Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Az̤vā > Volume 37 Issue 58 of Al-Az̤vā

معاصر خانقاہی نظام میں خانقاہ سراجیہ کے امتیازات |
Al-Az̤vā
Al-Az̤vā

Article Info
Authors

Volume

37

Issue

58

Year

2022

ARI Id

1682060078052_3023

Pages

155-178

DOI

10.51506/al-az̤vā.v37i58.523

PDF URL

https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/download/523/431

Chapter URL

https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/view/523

Subjects

Reforming Socity Khankah(monastic system) spiritual ascelicism naqshbandiyya

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی اشاعت کے حوالے سے خانقاہوں کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل رہا ہے ۔ ان خانقاہوں نے بلا تفریق رنگ ونسل اور قومیت کے اسلام کی حقانیت کے گہرے نقوش اس خطے پر چھوڑے۔انہی خانقاہوں میں سےایک " خانقاہ سراجیہ کندیاں "بھی ہے جس نے اس خطے کے مخصوص حالات میں حجروں میں گوشہ نشین ہونے کے بجائے علمی ، روحانی، مذہبی اورسیاسی تحریکوں کی سر پرستی و راہنمائی کرکے عملی کردار ادا کیا۔ یہ خانقاہ بنیادی طور پر مجدد الف ثانی شیخ احمدفاروقی سرہندی  کے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کی ایک کڑی ہے۔ اس خانقاہ کے مشائخ نے انسانی نفوس کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مذہبی تعلیم کی ترویج، اطاعت الہٰی وسنت نبویﷺ کی اتباع ، عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ ،مدارس اور دینی جماعتوں کی سرپرستی، رفاہی کاموں، سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے فروغ ،امراء و حکام کو خط کتابت کے ذریعے دعوت اسلام اور اسلامی نظام کے نفاذ کےلئے بھرپور کردارادا کیا۔اصلاح معاشرہ اور احیائےدین اسلام کے لئے ہر زمانے میں کسی نہ کسی صاحب کردارہستی کو منتخب کیا جاتا ہے اوریہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا1۔ خانقاہ کے اکابرین نےپاکستان میں دین اسلام کی اشاعت و خدمت اور اصلاح معاشرہ کے لیے بڑا نمایاں کردار ادا کیا ۔ اسی طرح انہوں نے شریعت، طریقت اور سیاست کو بھی باہم مربوط کرکے پیش کیا۔

دریائے سندھ کے مشرقی کنارہ سے چند فرلانگ کے فاصلہ پر بے آب و گیاہ صحرائی وادی میں ایک صدی قبل 22- 1920ءبمطابق 38- 1440ھ راجپوت تلوکر قبیلہ کے معزز ومعروف زمیندار مستی خان کے صاحبزادہ مولانا ابو السعد احمد خان نے اپنےپیرومرشد خواجہ سراج الدین موسی زئی شریف کے حکم پر مرکز رشدوہدایت کی بنیاد رکھی۔ یہ مرکز کندیاں جنکشن ضلع میانوالی سے اڑھائی میل کے فاصلے پر ملتان کی طرف جانے والی ریل پٹری سے چھ سات فرلانگ کے فاصلے پر درختوں کے خوبصورت وحسین جھنڈ میں واقع ہے-2 یہ مرکز چشمہ پاور پلانٹ کے بالمقابل واقع ہے ۔درمیان میں چشمہ جہلم لنک کینال ہے۔ یعنی ایک طرف خانقاہ سراجیہ ہے اوردوسری طرف چشمہ پاور پلانٹ ہے۔

بانی خانقاہ مولانا ابو السعد احمد خان  نے بہتر ین انداز میں ظاہر ی علوم اور باطن کی اصلاح کے لئے تمام ذرائع وسائل کا استعمال کر کے اس کو منفرد، شہرہ آفاق اور ہمہ گیر ادارہ بنا یا ۔یہ خانقاہ جہاں دینی علوم کی ایک معیاری درس گاہ کا کردار ادا کرتے نظر آتی ہے،وہاں دین اسلام کے اہم اور دقیق مسائل کی تنقیح و تحقیق کے لئے خوشگوار پر سکون ماحول میسر کیے ہوئے ہے۔ یہ مذہبی تعلیم اورتزکیہ نفس کی ایک منفرد تربیت گاہ ہے، جس میں جید علمائے کرام سے لے کر عوام کے ہر طبقے کے لوگ ظاہری و باطنی تربیت سے آراستہ ہوئے اور منصب رشد و ہدایت پر فائز ہو کر ملک کے گوشے گوشے میں پھیل گئے۔ ان میں سے کچھ حقیقت تصوف و سلوک کا عرفان حاصل کر کے مشائخ طریق بھی بنے۔خانقاہ سراجیہ کا حلقہ ارادت عوام سے لے کر علمائے کرام اور جدید تعلیم یافتہ طبقے تک پھیلا ہوا ہے۔ اندرون اور بیرون ملک سے ہزاروں طالبین حق و سالکین اس خانقاہ سے منسلک ہو کر تربیت باطنی سے مستفید ہو رہے ہیں۔ مشائخ خانقاہ نے دین کی اشاعت کے حوالے سے نمایاں کردار ادا کیا ۔اس خانقاہ کو معاصر خانقاہی نظام میں مندرجہ ذیل چیزوں میں انفرادیت حاصل ہے:

1۔ مسجد احمد خان

خانقاہ سراجیہ کی انتہائی خوبصورت اور عظیم الشان مسجد کی تعمیر کا آغاز 1920 میں ہوا ۔ مسجد نقش و نگار کے لحاظ سے ترک اور مغلیہ طرز تعمیر کی عکاس ہے۔ حافظ لدھیانوی لکھتے ہیں کہ مسجد کی تعمیر خدا جانے کس بے پایاں خلوص سے کی گئی کہ مسجد بقعہ ءنور بن گئی ہے…. مسجد میں داخل ہوتے ہی ایک پاکیزہ ماحول ،ایک مقدس فضاء اور ایک روحانی کیفیت کا احساس ہوتا ہے….یوں تو لاکھوں روپے کے خرچ سے خانہ خدا کی تعمیر ہوتی ہے ،سنگ مرمر کی سلوں ،خوبصورت کتبوں ، منقش درودیوار سے مسجد کو آراستہ کیا جاتا ہے مگر بعض مساجد کو دیکھنے سے اس میں سجدہ ریز ہونے والوں ،تعمیر کرانے اور کرنے والوں کے خلوص کا مشاہدہ ہوتا ہے ۔ایک ایک اینٹ ،ایک ایک پتھر ان کی خانہ خدا سے محبت کا نشان بن جاتا ہے۔ مجھے ایسا ہی احساس خانقاہ سراجیہ کی اس خوبصورت مسجد کو دیکھ کر ہوا۔3

مولانا ابوالسعد احمد خان ؒ نے مسجد کی تعمیر کے آخری مراحل میں اپنے متوسلین کو فرمایا تھا کہ انشاءاللہ ہماری مسجد قیامت تک آباد رہے گی اور دوردراز علاقوں سے لوگ اسے دیکھنے کے لئے آیا کریں گے ۔ مزید یہ بھی فرمایا تھا کہ یہاں نماز جمعہ بھی پڑھی جایا کرے گی۔ 4 مولاناابوالسعد احمد خان ؒ کی پیشنگوئی نوے سال بعد پوری ہوئی۔ مفیتان کرام سے مشورہ کے بعد 19 جمادی الثانی 1432ھ/ 11 مئی 2011 سے یہاں نماز جمعہ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

اس وقت خانقاہ شریف پر جو عظیم الشان ، وسیع و عریض اور پرشکوہ مسجد موجود ہےیہ اسی ابتدائی مسجد کی جگہ ہے۔جس میں وقتاً فوقتاً تعمیر ہوتی رہی ہے۔اس مسجد کے درودیوار اوردالان و صحن کے علاوہ سامنے کی دیواروں ، چھت ، گنبدوں اور میناروں کے مرصع و مرقع اور دیدہ زیب کام کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔مسجد کی اندرونی چھت گراں قدر فانوسوں سے سجی ہے۔5خواجہ خلیل احمد مدظلہ نے مسجد کی تزئین و آرائش میں گرانقدر اضافہ فرمایا ہے۔ برآمدہ کو شیشے کے دروازے لگوا کر مکمل ہال کی شکل دے دی گئی ہے اور ایئر کنڈیشن نصب کر دیئے گئے ہیں۔ مسجد کا ہال اور برآمدہ چار چار صفوں پر مشتمل ہے اور ہر صف میں تقریباً چالیس لوگوں کے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے ۔ مسجد اور ہال کے اندر تقریباً ساڑھے تین سو لوگوں کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ مسجد کا صحن کشادہ ، وسیع اور اونچا ہونے کی وجہ سے ہوادار ہے ۔ صحن میں دو سائبان بھی سایہ کے لیےنصب ہیں۔ صحن میں اٹھارہ صفیں بنتی ہیں۔ شمالی طرف تسبیح خانہ اور مہمان خانے کے سامنے والی خالی جگہ کو ، جنوبی طرف کی خالی جگہ کو اور مسجد کے صحن کے سامنے والے خالی میدان اور راستہ کو صفیں بچھا کر نماز کےلیےعیدین کے موقع پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔تقریباً دوہزار لوگ ایک وقت میں اس مسجد میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔

2۔ جامعہ عربیہ سعدیہ

برصغیر پاک و ہند کے نظام تعلیم میں مسجد ، مدرسہ اور خانقاہ انتہائی اہمیت کے حامل رہے ہیں اور یہ تینوں انسانی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار اداکرتے رہے ۔اسکی وجہ یہ تھی کہ مدرسہ علم ، مسجد عبادت اور خانقاہ تزکیہ نفس کی تربیت کی ذمہ دار تھی۔مسلم تہذیبی روایت میں یہ تینوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ۔ مولانا ابو سعد احمد خانؒ نے انہی تین ستونوں مسجد،خانقاہ،اور مدرسہ کے باہمی ربط کو قائم رکھتے ہوئے تھل کے ریگستان میں مدرسہ تعلیم القرآن 1338ھ/1920ء میں قائم فرمایا ۔ 6 انسانی شخصیت کی تعمیر اور کردار میں پختگی کے لئے مسجد ، مدرسہ اور خانقاہ کے ذریعے جدوجہد کا آغاز فرمایا اور مختصر وقت میں ایسے رجال کار تیار فرمائے کہ جنہوں نے اصلاح معاشرہ میں اہم کردار ادا کیا ۔مولانا ابوالسعد احمد خان ؒ نے اپنی وصیت میں تحریر فرمایا کہ اس مدرسہ کے متولی اور مہتمم بھی مولوی محمد عبداللہ ہوں گے۔ حتی الوسع اس مدرسہ کے قیام و بقا ء بلکہ توسیع و ترقی کی کوشش کی جائے۔7

دوسرے سجادہ نشین مولانا عبد اللہ لدھیانوی ؒ نے اسی نہج پر اس مدرسہ کو چلایا ، جس کی وصیت ان کے شیخ مولانا ابو السعد ؒ نے کی تھی اور اسے قرآن و حدیث اور دیگر علوم وفنون کی تعلیم کا مرکز بنا دیا ۔علامہ طالوت ؒ لکھتے ہیں کہ مدرسہ عربیہ سعدیہ میں دن رات قرآن و حدیث کی تعلیم جاری تھی اور عام مدارس کے نطم کے برخلاف اس میں نہ مدرسین معین تنخواہ کی ضرورت سمجھتے تھے اور نہ طلبہ کے طعام و قیام کے انتظام کے لئے کسی قسم کا کوئی چندہ لیا جاتا تھا ۔ میں جب وہاں گیا ہوں تو مدرس مولانا مفتی عطا محمد صاحب تھے جو ایک عالم متبحر ہونے کے علاوہ بہت بڑے فقیہہ بھی ہیں اور تدریس کیساتھ ساتھ خانقاہ کے افتاء کا کام بھی ان کے سپرد تھا۔ چونکہ خلوص و للہیت تھی اس لئے تنخواہ کچھ بھی نہیں جو کہ حضرت نے مناسب سمجھا عنایت فرما دیا اور جو کچھ مل گیا وہ گویا ضرورت کے لئے کافی تھا ۔8

موجودہ سجادہ نشین خواجہ خلیل احمد مدظلہ کی شبانہ روز کاوشوں کی بدولت 1532ھ/ 2011ء سے یہ مدرسہ تعلیم القرآن سے" جامعہ عربیہ سعدیہ " ہو گیا ہے اور باقاعدہ دورہ حدیث کی کلاس کا اجراء بھی ہو چکا ہے۔ جامعہ کا الحاق باضابطہ طور پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ساتھ ہے۔ خواجہ خان محمد ؒ کی خصوصی دعاؤں کے نتیجے میں جامعہ کی نئی وسیع و عریض خوبصورت دو منزلہ عمارت مارچ 2014 ءمیں پایہ تکمیل کو پہنچ گئی ۔اب یہ مدرسہ جدید سہولیات سے آراستہ اور دینی وعصری تعلیمات کا مرکزہے۔ خواجہ خلیل احمد مدظلہ اس ادارہ کے مہتمم اور مولانا عصمت اللہ ناظم تعلیمات شعبہ کتب ہیں ۔ خواجہ خلیل احمد باقاعدگی سے طلباء کے ماہانہ نتائج خود دیکھتے ہیں اور اساتذہ و طلباکرام کو ان کی بہتر کارکردگی پر ا انعامات سےبھی نوازتے ہیں۔ یہ ادارہ مندرجہ ذیل شعبہ جات میں رجال تیار کر رہا ہے:

2.1۔ شعبہ درس نظامی

جامعہ ہذا کا یہ سب سے اہم اور مرکزی شعبہ ہے۔اس میں وفاق المدارس العربیہ کے نصاب کے مطابق درجہ متوسطہ سے دورہ حدیث تک تمام درجات کی تعلیم دی جاتی ہے۔قابل اور ماہر اساتذہ طلباء کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اس شعبہ میں ڈیڑھ سوسے متجاوز طلباء کرام زیر تعلیم ہیں۔ شیخ الحدیث مولانا عبدالرحیم اور مفتی حسین احمد اس شعبہ کو بہترین انداز میں چلا رہے ہیں ۔

2.2۔ شعبہ تجوید و قرات

قرآن مجید کو ترتیل سے پڑھنے کے لئےدو سالہ تجوید و قرات کا کورس وفاق المدارس العربیہ کے نصاب کے مطابق پڑھایا جاتا ہے ۔ماہرین فن ِ تجوید شب و روز اس مقصد کے لئے محنت فرمارہے ہیں۔ اس شعبہ میں تقریباً پچاس طلباء کرام زیر تعلیم ہیں۔ قاری مفتاح الاسلام اس شعبہ کے روح رواں ہیں ، جو بڑی محنت سے دور دراز سے آئے طلباء کو قرات کی تربیت فراہم کررہے ہیں۔

2.3۔ شعبہ تحفیظ القرآن الحکیم

جامعہ کےاس شعبہ میں طلباء کو قرآن مجید حفظ کرانے اورحفاظ کی منزل کی پختگی کے لیےگردان کا تسلی بخش انتظام موجودہے۔اس شعبہ میں تقریباً دو سو سے متجاوز طلباء کرام زیر تعلیم ہیں۔ چھ سیکشن ہیں۔ مفتی اسامہ رمضان اس شعبہ کے انچارج ہیں۔

 

2.4۔ شعبہ علوم عصریہ / ابو الخلیل ہائی سکول ایجوکیشن سسٹم

شعبہ ہذا کی بنیاد 38-1437ھ بمطابق 2016ءمیں رکھی گئی، جس کے انتہائی حوصلہ افزا نتائج حاصل ہوئے ہیں ۔اس شعبہ کے تحت تین سال میں حفظ اور مڈل لیول کی تعلیم ساتھ ساتھ ممکن ہوئی ہے۔ اب قرآن مجید کی گردان کے ساتھ نہم اور دہم کلاس بھی شروع کی جار رہی ہے۔ یہ ادارہ بورڈ آف ا نٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سرگودھا سے رجسڑڈ ہے۔ طلباء میں عصری علوم میں استعداد پیدا کرنے کے لئے زبان دانی (عربی، اردو، انگلش) پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ شعبہ میں داخلہ کی بنیادی شرط کلاس پنجم پاس ہو نا ہے۔ پرائمری لیول کے امتحانات ختم ہونےکے بعدنئے داخلےشروع ہوجاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ طلبا کو کمپیوٹر لیب اور ڈیجیٹل لائیبریری سے بھرپور استفادہ کا موقع دیا جاتا ہے۔ طلباء کو اسباق سے متعلقہ تعلیمی اور معلوماتی ویڈیوز دکھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔سکول کے اوقات کار نماز ظہر تا نماز عصر مقررہیں۔ سائنس لیب مع مکمل آلات و کیمیکل دستیاب ہے۔ مولانا نبیل احمد اس شعبہ کے انچارج ہیں۔

2.5۔ دارالافتاء

جامعہ کا یہ شعبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے، جس میں لوگوں کو پیش آمدہ مسائل کا شرعی حل پیش کیا جاتا ہے۔ مفتی محمد عارف اور مفتی اسامہ رمضان اس شعبہ کو انتہائی جانفشانی سے چلارہے ہیں۔ سائل حاضر ہو کر زبانی ، تحریری ،ڈاک کے ذریعے اور فون پر بھی مسائل پوچھ سکتے ہیں ۔

2.6۔ کمپیوٹرلیب اور کمپیوٹر کورسز کا اجراء

جامعہ ہذا میں طلباء کے لیے باقاعدہ طور پر کمپیوٹر کورسز کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ دینی علوم میں ماہر طلباء وفضلاء آلات جدیدہ مفیدہ پر بھی کامل دسترس حاصل کرسکیں ۔ اس سلسلے میں کمپیوٹر لیب کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔مولانا شاہد اس شعبہ کے نگران اعلیٰ ہیں۔

2.7۔ شعبہ فلکیات

جامعہ عربیہ سعدیہ میں باقاعدہ طور پر شعبہ فلکیات کام کررہا ہے،جس کے تحت ہجری کیلنڈر کا اجراء اور تخریج ِ اوقات نماز کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔اسی طرح سمتِ قبلہ کی تعیین اور چاند دیکھنے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ رمضان شریف میں اوقات ِ سحر و افطار کی تعیین کی جاتی ہے ،نیز اس فن کو سکھانے کےلیے باقاعدہ کلاسز کا اہتمام کیا جاتاہے۔ مولانا نبیل احمد اس شعبہ کے انچارج ہیں۔

 

2.8۔ مرکزعلامہ اقبال اوپن یونیورسٹی

میٹرک درس نظامی کی دو سالہ کلاس درجہ اولیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ، سرگودھا سے منسلک ہے۔ ایف اے اور بی اے کی ڈگری کے حصول کے لیے مدرسہ کے طلباء درس نظامی کے ساتھ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ،میانوالی ریجنل سنٹر سےمستفید ہورہے ہیں۔ اس طرح جامعہ عربیہ سعدیہ مذہبی و عصری تعلیم کی خدمات انجام دے رہا ہے۔

3۔ کتب خانہ سعدیہ

تقریباًسو سال قبل تھل کے ریگستان میں مولانا ابو السعد احمد خان ؒ نے اپنی ذاتی جائیداد سے خطیر رقم خرچ کر کے نایاب و نادر کتابوں کے انتہائی قیمتی ذخیرہ پر مشتمل کتب خانہ سعدیہ قائم کیا۔جس کی دھوم بہت مختصر وقت میں پورے برصغیر میں پھیل گئی۔دوردور سے علماء، صلحا ء اور طلبا و محققین سفر کر کے اس علمی خزانہ سے استفادہ کر نے کے لئے تشریف لاتے اور اپنی علمی تشنگی مٹاتے ۔ صاحب رود کوثر تحریر کرتے ہیں کہ مغربی پاکستان میں سلسلہ مجددیہ نقشبندیہ نے بڑی وسعت پائی اور کئی خانقاہیں قائم ہوئیں ۔ان میں خانقاہ سراجیہ مجددیہ نقشبندیہ کندیاں ،ضلع میانوالی جس کے موجودہ سربراہ جامع علم و عرفان مولانا ابو الخلیل خان محمد  ہیں، اس لئے بھی قابل ذکر ہے کہ وہاں کتب صوفیہ بالخصوص نوادرسلسلہ کا ایک بیش بہا ذخیرہ ہے۔9

مولانا ابو السعد احمد خان  نے علم تصوف کو شریعت کے مطابق کرنے کیلئے ضروری سمجھا کہ علوم دینیہ کا ایک جامع کتب خانہ فراہم کیا جائے اور نقد و جرح کے بعد جو بات منقح ہو جائے، اس پر عمل کیا جائے۔ حضرت کے خدام میں اکثریت اجلہ علماء کی تھی ۔ مولانا عبد الخالق مرحوم،بانئ دارلعلوم کبیر والا ، مفتی محمد شفیع مرحوم سرگودھا اور مولانا صدر الدین ،بانی خانقاہ سراجیہ ہری پور ہزارہ جیسے محقق علماء شریک محفل رہتے تھے ۔ایسے حالات میں آراء کا اختلاف لازمی تھا اور اس اختلاف کواجماع کی صورت تبدیل کرنے کے لیے ایک بہت بڑے کتب خانہ کی ضرورت تھی جو کہ حضرت نے اپنے ذاتی وسائل سے اکٹھا کیا اور اس طرح اپنے خدام علمائےکرام کی تربیت فرماتے تھے ۔ 10 مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ مولانا محمد عبداللہ لدھیانوی ؒ کی دعوت پر یہاں تشریف لائے اور اس عظیم کتب خانہ کو ملا حظہ فرمایا ۔گھنٹوں الماریوں میں پڑی کتابیں دیکھتے رہے۔ اس دوران کتاب" نوادرالاصول حکیم ترمذی" پر نگاہ پڑی تو فرمایا کہ اس کتاب کے دیکھنے کی مدت سے آرزو تھی مگر کہیں دستیاب نہ ہوتی تھی۔ بعد ازاں آپ اس کتاب کو مطالعہ کے لئے دیو بند ساتھ لے گئے۔ آپ نے دیو بند پہنچ کر گرامی نامہ تحریر فرمایا کہ افسوس میں زیادہ عرصہ وہاں نہ ٹھہر سکا کیونکہ ماہ مبارک صیام سر پر تھا، ورنہ چندے اور قیام کرتا ،تاہم جتنا وقت وہاں گزرا اس کو میں مغنمات زندگی سے شمار کرتا ہوں ۔11 مولانا محمد یوسف بنوری نے اس خانقاہ شریف اور لائبریری کے لیے فرمایا تھا کہ جی چاہتا ہے کہ علمی کام کے لیے آدمی خانقاہ شریف میں آ جائے کیونکہ ہر طرح کا سکون اور یکسوئی جس طرح وہاں میسر ہے، کراچی جیسے مصروف شہر میں اس کا تصور بھی نہیں ہو سکتا ،پھر جبکہ اتنا عظیم اور جامع کتب خانہ بھی دسترس میں ہو ۔12

مولانا ابو السعد احمد خان نے اپنے وصیت نامہ میں تحریر فرمایاکہ خانقاہ کا کتب خانہ بفضلہ تعالیٰ اپنی وسعت اور کتابوں کی کثرت و نفاست کے لحاظ سے پنجاب کا ایک بے مثال معہد علمی بن گیا ہے۔ اس کی شان رفعت کو برقرار رکھنے کے لیے اس کو اس کی تمام الماریوں اور کمرے سمیت وقف کیا جاتا ہے ۔اس کے متولی بھی مولوی محمد عبداللہ صاحب مذکور ہونگے۔اب اس کتب خانہ اور اس کے متعلقہ سامان اور کتابوں میں توریث اور تملیک اور تقسیم جاری نہ ہو گی۔13 کتاب خانے میں کتابیں اورمخطوطات موجوو ہیں، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

3.1۔ کتابیں

کتب خانہ سعدیہ میں مختلف علوم و فنون کے حوالے سے کئی نادر کتابیں اور قیمتی و نادر نسخے موجود ہیں،جیسے فن تفسیر میں اہم تفاسیر میں سے تفسیر ابن جریر ، تفسیر ابن کثیر ،تفسیر روح المعانی،تفسیر کبیر ،تفسیر درمنثور،تفسیر خازن، تفسیر معالم، تفسیر بیضاوی، تفسیر جمیل قدیم نادرہ طباعت میں موجود ہیں ۔ تفسیر حسینی کا خوشخط نسخہ کتب خانہ کی خوبصورتی میں اضافہ کا باعث ہے۔ اسی طرح کتب احادیث کا مجموعہ اور ان کی شروحات کتب خانہ کی زینت ہیں، جیسا کہ الجامع الصحیح البخاری کی کئی دیدہ ذیب طباعتیں،شرح عینی ،شرح عسقلانی، شرح قسطلانی ،بخاری شریف بحاشیہ سندھی مطبوعہ استنبول قابل دید ہے۔ اسی طرح مسلم شریف ، جامع الترمذی کی معیاری شروحات ،سنن ابو داؤد کی چار مبسوط شروحات ، موطا اما م مالک کی پانچ شروحات ، جن میں سے مصفٰی اور مسوٰی اور دیگر کتب احادیث صحاح بمعہ حواشی و شروح موجود ہیں۔ نیزمستدرک حاکم، سنن کبرٰی، بیہقی ، مسنددار قطنی،مسنددارمی، مسند طیالسی، مسند امام احمد بن حنبل، شرح معانی الاثار ازطحاوی،نیل الاوطاراز شوکانی کی دیدہ زیب طباعتیں موجود ہیں۔ مسند حمیدی کا بہترین نسخہ کتب خانہ کی شان بڑھا رہا ہے۔

کتب اسماء الرجال کے حوالہ سے نادر نسخے مثلاًالا صابہ لابن حجر ،طبقات کبیر لابن سعد ، اور تہذیب التہذیب کی قدیم گراں قدر طباعتیں محفوظ ہیں۔فقہ حنفی کے حوالہ سے متداول کتب کا شاندار ذخیرہ محفوظ ہے۔ شرح وقایہ،الہدایہ،فتاوٰی عالمگیری،فتادٰی شامی،البحر الرائق،فتح القدیر کے خوبصورت ایڈیشن اور شرح السیر کبیر از امام سر خسی اور المسبوط اازمام محمد کتب خانہ کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی ہیں۔ اسی طرح فقہ شافعی کے حوالہ سے کتاب الام ،شرح المہذب ، فقہ ظاہری کی المحلیٰ بالآثار،فقہ حنبلی کی کشاف ا ور المغنی لابن قدامہ کئی جلدوں میں کتب خانے میں شامل ہیں۔ اسی طرح دیگر علوم وفنون میں اصول حدیث ،فقہ ،عقائد و کلام سیر و مفازی،تصوف و سلوک،طب و حکمت ،لغت و ادب ، صرف ونحو اور معانی و بیان و غیرہ کی کتب بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں ۔ الفیہ ابن مالک کی آٹھ شروح ، قاموس کی شرح تاج العروس 10 جلد ، اتحاف السادہ المتقین شرح احیاء علوم الدین 10 جلد، نوادر الاصول حکیم ترمذی،رسالہ قیشریہ ،اما م قیشری مطبوعہ مصر 4 جلد، شارق الانوار، قاضی عیاض بھی قابل ذکر ہیں14۔

خواجہ خلیل احمد مدظلہ نے مدرسہ عربیہ سعدیہ میں بھی ایک جدید ، خوبصورت اور بڑی لائبریری تعمیر کروائی ہے جو شعبہ تجوید و قرات کی عمارت کےاوپر دوسری منزل پرواقع ہے ۔ اسی لائبریری کو حضرت نے اپنا ذاتی دفتر بھی قرار دے رکھا ہے اور جب خانقاہ میں موجود ہوں ،تو نماز فجر کے بعد یہاں رونق افروز ہوتے ہیں۔ یہ جدید لائبریری تئیس الماریوں پر مشتمل ہے، جس میں سترہ موضوعات پر تین ہزار سے زائد کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ کتب خانہ اس قدیمی کتب خانے کے علاوہ ہے، جو مولانا ابو السعد احمد خان ؒ نے قائم کیا تھا۔

3.2۔ مخطوطات

مخطوطات کسی بھی قوم کا فکری ورثہ ہوتے ہیں۔ ان کو جمع کرنے، ان کا خیال رکھنے اور ان سے استفادہ کرنے والی قوم نہ صرف فکری میدان میں اعلی مقامات پر فائز ہوتی ہے ،بلکہ عملی میدان میں بھی دیگر اقوام سے بلند رہتی ہے ۔محمد حسین تسبیحی تحریر کرتے ہیں کہ کتب خانہ میں گراں قدر قلمی نوادرات بھی موجود ہیں۔ جواہر التفاسیر جیسے مخطوطات کی موجودگی کی بدولت شاید یہ کتب خانہ دنیا کے ممتاز کتب خانوں میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دوسو کے قریب مخطوطات اس کتب خانے کی زینت ہیں۔15

عربی اور فارسی زبان میں نادر و نایاب مخطوطات جو کہ تفسیر،حدیث ، فقہ ، اصول فقہ ، عقائد،سیرت ، تصوف، فلسفہ اور دیگر موضوعات پر خانقاہ سراجیہ کی عظیم الشان قدیم لائبریری میں موجود ہیں ، جیسا کہ حدیث کے موضوع پر شرح السنہ از علامہ بغوی ، عربی قلمی نسخہ، فقہ و فتاوٰی میں فتاوٰی فیروزی از حافظ فیروز محمد بن حامد، قلمی عربی نسخہ،سیرت کے موضوع پر نثر الجواہر از مرزا خان ، قلمی عربی نسخہ ،عقائد میں درۃ المفاخراز مولانا عبدالرحمان جامی،سواءالسبیل از مولانا کلیم اللہ جہاں آبادی، قلمی عربی نسخے ،تصوف کے موضوع پر متن الحکم ازقاضی نور محمد اور روح الانواراز مولانا عبدالرحمان ، قلمی عربی نسخے،فلسفہ پر سیرالسماء از عبدالعزیز بن احمد ، قلمی عربی نسخہ،فصاحت و بلاغت کے موضوع پر نعیم الوجیز از مولانا غلام محمد، قلمی فارسی نسخہ ،رد قادیانیت کے موضوع پر خزانۃ الرسوم از خواجہ محمد بن عبدالرحیم ، قلمی عربی نسخہ وغیر ہ موجود ہیں۔ ان مخطوطات سے علما ، طلباء اور محققین مستفید ہونے دور دراز کا سفر کرکے آ تے ہیں ۔ دور حاضر کے محققین کو خانقاہ کھانا اور رہائش بھی مفت فراہم کرتی ہے ،جو اس خانقا ہ کی علم دوستی کا بین ثبوت ہے۔

3.3۔ تصنیفی خدمات

خانقاہ سراجیہ نے علم دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے عقائد ، تصوف اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے مشائخ کےحالات ، ان کی تعلیمات اور مختلف ادوار میں اپنے متعلقین اور حکام و امرا ء کو لکھے گئے مکتوبات کے حوالے سے کتابوں کی اشاعت اور تصنیفات کا باقاعدہ اہتمام فرمایا ہے، جن میں سے اب تک شائع ہونے والی کتابوں، رسائل اور تراجم کی فہرست پیش کی جا رہی ہے، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

نمبر شمار

کتاب

مؤلف

مترجم

ناشر

سن اشاعت

  •  

تحفہ سعدیہ

مولانا محبوب الہٰی

-

خانقاہ سراجیہ کندیاں

1973ء

  •  

تاریخ و تذکرہ خانقاہ سراجیہ

ڈاکٹر نذیر احمد رانجھا

-

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2003

  •  

تفسیر چرخی

مولانا یعقوب چرخی

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2005

  •  

عقائد اہل سنت والجماعۃ

مفتی محمد طاہر مسعود

-

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2007

  •  

ایضاح الطریقہ

شاہ غلام علی دہلوی

مولانا منظور احمد

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2008

  •  

مکاتیب شریفہ شاہ غلام علی ؒ

شاہ رؤف احمد مجددی

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2009

  •  

تذکرہ علمائے اہل سنت و جماعت (پنجاب)

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

-

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2009

  •  

ایقاظ الھمم فی شرح الحکم

احمد بن محمد عجیبتہ ؒ

محی الدین نظامیؒ

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2010

  •  

ھدایۃ الطالبین

شاہ ابو سعید دہلوی

مولوی نور احمد

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2011

  •  

مقامات خواجہ خواجگان خان محمدؒ

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

-

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2011

  •  

کنزالہدایات

خواجہ باقر عباسی

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2011

  •  

کشکول کلیمی

کلیم اللہ جہان آبادیؒ

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2011

  •  

وسیلۃ القبول الی اللہ والرسول

مولانا عمادالدین

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2012

  •  

صحائف مرشدیہ

-

مرتب محمد نذیررانجھا

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2013

  •  

حضرات کرام نقشبندیہ

حافظ نذیر احمد

-

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2014

  •  

ہمارے بابا جی خواجہ خان محمدؒ

محمد حامد سراج

-

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2014

  •  

تاریخ و تذکرہ خواجگان نقشبند

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

-

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2014

  •  

مکتوبات امام ربانی

مجدد الف ثانی

ڈاکٹر نذیر احمد رانجھا

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2015

  •  

مکتوبات شریفہ حضرت خواجہ سیف الدین نقشبندیؒ

مرتب:صاحبزادہ محمد اعظمؒ

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2015

  •  

جمال مرشدیہ

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

-

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2015

  •  

وظائف سراجیہ

مفتی محمد طاہر مسعود

-

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2015

  •  

اسباق سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ

خواجہ خلیل احمد

-

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2015

  •  

ڈائری حضرت خواجہ خان محمدؒ

خواجہ خلیل احمد

 

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2016

  •  

رسائل حضرت شاہ عبدالرحیم ؒ

شاہ عبدالرحیم دہلوی

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2016

  •  

تاریخ و تذکرہ خانقاہ سر ہند شریف

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

-

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2017

  •  

تاریخ و تذکرہ خانقاہ مظہریہ دہلی

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

-

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2017

  •  

تاریخ و تذکرہ خانقاہ احمدیہ سعیدیہ موسیٰ زئی شریف

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

-

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2017

  •  

رشحات عین الحیات

مولانا فخرالدین علی

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2017

  •  

مکتوبات سعیدیہ

جامع مولانا محمد فرخ

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2017

  •  

مجموعہ فوائد عثمانی

مکتوبات خواجہ عثمان

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2017

  •  

آداب المریدین

ضیاء الدین سہروردیؒ

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2017

  •  

درالمعارف (ملفوظات حضرت شاہ غلام علی دھلویؒ)

-

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2018

  •  

رسائل مولانا محمد یعقوب چرخی

-

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2018

  •  

بحر الحقیقہ

احمد غزالی

ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2018

  •  

دلائل الخیرات

محمد بن سلیمان جزولی

-

خانقاہ سراجیہ کندیاں

2020

4۔ مرکز تحفظ ختم نبوت

سید عطا اللہ شاہ بخاری نے جب مجلس احرار اسلام کا شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت قائم کیا، تو بانی خانقاہ مولانا ابو السعد احمد خان ؒ نے مجلس احرار اسلام اور امیر شریعت ؒ کی نہ صرف بھر پور حمایت کی، بلکہ اپنا مکمل عملی تعاون بھی پیش کیا اور تا دم آخریعنی اپنے سال وفات 1941ء تک اس کی ہمہ جہتی سرپرستی فرماتے رہے۔16 حضرت کے انتقال 1941ء کے بعد مولانا محمد عبداللہ لدھیانویؒ مسند نشین ہوئے ۔آپ نے بھی عقیدہ ختم نبوت میں حضرت اقدس ؒ کے حکم سے پھر پور جدجہد کی اور فدایان ختم نبوت کی پوری پوری پشت پناہی کی ۔گرفتاریوں اور احتجاج میں متوسلین خانقاہ سراجیہ نے بھرپور حصہ لیا ۔

مولانا محمد عبداللہ 1952ء کوحج کے ارادہ سے تشریف لے جا رہے تھے۔ وزیر خارجہ سر ظفر اللہ قادیانی کی کراچی میں کی گئی تقریر کے خلاف احتجاج شروع ہوا۔ مظاہرے اور جلسے شروع ہو گئے۔ حکومت کی جانب سے کارکنوں اور مظاہرین کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ ان حالات کے پیش نظر حضرت اقدس ؒ نے حج کا ارادہ ملتوی فرما دیا اور راستہ سے واپس تشریف لا کر اپنے متوسلین کو ملک بھر میں اس تحریک کا ساتھ دینے کی ہدایات جاری فرمائیں اور فرمایا کہ اس وقت حج سے زیادہ ضروری تحریک تحفظ ختم نبوت میں شرکت ہے۔17علامہ طالوت تحریر کرتے ہیں کہ یہ وقت تھا کہ بڑے بڑے مخالفین مرزائیت بلوں میں دبکے ہوئے تھے اور ڈیفنس میں خفیہ علمی معاونت سے بھی پرہیز کر رہے تھے۔ ایسے وقت میں مولانا عبداللہؒ کے طرز عمل نے اہل علم میں ایک قسم کی جان پیدا کر دی اور وہ سب لوگ آپ کی توجہ سے اس کام میں شب و روز مصروف و متوجہ ہو گئے۔ ۔18

خواجہ خان محمدؒ کو برملا اعلان حق کرنے اور میانوالی اجلاس منعقد کرنے کے لئے بھیجا ۔حضرت قبلہ تعمیل ارشاد کے پیش نظر قید و بند کی صعوبتوں سے بے نیاز میانوالی تشریف لے گئے۔ 15 اپریل 1953 خود کو گرفتاری کے لئے پیش کر دیا ۔پہلے میانوالی جیل میں رہے، پھر 28 اپریل کو بورسٹل جیل لاہور منتقل کر دئیے گئے۔19 پھر وہاں سے 11 اگست کو سنٹرل جیل منتقل کر دیا گیا ۔1953ء کی تحریک میں خانقاہ سراجیہ کے متوسلین میں سے مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے لاہور میں تحریک ختم نبوت کو خوب سنبھالا دیا اور اپنی تقاریر سے مسلمانوں کے جذبات کو خوب گرمایا ۔حکومت نے مولانا غلام غوث ہزارویؒ کو جہاں ملیں، گولی مارنے کا حکم جاری کیا ۔آپ سیدھے خانقاہ سراجیہ پہنچے۔ حضرت اقدسؒ نے اپنے معتمد صوفی احمد یار کی ذمہ داری میں دیکر حفاظت کا انتظام فرمایا ۔20

مولانا عبداللہ کا وصال جون 1956ء میں ہوا اور خواجہ خان محمد  خانقاہ کے تیسرے مسند نشین قرار پائے۔ آپؒ عقیدہ تحفظ ختم نبوت کو دین کی اساس گردانتے تھے ۔ مولانا محمد یوسف بنوریؒ نے امارت مجلس تحفظ ختم ِنبوت اس شرط پر قبول فرمائی کہ میرے ساتھ نائب امیر خواجہ خان محمدؒ ہونگے ۔ خواجہ خان محمدؒ 5 ربیع الاول 1394ھ/ 9 اپریل 1974ء کو مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر اول مقرر ہوئے۔29 مئی 1974 کو اسٹیشن ربوہ پر قادیانی غنڈوں نے نشتر میڈیکل کالج کے طلباء پر حملہ کر دیا۔ ملک میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ۔ 2129 مئی 1974 سے شروع ہونے والی تحریک ختم بنوت بلآخر 7 ستمبر 1974 کو پاکستان کی پارلیمنٹ کے فیصلے پر منتج ہوئی، جس میں مرزا قادیانی کے ماننے والے کے دونوں گروپ ، لاہوریوں اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا ۔22

خواجہ خان محمد ؒ نے مولانا محمد یوسف بنوریؒ کی قیادت میں بھر پور انداز میں قادیانیت کا تعاقب جاری رکھا اور ان کی وفات کے بعد چینوٹ کے ہال میں مجلس تحفظ ختم نبوت کی جنرل کونسل کے اجلاس منعقدہ 27 دسمبر 1977ء بمطابق 16 محرم 1398ھ زیرِ صدارت مولانا محمد حیات ؒ ، خواجہ خان محمد کو تین سال کے لئے مرکزی امیر منتخب کر لیا گیا۔231974 کی تحریک اور قومی اسمبلی کے متفقہ فیصلہ کے بعد مرزائیوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ (ربوہ) چناب نگر میں مسلمانوں کا داخلہ ممکن ہو گیا۔ 28 جون 1974 چناب نگر میں مسلم کالونی ہاؤسنگ اسکیم قائم ہوئی جس میں مجلس تحفظ ختم نبوت نے 9 کنال اراضی حاصل کر کے 7 جولائی کو خواجہ خان محمد ؒ کے دست مبارک سے اس پر مدرسہ کا افتتاح کر دیا گیا اور پھر 23-24 اکتوبر 1982ء پہلی ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد ہوا۔24

1983 میں قادیانیوں کی جارحیت میں اضافہ ہوا ۔سیالکوٹ سے مولانا اسلم قریشی کو اغواء کر لیا گیا۔ 20 مئی 1983 کوملک گیر یوم احتجاج منایا گیا اور سیالکوٹ میں یوم دعا کے لئے عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا25 ۔ اس احتجاج نے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ آل پارٹیز مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان قائم ہوئی اور بلا آخر 27 اپریل 1984 کو "روالپنڈی چلو" کی کال دی گئی۔ بلآخر 26 اپریل 1984 کوصدر پاکستان جنرل ضیاء الحق سے مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے کامیاب مذاکرات ہوئے اور امتناع قادیانیت آرڈیننس 1984 کا اجراء ہو گیااور قادیانیت کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔26 امتناع قادیانیت آرڈیننس کی رو سے قادیانی اسلامی شعا ئر استعمال نہیں کر سکتے۔

تحفظ ختم نبوت کی تحاریک 1953 ء ، 1974 ء اور 1984ءمیں حضرت خواجہ خان محمدؒ کا کردار قائدانہ رہا ہے۔ آپؒ کی امارت کا 35سالہ دور فتوحات اور بے پناہ وسعتوں کا دور ہے۔ آپؒ کی شبانہ روز جدوجہد مثالی تھی۔ آپؒ نے طویل مشکلات برداشت کیں اور پے در پے اسفار کئے۔ اندرون اور بیرون ملک قادیانیت کا بھرپور تعاقب کیا۔آپ نے ختم نبوت کے مشن کے لئے دنیا بھر میں دورے کئے،جن میں برطانیہ، ڈنمارک، سویڈن، ماریشس، ناروے، کینیڈا، سپین، فرانس، جنوبی افریقہ ، سعودی عرب، بنگلہ دیش ، متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ آپؒ شدید علالت میں بھی برطانیہ سمیت دیگر ملکوں میں ہونے والی سالانہ ختم نبوت کانفرنسوں میں تشریف لے جاتے تھے۔27

آپؒ کے عہد امارت میں مجلس تحفظ ختم نبوت کا سلسلہ عالمی سطح پر پھیل گیا ۔ مختلف زبانوں میں ختم نبوت کا لٹریچر شائع ہو کر تقسیم ہونے لگا۔ آپؒ کی تمام زندگی تحفظ ختم نبوت کیلئے وقف تھی۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ نماز ، روزہ، حج، زکوٰة ، تبلیغ اور جہاد جیسے فرائض کا تعلق رسول اللہ ﷺ کے اعمال سے ہے اور ختم نبوت کا تعلق رسول اللہ ﷺ  کی ذات مبارک سے ہے۔ ختم نبوت کی پاسبانی براہ راست ذات اقدس ﷺ کی خدمت کے مترادف ہے۔خواجہ خان محمد کی وفات مئی 2010ء کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے مولانا عزیز احمد مدظلہ اس وقت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر مرکزیہ ہیں جو اس جماعت کےلیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے کے لیے ہر وقت مستعد رہتے ہیں۔

5۔ مدارس اور د ینی جماعتو ں کی سرپرستی

  اس خانقاہ کے مشائخ نے شاہ ولی اللہ ؒ کی فکر پر مختلف مدارس عربیہ کی ہمیشہ سرپرستی اور حوصلہ افزائی فرمائی۔ خانقاہ شریف کی زیر نگرانی وسرپرستی قابل ذکر مدارس جو علوم و فنون کی ترقی میں گامزن رہے، مندرجہ ذیل ہیں: دارالعلوم کبیر والا ، مدرسہ فرقانیہ راولپنڈی ،مدرسہ قاسم العلوم فقیر والی ،مدرسہ عثمانیہ ورکشاپی محلہ راولپنڈی، مدرسہ سراجیہ فورٹ عباس ، درالعلوم مجددیہ مانکی شریف ،مدرسہ عربیہ سعدیہ خانقاہ سراجیہ ۔ علاوہ ازیں آپ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی مجلس عاملہ کے ممبر بھی رہے ۔  28 خواجہ خان محمدؒ نے 2001ء میں قادیانیوں سے قانونی جنگ کے بعد حاصل ہونے والے مرکز جامع مسجد ختم ِ نبوت اور جامع تجوید القرآن تحفظ ختم نبوت ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی بنیاد رکھی اور اسکی مکمل سرپرستی فرمائی ۔آپؒ نے ہزاروں دینی مدارس،دینی جماعتوں اوردرجنوں دینی رسائل وجرائد کی سرپرستی فرمائی ۔

خواجہ خان محمدؒ نےختم نبوت کے پلیٹ فارم پر سینکڑوں خطبات و بیانات رقم فرمائے جوملکی و غیر ملکی مجلات میں طبع ہوتے رہے۔،جیسا کہ مقدمہ برائے کتاب"روداد مقدمہ مرزائیہ بہاول پور"،(مطبوعہ 1408ھ،جلد1:ص29-38)،خطبہ صدارت چنیوٹ کی چھبیسویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس میں پڑھا گیا(منعقدہ 26,27,28, دسمبر 1978ء)۔29 مقدمہ روئیداد عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت(1408ھ طبع ہوکر تقسیم ھوا)30۔ تقریظ "کتاب تسکین الصدورفی احوال الموتی فی البرزخ والقبور "مؤلفہ مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ ،افتتاحیہ"، کتاب آئینہ قادیانیت" مؤلفہ مولانا اللّٰہ وسایا ، تقریظ کتاب"مناظرے "مؤلفہ مولانا اللّٰہ وسایا اورتحریری پیغام برائے تیرھویں عالمی ختم نبوت کانفرنس برمنگھم،برطانیہ 31۔دورہء بھارت 1983کے حالات واقعات جو آپ نے لاہور پہنچ کر جامعہ مدنیہ میں ارشاد فرمائے جو انٹرویو کی صورت میں شائع ہوئے32۔تقریظ کتاب "اصحاب محمد کا مدبرانہ دفاع" مؤلفہ مولانا بشیر احمد حامد حصاروی، تقریظ کتاب " عقائد اہل سنتہ والجماعت " مؤلفہ مفتی محمد طاہر مسعود،تقریظ کتاب " فیضان معصومیہ"مؤلفہ صوفی اشفاق اللہ واجد،تقریظ کتاب"  تاریخ وتذکرہ خانقاہ سراجیہ" مؤلفہ نذیر احمد رانجھا ،مضمون زیر عنوان"7ستمبر ایک تاریخ ساز دن "33 ۔ خطبہء صدارت بر موقع ستائسویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چنیوٹ دسمبر 1979ء 34۔خطبہ صدارت بر موقع انتیسویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چنیوٹ35۔

6۔ مکتوبات کے ذریعے حکام بالا ، علماءکرام اور عوام الناس کو دعوت دین

مجدد الف ثانی  شیخ احمد فاروقی سرہندی نے جس طرح امراء ،حکام اور علما ئے کرام کے نام مکتوبات کے ذریعہ تبلیغ اسلام اور ترویج واشاعت دین کی گرانقدر خدمات سر انجام دیں،اسی طرح خانقاہ سراجیہ کے شیوخ نے اپنے دور میں اشاعت اسلام اورختم نبوت کے تحفظ کے لیے خدمات انجام دیں۔ صرف خواجہ خان محمد ؒ کے حکام بالا اور علماء کو لکھے گئے مکتوبات مندرجہ ذیل ہیں،جیسا کہ مکتوب گرامی بنام صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق36  ، مکتوب گرامی بنام وزراء قومی اتحاد (22دسمبر1978)  ، مکتوب گرامی بنام میر خلیل الرحمان روز نامہ جنگ (30 جولائی 1979)  ،مکتوب گرامی بنام فضیلتہ الشیخ عبد العزیز بن باز  ،مکتوب بنام فضیلتہ الشیخ الملک فھد بن عبد العزیز سعودی عرب (14جون 1982)  ، مکتوب بنام ممبران قومی وصوبائ اسمبلی وسینٹ  (22مارچ 1985) ،مکتوب بنام ممبران قومی،صوبائ اسمبلی وسینٹ (2دسمبر 1988)، صدر پاکستان اسحاق خان کے دور میں حکومت کی قادیانیت نوازی پر کھلا خط ۔37 ، مکتوب بنام فضیلتہ الشیخ الملک عبداللہ سعودی عرب بر موقع (100سے زائد قادیانیوں کی سعودی عرب میں گرفتاری) ۔38  ، مکتوب بنام چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک، اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا،وزیر قانون بابر اعوان ۔ 39 

ان مکاتیب کے علاوہ آپؒ نے اپنے مریدین و متوسلین کو ہزاروں مکاتیب شریفہ تحریر فرمائے، جو کتابی صورت میں طبع ہو چکے ہیں ، جیسا کہ تحائف مرشدیہ اورصحائف مرشدیہ ۔

7۔ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے فروغ میں خدمات

خانقاہ سراجیہ کےشیوخ نے عوام الناس، علماء اور جدید تعلم یافتہ طبقے کی ظاہری و باطنی تربیت فرمائی۔ ان مشائخ نے اپنے اپنے دور میں نامور رجال تیار کیے ،جنہوں نے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے فروغ اور اصلاح معاشرہ میں اہم کرادار ادا کیا ۔ اس خانقاہ سے تربیت یافتہ کچھ حضرات تو مشائخ خانقاہ سراجیہ کے ساتھ رہے اور کچھ حضرات نے اپنے شیخ کے حکم سے اپنے علاقوں میں جا کر باقاعدہ خانقاہی نظام کی آبیاری کی ، لوگوں کو اللہ اللہ سکھائی اور ابھی تک یہ سلسلہ قائم ودائم ہے۔ان حضرات کے خلفائےعظام اور خانقاہیں مندرجہ ذیل ہیں:

7.1۔ خلفائےعظام مولانا ابو السعد احمد خانؒ

مولانا ابو السعد احمد خان نے 1920ء سے 1941ء تک تقریباً اکیس برس خانقاہ سراجیہ کی مسند کو رونق بخشی۔ آپ کے دو صاحبزادے اور تینتیس خلفاء تھے۔40 خلفاء کے نام مندرجہ ذیل ہیں:حضرت خواجہ محمد عبداللہ لدھیانویؒ۔41 مولانا سید عبداللہ شاہؒ، مولانا قاضی صدر الدین ؒ 42، حاجی میاں جان محمد ؒ، مولانا سید عبدالسلام احمد شاہؒ، مفتی عبدالغنیؒ، مولانا حکیم عبدالرسولؒ، مولانا سید مغیث الدینؒ، مولانا محمد زمانؒ، شیخ محمد مکرانیؒ، مولانا محمد یوسف مولانا مفتی محمد شفیع سرگودھویؒ43،مولانا نذیر احمد عرشی دھنولوی ؒ44 ، سید مختار احمد شاہؒ ، مولانا سید جمیل الدین احمد میرٹھی ثم بہاولپوریؒ، مولانا پیر سید لعل شاہ جھنگؒ، مولانا احمد دین ؒکیلوی ضلع سرگودھا، کلیم حافظ چن پیرؒ،مولانا عبدالستارؒ،مولانا سراج الدین رانجھاؒ، مولانا نصیرالدین بگویؒ، میاں اللہ دتہ سرکانہؒ، حضرت فقیر سلطان سرکانہؒ، مولانا مفتی عمیم الاحسانؒ 45، مولانا مہردین احمدؒ، حضرت علی بہادرؒ، ڈاکٹر محمد شریفؒ، مستری ظہورالدینؒ، مولانا نور احمدؒ، حاجی عبدالوہابؒ، میاں محمد قریشی لائل پوریؒ، ملک اللہ یارؒ، مستری نیاز احمدؒ۔46

 

7.2۔ خلفائےعظام مولانا عبداللہؒ لدھیانوی

مولانا عبداللہ ؒ 7جون 1956 کو اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملے۔ آپ ؒنے تقریباً 15سال آٹھ ماہ اور پندرہ روز مسند ارشاد کو زینت بخشی۔آپ کے پسماندگان میں ایک صاحبزادی، ایک صاحبزادہ مولانا حافظ محمد عابد اور دس خلفاء شامل ہیں47، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں :حضرت مولانا ابو الخلیل خواجہ خان محمؒد، حاجی میاں جان محمدؒ، مولانا سید پیر عبدالطیف شاہؒ، مولانا قاضی شمس الدینؒ ہری پور48 مولانا عبدالخالقؒ، مولانا محمد امان اللہ ؒ، مفتی عطا محمدچودھوانؒ49، مولانا محمد مکرانیؒ، حافظ سعداللہ خان خاکوانیؒ اور حکیم عبدالمجید احمد سیفیؒ۔

7.3۔ خلفائےعظام خواجہ خان محمدؒ

اس خانقاہ پر سب سے ذیادہ کام کرنے کا موقع خواجہ خان محمد ؒ کو ملا۔ آپ ؒ 1956ء سے 2010ء تک تقریباً چون سال تک پاکستان میں امام تصوف سمجھے جاتے رہے ۔ خواجہ خان محمد کے سولہ خلفا مند رجہ ذیل ہیں: مولانا نذرالرحمان،مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ،مولاناانظرشاہ کشمیریؒ،مولانامفتی احمدسعیدؒ،حضرت حافظ احمدسعیدؒ، بھکر، مولانا محبوب الہیٰ ؒ،مولانا احمددینؒ، دادڑ کلاں ضلع ساہیوال،مولانااحمدرضاخان بجنوریؒ،مولاناغلام محمد ؒ جھنگ، مولانا غلام علیؒ،خوشاب،مولاناعبدالغفورؒ،ٹیکسلا،مولانامحب اللہ،لورالائی،مولانا گل حبیب ؒ لورالائی، حاجی عبدالرشیدؒ، رحیم یارخان،حافظ قظب الدین، ساہیوال اورماسٹر محمد شادی خان ، گوجرانوالہ50۔

7.4۔ خانقاہ سراجیہ سے متعلق خانقاہیں

خانقاہ سراجیہ کے شیوخ نے جن حضرات کو خلافت سے سرفراز فرمایا ، ان میں سے چند حضرات نے اپنے شیوخ کے حکم اور اجازت سے مختلف مقامات پر خانقاہیں بنائیں اور اپنے شیوخ والا ہی طرزعمل اختیار کیا۔ ان حضرات کی قائم کردہ خانقاہیں مندرجہ ذیل ہیں: خانقاہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ صدریہ، عید گاہ ہری پور ھزارہ، بانی خانقاہ مولانا قاضی محمد صدرالدین خلیفہ مجازمولانا ابو السعد احمد خانؒ ، خانقاہ سراجیہ بنگلہ دیش ، ڈھاکہ، بانی خانقاہ مولاناسید عبدالسلام احمد ، خلیفہ محاز مولانا ابو السعداحمد خان ،خانقاہ عالیہ کلکتہ ، بنگلہ دیش ، بانی خانقاہ سید عمیم الاحسان، خلیفہ محاز خواجہ ابو السعداحمد خان ، خانقاہ سراجیہ بنانی اور دھان منڈی ڈھاکہ ،بنگلہ دیش، بانی خانقاہ ڈاکٹر محمد علی ؒ، خلیفہ مجاز مولانا محمد عبداللہؒ ،خانقاہ سراجیہ، اس کے علاوہ خواجہ خان محمد ؒ کے خلفائے عظام کی خانقاہیں مندرجہ ذیل ہیں :بانی خانقاہ مولانا حبیب گلؒ،ژوب، کوئٹہ ،خانقاہ سعدیہ نقشبندیہ مجددیہ، ٹیکسلا ، بانی خانقاہ مولانا عبدالغفور قریشی، خانقاہ سراجیہ سعدیہ، مولانا محب اللہ، لورالائی ، بلوچستان اور مولانا نذ الرحمان ، تبلیغی مرکز ، رائیونڈ، لاہور۔

8۔اطاعت الہی اور اتباع سنت رسول ﷺ

اہل تصوف نے ہمیشہ اپنے عقائد ، تصورات اور اعمال کی بنیاد قرآن و سنت ہی کو ٹھہرایا ہے ۔ اس حوالے سے خانقاہ سراجیہ کے شیوخ کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ حضرات ؒ خود عمل پیرا ہو کر متوسلین کو بھی عمل کی جانب گامزن کرتے تھے ، جیسا کہ قاضی شمس الدین ؒ رقمطراز ہیں کہ ہر چند کہ شریعت و طریقت ایک ہی منزل مقصود کی دو راہیں ہیں۔ ایک طرف علماء و فقہاء بھی جب کبھی سلوک و درویشی کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو ان کا قدم بھی جاوہ اعتدال سے ہٹ جاتا ہے اور وہ اپنے سلسلہ کی رسومات کی ادائیگی میں اتنا اہتمام اور شدت اختیار کر جاتے ہیں کہ اتباع سنت کا دامن ہاتھ سے جاتا رہتا ہے اور بدعات کو طریقت سمجھتے ہوئے اعتقادی اور عملی معصیتوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں مگر مولانا ابو السعد احمد خان  اس سے مختلف تھے ۔آپؒ کا ہر عمل سنت کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا اور اپنے متبعین کو بھی اتباع سنت کی تلقین و تاکید فرماتے تھے ۔یہ بھی فرماتے ہیں کہ علمائے ظواہر لوگوں کے کانوں کو سخت نصیحت کرتے ہیں اور ارباب قلوب لوگوں کے دل کو مخاطب کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ کی باطنی توجہ اور صحبت کا اثر یہ تھا کہ اہل معاصی کو حضرت کی صحبت کی برکت سے اپنے معاصی سے خود نفرت ہو جاتی تھی ۔51

علامہ طالوت فرماتے ہیں کہ میں نے ان کی ( مولانا عبداللہ لدھیانویؒ ) مجلس میں بیٹھ کر ہمیشہ شریعت کی پابندی اور پاسداری ہی کا سبق سیکھا اور سلسلہ مجددیہ یا دوسرے بزرگوں کا جو بھی ذکر سنا، صرف یہی سنا کہ وہ کس قدر پابند سنت ، کس قدر بدعت سے پرہیز کرنے والے اور کس قدر پابند شریعت تھے ۔52 لباس میں سنت کا اہتمام اس قدر تھا کہ اسے حضرت والا کی کرامت ہی پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ آپ کا جسم مبارک ذرا بھاری بھر کم تھا اور قوی الجثہ آدمی کا تہبند عموما سرک کر ٹخنوں سے نیچے ہو جایا کرتا ہے، مگر کسی وقت بھی آپ کا تہبند ٹخنوں سے نیچے تو درکنار ان کے متصل بھی دیکھنے میں نہیں آیا، بلکہ ہمیشہ چار یا پانچ انگشت اونچا ہی رہتا تھا ۔آپ ؒکی اصلاح کا انداز نہایت ہی مصلحانہ تھا۔ اتباع شریعت کے اہتمام میں اس قدر سرگرم تھے کہ مسجد آنے یا نکلنے والے کا قدم اگر بے خیالی میں سنت کے خلاف پڑ جاتا تو بلا کر اسے نرمی سے سمجھاتے کہ داخل ہوتے وقت دایاں پاؤں پہلے اندر کرنا اور نکلتے وقت بایاں پاؤں باہر رکھنا چاہیے۔53

اتباع سنت نبوی ﷺکے حوالے سے خواجہ خان محمدؒ مکتوب بنام مولانا غلام یسٰین میں تحریر فرماتے ہیں کہ اصل دین قرآن و سنت اور خلفاء راشدین کی سنت پر مبنی ہے ۔یہی عقیدہ اور عمل امام ربانی مجدد الف ثانیؒ کی تحریک تجدید الف ثانی کا طرہ امتیاز ہے…اتباع سنت کے صراط مستقم پر گامزن رہنا چاہیے۔ 54موجودہ سجادہ نشین خواجہ خلیل احمد مدظلہ بھی ہر صور ت میں اطاعت الہٰی اور سنت نبوی ؐ کی اتباع کا جذبہ برقرار رکھے ہوئے ہیں اور اپنے متوسلین کو بھی اس بات کی تلقین کرتے ہیں۔

9۔ کثرت عبادت اور خاموش مزاجی

عبادت ، مجاہدہ اور ریاضت خانقاہی نظام کی ضرورت اور شان ہے۔ تسبیح خانہ اور مسجد میں ہر وقت ذاکرین ذکر اذکار ،مراقبے اور تلاوت قرآن میں مصروف کار نظر آتے ہیں، یہ سب خاموشی کے ساتھ ہو ناناممکن ہے کیونکہ خانقاہوں میں ہمہ مزاج لوگ اصلاح نفس کے لیے حاضر خدمت ہوتے ہیں۔ خانقاہ سراجیہ کو ایک انفرادیت حاصل ہے کہ اس کی بنیاد سے لے کر آج تک یہاں پر نہ تو عرس وجلسہ ہوتا ہے اور نہ شور شرابہ والی کیفیت کبھی نظر آتی ہے۔ نماز فجر اور نماز عصر کے بعد ختم خواجگان بھی روزانہ پڑھا جاتا ہے۔ عصر کی نماز کے بعد خاص طور پر مکتوبات امام ربانی کے ذریعے سے لوگوں کو تصوف اور اسلامی شریعت سے آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔

10۔رمضان المبارک میں خصوصی عبادات اور دعاؤں کا انتظام واہتمام

خانقاہ سراجیہ کی ایک اور خصوصیت رمضان شریف میں یہاں قیام اللیل اور مجاہدے کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ ہر عشرے میں رات کو ایک قاری تراویح میں قرآن مجید سناتا ہے۔ہر چار رکعت تراویح کے بعد کچھ دیر مراقبہ کیا جاتا ہے ، اس کے بعد اگلی چار رکعت تراویح ، یوں سحری کے وقت کے قریب بیس رکعت تراویح اختتام پذیر ہوتی ہے اور پھر دعا ہوتی ہے، پھر سالکین روزہ رکھ کر تہجد اور نماز فجر کی ادائیگی کرتے ہیں۔ اس کے بعد ختم خواجگان ، شمائل ترمذی کا درس، مراقبہ اور پھر نماز اشراق کی ادائیگی۔ اس کے بعد آرام کا وقت ۔ اس طر ح رمضان شریف میں یہاں تین ختم قرآن نماز تراویح میں سننے کی سعادت حاصل ہوتی ہے ۔ ایسا خوبصورت نظم پورے پاکستان میں خانقاہ سراجیہ میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ آخر ی عشرے میں تو عبادات کا خوب سماں ہوتا ہے۔ پورے پاکستان سےسالکین یہاں اعتکاف کی ادائیگی کے لیےحاضر ہوتے ہیں اور قسمت والوں کو اعتکاف بیٹھنے کی اجازت ملتی ہے۔ہر وقت یہاں لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔تمام افراد کے لیے افطاری و سحری کا انتظام لنگر شریف سے ہی ہوتا ہے۔ ماہ صیام میں یہ عبادات اور مجاہدے کا نظم بانی خانقاہ مولانا ابو السعد احمد خان نے شروع کیا تھا ۔ آپ ؒ کے متوسلین رمضان میں خانقاہ شریف پر آ جایا کرتے تھے اور پورا مہینہ عبادت الٰہی میں مصروف رہتے تھے۔55 ابھی تک وہی نظام مشائخ خانقاہ سراجیہ نے قائم رکھا ہوا ہے۔

11۔دینی سیاست پر اثرات

خانقاہ سراجیہ نے سیاسی حوالے سے اجتماعی طور پر دین اسلام کے غلبے کے لیے ملک کے رائج شدہ اس نظام کو استعمال کرنے کےلئےجمیعت علمائے اسلام پاکستان کی ہمیشہ سرپرستی فرمائی ،لیکن اس خانقاہ کے بزرگوں نے خود کبھی بھی ملکی انتخابات میں حصہ لیا اور نہ ہی اپنے خاندان والوں کو اس کی اجازت دی اور نہ ہی سیاسی طور پر کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کی کو شش فرمائی۔

12۔دعوتی منہج

خانقاہ کے مشائخ نےاثرپذیری کا ایک غیر روایتی اسلوب اختیار کیا۔ یہ حضرات اس بات سےآگاہ تھے کہ دینی عمومی لوازم و فرائض تقریباً تمام اہل اسلام پر واضح ہیں ۔اس لئے ٍدعوت و اصلاح کے آلہ کے طور پر آپ نے فصیح و بلیغ کلام نہیں، بلکہ علمی و عملی پختگی،ورع و تقوی اورانابت الہیہ کے تواتر اور تسلسل کو اصلاح احوال کے سبب کی حیثیت سے اختیار کیا کیونکہ غافل مسلمان کو تبلیغی بیانات سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اخلاص نیت اورضبط نفس کے حوالے سے اس کی کردار سازی کی جائے ، چنانچہ ان حضرات نے دینی مدارس کے علمی جمود کو توڑ کر ان میں عملی تربیت ، قلبی طہارت ، روحانی ریاضت، دینی حمیت،نبوی سیاست اور عصری بصیرت کے اثرات مرتب کئے،دوسری جانب سیاسی عمائدین کے عملی نفاق ،بد عہدی اورعوام کی بد خواہی کو اپنی رضاکارانہ دینی خدمات اور بے لوث قربانیوں سے راہ راست پر لانے کی کوشش کی اور اسی طرح عوام الناس پر مجالس ذکر،پختہ کردار اور دینی استقامت کے ذریعے سے اثرانداز ہوئے۔

اس کے ساتھ خانقاہ کے شیوخ نے خانقاہی دعوتی طریق کار کو مجرد راہ سلوک و طریقت کے منہج سے نکال کر اس میں شرعی علوم کی ترویج و تنظیم ،اصلاح معاشرہ کی رغبت و اہمیت ،مکمل اتباع سنت کے اجتماعی رجحان کو اپنے ہم عصر علماء و مصلحین کے ساتھ مل کر اجاگر کیا اور امت مسلمہ میں ملی اتحاد و اتفاق کا علم بلند کیا ۔

13۔ فلاحی و رفاہی کام

غریب اہل علاقہ کی فلاح و بہبو د کے لیے خانقاہ شریف پر ابو الخلیل ڈسپنسری کا اہتمام کیا گیا ہے ، جہاں ماہر ڈاکٹر ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں ۔ خواتین کے لیے خصوصی طور پر مفت علاج معالجہ کی سہولت موجود ہے۔ لنگر خانہ سے عامتہ الناس مستفید ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ عید الاضحیٰ کے موقع پر اجتماعی قربانیوں کے ذریعے علاقہ کے غریب لوگوں تک گوشت پہنچایا جاتا ہے ۔

14۔ موئے مبارک

خواجہ خان محمدؒ کے دور سے خانقاہ شریف میں رسول اللہ ﷺ کے موئے مبارک بھی ہیں، جو

چاندی کے شو کیس میں موم میں لگا کے رکھے گئے ہیں۔ یہ موئے مبارک حکیم صاحب نابینا دہلوی ؒ سے ملاتھا56۔ ہر سال ستائیس رمضان المبارک کو خانقاہ تشریف لانے والوں کو ان کی زیارت کا موقع میسرآتا ہے۔

 

خلاصہ بحث

بانی خانقاہ مولانا ابوالسعد احمد خان ، ان کے جانشین مولانا عبداللہ لدھیانوی ؒ ، پھر خواجہ خان محمد اور موجودہ سجادہ نشین خواجہ خلیل احمد مدظلہ نے اس خانقاہ کی آبیاری اور لوگوں کے تزکیہ نفس کی ذمہ داری نبھانے کی کماحقہ کوشش کی ہے ۔ان بزرگوں ؒ کی زندگی اصلاح معاشرہ ، دین کی اشاعت و خدمت ، سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے فروغ ، مدارس عربیہ اور دینی جماعتوں کی سرپرستی ، فلاحی و رفاہی کاموں ، اللہ اللہ کرنے کرانے میں اور ختم نبوت کے تحفظ میں گزری ۔ ان بزرگوں کے حلقہ ارادت میں زیادہ تر تعداد علماء کرام کی رہی ہے۔ ان حضرات نے پوری زندگی اطاعت خداوندی اور اتباع سنت نبوی ﷺ میں گزاری اور لوگوں کو بھی اسی کی تلقین کی ۔

خانقاہ کے شیوخ ؒنے کبھی خانقاہ پر عرس ، جلسوں اور صد سالہ پروگراموں وغیرہ کا اہتمام نہ کروایا اور نہ ہی مروجہ تقریروں اور بیانات کا طرز عمل اختیارکیا۔ خانقاہ پر لوگوں کا ہجوم تو ہوتا ہےلیکن خاموشی بھی ساتھ ہوتی ہے۔ ان حضرات ؒ کا فیض لوگوں نے اسی خاموشی میں ہی وصول کیا ۔ یہ حضرات اپنے دو ر کے بہت بڑے لوگوں میں سے تھے ، جن سے عجم تو کیا ، عرب کے لوگ بھی روحانی طور پر مستفید ہوئے۔اکابر ثلاثہؒ کے اخلاص اور دعاؤں کی برکت سے آج بھی اس خانقاہ شریف کا فیض جاری و ساری ہے ۔ یہ خانقاہ آج بھی اسی منہج پر قائم ودائم ہے،جس منہج پر اس خانقاہ کی بنیاد رکھی گئی تھی اوریہ ہر عام و خاص کے لئے ان کی مذہبی ، فکری ،علمی ، سیاسی اور خصوصاً روحانی تربیت کا عظیم مرکز اور مرجع الخلائق ہے۔

نتائج بحث

مقالہ ھذاسے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں:

  • خانقاہ سراجیہ عا مۃ الناس کے لیے عموماًاور علمائےکرام کے لیے خصوصاً مذہبی ، علمی ، سیاسی اور روحانی حوالے سے ایک معیار رہی ہے ۔ اس خانقاہ کے مشائخ علمی ،عملی ،سماجی اور اصلاحی حیثیت سے نہایت موثر شخصیا ت کے مالک رہے ہیں۔

  • اصلاح معاشرہ کے لیے خواص سے رابطہ کے لیے خانقاہ کے مشائخ نے مجد د الف ثانی ؒ کی طرز پر مکتوبات کا سلسلہ اختیار فرمایا۔

  • مشائخ نے خانقاہی نظم کو روایتی مجرد راہ طریقت سے نکال کر اس میں شرعی تعلیم،معاشرتی اصلاح اور مکمل اتباع سنت کے رجحان کو اجاگر کیا اور امت مسلمہ کو ملی اتحاد کی جانب مائل کیا۔

  • خانقاہ سراجیہ مدارس اور دینی جماعتوں کی ہمیشہ سرپرستی فرماتی رہی ہے، نیز فلاحی و رفاہی کاموں میں بھی حصہ لیتی ہے۔

  • عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ان حضرات نے عملی طور پر سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور قائدانہ کردارادا کیا۔

  • خانقاہ کے شیوخ نے دعوت کا غیر روایتی اسلوب اختیار کرتے ہوئے عملی پختگی اور تقوٰی کے تواتر و تسلسل کو اصلاح احوال کے سبب کی حیثیت سے اختیار کیا ،کیونکہ غافل مسلمان کو بیانات سے زیادہ اخلاص نیت، ضبط نفس اورپاکیزہ کردار کی ضرورت ہے۔

     

    حواشی و حوالہ جات

    1 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ :وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ إِلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا»رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتداء میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا ۔ الحاكم ،محمد بن عبد الله،المستدرك على الصحيحين،)دار الكتب العلمية،بيروت۔ 1411 – 1990 (،رقم الحدیث: 8592۔

    Al-Ḥâkim, Muḥammad bin Abd Allāh, Al-Mustadrak 'ala al-Ṣaḥeeḥayn, Beirut: Dār al-Kutub al-Elamiya, 1411 – 1990, Ḥadith No: 8592.

    2 رانجھا ،نذیر احمد ،ڈاکٹر ،تاریخ و تذکرہ خانقاہ سراجیہ نقشبندیہ مجددیہ،(جمیعۃ پبلیکیشنز ، لاہور، 2018(،ص 29۔

    Ranjha, Nazīr Aḥmad, Dr., History and Tazkira Khānqah Sirājiyyah Naqshbandīyah Mujadīyah, Lahore:Jamiat Publications,2018,P:29.

    3حافظ،لدھیانوی،متاع بے بہا،)بیت الادب ،فیصل آباد(. ،ص129۔

    Hafiz, Ludhianwī, Matay Baybaha, Faisalabad:Bait-ul-Adub,P: 129.

    4 Muḥammad umer kirmani,Lt.Col.,Biographical encyclopedia of Pakistan,Lahore:B.E.P, 1996-97,P:880.

    5 رانجھا ،نذیر احمد ،تاریخ و تذکرہ خانقاہ سراجیہ،ص 532۔

    Ranjha, Nazīr Aḥmad, History and Mention of Khānqah Sirājiyyah, P: 532.

    6 نذیر احمد ، حافظ،جائزہ مدارس عربیہ مغربی پاکستان،( مسلم اکادمی، لاہور ،1392ھ/1972ء)، ص351۔

    Nazīr Aḥmad, Hafiz, Review of Madrasa Arabia West Pakistan, Lahore: Muslim Academy, 1392 AH/1972,P: 351.

    7 محبوب الہی،مولانا،تحفہ سعدیہ،کندیاں،( خانقاہ سراجیہ، میانوالی ،2015)،ص128۔

    Maḥbub Elahi,Mawlānā,Tuḥfah e Sadia,Kundian,Mianwali:Khānqah Sirājiyyah,2015,P: 128.

    8 طالوت،علامہ ،حضرت مولانا محمد عبداللہ قدس سرہ العزیز ، ما ہنامہ الصدیق ،(ملتان ،ذولالحجہ 1375ھ/اگست 1956)، ص33-32۔

    Ṭalut, Allama, Ḥazrat Mawlānā Muḥammad Abd Allāh Quddisa sirruhū ʿul-Azīz, Monthly Al-Ṣaddīq, Multān:Dhul-Ḥijjah 1375 AH/August 1956,P: 33-32.

    9 شیخ محمد اکرام،رود کوثر،)ادارہ ثقافت اسلام،لاہور،1990)، ص664۔

    Sheikh Muḥammad Ikram,Raud e Kausar,Lahore:Institute of Islamic Culture,1990,P:664.

    10 قاضی محمد شمس الدین، خانقاہ سراجیہ کا عظیم دینی کتب خانہ، چند ضروری توضیحات، (فکرو نظر ، ج 9 ، ش ،6، 1971), ص 468-467۔

    Qazi Muḥammad Shamsuddin,The Great Religious Library of Khānqah Sirājiyyah, A Few Necessary Explanations, Fikr o Nazar, Vol. 9, No. 6, 1971,P: 468-467.

    11 محبوب الہی ،مولانا، تحفہ سعدیہ،ص203-202۔

    Maḥbub Elahi, Mawlānā, Tuḥfah e Sadia,P: 203-202.

    12 مولانا خان محمد ؒ، مشفق استاد ، ہفت روزہ خدام الدین، (لاہور ،سید بنوری نمبر) ، ص، 90-89۔

    Mawlānā Khan Muḥammad, Mushfiq Ustad, Weekly Khuddam ud Dīn, (Syed Banuri No.) Lahore,P: 90-89.

    13 محبوب الہٰی،مولانا، تحفہ سعدیہ، (کندیاں، میانوالی، دسمبر 1997), ص 124 ۔

    Maḥbub Elahi, Mawlānā, Tuḥfah e Sadia, Mianwali: December 1997,P: 124.

    14 محمد نذیر، رانجھا، تاریخ و تذکرہ خانقاہ سراجیہ، ص 443-442۔

    Muḥammad Nazīr, Ranjha, History and Tazikra Khānqah Sirājiyyah,P: 443-442.

    15 محمد حسین تسبیحی، کتابخانہ ہائے پاکستان، اسلام آباد، (مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، 1977)،جلد اول، ص 514۔

    Muḥammad Ḥussain Tasbihi, Kitabkhana Hay Pakistan, Islamabad,P:ersian Iran and Pakistan Research Center, 1977, Volume I,P: 514.

    16 سید محمد معاویہ بخاری، شیخ المشائخ نمبر، مجلہ صفدر،رمضان المبارک 1431ء(مظہریہ دارالمطالعہ،حق چار اکیڈمی گجرات)،ص524۔

    Syed Muḥammad Muawiyah Bukhari, Shaykh al-Mashaikh No., Majlla Safdar, Ramadan 1431. Muzahriyah Dar ul Mutalia, Haqq Char Academy Gujarat,P: 524.

    17 مولانا اللہ وسایا ، مجلہ صفدر،شیخ المشائخ نمبر، ص112۔

    Mawlānā Allah Wasāya, Mujlla Safdar, Sheikh Al-Mushaikh No.,P: 112.

    18 طالوت، علامہ، حضرت مولانا محمد عبداللہ قدس سرہ العزیز، ماہنامہ الصدیق، (ملتان، ذوالحجہ 1375ھ/ اگست 1956ء)، ص92-

    Ṭalut, Allama, Ḥazrat Mawlānā Muḥammad Abd Allāh Quddisa sirruhū ʿul-Azīz, Monthly Al-Ṣaddīq, Multān:Dhul-Ḥijjah 1375 AH / August 1956,P: 92.

    19 محبوب الہی،مولانا، تحفہ سعدیہ،ص 389۔

    Maḥbub Elahi, Mawlānā, Tuḥfah e Sadia,P: 389.

    20 مولانا اللہ وسایا، تحریک ختم نبوت 1953ء، (ادارہ تا لیفات ختم نبوت ، لاہور، 2008)، ص 441-440۔

    Mawlānā Allah Wasāya, Tehrīk Khatm -e- Nabuwwat 1953, Lahore:Institute of Talīfāt Khatm-e-Nubuwwat, 2008,P: 441-440.

    21 مولانا اللہ وسایا، تذکرہ خواجہ خواجگان، 2010، ص 49۔

    Mawlānā Allah Wasāya,Tazkira Khwāja Khwājagān,2010,P:49.

    22 ایضاً ، ص 56۔

    Ibid,P:56.

    23 ایضاً ، ص65۔

    Ibid,P:65.

    24 محمد اسماعیل، شجاع آبادی، مولانا، لولاک خواجہ خواجگان نمبر ،حضرت خواجہ خان محمد ؒ، ص570۔

    Muḥammad Ismail, Shujā Abadi, Mawlānā, Laulak Khwāja Khwājagān No., Ḥazrat Khwāja Khan Muḥammad,P: 570.

    25 اللہ وسایا،مولانا،تذکرہ خواجہ خواجگان، ص 102۔

    Allah Wasāya, Mawlānā, Tazikrah Khwāja Khwājagān,P: 102.

    26 ایضاً، ص 111-109۔

    Ibid,P: 111-109.

    27 روزنامہ اسلام ،(راولپنڈی،2 جون2010ء)۔

    Daily Islam, Rawalpindi: June 2, 2010.

    28 محبوب الٰہی،مولانا،تحفہ سعدیہ،خانقاہ سراجیہ،(میانوالی ،شعبان 1418ھ/دسمبر 1997ء)، ص 42 ۔

    Maḥbub Elahi, Mawlānā, Tuḥfah e Sadia, Khānqah Sirājiyyah ,Mianwali: Sha'ban 1418 AH/December 1997,P: 42.

    29 ہفت روزہ خدام الدین،(لاہور،19جنوری 1979ء)،ص14-9۔

    Weekly Khuddam ud Dīn,Lahore: 19 January 1979,P: 9-14.

    30 نقشبندی،نذیر احمد،حافظ،حضرات کرام نقشبندیہ،1431,ص344-328۔

    Naqshbandī, Nazīr Aḥmad, Ḥazrat e Kram Naqshbandīyah,1431,P: 344-328.

    31 ہفت روزہ ختم نبوت،(کراچی،14اگست1998)، ص 9 ۔

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat, Karachi: August 14, 1998,P: 9 .

    32 ہفت روزہ نقیب ملت، (لاہور،یکم جون 1983)،ص 11-9۔

    Weekly Naqīb Millat, Lahore:June 1, 1983,P: 11-9.

    33 اللہ وسایا،مولانا،تذکرہ خواجہ خواجگان،ص 246-240   

    Allah Wasāya, Mawlānā, Tazikrah Khwāja Khwājagān,P: 246-240.

    34 ایضاً ،ص 261-255

    Ibid,P: 261-255.

    35 اللّٰہ وسایا،مولانا، تذکرہ خواجہ خواجگان،ص 289-280

    Allah Wasāya, Mawlānā, Tazkira Khwāja Khwājagān,P: 289-280.

    36 ایضاً ، ص 251-247۔

    Ibid,P: 251-247.

    37 ہفت روزہ لولاک ،ج30,ش21 ،ستمبر 1993۔

    Weekly Laulak, Vol. 30, No. 21, September 1993.

    38 اللہ وسایا،مولانا، تذکرہ خواجہ خواجگان، ص 332-328۔

    Allah Wasāya, Mawlānā, Tazikira Khwāja Khwājagān ,P: 332-328.

    39 ایضاً، ص 336-334۔

    Ibid,P:336-334.

    40 محمد نذیر رانجھا، تاریخ و تذکرہ خانقاہ سراجیہ , ص 78 ۔

    Muḥammad Nazīr Ranjha, History and Tazkira Khānqah Sirājiyyah,P:78.

    41 محبوب الٰہی،مولانا،تحفہ سعدیہ،ص380-344۔

    Maḥbub Elahi, Mawlānā, Tuḥfah e Sadia,P: 380-344.

    42محمد نذیر رانجھا ،تاریخ و تذکرہ خانقاہ سراجیہ،ص101-100

    Muḥammad Nazīr Ranjha, History and Tazikrah Khānqah Sirājiyyah,P:101-100.

    43 ایضاً ،ص106-105۔

    Ibid,P: 106-105.

    44 ایضاً ،ص116-110۔

    Ibid ,P: 116-110.

    45 ایضاً ،ص129-128۔

    Ibid,P: 129-128.

    46 ایضاً،ص175۔

    Ibid,P: 175.

    47 ایضاً، ص 358۔

    Ibid,P: 358.

    48 محبوب الہیٰ مولانا، تحفہ سعدیہ،ص 394۔

    Maḥbub Elahi Mawlānā, Tuḥfah e Sadia,P: 394.

    49 ایضاً، ص 396۔

    Ibid,P: 396.

    50 محمد نذیررانجھا ،تاریخ وتذکرہ خانقاہ سراجیہ ،ص402-401۔

    Muḥammad Nazīr Ranjha,History and Tazikra Khānqah Sirājiyyah,P: 402-401.

    51 ایضاً ،ص37۔

    Ibid ,P: 37.

    52 طالوت، علامہ، حضرت مولانا محمد عبداللہ قدس سرہ العزیز، ماہنامہ الصدیق، ص30۔

    Ṭalut, Allama,Ḥazrat Mawlānā Muḥammad Abd Allāh Quddisa sirruhū ʿul Azīz,Mahnama Al-Ṣaddīq,P: 30.

    53 محمد نذیر رانجھا،تاریخ و تذکرہ خانقاہ سراجیہ،ص268۔

    Muḥammad Nazīr Ranjha, History and Tazikra Khānqah Sirājiyyah ,P: 268.

    54 محمد نذیر ،رانجھا، ڈاکٹر، صحائف مرشدیہ، مکتوب 287/6،ص197۔

    Muḥammad Nazīr, Ranjha, Dr., Ṣaḥaif e Murshidīyah, Maktoob 287/6,P: 197.

    55 محمد نذیر رانجھا،تاریخ و تذکرہ خانقاہ سراجیہ،ص80۔

    Muḥammad Nazīr Ranjha, History and Tazikra Khānqah Sirājiyyah,P:80.

    56 اللہ وسایا ، لولاک ، خواجہ خوجگان نمبر، بیاد شیخ المشائخ مر شد العلماء حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ،(عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ملتان،2010ء)،ص55

    Allah Wasāya, Laulak, Khwāja Khwājagān No., Bayad Sheikh Al-Mashaikh Murshid ʿul - ʿul ama,Ḥazrat Mawlānā Khwāja Khan Muḥammad, Aālmi Majlis Tahaffuz Khatm-e-Nubuwwat,Multān: 2010,P: 55.

Loading...
Issue Details
Showing 1 to 15 of 15 entries
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Volume 37 Issue 58
2022
Volume 37 Issue 58
2022
Volume 37 Issue 58
2022
Volume 37 Issue 58
2022
Volume 37 Issue 58
2022
Volume 37 Issue 58
2022
Volume 37 Issue 58
2022
Volume 37 Issue 58
2022
Volume 37 Issue 58
2022
Volume 37 Issue 58
2022
Volume 37 Issue 58
2022
Volume 37 Issue 58
2022
Volume 37 Issue 58
2022
Volume 37 Issue 58
2022
Volume 37 Issue 58
2022
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Showing 1 to 15 of 15 entries
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index