Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Az̤vā > Volume 37 Issue 58 of Al-Az̤vā

عصرحاضر کے مسائل کے بارے فتاوی میں احتیاط کے منہج کی عصری معنویت و اہمیت اسباب اور اصول و ضوابط |
Al-Az̤vā
Al-Az̤vā

Article Info
Authors

Volume

37

Issue

58

Year

2022

ARI Id

1682060078052_3017

Pages

55-78

DOI

10.51506/al-az̤vā.v37i58.230

PDF URL

https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/download/230/425

Chapter URL

https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/view/230

Subjects

Fatwa non-binding theory methodology of fatwa Islamic Law

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

فتویٰ کی اہمیت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف کی ہے اور نبی کریم ﷺ نے عملی طور پر فتاویٰ صادر فرمائے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جب کوئی بھی مسئلہ پیش آتا تو وہ حضور اکرمﷺ کے طرف رجوع کرتے اور آپﷺ ان کی علمی پیاس بجھاتے ۔ فتویٰ میں احتیاط کو آپؐ کے زمانہ سے رائج ہے۔ آپﷺان مسائل میں خاموشی اختیار فرماتے جن میں کوئی شرعی رہنمائی موصول نہ ہوتی۔ آپﷺ کے بعد صحابہ ، تابعین ،تبع تابعین اور ائمہ عظام نے بھی اسی مسلک ومنہج کو اختیار کیا تاکہ ان سے کوئی ایسی بات سر زد نہ ہوجائے جو شریعت کے خلاف ہو۔جب دنیاوی مسائل ایک ہی خطے تک محدود تھے،دنیا ابھی تک گلوبلائزیشن سے ناواقف تھی تو مسائل کی نوعیت بہت سادہ تھی ،البتہ جیسے جیسے مختلف تہذیبیں آپس میں ملتی گئیں ، مختلف اقوام کے رسوم و رواج ملتے گئے تو مسائل کی نوعیت گھمبیر ہوتی گئی، اب مسائل وہ نہیں رہے جو کل تک تھے ، کل تک کے مسائل میں صرف ایک پہلو پر غور کرنےسے مسائل حل ہو جاتے تھے لیکن اب وہی مسائل اتنے پچیدہ ہو گئے ہیں کہ مختلف پہلوؤں سے اگر جائزہ نہ لیاجائے تو ان کے بارے شرعی رہنمائی ناقص رہ جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علماو فقہا نے فتاویٰ صادرکرتے وقت اپنی مسلکی ، مذہبی اور علمی نسبت کے مطابق مختلف مناہج کو اپنایا جن میں تساہل ، شدت اور تیسیر کے مناہج قابل ذکرہیں۔ لیکن ان مناہج کے ساتھ ساتھ احتیاط کا منہج ہے جسے نبی کریم ﷺ،صحابہ کرام ، تابعین ،تبع تابعین اور ائمہ عظام نے اختیار۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب مسائل کی نوعیت بہت سادہ تھی اس وقت اس منہج کو اپنایا گیا لیکن عصرحاضر میں مسائل کی نوعیت بہت پچیدہ ہوگئی ہے، اس وقت اس منہج کو اپنانے کی زیادہ ضرورت ہے کہ کئی مرتبہ کسی مسئلہ کے حکم میں شک و شبہ پیدا ہو جاتا ہے اور بسا اوقات کسی مسئلہ کی علمی صورت کیا بن سکتی ہے اس میں شک و شبہ پیدا ہو جاتا ہے اور پچیدہ مسائل کے شرعی حکم میں یقینی صورت کا پیدا نہ ہونا کوئی حرج کی بات نہیں کیونکہ شرعی حکم نصوص شریعہ سے استدلال ، استحضار اور اجتہاد کی قوت میں تمام علما اور فقہا برابر نہیں ہیں،اس لیےایک ہی مسئلہ کے شرعی حکم میں فرق کا آنا لازمی بات ہے۔ البتہ فتویٰ دیتے وقت احتیاط کا منہج کن اسباب کی بنا پر اختیار کیا جائے گا؟اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ اور اسکے اصول وضوابط کیا ہیں ؟اسی طرح برصغیر کے علما نے کس طرح سے اس منہج کو اختیار کیا ہے؟ یہی اس بحث کا موضوع ہیں ۔

بحث کا طریق کار :

اس بحث میں نظری اور تطبیقی منہج اپنایا گیا ہے جس کے ذریعے متقدمین کی آرا اور معاصرین کے فتاوی میں عملی صورتوں کو شامل کیا گیا ہے۔

سابقہ دراسات:

ہمارے علم کے مطابق اس موضوع پر کوئی مستقل بحث یا کتاب اردو میں موجود نہیں ہے ۔ واللہ اعلم ۔ البتہ عربی میں اس موضوع کے حوالے سے مختلف کام ہوا ہے جو کہ عرب ممالک کے مسائل کے تناظر میں کیا گیا ہے ، لیکن اس بحث میں فتاوی میں منہج احتیاط کی عملی صورتیں برصغیر کے مسائل کے تناظر میں بیان کی گئی ہیں،جس سے برصغیر کے علما کی فقہی خدمات اور جہود کو اجاگر کرنا مقصود ہے۔ عرب میں ہونے والے مختلف کام مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ نظریۃ الاحتیاط الفقہی دراسۃ تاصیلیۃ تطبیقیۃ ، محمد عمر سماعی

2۔ الاحتیاط حقیقتہ وحجیتہ و احکامہ و ضوابطہ ، ڈاکٹر الیاس بلکا

3۔ الفتوی باالاحتیاط : معناھا و اسبابھا و ضوابطھا

4۔ العمل باالاحتیاط فی الفقہ الاسلامی، منیب شاکر

ان بحوث میں احتیاط کی حجیت ، شرائط اور عموما اس کے اثرات پر بات کی گئی ہے ، البتہ الفتوی باالاحتیاط میں احتیاط کو موضوع بحث بنایاگیا ہے لیکن اس میں برصغیر کے علما ، ان کے مسائل ، ان کے مناہج اور خصوصا منہج احتیاط اور اس کی عملی صورتوں کو بالکل ذکر نہیں کیا گیا ۔ اس بحث کے ذریعے برصغیر کے علما کے منہج احتیاط ،اس کی عملی صورتوں اور ان کی فقہی جہود کو اجاگر کرنا مقصود ہے۔تا کہ یہ بحث اس موضوع کے بارے میں اضافے کا سبب بن سکے۔ اور یہی اس بحث کی خصوصیت ہے۔

پہلی بحث : فتوی اور احتیاط کا معنی و مفہوم:

فتوی کا مفہوم :

فتوی عربی زبان کا لفظ ہے جو عموما دو معانی کےلیے استعمال ہوتا ہے ؛ بسا اوقات فتوی کا لفظ بالکل نئی چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے والے آدمی کو عربی میں فتی کہا جاتا ہے1۔اور دوسرا اس کا معنیٰ کسی چیز کی وضاحت کرنا ہوتا ہے جیسا کہ کسی سے سوال کیا جائے تو مسؤول اس سوال کی وضاحت کرے ، اسی طرح فقیہ جب کسی مسئلہ کی وضاحت کرکے اس کا حکم بیان کرتا ہے تو عربی زبان میں اس کی تعبیر بھی لفظ فتوی / افتاء سے کی جاتی ہے 2 ۔

البتہ اصطلاحی مفہوم کے اعتبار سے ہر نئی چیز اور ہر جواب یا تفسیر کی تعبیر فتوی کے لفظ سے نہیں کی جاتی بلکہ فتوی کالفظ ایک خاص تعبیر کے لیے استعمال ہوتا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے : "کسی مسئلے کا شرعی حکم سائل کے لیے شرعی دلیل کی بنیاد پر بیان کرنا " فتوی کہلاتا ہے 3 ۔ اب جہاں بھی لفظ فتوی یا افتاء استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد شرعی مسائل کا دلیل کی بنیاد پر شرعی حکم بیان کرنا ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ جس مسئلے میں صرف جواب ہو سائل پر اس کا الزام نہ ہو ، مسئلہ بھی شرعی ہو غیر شرعی مسئلہ نہ ہو، دلیل بھی ساتھ موجودہو بغیر دلیل کے نہ ہو اور کسی سائل کے سوال کرنے پر ایسا جواب دیا جائے تو وہ فتوی کہلائے گا ورنہ اسے فتوی نہیں کہا جائے گا۔

احتیاط کا مفہوم :

احتیاط عربی زبان کا لفظ ہے اور باب افتعال کا مصدر ہے ، اس کا مادہ (Root word) ح، و ، ط ہے 4۔ اور لفظ حوط کسی چیز کی حفاظت کرنے ، اسے صحیح سلامت رکھنے اور ہلاک ہونے سے بچانے کے لیے ، کسی چیز کا علمی احاطہ کرنے اور کسی کا گھیراؤ کرنے کے معانی میں استعمال ہوتا ہے5۔

البتہ اصطلاحی لحاظ سے احتیاط کے کئی معانی بیان کیے گئے ہیں، چند ایک مندرجہ ذیل ہیں :

  • نفس کو گناہوں میں واقع ہونے سے بچانا 6 ۔

  • ایسا کام کرنا جس سے شک کا ازالہ ہو جائے 7 احتیاط کہلاتا ہے ۔

  • مکلف کا کسی ایسے کام سے اجتناب کرنا جس کے حرام یا مکروہ ہونے کا اندیشہ ہو 8، احتیاط کہلاتا ہے ۔

  • کسی کام کو اس لیے کرنا کہ اس کے واجب ہونے کا احتمال ہے یا اس لیے کسی کام کو ترک کر دینا کہ اس کے حرام ہونے کا اندیشہ ہے 9 ۔

  • ممنوع کام میں واقع ہونے سے بچنا یا کسی مامور بہ کام کو شک و شبہ کی بنیاد کر ترک کر دینا 10 ۔

    فتویٰ میں احتیاطی منہج کا مفہوم:

    فتوی اور احتیاط کی مذکورہ تعریفات پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی شرعی مسئلہ کے بارے مفتی سائل کوجواب دیتےوقت دلیل کی بنیاد پر محتاط انداز میں ایسا جواب دے کہ جس سے اس شرعی مسئلہ کے بارے پیداہونے والے شکوک و شبہات کاازالہ ہو جائے اور کسی ممنوع کام میں واقع ہو نے سےرک جائے۔

    فتو یٰ کے دوسرے مناہج مثلا فتویٰ میں تساہل کا منہج، تشددکا منہج اور فتویٰ میں آسانی پیداکرنے کا منہج کی طرح فتویٰ میں احتیاطی پہلو اپنانا بھی با قاعدہ ایک منہج ہے جسے کئی علمائے کرام اور مفتیان عظام فتویٰ صادر کرتے وقت اختیار کرتے ہیں۔ فتویٰ اور احتیاط کے الگ الگ مفہوم و معانی تو مل جاتے ہیں البتہ بطور مرکب اور بطور اصطلاح اس کی تعریف معدوم ہے۔ عموما اس منہج میں فتوی صادر کرتے وقت احتیاطی تدابیر ، ورع و تقویٰ ، نتائج کی درستگی، مآل کا اعتبار اور ذمہ داری سے براءت کی بنیاد پر احتیاطی رویہ اپنایاجاتا ہے اسی لیے فتویٰ میں احتیاطی منہج کے تصور کو بہت دقیق انداز میں اس کے مالہ و ما علیہ کو بیان کرناکافی مشکل ہے، البتہ فتویٰ میں احتیاطی منہج کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

    "فتوی ٰ صادرکرتے وقت مفتی کا اشتباہ کی صورت میں اپنے فتوی ٰکی بنیاد مامور بہ کام کو احتیاطا ترک کرنے ، ممنوع کام میں واقع ہونے سے بچنے ، شبہات سے بچنے اور ایسے مفسدہ کو دور کرنے پر رکھے جس کا واقع ہونا متوقع ہے"۔

    دوسری بحث : منہج احتیاط کے اعتبار سے فتویٰ کی اقسام:

    فتویٰ میں احتیاط کامنہج اختیار کرتے ہوئے مفتی جب فتویٰ صادرکرتا ہے تو اس فتویٰ کی مختلف اعتبارات سے کئی اقسام ہیں جو درج ذیل ہیں:

    پہلی قسم : متعلق(کام کرنے یا نہ کرنے ) کے اعتبار سے احتیاطی فتویٰ کی اقسام :

    احتیاطا کام کرنے کا فتویٰ دینا:

    جب کسی کام کے کرنے کا احتمال ہو اور اس کاوجوب بھی ممکن ہو تو مفتی مصلحت کی بنا پر اس کام کواحتیاطی طور پر کرنے کا فتویٰ دے ۔ جیسا کہ وہ آدمی جس نے تیمم کر کے نماز ادا کر لی ہو پھر اسے معلوم ہو کہ اس کے پاس پانی موجود تھا یا اس کے قریب ہی پانی کا کنواں موجود تھا جہاں سے وہ پانی حاصل کرکے وضو کر سکتا تھا اگر اسے اس کنوے کے وجود کاعلم ہوتا ، تو ایسے آدمی کے لیے شافعیہ کے ہاں احتیاطا نماز کا اعادہ کرنے کا حکم ہے11 ۔

    احتیاطا کام نہ کرنے کا فتویٰ دینا :

    جب کسی کام کے ممنوع کا احتمال ہو اور اس کی حرمت میں اختلاف ہو تو احتیاطی طورپر ایسے کام کو ترک کرنے کا فتویٰ دینا تا کہ اس کے مفسدہ سے بچا جا سکے12۔ مثلا کسی آدمی نے اپنی بیوی کو کہا کہ میں نے اسے چھوڑا، تو چونکہ یہ لفظ کنائی ہے تو کنائی لفظ سے اگر خاوند طلاق کی نیت کرے تو اس سے مراد طلاق بائن ہی ہوتی ہے لیکن بعض کنائی الفاظ بھی طلاق کے لیے خاص ہو چکے ہیں ان میں خاوند کی نیت معتبر نہیں ہو گی۔ اس لفظ میں چونکہ اختلاف ہےلیکن مفتی محمود ؒ نے اس کنائی لفظ کو طلاق کے لیے مخصوص مان کر یہی فتوٰ ی دیاہے کہ احتیاط اسی میں ہے کہ ایسی صورت میں بغیر حلالہ کے دوبارہ نکاح نہ کیا جائے13۔ اسی طرح کفایت المفتی کے مصنف سے جب پوچھا گیا کہ جھینگا حلال ہے یا حرام ؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کو بعض نے مچھلی میں شمار کیا ہے یعنی حلال ہے اور بعض اسے کیڑے کی ایک قسم قراردے کر حرام کہتے ہے ، تو احتیاط اسی میں ہے کہ اس کو نہ کھایا جائے14۔

    اورمتقدمین میں سے فتویٰ کی یہ احتیاطی تقسیم ابن السبکی ؒ 15 کے ہاں پائی جاتی ہے وہ احتیاط کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : "جومسائل احتیاط کا تقاضا کرتے ہیں وہ غیر محصور ہیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ جن مسائل میں منفعت کا حصول غالب ہو وہاں ایسے کاموں کے کرنے میں احتیاط ہوتی ہے اور جہاں کسی مفسدہ سے بچنامقصودہووہاں کام نہ کرنے میں احتیاط ہوتی ہے جیسا کہ متحیرہ اورحائضہ عورت سے احتیاطا مجامعت کرنا حرام ہے تا کہ مفسدہ سے بچا جاسکے"16 ۔

    دوسری قسم : مصدر کے اعتبار سے احتیاطی منہج کے فتاوی کی اقسام :

    مصدر کے اعتبار سے احتیاطا فتویٰ کی دو اقسام ہیں:

    جس کامصدر شرعی نص ہو:

    اس کی صورت یہ ہے کہ شرعی نص کا یہ تقاضا ہو کہ فتوی میں احتیاط کو اپنایا جائے۔ جیسا کہ عدی بن حاتم نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ میں اپنا سدھایا ہوا شکاری کتا شکار پرچھوڑتا ہوں تو اس کے ساتھ کوئی اور کتا بھی شکار میں مل جاتا ہے تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: "ایسی صورت میں وہ شکار نہ کھاؤ کیونکہ ممکن ہے کہ ساتھ شامل ہونے والے کتے نے اس کو شکار کیا ہو جبکہ تم نے تو اپنے کتے کو چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیا تھا کسی اور کتے پر نہیں"17 ۔ اب یہاں عین ممکن ہے کہ جس کتے کو چھوڑتے وقت اس آدمی نے اللہ کا نام لیا ہو اسی نے ہی شکار کیا ہو لیکن چونکہ شکار میں ساتھ شامل ہونے والے کتے کے بارے میں شبہ ہے کہ شاید اس نے وہ شکار کیا ہو تو ایسے شکار کا گوشت کھانے سے نص میں منع کر دیا گیا ہے اور اسی نص کی وجہ سے یہاں فتوی میں احتیاطی منہج اپنا کر حرمت کا فتوی دیا ہے۔

    جس کا مصدر اجتہاد ہو:

    اس کی صورت یہ ہے کہ کو ئی مجتہداپنے اجتہاد اور شرعی نصوص سے استنباط کی وجہ سے فتوی دیتے وقت احتیاط کا پہلو اختیار کرے۔ جیسا کہ شافعیہ کا پہلے فتوی گزر چکا ہے کہ جس آدمی نے پانی کے بارے میں لا علمی کی وجہ سے تیمم کر کے نماز ادا کر لی اور بعد میں پانی کی موجودگی کا علم ہو گیا یا پتہ چلے کہ قریب ہی پانی کا کنواں موجود ہے جہاں سے پانی حاصل کر کے وضو کر کے نماز ادا کی جا سکتی تھی تو ایسے آدمی کو شافعیہ کے موقف کے مطابق نماز کا اعادہ کرنا چاہیے۔ تو یہاں اجتہاد اور استنباط اس احتیاطی منہج کا مصدر ہے 18 ۔

    تیسری قسم : محتاط لہ کے اعتبار سے فتوی کی اقسام:

    جس کے لیے احتیاط کی جاتی ہے اس کے اعتبار سے فتوی کی دو اقسام ہیں:

    دین کو مفاسد اور نقصان سے بچانے کے لیے احتیاط اپنانا:

    اس کی صورت یہ ہے کہ احتیاط کی بنا پر اس لیے فتوی دینا کہ عدم احتیاط کی وجہ سے دین پر جو قدغن ، اعتراض یا تنقید کا اندیشہ ہوتا ہے وہ اندیشہ اور خطرہ ٹل جائے۔ جیسا کہ جمعہ کے دن نماز فجر میں سورہ سجدہ اور سورہ دہر کی قراءت مسنون ہے ، اگر ان سورتوں کی قراءت پر مداومت کی وجہ سے لوگ یہ عقیدہ اپنا لیں کہ جمعہ کے روز نماز فجرمیں انہی دو سورتوں کی قراءت واجب ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی تو چونکہ یہ عقیدہ رکھنا درست نہیں بلکہ دین میں فساد اور تشدد و غلو کی علامت ہے اس لیے احتیاطا ان دونوں سورتوں کی قراءت پر عدم مداومت کا فتویٰ دینا درست ہے19

    مکلف کے لیے احتیاط اختیار کرنا :

    اس کی صورت یہ ہے کہ مکلف / سائل کو فتویٰ دیتے وقت اس لیے احتیاط اختیار کرنا تا کہ وہ کسی واجب کو ترک نہ کرے یا حرام کا ارتکاب نہ کر بیٹھے اور اپنی ذمہ داری سے یقین کے ساتھ بری الذمہ ہو ۔ مثلا کوئی آدمی کسی شہر کی طرف سفر کر رہا ہے تو اگر اس کا ارادہ وہاں چار دنوں سے زیادہ ٹھہرنے کا ہے اور اس کو احتیاطا یہ فتوی دینا کہ چار دن سے زیادہ کے قیام پر نماز قصر ادا نہ کرے ، درست ہے 20 ۔

    چوتھی قسم : حکم کے اعتبار سے فتوی میں احتیاط کرنا :

    مفتی کے حق میں حکم کے اعتبار سے احتیاطافتویٰ دینے کی چار اقسام ہیں:

    احتیاطا فتوی دینا واجب ہو:

    پہلی صورت یہ ہے کہ مفتی پر احتیاط کے ساتھ فتوی دینا واجب ہو، اس کی صورت یہ ہے کہ مفتی اگر احتیاط کے ساتھ فتویٰ دے گا تو وہ فتویٰ کسی واجب کام کے کرنے یا حرام کام کے ترک کا سبب بنے گا ورنہ نہیں ۔ اس کی مثال یہ ہےکہ اگر کوئی حلال جانور ذبح کر دیا گیا ہو اور پھر اسے حرام جانوروں میں خلط ملط کر دیا گیا ہو تو ایسی صورت میں حرام کو ترک کرنا اور اس سے اجتناب کرنا صرف اسی صورت میں ہی ہو سکتا ہے کہ ایسے حلال جانور کوبھی احتیاطا حرام قرار دیا جائے ، کیونکہ ممکن ہے کہ اگر اسے حرام نہ قرار دیا جائے تو حرام جانور بھی کھایا جا سکتا ہے 21 ۔

    احتیاطا فتویٰ دینا مستحب ہو:

    ایسی صورت جس میں مفتی پر احتیاط کے ساتھ فتویٰ دینا مستحب ہو ، جس کی صورت یہ ہے کہ احتیاطا فتوی دینے سے ورع تقویٰ کا حصول ہو ، شبہات سے اجتناب ہو اور ذمہ داری سے مکلف عہدہ برآ ہو سکے۔ عموما جب مفتی کسی سائل کو احتیاط اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے تو وہ فتویٰ اسی نوعیت کاہی ہوتا ہے جس سے سائل گناہ اور شبہات میں واقع ہونے سے بچ جاتا ہے اور ذمہ داری بھی صحیح ادا کر لیتا ہے۔ جیسا کہ حنفیہ کے ہاں جب کوئی آدمی کسی ایسی جگہ ہو جہاں فجرصادق کو معلوم کرنا مشکل ہو تو اسے احتیاطا سحری کے کھانے سے رک جانا چاہیے ، ہاں اگر کھا پی بھی لے تو اس پر کوئی چیز لازم نہیں آئے گی 22 ۔ صاحب فتاوی رحیمیہ سے پوچھا گیا کہ رمضان میں موذن اعلان کر کے بتاتا ہے کہ سحری کا وقت ختم ہو گیا ہے تو وہ ایک ٹائم ٹیبل کے مطابق اعلان کرتا ہے، کیا اس پر اعتبار کیا جائے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ چونکہ یہ ایک تخمینہ ہے اس لیے جس ٹام ٹیبل میں احتیاطی پہلو کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے اس کے مطابق عمل کیا جائے اور وہ یہ ہے کہ طلوع آفتاب سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل سحری سے فارغ ہو جانا چاہیے23۔

    عز ابن عبد السلام ؒ 24احتیاط کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ احتیاط کی دو اقسام ہیں:

    ایک وہ احتیاط جو مندوب ہو اور عموما ورع تقویٰ کے حصول کے لیے یہ احتیاط اپنائی جاتی ہے، جیسا کہ کوئی آدمی سویا ہوا تھا تو بیدار ہو کر برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے پہلے اپنے ہاتھوں کو تین مرتبہ دھوئے ، یہ ورع تقویٰ کا تقاضا ہے اور احتیاط بھی اسی میں ہے، اسی طرح علما کے اختلاف سے نکلنے کے لیے بھی جو فتویٰ دیا جاتا ہے وہ بھی اسی قبیل سے ہے، اسی طرح موہوم مفسدہ سے اجتناب اور موہوم مصلحہ کا ارتکاب بھی اسی قبیل سے ہے۔

    بسا اوقات یہ احتیاط کرنا واجب ہو جاتا ہے جیسا کسی ایسے کام کو احتیاطا چھوڑدینا جو کسی حرام کام کے حصول کا سبب بنتا ہو 25 ۔

    مفتی پر احتیاطا فتوی دینا حرام ہو:

    جب فتویٰ کسی شرعی نص صحیح کے مخالف ہو تو مفتی پر احتیاطا فتویٰ دینا حرام ہو جاتا ہے جیسا کہ شک کے دن کا احتیاطا روزہ رکھنے کا فتویٰ دینا حرام ہے۔

    مفتی پر احتیاطا فتویٰ دینا مکروہ ہو :

    جو فتوی کسی مکروہ کام کے ارتکاب کا سبب بنے تو مفتی پر ایسا فتوی دینا مکروہ ہو جاتا ہے جیسا کہ رمضان میں فجر صادق کے داخل ہونے سے پہلے احتیاطا سحری کے کھانے سے رک جانے کا فتویٰ دینا مکروہ ہے۔

    پانچویں قسم : لفظ کے اعتبار سے احتیاطا فتوی دینے کی اقسام :

    فتوی میں لفظ احتیاط کی صراحت کرنا:

    اس کی صورت یہ ہے کہ مفتی فتویٰ دیتے وقت فتوی میں احتیاط کے الفاظ صراحت سے استعمال کرے۔ مثلا یوں کہے کہ احوط یہ ہے ، یا احتیاط اس میں ہے وغیرہ ۔ جیسا کہ نظام الفتاوی میں ہے کہ آسٹریلیا وغیرہ سے جو گوشت آتا ہے اگر یقین ہو جائے کہ کسی مسلمان نے ذبح کیا ہے یا کسی کتابی نے بسم اللہ پڑھ کر ذبح کیا ہے تو کھایا جا سکتا ہے ورنہ ورع تقوی کا تقاضا یہ ہے کہ اسے نہ کھایاجائے26۔

    فتوی میں لفظ احتیاط کی صراحت نہ کرنا:

    مفتی محتاط فتویٰ دینے کے باوجود اپنے فتویٰ میں لفظ احتیاط کی صراحت نہ کرے، جیسے کوئی مفتی محتاط پہلو کو فتویٰ میں راجح قرار دے یا کسی کام سے اس لیے منع کرے کہ وہ کام کسی مفسدہ کے ارتکاب کا سبب ہے لیکن فتوی میں لفظ احتیاط استعمال نہ کرے۔ مثلا خچرکی حرمت کا فتویٰ دینا وغیرہ 27۔

    فتوی میں منہج احتیاط اپنانے کے اسباب:

    یہاں یہ بات قابل غورہے کہ احتیاط کی بنیاد اشتباہ پر ہے، جب تک اشتباہ نہ ہو بلکہ مفتی کو کسی مسئلہ کے حکم کے بارے یقین ہو تو وہ احتیاطی منہج سے فتویٰ نہیں دے گا بلکہ سائل کو ایک یقینی حکم بتائے گا ، البتہ جب اشتباہ پیدا ہو جائے تو پھر مفتی کے لیے فتویٰ میں منہج احتیاط کو اپنانا درست ہے ،چونکہ احتیاط کی بنیاد اشتباہ ہے تو یہ اشتباہ یا تو کسی مسئلہ کے حکم میں ہوتا ہے یا کسی مسئلہ کے حکم کی علت / مناط میں ہوتا ہے یا کسی حکم کے مآلات میں یہ اشتباہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے فتویٰ میں احتیاط کا منہج اپنایا جاتا ہے؛ چنانچہ فتویٰ میں احتیاط کا منہج اختیارکرنے کے تین اسباب ہیں :

    • کسی مسئلہ کے حکم کی وجہ سے فتوی ٰ میں منہج احتیاط اختیار کرنا

    • کسی مسئلہ کے حکم کی علت/مناط کی وجہ سے فتویٰ میں منہج احتیاط اختیار کرنا

    • حکم کے مآلات کی وجہ سے فتویٰ میں منہج احتیاط اختیار کرنا

    پہلا سبب : کسی مسئلہ کے حکم کی وجہ سے فتوی ٰ میں منہج احتیاط اختیار کرنا:

    فتویٰ میں احتیاط کا منہج اپنانے کی عمومی وجہ یہ ہوتی ہے کہ مفتی کو کسی مسئلہ میں ادلہ کے تعارض یا اس مسئلہ کے بارے علما کے اختلاف کے پائے جانے یا جن اصولوں کی طرف اس مسئلہ کے حکم کو منسوب کیا جا سکتا ہے ان اصولوں میں تعارض کی وجہ سے کسی مسئلہ کے حکم میں شک و شبہ پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ منہج احتیاط اپنانے کو ترجیح دیتا ہے۔ امام مناوی ؒ 28 نے بھی اسی بات کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ شرعی احکام کی جزئیات میں دقت ہونے اور ایک ایک جزئی کے ساتھ ایک سے زیادہ کلیات کے تعلق کی وجہ سے شرعی احکام واضح ہونے کے باوجود بسا اوقات مفتی پر مخفی ہو جاتے ہیں 29 جس کی وجہ سے مفتی لا محالہ منہج احتیاط کو اپناتا ہے۔

    کسی مسئلہ کے حکم میں شک و شبہ پیدا ہونے کی وجہ سے منہج احتیاط مندرجہ ذیل تین وجوہات کی وجہ سے اپنایا جاتا ہے:

    پہلی وجہ : الخروج من الخلاف:

    بسا اوقات کسی مسئلہ کے حکم میں علما کا اختلاف ہوتا ہے تو اس محل نزاع اور محل اختلاف سے بچنے کے لیے فتویٰ میں منہج احتیاط کواپنایا جاتا ہے؛ اس کی صورت یہ ہے کہ کسی مسئلہ کے وجوب اور عدم وجوب میں اختلاف ہوتا ہے تو ایسے کام کو کرنے کا احتیاطا حکم دیا جاتا ہے تاکہ کسی واجب کام کا ترک لازم نہ آئے، اسی طرح اگر کسی مسئلہ کی حرمت میں اختلاف پایا جائے تو اسے نہ کرنے کا فتویٰ احتیاطا دیا جاتا ہے تا کہ اس کے کرنے سے ممنوع کام کا ارتکاب نہ ہو جائے۔ اور جب کسی مسئلہ کے مباح اور حرام ہونے میں اختلاف ہو جائے تو اسے احتیاطا نہ کرنے کا فتویٰ دیا جاتا ہے30 اور جب کسی مسئلہ کی مصلحت وجوب یا ندب کا تقاضا کرے تو ایسی صورت میں وجوب کا فتویٰ دیا جاتا ہے تا کہ ذمہ داری سے براءت کا حصول ہوسکے31۔

    یہاں یہ بات یاد رہے کہ الخروج من الخلاف کی وجہ سے فتویٰ میں احتیاط کا منہج اپنانے سے ورع تقویٰ کا حصول ہوتا ہے اور ذمہ داری کی ادائیگی بھی ہو جاتی ہے،اور شرعی احکام میں احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مواضع اختلاف میں مصلحت والے کام کو کیا جائے اور مفاسد والے کام کو ترک کیا جائے 32۔

    احتیاط کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ 33رقم طراز ہیں کہ ورع تقویٰ کا یہی تقاضا ہے کہ جس کام کے واجب ہونے میں شک پیدا ہو جائے اس کو کیا جائے 34، اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ شریعت میں جس کام میں وجوب ممکن ہو تو شرعی طور پر اس کی ادائیگی میں احتیاط ہے35۔

    تاہم یہ یاد رہے کہ الخروج من الخلاف کے لیے احتیاط کا منہج اس وقت اپنایا جائے گا جب مفتی کے ہاں اختلاف کی وجہ قوی ہو اور مخالف کا قول بھی قابل اعتماد قوی دلیل پر مبنی ہو 36 اور نہ ہی تمام مسائل اختلاف میں احتیاط کا فتویٰ دینا مناسب ہے اور یہ بات بھی ضروری ہے کہ اختلاف سے نکلنے سے سنت کی مخالفت لازم آئے نہ کسی اور اختلاف میں واقع ہونا لازم آئےاور نہ اجماع کی مخالفت لازم آئے37۔

    الخروج من الخلاف میں فتویٰ دیتے وقت احتیاط کا منہج اپنانے کا ضابطہ یہ ہے کہ اگر مخالف کے قول کی دلیل نہایت ضعیف ہو تو اس کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا اور نہ احتیاط کا منہج اپنایا جائے گا بلکہ جہاں مخالف کے قول کی دلیل مفتی کے ہاں قوی ہو اور سند صحیح ہو تو ایسی صورت میں ورع تقویٰ کی بنیاد پر منہج احتیاط کو اپنایا جائے گا38۔

    مذکورہ بالا اقوال پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوا کہ فتویٰ میں احتیاط کا منہج اپنانے کے لیے مفتی کے ہاں معتبر اختلاف کا پایا جانا ضروری ہے اور تمام مفتیان کرام کا علمی اور تحقیقی درجہ چونکہ ایک جیسا نہیں ہوتا لہذا کسی مفتی کے ہاں کسی مسئلہ میں پائے جانے اقوال جس قدر قوی ہوں گے اسی لحاظ سے اس مفتی کے ہاں اس مسئلہ میں منہج احتیاط اختیار کرنا ضروری ہو گا 39۔

    احتیاطا الخروج من الخلاف کی امثلہ یہ ہیں:

    اونٹ کا گوشت کھا لینے سے فقہ حنفی میں وضو نہیں ٹوٹتا 40اس کے باوجود صاحب فتاوی فریدیہ نے وضو کرنا مستحب قرار دیا ہے تا کہ جن علما کے ہاں اونٹ کا گوشت کھا لینے کے بعد وضو ٹوٹ جاتا ہے اور ان کی دلیل بھی قوی ہے تو کوئی خلاف واقع نہ ہو جائے 41۔

    اسی طرح مجلس تحقیق اسلامی کے زیر اہتمام محد ث فتوی نے یہ رائے اختیار کی ہے کہ سجدہ تلاوت اگرچہ نماز نہیں اورنہ اس کے لیے طہارت شرط ہے لیکن پھر بھی وضو کی حالت میں سجدہ تلاوت کرنا چاہیے 42۔

    دوسری وجہ : ترجیح الاشد کا فتویٰ دینا:

    بسا اوقات علما کے مختلف اقوال قوت میں برابری یا دلائل کے متعارض ہونے کی وجہ سے مفتی کسی ایک قول کو راجح قرارنہ دے سکے،مثلا مباح اور حرمت کی دلیل میں تعارض ہو جائے اور مفتی کسی ایک کو راجح قرار نہ دے سکے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ مفتی کو اس مسئلہ کے حکم میں شک پیدا ہو جائے تو ایسی صورت میں مفتی احتیاطا ترجیح الاشد سے فتویٰ دیتا ہے43 تا کہ اس کی ذمہ داری ادا ہو جائے اور جمہور اصولیین کا موقف اقوال کے مساوی ہونے کی صورت میں احتیاطا ترجیح الاشد کا فتوی دینا ہے44؛ کیونکہ اس میں ذمہ داری کی ادائیگی ہوتی ہے اور فرض کی حفاظت ہوتی ہے45۔

    امام جوینی ؒ 46اس بارے رقم طرازہیں کہ "جب دو دلیلیں آپس میں متعارض ہو ں اور ان میں ایک احتیاط کے زیادہ قریب ہو تو احوط دلیل راجح ہو گی کیونکہ سلامتی اور ورع تقویٰ اسی میں ہی ہے اور ایسی صورت میں احتیاط کرنا ہی شریعت کے تقاضا اور شریعت کے محاسن میں سے ہے "47۔

    یہاں یہ بات یاد رہے کہ بسا اوقات دلیل کے مخفی ہونے ، اس کے بارے عدم معرفت یا اس میں اجمال کی وجہ سے مفتی کو کسی مسئلہ کے حکم میں شک و شبہ پیدا ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں اسے چاہیے کہ ترجیح الاشد سے کام لے یعنی جو دلیل اور جو حکم احتیاط کے زیادہ قریب ہے اس کو راجح قراردے،مثلا کوئی یہ سوال کرے کہ مس ذکر سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں اور مفتی کو ا س میں راجح کا علم نہ ہو تو اسے چاہیے کہ اسے ناقض وضو قراردے کیونکہ احتیاط اسی میں ہی ہے۔

    ترجیح الاشد پر فتویٰ دینے کی مثال:

    فقہ حنفی میں مطلق تکبیرات کے بارے اختلاف پایا جاتا ہے ؛ امام ابوحنیفہؒ کے ہاں یوم نحر کی عصر کے بعد تکبیرات کا وقت ختم ہو جاتا ہے جبکہ صاحبین کے نزدیک آخری ایام تشریق کی نماز عصر کے بعد تکبیرات کا وقت ختم ہو جاتا ہے48، لیکن صاحب فتاوی حقانیہ نے 49 صاحبین کے قول کو راجح قراردیا ہے50 ، کیونکہ عبادات میں یہی احوط ہے ۔

    تیسری وجہ : ثقیل رائے پر فتویٰ دینا :

    جن مسائل میں علما نے کسی چیز کی مقدار کے بارے اختلاف کیا ہے اور ان کے بارے مفتی کو شک و شبہ پیدا ہو گیا ہے تو ایسی صورت میں مفتی کو چاہیے کہ وہ ثقیل رائے یعنی زیادہ مقدار والی راے پر احتیاطا فتویٰ دے تاکہ وہ اپنی ذمہ داری سے بری ہو سکے 51۔ امام رازی ؒ 52نے بھی یہی کہا ہے کہ ایک طریقہ احتیاط یہ بھی ہے کہ اکثر پر عمل کیا جائے یا ثقیل رائے پر عمل کیا جائے53۔

    ثقیل یا کثرتوالی رائے پر فتوی دینے کی مثال:

    صدقہ فطر کی مقدار کے بارے میں اختلاف ہے بعض کے ہاں تین کلو گرام اداکیا جائے گا، بعض کےہاں سوا دو کلو گرام اور بعض کےنزدیک دو کلو اور چالیس گرام ادا کیا جائے گا54۔ احتیاط اسی میں ہے کہ زیادہ قیمت والی جنس سے ادا کرے تا کہ اس کی ذمہ داری صحیح طریقے سے ادا ہو سکے، جیسا کہ صاحب فتاوی رحیمیہ نے فتوی دیا ہے کہ اگر بیرون ملک کے افراد یہاں فطرانہ ادا کرنا چاہیں اور یہاں کی گہیوں کی قیمت زیادہ ہو تو اسی کے مطابق قیمت ادا کریں55۔

    دوسرا سبب : مناط الحکم کی وجہ سے فتویٰ میں منہج احتیاط اختیار کرنا:

    فتویٰ میں احتیاط کا منہج اختیار کرنے کا دوسرا سبب کسی مسئلہ کے حکم کی عملی صورت میں التباس و اشکال کا پیدا ہونا ہے،گویا کہ مفتی کو حکم کا علم ہوتا ہے مگر حکم کی وجہ اور اس کی عملی صورت میں اسے شک و شبہ لاحق ہوجاتا ہے

    جس کی وجہ سے وہ احتیاطا فتویٰ دیتا ہے تا کہ شک و شبہ دور ہوجائے۔

    مناط الحکم کی وجہ سے فتویٰ میں احتیاط کا منہج احتیار کرنے کی تین وجوہات ہیں ؛

    پہلی وجہ : تحریم کے پہلو کو ترجیح دینا:

    جب کسی چیز کی حرمت اور اباحت میں اختلاف ہو جائے یا شبہ پیدا ہو جائے یا کسی چیز میں حلال و حرام کا اختلاط ہو جائے اور ان میں تفریق کرنا نا ممکن ہو تو ان صورتوں میں فتویٰ احتیاطا حرمت کا دیا جائے گا؛ اس لیے کہ حرام سے اسی طرح ہی بچا جا سکتا ہے 56۔ ایسی صورت میں اس فقہی قاعدے کے مطابق فتویٰ دیا جائے گا: "جب حلال و حرام جمع ہو جائیں تو حرام کے پہلو کو غلبہ حاصل ہوتا ہے"57۔

    شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں : "جب حلال و حرام مل جائیں تو دونوں سے اجتناب کیا جائے گا؛ اس لیے کہ جب اس کو استعمال کیا جائے گا تو حرام حصے کا استعمال قطعی طور پر ہو جائے گا اور یہ درست نہیں ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ حلال و حرام ایسی صورت میں خلط ملط ہو گئے ہیں کہ اب دونوں میں فرق کرنا نا ممکن ہے جیسا کہ پانی میں نجاست مل گئی ہو اور اسے الگ کرنا نا ممکن ہو تو ایسی صورت میں کسی ایک کو بھی استعمال نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ ترجیح بلا مرجح ہو گی تو جب وہ حکم میں برابر ہیں تو ان دونوں سے ہی اجتناب کرنا ضروری ہے"58۔ مثلا: اگر کپڑے پر نجاست کی جگہ آدمی پر مخفی ہو جائےاور اس کو پتہ نہ چلے تو ایسی صورت میں احتیاطا زیادہ کپڑا دھویا جائے گا ؛ کیونکہ زیادہ کپڑا دھونے سے ہی وہ نجاست زائل ہو گی 59۔

    دوسری وجہ : یقینی صورت پر فتویٰ دینا :

    مفتی کو جب کسی چیز کے بارے شک ہو جائے تو وہ اس کے بارے یقینی صورتحال کی بنا پر فتویٰ دے گا یا اس مسئلہ میں اصل کی بنیاد پر فتویٰ دے گا ۔ مثلا: ایک آدمی کسی چیز کے وقوع اور عدم وقوع کے بارے میں شک میں پڑ جائے تو اب اصل کی بنا پر فتویٰ دیا جائے گا اور وہ ہے عدم وقوع؛ کیونکہ اسی صورت میں ہی مفتی اپنی ذمہ داری سے بری ہو سکتا ہے۔

    امام سرخسیؒ 60کہتےہیں کہ عبادات میں احتیاط سے کام لیا جائے گا اور احتیاط کا طریقہ یہ ہے کہ یقینی صورت پر حکم کی بنیاد رکھی جائے نہ کے احتمالی صورت پر61۔مثلا:اگرکسی کورکعات کی تعدادمیں شک ہوگیاہےاورغالب گمان بھی کسی طرف نہ ہوتوکمی کی جانب اختیار کرے۔ مثلاً کسی کو تین یا چار رکعت میں شک ہوجائے اور یہ شک پہلی مرتبہ نہ ہوا ہو اورغالب گمان کسی طرف نہ ہو تواس کوچاہیےکہ تین رکعتیں شمارکرےاورایک رکعت مزیدپڑھ کرنمازپوری کرےاورآخرمیں سجدہ سہوبھی کرے62۔

    تیسری وجہ : کام ترک کرنے کا فتویٰ دینا:

    بسا اوقات مفتی کسی چیز کی اباحت اور حرمت کے بارے میں شک میں پڑ جاتا ہے تو ایسی صورت میں احتیاط اختیار کرتے ہوئے کام کے نہ کرنے کا فتویٰ صادرکرے گا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ ورع تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی جس چیز کی حرمت کے بارے میں شک میں پڑ جائے یا اس کے انجام سے خوف زدہ ہو یا اس کی حرمت کو جانتا ہو تو اسے ترک کر دے63۔مثلا: جیسا کہ نظام الفتاوی میں ہے کہ آسٹریلیا وغیرہ سے جو گوشت آتا ہے اگر یقین ہو جائے کہ کسی مسلمان نے ذبح کیا ہے یا کسی کتابی نے بسم اللہ پڑھ کر ذبح کیا ہے تو کھایا جا سکتا ہے ورنہ ورع تقوی کا تقاضا یہ ہے کہ اسے نہ کھائے64۔

    تیسرا سبب : مآل الحکم کے اعتبار سے فتویٰ میں احتیاط کا منہج اختیار کرنا:

    بسا اوقات فتویٰ دیتے وقت مفتی کو اس بات کا شک ہوتا ہے کہ اگر اس مسئلہ میں یہ حکم دے دیا گیا تو یہ حکم کسی حرام کام کے ارتکاب کی طرف لے جائے گا جس کی وجہ سے مفتی اس کام سے احتیاطا منع کر دیتا ہے؛ کیونکہ جو کام کسی حرام کی طرف لے کر جائے وہ بذات خود حرام ہوتا ہے۔اور جس قدر متوقع حرام کا خطرہ قوی ہوتا چلا جائے گا اسی قدر احتیاط سے فتویٰ دینا لازمی ہوتا چلا جائے گا۔ جیسا کہ کسی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے اور عورت کو بغیر محرم کے سفر کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ کیونکہ اجنبی عورت سے خلوت اور عورت کا بغیر محرم کے سفر کرنا زنا کا سبب بن سکتا ہے ۔

    مآل الحکم کی وجہ سے فتوی میں احتیاط کا منہج دو طرح سے ظاہر ہوتا ہے؛ ایک یہ کہ فتویٰ میں جس مسئلہ کے بارے میں پوچھا گیا ہے اس سے بالکل منع کر دیا اور یہ سد ذریعہ کی وجہ سے ہے۔ جیسا کہ نوجوان آدمی کو روزے کی حالت میں اپنی بیوی کو بوسہ دینے کی کراہت کا فتویٰ ہے ؛کیونکہ یہ اس کے روزے کے فاسد ہونے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے65۔ اسی طرح ایسی فیکٹری سے انگور کی فروخت کرنےکا معاہدہ کرنا جس نے اس سے شراب بنانی ہو تو یہ جائز نہیں ہے66۔

    دوسرا یہ کہ مباح کاموں میں عدم وسعت اور عدم تکثیر کا فتویٰ احتیاطا دینا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے مباح کام بذاتہ تو درست ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ مباح کام میں سستی ، تساہل اور غفلت کی وجہ سے بسا اوقات انسان حرام کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے اس لیے ایسے مباح کام کو نہ کرنے کا فتویٰ دیا جائے گا تا کہ وہ کسی اور حرام کام کے ارتکاب کا سبب نہ بنے67۔

    اس کی مثال یہ ہے کہ کتابی عورت سے نکاح کرنا مباح ہے ،جائز ہے لیکن چونکہ یہ نکاح آدمی کے دین میں فساد کا سبب بن سکتا ہے اس لیے یہ مباح کام کرنے سے منع کر دیا جائے گا68۔

    فتویٰ میں احتیاط کا منہج اختیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کا حکم:

    احتیاط کا منہج اختیار کرنا شریعت کے اصولوں میں شمار ہوتا ہے69 اور یہ ایک شرعی مقصدبھی ہے۔ چنانچہ شریعت ایسے کاموں سے اجتناب کرنے کا حکم دیتی ہے جو کسی نہ کسی فساد کا سبب بن سکتے ہیں70۔ شریعت جس طرح کسی حرمت اور کراہت والے کام کے مفاسد کو ختم کرنے کے بارے میں محتاط ہے اسی طرح مندوب اور واجب کاموں کی مصلحت کے بارے میں بھی محتاط ہے۔ امام جصاص ؒ 71 کا کہنا ہے کہ احتیاط کا اعتبار کرنا اور اس کو دلیل بنانا اصول الفقہ میں ایک بہت بڑا اصول ہے جسے تمام فقہا نے استعمال کیا ہے72۔

    احتیاط کی مشروعیت کےبارے شریعت میں کثیر تعداد میں ادلہ ہیں جن میں بعض مندرجہ ذیل ہیں ؛

    پہلی دلیل :

    اللہ تعالیٰ نے وہم و گمان سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ہے حالانکہ جو گمان گناہ کا سبب بن سکتا ہے وہ بہت قلیل ہے، تو احتیاطا ہر قسم کےگمان سے بچنے کا حکم دے دیا ہے۔ ابن السبکی فرماتے ہیں : اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے بعض ایسے گمانوں سے بھی بچنے کا حکم دیا ہے جو گناہ نہیں ہیں لیکن چونکہ وہ گناہ بن سکتے ہیں تو منع فرما دیا ،اور یہی احتیاط ہے73۔

    دوسری دلیل :

    نبی کریم ﷺ نے متشابہات سے بچنے کا حکم دیا ہے تاکہ ان کا استعمال محرمات میں واقع ہونے کا سبب نہ بن جائے۔ امام بغوی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ورع تقوٰ ی اور احتیاط کے بارے اصل کی حیثیت رکھتی ہے۔ کہ کسی چیز کی حلت و حرمت اگر کسی آدمی پر مخفی ہو جائے تو ورع تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائےتاکہ کہیں حرام میں واقع ہونے کا ارتکاب نہ ہو جائے74۔

    تیسری دلیل :

    آپ ﷺ نے کھجور کا ایک ٹکڑےکو کھانے سے انکار کر دیا صرف اس ڈر سے کہ کہیں یہ صدقے کے مال سے نہ ہو75۔ ان ادلہ سے معلوم ہوا کہ احتیاط شریعت کےاصولوںمیں سے ایک اصل ہے اور یہ شریعت کا ایک مقصد بھی ہے ؛ کیونکہ اس کے اختیار کرنے سے حرام کاموں میں واقع ہونے سے انسان بچ جاتا ہے ۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فتویٰ میں احتیاط کا منہج اختیار کرنا اسباب کے پائے جانے کے وقت واجب اور لازم نہیں ہے بلکہ مستحب اور مندوب ہے،ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی چیز کے حکم میں شبہ جس قدر قوی ہو گا اسی قدر اس منہج کو اختیار کرنا ضروری ہو جاتا ہے، چنانچہ مفتی کو احتیاط کے ساتھ فتویٰ دیتے وقت جن امور کا خیال رکھنا لازم ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں :

    • جب احتیاط کے ساتھ فتویٰ دینا کسی حرام کی طرف نہ لےجائے تو ایسی صورت میں احتیاط کا منہج اختیار کرنا مستحب ہے۔

    • احتیاط کا منہج اختیار کرنا مشروع ہے لیکن مفتی کو چاہیے کہ اس میں مبالغے سے کام نہ لے ،یعنی جہاں احتیاط کی ضرورت نہیں تھی وہاں بھی احتیاط سے فتویٰ دے ، یہ درست نہیں ، مثلا ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور شک میں پڑگیا کہ طلاق دی ہے یا نہیں یا تین طلاقیں دی ہیں یا ایک ؟ تو مفتی یہاں تین طلاقوں کا فتویٰ احتیاطا دے یہ درست نہیں ہے۔ تو ایسی صورت میں احتیاط کے منہج میں وسعت اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔

    • احتیاط کا منہج اختیار کرنےکی بنیاد مفتی کے ہاں کسی مسئلہ کے حکم میں واقع ہونے والے شبہ پر ہے ۔بسا اوقات ایک مفتی کو کسی مسئلہ کے حکم میں شبہ محسوس ہوتا ہے جبکہ دوسرے مفتی کو اس میں وہ شبہ نظر نہیں آتا تو ایسی صورت میں احتیاط کے ساتھ فتویٰ نہیں دیا جائے گا۔ اسی طرح جب محل شبہ قوی ہو تو احتیاط کا منہج اختیار کیا جائے گا ورنہ نہیں ۔

    احتیاط کا منہج اختیار کرنے کے ضوابط:

    فتویٰ میں احتیاط کا منہج اختیار کرنا کسی سبب کی بنا پر ہوتا ہے ، سبب جس قدر قوی ہو گا اسی قدر اس منہج کا اختیار کرنا ضروری ہو گا۔ فتویٰ میں ہمیشہ اس منہج کا اختیار نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے ضوابط ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں :

  • احتیاط کے ساتھ فتویٰ دینا شرعی نص کے مخالف نہ ہو: جس شرعی نص جو واضح مدلول والی ہو ،پائی جائے تو اس نص کے مدلول کے مطابق فتویٰ دینا ضروری ہے ، ایسی صورت میں احتیاط کے ساتھ فتویٰ نہیں دیا جائے گا76۔

  • جس شبہ کی وجہ سے احتیاط کا منہج اختیار کیا جا رہاہے وہ شبہ قوی اور معتبر ہو: معتبر اور قوی شبہ سے مراد یہ ہے کہ ایسا شبہ جس کی موجودگی میں ذہن کسی مسئلہ پرحکم لگانے سے موقوف ہوجائے اور اس کی موجودگی میں دلیل نہ بن سکے 77۔ محض احتمال کی وجہ سے احتیاط کامنہج اختیار نہیں کیا جائے گا78۔

  • احتیاط کا منہج اختیار کرنا حرج اور مشقت میں واقع ہونے کا سبب نہ ہو: اس لیے کہ شریعت تو حرج اور مشقت سے بچانے کےلیے ہے لہذا احتیاط کا اس اصل سے متعارض ہونا لازم نہ آئےورنہ احتیاط کو ترک کر دیا جائے گا 79۔ آمدی کہتے ہیں کہ احتیاط کی طرف اس وقت جایا جائےگا جب یہ غیر مضر ہو80۔

  • احتیاط کا منہج اختیار کرنا وسواس اور دین سے نفرت کرنے کا سبب نہ بنے: اگر احتیاط اختیار کرنا دین سے نفرت کا سبب بنے تو احتیاطکامنہج اختیار نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ امام نووی ؒ نے کہا ہے کہ عبادات وغیرہ میں احتیاط کرنا اس وقت مستحب ہے جب یہ وسواس کا سبب نہ بنے81۔ ابن قیم ؒ 82نے وسوسہ اور احتیاط میں یوں فرق کیا ہے کہ سنت پر عمل کرنے میں مبالغہ کرنا بغیر غلو اور زیادتی کے احتیاط کہلاتا ہے جبکہ غیر مسنون چیز پر عمل کرنا وسوسہ کہلاتا ہے83۔

  • احتیاط کا منہج اختیار کرنے سے راجح مصلحت کا فقدان لازم نہ آئے: فتوی میں اختیاط کا منہج اختیار کرنے سے اگر راجح مصلحت کا فقدان لازم آئے تو اس منہج کو اختیار نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ طلاق کے مسئلہ میں آدمی اگر طلاق دینے اور نہ دینے کے بارے میں شک میں پڑگیا ہے تو ایسی صورت میں طلاق دینے کا فتویٰ نہیں دیا جائے گا ورنہ راجح مصلحت کا فقدان لازم آئے گا۔

    خلاصہ بحث

    اس بحث سے جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

  • فتویٰ میں احتیاط کا منہج اختیار کرنا ایک مستقل منہج ہے جسے متقدمین اور معاصر علما و فقہا نے فتویٰ دیتے وقت اختیار کیا ہے۔ اس منہج کی بنیاد شرعی اصولوں جیسے سد ذرائع، مآلات کا اعتبار اور محتاط رائے کو ترجیح دینے پر ہے۔

  • فتویٰ میں احتیاط کا منہج اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ فتوی ٰ صادرکرتے وقت مفتی کا اشتباہ کی صورت میں اپنے فتوی ٰکی بنیاد مامور بہ کام کو احتیاطا ترک کرنے ، ممنوع کام میں واقع ہونے سے بچنے ، شبہات سے بچنے اور ایسے مفسدہ کو دور کرنے پر رکھے جس کا واقع ہونا متوقع ہے۔

  • احتیاط کی بنا پر فتویٰ دینے کے تین اسباب ہیں ؛ پہلا سبب یہ ہے کہ مفتی کو کسی مسئلہ کے حکم بارے میں شک و شبہ پیدا ہو جاتا ہے تو وہ الخروج من الخلاف ، سخت رائے کو ترجیح دینے یا ثقیل رائے کو اختیار کر کے فتویٰ صادر کرتا ہے ۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ بسا اوقات مفتی کوکسی مسئلہ کی عملی صورت میں شک پیدا ہو جاتا ہے تو وہ اس کام کو ترک کرنے ، حرمت کی جانب کو ترجیح دینے یا یقینی صورت کی بنا پر فتویٰ صادر کرتا ہے۔ اور تیسرا سبب یہ ہے کہ بسا اوقات مفتی کسی مسئلہ کے حکم کے مآل کے اعتبار سے فتویٰ دیتا ہے یعنی اگر وہ حکم کسی حرام کام کی طرف لے کر جائے تو وہ اس سے منع کر دیتا ہے۔

  • اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فتوی میں ان اسباب میں سے کسی سبب کی بنا پر احتیاط اختیار کرنا درست ہے لیکن اس میں مبالغہ آرائی سے کام لینا درست نہیں ، بلکہ احتیاط اختیار کرنے کی بنیاد کسی مسئلہ کے بارے میں ہونے والے اختلاف کی دلیل پر ہے کہ جس قدر وہ دلیل قوی ہو گی اسی قدر احتیاط اختیار کرنا ضروری ہوگا ۔ اسی طرح احتیاط کے منہج کو اختیار کرنے کے ضوابط کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔

    فتویٰ میں احتیاط کا منہج اختیار کرنا مستحب اور مندوب ہے البتہ جب احتیاط اختیار کرنا کسی حرام کام کو ترک کرنے ، مفسدہ کو دور کرنے کا سبب ہو تو پھر احتیاط اختیار کرنا واجب ہو جاتا ہے اور جب کسی حرام کے ارتکاب کی طرف جانے کا سبب ہو تو اس وقت اس منہج کو اختیار کرنا حرام ہو جاتا ہے۔

     

    حواشی و حوالہ جات

    1ابن منظور ، جمال الدین ، لسان العرب، دار الکتب العلمیہ ،بیروت ، طبع دوم ،1412 ھ،ج 15 ص 145

    Ibn Man╘┴r, Jam┐l al-D┘n, Lis┐n al-Arab, D┐r al-Kutub Al-Ilmiyyah, Beir┴t, second edition, 15/ 145

    2حوالا بالا ، 15/147-148 /

    Ibid, 15:147-147

    3اصدار وزارۃ الاوقاف والشؤون الاسلامیہ الکویتیہ ، الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ ، مطبعۃ المقہوی الاولیٰ، کویت ،طبع دوم 1431 ھ، ج 32ص20 ۔ فتوی کی متعدد اصطلاحی تعریفات کی گئی ہیں مگر معنیٰ کے اعتبار سے تمام متفق ہیں ، دیکھئے :قرافی ، ابوالعباس احمد ، الفروق، دار عالم الکتب ، بیروت، بدون طبع، 4/53 / حرانی ، احمد بن حمدان ، صفۃالفتوی والمفتی والمستفتی،مکتب اسلامی ، بیروت، طبع چہارم 1401 ھ ، ص 06 / اشقر ، محمدبن سلیمان ، الفتیا ومناہج الافتاء دار النفائس ، اردن ، طبع سوم 1413 ھ ، ص 13

    I╖d┐r Waz┐rats al-Awq┐f wa al-Shu'┴n al-Isl┐miyyah Al-Kuwaytiyyah, al-Maws┴'ah al-Fiqhiyyah Al-Kuwaytiyyah, Ma═b' al-Muqahw┐ al-┼l┐, Kuwayt, 2nd publication, 1431H,32/20; Qar┐f┘, Abu al-Abb┐s Ahmad, al-Far┴q, D┐r └lam al-Kutub,Beir┴t, 4/53; ╓arr┐n┘, A╒mad ibn ╓amd┐n, ╗ifat al-Fatw┐ wa al-Muft┘ wa al-Mustaft┘, Maktab Isl┐m┘,Beir┴t,4th publication 1401H,p. 06; Ashqar, Mu╒ammad ibn Sulaym┐n, al-Futy┐ wa Man┐hij al-Ift┐, D┐r al-Naf┐'is, Urdan, 3rd publication, 1413H,p. 13

    4لسان العرب، 7/279

    Lis┐n al-Arab 7/279

    5لسان العرب، 7/279 / فیروز آبادی ، محمد بن یعقوب ، القاموس المحیط،دار احیاء التراث العربی ، بیروت ،طبع اول، 1412 ھ،2/526

    Lis┐n al-Arab 7/279; Fayroz └b┐d┘, Mu╒ammad ibn Ya'q┴b, al-Q┐m┴s al-Mu╒┘═, D┐r I╒y┐ al-Tur┐th al-Arab┘, Beirūt, 1st publication, 1412H, 2/526

    6جرجانی ،محمد بن علی ۔ التعریفات ، تحقیق : ابراہیم ، دار الکتاب العربی ،بیروت ، طبع دوم ،1413ھ ، ص 26

    Jurj┐n┘, Mu╒ammad ibn Al┘, al-Ta'r┘f┐t, Ta╒q┘q: Ibr┐h┘m, D┐r al-Kit┐b al-Arab┘, Beirūt, 2nd publication, 1413H, p. 26

    7محمد مناوی ، التوقیف علی مہمات التعاریف ، تحقیق : محمد الدایہ ،دار الفکر المعاصر،بیروت ، 1410 ھ، ص13

    Mu╒ammad Man┐w┘, Al-Tawq┘f al┐ Muhimm┐t al-Ta'┐r┘f, Ta╒q┘q: Mu╒ammad al-D┐yah, D┐r al-Fikr al- Mu'┐╖ir, Beirūt, 1410A/H, p. 13

    8صالح بن حمید ، رفع الحرج فی الشریعہ الاسلامیہ، دار الاستقامہ ، بیروت، طبع دوم، 1412 ھ ،ص 222

    ╗┐li╒ ibn ╓amid, Raf' ul ╓araj f┘ al-Shar┘'ah al-Isl┐miyyah, D┐r al-Istiq┐mah, Beirūt, 2nd publication , 1424H, p.222

    9ڈاکٹر الیاس بلکا ، الاحتیاط وحجیتہ واحکامہ وضوابطہ،مؤسسۃ الرسالہ ، بیروت ،طبع اول، 1424ھ ،ص 353

    Dr. Ily┐s Balk┐, al-I╒tiy┐═ wa ╓ujjiyyatuh┴ wa A╒k┐muh┴ wa ╕aw┐bi═uh┴, Mu'assisah al-Ris┐lah, Beir┴t,1st publication, 1418H, p 48

    10منیب بن محمود شاکر ، العمل بالاحتیاط فی الفقہ الاسلامی ، دارالنفائس ، ریاض ،طبع اول 1418 ھ،ص 48

    Mun┘b ibn Ma╒m┴d sh┐kir, Al-Amal bi al-I╒tiy┐═ f┘ al-Fiqh al-Isl┐m┘, D┐r al- Naf┐'is, Riy┐╔, 1st publication, 1418H, p. 48

    11شافعی، محمد بن ادریس ، الام،دار المعرفہ ،بیروت ،بدون طبع،سال نشر1990،1/46

    Sh┐f'┘, Mu╒amad ibn Idr┘s, al-Umm, D┐r al-Ma'rifah, Beir┴t, without publication, 1990AD, 1/46

    12محمد بن صالح عثیمین ، الشرح الممتع لابن عثیمین علی زاد المستقنع،مکتبۃ المنھاج ، ریاض ،1431 ھ،ج 1ص249

    Mu╒ammad ibn ╗┐li╒ Uth┘mayn, al-Shar╒ al-Mumti' li ibn Uth┘mayn, al┐ z┐d al-Mustaqni', Maktbah al-Minh┐j, Riy┐╔, 1431H, 1/249

    13مولنا مفتی محمود ، فتاوی مفتی محمود طبع چہارم 2009، محمد درانی،6/398

    Mawl┐n┐ Muft┘ Ma╒m┴d, Fat┐w┐ Muft┘ Ma╒m┴d, 4th publication, 2009AD, Mu╒ammad Dur┐n┘, 6/398

    14مفتی کفایت اللہ ، کفایت المفتی، دار الاشاعت،کراچی، 2001ءج، 9ص143

    Muft┘ Kif┐yatullah, Kif┐yat al- Muft┘, D┐r al-Ish┐'at, Karachi, 2001 AD, 9/143

    15ابن السبکی عبدالوہاب بن علی مصرکے شہر قاہرہ میں 1327 میں پیدا ہوئے۔ وہاں علم حاصل کر کے شام گئے اور علمائے دمشق علم حاصل کیا، اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہی ان کو فتوی دینے کی اجازت مل گئی، شام میں منصب قضاء کا سہرا انہی کے سر پرسجا،ان کی متعدد مؤلفات ہیں جن میں شرح مختصرابن حاجب، القواعد المشتملہ علی الاشباہوالنظائر وغیرہ ۔ انہوں نے1370 میں وفات پائی۔ دیکھئے :الزرکلی خیر الدین ، الاعلام ،دار العلم للملایین ،بیروت،طبع خامس عشر 2002، ج 4ص184

    Al-Zarkal┘, Khayr al-D┘n, al-A'l┐m, D┐r al-'ilm li al-Mal┐y┘n, Beir┴t, 15th publication 2002 AD, 4/184

    16ابن السبکی ،الاشباہ والنظائر، تحقیق : عادل عبدالموجود و علی عوض ،دارالکتب العلمیہ ، بیروت ، طبع اول، 1411 ھ،1/111

    Ibn Al-Subk┘, al-Ashb┐h wa al-Na╘┐'ir, Ta╒q┘q: '└dil Abdul Mauj┴d wa Al┘ Au╔, D┐r al-Kutub al-Ilmiyyah, Beir┴t, 1st publication,1411 AH, 1/111

    17البخاری ، محمد بن اسماعیل ، الجامع الصحیح ، تحقیق : محمد زھیر الشاویش ، کتاب الوضو، باب اذا شرب الکلب فی اناء احدکم فلیغسلہ سبعا ،دارطوق النجاۃ،بیروت، طبع اول 1422ھ / النیشابوری ، مسلم بن حجاج ، صحیح مسلم ، تحقیق : محمد فواد عبدا لباقی ، کتاب الصید والذبائح ، باب الصید بالکلاب المعلمۃ ، دار احیاء التراث ، بیروت

    Al-Bukh┐r┘, Mu╒ammad ibn Ism┐'┘l, al-J┐mi' al-╗a╒┘╒, Ta╒q┘q: Mu╒ammad Zuhayr al-Sh┐waysh, Kit┐b al- Wu╔┴, B┐b Idh┐ shariba al-Kalbo f┘ In┐'-e-A╒adikum falyaghsilho sab'an, D┐r ║auq al-Naj┐t, Beir┴t,1st publication,1422H; Al-Naysh┐b┴r┘, Muslim ibn ╓ajj┐j, ╗a╒┘╒ Muslim, Ta╒q┘q: Fow┐d Abdul B┐q┘, Kit┐b al-╗ayd wa al-Dhab┐'i╒, B┐b al-╗ayd bi al-Kil┐b al-Muallimah, D┐r I╒y┐' al-Tur┐th, Beir┴t.

    18الام ، 1/46

    Al-Umm, 1/46

    19دیکھئے : مجموع الفتاویٰ ، جمع و ترتیب : عبدالرحمن بن محمدبن قاسم ، دار عالم الکتب ، بیروت ، 1412ھ ،24/205 اسی مسئلہ کے بارے میں فتاوی دار العلوم زکریا میں بھی یہی ہے کہ ان سورتوں کی مداوت کا فتوی نہیں دینا چاہیے کیونکہ ان کی قرات مستحب ہے لازمی نہیں اور مستحب پر مداوت اختیار کرنا مکروہ ہے ۔ دیکھئے : فتاوی دار العلوم زکریا ، کراچی ، زمزم پبلشر، 2008، 2/184؛ مفتی سید نجم الحسن ، نجم الفتاوی ، کراچی، شعبہ نشر و اشاعت یاسین القرآن ، 2010، 2/363

    Majm┴' al-Fat┐w┐, jama wa Tart┘b: Abdul Re╒m┐n ibn Mu╒ammad ibn Q┐sim, D┐r └lam al-Kutub, Beir┴t, 1412H, 24/205; Fat┐w┐ D┐r al-Ul┴m Zakariyy┐, Karachi, Zamzam publisher, 2008, 2/184; Muft┘ Najm al-╓asan, Najm al- Fat┐w┐, Karachi, Yas┘n al-Qur'┐n publication, 2010, 2/363

    20مجموع الفتاویٰ ، 24/17

    Majm┴' al-Fat┐w┐, 17/24

    21مجموع الفتاویٰ، 29/276 / ابن رجب ، القواعد فی الفقہ الاسلامی، دار الکتب العلمیہ ، بیروت ، طبع اول ، 1413ھ ص 222

    Majm┴' al-Fat┐w┐, 29/276; Ibn Rajab, al-Qaw┐'id, f┘ al-Fiqh al-Isl┐m┘, D┐r al-Kutub al-Ilmiyyah, Beir┴t, 1st publication, 1413H, p. 222

    22سرخسی ، ابو بکر محمد ، المبسوط ،دار المعرفہ ، بیروت ، 1406ھ، ج 3ص 140

    Sarakhs┘, Ab┴ Bakar Mu╒ammad, al-Mabs┴═, D┐r al-Ma'rifah, Beir┴t, 1404H, 3/140

    23مفتی عبد الرحیم ، فتاوی رحیمیہ ، کراچی ، دار الاشاعت ، 2009، 7/246

    Muft┘, Abdul Rah┘m, Fat┐w┐ Ra╒┘miyyah, Karachi, D┐r al-Ish┐'at, 2009AD, 7/246

    24عز ابن عبدالسلام کو سلطان العلماء کے نام سے تاریخ میں یاد کیا جاتا ہے جو کہ دمشق میں 577ھ کو پیدا ہوئے ، زہد و ورع سے مشہور تھے ۔ عظیم کتابوں کے مصنف ہیں، قاہرہ میں 661ھ کوفوت ہوئے۔ دیکھئے : ذہبی ، محمد بن احمد ، العبر فی خبرمن غبر ، تحقیق: محمد سعیدی ،دار الکتب العلمیہ، بیروت ، بدون طبع،ج 5ص261

    Dhahab┘, Mu╒ammad ibn A╒mad, al-Ibr f┘ khabar-e-man Ghabar, Tta╒q┘q: Mu╒ammad Sa'┘d┘, D┐r al-Kutub al-Ilmiyyah, Beir┴t, 5/261

    25عز ابن عبد السلام ،قواعد الاحکام فی مصالح الانام، مؤسسۃالرسالہ ، بیروت ،1410ھ، ج 2ص199-200

    Izz ibn Abdul Sal┐m, Qaw┐'id al-A╒k┐m f┘ Ma╖┐li╒ al-An┐m, Mu'assisah al-Ris┐lah, Beir┴t, 1410 H, 2/199-200

    26دیکھئے : مفتی نظام الدین اعظمی ، نظام الفتاوی ، لاہور ، مکتبہ رحمانیہ ، 2/384

    Muft┘ Ni╘┐m al-D┘n, A'╘m┘, Ni╘┐m al-Fat┐w┐, Lahore, Maktabah Rahm┐niyyah, 2/384

    27دیکھئے : مولانا محمد یوسف لدھیانوی ، آپ کے مسائل اور ان کا حل ، کراچی مکتبہ لدھیانی ،2011،5/497

    Mawl┐n┐ Mu╒ammad Y┴suf ludhy┐nw┘, └p kay Mas┐'il aur unk┐ ╒al, Karachi, Maktbah Ludhy┐n┘, 2011AD, 5/497

    28شیخ مناوی محمد عبد الرؤف ، جوکہ مناوی کے نام سے مشہور و معروف ہیں، 952 ھ کو پیدا ہوئے جب وہ بیمار ہوئے تو ان کے بیٹے تاج الدین نے ان کی تصانیف لکھیں، ان کی مشہور کتاب فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ہے۔ اور قاہرہ میں 1031ھ کو فوت ہوئے۔ دیکھئے: زرکلی ، الاعلام ، ج 6ص204

    Zarkal┘, al-'al┐m, 6/204

    29دیکھئے : المناوی ،محمد عبد الرؤوف ، فیض القدیرشرح الجامع الصغیر، المکتبہ التجاریہ ، مصر ، طبع اول ،2/134

    Al-Man┐w┘, Mu╒ammad ibn Abdul ra'┴f, Fay╔ al-Qad┘r, Shar╒ al-J┐mi' al-╗agh┘r, al-Maktbah al- Tij┐riyyah, Egypt, 1st publication, 2/134

    30دیکھئے : قواعد الاحکام فی مصالح الانام، 1/183/ قرافی ، ابو العباس احمد ، الفروق، دار عالم الکتب ، بیروت ، بدون طبع ، 4/210-212

    Qaw┐'id al-A╒k┐m f┘ Ma╖┐li╒ al-An┐m, 1/183; Qar┐f┘, Abu al-Abb┐s A╒mad, al-Far┴q, D┐r └lam al- Kutub, Beir┴t, without publication, 4/210-212

    31دیکھئے : قواعد الاحکام ، 2/200

    Qaw┐'id al-A╒k┐m,2/200

    32حوالا بالا، ج 1/46

    Ibid , 1/46

    33شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، ابو العباس ، تقی الدین ، احمد بن عبد الحلیم ایک فقیہ ، مجتہد ،محدث اور مفسر کے طور پر جانے جاتے ہیں، 1263 ھ میں شہر حران میں پیداہوئے اور اپنے وقت کی ظالم حکومتوں سے جہاد کیا ، عقائد میں شک و شبہات پیدا کرنے والی طاقتوں سے جہاد کیا ، ان کی ساری زندگی دین اسلام کی خدمات سر انجام دینے سے بھری ہوئی ہے،کئی کتابوں کے مصنف ہیں، 1328ھ میں وفات پائی۔ دیکھئے : ذہبی محمد بن احمد ، تاریخ الاسلام ، دار الکتاب العربی ، بیروت ، طبع اول ،1407ھ، 13/723

    Dhahab┘, Mu╒ammad ibn A╒mad, Tar┘kh al-Isl┐m, D┐r al-Kit┐b al-Arab┘, Beir┴t, 1st publication,1408 H, 13/723

    34دیکھئے: مجموع الفتاویٰ ،10/512

    Majm┴' al-Fat┐w┐, 10/512

    35حوالا بالا ،25/110

    Ibid, 25/110

    36دیکھئے : قواعد الاحکام ، 1/183

    Qaw┐'id al-A╒k┐m, 1/183

    37دیکھئے : زرکشی ،بدر الدین محمد بن بہادر ، المنثور فی القواعد ،تحقیق : محمد حسن محمد اسماعیل ، دار الکتب العلمیہ ، بیروت ، طبع اول ، 1421ھ ، ج 1ص346 / شرح النووی علی صحیح مسلم ، 2/23

    Zarkash┘, Badr al-D┘n Mu╒ammad ibn Bah┐dar, Al-Manth┴r f┘ al-Qaw┐'id, Ta╒q┘q: Mu╒ammad ╓asan Mu╒ammad Ism┐'┘l, D┐r al-Kutub al-Ilmiyyah, Beir┴t, 1st publication, 1421 H, 1/346; Shar╒ al-Nawaw┘ Al┐ ╗a╒┘╒ al-Muslim, 2/23

    38دیکھئے : قواعد الاحکام 1/183/ نووی ،ابو زکریا ، شرح صحیح مسلم، دار القلم ، بیروت، طبع اول ، 9/419/ الفروق ،4/212

    Qaw┐'id al-A╒k┐m, 1/183, Nawaw┘, Ab┴ Zakariyy┐, Shar╒o ╗a╒┘╒ Muslim, D┐l al-Qalam, Beir┴t,1st publication 9/419; al- Far┴q, 4/212

    39ابن السبکی ، الاشباہ والنظائر ،1/113

    Ibn Subk┘, Al-Aashb┐h wa al-Na╘┐'ir, 1/113

    40مفتی محمد فرید ، فتاوی فریدیہ ،دار العلوم صدیقیہ ، صوابی ،طبع سوم 2009، 2/44

    Muft┘ Mu╒ammad Far┘d, Fat┐w┐ Far┘diyyah, D┐r al-Ul┴m ╗idd┘qiyyah, ╗aw┐b┘, 3rd publication, 2/44

    41حوالا بالا، 2/43

    Ibid, 2/43

    42دیکھئے: https://urduFatwa.com/view/1/160

    43ابن رشد ، ابو الولید محمد ، المقدمات الممہدات ، تحقیق : محمد حجی ، دار الغرب ،طبع اول 1408ھ، ج 2ص 432

    Ibn Rushd, Ab┴ al-Wal┘d Mu╒ammad, al-Muqaddam┐t al-Mumahhad┐t, Ta╒q┘q: Mu╒ammad ╓uj┘, D┐r al-Gharab, 1st publication 1408 A/H, 2/432

    44دیکھئے: جوینی ، امام الحرمین ، ابو المعالی عبد الملک ، البرھان فی اصول الفقہ، دار الوفاء ، مصر ،طبع دوم 1412ھ، 2/1199/ سمرقندی ،ابو بکر محمد بن احمد ، میزان الاصول ، تحقیق : محمد زکی عبد البر ، مکتبۃ دار التراث ، قاہرہ ،طبع دوم ، 1418ھ ، ص738 / آمدی ، علی بن محمد ، الاحکام فی اصول الاحکام ، تعلیق : عبد الرزاق عفیفی ، المکتب الاسلامی ،بیروت ، طبع دوم ،1402ھ،ج4ص268

    Juwayn┘, Im┐m al-╓armayn, Ab┴ al-Ma'┐l┘ Abdul Malik, al-Burh┐n f┘ U╖┴l al-Fiqh, D┐r al-Waf┐', Egypt, 2nd publication, 1412H, 2/1199; Samarqand┘, Ab┴ Bakar, Mu╒ammad ibn A╒mad, M┘z┐n al-U╖┴l, Ta╒q┘q: Mu╒ammad Zak┘ Abdul Barr, Maktabah D┐r al-Tur┐th, Qairo, 2nd publication, 1418H,p. 738; Amd┘, Al┘ ibn Mu╒ammad, al-A╒k┐m, f┘ U╖┴ al-A╒k┐m, Ta'l┘q: Abdul Razz┐q Af┘f┘, al- Maktab al- Isl┐m┘, Beir┴t, 2nd publication, 1402H, 4/268

     

    45دیکھئے: ابو یعلی ، محمد بن حسین ، العدۃ فی اصول الفقہ ،تحقیق : احمد المبارکی ، طبع دوم 1410ھ، 2/1040

    Ab┴, Ya'l┐, Mu╒ammad ibn Husayn, al-Iddah f┘ U╖┴l al-Fiqh, Ta╒q┘q: A╒mad al-Mub┐rk┘, 2nd publication, 1410 H, 2/1040

    46امام الحرمین ، امام جوینی جوین میں 419 ھ میں پیداہوئے ، شافعی المذہب تھے ، ان کی تصنیفات میں سے البرہان فی اصول الفقہ، الشامل فی اصول الدین وغیرہ ہیں۔ 478ھ میں وفات پائی۔ دیکھئے : ذہبی ، محمد بن احمد ، سیر اعلام النبلاء، مؤسسۃالرسالہ، بیروت ، بدون طبع ، 18/468

    Dhab┘, Mu╒ammad ibn A╒mad, Siyar 'al┐m al-Nubal┐, Mu'ssisa al-Ris┐lah, Beir┴t, 18/468

    47البرھان فی اصول الفقہ ،2/779

    Al-Burh┐n f┘ U╖┴l al-Fiqh, 2/779

    48دیکھئے :زیلعی ،عثمان بن علی ، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق،مطبعۃ الفاروق الحدیثۃ ، قاہرہ، طبع دوم ، 2/118/ ابن نجیم ، البحر الرائق ،2/178

    Zayl'┘, Usm┐n ibn Ali, Taby┘n al-╓aq┐'iq Shar╒u Kanz al-Daq┐'iq, Ma═ba al-F┐r┴q al-╓ad┘thah, Qairo, 2nd publication, 2/118; Ibn e Nujaym, al-Bahr al-R┐'iq, 2/178

    49مولانا عبد الحق ، فتاوی حقانیہ ، دار العلوم ، خٹک، 2010 , 3/414

    Mawl┐n┐ Abdul ╓aqq, Fat┐w┐ ╓aqq┐niyyah, D┐r al-Ul┴m, Kha═ak, 2010 AD, 3/414

    50زین الدین بن نجیم ، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، دار المعرفہ، بیروت، بدون طبع، 2/178

    Zayn al-D┘n Ibn Nujaym, al-Ba╒r al-R┐'iq Shar╒o Kanz al-Daq┐'iq, D┐r al-Ma'rifah, Beir┴t, 2/178

    51زرکشی ،محمد بن بہادر ، البحر المحیط فی اصول الفقہ، بدون طبع، 6/30

    Zarkash┘, Mu╒ammad ibn Bah┐dar, al-Ba╒r al-Mu╒┘═ f┘ U╖┴l al-Fiqh, 6/30

    52امام فخر الدین رازی 544ھ کو طبرستان میں پیدا ہوئے ، مفاتیح الغیب ،المحصول ان کی معروف کتابیں ہیں۔606ھ میں فوت ہوئے۔ دیکھئے : سیر اعلام النبلاء 1/480

    Siyar 'al┐m al-Nubal┐, 1/480

    53رازی ، محمد بن عمر بن حسین ، المحصول فی اصول الفقہ ، تحقیق : طہ جابر علوانی ، مؤسسۃالرسالہ ، بیروت ، طبع دوم ، 1418ھ، 6/217

    R┐z┘ Mu╒ammad ibn Umar ibn Husayn, al-Ma╒╖┴l f┘ U╖┴l al-Fiqh, Ta╒q┘q: ║┐ha J┐bir Alw┐n┘, Mu'assisah al-Ris┐lah, Beir┴t, 2nd publicaton, 1418H, 6/217

    54طیار ،عبد اللہ بن محمد ، الزکاۃ و تطبیقاتھا المعاصر، دار الوطن ، ریاض، طبع دوم ،1414ھ، ص 128

    ║ayy┐r, Abdullah ibn Mu╒ammad, al-Zak┐t wa Ta═b┘q┐tuh┐ al-Mu'┐╖arah, Dar al-Wa═an, Riy┐╔, 2nd publication, 1414H, p.128

    55فتاوی رحیمیہ ، 7/196

    Fat┐w┐ Rah┘miyyah, 7/196

    56 شیرازی ، التبصرۃ ، ص 484 / البحر المحیط ، 1/259

    Shir┐z┘, al-Tab╖irah, p.484; Al-Ba╒r al-Mu╒┘═, 1/259

    57ابن السبکی ، الاشباہ والنظائر ،1/117/ ابن نجیم ، زین العابدین بن ابراہیم ، الاشباہ والنظائر ، دارالکتب العلمیہ ، بیروت، طبع اول ، 1413ھ ، ص 121 / سیوطی ، جلال الدین عبدالرحمن ، الاشباہ والنظائر ، تحقیق : علاء السعید ، مکتبہ نزار البار ,ص 139

    Ibn Al-Subk┘, al-Ashb┐h wa al-Na╘┐'ir, 1/117; Ibn Nujaym, Zain al-Abid┘n, al-Ashb┐h wa al-Na╘┐'ir, D┐r al-Kutub al-Ilmiyyah, Beir┴t, 1st publication, 1413H, 121; Suy┴═┘, Jal┐l al-D┘n Abdul Re╒m┐n, al-Ashb┐h wa al-Na╘┐'ir, Ta╒q┘q: Al┐'u al-Sa'┘d, Maktabah Naz┐r al-B┐r, p.139

    58مجموع الفتاویٰ ،21/76

    Majm┴' al-Fat┐w┐, 21/76

    59 https://darulifta-deoband.com/home/ur/taharah-purity/59455

    60محمد بن احمد جو کہ امام سرخسی کے نام سے مشہور ہیں ، حنفی فقیہ اور اصولی ہیں ان کی مشہور کتاب المبسوط ہے۔دیکھئے : سیر اعلام النبلاء ،19/147

    Siyar 'al┐m al-Nubal┐, 19/147

    61سرخسی ، ابوبکرمحمدبن احمد ،شرح السیر الکبیر، الشرکۃ الشرقیہ، بیروت، بدون طبع ، 2/414

    Sarakhs┘, Ab┴ Bakar ibn Mu╒ammad, Shar╒ al-Siyar al-Kab┘r, al- Sharikah al-Sharqiyyah, Beir┴t, 2/414

    62https://www.banuri.edu.pk/readquestion/ ؛ https://forum.mohaddis.com/threads/

    63مجموع الفتاویٰ ،1/511-512

    Majm┴' al-Fat┐w┐, 1/511-512

    64دیکھئے : مفتی نظام الدین اعظمی ، نظام الفتاوی ، لاہور ، مکتبہ رحمانیہ ، 2/384

    Muft┘ Ni╘┐m al-D┘n A'╘m┘, Ni╘┐m al-Fat┐w┐, Lahore, Maktabah Rahm┐niyyah, 2/384

    65https://darulifta-deoband.com/home/ur/sawm-fasting/61021

    66https://darulifta-deoband.com/home/ur/Business/9413

    67محمد عمر سماعی ، نظریۃالاحتیاط ، دارابن حزم ، بیروت،طبع اول 1420ھ، ص 152

    Mu╒ammad Umar Sam┐'┘, Na╘riyat al-I╒tiy┐═, D┐r Ibn ╓azam, Beir┴t, 1st publication 1420H,p.152

    68https://www.banuri.edu.pk/readquestion/

    69دیکھئے : اصول السرخسی ،2/23

    U╖┴l al-Sarakhs┘, 2/23

    70دیکھئے : شاطبی ،ابو اسحاق ابراہیم ، الموافقات فی اصول الفقہ، دار المعرفہ، بیروت ، طبع اول 1415ھ، 2/642

    Sha═b┘, Ab┴ Is╒┐q Ibr┐h┘m, al-Maw┐faq┐t, f┘ U╖┴l al-Fiqh, D┐r al-Ma'rifah, 1st publication, 1415H, 2/642

    71احمد بن علی ابو بکر جو کہ امام جصاص کے نام سے مشہورہیں،305ھ میں پیدا ہوئے اور 370ھ میں فوت ہوئے ،ان کی مشہور کتابوں میں اصول الجصاص ، احکام القرآن ہیں۔ دیکھئے : حنبلی ، عبدالحیی،شذرات الذہب فی اخبار من ذہب ،تحقیق: عبد القادر ارنوط، محمود ارنوط، ، دار ابن کثیر،دمشق، 1406ھ،3/71

    ╓ambal┘ Abdul Hayy, Shadhr┐t al-Dhahab f┘ Akhb┐r man Dhahab, Ta╒q┘q: Abdul Q┐dir Arn┴═, Ma╒m┴d Arn┴═, D┐r Ibn kath┘r, Dimashq, 1406H, 3/71

    72اصول الجصاص ،2/99

    U╖┴l al-Ja╖╖┐╖, 2/99

    73الاشباہ والنظائر ، 1/110

    Al-Ashb┐h wa al-Na╘┐'ir, 1/110

    74شرح السنۃ، 5/10

    Shara╒ al-Sunnah, 5/10

    75ابو سلیمان ، معالم السنن شرح سنن ابو داود، دار الکتب العلمیہ ، بیروت ، طبع اول 1411ھ، 2/300

    Ab┴ Sulaym┐n, Ma'┐lim al-Sunan Shar╒u sunan Ab┴ D┐w┴d, D┐r al-kutub al- Ilmiyyah, Beir┴t, 1st publication, 2/300

    76دیکھئے : مجموع الفتاویٰ ،26/54 / الاشباہ والنظائر ،1/112

    Majm┴' al-Fat┐w┐, 26/54 ; Al-Ashb┐h wa al-Na╘┐'ir,1/112

    77الاشباہ والنظائر ، 1/112

    Al-Ashb┐h wa al-Na╘┐'ir , 1/112

    78ابوحامد محمدبن محمد ، غزالی ، احیاء علوم الدین، دار الکتب العلمیہ، بیروت ، طبع اول 1421ھ،2/94-95

    Ab┴ H┐mid Mu╒ammad ibn Mu╒ammad, Ghaz┐l┘, I╒y┐'u Ul┴m al-D┘n, D┐r al-Kutub al- Ilmiyyah, Beir┴t, 1st publication 1421 AH, 2/94-95

    79ابن قیم ، اغاثۃ اللھفان ، تحقیق /محمد حامد الفقی ، دار المعرفہ، بیروت، بدون طبع ،1/163

    Ibn Qayyim, Igh┐tha al-Lafh┐n, Ta╒q┘q: Mu╒ammad ╓amid al- Fiqh┘, D┐r al-Ma'rifah, Beir┴t, 1/163

    80الاحکام فی اصول الاحکام ،1/240

    Al-Aa╒k┐m, f┘ U╖┴l al-A╒k┐m, 1/240

    81نووی، ابو زکریا ،المجموع شرح المہذب ،تحقیق : محمود مطرحی ، دار الفکر ،بیروت، طبع اول1417ھ، 1/351

    Nawaw┘ Ab┴ Zakariyy┐, Al- Majm┴' Shar╒ al-Muhadhab, Ta╒q┘q: Ma╒m┴d Ma═ra╒┘, D┐r al-Fikar, Beir┴t, 1st publication 1417H, 1/351

    82ابن قیم ، محمد بن ابو بکر ابوعبداللہ 691ھ میں پیدا ہوئے اور 751ھ میں فوت ہوئے ،حنبلی مذہب کے فقیہ اور مجتہد ہیں ، ان کی کتابوں میں اعلام الموقعین ، زاد المعاد شامل ہیں۔ دیکھئے : ابن رجب ، ذیل طبقات الحنابلہ ، مکتبۃ العبیکان،طبع اول ،2005 ،5/170-175

    Ibn Rajab, Dhayl ║abaq┐t al-╓an┐bilah, Maktaba al-Ab┘k┐n, 1st publication, 2005, 5/170-175

    83دیکھئے : ابن قیم ، الروح ، دار ابن کثیر ، دمشق ، طبع چہارم 1420ھ، ص 256

    Ibn Qayyim, Al-R┴╒, D┐r Ibn kath┘r, Dimashq, 4th publication 1420 AH, p.25

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...