نے واضح طور پر ایک بارنہیں کئی بار یہ اعلان کیا کہ اس نئی مملکتِ پاکستان کی قومی زبان اُردو اور صرف اُردو ہو گی۔
پاکستان کی مختلف علاقائی زبانیں اور اُردو زبان کا مقام:
زبان انسان کی سماجی اور معاشرتی ضرورتوں کی ایجاد ہے ہر زبان اپنی ارتقائی منزلیں سماجی زندگی ہی کے سہارے طے کرتی ہے اور اس کے زیرِ اثر اس کی صورت اور معنی میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ جس طرح افراد یا کسی قوم و ملک کے لیے ضروری کہ وہ نہ صرف اپنے ہمسایہ ملکوں یا قوموں سے بلکہ دور دراز کے ملکوں اور قوموں سے بھی زیادہ سے زیادہ تعلقات و روابط قائم کر ے۔ کسی زندہ زبان کے لیے بھی ضروری ہے کہ دوسری زبانوں سے اس کا ربط و ضبط بڑھتا رہے جس سے ایک دوسرے سے استفادہ اور ترجمے کی راہیں کشادہ ہوتی رہیں۔(فتح پوری، 1988) اس کے بغیر نہ کو ئی قوم بین الاقوامی مسائل میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے اور نہ کوئی زبان، اس لیے زبانوں کا ایک دوسرے سے استفادہ کرنا ناگزیر ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ترقی یافتہ زبان بھی اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتی کہ وہ دوسری زبانوں کے اثرات یا الفاظ سے یکسر خالی ہے۔اُردو زبان بھی اس قانونِ فطرت سی مستثنیٰ نہیں بلکہ اس کی تو بنیادی ہی آس پاس کی مختلف زبانوں یعنی پنجابی، سندھی، پشتو، بلو چی اور سرائیکی وغیرہ کے اشتراک پر رکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ عربی، فارسی،ترکی اور انگریزی کے بھی بے شمار الفاظ اُردو زبان میں جذب ہیں اور آج وہ اپنے مزاج و ساخت کے لحاظ سے زبانوں کی ایک ایسی انجمن ہے جس میں شرکت کے دروازے ہر زبان کے الفاظ پر یکساں کُھلے ہوئے ہیں۔
اُردو اور علاقائی زبانوں کا رشتہ دراصل ایک ہی خون، ایک ہی رنگ و نسل، ایک ہی زمین، ایک ہی اندازِ فکر اور ایک ہی طرزِ ادا کا رشتہ ہے۔ دورِ حاضرسے لیکر قدیم زمانے تک سراغ لگاتے چلے جائیے، یہ ر شتے پوری طرح واضح ہوتے چلے جائیں گے صاف اندازہ ہو جائے گا کہ اُردو اور علاقائی زبانیں ایک دوسرے کی حریف ورقیب نہیں بلکہ عزیز و رفیق ہیں۔اُردو، بلوچی، سندھی، پنجابی، پشتو، سرائیکی سب ایک قسم کی تہذیبی زندگی، معاشرت اور ایک ہی قسم کی آب و ہوا کی پروردہ ہیں۔ ان کے ظاہری خدو حال ایک دوسرے سے الگ سہی لیکن باطن میں ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ علاقائی زبانیں اور اپنے باہمی رشتوں کو سمجھیں اوراپنے اپنے منصب کو پہچانیں۔ساری علاقائی زبانیں اپنی جگہ اہم ہیں اور ان سب کا حلقہ اثراپنے علاقے تک محدود ہے،اس کے برعکس اُردو زبان ہر علاقے اور ہر حلقے میں بو لی اور سمجھی جا تی ہے۔ اس کا علمی اورادبی سرمایہ بھی علاقائی زبانوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔اس لیے اسے پاکستان میں قومی زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔(فتح پوری، 1988) قومی زبان کسی خاص علاقے یا گروہ کی زبان نہیں پوری قوم اور پورے ملک کی زبان ہوتی ہیں۔ اس لیے اس پر پشاور سے لےکر کراچی تک سب کا یکساں حق ہے۔کوئی بھی معاشرہ اپنے آپ کو برقرار رکھنے کے لیے اسی معاشرے میں رہنے والے لوگوں کا اپنے وجود کو برقرار رکھ سکتا ہے جس میں سے ہر معاشرہ اپنا الگ قدر رکھتا ہے، ان ا قدار کو بروئے کار لاکر معاشرتی ہم آہنگی قائم کی جاسکتی ہے۔
قومی زبان کے علاوہ کتنی زبانیں ہیں جس کو اپنے علاقائی تشخص کے ساتھ رکھا جائے جس سے پاکستان مضبوط سے مضبوط تر کی طرف گامزن ہو سکے گا۔پاکستان دوسرے معاشروں سے مختلف ہے۔ یہاں ہر علاقے کی اپنی زبان ہے سندھ میں سندھی، پنجاب میں پنجابی، خیبر پختون خوا میں پشتو، بلوچستان میں بلوچی، ان کے علاوہ بھی کئی زبانیں بولیں جاتیں ہیں۔(جالبی، 2008) ان میں ہرایک زبان دوسری زبان بولنے والے کے لیے اجنبی ہے یہ ساری زبانیں اپنے اپنے علاقوں تک محدودہیں اور ان میں سے کو ئی ایک زبان ایسی نہیں ہے جیسے قومی سطح پر ابلاغ کا ذریعہ بنا سکیں۔ ایسے میں مقامی و علاقائی زبانوں کے ساتھ قومی زبان کو بھی فروغ دیں۔جدوجہد آزادی کی تاریخ پر نگاہ ڈالے تو برصغیر کے مسلمانوں میں جذبہ آزادی اور اجتماعی تشخص پیدا کرنے میں اُردو کا کردار تاریخ ساز ہے۔
دراصل یہ ایسی حقیقت کا برملا اعتراف تھا کہ قائد اعظم نے اُردو میں تقریریں کیں اور قیامِ پاکستان کے بعد واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے، زبان قوموں کی اجتماعیت کا نہایت اہم وسیلہ ہے اور پاکستان میں اس کی خصوصی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔(کاظمی، 1982) زبانوں ہی کے وسیلے سے قوموں میں احساسا ت کا شعور بیدار ہوتا ہے قومیں اپنی زبان میں سوچتی ہیں، غور و فکر کرتی ہیں۔ قلب اور نظر کی بیداری میں اپنی زبان سے جو کام لیا جا سکتا ہے وہ کسی دوسرے وسیلے سے ممکن نہیں، پاکستان میں علاقائی زبانیں بھی ہیں اور یہاں کی ایک قومی زبان بھی ہے دونوں کا ہماری اجتماعی زندگی میں نہایت اہم کردار ہے۔
قومی یکجہتی میں اُردو زبان کا کردار:
قومی یکجہتی کے معنی یہ ہیں کہ مختلف علاقوں کے طرز فکروعمل ایک بلند تر سطح پر اس طرح گھل مل گئے ہوں کہ ہر علاقہ اس سطح پر نہ صرف اپنی شکلوں کی جھلک دیکھتا ہو،بلکہ مختلف عناصر کی اس نئی ترتیب میں اپنے اندر زند گی بسر کرنے کا ایک نیا حوصلہ اور نئی قوت محسوس کرتا ہو۔اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتاہے تو دیکھنے والے اس کے خاندان کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی ناک با لکل با پ پر گئی ہے، آنکھیں با لکل ماں جیسی ہیں ہونٹوں کی ساخت اور کتابی چہرہ دادا پر گئے ہیں اور پیشانی ماموں پر گئی ہے۔ اس ایک بچے میں مختلف عزیزوں کی شباہت موجود ہے لیکن بچہ اپنے عزیزوں سے مشابہ ہونے کے باوجوداپنی الگ شکل بھی رکھتا ہے۔ یہی مثال علاقہ اور ثقافت کی ہے جس میں زبانوں کا اہم کردار ہیں اورہرثقافت کا اپنا اپنا رنگ و زبان ہو تا ہے۔اس طرح یہ تمام مل کر ایک گلدستہ بن جاتا ہے۔ جس میں سب رنگ مل کر ایک وحدت کا احساس دلاتے ہیں۔ ہر قوم اپنے ثقافت وزبان سے پہچانی جاتی ہے جیسے جاپانی، چینی،انگریزی اور فرانسیسی ممتاز،زبان و ثقافت سے پہچانتے ہیں،اسی طرح ہماری بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ"پاکستانی"بھی اپنی ممتاز ثقافت و زبان سے پہچانا جائے۔ (جالبی، 2008) پاکستان میں بیک وقت کئی زبانیں بولی اور سمجھی جاتیں ہیں اور ہر زبان کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن ایک قوم کے حیثیت سے ان تمام زبانوں کے احترام کے ساتھ ساتھ اُردو زبان کو ملکی زبان کی حیثیت و اہمیت سے انکار ممکن نہیں اور شعور ی طور پر پاکستان کے سیاسی وقومی یکجہتی کا حصول ممکن بھی نہ ہوگا۔
زبان کے حوالے سے ہم اُردو کی بجائے "پاکستانی"بھی استعمال کر سکتے ہیں اور "نسح"رسم الخط کو رواج دیتے ہوئے بہت سے جمہوری رویوں کو بروئے کار لا کر زبان کو کچھ آسان بھی کر سکتے ہیں اس کے استعمال اور مقامِ استعمال کو بہر صورت تحصیص کرنا ہوگا۔(سلیم، 1990)زبان محض اظہارِخیال ہی کا نہیں، افزائشِ خیال کا بھی ذریعہ ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر زبان اپنا ایک مخصوص مزاج و کردار اور تاریخی و ثقافتی پس منظر رکھتی ہے۔وہ ایک خاص ماحول اور زمانے میں پروان چڑھتی ہے اور اپنے زور پر آگے بڑھتی اور ترقی کرتی ہے۔ اس کے اشارے، تشبیہات، محاورات، ضرب المثال، اقدار و روایات اور علامات سب اس کے ثقافتی ماحول اور مرکزسے مربوط ہوتے ہیں۔
زبان اپنے ماحول کی عکاسی اور اپنی تاریخ کی ترجمان ہوتی ہے اور اپنے بولنے والوں کے درمیان اتحادو اشتراک کا سب سے بڑا ذریعہ کسی انسانی گروہ کو باہم مربوط و منسلک رکھنے میں یہ وہی کردار ادا کرتی ہے جو ایک جنریٹر اپنے ساتھ جڑے ہوئے تاروں میں برقی رو دوڑاکر انجام دیتا ہے۔ قومی زبان کسی قوم کے وجود وبقا اور اس کی ترقی کے لیے ناگزیر سمجھی جاتی ہے کہ اس کے بغیر قومی اتحاد اور قومی یکجہتی کا حصول ممکن نہیں ہے۔(صلاح الدین، 1988)پاکستانی سیاست میں ثقافتی رنگ نمایاں نظر آتا ہے اور مختلف مقامی سیاسی پارٹیاں سیاسی عمل میں ہیں سیاسی پارٹیوں پر اُس علاقے کا لسانی رنگ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہی علاقائی پارٹیاں پورے پاکستان پر اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ ہرپارٹی میں مقامی افراد کا ہونا اس بات کی طرف اشارہ کر تاہے کہ سیاسی عمل میں مشترکہ رابطے کا عمل اورذریعہ اظہار ہے جو پاکستانی قوم میں موجود ہے۔ ہر پاکستانی بحیثیت سیاسی کارکن اپنے اپنے علاقے سے تعلق رکھنے کے باوجود پاکستان کے کسی بھی سیاسی پارٹی میں شریک ہوکر ملک وقوم کی نمائندگی کر سکتا ہے اس سیاسی عمل میں مشترک صرف قومی زبان ہے کیونکہ علاقائی زبان ایک علاقے کے لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں جبکہ اُردو زبان پاکستان کے ہر حصےّ میں با آسانی بولی اور سمجھی جاتی ہے جو پاکستان کی قومی اور رابطے کی زبان ہے۔
یامِ پاکستان کے بعد قائدا عظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے مارچ 1948ء کو ڈھاکہ کے مشہور خطاب میں فرمایا تھا کہ"سیاست کی واحد زبان کے بغیر کوئی قوم مضبوطی سے متحد نہیں رہ سکتی نہ کام کر سکتی ہے۔"(bbc,2017)اورپھرفرمایا کہ "پاکستان کی سرکاری زبان اُردو اور صرف اُردو ہوگی۔"(نوائے وقت، 2015)قائد اعظم محمد علی جناح اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ پاکستانی قومیت میں اُردو کی حیثیت بنیادی اور کلیدی ہے۔ اُردو ان کی مادری زبان تھی نہ علاقائی اور نہ وہ یہ زبان اچھی طرح بول سکتے تھے۔ان کو جو بے مثال تاریخی اور سیاسی شعور اللہ تعالیٰ نے عطا کیا تھا اس کی روشنی میں پاکستانی قومیت کے عناصرِ تر کیبی کو ان سے زیادہ بہتر کون سمجھ سکتا تھا۔
قا ئد اعظم محمد علی جناح نے خرابی صحت کے باوجود انھوں نے مارچ 1948ء میں خود ڈھاکہ جاکر واضح طور پر اعلان کیا کہ آپ اپنے صوبے اور اپنے اپنے علاقوں میں اپنی صوبائی اور علاقائی زبانیں استعمال کر یں، ان کے فروغ اور ترقی کے لیے کام کریں اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا مگر جہاں تک پاکستان کی قومی اور سر کاری زبان کا تعلق ہے، وہ اُردو اور صرف اُردو ہوگی۔(یوسف، 2000)
اُردوہماری قومی یکجہتی کا واحد ذریعہ ہے۔ہم اگر نظریہ پاکستان کے عناصرِ ترکیبی کا تجزیہ کر نا چاہیں تو ان میں چار چیزوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، اسلام کا پیغام، اقبال کا تصوّرِ پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت اور اُردو زبان کا کردار، اُردو ان تمام میں مشترکہ رابطے کا ذریعہ ہے۔تحریکِ خلافت ہویا تحریک پاکستان، تحریک ختمِ نبوت ہو یا تحریک نظامِ مصطفی، اُردونے ہمیشہ قوم کو متحد و منظم کیا اور اس کے اندر یکجہتی پیدا کی۔ اُردو کو ہم نے ابھی تک صرف اپنی سیاسی اور معاشرتی زندگی تک محدود رکھا ہے۔(صلاح الدین، 1988) جہاں اس قوت وکارگزاری کا مختلف تحریکات کے دوران ہمارے سامنے آتی رہی ہے، اسے ہم انتظامیہ، عدلیہ، مقننہ، مسلح افواج،صنعتی،مالیاتی و کاروباری اداروں کی زبان بھی بنادیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قومی یکجہتی کے نقطہ نظر سے یہ کتنا عظیم انقلاب برپا کرسکتی ہے۔
اُردو بحیثیت قومی زبان کی اہمیت و افادیت:
ہرقوم کواپنی زبان بے حد عزیز ہوتی ہے۔ قومی زبان کی اہمیت قوموں کی زندگی میں کیا ہے؟ بقول ڈاکٹر اسلم فرخی "قوموں کی زندگی میں قومی زبان کی وہی حیثیت ہے جو ہماری زندگی میں ہوا اور پانی کی ہے، قومی زبان کے بغیر کسی قوم کا تصور ایسا ہی ہے جیسےروح کے بغیر جسم۔"(فرخی، 1986) زبان ہی کسی قوم کی زندگی یا روح کی حیثیت رکھتی ہے، قوموں کی تاریخ سے قوموں کی زندگی میں قومی زبان کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے تاریخ شاہد ہے کہ جب کسی قوم نے دوسری قوم پر فتح حاصل کی تو اسے مغلوب اور زیر کرنے کے لیے سب سے پہلے اس نے مفتوح قوم کی زبان کو مٹانے کی کوشش کی۔
جنگ عظیم دوم میں جاپان کو شکست ہوئی تو شہنشاہ جاپان نے فا تح امریکی جرنیل سے صرف ایک ہی درخواست کی کہ اس کے ملک میں ذریعہ تعلیم جاپانی زبان ہی کو رہنے دیا جائے۔اس طرح انہوں نے نہ صرف اپنے قومی تشخص کومحفوظ رکھا بلکہ زبر دست ترقی سے بھی ہمکنار ہوئے۔ (زریں، 2009) جاپان بعض ٹیکنیکل شعبوں میں امریکہ سے بازی لے گیا، چین نے1949ء میں آزادی حاصل کی آج اس کا شمار ترقی یافتہ قوموں میں ہوتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آزادی کے پہلے ہی سال چینی زبان کو سرکاری درجہ دے دیا گیا چین کی ساری ٹیکنالوجی چینی زبان میں ہے، باوجود اس کے کہ چینی رسم الخط دنیا بھر میں مشکل ترین ہے۔
بھارت اگست 1947ء کو آزاد ہوا تھا،تقریباً179زبانیں اور 445بولیوں کے اس ملک میں ہندی بالکل مختلف ہے، لیکن آزادی کے بعد جلد ہی ہندی کو سرکاری و دفتری زبان بنا دیا گیا۔ا نڈونیشیا میں دو سو(200) سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن آزادی کے فوراً بعدجاوانی زبان کو سر کاری و دفتری زبان بنا دیا گیا۔ الجزائر میں فرانسیسیوں کو قومی زبان کی حیثیت سے رائج کرنا چاہا لیکن کو شش کے باوجود فرانسیسی کامیاب نہ ہو سکے کیوں کہ الجزائر کے باشندوں نے اپنے قومی تشخص کا بھر پور تخفظ کیا اور عربی زبان کی قومی حیثیت برقرار رہی۔مصر، سوڈان نے برطانیہ سے آزادی کے بعد انگریزی کے بجائے عربی کو سرکاری زبان بنایا۔1971ء میں بنگلہ دیش بننے کے بعد بنگالی (بنگلہ)زبان کو فوری طورپر سرکاری و دفتری زبان بنا دیاگیا۔ فرانس، کوریا،جرمنی میں بھی قومی زبانیں سرکاری و دفتری زبانیں ہیں۔(زریں، 2009) قوم، قومی زبان سے ہے اور قومی زبان قوم سے ہے۔ قومی زبان سے الگ کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ اس کی جڑیں قوم کے دل ودماغ اور وجود میں پھیلی ہوتی ہیں۔ اُردو کو ہم نے ایک زندہ حقیقت کے طور پر قبول کیا ہے،قوموں کے نظریئے کو اپناتے ہوئے ہم نے پاکستان کے لیے زبان کے مسئلے کو ایک جداگانہ زاویے سے دیکھا ہمارے لیے اُردو زبان ملّی افکار کی ترویج کا ذریعہ اور پاک وہند کے مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات کی ترقی کا ایک بڑا وسیلہ تھی۔ اُردو زبان کی اس سیاسی حیثیت میں اور مغرب کے لسانی وحدت کے تصور میں فرق ہے۔اُردو کو قومی زبان قرار دے کر مغرب کا تصورِ قومیت کو رائج کرنا ملّی عزائم کے بالکل خلاف ہو گا۔
اُردو کو بحیثیت قومی زبان ہمیں جو درجہ دیتاہے اس میں اُردو کی حیثیت ایک ایسی قومی زبان کی ہے، جس میں مسلمانوں کابیشتر علمی اور فکری سرمایہ محفوظ ہے جس ملک میں اسلام پہنچا وہاں کاروباری، معاشرتی، دفتری، تعلیمی اور ادبی مسا ئل میں قومی زبانوں کو اہمیت دی گئی۔(قریشی، 1965)اُردو اور علاقائی زبانوں کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں بلکہ یہ زبانیں ایک دوسرے کی معاون ومددگار ہیں۔ قومی زبان کا دائرہ علاقائی زبان کے مقابلے میں وسیع ہے اور اُردو کی ترقی کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانیں بھی ترقی کر رہی ہیں، کیوں کہ علاقائی اور اُردو دونوں کی گرامر، لسانی خاندان، رسم الخط، حروفِ تہجی ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں۔
علاقائی اور اُردو زبانیں صدیوں سے ایک دوسرے کے الفاظ استعمال کر رہی ہیں۔ اُردو سے تراکیب،جدید اصطلاحات اور اظہار کے طریقے علاقائی زبانون میں منتقل ہو رہیں۔(زریں، 2009)علاقائی زبانیں بولنے والے اُردو کو باآسانی سمجھ لیتے ہیں اور بولنے میں کوئی خاص دِقّت نہیں ہوتی۔ دراصل قوم کے مزاج کا آئینہ قومی زبان ہوتی ہے۔ اُردو ہماری قومی ضرورت کے تحت وجود میں آئی اور اس کا وجود ہماری قومی ضرورت ہے۔
اُردوپاکستان کی شناحت ہے:
قوموں کی نشوونما اور شناخت میں زبان کی بڑی اہمیت ہے۔بقولِ عکسی مفتی:"میں بچپن ہی سے انگریزی پڑھتا اور لکھتا آیا ہوں لیکن آج تک اس زبان کی اجنبیت نہیں گئی۔"(مفتی، 2014) دنیا کی تاریخ میں مہذب اور ترقی کرنے والے اقوام نے کوئی جنگ ثقافتوں اور زبانوں کے ہتھیار سے نہیں لڑی۔ یورپ کی جمہوریت نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے علم وادب، زبان وثقافت کو سیاسی بساط کا مہرا کبھی نہیں بننے دیا کیونکہ زبانیں اور ثقافتیں تو محبت و بھا ئی چارے کا پیغام دیتی ہیں۔پاکستان کی تمام علاقائی زبانیں محترم ہیں ان کو اپنے اپنے علاقوں میں استعمال کا موقع ضرور ملنا چاہیے۔
اُردو پاکستان کی کسی علاقے کی مادری زبان نہیں لیکن اس کے باوجود پورے برصغیر، افریقہ اور تیسری دنیا میں موجود ہے اور ایک بڑی و عالمی زبان بن گئی ہے۔(صدیقی، 1988) اسلام کے بعد پاکستانی قومیت کا دوسرا سب سے بڑا اور اہم ترین ستون اُردو زبان ہے، ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال اپنے ایک خط میں بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کولکھتے ہیں:"میری لسانی عصبیت، دینی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں ہے۔"(یوسف، 2000)تقسیمِ پاک و ہند سے پہلے مسلمانانِ ہند اور تقسیم کے بعد باشندگانِ پاکستان کے لیے ایک مشترکہ زبان کا مسئلہ بہت اہم رہا ہے۔اس کی تاریخ جاننے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُردو زبان کا مقابلہ کئی زبانوں سے ہو چکا ہے اوران مقابلوں میں کس طرح سر خرو ہوئی ہے اس کے علاوہ اُردو زبان ہمیشہ کس قدر مقبولِ عام رہی ہے۔
ہندوستان میں سب سے پہلے زبان کا مسئلہ انگریزوں کے تسلط سے اُٹھا جب انہوں نے1837ء میں فارسی زبان کو بحیثیت سرکاری زبان کے ختم کیا تو اس کی جگہ کسی مقامی زبان کے انتخاب کرنے کی ضرورت پڑی تو اس وقت انگریزوں کو حکومت کر نے کے لیے کوئی زبان سوائے اُردو کے نظر نہیں آئی چنانچہ انہوں نے1839ء میں اُردو ہی کو سرکاری زبان چُن لیا۔اس کے بعد دوبارہ 1857ء کی جنگ کے بعد اُردو ہی کا انتخاب کیا گیا۔سر سیّد احمد خان نے لندن سے جو خط1870ء میں نواب محسن الملک کو لکھا ہے اس سے مسلمانو ں کے اُردو دلی تعلق کا حال معلوم ہو تا ہے وہ لکھتے ہیں۔کہ "ایک اور خبر ملی ہے جس کا مجھے کمال رنج اور فکر ہے کہ بابو پرشاد صاحب کی تحریک سے عموماً ہندو لوگوں کے دل میں جوش آ یا ہے کہ زبان اُردو اور خطِ فارسی جو مسلمانوں کی نشانی ہے مٹا دیں۔" قیامِ پاکستان کے بعد یہا ں کے مسلمانوں کے درمیان اُردو زبان کی ہر دلعزیزی میں رخنہ پڑ گیا سب سے پہلے مشرقی پاکستان میں بنگالی بولنے والوں نے اُردو زبان کی مخالفت کی۔یہاں تک کہ خود قائد اعظم کے حکم یا مشورہ کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ جولوگ زبان کے مسئلے کو دور سے دیکھتے ہیں وہ یا تو اس انقلاب پر تعجب کرتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ مقامی زبان کو اُردو زبان سے جو ایک لحاظ سے غیر زبان تھی دبایا نہیں جا سکتا تھا۔اس لیے بنگالی بولنے والوں کی طرف سے اس کی مخالفت ایک قدرتی امر تھا لیکن مشرقی پاکستان میں اصل مسئلہ زبان سے زیادہ اقتصادی تھا اور اس کو احساس خودداری کی لگائی ہوئی چنگاری نے شعلہ بنادیا تھا۔ہزاروں بلکہ لاکھوں بنگالی اُردو کی حامی تھے اور ان میں بہت سے اُردو کے اچھے اچھے شاعر اور نثر نگار بھی تھے لیکن کوئی تیار نہیں تھا کہ رات بھر میں سرکاری زبان بدل دی جائے اور اس کے نتیجے میں وہ کروڑوں انسان جو اُردو پڑھ لکھ نہیں سکتے تھے یکسر ناخواندہ بن جائیں۔ نوکریاں ان سے دور ہو جائیں اورزندگی کا روبار ہاتھ سے نکل جائے لیکن اہلِ اقتدار کی جلد بازی نے اس نازک مسئلے کی طرف سے بے پروا کردیا تھا کہ اُردو کو بتدریج رائج کیا جائے اور بنگالی زبان کو اس کا ہمرکاب رکھا جائے۔(احمد، 1991)نتیجہ یہ ہوا کہ مشرقی پاکستان کے باشندوں نے اُردو کے معاملہ میں اپنی ذلّت اور نقصان دیکھا۔ طریقہ امراء کی غلط کاری نے اُردو زبان سے دُشمنی کا بازار گرم کر دیا اس کے ساتھ سیاسی محرومیوں کا احساس پیداہوا اور بیرونی حکومتوں کی ریشہ دانیوں نے اپنا زہر گھولا۔اس طرح بات بڑھتی گئی اور 1971ء میں مشرقی پاکستان پر ہندوستان کے فوجی حملے کے بعد پاکستان کا وہ بازو ہی ٹوٹ گیا۔
1971ء کے سانحے کے بعد سندھ میں سندھی اُردوکشمکش کو فروغ دیا گیا۔خوش قسمتی سے پنجابی بمقابلہ اُردو کا کو ئی وجود نہیں تھا۔حالانکہ متحدہ پاکستان میں بنگالی کے بعد پنجابی سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جاتی تھی۔مدّت ہوئی پنجابیوں نے اپنی مادری زبان میں لکھنا چھوڑدیا۔جس کے سبب پنجابی کا وجود محض چند تعلیمی اداروں اور کچھ جرائد تک محدود ہے۔ اس کے بر عکس سندھی،پشتو اور بلوچی زبان کے لکھنے والے کثیر تعداد میں ہیں۔ خا ص طور سے سندھی اخبارات اور جرائد نے سندھی زبان کو توانائی عطا کی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے سیاسی مقاصد کے لیے سندھی زبان کو قومیت کی بنیادی شرط قراردے کر اُردو کے مقابلے پر لے آئی۔یوں سندھ کے شہری علاقوں میں لسانی تنازع نمایاں ہوا۔ اُردو کو اپنی مادری زبان سمجھنے والے بھی کثیر تعداد میں مو جود ہیں جو سندھی کو اُردو کے برابر درجہ دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔یہ کیفیت سیاسی سر پرستی کے باعث سماج، تعلیم اور روزمرہ امور میں آج بھی مو جود ہے۔سندھ کی شہری اور دیہی تفریق کا بنیادی سبب لسانی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دونوں اطراف کے سیاستدان اور دیگر شعبہ جات کی اشرافیہ اس خود ساختہ حقیقت کو سرِعام تسلیم نہیں کرتے لیکن شاید ہی انہوں نے اپنے سیاست، ملازمت، کاروبار یا سوچ میں دل سے اس کیفیت کی نفی کی ہو۔لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔سندھ کے بعد دوسرا لسانی معرکہ بلوچستان میں برپا ہے۔ جہاں افغانستان کے مہاجرین کی بھاری تعداد کے باعث بلوچ آبادی خود کو سیاسی، سماجی اور لسانی اعتبار سے محفوظ سمجھ رہی ہے۔ افغان مہاجرین کو بلوچستان میں بعض بااثر سیاستدانوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ وفاق اس معاملے سے لا تعلق اور بے حس دکھائی دیتا ہے۔ بلوچی اور پشتو کشمکش کے نتائج سیاسی ماحول کو مزیدپراگندہ کر سکتے ہیں۔(Daily Dunya, 2015)وطنِ عزیز کے حالات کا تقاضا ہے کہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں "ماں بولی" کے نام پر سیاست کی حوصلہ شکنی کی جائے۔پاکستان میں رائج تمام زبانیں اور بولیاں ایک ہی گلدستے کا حصہ ہیں۔یہ ہمارے آباؤ اجداد کا قیمتی ورثہ ہیں۔ جن کی حفا ظت سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
سندھی ادب پہ سیمنار منعقدہ جام شورو (1984ء)میں سندھ کے عظیم محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اپنے صدارتی خطبے میں پاکستانی ادب کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ کہ " پاکستانی ادب اُردو اور ملک کی دوسری زبانوں کا مشترکہ سرمایہ ہے ادب کے دائرے میں پاکستان کی سب زبانیں ہماری اپنی زبانیں ہیں اس لیے فقط اُردو کو قومی کہنا عقلمندی کی بات نہیں کیونکہ اسی سبب سے یہ اثر پختہ ہو جائے گا کہ ملک کی دوسری زبانوں کے ادب کو قومی ادب نہیں سمجھا جاتا اس سوچ کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ اُردو ملک کی دوسری زبانوں سے نفسیاتی طور پر الگ ہوتی رہے گی۔پاکستانی ادب ملک کی جملہ زبانوں کا مشترک خزانہ ہے اگر ہم خلوص ِدل سے وطن دوست بن کر لسانی برادری اور رواداری کے اس نظریہ پرعمل کریں گے اور اس کو آگے بڑھائیں گے تو ملک کی جملہ زبانوں کے ادب کو پاکستانی ادب کے دائرے میں ایک قابلِ فخر مقام حاصل ہوگا۔" (Khyaban,2007) پاکستان کے صوبےبحیثیت مجموعی ایک جان ہیں۔ جس طرح انسانی بدن میں مختلف حصےّ ہیں اور ہر حصےّ کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے ہر حصہّ اپنا اپنا کردار ادا کر کے ہی ایک جسم کی نشوونما کرتے ہیں۔ پاکستان میں مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے با وجود اُردوزبان نہ صرف ثقافتی اور سیاسی معاملات میں بلکہ قومی یکجہتی میں بھی اہم کردارکی حامل ہے اور قومی یکجہتی ایک ایسی طاقت ہے جس میں ہمہ قسم کی ترقی مضمروپوشیدہ ہے ۔ اسی طاقت سے پاکستان کا چہرہ روشن نظر آتا ہے اور پورے عالم میں ہماری شناخت بنتی ہے اس کے بغیرملک و قوم ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتی۔
محاصل:
مملکتِ پاکستان کے کسی بھی خطے کے لوگوں کی مادری زبان نہ ہو نے کے باوجود اُردو کو پاکستان کی قومی زبان ہونے کا اعزاز کیوں حاصل ہے؟ اس لیے کہ ہمارے آباو اجداد نے قومی آزادی میں اُردوزبان کو مؤ ثر ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا۔ ہمارے قومی آزادی کے زعماء نے اپنی گرمیِ آواز کو اُردو زبان کے قالب میں ڈھال کر مسلمانانِ ہند کے دلوں میں جذبہ آزادی کی حرکت و حرارت بھر دی تھیں تب کہیں جاکر برطانوی سرکار نے مسلمان عوام کی اجتماعی قوّ ت کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوئی تھی۔
من حیثیت القوم، ہم جب تک قومی زبان اُردو کے معاملے میں بالا پیش کردہ حقائق کا ادراک نہیں کر لیتے،بلکہ ان کی اہمیت سے نئی نسل کے قلب کو گرما نہیں لیتے، اس وقت تک قومی اہمیت کے کسی بھی اہم کام کو متفقہ طورپر انجام دینے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ہماری بیورو کریسی، اربابِ اختیاراس سچائی کو صدقِ دل سے کیوں تسلیم نہیں کرلیتے کہ قومی زبان کا احترام اور اس کا کاروبارِ مملکت کی سطح پر رواج و نفاذ ہی ہمارے ملکی معاملات میں ہر حوالے سے مدد گار ثابت ہو سکتا ہے،جس طرح 1973ءکے آئین کے تحت اُردو کو اس کی قیامِ پاکستان تک کی خدمات کے اعتراف میں قومی زبان کا درجہ عطا کیا گیا اسی طرح مملکت میں ہر سطح پر قومی زبان اُردو کے رواج و نفاذ کے لیے بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ مطالبہ انہونی بات نہیں ہے ہم سے پہلے اور ہمارے بعد آزادی حاصل کرنے والے اکثر ممالک، با لخصوص فرانس، چین، جاپان، نے فی الفور اپنی قومی زبان کو کم وقت میں ترّقی و فروغ دیا اور اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں سے وہ ترّقی یافتہ ممالک کی صفوں میں کھڑے ہیں۔
تاریخ پر غور کریں تو انگریز وں نے اگر مذہب اور زبانوں سے کھلواڑ کیا تھا تو کیا ہمارے حکمران طبقات بھی بس یہی کرنا چا ہتے ہیں؟آج جدید ممالک میں زبانوں اور مذاہب سے وابستہ مسائل کو حل کرتے ہوئے قومی تعمیر نو کی طرف پیش قدمی کی ضرورت ہے۔ مادری زبانوں، رابطے کی زبان اور انگریزی میں تکرار نے ہمیں تعصب اور تفاخر کی کھا ئیو ں میں گرادیا ہے ۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ انگریزی زبان طاقت کے ساتھ ساتھ علم سے بھی جڑی ہے اس لیے ہر کوئی انگریزی ہی پڑھنا چا ہتاہے۔ زبانوں، لہجوں اور رسم الخط کی بحث کو طے کرنے کے لیے ایک کمیشن بنایا جائے جو یہ طے کرے کہ ملک میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں اور ان کے بولنے والوں کی تعداد کیا ہے، جسے وفاقی سطح پر ریاست ثقافتی رنگا رنگی کی پالیسی کو اپناتاکہ نفرت کی سیاست کے خاتمے کو ممکن بنایا جاسکے۔ اس پالیسی کا مطلب یہی ہے کہ ہم اپنی ثقافتوں اور زبانوں کا احترام کر یں۔ زبانیں اور ثقافتیں کو ئی جامد شے نہیں بلکہ یہ تو چلتے پانیوں کی طرح موج مستی سے لبریز رہتی ہیں۔ ہر نئی چیز کو جذب بھی کر تی ہیں اور بعض اوقات بوسیدہ چیزوں کو اگل بھی دیتی ہیں۔ آج کے پاکستانی نوجوانوں کو ہم جس قدر جلد ان مخمصوں سے نکال دیں تو "ستاروں سے آگے جہاں " یہ خود ہی ڈھونڈ لیں گے۔
ہمیں اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ قومی یکجہتی میں بحیثیت قومی زبان ایک ہی زبان اہم کردار ادا کر سکتا ہے، ملک و ملّت کی ہم آہنگی و بھائی چارگی اُردو زبان کی صورت میں بلا شبہ اہمیت کا حامل ہے،ملکی سطح پر کئی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں لیکن وہ ایک علاقے تک محدود ہوتی ہے، جبکہ اُردو ایسی زبان ہے کہ پورے پاکستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور مقامی سطح پر ہر طرح کی خط وکتابت بھی کی جاتی ہے نیز پاکستان میں چھپنے والے اُردو اخبارات کی تعداد بھی دوسری زبانوں کے مقابلے زیادہ ہے۔عوامی سطح کے جلسوں اور جلوسوں میں تقاریر بھی اُردو میں ہوتی ہیں۔جس سے واضح پیغام ملتا ہے کہ ملک کی سیاسی،قومی ہم آہنگی و قومی یکجہتی میں بلا شبہ اُردو زبان کے کردار سے انکار ممکن نہیں۔ پاکستان کے اربابِ اختیار بھی اگر اُردو زبان کو سر کاری درجہ دے کر اپنی آئینی و قومی زمہّ داری پوری کرے تو معاشرے اور قوم کو ایک لڑی میں پرویا جاسکتا ہے۔
REFERENCES
Abbas, Dr. Qamar; (2010). Moulvi Abdul Haq aur Qawaid nawesi. Karachi; Monthly Qaumi Zaban. Pp112
Ahmed, Chief Justice® Qadeer Uddin; (1991). Qaoumi Zaban. Karachi; Monthly Qaoumi Zaban. Pp1
Ahmed, Dr. Riyaz; (2013). Urdu Tadrees: Jadeed Tareeqay aur Taqazay. New Dehli; Maktaba e Jamia. Pp19,20, 23
Akhter, Saleem; (1971). Urdu Adab ki Mukhtasar Tareekh. Lahore; Sang e Meel Publications. Pp14
Ambreen, Dr. Shazia; (2009). Urdu Tehqeeq o tadveen ki Faiz risa Shakhsiat. Karachi; Monthly Qoumi Zaban. Pp22,23
Baidi, Dr. K.S. Teen Hindustani Zabanain. Dehli; Anjuman Taraqqi Urdu. Pp111
Bukhari, Sohail. Urdu Zaban ki Tareekh per aik nazar. Lahore; Monthly Adbi Dunya, Issue 5. Pp34
Farkhi, Dr. Aslam; (1986). Qaoumo ki zindagi mai qaoumi zaban ki ehmiat. Karachi; Monthly Qaoumi Zaban. Pp14
Fatah Puri, Dr. Farman; (1988). Urdu aur degar Pakistani Zabanain. Karachi; Monthly Qaoumi Zaban. Pp41,43,44,45
Fauq, Dr. Hanif; (1986). Urdu Zaban ki Tehqeeq. Karachi; Monthly Qaumi Zaban. Pp12
http://www.bbc.com/urdu/news/ye_hamari_Urdu_Zaban/ retrieved from 31.10.2017 10:10pm
http://www.khayaban.uop.edu.pk/Khazain_2007(17)qoomeat_k4e_tameer.html 21/11/2017, 11:00pm
http://www.Roznama Dunya maa boli k seyasat sodagar.Saulat Raza Column, Wednesday 01 2015 retrieved from 21/11/2017, 11:30 pm
Hussain, Syed Ehtesham; (1999). Urdu Adab ki Tandeeqi Tareekh. New Dehli; Qaumi Council bra’ay Urdu Zaban. Pp8,9
Jain, Dr. Gyan Chand; (1985). Aam Lisaniyat. New Dehli; Taraqqi Urdu Bureau. Pp 45
Jalbi, Dr. Jameel (2008); Pakistani Culture: Qoumi Culture ki tashkeel ka masla. Islamabad; National Book Foundation. Pp 65, 66, 184, 188
Kazmi, Prof. Hasnain; (1986). Qaoumo ki zindagi mai Qaoumi Zaban ki ahmiat. Karachi; Monthly Qaoumi Zaban. Pp10, 11, 12
Mufti, Aksi; (2014). Pakistani Saqafat. Lahore; Al Faisal Nashiran. Pp 149
Naimatullah, Dr. (2000). Zaban kia hy? Karachi; Monthly Qaoumi Zaban. Aug. pp87, 88
Qureshi, Dr. Waheed; (1965). Urdu bahesiat Qaoumi Zaban. Karachi; Monthly Qaoumi Zaban. Pp11
Qureshi, Naseem; (1969). Urdu Adab ki Tareekh. Ali Garh; Friends Book House. Pp12
Rehman, Dr. Tariq (translation: Asghar Bashir); (2017). Lisaniyat: Aik Taaruf. Karachi; City Book Point. pp32, 42
Sabzwari, Dr. Shaukat; (1961). Dastan e Zaban Urdu. Dehli; Chaman Book Depot. Pp20
Sadeed, Dr. Anwer; (1991). Urdu Adab ki Mukhtasar Tareekh. Islamabad; Muqtadera Qaoumi Zaban. Pp34
Salah Uddin, Muhammad; (1988). Qaoumi Yakjehti mai Zaban ka Kirdar. Karachi; Monthly Qaoumi Zaban. Pp73, 80
Saleem, Ahmed; (1990). Sulagta hua Sindh. Lahore; Jang Publishers. Pp104
Siddiqui, Riyaz; (1988). Daftari Zaban ka masla. Karachi; Monthly Qaoumi Zaban. Pp91, 92
Yousuf, Jameel; (2000). Urdu hamari Qaoumi Shanakht hy. Karachi; Monthly Qaoumi Zaban. Pp78, 82
Zafar ul Hasan, Dr. Muhammad; (1995). Tehreekh e Pakistan aur Urdu 1946-1947. Karachi; Monthly Qoumi Zaban. Pp44,45,48,49
Zarren, Kehkashan; (2009) Urdu bahesiat Qaoumi Zaban. Karachi; Monthly Qaoumi Zaban. Pp37, 38, 40, 41
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 2 Issue 2 | 2022 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2022 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2022 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2022 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |