1
2
2022
1682060075860_3011
https://ojs.almithaqjournal.com/index.php/Main/article/view/15/10
https://ojs.almithaqjournal.com/index.php/Main/article/view/15
(1)حق کا مفہوم
’’حقَّ ‘‘ضَرَبَ کے باب سے ثلاثی مجرد ہے ۔اس کے لغوی معنی ہیں ’’واجب ہونا‘‘۔کہا جاتا ہے :
حقّ لک ان تفعل کذا وحققت ان تفعل کذا 1
اس کاکرنا تمہارے لائق ہے اور تم اس کے کرنے کے لائق ہو۔
لغات الحدیث میں ہے :
حقٌّکےمعنی غلبہ کرنا ،واجب کرنا ،بیچ سر میں مارلگانا ،یقین کرنا ،ثابت ہونا ، اونٹ کا چوتھے سال میں لگنا۔حقّ اللہ کا نام بھی ہے کیونکہ حقیقۃ موجود وہی ہےباقی سب چیزوں کا وجود مثل عدم کے ہےجو زوال پذیر ہے اور حقّ باطل کی ضد ہے۔2
اورحق ُّ کے کئی معنی آتے ہیں :
’’ایک توحکمت کے ساتھ پیدا کرنے والا ،دوسراوہ چیز جو حکمت کے ساتھ پیدا کی گئی ہویا بنائی گئی ہو،تیسراصحیح اعتقاد اور قول جو واقع کے مطابق ہو یا وہ قول اور فعل جو وقت اور مصلحت کے موافق ہو چوتھا واجب اور لازم پانچواں مضبوط اور مستحکم ،چھٹا یقین اور اذعان ساتواں حقیقت اور ماہیت ۔‘‘3
امام راغب اصفہانی نے ’’الحقُّ ‘‘کے اصل معنی ’’مطابقت اور موافقت ‘‘کے بیان فرمائے ہیں ۔4
قرآن مجید(فار اینڈرائڈ اپلیکیشن ) میں حق کا لفظ 272 مرتبہ آیا ہے۔جہاں یہ سچائی اور باہمی حقوق کے معنی میں بیان ہوا ہے۔جبکہ معجم المفہرس لالفاظ الحدیث کے مطابق حدیث کی نو معتبر کتب کی 258 احادیث میں حق کا لفظ مذکورہے۔
حق کسی فرد کے لئے شریعت کی معترف اور مقرر کردہ مخصوص مصلحت ہے جو مادیت یا علمیت سے وابستہ ہوتی ہے۔علامہ سید سلیمان ندوی ’’حق‘‘ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’انسان کو دنیا کی ہر اس چیز سے جس سے اس کے نفع کا تعلق ہے ایک گونہ لگاؤ ہے ۔ اس لگاؤ کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی ترقی وحفاظت میں کوشش کی جائے ۔اس شئے سے وہ نفع اٹھایا جائے جس کے لئے خدا نے اس کو پیدا کیا ہے اور ان مواقع پر اس کو صرف کیا جائے جن میں خدا نے اس کے صرف کرنے کا حکم دیا ہےاور اس کو ہر اس پہلو سے بچایا جائے جس سے اس کی نفع رسانی کو نقصان پہنچے۔ اسی ذمہ داری کا نام ’’حق ‘‘ ہے جس کو ازخود ادا کرنا ضروری ہے۔‘‘5
(2)فرض کا مفہوم:
فرض کے معنی اپنے اوپر لازم کیا ہوا عمل یا اس قانون کے ہیں جس کو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے مقرر کیا ہو۔امام راغب اصفہانی فرض کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"الفَرض کے معنی سخت چیز کو کاٹنے اور اس میں نشان ڈالنے کے ہیں۔مثلا فرض الحدید لوہے کوکاٹنا ۔۔۔فرض کا معنی ایجاب (واجب کرنا )آتا ہے۔مگر واجب کے معنی کسی چیز کے بلحاظ وقوع اور ثبات کے قطعی ہونے کے ہیں اور فرض کے معنی بلحاظ حکم کے قطعی ہونے کے ہیں۔۔۔ہر وہ مقام جہاں قرآن میں فرض علی کے ساتھ آیا ہے اس کے معنی کسی چیز کوواجب اور ضروی قرار دینے کے ہیں اور جہاں فرض اللہ لہ (لام کے ساتھ)آیا ہے تو اس کے معنی کسی چیز سے بندش دور کرنے اور مباح کر دینے کے ہیں۔فرائض اللہ سے مراد وہ احکام ہیں جن کے متعلق قطعی حکم دیا گیا ہے۔"6
فقہا کے نزدیک :فرض وہ ہوتا ہے جو اپنے لزوم کے ساتھ قطعی ہو،حتی کہ اس کے منکر کو کافر کہا جائے گا۔7
غرض فرض وہ کام ہے جس کو ادا کرنا لازمی ہے۔ اس کو چھوڑنے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔اس کا ثبوت قطعی ( قرآن مجید اور سنت متواترہ )ہے ۔ اس فعل کےلزوم پر رہنمائی بھی قطعی ہو۔اس کا انکار کفر ہے۔ اس کو ہمیشہ یا کبھی کبھی چھوڑنے والا عذاب الہی کا حقدار ہو۔
(3)اخلاق کی تعریف
حقوق وفرائض اخلاق کی تعریف میں شامل ہیں۔برصغیر کے عظیم سیرت نگار سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب سیرۃ النبی ﷺمیں حقوق وفرائض کو اخلاق کی تعریف میں بیان کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں:
"اخلاق سے مقصود باہم بندوں کے حقوق وفرائض کے وہ تعلیمات ہیں جن کو ادا کرنا ہر انسان کے لئے مناسب بلکہ ضروری ہے۔"8
انسان پر انسانوں کے علاوہ حیوانات اور بے جان اشیا کے بھی حقوق ادا کرنا ضروری ہیں ۔اپنی طاقت کے مطابق ان حقوق کا ادا کرنا لازمی ہے ۔اسلام کے تصور اخلاق کی ابتدا انہی حقوق وفرائض سے ہوتی ہے۔
(4)حقوق کی اقسام
عام طور پر حقوق کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔حقوق اللہ اور حقوق العباد ۔امام شاطبیؒ لکھتے ہیں :
"مکلف پر حقوق واجبہ دو طرح کے ہیں ۔وہ اللہ تعالی کے حق ہوں گے ، جیسے نماز روزہ اور حج ۔یا پھر وہ آدمیوں کے حق ہوں گے،جیسے قرضے،خیر خواہی ،آپس میں اصلاح اور اسی سے ملتے جلتے دوسرے امور۔9
فقہا نے حقوق کو متعدد اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ان میں سیاسی حقوق،شخصی یا ذاتی حقوق،خاندانی حقوق،مالی حقوق اور ذہنی حقوق خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔حقوق کی تمام اقسام درج ذیل اقسام کے تحت ہیں:
(1) حقوق اللہ
(2)نفس انسانی / مادی جسم کے حقوق
(3)بندوں کے حقوق
(4)انسان کے زیر اختیار ان اشیا کے حقوق جن سے وہ کام لیتا ہے۔مثلاغلام ،نوکر،جانور وغیرہ۔
(۱)حقوق اللہ
حقوق اللہ سے مراد اللہ تعالی کے حقوق ہیں ۔ایک جامع حدیث میں آپؐ نے ان حقوق کے بارے میں ارشاد فرمایا:
حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ ان کے خچر جسے عفیر کہا گیا پر سوار تھا کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا:
یا معاذ ھل تدری حق اللہ علی عبادہ وما حق العباد علی اللہ قلت اللہ ورسولہ اعلم قال فان حق اللہ علی العباد ان یعبدوہ ولا یشرکوا بہ شیئا وحق العباد علی اللہ ان لا یعذب من لا یشرک بہ شیئا۔10
اے معاذکیا تم جانتےہو کہ اللہ کا اپنے بندے پر حق اوربندوں کا اللہ پر کیا حق ہے ؟میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔آپؐ نے فرمایا بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں اور اللہ پر بندوں کا حق یہ ہے جو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتا اسے سزا نہ دے۔
علامہ وحید الزمان اس حدیث کی تصریح میں لکھتے ہیں:
’’حق سے مراد یہاں یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جس ثواب کا وعدہ اپنے بندوں سے کیا ہے وہ وعدہ ضرور پورا ہو گا۔لیکن حق کے یہاں یہ معنی نہیں ہیں کہ اللہ تعالی پر کوئی شے واجب یا لازم ہے ،جس کے خلاف وہ نہیں کر سکتا۔اس کو توسب قدرت ہے چاہے تو مومنوں کو آگ میں ڈال دے اور سب کافروں کو بہشت میں بھیج دے۔البتہ یہ صحیح ہے کہ ایسا نہیں ہو گا کیونکہ اللہ تعالی ظالم نہیں ۔‘‘11
حقوق اللہ سے مراد یہ کہ انسان اللہ تعالی کو وحدہ لا شریک تسلیم کرے۔اس کو اپنی ذات،صفات اور عبادات میں ایک مانے اور یکتا جانے اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائےاور حضرت محمد ﷺ کو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول تسلیم کرے۔ اس کے بعد وہ اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہونے والی کتاب کو صدق دل سے تسلیم کرے ۔اس کو پڑھے ،سمجھے ،اس پر عمل کرے اور اسے دوسروں تک پہنچائے۔اس کتاب کی تشریح کے لئے حضور ﷺ کی تعلیمات پر ایمان لائے۔اللہ تعالی سے شدید محبت کرے اور اس کی محبت حاصل کرنے اوراس کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش کرے۔
اس کے بعد اس کی عبادت اپنی پوری توجہ اور عاجزی سے کرے۔حقوق اللہ کا زیادہ حصہ عبادات یعنی فرائض پر مشتمل ہے۔اس لئے فرائض کو دلجمعی سے ادا کرے اور نوافل کے ذریعے قرب الہی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ان حقوق کو ادا نہ کرنے سے دنیا وآخرت میں ہمارا نقصان ہو گا۔حقوق اللہ کے ذیل میں دو قسم کے معاملات آئیں گے۔ایک وہ جن کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور دوسرے وہ جن سے منع کر دیا گیاہے۔مامورات یا طاعات وہ معاملات ہیں جن کو ادا نہ کرنے سے گناہ ہوتا ہے ۔ان میں سے بعض پرتوبہ کے علاوہ فدیہ،دیت ،کفارہ اور صدقہ کے احکام لاگو ہوتے ہیں۔جبکہ منہیات یا نواہی ایسے معاملات ہیں جن سے منع کیا گیا ہے۔یہ توبہ کرنے سے معاف ہو جانے والے معاملات ہیں۔
(۲)حقوق العباد :
حقوق حق کی جبکہ عباد عبد کی جمع ہے ۔اس طرح حقوق العباد کے معنی ہوئے بندوں کے حقوق۔جسے عصر حاضر میں انسانوں کے حقوق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کو اپنی نوعیت کے اعتبار سے دواقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
(i)اخلاقی حقوق:
ایسے حقوق جن کی حیثیت محض اخلاقی ہوتی ہے اور ان کو ادا کرنے سے معاشرے میں محبت ،اخوت اور ہمدردی کے جذبات فروغ پاتے ہیں ۔جیسے چھوٹوں پر رحم کرنا،ہمسائے،والدین یا بیوی سے حسن سلوک کرنا،مہمان نوازی وغیرہ ۔یہ حقوق انسان کی باطنی کیفیات سے متعلق ہیں ۔
(ii)قانونی حقوق :
ان حقوق کا تحفظ اور تعین قانون کے ذریعے ہوتاہے۔یہ ریاست کے تسلیم شدہ اور مفاد عامہ سے متعلق ہوتے ہیں۔ملکی قوانین اس مفاد کوعدالت کے ذریعے حاصل کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر حق مہر، وراثت وغیرہ ان حقوق کی مزید دو اقسام ہیں:
۱۔شہری حقوق :
ایسے حقوق جن کا تعلق ریاست کے ہر فرد کی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے۔ریاست ان حقوق کو ادا کرنے کی پابند ہو گی ۔ جیسے جان ،مال اورعزت کا تحفظ ،تعلیم ،صحت اور کاروبار کا حق وغیرہ۔
۲۔سیاسی حقوق :
ایسے حقوق جن کی بدولت ریاست کا ہر فرد ملکی نظم ونسق میں شامل ہو سکتا ہے۔رائے دہی کا حق،الیکشن میں حصہ لینے کا حق،سرکاری ملازمت کا حق وغیرہ۔
(5)فرض کی اقسام :
البحر میں فرمایا اصول اور فروع میں علما کے قول ظاہر یہ ہے کہ فرض کی دو قسمیں ہیں:
(1)فرض قطعی: (یعنی جو قرآن عظیم اور حدیث متواتر سے ثابت ہو۔جیسے نماز ،روزہ وغیرہ )
(2)فرض ظنی :مثلا سر کے مسح میں مقدار(فرض) ظنی ہے۔12
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایک کا حق دوسرے پر فرض ہو گا۔یعنی دوسرے پر اس کا حق ادا کرنا لازم ہو گا ۔ مثال کے طور پر میاں کے حقوق بیوی پرادا کرنا فرض ہوں گے،وغیرہ وغیرہ۔
(6) حقوق کے مغربی فلسفےکا اسلام سے موازنہ :
مغربی فلسفہ میں اللہ تعالی کے حقوق کا کوئی تصور نہیں۔حقوق اللہ کو نظر انداز کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے فلسفہ حقوق وفرائض کی بنیاد معاشرہ پر رکھی گئی ہے ۔مغرب میں معاشرے کی خواہشات کی پیروی کی جاتی ہے۔جبکہ اسلام میں حقوق وفرائض کی بنیاد وحی الہی پر رکھی گئی ہے۔یہاں اللہ تعالی اس کے رسول ﷺ اور صاحب الرائے مسلمان فقہا کی اطاعت کی جائے گی۔
مغربی فکر وفلسفہ میں حقوق کا مطالبہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔انسانی حقوق کے ایک خوشنما دعوی کے ذریعے معاشروں کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔جبکہ اسلام میں حقوق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ان حقوق وفرائض کو ترک کرنا باعث گناہ ہے۔یہ اپنے احکام کی نوعیت کے اعتبار سے فرض،واجب،سنت اور مباح کا درجہ رکھتے ہیں۔نبی مکرم ﷺ کے زیر نگرانی قائم ہونے والے معاشرے میں حقوق وفرائض ادا کرنے کی عملی مثالیں موجود ہیں۔
اسلام نے مغرب سے کئی سو سال پہلے انسانوں کو ان کے جائز حقوق اور اپنے فرئض ادا کرنے کا حکم دیا۔ مغربی دنیا میں"میگنا کارٹا" انسانی حقوق کی پہلی باضابطہ دستاویز تھی ۔جس میں بادشاہوں اور جاگیرداروں کےعلاوہ کچھ عام لوگوں کے حقوق بھی مقرر کئے گئے ۔ انقلاب فرانس (1879ء)کے نتیجے میں تیار ہونے والی دستاویز "انسانی حقوق کا اعلامیہ "(Declaration of the rights of man) اس سلسلہ کی دوسری دستاویز ہے ۔جس کی رو سے تمام اختیارات معاشرہ کو منتقل ہو چکے ہیں۔معاشرہ یا اس کے منتخب نمائندے بااختیار ہوں گے۔ اقوام متحدہ کاانسانی حقوق کا چارٹر تیسری اہم دستاویز ہے۔"میگنا کارٹا" مغرب میں انسانی حقوق کا آغاز تھا جبکہ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کا چارٹرانسانی حقوق کا اختتام ہے۔میگنا کارٹا 1215ء میں پیش ہوئی جبکہ اقوام متحدہ کا چارٹر برائے انسانی حقوق 1948ء میں منظور ہوا مغربی انسانی حقوق کی تاریخ صرف سات صدیوں پر محیط ہے۔
ڈاکٹر سلیمان بن عبدالرحمٰن الحقیل "اسلام میں حقوق کی حیثیت "بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میں بیان شدہ انسانی حقوق ابدی ہیں ۔وہ تراش خراش اور ترمیم وتنسیخ اور التوا کو قبول نہیں کرتے۔وہ ایسے حقوق ہیں جنہیں اللہ نے مشروع کیا ہے کسی بشر کو خواہ وہ کوئی بھی ہو یہ حق نہیں کہ وہ انہیں معطل کرےیا انہیں پامال کرےاور نہ ہی ان کی ذاتی حفاظت ساقط ہو سکتی ہے۔نہ تو کسی فرد کے دست بردار ہونے کے ارادے سے اورنہ ہی تنظیموں کی شکل میں موجود معاشرے کی مرضی سے۔ان کا مزاج خواہ کیسا ہو اور خواہ قوتیں انہیں کیا سمجھیں ہوں۔"13
(7)حقوق العباد کی اہمیت سیرۃ النبی ﷺ کی روشنی میں
اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اور نبی اکرم ﷺ نے اپنی احادیث میں بندوں کے حقوق بیان فرمائے ہیں۔بندوں کے درمیان حقوق کا واضح تعین کرنے کے بعد ان کی ادائیگی سے اپنی رضا اور عدم ادائیگی سے اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔ان حقوق کی بنیاد پرجنت اور جہنم میں داخلہ کے فیصلہ کن ارشادات بیان فرمائے ہیں۔
ان حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی کا حق توبہ کرنے سے معاف ہو جاتا ہےلیکن بندےکا حق توبہ کرنے سے معاف نہیں ہو گا ،بلکہ صاحب حق سے معاف کرانے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالی بندوں کے حقوق اس وقت تک معاف نہیں فرمائیں گے جب تک بندے معاف نہیں کریں گے۔اسی لئے ایک مسلمان حقوق اللہ کی طرح حقوق العباد کو بھی محترم اور واجب الادا سمجھتا ہے اور ان کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرتا ہے۔
حقوق العباد حقوق اللہ کی تقسیم کرنے والے ہیں۔حقوق العباد وہ حقوق ہوئے جن کو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے مقرر کیا ہے۔عوام الناس کا خیال ہے کہ حق العبد میں محض بندے کا حق ہوتا ہے ،حق تعالی کا حق نہیں ہوتا۔یہ (خیال ) غلط ہے کیونکہ بندے کا حق اللہ تعالی نے مقرر فرمایا ہے۔جب اللہ تعالی کے احکام کی خلاف ورزی کی جائے گی تو جیسے بندہ کا حق فوت ہوا ایسے ہی خدا کا حق بھی فوت ہوا۔اس لئے حقوق العباد تلف کرنے میں محض بندوں کی معافی کافی نہیں بلکہ اللہ تعالی سے بھی توبہ کرنی چاہئے۔14
فرائض وواجبا ت میں ترجیح وتقدیم حقوق اللہ کو جبکہ نوافل ومستحبات میں ترجیح حقوق العباد کو حاصل ہے۔ نبی مکرم ﷺ سے پہلے دوانتہائیں رہبانیت اور حقوق اللہ کے تصور کی شکل میں موجود تھیں ۔نبی کریم ﷺکا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپؐ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد میں توازن قائم کیا ،جس کا نام اسلام ہے۔آپؐ نے یہ بتایا کہ حقوق اللہ کی بنیاد پر حقوق العباد کی نفی نہیں ہو گی اور حقوق العباد کی بنیاد پر حقوق اللہ کی نفی نہیں ہو گی۔قرآن کریم نے بھی ان دونوں حقوق کا اکٹھا تذکرہ کیا ہے۔15
حقوق العباد کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی ایک جامع حدیث موجود ہے ،جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :
اَتَدْرُوْنَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوْا اَلْمُفْلِسُ فِیْنَا مَن لَّا دِرْھَمَ لَہٗ وَلَا مَتَاعَ فَقَالَ اِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ اُمَّتِی یَاتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِصَلَاۃٍ وَصِیَامٍ وَزکَاۃٍ وَیَاتِی قَدْ شَتَمَ ھٰذَا وَقَذَفَ ھٰذَا وَاَکَلَ مَالَ ھٰذَاوَسَفَکَ دَمَ ھٰذَاوَضَرَبَ ھٰذَا فَیُعْطٰی ھٰذَا مِنْ حَسَنَاتِہ وَھٰذَا مِن حَسَنَاتِہ فَاِن فَنِیَتْ حَسَنَاتُہٗ قَبْلَ اَن یُّقْضٰی مَا عَلَیْہِ اُخِذَ مِنْ خَطَایَاھُمْ فَطُرِحَتْ عَلَیْہِ ثُمَّ طُرِحَ فیِ النَّار16
کیا تمہیں معلوم ہے کہ مفلس کون ہے؟صحابہؓ نے کہا ہم میں سے مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہوں اور نہ سامان۔پھر آپؐ ﷺنے فرمایا بے شک میری امت میں مفلس وہ ہو گا جو قیامت کے دن نماز،روزہ اور زکٰوۃ لے کر آئے گا،اس حال میں کہ اس نے فلاں ایک شخص کو گالی دی ہو گی،فلاں ایک شخص پر جھوٹی تہمت لگائی ہو گی اور فلاں ایک شخص کا مال ہڑپ کیا ہو گا اور فلاں ایک شخص کا خون بہایا ہو گا اور فلاں ایک شخص کو ماراپیٹا ہو گا۔پس اس کی نیکیاں انہیں دے دی جائیں گی اور اگر اس کے ذمہ تمام قرض چکانے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان (حق سے محروم لوگوں )کی برائیاں لے کر اس پر ڈال دی جائیں گی۔پھر اسے دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔
اسی طرح نبی مکرم ﷺاپنی ایک اورحدیث میں فرمایا :
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من كانت له مظلمة لأخيه من عرضه أو شيء فليتحلله منه اليوم قبل أن لا يكون دينار ولا درهم إن كان له عمل صالح أخذ منه بقدر مظلمته وإن لم تكن له حسنات أخذ من سيئات صاحبه فحمل عليه17
حضرت أبو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس شخص نے کسی کی بے عزتی کی ہو یا اس پر کچھ ظلم کیا ہواسکی عزت یا کسی چیز میں سے ، تووہ آج ہی اس سے معاف کرا لے اس دن سے پہلے جب روپیہ پیسہ نہ ہو گا کہ اس کے کچھ کام آئے۔اگر اس کے عمل نیک ہوئے تو ان میں سے اس کے ظلم کے مطابق لیا جائے گا اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو اس بندے کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔
(۱)والدین کے حقوق:
نبی اکرم ﷺ نے والدین کی خدمت کو جہاد جیسا عمل قرار دیا :
عن عبداللہ ابن عمرو قال جاء رجل الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم یستاذنہ فی الجھاد فقال الک والدان قال نعم قال ففیھما فجاھد ۔18
حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس جہاد میں شرکت کرنے کی اجازت طلب کرنے کے لئے آیا ۔آپؐ نے فرمایا کیا تیرے والدین زندہ ہیں اس نے کہا ہاں۔آپؐ نے فرمایا ان دونوں کی خدمت کریہی تیرا جہاد ہے۔
ایک دوسری حدیث نبوی ﷺ جسے جلیل القدر صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعودؓنے روایت کیا ،انہوں نے کہا:
سألت النبي صلّى الله عليه وسلّم: أي العمل أحبّ إلى الله؟ قال: الصلاة على وقتها، قال: ثمّ أي؟ قال: ثمّ برّ الوالدين. قال: ثمّ أي؟ قال: الجهاد في سبيل الله، قال: حدثني بهنّ، ولو استزدته لزادني19
میں نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا :کون سا عمل اللہ تعالی کو زیادہ محبوب ہے؟ آپؐ نے فرمایا نماز کو اس کے وقت پر اداکرنا ،کہا پھر کون سا ؟فرمایا والدین کے ساتھ نیکی کرنا ۔کہا پھر کون سا؟ فرمایا اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنا۔کہا :مجھے ان کے بارے میں بتاؤ،اور اگر میں اسے حاصل کر لیتا تو میں اسے بڑھا دیتا۔
رسول اللہ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہوں میں سے بھی بڑے گناہوں میں شامل ہے۔اس سلسلہ میں حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکرۃ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ،جہاں اس نے کہا :
ألا أنبئكم بأكبر الكبائر؟ قلنا: بلى يا رسول الله، قال ثلاثاً، قَال: الإشراك باللَّه، وعقوق الوالدين، وكان متكئاً فجلس، فقال: ألا وقول الزّور، وشهادة الزور، ألا وقول الزّور، وشهادة الزّور، فما زال يقولها حتى قلت: لا يسكت۔20
کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں میں سے بڑے گناہوں سے آگاہ نہ کردوں ؟ ہم نے کہا :ہاں کیوں نہیں اے اللہ کے رسولؐ،فرمایا تین ہیں،فرمایا : اللہ کے ساتھ شریک کرنا اور والدین کی نافرمانی ،اور آپؐ ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر بیٹھ گئے ،پس فرمایا خبردار رہو اور جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی اور سن لو جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی۔پھر آپؐ یہ کہتے رہے یہاں تک کہ میں نے کہا :خاموش مت رہیں۔
اسی لئے آپؐ نے والدین کی نافرمانی سے بچنے اور ہر اچھی بات میں ان کی فرماں برداری کرنے کا حکم دیا۔کیونکہ والدین کی نافرمانی اللہ تعالی غصے اور اس کی ناراضگی کا سبب ہےاور اسے لازم کر دیتی ہے۔اس سلسلہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
رضى الرّبّ في رضى الوالد، وسخط الرّبّ في سخط الوالد21
رب کی خوشی والد کی خوشی میں ہے اور رب کا غصہ والد کے غصہ میں ہے۔
ہمیں والدین کی نافرمانی سے بچنا چاہئے کیونکہ اسی کی وجہ سے ایک آدمی قیامت کے دن ذلیل وخوار ہو گا اور اسے جنت میں داخلے سے روک دیا جائے گا۔اس بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ثلاثة لا ينظرُ الله إليهم يوم القيامة: العاق لوالديه، والمرأة المترجلة، والديوث، وثلاثة لا يدخلون الجنة: العاق لوالديه، والمدمن الخمر، والمنان بما أعطى۔22
تین لوگوں کی طرف اللہ تعالی قیامت کے دن نہیں دیکھے گا: (۱)اپنے والدین کا نافرمان (۲)دھوکہ دینے والی عورت(۳)بے غیرت ،اپنے گھر والوں پر دلال۔اور تین جنت میں داخل نہیں ہوں گے(۱)اپنے والدین کا نافرمان(۲)شراب کا عادی(۳)جو کچھ دے اس پر احسان جتلائے۔
اس لئے جو جنت میں جانے کاارادہ رکھتا ہو اسے اپنے والدین کی نافرمانی سے بچنا چاہیے اور ان کے ساتھ نیکی اور اچھائی کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔یہ جنت کی طرف آپ کا راستہ ہے۔معاویہ بن جاہمہ سلمی سے روایت کہ جاہمہ نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے رسول میں جنگ میں شرکت کا ارداہ رکھتا ہوں اور آپ سے مشورہ کرنے کے لئے آیاہوں ۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تیری ماں زندہ ہے ؟اس نے کہا :ہاں،فرمایا
فالزمها فإن الجنة عند رجليها23
پس اس کی خدمت کو لازم پکڑ کیونکہ
جنت اس کے دونوں پاؤں کے پاس ہے۔
غرض والدین کی معروف میں اطاعت،حسن سلوک،فرماں برداری اور خدمت وغیرہ اولاد کے فرائض ہیں۔
(۲)بیٹیوں اور بہنوں کے حقوق :
جس معاشرے میں آپؐ پیدا ہوئے وہ عورت کی پیدائش کو معیوب سمجھتا تھا ۔اسے پیدا ہوتے ہی زندہ زمین میں دفن کر دیا جاتا تھا۔آپؐ نے بیٹیوں کے قتل کو حرام قرار دیا اوران کے حقوق مقرر فرمائے۔
مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
ان اللہ حرم علیکم عقوق الامھات وواد البنات ومنع و
ھات وکرہ لکم قیل وقال وکثرۃ السؤال واضاعۃ المال 24
بے شک اللہ تعالی نے تم پر ماؤں کی نافرمانی اور بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا اور (واجب حقوق کی)ادائیگی نہ کرنا اور (دوسروں کا مال ناجائز طریقہ پر دبا)لینا حرام کیا اور ناپسند کیا تمہارے لئے (بہت زیادہ فضول)باتیں کرنےاورزیادہ سوالات کرنے اور مال ضائع کرنے کو ناپسند قرار دیا ہے۔
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
من عال ثلاث بنات فادبھن وزوجھن واحسن الیھن فلہ الجنۃ حدثنا یوسف بن موسی حدثنا جریر عن سھیل بھذا الاسنادقال ثلاث اخوات اوثلاث بنات او بنتان او اختان 25
جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی پھر انہیں ادب سکھایا اور ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ احسان کیاتو اس کے لئے جنت ہے ۔ہم سے یوسف بن موسی نے اور جریر نے سہیل سے ان اسناد کے ساتھ بیان کیا کہا تین بہنیں یا تین بیٹیاں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں۔
دوسری احادیث میں اس کی تصریح موجود ہے کہ بیٹی یا بہن چاہے ایک ہو ،چاہے دو ہوں یا تین ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ،ان کو ادب سکھانے والے اور پھر ان کی شادی کر دینے والے کے لئے جنت واجب کر دی جاتی ہے۔
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لا یکون لاحدکم ثلاث بنات او ثلاث اخوات فیحسن الیھن الا دخل الجنۃ26
نہ ہوں تم میں سے کسی ایک کے لئے تین بہنیں یاتین بیٹیاں پس وہ ان کے ساتھ اچھائی کرےتوجنت میں داخل ہوگا۔
فیحسن الیھن سے مراد ہےان پر صبر کریں، ان کی پرورش کریں اوران پر رحم کریں،ان کی بنیادی ضروریات پوری کریں۔ ان پر خرچ کریں ، ان کواچھا ادب سکھائیں اور ان کی شادی کریں ۔یہ وہ تمام خوبیاں ہیں جنہیں لفظ احسان میں جمع کر دیا گیا ہے۔
آپؐ نے أولاد کے ساتھ رحم اور شفقت کرنے کا حکم دیا۔حضرت أبو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس نے نبی اکرم ﷺ کو حضرت حسنؓ کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا پھر کہا کہ میرے دس بچے ہیں ۔میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی بوسہ نہیں دیا۔اس پر آپؐ نے فرمایا:
من لا یرحم لا یرحم27
جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا
آپؐ نے ہر چھوٹے کےساتھ رحم کرنے اور ہر بڑے کا ادب کرنے کا حکم دیا۔آپؐ کا ارشاد گرامی ہے :
لیس منا من لم یرحم صغیرنا ویوقر کبیرنا28
وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر
رحم اورہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔
یعنی ہمارے طریقہ پر نہیں اور وہ برات سے کنایہ ہے ۔یعنی ہمارے بچوں پر رحم کرنے والوں میں سے اور ہمارے بڑوں کی عزت وعظمت نہ کرنے والا ہو۔اس میں جوان اور بوڑھے شامل ہیں۔
غرض بہنوں ،بیٹیوں اور أولاد کی پرورش ،تعلیم وتربیت ،نکاح،وراثت اور ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا وغیرہ والدین کے فرائض میں شامل ہے۔
(۳)زوجین کے حقوق وفرائض :
اسلام سے پہلے موجود اخلاقی مذاہب میں ازدواجی تعلقات کو کافی حد تک اخلاق اور روح کی ترقی میں رکاوٹ تسلیم کیا جاتا تھا۔ اسلام نے اس نظریے کو باطل قرار دیتے ہوئے ازدواجی تعلق کو اخلاق اور روح کی ترقی وتکمیل کا ممکنہ ذریعہ قرار دیا۔
زمانہ جاہلیت میں بیویوں کو عزت اور مقام حاصل نہیں تھا۔انہیں معمولی باتوں پر مارا پیٹا جاتااور حقیر سمجھا جاتا۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور نبی مکرم ﷺ نے اپنی احادیث میں خواتین کے حقوق اور ان سے متعلق احکامات بیان فرمائے۔ آپ ؐ نے عبادت وریاضت کے ساتھ ساتھ حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ،جن میں بیوی کے حقوق بھی شامل ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص جو بہت زیادہ عبادت گزار تھے لیکن اپنی زوجہ کے حقوق کی طرف متوجہ نہیں تھے ۔آپؐ کو جب اس چیز کا علم ہو تو آپؐ نے انہیں بلا کر فرمایا :
يا عبد الله ألم أخبر أنك تصوم النهار وتقوم الليل قلت بلى يا رسول الله قال فلا تفعل صم وأفطر وقم ونم فإن لجسدك عليك حقا وإن لعينك عليك حقا وإن لزوجك عليك حقا29
اے عبداللہ !کیا میں نے تمہیں دن میں روزہ رکھنے اور رات کوقیام کرنے کے لئے نہیں کہا تھا؟میں (عبداللہ)نے کہا ہاں کیوں نہیں،اے اللہ کے رسولؐ ! فرمایا : نہ کرو ،روزہ رکھ اور إفطار کر اور کھڑا ہو اور سو،پس بے شک تیرے جسم کا تیرے اوپر حق ہےاور بے شک تیری آنکھ کا تیرے اوپر حق ہےاور بے شک تیری بیوی کا تیرے اوپر حق ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپؐ نے عبادات کو کافی نہیں سمجھا بلکہ ان کے ساتھ حقوق کی ادئیگی کو بھی لازم قرار دیا۔نیز آپؐ نے عبادات اور حقوق کی ادائیگی میں توازن قائم فرمایا۔
آپؐ نے زوجہ کو وہ بنیادی حقوق عطا کئے جن سے وہ زمانہ جاہلیت میں محروم تھی۔اس کی بنیادی ضرویات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو مارنے اور برا بھلا یا بدصورت کہنے سے منع فرمایا۔اس کے ساتھ حسن سلوک اورنرمی کرنے کا حکم دیا ۔ تنبیہا اس سے گھر میں ہی کچھ وقت کے لئے علیحدگی اختیار کرنے کی تعلیم ارشاد فرمائی۔
عن حكيم بن معاوية القشيري عن أبيه قال قلت يا رسول الله ما حق زوجة أحدنا عليه قال أن تطعمها إذا طعمت وتكسوها إذا اكتسيت أو اكتسبت ولا تضرب الوجه ولا تقبح ولا تهجرإلا في البيت۔30
حکیم بن معاویہ قشیری سے اوروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں،انہوں نے کہا :میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہماری بیوی کا خاوند پر کیا حق ہے؟ فرمایا :اس کو کھلاؤ جب خود کھاؤ اور اس کو پہناؤجب خود پہنو اور اس کے منہ پر نہ مارو اور اس کو برا نہ کہہ اور اس سے جدائی نہ کر مگر گھر میں۔
اس کے علاوہ مرد کے فرائض میں بیوی کے مالی حقوق شامل ہیں ۔جن میں حق مہر،نان نفقہ ،أولاد کی پرورش اورتعلیم وتربیت کا خرچ ،وراثت وغیرہ شامل ہیں۔فقہاء نے نان نفقہ کا حق درج ذیل حدیث سے اخذ کیا ہے:
عن عائشة أن هند بنت عتبة قالت يا رسول الله إن أبا سفيان رجل شحيح وليس يعطيني ما يكفيني وولدي إلا ما أخذت منه وهو لا يعلم فقال خذي ما يكفيك وولدك بالمعروف31
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ہند بنت عتبہ نےعرض کیا ‘اے اللہ کے رسول!ابو سفیان (ان کے شوہر )بخیل آدمی ہیں اور مجھے اتنا نہیں دیتے جو میرے اور میرے بچوں کے لئے کافی ہو سکے۔ہاں اگر میں ان کی لاعلمی میں ان کے مال میں سے لے لوں (تو کام چلتا ہے)آنحضرت ﷺ نے فرمایا :تم دستور کے مطابق اتنا لے سکتی ہو جو تمہارے اور تمہارے بچوں کے لئے کافی ہو سکے۔
خطبہ حجۃ الوداع جو انسانی حقوق کا بنیادی اور عالمی منشور ہے،اس میں بھی آپؐ نے خواتین کے حقوق ادا کرنے کی خاص تاکید فرمائی:
استوصوا بالنساء خيرا فإنهن عندكم عوان ليس تملكون منهن شيئا غير ذلك إلا أن يأتين بفاحشة مبينة فإن فعلن فاهجروهن في المضاجع واضربوهن ضربا غير مبرح فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا إن لكم من نسائكم حقا ولنسائكم عليكم حقا فأما حقكم على نسائكم فلا يوطئن فرشكم من تكرهون ولا يأذن في بيوتكم لمن تكرهون ألا وحقهن عليكم أن تحسنوا إليهن في كسوتهن وطعامهن32
عورتوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے بارے میں میری وصیت کو قبول کرو۔وہ تمہارے قبضہ میں ہیں۔تم کو اس کے علاوہ ان پر کوئی اختیار نہیں۔مگر یہ کہ وہ کھلی بے حیائی کے ساتھ آئیں۔پھر اگر وہ ایسا کریں تو ان کو اتنا مارو جو تکلیف دہ نہ ہو۔پھر اگر وہ تمہاری تابعداری کریں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔بے شک تمہارے لئے تمہاری عورتوں میں سے حق ہے اورتمہاری عورتوں کے لئے تم پر حق ہے۔جہاں تک تمہاری عورتوں پر تمہارا حق ہے وہ تمہارے بستر کو نہ روندوائیں،جسے تم نا پسند کرتے ہو۔اور تمہارے گھروں میں اس شخص کو اجازت نہ دیں جس کو تم ناپسند کرتے ہو۔خبر دار رہو اور ان عورتوں کا حق تم پر ہےکہ تم ان کے ساتھ ان کے پہننے اور ان کے کھانے میں احسان کرو۔
بستر روندوانے سے مراد یہ ہے کہ ایسے مرد خاوند کی غیر موجودگی میں نہ آئیں جن کا آنا اس کے خاوند کو ناگوار اور مشکوک معلوم ہو۔کھلی بے حیائی میں خاوند کی نافرمانی،بدزبانی اور مشکوک چال چلن شامل ہیں۔ضرب غیر مبرح سے مراد ایسی مار جس سے خاتون کے کسی عضو کو نقصان نہ پہنچے۔اس سے مقصود مسواک وغیرہ سے مارنا ہے۔یہ صرف تنبیہ ہےورنہ عورتوں کو مارنا اسلامی تہذیب کے خلاف ہے ۔33
جس طرح آپؐ نے بیویوں کے حقوق بیان فرمائے اسی طرح آپؐ نے خاوند کے حقوق کو بھی بیان فرمایا ۔ حضرت قیس بن سعدؓ حیرہ کی طرف سے آئے اور وہاں انہوں نے ان لوگوں کو دیکھا کہ وہ مرزبان کا سجدہ کر رہے ہیں ۔انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے کہا کہ آپ تو اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپؐ کو سجدہ کیا جائے ۔نبی اکرم ؐ نے فرمایا کیاتو میری قبر کے پاس سے گزرے گا ،کیا تو اسے سجدہ کرے گا؟میں نے کہا نہیں۔فرمایا :
فلا تفعلوا لو كنت آمرا أحدا أن يسجد لأحد لأمرت النساءأن يسجدن لأزواجهن لما جعل الله لهم عليهن من الحق34
تم نہ کرو اگر میں کسی ایک کو حکم دیتا کہ وہ کسی ایک کا سجدہ کرے تو میں بیویوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں اسکے لئے جو اللہ نے ان کے لئے ان عورتوں پر حق میں سے کر دیا ہے۔
دوسری حدیث میں خاوند کے حقوق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فلم تأته فبات غضبان عليها لعنتها الملائكة حتى تصبح35
حضرت أبو ہریرہؓ نبی ؐ سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایاجب آدمی اپنی عورت کو بستر کی طرف بلائے ،اگر وہ انکار کر دے اور اس کے پاس نہ آئے اور وہ (خاوند) اس پر ناراضگی کی حالت میں رات گزاردے،اس عورت پر فرشتے صبح تک لعنت کرتے ہیں۔
(۴)رشتہ داروں کے حقوق:
آپؐ نے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی یعنی رشتہ داری جوڑنے کا حکم دیا اور رشتہ داری توڑنے یعنی قطع رحمی کے بارے میں سخت وعید ارشاد فرمائی ہے:
ایک شخص نے نبی مکرم ﷺ سے سوال کیا ،جنت میں داخل کرنے والے عمل کے بارے میں آگاہ فرمائیے۔آپؐ نے فرمایا:
تعبد اللہ لاتشرک بہ شیئا وتقیم الصلاۃ وتوتی الزکاۃ وتصل االرحم36
تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرواور نماز قائم کرو اور زکٰوۃ ادا کرو اور رشتہ داری کو جوڑو۔
اسی طرح آپؐ نے رشتہ داری توڑنے پر جنت میں داخل نہ ہونے کی وعید سنائی ۔حضرت جبیر بن مطعم نے حضورؐ کو فرماتے
ہوئے سنا:
لا یدخل الجنۃ قاطع 37
رشتہ داری توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا
آپؐ نے صلہ رحمی کے فوائد بیان فرمائے۔حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
من احب ان یبسط لہ فی رزقہ وینسا لہ فی اثرہ فلیصل رحمہ 38
جو چاہتا ہوکہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمر دراز ہو تووہ صلہ رحمی کیا کرے۔
بعض لوگ صلہ رحمی کا حق مال دےکر ادا کرتے ہیں ۔اس سے ان کے مال میں اضافہ ہو گا ۔جبکہ بعض لوگ اپنی عمر دے کر صلہ رحمی کا حق ادا کرتے ہیں ۔اس سے ان کی عمر میں اضافہ ہو گا۔
آپؐ کی کچھ احادیث میں یہ تصریح موجود ہے کہ رحم کا تعلق رحمان سے ہے ۔اس لئے جو رحم سے جڑتا ہے وہ رحمان سے جڑتا ہے اور جو رحم سے کٹتا ہے وہ رحمان سے کٹ جاتا ہے۔حضرت أبو ہریرہؓ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا:
ان الرحم شجنۃ من الرحمٰن فقال اللہ من
وصلک وصلتہ ومن قطعک قطعتہ39
رحم کا تعلق رحمان سے جڑا ہوا ہے پس جو کوئی اس سےاپنے آپ کو جوڑتا ہے اللہ پاک نے فرمایا کہ میں بھی اس کو اپنے آپ سے جوڑ لیتا ہوں اور جو کوئی اسے توڑتا ہے میں بھی اپنے آپ کو اس سے توڑ لیتا ہوں۔
(5)ہمسایہ کے حقوق :
ہمسایہ فارسی زبان کا لفظ ہے ۔عربی میں پڑوسی کے لئے جار کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔قرآن مجید میں پڑوسی کی تین اقسام بیان کی گئی ہیں ۔ایک رشتہ دار ،دوسرے غیررشتہ دار اور تیسرے عارضی پڑوسی۔40نبی اکرم ؐ کی بیشتر احادیث میں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔آپؐ نے اس شخص کے مومن ہونے سے انکار کیا ،جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں ہے:
واللہ لا یومن واللہ لایومن واللہ لا یومن قیل ومن یا رسول اللہ قال الذی لایامن جارہ بوایقہ41
اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں۔کہا گیا کون اے اللہ کے رسولؐ فرمایا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں ہے۔
ایمان کا تقاضایہ ہے کہ پڑوسی کی عزت کی جائے اور اسے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائی جائے ۔اس سلسلہ میں آپؐ کے إرشادات گرامی ہیں:
من کان یومن باللہ والیوم الاٰخر فلا یؤذ جارہ42
جو اللہ اوریوم آخرت پر امید رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔
اسی طرح فرمایا
من کان یومن باللہ والیوم الاٰخر فلیکرم جارہ43
جو اللہ اور یوم آخرت پر امید رکھتا ہو اسے چاہیےکہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔
ایک حدیث میں آپؐ نے فرمایا :
واحسن الی جارک تکن مؤمنا44
اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کر تو مومن ہو جائے گا۔
حضرت جبرائیلؑ نے نبی اکرم ﷺ کو پڑوسیوں کے حقوق کی اتنی وصیت فرمائی کہ آپؐ کو گمان ہونے لگا کہ کہیں
پڑوسی کووراثت میں حق نہ دے دیا جائے ۔حضرت عائشہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا :
مازال یوصینی جبریل بالجارحتی ظننت انہ سیورثہ45
جبریل نے مجھے پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید کی کہ میں سمجھا کہ کہیں ان کووراثت کا حق نہ دلا دیں۔
اس حدیث کی تصریح میں حافظ ابن حجر عسقلانی نے بہت جامعیت کے ساتھ پڑوسیوں کے حقوق بیان کئے ہیں جن کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت جبرائیلؑ اللہ کی طرف سے پڑوسی کے لئے وراثت کا حکم دیں گے۔اس وراثت کی مراد میں اختلاف ہے ۔ایک تو اس سے مراد مال میں شراکت داری ہے جو قرابت داری کے حق میں دیگر رشتہ داروں کے ساتھ دیا جائے گا۔اس سے مرادیہ بھی ہے کہ وہ گھر میں لائے گا جو نیکی اور صلہ رحمی سے وراثت دیا گیا۔۔اور خبر علامت ہے کہ وراثت واقع نہیں ہوتی۔اوراسکی تائید کرتی ہے جسے بخاری نےحضرت جابرؓ کی حدیث سے اخذ کیا ہے۔جیسے اس باب کی حدیث ان الفاظ کے ساتھ کہ یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ اس کے لئے میراث کر دی جائے گی۔اور ابن ابی حمزہ نے کہا میراث دو قسموں پر ہے حسی و معنوی ۔ پس یہاں وہ حسی مراد ہےاور معنوی علم کی میراث ہے ۔اور ممکن ہے کہ یہاں اس کا بھی لحاظ رکھا جائے۔پس پڑوسی کا پڑوسی پر حق ہے کہ اسے تعلیم دے جس کی اسے ضرورت ہے۔اور اللہ خوب جانتا ہے۔
شیخ أبو محمد بن ابی حمزہ نے کہا پڑوسی کی حفاظت کرنا کمال ایمان میں سے ہےاور جاہلیت والے اس پر نگرانی کرتے تھے۔اس وصیت کو بیان کرنے سے اس تک طاقت کے مطابق احسان کی جملہ اقسام کی فراہمی حاصل ہو گی۔جیسے تحفہ اور سلام کرنا اور اس سے ملاقات کے وقت چہرے کی خوشگواری اور اس کا حال معلوم کرنا اوراس کے علاوہ جس چیز کی اسےضرورت ہو اس میں اس سے تعاون کرنااور اس سے تکلیف پہچانے والے ذرائع کو روکنا۔۔۔اور نبی ﷺ نے اس کے ایمان کی نفی کی جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں ہے۔جیسے اس حدیث میں ہے جو ذیل میں درج ہے ۔اور وہ مبالغہ آرائی ہےجو پڑوسی کے حقوق سے متعلق پیشین گوئی ہےاور بے شک پڑوسی کو نقصان پہنچانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
اعمال کے اعتبار سے پڑوسی کی دو قسمیں ہیں :صالح اور غیر صالح ۔ان دونوں کے لئے اچھائی کاارادہ اور اچھائی کے ساتھ ان کو وعظ ونصیحت اور ان کے لئے ہدایت کی دعا اور ان کانقصان نہ کرنا ۔سوائے اس مقام کے جہاں انہیں بات اور عمل سے تکلیف پہچانا واجب ہو جاتا ہے۔غیر صالح (پڑوسی ) کو اس برائی سےجس کا وہ ارتکاب کرتا ہے معاملات کے مطابق اچھائی کے ساتھ ہٹانا ، ا مر بالمعروف اور نہی عن المنکر ،کافر کو اسلام کی پیشکش کر کے ،اس کی خوبیاں بیان کر کے اسے تعلیم دی جائے گی۔اور اس میں رغبت دلانی ہے نرمی کے ساتھ۔اور فاسق کو نرمی سے نصیحت کرنی ہے جو اس کے مناسب ہے۔46
(6)کمزور طبقوں کے حقوق :
انسانی حقوق کے سلسلہ میں آپؐ کا کمال یہ ہے کہ آپؐ نے معاشرے کے کمزور طبقات کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دی ۔یہ طبقات مختلف انسانی معاشروں میں طاقتور لوگوں کے ظلم وستم کانشانہ تھے ۔انہیں انسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ان میں خواتین ،بیوہ ،غلام اور یتیم وغیرہ شامل تھے۔زمانہ جاہلیت میں بیوہ عورتوں سے نکاح کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔آپؐ نے بیوہ عورتوں سے نکاح کیا اور ان سے نکاح کرنے کی ترغیب دی ۔آپؐ نے بیوہ کی دیکھ بھال کرنے کو جہاد جیسے عمل کے مشابہ قرار دیا۔حضرت أبو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
الساعی علی الارملۃ والمسکین کالمجاہد فی سبیل اللہ واحسبہ قال وکالقائم لایفتر و کالصائم لایفطر47
بیوہ اور مسکین کے لئے کوشش کرنے والا ،اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ۔(راوی کہتا ہے کہ )میں گمان کرتا ہوں کہ آپؐ نے یہ بھی فرمایا جیسے وہ نماز جو نماز سے نہیں تھکتا اور وہ روزہ دارجو کبھی اپنا روزہ نہیں توڑتا ۔
یتیم کی پرورش کرنے والے کو جنت میں صحبت نبویؐ کا حقدار قرار دیا ،ارشاد نبوی ؐہے :
انا وکافل الیتیم فی الجنۃ ھکذاوقال باصبعیہ السبابۃ والوسطی 48
میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپؐ نے شہادت اور درمیانی انگلیوں کے ساتھ ارشاد فرمایا۔
جاہلیت کے معاشرے میں غلاموں کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ان کے ساتھ غیر انسانی اور جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔آپؐ نے غلاموں کے ساتھ نرمی کرنے ،انہیں تکلیف نہ دینے ،ان کی طاقت سے زیادہ کام نہ لینے اور اپنی طرح کھلانے اور پہنانے کا حکم دیا۔حضرت أبو ذرؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
اخوانکم جعلھم اللہ تحت ایدیکم فمن جعل اللہ اخاہ تحت یدہ فلیطعمہ مما یاکل ولیلبسہ مما یلبس ولا یکلفہ من العمل مایغلبہ فان کلفہ ما یغلبہ فلیعنہ علیہ 49
تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں اللہ نے ان کو تمہارے ماتحت کر دیا ہے ۔جس کواللہ کسی کے تحت کر دے اس کو چاہیے کہ غلام کو کھلائے جس سے آپ کھاتا ہے ۔جو آپ پہنے اسی سے اس کو پلائے اس کام کی تکلیف نہ دے جو اس سے نہ ہو سکے۔اگر اس کو اس کام کی تکلیف دے جو اس سے نہ ہو سکتاتو خود اس کی مدد کرے ۔
(7)غیر مسلموں کے حقوق وفرائض :
نبی اکرم ﷺ نے اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلموں کو حقوق عطا کئے۔غزوہ خیبر میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات کے مطابق غیر مسلموں کا پہلا حق یہ ہے کہ ان پر اسلام پیش کیا جائے ۔اگر وہ قبول کرلیں تو ان کو مسلمانوں کی طرح حقوق حاصل ہوں گے ۔ اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو انہیں جزیہ دینا ہوگا ۔اگر وہ جزیہ نہ دیں تو پھر ان کے ساتھ جنگ کی مشروط اجازت دی گئی ہے ۔لیکن اس جنگ میں مسلمان پہل نہیں کریں گے ۔عورتوں اور بچوں کو قتل نہیں کریں گے ۔کھڑی فصلوں اور باغات کو تباہ نہیں کریں گے ۔کسی مذہب کے پیشواؤں کو قتل نہیں کریں گے ۔کسی کلمہ اسلام کہنے والے کو قتل نہیں کریں گے۔
اہل ذمہ یعنی وہ غیر مسلم جو اسلامی ریاست کو جزیہ (ٹیکس) دیتے ہیں اور اس کے بدلے میں اسلامی حکومت ان کی جان مال اور عزت کی حفاظت کرتی ہے ۔ان کے قاتل کو جنت کی خوشبو سے محروم قرار دیا ۔حضرت عبد اللہ بن عمرو سے مروی حدیث میں ارشاد فرمایا :
من قتل معاهدا لم يرح رائحة الجنة وإن ريحها توجد من مسيرة أربعين عاما50
جس نے کسی ذمی کو (ناحق) قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے سونگھی جاسکتی ہے۔
کسی ذمی کا حق غصب کرنے یا ظلم کرنے والے مسلمان کے لئے یہ وعید ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے رسولؐ اس مسلمان کے خلاف ذمی کی طرف سے وکیل ہوں گے ۔
عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ألا من ظلم معاهدا أو انتقصه أو كلفه فوق طاقته أو أخذ منه شيئا بغير طيب نفس فأنا حجيجه يومالقيامة51
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا یا اس کا کوئی حق چھینا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالا یا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی مرضی کے لے لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے وکیل ہوں گا۔
یہ لمحہ فکریہ ہے ان لوگوں کے لئے جو کسی فرقے اور مسلک کی بنیاد پرکافر قرار دے کر لوگوں کا قتل عام کرتے ہیں ۔انسانی حقوق پامال کرتے ہیں کہ قیامت کے دن کس ظالم کے خلاف اللہ کے رسول وکیل ہوں گے ؟جس دن ان کی شفاعت کی ضرورت ہو گی ، اس دن یہ بدقسمت ان کی رحمت اور شفاعت سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔
حضرت عرباض بن ساریہ ؓبیان کرتے ہیں کہ خیبر کے موقع پر نماز ادا کرنے کے بعد ایک طویل خطبہ میں ارشاد فرمایا :
إن الله عز وجل لم يحل لكم أن تدخلوا بيوت أهل الكتاب إلا بإذن ولا ضرب نسائهم ولا أكل ثمارهم إذا أعطوكم الذي عليهم52
بے شک اللہ بزرگ وبرتر نے تمہارے لئے بغیر اجازت اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہونے کو حلال نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کی عورتوں کو مارنے اور نہ ہی ان کے پھل کھانے کو، جب تک کہ وہ تمہیں وہ چیزیں ( یعنی جزیہ ) دیتے رہیں جو (تمہارا) ان پر ہے ۔
علامہ یوسف قرضاوی لکھتے ہیں :
ہر حق کے مقابل بلا شبہ ایک فرض بھی ہوا کرتا ہے ۔ذمیوں پر عائد ہونے والے فرائض درج ذیل ہیں:
(1)مالی فرائض :جزیہ ،خراج،تجارتی ٹیکس کی ادائیگی ۔
(2)دیوانی معاملات وغیرہ میں قانون اسلامی کے احکام کی پابندی ۔
(3)مسلمانوں کے دینی شعائر اور احساسات وجذبات کا خیال رکھنا ۔53
غرض سیرۃ النبی ﷺ میں اسلامی حقوق وفرائض کا ایک جامع اور وسیع تصور موجود ہے ۔آپؐ کے اس تصور کے کوئی سیاسی یا تہذیبی مقاصد نہیں ہیں بلکہ انسانیت پر احسان ہے۔آپﷺ محسن انسانیت اور معلم انسانیت ہیں ۔سیرۃ النبی ﷺ کے اس تصور پر عمل کرنے سے انسانیت کو معراج ملے گی ۔آپؐ کے إرشادات تمام ملل ،اقوام اور مذاہب کے لئے مشعل راہ ہیں ۔معاشرے میں امن ہو گا اور جرائم میں کمی واقع ہو گی ۔ مسلم ممالک اور معاشروں میں اس تصور کو اجاگر کرنے اور عملی طور پرنمونہ فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔اب یہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان حقوق وفرائض کو ادا کرکےاللہ تعالی اور اس کے رسولؐ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
حوالہ وحواشی
1Lecturer, Govt Post Graduate College Mianwali
1عبدالحفیظ بلیاوی،مصباح اللغات(ملتان ،مکتبہ امدادیہ ،1950ء)ص:166،165
2علامہ وحیدالزمانؒ،لغات الحدیث (لاہور،نعمانی کتب خانہ ،2005ء)ج:1،ص:476
3 علامہ وحیدالزمانؒ،لغات الحدیث (لاہور،نعمانی کتب خانہ ،2005ء)ج:1،ص:480
4 امام راغب اصفہانی مترجم مولانا محمد عبدہ،مفردات القرآن (لاہور:اہل حدیث اکادمی،1971ء)ص:250
5 سید سلیمان ندوی،سیرۃ النبی ﷺ (لاہور:الفیصل ناشران ،1991ء)ج:6،ص:107
6 امام راغب اصفہانی مترجم مولانا محمد عبدہ،مفردات القرآن (لاہور:اہل حدیث اکادمی،1971ء)ص:790،789
7 محمد امین بن عمر ،مترجم ملک محمد بوستان وغیرہ ردالمحتار یعنی فتاوی شامی مترجم(لاہور:ضیاء القرآن پبلیکیشنز،2017ء)ج:1،ص:220
8 سید سلیمان ندوی،سیرۃ النبی ﷺ (لاہور:الفیصل ناشران ،1991ء)ج:6،ص:8
9 ابراہیم بن موسی الشاطبی،مترجم مولانا عبد الرحمٰن کیلانی،الموافقات فی اصول الشریعہ (لاہور:دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری ،1993ء)ص:213
10 صحیح بخاری،کتاب الجہاد والسیر باب اسم الفرس والحمار،رقم :2701
11 علامہ وحیدالزمانؒ،لغات الحدیث (لاہور،نعمانی کتب خانہ ،2005ء)ج:1،ص:476
12 محمد امین بن عمر ،مترجم ملک محمد بوستان وغیرہ ردالمحتار یعنی فتاوی شامی مترجم(لاہور:ضیاء القرآن پبلیکیشنز،2017ء)ج:1،ص:233
13 پروفیسر ڈاکٹر سلیمان بن عبد الرحمٰن الحقیل ،مترجم عبد الجبار،اسلام میں انسانی حقوق اور ان سے متعلق پھیلائے گئے شبہات کے جوابات (لاہور:الھادی للنشر والتوزیع ،2011ء)ص:72
14 مولانا اشرف علی تھانوی،مرتب محمد اقبال قریشی،حقوق العباد :اہمیت،فضائل،مسائل(لاہور،کراچی:ادارہ اسلامیات،1427ھ)ص:48،49
15 زاہد الراشدی ،أبو عمار،اسلام اور انسانی حقوق(گوجرانوالہ،الشریعہ اکادمی،2011ء)ص:40،16
16 صحیح مسلم ،کتاب البر والصلۃ والآداب،باب تحریم الظلم ،رقم :2581
17 صحیح البخاری ،کتاب المظالم،باب من کانت لہ مظلمۃعند الرجل ،رقم :2317
18 سنن الترمذی ،کتاب الجھاد عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،باب ما جاء فیمن خرج فی الغزووترک ابویہ ،رقم :1671
19 صحیح البخاری ،کتاب مواقیت الصلاۃ،باب فضل الصلاۃ لوقتھا،رقم:504
20 صحیح البخاری،کتاب الادب،باب عقوق الوالدین من الکبائر،رقم:5631
21 سنن ترمذی،کتاب البر والصلۃ عن رسول اللہ ﷺ،باب ما جاء من الفضل فی رضاالوالدین،رقم :1899
22 سنن النسائی ،کتاب الزکاۃ،باب المنان بما اعطی ،رقم :2562
23 سنن النسائی،کتاب الجھاد ،باب الرخصۃ فی التخلف لمن لہ والدۃ،رقم :3104
24 صحیح بخاری کتاب الاستقراض،باب ما ینھی عن اضاعۃ المال ،رقم :2277
25سنن ابی داؤد ،أبواب النوم باب فی فضل من عال یتیما،رقم : 5147
26 سنن ترمذی،کتاب البر والصلۃعن رسول اللہ ﷺ،باب ما جائ فی النفقۃ علی البنات والاخوات،رقم :1916
27 صحیح مسلم ،کتاب الفضائل ،باب رحمتہ ﷺ الصبیان والعیال۔۔رقم :2318
28 سنن الترمذی ،کتاب البر والصلۃعن رسول اللہ ﷺ ،باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان،رقم:1919
29 صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب لزوجک علیک حق،رقم:4903
30 سنن ابی داؤد،کتاب النکاح،باب فی حق المراۃ علی زوجھا،رقم :2142
31 صحیح البخاری،کتاب النفقات،باب إذا لم ينفق الرجل فللمرأة أن تأخذ بغير علمه ما يكفيها وولدها بالمعروف،رقم: 5049
32 سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب حق المراۃ علی الزوج،رقم :1851
33 سید سلیمان ندوی،سیرۃ النبی ﷺ (لاہور:الفیصل ناشران ،1991ء)ج:6،ص:137
34 سنن ابی داؤد،کتاب النکاح ، باب في حق الزوج على المرأة،رقم: 2140
35 سنن ابی داؤد،کتاب النکاح ، باب في حق الزوج على المرأة،رقم:2141
36 صحیح البخاری ،کتاب الادب ،باب فضل صلۃ الرحم ،رقم: 5637
37صحیح البخاری ،کتاب الادب ،باب اثم القاطع ،رقم: 5638
38 صحیح البخاری ،کتاب الادب ،باب من بسط لہ فی الرزق بصلۃ الرحم ،رقم : 5640
39 صحیح البخاری ،کتاب الادب ،باب من وصل وصلہ اللہ ،رقم :5642
40 النسآء36:4
41 صحیح البخاری ،کتاب الادب ،باب اثم من لا یامن جارہ بوایقہ،رقم :5670
42 صحیح البخاری ،کتاب الادب ،باب من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلا یوذ جارہ،رقم :5672
43 صحیح البخاری ،کتاب الادب ،باب من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلا یوذ جارہ،رقم :5673
44 سنن ترمذی،کتاب الزھد عن رسول اللہ ﷺباب من اتقی المحارم فھو اعبد الناس،رقم :2305
45 صحیح البخاری ،کتاب الادب ،باب الوصاۃ بالجار،رقم :5668
46 حافظ ابن حجر عسقلانی ،فتح الباری معصحیح البخاری تحت کتاب الادب ،باب الوصاۃ بالجار،(موسوعۃ الحدیث الشریف ) رقم :5668
47 صحیح مسلم ،کتاب الزھد والرقاق ،باب الاحسان الی ارملۃ والمسکین والیتیم،رقم :2982
48 صحیح البخاری ،کتاب الادب ،باب فضل من یعول یتیما ،رقم :5659
49 صحیح البخاری،کتاب الادب ،باب ما ینھی من السباب واللعن،رقم :5703
50 صحیح البخاری ،کتاب الجزیہ ،باب اثم من قتل معاھدا بغیر جرم ،رقم :2995
51سنن ابی داود کتاب الخراج والامارۃ والفیءباب فی تعشیر اھل الذمۃاذااختلفوا بالتجارات،رقم :3052
52 سنن ابی داود کتاب الخراج والامارۃ والفیءباب فی تعشیر اھل الذمۃاذااختلفوا بالتجارات،رقم :3050
53 یوسف القرضاوی ،مترجم ومحقق قیصر شہزاد،اسلامی معاشرے میں غیر مسلموں کے حقوق وفرائض (اسلام آباد:ادارہ تحقیقات اسلامی ،2011ء) ص:47
مصادر ومراجع
-
القرآن الکریم (Quran for android)
-
ابراہیم بن موسی الشاطبی،مترجم مولانا عبد الرحمٰن کیلانی،الموافقات فی اصول الشریعہ (لاہور:دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری ،1993ء)
-
احمد بن علی ،عبدالرحمٰن ،سنن نسائی (www.library.islamweb.net)
-
احمد بن علی ،حافظ ابن حجر عسقلانی ،فتح الباری(www.library.islamweb.net)
-
اشرف علی تھانوی،مرتب محمد اقبال قریشی،حقوق العباد :اہمیت،فضائل،مسائل(لاہور،کراچی:ادارہ اسلامیات،1427ھ)
-
خطبات (اسلام آباد:وزارت مذہبی أمور حکومت پاکستان ،س ن)
-
راغب اصفہانی،امام، مترجم مولانا محمد عبدہ،مفردات القرآن (لاہور:اہل حدیث اکادمی،1971ء)
-
زاہد الراشدی ،أبو عمار،اسلام اور انسانی حقوق(گوجرانوالہ،الشریعہ اکادمی،2011ء)
-
سلیمان ندوی،سید،سیرۃ النبی ﷺ (لاہور:الفیصل ناشران ،1991ء)
-
سلیمان بن عبد الرحمٰن الحقیل ، پروفیسر ڈاکٹر ،مترجم عبد الجبار،اسلام میں انسانی حقوق اور ان سے متعلق پھیلائے گئے شبہات کے جوابات (لاہور:الھادی للنشر والتوزیع ،2011ء)
-
شعبہ تحقیق و مراجع ،مقالات سیرت النبی ﷺ(اسلام آباد:وزارت مذہبی امور،2001ء)
-
عبدالحفیظ بلیاوی،مصباح اللغات(ملتان ،مکتبہ امدادیہ ،1950ء)
-
عبد الرحمٰن مبارکپوری،مولانا،تحفۃ الاحوذی(www.library.islamweb.net)
-
وحیدالزمانؒ،علامہ ،لغات الحدیث (لاہور،نعمانی کتب خانہ ،2005ء)
-
محمد بن اسماعیل ،امام ،أبو عبداللہ ، صحیح البخاری(www.library.islamweb.net)
-
محمد بن عیسیٰ،أبو عیسی ،سنن ترمذی (www.library.islamweb.net)
-
محمد نواز چوہدری ومصنفین ،رواداری اور انسانی حقوق(لاہور :قریشی برادرز پبلشرز،2018ء)
-
محمد امین بن عمر ،مترجم ملک محمد بوستان وغیرہ ردالمحتار یعنی فتاوی شامی مترجم(لاہور:ضیاء القرآن پبلیکیشنز،2017ء)
-
مسلم بن حجاج قشیری،ابوالحسین، صحیح مسلم (www.library.islamweb.net)
-
یوسف القرضاوی ،مترجم قیصر شہزاد،اسلامی معاشرے میں غیر مسلموں کے حقوق وفرائض (اسلام آباد:ادارہ تحقیقات اسلامی ،2011ء)
1
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |