1
2
2022
1682060075860_3012
https://ojs.almithaqjournal.com/index.php/Main/article/view/16/11
https://ojs.almithaqjournal.com/index.php/Main/article/view/16
فاتح قادیان شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری نے دفاع و خدمتِ اسلام کے لیے میدان مناظرہ کے علاوہ جس فن کا انتخاب کیا وہ فن تصنیف و تالیف ہے۔ آپ کی تصنیفی وتالیفی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ آپ نے تحصیل علم کے متصل بعد ہی اس فن کو عملی طور پر اپنا لیا اور اس کا آغاز تفسیر ثنائی سے کیا1۔ 1890ءمیں اس کی پہلی جلد شائع کی2اور پھر یہ محاذ آپ کے لیے صبح و شام کی مصروفیت بن گیا۔
تفسیر ،حدیث ،فلسفہ، منطق ، علم الکلام اور سب سے زیادہ آپ نے جس موضوع پر لکھا وہ تقابل ادیان ہے ۔ آپ کے قلم کو ادیان باطلہ کے رد میں بہت قوت حاصل تھی ۔بیسویں صدی کے آغاز سےآپ نے ان موضوعات پر لکھنا شروع کیا اور زندگی کے آخری لمحات تک یہ سلسلہ جاری رہا 3۔جس موضوع پر قلم اٹھاتے علم و تحقیق کی نئی راہیں کھولتے جاتے۔ آپ کی یہ تصانیف آپ کے وسیع مطالعہ ،علمی گہرائی اور اسلامی علوم و فنون پر گہری نظر کی آئینہ دار ہیں۔تقابل ادیان آپ کی دل چسپی کا مرکز رہا، باطل مذاہب و فرق کے خلاف آپ نے تحریری ،تصنیفی اور ایک منفرد تحقیقی ادب متعارف کروایا4 ۔
عام فہم اور سادہ اسلوب میں لکھتے جو بات کہنا چاہتے نہایت عمدگی سے اس کا اظہار کرتے اسی لئے آپ کے ذخیرہ تصنیف و تالیف میں جہاں علم و تہذیب موجود ہے وہاں اردو زبان و ادب کی فصاحت و چاشنی بھی پائی جاتی ہے۔
تفسیر ثنائی کا تعارف
تفسیر ثنائی ایک کلامی تفسیر ہے5۔ اس اردو تفسیر میں قرآن کا جو ترجمہ کیا گیا ہے وہ بامحاورہ اور عام فہم6 ہے۔ قرآنی الفاظ کی ایک عمدہ اسلوب پر تشریح کی گئی ہے قرآنی آیات کا باہمی ربط واضح کیا گیا ہے۔ مخالفین اسلام اور باطل مذاہب و فِرق کا علمی انداز میں جواب دیا گیا ہے7۔
تفسیر کی ابتداء میں مولانا امرتسریؒ نے ایک نہایت جامع مقدمہ تحریر فرمایا ہے جس میں صاحب قرآن امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی نبوت کے دلائل مختلف مذاہب کی کتابوں کی روشنی میں بیان کئے ہیں8۔ تفسیر کے لیے مولانا کا طریقہ کار یہ ہے کہ ایک کالم میں قرآن کا متن اور دوسرے کالم میں اس کا بامحاورہ ترجمہ مناسب و مختصر تشریح بیان کی ہے۔ اس تشریح کے بعد حواشی اور نوٹس تحریر فرمائے ہیں جن میں شان نزول کے بیان کے ساتھ تعلیمات و احکا ماتِ قُرآنی کو بیان فرمایا ہے اور اس دوران مخالفین اسلام کے اعتراضات کو رفع کیا ہے9۔
مولانا ثناءاللہ امرتسریؒ اپنے تفسیری منہج کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
"جو روش میں نے اختیار کی ہے یعنی ایک سلسلہ میں سارے مضمون کو لایا ہوں اس میں علماء مختلف ہیں ۔ آخر اس میں فعل نبی کابھی کچھ استحقاق ہے۔ اس لئے میں نے ایک آیت کو دوسرے سے جوڑ دیا اور تلاش کرنے سے کچھ نہ کچھ مناسبت بھی پائی ۔اکثر تفاسیر سے یہی حاصل کیا ہے
؎ وہ طرز بیان جدا ہے "ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر اسست"
میرا طرز بیان مجھ سے پہلے اردو تفاسیر میں نہیں آیا جس نے اختیار کیا وہ میرے بعدغالباً دیکھ کر کیا گیا ہے اس لئے مجھے خوشی ہے کہ
؎ اڑی طرز فغا ں بلبل نا لاں ہم سے گل نے سیکھی روش چا ک گریبا ں ہم سے10
اس سے معلوم ہوا کہ مولانا امرتسریؒ کے نزدیک اصل "قرآن و سنت "ہےاور باقی سب "اجماع وقیاس" وغیرہ ان کے تابع ہیں۔11
تفسیر القرآن بالقرآن
-
مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اپنی تفسیر بالما ثور میں جو منہج اختیا ر کیا ہے وہ سلف صالحین کامنہجِ تفسیر ہے۔ آپ سب سے پہلے تفسیر القرآن بالقرآن کا اہتمام کر تے ہیں اس ضمن میں الفاظ قرآن کی توضیح الفا ظ قرآن سے ، کلمات قرآن کی تشریح کلما ت قرآن اور آیات قرآن کی تفسیر ،آیات قرآن سے کرتے ہیں۔ جیسا کہ
﴿أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ﴾12
"اور وہ (صحابہ کرام) بہت سخت ہیں کفار پر"
اس آیت کی تفسیر میں سورہ بقرہ کی یہ آیت یبان کرتے ہیں:
﴿وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾13
"اور کرو تم لوگوں سے اچھی بات"
البتہ اس اصول میں ایک نکتہ ایسا ہے جس میں مولانا امرتسری نے فرق کیا ہے وہ یہ کہ آپ نے تفسیر القرآن بالقرآن میں اپنی رائے کو داخل کیا ہے، حالانکہ آیت کی تفسیر آیت کے ساتھ تبھی ہو سکتی ہے جب معلوم ہو کہ ان دونوں سے ایک ہی معنٰی مراد ہیں ،ایک ہی واقعہ یا قصہ سے متعلق ہیں اور حدیث نبوی یا صحابہ کے اقوال سے یہ تفسیر ثابت ہو۔ ایسا اگر نہ ہو تو آیت کی تفسیر آیت کے ساتھ تفسیر القرآن بالقرآن نہیں بلکہ تفسیر بالرائے کی نظیر ہے۔یہی وجہ ہے کہ کئی جید علماء کرام نے مولانا امرتسریؒ کے اس طرز تفسیر کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مولانا عبد اللہ محدث روپڑیؒ14نے اپنی کتاب "درایت تفسیری" میں اس نکتے کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے ان مقامات کی نشاندہی بھی کی ہے جہاں مولانا امرتسریؒ تفسیر القرآن بالقرآن کرتے ہوئے تفسیر بالرائے کی طرف چلے گئے ہیں15۔
-
مشترک قرآنی کلمات کوقرآنی کلمات سے ہی محدّد کرتے ہیں۔
﴿وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرّ﴾16
" اور اگر کافر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک ہمیشہ کا جادو ہے"
اس آیت میں کلمہ 'آیۃ' سے تفاسیر میں احکام ِشرعیۃ،علامت ِقدرت اور علامتِ نبوت مراد لیا گیا ہے۔ مولانا نے
﴿وَيُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ﴾17
"اور اللہ تمہارے لیے آیات کو کھول کھول کر بیان فرماتا ہے"
اس آیت میں کلمہ 'آیات 'سے "احکامِ شرعیہ" مراد لیا ہے۔
﴿وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ﴾18
"اور یقین کرنے والوں کے لیے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں"
یہاں کلمہ'آیات' سے مولانا نے علامتِ قدرت مراد لیا ہے۔
﴿هَذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً﴾19
"اللہ کی یہ اونٹنی تمہارے لیے معجزہ ہے"
اس موقع پر کلمہ 'آیۃ'سے مولانا 'علامتِ نبوت' مراد لیتے ہیں20۔
-
قرآنی مفردات کی وضاحت قرآنی جملوں سے کرتے ہیں۔
﴿وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى﴾21
"اور اس نے آپ کو بھٹکا ہوا پایا تو سیدھی راہ دکھائی"
اس آیت میں کلمہ مفرد 'ضالّا' کی تفسیر میں مولانا نے یہ آیتجملۃ بیان کی ہے22:
﴿مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ﴾23
"آپ نہ تو کتاب کو جانتے تھے اور نہ ہی ایمان کو"
-
مجملاتِ قرآنی کی تفسیر مبیناتِ قرآنی سے کر تے ہیں۔
﴿وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾24
"اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے بھی"
اس آیت کے اجمال کی تبیین مولانا نے سورہ حشر کی اس آیت سے فرمائی ہے25:
﴿ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ﴾26
"اے ہمارے رب ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ نہ پیدا ہونے دے، اے ہمارے رب تُو بڑا شفقت کرنے والا مہر بان ہے"
-
عمومِ قرآنی کو قرآن ہی سے خاص کرتےہیں۔ جیسا کہ
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُون﴾27
"اے اہل ایمان ! اگر تمہارے (ماں ) باپ اور (بہن) بھائی ایمان کے مقابل کفر کو پسند کریں تو ان سے دوستی نہ رکھو ، اور جو ان سے دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہیں"
اس آیت کے عموم کی تخصیص کے لیے سورہ لقمٰن کی یہ آیت پیش کرتے ہیں28:
﴿وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا﴾29
"اور اگر وہ تیرے در پے ہوں کہ تُو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا"
-
آیات قرآنی کے درمیان ظاہری تعارض کوقرآن ہی سے رفع کرتےہیں۔ جیسا کہ
﴿يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّون﴾30
"وہی آسمان سے زمین تک ہر کام کا انتظام کرتا ہے، پھر وہ ایک روز جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ہزار برس ہو گی ، اس کی طرف صعود کرے گا "
یہ آیت متعارض معلوم ہوتی ہے سورہ معارج کی اس آیت سے:
﴿تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ﴾31
"جس کی طرف روح الامین اور فرشتے چڑھتے ہیں ، (وہ اس روز نازل ہو گا) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہو گا"
اس تعارض کو سورہ حج کی اس آیت
﴿وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ﴾32
"اور (یہ لوگ) تم سے عذاب کے لیے جلدی کر رہے ہیں اور اللہ اپنے وعدہ کے خلاف ہر گز نہیں کرے گا، اور بے شک تمہارے رب کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کی رو سے ہزار برس کے برابر ہے"
سے رفع کرتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں کہالف سنۃ یا خمسین الف سنہ سے مراد تقرر مدت نہیں بلکہ طولِ مدت کا اظہار ہے۔
-
ایک آیت کی تفسیر میں دیگر تائیدی آیا ت بیا ن کرتےہیں۔ جیسا کہ
﴿لَانَبْتَغِيالْجَاهِلِينَ﴾33
"ہم جاہلوں کے خواستگار نہیں ہیں"
اس آیت کی تائید میں سورہ الفرقان کی یہ آیت پیش کرتے ہیں:
﴿وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا﴾34
"جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو یہ سلام کہتے ہیں"
-
آیت ایک ہے اس کی تفسیر کئی دیگر آیات قرآنی سے کرتے ہیں۔ جیسا کہ
﴿وَالصَّافَّاتِ صَفًّا﴾35
"قسم ہے صف باندھنے والوں کی پر جما کر"
اس آیت کی تفسیر میں مولانا نے سورہ الصافات اور سورہ ص کی درج ذیل آیات تائیدا بیان کی ہیں:
﴿وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ﴾36
"اور ہم صف باندھتے رہتے ہیں"
﴿الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ﴾37
"جو لوگ اللہ کی راہ میں پَر جما کر یُوں لڑتے ہیں گویا سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں"
تفسیر القرآن اور سنت نبویﷺ
تفسیرالقرآن بالقرآن کے بعدجس منہج کو آپ نے اختیار کیا ہے وہ سنت سے قرآن کی تفسیر ہے۔ قرآن کے پہلے شارح قرآن کو سب سے پہلے اور سب سے بہتر سمجھنے والے خود صاحب قرآن امام الانبیاء ﷺ ہیں۔ خود اللہ سبحانہ و تعالٰی نے نبی اکرمﷺسے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہےتو اس بیان و تفسیر سےاَولٰی کس کا بیان ہوسکتا ہے؟ اسی لئے سلف مفسرین نے تفسیر القران بالسنہ کو اختیار فرمایا ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر مولانا امرتسری ؒنے تفسیر القرآن بالسنہ کا اہتمام فرمایا ہے۔ اس کے لئے آپ نے درج ذیل اسلوب اختیا رکیا ہے۔
-
قرآن کی تفسیرصریح احادیث سے کرتے ہوئے احادیث کی صحتِ سند کا التزام کرتے ہیں۔
-
کئی بار احادیث کو مصادر کا ذِکر کئے بغیر بیان کردیتے ہیں۔
-
سند کو بیان کیے بغیر صرف صحابہ کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں۔
-
احادیث کا حوالہ اس انداز پر بیان کرتے ہیں: رواہ الشیخان، رواہ البخاری، رواہ مسلم ، رواہ الترمذی
-
حدیث کا ذکر کئے بغیر کئی بار صرف اشارہ کرتے ہیں جس سے اس کلمہ کے حدیث ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ جیسے
-
" رُوِی" " کما ورد فی الحدیث" یا " فی الحدیث"
-
احادیث کا استنادی حکم کم ہی بیان کرتے ہیں۔
-
نزول ِآیات کےاسباب کے بیان میں احادیث کثرت سے بیان کرتے ہیں۔
-
احادیث کا کبھی محض عربی متن بیان کرتے ہیں۔
-
قرآنی قصص و اخبار کے بیان کے دوران کئی بار احادیث کو ان کے حدیث ہونے کا ذکر کئے بغیر بیان کردیتے ہیں۔
قرآن کی تفسیر سنت سے کرتے ہوئے مولانا امرتسریؒ نے درج ذیل اسلوب اپنایا ہے۔
-
قرآنی کلمات کی تشریح احادیث نبویہ، سنت نبویہ سے بیان کرتے ہیں ۔تفسیر ثنائی میں اس اسلوب کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔ چند ایک درج ذیل ہیں:
﴿غَيْرِالْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَاالضَّالِّينَ﴾38
"نہ کہ ان کے(راستے پر) جن پر غضب ہوا اور نہ گمراہوں کے "
کی تفسیر میں مولانا امرتسری 'المغضوب علیہم ' سے مراد یہود اور 'الضالین ' سے مراد نصارٰی لیتے ہیں39جیسا کہ سنن ترمذی 40کی روایت میں حضور اکرمﷺ سے اس قول کی تائید میں مروی ہے کہ آپ ﷺ نے'المغضوب علیہم ' سے مراد یہود اور 'الضالین ' سے مراد 'نصارٰی' لیا ہے۔
-
قرآنی آیات کی تفسیر احادیث سے بیان فرماتے ہیں۔
﴿وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ﴾41
"اور جب اٹھا کرو تو اپنے رب کی تعریف کے ساتھ تسبیح کیا کرو"
اس آیت کی تفسیر میں مولانا فرماتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ مجلس کے اختتام پر دعاء:
((سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ،لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ))42
"تو پاک ہے، اے اللہ! اپنی تعریفوں کے ساتھ، نہیں ہے کوئی معبود برحق مگر تو ہی، میں تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور تیری طرف توبہ کرتا ہوں"۔
اس آیت کی تعمیل میں پڑھا کرتے تھے43۔
-
سورتوں کے فضائل میں احادیث بیان کرتے ہیں۔
سورہ الفاتحہ کی فضیلت میں مولانا امرتسری حدیث بیان فرماتے ہیں44 کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا:
((والَّذِينَفسِي بيَدِه،ماأُنزلَت سورةٌ في التَّوراةِ ولافي الإنجيلِ ولافي الزَّبورِ،ولافي الفُرقانِ مِثلُها،وإنَّهالَهيالسَّبعُ المَثاني والقُرآنُ العَظيمُ))45
"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اس جیسی سورت نہ تو تورات میں نازل کی گئی ہے اور نہ ہی انجیل، زبور اور فرقان (قرآن مجید)میں، بے شک یہ سبع المثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے"۔
-
کئی مواقع پر احادیث کے مصادر بیان کرتے ہیں۔
﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ۔ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ﴾46
"بے شکہم نے لیلۃالقدر میں قرآن نازل فرمایا اور آپ کیا جانیں کہ لیلۃ القدر کیا ہے"
ان آیات کی تفسیر میں مولانا نے لیلۃ القدر کی جستجو سے متعلق کچھ احادیث بیان کی ہیں اور ان کے مصادر بخاری ومسلم کا حوالہ بیان کیا ہے۔جیسا کہ حضرت عائشہ کی روایت ہے:
((تَحَرَّوْا ليلةَ القَدْرِ في الوِترِ مِنَ العَشرِ الأواخِرِ مِن رَمَضانَ))47
"لیلۃ القدر کو تم رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو"۔
-
احادیث کو اکثر اردو میں بیان فرماتے ہیں البتہ کبھی کبھار عربی متن ذکر فرماتے ہیں۔
﴿يَاأَيُّهَاالنَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَاتُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ﴾48
"اے نبی آپ اللہ سے ڈریں اور کفارو منافقین کی پیروی مت کریں "
آیت کی تفسیر میں مولانا فرماتے ہیں کہ "تم کفار اور منافقین کے مقابلے میں مداہنت اختیار مت کرو اور نہ ہی معصیت میں ان کی اطاعت کرو، ہاں وہ امور جو دین کے مخالف نہیں ہیں ان امور میں ان کی پیروی کی جا سکتی ہے۔ اپنی اس بات کی دلیل میں وہ یہ حدیث عربی متن کے ساتھ بیان کرتے ہیں 49کہ
((الكلمة الحكمة ضالة المؤمن,حيثماوجدها,فهواحق بها))50
"حکمت و دانائی کی بات مومن کا گمشدہ سرمایہ ہے، جہاں بھی اس کو پائے وہی اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے"
تفسیر القرآن اور اقوال صحابہ
صحابہ کرام کے اقوال سے قرآن مجید کی تفسیر سلف صالحین کا انداز رہا ہے۔ نبی اکرمﷺ کے بعدقرآن کو سب سے زیادہ جاننے اورسمجھنے والے صحابہکرام ہیں۔ کیونکہ یہ وہ جماعت ہے جنہوں نے نبی اکرمﷺسے براہ راست قرآن کو سنا اور سمجھا ہے۔ ان کی ثقاہت کی گواہی خود قرآن مجید نے بیان کی ہے یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک تمام صحابہ کرام عادل ہیں۔
حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر ابن کثیر کے مقدمہ میں فرماتے ہیں۔ قرآن کی تفسیر میں جب کبھی ہمیں کوئی دوسری آیت یا حدیث ایسی نہ ملے جو تفسیر بیان کرے تو ہم صحابہ کرام کے اقوال کی طرف رجوع کریں گے کیونکہ صحابہ اس آیت کے مفہوم کو بہتر جاننے والے ہیں۔ جبکہ جمہور علماء کے نزدیک صحابی کی تفسیر"حکم مرفوع" رکھتی ہے۔
مولانا امرتسری تفسیر ثنائی میں اقوال صحابہکثرت سے بیان کرتے ہیں۔ کبھی تو ان اقوال کو صحابہ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور کبھی بغیر نسبت کے بیان کردیتے ہیں اورعن کے ساتھ ذکر فرماتے ہیں۔ جیسےعن ابن عباس ، عن علی۔ اور صحابی کا نام لیے بغیر بھی ذکر کرتے ہیں محض یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ صحابی کا قول ہے۔ البتہ ان آثار کے مصادر کا ذکر کرتے ہیں مثلا "صحیح البخاری"ومعالم التنزیل" آپ نے زیادہ تر جس صحابی کے اقوال بیان کیے ہیں وہ عبداللہ بن عباس ہیں۔
تفسیر ثنائی میں اختصار کے پیش نظر تمام تر اقوال کو ذکر کرنے کی بجائے آپ کئی بار صرف ان کا خلاصہ ضرورت کے مطابق بیان کر دیتے ہیں۔
اقوال صحابہ سےتفسیر قرآن کا اسلوب
-
مبہم و غیر واضح کلمات کو اقوال صحابہ سے واضح کرتے ہیں۔
﴿يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ﴾51
"جس دن پنڈلی سے کپڑا اٹھا دیا جائے گا اور کفار سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو وہ سجدہ نہ کر سکیں گے"
اس آیت میں کلمہ 'ساق' کے معنٰی کرتے ہوئے حضرت ابن عباس کا قول نقل کرتے ہیں کہ یہاں 'ساق' سے مراد' شدۃ الامر 'ہے۔52
-
آیات کے اسباب نزول کے لئے اقوال صحابہ سے مدد لیتے ہیں۔
﴿إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ﴾53
"اللہ نے آدم اور نوح اور خاندان ِابراہیم اور خاندان ِعمران کو تمام جہان کے لوگوں میں منتخب فرمایا تھا"
اس آیت کے سبب نزول میں ابن عباس کا قول نقل کرتے ہیں54 کہ
" یہود نے کہا :ہم ابراہیم، اسحٰق اور یعقوب کے بیٹے ہیں اور ان ہی کے دین پر ہیں" تو اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اللہ نے تو ان کو اسلام کے ساتھ منتخب فرمایا تھا ، جبکہ تم 'یہود' دین اسلام پر نہیں ہو۔55
-
قصص و اخبار کے بیان میں اقوالِ صحابہ بیان کرتے ہیں۔
﴿وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ ۔۔۔۔۔۔۔ قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ﴾56
"آسمان کی قسم جس میں برج ہیں ۔۔۔۔۔۔۔خندقوں(کے کھودنے ) والے ہلاک کر دئیے گئے"
ان آیات کی تفسیر میں مولانا اصحاب الاخدود کا قصہ بیان کرتے ہوئے حضرت ابن عباس کا معالم التنزیل57 میں مذکور قصہ نقل کرتے ہیں58۔
-
فقہی احکام کے بیان میں اقوال صحابہ ذکر کرتے ہیں۔
﴿وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِين﴾59
"اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھیں (لیکن رکھیں نہیں)وہ روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلا دیں"
اس آیت میں کلمہ' یطیقونہ' کا حکم بیان کرتے ہوئے مولانا نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے60۔61
تفسیر القرآن اور ا قوال تابعین
تابعین وہ لوگ ہیں جنہوں نے صحابہ کا زمانہ پایا، حالت ایمان میں صحابہ کی صحبت اختیار کی اور اسی حالتِ ایمان میں دنیا سے رخصت ہوئے۔تابعین کےزمانہکو زبانِ رسالت سے خیرالقرون قرار دیا گیا ہے۔
﴿خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونهم ثم الذین یلونهم﴾
"بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے پھر وہ لوگ جو اس کے بعد آئیں ، پھر وہ جو اس کے بعد آئیں"
تابعین کی تفسیر کی منزلت کو دیکھا جائے تو تفسیر القرآن بالقرآن، تفسیر القرآن بالسنہ اور تفسیر القرآن باقوال الصحابہ کے بعد اس کا شمار ہوتا ہے۔ جیسا کہ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
"اذالمنجدالتفسیرفیالقرآن ولافی السنة ولاوجدت عن الصحابة فقد یرجع کثیر من الائمة فی ذٰلک الیٰ اقوال التابعین کمجاهدبنجبیروعکرمة مولیٰ ابن عباس وعطاء ابن ابی رباح"62
"جب ہم کوئی تفسیر قرآنی ، قرآن ، سنت اور صحابہ سے نہ پائیں تو اثر ائمہ اہل سنت تابعین کے اقوال کی طرف رجوع کرتے ہیں جیسا کہ مجاہد بن جُبیر، عکرمہ مولٰی ابن عباس اور عطاء بن ابی رباح"
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
"ان التابعینتلقواالتفسیرعن الصحابةکماتلقواعنهم السنة وان کانواقدیتکلمون فی بعضذٰلک بالاستنباطوالاستدلال کمایتکلمون فی بعضالسننبالاستنباط والاستدلال"63
چند معروف مفسر تابعین کے نام درج ذیل ہیں:
سعید بن جیر، مجاہد بن جبیر، مکرمہ مولی ابن عباس، حسن بصری، مسروق بن اجدع، عطابن ابی مسلم، محمد بن کعب القرظی، قتا دہ بن دعامہ، ابو العالیہ۔
مولانا امرتسریؒ نے تفسیر ثنائی میں تابعین کے اقوال بیان کیے ہیں ، البتہ جس کثرت سے آپ اقوال صحابہ پر اعتماد کرتے ہیں تابعین کے اقوال میں وہ کثرت نظر نہیں آتی۔
اقوال تابعین کے بیان میں جومنہج مولانا امرتسری ؒ نے اختیار کیا ہے، درج ذیل ہے۔
-
بعض مخفی المعانی کلمات قرآنی کی تشریح اقوال تابعین سے کرتے ہیں۔
﴿إِنَّاعَرَضْنَاالْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا﴾64
"ہم نے امانت کو آسمانوں زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیااور اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا، بے شک وہ ظالم اور جاہل تھا"
اس آیت میں کلمہ 'یحملنھا' کی تشریح میں مولانا ، امام حسن بصری کا قول بیان کرتے ہیں 65۔66
-
آیات کے اسباب نزول کے بیان میں تابعین کے اقوال بیان کرتے ہیں۔
﴿لَقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَقَتْلَهُمُ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَنَقُولُ ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ﴾67
"اللہ نے ان لوگوں کا قول سن لیا جو کہتے ہیں کہ اللہ فقیر ہے اور ہم امیر ہیں ۔ یہ جو کچھ کہتے ہیں ہم اس کو لکھ لیں گے، اور پیغمبروں کو جو یہ نا حق قتل کرتے رہے ہیں (اس کو بھی لکھیں گے)اور (روز قیامت ) کہیں گے کہ عذاب سوزاں کے مزے چکھتے رہو"
اس آیت کے سبب نزول میں مجاہد اور حسن کا قول نقل کرتے ہیں68۔69
قرآن کی تفسیر اور ربط و مناسبت
ربط و مناسبت سے مراد قرآن کے مختلف بیانات کا باہمی تعلق ہے۔ جیسا کہ ربط کے معنی سے واضح ہے ۔ معنی الربط:"العلاقة والوصلة بین الشیئین" تفسیر قرآن میں ربط سے مراد ایک آیت کے جملوں کا باہمی تعلق ہے یا ایک آیت کا دوسری آیت سے باہمی تعلق ہے اور یا پھر ایک سورت کا دوسری سورت سے تعلق ہے۔ ربط ومناسبت کے بیان سے قرآن کی تفسیر ایک خوبصورت اور لطیف انداز تفسیر ہے۔
امام رازیؒ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"اکثر لطائف القرآن مودعة فی الترتیبات والروابط"
"قرآن کے اکثر لطائف ترتیب و ربط میں ملتے ہیں"
مولانا امرتسریؒ اس ربط کو جس منہج پر اپنی تفسیر ثنائی میں بیان کرتے ہیں ، درج ذیل ہے۔
-
آیات کی تفسیر کے لئے دو آیات کا باہمی تعلق بیان کرتے ہیں۔
﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾70
"اے اللہ ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا"
اس آیت کی تفسیر میں مولانا اس کا ربط درج ذیل آیت سے قائم کرتے ہیں۔
﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾71
"اے اللہ! ہم تیری عبادت کرتے اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں"
-
دو نصوص کا باہمی تعلق ربط کے ذریعے بیان فرماتے ہیں۔
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ﴾72
"مومن تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جن انہیں اس کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں"
اس آیت کو مولانا نے اس سے پچھلی آیت سے مربوط کیا ہے73:
﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾74
"اے محمد! مجاہد تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہ دو کہ غنیمت اللہ اور اس کے رسول کا مال ہے۔ تو اللہ سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو ، اور اگر ایمان رکھتے ہو تواللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلو "
-
دوسورتوں کے درمیان باہمی ربط واضح کرتے ہیں۔
اس ضمن میں مولانا نے سورہ نصر کی ابتداء کو سورہ کٰفرون کے اخیر اور سورہ لھب کو سورہ نصر سے مربوط کیا ہے75۔
اعتقادات
عقائد کے بارے میں اہلسنت کا مؤقف یہ رہا ہے کہ ان کو بغیر کسی تاویل و تکییف کے مانا جائے اور اپنی طرف سے کوئی وضاحت یا تفصیل بیان نہ کی جائے۔ تفسیرثنائی بھی اہل سنت کے مذہب کی ترجمان تفسیر ہے مولانا امرتسریؒ نے اس تفسیر کواختصار سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور ہر قسم کی غیر ضروری تفاصیل سے احتراز کیا ہے۔ مسئلہ "استوٰی علی العرش " مسئلہ "معراج نبوی" مسئلہ" عبادتِ اصنام" جیسے اعتقادی مسائل مولانا امرتسریؒ کے منہج کی نمایاں مثالیں ہیں ۔
مذاہب و فِرقِ باطلہ کا رد
تفسیرثنائی ایک کلامی تفسیر ہے جس میں عقائد اسلامیہ کو قرآن و حدیث ،کتب سماویہ اور نقل و عقل سے ثابت کیا گیا ہے۔
مولانا امرتسری ؒنے اپنی استفسیر میں اہل کتاب ، خصوصاً عیسائیت،آریہمذہب،قادیانیت اور سرسیداحمدخان کے اعتقادی نظریات کا رد نقلی و عقلی دلائل کے ساتھ بالتفصیل پیش کیا ہے۔
ان مذاہب باطلہ کے ابطال کے لئے مولانا امرتسری نے جومنہج اختیار فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے آپ ان کے دلائل پیش کرتے ہیں اور ان دلائل کی بنیاد پر ان کے بنائے گئے اصول بیان کرتے ہیں اور انہی کے باہمی متضاد دلائل و اصول کی روشنی میں ان کا رد کرکے مزید قرآن کا دعوٰی اور نظریہ پیش کرتے ہیں۔
فقہی احکامات
مولانا امرتسری مسلک اہلحدیث سے تعلق رکھتے تھے۔ مجتھد تھے، مقلد نہ تھے یہی وجہ ہے کہ آپ ؒ نے منہج ِ سلف کو اختیار کرتے ہوئے کتاب وسنت سے براہ راست استفادہ کرتے ہوئے فقہی احکام مستنبط کیے ہیں اور مذاہب فقہ میں کسی ایک کی تقلید نہیں کی۔ اس ضمن میں آپ ؒ اختصارو اجمال کو ملحوظ رکھتے ہیں اور بقدر ضرورت فقہی تفصیل بھی بیان کرتے ہیں۔
کئی مواقع پر فقہی مذاہب کی متفرق آراء بیان کرکے قرآن و حدیث کی بنیاد پر کسی ایک کو ترجیح دیتے ہیں اور وجہ ترجیح بھی بیان کرتے ہیں۔ اور" عندنا" کہ کر مسلک اہلحدیث کی رائے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
کبھی حدیث کی روشنی میں احکام مستنبط کرکے اہلحدیث کے مؤ قف کی صراحت کیے بغیر آگے گزرجا تے ہیں۔
کئی بار مذاہب اربعہ کی آراء بیان کرتے ہیں اور صراحت نہیں کرتے بلکہ صرف"عند بعض"یا " عند العلما" کہنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
مختلف آرا ء بیان کرکے کئی فقہی مسائل کا حکم اہل علم کے اختیار پر چھوڑ دیتے ہیں۔
فقہی مصادر کا ذکر بھی کر تے ہیں۔ جیسے " الھدایہ" " اصول الشاشی"
اسباب نزول
جمہور مفسرین کے اصول تفسیر کی متابعت کرتے ہوئے مولانا امرتسریؒ نے تفسیر ثنائی میں آیات کی وضاحت کے لئے اسباب نزول کو بیان فرمایا ہے۔ اس کے لئے آپ نےجو منہج اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ ان اسباب نزول کے بیان کے لئے آپ صحیح اور حسن اسناد کی روایات نقل کرتے ہیں۔ موضوع روایات بیان نہیں کرتے۔ ایک آیت کے نزول میں کئی اسباب نزول ذکر کرتے ہیں اور ان میں سے کسی کو ترجیح نہیں دیتے اور کبھی سبب نزول کو بیان کرتے ہیں مگر اس کے سبب نزول ہونے کا ذکر نہیں کرتے۔
صحیح احادیث میں مذکور بعض سورتوں کے اسباب نزول بیان ہوئے ہیں ان کو سورتوں کے آغاز میں نقل کرتے ہیں۔ اور عموماً مشہور اسباب نزول کوہی بیان کرتے ہیں۔
اسبابِ نزول کے بیان میں اس منہج کے استشھادات کے لیے تفسیر ثنائی کے درج ذیل مقامات کو دیکھا جائے۔
تفسیر ثنائی:5/820، 1/160-161، 1/169 ، 5/116-111
مصادر تفسیر ثنائی
کسی کتاب کی تصنیف میں مصادر کا کردار بڑا اہم اور نمایاں ہوتا ہے خصوصاً تفسیر کی تالیف میں یہ کردار اور بھی اہم ہو جاتا ہے ان مصادر سے تفسیر کی شان و مقام اور قد کاٹھ کا اندازہ لگانا آسان ہوتا ہے۔
تفسیر ثنائی کے مؤلف مولانا ثناءاللہ امرتسری ؒ مختلف مکاتب فکر سے فیض یاب ہوئے۔ جس کی بنا پر مختلف الانواع کے مصادر ومراجع اور ادبی ذخیرہ علم سے ان کی براہ راست وابستگی رہی۔
-
جس کے نتیجے میں انہیں وسیع الظرفی وقلبی نصیب ہوئی۔ اس کی بڑی واضح چھاپ ان کی تمام تصانیف پر بالعموم اور انکی تفاسیر میں بالخصوص نظر آتی ہے ۔ انہوں نے نہ صر ف سلف و خلف ہر دو ادوار کی کتب سے استفادہ کیا بلکہ مقارن الادیان کی حیثیت سے دیگر ادیان کے مذہبی ذخیرہ علم کا بھی عمیق مطالعہ کیاتاکہ دفاع اسلام کے لیے انہی کی کتب کو بنیا د بنا کر ان کے اعتراضات کا مثبت رد پیش کیا جا سکے یہ مناظرانہ اسلوب بھی ان کی تالیفات کی شان ہے۔ ذیل میں وہ مصادر بیا ن کیے جا تے ہیں مولانا امرتسریؒ نے تفسیر ثنائی میں جن سے استفادہ کیا ہے۔
تفاسیر و علوم القرآن
-
الدر المنشور فی التفسیر بالماثور ،للشیخ جلال الدین عبدا لرحمن السیوطی 411 ھ
-
تفسیر نیشاپو ری علی حاشیہ تفسیر ابن جر یر الطبری ؒ
-
تفسیر البیضاوی انوار التنزیل و اسرار التاویل المعروف بتفسیر البیضاوی ، ا مام ناصر الدین ابی الخیر عبد اللہ بن عمر محمد الشیرازی الشافعی البیضاوی 691 ھ
-
الکشاف عن حقائق التنزیل عیون الا قاویل فی وجوہ التاویل ، ملامام المعتزلی ابی قاسم محمود بن عمر بن عمر الخوارزمی اللقب بجار اللہ الزمخشری 538 ھ
-
تفسیر جامع البیان فی تفسیر القرآن ، (تفسیر ابن جریر الطبری )ملااما م ابی جعفر محمد بن جریر الطبری 310 ھ
-
تفسیر البغوی المسی معالم التنزیل ملاما ابی محمد ا لحسین بن مسعود الفراء البغوی الشافعی 514 ھ
-
تفسیر الفخر الرازی المعروف بالتفسیر الکبیر مفاتیح الغیب، امام محمد الرازی فخر الدین ابن العلامہ ضیاء الدین عمر 608 ھ
-
تفسیر القرآن العظیم ، امام الحفظ عمادالدین ابی الغداء اسماعیل بن کثیر القرشی الرمشق
-
تفسیر الخازن المسمی لباب التاویل فی معانی التنزیل، امام محی السنہ علاء الدین علی بن محمد بن ابراھیم البغدادی الصوفی الخازن 731 ھ
-
تفسیر مجمع البیان فی تفسیر القرآن، سربی علی الفضل بن حسن الطبری
-
تفسیر مو ضح القرآن للشیخ عبد القادر الدھلوی ؒ
-
تفسیر جلالین ،ا مام جلال الدین محمد بن احمد المحلی 864 ھ و للشیخ جلال الدین عبد الر احمن بن ابی بکر السیوطی 911 ھ
-
تفسیر ابی سعود السمی ارشاد العقل السطیم الی مزا یا الکتا ب الکریم سر مام ابی السعود محمد بن محمد العمادی 951 ھ
-
تفسیر عسکری
-
تفسیر فتح البیان فی مقاصد القرآن ،الشیخ صدیق حسن خان
-
تفسیر الکواشی
-
تفسیر حقانی، للشیخ ابی محمد عبد الحق حقانی الدھلوی ؒ
-
حاشیۃ تر جمۃ القرآن، شاہ ولی اللہ الدھلوی
-
ترجمۃ القرآن ، مولوی مقبول احمد
-
الاتقان فی علوم القرآن، شیخ جلال الدین عبد الرحمن السیوطی 911 ھ
-
الفوز الکبیر فی اصول التفسیر، شاہ ولی اللہ الدھلویؒ
-
اسباب النزول ،شیخ ابو الحسن علی بن احمد الواحدی الضیا بوری 468 ھ
-
جمائل ترجمۃ القرآن، شاہ ولی اللہ الدھلوی
کتب حدیث
-
الجامع صحیح البخاری ، امام محمد بن اسما عیل البخاری 356 ھ
-
الجامع صحیح المسلم اما م مسلم بن الحجاج القشیر ی البینابودی 361 ھ
-
سنن الترمذی امام ابو عیسی بن عیسی بن سورہ بن موسی بن ضحاک اسلمی الترمذی 379 ھ
-
سنن ابی داؤد، امام ابو داؤد سلیمان بن اشعت سجستانی الاارزی 303 ھ
-
سنن النسائی ،امام نسائی
-
سنن ابن ماجہ ،امام ابو عبدا للہ محمد بن یزید بن ماجہ القزوینی 309 ھ
-
سنن الدارمی، شیخ الاسلام عبدا للہ بن عبد الرحمن الدارمی
-
شعب الایمان ، امام ابو بکر احمد بن حسین البیہقی
-
مشکوۃ المصابیح ،امام محمد بن عبد اللہ الطیب التبریزی
-
فتح الباری شرح صحیح البخاری، حافظ احمد بن علی بن حجر العسقلانی 853 ھ
-
شرح مسلم النووی ، امام النووی
-
سنن دار قطنی ، علی بن عمر امام الدر قطنی
-
مسند احمد ، امام احمد بن حنبل 241 ھ
-
شرح حدیث النزول ، امام ابن تیمیہ الحرانی احمد بن عبد الحلیم
-
مجمع االبحار الا نوار فی الغرایب التنزیل و لطائف الاخیار،شیخ محمد طاہر بن علی القتنی
-
التخریج الزیلعی،
-
نھج البلاغہ ، ( اقوال سید نا علی ؓ) شریف الرضی
کتب فقہ و اصول فقہ
-
نور الانوار، شیخ الحافظ احمد
-
شر ح ملا جامی، شیخ احمد عبدالرحمن الجامی
-
اعلام الموقعین عن اب العالمین، امام ابن قیم ابوزیہ
-
توضیح التلویح، شیخ عبید اللہ بن مسعود
-
شرائع الاسلام ، جعفر بن حسن بن ابی زکریاء اعلی
-
شرح فقہ الاکبر ،ملا علی قاری
-
شر ح درۃ الغواص ،علامہ عبد المنعم خفاجی
-
الھدایۃ، شیخ الاسلام برھان الدین ابی الحسین علی بن ابو بکر
-
حسامی مع حاشیۃ التعلیق ، الحامی شیخ محمد بن عمر الاختیکثی
-
الانصاف فی بیان سبب الاختلاف شاہ ولی اللہ الدھلوی
-
اصول کلینی،ابو جعفر محمد بن یعقوب الرازی الکینی
-
شرح اشرح لمنار
-
سراجی ، شیخ سراج المہ علامہ عریف
-
المنتقی، شیخ ابن الجارود
-
شرح الوقایہ ، شیخ محمد یوسف لکھنوی
-
اصول الشاشی، شیخ ابو علی شاشی 344 ھ
کتب لغت عربی
-
القا موس المحیط ، شیخ مجدالدین محمد بن یعقوب الفیروزی آبادی
-
لسان العرب، علامہ جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور الد فریفی المصری 711 ھ
-
مختصر المعانی، امام سعد الدین التفتازانی
-
المعلقہ
-
الاشارۃ الی الایجاز فی بعض انواع المجاز، امام ابو محمد عز الدین عبد العزیز بن عبدالسلام
-
مفردات فی غریب القرآن، شیخ راغب الصفہانی
-
مطول ،امام سعد الدین التفتازانی
کتب عقیدہ
-
احیاء علوم الدین ،امام ابو حامد الغزالی 505 ھ
-
ابواب الکافی عن سال عن الدوارالشافعی امام ابن القیم ابوزیہ ؒ
-
حجۃ اللہ البالغہ ،شاہ ولی اللہ الدھلوی
کتب سیر و تاریخ
-
شمائل الترمذی امام محمد بن عیسی الترمذی
-
زاد المعاد امام ابن القیم الجوزیہ
-
تاریخ ابن خلدون علامہ ابن خلدون
-
مقدمہ ابن خلدون علامہ ابن خلدون
خلاصۃ البحث
-
عصر حاضر کے تقاضے کے مطابق سائنسی محاورے میں علم کلام کو اس منہج پر رائج کرنا چاہیئے جس کو مشاہیر ِاسلام، مولانا ثناء اللہ امرتسری، اور دیگر ائمہ اسلام نے قرآن و حدیث کی بنیاد پر قائم کیا تھا۔
-
مولانا امرتسریؒ نے اپنے منفرد متکلمانہ انداز بیان سے جس مناظرانہ اسلوب کو متعارف کروایا ہے تعلیمی اداروں میں اسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔
-
مولانا امرتسری ؒ کا علم تقابل اور تقابل ادیان پر وہ لٹریچر جو طباعتی بے توجہی کا شکار ہے اہل ِ علم و نظر اور اشاعتی وطباعتی حلقوں کی توجہ کا منتظر ہے اسے جدید طرز طباعت و اشاعت کی ضرورت ہے تا کہ تقابل ادیان کے میدان میں مذاہبِ باطلہ ، خصوصاً قادیانیت اور اس کے پس منظر کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
-
اس مقالہ میں زیر تحقیق منتخب کلامی مباحث کے علاوہ تفسیر القرآن اور تفسیر ثنائی میں جو کلامی مباحث موجود ہیں وہ بھی قابل تحقیق ہیں، جن پر محققین غور کر سکتے ہیں ۔
-
تفسیر ثنائی میں کئی ایک کلامی مباحث ایسے ہیں جن کے بیان میں تقابل ِادیان و مذاہب کو پیش کیا گیا ہے۔ محقق کی نظر میں تقابل ادیان کے طلباء کے لیے یہ مباحث برائے تحقیق مستقل موضوع کی حیثیت رکھتے ہیں۔
-
تفسیر ثنائی کے مختلف مباحث میں جن دیگر مذاہبِ باطلہ کا رد کیا گیا ہے ان تمام مباحث کے تقابلی مطالعہ کے لیے ان مذاہب کو مستقل طور پر الگ الگ تحقیق کا موضوع بنایا جا سکتا ہے۔
حواشی وحوالہ جات
۔ فضل الرحمٰن بن محمد ، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری،دارالدعوۃ السلفیۃ، شیش محل روڈ، لاھور، 1987ءص:34
2۔ ایضا: ص:35
3۔ ایضاً،ص:39
4۔ سوہدروی خادم، مولانا عبد المجید، سیر ت ثنائی،مکتبہ قدوسیہ، اردو بازار لاھور،1989ء،ص:445
۔ سلفی، مولانا محمد رمضان، مولانا ثنا ء اللہ امرتسری، جامعہ رحمانیہ، سیالکوٹ،2016 ء ،ص:96
6۔ امرتسری، مولانا ثناء اللہ ،مقدمہ تفسیر ثنائی، ثنائی اکادمی، لاہور،1977
7۔ سیرت ثنائی،ص:420
8۔ سلفی، مولانا محمد رمضان، مولانا ثنا ء اللہ امرتسری،ص:93
9۔ فضل الرحمٰن، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری،ص137
10۔ دہلوی، مولانا محمد داؤد راز، حیاتِ ثنائی،طبع، 1978،دہلی ،ص:554
11۔ عراقی، عبد الرشید،تذکرہ ابو الوفاء،ندوۃ المحدثین،طبع اوّل،گجرانوالہ، 1984، ص:28
12۔ الفتح:48/29
13۔ بقرہ: 1/83
14۔محدث روپڑیؒ (م 1964ء) 1884ء کو ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے۔مکتب اہلحدیث کے معروف شیوخ الحدیث میں شمار ہوتے ہیں، تفسیر، حدیث اور عقیدہ کے موضوع پر کئی کتب و رسائل کے مصنف تھے۔
15۔روپڑی،عبد اللہ محدث، مقدمہ درایت تفسیری،مطبع سٹیم پریس، امرتسر،ص:10
16 . القمر:54/2
17۔ النور:24/18
18۔ الذٰریٰت:51/20
19۔ الاعراف:73/7
20۔ امرتسری، مولانا ثناء اللہ ،تفسیر ثنائی،8/1،ثنائی اکادمی، لاہور،1977ء
21۔ الضحٰی :93/7
22۔ تفسیر ثنائی:8/168
23۔ الشورٰی: 42/52
24۔ محمد: 47/19
25۔ تفسیر:7/14
26۔ الحشر: 59/10
27۔ التوبۃ:: 9/23
28۔ تفسیر ثنائی :4/36
29۔ لقمٰن: 31/15
30۔ السجدۃ:32/5
31۔ المعارج: 70/4
32۔ الحج:22/47
33۔ القصص:28/55
34۔ الفرقان: 25/63
35۔ الصافات: 37/1
36۔ ایضا: 37/165
37۔ الصف: 61/4
38۔ الفاتحۃ:1/8
39۔ تفسیر ثنائی:1/18
40۔الترمذی، ابو عیسٰی محمد بن عیسٰی،سنن الترمذی،کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ فاتحۃ الکتاب، 4/272، حدیث:4030
دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض،الطبعۃ الثالثۃ،2000ء
41۔ الطور:52/48
42۔السجستاني،ابو داؤد،سليما ن بن اشعث،سنن ابي داؤد، کتاب الاداب،باب کفارۃ المجلس،3/920، حدیث:48/57،
دار السلام للنشر والتوزيع،الرياض، الطبعة الثالثة،2000ء
43۔ تفسیر ثنائی:8/92
44۔ ایضا: 1/17
45۔ سنن الترمذی، فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل فاتحۃ الکتاب،3/3، حدیث:3307
46۔ القدر: 97/1-2
47۔البخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری،کتاب فضل لیلۃ القدر، باب تحری لیلۃ القدر فی الوتر من العشر الاواخر فیہ عبادۃ، 2/63، حدیث:، 2017، دار السلام ، ریاض،1999ء
48۔ الاحزاب:33/1
49۔ تفسیر ثنائی: 6/122
50۔ سنن الترمذی، باب العلم، حدیث:2687
51۔ القلم: 68/42
52۔ تفسیر ثنائی: 8/93
53۔ آل عمرٰن: 3/33
54۔ تفسیر ثنائی: 2/13
55۔البغوی، تفسیر البغوی ،معالم التنزیل ملا ابی محمد ا لحسین بن مسعود الفراء الشافعی، 514 ھ: 1/452،دار ابن حزم، بیروت لبنان،2002ء
56۔ البروج: 85/1-4
57۔ معالم التنزیل: 5/549-550
58۔ تفسیر ثنائی:8/156
59۔ البقرۃ: 2/184
60۔الفیرو ز آبادی، الشیخ ابو طاہرمحمد بن یعقوب، (المتوفٰی 817ھ)تنویر القیاس من تفسیر ابن عباس،اشراف مکتب البحوث، الدراسات دار الفکر، بیروت لبنان، ص:28
61۔ تفسیر ثنائی:1/124-125
62۔ ابن تیمیہ، مقدمۃ فی اصول التفسیر، المکتبۃ السلفیۃ، لاہور،ص:22
63۔ مقدمۃ فی اصول التفسیر:ص:23
64۔ الاحزاب:33/72
65۔ تفسیر ثنائی: 6/154
66۔ معالم التنزیل:4/493
67۔ آل عمرٰن: 3/181
68۔ معالم التنزیل: 1/593
69۔ تفسیر ثنائی:2/90
70۔ الفاتحۃ: 1/6
71۔ ایضا: 1/5
72۔ الانفال: 8/2
73۔ تفسیر ثنائی: 4/1-2
74۔ ایضا: 8/2
75۔ تفسیر ثنائی: 8/182-183
All Rights Reserved © 2022 This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |