1
2
2022
1682060075860_3013
https://ojs.almithaqjournal.com/index.php/Main/article/view/17/12
https://ojs.almithaqjournal.com/index.php/Main/article/view/17
Tafsee-E- Majidi Abdul Majid Daryabadi Judaism Hazrat e Mosa AS Yahoda
صاحب تفسیرمولاناعبدالماجددریابادی کی مختصرسوانح
مولانا عبدالماجد دریابادیؒ 16 مارچ 1892ء بمطابق 16 شعبان 1310ھ کو دریا باد میں پیدا ہوئے۔1 دریاباد موجودہ بھارت کے اترپردیش میں واقع ہے۔آپ کے والد ماجد کا نام مولوی عبدالقادر تھا جو کہ 1848ء کو پیدا ہوئے اور 64 سال کی عمر پائی۔ آپ کے والد ماجد پختہ مسلمان تھے اور صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے۔ اللہ پاک نے انھیں شیریں آواز سے نوازا تھا ۔2 آپ کی والدہ محترمہ کا نام بی بی نصیرالنسا ء تھا اور انہوں نے 89 سال کی عمر پائی۔ والد محترمہ بھی انتہائی نیک ،صوم و صلوٰۃ کی پابند،باکردار اور فیاض خاتون تھیں۔3 آپ کے دادا کا نام مفتی مظہر کریم ؒ تھا جو کہ شاجہان پور کی عدالت میں ایک معزز عہدے پر فائز تھے۔ 1857ء کے بعد آپ کو 9 سال کے لیے کالے پانی میں قید کردیا گیا لیکن سات سال کی سزا کاٹ کر وطن واپس آگئے ور وہاں سے دینی مشعلوں میں ہمہ تن گوش ہوگئے۔4
رواج کے مطابق مولانا عبدالماجد دریابادیؒ کو فارسی کی تعلیم گھر پر دی گئی اور اس کے بعد آپ کو انگریزی اسکول میں داخل کرادیا گیا۔میٹرک کا امتحان سیتاپور کے ہائی اسکول سے 1908ء میں پاس کیا۔ہائی اسکول کے دوران آپ نے عربی کو اختیاری مضمون کی حیثیت سے گلے لگایا اور ایسی محنت کی کہ آپ ؒ اس قابل ہوگئے کہ قرآن کا ترجمہ و تفسیر لکھ سکیں۔سیتا پور ہائی اسکول سے فراغت کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کنگ کالج لکھنو میں زیرِ تعلیم ہو کر وہاں سے ایف اے اور بی اے کیا۔ کالج کے دوران انگریزی،منطق اور فلسفہ سے آپ کو خاصی لگاؤ ہوگیا تھا۔یہ مضامین آپ نے انگریز اساتذہ سے پڑھے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپؒ کی طبیعت الحاد کی طرف راغب ہونے لگی اور اسی رغبت کے زیر اثر آپ نے نفسیات و فلسفہ پر کئی کتابیں لکھیں جن میں مبادی فلسفہ،فلسفہ اجتماع، فلسفہ جزبات اور تاریخ یورپ (ترجمہ) قابل ذکر ہیں۔5
الحاد کا اثر کئی سال طبیعت پر اثر انداز ہوتا رہا لیکن پھر اکبر آلہ آبادی،مولانا محمد علی ،مولانا عبدالاحد اور مولاناعابد حسین فتح پوری کی کوششوں سے طبیعت واپس ہوئی6۔خود لکھتے ہیں کہ مولانا محمد علی لاہوریؒ کی انگریزی تفسیر اور علامہ شبلی نعمانیؒ کی سیرت النبیﷺ سے سیدھی راہ دِکھی7۔اس سب کے بعد حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ تک رسائی ممکن ہوئی اور ان سے حدیث،فقہ اور تفسیر وغیرہ کی کئی کتابیں پڑھ کر خوب فیض حاصل کیا8۔ یہ سن 1904ء کا زمانہ تھا کہ آپؒ نے "اودھ اخبار" میں بطور مضمون نگار کام کیا۔ اس کے بعد بدستور ماہنامہ "الناظر"، "معارف"، "سچ، "صدق" اور "صدق جدید" میں لکھتے رہیں۔9 عربی زبان میں آپ کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے 15 اگست 1966ء میں حکومت وقت نے آپ کو سند اعزاز پیش کی اور 3 مارچ 1976ء کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹر آف لٹریچر کی اعززی ڈگری پیش کی گئی۔10آپؒ 6 جنوری 1977ء کو 85 سال کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔11
آپؒ نے کئی علمی میدانوں یعنی ادب، فلسفہ،تراجم اور قرآنیات میں کام کیا اور بہت سی کتابیں لکھیں جن کے میں قرآنی شخصیات،فلسفہ جزبات،فلسفہ اجتماع،ذکر رسولﷺ، انشائے ماجد،تفسیر ماجدی(انگریزی )، تفسیر ماجدی(اردو)،حیوانات قرآنی،جغرافیہ قرآنی،آپ بیتی،تاریخ اخلاق یورپ وغیرہ مشہور و قابل ذکر ہیں۔12
تفسیر ماجدی: تعارف و منہج
مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے پہلے یہ تفسیر انگریزی زبان میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی سرپرستی میں دسمبر 1941ء میں مکمل کی۔اس کے بعد آپ کی توجہ اردو ترجمہ کی طرف مبذول ہوگئی جس کو رجب 1363ء بمطابق 20 جولائی 1944ء کو مکمل کیا۔اردو ترجمہ و تفسیر مکمل کرتے وقت آپ کی عمر اکیاون (51) برس تھی۔اس تفسیر کو پہلی مرتبہ اگست 1952ء میں تاج کمپنی نے کراچی سے مکمل شائع کروایا جس کی ضخامت ایک ہزار دو سو سولہ صفحات ہیں جس میں تحت السطور اردو ترجمہ ہے اور اطراف میں حواشی پر تفسیر ماجدی ہے۔13 اسی تفسیر کو "مجلس نشریات قرآن " نے 1998ء میں مزید ترمیم و اضافہ کے ساتھ شائع کیا اور یہی ترمیم شدہ ایڈیشن انڈیا میں "مجلس تحقیقات و نشریات اسلام" نے چار جلدوں میں شائع کروایا۔
تفسیر ماجدی کا طرز یہ ہے کہ صفحہ کے اوپر آیت کی عربی عبارت کے ساتھ تحت السطور بامحاورہ اردو ترجمہ ہے۔نیچے آیت نمبر ڈال کر آپ تفسیر تحریر کرتے ہیں جو زیادہ تر اختصار سے اور کہیں کہیں تفصیل سے بیان فرماتے ہیں۔تفسیر کے دوران آپ جن کتب کے حوالے درج کرتے ہیں اُن کی عربی عبارات بھی نقل کردیتے ہیں اور بریکٹ میں حوالے کی کتب کا نام درج کردیتے ہیں۔تفسیر ماجدی کا شمار ملک کی مقبول ترین تفاسیر میں ہوتا ہے اس کی اہم وجہ متواز ن اور ادبی زبان کا استعمال ہے۔نیز علوم حدیث پر جامع نظر بھی ہے اگر چہ آپ معیار حدیث سے متعلق طویل مباحث کو یکسر فراموش کردیتے ہیں اور بہت ہی اختصار سے لیکن جامع مانع طور پر احادیث سے استدالال کرتے ہیں۔14اس کےعلاوہ تفسیرماجدی کےچنداہم امتیازات درج ذیل ہیں:
-
آپؒ نے تفسیر لکھتے وقت جمہور اہلِ سنت کی روش اختیار کی اور ان کے مستند مصادر و مراجع سے استفادہ کیا ۔15
-
تفسیر ماجدی میں مسائل بیان کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے فقہی مسائل آپ نے نہایت اختصار اور جامعیت سے بیان فرمائے ہیں۔16
-
مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے صرف و نحو کے بیان کا بھی سلیس طور پر پورا اہتمام کیا ہے اس سلسلے میں آپ بے جا طوالت سے احتراز کرتے ہوئے مختصر اور آسان طور پر پورے یقین کے ساتھ معنی بیان کرتے ہیں اور قاری کو فضول کی بحثوں سے بچا لے جاتے ہیں۔17
-
یہودیت اور عیسائیت پر چونکہ آپ کی گہری نظر تھی اسی لیے مذاہب ثلاثہ کے درمیان تقابل پیش کرتے ہیں اور اسلام کی حقانیت کو سامنے لاتے ہیں۔
-
تفسیر میں مولانا عبدالماجد صاحب نے جہاں کہیں صوفیانہ نکات بیان کیے ہیں ان میں اکثر و بیشتر مولا اشرف علی تھانوی ؒ کے رسالے سے اخذ کیے ہیں جس کا اقرار آپ خود کرتے ہیں۔18
-
آپؒ جہاں کہیں مناسب ہو اشعار بھی نقل کرتے ہیں جن میں اکبر الہ آبادی،خسرو،مولانا رومی اور علامہ اقبال کے اشعار شامل ہیں۔
-
اردو تفسیر میں جہا ں کہیں ضرورت ہو وہاں اپنی انگریزی تفسیر کا حوالہ بھی دیتے ہیں کہ متعلقہ مسئلے کی مزید وضاحت و تشریح کے لیے انگریزی تفسیر ملاحظہ کریں۔
یہودیت کا تعارف اورمختصرتاریخ:
آسمانی مذاہب میں یہودیت ایک ایسا مذہب ہے جو سب سے پُرانا اور قدیم تصور کیا جاتا ہے۔یہودی مذہب کی ترویج و اشاعت قبیلہ بنی اسرائیل میں خوب ہوئی۔اس عنوان کے تحت پہلے ہم اِن کی مختصر تاریخ بیان کریں گے پھر لغوی و اصطلاحی تعارف پیش کریں گے۔
سامی النسل قبیلے وادی، دجلہ و فرات،شام، فلسطین اور عرب کے علاقوں میں آباد تھے۔ان علاقوں میں جن مذاہب کی اشاعت ہوئی ان میں یہودیت،عیسائیت اور اسلام سب سے زیادہ اہم مذاہب ثابت ہوئے۔ ان سامی مذاہب میں سب سے قدیم مذہب یہودیت ہے جن کی اشاعت مختلف پیغمبروں کے ذریعے قبیلہ بنی اسرائیل میں ہوئی۔بنی اسرائیل کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جو عرب میں رہتے تھے اور گلہ بانی کرتے تھے۔19 حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل علیہما السلام تھے ۔حضرت ابراہیمؑ کے پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے جو اسرائیل کے نام سے مشہور تھے۔حضرت یعقوبؑ کے بارہ بیٹے تھے جن میں بڑے کا نام "یہودا" تھا۔یہ بارہ بیٹے پھر آگے چل کر بارہ قبائل کی شکل اختیار کرگئے ان میں کچھ قبائل موجودہ فلسطین میں اور کچھ مصر میں جاکر آباد ہوگئے۔20ان میں پھر اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام،حضرت ہارون علیہ السلام،حضرت داؤد علیہ السلام ،حضرت سلیمان علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبروں کا ظہور فرمایا۔
یہوداہ:
یہودیوں کے "خدا" یعنی "یہوداہ" لفظ کے تلفظ واملا میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ اس کے بارے میں مؤرخین و ماہرین کے اقوال زیادہ ہیں لیکن ہم اختصار سے کام لے کر درج ذیل اقتباس پر اکتفا کرلیتے ہیں:
"یہوداہ کے تلفظ کے بارے میں اختلاف ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودیوں کو خدا کا خاص نام لینے کی اجازت نہ تھی کیونکہ وہ اس میں خدا کی ہتک اور بے ادبی سمجھتے تھےجو شخص اس کا نام لیتا تھا وہ شخص سنگسار کردیا جاتا تھا۔سال میں ایک مقدس دن میں سب سے مقدس انسان سب سے پاک جگہ کے اندر اس کا نام لیتا تھا،دوسرے لوگ خاموشی سے سنتے تھے۔یہود عدم تلاوت کی وجہ سے اس کا تلفظ بھول گئےاب اس تلفظ کے بارے میں شدید اختلاف ہے۔لیکن جو مشہور ہے وہ "یہوداہ" ہے۔21
لغوی تحقیق:
لفظ "یہودی" واحد ہے جس کی جمع "یہود" ہے۔اس کا اصل مادہ "ہ،و،د" ہےجس کے معنی لوٹنے اور توبہ کرنے کے ہیں۔علامہ ابن منظور افریقی کےمطابق لفظِ "یہود"باب نصَرَ ینصُرُ کے مصدر ھَود سے مشتق ہے،جس کا معنی توبہ کرنے اور حق کی طرف واپس پلٹنے کا ہے۔قرآن عزیز میں مذکورہ قول موسیٰؑ "انا ھدینا الیک" (ہم نے آپ کی یعنی خدا کی طرف رجوع کیا) کی بنیاد پر ان کو "یہود " کے نام سے موسوم کیا گیا۔ یہی تفسیر حضرت مجاھدؒ،حضرت سعید بن جبیر اور ابراہیم سے منقول ہے۔22 مذکورہ لغوی تحقیق کے مطابق یہ لفظ عربی الاصل ہے۔ دوسرے لغوی تحقیق کے مطابق یہ لفظ عجمی اور اصل میں "یہوذ" تھا۔جب اس کو عربی زبان میں استعمال کیا گیا تو ذال کو دال سے تبدیل کردیا گیا۔ لفظ "یہودی" مفرد اور" یہود" اس کی جمع ہے جیسا کہ "مجوسی " کی جمع "مجوس" ، "عجمی" کی جمع "عجم" اور "عربی" کی جمع "عرب" استعمال ہوتی ہے۔
اصطلاحی تعریف:
ادیان واقوام ِعالم کےمشہورمحقق ڈاکٹرمانع حمادلکھتےہیں:
"الیہودی: ھی دیانۃ العبرانین المنحدرین من ابراھیم علیہ السلام ولمعروفین بالاسباط من بنی اسرائیل الذی ارسل اللہ الیھم موسی علیہ السلام مؤیداً بالتوراۃ لیکون لھم نبیا"23
ترجمہ:یہودیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تعلق رکھنے والے اُن عبرانی لوگوں کا دین ہے جو قبیلہ بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہیں اور جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبی اور تورات کی تصدیق کرنے والے کے طور پر نازل فرمایا۔
معلوم ہواکہ یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے آگے چل کر بارہ قبائل کی شکل اختیار کرگئے ان میں کچھ قبائل موجودہ فلسطین میں اور کچھ مصر میں جاکر آباد ہوگئے۔یہیں سےیہودیت کی ابتداہوتی ہے۔
یہودیت کے متعلق مولانا عبدالماجد دریابادیؒ کی آرا:
"يَابَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ"24
ترجمہ:اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور تم مجھ سے کیا ہوا عہد پورا کرو تاکہ میں بھی تم سے کیا ہوا عہد پورا کروں، اور تم ( کسی اور سے نہیں، بلکہ) صرف مجھی سے ڈرو۔
اس آیت کی تفسیر میں آپؒ "بنی اسرائیل" کے متعلق لکھتے ہیں:
"مشہور و نامور پیمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام عراقی ثم شامی ثم حجازی(2160 تا 1985 ق۔م) سے مشہور و نامور دو نسلیں چلیں۔ ایک بی بی ہاجرہ علیہا السلام مصری کے بطن کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام سے۔یہ نسل بنی اسماعیل کہلائی۔اور آگے چل کر قریش اسی کی ایک شاخ پیدا ہوئی۔ان کا وطن عرب رہا ۔ دوسری بی بی سارہ علیہا السلام کےعراقی کے بطن کے فرزندحضرت اسحاق علیہ السلام کے فرزند حضرت یعقوب علیہ السلام عرف حضرت اسرائیل علیہ السلام سے۔یہ نسل بنی اسرائیل کہلائی اس کا وطن شام رہا۔"25
آگے چل کر اسی آیت کی تفسیر میں بنی اسرائیل کی تیسری نسل کے متعلق لکھتے ہیں:
"ایک تیسری نسل،تیسری بیوی حضرت قطورہ سے چلی، اور بنی قطورہ کہلائی۔لیکن اسے تاریخ میں اس درجہ کی اہمیت حاصل نہیں۔"26
یعنی بنی قطوہ کو اُس درجہ کی اہمیت حاصل نہیں ہوئی جس درجہ کی بنو اسماعیل اور بنی اسرائیل کوحاصل ہے۔آگے چل کر ان کے اوصاف بیان کرتے ہیں اور جہاں جہاں یہ لوگ آباد ہوئے ،ان کا جغرافیائی نقشہ کھینچا ہے ۔نتیجتاًان کےبارےمیں بیان کرتےہیں کہ بنی اسرائیل تو ایک قومی و نسلی اصطلاح ہے۔مذہبی حیثیت سے یہ لوگ یہود تھے۔اہل کتاب تھے۔توریت محرف و مسخ شدہ ہوکر ،لیکن بہر حال موجود ان کے درمیان تھی۔27
بنی اسرائیل کی فضیلت اورتوجیہ:
قرآن کریم میں جگہ جگہ ان کے متعلق آیا ہے کہ اللہ نے ان کو دنیا جہان والوں پر فضیلت دی تھی اور ان کو ایک خاص قوم کے طور پر پیش کیا تھا لیکن یہ اپنی بد عہدیوں،بداعمالیوں اور دیگر برائیوں کی وجہ سے اس فضیلت سے محروم ہوگئے جن کے وہ اس سے پہلے اہل تھے۔
"يَابَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ"28
ترجمہ:اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور یہ بات (یاد کرو) کہ میں نے تم کو سارے جہانوں پر فضیلت دی تھی۔"
اس آیت میں " فَضَّلْتُكُمْ" کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"خوب خیال رہے کہ یہاں ذکر مذہب یہود کا نہیں ایک مخصوص قوم و نسل کا ہے۔ بنی اسرائیل نام کسی مذہب یا فرقہ یا عقیدہ کا نہیں ۔ ایک خاص نسل کا ہے ۔ افضلیت یہاں مذہب یہودیت کی نہیں نسلِ اسرائیل کی بیان ہورہی ہے۔سوال یہ ہے کہ اس نسل کی افضلیت سارے عالم پر کس معنی میں ارشاد ہورہی ہے؟اور وہ کون سی ایسی نعمت تھی جو بحیثیت نسل بنی اسرائیل کے ساتھ بلا شراکت غیرے،مدتوں مخصوص رہی؟اگر کہیے کہ دولت یا حکومت یا کثرت آبادی۔تو اول تو یہ انعامات اللہ کے خود اس درجہ کے نہیں کہ ان کا ذکر اس شان و اہتمام کے ساتھ کیا جائے،اور انہیں کو معیار فضیلت و افضل مانا جائے۔اور پھر یہ نعمتیں تو بہت سی قوموں کو اپنے اپنے وقت میں نصیب ہوچکی ہیں۔کلدانیہ،مصر ، ہندوستان،ان سب ملکوں کا تمدن اپنے اپنے زمانہ میں،اسرائیلوں سے قبل عروج پر رہ چکا ہے۔ اور تاریخ کا بیان ہے کہ ان قوموں کا دنیوی جاہ و چشم اسرائیلوں سے کچھ بڑھ ہی چڑھ کر رہا۔پھر آخر قوم اسرائیل کی وہ مخصوص فضیلت کیا تھی؟تاریخ کی زبان سے جواب ایک ہی ملتا ہےکہ وہ دولت یا اللہ کی اعلیٰ ترین نعمت ،مسلک توحید کی تھی۔دنیا کی تاریخ کے جس دور میں ساری قومیں اور ساری نسلیں شرک میں مبتلا تھی ، یا اس کی طرف بہی چلی جارہی تھیں یہ نسل اسرائیل ہی کی ایک قوم تھی جو من حیث القوم توحید کی علمبردار رہی۔"29
اس آیت کی تفسیر میں آپؒ نے بنی اسرائیل کی جو فضیلت بیان فرمائی اس کے بعد اُن ہی کی مقدس کتب سے ثابت کیا کہ بنی اسرائیل کی فضیلت توحید ہی کی بنیاد پر تھی لیکن مولاناؒ نے اس حوالے سے کوئی ایک حدیث بھی نقل نہیں فرمائی۔
عیسائیت کے عقیدہ کفارہ کی بنیاد یہودیت ہے:
عقیدہ کفارہ جس پر عیسائیت کی عمارت کھڑی ہے ایک ایسا پیچیدہ عقیدہ ہے جسے سمجھنا اور سمجھانا بہت ہی مشکل ہے۔مولانا عبدالماجد دریابادیؒ کے نزدیک عیسائیوں کے ہاں یہ عقیدہ بھی یہودیوں کے ہاں سے آیا ہے۔
"وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُون"30
ترجمہ:اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص بھی کسی کے کچھ کام نہیں آئے گا نہ کسی سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی نہ کسی سے کسی قسم کا فدیہ لیا جائے گا اور نہ ان کو کوئی مدد پہنچے گی۔
مذکورہ آیت کی تفسیرمیں بھی آپ کےکلام سےسمجھاجاسکتاہےکہ یہاں اسرائیلی عقیدہ کی تردیدہےکہ عمل اور عقیدے کیسے ہی ہوں،بہرحال اپنے اسلاف کرام شفاعت کرکے بخشواہی لیں گے۔شفاعت اور شفیع ِ مستقل کا یہی مبالغہ آمیز تخیل ہے جس نے مسیحیت میں آکر انتہائی شکل اختیار کرلی اور کفارہ ہی کی طرح شفاعت پر مسیحیت کی بنیاد ہے۔یہودیوں کا یہی مزاج بن چکا تھا کہ اُن کے جو بزرگ اسلاف ہو گزرے ہیں وہی اُن کی طرف سے خدا کو سفارش کریں گے اور ان کو یعنی یہودیوں کو کسی بھی طرح کے نیک اعمال کی ضرورت نہیں۔اپنی طرف سے ان لوگوں نے یہی عقائد وضع کیے تھے جو آگے چل کر عیسائی مذہب میں مستقل عقیدہ کی شکل اختیار کرگیا۔آج کل کے زمانے میں اگر ہم نظر دوڑائیں تو ایسے لوگوں کی کمی نہیں۔دین دار اور دنیادار، دونوں طبقوں میں ہمیں اسلاف پسندی اسی حد تک نظر آئے گی۔لوگ اپنے اسلاف اور اپنے نسب پر ایسے فخر کرتے ہیں کہ گویا یہ نسب اور ان کے اسلاف ہی انہیں قیامت کے روز بچائیں گے۔
فرعون کے متعلق آپؒ کی رائے:
لفظ "فرعون" کی تفسیر میں مولانا عبدالماجد دریابادی ؒ رقم طراز ہیں:
"(فرعون) یہ کسی متعین بادشاہ کا ذاتی نام یا علم نہیں تھا۔قدیم شاہانِ مصر کا عام لقب تھا۔ جیسے ہمارے زمانے میں ابھی کل تک جرمنی کے بادشاہ کو قیصر،روس کے تاجدار کو زار،اور ٹرکی کے فرمانروا کو سلطان کہتے تھے یا آج بھی والئی مصر کو خدیو اور والئی دکن کو نظام کہتے ہیں۔"31
اس کے بعد آپ نے بعض مؤرخین کا ایک خیال ذکر کیا ہے جس کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہم عصر دو بادشاہ ہو گزرے ہیں ۔اس کا جواب آپ کچھ یوں تحریر فرماتے ہیں:
"فرنگی مؤرخین کا خیال ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہم عصر کوئی ایک بادشاہ نہیں ہوا ہے،یکے بعد دیگرے دو بادشاہ ہوئے ہیں۔یہ اگر صحیح ہے تو اسے بھی قرآن کا اعجاز ہی کہنا چاہیے،کہ وہ بجائے شخصی نام کے عمومی لفظ لایاجس کے بعد شخصیتوں کے ایک یا دو یا چند ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"32
"فرعون"کے حوالے سے آپ نے یہی تک لکھا لیکن اس سے آگے مزید تفصیل بیان نہیں کی نہ ہی یہ رائے قائم کی کہ موسیٰ علیہ السلام کا ہم عصر کون سا بادشاہ تھا؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام۔۔۔یہودیوں کے جلیل القدر پیغمبر:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کا جلیل القدر پیغمبر مانا جاتا ہے۔آپؑ کی سرپرستی میں یہودیوں کو فرعون سے آزادی ملی اور آپ ہی کی سربراہی میں یہودیوں نے کامیابی کے وہ پل عبور کیے جسے عبور کرنا بالکل ناممکن تھا۔جیسا کہ یہودیوں کا صحیح سلامت دریا کو پار کرنا اور فرعون کا اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق ہونا،چٹان سے بارہ چشموں کا پھوٹنا وغیرہ وغیرہ۔مولانا عبدالماجد دریابادیؒ لفظ "موسیٰ" کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"موسیٰ بن عمران سلسلہ اسرائیلی کے سب سے مشہور و جلیل القدر پیمبر کا نام ہے۔توریت میں ہے کہ عمر ایک سو بیس سال کی پائی۔آپ کا زمانہ مؤرخین اور اثربین کا تخمینہ ہےکہ پندھویں اور سولہویں صدی قبل مسیح علیہ السلام تھا۔سالِ ولادت غالباً1520 ق،م۔ سالِ وفات غالباً 1400 ق۔ م۔"33
فرعون کون سے دریا میں غرق ہوا؟
موسیٰ علیہ السلام کو جب نبوت عطا ہوئی اور اللہ نے آپ کو معجزات سے سرفراز فرمایا تو آپ کو کہا گیا کہ اب جا کر فرعون کو حق باری تعالیٰ کا پیغام پہنچاؤ اور اسے توحید کی دعوت دو۔
"اسْلُكْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِنْ رَبِّكَ إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ"34
ترجمہ:اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالو، وہ کسی بیماری کے بغیر چمکتا ہوا نکلے گا، اور ڈر دور کرنے کے لیے اپنا بازو اپنے جسم سے لپٹا لینا اب یہ دو زبردست دلیلیں ہیں جو تمہارے پروردگار کی طرف سے فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس بھیجی جارہی ہیں۔ وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں۔
جب موسیٰ علیہ السلام فرعون کے پاس گئے تو فرعون نے سخت مخالفت کی اور مرنے مانے پر اتر آیا۔آپ علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سمیت ہجرت کا ارادہ کیا اور مصر کی سکونت ترک کرکے شام و فلسطین کو چلے جانے کا قصد کیا۔فرعون کو جب اس کی خبر ہوئی تواس نے اپنے لشکر سمیت آپؑ اور آپ کے ساتھیوں کا پیچھا کیا۔اب اسرائیلوں کے سامنے یعنی مشرق کی جانب سمندر تھا ،دائیں بائیں پہاڑیاں اور پشت یعنی مغرب پر فرعون اور اس کا لشکر تھا۔آپ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے سمندر میں عصا مارا تو راستہ بن گیا، آپ اور آپ کے ساتھی بہ حفاظت گزر گئے اور فرعون اپنے لشکر سمیت دریا میں غرق ہوگیا۔قرآن نے فرعون کی ہلاکت کا یہ واقعہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
"فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ"35
ترجمہ:نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے ان سے بدلہ لیا اور انہیں سمندر میں غرق کردیا۔ کیونکہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا، اور ان سے بالکل بے پرواہ ہوگئے تھے۔
اسی طرح سورۃالبقرہ میں ارشاد ہے:
"وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنْجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ"36
ترجمہ:اور (یاد کرو) جب ہم نے تمہاری خاطر سمندر کو پھاڑ ڈالا تھا چنانچہ تم سب کو بچالیا تھا اور فرعون کے لوگوں کو (سمندر میں) غرق کرڈالا تھا (٤١) اور تم یہ سارا نظام دیکھ رہے تھے۔
مولانا عبدالماجد دریابایؒ اسی آیت کی تفسیر میں "البحر" کی تشریح کچھ یوں فرماتے ہیں:
"بحر سے مراد یہاں دریائے نیل نہیں،جیسا کہ بعض ثقات کو دھوکہ ہوگیا ہے۔بلکہ بحر قلزم (یا بحر احمر) مراد ہے۔دریائے نیل تو بنی اسرائیل کے مسکن اور محلہ سے مغرب کی طرف واقع تھا۔اور اسرائیلیوں کا راستہ شام کے لیے مشرق کی طرف تھا۔نیل سے اس راستہ کو دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔مصر سے شام کی راہ کے قریب بحر قلزم تھا۔اسی کے تنگ شمالی سرے کی جانب یہاں اشارہ ہےمصر کے مشرق میں جہاں اب نہر سویز کھد گئی ہے،اس سے متصل جنوب میں،نقشہ میں سمندر دو مثلثوں کی شکل میں تقسیم نظر آئے گا۔یہاں ان میں سے مغربی مثلث مراد ہے۔اسرائیلیوں نے اسی کو عبور کرکے جزیرہ نمائے سینہ میں قدم رکھا تھا۔"37
بعض حضرات کو اب بھی یہی مغالطہ ہوتا ہے کہ جس دریا میں فرعون اور اس کا لشکر غرق ہوا تھا وہ دریائے نیل تھا، حالانکہ وہ بحر احمر یعنی بحر قلزم تھاجیسا کہ روح المعانی،صفوۃ التفاسیر اور تفسر قاسمی وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ اس کا موجودہ نام خلیج سوئز ہے۔38
تورات:
توریت کا لفظ اصل میں عبرانی زبان کا ہے جس کا مطلب ہے "قانون"۔39 اصطلاح میں توریت سے مراد آسمانی کتاب ہے جو خداوند تعالیٰ نےکوہ طور میں اپنے برگزیدہ پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بنی اسرائیل کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نازل فرمائی۔"40جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے:
"وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ"41
ترجمہ:اور (یاد کرو) جب ہم نے موسی کو کتاب دی،اور حق و باطل میں تمیز کا معیار (بخشا) تاہ تم راہ راست پر آؤ۔
مولانا عبدالماجد دریابادیؒ اس آیت کے الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ کی تفسیر میں چار اقوال کا تذکرہ کرتے ہیں:
-
الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَکے درمیان عطفِ تفسیری ہے۔ اورمراد دونوں سے ایک ہی ہے یعنی توریت۔ توریت ہی کی دو صفتیں ہیں ۔ایک صفت کتابت، دوسری صفت فرقانیت۔اول کے لحاظ سے وہ الْكِتَابَ ہے، اور دوسری کے لحاظ سے الْفُرْقَانَ۔42
-
اس سے مراد یہاں توریت اپنے احکام و شرائع کے لحاظ سے ہے۔ابن عباس رضی اللہ عنہ اور بہت سے تابعین کا یہی مذہب ہے ۔43
-
الفرقان سے مراد حضرت موسی علیہ السلام کے معجزات ہیں جیسا کہ عصا اور یدِ بیضا و غیرہ۔44
-
الفرقان سے مراد بنی اسرائیل کی فرعون کے مقابلہ میں فتح یابی ہے۔45
خلاصہ بحث:
اس تحقیقی و تجزیاتی مضمون میں سب سے پہلے مولانا عبدالماجد دریابادیؒ صاحب کا تعارف پیش کرکے اُن کی زندگی پر روشنی ڈالی گئی۔آپ کی تصانیف کا تذکرہ کرنے کے بعد "تفسیری ماجدی کا تعارف و منہج بیان ہوا۔اس کے بعد یہودیت کی مختصر سی تاریخ اور لغوی و اصطلاحی تعارف بیان ہوا۔ان سب کے بعدیہودیت کے متعلق مولانا عبدالماجد دریابادیؒ کی جو آرا تھیں انھیں مختلف عنوانات کے تحت ذکر کیا گیا مثلاً حضرت موسیٰؑ، توریت، فرعون اور فرعون کا غرق ہونا،بنی اسرائیل کی خاص فضیلت کیاہےاوراس کاسبب کیاہے۔تمام بحث کانتیجہ یہ نکلتاہےکہ یہودسےمتعلق بہت سی باتیں خلاف ِواقعہ نقل درنقل چلی آرہی ہیں لیکن حقیقت اس کےبرعکس ہے جیساکہ بنی اسرائیل اوریہودکامصداق ایک ہونا۔اسی طرح فرعون اورآل ِفرعون سےمتعلق چندباتوں کی نشاندہی کی گئی کہ آل فرعون جس دریامیں غرق ہوئی وہ بحیرہ احمرہےجوکہ موجودہ جغرافیائی لحاظ سےخلیج ِسوئزہےوغیرہ ۔ ان تحقیقات کامقصدیہوداوران سےمتعلق چندغلط فہمیوں کاازالہ ہےتاکہ موجودہ جغرافیہ اورتاریخ کےمابین مطابقت کی سبیل تلاش کی جاسکے۔
حواشی و حوالہ جات
1M.Phil Scholar, Dept. of Islamic Studies, Abdul Wali Khan University, Mardan, Pakistan
Email: kashifawkum689@gmail.com
2 M.Phil Scholar, Dept. of Islamic Studies, Abdul Wali Khan University, Mardan, Pakistan
3 M.Phil Scholar, Dept. of Islamic Studies, Abdul Wali Khan University, Mardan, Pakistan
1مولانا عبدالماجد دریابادی، آپ بیتی (کراچی: ناظم آباد،مجلس نشریات اسلام،1996ء) ص:59
2 ایضاً، ص:23
3 ایضاً ، ص:42
4 ایضاً ، ص:27
5 پروفیسر محمد نسیم عثمانی،اردو میں تفسیری ادب (کراچی: گلشن آباد،سن اشاعت:نامعلوم) ص:312
6 دریابادی، آپ بیتی، ص:248
7 ایضاً ،ص:249
8 ایضاً ، ص: 257
9 مولانا عبدالماجد دریابادی کی اردو اور انگریزی کی تفسیری خدمات،ص:71، تحقیقات اسلامی،جلد:10،ش:02،اپریل-جون 1991ء
10 ایضاً ،ص:81،
11 مولانا عبدالماجد دریابادی، آپ بیتی، ص:390
12 ڈاکٹر تحسین فراقی،عبدالماجد احوال و آثار (لاہور:مکتبہ جدید پریس،طبع اول:1993ء) ص: 80
13 ڈاکٹر سید شاہد علی،اردو تفاسیر بیسوں صدی میں،(لاہور:اردو بازار،مکتبہ قاسم العلوم،سن اشاعت:نامعلوم) ص:50
14 ایضاً ،ص:52
15 قرآن مجید کی تفسیریں چودہ سو برس میں(پٹنہ: خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری:1995ء) ص:348
16 ڈاکٹر سید شاہد علی،اردو تفاسیر بیسوں صدی میں،ص:52
17 ایضاً ،ص:52
18 ایضاً ۔
19احمد عبداللہ،مذاہب عالم(لاہور:مکی دارالکتب،2002ء) ص:279
20ایضاً ،ص:280
21پروفیسر چوہدری غلام رسول،مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ(لاہور:الفیصل ناشران،2012ء) ص:262
22ابن منظورافریقی،لسان العرب،(بیروت:دارالمعارف،2015ء)،3/394
23 ڈاکٹر مانع بن حماد جہنی،الموسوعۃ المیسرۃ فی الادیان والمذاہب والاحزاب المعاصر(مصر:دارالندوۃ العالمیہ:1420ھ) 1/495۔
24سورۃ البقرہ02: 40
25 مولانا عبدالماجد دریابادیؒ،تفسیر ماجدی،(لاہور: اردو بازار،پاک کمپنی،1996ء)ص:23
26 ایضاً ۔
27ایضاً ۔
28 سورہ البقرۃ02: 47
29 مولانا عبدالماجد دریابادیؒ،تفسیر ماجدی،ص:25
30سورۃ البقرہ02: 48
31دریابادیؒ،تفسیر ماجدی،ص:26
32ایضاً ۔
33ایضاً ،ص:28
34سورہ القصص28: 32
35سورہ الاعراف07: 136
36 سورہ البقرہ02: 50
37دریابادیؒ،تفسیر ماجدی،ص:27
38 (تاریخ رسائی:21 جولائی،2022ء)shorturl.at/KTW45
39مفتی سمیع الرحمان،موجودہ توریت و انجیل کا تاریخی پس منظر،ماہنامہ الفاروق(کرچی:شاہ فیصل کالونی نمبر4: محرم الحرام 1437ھ)
40ایضاً ۔
41البقرہ02: 53
42دریابادیؒ،تفسیر ماجدی،ص:28
43ایضاً ۔
44ایضاً ۔
45ایضاً ۔
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 2 | 2022 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2022 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2022 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2022 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2022 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2022 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |