1
2
2022
1682060075860_3009
14-27
https://ojs.almithaqjournal.com/index.php/Main/article/download/12/8
https://ojs.almithaqjournal.com/index.php/Main/article/view/12
Introduction to religious institutes curriculum of Dars-e-Nizaami Wifaqaat approved by HEC and traditional and modern methods of Language teaching
عربی زبان کی جامعیت فصاحت وبلاغت اور فضیلت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ ایک ایسی وسیع اوردلچسب زبان ہے اور اسکا ادب ایسا فصیح وبلیغ ہے کہ دنیا کی کوئ اور زبان ان اوصاف میں اسکا مقابلہ نہیں کرسکتی۔اسکی وسعت اور ہمہ گیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں جذبات فطرت کی عکاسی کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے ۔ کیونکہ کسی بھی چیز کی تمامانواع و اقسام اور مختلف حالتوں کے لیے الگ الگ الفاظ موجود ہیں۔ نیز ایک ہی معنی کے اظہار کے لیے بکثرت الفاظ مل سکتے ہیں اور ہر لفظ کی وجہ تسمیہ اور اس میں اشتقاق کے اعلی درجہ کی خوبی پائ جاتی ہے۔
اس زبان کی نمایاں خصوصیات میں سے ايجاز و اختصار ( یعنی کثیر معانی و مطالب کو قلیل الفاظ میں بیان کرنا) ہے ۔ اور اس زبان کی عظمت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی آخری عظیم المرتبت کتاب قرآن مجید فرقان حمید کو اسی زبان میں نازل کیا۔ اور اس کے متعلق اللہ تعالی نے اپنے صحیفہ انقلاب میں فرمایا " بلسان عربي مبين " اور فرمایا " إنا أنزلناه قرآنا عربيا لعلكم تعقلون "
اور پھر اس زبان کو اللہ تعالی نے آخری پیغمبر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے چنااور اپنے نبی کے کلا م مبارک سے اس زبان کو شرف بخشا ۔ اس لیے نبی محتشم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ عرب سے محبت تین وجہ سے کرو ایک میرے عربی ہونے کی وجہ سے ، دوسرا قرآن کے عربی میں ہونے کی وجہ سے ، اور تیسرا یہ کہ اہل جنت کی زبان بھی عربی ہوگی نیز اس زبان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس زبان نے مسلم امہ کے درمیان سیاسی ، سماجی ، معاشرتی ، تجارتی اور مذھبی روابط کے لیئے سنگ میل کا کردار ادا کیا ، کرتی ہے ، اور تاقیامت کرتی رہے گی ۔
الغرض حجازمقدس سے اٹھنے والی یہ عظیم المرتبت زبان شرق و غرب ہر جگہ اپنا سکہ منوانے میں کامیاب رہی ۔
برصغیر پاک وہند میں عربی زبان کی تعليم و ترويج کا پس منظر
اس ضمن میں اگر ہم تاریخ پاک ہند کا مطالعہ کريں تو معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان کی آمد اور اسکی آبیاری برصغیر پاک و ہند میں کئ مراحل اور اسباب کے ضمن میں معرض وجود میں آئ ۔
طلوع اسلام سے پہلے سواحل ہند و سندھ اور جزیرۂ عرب محض تجارتی روابط سے مربوط نظر آتے ہیں۔ لیکن ان تجارتی روابط کے اثرات آج بھی عربی زبان میں نمایاں ہیں۔ ان میں سے چند ہندی الاصل معرب الفاظ کا عربی زبان میں پایا جانا اسکی ایک واضح دلیل ہے۔
اور پھر طلوع اسلام کے بعد یہ ہی وہ عربی زبان تھی جس کے ذریعے محمد بن قاسم نے 92 ھ میں برصغیر پاک وہند میں اپنے سیاسی ، سماجی ، معاشرتی ، تجارتی اور دینی اھداف حاصل کيے- اور بعد ازاں تاجروں نے تجارت کے ذریعے، اور مبلغین نے اسلام کی تعلیم ترویج کے ذریعے ،اور مھاجرین نے اپنے اخلاق کریمہ کے ذریعے برصغیر پاک وہند میں اس مقدس زبان کی اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا ، چونکہ محمد بن قاسم کے 92 ھ میں برصغیر پاک وہند میں حملے کے بعد عربوں کی حکومت معرض وجود میں آگی تو اس لیے عربی سرکاری زبان کی حثیت رکھتی تھی ۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ367ھ میں جب غزنوی دور حکوت آتا ہے تو اس دور کے شروع میں توعربی زبان ہی سرکاری زبان کی حثیت رکھتی ہے مگر کچھ ہی وقت کے بعد فارسی سرکاری زبان کا درجہ اختیار کرتی گئ ، جونہی فارسی نےغزنوی دور میں سرکاری زبان کادرجہ اختار کیا، ادھرمسلمانان برصغیر پاک و ہند عربی زبان کے تحفظ اور بقاء کےلیے کھڑے ھو گے ،جس کے نتیجے میں مسلمانان برصغیر پاک و ہند نے خود غیر سرکاری سطح پر کئ ایک کلیات ومدارس اور معاہد کا اہتمام کیا جن میں متعدد تعلیمی نصاب و مناھج کے تحت اس زبان کی تعلیم و ترویج کا سلسلہ جاري رہا ۔
پھر جب مغلیہ حاندان 932 ھ میں برسراقتدار آتاہے تو ہم دیھکتے ہییں کہ برصغیر پاک وہند میں اس زبان کی تعلیم و ترویج کے لیے جگہ جگہ عظیم الشان دینی درسگاہیں قائم گیں ، بلکہ خود مغلیہ سلاطین عربی زبان کے متخصصین کا درجہ رکھتے تھے۔
اس دور میں متعدد علماء ومصنفین اور شعراء عربی زبان کی خدمت اور آبیاری کے لیے اپنے فن کا مظاھرہ کرتے رہے ۔ ان عظیم ہستیوں میں جنہوں نے عربی زبان کے لیے نمایاں کردار ادا کیا شیخ عبد الحق محدث دہلوی1052- 959 هـ ، شیخ احمد سرہندی 971ھ اورشاہ ولی اللہ 1114 هـ رحمہم اللہ ہیں جنہوں نے بارویں صدی ھجری تک زبان عربی کے لیے امتزاج و توازن کی راہ ہموار کی تا آنکہ نظام الدین سہالوی نے 1161ھجری میں ایک مقبول عام نصاب تعلیم کو آخری شکل دي جو انہیں کے نام پر آج تک (درس نظامی ) کے نام سے جانا جاتا ہے۔3
درس نظامی اور اسکے مرتب نظام الدین سھالوی کا مختصر تعارف
نظام الدین سھالوی ملا قطب الدین بن عبد الحلیم کے چار بیٹوں میں سے ایک ہیں۔،اور آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابو ایوب انصاری سے ملتا ہے ۔
نظام الدین سھالوی ہندوستان کے سھالی نام کے قصبے میں 1088ھ میں پیدا ہوے اور وہاں ہی رہائش پذیر تھے۔
آپ کئ علوم و فنون پر مکمل دسترس رکھتے تھے ، آپ نے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کو اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت میں ایک ایسا جامع نصاب تعلیم دیا جو آج تک (درس نظامی ) کے نام سے جانا جاتا ہے ۔4
جب ملا نظام الدین سھالوی نے ایک مقبول عام نصاب تعلیم کو ختمی شکل دی تو یہ نصاب تعلیم درس نظامی گیارہ علوم و فنون پر مشتمل تھا: (1) صرف و نحو (2) بلاغت (3) تفسیر (4) حدیث (5) فقہ (6)اصول فقہ (7)منطق (8)حکمت (9) ریاضی و ہیئت (10) علم کلام (11) مناظرہ، اور فارسی کی حثیت اس میں ایک ابتدائ ضمنی مضمون سے زیادہ نہ تھی ۔5 یہ نصاب تعلیم اپنی اہم خصوصیات کے پیش نظر 1748 عیسویں سے لےکر 1835 تک برصغیر پاک وہند کے تعلیمی اداروں میں مختلف ترمیمات کے ساتھ نافذ رہا ،اس نصاب کا فارغ التحصیل زندگی کے مختلف امور کو احسن انداز میں سرانجام دینے کی صلاحیت رکھا تھا۔ الغرض قضاۃ ، مفتیان عظام ، فقھاء ، مبلغین ، مشیران سلطنت ،غریب وامیر الغرض کئی ایک مغلیہ سلاطین درس نظامی کے فارغ التحصیل تھے ۔
لیکن ابتداء میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے شاہ عالم سے دیوانی کے اختیارات حاصل کیے تو علمی و عدالتی زبان عربی تھی ،عدالتی اس لحاظ سے کہ فیصلوں کا مدار عربی فقہ کی کتابوں پر تھا ۔ اس ضرورت سے اول تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے عربی کی خدمت کی ایک مدرسہ کلکتہ میں اور دوسرا مدراس میں قائم ہوا ،اور ساتھ ساتھ انہوں نے عربی کتابوں کو فارسی میں ترجمہ کرنا شروع کردیا،اور کسی حد تک انگریزی زبان کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جانے لگا ۔
مگر بہت جلد انہوں نے ایک نیا نصاب تعلیم متعارف کرانے کی ٹھان لی جس کے لیۓ انگریزوں نے ایک کمیٹی لارڈ میکالے کی سربراہی میں تشکیل دی اوراس نے 1835م میں ایک جدید نصاب تعلیم مرتب کر کہ برصغیر پاک وہند کے تمام تعلیمی اداروں پر مسلط کر دیا ، بدقسمتی سے تمام تعلیمی اداروں نے اس جدید نصاب تعلیم کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا ، نتیجۃ درس نطامی کو انگریزوں نے اسطرح برصغیر پاک وہند کے تمام تعلیمی اداروں سے باہر نکال دیا۔
قطع نظر اسکے کہ اس جدید نصاب تعلیم سے ان کے اھداف کیا تھے ؟ اور مسلمانوں کے ایک پسندیدہ نصاب تعلیم درس نطامی کو نسیا منسیا کرنے کے اسباب ووجوہات کیا تھے ؟ لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ درس نطامی ایک مسلمان کو صحیح معنوں میں اسلام سے متعارف کرانے کی صلاحیت بدرجہ اتم تو موجود ہے ، مگر کیا درس نطامی ایک مسلمان کو ڈاکر، انجنیر ،سانئسدان، جدید علوم و فلسفہ اورجدید صنعتی انقلاب وسائنسی ایجادات اور اس 21 صدی میں پوری دنیا کے سامنے مساوی قدروں پر کھڑا کرنے کی صلاحیت بھی رکتا ہے ؟
اب جبکہ عصری علوم کے جدید نظام تعلیم نے اسلامی علوم کی آبیاری کرنے والے نصاب تعلیم کو فرسودہ قرار دیے کر تعلیمی اداروں سے رخصت کیا ، تب علماء کو فکرہوئ کہ درس نطامی ایک ایسا اسلامی نصاب تعلیم ہے کہ جسمیں تمام دوسرے علوم کو بشمول عربی زبان کے علوم اسلامیہ کےفہم اور خدمت کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، تو ضروری ہے کہ ایسے اداروں کو قائم کیا جاۓ جن میں درس نطامی کے درس و تدریس اور علوم اسلامیہ کے احیاء و ترویج کا کام عصری علوم کے جدید نظام تعلیم کے مقابلے ميں کیا جاۓ تاکہ نوجوان نسل کو علوم اسلامیہ سے آرائستہ ومزیین کیا جا سکے ، تو نتیجۃ کئ غیر سرکاری تعلیی ادارے معرض وجود ميں لاۓ گے جو کہ دینی مدارس کے نام سے جانے پہچانےجاتے ہیں ۔6
دینی مدارس کا مختصر تعارف
برصغیر پاک و ہند کو باقی اسلامی دنیا پر آج بھی فوقیت حاصل ہے ، اور برصغیر خصوصا سرزمین پاکستان پر دینی مدارس کا وجود آسمان پر جگمگاتے ہوۓ ستاروں کی مانند ہے ۔7
برصغیر پاک و ہند کے اہم دینی مدارس مندرجہ ذیل ہیں ۔ 8
(1) ہندوستان کے اہم دینی مدارس
دارالعلوم دیوبند : جو کہ 1866م میں حضرت علامہ محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالی کی نگرانی میں معرض وجود میں آیا۔
دارالعلوم ندوۃ العلمآء: جو کہ 1993م میں علامۃ شبلی نعمانی رحمہ اللہ تعالی کی نگرانی میں معرض وجود میں آیا۔ 9
مدرسہ معینیۃ عثمانیۃ اجمیر : جو کہ 1909م میں حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمہ اللہ تعالی کے دست مبارک پر معرض وجود میں آیا۔
مدرسہ شمس العلوم بدیوان : جو کہ حضرت مولانا عبد القیوم رحمہ اللہ تعالی کی نگرانی میں معرض وجود میں آیا۔
(2) پاکستان کے اہم دینی وفاقات
اور جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس کے طول و عرض میں ہزاروں عربی واسلامی مدارس وجامعات عربی زبان کی ترویج کے لیے اپنی بیشمار خدمات سرانجام دینے میں ابھی تک مصروف ہیں ، بلکہ اس سے بڑھ کر دستور پاکستان 1973 ء میں شامل نفاذ شریعت ایکٹ 1991 شق نمبر ج میں عربی زبان کی تعلیم اور اسکی اشاعت ریاستی ذمداری قرار دیا گیا ہے ۔10
-
وفاق المدارس العربیۃ (اھل السنۃ والجماعۃ حنفی دیوبندی )
-
تنظیم المدارس العربیۃ (اھل السنۃ والجماعۃ حنفی بریلوی )
-
رابطۃ المدارس الاسلامیۃ (اھل السنۃ والجماعۃ حنفی اور اھل حدیث)
-
جامعۃ اشرفیۃ لاھور: جو کہ 1947 میں حضرت مولانا مفتی محمد حسن رحمہ اللہ تعالی کی نگرانی میں معرض وجود میں آیا۔
-
وفاق المدارس الشیعۃ (شیعۃ اثنا عشریۃ)11
-
وفاق المدارس السلفیۃ (اھل السنۃ والجماعۃ اھل الحدیث )
-
دارالعلوم محمدیۃ غوثیۃ بھیرہ سرگودھا : جو کہ 1953 میں حضرت مولانا جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمہ اللہ تعالی کی مکمل دینی کوششوں سے معرض وجود میں آیا۔
-
ادارہ منھاج القرآن : جو کہ ڈاکٹر محمد طاھر القادری کی دینی کوششوں سے معرض وجود میں آیا۔ 12
یہ سب وہ دینی مدارس ہیں جنہوں نے ایک مخصوص نصاب تعلیم ( درس نطامی ) کے تحت عربی زبان کی نشرو اشاعت کے ليے نمایاں کردار ادا کیا۔
مندرجہ بالا مدارس کا عربی زبان کی تعلیم وتدریس کے لیے تعلیمی نصاب
اب اگر آپ ان مدارس کے اس نصاب کو ملاحظہ فرمایں جو کہ عربی زبان کی تعلیم وتدریس سے متعلق ہے تو آپ بہت اچھی طرح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان میں عربی زبان کی تعلیم وتدریس کے لیے عربی زبان نصاب کس حد تک عربی زبان کے طلباء کے لیے مددگار ثابت ہوسکتا ہے ۔13
-
وفاق المدارس العربیہ (دیوبند) کاعربی زبان کی تعلیم وتدریس کے لیے تعلیمی نصاب
مصنف | علم صرف | مصنف | علم النحو |
---|---|---|---|
محمد بارک اللہ لکھوی | ابواب الصرف | سید شریف جرجانی 816 م | نحو میر |
فخر الدین زرادی 728ھ | زرادی | عبد القاھر جرجانی 474ھ | مائۃ عامل |
عبد الوہاب زنجانی 655ھ | زنجانی | عبد القاھر جرجانی 474ھ | شرح مائۃ عامل |
مفتی عنایت احمد کاکوروی 1279ھ | علم الصیغہ | باخي سراج | ہدایۃ النحو |
حمید الدین کاکوروی 1215ھ | میزان الصرف | ابن حاجب 646 | الکافیہ |
سید علی اکبر الہ آبادی 1090ھ | فصول اکبری | عبد الرحمان جامی 898ھ | الفوائد الضیائیہ |
(2)تنظیم المدارس العربیہ (بریلوی) کاعربی زبان کی تعلیم وتدریس کے لیے تعلیمی نصاب
مصنف | علم صرف | مصنف | علم النحو |
---|---|---|---|
سید علی اکبر الہ آبادی 1090ھ | فصول اکبری | سید شریف جرجانی 816 م | نحو میر |
محمد مصطفی ندوی | تمرین الصرف | عبد القاھر جرجانی 474ھ | شرح مائۃ عامل و مائة عامل |
سید شریف جرجانی 816 م | صرف میر | محمد مصطفی ندوی | تمرین النحو |
مفتی عنایت احمد کاکوروی 1279ھ | علم الصیغہ | باخي سراج | ہدایۃ النحو |
محمد بن مصطفی | میزان الصرف | محمد بهاؤ الدين بن عقيل741هجري | شرح ابن عقیل |
مشتاق احمد جرتھاوی | علم الصرف | علی الجارم و مصطفی امین | النحو الواضح |
ابن هشام الأنصاري 708---هجري | قطرى الندى وبل الصدى | ||
مشتاق احمد جرتھاوی | علم النحو | ||
عبد الرحمان جامی 898ھ | الفوائد الضيائية/ شرح جامي | ||
ابن حاجب 646 م | الكافية |
(3)وفاق المدارس السلفیہ (اھل حدیث) کاعربی زبان کی تعلیم وتدریس کے لیے تعلیمی نصاب
مصنف | علم صرف | مصنف | علم النحو |
---|---|---|---|
محمد بارک اللہ لکھوی | ابواب الصرف | سید شریف جرجانی 816 م | نحو میر |
شرح امثلۃ صرف میر | عبد القاھر جرجانی 474ھ | و مائة عامل | |
سید شریف جرجانی 816 م | صرف میر | باخي سراج | ہدایۃ النحو |
مفتی عنایت احمد کاکوروی 1279ھ | علم الصیغہ | علی الجارم و مصطفی امین | النحو الواضح |
بہاء الدین عاملی 1031ھ | الصرف بهائ | عبد القاھر جرجانی 474ھ | شرح مائۃ عامل |
(4)رابطۃ المدارس الاسلامیۃ (جماعت اسلامی) کاعربی زبان کی تعلیم وتدریس کے لیے تعلیمی نصاب
مصنف | علم صرف | مصنف | علم النحو |
---|---|---|---|
محمد بارک اللہ لکھوی | ابواب الصرف | سید شریف جرجانی 816 م | نحو میر |
محمد مصطفی ندوی | تمرین الصرف | عبد القاھر جرجانی 474ھ | شرح مائۃ عامل |
سید شریف جرجانی 816 م | صرف میر | محمد مصطفی ندوی | تمرین النحو |
مفتی عنایت احمد کاکوروی 1279ھ | علم الصیغہ | باخي سراج | ہدایۃ النحو |
حمید الدین کاکوروی 1215ھ | میزان الصرف | محمد بهاؤ الدين بن عقيل | شرح ابن عقیل |
مشتاق احمد جرتھاوی | علم الصرف | التحفہ السنیۃ | |
مشتاق احمد جرتھاوی | علم النحو |
اب جہاں تک تعلق ہے عربی ادب و انشاء کا تو تقریبا کسی حد تک یہ کتب مناسب ہیں مگر عربی ادب کو سیکھنے کے لیے متخصصین اساتذہ کی اشد ضرورت ہے ۔
عربی ادب کی تعلیم وتدریس کے لیے دینی مدارس کے نصاب کا مختصر جائزہ
اب ان مذکورۃ مدارس میں وہ نصاب ملاحظہ فرماہیں جو کہ عربی ادب کی تعلیم وتدریس سے متعلق ہے 14
بلاغت کی تعلیم وتدریس سے متعلق دینی مدارس کے نصاب کا مختصر جائزہ
اب اسی طرح ان مذکورۃ مدارس میں وہ نصاب ملاحظہ فرماہیں جو کہ عربی بلاغت کی تعلیم وتدریس سے متعلق ہے 15
مصنف | بلاغت | مصنف | بلاغت |
---|---|---|---|
محمد بن عبد الرحمن قزوینی 739ھ | تلخص المفتاح | حضنی بک ناصف | دروس البلاغۃ |
سعد الدین تفتازانی 792ھ | مطول | سعد الدین تفتازانی 792ھ | مختصرالمعانی |
یہ سب وہ کتب ہیں جو کہ دینی مدارس میں عربی گرائمر ، ادب اور بلاغت کی تعلیم وتدریس کے لیے تعلیمی نصاب میں شامل ہیں ۔ چونکہ درس نظامی کا اصل ھدف اسلامی تعلیمات(قرآن و سنت ) تک رسائی اور انکا فہم تھا ، اور عربی کے اس مذکورہ نصاب کا استعمال درس نظامی میں صرف عربی مصادر اور امہات الکتب کی عبارات کو سمجھنے تک محدود تھا ، نہ کہ اس نصاب سے عربی زبان کا متخصص ہونا مقصد تھا ، تو اس ليے دینی مدارس میں عربی زبان کی تعلیم و ترویج کےلیے موجودۃ نصاب میں جہاں مثبت پہلو ہیں وہاں منفی پہلو بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔
(1) مثبت پہلو
جب ہم بات کرتے ہیں عربی زبان کے اس تعلیمی نصاب کی خصوصیات اور مثبت نتائج کی جو کہ درس نظامی کے اندر موجود اور دینی مدارس میں رائج ہے ، تو وہاں پر کئ خصوصیات اور مثبت نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں ، جیسا کہ
(1) عربی عبارات کے پڑھنے اور سمجھنے پر توجہ : چونکہ مدارس دینیہ میں عربی کا اصل مقصد یا ھدف اسلامی علوم ، اور عربی کے مصادر اور امہات الکتب کی عبارات کو سمجھنے تک محدود ہے نہ کہ اس نصاب سے عربی زبان کا متخصص ہونا مقصود ہے ، تو نتیجتا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مدارس دینیہ میں عربی زبان کی تعلیم اسکے پڑھنے اور سمجھنے تک صحیح معنوں میں کی جاتی ہے ۔
(2) صرف و نحو کی آسان کتابوں کے استعمال پر توجہ : اگر ہم اس نصاب کے اندر صرف و نحو کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ نحوی و صرفی قواعد کے لحاظ سے اکثرکتب آسان اور ابتدائ معلومات کی حامل ہیں ۔
(3) مستوی صرفی پر زیادہ توجہ : جب ہم صرف کی بات کرتے ہیں تو یہ ایک حقیقت ہے کہ مدارس میں علم صرف کا اھتمام مکمل اساسی طور پر ابواب الصرف کی گردانیں حفظ کرانے سے شروع ہو کر صرف میر ،تمرین الصرف ،میزان الصرف ،علم الصف ، زرادی ، زنجانی ،مراح الارواح ، علم الصیغہ اور فصول اکبری کے خاصیات ابواب تک صرف کے قوا عد کی تعلیم و تدریس ہوتی ہے ۔
(4) مستوی نحوی و ترکیبی پر توجہ : مستوی نحوی پر مدارس میں مختلف زاویوں سے کام ہوتا ہے اور نحو میں قوا عد اور نحوی تراکیب اور ان ہی قوا عد و تراکیب کو نحو کی متعدد کتابوں کے ذریعے متعدد بار زیر مطالعہ رکھنا جو کہ نحو میر ، تمرین النحو،علم النحو، مائۃ عامل وشرح مائۃ عامل، ہدایۃ النحو ، النحو الواضع، شرح ابن عقیل ، الکافیہ ، قطر الندی وبل الصدی ، الفوائد الضیائیہ (شرح ملا جامی)۔
(5) مختصر اور مغلق عبارتوں کی حامل ایسی کتابیں رکھي گئ ہیں کہ کہ پڑھنے والا جب تک اپنی مکمل فکر و توجہ کے تمام زاویے ان کی طرف نہ موڑ لے ان کتابوں سے استفادہ ممکن نہیں ۔
(6) مشکل عبارات ، دقیق مسائل سمجھنے اور کنایات سے نتائج اخذ کرنے کا ایک خاص ملکہ پیدا کرنا، جو انسان کے اندر اتنی استعداد پیدا کردیتا کہ آگے وہ استاذ کی مدد کے بغیر ذاتی مطالعے سے متعلقہ علوم کی مطولات سمجھ سکے۔
(2) منفی پہلو
مذکورہ خوبيوں کے باوجود اس نصاب کے میں کچھ خامیاں بھی ہیں- 16
(1) اس نصاب کی ایک بڑی خامی یہ بیان کی جاتی ہے کہ ابتدائ چند کتابیں چھوڑ کر باقی تمام علوم کی کئ کتابیں عربی زبان میں ہیں- ان علوم میں صرف ، نحو ، ادب ، انشاء ، اور معانی و بلاغت وہ علوم ہیں جن کا بنیادی مقصد صرف عربی زبان پر عبور اور قدرت حاصل کرنا ہے کہ عربی زبان سے گہری واقفیت کے بغیر اسلامی علوم میں مہارت ممکن نہیں ، لیکنن مشاہدہ یہ ہے کہ درس نظامی کے عام فضلاء کی اکثریت عربی زبان پر مکمل قدرت نہیں رکھتی ، بلکہ یہ فضلاء صحیح عربی بول سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں۔17
(2) طریقہ قواعد و ترجمہ پر اکتفا : طریقۃ قواعد وترجمۃ یہ سب سے قدیم یونانی طریقہ تدریس ھے ، اس طریقہ کی خدمات اور اہمیت کا انکار تو کسی صورت بھی ممکن نہیں، مگر جہاں تک بات رہی کسی بھی زبان کو سیکھنے کی تو وہاں اور طرق تدریس بہی اپنا کام احسن انداز سے سرانجام دے سکتے ہیں۔ لیکن جہاں تک بات ہے طریقۃ قواعد وترجمۃ کی تو یہ خاص طور پہر دینی مدارس میں تو بالکل کامیاب نہیں ہوسکتا ، اور کیونکر ہوگا جہاں طالبعلم کی زبان اوردو ھو ،معلم کی زبان پشتو ھو، قواعد تو عربی صرف و نحو کے ھوں مگر کتاب کی زبان فارسی ھو، تو ضروری ہے کہ طریقۃ قواعد وترجمۃ کے ساتھ اور طرق کو یقینی بنایا جاۓ۔
(3) متخصصین اساتذہ کی عدم موجودگی : جہاں تک تعلق ہے متخصصین اساتذہ کی عدم موجودگی کا تو اسمیں کوئ شک نہیں کہ متخصصین اساتذہ کی موجودگی کا دینی مدارس میں فقدان ہے ، کیونکہ ان مدارس میں اکثر اوقات ابتدائی درجوں کو پڑھانے والے نۓ فضلاء درس نظامی ہوتے ہیں ، جن کا تجربہ بالکل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ، تو اسکا مطلب یہ ہوا صرف و نحو اور ادب کی کتابوں کو پڑھانے والے نۓ فضلاء درس نظامی ہوتے ہیں، کیونکہ صرف و نحو اور ادب کی کتابوں کو ہی ابتدائی درجوں میں پڑھایا جاتا ہے ۔
(4) عربی ادب سے بے اعتنائی : کسی بھی اجنبی زبان کو سیکھنے کے لیے اس زبان کے ادب کو سیکھنا بیحد ضروری سمجھا جاتاہے تاکہ ان اھل زبان کی عادات رھن سہن اور علاوہ ازیں معلومات بھی میسر ہوں اوراھل زبان کی ان اسالیب اور رموز سے واقفیت حاصل ہو جو کہ وہ مختلف مقامات پر استعمال میں لاتے ہیں ۔
مگر یہ بات حقیقت ہے کہ ہمارے دینی مدارس میں عربی ادب کی جو کتب پڑھائ جاتی ہیں ، ایسے ہی ہے کہ اس پڑھانے سے نہ پڑھانا بہتر تھا ، کیونکہ جب آپ ایک فن پڑھا رہے ہوں اور طالب علم کو اس فن کا معنی و تعریف اور اغراض مقاصد کا علم تک نہ ہو تو مطلب یہ ہوا کہ اس نے یہ فن پڑھا ہی نہیں ، تو کچھ ایسا ہی حال ہے ہمارے دینی مدارس کے فضلاء کا کہ وہ عربی ادب سے ناواقف ہوتے ہیں ، حتی کہ جب وہ سبع المعلقات دیوان حماسہ اور دیوان متنبی جیسی ادبی کتب پڑھتے ہیں تو وہ خود اس تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں کہ یہ ہم کیوں پڑھ رہے ہیں ، اور اسکا اصل مقصد کیا ہے ۔
(5) عربی نقد سے غفلت : اب جبکہ نقد کسی بہی ادب کے صحیح اور غلط ، مضبوط اور کمزور ادبی پہلوؤں کے درمیان فرق اور کسی بھی ادب کو پرکھنے کے لیے ایک میزان ، معیار بلکہ مکمل فن کی حثیت اختیار کرچکا ہے ، مگر ہمارے مدارس کے فضلاء بالکل اس سے ناواقف ہیں ، بلکہ النقد الادبی تو مدارس دینیہ کے عربی نصاب تعلیم ہی میں نہیں ۔
(6) ڈکشنری اور معاجم کے استعمال کے بارے ميں طلبہ کو آگاہی کا فقدان : اب اگر آپ اندازہ لگایں کہ کیا کسی بھی اجنبی زبان حتی کہ اپنی مادری زبان بھی کے لیے بھی کئ مقامات پر ڈکشنری/ لغت کی اشد ضرورت پڑھتی ہے جس کے بغیر مشکل الفاظ کے معانی اور پر انکی تحدید میں ہزاروں مشکلات درپیش ہوتیں ہیں ، مگر بدقسمتی سے مدارس دینیہ کے طلباء و فضلاء معاجم کے طریقہ استعمال اور معاجم کی اقسام حتی کہ عام فھم لغات وقوامیس سے بھی ناواقف ہوتے ہیں ، کیونکہ اساتذہ کی طرف سے انکو ان معاجم کے استعمال کی اگاہی ہی نہیں ملی ہوتی ، اور نہ ہی اساتذہ اتنی زحمت کرتے ہیں کہ طلباء سے مختلف معاجم میں مشکل الفاظ اور انکے مادہ اصلیہ کو تلاش کروایں۔
(7) عربی زبان کو سیکھنے کے لیے غیر عرب مصنفین کی لکھی ہوئ کتابوں اور مواد پر اعتماد : ہمارے دینی مدارس میں عربی زبان کی تعلیم کیلیے ایک بڑی رکاوٹ عربی زبان کو سیکھنے کے لیے غیر عرب مصنفین کی لکھی ہوئ کتابوں اور مواد پر اعتماد ہے، یہ ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہے کہ جس سے انکار کسی صورت ممکن نہیں، اور اس سے طلباء پر اضافی بوجھ پڑتا ہے ، مثلا صرف کی اکثر جب کہ نحو کی کچھ کتابیں بھی فارسی زبان میں ابھی تک رائج نصاب ہیں ،اب جبکہ فارسی ہماری زبان ہی نہ رہي ، تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ ہم عربی زبان اور اسکے قواعد سیکھنے والے طلباء کو ایک ہی وقت میں کئ مشکل مراحل میں ڈال دیتے ہیں ، اسطرح تو طلباء پہلے فارسی سمجھتے ہیں ،جو کہ ایک اجنبی زبان ہے ، پھر عربی صرف و نحو کو سمجھتے ہیں ، اور پھر ان قواعد کی تطبیق کرتے ہیں ، تو اسطرح دینی مدارس میں عربی زبان کی تعلیم کیلیے فارسی سیکھنا بھی ایک بڑا مسلہ ہے ، اسی لیے مولانا آزاد رحمہ اللہ خود جو کہ کئ فضلاء کے استاذ ہیں، وہ اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں " کہ صرف و نحو کی جو تعلیم ہمارے مدارس میں دي جارہی ہے وہ بالکل صحیح نہیں ہے ، اور جو کام تھوڑے وقت میں کیا جانا چاہیے وہ کام ہم ایک طویل عرصے میں کررہے ہیں اوربہتر نتیجہ نکل نہیں رہا۔
سب سے پہلی بات جو میں آپ کو یاد دلاؤں گا وہ یہ کہ صرف و نحو (گرائمر) ایک بنیادی چیز ہے جس کے بغیر ہم عربی زبان کو سیکھ نہیں سکتے ، مگر جس چیز کو آپ ڈھونڈنے نکلے ہو وہ عربی و اسلامی علوم و فنون ہیں نہ کہ صرف عربی گرام ۔
دوسری بات نہ عربی ہماری مادری زبان ہے اور نہ ہی فارسی ہماری مادری زبان ہے ۔ ہمارا پرانا طریقہ یہ تھا کہ عربی صرف و نحو ، میزان اور منشعب سے شروع ہوتی تھی اور صرف میر نحو میر پڑھائ جاتی تھی، یہ کتابیں جس زمانے کے لیے لکھی گئ تھیں اس زمانے کے لیے بالکل صحیح تھیں ، کیونکہ اسوقت ہندوستان کی زبان عام طور پر فارسی ہی تھی ،لیکن اب جبکہ ہندوستان میں فارسی ایک اجنبی زبان ہے ۔
آپ میزان ومنشعب اور صرف میر نحو میر سے بچے کو عربی شروع کراتے ہیں ، اور ایک ہی وقت میں آپ اس پر تین بوجھ ڈالتے ہیں ۔ پہلا بوجھ یہ کہ فارسی کو سمجھے جو اس کے لیے بالکل بیگانا زبان ہے ۔ دوسرا یہ ہے کہ ان کتابوں کو حل کرے جو فن تعلیم کے لحاظ سے سہل اور آسان ڈھنگ پر نہیں لکھی گئ ہیں۔ تیسرا بوجھ عربی کے نحوی و صرفی قواعد کو سمجھنے کا ہے ۔
اسطرح اس کی ساری دماغی قوت تین خانوں میں بٹ جاتی ہے ،فارسی کا سمجھنا ،عبارت کا حل کرنا اور عربی قواعد کو سمجھنا۔ اگر آپ ایسا طریقہ اختیار کرتے جس سے اسکا دماغ ایک ہی چیز میں صرف ہو یعنی صرف گرامر (صرف و نحو) کو حاصل کرنا تو کیا وہ عربی زبان کی گرامر (صرف و نحو) کو زیادۃ مضبوطی کے ساتھ اپنے دماغ میں جگہ نہ دیتا ؟ " 18
(8) عربی زبان کی کتابت ، سماعت اور تکلم کا مکمل فقدان : یہ بات بھی واضح ہونی چاہیے کہ دینی مدارس میں عربی زبان میں تکلم ، تحریری صلاحیت اور استماع (عربی کو سننے ) پر کسی قسم کی کوئ کوشش دیکھنے کو نہیں ملی ،اور نہ ہی یہ انکے نصاب تعلیم میں شامل ہے، تو اسکا مطلب یہ ھوا کہ دینی مدارس میں عربی زبان کی تعلیم فقط عربی کو پڑھ کر سمجھنے تک محدود ہے ، جبکہ کسی بہی زبان پر مہارت حاصل کرنے کے لیے صرف اس کو سمجھنے اور پڑھنے تک محدود نہیں کیا جا سکتا ، بلکہ مہارات اربعہ کا مکمل ادراک ہی کسی زبان میں متخصص ہونے کی دلیل ہو سکتا ہے ۔
(9)عربی زبان کے لیے 8--10 سال کا ایک طویل عرصہ :درس نظامی کا یہ اتنا طویل عرصہ جو کہ 8--10 سال پر مشتمل ہوتا ہے اس سے عربی زبان کا طالب علم ضرور متاثر ہوتا ہے کیونکہ اتنا طویل عرصہ عربی کتب کی ورق گردانی کرنے والاطالبعلم اگر 8--10 سال کے بعد بھی عربی پر ہر لحاظ سے مکمل مہارت نہ رکھے تو یہ وقت کے ضیاع کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ اسلیے مناسب ہوگا کہ عربی زبان کی تعلیم کے لیے ایک مناسب وقت کا تعین کیا جاے تاکہ طلباء عربی زبان بھی سیکھ جاہیں اور ایک مناسب وقت میں سیکھ جاہیں ۔
(10) عربی زبان کو ایک مستقل زبان کے طور پر سیکھنے کا فقدان : دینی مدارس میں عربی زبان کی تعلیم میں ایک بڑی رکاوٹ یہ بھی ہے کہ مدارس میں عربی کو ایک مکمل زبان کے طور پر نہیں سیکھایا جاتا ، اورنہ ہی یہ چیز ان مدارس کے نصاب میں شامل ہے ، ان کے ہاں عربی سیکھنا اور سیکھانا چند قواعد نحویہ اور صیغ صرفیۃ کا نام ہے ،عربی زبان کو سیکھنے کے لیے اسکے تمام مستویات پر مہارت ضروری ہے ، کسی بھی زبان کو سکھنے کے لیے اسکی گرامر صرف 30 ٪ کردار ادا کرسکتی ہے ، اور باقی 70٪ حصہ آپ اس زبان کے دوسرے علوم فنون اور مستویات سے مکمل کرسکتے ہیں ،مگر مدارس صرف 30 ٪ گرامر پر زور تو دیتے ہیں لیکن باقی 70٪ کو یا تو بھول جاتے ہیں ، یا پھر جان بوجھ کر اس کو اہمیت ہی نہیں دیتے ۔الغرض عربی زبان کی تعلیم مدارس میں صرف 30 ٪ صرف و نحو پر مشتمل ہے ، لحاظہ دینی مدارس وفاقات کے معزز صدور اور منتظمین حضرات کو عربی زبان کے تعلیمی نصاب پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے ، جس کے بغیر کوی چارہ نہیں ۔
(3) خلاصۃ
تجاویز و سفارشات
اور آخر میں خلاصہ کے طور پر چند تجاویز زیر غور ہوں ، جوکہ مندجہ ذیل ہیں :
1= جدید نصاب کی تصمیم جو کہ عربی زبان کو سیکھنے میں مکمل معاون ثابت ھو اور اس سلسلے میں میری ناقص راۓ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر تمام وہ سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی ادارے جو کہ عربی زبان کی تعلیم دیتے ہیں ایک ایسا جامع نصاب متعارف کروایں جوکہ تمام اداروں کا منظور نظر ہو ۔
2= جدید مناھج کو شامل نصاب کیا جاۓ : اگر ہم بات کریں مناھج تعلیمیہ کی تو اس میں کوی شک نہیں کہ وہ تمام مناھج جدیدہ جوکہ دوسری (اجنبی ) زبانیں سیکھنے اور سیکھانے کے لیے مددگار ثابت ہوسکتے ہوں ان کو داخل نصاب ہونا چاہیے، جیسا کہ منھج تحلیل التقابلی ، منھج تحلیل الاخطاء اورمنھج جان تشومسکی اور علاوہ ازیں 19۔
3= طریقہ قواعد و ترجمہ کے ساتھ طریقہ مباشرہ یا اور طرق کا استعمال یقینی بنایا جاۓ ،کیونکہ یہ بات تسلیم کی جاچکی ہے کہ صرف طریقہ قواعد و ترجمہ دوسری (اجنبی ) زبانیں سیکھنے اور سیکھانے کے لیے ہی کافی نہیں بلکہ اس مقصد کے لیے تمام وہ طرق زیر استعمال لاۓ جاہیں جو کہ دوسری (اجنبی ) زبانیں سیکھنے اور سیکھانے کے لیے مددگار ثابت ہوسکتے ہوں ، جیسا کہ طریقہ مباشرہ (Direct Method) ، طریقہ تواصلیہ اور خاص طور پر طریقہ سمعیہ بصریہ ۔20
4= عربی زبان کو سیکھنے کے لیے عربی مواد ہی کو استعمال جائے۔ 21
عربی زبان کی تعلیم ميں صرفی ، نحوی ،صوتی اور معجمی تمام مستویات کا اھتمام کیا جائے۔
5= عربی زبان کی سماعت اور اسکے تکلم پر زیادہ زور دیا جاۓ ، اور اس مقصد کے لیے آڈیو ویڈیو سیڈیزسمت جدید آلات سے استفادہ یقینی بنایا جاۓ۔
6= طلباء کوادبی اور نثری مواد اسطرح پڑھایا جاۓ تاکہ وہ الفاظ کے کثرت سے مزین ہمکنار ھوسکيں
7= متخصصین اساتذہ کی موجودگی یقینی بنائی جائے ، یا پھر موجودہ اساتذہ کو ٹرینگ دی جاۓ تاکہ وہ جدید طرق تدریس اور جدید تعلیمی مناھج پر مکمل مہارت رکھتے ہوۓ مدارس میں عربی زبان کی نشرو اشاعت اور تعلیم و تدریس میں اپنا کردار ادا کر سکیں، اور اس ضمن ميں کلیۃ اللغۃ العربیۃ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے متبخر اساتذہ سے استفادہ کرکے موازنہ کریں کہ مدارس میں انکا عربی پڑھانے کا انداز اور کلیۃ اللغۃ العربیۃ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے متبخر اساتذہ کا عربی پڑھانے کا انداز کتنا مختلف ہے ؟
8= طلباء سے عربی زبان کے تحقیقی مقالہ جات لکھواۓ جاہیں
9= طلباء کوعربی زبان کے اصل مصادر و مراجع سے مکمل اگاہ کیا جاۓ تاکہ وہ تحقیقی مقالہ جات میں اضافی مطالعہ کے عادي ھوں
10= ان مدارس دینیہ کو مختلف سطح پر دوسرے اداروں سے بھی تعلیمی وعملی تجربات تبادلہ کرنا چاہیے ۔
11= عربی زبان وعربی ادب کے متعلق مختلف سطح پر مقابلوں،سیمیناروں کے اہتمام کو فروغ دیا جاۓ۔
12= طلباء و معلمین کے درمیان فاصلوں کو کم کیا جاۓ ، اور طلبہ کی اجتہادی اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دیا جاۓ ۔
13= طریقہ القائیہ کا استعمال کم کیا جاۓ ، جبکہ اساتذہ و طلباء کے درمیان درس مکالمہ کی سی صورت اختیارکرے۔
14= صرف و نحو کے بنیادی موضوعات کو اسطرح پڑھادیا جاۓ تاکہ بار بار طلباء و معلمین اپنا وقت اور تمام کوششیں ان موضوعات پر صرف نہ کریں۔
15 = طلباء کے اذھان سے خوف و ہراس کے بادلوں کو ختم کرکے محبت و پیار اور شفقت کے پہلوؤں کو اجاگر کیا جاے ، تاکہ طلباء اپنے ما فی الضمیر کا صحیح طرح اظہار کرسکیں ۔
16= کسی بھی کتاب کو پڑھانے سے پہلے اس کتاب کے مصنف ، شراح ،محشی کا مکمل تعارف اور اس کتاب کا مختصر تعارف ابواب ، فصول ، مباحث ، مطالب ، اور کتاب کی خصوصیات اور اگر کسی نے اس کتاب کے اوپر تنقیدی نظریہ پیش کیا ہو تو ان تمام معلومات عامۃ سے طلباء کو مکمل اگاہی ضروری ہے ۔
17= اصول النحو کو شامل نصاب کیاجاے تاکہ طلباء اس مضمون سے مکمل مستفید ہوسکیں۔
18= النحو المقارن کے مضمون کو متعارف کیاجاۓ اور اس قصد کے لیے نحاۃ کے مسائل متفقہ و ممختلفہ کو اور ایسی کتابوں کوشامل نصاب کیا جاے جو کہ النحاۃ کےاختلافات کو بیان کریں۔
19= عربی زبان کو مکمل ایک زبان کی حثیت سے پڑھنےکے لیے فقہ اللغہ کی تعلیم کواجاگر کیاجاے کونکہ صرف علم اللغۃ کی تعلیم کافی نہیں ہے۔
حواشی و حوالہ جات
-
Assistant Professor, Department of Arabic University of Haripur Email: iiuifaisal@gmail.com↩
-
Lecturer, University of Mirpur Azad Kashmir ↩
-
اختر راہی، تذکرۃ مصنفین درس نظامی ، مکتبہ رحمانیہ، ص 18-19۔↩
-
ایضا، ص 19-25↩
-
ابن الحسن عباسی، دینی مدارس، مکتبہ عمر فاروق شاہ فیصل کالونی کراچی، ص 17۔↩
-
خالد الرحمن ، دینی مدارس میں تبدیلی رجحانات، ص 14↩
-
مظہر معین، الدکتور، عصر جدید میں عربی زبان، الفیصل ناشران اردو بازار لاہور، ص139۔↩
-
الازہری، الدکتور ثناء اللہ، أثر اللغة العربية في ثقافة المسلمين في شبه القارة الهندية،ص201۔↩
-
سفیر اختر ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی حیات و افکار کے چند پہلو، ادارہ تحقیقات اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی،اسلام آباد، ص 232۔↩
-
مظہر معین، عصر جدید میں عربی زبان، ص 141۔↩
-
وفاق المدارس الشیعۃ (شیعۃ اثنا عشریۃ ) ، وفاق المدارس السلفیۃ (اھل السنۃ والجماعۃ اھل الحدیث ) ، دارالعلوم محمدیۃ غوثیۃ بھیرہ سرگودھا اور ادارہ منھاج القرآن ، یہ چاروں وفاقات اگرچہ درس نطامی کا تعلیمی نصاب نہیں پڑھاتے مگر عربی زبان کی تعلیم و تدریس کے لیے ان وفاقات کا نصاب بھی درس نظامی کے عربی زبان کی تعلیم و تدریس کی کتب سے جدا نہیں ہیں۔↩
-
مظہر معین، پاکستان میں عربی زبان ، ص 77۔↩
-
سیف الاسلام ، تعلیم اللغتہ العربیہ فی المدارس الباکستانیہ، ص 96۔↩
-
ابن الحسن عباسی، دینی مدارس، مکتبہ عمر فاروق شاہ فیصل کالونی کراچی، ص 87۔↩
-
ایضا، ص 88↩
-
محمد بشیر سیالکوٹی، درس نظامی کی اصلاح اور ترقی، دار العلم ، آب پارہ مارکیٹ اسلام آباد، ص 297۔↩
-
ابن الحسن عباسی۔ دینی مدارس، ص 77۔↩
-
محمد بشیر سیالکوٹی، خطبات آزاد، درس نظامی کی اصلاح اور ترقی، دارالعلم آب پارہ مارکیٹ اسلام آباد، ص 297۔↩
-
نائف خرما، علی حجاج، اللغات الأجنبية تعليمها وتعلمها،الناشر عالم المعرفۃ ، ص 44۔↩
-
حمادۃ ابراہیم ، الاتجاھات المنظمۃ الا المعاصرۃ فی تدریس اللغۃ العربیۃ، دارالفكر العربي 1987 الطبعة الأولى، ص 468۔↩
-
یا پھر مولانا آزاد کے دیے ہوۓ فارمولے کو ہی اپنایا جاے ، جس میں وہ مدارس دینیہ کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ " صرف و نحو اور دیگر علوم فنون کی ابتدائ کتب اوردو زبان میں ہونی چاہیے ، تاکہ بیک وقت حل زبان ، حل عبارت ار حل موضوع کا بوجھ طالب علم پر نہ پڑے۔↩
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |