Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Az̤vā > Volume 37 Issue 58 of Al-Az̤vā

بینک اکاؤنٹس کی فقہی حیثیت اور کٹوتی زکوۃ [ایک تحقیقی جائزہ] |
Al-Az̤vā
Al-Az̤vā

Article Info

تعارف :

زکوۃ ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے جو ہر صاحب استطاعت مسلمان پر ادائیگی زکوۃ کی شرائط کے پورا ہو جانے کے بعد لازم ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں زکوۃ دہندگان اپنی زکوۃ یا تو خود ادا کرتے ہیں یا حکومت اپنے طور پر اُن سے زکوۃ مالیاتی اداروں کے ذریعے وصول کرتی ہے ہیں جس میں کثیر حصہ بینک کاؤنٹس کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے لہذا اس بابت یہ بات تحقیق طلب ہیں کہ زکوۃ کے باب میں بینک کاؤنٹس کی فقہی حیثیت کیا ہو گی ؟ اس مسئلے کی تفہیم کے لیے اوّلاً اموال ِزکوۃ سے متعلقہ بنیادی معلومات و مسائل سے آگہی ضروری ہے۔زکوۃ کی وصولی کے لحاظ سے اموال کی دو قسمیں ہیں

-1 اموالِ ظاہرہ -2 اموالِ باطنہ

اموالِ ظاہرہ: فقہاء کے ہاں اموالِ ظاہرہ سے مراد وہ اموال ہیں جن کو چھپانا ممکن نہ ہو یعنی ایسے اموال جو لوگوں کے سامنے بالکل ظاہر ہوں اورجنہیں چھپایا بھی جائے تو چھپ نہ سکیں جیسے کھیتیاں، مویشی جات اور پھل وغیرہ۔

اموالِ باطنہ: اموالِ باطنہ سے مراد وہ اموال ہیں جن کوچھپانا، ممکن ہو یعنی ایسے اموال جو بالعموم لوگوں کی نظروں سے اوجھل اور مخفی ہوں جیسے نقدین (سونا، چاندی) کاعذی کرنسی اور سامانِ تجارت وغیرہ۔

" والاموال المزکاۃ ضربان: ظاھرہ و باطنہ، فالظاھرۃ: مالا یمکن اخفاء ہ من الزروع والثمار والمواشی، والباطنۃ: ما امکن اخفاء ہ من الذھب والفضۃ وعروض التجارۃ "1

البتہ علامہ کاسانی نے فقہاء سے اموالِ ظاہرہ کی تعریف میں ایک اور چیز کا اضافہ بھی بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اموالِ باطنہ جو تاجر اپنے ساتھ لیکر شہر سے باہر نکلتے ہوئے عاشرپر گذرے،وہ اموال ِ باطنہ اُس وقت اموالِ ظاہرہ میں شمار ہوں گے۔

" فمال الزکاۃ نوعان ظاھر وھو المواشی والمال الذی یمر بہ التاجر علی العاشر "2

اس تمہید کے بعد بینک اکاؤنٹس کی کٹوتی زکوۃ میں فقہی حیثیت سے متعلق بنیادی طور پر درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں۔

  • بینک میں موجود لوگوں کے اکاؤنٹس کا شمار اموال کی کس قبیل سے ہوگا؟

  • بینک میں لوگوں کی رکھی ہوئی رقوم سے زکوۃ نکالنے کاحق حکومت کو حاصل ہے یا صاحبِ مال کو؟

  • کیا بینک اکاؤنٹس قرض کے قبیل سے ہیں ؟

مسئلہ اول :

بینک میں موجود لوگوں کے اکاؤنٹس کا شمار اموال کی کس قبیل سے ہوگا؟

معاصر علماء کے ہاں اس مسئلے کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے کہ بینک اکاؤنٹس کا تعلق اموالِ زکوۃ کی کس قبیل سے گردانا جائے یعنی بینک اکاؤنٹس کا شمار اموال ِظاہرہ میں ہوگا یا اموالِ باطنہ میں۔علماء کے ایک گروہ کی رائے ہے کہ بینک اکاونٹس کی حیثیت اموالِ ظاہرہ کی طرح ہے جبکہ علماء کی دوسری جماعت کی رائے ہے کہ ان اکاونٹس کی حیثیت اموالِ باطنہ کی سی ہے۔

پہلا گروہ :

علماء کی ایک جماعت کے نزدیک بینک میں مسلمانوں کے اثاثہ جات، اموالِ ظاہرہ میں شمار ہوں گے اگرچہ بظاہر وہ اثاثہ جات، اموالِ باطنہ کے قبیل سے ہیں لیکن جب اموالِ باطنہ، ظاہر ہوجائیں تووہ اموالِ ظاہرہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں نیز اس سے مراد یہ بھی ہے کہ جب اموالِ باطنہ حکومت کی زیر حمایت و حفاظت میں آجائیں تو وہ اموال/اثاثہ جات بھی، اموالِ ظاہرہ میں شمار ہوں گے۔یہ رائے مفتی محمد رفیع عثمانی، مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی عبد الرؤف سکھروی وغیرہ کی ہے، اور یہ متفقہ آراء ایک فتوی کے جواب میں فتاوی عثمانی میں مذکورہے۔ان حضرات کا استدلال یہ ہے کہ

" کسی مال کے "اموالِ ظاہرہ" میں ہونے کے لیے دو امور ضروری ہیں ایک یہ کہ اُن اموال کی زکوۃ وصول کرنے کے لیے مالکان کے نجی مقامات کی تفتیش کرنی نہ پڑے۔ دوسرے یہ کہ وہ اموال، حکومت کے زیر حمایت ہوں... بینکوں اور دوسرے مالیاتی اداروں میں رکھوائی ہوئی رقموں میں یہ دونوں امور موجود ہیں لہذا ان کو اموال ِظاہرہ میں شمار کیا جاسکتاہے۔ " 3

نیز یہ رائے فتاوی فریدیہ کے مفتیان کی بھی ہے وہ لکھتے ہیں" بینکوں میں جمع شدہ مال،اموالِ ظاہرہ سے شمار ہوگا۔" 4

دوسرا گروہ:

اس گروہ کے قائلین کا کہنا ہے کہ بینک اکاؤنٹ میں رکھی ہوئی رقوم کا تعلق اموالِ باطنہ سے ہے۔ یہ رائے

مفتی محمود الحسن گنگوہی، مفتی محمود، فتاوی حقانیہ اور خیر الفتاوی کے مفتیان کرام اور مفتی انعام الحق قاسمی کی ہے۔مفتی محمود الحسن گنگوہی فتاوی محمودیہ میں لکھتے ہیں۔

" بینک میں جمع شدہ رقوم،مال ِ باطن کے حکم میں ہیں۔" 5

مفتی محمود کی رائے "فتاوی بینات" میں یوں مرقوم ہے ۔

" زمین کی پیداوار، غلہ، پھل وغیرہ مال مویشی، بکریاں وغیرہ... یہ سب اموالِ ظاہرہ ہیں ایسے اموال پر اسلامی حکومت کو زکوۃ کے وصول کرنے اور اس کے لیے عامل مقرر کرنے کا اختیار ہوتا ہے... (جبکہ) سونا، چاندی، زیوارات، نقدی، کرنسی نوٹ... یہ سب اموالِ باطنہ ہیں ان کی زکوۃ ادا کرنا مالکوں کو سونپا گیا ہے۔ حکومت کو اموالِ باطنہ سے زکوۃ وصول کرنے کا اختیار نہیں۔" 6

خیر الفتاوی میں ہے کہ موجودہ نظام میں بینک اکاؤنٹس کو اموالِ ظاہرہ قرار دیکر حکومت کو جبری زکوۃ کی وصولی کا اختیار دیا گیا ہے حالانکہ یہ اموال باطنہ ہیں۔ 7

نیز فتاوی حقانیہ میں بینکوں میں رکھے ہوئے اموال کو اموالِ باطنہ سے تعبیر کیا گیاہے اور مسئلہ کا عنوان یہ دیا گیا ہے "حکومت کا اموالِ باطنہ سے زکوۃ کاٹنا" اگرچہ اس عنوان کے تحت وہ حکومت کے اموالِ باطنہ سے زکوۃ کاٹنے کے اقدام کوجائز قرار دیتے ہیں مگر ان کے ہاں بھی بینکوں میں رکھے ہوئے اموال کی حیثیت اموالِ باطنہ کے قبیل سے ہی ہے۔8

مفتی انعام الحق قاسمی لکھتے ہیں: صحیح قول کے مطابق بینک میں جمع شدہ رقم اموالِ باطنہ میں سے ہیں"9

دونوں گروہوں کے فقہاء کے استدلال کی بنیاد

مقالہ نگار کی تحقیق کے مطابق تقریباً دونوں گروہوں کے فقہاء کے استدلال کی بنیاد بالاتفاق "خروج من المصر" کا مسئلہ ہے لیکن اختلاف صر ف مسئلے کے انطباق میں ہے۔"خروج من المصر" کا مسئلہ یہ ہے کہ فقہاء کے ہاں اتفاقی طور پر اموالِ ظاہرہ میں اُن اموالِ باطنہ کو بھی شامل کیا گیا ہے جو تاجر کے پاس ہو اور وہ اسے لیکر شہر سے باہر نکلتے ہوئے عاشر پر گزرے اور شہر سے باہر مالِ تجارت ساتھ لے جانے کی بنیاد پر ہی اس مسئلہ کا عنوان "خروج من المصر" ہے۔

بہرحال علامہ کاسانی ؒان اموال کو اموالِ ظاہرہ میں شمار کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام کو مویشیوں کے ٹھکانوں میں زکوۃ کا مطالبہ کرنے کا حق اس لیے حاصل ہے کہ وہ ان کی حفاظت وحمایت کرتا ہے کیونکہ صحراؤں، بیابانوں اور دور افتادہ علاقوں میں سلطان کی حمایت و حفاظت کے بغیر مویشی محفوظ نہیں رہ سکتے اور یہ وجہ اُس مال میں بھی موجود ہے جو تاجر اپنے ساتھ لیکر عاشر پر گزرتا ہے اس کاحکم مویشیوں کی طرح ہے یعنی یہ بھی اموالِ ظاہرہ میں شمار ہوں گے۔

"وکذا المال الباطن اذا مر بہ التاجر علی العاشر کان لہ ان یاخذ فی ا لجملۃ لانہ لما سافر بہ واخرجہ من العمران صار ظاھر والتحق بالسوائم وہذا لان الامام انما کان لہ المطالبۃ بالزکاۃ الموایشی فی اماکنھا المکان الحمایۃ لان المواشی فی البراری لا تصیر محفوظۃ الا بحفظ السلطان وحمایتہ وہذا المعنی موجود فی مال یمر بہ التاجر علی العاشر فکان کالسوائم" 10

پہلے گروہ نے جن دو وجوہات کی بنیاد پر بینک کے اکاونٹس میں رکھے ہوئے اموالِ زکوۃ کو اموالِ ظاہرہ میں شمار کیا ہے ان میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو اموال حکومت کی زیر حمایت و حفاظت میں ہوں تو وہ اموال، بھی اموالِ ظاہرہ میں شمار ہوتے ہیں اگرچہ پہلے گروہ نے اپنی تحریر میں ایک مقام پر "خروج من المصر" کے مسئلہ کو علت کی بجائے حکمت قرار دیا ہے۔11

لیکن حقیقت یہی ہے کہ اُن کے استدلال میں ایک وجہ یہ بھی شامل ہے جس کا واضح ثبوت اُن کے استدلال پر مبنی اقتباس سے عیاں ہے جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ اموالِ تجارت (جو اموالِ باطنہ کا حصہ ہیں) اُس وقت اموالِ ظاہر ہ میں شمار ہوتے ہیں جب "خروج من المصر" ہو یعنی اموال کا شہر سے باہر لیکر لیجانا مقصود ہوتب وہ، اموال ِ ظاہرہ میں شمار ہونگے لیکن جب وہ مال شہر میں ہی رہے تو علامہ کاسانی نے اُن اموال کو اموالِ باطنہ کی تعریف میں شمار کیا ہے۔

"واما المال الباطن الذی یکون فی المصر" 12

قابلِ ترجیح رائے:

مقالہ نگارکی تحقیق کے مطابق بینک کے اکاؤنٹس میں رکھی گئی رقوم و اموال کو اموالِ باطنہ کے قبیل سے گرداننا اقرب الی الصواب ہے۔کیوں کہ جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ یہ اکاؤنٹس اموالِ باطنہ میں شمار ہوں گے، اس ضمن میں اگرچہ بعض علماء نے حکومت کے اس اقدام کو صحیح قرار دیا ہے کہ وہ لوگوں کے اکاؤنٹس سے زکوۃ کاٹ سکتے ہیں لیکن انہوں نے بھی اس موقف کی تائید کی ہے کہ یہ اکاؤنٹس بہرحال اموال ِباطنہ ہی کے قبیل سے ہیں۔

مسئلہ دوم:

بینک میں لوگوں کی رکھی ہوئی رقوم سے زکوۃ نکالنے کا حق حکومت کو ہے یا صاحب مال کو؟

اس مسئلے کی تمہید مسئلہ اولیٰ ہے یعنی بینک میں رکھی ہوئی رقوم کا تعلق اموال کی کس قسم/ قبیل سے ہے۔ تو سابقہ تحریرات میں دو آراء اس حوالے سے ملتی ہیں۔ پہلی رائے کہ بینک میں رکھی ہوئی رقوم اموالِ ظاہرہ کے قبیل سے ہیں اور دوسری رائے کہ ِان اموال کا تعلق اموالِ باطنہ سے ہے۔

اب مسئلہ دوم کی طرف آتے ہیں کہ بینک میں رکھی ہوئی رقوم (چاہے وہ اموالِ باطنہ ہو یا اموالِ ظاہرہ)سے زکوۃ نکالنے کا حق کس کے پاس ہے، کتب فقہ میں اس مسئلہ کی نظیر اس عنوان سے ملتی ہے کہ امام یعنی حاکم کو اموالِ زکوۃ میں سے کن اموال کی زکوۃ لینے کا حق حاصل ہے۔اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف مقول ہےجو حسبِ ذیل ہے۔

مالکیہ اور شافعیہ فرماتے ہیں کہ اموال ِ ظاہرہ کی زکوۃ کی وصولی کا حق حکومت کو ہے لیکن اموالِ باطنہ کی زکوۃ ان کے ما لکان کے سپرد ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مال والے کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ خود فقراء اور تمام مستحقین تک زکوۃ پہنچائے۔

"وقال المالکیۃ والشافعیۃ: زکاۃ الاموال الباطنۃ مفوضۃ لاربابھا فلرب المال ان یوصلھا الی الفقراء وسائر المستحقین بنفسہ" 13

ڈاکٹر محمود احمد غازی نے بھی اپنی کتاب " محاضرات معیشت و تجارت " میں اسی رائے کو پسند فرمایا ہے ، لکھتے ہیں:

"حضرت عثمان غنیؓ کے زمانے سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ اموالِ ظاہرہ کی زکوٰۃ ریاست وصول کرتی تھی اور اموالِ باطنہ کی زکوٰۃ افراد خود دیا کرتے تھے۔ سیدنا عثمان غنیؓ کو اللہ تعالیٰ نے بہت غیر معمولی بصیرت عطا فرمائی تھی۔ انہوں نے بہت سے معاملات میں ایسے فیصلے کیے جن کے بہت دور رس اثرات ظاہر ہوئے اور اگر وہ یہ فیصلے نہ فرماتے تو آج بہت سے مسائل کھڑے ہو گئے ہوتے۔ چنانچہ اموالِ ظاہرہ اور اموالِ باطنہ کی تقسیم بھی ان اہم معاملات میں سے ایک ہے۔ سیدنا عثمان غنیؓ نے یہ محسوس فرمایا کہ ہو سکتا ہے آئندہ چل کر کچھ لوگ اپنے اموالِ باطنہ کی زکوٰۃ دینے میں تامل کریں۔ محصلِ زکوٰۃ اصرار کرے کہ ان کے پاس مال ہے، وہ اصرار کریں کہ ان کے پاس مال نہیں ہے اور نوبت تلاشی اور گرفتاری تک پہنچے تو یہ سرکاری کارندوں کو ایک ایسا ہتھیار دینے کے مترادف ہو گا جس سے کام لے کر سرکاری کارندے ہر شخص کی شخصی زندگی میں بے جا مداخلت کر سکتے ہیں۔ یوں تجسس کا ایک ایسا مکروہ عمل عام ہو جائے گا جس کے نتیجے میں بہت سی قباحتیں پیدا ہوں گی۔ شریعت نے تجسس سے منع کیا ہے۔ عامۃ الناس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ اس لیے یہ توقع کرنی چاہیے کہ عامۃ الناس اپنے اموالِ باطنہ کی زکوٰۃ خود ادا کر دیں گے اور اموالِ ظاہرہ کی زکوٰۃ ریاست وصول کرے گی۔"14

حنابلہ کا کہنا ہے کہ اموال ِظاہرہ اور اموالِ باطنہ میں یکساں طور پر زکوۃ امام کو دینا واجب نہیں ہے اس لیے کہ زکوۃ میں حق کو مستحق تک پہنچانا مقصود ہوتا ہے لہٰذا جس کا تصرف جائز ہے اُس کے لئے زکوۃ مستحق کو دینا بھی کافی ہوگا جیسا کہ مدیون اپنے قرض خواہ کو قرض براہ راست دے دے نیز امام کا زکوۃ لینامستحق کے نائب ہونے کی حیثیت سے ہے پس اگر صاحبِ نصاب خود مستحق کوزکوۃ دے دے تو یہ بھی جائز ہے اس لیے کہ مستحقین اہل شعور میں سے ہیں لہٰذا جب اموالِ باطنہ کی زکوۃ مالک خود مستحقین کو دے سکتا ہے تو اموالِ ظاہرہ کی زکوۃ بھی امام کو دینا واجب نہیں ہے کیونکہ اموالِ ظاہرہ بھی اموالِ باطنہ کی طرح زکوۃ کی نوع ہے تو ایک نوع کا حکم دوسری نوع کے مشابہ ہوگا۔

"ولنا علی جواز دفعھا بنفسہ انہ دفع الحق الی مستحقہ الجائز تصرفہ فاجزاہ کما لو دفع الدین الی غریمۃ وکزکاۃ الاموال الباطنۃ ولانہ نوعی الزکاۃ فاشبہ النوع الاخر" 15

امام شافعی کا قول جدید بھی یہی ہے کہ اموالِ باطنہ کی طرح اموالِ ظاہرہ میں بھی مالکان کو اختیار ہے کہ وہ اما م کو زکوۃ کی ادئیگی کرئے یا خود فقراء میں اپنے اموال ِظاہرہ کی زکوۃ بھی تقسیم کریں۔

"واما الظاھرۃ ففیھا قولان: احدھما قالہ فی القدیم ان علی اربابھا دفع زکاتھا الی الامام... والقول الثانی: وھو قولہ فی الجدید ان اربابھا بالخیار فی دفعھا الی الامام او تفریقھا بانفسھم"16

احناف کے نزدیک اموالِ ظاہرہ کی زکوۃ امام کو دینا واجب ہے اور اموالِ باطنہ کے بارے میں امام کو زکوۃ طلب کرنے کا اختیار حاصل ہے اور ہر اس مال میں زکوۃ لینے کا حق حاصل ہے جس میں زکوۃ واجب ہوتی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں زکوۃ کی وصولی کا اختیار امام کو دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(خُذْ مِنْ اَمْوَالِھمْ صَدَقَۃً) 17

"اے نبی ﷺ آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لیجئے"

نیز اس رائے کی توثیق اس بات سے بھی ملتی ہے کہ حضرت عثمان غنی ﷛ کے دورخلافت سے قبل امام المسلمین دونوں اموال سے زکوۃ وصول کیا کرتا تھا لیکن حضرت عثمان ؓکے دور میں اموالِ باطنہ کی زکوۃ کو پھر زکوۃ دہند گان کے سپرد کردیا گیا تو مالکان کا اموالِ باطنہ میں زکوۃ نکالنے کاحق امام کے نائب ہونے کی حیثیت سے ہوا جس سے یہ بات مسستلزم نہیں کہ ا مام کا اموالِ باطنہ سے زکوۃطلب کرنے کا اختیار بالکلیہ ساقط گیا ہے۔

"وقولہ (لان لہ مطالبا وھو الامام فی السوائم ونائبہ فی اموال التجارۃ فان الملاک نوابہ) دلیلنا، وھذا لان ظاھر قولہ تعالٰی (خُذْ مِنْ اَمْوَالِھمْ صَدَقَۃٌ) ثبت للامام حق الاخذ من کل مال، وکذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والخلیفتان بعدہ کانوا یاخذون الی ان فوض عثمان رضی اللہ عنہ فی خلافتہ اداء الزکاۃ عن الاموال الباطنۃ الی ملاکھا"18

"وھو اما الامام فی الاموال الظاھرۃ ای السوائم او الملاک فی الاموال الباطنۃ فان الملاک نوابہ لان حق الاخذ کان للامام فی الاموال الظاھرۃ والباطنۃ الی زمن عثمان رضی اللہ عنہ فوض الاموال الی اربابھا"19

قابلِ ترجیح رائے:

مقالہ نگار کی تحقیق کے مطابق احناف کی رائے کو درج ذیل بنیادوں پر فوقیت حاصل ہے۔

۱۔ احناف کے مؤقف کی تائید قرآن کریم کی مندرج آیت [توبہ: ۱۰۳]سے ہوتی ہے جس پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ ابن ہمام ؒلکھتے ہیں کہ آیت قرآنی (خُذْ مِنْ اَمْوَالِھمْ صَدَقَۃٌ) 20 کے ظاہری الفاظ سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ امام کو مطلقًا ہر قسم کے اموال سے زکوۃ وصول کرنے کا حق ہے اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہے کہ آپ ﷺاور حضرات شیخین (حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ) نے لوگوں کے ہر قسم کے اموال سے زکوۃ وصول فرمائی۔

"ظاھر قولہ تعالی(خُذْ مِنْ اَمْوَالِھمْ صَدَقَۃٌ) توجب حق اخذ الزکاۃ مطلقا للامام وعلی ہذا کان رسول اللہ والخلیفتان بعدہ"21

علامہ زمخشریؒ اس آیت ِ مبارکہ کے ضمن میں امام شافعی ؒ سے یہ نقل کرتے ہیں کہ امام شافعیؒ نے اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ آیتِ مبارکہ کے اگلے جزء"وصل علیہم" کی رُو سے امام یا والی کے ذمے صدقہ وصول کرتے وقت دعا دینا پسندیدہ عمل ہے اور ساتھ ہی وہ دعا بھی بیان فرمائی:

"اجزک اللہ فیما اعطیت وجعلہ طھورا وبارک لک فیما ابقیت"22

(یعنی اللہ تعالیٰ تجھے اجر دے جو تونے اللہ کی راہ میں دیا اور اس کو پاک صاف بنادے اور تیرے لیے بقیہ مال میں اللہ تعالی برکت دے۔)

یعنی امام شافعی ؒکے نزدیک بھی بہتر یہی ہے کہ امام کو زکوۃ ادا کی جائے، اس کی تائید موسوعہ فقہیہ کی اس عبارت سے بھی ہوسکتی ہے کہ جس میں امام شافعیؒ کے نزدیک قول اظہر کی رُو سے امام کو زکوۃ دینا مالک کا خود سے زکوۃتقسیم کرنے سے افضل ہے اور وجہ یہ ہے کہ امام،مستحقین کو مالک کی بہ نسبت زیادہ جاننے والا ہے اور ان کے درمیان تقسیم کرنے پر زیادہ قادر ہے۔

"قال الشافعیۃ فی الاظھر: الصرف الی الامام من تفریقھا بنفسہ، لانہ اعرف المستحقین واقدر علی التفریق بینھم" 23

۲۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مصارفِ زکوۃ کے تیسرے مصرف میں "العاملین" کاذکر کیا ہے، جس کی رُو سے امام اور امام کے نائبین کے ذمے زکوۃ کی وصولی بیان کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام اور امام کے نائبین کو ہر قسم کے اموال سے زکوۃ کی وصولی کا حق حاصل ہے نیز امام رازی نے امام اور عاملین کے وصولیِ زکوۃ کے حق کو اسی آیتِ مبارکہ سے مؤکد کیا ہے کہ (خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃٌ) کی آیتِ مبارکہ سے عامل اور امام کے لیے زکوۃ کو وصول کرنا بھی ثابت ہے۔

"والعامل ھو الذی نصبہ الامام لاخذ الزکاۃ فدل بھذا النص علی ان الامام ھو الذی یاخذ ہذہ الزکات و تاکد ہذا النص بقولہ تعالی(خُذْ مِنْ اَمْوَالِھمْ صَدَقَۃٌ)"24

اگرچہ امام رازی ؒ نے اسی مقام پر مالک کے لیے انفرادی طور پر زکوۃ کی تقسیم کو جائز قرار دیتے ہوئے ایک دلیل بھی پیش فرمائی کہ اللہ تعالی کا ارشاد (وَالَّذِیْنَ فِیْ اَمْوَالِھمْ حَقٌّ لِّلسَّائلِ وَ الْمَحْرُوْمِ) 25 کی رُو سے اموالِ باطنہ کی زکوۃ مالک خود بھی ادا کرسکتا ہے۔

راقم کے نزدیک اس دلیل کا جواب یہ دیاجا سکتا ہے کہ اس آیت (وَالَّذِیْنَ فِیْ اَمْوَالِھمْ حَقٌّ لِّلسَّائلِ وَ الْمَحْرُوْمِ) سے اغنیاء کے مال میں فقراء و مساکین کے حق کا اثبات اور زکوۃ کی ادائیگی کی ترغیب ہے نیز دوسرا جواب اس کا یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ اس آیت سے صدقات نافلہ کی ادائیگی مراد ہے اور صدقاتِ نافلہ کے باب میں مالک کا بذات خودمستحقین کو صدقات تقسیم کرنا، اس مسئلے میں تو کسی کا کوئی اختلاف بھی منقول نہیں ہے.

۳۔ احناف کی رائے کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان سے بھی ملتی ہے جس میں آپ نے حضرت معاذ ؓ کو ہدایات دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ زکوۃ قوم کے اغنیاء سے لیکر قوم کے فقراء میں تقسیم کرنا لہذا معلوم ہوا کہ امام کو ہر قسم کی زکوۃ وصول کرنے کا حق حاصل ہے۔

(توخذ من اغنیائھم وترد علی فقرائھم) 26

۴۔ صحابہ کرام میں بالخصوص شیخین سے عملًا بھی یہی بات ثابت ہے کہ انہوں نے اموالِ ظاہرہ اور اموالِ باطنہ دونوں کی زکوۃ وصول فرمائی۔ مثلا حضرت ابوبکر صدیق ؓکے بارے میں مؤطا امام مالک میں رقم ہے کہ جب لوگوں کے اموال پر سال گزر جاتا تو آپ ؓ لوگوں کوبیت المال سے تنخواہ یا وظائف تقسیم کرتے وقت ہر شخص سے پوچھتے کہ کیا تمہارے پاس کوئی ایسا مال ہے جس پر زکوۃ واجب ہو اور اگر کوئی اثبات میں جواب دیتا تو آپ ؓ اس کی تنخواہ یا وظیفہ سے اُس مال کی زکوۃلے لیتے اور اگر وہ نفی میں جواب دیتا تو آپ ُؓ اُسے پوری تنخواہ دے دیتے اور اس سے کچھ نہ لیتے۔

"فقال القاسم: ان ابا بکر الصدیق لم یکن یاخذ من مال زکاۃ حتی یحول علہ الحول۔ قال القاسم بن محمد:و کان ابو بکر اذا اعطی الناس اعطیاتہم۔ یسال الرجل، ہل عندک من مال وجبت علیک فیہ الزکاۃ؟ فان قال: نعم. اخذ من عطاۂ زکاۃ ذلک المال۔ وان قال: لا، اسلم الیہ عطاء ہ، ولم یاخذ منہ شیئا" 27

حضرت عمر فاروق ؓ کا معمول بھی یہی تھا کہ جب سالانہ تنخواہوں کی تقسیم کا وقت آتا تو حضرت عمرؓ تمام اموالِ تجارت کو جمع فرما کر ان کے نقد اور ادھار کا حساب کرتے اور پھر موجود دونوں طرح کے اموال سے زکوۃ وصول فرماتے تھے۔

"جمع عمر اموال التجارۃ فحسب عاجلھا واجلھا، ثم یاخذ الزکاۃ من الشاہد والغائب"28

حاصل بحث یہ ہے کہ بینک اور ڈاک خانے کے سیونگ اکاؤنٹس میں موجود لوگوں کے اموال،اموالِ باطنہ کے قبیل سے ہیں مگر حکومت یا امام کو اموالِ ظاہرہ کی طرح اموالِ باطنہ سے بھی زکوۃ وصول کرنے کا حق حاصل ہے.

مسئلہ سوم:

کیا بینک اکاؤنٹس قرض کے قبیل سے ہیں ؟

بینک سے زکوۃ کی کٹوتی پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص اپنی رقم بینک میں جمع کرواتا ہے تو قانونی لحاظ سے وہ رقم بینک کے ذمہ قرض ہو تی ہے۔ لہذاجب قرض خواہ کی رقم مقروض کے پاس ہو تو قرض خواہ پر زکوۃ اس وقت لازم ہو تی ہے جب وہ مقروض سے اپنا قرض حاصل کرلے اور اسی طرح قرض خواہ کے ذمے زکوۃ کی ادئیگی لازم ہو تی ہے نہ کہ مقروض، قرض خواہ کی جانب سے زکوۃ ادا کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔

ان اعتراضات کے جوابات درج ذیل نکات کی تفہیم پر منحصرہیں۔

(i)فقہی اعتبار سے بینک اکاؤنٹ کی حیثیت کیا ہے؟

(ii)اگر بینک اکاؤنٹ کی حیثیت قرض کی سی ہے تو کیا قرض کے ملنے سے قبل حکومت کا اپنے پاس رکھے ہوئے قرض سے زکوۃ کاٹنا صحیح ہے حالانکہ قرض خواہ پر قرض کی زکوۃ قرض ملنے کے بعد لازم ہو تی ہے۔

پہلا نکتہ: [فقہی اعتبار سے بینک اکاؤنٹ کی حیثیت ]

فقہی اعتبار سے بینک اکاؤنٹ کی حیثیت دو طرح سے ہو سکتی ہے ۔

  • حکومت کے پاس یہ لوگوں کی امانتیں ہیں۔

  • حکومت پر لوگوں کے قرض ہیں۔

    بینک اکاؤنٹ کی پہلی ممکنہ حیثیت کہ یہ امانت کے قبیل سے ہے، یہ اس لیے ممکن نہیں ہے کیوں کہ بینک اکاؤنٹ قابلِ مضمون ہوتے ہیں اور امانت کے بارے میں شرعی حکم ہے کہ امانت مضمون نہیں ہوتی ہے بشرطیکہ امین کی طرف سے سستی، کاہلی اور ظلم کا عنصر شامل نہ ہو۔

    علامہ سرخسیؒ مودع پر ضمان نہ ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں:

    "فان وضعھا فی بیتہ او صندوقہ فھلکت لم یضمنہ لحدیث عمر وبن شعیب عن ابیہ عن جدہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من اودع ودیعۃ فھلکت فلا ضمان علیہ"29

    (پس اگر امین نے امانت کو اپنے گھر یا صندوق میں سنبھال کر رکھا لیکن وہ پھر بھی ضائع ہو گئی تو اس صورت میں امین پر اس امانت کی ضمان نہیں ہے۔اور اس مسئلے کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ِمبارکہ سے بھی ہے جو حضرت عمر و بن شعیب﷛ سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "جس شخص نے ودیعت رکھی اور وہ (باوجود حفاظت کے)ہلاک ہو جائے تو اس ودیعت رکھنے والے شخص پر کوئی ضمان نہیں ہے۔)

    نیز اسی مقام پر علامہ سرخسی امین پر ضمان نہ ہو نے کی وجہ بھی بیان فرماتے ہیں کہ امین کا امانت کی حفاظت کرنا ثواب کے پیش نظر تھا اور قانون ہے کہ مستحب کام میں ثواب کی نیت سے کام کرنے والے پر مالک کیلئے ضمان نہیں ہوتاہے۔

    "والمعنی فیہ ان المودع متبرع فی حفظھا لصاحبھا والتبرع لا یوجب ضمانا علی المتبرع للمتبرع علیہ"30

    اور اگر امانت ہلاک ہو جائے بشرطیکہ امین نے حفاظت میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہو تو وہ اس امانت کا ضامن بھی نہیں ہوتا ہے۔

    "سقوط الضمان اذا تلفت الامانۃ دون تعد او تفریط"31

    (امین سے ضمان اس وقت ساقط ہو تا ہے جب امانت کے ضیاع میں اس کی طرف سے تعدی اور تفریط نہ پائی جائے) حاصل کلام: درج ذیل نکات پر مشتمل ہے ۔

    (۱)امانت رکھنا ایک عقد تبرع ہے اور یہ ثواب کی نیت سے کیا جا تا ہے۔

    (۲)اگر امین سے امانت ضائع ہو جائے تو اس پر شرعی لحاظ سے کو ئی قدغن یعنی ضمان نہیں ہے بشرطیکہ وہ امانت کی حفاظت میں کوتاہی نہ برتے۔

    ان عبارات سے اخذ شدہ مفاہیم کو بینک اکاوئنٹ کی حیثیت پر عملاً نافذ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ بینک یہ معاملہ عقد تبرع کے طور پر نہیں کرتا ہے، اور نہ ہی وہ یہ معاملہ ثو اب کے پیش نظر کرتا ہے اور اسی طرح بینک سے اگر لوگوں کی رقوم ضائع ہو جائیں تو وہ بینک پرمضمون ہو تی ہیں۔مثلاMCBکے بک مینویل میں ہے کہ بینک ہر قسم کے نقصانات کا ذمہ دار ہو گا یعنی دھوکہ دہی وغیرہ۔

    "Acquiring bank however, will be liable for the losses sustained by the issuing Bank for any fraudulent" 32

    جبکہ کئی بینک تو تقریباً ہر قسم کے نقصان کا ذمہ دار ہونے کو تیار ہیں مثلا سلک بینک اپنے اکاؤنٹ ہولڈر کو لا محدود سیکورٹی اور تحفظ کی پیشکش کرتے ہوئے درج ذیل مدات میں بھی نقصان کی تلافی کی پیشکش دیتا ہے۔

    ۱۔ اپنے بینک میں ATMاستعمال کرتے ہوئے کوئی شخص آپ سے آپ کے روپے چرالے یا چھین کر لے جائے اور اسی طرح بینک کاؤنٹر پر روپے وصول کرنے کے بعد یہی معاملہ ہو جائے تو اس کیلئے بھی یہی آفر ہے۔

    ۲۔ بینک کی حدود میں موبائل کا چھن جانا وغیرہ۔

    "Silk bank in one account provides you with the ultimate security and protection. As a Silk bank all-in-one account holder, you will be provided with a host of free protection and transactional benefits. The various protection benefits offered include the followings: - ATM & over-the-counter cash snatching.; Mobile snatching."33

    لہذا یہ بات واضح ہوگئی کہ بینک میں رکھی ہوئی رقوم امانت میں شمار نہیں ہوتی ہیں تو لا محالہ بینک میں رکھی ہوئی رقوم قرض شمار ہونگی کیونکہ مندرجہ بالا MCBکے مینویل سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بینک اکاؤنٹ ہولڈر کے مال کا ضامن ہوتا ہے، لیکن اگر بینک کے اکاؤنٹ کو قرض کے قبیل سے بھی گردانا جائے تو اِس حیثیت سے بھی اس پر کافی اشکالات پیدا ہوتے ہیں جو حسب ذیل ہیں:

    • بینک اکاؤنٹ میں رکھی ہوئی رقوم میں مالک کا تصرف بدستور ہر وقت باقی رہتا ہے بالخصوص ATMکی سہولت اور دیگر واجبات کی ادائیگی کیلئے Debt Cardکی سہولت سے بینک اکاؤنٹ کی حیثیت قرض کے قبیل سے ہونا صحیح معلوم نہیں ہوتا ہے۔

    • اکاؤنٹ ہولڈر اپنی خوشی کے ساتھ اپنا روپیہ بینک کے حوالے کرتا ہے حالانکہ قرض خواہ، مقروض کو اکثر خوشی سے رقم نہیں دیتا ہے۔

    • بینک اکاؤنٹ میں بالخصوص کرنٹ اکاؤنٹ ہولڈر اپنی مرضی سے جب چاہے اپنا مال واپس لے سکتا ہے اگرچہ سیونگ اکاؤنٹس اور فکسڈ ڈیپازٹ اکاؤنٹس میں اختیار بمطابق اکاؤنٹ شرح مشروط ہو تا ہے۔بہرحال اکاؤنٹس کے اختتام کا اختیارتو بہر صورت اکاؤنٹس کے حامل شخص کے پاس ہی رہتا ہے لہذا دیگر مقروض لوگوں سے قرض لینے کی بہ نسبت اپنا مال بینک سے واپس لینا زیادہ آسان ہوتا ہے البتہ بینک اکاؤنٹس کے اختتام کی صورت میں صرف بینک نفع کا تناسب کم یا بہت ہی کم دیتا ہے اور باقی پورا مال مالک کو واپس کر دیا جاتا ہے اگرچہ بڑی رقوم کی واپسی میں بینک کچھ مہلت کے بعد رقم واپس کرتا ہے ۔اس لیے بینک اکاؤنٹ کی حیثیت کو بالعموم قرض میں شمار کرنا درست نہیں ہے۔

    مفتی محمد تقی عثمانی بینک اکاؤنٹ کی حیثیت سے متعلق لکھتے ہیں۔

    "اس میں شک نہیں کہ فقہی اعتبار سے بینک اکاؤنٹ قرض ہے لیکن دائن کے تصرف کے لحاظ سے یہ ایک بالکل نئی قسم کا قرض ہے جو فقہائے کرام کے عہد میں موجود نہیں تھا اور جس کی نظیریں بھی اس دور میں کم ملتی ہیں" 34

    خلاصہ یہ ہے کہ راقم کے نزدیک بینک اکاؤنٹ کی حیثیت حکمًاقرض کی سی ہے لیکن صورتاً قرض کی ایک نئی قسم ہے یا صورتاً قرض بھی نہیں ہے کیوں کہ چند اکاؤنٹ میں بینک رکھی ہوئی رقوم کے ساتھ اضافی رقم بھی دیتاہے یعنی رکھی ہوئی رقم پر طے شدہ اضافہ۔ اگرچہ یہ ایک الگ بحث ہے کہ فقہاء کرام کے ہاں اس اضافے کی حیثیت کیا ہے لیکن اتفاقی رائے یہی ہے کہ اضافہ مال حرام کے قبیل سے ہے جس کا تصدق ملنے پر لازم ہے۔

    دوسرا نکتہ :۔ اگر بینک اکاؤنٹ کی حیثیت حکما دین (قرض)کی سی ہے تو کیا قرضوں کے ملنے سے قبل مقروض یعنی حکومت کا اپنے پاس رکھی ہوئی رقوم سے قرض خواہ کی زکوۃ کاٹنا صحیح ہے؟

    اس مسئلے کی تفہیم کیلئے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کونسا قرضہ شریعتِ اسلامیہ میں زکوۃ دینے کے لیے مانع بنتا ہے اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

    فقہاء کے ہاں ایسا دین جس کے ملنے کی امید ہو۔ وہ تین طرح کے ہیں۔

    دین قوی:وہ قرض جو کسی پر قرض یامال تجارت کے بدلہ میں واجب ہو۔

    دین متوسط:ایسا قرض جو مال تجارت یا قرض کے علاوہ کا بدل ہو جیسے رہائشی مکانات اور استعمالی کپڑوں کی قیمت۔

    دین ضعیف:وہ دین جو کسی مال کا بدل نہ ہو جیسے بیوی کا حق مہر۔

    "الدین علی ثلاثہ اقسام قوی وھو بدل القرض ومال التجارۃ ومتوسط وھو بدل ما لیس للتجارۃ کمن ثیاب البذلۃ ودار السکنی وضعیف وھو بدل ما لیس بمال کالمھر والوصیۃ" 35

    دیون کی ان تینوں اقسام کی وضا حت سے بینک اکاؤنٹ کی زیادہ سے زیادہ حیثیت دین قوی کے قبیل سے ہوگی کیونکہ یہ بینک پر واجب ہوتاہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا دینِ قوی قرض خواہ کیلئے زکوۃ کی ادئیگی میں مانع ہے یا نہیں؟ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی رقم طراز ہیں:

    "دین (قوی)کے وصول ہونے کے بعد صاحب مال پر اس پوری مدت کی زکوۃ واجب ہوگی جس (مدت)میں وہ رقم مدیون کے پاس تھی فرق صرف اتنا ہے کہ دین ِقوی میں نصاب زکوۃ کا پانچواں حصہ وصول ہونے کے بعد ہی، اُتنی مقدار کی زکوۃ ادا کر دینی ہو گی"36

    اس تفصیل کے بعد اکاؤنٹ کے بارے میں درج ذیل شرعی راہ نمائی ملتی ہے۔

    • بینک اکاؤنٹ زیادہ سے زیادہ دینِ قوی سے تعلق رکھتا ہے۔

    • دین قوی میں زکوۃ قرض خواہ پراس وقت لازم ہوتی ہے جب اسے قرض مل جائے یا کم از کم قرضے کا پانچواں حصہ وصول ہو جائے تو اتنی ہی مقدار میں وہ زکوۃ ادا کرے گا۔

    اس مسئلے کے حکم کو اگر بینک اکاؤنٹ پر منطبق کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ اکاؤنٹ ہولڈر کو شروع دن سے حکومت کو دئیے ہوئے قرضے پر مکمل تصرف حاصل ہوتا ہے، اور پانچواں حصہ تو بہت دور کی بات وہ بعض اکاؤنٹس میں تو مکمل رقم نکلوانے کا بھی مجاز ہے اس لیے بینک اکاؤنٹ کا حکم دین قوی میں شمار نہ ہوگا۔

    نتائج تحقیق

    • بینک اور ڈاک خانے کے سیونگ اکاؤنٹس میں موجود لوگوں کے اموال،اموالِ باطنہ کے قبیل سے ہیں مگر حکومت یا امام کو اموالِ ظاہرہ کی طرح اموالِ باطنہ سے بھی زکوۃ وصول کرنے کا حق حاصل ہے۔

    • جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ یہ اکاؤنٹس اموالِ باطنہ میں شمار ہوں گے، اس ضمن میں اگرچہ بعض علماء نے حکومت کے اس اقدام کو صحیح قرار دیا ہے کہ وہ لوگوں کے اکاؤنٹس سے زکوۃ کاٹ سکتے ہیں لیکن انہوں نے بھی اس موقف کی تائید کی ہے کہ یہ اکاؤنٹس بہرحال اموال ِباطنہ ہی کے قبیل سے ہیں۔ نیز بینک کے اموال بالعموم جس بنیاد پر اموالِ ظاہرہ میں شمار کیے جاتے ہیں وہ"خروج من المصر"کی علت ہے چونکہ زمانہ قدیم میں شہر کے ناکوں پر تاجر اس لیے بٹھائے جاتے تھے کہ جو تاجر اپنے ساتھ مال لے کر گزرے اُس سے اموالِ باطنہ کی بھی زکوۃ لے لی جائے جیسا کہ ما قبل تعریفات(اموالِ ظاہرہ و اموالِ باطنہ)کے ضمن میں گزر چکا ہے۔ لہٰذابینک میں رکھے ہوئے اموال میں "خروج من المصر"کی علت نہیں پائی جاتی ہے اس لیے کہ وہ مال شہر کے اندر ہی ہے۔ مزید برآں فقہاء کے ہاں اموالِ باطنہ کی تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ وہ مال جسے لوگوں سے چھپا یا جاسکے لہٰذا چھپایا جانے والا مال گھر میں ہو یا بینک میں، اموالِ باطنہ میں ہی شمار ہوگا کیونکہ اربابِ اموال گھر کی طرح بینک میں پڑے ہوئے مال کے بارے میں بھی کسی کو بتانا پسند نہیں کرتے ہیں یعنی اس معاملہ کوحتی الوسع مخفی رکھے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    اعتراض: اس ترجیحی وجہ پریہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ بینک میں رکھا ہوا مال اگرچہ لوگوں سے تو مخفی ہوتا ہے مگر بینک اکاؤنٹس کی شکل میں حکومت سے اس کا اخفاء ممکن نہیں ہے۔

    جواب: یہ اعتراض بالکل بجا ہے لیکن اگر اموالِ باطنہ کی تعریف کی طرف دوبارہ رجوع کیا جائے تو اس اعتراض کا جواب اُسی میں ہی موجودہے وہ ایسے کہ ا موالِ باطنہ سے مراد وہ اموال ہیں جو چھپائے جا سکیں یعنی وہ مال جسے لوگوں سے چھپانے کی حتی الوسع کو شش کی جائے لیکن اگر وہ مال بینک میں اکاؤنٹس کی صورت میں حکومت کے سامنے ظاہر ہو جا ئے یا لوگوں کے سامنے خریدو فروخت کی صورت میں یا بالخصوص خوشی کے مواقع پر ظاہر ہو جائے تو ان صورتوں میں اموالِ باطنہ کا اظہار اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ اب وہ اموالِ ظاہر ہ بن چکے ہیں۔یاد رہے کہ مقالہ نگارکا دونوں آراء میں سے کسی ایک رائے کو ترجیح دینا نفی کی بنیاد پر نہیں بلکہ دونوں صحیح آراء میں اقرب الی الصواب کی بنیاد پر ہے۔

    • بینک اکاؤنٹ اگرچہ صورتاً قرض ہے لیکن ایسا قرض نہیں ہے جو زکوۃ کیلئے مانع ہوکیونکہ زکوۃ کے لیے جو قرض مانع ہوتا ہے، اُس سے مراد وہ قرض ہے جس میں تصرف کا اختیار نہ ہو اس لیے جب ایسا قرض مل جائے تو پھر زکوۃ لازم ہوتی ہے جبکہ بینک اکاؤنٹ میں بالعموم ایسی کوئی بات نہیں ہے لہٰذا بینک اکاؤنٹ میں رکھی ہوئی رقم پر زکوۃ لازم ہو گی بشرطیکہ وہ رقم بقدر نصاب ہو۔

     

     

     

     

    حواشی و حوالہ جات

    1 لماوردی، علی محمد بن حبیب ، الاحکام السلطانیۃ للماوردی، دار ابن قتیبہ، الکویت ، ۱۴۰۹ھ، ج ۱، ص ۱۴۵

    Al-Māwardī,Alī ibn Muḥammad ibn Ḥabīb,Al-Aḥkām as-sulṭāniyyah,Dār ibn Qutaibah, Kuwait, 1409H,vol.1,p. 145

    2 الکاسانی ،ابو بکر بن مسعود ، بدائع الصنائع ، دارالکتب العلمیہ ، بیروت ،۱۹۸۶ء، ج ۲، ص ۳۵

    Al Kasani ، Abu Bakr bin Masud, Bada'i' as-Sana'i', Dār Āl Kutub Āl ilmīya, Beirūt, 1418 H, vol.2, p. 35

    3 محمد تقی عثمانی،مفتی، فتاوی عثمانی، مکتبہ معارف القرآن، کراچی، ۲۰۱۲ء، ج۲، ص ۹۸

    Muhammad Taqi Usmani, Muft, Fatawa Usmani, Maktaba Maarif Al Quran, Karachi, 2012, vol. 2, p. 98

    4 محمد فرید ، مفتی ، فتاوی فریدیہ ،دارالعلوم صد یقیہ ، صوابی، ۲۰۰۹ء، ج ۳، ص ۴۰۹

    Mūhāmmād Farid, Mufti, Fatawa Farīdia, Dār Āl ūloom Siddīqiyýa,Swabi, 2009, vol. 3, p. 409

    5 محمود حسن گنگوہی، مفتی ، فتاوی محمودیہ، دار الافتاءجامعہ فاروقیہ، کراچی، س ۔ن، ج ۹، ص ۳۵۹

    Mahmood Hasan Gangohi, Mufti, Fatawa Mahmoodia, Dar Al Ifta Jamia Farooqia, Karachi, vol. 9, p. 359

    6 مجلس دعوت و تحقیق اسلامی(مرتبین)، فتاوی بینات، مکتبہ بینات، کراچی، ۱۴۲۷ھ، ج۲،ص۶۳۵

    Department Dawah & Islamic Research, Fatawa Bayyinat, Maktaba Bayyinat, Karachi, 1427 H, vol.2, p. 635

    7 خیر محمد جا لندھری ، مولانا ،خیر الفتاوی ،مکتبہ امدادیہ ، ملتان، س ۔ن، ج ۳، ص ۶۰۵

    Khair Muhammad Jalandhari, Moulana, Khair Al Fatawa, Maktaba Imdadia, Multan, vol. 3, p. 605

    8عبد الحق ، مولانا ، فتاوی حقانیہ ، جامعہ دار العلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک، ۲۰۱۰ء ، ج ۳، ص ۵۱۴

    Abdul Haq Haqqāni, Moulana, Fatāwa Haqqānia, Jamia Dār Āl Uloom Haqqānia, Ākōra Khattak, 2010, vol.3, p.514

    9 انعام الحق قاسمی ، مفتی ، زکاة کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا ،بیت العمار، کراچی، ۲۰۱۲ء، ص ۱۰۰

    ḷnām Āl Haq Qāsmi, Mufti, The encyclopedia of Zakāt issues, Bāit Āl Āmmār, Karachi 2012, p.100

    10 البدائع الصنائع، ج ۲، ص ۳۵

    Bada'i' as-Sana'i', vol. 2, p.35

    11 فتاوی عثمانی،ج ۲، ص ۹۹

    Fatawa Usmani, vol. 2, p. 99

    12 لبدائع الصنائع، ج ۲، ص ۳۵

    Bada'i' as-Sana'i', vol. 2, p.35

    13 لجنہ،الموسوعةالفقھیۃ، وزارة الاوقاف والشؤن الاسلامیة، کویت، ۱۹۹۲ء، ج ۲۳، ص ۳۰۵

    Group of Scholars, Al Mosua-Al-Fiqhiyyah, Ministry of Auqaf, Kuwait, 1992, vol.23, p. 305

    14 محمود احمد غاذی، ڈاکٹر، محاضرات معیشت و تجارت، الفیصل ناشران ، لاہور، ۲۰۱۰ء، ص ۲۱۴

    Mahmood Ahmad Ghazi, Dr, Lectures on Economics & Trade, Al Faisal Publisher, Lahore, 2010, p. 214

    15 ابن قدامہ،موفق الدين عبد الله بن احمد ، المغنی ، دار الفکر، بیروت ، ۱۴۰۵ھ، ج ۲، ص ۵۰۵

    Ibn Qudāmah, Muwaffaq al-Dīn Abd Allāh b. Aḥmad, Al-Mughnī, Dār Āl Fikr, Beirūt, vol. 2, p. 505

    16 محمد بن حبیب، البغدادی، الحاوی الکبیر فی فقہ مذھب الشافعی، دار الکتب العلمیۃ، بیروت ، ۱۴۱۴ھ، ج ۸، ص ۴۷۲

    Al-Māwardī, Abū al-Ḥasan ʻAlī ibn Muḥammad ibn Ḥabīb, Al-Hawi al-kabir fi-fiqh madhhab al- Imam al-Shafi', Dār Āl Kutub Āl ilmīya, Beirūt, 1414 H, vol. 8, p. 472

    17 التوبۃ،۹: ۱۰۳

    At-Tawbah, 9: 103

    18 البابرتی، محمد بن محمود، العنایۃ فی شرح الہدایۃ، دار الفکر، بیروت، س ن،ج ۳، ص ۵۳

    Al-Bābarti, Muḥammad ibn Maḥmūd, Ināyah sharḥ al-Hidāyah, Dār Āl Fikr, Beirūt, vol. 3, p. 53

    19عبد الرحمن بن شیخ محمد الشیخ زادہ، مجمع الانھر فی شرح ملتقی البحر ، دار الکتب العلمیہ،، بیروت ،۱۴۱۹ھ، ج ۱، ص ۲۸۷

    Abdur Rahman Bin Shakh Mohammad Al Shakh Zada, Majmaul Anhar Fi Sharah Multaqiyul Abhar, Dār Āl Kutub Āl ilmīya, Beirūt, 1419H, vol.1, p. 287

    20 لتوبۃ،۹: ۱۰۳

    At-Tawbah, 9: 103

    21 ابن ہمام، کمال الدین محمد بن عبد الواحد، فتح القدیر، دار الکتب العلميہ، ، بیروت ، ۲۰۰۳ء، ج ۲، ص ۱۱۹

    Ibn al-Humam, Kamal al-Din Mohammad, Fath al-Qadir, Dār Āl Kutub Āl ilmīya, Beirūt, 2003, vol. 2, p. 119

    22 الزمخشری، محمود بن عمر، الکشاف (تفسیر کشاف)، دار الکتاب العربی، بیروت، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص ۳۰۷

    Al-Zamakhshari, Mahmud ibn Umar, Al-Kashshaf, Dār Āl Kitab Āl Arabi, Beirūt, 1407 H, vol. 2, p. 307

    23 موسوعۃ فقہیۃ،ج ۲۳،ص۳۰۵

    Al-Mowsu'ah al-Fiqhīyyah,vol.23, p. 305

    24 الرازی، فخر الدین، مفاتیح الغیب(تفسیر رازی)، دار احیاءالتراث العربی، بیروت، ۱۴۲۰ھ، ج ۱۶، ص ۸۸

    Ar-Rāzī, Fakhr ad-Dīn, Mafāṭīḥ al-ghay, Dār ihyā Āl Turath Āl Arabí, Beirūt, 1420 H, vol. 16, p. 88

    25 الذریات ،۱۹:۵۱

    Adh-Dhariyat, 51: 19

    26 البخاری، محمد بن اسماعیل،صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب لا تؤخذ کرائم اموال الناس فی الصدقۃ، رقم الحدیث: ۱۴۵۸

    Al-Būkhārī, Muḥammad bin Isma'īl Al-Būkhārī, Al-Jām'i Al-Saheh, the book of Zakat, Ch. Do not take the best from the property as Zakat, Hadith No: 1458

    27 مالک بن انس ،ا لمؤطا،کتاب الزکوۃ، باب الزکوۃ فی العین من الذھب و الورق ، رقم الحدیث: ۳۲۶

    Malik ibn Anas, Al Muwaṭṭaʾ, the book of Zakah, Ch. The Zakat on Gold and Silver Coin, Hadith: 326

    28 ابن ابی شیبۃ، ابو بکر عبد اللہ بن محمد، مصنف ابن ابی شیبہ، باب ما قالو فی العطاء اذا اخذ، رقم الحدیث: ۱۰۴۶۶

    Ibn Abi Shaybah, Imām Abū Bakr Abdullah Ibn Mohammad, Musannaf Ibn Abi Shaybah, Ch. What they say about giving when it is taken, Hadith No: 10466

    29 ابن ماجہ ، محمد ابن یزید، سنن ابن ماجہ ، کتاب الصدقات ، باب فی الودیعۃ ، رقم الحدیث: ۲۴۰۱

    Ibn Mājah, Muḥammad ibn Yazīd, Sunan Ibn Mājah, The book on Charity, Ch. Items Placed In Trust, Hadith No: 2401

    30 السرخسی ، محمد بن احمد بن ابی سہل ،المسبوط ، ،دارالفکر ، بیروت، ۱۴۲۱ھ ، ، ج۱۱،ص۱۰۹

    Al-Sarakhsi, Muhammad bin Ahmad bin Abi Sahl, Al Mabsoot, Dār Āl Fikr, Beirūt, vol. 11, p.109

    31 موسوعہ فقھیہ، ج۶، ص ۲۳۷

    Al-Mowsu'ah al-Fiqhīyyah, vol.6, p. 237

    32 MCB Manual, p 295

    33 www.silkbank.com.pk

    34 فتاوی عثمانی،ج۲، ص ۱۱۳

    Fatawa Usmani, vol. 2, p. 113

    35 ابن نجیم ،زين الدين بن ابراهيم ، البحر الرائق، دار الکتب العلمیہ، بیروت، طبعہ اولی، ج ۲، ص ۲۲۳

    Ibn Nujaim, Zain Ud Din Bin Ibrāhim, Āl-Bahr Āl-Raiq, Dār Āl Kutub Āl ilmīya, Beirūt, 1st Edition, vol.2, p.223

    36 خالد سیف اللہ رحمانی ،مولانا ، قاموس الفقہ، زمزم پبلشرز ، کراچی، ۲۰۱۰، ج ۴، ص ۶۲۳

    Khalid Saif Ullah Rahmani, Dictionary of Fiqh, Zamzam Publisher, Karachi, 2010, vol. 4, p. 623

Loading...
Issue Details
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index