37
58
2022
1682060078052_3020
105-118
https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/download/573/428
https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/view/573
Key Words: Maulana Wahid-Ud-din Khan Islamic tradition Takfir Non-Muslims
کفر کا معنیٰ و مفہوم :
ہر مذہب اپنے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کو کسی نام سے مخاطب کرتا ہے ۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اپنے مذہب کے ماننے والے کو مہذب نام سے پکارا جائے اور غیر مذہب کو اہانت آمیز القابات دیئے جائیں جیسے ہندو مذہب میں غیر ہندو کو ملیچھ یعنی ناپاک کہاجائی ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اپنے مے گئے جاتا ہے ۔
دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ اپنے ہم مذہب اور غیر مذہب دونوں کو مہذب القابات سے پکارا جائے ۔ اکثر الہامی مذاہب میں یہی تعبیر اختیار کی گئی ہے ۔ جیسے حضرت موسیٰ ؑکے پیرو کاروں کو یہودی اور حضرت عیسیٰ ؑکے پیرو کاروں کو عیسائی کہا گیا ہےاور ان دونوں نبیوں پر ایمان نہ لانے والو ں کے لئے اس دور میں کافر کا لفظ استعمال کیا گیا جس کا مطلب تھا انکار کرنے والا۔
یہی تعبیر پیغمبر آخرالزمان ﷺاور قرآن مجید نے استعمال کی کہ جو لوگ قرآن پر ایمان لائے انہیں مومن یا مسلم کہا گیا اور جنہوں نے اسے جھٹلایا ان کے لئے کافر کی تعبیراختیار کی گئی ۔ اور یہ تعبیر مختلف صیغوں میں بارہا استعمال کی گئی ہے ۔
کفر کا لغوی معنیٰ کسی چیز کو ڈھانپنااور چھپانا ہوتا ہے ، عربی میں کسان کو بھی کافر کہہ دیا جاتا ہے کیوں کہ وہ بیج کو زمین میں چھپاتا ہے ۔کفر کا ایک معنیٰ کِسی چیز کو جاننے کے بعد اُس کا انکار کرنا ، اسے نہ ماننااور اُس کو رَد کرنا بھی آتا ہے ۔1ارشاد باری ہے:
فَلَمَّا جَآءَهُم مَّاعَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَافِرِينَ 2
"اور جب اُن لوگوں کے پاس وہ کچھ آیا جس کے بارے میں وہ جانتے تھے تو اُنہوں نے اُس کا اِنکار کیا لہذا کافروں پر اللہ کی لعنت ہے۔"
کفر کا ایک معنیٰ کِسی معاملے یا کسی شخص سے برأت کا اظہار یا بری الذمہ ہونے کا دعویٰ بھی ہے ، ارشاد باری ہے :
ثُمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَالَكُمْ مِّن نَّاصِرِينَ3
"پھر قیامت کے دِن تُم ایک دُوسرے کا اِنکار کرو گے اور ایک دُوسرے پر لعنت کرو گے اور تم سب کا ہی ٹھکانا جہنم ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہو گا۔"
اسلامی اصطلاح میں ہر وہ قول اور فعل جو إِیمان کے خلاف ہو کُفر کہلاتاہے، یعنی اِنسان کا ایسے قول یا فعل پر اِیمان نہ لانا جس قول یا فعل پر اللہ تعالیٰ نے اِیمان لانے کا حکم دِیا ہے ۔ایمان اور کفر میں تباین کی نسبت ہے کہ جہاں ایمان ہوگا وہاں کفر نہیں ہو گااور جہاں کفر ہو گا وہاں ایمان نہیں ہو گا ۔
کسی زبان میں لفظ کا جوحقیقی معنی ہوتا ہے وہ مختلف مناسبتوں کی وجہ سے نئے قالب میں ڈھلتا رہتا ہے ، مثلاناشکری بھی انکار کےمعنیٰ کو متضمن ہوتی ہے اس لیے ناشکری کو بھی کفر سے تعبیر کیاجاتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ خدا اور اس کی طرف سے مقرر کردہ طریقے کو نہیں مانتے ان کے لئے بھی کفر کا لفظ استعمال کیا گیا ۔ قرآن میں یہ لفظ اکثر اسی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے ، علماء یہود کو کہا گیا :
ولاتکونوا اول کافربہ4
"تم اس کاانکار کرنے والے پہلے لوگ نہ بنو۔"
حج کو فرض قرار دیتے ہوئے فرمایا جو اس کو نا مانے تو اللہ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں :
ومن کفر فان اللہ غنی عن العالمین 5
"جس نے اس کا انکار کیا تو اللہ کو اس کی کوئی پروا نہیں"
مشرکین مکہ آخرت کا انکار کرتے تھے ان کے بار ے کہا گیا :
وھم بالآخرہ ھم کافرون 6 "وہ لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں ۔"
قرآن نے اپنے نہ ماننے والوں کو جو کافر کہا ہے وہ اس معنیٰ میں کہا ہے کہ یہ لوگ قرآن کا انکا رکرتے ہیں ۔ اس میں نہ کوئی خلاف واقعہ بات ہے نہ کسی کی اہانت ہے بلکہ یہ تو ان کی حالت کو بیان کرنے کے لئے ایک مہذب تعبیراختیار کی گئی ہے ۔
اس لئے جو لوگ لفظ کافر کے استعمال پر اعتراضات کرتے ہیں انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ یہ محض ایک تعبیر ہے نہ کہ نفرت و عداوت کا اظہار ۔ اور بالفرض اگر یہ تعبیر قابل اعتراض ہوتی تو اہل عرب جو زبان شناس تھے اور انہیں اپنی زبان دانی پر فخر بھی تھاوہ اس لفظ اور تعبیر پر اعتراض کرتے مگر ان کی طرف سے ایسا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے جو کافر کی اصطلاح استعما ل کی ہے وہ بجا ہے ۔اس میں نہ کوئی خلاف واقع بات ہے ، نہ کسی کی توہین ہے اور نہ ہی اس میں کسی قسم کا کوئی شدت پسندی کا عنصر پایا جاتا ہے ۔
تکفیراورروایتی مذہبی فکر
غیر مسلموں کی تکفیر کے متعلق روایتی مذہبی فکر کا اصولی مؤقف یہ ہے کہ اگر کسی فرد میں کفر اکبر کی تمام علامات پائی جاتی ہیں تو علماء کے منصب کا بنیادی تقاضا ہے کہ اس کے کفر کا اعلان کیا جائے ۔ عوام الناس کو اس کے کفر سے باخبر کیا جائے تاکہ ارتکاب کفر کی صورت میں متعلقہ فرد یا اس کے متعلقین پر جو احکام لاگو ہوتے ہیں انہیں واضح کیا جا سکے۔
کسی کی تکفیر یا کسی کو کافر ، ملحداور مرتد وغیرہ قرار دینا کوئی تو ہین نہیں اور نہ ہی یہ القاب کسی پر زبردستی تھونپے جاتے ہیں بلکہ یہ شرعی احکام ہیں اور کسی فرد یا جماعت کے عقائد کی بنیاد پر متعین کئے جاتے ہیں ۔ اس لئے ان کو انتہا پسندی یا سب و شتم قرار دینا جہالت اور بذات خودانتہا پسندی ہے ۔7علماء جب کسی فرد یا جماعت کی تکفیر کرتے ہیں تو وہ کسی کو زبردستی کافر نہیں بنا رہے ہوتے بلکہ کافر وہ انسان خود اپنے عقائد و افعال کی وجہ سے ہوتا ہے علماء محض اس کی نشاندہی اور اعلان کرتے ہیں ۔
قرآن مجید میں سورۃ الکھف میں دو آدمیوں کی مثال دی گئی ہے جن میں سے ایک کو اللہ تعالیٰ نے انگور کے دو باغات عطا فرمائے ،اس نے اپنے دوست سے کہا کہ میں تجھ سے مال میں زیادہ کثرت رکھتا ہوں اور افرادی قوت میں غالب ہوں ۔اس نے اپنے باغ میں تکبر سے داخل ہوتے ہوئے اپنی جان پر ظلم کیااور کہا کہ میں یہ گمان ہی نہیں کرتا کہ یہ باغ کبھی تباہ ہو گا۔میرا گمان ہے کہ نہ ہی قیامت قائم ہو گی اور اگر بالفرض مجھے اپنے ر ب کی بارگاہ میں پیش کر بھی دیا گیا تو میں ضروراس دنیا سے زیادہ وہاں خیر حاصل کروں گا ۔اس کے دوست نے اس سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے جواب میں کہا :
قال له صاحبه و ھو یحاورہ اکفرت بالذی خلقک من تراب ثم من نطفة ثم سواک رجلا لکنا ھو الله ربی و لا اشرک بربی احدا 8
"اس کے دوست نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کیا تم اس ذات کو جھٹلاتے ہو جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا پھر تجھے نطفہ بنایا پھر تجھے معتدل وجود والا انسان بنا دیا، نہیں بلکہ وہی میرا رب ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔"
اس آیت میں مذکور مکالمہ نہ کسی نبی کا بیان ہے نہ اس میں دعوت کی کوئی بات ہورہی ہے بلکہ ایک شخص کے کفریہ عقائد کی وجہ سے ایک صاحب ایمان نے مکالمہ کے دوران اس کی تکفیر کی ہے۔اس آیت سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ کسی کے کفریہ عقائد کی وجہ سے اس کی تکفیر کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس پر نبی کی د عوت کی صورت میں اتمام حجت ہو چکا ہو ۔
قرآن کے مطابق کسی کافر کے کفر کے اثبات کے لیے، بذات خود کافر کا اپنے عقائد کو کفر و شرک سمجھنا یا نہ سمجھنا ضروری نہیں بلکہ محض کفر کاپایا جانا ہی اس کے کافر ہونے کے لیے کافی ہے۔ بعض افعال کفر کی بحث میں زبانی انکار کے قائم مقام ہوتے ہیں جیسے بتوں کی عبادت کرناوغیرہ۔ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خدا ہونے اور خدا کا اکلوتا بیٹا ہونے پر یقین رکھتے ہیں اس کے باوجود وہ اپنے مشرک ہونے کا اقرار نہیں کرتے۔9 اس اقرار نہ کرنے کے باوجود اللہ تعالی فرماتے ہیں :
لقد کفر الذین قالواان الله ھو المسیح ابن مریم و قال المسیح یا بنی اسرائیل اعبدوا الله ربی و ربکم انه من یشرک بالله فقد حرم الله علیه الجنة و ماواہ النار و ما للظالمین من انصار10
"البتہ کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا مسیح ابن مریم اللہ کے بیٹے ہیں ، اور مسیح بذات خود کہتے ہیں کہ اے بنی اسرائیل میرے اور اپنے رب کی عبادت کرو، بے شک جس نے کفر کیا اللہ نے جنت اس پر حرام کردی اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہاں ظالموں کے لئے کوئی مدد گار نہ ہو گا ۔"
اسی طرح یہ بات محاورہ قرآنی اور لغوی دونوں اعتبار سے غلط ہے کہ سرق کے اسم فاعل کو سارق،زنی کے اسم فاعل کو زانی،نکح کے اسم فاعل کو ناکح ،اسلم کے اسم فاعل کو مسلم ،امن کے اسم فاعل کو مؤمن نہ کہا جائے ۔ان اسماء کا مشتق ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ فاعل سے ان افعال کا صدور ہوا ہے۔اسی طرح کفر کا اسم فاعل کافر اور اشرک کا اسم فاعل مشرک ہی ہو گا ۔
قرآن مجید میں کسی کے کفر کے مرتکب ہونے کو مختلف اسماء و افعال کی صورت میں بیان کیا گیاہے ،صرف کلمہ کذب کو ہی دیکھا جائے تو یہ مختلف طریقوں سے استعمال ہوا ہے ۔ مثلا
کذبوا بایاتنا،تکذبون بالدین،کذب بالحسنی، فکذبوہ فاخذتھم الرجفة ،کذب بالحق، ھم الکاذبون،من یکذب بھذا الحدیث۔
نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں ہی مسیلمہ اور اسود عنسی کو کذاب کہا اور قیامت تک آنے والے تمام جھوٹے مدعیان نبوت کو کذاب و دجال کہا ۔
قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے کسی کے کفر کو واضح کرنے اور تکفیر کے لیے کلمہ کفر کے مختلف صیغوں اور صورتوں کو استعمال فرمایا ہے،مثلا قالوا کلمة الکفر،استحبوا الکفر،اشتروا الکفر۔
حدیث شریف میں بھی ہے کہ قرب قیامت دابۃ الارض کے خروج کے بعد مسلمان کافروں کو" یاکا فر"کہہ کر پکاریں گے ۔ترمذی کی روایت ہے :
تخرج الدابة معھا خاتم سلیمان و عصا موسی فتجلو وجه المؤمن و تختم انف الکافر بالخاتم حتیٰ ان اھل الخوان لیجتمعون فیقول ھذا یا مؤمن و یقول ھذا یا کافر11
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :دابہ نکلے گا تو اس کے ساتھ حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی اور حضرت موسی علیہ السلام کا عصا ہو گا۔وہ مومن کے چہرے کو روشن کر دے گا اور کافر کی ناک پر انگوٹھی سے مہر لگا دے گا یہاں تک کہ جب دستر خوان پر لوگ جمع ہوں گے تو وہ کہیں گے اے مومن !اور یہ کہیں گے اے کافر!۔"
یہ حدیث بھی روایتی مذہبی فکرکا اہم مستدل ہے ۔اس لیے کسی فرد یا گروہ کی تکفیر کرنا جائز ہے جبکہ تکفیر کے اس عمل کی بنیاد ثقہ علماء کی اجماعی آراء پر مبنی ہو ،نیز یہ کہ کسی مسلم کو کافر قرار دینا اور کافر کی تکفیر کو ناجائز قرار دینا دونوں ہی غیر معتدل رویے ہیں ۔
غیر مسلموں کی تکفیر کے حوالے سے ایک اہم بحث اتمام حجت کی ہے ۔ روایتی مذہبی فکر کے نزدیک غیر مسلموں کی تکفیر کے لیے محض ابلاغ کا پایا جانا لازم ہے ۔ اگر ابلاغ ہو چکااور مخاطب اس کے باوجود اپنی سابقہ روش پر قائم ہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی ۔ کیونکہ اب دین اسلام مکمل ہو چکا ہے ،نبی کریم ﷺ کی نبوت و رسالت جامع ،کامل،آفاقی،ابدی اور خاتم ہے ۔آپ ؐ کی نبوت و رسالت کو کسی خاص زمانے تک یامحض کسی خاص گروہ کوہی براہ راست مخاطب قرار دے کرقرآن کے احکامات کو زمان و مکان و گروہوں کیساتھ مختص نہیں کیا جا سکتا ۔ آج بھی اگر کسی تک محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات پہنچ جائیں اور وہ ان پر ایمان نہ لائے تووہ اپنے کفر و شرک کا اقرار کرے یا نہ کرے وہ کافر ہی قرار پائے گا۔رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات پہنچنے کی صورت میں اس پر اتمام حجت ہو چکا ۔
تکفیر اور جدید مواقف
غیر مسلموں کی تکفیر کے متعلق جدید مواقف میں اتمام حجت کے اعتراف کے ساتھ اس بات پر اختلاف ہے کہ بذات خود اتمام حجت کیا ہے ۔ اس بارے میں جدید مواقف میں دو آراء ہیں۔
ایک رائے یہ ہے کہ مخاطب تک دین کی بات کا اِبلاغ کردینا یہی اصل اتمام حجت ہے۔ اگر مخاطب اُس بات کا انکار کر ے تو اُس کے اِس ظاہری انکار کی بنیاد پر بلا تردد اُس کی تکفیر کی جا ئے گی ۔
اس مؤقف کے قائلین کا مستدل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر ہدایت کا مادہ ودیعت کر رکھا ہے ، جیسا کہ سورۃ شمس میں اللہ تعالی فرماتے ہیں : فالھمھا فجورھا وتقواھا۔اسی طرح اللہ تعالی نے خارج کے اندر بھی فطرت کی صورت میں ہدایت کا اہتمام کر رکھا ہے ۔ان تما م انتظامات کی موجودگی میں محض ابلاغ کافی ہے اور یہی اتمام حجت ہے ۔
دوسرا مؤقف یہ ہے کہ محض ابلاغ کافی نہیں بلکہ "وضاحت" کے ساتھ ابلاغ کا پایا جانا ضروری ہے بایں طور کہ کفر کا ارتکاب کرنے والے کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے۔وضاحت کے ساتھ ابلاغ اس لیے لازم ہے کہ ممکن ہے اُس شخص میں ہدایت کو اخذ کرنے کی صلاحیتیں بالکل معدوم ہوں یا اُن میں کوئی واقعی خلل پایا جاتا ہو یا اُس کے ماحول میں وہ تحریک ہی موجود نہ ہو کہ ہدایت اُس کے علم و شعور تک رسائی پا سکے ۔
اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دل و جان سے ہدایت کو پانے کی جستجو کرےمگر اس میں کسی سنگین غلطی کا ارتکاب کرے، حتیٰ کہ صریح کفر کا اظہار اور اُس کا اقرار کر بیٹھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ حق بات کو جان تو لے مگر کسی جبر یا مانع ہو جانے کی وجہ سے اُس کا انکار کر دے۔ اب ظاہر ہے کہ اس طرح کی تمام صورتوں میں وہ عدم استطاعت، خطا اور جبر و اکراہ کی وجہ سے جواب دہ ہی نہیں رہ جاتاچہ جائیکہ اُس کی تکفیر کی جائے۔
تکفیر اور مولاناوحید الدین خانؒ
مولانا وحید الدین خانؒ کی فکری زندگی مختلف ادوار میں تقسیم رہی ۔ فکری زندگی کے آغاز میں وہ جماعت
اسلامی سے منسلک رہے ، وہاں سے تبلیغی جماعت میں آئے ، الجمعیہ کی ادارت کی اورآخر میں اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں دعوتی مقاصد کے لیے صرف کر دیں ۔دعوت کے میدان میں سرگرم ہونے کے بعد انہوں نے ساری زندگی یہی کام کیا ۔
ان کی دعوۃ آئیڈیالوجی اور دعوتی جد وجہد کا انداز یہ رہا کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے صرف مکی اسوہ حسنہ کو سامنے رکھ کر جد وجہد کا آغاز کیا، ان کی ساری دعوتی جدوجہد کی بنیاد مکی اسوہ حسنہ ہے ۔ حالانکہ نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا مکی عہد ایک عبوری عہد تھا جس میں آپ ﷺ نےتمام اذیتوں اور مصیبتوں کو نظرانداز کر کے اپنی تمام تر توانائیاں دعوتی مقاصد کے لیے وقف کیے رکھیں ۔
بعد میں جب آپﷺ ہجرت کر کے مدینہ منتقل ہوئے تو آپ ﷺ کی حکمت علمی تبدیل ہو گئی اور آپ نے دعوت کے ساتھ اسلامی ریاست کے قیام اور دعوت میں رکاوٹ ڈالنے والے عناصر سے جہاد بھی کیا ۔ مولانا وحید الدین خانؒ نبی اکرم ﷺ کے صرف مکی اسوہ ء حسنہ کو مد نظر رکھ کر اپنے مشن کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور آپ ﷺ کی زندگی کے مدنی عہد کو سراسر نظر انداز کردیتے ہیں ۔
مولانا وحید الدین خان ؒ کسی فرد یا گروہ کی تکفیر کے قائل نہیں تھے۔ ان کے نزدیک کافر کی اصطلاح ہی غلط ہے ، کافر کا معنیٰ انکار کرنے والا ہے اور انکار تب متحقق ہو گا جب دعوت کو مکمل طور پر مخاطب تک پہنچا دیا جائے بایں طور کہ مخاطب پر اتمام حجت ہو جائے ۔جبکہ مولانا کے مطابق امت مسلمہ ابھی تک دعوتی فریضہ سے غافل ہے اور اس نے دعوت کے پیغام کو جاری ہی نہیں کیا۔مولانا کہتے ہیں اتمام حجت صرف نبی کے دور میں ہی ممکن تھی بعد کے ادوار میں ہم محض کوشش کر سکتے ہیں۔لہذا جب اتمام حجت نہیں پائی جاتی تو کسی کی تکفیر بھی نہیں کی جا سکتی ۔
مولانا وحید الدین خان ؒکے مطابق دعوتی محنت کا معیاری نمونہ پیغمبر اسلام کی زندگی کا 13 سالہ مکہ دور ہے ۔ پیغمبر اسلام نے جب مکہ کے لوگوں میں دعوتی کام کا آغاز کیا تو آپ کے خطاب کے الفاظ یہ تھے : یا ایھا الانسان، اس طرح 13 سال لوگوں کو بحیثیت انسان خطاب کرنے کے بعد جب لوگ جان بوجھ کر انکار پر قائم رہے تو آخر میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی: قل یا ایھا الکافرون ۔ اس وقت بھی یہ ایک براہ راست خدائی اعلان تھا نہ کہ خود پیغمبر کا اپنا خطاب ۔ گویا نبی بھی اپنی مرضی سے کسی کی تکفیر نہیں کر سکتا ۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکافرون میں غیر مسلموں کو کافر کہہ کر مخاطب فرمایا ہے ، سورہ الکافرون کی تفسیر کے ضمن میں مولانا وحید الدین خان لکھتے ہیں:
رسول اللہ ﷺابتدا میں ایک عرصے تک "اے میری قوم " کے لفظ سے لوگوں کو پکارتے رہے ۔ مگر جب اتمام حجت کے باوجود انہوں نے نہ مانا تو آپ نے یا ایھا الکافرون کے لفظ سے خطاب فرمایا۔ اس مرحلہ میں یہ فقرہ در اصل کلمہ برائت تھا نہ کہ کلمہ دعوت ۔میرے لیے میرا دین اور تمہارے لیے تمہارا دین یہ دوسروں کے دین کی تصدیق نہیں بلکہ ایک طرف اپنے حق پر جمے رہنے کا آخری اظہار تھا اور دوسری طرف مخاطب کی اس حالت کا اعلان ہے کہ تم اب ضد کی اس آخری حد پر آ گئے ہو جہاں سے کوئی شخص کبھی نہیں پلٹتا۔12
اتمام حجت کے علاوہ مولانا کا ایک اہم استدلال یہ ہے کہ کفر کے فعل کا تعلق نیت سے ہے اور نیت کا علم محض اللہ تعالیٰ کو ہے اس لیے بحیثیت مسلم ہم کسی کی تکفیر نہیں کر سکتے ۔ بلکہ ہمیں کسی کو کافر کہنے کی بجائے غیرمسلم کہہ کر مخاطب کرنا چاہئے ۔
کسی فرد یا مجموعہ افراد کے بارے میں متعین طور پر یہ اعلان کرنا کہ وہ کافر ہوچکے ہیں عام لوگوں کے لیے جائز نہیں ۔ کفر کے فعل کا تعلق حقیقتا نیت سے ہے اور نیت کا حال صرف اللہ کو معلوم ہے ۔ اس لیے متعین اور مشخص طور پر کسی کے بارے میں یہ اعلان کرنا کہ وہ کافر ہوگیا ہے خالصتا اللہ کا کام ہے یا اللہ کے دیے ہوئے علم کی بنا پر پیغمبر کا کام ۔ چناچہ قرآن میں صرف ایک ایسا حوالہ ہے جہاں قدیم زمانہ کے کچھ لوگوں کو متعین طور پر کافر قرار دے کر کہا گیاکہ : قل یا ایھا الکافرون۔اس انداز کا مشخص خطاب قرآن میں کسی بھی دوسرے گروہ کے لیے نہیں آیاہے۔یعنی قرآن میں اس ایک استثنا کوچھوڑ کر فعل کفر کا ذکر تو ہے مگر مشخص طور پر کسی کو فاعل کفر کا درجہ نہیں دیا گیا ۔ 13
مولانا وحید الدین خانؒ کا اصرار ہے کہ ہمیں کسی کو کافر کہنے یا کافرکا لقب دینےکی بجائے اسے مدعو کے لفظ سے پکارنا چاہئے۔من حیث المسلم ہمارا اصل کام غیر مسلموں کو دعوت دینا ہے نا کہ ان کے عقائدو اعمال کی بنا پر ان کو کافر قرار دینا۔دعوت الی اللہ کے کام کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان دیگر اقوام کو انسان کی نظر سے دیکھیں نہ کہ غیر مسلم یا کافر کی نظر سے ۔14
اگرچہ تاریخ میں مسلمان اور کافر کی اصطلاح وضع کی گئی ہے مگر یہ درست نہیں۔ کافر یا منکر کا لفظ بیک وقت دو کرداروں سے تعلق رکھتا ہے ، ایک وہ جس نے کوئی بات پیش کی ہو اور دوسرا وہ جس نے اس پیش کی ہوئی بات کا انکار کیا ہو ۔ ان میں سےا یک کردار کو داعی اور دوسرے کو مدعو کہتے ہیں ۔
مولانا وحید الدین خانؒ کے نزدیک کافر ایک کردار ہے، کافر کسی گروہ کا قومی لقب نہیں ۔ کسی گرو ہ کوکافر قرار دیناکوئی آسان کام نہیں ۔ کسی کو کافر قرار دینے کامطلب ہے کہ کسی کو انکار کی بناء پر ڈس کریڈٹ کرنا اور دوسرے کو اس کے دعوتی عمل کی بناء پر کریڈٹ دینا ہے ۔ کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ کا یہ معاملہ فتویٰ یا بیان کے ذریعے نہیں ہوتا۔ یہ ایک نہایت سنجیدہ دعوتی محنت کا طالب ہے ۔15
مولانا دحید الدین خانؒ کا ماننا یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی بعثت کا بنیادی مقصد انسانوں کو اللہ کی طرف بلانا تھا، ہرپیغمبراسی مشن کے ساتھ دنیا میں مبعوث کیا جاتا ہے ۔ امت محمدیہ چونکہ آخری امت ہے اور اس کے ذمہ دعوت کے کام کولازم کیا گیا ہےاس لیے انہیں بھی نبی اکرم ﷺ کے مکہ اسوہ حسنہ کو سامنے رکھ کرمحض دعوتی سرگرمیوں کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔
ان کا اصرارتھاکہ امت مسلمہ کا ہر فرد داعی اور پوری دنیا کے غیر مسلم مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں، ہمارے تھنکنگ پروسس کی بنیاد داعی اور مدعو کی اصطلاحات ہونی چاہئیں۔ ہماری فکر کی تشکیل بھی انہی اصطلاحات کے تحت ہونی چاہئے اور ہماری زندگی کے مقصد کا تعین بھی یہی اصطلاحات کریں گے۔ ان کا مؤقف ہے کہ ہمیں کافر کی اصطلاح ہی استعمال نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس کے لیے غیر مسلم کی اصطلاح استعمال کی جائے ۔ مثلا وہ لکھتے ہیں :
"کفر کے لفظی معنیٰ انکار کرنے کے ہوتے ہیں اور کافر کا مطلب ہے انکار کرنے والا ۔ یہ دونوں لفظ قرآن میں پیغمبر کی نسبت بولے گئے ہیں ، وہ عام لوگوں کی نسبت نہیں بولے گئے ۔ مزید یہ کہ کافر ایک شخصی کردار ہے ۔ وہ کسی گروہ کا نسلی یا وراثتی نام نہیں ۔ کفر یا انکار کا تحقق کسی کے بارہ میں اس وقت ہوتا ہے جبکہ اس کے اوپر پیغمبرانہ قسم کی دعوت جاری کی جائے اور اس کو تکمیل کی حد تک پہنچایا جائے جس کو اتمام حجت کہا جاتا ہے ۔ اس طرح کی پیغمبرانہ دعوت کے بغیر کسی کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں کہ اس نے کفر یا انکار کا فعل کیا ۔" 16
مولانا کا مؤقف تھا کہ ہندوستان کے ہندویا دوسرےملکوں کے غیر مسلموں کی حیثیت اسلامی نقطہ نظر سےصرف انسان کی ہے۔ ان میں سے کسی کوبھی کافر یا کفار نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ہندؤں اور موجودہ زمانہ کے دوسرے غیر مسلموں پر یہ ضروری شرط پوری نہیں ہوئی کہ انہیں مکی معیار کی 13 سالہ دعوت دی جائے اور وہ پھر بھی انکار کریں۔
ہم کسی کی تکفیر کی بجائے دعوت کے مکلف ہیں ۔ہمیں کسی کی تکفیر یا دل آزاری کی بجائے تالیف قلب کے اصول کو اپنانا چاہئے ۔تالیف قلب آداب دعوت کا ایک عام اصول ہے، قرآن و سنت میں اس کی بیسیوںمثالیں موجود ہیں۔ مثلًا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون سے نرم زبان میں کلام کرنا ،پیغمبروں کا اپنی مخاطب قوم سے یہ کہنا کہ ہم تمہاری ایذاؤں پر صبر کریں گےوغیرہ۔17
اسوہ رسول ﷺمیں بھی ہمیں تالیف قلب کا اصول دکھائی دیتا ہے ، مثلاجب رسول اللہﷺ کو نبوت ملی تو آپ ﷺ نے بنو ہاشم کے لوگوں کو اپنے گھر پر بلایا تاکہ انہیں توحید کا پیغام دیں۔ اس موقع پر آپ ﷺ نے پہلے ان کی تواضع کی اور انھیں دودھ پلایا۔ جب وہ اس سے فارغ ہو گئے تو اس کے بعد آپ ﷺ نے انہیں نبوت کا پیغام دیا ۔
اس لیے مولانا وحید الدین خانؒ کا اصرار تھا کہ ہمیں کسی کی تکفیر کی بجائے دعوت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ ہمیں غیر مسلموں سے دشمنی اور عداوت کی بجائے تالیف قلب کے اصول کی بنیاد پر انہیں اپنا مدعو بنانا چاہئے ۔ لکھتے ہیں:
"مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان جونزاعات ہیں وہ سراسرقومی اور مادی ہیں۔ یہ تمام تراسی طرح کے دنیاوی جھگڑے ہیں جو خودغیرمسلم گروہوں میں ایک دوسرے کے خلاف پیش آتے ہیں ۔ ان نزاعات کو کافر اور مسلم کے درمیان دینی نزاع نہیں کہا جائے گا بلکہ اس کو دو گروہوں کے درمیان دنیوی نزاع کہا جائے گا۔ ان قوموں پر اتمام حجت کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ مسلمان ان سے دنیوی جھگڑوں کو یک طرفہ طور پرختم کردیں"18۔
مولانا وحید الدین خانؒ کے نزدیک یہ تصور بھی غلط ہے کہ جو مسلمان نہیں وہ لازما کافر ہے ۔ جیسا کہ روایتی مذہبی فکر کا مؤقف ہے کہ ایمان اور کفر میں تباین کی نسبت ہے ، جہاں ایمان ہو گا وہاں کفر نہیں ہو سکتا اور جہاں کفر ہوگا وہاں ایمان نہیں ہو سکتا ۔ مولاناوحید الدین خان کے نزدیک یہ تعبیر بھی درست نہیں ، کا اصرار تھا کہ:
"اکثر مسلمان جو یہ سمجھتے ہیں کہ جو مسلمان نہیں وہ کافر ہے ، یہ تصور بالکل غلط ہے،ابتدائی طور پر مسلمان اور غیرمسلم دونوں انسان ہیں ۔ کسی کے اسلام کا انحصار پیدائش سے نہیں ہوتا بلکہ معرفت حق سے ہوتا ہے، معرفت حق سے پہلے آدمی صرف انسان ہوتا ہے، معرفت کے بعد جب وہ کامل شعور کے ساتھ کلمہ کی گواہی دیتا ہے تب وہ مومن اور مسلم بنتا ہے"19۔
مولانا وحید الدین خانؒ کا مؤقف تھا کہ ہمارا کام کسی کے کفر کا تعین کرنا نہیں بلکہ صرف دعوت ہے اور دعوت الی اللہ اپنی حقیقت کے اعتبارسے خیر خواہی کا ایک عمل ہے۔یہ انسانیت کے ساتھ خیرخواہی کا جذبہ ہے جو ایک مومن کو مجبور کرتا ہے کہ وہ جس جگہ پہنچ گیا ہے وہ دوسرے انسانوں کو بھی اس سائے میں لانے کی کوشش کرے۔ اسی خیرخواہی کی بنا پر مومن یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنی بات اس طرح موثر انداز میں کہے کہ وہ سننے والے کے دل میں اتر جائے۔ یہی جذ بہ داعی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے مخاطب کی زیادتیوں پر یک طرفہ صبرکرے تاکہ پیغام رسانی کا ماحول بگڑنے نہ پائے۔
جس طرح ایک سچا تاجر اپنے گا ہک کی آخری حد تک رعایت کرتا ہے تا کہ اس کے ساتھ مستحکم تجارتی تعلقات قائم ہوں اسی طرح داعی کو چاہئے کہ ہرممکن طریقہ سے اپنے مدعو کی دل جوئی کرے تا کہ وہ اس کے دعوتی پیغام کی طرف پوری طرح راغب ہو۔دعوت الی اللہ کے کام کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان دیگر اقوام کو انسان کی نظر سے دیکھیں نہ کہ غیر مسلم یا کافر کی نظر سے۔ 20
دار الکفر اور دار الحرب کی اصطلاحات
مولانا وحید الدین خانؒ کے نزدیک کسی کو کافر قراد دینا تو دور کی بات ایسے ممالک جن میں غیر مسلم اور کافر آباد ہیں انہیں دا رلکفر یا دار الحرب کہنا بھی جائز نہیں ۔ ان کا مؤقف تھا کہ دا رالحرب اور دار الفکر جیسی اصطلاحات کوئی قرآنی اور منصوص اصطلاحات نہیں بلکہ یہ عہد رسالت و عہد صحابہ کے بہت بعد میں وضع کی گئی ہیں اور ان کا بھی ایک خاص تناظر اور پس منظر تھا ۔عباسی عہد میں جب نئی فقہ مرتب ہو رہی تھی تب ایک خاص تناظر اور پس منظر میں یہ اصطلاحات وضع کی گئیں ، یہ ایک اجتہادی خطا تھی جس سے امت کو رجوع کرنا چاہئے تھا مگر بوجوہ ایسا نہیں ہو سکا ۔
میرے نزدیک دار الحرب کی اصطلاح اجتہادی خطا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہر قسم کے واقعات پیش آئے مگر آپ نے کسی بھی علاقے کو دار الحرب قرار نہیں دیا ۔ اگر قرآن و سنت میں اجتہاد کر کے اس سلسلہ میں کوئی اصطلاح بنائی جائے تو وہ صرف ایک ہو گی اور وہ ہے دا رالدعوہ۔یہی اسلامی روح کے مطابق ہے ۔اسلام ہر قوم کو مدعو کی نظر سے دیکھتا ہےخواہ اہل اسلام کا تعلق ان سے امن کا ہو یا حرب کا ۔ اس لیے صحیح اسلامی نظریہ کے مطابق صرف دو اصطلاحیں درست ہیں دا ر الاسلام اور دار الدعوۃ۔اس کے سوا جو بھی اصطلاحیں بولی گئی ہیں وہ سب میرے نزدیک اجتہادی خطا کا درجہ رکھتی ہیں ۔ مثلا دار الحرب ، دار الکفر اوردار الطاغوت وغیرہ ۔21
مولانا وحید الدین خانؒ کے نزدیک یہ دونوں اصطلاحات ذاتی قیاس کے تحت بنائی گئی ہیں ۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ اتنی اہم اصطلاح خالص قرآن کی روشنی میں وضع کی جاتی ۔ فقہاء نے جن حالات کی نشاندہی کر کے ان کے تسمیہ کے لیے یہ اصطلاحیں وضع کی ہیں وہ حالات مبینہ طور پر دور نبوی میں بھی موجود تھے مگر رسول اللہ ﷺ نے ان حالات کے لیےایسی اصطلاحات مقرر نہیں فرمائیں ۔عہد رسالت کے بعد عہد صحابہ میں بھی ایسے حالات رہے مگر تاریخ میں ایسی کسی اصطلاح کا وجود نہیں ملتا۔
ہجرت کے بعدبھی مسلمان اور اہل مکہ ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہے ، گویا ہجرت کے بعد مکہ میں عین وہی حالت پیدا ہو گئی جس کے لیے فقہاء نے دار الحرب کی اصطلاح وضع کی مگر جیسا کہ معلوم ہے قرآن و حدیث میں بعد از ہجرت مکہ کے لیے بھی کبھی ایسی اصطلاح استعمال نہیں کی گئی ، نہ قرآن میں اعلان کیا گیا کہ مکہ اب دار الحرب ہےہو چکا ہے اور نہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی مکہ کے لیے دارالحرب کا لفظ استعمال فرمایا۔ مولانا کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ جو ملک اسلامی ہو اس کو دار الاسلام اور بقیہ تمام ممالک کو دار الدعوۃ کہا جائے گا ۔ 22
مولانا وحید الدین خانؒ کا مؤقف تھا کہ دار الحرب اور دار الاسلام کے یہ الفاظ قرآن اور حدیث میں استعمال نہیں ہوئے ۔ قرآن میں پیغمبر اسلام ﷺ کی نسبت سے ارشاد ہوا ہے: و لتنذر ام القری و من وحولہا۔23 اور تاکہ تو ڈرائے ام القری کو اور اس کے آس پاس والوں کو۔
مولانا کے نزدیک قرآن کی اس آیت میں ام القری سے مراد مکہ ہے، جب یہ آیت اتری اس وقت مکہ غیر مسلموں کے قبضہ میں تھا حتی کہ کعبہ کو بتوں کا مرکز بنادیا گیا تھا۔ مگر اس آیت میں قدیم مکہ کو دارالکفار یا مدینۃ الکفر نہیں کہا گیا بلکہ ام القریٰ کہا گیا اور وہاں انذاربالفاظ دیگردعوت کا حکم دیا گیا اس سے مستنبط ہوتا ہے کہ دارالکفر یا بلاد الکفار جیسی اصطلاحات کا استعمال درست نہیں ہے۔
اپنی بات کی آسانی سے تفہیم کے لیے مولانا مثال دیتے ہیں کہ کسی ملک کا حوالہ جب جغرافیائی اعتبار سے دینا ہو تو اس کا ذکر اس نام سے کیا جائے گا جس نام سے وہ عمومی طور پر معروف ہے۔ مثلاً پاکستان کوپاکستان اورسعودی عرب کو سعودی عرب کہا جائے گا۔لیکن جب اہل اسلام کی ذمہ داری کے اعتبار سے کسی ملک کا حوالہ دینا ہو تو اس کو دارالدعوۃ کہا جائے گا، دارالدعوۃ کا لفظ جغرافیائی تقسیم کو نہیں بتاتا بلکہ وہ اہل اسلام کی دعوتی ذمہ داری کو بتاتا ہے۔
قرآن مجید میں جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے غیر مسلموں کو "کافر" کے لفظ سے خطاب فرمایا ہے مثلا قالوا کلمة الکفر،استحبوا الکفر،اشتروا الکفر۔روایتی مذہبی فکر "کفر" کے اس صیغے سے ڈائریکٹ غیرمسلموں کے کفر پر استدلال کرتے ہیں جبکہ مولانا وحید الدین خانؒ ان تمام مقامات پر ان آیات اورالفاظ کی تاویل کرتے ہیں ۔ بایں طور کہ "کفر" کا یہ استعمال عدم تعمیل اورعدم اطاعت کے معنیٰ میں آیا ہے ۔ مثلا سورۃ المائدہ کی ایک آیت جس سے روایتی مذہبی فکر کفر پر استدلال کرتی ہے ، مولانا وحید الدین خان ؒ اس آیت کے مفہوم میں اس طرح تاویل کرتے ہیں ،مثلا لکھتے ہیں :
"وہ خدا کی حاکمانہ حیثیت کا انکا ر کرنے والے ہیں ، وہ حق کے تلف کرنے والے ہیں ، وہ اطاعت خداوندی کے عہد سے نکل جانے والے ، حکم شریعت کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کے بعد آدمی کی کوئی حیثیت خدا کے یہاں باقی نہیں رہتی "۔24
اسی طرح قرآن کی دیگر آیات میں بھی جہاں"کفر" کا صیغہ استعمال ہوا ہے مولانا وہاں غیر مسلموں کی تکفیر کی بجائے دیگر محتمل معانی مراد لیتے ہیں اور تکفیر کے معانی کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔
حواشی و حوالہ جات
1ابن منظورافریقی، لسان العرب(دار الکتب العلمیہ: بیروت،1432ھ)،3 / 194
Ibn-e- Mnẓoor Afriq, Lisān Alarb (Beroot: dārālktb ālilmiya, 1432), 3/194.
2 البقرہ 89:2
Al –Baqra 89:2
3 ایضا
Al –Baqra 89:2
4 البقرہ 41:2
Al –Baqra 41:2
5 آل عمران 97:3
Aal- Imrān 97:3
6 حم السجدہ 7:41
HM Alsǧda 7:41
7ربانی، مبشر احمد، مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول ومبادی(انٹرنیٹ ایڈیشن، 2016ء)ص،158
Rabbāni, mubashir Aḥmd، masla takfir āur us k Aṣol o mubādi, (Internet edition, 2016),158
8 الکھف 38:18
Alkhaf 38:18
9ربانی، مبشر احمد، مسئلہ تکفیرا ور اس کے اصول و مبادی،ص 158
Rabbāni, mubashir Aḥmd، masla takfir āur us k Aṣol o mubādi,158
10 المائدہ 11:4
Al-Maida 11:4
11ترمذیؒ، ابو عیسی محمد بن عیسی، جامع ترمذی (الریاض:دار السلام للنشر والتوزیع ، الرياض، 1429ھ) 2/237
Tirmḏi, Abu Eisa Muhammad bin Eisa Tirmḏi, Aljama Altirmidi, (Alriad,lin-nasher wa altodi,1429), 2/237
12 وحید الدین خان، تذکیر القرآن (نیو دہلی:مکتبہ الرسالہ ، 2010ء)ص1992
Wḥid ud Din Khan, Tadkir ul Quran, (new Delhi: maktaba ālresāla, 2009), 1992
13 ایضا۔
Wḥid ud Din Khan, Tadkir ul Quran, 1992
14وحید الدین خانؒ،دعوت اسلام(نیو دہلی: مکتبہ الرسالہ ، 2001ء)،ص48
Wḥid ud Din Khan, Dawat -e- Islam, (new Delhi: maktaba ālresāla,2001), 48
15ایضا۔
Wḥid ud Din Khan, Dawat -e- Islam, 48
16وحید الدین خان ، امن عالم(نیو دہلی: مکتبہ الرسالہ، 2004)،156
Wḥid ud Din Khan, Amn-e- Aalm, (new Delhi: maktaba ālresāla, 2004), 156
17ابراہیم 12:14
Ibrahim 12:14
18وحید الدین خانؒ، حکمت اسلام (نیو دہلی:مکتبہ الرسالہ، 2001)، 42
Wḥid ud Din Khan, Hikmat -e- Islam, (new Delhi: maktaba ālresāla, 2001) , 46
19وحید الدین خانؒ، ڈائری(نیو دہلی:مکتبہ الرسالہ، 2008ء)، 109
Wḥid ud Din Khan, Dairy, (new Delhi: maktaba ālresāla, 2008) ,109
20 ایضا۔
Wḥid ud Din Khan, Dairy, 109
21وحید الدین خان ،امن عالم،156
Wḥid ud Din Khan, Amn-e- Aalm, 156
22وحید الدین خانؒ،دعوت الی اللہ(نیو دہلی: مکتبہ الرسالہ ، 2001ء)،37
Wḥid ud Din Khan, Dawat ila Allah, (new Delhi: maktaba ālresāla, 2001), 37
23الانعام 93:6
Al-Anām 93:6
24 وحید الدین خان، تذکیر القرآن،272
Wḥid ud Din Khan, Tadkir ul Quran, 272
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |