Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Mīthāq > Volume 1 Issue 2 of Al-Mīthāq

ظاہری و باطنی صفائی اور مسلم معاشرے کاتعامل سيرت طيبہ کی روشنی ميں |
Al-Mīthāq
Al-Mīthāq

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2022

ARI Id

1682060075860_3010

Pages

28-37

PDF URL

https://ojs.almithaqjournal.com/index.php/Main/article/download/14/9

Chapter URL

https://ojs.almithaqjournal.com/index.php/Main/article/view/14

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

ظاہری و باطنی صفائی اور مسلم معاشرے کاتعامل سيرت طيبہﷺ کی روشنی ميں

اسلام ايک مکمل ضابطہ حيات اور دين فطرت ہے ۔ اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو قرآن پاک کے ذريعے ہدايت ورہنمائ عطا فرما‏‏ئی ہے۔يہ رہنمائ ايمان کی صورت ميں قلب کی صفائ وطہارت کا ذريعہ ہے۔ايمان کا ايک جزو يہ بھی ہے کہ انسان روح کی صفائ ملحوظ رکھے۔ روح کی صفائ و طہارت يہ ہے کہ اس کو کفر وشرک اور گناہ وگمراہی کی نجاست سے پاک رکھا جائے۔ اللہ تعالی نے اسی فکری نجاست کو قرآن مجيد ميں يوں بيان کيا ہے:

انما المشرکون نجس( 1)

ترجمہ :" يقينا مشرکين ناپاک ہيں"۔

جسم کی صفائی و طہارت يہ ہے کہ ظاہری ناپاکيوں سے اسے دور رکھا جاۓ۔لہذا طہارت کے لغوی معنی" حدث يا نجاست و کثافت سے پاک و صاف ہونے" کے ہيں۔ظاہری و باطنی صفائی کو شريعت ميں طہارت کہا گيا ہے۔

لغت ميں طہارت کے معنی" پاکی و صفائی " کے ہيں اور شريعت ميں نجاست حکمی يا حقيقی سے پاکی حاصل کرنے کو طہارت کہتے ہيں۔ قرآن پاک ميں ارشاد ہوتا ہے :

" و يحب المتطھرين"( 2)

ترجمہ:"پاک صاف رہنے والوں کو خدا پسند فرماتا ہے۔"

مسلم معاشرے ميں ظاہری و باطنی صفائی ہی اصلی اخلاقی اقدار کے ليۓ تعامل ہے۔لہذا فاسد خيالات ، غلط افکار اور نجس اعمال مثلا جھوٹ ،غيبت،حسد،بغض،بہتان،چغل خوری ، رياکاری ، خود غرضی، سود ، رشوت، سفارش ، جوا، سٹہ،لاٹری، بے ايمانی، دھوکہ اور فريب جيسی تمام روحانی بيماريوں سے بچنے اور طہارت و صفائی کا حکم ہے۔

ارشاد پاک ہے: ولکن يريد ليطھرکم (3)

ترجمہ:"اور ليکن چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے۔"

اللہ تعالی خود پاک ہے اس لئے پاکی کو پسند کرتا ہے۔ قرآن مجيد کی ايک تعليم يہ بھی ہے کہ ہر قسم کی نجاست و گندگی سے اپنے آپ کو پاک و صاف رکھا جائے۔سورۃ مدثر ميں آپ ﷺکو مخاطب کر کے ارشاد فرمايا گيا ہے:

"والرجزفاھجر" (4)

ترجمہ:" اور ہر طرح کی گندگی و ميل کچيل سے دور رہو۔"

سورۃ توبہ ميں ايک خاص طبقے کی صفائی پسندی اور اس کے خاص اہتمام کا ذکر کيا گيا ہے:

واللہ يحب المطھرين(5)

ترجمہ:"اور اللہ تعالی ان لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو خوب پاک صاف رہتے ہيں۔"

پھر سورۃ بقرۃ ميں ايسے ہی لوگوں کے بارے ميں ارشاد فرمايا ہے:

ان اللہ يحب التوابين ويحب المتطھرين(6)

ترجمہ: "اور اللہ تعالی محبت رکھتا ہے توبہ کرنے والوں سے اور پاک صاف رہنے والے بندوں سے۔ "

طہارت کی اسی اہميت کے پيش نظر عام طور پر فقہا اور محدثين حديث وفقہ کی کتابيں لکھتے ہوۓ طہارت و پاکيزگی کو ملحوظ نظر رکھتے۔

"لغت ميں طہارت بضم الطاء اس پانی کا نام ہے جس سے پاکی حاصل کی جا‎ۓ اور بکسر الطاء آلہ نظافت کا نام ہے اور بفتح الطاء مصدر ہے۔ نظافت کے معنی ميں اور شريعت ميں طہارت حد ث يا خبث (جنابت) سے پاک ہونے کو کہتے ہيں اور بعض علماء نے کہا ہے کہ طہارت اعضائےثلاثہ کو دھونے اور سر کا مسح کرنے کا نام ہے۔"(7)

''طہارت کا لغوی معنی ہے نظافت اور طہارۃ کا شرعی معنی ہے مخصوص اعضاء کو دھونااور اس کا عکس (متضاد) "( حدث) ہے نيز طہارت کا ايک شرعی معنی رفع حدث اور ازالہ نجس بھی ہے۔اس کو " دباغ " کہتے ہيں اور" تيمم " طہارت ہے ، اور طہارت کا ايک معنی يہ بھی ہے کہ مطہر ( پاک کر دينے والی چيز ) کا ايسے محل ميں پہنچنا جس کی تطہير واجب ہو يا مندوب ہو۔

مطہر( پاک کر دينے والی چيز ) کسے کہتے ہيں ؟ مطہر پانی ہے جب وہ موجود ہو ، اور اس کی عدم موجودگی ميں پاک مٹی مطہر ہے ، طہارت کی دو قسميں ہيں (ا) حقيقی : جيسے پانی سے طہارت حاصل کرنا ۔ (ب) : حکمی : جيسے تيمم ۔ پھر طہارت بالماء کی دو قسميں ہيں ۔ خفيفہ : جيسے وضو ، غليظہ : جيسے غسل جنابت، حيض و نفاس کا غسل ۔"(8)

محقق منہاج الدين مينائ نے طہارت کو يوں بيان کيا ہے :

" طہارت کے لغوی معنی نجاست و کثافت سے پاک ہونے کے ہيں خواہ ظاہری ہو يا باطنی ۔حضرت ابن عباس سے روايت ہے کہ آپ ﷺ جب مريض کی مزاج پرسی کو جاتے تو فرماتے لا باس طھوران شاءاللہ ترجمہ: کوئ بات نہيں بيماری انشاءاللہ گناہوں سے پاک کرنے والی ہوگی۔ يہاں طہور کے معنی ہيں گناہوں سے پاک کرنے والا ۔ گناہ باطنی نجاست ہے ۔طہارت ضد ہے نجاست کی ۔ نجاست کے معنی گندگی کے ہيں خواہ ظاہری ہو يا باطنی ہو۔"(9)طہارت کی ضد نجاست ہے ، طہارت حدث يا خبث سے پاک ہونا ہے۔

شريعت کی اصطلاح ميں طہارت کی تعريف حدث يا خبث سے پاک ہونا ہے يعنی گندگی نظر آرہی ہو اسے پانی سے دھو کر پاک کر ليا جاۓ يا نظر نہ آرہی ہو مثلا رياح کا خارج ہونا يا جسم سے خون نکل آنا تو حدث اصغر کہلاتا ہے جو وضو کرنے سے يعنی ہاتھ پير اور منہ دھو لينے اور سر پر مسح کر لينے سے پاک ہو جاتا ہے ۔ منصب رسالت پر فائز کرنے کے بعد اللہ تعالی نے آپ صل اللہ عليہ وسلم کو وحی کے ذريعے درس توحيد کے بعد سب سے پہلی حو ہدايت د ی تھی وہ طہارت کا اہتمام کرنے کی تھی۔ اس ميں جسمانی ، قلبی اور روحانی ہر طرح کی طہارت شامل ہے ۔ قلب اور روح کی گندگيوں سےمراد کفر و شرک کے باطل عقائد و خيالات اور اخلاقی برائياں ہيں اور جسم اور لباس کی گندگی سے مراد محسوس نجاستيں ہيں جن سے ہر طبع سليم کراہت محسوس کرتی ہے ، جن پر شريعت نے نجس ہونے کا حکم صادر کيا ہے۔اسی لئےلباس کی پاکيزگی کا شريعت ميں حکم ديا گيا ہے۔

جس طرح جسمانی صفائی لازم ہے اسی طرح معاملات ميں صفائی و پاکيزگی اور پاکيزہ و حلال روزی کی بھی قرآن مجيد نے تاکيد کی ہے۔يعنی مسلمان اپنے لين دين کے معاملات ميں بھی پاک باز ہوں اور اپنی روزی پاک اور جائز و حلال ذرائع سے حاصل کريں۔سورۃ بقرۃ ميں ارشاد ہوتا ہے:

ولا تاکلو اموالکم بينکم بالباطل(10)

ترجمہ:" اور تم ايک دوسرے کا مال آپس ميں ناحق اور نا روا طريقے سے نہ کھاؤ۔"

پھر ارشاد ہوتا ہے:" اور کھانے کو تمھيں پاکيزہ چيزيں ديں تو کيا بے اصل چيزوں پر اعتقاد رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہيں۔"(11)

ايک اور جگہ ارشاد ہے :

" اے لوگو تم وہ چيزيں جو زمين ميں تمہارے ليۓ حلال اور پاک ہيں کماؤ اور برتو اور شيطان کے قدموں پر مت چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔(12)

ايک اور مقام پر فرمايا : ترجمہ:" اے مومنو کھاؤ پاکيزہ چيزيں جو ہم نے تم کو دی ہيں اور تم اللہ کا شکر ادا کرو اور تم اللہ ہی کی بندگی اور عبادت کرتے رہو۔"(13)

پھر ارشاد فرمايا :" اور اس ميں سے کھايا کرو جو اللہ نے تم کو حلال اور پاکيزہ رزق عطا فرمايا اور اللہ ہی سے ڈرتے رہو ۔"(14)

پھر فرمايا:

"آج حلال چيزيں تمہارے ليئے حلال کی گئ ہيں۔"(15)

"مومنو ! تم ان پاک چيزوں کو حرام نہ کرو جو اللہ نے تمہارے ليئے حلال کی ہيں اور حد سے آگے نہ بڑھو کہ اللہ حد سے آگے بڑھنے والوں کو دوست نہيں رکھتا۔"(16)

يا ايھا الذين امنوا لا تاکلو ا اموالکم بينکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ نحن تراض منکم"(17)

ترجمہ:"اے ايمان والو! تم ايک دوسرے کے مال آّپس ميں ناجائز طريقوں سے ہضم نہ کرو، ہاں اس ميں حرج نہيں کہ باہمی رضامندی سے تمہارے درميان جائز لين دين ہو۔"ان ايات ميں ناپاک اور ناجائز کمائ کی ممانعت کی گئ ہے مثلا سود، رشوت، جوا،سٹہ،لاٹری ،دھوکہ، فريب کی تجارت کے تمام طريقے ان آيات کی روشنی ميں ممنوع و حرام قرار ديئے گئے ہيں۔اس کے علاوہ کما‏ئ اور کھانے پينے کے سلسلے ميں شراب و جوا وہ ناپاکياں ہيں جو عربوں کی زندگی کا لازم جزو تھيں۔

ان آيات کی روشنی ميں يہ بات واضح ہے کہ سب سے اہم باطن کی صفائی و طہارت ہے ۔ طہارت صرف يہ نہيں کہ انسان اپنے ظاہر کو پانی بہا کر صاف کر لے اور باطنی نجاستوں سے آلودہ و پراگندہ رہے ، اس لیئے طہارت کے درجے قائم ہوئے ہيں۔طہارت کے بنیادی طور پر چار درجے ہيں ۔

پہلا درجہ: بدن کی ظاہری نجاست کو دور کرنا يعنی ظاہری گندگيوں سے دور رہنا۔

دوسرا درجہ: جسمانی اعضاء کو گناہوں اور خطاؤں سے پاک رکھنا۔

تيسرا درجہ: دل يعنی قلب کو اخلاق رزيلہ اور عادات خبيثہ سے پاک رکھنا۔

چوتھا درجہ: باطن يعنی قلب کو اللہ تعالی کے علاوہ ہر چيز سے پاک رکھنا ۔ يہ درجہ طہارت انبياء اور صديقين کے ليئے مخصوص ہے۔ان ميں سے ہر درجہ نصف عمل ہے اگر پورے عمل کو ايمان قرار ديا جائے توہر درجہ نصف ايمان قرار پائے گا۔ چھوتے درجے کا اصل مقصد يہ ہے کہ اس کے سامنے اللہ تعالی کی جلالت اور عظمت منکشف ہو جائے گی اور اسے اللہ تعالی کی معرفت نصيب ہو جائے گی ليکن اللہ تعالی کی معرفت اس و‍قت باطن ميں حلول نہيں کرتی جب تک کہ دل سے اللہ تعالی کے سوا سب چيزيں خارج نہ ہو جائيں۔ارشاد ہوتا ہے کہ:

ترجمہ:" اور يقين رکھو کہ اللہ خوب جانتا ہے جو تمہارے دلوں ميں ہے اس سے بچتے رہو اور يہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تو ہے ہی بڑا بخشنے والا اور رحم والا۔"(18)

دل ميں اللہ کی محبت اور اس کی ياد کے سوا کسی چيز کا داخل نہ ہونا ہی اصل ايمان ہے اور پاک اور صاف قلب يعنی قلب سليم ميں ہی اللہ تعالی کی ذات موجود ہوتی ہے۔ ايسے ہی شخص کے بارے ميں اللہ تعالی نے فرمايا ہے کہ

ترجمہ:"مگر جو شخص اللہ کے پاس پاک دل لے کر آيا ہو (وہ بچ جائے گا) ۔"(19)

اللہ تعالی کو پاک و صاف دل والے لوگ ہی پسند ہيں کيونکہ ايک ہی دل ميں اللہ تعالی اور اللہ کے علاوہ دوسری چيزين اکھٹی نہيں ہو سکتيں ، اللہ نے نہ ہی انسان کے سينے ميں دو دل بنائے کہ ايک دل میں معرفت الہی و محبت الہی ہو اور دوسرے ميں غير اللہ ہو۔ ايک مومن کے دل ميں يہ دونوں چيزيں نہيں رہ سکتيں۔

اول: قلب و دل کو غير اللہ يعنی شرک سے پاک کرنا۔

دوم: دل ميں معرفت الہی پيدا ہونا۔

يعنی باطن کا پاک کرنا نصف اور نصف دل ميں معرفت الہی کا آنا ہے ۔جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

" اللہ کی ذات پاک ہے اور بالاتر ہے لوگوں کے شرک سے۔" (20)

اسی طرح تيسرے درجے ميں دل اخلاق محمودہ اور عقائد شرعيہ سے معمور ہو ليکن يہ اسی صورت ممکن ہے جب دل اخلاق رزيلہ اور عقائد فاسدہ سے پاک کر ليا جائے۔اسی طرح اعضاء کو گناہوں سے پاک کرنا چاہئیے۔باطن کو اخلاق رزيلہ سے پاک رکھنا اور اخلاق حسنہ سے معمور کرنا چاہيۓ۔يہ درجہ اس وقت تک حاصل نہی ہو سکتا جب تک اخلاق رزيلہ سے دل پاک نہ ہو جائے اور دل کی پاکی کے ليئے اعضاء کا گناہوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔امام غزالی رقمطراز ہیں:

"وہ شخص جس کی چشم بصيرت مشاہدہ سے محروم ہو ، صرف ظاہری طہارت کو طہارت سمجھتا ہے حالانکہ ظاہری طہارت اور طہارت کے دوسرے درجات ميں وہی نسبت ہے جو مغز اور پوست ميں ہوتی ہے ۔ ديدہ بينا سے محروم شخص ظاہری طہارت کو اصل مقصود سمجھتا ہے ، اس ميں انتہائ غور و فکر کرتا ہے ۔ظاہری طہارت کے طريقوں سے مبالغے سے کام ليتا ہے اور اپنے اوقات کپڑے دھونے اور ظاہری جسم صاف کرنے ميں صرف کرتا ہے اس کے خيال ميں اصل مقصود يہی طہارت ہے ۔اس کے يہ خيال وسوسوں اور عقل کے فساد پر مبنی ہيں، اسے سلف صالحين کا علم نہيں۔وہ لوگ قلب کی طہارت کا زيادہ اہتمام کرتے تھے"۔(21)دين و دنيا کی فلاح کا منبع دل ہے اور وہ بھی ايسا دل جو پاک و صاف ہو شرک اور برائيوں کی کثافتوں سے تاکہ انسان اپنے رب کو پہچان لے اور اخروی نجات اور عرفان رب اس کی زندگی کا مقصد ہو۔

شاہ ولی اللہ کہتے ہيں کہ انسان میں تين چيزيں شامل ہيں :

(۱)" قلب اس ميں ارادہ پیدا ہوتا ہے ۔(۲) نفس اس ميں لذتيں اور خواہشيں پيدا ہوتی ہیں(۳) عقل جس کا کام حقائق کا ادراک کرنا ہے ۔(22)اگر انسان کے نفس و قلب دونوں عقل کے تابع رہ کر اپنا اپنا کام انجام ديں تو انسان کو سعادت و مسرت حاصل ہوتی ہے ۔انسان کا نفس ہی اسے برائ اور ناپاک کاموں کی طرف راغب کرتا ہے اگر انسان اپنے نفس کو ناپاکی اور گناہ سے محفوظ کر لے تو اپنے رب سے قريب ہو جاتا ہے۔"انسان کا نفس اونٹ کی مانند ہے اگر اونٹ کو نکيل نہ باندھی جائے تو وہ خود پرست و خود سر ہو جاتا ہے جس طرف اس کا دل چاہے چل پڑتا ہے اور پھر وہ تمام باطنی کثافتوں مثلا تکبر، ضد، ہٹ درمی اور سرکشی کا شکار ہو جائے گا اگر نفس کو اطاعت رب کی نکيل نہ ڈالی جائے تو وہ شتر بے مہار ہو جاتا ہے۔ نفس آدمی کی سواری ہے سواری کی زمام(نکيل) اگر سوار کے ہاتھ ميں نہيں تو سوار اپنی سواری کا مطيع ہو جائے گا ، پھر سواری اسے جس طرف چاہے مرضی لے جائے سوار کو ادھر ہی جانا پڑے گا ۔ ايک مسلمان کو اپنے نفس کی لگام اپنے ہاتھ ميں لينی چاہيۓ اور اسے اپنا مطيع و فرمانبردار بنانا چاہیے۔اگر انسان اپنے نفس کو پاک رکھے گا اور اپنے نفس کو نيکی کی طرف راغب کرے گا اور ناپاکی و بدی سے بچے گا تو اس کا انجام اچھا ہو گا ۔

اور ايسے ہی انسان کےلئےارشاد پاک ہے:

" اے اطمينان پانے والی روح تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل، تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔"(23)

پاک روحوں سے ہی ان کا رب راضی ہوتا ہے جو اپنے نفس کو دنيا کی نجاستوں سے پاک رکھيں۔

"انسان کی سعادت يہ ہے کہ اس کا نفس ايسے کمال کی تکميل کر لے کہ پھر اس کو اپنے قوام کے ليۓ مادے کی احتياج نہ ہو ۔ اس مرتبے کو انسان چند ارادی افعال کے ذريعے پہنچ سکتا ہے ۔يہ مرتبہ ہر قسم کے افعال کے ذريعے حاصل نہيں ہوتا بلکہ اس کا حصول چند محدود افعال کے ذريعے ممکن ہے جو خاص ہستيوں اور محدود نکات کا حصہ ہوتے ہيں " (24)

يہ افعال پاکيزگی و طہارت کے مرہون منت ہوتے ہيں اور خاص ہستياں وہ ہوتی ہيں جن کے دل پاک اور خيالات پاکيزہ ہوتے ہيں ۔قرآن پاک نے ظاہری و باطنی صفائی کو ايمان کا حصہ قرار ديا ہے ۔ طہارت و پاکيزگی خير ہے اور حدث و نا پاکی شر ہے ۔

اسی کے بارے ميں ارشاد ہوتا ہے : "اور ہم نے اس کو خير و شر دونوں کے راستے بتا ديئے "(25)

خير پاکی ہی پاکی ہے اور شر گندگی ہی گندگی ہے اب يہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنے قلب کو پاکيزہ خيلات کی آماجگاہ بناتا ہے يا فاسد و نا پاک خيالات کا مسکن بناتا ہے ۔اس کے ليئے اسے تين کام کرنے لازم ہيں:

"1 اطاعت الہی- انسان کا سب سے پہلا فرض يہ ہے کہ وہ قوانين الہی کی مکمل پابندی کرے تاکہ کسی اور کی اطاعت نہ کرنی پڑے ۔

2 ضبط نفس- يعنی اپنے نفس کی اصلاح کرے ، اس کو اپنے قابو ميں رکھے ۔ غير اللہ کا خوف اس کے دل ميں نہ آئے ، خود غرضی اور باقی تمام برائيوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے تاکہ وہ اپنی خفيہ صلاحيتوں کو بيدار کر سکے۔

3 نيابت الہی- انسان جب ان دو منزلوں کو طے کر لے گا اور اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت دے کر اپنی بھرپور عملی قوتوں کو کام ميں لائے گآ تو وہ خدا کا نائب بن جائے گا اور خدا کی صفات اس ميں پيدا ہو جائيں گی۔"(26)

انسان کو اپنے مقام کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ بھی اس کے رب نے اسیلئے عطا فرمايا کہ وہ علم رکھتا ہے صحيح اور غلط کا ، خير اور شر کا ، پاکی اور ناپاکی چاہے بدنی ہو يا باطنی، ظاہری ہو يا خفی ايک مسلمان کے ايمان کا جزو ہے۔

" اسلام ميں نماز، روزہ ، زکوۃ ، حج، صدقات ، ذکر ، دعا ، تلاوت اور قربانی وغيرہ۔ يہ سارے عبادتی اعمال بندہ صرف اس ليے کرتا ہے کہ اس کا معبود اس سے راضی ہو ، اس پر اپنی رحمت فرماۓ اور ان کے ذريعے اس کی روح کو پاکيزگی اور خدا کا تقرب حاصل ہو" سورہ احزاب ميں رسول اللہ ﷺکی ازواج مطہرات کو مخاطب کر کے اللہ تعالی نے چند باتوں کی نصيحت و تاکيد کی ہے جن ميں سے ايک پاکی بھی ہے۔

" اور (اے نبی ﷺ کی گھر واليو ) اچھی طرح ادا کرتی رہو نماز اور ديتی رہو زکوۃ اور فرمانبرداری کرتی رہو ، اللہ اور رسول اللہ کے سب احکا م کی ( اس نصيحت اور ان احکام سے) اللہ تعالی کا مقصد اس کے سوا کچھ بھی نہيں ہے کہ نبی صل اللہ عليہ وسلم کے گھر والو تم سے ہر قسم کی آلائش و گندگی دور ہو اور تم کو کامل طور پر پاک کر ديا جائے۔"(27)

نماز

تزکيہ اور طہارت کا بہترين طريقہ ہے ، جس کے ليے قلب و لباس دونوں کی پاکيزگی لازم ہے ، نماز ہر برائ و گناہ سے پاک رکھنے کا ذريعہ ہے ۔ نماز کی شرائط ميں سے ايک شرط طہارت کا ہونا بھی ہے اگر اس شرط کا خيال نہ رکھيں تو نماز نہيں ہوتی اگر پاک صاف بھی ہوں ليکن اگر وضو نہ ہوتو نماز نہيں پڑھ سکتے ۔ لباس کے ساتھ نماز کی جگہ کا بھی پاک صاف ہونا ضروری ہے ۔

محقق ابو الفضل لکھتے ہیں:

"سجدے کی جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے چاہے يہ کوئ خالی زمين ہو يا فرش ، چٹائ يا مصلہ وغيرہ بچھايا گيا ہو ، اگرچہ نماز کے صحيح ہونے کے ليۓ صرف جگہ کا پاک ہونا ضروری اور شرط ہے ليکن ايسی جگہ بھی نماز پڑھنا اچھا نہيں جو پاک ہو اور اس کے قريب ہی غلاظت ہو اور سخت تعفن پھيل رہا ہو " (28)

نماز اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے ذمہ ايسا حق لگا ديا ہے جسکی کسی حالت يہاں تک کہ مرض الموت ميں بھی معافی نہيں جيسے امن کے زمانے ميں بھی فوجی سپاہی پريڈ سے غير حاضر رہنے سے سپاہيوں کی فہرست سے خارج ہو جاتا ہے اسی طرح ايک مسلمان نماز ترک کرنے سے کامل مومن نہيں رہتا بلکہ صحابہ کی ايک جماعت تو تارک نماز کو کافر قرار ديتی ہے۔ نماز بے حيائ اور برائ سے روکتی ہے اور ظاہری و باطنی صفائ و طہارت کا ذريعہ ہے ۔بدن کی طہارت وصفائ کے ساتھ لباس کی صفائ و پاکيزگی کا اہتمام کرنا بھی شريعت کا خاصہ ہے ۔ عربی کی مثل ہے کہ لباس ہی انسان کو انسان بناتا ہے۔ ثياب ثوب کی جمع ہے جس کے معنی لباس کے ہيں مگر يہاں ثياب سے مراد محض کپڑے ہی نہيں ہيں بلکہ لباس روح غرض پوری شخصيت مراد ہے۔ عربی ميں " طاہر الثوب " اس شخص کو کہتے ہيں جو ہر طرح کے عيوب اور گند گيوں سے پاک ہو ، قرآن کی ہدايت کا مطلب يہ ہے کہ اپنے لباس، جسم اور قلب و روح کو ہر طرح کی گندگيوں سے پاک صاف رکھو۔ نيز نماز کے ليے بھی پاک اور صاف لباس زيب تن کرنا چاہیےکيونکہ پاکيزہ لباس ہی انسان کے نفس کا تزکيہ کرتا ہے۔لباس کی پاکيزگی کے ساتھ ساتھ مال کی پاکی کا بھی حکم ديا گيا ہے اور اس کے ليۓ شريعت ميں زکوۃ کا حکم ديا گيا ہے۔

زکوۃ: زکوۃ مال کی پاکيزگی و پاکی کا ذريعہ ہے ۔ زکوۃ ادا کرنے سے مال پاک و صاف ہو جاتا ہے کيونکہ زکوۃ کے لفظی معنی ہی پاک ہونے کے ہيں۔

ترجمہ:"جو لوگ سونا اور چاندی سينت سينت (جمع کر کے) رکھتے ہيں ، اللہ کی راہ مين خرچ نہيں کرتے ، انہيں درد ناک عذاب کی خبر سنا دیجئے"(29)

اگر مسلمان پاک ہونا چاہتے ہيں تو چاہيۓ کہ زکوۃ کے ذريعے اپنے مال کو پاک کريں۔

روزہ

روزہ نفس کے تزکيہ اور پاکی کا ذريعہ ہے ۔ روزہ ميں صرف کھانے پينے سے ہی نہيں رکا جاتا بلکہ ہر برائ سے خود کو روکنا ہی اصل روزہ ہے۔ روزہ تمام جسمانی و روحانی بيماريوں سے نجات حاصل کرنے کا بہترين ذريعہ ہے۔روزہ نفس انسانی کو سدھارنے کے ليۓ ہے۔ روزہ تمام اعضاۓ جسمانی سے تعلق رکھتا ہے ۔ آنکھ کا بھی روزہ ، ہاتھ کا بھی روزہ ، کان کا بھی روزہ ، زبان کا بھی روزہ ، قدموں کا بھی روزہ ، سب سے بڑھ کر دل کا بھی روزہ يعنی تمام اعضاء کو برائ سے پاک رکھا جاتا ہے۔يہ انسان کو برداشت اور ضبط نفس کا خوگر بناتا ہے اور ظاہری و باطنی پاکی عطا کرتا ہے۔

حج

: حج ايک بدنی اور مالی عبادت ہے ۔ يہ انسان کو ظاہری و باطنی گناہوں سے پاک کرنے کا ذريعہ ہے ۔ مجاہد رضی تعالی عنہ کی روايت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی تعالی عنہ نے فرمايا :

" ہم حضور ﷺکی خدمت ميں موجود تھے کہ يمن سے کچھ لوگ حاضر ہوۓ اور انھوں نے عرض کی يا رسول اللہ صل اللہ عليہ وسلم ہمارے ماں باپ آپ پر قربان آپ ہميں حج کے فضائل سے آگاہ فرمائيں ، حضور پاک نے فرمايا جو شخص حج يا عمرہ کی نيت سے گھر سے چلا تو ہر قدم پر اس کے گناہ اس طرح دور ہوتے ہيں جس طرح درختوں سے پتے نيچے گر جاتے ہيں ، جب وہ مدينہ پہنچ کرمجھ سے سلام کرتا ہے اور ذوالحليفہ کے چشمے سے غسل کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو گناہوں سے پاک کر ديتا ہے۔ " (30)

نماز ، زکوۃ، روزہ اور حج ايسی عبادات ہيں جو انسان کے ليۓ تزکيہ اور پاکی کا ذريعہ ہيں اگر يہ خلوص دل و نيت کے ساتھ ادا کی جائيں تو انسان کو پاک وصاف کر ديتی ہيں۔ تمام عبادات طہارت و پاکيزگی کا ذريعہ ہيں۔اسی طرح توبہ بھی پاکی کا ذريعہ ہے ۔

توبہ بھی انسان کے قلب و نفس کو پاک کرنے کا ذريعہ ہے ۔ اگر انسان گزشستہ گناہوں پر سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو وہ پاک و صاف ہو جاتا ہے ۔اللہ تعالی کی اصل صفات رحمانيت و رحميت ہيں۔حضور ﷺ نے اس کی بہت ہی عمدہ مثال ارشاد فرمائ ہے:

" آپ کے پاس کچھ عورتيں اور مرد قيدی بن کر آئے۔ ايک عورت پريشان بھاگتی پھر رہی تھی ، اس کا بچہ گم ہوگيا تھا ۔ وہ بيچاری مامتا کی ماری کبھی اس بچے کو اٹھاتی اور چھاتی سے لگاتی ۔ حضور صل اللہ عليہ وسلم نے جب اس عورت کی حالت ديکھی تو صحابہ سے فرمايا : بتاؤ تو يہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈالے گی ؟ صحابہ نے جواب ديا ہر گز نہيں ، تو آپ صل نللہ عليہ وسلم نے فرمايا اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زيادہ مہربان ہے ۔" (31)

گناہوں سے توبہ کرنے سےانسان پاک و صاف ہو جاتا ہے ۔ظاہری و باطنی پاکی شرک سے توبہ، تمام گناہوں سے توبہ ، چاہے وہ ظاہری ہوں چاہے باطنی ہوں ، مثلا حسد ، کينہ ، بغض ، غيبت ، بہتان سے پاکی حاصل کرنا ہی اصل توبہ ہے ۔

تجزيہ و نتيجہ

طہارت وپاکيزگی ايسا جوہر اور اوصاف حميدہ ميں سے بہترين وصف ہے جس کی وجہ سے بندہ اللہ تعالی کی محبوبيت و محبت کا مستحق ہو جاتا ہے ۔ جب اللہ تعالی دنيا کی سب سے اعلی اور پاک ہستی اور ان کے اصحاب کو بھی طہارت وپاکيزگی کا حکم دے رہا ہے تو عام انسان کو اس کی کہيں زيادہ ضرورت ہے ۔ اس لئےہميں ہر وقت طہارت و پاکيزگی کا خيال رکھنا چاہیے۔

دين کی بنیاد پاکی وطہارت پر رکھی گئ ہے ، ظاہری و باطنی صفائ کے ذريعے انسان پاکيزہ اخلاق و کردار کا حامل بن جاتا ہے ۔ آپ صل اللہ عليہ وسلم کی ذات ظاہری و باطنی پاکيزگی کا عملی نمونہ تھی ۔اس ميں کئ طرح کا تزکيہ و پاکی ہے ۔ توحيد کی تعليم کے ذریعے ، قرآن کی تعليم کے ذريعے ، نبی صل اللہ عليہ وسلم روح کی ميل کچيل صاف کرتا ہے يہی سب سے مشکل کام ہے، تربيت وتزکيہ نفس کرتا ہے۔اس کے لئے فيضان صحبت بھی عطا کرتا ہے يعنی صحابہ کے لئےاور امت کے لئے عملی نمونہ پيش کيا۔ اور امت کو طہارت کی انتہائ تاکيد فرمائ۔ صفائ کا مطلب يہ ہے کہ بدن کو نجاست اور گندگی سے پاک کرنا ، اعضاء کو گناہوں و خطاؤں سے پاک رکھنا ، باطن کو عادات خبيثہ و رذيلہ سے پاک رکھنا اور ہر طرح کے فاصد و برے خيالات اور شرک و کفر سے پاک و صاف رکھنا ۔ لوگ عام طور پر ظاہری تزئين و آرآئش ميں مشغول رہتے ہيں حالانکہ باطن ، جھوٹ، غيبت ، تکبر ، جہالت ، رياکاری ، نفاق اور خود پسندی سے آلودہ ہوتے ہيں ۔ باطن کی ان آلودگيوں کی صفائ کی بالکل کوشش نہيں کی جاتی ۔

ظاہری و باطنی صفائ کے لئے يہ لازم ہے کہ انسان پہلے اپنے اندر کی کثافتوں کو دور کرے اور باطن کو فاسد خيالات و اعمال سے پاک کرے۔ ظاہری نجاستوں اور مفاسد کو صاف کرنا آسان ہے مگر باطن يعنی قلب کو باطنی بيماريوں سے پاک کرنا قدرے دشوار ہے ، اصل مومن وہی ہے جو ظاہر وباطن کو ايک جيسا رکھے اگر ذرا سا بھی ميل باطن کو آلودہ کرنے لگے تو فورا اسے دھو ڈالے جس طرح ظاہری لباس جيسے ہی گندا ہوتا ہے تو اسے صاف کرتا ہے اسی طرح باطن ميں اگر زنگ لگنے لگے تو اسے فورا صاف کرنا ضروری ہوتا ہے کہ کہيں وہ پورے جسم کو زنگ آلود نہ کر دے۔ظاہری و باطنی صفائ ايک دوسرے کے لیۓ لازم و ملزوم ہيں ، ظاہر کتنا بھی اجلا و صاف ہو اگر باطن کثيف و آلودہ ہو يعنی برائيوں و گناہوں کی آماجگاہ ہو يا پھر باطن کتنا ہی عمدہ و اخلاق حسنہ کا حامل ہو مگر ظاہر پاک و صاف نہ ہو تو بھی مسلم معاشرے کا تعامل نا ممکن ہے ۔ ہميں کوشش کرنی چاہئےکہ ظاہری وباطنی دونوں طرح کی صفائ کا جو معيار قرآن وسنت کا وضع کردہ ہےاس پر عمل کريں ، اس ميں اپنے ذوق يا خواہش کے مطابق کوئ کمی بيشی نہ کريں ۔ تاکہ سيرت طيبہ کی روشنی ميں ظاہری و باطنی صفائ ہی مسلم معاشرے کا تعامل قرار پائے۔

حوالہ جات و حواشی:

1:القرآن،9 : 23 ۔

2: القران ، 2 : 222۔

3 :القرآن، 5 :6 ۔

4: القرآن ، 74 :5۔

5: القرآن ، 9 :13۔

6:القرآن ، 20 :28۔

7:جميل احمد سکروڈھوی ، اشرف الھدايہ ( شرح اردو ھدايہ) ، کراچی ، دارالاشاعت، 2017 ، ج 1 ،ص 72 ۔

8:شيخ اسد محمد سعيد الصاغری ، فقہ حنفی قران وسنت کی روشنی ميں،(مترجم مولانا خالد محمود )، لاہور ، ادارہ اسلاميات ، 2008 ، ج 1 ، ص 53 ۔

منہاج الدين مينائ ، اسلامی فقہ ، لاہور ، اسلامک پبليکيشنز ، 2002 ، ص 43 ۔.9

10:القرآن، 2 : 23 ۔

11:القرآن ، 16 :72 ۔

12:القرآن، 2 : 168 ۔

13:القرآن ،2: 172۔

14:القرآن ،5: 88۔

15: ااقرآن ، 5 :15۔

16:القرآن ، 5 :87۔

17:القرآن ،4:5۔

18: القرآن ، 2 :12 ۔

19: القرآن ، 26 :89 ۔

20: القرآن ، 16 :71

21: امام ابو حامد الغزالی ، احيا العلوم ( مترجم مولانا نديم الواجدی )، کراچی ، دارالاشاعت ، 2008 ، ج 1 ، ص 223 ۔

22: الغزالی ، " احيا العلوم " ، 1 :521

23۔ القرآن،89 : 27

24۔ مير ولی الدين ، تاريخ فلسفئہ اسلام ، کراچی ، نفيس اکيڈمی ، 1987 ، ص 59

25۔ القرآن ، 90 : 10

26۔ سيد سراج الاسلام ، تذکرے و تبصرے ، کراچی، غضنفر اکيڈمی ، ص 237

27۔ القرآن ،33 :4

28۔ ابوالفضل نور احمد ، خواتين انسائيکلو پيڈيا ، کراچی ، اسلامائيکا فاؤنڈيشن ، 2003 ، ص 95 ۔1

29۔ القرآن ، 9 : 34

30۔مفتی محمد شفیع ، معارف القرآن ، ص4 :34،

31۔ملک غلام مرتضی ، خطابات حرم ، لاہور ، مرتضی ايحوکيشنل ٹرسٹ ، 2002 ، ص 374 ۔

1Lecturer, APSACS Malir Cantt, Karachi

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...