37
58
2022
1682060078052_3016
35-54
https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/download/578/424
https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/view/578
سیرت نگاری امت محمدیہ کے لیے لائق تکریم موضوع ہے جبکہ مستشرقین اور بعض دیگر غیر مسلم متعصب حلقوں میں ہدف تنقید، اظہار عداوت اور اہانت کا ذریعہ ہے۔ ان کی تنقید اور اہانت کا مرکزی نقطہ نبی کریم ﷺ کا تعدد ازواج باالفاظ دیگر آپ ﷺ کا ایک سے زائد شادیوں کا پہلو ہے۔ ان گمراہوں نے تعدد ازواج کے حوالے سے نبی کریمﷺ کے دامن عفت وعصمت پر شہوت پرستی اور جنسی جنون کے شرمناک الزامات عائد کیے گئے۔ مستشرقین کے اس باطل گروہ میں:
سرولیم میور(Muir,Sir William) (1) ایڈورڈ گبنGibbon Edward))) 2( آر اے نکلسن (Nicholson, Roerich Allayne) 3( فلپ شاف (4) (Philip Schaff ) ایرک بیتھ مین (5) (Erich Bethman) گستاو وائل (6) (Gustave Weil) ول ڈریونٹ (7) (Wil Durant) جیمز کرٹزک (8) (James Kritizeck) ان کے علاوہ (Hilde Bert) ہلڈ برٹ، (Francis Bacon), فرانسس بیکن ، (Euliogius) راہب یولو جیس ، جان لڈ گیٹ (J.Lidgate) اورعصر جدید کے گم کردہ راہ رسوائے زمانہ سلمان رشدی کے نام بطور خاص قابل ذکر ہیں، جو نبی کریم ﷺ کی پیکر عفت و عصمت کی ذات کو تعدد ازواج کے حوالہ سے ہدف تنقید بنانے میں اولین درجہ پر ہیں۔جبکہ برصغیر پاک و ہند میں بھی تاج برطانیہ کے زیر اقتدار عیسائی پادریوں کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کی بناء پر تعصب کا قلم استعمال کرنے والے کئی گمراہ نام ہیں۔ ان میں بد نام زمانہ سماجی لیڈر راج پال لعین نے" محمد بیویوں والا" کے زیر عنوان ازواج مطہرات اور تعدد ازواج کے حوالے سے نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا۔ان سب کا پیشوارشدی ملعون ہے جس کا بد نام زمانہ انگریزی ناول (SatanicVerses) شیطانی آیات ہے۔(9) تاریخی، تحقیقی اور عادلانہ مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے افکار اور نظریات محض تعصب، ہٹ دھرمی، لاعلمی اور بد دیانتی کا پلندہ ہیں۔(10) واضح رہے کہ حضور اکرمﷺ کے تمام نکاح کسی نفسانی خواہش کی بناء پر نہ تھے بلکہ ان میں مشیت الہی تھی۔ عالم شباب پچیس سے پچاس سال آپؐ نے صرف ایک بیوی جو کہ بیوہ ہونے کے علاوہ عمر میں آپ ﷺ سے پندرہ سال بڑی تھیں، پر اکتفا کیااور یوں تعدد ازواج کا عرصہ تو بالکل مختصر سا ہے۔(11)
ڈاکٹر سعد اللہ نے اپنی کتاب" نبی کریمﷺ کی عائلی زندگی" میں نبوی ازواجی زندگی کو چار مراحل میں تقسیم کیا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے آخری مرحلہ 60 سال سے 63 سال تک کوئی نکاح نہیں کیا۔ پہلا مرحلہ 25 سال میں بھی کوئی نکاح نہیں کیا۔ دوسرا مرحلہ 25 سے 54 سال تک جس میں بیک وقت دو
خواتین آپ ﷺ کے نکاح میں جمع نہ ہوئیں۔ تیسرا مرحلہ 54 سے 60 سال جس میں متعدد شادیاں ہوئیں۔(12)
تعدد ازواج نبویؐ کا اولین پہلو حکم الہی ہے جس میں متعدد مقاصد و مصالح ہیں۔ جس پر علمائے سیرت اور محققین نے تاریخی،علمی اورمنطقی انداز میں تحقیقات پیش کرتے ہوئے مثقت جوابات دیئے ہیں۔ ملاحظہ ہو: (13) ان شادیوں کے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اس لیے یہاں "تعددازواج نبویؐ کے سماجی اثرات" پر بحث کی جاتی ہے۔
بیوگان کی دلجوئی اور سرپرستی:
سماج میں بیوہ عورت کو انتہائی کمزور گردانا جاتا ہے، نبی کریم ﷺ نے اس کو بلند مقام عطا فرمایا۔ بیوہ کی خبر گیری کرنے والے شخص کو بہت بڑی فضیلت دی۔
الساعي على الارملة والمسكين كالمجاهد في سبيل الله۔(14)
نبی کریم ﷺ نے بذات خود بیوہ عورتوں کو عقد زوجیت میں لے کر بلند مقام دیا۔رسول اللہ ﷺکی شادیوںمیں ایک پہلواوربنیادی سبب بیوہ ،مطلقہ، اور بے سہارا خواتین سے شادی کی تعلیم دینا اور عملی اسوہ پیش کرنا تھا۔ بعثت نبوی سے قبل ان بے سہاراخواتین کی حیثیت المناک تھی۔ آپ نے ان سے شادی کر کے سماج میں دلجوئی اور سرپرستی کی بہترین مثال قائم کردی۔
آپ ﷺ کی اولین شادی حضرت خدیجہ ؓ سے ہوئی اس سے قبل دو مرتبہ نکاح میں آ چکی تھیں۔ آپ کا پہلا نکاح عتیق بن عائذ مخزومی اور دوسرا نکاح ابوہالہ سے ہوا۔(15)بعض اہل علم کا خیال ہے کہ سیدہ خدیجہ ؓ کا پہلا خاوند ابو ہالہ اور دوسرا عتیق ہے۔ (16)
البتہ اس بات پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ نبی کریم ﷺ سے پہلے سیدہ خدیجہ ؓ کے دو نکاح ہوچکے تھے۔ دوسرا نکاح حضرت سودہ ؓ سے ہوا۔ مؤرخین میں اس بات کا اختلاف ہے کہ حضرت سودہ ؓ کو مقدم حاصل ہے یا حضرت عائشہ ؓ کو جبکہ راجح قول یہی ہے کہ حضرت سودہ ؓ کا نکاح پہلے ہوا۔(17)وہ بھی بیوہ تھیں ان کے خاوند سکران ؓ نے ہجرت حبشہ کے بعد وفات پائی۔ حضرت سودہ ؓ سے نکاح کا ایک مقصد بیوہ کی دستگیری تھا۔ اس نکاح سے متعلق واٹ منٹگمری لکھتا ہے:
"In the case of Saudah whom he married in Makkah, the chief aim may have been to provide for widow of faithful Muslim." ( 18)
حضرت حفصہ بنت عمر ؓ کے خاوند غزوہ بدر میں زخمی ہوئے بعد ازاں انہی زخموں سے ان کی وفات ہوئی۔(19) حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ کے خاوند عبد اللہ بن جحشؓ غزوہ احد میں شہید ہوئے۔(20)حضرت ام سلمہ ؓ بیوہ ہو گئیں ان کے خاوند ابو سلمہؓ غزوہ احد میں زخموں کی تاب نہ لا سکے اور شہید ہو گئے۔ (21) حضرت زینبؓ کا پہلا نکاح حضرت زیدؓ سے ہوا، مطلقہ ہوئیں اور حکم الہی سے نبوی زوجیت میں آئیں۔(22)
ڈاکٹر حافظ محمد ثانی لکھتے ہیں:
حضرت محمد ﷺ کی ازواج مطہرات میں غالب اکثریت بیوہ و بے سہارا خواتین پر مشتمل تھی۔ چنانچہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ، حضرت سودہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت زینب بنت خزیمہؓ، حضرت ام سلمیؓ، حضرت جویریہؓ، حضرت ام حبیبہؓ، حضرت صفیہؓ، حضرت میمونہ ؓ تمام بیوہ خواتین تھیں۔ ان سے شادیاں کر کے رسول اللہ ﷺ نے عظیم مثال قائم فرمائی"۔(23)
مغربی مصنف ڈاکٹر لیٹز (Dr Leitner)لکھتا ہے کہ:
"I believe that the real cause of his many marriages on old age was charity, and in order to protect the widows of his Persecuted followers". 24
حضرت ام حبیبہ ؓ کا خاوند مرتد ہوگیا،مے نوشی کی عادت ہوگئی، آخر کار اس کا انتقال ہوگیا اور حضرت ام حبیبہ ؓ بیوہ ہو گئیں۔(25 )حضرت میمونہ ؓ دو مرتبہ نکاح میں آئیں پہلا نکاح مسعود بن عمرو بن عمیر ثقفی سے ہوا، کسی وجہ سے علیحدگی ہوگئی پھر ابورہم بن عبدالعزی کے نکاح میں آئیں، ابورہم کے انتقال کے بعد بیوہ ہو کر رسالت مآب ﷺ کے نکاح میں آئیں۔(26)
گویا نبوی نکاحوں میں بیوگان ومطلقہ خواتین کی سرپرستی اور کی حفاظت کا پہلو نمایاں ہے۔
سماجی طبقات میں شادی کی تعلیم:
بعثت نبویﷺ کے وقت پوری انسانیت بشمول مہذب، اقوام بالعموم اور پورا عرب سماج بالخصوص بدترین قبائلی عصبیت اور طبقاتی امتیاز ات کا شکار تھا، ان کے نزدیک وہ ابراہیم خلیل اللہ کی اولاد، حرم مکہ کے مجاور، پاسبان، بیت اللہ کے نگہبان اور مکہ کے باشندے ہیں لہذا بنی نوع انسانی کا کوئی فرد ان کے نزدیک ان کا ہم مرتبہ نہیں۔(27)عہد جاہلیت کے طبقاتی امتیاز اور عصبیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قریش مکہ میں مناسک حج کی ادائیگی میں عام حجاج سے منفرد اور ممتاز رہتے تھے وہ میدان عرفات میں عام حجاج کے ساتھ ٹھہرنا ہی باعث عار سمجھتے تھے۔(28)
قبائلی اور طبقاتی امتیازات کا یہ لحاظ ازواجی رشتوں میں بھی ملحوظ رکھا جاتا تھا ۔نسلی اور نسبی تفاخر اور قومی عصبیت کی وجہ سے اعلی طبقے کے افراد اپنی بیٹیوں کا نکاح کم حیثیت اور کم تر افراد سے نہیں کرتے تھے۔(29)
ڈاکٹر حافظ محمد ثانی لکھتے ہیں کہ:
"طبقاتی امتیازات کے بندھنوں میں بندھے ہوئے عرب معاشرے میں رسول اللہ ﷺ نے دین مبین کی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں کو درس اخوت و محبت دیا انہیں انسانیت کے رشتے میں پرو کر ان کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم کیا اور عرب کے مختلف طبقات اور قبائل میں شادیاں کر کے گویا صحابہ کرامؓ اور امت کے تمام افراد کو یہ درس دیا کے نام و نسب کے بندھنوں اور طبقاتی امتیاز رات کی دین میں کوئی حیثیت نہیں، ازواج مطہرات سے رسول اللہ ﷺ کی شادیوں سے درحقیقت امت کو مختلف انسانی طبقات میں شادی کی تعلیم ملی"۔(30)
" ڈاکٹر ماجد علی خان نبی کریم ﷺ کی متعدد شادیوں کی وجوہات میں سے ایک وجہ " معاشرے کے مختلف طبقات میں شادی کی تعلیم" لکھتے ہیں۔(31)
خطبہ حجۃ الوداع میں نبی کریم ﷺ نے نسلی تفاخر اور طبقاتی آزاد کے خاتمے کا اعلان فرمایا:
"یا معشر القریش ! ان اللہ قد اذھب عنکم نحو الجاھلیۃ و تعظمھا بالآباء ۔ایھا الناس ! ربکم واحد ،و ان اباءکم واحد، کلکم من آدم ،و آدم من تراب۔و لیس لعربی فضل علی عجمی و لا لعجمی فضل علی عربی، و لا اسود علی احمر و لا احمر علی اسود الا بالتقویٰ"۔(32)
نبوی ازواجی زندگی کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے دیگر مختلف قبائل عرب کی خواتین سے ازدواجی بندھن قائم کرکے سماجی، طبقاتی امتیازات کی بیخ کنی کر دی۔ ازواج مطہرات نبوی ﷺ عرب سماج کے مختلف خاندانوں اور قبائل کی نمائندہ تھیں۔حضرت خدیجہ ؓ قبیلہ بنو اسد( قریش)، حضرت سودہ ؓقبیلہ بنو عامر (قریش)، حضرت عائشہ ؓ قبیلہ بنو تمیم( قریش)، حضرت حفصہ ؓ قبیلہ بنو عدی( قریش)، حضرت ام سلمہ ؓ قبیلہ بنو مخزوم( قریش)، حضرت زینب بنت جحش قبیلہ بنو اسد بن خزیمہ ( قریش)، حضرت جویریہ ؓ قبیلہ بنو مصطلق (خزاعہ)، حضرت ام حبیبہ ؓ قبیلہ بنو امیہ (قریش)، صفیہ ؓ قبیلہ بنو نضیر( یہود)، حضرت میمونہ ؓ قبیلہ بنو عامر بن صعصہ( قریش) سے تعلق رکھتی تھیں۔(33)گویا نبوی ازواجی طرز حیات قبائل عرب کے مختلف طبقات کے سماجی تفاوت اور امتیازات کا خاتمہ کرتا ہے اور ان میں وحدت انسانی اور مساوات پروان چڑھاتا ہے۔
ڈاکٹر حمید اللہ نبی کریم ﷺ کی متعدد شادیوں کے طبقاتی اور قبائلی عصبیت کے خاتمے میں کردار اور اثرات کے متعلق لکھتے ہیں کہ:
"عربوں میں جو کہ قبیلہ داری نظام عام طور پر رائج تھا اس لیے رشتہ داری سے زیادہ موثر کوئی اور وجہ دوستی وحلیفی کی نہیں ہو سکتی تھی۔ تو اس زمانے میں پیغمبر اسلام ﷺ نے جو عقد فرمائے وہ جغرافیائی نقطہ نظر سے قریب قریب ہر قبیلے کی نمائندگی کرتے ہیں اور اس کے اثرات بھی دوررس ہوئے"۔(34)
طبقاتی امتیاز اور قبائلی عصبیت کے خاتمے میں ان شادیوں نے کیا کردار ادا کیا اس حوالے سے ڈاکٹر حمید اللہ ایک عنوان قائم کرتے ہیں:" ازواج مطہرات اور عہد نبوی ﷺ میں بین الاقوامی عصبیتوں کو دور کرنے کی بعض تدبیریں"۔ اس میں بحث کے اختتام پر نتیجہ بحث کے طور پر لکھتے ہیں:
اس مختصر بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کئے بغیر نہیں رہتا کہ ان مختلف قبائل میں نکاحوں کے ذریعے مسلمانوں میں پرانی عصبیتوں ( طبقاتی امتیازات) کو دور کرنے کی رسول اللہ ﷺ نے کتنی وسیع تر کوششیں فرمائیں اور نتائج بھی یہ بتاتے ہیں کہ یہ کوششیں بیکار نہ رہیں۔(35)
سماجی اثر و رسوخ کا حصول:
تعلیمات ازدواجی سیرت میں سماجی اثر و رسوخ بھی مطلوب تھا جس کی برکت سے اسلامی سماجی نظم مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ قاضی سلیمان منصورپوری لکھتے ہیں: "چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی سیاسی اور قبائلی اعتبار سے، بااثر خاندانوں میں شادیوں سے اشاعت اسلام کی راہیں ہموار ہوئیں، قبائل عرب کی دشمنی میں کمی آئی یا ان کا خاتمہ ہوا بالخصوص ام المومنین حضرت جویریہؓ سے رسول اللہ ﷺ کی شادی کے سبب عرب کا انتہائی بااثر قبیلہ بنو مصطلق اور اس کے حلیف مختلف قبائل عرب جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن تھے، دوست بن گئے۔ بہت جلد یہ قبیلہ مسلمان ہوگیا اور اسلام کی ترویج و اشاعت میں اس نے بنیادی کردار ادا کیا"۔ چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے:
فما رأینٰہ امرۃ کانت اعظم برکۃ علی قومھا منھا۔(36)
"ہم نے کسی عورت کو نہیں دیکھا جو اپنی قوم کے لئے اس سے زیادہ برکت کا باعث بنی جتنی برکت کا باعث حضرت جریرؓ اپنی قوم کے لئے بنیں"۔
نبی کریم ﷺ کے حضرت جویریہ ؓ کو ایک نکاح میں لانے کی بناء پر دین کی توسیع اور سماجی استحکام نصیب ہوا۔ ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں:
" قبیلہ بنو مصطلق سے رشتہ داری اور حضرت جویریہ ؓسے رسول اللہ ﷺ کی شادی کے بے شمار دیگر فوائد و اثرات کے علاوہ کئی سیاسی فوائد بھی حاصل ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کے اس نکاح کی اہمیت اور وسیع تر دیگر اثرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس عقد کے ساتھ ہی اسلامی مملکت کی سرحد کی سمت کئی سو میل آگے بڑھ گئی"۔(37)
حضرت میمونہؓ سے نکاح میں جہاں بیوہ اور معمر خاتون کی کفالت مقصود تھی وہاں ان کے خاندانی اثر و رسوخ سے مختلف قبائل اور گھرانوں میں اسلام کی تبلیغ مطلوب تھی۔ چنانچہ اس شادی نے کئی خاندانوں کو رسول اللہﷺ کے ساتھ رشتہ داری مصاہرت میں جوڑ دیا، جو اس دور کے عرب سماج میں بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ حضرت میمونہ ؓ کی آٹھ بہنیں انتہائی ذی مرتبہ قبائل اور خاندانوں میں بیاہی ہوئی تھیں۔(38)
ڈاکٹر حمید اللہ " کتاب المحبر" کے مؤلف محمد بن حبیب کے حوالے سے لکھتے ہیں:
لا یعلم امرأۃ فی العرب کانت اشرف دامن ھند بن عوف ام میمونۃ و اخواتھا۔(39)
مزید لکھتے ہیں:
" اہل مکہ سے باہر ام لمومنین حضرت زینب بنت خزیمہ اور حضرت میمونہ بنت حارث ؓ دونوں کا تعلق یمن کے بااثر اور طاقتور قبیلے عامر بن صعصہ سے تھا"۔(40)
چنانچہ اس رشتہ ازدواج کے دوررس سماجی اثرات مرتب ہوئے، اس نکاح کے ذریعے رشتہ داری سے وابستہ سماجی تعلقات اور خاندانی اثرات اس حد تک مرتب ہوئے کہ اس شادی کی بدولت دعوتی اور عسکری مہموں اور فتوحات کے لیے اسلامی تاریخ کے عظیم فاتح خالد بن ولید اور عظیم مدبر عمرو بن العاص ؓ میسر آئے۔ ان بے پناہ سماجی اثرات کا اعتراف مستشرق واشنگٹن ارونک (Washington Irving) بھی کرتا ہے کہ:
"This was doubtless another marriage of policy, for Maimuna was fifty-one years of age and a widow, but the connection gained him two powerful proselytes one was Khalid Ibn al-Walid a nephew of the widow, an intrepid general… the other proselyte was Khalid's friend, Amar Bin al As."(41)
ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں:
"کندہ جنوبی عراق میں ایک شاہی خاندان تھا، اسلام سے پہلے ان کی سلطنت جنوبی شام اور جنوبی عراق تک سارے عرب میں پھیل گئی تھی، اس کے اثرات عہد اسلامی میں بھی کافی تھے، اس قبیلے سے بھی رسول اللہ ﷺ نے ازواجی رشتہ داری کے ذریعے تعلقات قائم فرمائے تھے جب کہ حضرت خدیجہ ؓ کا تعلق بنی اسد بن عبدالعزیٰ سے تھا، المومنین حضرت سودہؓ کا تعلق بنی عامر بن لوئی سے تھا، حضرت ام سلمہؓ کا بنو مخزوم، حضرت ام حبیبہؓ کا بنو امیہ، حضرت زینب بنت جحشؓ کا قبیلہ بنو اسد بن خزیمہ سے تھا۔ اور ان سے زیادہ بااثر اور کوئی خاندان نہ تھے"۔(42)
حضرت ام حبیبہؓ اور میمونہ ؓ سے ازدواجی تعلق کی بناء پر قریش اور کفار مکہ کے درمیان دشمنی میں کمی آگئی۔ ابوسفیان دائرہ اسلام میں داخل ہوا۔مکہ دارالاسلام اور شہر امن بن گیا۔
سما جی رسم تبنیت کا خاتمہ:
نبی کریم ﷺ کی کچھ شادیاں محض سماج میں رائج جاہلانہ دور کی رسومات بد کے خاتمہ کی بناءپر کی گئیں۔ جیسے بعثت نبوی ﷺ سے قبل متبنیٰ( لے پالک) کو حقیقی بیٹے کا درجہ دیا جاتا تھا اور اسے حقیقی بیٹے کے مساوی حقوق کا حق دار سمجھا جاتا تھا مگر شریعت محمدیؐ نے اسے یکسر منسوخ کردیا اور آپؐ نے اپنے آزادہ کردہ غلام،لے پالک بیٹے حضرت زید بن حارثہؓ کی مطلقہ سیدہ زینب بنت جحش ؓ کو اپنی زوجیت میں لے کر اس رسم بد کی بیخ کنی کا عملی نمونہ پیش کیا۔ (43) ڈاکٹر ماجد علی لکھتے ہیں کہ:
"حضرت زینب بنت جحش ؓ سے شادی کر کے حضور ﷺ نے یہ تعلیم دی کہ متبنیٰ کی مطلقہ سے شادی کرنا جائز ہے"۔(44)
گویا زینب بنت جحش ؓ سے نبی کریم ﷺ کی شادی کا ایک بڑا مقصد رسم تبنیت کا خاتمہ بھی تھا اس رسم بد کا سماج پر مکمل غلبہ تھا۔ اس پرانی رسم کو جو سماج کا حصہ بن چکی تھی، اس نکاح نبوی نے ختم کر دیا۔
منٹگمری واٹ(William Montgomery Watt) لکھتا ہے کہ:
"This criticism of Muhammad, then was based on a pre Islamic idea that was rejected by Islam, and one aim of Muhammad in contracting the marriage was to break the hold of the old idea over men's is conduct. How important was this aim compared with others which he might have had? " 45
دورجاہلیت کی رسم تبنیت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ لے پالک کی مطلقہ بیوی سے نکاح کر کے دیگر جاہلی رسومات کا ازالہ کرنا مقصود تھا۔ قاضی سلمان منصور پوری ؒ لکھتے ہیں:
"رسول اللہ ﷺ کے اس مبارک نکاح سے نہ صرف کافروں کی رسم تبنیت کا بطلان ہوا بلکہ تثلیث کا بھی ساتھ ساتھ بطلان ہوگیا کیونکہ جب اسلام نے ثابت کر دیا کہ ایک انسان کو دوسرے انسان کا بیٹا کہنا ایسی حالت میں کہ دونوں کے درمیان خون کا رشتہ نہ ہو بالکل جھوٹ، باطل، افتراء اور بہتان ہے۔ تبھی یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ایک انسان کوخدا کا بیٹا کہنا قطعا باطل ہے افترا ہے"۔(46)
سوامی لکشمن پرشاد، ہندو سیرت نگار اپنی کتاب" عرب کا چاند" میں تزویج زینب ؓ کے متعلق لکھتا ہے:
" ایک مصلح اعظم سے اس بات کی توقع کیوں رکھی جاتی ہے کہ وہ دنیا کی ہر رسم ورواج کی پابندی کرے۔ اصلاح کے معنی یہ ہیں کہ جس شعبے میں خرابی نظر آئے اس کو بدل ڈالا جائے، خواہ ابتداء کائنات سے اس کی پابندی کیوں نہ ہوتی رہی ہو۔ ایک حقیقی مصلح قوم کی تمام و کمال زندگی اپنی قوم کے رسم و رواج، عادات و اطوار کے خلاف ایک زبردست صدائے احتجاج ہوتی ہے اور اس نئی زندگی کی جسے وہ قوم کے مردہ تن میں پھونکنا چاہتا ہے پہلے خود اس پر سب سے آگے چلتا ہے، لہذا حضرت محمد ﷺ کا اپنے منہ بولے بیٹے کی طلاق یافتہ بیوی سے شادی کرنا کسی صورت میں اخلاق باختہ قرار نہیں دیا جاسکتا، مصلحت وقت اور اصلاح کا تقاضا یہی تھا کہ آپؐ وہی کچھ کرتے جو آپؐ نے کیا"۔(47)
ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی لکھتے ہیں:
"حضرت زینب بنت جحش ؓ سے آپ کا نکاح عرب کی دو انتہائی قبیح رسوم کے انسداد کے لئے عمل میں آیا جس سے ضمنا دو مضطرب افراد حضرت زیدؓاور حضرت زینب ؓ کے ذہنی اضطراب کا ازالہ بھی ہوا اور ان کے قلبی سکون اور طمانیت کے حصول کا باعث بنا"۔(48)
دکتور مہدی رزق اللہ رقم طراز ہیں:
"اللہ تعالی چاہتا تھا کہ متبنیٰ اور اس کے متعلق جاہلیت کے تمام رسم و رواج ختم کردیے جائیں۔ اس کا سب سے بہترین طریقہ یہی تھا کہ منہ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کرائی جائے وہ بھی نبی کریمؐ جیسی
عظیم شخصیت کے ذریعے سے تاکہ مسلمانوں کو اس پر عمل کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ رہے"۔(49)
نظم ازواج میں تطہیر:
بعثت نبویؐ کے وقت ایسے نکاح رائج تھے جو زنا سے مختلف نہیں تھے۔ اس سماج میں نکاح کے مختلف طریقے
رائج تھے،جنہیں نبی کریمﷺ نے پاکیزہ بنا دیا۔صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا:
"دور جاہلیت میں نکاح چار قسم کے ہوتے تھے، ایک تو وہ نکاح جو آج اسلام میں رائج ہے، دوسرا نکاح استبضاع کہلاتا تھا، اس کی تفصیل یہ ہے کہ کوئی اجنبی شخص کسی دوسرے شخص کی بیوی سے ایسے طہر میں جماع کرتا تھا جس میں اس کے خاوند نے اس کے ساتھ جماع نہ کیا ہو۔ اجنبی کے جماع کے بعد خاوند بھی اپنی بیوی سے جماع نہ کرتا حتیٰ کہ اس اجنبی کا حمل ٹھہر جاتا، پھر حمل واضح ہو جانے کے بعد خاوند جماع کرتا اور یہ سب کچھ خاوند کی رضا مندی سے ہوتا تھا، تیسرا نکاح کئی آدمیوں سے ہوتا تھا یعنی دس سے کم آدمی اکھٹے ہوجاتے اور ایک ہی عورت سے جماع کرتے رہتے پھر جب وہ بچہ جنتی تو ان سب کو پیغام بھیجتی سب اکٹھے ہو جاتے تو اس بچے کو ان میں سے کسی ایک کی طرف منسوب کر دیتی یہ تیرا بچہ ہے۔ چوتھا نکاح یہ تھا کہ بلا تمیز بہت سے آدمی ایک عورت سے جماع کرتے رہتے ایسی عورتوں کے گھر پر عموما جھنڈا نصب ہوتا تھا پھر جب وہ بچہ جنتی تو وہ سب افراد بلائے جاتے قیافہ شناس کے ماہرین بھی بلائے جاتے، یہ لوگ جس شخص سے بچے کی زیادہ مشابہت محسوس کرتے بچے کو اس سے منسوب کر دیتے اور وہ انکار نہیں کر سکتا تھا۔ اسلام نے ان تمام نکاحوں کو باطل قرار دیا اور صرف وہی نکاح باقی رکھا جواب رائج ہے"۔(50)
وہ نکاح کے ان مکروہ طریقوں میں کسی قسم کا بھی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ صحیحین میں ہے کہ: ایک شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا یا رسول اللہ ﷺ فلاں میرا بیٹا ہے، میں نے اس کی ماں کے ساتھ دور جاہلیت میں زنا کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا دعوۃ فی الاسلام، ذھب امرالجاھلیۃ،الولد للفراش،و للعاھر الحجر۔(51)
"اسلام میں جاہلیت کے دعوے نہیں ہیں، جاہلیت مٹ چکی ہے، بچہ بستر والے کا ہے اور زانی کے لئے پتھر ہیں"۔
جاہل عرب سماج دو سگی بہنوں سے بیک وقت نکاح کر لیتے، جس کی تعلیمات نبویہ سے ممانعت ہوئی۔ ارشاد باری تعالی ہے: وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا۔(52)
تمہارا دو بہنوں کو جمع کرنا ( بھی حرام ہے) سوائے اس کے جو پہلے گذر چکابے شک اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔بے حیائی اور بے غیرتی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ باپ کے مرنے یا طلاق دینے کے بعد اس کی بیویوں سے بھی نکاح کردیا جاتا تھا جسے شریعت محمدیہ ﷺ میں منع کردیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ۔(53)
" جن عورتوں سے تمہارے باپوں سے نکاح کیا ہے ان سے تم نکاح نہ کرو۔"
جاھلی سماج میں ایک روایت یہ بھی تھی کہ طلاق کی کوئی حد مقرر نہ ہوتی۔ شریعت محمدیہؐ نے تعداد ثلاثہ مقرر کر دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ۔
"طلاق ( رجعی) دو مرتبہ ہے، پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑدینا ہے۔"
نبی کریمﷺنے ایک وقت میں نو بیویاں عقد زوجیت میں رکھ کر، پاکیزہ اسوہ پیش کیا۔ مزید یہ کہ تمام بیویوں کو عقدزوجیت سے آزادی کا اختیار دیا مگر ازواج مطہرات نے نبوی عقد کو اعزاز گردانا۔
عداوتوں سے پاک سماج کی تشکیل:
عداوت ونفرت سے نظم سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکارہو جاتا ہے۔رشتہ نکاح، افراد، اقوام، خاندانوں، اور قبائل میں ہمیشہ باہمی مودت و محبت اجاگر کرنے اور نفرت و عداوت کے خاتمے کا بہترین ذریعہ رہا ہے۔ مختلف ادوار میں متعدد بادشاہوں اور حکمرانوں نے رشتہ مصاہرت کے ذریعے اپنے وزراء، امراء اور محکوم قوموں کے ساتھ اپنے تعلقات استوار رکھے ہیں۔ عرب سماج میں بھی ان عمومی نتائج کا پیداہونا ایک فطری امر تھا ان کے ہاں بھی رشتہ مصاہرت اور دامادی کا رشتہ خاصا قابل احترام اور قرابت کا ذریعہ تھا اور داماد سے محاذ آرائی کرنا ان کے لئے باعث شرم و عار کی بات تھی۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ نے بطور فرد شناس اور ماہر نفسیات اس ازواجی، سماجی استحکام کے پہلو کو مدنظر رکھا۔ ڈاکٹر حافظ سعداللہ لکھتے ہیں کہ:
" عرب کی اس نفسیات کو مدبرو حکیم، امن عالم کے داعی اور ماہر نفسیات رسول اکرم ﷺ سے بڑھ کر کون سمجھ سکتا تھا۔ نبی اکرم ﷺ کا بعض قبائل کی خواتین اور سرداران قوم کی بیٹیوں سے ان کے بیوہ یا شوریدہ ہونے کے باوجود نکاح کرنے کا ایک اہم مقصد اور حکمت یہ نظر آتی ہے کہ ان خواتین کو" زوجیت نبوی" کا منفرد اعزاز و اکرام عطا کرکے ان قبائل اور سردار ان قوم کی اسلام دشمنی کا زور توڑا جائے اور ان کے بغض و عناد کی چنگاری کو بجھا دیا جائے۔"(54)
چنانچہ حضرت ام سلمہ ؓجو قبیلہ مخزوم سے تھیں، جو حضرت خالد بن ولید ؓ کا قبیلہ تھا۔ جب نبی کریم ﷺ نے انہیں رشتہ ازواج میں شامل کیا تو خالد بن ولیدؓ میں وہ پہلی سی سختی نہ رہی بالآخر تھوڑے عرصے بعد انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔(55) ام المومنین حضرت صفیہ ؓ یہود کے رئیس حی بن اخطیب کی بیٹی اور سردار کنانہ بن ربیع کی بیوی تھیں غزوہ خیبر میں بطور قیدی، آزادی کے بعد نبوی زوجیت میں آگئیں تزویج صفیہ ؓ کے بعد یہ قبیلہ کبھی مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شامل نہیں ہوا۔(56)
ام حبیبہ بنت ابی سفیان ؓ کے نکاح کے بعد ابو سفیان نے کسی بھی جنگ میں مسلمانوں کے خلاف فوج کشی نہ کی۔(57 )دکتور مہدی رزق اللہ لکھتے ہیں:
" رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ منتقل ہوئے تو دشمنی کا دائرہ قریش تک محدود نہ رہا بلکہ اور دیگر عرب قبائل بھی دشمن بن گئے اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ اس دشمنی کی آگ کو بجھائیں وہ اس طرح کے مختلف قبائل میں شادیاں کریں کیونکہ عربوں میں معروف تھا کہ وہ اپنے داماد کی حفاظت کرتے تھے اس کی تائید و نصرت بھی کرتے تھے۔ عربی میں عورت کے رشتے داروں کو احماء کہا جاتا ہے اور یہ لفظ حمایت سے بنا ہے یعنی حفاظت کرنے والے"۔(58)
یتیم بچوں کی کفالت:
یتیموں سے آپ ؐ نے ہمیشہ خصوصی شفقت فرمائی، ارشاد نبویؐ ہے:
الساعي على الارملة والمسكين كالمجاهد في سبيل الله۔(59)
"بیوہ اور مسکین کے لیے دوڑدھوپ کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔"
"انا و کافل الیتیم فی الجنۃ ھکذا وقال باصبعہ السبابۃ والوسطیٰ۔" (60)
"میں اوریتیم کی کفالت کرنے والااس طرح ہوں گے درمیانی اور شہادت کی انگلی ملاکر فرمایا ۔ "
نبوی ازدواجی زندگی کا ایک خوبصورت سماجی پہلو یتیم بچوں کی کفالت ہے۔ حضرت ام سلمہ ؓ بطور بیوہ نبوی حبالہ عقد میں آئیں۔ آپ چار بچوں کی ماں تھیں یتیم اور بے سہارا بچوں کی کفالت اور خود عمر رسیدہ حضرت ام سلمہؓ کی سرپرستی کہ جذبہ کے تحت نبی کریم ﷺ نے ان سے نکاح فرمایا۔(61)
ڈاکٹر حافظ ثانی لکھتے ہیں:"رسول اللہ ﷺ نے عمر رسیدہ حضرت ام سلمیٰؓ سے نکاح کرکے ان کے معاشرتی اور دیگر مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ بے سہارا یتیم بچوں کی کفالت اور انہیں باوقار زندگی کا موقع عنائت فرمایا"۔(62)
سیدہ سودہ ؓ کاسکران ؓ سے ایک بیٹا تھا جس کا نام عبدالرحمن تھا، اس نے جنگ جلولا میں شہادت پائی، کی کفالت کی۔(63) نبی کریم ﷺ نے ام سلمہ ؓ سے ان کے بچے عمرو ابن ابی سلمہ اور لڑکیاں زینب و درہ کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے نکاح فرمایا۔(64)
ڈاکٹر حافظ سعداللہ لکھتے ہیں:" کمال شفقت سے ان کے یتیم بچوں کی پرورش کی اور اپنے عمل سے بتا دیا کہ کس پیار و محبت سے سوتیلی اولاد کی پرورش کرنی چاہیے۔ آپ ﷺ کی بیویوں میں صرف یہی ایک بیوی ہیں جو بچوں کے ساتھ آئیں۔ اگر کوئی بھی بیوی اس طرح کی نہ ہوتی تو عملی طور پر سوتیلی اولاد اور یتیم بچوں کی پرورش کا خانہ خالی رہ جاتا اور امت کو اس سلسلے میں کوئی ہدایت نہ ملتی"۔(65)
سماجی کارکنان کی عزت افزائی:
نبی کریم ﷺ کے نکاح میں جہاں بے شمار حکمتیں کار فرما تھیں وہاں بطور خاص ایک سبب سماجی کارکنان کی عزت افزائی کرنا بھی مقصود تھا۔ ان میں بعض وہ جاں نثار جو نبویؐ حیات طیبہ میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے ان کی بیوہ کی کفالت اور سرپرستی کی اور بعض ایسے اصحاب جن کی زندگیوں میں ہی بیٹیوں سے نکاح کیے۔ مثلا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بیٹی حضرت عائشہ ؓ، (66)حضرت عمر فاروق ؓ کی بیٹی حفصہ ؓ (67) جو بیوہ ہوئیں، حضرت سودہؓ کے خاوند سکرانؓ قدیم الاسلام تھے ان کی بیوہ سودہ ؓ سے آپ ﷺ نےشادی کی۔68
حضرت ام سلمہؓ سے شادی کی جن کے خاوند بڑے دلیر اور شہ سوار تھےغزوہ بدرواحدمیں شریک
ہوئے۔ غزوہ احد میں چندزخم آئے جانبر نہ ہو سکے، 4ھ میں انہی کے اثر سے شہید ہو گئے۔ (69)
رسول اللہ ﷺ کی حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ سے نکاح میں دیگر سماجی مقاصد کے علاوہ ایک مقصد اپنے دیرینہ جانثاروں ابو بکرؓوعمرؓسے ربط و تعلق کو مزید استوار کرنا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا تھا، اس حقیقت کا اعتراف مستشرقین کو بھی ہے ۔چنانچہ جان بیگٹ (John Bajot)لکھتا ہے کہ:
"He (i.e.the prophet) had already married Aisha, the daughter of Abu Bakr and his married the daughter of Umar may perhaps be ascribed to his desire to bind his to principal assistants more closely to himself."(70)
ولیم میور مغربی سیرت نگار جو رسول اللہ ﷺ سے دشمنی اور تعصب میں مشہور ہے، حضرت حفصہؓ سے نبوی عقد کے متعلق لکھتا ہے کہ:
"With this marriage the prophet bound closer his friendship with her father". 71
اس نکاح کی بدولت پیغمبراسلام کے روابط اوردوستی ان کے والد عمرؓ سے مزید گہرے ہو گئے۔
تعلیم نسواں اور علمی اسوہ:
ازواج مطہرات " تعلیم نسواں" میں مرکزی حیثیت کی حامل ہیں، انہوں نے نبوی حبالہ عقد میں رہ کر تعلیمی،
عملی، خانگی بالخصوص "نسوانی علوم" کا بڑا ذخیرہ امت کے لیے چھوڑا۔ ڈاکٹر حمید اللہ رقمطراز ہیں:
"سیدہ عائشہ ؓ سے شادی کر کے نبی کریم ﷺ نے جہاں جناب ابوبکر ؓ کے ساتھ پہلے سے موجود قلبی تعلق کو مزیدمستحکم اور مضبوط کرنے کی خواہش کو مد نظر رکھا، وہاں حضورﷺنے جوان عمر "ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ " کو اسلامی تعلیمات کی ماہر معلمہ بننے کی تربیت دینا چاہتے تھے"۔(72)
اس سلسلے میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے "تفسیر عثمانی" میں لکھا ہے کہ:
"گویا کثرت ازواج میں ایک بڑی حکمت یہ ہوئی کہ خانگی معاشرت اور نسوانی مسائل کے متعلق نبی کریم ﷺ کے احکام اور اسوہ حسنہ کی اشاعت کافی حد تک بے تکلف ہو سکے"۔(73)
ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں:" بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جو کوئی عورت مرد سے پوچھتے ہوئے شرم محسوس کرتی ہے جب کہ کسی اور عورت سے آسانی سے پوچھ سکتی ہے، ایک مسلمان معاشرہ میں دانا خاتون کی بڑی ضرورت ہوتی ہے اور پیغمبر کی ازواج سے دانا اور کون ہو سکتی تھیں کیا آپ ﷺ کے ساتھ رہتی رہیں اور آپ ﷺ سے علم حاصل کرتی تھیں۔ اگر پیغمبر کی ایک ہی زوجہ ہوتیں تو اس بات کی کیا ضمانت تھی کہ وہ لمبی عمر پاتیں"۔(74)
ام المومنین حضرت عائشہ بنت ابوبکر ؓ "فقیہ الامت" کے لقب سے مشہور ہیں۔ فقہ، حدیث، حلال حرام، اخبار و شعر، طب و حکمت غرضیکہ بہت سے علوم کی جامع اور اپنے زمانے میں ان علوم میں سب سے آگے تھیں، ان کی فقاہت اور جامعیت اجلہ صحابہ میں مسلم تھی اور سب ہی حضرات ان کے علم و فضل، اصابت رائے اور دینی علم میں تبحر کے قائل تھے۔(75)
عائشہ ؓ کی فضیلت علمی اور دیگر کئی پہلوؤں کے اعتبار سے ازواج مطہرات اور تمام عورتوں میں بہت بلند ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے:" عائشہ کی فضیلت دوسری تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی دوسرے تمام کھانوں پر"۔(76)
ان کی برکت سے امت پر علمی اور سماجی اعتبار سے کئی احسانات ہیں، ان کی برکت سے امت پر تیمم کی رخصت نازل ہوئی۔واقعہ افک میں سماجی رہنمائی میسر آئی، سماجی تطہیر کے لیے بہتان کا ارتکاب کرنے پر حد قذف کا حکم نازل ہوا۔آپ کی خصوصیات میں سے ایک پہلو یہ تھا کہ آپ تمام ازواج مطہراتؓ میں سے علم و فقہ میں بڑی عالمہ تھیں۔ امام زہریؒ فرماتے ہیں:
" اگر اس امت کی تمام عورتوں کا علم جن میں ازواج مطہرات بھی شامل ہیں جمع کیا جائے تو بھی سیدہ عائشہ ؓ کا علم ان سب سے زیادہ ہے"۔(77)
سیدنا ابو موسی اشعری ؓفرماتے ہیں:
" کہ ہم اصحاب رسول کو جب بھی کسی مسئلہ اور حدیث کے بارے میں اشکال واقع ہوتا تو سیدہ عائشہ ؓ کے پاس جاتے اور اس کا جواب اور علم ان کے ہاں پاتے"۔ (78)
سیدنا عروہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ:
" میں نے علم القرآن، علم الفرائض، حلال و حرام کے علم، فقہ، طب اور حدیث عرب اور انساب کے علوم میں سیدہ عائشہ ؓ سے زیادہ عالم اور کسی کو نہیں دیکھا"۔(79)
کثیر الروایت صحابہ کرام جن کی روایات کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے سات ہیں:
1۔ حضرت ابوہریرہ ؓ۵۳۷۴، 2۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ۲۶۶۰، 3۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ۲۶۳۰،
4۔حضرت جابر ؓ۲۵۴۰، 5۔ حضرت انس ؓ۲۶۸۶، 6۔ حضرت عائشہ ؓ۲۲۱۰، 7۔ ابو سعید خدری ؓ، ۲۲۷۰
ان مکثرین فی الحدیث میں سیدہ عائشہ ؓ کا چھٹا نمبر ہے۔ امام ابن حزم نے طبقہ مکثرین بالروایہ میں گیارہ صحابہ کرامؓ کا ذکر کرکے ان کی مرویات کی تعداد بیان کی ہے جن میں سیدہ عائشہ ؓ کی احادیث کی تعداد ۲۲۱۰ بتائی ہے۔(80) امام مسروق ؒنے کہا ہے کہ:
" خدا کی قسم میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے مشائخ اور اکابر کو دیکھا ہے کہ وہ حضرت عائشہ ؓ سے فرائض کے بارے میں سوال کرتے تھے"۔(81)
ابو سلمہ عبد الرحمن کا قول ہے:" رسول اللہؐ کی احادیث و سنن، فقہی آراء، آیت کی شان نزول اور فریضہ کے بارے میں اگر سوالات و معلومات کی ضرورت پڑتی ہے تو میں نے حضرت عائشہ ؓ سے بڑا عالم نہیں دیکھا"۔
محمود بن لبید نے کہا ہے کہ عام طور سے نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہراتؓ آپ کی حدیثوں کو بہت زیادہ یاد رکھتی تھیں مگر حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ اس بارے میں سب سے آگے تھیں اور حضرت عائشہ ؓ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں فتوی دیا کرتی تھیں حتی کہ وصال تک دیتی رہیں اور رسول اللہ ﷺ کے اکابر صحابہؓ حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ ان کی خدمت میں آدمی بھیج کر ان سے احادیث و سنن کے متعلق سوال کیا کرتے تھے"۔(82)
امام ابن قیم ؒنے لکھا ہے کہ:" حضرت عائشہ ؓ کے تلامذہ و اصحاب میں ان کے بھتیجے قاسم بن محمد بن ابوبکرؓ اور بھانجے عروہ بن زبیرؓ ان کے فقہی مسائل و آراء سے تجاوز نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے فقہی مسلک پر عمل کرتے تھے"۔(83)
یہی عروہ بن زبیرؓ اولین سیرت نگار ہیں اور قاسم بن محمد بن ابوبکر فقہائے سبعہ میں سے ایک ہیں۔ عروہ بن زبیرؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے ۱۰۵۰ احادیث روایت کی ہیں، اسود بن یزید بن قیس نے ۱۱۷، ابراہیم بن یزید بن قیس نے ۷۲۷ ، قاسم بن ابی بکر نے ۱۳۷ اور عمرہ بنت عبدالرحمن انصاریہ نے ۷۲ احادیث روایت کی ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ کے ذخیرہ حدیث میں سے ۱۷۴ احادیث متفق علیہ ہیں بقیہ روایات سنن اربعہ میں منقول ہیں۔ (84)
حضرت عائشہ ؓ سے احادیث رسول ﷺ اور ان کی فقہی آراء و فتاوی کی روایت کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ان کی ایک لمبی فہرست ہے جن کی یہاں گنجائش نہیں جو مختلف کتابوں میں مذکور ہیں۔(85)
حافظ ابن کثیر ؒلکھتے ہیں: "عورتوں میں حضرت عائشہ ؓ کے شاگرداؤں میں عمرہ بنت عبدالرحمنؓ، حفصہ بنت سیرینؓ اور عائشہ بنت طلحہؓ سے زیادہ علم رکھنے والی کوئی اور خاتون نہ تھی"۔(86)
ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ علم و فضل میں بلند پایہ ہیں حضرت عائشہ ؓ کے بعد ہی تمام عورتوں میں سب سے زیادہ علم رکھتی تھیں۔ محمود بن لبید کا قول گزر چکا ہے کہ تمام ازواج مطہراتؓ احادیث بہت زیادہ یاد رکھتی تھیں مگر حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ ان میں سب سے آگے تھیں۔(87) ان کے غلام( مولیٰ) شیبہ بن نصاح بن سرجس بن یعقوب اپنے زمانے کے اہل مدینہ کے امام القراء تھے۔ حضرت نافع مولیٰ ابن عمرؓ تجوید و قرآت میں ان کے شاگرد ہیں اور ان کی باندی خیرہ امام حسن بصری کی والدہ ہیں۔ان سے ۳۷۸ احادیث مروی ہیں اس بنا پر وہ محدثین صحابہ ؓکے تیسرے طبقہ میں شامل ہیں۔(88 )حضرت ام سلمہ ؓ مجتہد تھیں صاحب" اصابہ" نے لکھا ہے:
صاحب العقل البالغ و الرائی الصائب۔"یعنی وہ کامل العقل اور صائب الرائے تھیں"۔(89)
صلح حدیبیہ کی تاریخ ساز اہمیت مسلم ہے، اس کی شرائط صحابہ کرامؓ کو ناگوار گزر رہی تھیں اس اہم موقعے پر
حضرت ام سلمہ ؓ نے نبی کریم ﷺ کو ایسا صائب مشورہ دیا کہ یہ مسئلہ فوراً حل ہوگیا۔ صلح حدیبیہ کے دوررس سماجی اثرات جو کہ درحقیقت فتح مکہ کا پیش خیمہ قرار پائے، نے آپ کی ذہانت اور اصابت رائے پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔(90) حضرت حفصہ ؓ سے ۶۰ احادیث منقول ہیں۔ (91)وہ صائم النہاراور قائم اللیل تھیں۔(92)
حضرت ام حبیبہ ؓ سے ۶۵ روایات منقول ہیں، آپ سے بھی ایک بڑی جماعت نے روایت کی ہے بعض کے نام یہ ہیں: صاحبزادی حضرت حبیبہ بنت عبیداللہ بن جحش اسدی، دونوں بھائی معاویہ بن ابوسفیان اور عتبہ بن ابو سفیان، بھتیجے عبداللہ بن عتبہ بن ابوسفیان، ابو سفیان بن سعید ثقفی، دونوں موالی سالم بن سوار، صفیہ بنت شیبہ، زینب بنت ابوسلمہ، عروہ بن زبیر، شہر ابن حوشب وغیرھم۔(93)
حضرت میمونہ ؓ سے۴۶ احادیث مروی ہیں جن میں سے بعض سے آپ کی فقاہت واضح ہوتی ہے۔ ام المؤمنینؓ سے روایت کرنے والوں کے نام یہ ہیں:
آپ کے چاروں بھانجے حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن شداد، یزید بن اصم، ربیب عبداللہ بن خولان، ندبہ( باندی)، عطار بن یسار، سلیمان بن یسار، ابراہیم بن عبداللہ، عبیدہ بن سبا ق، عالیہ بنت سبیع وغیرھم۔(94) حضرت جویریہ ؓ سے چند احادیث مروی ہیں ان سے ابن عباس، حضرت جابر، ابن عمر، عبید بن السباق، طفیل، ابو ایوب مراغی، کلثوم ابن مصطلق، عبداللہ بن شداد وغیرھم نے احادیث روایت کی ہیں۔(95)
اسی طرح بقیہ ازواج مطہرات ؓحضرت خدیجہؓ، حضرت سودہؓؓ، حضرت زینب بنت جحشؓ، حضرت زینب بنت خزیمہؓ، اہل بیت رسول ﷺ کے افراد حضرت فاطمہؓ کاشانہ نبوی سے منسلک تھے دینی علوم سے وافر حصہ کے مالک تھے۔ ان سے بھی احادیث مروی ہیں کتب حدیث و سیرت میں ان کی روایات و واقعات موجود ہیں۔ ازواج مطہرات ؓ کی زندگیاں علمی مرجع ومصدرکی حامل ہیں بڑاتعجب خیز پہلوہے کہ وہ سماج جس میں بعثت نبوی کے وقت بقول بلاذری سترہ پڑھے لکھے افراد تھے وہاں مرد تو مرد خواتین نے بھی بالخصوص ازواج مطہرات نے کتنا اہم اشاعت علم کا نمونہ پیش کیا ۔ اور جاہلی سماج علمی سماج میں منتقل ہوگیا۔مزید نبی کریم ﷺ کی ساری زندگی کا ایک اہم پہلو خانگی زندگی، جو صرف اور صرف خفیہ اور پوشیدہ ہو اس کو امت کے سامنے بطور نمونہ بیان کرنا ازواج مطہرات ؓنے کیا ہے، مزید اس کے ساتھ ساتھ وہ تشریعی اور نسوانی پہلو جو صرف اور صرف عورتوں سے متعلق ہیں ان کو بھی ازواج مطہراتؓ نے پیش کیا۔ حکیم الامت اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں:
"حضرات صحابہ کرام کی مقدس جماعت نے صرف آپ ﷺ کی بیرونی زندگی کو بالتفصیل دنیا کے سامنے پیش کیا لیکن خانگی حالات کا ضروری حصہ دنیا کے روبرو پیش ہونا باقی رہ گیا تھا، کے بغیر آپ ﷺ کی سیرت ادھوری اور نامکمل رہنے کا اندیشہ تھا اور معترضین کے اعتراضات کی گنجائش باقی رہتی اس کام کے لیے ایسی جماعت کی ضرورت تھی جو تنہائی کے اوقات میں آپ ﷺ کی رفیق ہوتی، جو راتوں کی تاریکیوں میں آپ کا ساتھ دیتی، چنانچہ ازواج مطہرات نے وہ خدمات انجام دیں جو خداوند کریم کو اپنے محبوب پاک ﷺ کے اس شعبہ زندگی کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے مناسب معلوم ہوئیں، اس مبارک جماعت کی بدولت سیرت نبوی کا وہ مخفی اور ضروری ذخیرہ دستیاب ہوا جس نے آپ ﷺ کی عظمت اور صداقت پر چار چاند لگا دیے اور حقیقت میں تعدد ازواج کےلیے سب سے بڑا موجب ضرورت تھی کس کو کیا معلوم ہوتا کہ اللہ کے سچے رسول اور توحید کے علمبردار تنہائی کن مشاغل میں گزارتے، خلوت کی گھڑیاں کن کاموں میں بسر ہوتی ہیں۔"(96)
گویا نبوی تعددازواج کے بے شمارسماجی فوائد و اثرات ہیں جسے نمونہ بنا کر دینا بہترین عالمگیر سماج پیدا کر سکتی ہے اور عالمی اطمینان و امن کا قیام ممکن ہو سکتا ہے اگر پوری دنیا کی گھریلو زندگیاں نبوی عائلی زندگی کو ماڈل بنائیں۔
حواشی و حوالہ جات
1 . Muir Sir William, Muhammad and Islam, London 1986, P 17, 148.
2. Gibbon Edward, The Decline and Fall of the Roman Empire, New York vol 11, P 694.
3. Nicholson R.A, A Literary History of the Arabs, Cambridge University, Press 1914, P 174.
4. Philip Schaff, History of the Christian Church, New York 1888 vol 4, P 169.
5. Bethmen Erich, Bridge to Islam, London 1953, P 33.
6. Gustave Weil, History of the Islamic peoples, India 1914, P 18,19.
7. Will Durant, The Age of Faith, New York 1950, P 172,173.
8. Kritizeck James, Peter. The Venerable and Islam, Princeton University press, 1964, P 137
9 . Rushdie, Satanic Verses, Damn, Goen Book.
10 ۔ جیلانی ، عبدالقادر ، ڈاکٹر،اسلام، پیغمبر اسلام ﷺ اور مستشرقین مغرب کا انداز فکر،( لاہور: بیت الحکمت،2005)
Jilānī, ʻAbdul Qādir, Dr, Islām, Paighambar -e- Islām aur Mustashriqīn -e- Maghrib kā Andāz -e- Fikar, (Lāḥore: Bait-al-Hikamat, 2005).
11 ۔ حافظ محمد ثانی، ڈاکٹر، رسول اکرم ﷺ کی ازدواجی زندگی) کراچی :دارالاشاعت ،2002ء(
Ḥāfiz Muḥammad Thānī, Dr, Rasūl e Akram [S.A.W] kī Azdawājī Zindagī (Karāchī: Dār al Ishā'at, 2002).
12 ۔ حافظ محمد سعد اللہ، ڈاکٹر، نبی کریم ﷺ کی عائلی زندگی) لاہور :دارالکتاب ،2001ء)،94-95۔
Ḥāfiz Muḥammad Sʻaadullaḥ, Dr, Nabī e karīm [S.A.W] kī ʻĀīlī zindagī (Lāḥore: Dār al Kitāb, 2001), 94-95.
13 ۔ قاضی محمدسلیمان منصورپوری ، رحمۃ للعالمین) لاہور: مکتبہ اسلامیہ، 2007ء)
Qāzī Muḥammad Sulaīmān Mansūrpurī, Rahmat-ul-llʻamīn (Lāḥore: Maktaba Islāmīa, 2007).
14 ۔ ترمذی ، محمد بن عیسی ، سنن ترمذی، (لاہور، مکتبہ بیت السلام ، 2017)، رقم: 1951۔
Tirmadhī, Muḥammad ibn ʻIsa, Sunan Tirmidhī, (Lāḥore, Maktab Bait-al-Salām, 2017), No. 1951.
15۔ ابن سید الناس ، محمد بن محمد ،عیون الاثرفی فنون المغازی والشمائل والسیر) بیروت :دار القلم،س۔ن) ، 1:109۔
Ibn Sayyīd al-Nās, Muhammad ibn Muḥammad, `Uyūn al-Athar fī Funūn al-Maghāzī wa al-Shama'il wa al-Sīyar (Baīrūt: Dār al-Qalam, S.N), 1:109.
16 ۔ ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری (بیروت:دار صادر،س۔ن)،1: 131۔
Ibn-e-Saad, Muḥammad Bin Saad, Al-Ṭabqāt-al-kubra, (Baīrūt: Dār Ṣādar,n.d.), 1: 131.
17 ۔ زرقانی، محمدبن عبدالباقی، شرح مواھب اللدینیہ) مصر: مکتب الکیات، 1399ء(، 260:3۔
Zarqānī, Muḥammad bin ʻAbd al-Bāqī, Sharā Muwāhḥib al-Dīnīya (Miṣar: Maktab al-Kīyāt, 1399 AD), 260:3.
18 . Watt W. Montgomery, P 287, 1956.
19 ۔ ابن سعد، الطبقات الکبری ،8: 82۔
Ibn-e-S'aad, Al-Ṭabqāt-al-kubra,8:82.
20 ۔ إبن حجر،احمد بن علی، الإصابہ (بیروت :دار الکتب العلمیۃ ، 1994)، 280: 12۔
Ibn Ḥajar, Aḥmad Ibn 'Ali, Al-Aṣāba (Beīrut: Dār Al-Kutub Al-'Ilmīyyaḥ,1994 AH), 12:280.
21 ۔ ابن سید الناس ،عیون الاثر، 303:2۔
Ibn Sayyīd al-Nās, `Uyūn al-Atharm,2:302.
22 ۔ ابن سعد، الطبقات الکبری ،8: 82۔
Ibn-e-S'aad, Al-Ṭabqāt-al-kubra,8:82.
23 ۔ حافظ محمد ثانی،تجلیات سیرت) کراچی: فضل سنز ،1996)،191۔
Hafiz Muhammad Sani, Tajlīyāt Sīrat (Karāchi: Faẓal Sons, 1996), 191.
24 . Zafar Ali Qureshi, The Mothers of Belivers, P 55. Islamabad, Hira council, 1986.
25 ۔ ابن سعد، الطبقات الکبری ،8: 97۔
Ibn-e-S'aad, Al-Ṭabqāt-al-kubra,8:97.
26 ۔ ذہبی،محمد بن أحمد، سیر أعلام النبلاء (قاہرہ :دار الحدیث ،س۔ن)،339:2۔
Zhahabī, Muhammad ibn Ahmad, Sear A'lām al-Nubla '(Qaḥiraḥ: Dār al-Hadīth, S.N.), 2:339.
27 ۔ ابن ہشام ،السیرۃ النبویۃ ) مصر: مصطفی البابی،1375ھ(، 199:1۔
Ibn-e-Ḥishām, Al-Sīra Al-Nabawiyya(Miṣar: Mustafa al-Bābi, 1375 AH), 199:1.
28 ۔ سید ہاروی، نجم الدین، مولانا، رسوم جاہلیت)لاہور:مکتبہ رشیدیہ ،1988)،44۔
Syed Ḥārvī, Najamuddīn, Maulāna, Rasūm-e-Jāhlīyat (Lāhore: Maktaba Rashādīya, 1988), 44.
29 ۔ جواد علی، المفضل فی تاریخ العرب قبل الاسلام) بیروت: دار الحدیث ،1970ھ)،543:4۔
Jawād Ali, Al-Mafdali fī Tarīkh al-Arab Qib al-Islām) Beīrūt: Dār al-Hadīth, 1970 AH), 543:4.
30 ۔ حافظ محمد ثانی، رسول اکرم ﷺ کی ازدواجی زندگی،172۔
Ḥāfiz Muḥammad Thānī,, Rasūl e Akram [S.A.W] kī Azdawājī Zindagī, 172
31 ۔ ڈاکٹر،ساجد علی خان، سیرت خاتم النبیین) لاہور :دار النور ، 2012 (،281۔
Dr. Sajid Ali Khan, Sīrat Khātam-al-Nabīyīn (Lahore: Dār-a-Nūr, 2012), 281.
32 البیہقی، احمدبن حسین،الحافظ،شعب الایمان(بیروت :داراحیاءالتراث العربی، س ن)، 5137۔
Al-Bayhaqī, Ahmad bin Husain, Al-Hafiz, Shuab al-Imān (Beīrut: Dār Aḥyā Al-Turāth Al-ʻArabī, 5137).
33 ۔ قاضی محمدسلیمان منصورپوری ، رحمۃ للعالمین،151:2۔
Qāzī Muḥammad Sulaīmān Mansūrpurī, Rahmat-ul-llʻamīn,2:151
34 ۔ محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی( کراچی :دارالاشاعت ،2002ء)،316۔
Muḥammad Hamīdullah, Dr, Rasūl-e-akram kī sīyasī zindagī (Karāchī: Dār al Ishā'at, 2002), 316
35 ۔ محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی،312۔
Muḥammad Hamīdullah, Dr, Rasūl-e-akram kī sīyasī zindagī ,312.
36 ۔ قاضی محمدسلیمان منصورپوری ، رحمۃ للعالمین،2:175۔
Qāzī Muḥammad Sulaīmān Mansūrpurī, Rahmat-ul-llʻamīn,2:175
37 ۔ محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی،312۔
Muḥammad Hamīdullah, Dr, Rasūl-e-akram kī sīyasī zindagī ,312
38 ۔ ذہبی ، سیر أعلام النبلاء، 339:2۔
Zhahabī, Sear A'lām al-Nubla , 2:339.
39 ۔ محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی،317۔
Muḥammad Hamīdullah, Dr, Rasūl-e-akram kī sīyasī zindagī ,317.
40 ۔ محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی،316۔
Muḥammad Hamīdullah, Dr, Rasūl-e-akram kī sīyasī zindagī ,316.
41. Washington Irving, Life of Mahomet, London، vol 4, P 92
42 ۔ محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی،317۔
Muḥammad Hamīdullah, Dr, Rasūl-e-akram kī sīyasī zindagī ,317.
43 ۔ ابن سعد، الطبقات الکبری ،101۔
Ibn-e-S'aad, Al-Ṭabqāt-al-kubra, 101۔
44 ۔ ڈاکٹر،ساجد علی خان، سیرت خاتم النبیین،282۔
Dr. Sajid Ali Khan, Sīrat Khātam-al-Nabīyīn, 282.
45 . Watt W. Montgomery, Muhammad at Madina, Oxford 1956 , P 33
46 ۔ قاضی محمدسلیمان منصورپوری ، رحمۃ للعالمین،2:190۔
Qāzī Muḥammad Sulaīmān Mansūrpurī, Rahmat-ul-llʻamīn,2:190
47 ۔ سوامی لکشمن پرشاد، عرب کا چاند) لاہور :مکتبۃ تعمیر انسانیت ،1982)،361۔
Swāmī Lakshman Parshād, Arab kā chānd (Lahore: Maktaba Tamīr Insānīat,1982), 361.
48 ۔ صدیقی ،بشیر احمد ، ڈاکٹر،نبی کریم ﷺ بحیثیت مثالی شوہر(لاہور: شیخ زایداسلامک سینٹر پنجاب یونیورسٹی ،س۔ن)،151۔
Ṣiddīqui, Bashīr Aāmad, Dr, Nabī Karīmﷺ Baḥthīat Shohar (Lahore: Sheīkh Zaid Islāmic Center Punjab University, S.N), 151.
49 ۔ مہدی رزق اللہ، دکتور، سیرت نبوی ﷺ(لاہور: دارالسلام، 1988)،414۔
Maḥdī Rizqullah, Dr, Sīrat Nabawīﷺ (Lahore: Dar al Salām, 1988), 414.
50 ۔ البخاری ، محمد بن اسماعيل ، الجامع الصحیح (مصر: دار طوق النجاة، 1422ه)، الرقم: 5127۔
Al-Bukhārī, Muhammad ibn Ismā'il, Al-Jami 'al-Sahih (Miṣar: Dār Tawq al-Najāt, 1422 AH), Ḥadīth #: 5127.
51 البخاری ، الجامع الصحیح ، الرقم: 2053۔
Al-Bukhari, Al-Jamy' Al-Ṣaḥīḥ, Ḥadīth #: 2053.
52 ۔ النساء،33:4 ۔
Al-Nisā,4:33.
53 ۔ النساء،33:4 ۔
Al-Nisā,4:33.
54 ۔ حافظ محمد سعد اللہ، ڈاکٹر، نبی کریم ﷺ کی عائلی زندگی،99۔
Ḥāfiz Muḥammad Sʻaadullaḥ, Dr, Nabī e karīm [S.A.W] kī ʻĀīlī zindagī, 99.
55 ۔ إبن حجر،احمد بن علی، الإصابہ ،221: 13۔
Ibn Ḥajar, Aḥmad Ibn 'Ali, Al-Aṣāba, 13:221.
56 ۔ إبن حجر،احمد بن علی، الإصابہ ،2 : 235 ۔
Ibn Ḥajar, Aḥmad Ibn 'Ali, Al-Aṣāba, 235: 2 .
57 ۔ ابن الأثیر۔علی بن أبی الکرم،أسد الغابہ )دار الکتب العلمیۃ،س۱۹۹۴ء(،7: 115۔
Ibn al-Athīr, 'Ali ibn Abī al-Karam, Asad al-Ghāba (Beīrut: Dār Al-Kutub Al-'Ilmīyyaḥ,1994 AH), 7: 115.
58 ۔ مہدی رزق اللہ، دکتور، سیرت نبوی ﷺ،1 : 425۔
Maḥdī Rizqullah, Dr, Sīrat Nabawīﷺ,1: 425.
59 ۔ الترمذی، محمد بن عیسیٰ،جامع الترمذی، ) الریاض: دار السلام للنشر ، 1430ھ(،344:2، الرقم: 1951۔
Tirmadhī, Muḥammad ibn ʻIsa, Sunan Tirmidhī (Al-Riyādh: Dār al-Salām Linashar, 1421 AH),2:344 , Ḥadīth #:1951.
60 ۔ البخاری ، الجامع الصحیح ، الرقم: 1795۔
Al-Bukhari, Al-Jamy' Al-Ṣaḥīḥ, Ḥadīth #: 1795.
61 ۔ ابن سید الناس ،عیون الاثر، 304:2۔
Ibn Sayyīd al-Nās, `Uyūn al-Atharm,2:304.
62 ۔ حافظ محمد ثانی، رسول اکرم ﷺ کی ازدواجی زندگی،123۔
Ḥāfiz Muḥammad Thānī,, Rasūl e Akram [S.A.W] kī Azdawājī Zindagī, 123.
63 ۔ زرقانی،شرح مواھب اللدینیہ،260:2۔
Zarqānī, Sharā Muwāhḥib al-Dīnīya, 260:3.
64 ۔ ذہبی ، سیر أعلام النبلاء، 303:2۔
Zhahabī, Sear A'lām al-Nubla , 2:303.
65 ۔ حافظ محمد سعد اللہ، ڈاکٹر، نبی کریم ﷺ کی عائلی زندگی،106۔
Ḥāfiz Muḥammad Sʻaadullaḥ, Dr, Nabī e karīm [S.A.W] kī ʻĀīlī zindagī, 106.
66 ۔ ابن سعد، الطبقات الکبری ،8: 18۔
Ibn-e-S'aad, Al-Ṭabqāt-al-kubra,8:18.
67 ۔ إبن حجر،احمد بن علی، الإصابہ ،4: 253 ۔
Ibn Ḥajar, Aḥmad Ibn 'Ali, Al-Aṣāba,4 : 253.
68 ۔ ابن الأثیر ،أسد الغابہ ،7: 188۔
Ibn al-Athīr, Asad al-Ghāba, 7: 188.
69 ۔ ابن سعد، الطبقات الکبری ،8: 87۔
Ibn-e-S'aad, Al-Ṭabqāt-al-kubra,8:87.
70 .Jhon Bagot,The Life and Time of Muhammad, P 235, New York 1971.
71 . William Muir, The Life of Mahomet, London 1861, vol 3, P 151.
72 ۔ ڈاکٹر حمید اللہ، محمد رسول اللہ ﷺ) کراچی : دارالاشاعت ،1979)،160۔
Dr. Hamīdullah, Muhammad Rasūlullah) Karachi: Dār al Ishā'at, 1979), 160.
73 ۔ قاضی،اطہر مبارکپوری، مولانا، خواتین اسلام کی دینی و علمی خدمات(لاہور :مکتبہ قاسم العلوم اردو بازار ،س۔ن)،144۔
Qāẓī, Athar Mubarakpuri, Maulana, Khawatīn-e- Islām kī dīnī wa Ilamī Khidmāt (Lahore: Maktaba Qasim Uloom Urdu Bazar, S.N), 144.
74 ۔ محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، (مترجم، انجینئر منور علی قریشی)، سیرت محسن انسانیت ﷺ(کراچی :سپر پرنٹ، 2015ء)،177۔
Muhammad Hamīdullah, Dr, (Translator, Eng. Manwar Ali Qureshi), Biography of Mohsin Insaniyat ﷺ (Karachi: Superprint, 2015), 177.
75 ۔ قاضی،اطہر مبارکپوری، مولانا، خواتین اسلام کی دینی و علمی خدمات،149
Qāẓī, Athar Mubarakpuri, Maulana, Khawatīn-e- Islām kī dīnī wa Ilamī Khidmāt, 149.
76 ۔ البخاری ، الجامع الصحیح ، الرقم: 3770۔
Al-Bukhari, Al-Jamy' Al-Ṣaḥīḥ, Ḥadīth #: 3770.
77 ۔ النیشاپوری، محمد بن عبد اللہ، المستدرک للحاکم، (لاہور: شبیر برادران، 2010) 4: 11۔
Al-Nishāpūrī, Muḥammad Bin ʿAbdullaḥ, Al-Mustadrik Lil Ḥākim,(Lāḥore: Shabīr Brothers, 2010) 4: 11.
78 ۔ الترمذی، جامع الترمذی، 335:2، الرقم: 2877۔
Tirmadhī, Sunan Tirmidhī, 2:335, Ḥadīth #:2877.
79 ۔ طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر) مدینہ منورہ: ا لمکتبہ السلفیہ، 1968ء(، 23:182۔
ṬIbrānī, Sulaīmān ibn Aḥmad, Al-Mu'jam al-Kabīr (Madinah Al-Munawarah: Al-Imkatbah al-Salfiyyah) 1968), 23:182.
80 ۔ ذہبی،محمد بن أحمد، تذکرۃ الحفا ظ (بیروت:دار الکتب العلمیہ ،1998)، 1:26۔
Dhaḥabī, Muhammad ibn Ahmad, Tazkiraḥ-tul Ḥuffāẓ (Baīrūt:Dār Al-Kutub Al-ʿilmiya., 1998 ), 1:27.
81 ۔ احمد بن حنبل، مسند ، (بیروت: دارالفکر، 1414ھ)، 6: 67
Aḥmad Bin Ḥanbal, Musnad, (Beīrūt: Dar al-Fikr, 1414 AH), 6: 67۔
82 ۔ ابن سعد، الطبقات الکبری ،8: 81۔
Ibn-e-S'aad, Al-Ṭabqāt-al-kubra,8:81.
83 ۔ ابن قیم ، عبد اللہ بن ابی بکر، إعلام الموقعين عن رب العالمين ) حیدر آباد،دکن: مجلس دائرہ معارف عثمانیہ ، 1375ھ(، 2 : 17۔
Ibn-e-Qayyim, ʿAbdullah ibn Abi Bakr, I'lām al-Muwaqqʿin an Rabb al-'Alʿāmīn(Hyderabad, Deccan: Majlis Daira Maarif Usmania, 1375 AH (2: 17).
84 ۔ ذہبی ، تذکرۃ الحفا ظ، 2:139۔
Dhaḥabī, Tazkiraḥ-tul Ḥuffāẓ , 2:139.
85 ۔ ابن حجر ، تہذیب التہذیب، ٔ( بیروت: دار احیاء التراث العربی، 1408ھ)، 12: 435۔
Ibn e Ḥajar,Taḥzīb al-Taḥzīb (Baīrūt: Dār Ihya Al Turāth Al Arabī, 1408 AH), 12: 435.
86 ۔ ابن کثیر، اسماعیل، البدایۃ والنھایۃ (مصر: مکتبہ السعادۃ،1358)، 8: 92۔
Ibn-Kathir, Ismael, Al-Badayat Wa-Al-Nahaya(Miṣar: Maktaba al-Saadat, 1358), 8: 92.
87 ۔ ابن سعد، الطبقات الکبری ،8: 65۔
Ibn-e-S'aad, Al-Ṭabqāt-al-kubra,8:65.
88 ۔ إبن حجر،احمد بن علی، الإصابہ ،13: 221 ۔
Ibn Ḥajar, Aḥmad Ibn 'Ali, Al-Aṣāba,13 : 221.
89 ۔ إبن حجر،احمد بن علی، الإصابہ ،13: 221 ۔
Ibn Ḥajar, Aḥmad Ibn 'Ali, Al-Aṣāba,13 : 221.
90 ۔ زرقانی،شرح مواھب اللدینیہ،238:3۔
Zarqānī, Sharā Muwāhḥib al-Dīnīya, 3:238.
91 ۔ ذہبی ، سیر أعلام النبلاء، 229:2۔
Zhahabī, Sear A'lām al-Nubla , 2:229.
92۔ ابن سعد، الطبقات الکبری ،60۔
Ibn-e-S'aad, Al-Ṭabqāt-al-kubra,60.
93 ۔ ذہبی ، سیر أعلام النبلاء، 219:2۔
Zhahabī, Sear A'lām al-Nubla , 2:219.
94 ۔ ذہبی ، سیر أعلام النبلاء، 239:2۔
Zhahabī, Sear A'lām al-Nubla , 2:239.
95 ۔ ذہبی ، سیر أعلام النبلاء، 261:2۔
Zhahabī, Sear A'lām al-Nubla , 2:261.
96 ۔ تھانوی،اشرف علی مولانا، کثرت الازواج) دہلی: مجتبائی،1987)، 3 : 15۔
Thānvī, Ashraf Ali Maulāna, Kathrat al Azwāj (Delḥī: Mujtabāiʿ, 1987), 3: 15.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 37 Issue 58 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 58 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 58 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 58 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 58 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 58 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 58 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 58 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 58 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 58 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 58 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 58 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 58 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 58 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 58 | 2022 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |