Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Az̤vā > Volume 37 Issue 58 of Al-Az̤vā

عائلی مسائل میں اقوال تابعین سے استشہادکے نظائر |
Al-Az̤vā
Al-Az̤vā

Article Info
Authors

Volume

37

Issue

58

Year

2022

ARI Id

1682060078052_3018

Pages

79-86

DOI

10.51506/al-az̤vā.v37i58.595

PDF URL

https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/download/595/426

Chapter URL

https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/view/595

Subjects

Tabi’een Family Matters Precedents of Successors

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تابعین عظامؒ وہ سعید ہستیاں ہیں جنہوں نے اصحاب محمدﷺ کی زیارت کی اوران سے مستفید ہوئے،خیرالقرون کےحق دارٹھہرےاوردین کےلیے ان گنت قربانیاں دے کر ابلاغ وتبلیغ کاحق ادا کردیا۔ تفسیرہویاشرح حدیث، استنباط واستخراج ہو یااُصولی وکلامی مباحث کوئی باب بھی اقوال وافعال تابعینؒ کے نظائر سےخالی نہیں۔یہ کہنابےجانہ ہوگاکہ علوم اسلامیہ کی تدوین وتشکیل میں حضرات تابعینؒ کا اہم کردارہےاوران کےحصہ کے بغیرمباحث تشنگی کاشکاررہتی ہیں۔

فقہی مسالک میں اگرچہ اقوال تابعین کے اخذ و رد سے متعلق اصولی اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن تمام مسالک کی کتب ِ فقہ میں تابعین سے استشہادات کا عمومی رجحان موجود ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی فقہی رائے کی تائید میں اقوال ِ تابعین سے استشہاد سب کے نزدیک راجح قرار دینے کے معاملے میں اہمیت رکھتا ہے ۔ ذیل میں عائلی معاملات میں فقہی مسالک کی کتب سے مثالیں پیش کی جائیں گی جہاں اقوال ِ تابعین سے استشہاد کے ذریعے اپنی رائے کو مؤید کیا گیا ہے ۔

کتب ِ حنفیہ سے عائلی مسائل میں اقوال ِ تابعین سے استشہاد کے نظائر

فقہائے حنفیہ کی کتب میں تابعین کے اقوال سے تائید و استشہاد کثرت سے پایا جاتا ہے ۔ذیل میں چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔

اول: حالت ِ حیض میں بیوی سے استمتاع کی حدود میں اقوال تابعین سے استشہاد

امام ابو حنیفہ ؒ اور امام محمد ؒ کے مابین اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ حالتِ حیض میں بیوی سے استمتاع کی کیاحدود ہیں ۔ اس سے متعلق دیگر استدلالات سے صرف ِ نظر کرتے ہوئے ہم امام سرخسی کی کتاب سے اس مسئلے میں اقوال ِ تابعین سے استشہاد کی نظیر پیش کرتے ہیں۔امام ابو حنیفہ ؒ کی رائے امام حسن بصری ؒ کے رائے سے مؤید ہے جب کہ امام محمد ؒ کی رائے کو امام ابراھیم نخعی کی تائید حاصل ہے ۔

"وَاخْتَلَفُوا فِيمَا سِوَى الْجِمَاعِ فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -: لَهُ أَنْ يَسْتَمْتِعَ بِمَا فَوْقَ الْمِئْزَرِ وَلَيْسَ لَهُ مَا تَحْتَهُ وَقَالَ مُحَمَّدٌ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -: يَجْتَنِبُ شِعَارَ الدَّمِ وَلَهُ مَا سِوَى ذَلِكَ۔"1

"اس میں اختلاف ہوا کہ جماع کے علاوہ کیا استمتاع ہو سکتا ہے۔ ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا : آزار بند کے اوپر سے جو استمتاع چاہے کرے لیکن نیچے سے نہیں۔ امام محمد نے کہا : خون کے مقام سے اجتناب کرے اس کے علاوہ سب اس کے لیے ہے۔"

امام سرخسیؒ ان دونوں آرا کے بعد مختلف استدلال ذکر کرتے ہیں،پھر لکھتے ہیں:

"وَبَيْنَ التَّابِعِينَ اخْتِلَافٌ فِي مَعْنَى قَوْلِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - مَا فَوْقَ الْمِئْزَرِ فَكَانَ إبْرَاهِيمُ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - يَقُولُ: الْمُرَادُ بِهِ الِاسْتِمْتَاعُ بِالسُّرَّةِ وَمَا فَوْقَهَا وَكَانَ الْحَسَنُ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - يَقُولُ الْمُرَادُ: أَنْ يَتَدَفَّأَ بِالْإِزَارِ وَيَقْضِيَ حَاجَتَهُ مِنْهَا فِيمَا دُونَ الْفَرْجِ فَوْقَ الْإِزَارِ وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَعْتَزِلَ فِرَاشَهَا ۔"2

"تابعین کا رسول اللہ ﷺ کے فرمان(مَا فَوْقَ الْمِئْزَرِ) کے بارے میں اختلاف ہے ۔ ابراھیم النخعی کہتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ ناف یا اس سے اوپر بدن سے استمتاع کر سکتا ہے ۔ حسن بصری ؒ کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ ازار (شلوار وغیرہ)سے گرمائش حاصل کرلے اور فرج کے علاوہ سے استمتاع کر ے لیکن لباس سے اوپر سے حاجت براری کرے ۔ اس کے بستر سے علیحدگی مناسب نہیں۔"

دوم: زنا سے حرمت ِ مصاہرت کے اثبات میں تابعین سے استشہاد

امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک زنا کے باعث بھی حرمت ِ مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے اور مزنیہ عورت کی والدہ اور بیٹی سے نکاح حرام ہے لیکن امام شافعی ؒ کے رائے اس کے خلاف ہے اور وہ زنا کو حرمتِ مصاہرت میں مؤثر نہیں تسلیم کرتے ۔ أبو حفص الحنفی اس مسئلے میں صحابہ کے ساتھ تابعین کو بھی حنفیہ کے اس مسئلے میں تائید کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

"الزنا يوجب حرمة المصاهرة فمن زنا بامرأة حرمت عليه أمها وابنتها على مذهب أبي حنيفة رضي الله عنه وهو قول عمر وابن مسعود وعمران ابن الحصين وجابر وأبي بن كعب وعائشة وابن عباس رضي الله عنهم في الأصح من مذهبه وجمهور التابعين كالشعبي والحسن البصري وإبراهيم النخعي والأوزاعي وطاووس ومجاهد وعطاء وسعيد بن المسيب رضي الله عنهم وقال الشافعي رحمه الله لا يحرم۔"3

"زنا موجب ِ حرمت ِ مصاہرت ہے ۔ پس جس نے کسی عورت سے زنا کیا تو اس کی ماں اور بیٹی حرام ہو گئی امام ابوحنیفہ کے مذہب کے مطابق ۔ اور یہی قول عمر ؓ، ابن مسعود ؓ، عمران الحصین ؓ، جابرؓ، ابی کعب ؓ ، عائشہ ؓ اور ابن عباس ؓ کا بھی جو ان سے صحیح قول ان کے مذہب بارے منقول ہے ۔ جمہور تابعین جیسا کہ شعبی، حسن بصری، ابراھیم النخعی ، اوزاعی ، طاووس، مجاھد ، عطا ، سعید بن المسیب سب کا یہی مسلک ہے۔ امام شافعی ؒ نے فرمایا حرام نہیں ہوں گی ۔"

سوم: صابیہ عورت سے نکاح کے جواز کا مسئلہ

مجوسی عورت سے نکاح کے جواز میں ائمہ حنفیہ کے مابین اختلاف ہے ۔صاحبین کے نزدیک اس سے نکاح ناجائز ہے جب کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک جائز ہے ۔ ان دونوں مسالک سے متعلق امام زیلعی ؒ نے تابعین سے استشہادات کیے ہیں ۔ تحریر فرماتے ہیں :

"(وَالصَّابِئَةِ) أَيْ حِلُّ تَزَوُّجِ الصَّابِئَةِ وَقَالَ أَبُو يُوسُفَ وَمُحَمَّدٌ: لَا يَجُوزُ نِكَاحُهَا، وَهَذَا الْخِلَافُ بِنَاءً عَلَى أَنَّهُمْ عَبَدَةُ الْأَوْثَانِ أَمْ لَا فَعِنْدَهُمَا هُمْ عَبَدَةُ الْأَوْثَانِ، فَإِنَّهُمْ يَعْبُدُونَ النُّجُومَ، وَعِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ لَيْسُوا بِعَبَدَةِ الْأَوْثَانِ، وَإِنَّمَا يُعَظِّمُونَ النُّجُومَ كَتَعْظِيمِ الْمُسْلِمِ الْكَعْبَةَ فَإِنْ كَانَ كَمَا فَسَّرَهُ أَبُو حَنِيفَةَ يَجُوزُ بِالْإِجْمَاعِ؛ لِأَنَّهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ وَإِنْ كَانَ كَمَا فَسَّرَاهُ لَا يَجُوزُ بِالْإِجْمَاعِ؛ لِأَنَّهُمْ مُشْرِكُونَ وَقِيلَ: فِيهِمْ الطَّائِفَتَانِ وَقِيلَ: هُمْ صِنْفٌ مِنْ النَّصَارَى يَقْرَؤُنَّ الزَّبُورَ، وَهُمْ الَّذِينَ يُظْهِرُونَ مِنْ اعْتِقَادِهِمْ، وَهُمْ بِنَفْسِهِمْ يَعْتَقِدُونَ الْكَوَاكِبَ آلِهَةً وَيُضْمِرُونَ ذَلِكَ، وَلَا يَسْتَجِيزُونَ إظْهَارَ مَا يَعْتَقِدُونَ أَلْبَتَّةَ فَبَنَى أَبُو حَنِيفَةَ عَلَى مَا يُظْهِرُونَ وَبَنَيَا عَلَى مَا يُضْمِرُونَ، وَقَالَ السُّدِّيَّ: هُمْ طَائِفَةٌ مِنْ الْيَهُودِ كَالسَّامِرَةِ وَقَالَ قَتَادَةُ وَمُقَاتِلٌ هُمْ قَوْمٌ يُقِرُّونَ بِاَللَّهِ وَيَعْبُدُونَ الْمَلَائِكَةَ وَيُصَلُّونَ إلَى الْكَعْبَةِ أَخَذُوا مِنْ كُلِّ دِينٍ شَيْئًا، وَقَدْ اُخْتُلِفَ فِيهِمْ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ۔"4

"صابئہ یعنی مجوسی عورت سے نکاح کی حلت ۔ امام ابو یوسف و امام محمد نے کہا کہ اس سے نکاح جائز نہیں۔ یہ اختلاف اس بنیاد پر ہے کہ کیا وہ بتوں کی پوجا کرنے والے ہیں یا نہیں ؟ ان دونوں کے نزدیک وہ بتوں کے پجاری ہیں۔ وہ ستاروں کی پوجا کرتے ہیں ۔ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک وہ بتوں کے پجاری نہیں ہیں۔ وہ محض ستاروں کی تعظیم کرنے والے ہیں جیسے مسلمان کعبے کی تعظیم کرتا ہے ۔اگر ایسا ہے جیسا کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے کہا تو پھر بالاجماع نکاح جائز ہوگا۔ کیونکہ وہ اہل ِ کتاب ہیں۔ اور اگر ایسا ہے جیسے ان دونوں نے کہا تو بالاجماع نکاح حرام ہوگا کیونکہ وہ مشرک ہیں۔یہ بھی کہا گیا کہ ان کے دو گروہ ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ نصرانیوں کی ایک قسم ہیں اور زبور پڑھتے ہیں ۔ جو ان کے اعتقادات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ستاروں کو ذاتی طور پر خدا مانتے ہیں اور اس کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔ اور اپنے اعتقاد کے اظہار کو جائز نہیں سمجھتے ۔ امام ابوحنیفہ نے اپنی رائے کی بنیاد اس پر رکھی جو وہ ظاہر کرتے ہیں اور صاحبین نے اپنے قول کی بنیاد اس پر رکھی جو وہ پوشیدہ رکھتے ہیں۔سدّی نے کہا کہ وہ یہود کا ایک گروہ ہیں جیسا کہ سامرہ ۔ قتادہ و مقاتل نے کہا کہ وہ اللہ کو مانتے ہیں اور فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں اور کعبہ کی طرف نماز پڑھتے ہیں۔ انہوں نے ہر دین میں کچھ چیز لے لی ہے ۔ ان کے بارے بہت اختلاف واقع ہوا ہے ۔"

کتب مالکیہ سے عائلی مسائل میں اقوال ِ تابعین سے استشہاد کے نظائر

ذیل میں کتب ِ مالکیہ سے بعض عائلی مسائل میں اقوال ِ تابعین سے استشہاد کی امثلہ پیش کی جاتی ہیں۔

اول: مجبور اور سکران کی طلاق سے متعلق استشہاد

المدونہ میں ہے :

"قَالَ: وَأَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ عَنْ رِجَالٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ وَمُجَاهِدٍ وَطَاوُسٍ وَغَيْرِهِمْ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُمْ كَانُوا لَا يَرَوْنَ طَلَاقَ الْمُكْرَهِ شَيْئًا۔"

"ابن وھب نے مجھے اہل ِ علم لوگوں سے نقل کیا کہ علی بن ابی طالب اور عمر بن الخطاب، ابن عباس، عطا بن ابی رباح، عبد اللہ بن عبید بن عمیر ، مجاہد، طاووس اور ادیگر اہل ِعلم مجبور کی طلاق کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے۔"

اسی طرح امام مالک حالت ِ نشہ میں دی گئی طلاق کے نافذ ہونے سے متعلق اقوال ِ تابعین سےاستشہاد فرماتےہیں:

"وَقَالَ مَالِكٌ: وَبَلَغَنِي عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُمَا سُئِلَا عَنْ طَلَاقِ السَّكْرَانِ إذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ أَوْ قَتَلَ فَقَالَا: إنْ طَلَّقَ جَازَ طَلَاقُهُ وَإِنْ قَتَلَ قُتِلَ۔"5

"امام مالک فرماتے ہیں کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ سعید بن المسیب ، سلیمان بن یسار دونوں سے نشے میں فرد کی طلاق کے بارے میں پوچھا گیا جب وہ اپنی بیوی کو طلاق دےد ے یا قتل کیا تو دونوں نے کہا کہ اگر طلاق دی تو درست ہو گی اور اگر قتل کیا تو (قصاصاً) قتل کیا جائے گا ۔"

دوم: عدت میں رغبت نکاح کے اظہار کے جواز و عدم جواز سے متعلق بحث میں استشہاد

التہذیب میں ہے :

"وكره مالك المواعدة للمرأة أو لوليها في عدة طلاق أو وفاة، كانت حرة أو أمة. قال بعض التابعين: ولا بأس بالتعريض مثل أن يقول لها: إني بك لمعجب، ولك لمحب، أو فيك لراغب، وإن يقدّر أمر يكن، ونحو ذلك۔۔ وجائز أن يهدي لها، قال عطاء: وأكره مواعدة الولي، وغن كانت المرأة مالكة أمرها، ومن جهل فواعد امرأة في العدة وسمى الصداق ونكح بعد العدة، فاستحب له مالك الفراق بطلقة، دخل بها أم لا، ويخطبها إن شاء بعد عدتها منه إن كان دخل بها۔" 6

"امام مالک نے عورت یا اس کے ولی کے لیے مکروہ قرار دیا ہے کہ طلاق یا بیوگی کی عدت کے دوران کوئی وعدہ ٔ نکاح کریں ۔ چاہے عورت آزاد ہو یا لونڈی۔ بعض تابعین نے کہا ہے کہ اشارتاً کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ جیسے اسے کہا جائے میں تیرے بارے میں پسندیدگی رکھتا ہوں یا تجھ سے محبت رکھتا ہوں یا تیرے بارے رغبت ہے۔ اگر مقدر میں ہوا تو ہو جائے گا ۔ وغیرہ یہ بھی جائز ہے کہ اسے تحفہ دے ۔ عطا نے کہا : ولی کا وعدہ کرنا مکروہ ہے عورت اپنے معاملے کی مختار ہے ۔ جس نے جہالت کے باعث عورت سے عدت میں وعدہ کرلیا اور مہر بھی مقرر کر لیا اور عدت کے بعد نکاح کیا ۔امام مالک نے مستحب قرار دیا کہ ایک طلاق سے علیحدگی کر دی جائے چاہے دخول کیا ہو یا نہ کیا ہو۔وہ عدت کے بعد اگر چاہے تو اس کو پیغام نکاح دے اگر اس نے دخول کیا ہو ۔"

سوم: شوہر کی وفات کے بعدآزاد ہونے والی لونڈی کی عدت

النودار والزیادات میں ہے :

"ومن قال لأمته: إذا مات زوجك فأنت حرة. فعدتها من شهران وخمس ليال لأن العتق بعد الموت وقع. قال: وذهب ابن المسيب، أن على أم الولد من وفاة سيدها أربعة أشهر وعشرا. وإنما هذا عدة الزوجات وهذه مملوكة، وخالفه كثير من التابعين وقالوا: حيضة."7

"جس نے اپنی لونڈی کو کہا :اگر تیرا شوہر مر جائے تو تو آزاد ہے ۔ تو اس کی عدت دو ماہ اور پانچ راتیں ہے کیونکہ عتق موت کے بعد واقع ہو گیا اور کہا : سعید بن المسیب کی رائے ہے کہ ام ولد کی عدت شوہر کی وفات کے بعد چار ماہ دس دن ہے ۔یہ تو آزاد بیویوں کی عدت ہے اور یہ لونڈی ہے ۔ کثیر تابعین نے اس کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے کہا کہ ایک حیض ہے۔"

کتب شافعیہ سے عائلی مسائل میں اقوال ِ تابعین سے استشہاد کے نظائر

شافعیہ کی کتب ِ فقہ میں استدلالات میں تابعین سے استشہاد کثرت سے موجود ہے ۔ کچھ نظائر پیش کیے جاتے ہیں۔

انعقاد نکاح میں ولی شرط

شافعیہ کی معروف کتاب الحاوی الکبیر میں ہے ۔

"فإن أَرَادَتِ الْمَرْأَةُ أَنْ تَنْفَرِدَ بِالْعَقْدِ عَلَى نَفْسِهَا مِنْ غَيْرِ وَلِيٍّ، فَقَدِ اخْتَلَفَ الْفُقَهَاءُ فِيهِ على ستة مذاهب.مذهب الشافعي منها: أَنَّ الْوَلِيَّ شَرْطٌ فِي نِكَاحِهَا لَا يَصِحُّ الْعَقْدُ۔"8

"اگر عورت اپنے نکاح کے بارے میں تنہا بغیر ولی کے فیصلہ کرنا چاہے تو اس کے بارے فقہا کا اختلاف ہے اور اس کے بارے چھ مذاہب ہیں۔ امام شافعی کا مذہب ہے کہ ولی نکاح کی شرط ہے ۔اس کے بغیر عقد نکاح درست نہیں۔"

اس کے بعد اس کے حق میں قائلین کو بطور استشہاد پیش کرتے ہیں ۔

"وَمِنَ التَّابِعِينَ: الْحَسَنُ، وَابْنُ الْمُسَيَّبِ، وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزَ، وَشُرَيْحٌ، وَالنَّخَعِيُّ۔"9

"تابعین میں سے حسن بصری، ابن المسیب ، عمر بن عبد العزیز ، شریح اور النخعی اس کے قائل ہیں ۔"

دوم : حالت ِ احرام میں نکاح

امام شافعی ؒ کے نزدیک حالت ِ احرام میں نکاح کرنا نا جائز ہے جب کہ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک نکاح کا جواز ہے۔ وطی کا جواز نہیں ۔ امام شافعی کے اجتہاد کی تائید میں تابعین کو پیش کرتے ہوئے العمرانی لکھتے ہیں ۔

ولا يجوز للمحرم أن يتزوج ولا يزوج غيره بالولاية الخاصة، كتزوجه ابنته أو أخته، ولا أن يتوكل للزوج ولا للولي، ولا يزوج المرأة المحرمة. وبه قال من الصحابة: عمر، وعلي، وابن عمر، وزيد بن ثابت. وفي التابعين: سعيد بن المسيب، وسليمان بن يسار، والزهري."10

"محرم کے کے لیے جائز نہیں کہ اپنا نکاح کرے یا کسی اور کا خاص ولی کی حیثیت سے نکاح کرے جیسے اپنی بیٹی کی شادی کرے ، اپنی بہن کا نکاح کرے ۔ نہ یہ جائز کہ زوج کا وکیل بنے یا ولی کا۔ اور نہ احرام والی عورت کا نکاح کر سکتا ۔ صحابہ میں سے عمر ، علی ابن عمر، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کا یہ قول ہے ۔ تابعین میں سے سعید بن المسیب، سلیمان بن یسار، اور زھری کا یہ قول ہے۔"

خلاصہ کلام

کتب متون فقہ،خواہ وہ کسی بھی مذہب سے متعلق ہوں،ان میں اقوال تابعین کرامؒ سے استشہاد کے بکثرت نظائر ملتے ہیں۔اقوال تابعینؒ سے استفادہ کی امثلہ عبادات کے باب تک محدود نہیں،بلکہ عائلی معاملات میں بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔مذکورہ مضمون میں کتب ِ حنفیہ سے عائلی مسائل میں اقوال ِ تابعین سے استشہاد میں جن مسائل کو زیربحث لایا گیا ہے،ان میں حالت ِ حیض میں بیوی سے استمتاع کی حدود ، زنا سے حرمت ِ مصاہرت کے اثبات میں تابعین سے استشہاد اور صابیہ عورت سے نکاح کے جواز کا مسئلہ شامل ہیں۔کتب مالکیہ سے عائلی مسائل میں اقوال ِ تابعین سے استشہاد کے بہت سے نظائرملتے ہیں۔ان میں مجبور اور سکران کی طلاق،عدت میں رغبت نکاح کے اظہار کے جواز و عدم جواز سے متعلق بحث میں استشہاداور شوہر کی وفات کے بعد حرہ ہونے والی لونڈی کی عدت کے مسائل کو شامل کیا گیا ہے۔کتب شافعیہ سے عائلی معاملات میں اقوال ِ تابعین سے استشہاد کے نظائر میں انعقاد نکاح میں ولی کی شرط اورحالت ِ احرام میں نکاح جیسے مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام مذاہب فقہیہ میں تابعین کے اقوال کو استدلال و استنباط کی بنیاد بنانے میں خاص اہمیت حاصل ہے۔

 

 

حواشی و حوالہ جات

1 السرخسی،محمدبن احمدبن ابی سھل(م483ھ)،المبسوط،دارالمعرفہ،بیروت،1414ھ/1993ء،10/159

1-Al-Serkhsy, Muhammad bin Ahmad bin Aby Shl(483h), Al-Mbsūṭ, Dar Ul-M`rfah, Bīrūt, 1414H, 10/159

2 المبسوط، ۱۰/ ۱۶۰

2- Al-Mbsūṭ,10/159

3 ابو حفص، عمر بن إسحق بن أحمد الهندي الغزنوي، سراج الدين، الحنفي (المتوفى: ۷۷۳ھ)، الغرة المنيفة في تحقيق بعض مسائل الإمام أبي حنيفة، مؤسسة الكتب الثقافية، طبع اول، ۱۴۰۶ھ/ ۱۹۸۶ء، ۱۳۸

3-Abū, HfṢ, `Umr bin ʾIshaq bin Ahmad Al-Hindī, Al-Ghznwī, Siraj Al-Dīn, Al-Hnfy,(773h), Al-Ghrah Al-Mnīfah fy Tehqīq B`edh Msāʾl Al-Imām Abī Hn īfah, Mʾssesal Al-kutB Al-Thqāf īah, ṭb`e Awal, 1406H,p138

4 الزيلعي، عثمان بن علي بن محجن البارعي، فخر الدين الحنفي (المتوفى:۷۴۳ھ)، تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشِّلْبِيِّ،الحاشيہ: شهاب الدين أحمد بن محمد بن أحمد بن يونس بن إسماعيل بن يونس الشِّلْبِيُّ (المتوفى:۱۰۲۱ھ)،المطبعة الكبرى الأميرية،بولاق، القاهرة، طبع اول، ۱۳۱۳ھ،۲/۱۱۰

4- Al-Zīl`ey, Usmān bin Alī, Fkhr Al-Dīn Al-Hnfy(743h), Tbyīn Ul-Hqāʾq Shrh knz Ul-Dqāʾq wa Hashyah Al-Shlbī, Al-Hashyah: Shehāb Ul-Dīn Ahmad bin Muhammad Al-Shlbī(1021h), Al-Mṭb`ah Al-Kubrā Al-Amīrīah, Bolaq, Al-Qahira, ṭb`e Awal, 1313H, 2/110

5 مالك بن أنس بن مالك بن عامر الأصبحي المدني (المتوفى:۱۷۹ھ)، المدونة، دار الكتب العلميہ، بیروت، طبع اول، ۱۴۱۵ھ/۱۹۹۴ء، ۲/ ۸۳

5- Malik bin Anas bin Malik bin `Amir Al-AṢbhī Al-Madni(179h), Al-Mudwenah, Dar Ul-Kutub Al-Ilmiah, Bīrūt, ṭb`e Awal, 1415h,2/83

6 خلف بن أبي القاسم محمد، الأزدي القيرواني، أبو سعيد ابن البراذعي المالكي (المتوفى:۳۷۲ھ)، التهذيب في اختصار المدونة،تحقيق: الدكتور محمد الأمين ولد محمد سالم بن الشيخ، دار البحوث للدراسات الإسلامية وإحياء التراث، دبي، طبع اول، ۱۴۲۳ھ/۲۰۰۲ء،ج۲،ص ۴۲۱

6- Khlf bin Aby Al-Qasim Muhammad, Al-Azdy Al-Qīranwi,Abu Sa`eed Al-Malky(372h), Al-Thzīb fy IkhtṢār Al-Mūdewenah, Tehqīq: Dr.Muhammad Amīn wald Muhammad Sālim bin Al-Shīkh, Dar Ul-Bhūth lil-Derasāt Al-Islāmiah Wa Ihyāʾ Al-Turath, Dby, ṭb`e Awal,1423h, 2/241

7 عبد الله بن (أبي زيد) عبد الرحمن النفزي، أبو محمد القيرواني، المالكي (المتوفى: ۳۸۶ھ)، النَّوادر والزِّيادات على مَا في المدَوَّنة من غيرها من الأُمهاتِ،تحقيق: الأستاذ/ محمد عبد العزيز الدباغ،دار الغرب الإسلامي، بيروت، طبع اول، ۱۹۹۹ء، ۵/۴۰

7- Abdullah bin (Aby Zaīd) Abdur Rehman Al-Nfzy, Abū Muhammad Al-Qīrānwi, Al-Mālki(386h), Al-Nwādr wa Al-Zyadāt `ela ma fy Al-Mudwenah mn Ghīrehā mn Al-Ummehāt, Tehqīq: Al-Ustadh/Muhammad `Abd Al-Azīz Al-Debāgh, Dār Al-Ghrb Al-Islamī, Bīrūt, ṭb`e Awal, 1999,5/40

8 الماوردی، أبو الحسن علي بن محمد بن محمد بن حبيب البصري البغدادي، (المتوفى: ۴۵۰ھ)، الحاوي الكبير في فقه مذهب الإمام الشافعي وهو شرح مختصر المزني،تحقیق: الشيخ علي محمد معوض، الشيخ عادل أحمد عبد الموجود،دار الكتب العلميہ، بيروت، طبع اول، ۱۴۱۹ھ/۱۹۹۹ء، ۹/ ۳۸

8-Al-Māwerdy, Abu Al-Hasan `Ali bin Muhammad Al-BṢry Al-Bghdādy(450h), Al-Hāwī Al-Kabīr fy Fiqh Mḍhb Al-Imām Al-Shāf`ey.., Tehqīq:Al-Sheīkh `Aly Muhammad M`ewedh, Al-Sheīk Aādil Ahmad, Dar Ul-kutub Al-Ilmīah, Bīrūt, ṭb`e Awal,1419H, 9/38

9 الحاوي الكبير في فقه مذهب الإمام الشافعي، ۹/ ۳۸

9- Al-Hāwī Al-Kabīr fy Fiqh Mḍhb Al-Imām Al-Shāf`ey,9/38

10 العمرانی، أبو الحسين يحيى بن أبي الخير بن سالم اليمني الشافعي (المتوفى:۵۵۸ھ)، البيان في مذهب الإمام الشافعي، تحقیق: قاسم محمد النوري،دار المنهاج، جدة، طبع اول، ۱۴۲۱ھ/۲۰۰۰ء، ۴/ ۱۶۸

10- Al-`Emrāny, Abu Al-Husain Yehyā bin Aby Al-Khaīr bin Sālim Al-Yamny Al-Shāf`ey(558), Al-Byān fy Mḍhb Al-Imām Al-Shāf`ey, Tehqīq:Qāsim Muhammad Al-Nury, Dār Al-Minhāj, Jeddah, ṭb`e Awal, 1421H,4/168

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...