37
57
2022
1682060078052_3029
1-22
https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/download/517/370
https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/view/517
اہل علم و فضل اور حدیث کے ماہرین پر یہ بات مخفی نہیں کہ زبانی کلامی روایت کرنے کے ساتھ ساتھ روایات کو نقل کرنے کے لیے ، دور اول ، قابل اعتماد حدیث کے ترتیب شدہ صحیفوں اور نسخوں سے خالی نہیں رہا مثال کے طور پر سیدنا ابو موسی اشعری ؓ ( 50 ھ) کا صحیفہ ، سیدنا سمرہ بن جندب ؓ (60 ھ) کا نسخہ ، سیدنا عبد اللہ بن عمر و بن عاصؓ (65 ھ) کا صحیفہ صادقہ اور اسی طرح سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاریؓ (79 ھ) کا تیار کردہ صحیفہ وغیر۔
اور یہ سلسلہ پہلی صدی ہجری سے دوسری صدی ہجری تک جاری رہا۔ پھر جب تدوین حدیث کے کام میں وسعت آئی خاص طور پر خلیفہ راشد عمر بن عبد العزیز ؒ کے حکم سے امام محمد بن الشہاب زہری ؒ ( 124ھ) نے اس کار عظیم کر سر انجام دینے کے لئے میدان عمل میں اترے اس دور میں حدیث پر مشتمل بہت سے علمی و فنی اجزا صحیفے اور دیگر نسخے معرض وجود میں آئے مثلا : ابو زبیر ؒ (126 ھ) کا نسخہ ، ایوب سختیانی ؒ ( 131 ھ) کا نسخہ، حمید الطویل ؒ (143 ھ) کا نسخہ اور ہشام بن عروۃ ؒ ( 146 ھ ) وغیرہ کے نسخے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
بعد ازاں حدیث رسول اللہ ﷺ کے موضوع پر بڑی کتب تصنیف کی گئیں جیسے مسانید، جوامع اور دیگر مصنفات وغیرہ اور محدثین حق میں سے سب سے پہلے جنہوں نے حدیث کے موضوع پر قلم اٹھایا اور اپنی مصنفات کو ایک خاص انداز سے ابواب میں ترتیب دیا وہ درج ذیل ہیں:
- ابن جریج ؒ( 150 ھ) مکہ مکرمہ میں
- معمر بن راشد ؒ (154 (154 ھ) یمن میں
- اوزاعی ؒ( 157 ھ) شام میں
- سفیان ثوری ؒ(161 ھ ) کوفہ میں
ربیع بن صبیح ؒ ( 160ھ) ، سعید بن ابی عروبہ ؒ ( 157 ھ ) اور حماد بن ابی سلمہ ؒ (167ھ) بصرہ میں تھے ۔
اسی طرح سے ابن ابی ذئب ؒ( 158 ھ) اور امام مالک بن انس ؒ ( 179 ھ ) مدینہ منورہ میں۔ عبداللہ بن مبارک (181ھ) خراسان میں جبکہ جریر بن عبد الحمید ؒ ( 188ھ ) نے "رے" میں حدیث رسولؐ پر کام کیا ۔ ([1])
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں : یہ سب محدثین تقریبا ایک ہی وقت میں ہوئے لہذا حتمی طور پر یہ جاننا مشکل ہے کہ کس نے سب سے پہلے کتاب تالیف کی اور یہ دور (140 ھ) سے چند سال زیادہ کا ہے ۔([2])
مگر یہ بات معروف ہے کہ امام مالک ؒ کا شمار صف اول کے مصنفین میں ہوتا ہے ۔
تحقیق کا بنیادی سوال:
الجامع الصحیح البخاری کو امت میں تلقی بالقبول کا درجہ حاصل ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی کتاب کے بعد مستند تسلیم کیا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ امام بخاریؒ نے اپنے سے پیش رو محدثین کے تحریری سرمایہ سےکس قدر استفادہ کیا ہے؟ خصوصا مقالہ ہذا میں اس تحقیقی سوال کو حل کیا جائے گا کہ صحیح بخاری کے معرض وجود میں آنے سے پہلے مؤطا امام مالک کو قرآن مجید کے بعد درجہ حاصل تھا اس سے کس قدر امام بخاریؒ نے استفادہ کیا ہے؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ المؤطا امام مالک کا مختصر تعارف پیش کر دیاجائے۔
کتاب المؤطا کی تصنیف :
مدینہ طیبہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے مسکن جہاں کثیر تعداد میں تابعین عظام اور ان کے اساتذہ و
فقہاء اور آگے ان سے روایت کرنے والے علمائے و ائمہ کرام رحمہم اللہ موجود تھے اور جنہوں نے وہاں ایمان ، علم و حکمت اور خیر و برکت کے چشمہ صافی میں غوطہ زن ہو کر حدیث کی تصنیف و تالیف کا شرف پایا ۔ [3] اسی جگہ امام مالک بن انس ؒ ( ت 179 ھ) نے اپنے علم و عمل سے "المؤطا" کی تصنیف کا آغاز کیا ۔
جبکہ ابن ابی ذئب ؒ( 158 ھ) مدینہ منورہ میں امام مالک ؒ کی " المؤطا" سے بھی بڑی ایک "المؤطا" تصنیف کرچکے تھے تو جب امام مالک ؒ سے پوچھا گیا کہ پھر آپ کی تصنیف کا کیا فائدہ ؟ تو انہوں نے جواب میں یہی فرمایا : ‘‘ماکان للہ بقی ’’ یعنی جو عمل اللہ تعالی کی رضا کے لئے ہو وہ باقی رہتا ہے۔[4]
کوئی ایسی نص تو نہیں ملتی جو ہمارے لئے امام مالک ؒ کی تصنیف کی ابتداء کی وضاحت کرتی ہو مگر وہ (اس کی تکمیل میں ) ایک لمبا عرصہ منہمک رہے ۔
امام ابن عبد البر ؒ نے امام اوزاعی ؒ کے فقہاء میں سے ، عمر بن عبد الواحد ؒ کے واسطے سے یہ ذکر کیا ہے عمر بن عبد الواحد ؒ کہتے ہیں " کہ ہم نے "المؤطا" کو امام مالک ؒ پر چالیس دنوں میں پیش کیا تو اس پر انہوں نے کہا ایک ایسی کتاب جسے میں نے چالیس سالوں میں تالیف کیا ہے تم نے تو اسے چالیس دنوں میں ہی ہاتھوں ہاتھ لیا ( یعنی پڑھ لیا )بہت ہی کم ہے جو تم نے اس سے سمجھا (کتنی کم مقدار میں تم نے اسے سمجھا ہو گا)"۔ [5]
اگرچہ ایک ہزار آٹھ سو کے قریب روایات پر مشتمل تصنیف اتنا عرصہ تو نہیں لیتی مگر اس میں مذکور علمی مواد کی باریک بینی سے جانچ پرکھ اور پھر روایات کو تلاش کر کے ایک خاص ترتیب کے ساتھ یکجا کرنے اور آخر میں صحت و سقم کے اعتبار سے نکھارنے پر صاحب کتاب کیلئے ایک بڑا وقت درکار ہوتا ہے اور اسی کی تائید میں عتیق الزبیری سے روایت کردہ یہ قول ہے [6]
امام مالک ؒ نے تقریبا دس ہزار احادیث پر مشتمل "المؤطا" کو تالیف کیا پھر وہ ہمیشہ سے ہر سال اس میں غور رو خوص کر تے اور حذف کرتے رہے یہاں تک کہ ( موجودہ کتاب ) باقی رہ گئی ۔ [7]
حافظ ابن حجر ؒ رقمطراز ہیں:
"امام مالک نے "المؤطا" کو تصنیف کیا اور اس میں اہل حجاز( خاص کر مکہ و مدینہ ) کی مضبوط احادیث کو لانے کا قصد کیا اور صحابہ کرام ، تابعین عظام اور ان کے بعد کے ائمہ محدثین وغیرہ رحمہم اللہ تعالی کے اقوال کو بھی اس میں ملا دیا۔ [8]
اور شاید امام مالک ؒ کی اپنی "المؤطا" کی اپنی تصنیف سے اصل مقصد بھی اہل مدینہ کے فقہی دلائل کو ایک جگہ جمع کرنا تھا نہ کہ صرف ان احادیث رسول اللہ ﷺ کو اکٹھا کرنا جو ان کے ہاں "صحیح" تھیں وگرنہ ہمیں "المؤطا" سے ہٹ کر اس وقت میں دیگر صحیح احادیث بہت بڑی تعداد میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:
" اللہ عز وجل کی کتاب (قرآن حکیم ) کے بعد زمین میں کوئی اور کتاب ایسی نہیں جو مؤطا امام مالک سے زیادہ نفع دینے والی ہو اور جب کوئی اثر ( یا خبر ) امام مالک کی کتاب سے آئے تو وہ ثریا ( آسمان پر سب سے بلند اور روشن ستاروں کا جھمکا) ہے ۔"
نیز موصوف ؒ نے یہ بھی کہا ہے کہ اللہ تعالی کی کتاب ( قرآن حکیم ) کے بعد "مؤطا امام مالک " سے بڑھ کر کتاب درست نہیں مذاہب کے اختلاف کے باوجود تمام فقہاء کے ہاں کتاب نے قبولیت کا شرف پایا جیسا کہ شیخ ولی اللہ دہلوی ؒ نے اس بات کو اپنے ان الفاظ میں تعبیر کیا ہے :
"المؤطا کتاب دیگر تمام کتابوں کی نسبت صحیح ، شہرت یافتہ ، قدیم تر اور جامع ہے امت مرحومہ میں سے اہل علم کا بہت بڑا طبقہ اس پر عمل پیرا ہونے ، اس کی روایت و درایت میں اجتہاد کرنے اور اس کی مشکل پچیدہ مقامات کی وضاحت و تشریح کرنے ، نیز اس کی عبارات کے معانی سے استنباط کرنے اور اس کے اصولوں کو ٹھوس بنیادوں پر اٹھانے پر متفق ہے اور جس نے بھی اپنے مذہب کا دلائل سے جائزہ لینا چاہا اور اپنے جی میں انصاف کی کسوٹی پر اسے پرکھا تو اس نے لا محالہ یہ جان لیا کہ المؤطا کتاب امام مالک ؒ کے مذہب کا اصل ہتھیار اور اس کی بنیاد ہے۔"
امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کے مذہب کا مضبوط ستون اور اس کی چوٹی ہے اور امام ابو حنیفہؒ اور ان کے دونوں شاگردوں( امام یوسف امام محمد ) رحمہم اللہ کے مذہب کا چراغ اور اس کا روشن گلدستہ ہے
یہ مذاہب "المؤطا" کیلئے متون کی شروحات کی سی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ "المؤطا" ان کے لئے بڑے پھیلے ہوئے بار اور درخت کی سر سبز و شاداب شاخوں کے مضبوط تنے کی طرح ہے لوگ اگرچہ امام مالک ؒ کے فتاوی کو رد کرتے اور تسلیم بھی کرتے ہیں ان سے درخوار اعتنا کرتے اور انہیں اہمیت بھی دیتے ہیں مگر ان کا علمی چشمہ صافی ہوتا اور ان کا مذہب نکھرتا ہے تو اس ذریعہ سے جو کہ امام موصوف ؒ تعالی نے "المؤطا " کے ابواب کی ترتیب میں اجتہادی قوت لگائی اور اس کی صحت کے اعتبار سے جانچ پرکھ میں محنت و تگ و دو کی۔[9]
محدثین رحمہم اللہ کا مؤطا امام مالک پر کیسا اعتماد تھا ؟
محدثین رحمہم اللہ نے "المؤطا" کی روایت پر اس کے مولف جلیل القدر امام کی مناسبت سے بہت زیادہ اعتماد کیا خاص کر وہ جو ان کے بعد ہوئے انہوں نے اپنی جوامع اور سنن کی تصنیف و تالیف کے وقت "المؤطا" پر اس حد تک اعتماد کیا کہ اس کا اسلوب ان کی تصانیف میں غالب نظر آتا ہے ۔
قاضی ابو بکر بن العربی ( 543 ھ) کا کہنا ہے "المؤطا" تو اصل لب لباب ہے اور امام بخاری ؒ کی کتاب اس "باب" کی دوسری "اصل " ہے ا نہی دونوں پر ہی تمام محدثین کی کتابوں کی بنیاد ہے جیسا کہ امام مسلم کی "صحیح مسلم" اور امام ترمذی کی "جامع " وغیرہ ۔[10]
مگر یہ دیکھنا ہو گا کہ کسی بھی چیز کی پہچان کے لئے کونسا درست راستہ اور طریقہ ہے مصنفین و محدثین رحمہم اللہ نے "مؤطا امام مالک " یا اس کے علاوہ کسی دوسری کتاب پر اپنی "جوامع " اور "سنن " (کی تکمیل ) میں کیسے استفادہ اور ا عتماد کیا ہے ۔
محدثین کے ہاں تو یہ طریقہ معروف ہے کہ انہوں نے اپنی ذکر کردہ روایات اپنے شیوخ ( اساتذہ کرام) سے براہ راست قرات و سماع( یعنی اپنے استاذ کے سامنے پڑھیں اور اس نے سنیں) یا پھر استاد نے پڑھیں اور شاگرد ( نے سنیں ) کے ذریعے لیں اور اپنی کتب حدیث یا تصنیفات میں ایک خاص ترتیب سے ذکر کر دیں اور ان کے اصل مصادر تک کی صراحت نہیں کی لیکن یہاں اس پر خاص اصطلاحات اور اشارات کا ہونا ضروری ہے مگر باوجود یکہ ہماری اغلبیت ان کی اصطلاحات کو جاننے سے یکسر قاصر رہی ہے تو پھر اگر ہمارا توقف محض راویوں ان کی روایات کردہ روایات اور ان کی خاص اصطلاحات جن کا تعلق کسی بھی وقت یا دور یا کسی بھی درجہ کے محدثین رحمہم اللہ تعالی سے ہے روایت کو لینے کے طریقے یا اس کی ادائیگی کے الفاظ پر ہو اور پھر یہ کہ انہوں نے کس حد تک اپنے تئیں ان قواعد و اصطلاحات کا التزام کیا ہے تو شاید یہ عملی کوشش ہمارے لئے بہت سے علمی حقائق کو واضح کر دے جو اب تک ہم پر مخفی ہے ۔
امام مالک ؒ سے روایت کرنے والے راوی :
امام مالک ؒ سے روایت کرنے والے اس حد تک زیادہ راوی ہیں کہ ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالی میں سے کسی کے بھی اتنی تعداد ہے راوی معلوم نہیں ہو سکے خطیب بغدادی ؒ ( 463 ھ)نے امام مالک کے راویوں کے بارے میں [11] مستقل کتاب تالیف کی ہے اور اس میں سات کم ایک ہزار راویوں کا ذکر کیا ہے یعنی کل نو سو ترانوے راوی شمار کئے ہیں جبکہ قاضی عیاض ؒ نے یہ ذکر کیا ہے کہ انہوں نے امام مالک ؒ کے راویوں کے بارے میں جو کتاب تالیف کی ہے اس میں ایک ہزار تین سو سے اوپر راویوں کے نام ذکر کئے ہیں۔[12]
نیز خطیب بغدادی ؒ ہی کی اسی مذکورہ کتاب کو رشید الدین عطا ر ؒ نے مختصر کیا ہے اور اس میں انہوں نے امام مالک ؒ سے روایت کرنے والے نو سو ستاون راوی ذکر کئے ہیں جبکہ امام مزی ؒ نے امام مالک ؒ کے ترجمہ میں نوے سے اوپر راوی ذکر کئے ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان راویوں کے مابین صرف روایات کو روایت کرنے والے راوی ہیں اور ان میں "مؤطا امام مالک " کے راوی بھی ہیں اور اسی طرح ان میں معروف نسخوں کے وہ راوی بھی ہیں جنہوں نے "مؤطا امام مالک " سے اپنے نسخے نقل کئے ہیں۔
مؤطا امام مالک کے راوی :
حافظ صلاح الدین علائی ؒ کہتے ہیں اہل علم کی بہت بڑی تعداد نے امام مالک ؒ سے "المؤطا" روایت کی ہے اور ان کی روایات میں ، تقدیم و تاخیر ، کمی و بیشی اور اختلافات بھی ہیں قاضی عیاض الدین ؒ نے "المؤطا" کے اکیاسی راوی ذکر کئے ہیں پھر کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ "المؤطا" کے راوی اس تعداد سے بھی کہیں زیادہ ہیں مگر ہم نے یہاں صرف اسی کا ذکر کیا ہے جن کا سماع امام مالک ؒ سے براہ راست ہم تک کسی نص ( پختہ ثبوت) کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے اسی طرح امام مالک ؒ ان کا روایات اخذ کرنا بھی یا پھر جن تک ہماری سند متصل ( طریقے سے ) پہنچی کہ انہوں نے حقیقتا امام مالک ؒ سے روایات لی ہیں۔
اور جن راویوں کا ذکر قاضی عیاض ؒ نے کیا ہے ابن ناصر الدین دمشقی ؒ نے انہیں "اشعار " کی صورت میں ترتیب دیا ہے تاکہ ان کو زبانی یاد کرنا آسان ہو جائے بعد ازاں اپنی ایک عمدہ تالیف میں ان کی نثر بھی کر دی ہے۔[13] اور ان راویوں کے مابین وہ راوی بھی ہیں جنہو ں نے "المؤطا" کے مشہور نسخے روایت کئے ہیں۔
"المؤطا " کے مشہور نسخے :
قاضی عیاض ؒ کہتے ہیں:
"المؤطا کے نسخوں میں سے جو مشہور ہوئے خاص کر ’’ الموطات‘‘ تالیف کرنے والوں نے جسے نقل کیا کم و بیش بیس نسخے ہیں جبکہ بعض دوسروں نے تیس نسخے ذکر کئے ہیں۔
ابو القاسم شافعی ؒ نے کہا ہے :
امام مالک ؒ سے معروف موطات کی تعداد گیار ہ ہے جو اپنے مفہوم و معانی کے اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب ہیں اور ان میں استعمال کی جانے والی چار ہیں۔ [14]
اور المؤطا کے نسخوں کی اصل تعداد کی حد بندی میں علمائے حق کے اختلاف کی وجہ اس کے راویوں کی کثرت ہے اور ہر ایک نے وہی خبر دی ہے جس بارے میں وہ مطلع ہوا اور غافقی ؒ نے اس بارے بارہ روایات (نسخے ) ذکر کی ہیں جو انہیں"المؤطا" کی روایات سے موصول ہوئی ہیں اور وہ یہ ہیں۔
1۔ یحیی بن یحیی المصمودی ؒ کا نسخہ 2۔ عبد اللہ بن وہب ؒ کا نسخہ
3۔ ابن القاسم المصری ؒ کا نسخہ 4۔ معن بن عیسی القزار ؒ کا نسخہ
5۔ عبد اللہ بن مسلمہ القعنبی ؒ کا نسخہ 6۔ عبد اللہ بن یوسف التنیسی ؒ کا نسخہ
7۔ یحیی بن عبد اللہ بن بکیر القرشی المخزومی ؒ کا نسخہ 8۔ سعید بن عفیر ؒ کا نسخہ
9۔ ابو مصعب الزھری ؒ کا نسخہ 10۔ عبد اللہ الزبیری ؒ کا نسخہ
11۔ محمد بن المبارک الصوری ؒ کا نسخہ 12۔ اور سلیمان بن صرد ؒ کا نسخہ۔ [15]
اور امام السیوطی ؒ (911 ھ ) دیگر دو روایتوں ( نسخوں ) پر توقف کیا ہے جو سابق الذکر غافقی ؒ کے ذکر کردہ نسخوں کے علاوہ ہیں اور وہ دونوں درج ذیل ہیں:
1۔ سوید بن سعید ؒ کا نسخہ 2۔ محمد بن حسن الشیبانی ؒ کا نسخہ ۔
جبکہ شیخ محمد زکریا کاندھلوی ؒ نے دو مزید نسخوں کا ذکر کیا ہے جو امام غافقی اور امام سیوطی رحمہما اللہ کے ذکر کردہ نسخوں کے علاوہ ہیں اور وہ دو اور نسخے یہ ہیں:
1۔ ابو حذافہ السہمی ؒ کا نسخہ
2۔ یحیی بن یحیی بن بکیر نیشاپوری ؒ کا نسخہ ۔
اور شاید علمی تحقیق ہمیں مزید "المؤطا" کے نسخوں پر مطلع کر دے ۔ [16]
اور اس کے بعد کہ ہم نے امام مالک ؒ سے روایت کرنے والے راویوں کی بابت جان لیا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے روایت کرنے کے اسلوب ( اصل طریقے و صیغے ) کو بھی جانیں۔
امام مالک ؒ کے طبقے میں تحمل و اداء کے طر ق (صیغے)
امام مالک ؒ نے جو ذکر کیا ہے وہ رایت کرنے کی حقیقی صورت نیز تابعینؒ اور ان کے شاگرد ان باوفا ء میں متداول اسلوب کو جو کہ اہل علم کے اس طبقہ کا سب سے بلند تر درجہ کا طریقہ ہے کو پیش کرتے ہوئے یوں کہتے ہیں:
"ہمارے ہاں سماع کی تین قسمیں ہیں : پہلی قسم یہ ہے کہ تیرا استاد ( عالم ) کے سامنے پڑھنا ( اور اس کا سننا ) دوسری قسم یہ ہے کہ استاد ( عالم ) کا تیرے سامنے پڑھنا اور ( تیرا سننا ) اور تیسری قسم یہ ہے کہ استاد ( عالم ) تیری طرف کتاب بڑھائے جس پر اس کو یقینی دسترس ہے اور وہ کہےکہ اسے میری طرف سے دکھا دو"۔
اگرچہ اس طبقہ کے ائمہ حدیث رحہم اللہ پر پہلا طریقہ کہ عالم (یعنی استاد ) کے سامنے شاگرد کا پڑھنا ہی زیادہ مناسب اور رائج ہے مگر یہ کہ کتاب یا اپنے تمام تر مشروط ضابطوں کے ساتھ نسخے کی اجازت دینا ہی روایت کے مذکورہ بالا تینوں طرق ( اسالیب) میں سے سب سے زیادہ مشہور و متداول ہے خاص کر ائمہ محدثین اور ان کے بڑے شیوخ ( اساتذہ کرام رحمہم اللہ ) کے ہاں ۔
امام مالک ؒ کے طبقہ میں تحمل و اداء کے الفاظ :
جو روایت تو انہوں نے پہلے طریقہ ( شاگرد کا اپنے شیخ کے سامنے پڑھنا ) کے مطابق لی ہے تو اس کی تعبیر انہوں نے ان الفاظ سے کی ہے "قرأت اور قرئی" مطلب یہ ہے کہ میں نے پڑھا یا شیخ کے سامنے پڑھا گیا بہت کم اور کبھی کبھار اگرچہ تعبیر کے اعتبار سے یہ الفاظ سب سے بہتر ہیں سوائے اس شخص کے جس کے پیش نظر روایت کو نقل کرنے کا حکم ہو اور یہ صحیح ہے کہ محض طریقہ نقل کے اعتبار سے انہوں نے ان الفاظ کے ساتھ تعبیر کی ہے (حدثنا ، حدثنی ) مطلب یہ ہے کہ استاد نے مجھے بتایا یا اس نے ہمیں بتایا اور یہ بھی نادر یعنی کبھی کبھار ہی ہوا ہے ۔
ان کے درمیان سب سے زیادہ متداول تعبیر ان الفاظ کے ساتھ تھی ( اخبرنی،اخبرنا ) مطلب یہ ہے کہ استاد نے مجھے خبر دی یا اس نے ہم کو خبر دی اور بہت سے محققین علماء رحمہم اللہ تعالی نے انہی الفاظ کا استخدام کیا ہے اور ان میں وہ اہل علم بھی ہیں جنہوں نے روایت لینے میں پہلے طریقہ کو اختیار کیا ہے ( یعنی شاگرد نے اپنے شیخ کے سامنے پڑھا اور اس نے سنا)
اور جو روایت انہوں نے دوسرے طریقے ( شاگرد نے سنا اور اس کے شیخ نے پڑھا ) کو اختیار کرتے ہوئے لی ہے تو اس کے لئے انہوں نے درج ذیل الفاظ استعمال کئے ہیں:( سمعت اور حدثنی، حدثنا ) مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنے استاد سے سنا اور اس نے مجھے بیان کیا یا اس نے ہم کو بیان کیا ۔
اسی طرح جو انہوں نے تیسرے طریقہ کو اپناتے ہوئے روایات لی ہیں اور وہ طریقہ ہے "اپنے شیخ کی طرف سے نقل کی اجازت " تو اس کے لئے انہوں نے مندرجہ ذیل الفاظ کا استعمال لاتے ہوئے تعبیر کیا ہے ( عن ، قال ) اور ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ فلاں سے یا فلاں نے کہا اور ان میں بہت خاص بڑی حد تک دقت( باریک بینی ) ہے۔
جبکہ یہ دونوں ( حدثنی،حدثنا اور اخبرنی،اخبرنا ) کے الفاظ "روایت کو شیخ کی اجازت سے لینے " کے معنی کو پورے حتمی اور واضح انداز سے ادا نہیں کر پاتے ۔
خاص کر جب ہم نے یہ بات بخوبی جان لی ہے کہ ائمہ محدثین رحمہم اللہ کے ہاں ( حدثنی اور حدثنا ) کا استعمال، روایت لینے کے دوسرے طریقے ( یعنی شاگردوں کا براہ راست اپنے شیخ سے سننا) اور ( اخبرنی اور خبرنا) روایت لینے کے پہلے طریقے ( یعنی شاگردوں کا براہ راست اپنے شیخ کے سامنے پڑھنا) عام متداول اور رائج ہو چکا ہے۔
دوسری جانب ائمہ محدثین رحمہم اللہ تعالی کا لفظ (العننہ) کے استخدام سے روایت لینے کے دوسرے طریقے (یعنی جو شاگرد نے اپنے استاد سے سنا ) کے درمیان اور روایت لینے کے اس تیسرے طریقے ( یعنی شاگرد نے جو اپنے استاد سے اجازت میں لیا ) کے درمیان کوئی معاملہ خلط ملط نہیں ہوتا اور یہ مؤخر الذکر روایت لینے کا طریقہ ( الاجازۃ مع المناولۃ) باقی دو کی نسبت کم ہے ۔
امام مالک ؒ سے روایت کرنے والے راوی اور ‘‘ صحیحین’’ میں ان کی روایات:
امام بخاری ؒ نے اپنی "صحیح" میں امام مالک ؒ سے چھ سو چوالیس احادیث روایت کی ہیں جبکہ ان میں سے بعض روایات کے انہوں نے اپنے اساتذہ کرام سے "متابعات" بھی ذکر کئے ہیں اور بعض دیگر روایات کے متابعات اپنے اساتذہ کے آگے پھر اساتذہ کرام سے ذکر کئے ہیں تو اس اعتبار سے امام بخاری ؒ نے جو روایت کیا ہے اس کی کل تعداد چھ سو اڑسٹھ احادیث سے زیادہ بنتی ہے ۔
امام بخاری ؒ کی امام مالک ؒ سے اپنی صحیح میں روایات اور المؤطا سے ان کی تخریج:
امام بخاری ؒ نے اپنے پندرہ شیوخ ( اساتذہ کرام ) کے واسطے سے امام مالک ؒ سے روایت کی ہے اور ایک درجہ کم امام مالک ؒ کے نو شاگردوں سے روایت کی ہے جبکہ دو درجہ کم امام مالک ؒ کے شاگردوں میں سے صرف ایک شاگرد سے روایت کی ہے نیز ایک روایت امام مالک ؒ سے معلق بیان کی اور اسی طرح امام مالک رحمہما اللہ تعالی کے شاگردوں میں سے صرف ایک شاگرد سے معلق روایت ذکر کی ہے اور اس کی قدرے تفصیل درج ذیل ہے :
1۔ زیادہ تر امام بخاری ؒ نے اپنے شیخ ( استاد) عبد اللہ بن یوسف التنیسی ؒ کے واسطے سے امام مالک ؒ سے روایات لی ہیں جن کی تعداد دو سو ستاسی تک پہنچتی ہے ۔
2۔ اور اپنے شیخ ( استاد) اسماعیل بن اویس ؒ کے واسطے سے امام مالک ؒ سے ایک سو تریسٹھ روایات لی ہیں۔
3۔ اور اپنے شیخ ( استاد) عبد اللہ بن مسلمہ القعنبی کے واسطے سے امام مالک ؒ سے ایک سو نو روایات اور اسی طرح بالترتیب
4۔ اپنے استاد( شیخ ) قتیبہ بن سعید ؒ کے واسطے سے امام مالک ؒ سے اکیس روایات ذکر کی ہیں۔
5۔ اپنے شیخ ( استاد) یحیی بن قزعہ ؒ کے واسطے سے امام مالک ؒ سے پندرہ روایات لی ہیں۔
6۔ اپنے شیخ ( استاد) عبد العزیز بن عبد اللہ ؒ کے واسطے سے امام مالک ؒ سے آٹھ روایات لی ہیں۔
7۔ اپنے شیخ یحیی بن عبد اللہ بن بکیر ؒ کے واسطے سے امام مالک ؒ سے چھ روایات روایت کی ہیں اور اسی طرح سے :
8۔ اپنے شیخ ( استاد) الفضل بن دکین ؒ کے واسطے سے امام مالک ؒ سے پانچ روایات اور بعینہ ۔
9۔ اپنے شیخ ( استاد) یحیی بن یحیی ؒ کے واسطے سے امام مالک ؒسے پانچ روایات لی ہیں۔
10۔ اپنے شیخ ( استاد) الضحاک بن مخلد ؒ کے واسطے سے امام مالک ؒ سے چار روایات لی ہیں۔
11۔ اپنے شیخ ( استاد) روح ؒ کے واسطے سے امام مالک ؒ سے تین روایات بیان کی ہیں اور اسی طرح:
12۔ اپنے شیخ ( استاد) اسحاق بن محمد الفروی ؒ کے واسطے سے امام مالک ؒ سے صرف دو روایات ذکر کی ہیں۔
13۔ اپنے شیخ ( استاد) عبد اللہ بن عبد الوہاب ؒ کے واسطے سے امام مالک ؒ صرف ایک روایت بیان کرتے ہیں۔
14۔ اپنے شیخ ( استاد) سلم بن قتیبہ کے واسطے سے امام مالک ؒ سے صرف ایک روایت اور
15۔ اپنے شیخ (استاد) ہشام بن عبد الملک ؒ کے واسطے سے امام مالک سے بھی صرف ایک روایت لی ہے ۔
اور جو امام بخاری ؒ نے امام مالک ؒ کے شاگردوں میں سے ایک درجہ کم کے راویوں سے روایت کی ہے اس کی تفصیل یہ ہے :
1۔ معن بن عیسی ؒ کے واسطے سے امام مالک ؒسے آٹھ روایات ۔
2۔ جویریہ ؒ کے واسطے سے امام مالک ؒ سے سات روایات۔
3۔ عبد اللہ بن وہب ؒ کے واسطے سے امام مالک ؒ سے پانچ روایات۔
4۔ عبد الرحمان بن مہدی ؒ کے واسطے سے امام مالک سے پانچ روایات ۔
5۔ یحیی بن سعید ؒ کے واسطے سے امام مالک ؒسے تین روایات ۔
6۔ اسماعیل بن جعفر ؒ کے واسطے سے امام مالک سے صرف ایک روایت لی ہے ۔
7۔ محمد بن یحیی الکنعانی ؒ کے واسطے سے ، امام مالک ؒ سے صرف ایک روایت ۔
8۔ عبد اللہ بن مبارک ؒ کے واسطے سے ، امام مالک ؒ سے صرف ایک روایت۔
9۔سفیان ؒ کے واسطے سے ، امام مالک ؒ سے بھی صرف ایک روایت لی ہے ۔
اور امام بخاری ؒ نے امام مالک ؒ کے دو درجہ کم شاگردوں سے جو روایت لی ہے وہ صرف ایک ہے اور وہ ابو اسحاق ابراہیم بن محمد بن خارجہ ؒ کے واسطے سے امام مالک ؒ سے لی ہے ۔
اور جو امام بخاری ؒ نے امام مالک ؒ سے معلق روایت بیان کی ہے وہ براہ راست امام مالک ؒ سے صرف ایک روایت تعلیقا ذکر کی ہے جبکہ دوسری سعید بن داود بن ابی زنبر ؒ کے واسطے سے امام مالک ؒ سے یہ تمام روایات جنہیں امام بخاری ؒ نے اپنی اسانید کے ساتھ امام مالک ؒ سے اپنی "صحیح" میں ذکر کیا ہے ان کی تعداد چھ سو اڑسٹھ ہے تو کیا امام بخاری ؒ نے یہ روایات اسلامی ممالک میں اپنے مختلف اسفار کے دوران اپنے شیوخ ( اساتذہ کرام ) سے براہ راست ان کی زبان سے سنی ہیں؟ یا پھر انہوں نے اس کی بجائے مؤطا امام مالک سے نقل کردہ کسی نسخے پر ہی اعتماد کیا ہے ؟
کیا صحیح بخاری میں امام مالک ؒ سے روایت کرنے والوں میں اصحاب نسخ ہیں؟
تو اس سوال کے جواب میں صحیح بخاری ؒ میں امام مالک ؒ سے روایت کرنے والے ان راویوں کے اور مؤطا امام مالک کے راویوں کے ناموں اور مشہور نسخوں کو مرتب کرنے والے ائمہ کے درمیان تقابل کے نتیجے میں ہم سات کے قریب مؤطا امام مالک سے مرتب کئے گئے مشہور نسخے مرتب کرنے والوں کو پاتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
عبد اللہ بن یوسف التنیسی، اسماعیل بن ابی اویس، یحیی بن عبد اللہ بن بکیر القرشی المخزومی ، یحیی بن یحٰی بن بکیر النیسابوری، معن بن عیسی القزاز، عبد اللہ بن مسلمہ القعنبی اور عبد اللہ بن وہب رحمہم اللہ اجمعین ۔
اور مؤطا امام مالک کے راویوں میں دس وہ راوی جن کی روایات مشہور نہیں وہ یہ ہیں:
قتیبہ بن سعید بن جمیل البلخی، یحیی بن قزعہ، عبد العزیز بن عبد اللہ الاویسی، فضل بن دکین ، روح بن عبادہ ، ہشام بن عبد الملک، جویریۃ بن اسماء، عبد الرحمان بن مھدی ، یحیی بن سعید القطان اور سعد بن داود بن ابی زنبر رحمہم اللہ تعالی اجمعین۔
وہ اشخاص جنہوں نے امام مالک ؒ سے احادیث روایت کیں مگر کوئی نسخہ روایت نہیں کیا ان کی تعداد نو ہے جو درج ذیل ہے :
الضحاک بن مخلد، اسحاق بن محمد الفروی، عبد اللہ بن عبد الوھاب، سلم بن قتیبہ، اسماعیل بن جعفر، محمد بن یحیی الکنعانی ، عبد اللہ بن المبارک ، سفیان اور ابو اسحاق ابراہیم بن محمد بن خارجہ ۔ رحمہم اللہ تعالی اجمعین
صحیح بخاری میں امام مالک ؒ سے روایت کرنے والے راویوں کے ’’ادا‘‘کے صیغے اور الفاظ کی تحقیق اور جائزہ :
یہاں اس کتابی روایت کے قاعدے کی جانب اشارہ کرنا ضروری ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے ہمارے لئے روایات کے بارے میں حکم لگانا ممکن ہو کہ آیا یہ روایات کتابی ( لکھی گئی ) ہیں یا کہ وہ شفوی ( زبانی ) منہ سے سن کر لی
گئی ہیں۔ تو اس سلسلے میں کہتا ہوں کہ :
جب روایت 'ادا'کے ان الفاظ سے وارد ہو (قرات او قرئی علی مالک ) یا پھر ان الفاظ سے آئے ( عن مالک ) اور اسی طرح جب روایت 'ادا' کے ان الفاظ سے ذکر ہو ( اخبرنی ، اخبرنا مالک ) اور پھر خاص کر متعلقہ راوی کے بارے میں یہ بات معروف ہو کہ اس نے المؤطا ہی کو روایت کیا ہے یا پھر وہ المؤطا کے نسخوں میں سے کسی نسخہ کو نقل کرنے والا ہے تو اس وقت ہم وثوق سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ المؤطا سے لی گئی یہ روایات کتابی ہیں ( نہ کہ شفوی ) سوائے اس بات کے کہ کوئی دلیل پائیہ ثبوت کو پہنچ جائے کہ متعلقہ راوی نے 'ادا' کے الفاظ کے استخدام میں مخالفت کی ہے جو کہ ائمہ محدثین کے ہاں رائج ہیں ۔
امام بخاری ؒ اپنے شیخ عبد اللہ بن یوسف التنیسی ؒ سے جو رایات لی ہیں ان کی تعداد دو سو اٹھاسی تک پہنچتی ہے اور یہ ساری روایات 'ادا' کے ایک ہی صیغہ سے وارد ہوئی ہیں اور اس کے الفاظ ( حدثنا عبد اللہ بن ابی یوسف ، قال اخبرنا مالک ) ہیں۔ سوائے روایت نمبر سولہ کے کہ جس میں 'ادا' کے یہ الفاظ ذکر ہوئے ہیں (عبد اللہ بن یوسف عن مالک ) اور روایت نمبر تین ہزار پانچ سو اٹھائیس کے جس میں 'ادا'کے ان الفاظ کا ذکر ہوا ہے (عبد اللہ بن یوسف سمعت مالک ) اور میرا یہ گمان ہے کہ یہاں بعض نقل کرنے والوں کے قلم سے لغزش کھائی ہے ( اور واضح رہے ) کہ یہاں اس طبقہ میں ' اخبرنا ' کا صیغہ شاگرد کی جانب سے اپنے شیخ پر کوئی چیز پیش کئے جانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ عبد اللہ بن یوسف التنیسی 'صاحب نسخہ ' ہیں لہذا اس سے اور بات موکد ہو جاتی ہے کہ امام بخاری ؒ نے یہ روایات اپنے شیخ عبد اللہ بن یوسف التنیسی ؒ کے معروف نسخہ سے سماعا ( یعنی سن کر ) لی ہیں اور یہ بھی کہ یہ روایت کتابی ہے ۔
امام بخاری ؒ کی اپنے شیخ ( استاذ) اسماعیل بن ابی اویس سے روایات کی ہیں ان کی تعداد ایک سو تریسٹھ ہے جو ساری کی ساری ایک ہی صیغہ سے وارد ہوئی ہیں ( حدثنا اسماعیل ، قال حدثنی مالک ) اسماعیل بن ابی اویس ؒ المؤطا سے نقل کرنے والے مشہور صاحب نسخہ ہیں اور ان کا یہ کہنا ( حدثنی ) ہمیں کتابی روایت کے قاعدے کے بارے میں تذبذب میں ڈالتا ہے اس لئے کہ اداء کا یہ صیغہ اس قاعدے سے ( بظاہر) کو میل نہیں کھاتا سوائے اس کے کہ یہاں ایک ایسی نص ہے جو اس اشکال کا ازالہ کرتی نظر آتی ہے ۔
امام بخاری ؒ کے استاد ابن ابی اویس ؒ کہتے ہیں میں نے خود امام مالک ؒ سے سوال کیا اور کہا اے ابو عبد اللہ کتاب آپ پر پیش کی جاتی ہے اور اس عرض ( پیش ) کے وقت دیگر لوگ بھی حاضر ہوتے ہیں تو کیا میرے لئے یا ہر اس دوسرے شخص کے لئے جو وہاں موجود ہو یہ کہنا جائز ہے ( حدثنی مالک ) جبکہ میں نے آپ سے کوئی چیز نہ سنی ہو ۔میں تو فقط اس عرض ( یعنی کتاب یا اس کی روایات پیش کئے جانے کے وقت ) حاضر تھا تو انہوں نے کہا ہاں کیا میں اس وقت حاضر شخص کو سنا نہیں رہا تھا ؟ کہ جب بھی اس سے کوئی خطا سرزد ہوتی تو میں اس پر ( تصحیح کی غرض ) سے لوٹاتا نہیں تھا۔
پھر امام مالک ؒ نے مجھ سے کہا کہ آپ نے قرآن حکیم کس شخص پر پڑھا ہے میں نے جواب دیا نافع بن ابی نعیم پر، پھر امام موصوف نے اپنا سوال دہرایا کہ آپ نے اس پر پڑھا یا انہوں نے آپ پر پڑھا میں نے کہا بلکہ میں نے ہی ان پر قرآن حکیم پڑھا تھا اور جب بھی مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوتی تو وہ اس کو مجھ پر تصحیح کے لئے لوٹاتے تھے تو اس پر امام مالک ؒ نے فرمایا : تو کیا آپ ان سے قرات کی بابت بیان نہیں کرتے جبکہ آپ نے ان سے سنا تو نہیں ؟ تو میں نے جواب میں کہا کیوں نہیں؟
تو اس پر امام مالک ؒ کہنے لگے تو پھر ایسا کرنا جائز ہوا اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ ابن ابی اویس ؒ نے 'اخبرنا ' کے بدلے 'حدثنا' کے لفظ کا استعمال کیا ہے جو کہ اس طبقہ میں اس کے ' کتابی ' ر و ایت ہونے پر دلالت کرتا ہے اسی بنا ء پر میں یہ بات تاکیداً کہہ سکتا ہوں کہ امام بخاری ؒ نے یہ روایات بھی اپنے استاذ محترم اسماعیل بن اویس ؒ کے معروف نسخہ 'سماعا' (یعنی سن کر ) لی ہیں لہذا یہ بھی کتابی روایات ہوئیں۔
3۔ امام بخاری کی اپنے شیخ ( استاد ) عبد اللہ بن مسلمہ سے روایات کی تعداد ایک سو نو تک پہنچتی ہے جو سب کی سب ایک ہی صیغہ سے آئی ہیں( حدثنا عبد اللہ بن مسلمہ ۔۔۔۔۔۔۔ابن قعنب عن مالک ) سوائے ایک روایت کے جو بایں صیغہ ذکر ہوئی ہے کہ (حدثنا عبد اللہ قال قرات علی مالک ) اور تین روایات اس صیغہ سے ذکر ہوئی ہیں کہ (حدثنا عبد اللہ قال اخبرنا مالک ) جبکہ ان میں سے گیارہ روایات درج ذیل صیغہ سے آئی ہیں کہ (حدثنا عبد اللہ قال حدثنا مالک) اور میرا گمان یہ ہے کہ مذکورہ یہ روایات امام المحدثین امام بخاری ؒ نے اپنے استاذ قعنبی کے مشہور نسخے سے لی ہیں باوجود اس کے کہ انہوں نے اپنی گیارہ روایات میں "سماع" میں استعمال ہونے والا صریح صیغہ ( یعنی حدثنا) کا استخدام کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ' عنعنہ' کے صیغے کا استعمال بھی جو خاص طور پر کسی کے نسخہ یا کتاب سے روایت لیتے وقت کی تعبیر میں ذکر کیا جاتا ہے اور یہ اس بناء پر بھی جو کہ خود عبداللہ بن مسلمہ القعنبی ؒ سے وارد ہوا ہے وہ کہتے ہیں :
"میں نے تیس برس تک امام مالک ؒ سے اختلاف کیا اور 'المؤطا' میں کوئی بھی حدیث ایسی نہیں کہ جس بارے میں اگر میں چاہوں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اسے امام مالک ؒ سے سنا ہے مگر میں نے یہاں انہی الفاظ پر اکتفاء کیا ہے کہ ( قرات علی مالک ) اس لئے کہ امام مالک ؒ خود اس بات کے قائل تھے کہ شاگرد کی قرات اپنے عالم (استاذ) پر استاذ کی اپنے شاگرد پر قرات کرنے کی نسبت زیادہ ثابت اور ٹھوس ہے۔"
4۔ امام بخاری ؒ اپنے شیخ ( استاذ ) قتیبہ بن سعید ؒ سے تعداد اکتیس تک پہنچتی ہے اور یہ ساری روایات ایک ہی صیغہ ( حدثنا قتیبۃ عن مالک ) سے ہی وارد ہوئی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ساری روایات امام بخاری ؒ نے اپنے شیخ کے نسخہ سے ہی لی ہیں اگرچہ امام قتیبہ کا یہ نسخہ مشہور نہیں ہے ۔
5۔ امام بخاری ؒ کی اپنے شیخ ( استاذ محترم ) یحیی بن قزعۃ سے روایات کی کل تعداد پندرہ تک پہنچتی ہے جو کہ سوائے ایک روایت کے بائیں صیغہ ذکر ہوئی ہیں ( حدثنا یحیی بن قزعۃ اخبرنا مالک )
موصوف امام یحیی بن قزعۃ 'المؤطا' کے راوی ہیں مگر انہوں نے اکثر روایات میں ایسے الفاظ کا ذکر کیا ہے جو ان کی کتابی روایات ہونے پر دلالت نہیں کرتے اس بارے ترجیح کے لئے واضح موقف نہیں ہے ( کہ اس کی بنیاد پر کسی بات کو ترجیح دے سکوں )
6۔ امام بخاری ؒ کی اپنے شیخ ( استاذ ) عبد العزیز بن عبد اللہ ا لاویسی ؒ سے روایات کی تعداد آٹھ تک پہنچتی ہے یہ تمام روایات درج ذیل صیغے سے ذکر ہوئی ہیں( حدثنا عبد العزیز بن عبد اللہ حدثنا ) اور بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ ( حدثنی مالک ) یہ روایات کتابی نہیں بلکہ شفوی طریق سے روایت کی گئی ہیں۔
7۔ اور امام بخاری ؒ کی اپنے شیخ ( استاذ ) الفضل بن دکین ؒ سے روایات کی کل تعداد پانچ تک پہنچتی ہے جو تمام کی تمام 'ادا' کے اس صیغے سے آئی ہیں کہ ( حدثنا ابو نعیم حدثنا مالک ) سو یہ روایات بھی کتابی نہیں بلکہ شفوی ہیں۔
8۔ اسی طرح امام بخاری ؒ کی اپنے شیخ ( استاذ ) یحیی بن یحیی ؒ سے روایت کردہ روایات کی کل تعداد پانچ ہے جن میں سے دو روایتیں نمبر (2318 اور 4555) ایک ہی صیغے سے آئی ہیں جو کہ یہ ہے کہ ( حدثنا یحیی بن یحیی قال قرات علی مالک ) اور بقیہ تین روایات جو ایک دوسرے کے تابع ( مطلب یہ کہ متابعات ہیں ) کے طور پر ذکر ہوئی ہیں چونکہ امام یحیی بن یحیی ؒ صاحب نسخہ ہیں لہذا یہ روایات' کتابی ' روایات ثابت ہوئیں۔
9۔ امام بخاری ؒ کی اپنے شیخ ( استاذ ) الضحاک بن مخلد ؒ سے روایات کی کل تعداد چار تک پہنچتی ہے جو کہ سب 'ادا' کے اسی ایک صیغہ سے منقول ہیں (حدثنا ابو عاصم عن مالک)
امام موصوف الضحاک ؒ نے یہ کہیں ذکر نہیں کیا کہ وہ صاحب نسخہ ہیں اور نہ یہ کہ وہ 'المؤطا' کے راویوں میں سے ایک ہیں ہاں مگر انہوں نے روایت کرنے میں ادا کے وہ صیغے استعمال کئے ہیں جو ان روایات کے کتابی ہونے پر دلالت کرتے ہیں اور یہاں کوئی ترجیح کیلئے واضح نص موجود نہیں ۔
10۔ سید المحدثین امام بخاری ؒ کی اپنے شیخ ( استاذ ) یحییٰ بن عبد اللہ بن بکیر ؒ سے روایات ، جو انہوں نے آگے امام مالک ؒ سے کی ہیں ، کی کل تعداد چھ ہے جو تمام اس ایک صیغہ سے وارد ہوئی ہیں کہ ( حدثنا یحیی بن بکیر حدثنا مالک ) سو یہ روایات تو کتابی نہیں بلکہ شفوی ( یعنی زبانی کلامیہ سن کر روایات کی گئی ) ہیں ہاں البتہ یحیی بن بکیر ؒ کا ذکر ان لوگوں میں کیا گیاہے جنہوں نے 'المؤطا' روایت کی ہے جبکہ یہاں کوئی ایسی نص بھی نہیں پائی گئی جو ان کے زمانے میں محدثینؒ کے مابین متداول حقائق واقعات کی مخالفت پر دلالت کرتی ہو۔
11۔ اور امام بخاری ؒ کی اپنے شیخ ( استاذ ) روح بن عبادہ ؒ سے روایات کی تعداد تین تک پہنچتی ہے جو کہ محض متابعات ہیں اور چونکہ وہ بطور متابعات کے آئی ہیں لہذا ان کے ادا کا صیغہ بھی واضح نہیں ہے اسی طرح
12۔ امام المحدثین ؒ کی اپنے شیخ ( استاذ ) اسحاق بن محمد الفروی ؒ سے روایت کردہ روایات کی کل تعداد صرف دو ہے جو کہ درج ذیل صیغہ سے آئی ہے کہ ( حدثنا اسحاق الفروی حدثنا مالک ) امام اسحاق ؒ کا شمار ان راویوں میں ہوتا ہے جنہوں نے صرف امام مالک ؒ سے روایت کی ہے لہذا روایت کی یہ قسم 'شفوی' (یعنی زبانی ) ہے نیز
13۔ امام بخاری ؒ کی اپنے شیخ ( استاذ ) عبد اللہ بن عبد الوہاب ؒ سے روایت کردہ روایت صرف ایک ہے جو کہ درج ذیل اداء کے صیغہ سے ذکر ہوئی ہے :
(حدثنا عبد اللہ بن عبد الوھاب، سمعت مالکا، وسالہ عبد اللہ ابن الربیع، احدثک داود)
تو یہ روایت بھی شفوی ہوئی اس لئے کہ امام موصوف عبد اللہ بن عبد الوہاب ؒ ان راویوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے صرف امام مالک سے روایت کی ہے ۔
14۔ امام المحدثین امام بخاری ؒ کی اپنے شیخ ( استاذ ) سلم بن قتیبہ ؒ سے روایت صرف ایک روایت ملتی ہے جو اس صیغہ سے ذکر ہوئی ہے کہ ( حدثنا سلم بن قتیبہ ، حدثنا مالک ) تو یہ روایت بھی شفوی قرار دی گئی ۔
15۔ بعینہ امام بخاری ؒ کی اپنے شیخ ( استاذ ) ہشام بن عبد الملک ؒ سے روایت کی تعداد بھی ایک ہے جو کہ درج ذیل صیغہ سے ذکر کی گئی ہے کہ
( حدثنا ہشام بن عبد الملک عن مالک ) امام موصوف ہشام ؒ 'المؤطا' کے راویوں میں سے ہیں اور انہوں نے روایت کرتے ہوئے "صیغہ عن " سے تعبیر کیا ہے سو یہ روایت 'کتابی روایت ' ہوئی ۔
وہ روایات جو امام بخاری ؒ نے ایک درجہ کم کے راویوں سے روایت کی ہیں۔
1۔ معن بن عیسی ؒ کے واسطے سے امام بخاری ؒ کی روایات کی تعداد آٹھ تک پہنچتی ہے ان میں سے چھ روایات اداء کے اس صیغہ سے آئی ہیں کہ ( حدثنا ابراہیم المنذر ، قال حدثنی معن، قال حدثنی مالک ) جبکہ بقیہ دو روایتیں (236 اور 4571) اس صیغے سے ذکر ہوئی ہیں کہ ( حدثنا علی بن عبد اللہ ، قال حدثنی معن، قال حدثنی مالک)
معن بن عیسی 'صاحب نسخہ' ہیں مگر انہوں نے امام مالک ؒ سے روایت کرتے وقت ( حدثنی ) کے الفاظ سے تعبیر کی ہے اور یہاں کوئی ایسی نص بھی نہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ وہ اپنی روایت میں "اخبرنی " کے بدل کے طور پر 'حدثنی ' کا صیغہ استعمال کرتے تھے جیسا کہ معاملہ روایت کرتے وقت ابن ابی اویس کے ساتھ تھا۔
2۔ جویریۃ کے واسطے سے امام بخاری ؒ کی روایات کی کل تعداد سات تک پہنچتی ہے جن میں سے چھ روایات درج ذیل صیغہ سے آئی ہیں:
(حدثنا عبد اللہ بن محمد بن اسماء قال حدثنا جویرۃ عن مالک ) اور بقیہ ایک روایت نمبر 1707 متابعت کے طور پر ذکر ہوئی ہے موصوف جویریۃ 'المؤطا' کے راویوں میں سے ایک ہیں سو یہ کتابی روایت باور ہوئی ۔
3۔ عبد اللہ بن وھب کے واسطے سے امام بخاری کی روایات کی تعداد چھ تک پہنچتی ہے جو کہ سوائے ایک روایت کے ساری کی ساری درج ذیل صیغہ سے ذکر ہوئی ہیں :
(حدثنا یحیی بن سلیمان ، قال حدثنی ابن وھب قال حدثنی مالک ) اور بقیہ چھٹی روایت (نمبر 2372) امام بخاری ؒ کے شیخ ( استاذ ) محمد بن عبد اللہ سے بایں صیغہ سے آئی ہے کہ ( عن شیخہ محمد بن عبد اللہ قال حدثنی اببن وھب قال حدثنی مالک ) عبد اللہ بن وہب صاحب نسخہ ہیں اور اپنے روایت کرنے کو حدثنی کے صیغے سے تعبیر کیا ہے جبکہ وہ صاحب کتب ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی یہ روایات غیر کتابی ( یعنی شفوی اور زبانی ) ہیں۔
4۔ عبد الرحمان بن مھدی کے واسطے سے امام بخاری ؒ کی روایات کی تعداد پانچ تک جا پہنچتی ہے جو ان کے متعدد شیوخ ( اساتذہ کرام ) جیسے صدقۃ ، محمد بن المثنی ، محمد بن عبد اللہ اور عمرو بن علی ) کے وائے سے بایں صیغہ سے آئی ہے (قال ابن مھدی عن مالک ) ما سوائے ایک روایت ( نمبر 6790) کے جو اس صیغہ سے ذکر ہوئی ہے (قال لابن مھدی حدثنا مالک ) اور امام ابن مہدی ؒ 'المؤطا' کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں لہذا مذکورہ پانچوں 'روایات کتابی' ہیں ۔
5۔ یحیی بن سعید ؒ کے واسطے سے امام بخاری کی روایات کی تعداد تین تک پہنچتی ہے جو ما سوائے ایک روایت کے بایں صیغہ سے ذکر ہوئی ہیں ( حدثنا مسدد قال حدثنا یحیی عن مالک)
جبکہ باقی ایک روایت ( نمبر 6416) اس ادائے صیغہ سے ذکر ہوئی کہ ( قال یحیی عن سفیان و مالک ) یحیی بن سعید القطان ؒ نے 'المؤطا' کو روایت کیا ہے لہذا یہ بھی کتابی روایت ہے ۔
6۔ اسماعیل بن جعفر کے واسطے سے امام بخاری ؒ کی صرف دو ہی روایتیں ذکر ہوئی ہیں اور وہ بھی متابعات کے ضمن میں اور پھر ان کی روایت کا صیغہ ( تحمل ) بھی واضح نہیں ۔
7۔ اسی طرح محمد بن یحیی الکنعانی ؒ کے واسطے سے سید المحدثین امام بخاری ؒ کی صرف ایک ہی روایت ذکر ہوئی ہے جو کہ درج ذیل صیغہ سے روایت کی گئی ہے ۔
( حدثنا ابو احمد بن حمویہ عن محمد بن یحیی عن مالک ) تو یہ روایت شفوی ہے ۔
8۔ عبد اللہ بن المبارک ؒ کے واسطے سے بھی ایک ہی روایت آئی ہے جس کا صیغہ اداء یہ ہے کہ (حدثنا معاذ بن اسد اخبرنا ابن المبارک اخبرنا مالک ) تو یہ روایت بھی 'شفوی' ہے اس لیے کہ عبد اللہ بن المبارک ؒ ان راویوں میں ذکر نہیں کئے جاتے جنہوں نے 'المؤطا' کو روایت کیا ہے اور وہ تو ان راویوں میں سے ہیں جو روایت لیتے وقت 'اخبرنا ' کے علاوہ اور کوئی صیغہ استعمال میں نہیں لاتے ۔ ( دیکھئے الالماع: 130)
9۔ سفیان بن عیینہ ؒ کے واسطے سے امام المحدثین امام بخاری ؒ کی صرف ایک ہی روایت آئی ہے جو بایں صیغہ ذکر ہوئی ہے ( حدثنا الحمیدی حدثنا سفیان قال سمعت مالک) تو اس طرح سے یہ روایت بھی 'شفوی ' ٹھہری۔
امام بخاری ؒ نے جو روایات دو درجہ کم کے راویوں سے بیان کی ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
ابو اسحاق ابراہیم بن محمد بن خارجہ کے واسطے سے امام بخاری ؒ نے صرف ایک ہی روایت کی ہے جو بایں صیغہ سے وارد ہوئی (حدثنا عبد اللہ بن محمد، حدثنا معاویۃ بن عمر،حدثنا ابو اسحاق عن مالک) تو یہ روایت بھی 'شفوی ' ٹھہری اس لئے کہ ابن خارجہ سے متعلق یہ باور نہیں ہو سکا کہ انہوں نے براہ راست ' المؤطا' کو روایت کیا ہے ۔
جو امام بخاری ؒ نے 'تعلیقا' روایت کی ہے تو وہ ایک روایت ہے جو سعید بن داود بن ابی زنبر کے واسطے سے درج ذیل ہے ( قال سعید عن مالک ) اور ایک دوسری روایت میں یہ ' صیغہ'استعمال کیا گیا ہے ( قال مالک) یہ دونوں مذکورہ روایتیں کتابی ہیں نہ کہ شفوی اس لئے کہ ابن زنبر ؒ راوی 'المؤطا' کے راویوں میں سے ہے اور امام بخاری ؒ کا یہ انداز تھا کہ جب بھی وہ امام مالک ؒ سے حتمی طور پر کوئی معلق روایت کرتے تو وہ 'المؤطا ' کے اس نسخہ سے روایت لیتے جس سے روایت کرنے کا انہیں حق پہنچتا ۔
جعفر نیشاپوری ؒ کہتے ہیں :
"جس راوی کے بارے میں امام بخاری ؒ جب ایسے الفاظ کہتے ہیں کہ ’’قال لی فلان‘‘، تو ایسی صورت ’عرض ‘ اور ’مناولۃ‘ کی ہے ۔
روایات کی تعداد |
امام مالک سے امام بخاری کے شیوخ |
ان کے شیخ کے شیخ سے |
آگے ان کے شیخ کے شیخ سے |
امام مالک سے |
تحمل کا صیغہ |
راوی کا معروف نسخہ |
المؤطا کے راوی |
احادیث کے راوی |
حتمی نتیجہ |
|
||||||||
287 |
التنیسی |
ہاں |
× |
× |
اخبرنا |
ہاں |
× |
× |
کتابی روایت |
|
||||||||
163 |
ابن ابی اویس |
ہاں |
× |
× |
حدثنا کے بدلے اخبرنا |
ہاں |
× |
× |
کتابی روایت |
|
||||||||
109 |
القعنبی |
ہاں |
× |
× |
اخبرنا سے 98 روایات |
ہاں |
× |
× |
کتابی روایت |
|
||||||||
21 |
قتیبہ بن سعید |
ہاں |
× |
× |
عن |
|
ہاں |
× |
کتابی روایت |
|
||||||||
15 |
یحیی بن قزعۃ |
ہاں |
× |
× |
حدثنا |
|
ہاں |
× |
غیر واضح |
|
||||||||
8 |
عبد العزیز الاویسی |
ہاں |
× |
× |
حدثنا و حدثنی |
|
ہاں |
× |
شفوی روایت |
|
||||||||
6 |
یحیی بن بکیر |
ہاں |
× |
× |
حدثنا |
|
ہاں |
× |
شفوی روایت |
|
||||||||
5 |
الفضل بن دکین |
ہاں |
× |
× |
حدثنا |
|
ہاں |
× |
شفوی روایت |
|
||||||||
5 |
یحیی بن یحیی نیشاپوری |
ہاں |
× |
× |
قرات علی |
ہاں |
|
× |
کتابی روایت |
|
||||||||
4 |
الضحاک بن مخلد |
ہاں |
× |
× |
عن |
× |
× |
ہاں |
شفوی روایت |
|
||||||||
3 |
روح |
ہاں |
× |
× |
متابعات کے ضمن میں |
× |
ہاں |
× |
غیر واضح |
|
||||||||
2 |
اسحاق الفری |
ہاں |
× |
× |
حدثنا |
× |
× |
ہاں |
شفوی روایت |
|
||||||||
1 |
عبد اللہ بن عبد الوہاب |
ہاں |
× |
× |
احدثک داود |
× |
× |
ہاں |
شفوی روایت |
|
||||||||
1 |
مسلم ابو قتیبہ |
ہاں |
× |
× |
حدثنا |
× |
× |
ہاں |
شفوی روایت |
|
||||||||
1 |
ہشام بن عبد الملک |
ہاں |
× |
× |
عن |
× |
ہاں |
× |
کتابی روایت |
|
||||||||
روایات کی تعداد |
امام مالک سے امام بخاری کے شیوخ |
ان کے شیخ کے شیخ سے |
آگے ان کے شیخ کے شیخ سے |
امام مالک سے |
تحمل کا صیغہ |
راوی کا معروف نسخہ |
المؤطا کے راوی |
احادیث کے راوی |
حتمی نتیجہ |
|||||||||
287 |
التنیسی |
ہاں |
× |
|
اخبرنا |
ہاں |
|
|
کتابی روایت |
|||||||||
روایات کی تعداد |
امام مالک سے امام بخاری کے شیوخ |
ان کے شیخ کے شیخ سے |
آگے ان کے شیخ کے شیخ سے |
امام مالک سے |
تحمل کا صیغہ |
راوی کا نسخہ |
المؤطا کے راوی |
احادیث کے راوی |
حتمی نتیجہ |
|||||||||
8 |
× |
× |
معن بن عیسی |
ہاں |
حدثنی |
ہاں |
× |
× |
شفوی روایت |
|||||||||
7 |
× |
× |
جویریۃ بن اسماء |
ہاں |
عن |
× |
ہاں |
× |
کتابی روایت |
|||||||||
6 |
× |
× |
ابن وھب |
ہاں |
حدثنی |
ہاں |
× |
× |
شفوی روایت |
|||||||||
5 |
× |
× |
ابن مھدی |
ہاں |
عن |
× |
ہاں |
× |
کتابی روایت |
|||||||||
3 |
× |
× |
یحیی بن سیعد |
ہاں |
عن |
× |
ہاں |
× |
کتابی روایت |
|||||||||
2 |
× |
× |
اسماعیل بن جعفر |
ہاں |
متابعات کے ضمن میں |
× |
× |
ہاں |
غیر واضح |
|||||||||
1 |
× |
× |
محمد الکنانی |
ہاں |
عن |
× |
× |
ہاں |
شفوی روایت |
|||||||||
1 |
× |
× |
ابن المبارک |
ہاں |
اخبرنا |
× |
× |
ہاں |
شفوی روایت |
|||||||||
1 |
× |
× |
ابن عیینۃ |
ہاں |
سمعت |
× |
× |
ہاں |
شفوی روایت |
|||||||||
1 |
× |
× |
ابن خارجہ |
ہاں |
عن |
× |
× |
ہاں |
شفوی روایت |
|||||||||
1 |
× |
× |
معلق ہے |
ہاں |
عن |
× |
ہاں |
× |
کتابی روایت |
|||||||||
1 |
× |
× |
معلق ہے |
ہاں |
معلق ہے |
× |
× |
× |
کتابی روایت |
|||||||||
نوٹ : اوپر دیئے گئے جدول (خاکے ) کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے جو روایات امام مالک ؒ سے روایت کی ہیں ان کی مجموعی تعداد چھ سو اڑسٹھ (668) ہیں جن میں بیس روایات جو تین مختلف راویوں کے واسطے سے آئی ہیں ان کی نسبت % 2.99فیصد ہے چوالیس روایات شفوی جو کہ تیرہ راویوں کے واسطے سے آئی ہیں ان کی نسبت 6.59 فیصد ہے اور 604 کتابی روایات ، المؤطا کے گیارہ مختلف راویوں سے ذکر ہوئی ہیں جن میں سے چار مشہور اصحاب نسخہ ہیں اس طرح ان کی نسبت 90.42 فی صد ہے ۔
ہم المؤطا سے نقل کرنے والے سات اصحاب نسخہ ایسے پاتے ہیں ہیں جو کہ معروف ہیں اور ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں :
عبد اللہ بن یوسف التنیسی، اسماعیل بن ابی اویس، یحیی بن عبد اللہ بن بکیر القرشی المخزومی ، یحیی بن یحیی بکیر نیشاپوری، معن بن عیسی القزاز، عبد اللہ بن مسلمۃ القعنبی اور عبد اللہ بن وھب رحمہم اللہ تعالی اجمعین ۔
ملاحظہ :
دس راوی 'المؤطا' کے راویوں میں سے ایسے ہیں جنکی روایات مشہور نہیں ہو پائیں۔
خلاصۃ البحث:
امام بخاری ؒ نے اپنی "صحیح " میں امام مالک ؒ سے کل 668 روایات روایت کی ہیں جن میں سے 604 روایات کتابی ہیں جن کو انہوں نے 'المؤطا' کے نسخوں میں سے دس نسخوں سے اخذ کیا ہے تو اس طرح ان روایات کی نسبت تمام روایات میں 90 فی صد سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ بعینہ امام مسلم ؒ نے اپنی "صحیح" میں امام مالک ؒ سے کل 389 روایات روایت کی ہیں جن میں سے 312 کتابی روایات ہیں جنہیں امام موصوف ؒ نے "المؤطا" کے نسخوں میں سے آٹھ نسخوں سے اخذ کیا ہے تو اس طرح سے ان روایات کی نسبت ان تمام روایات میں 80 فی صد سے بھی زیادہ ہے۔
حواشی و حوالہ جات
[1] ۔ أبو الفضل القاضي عياض بن موسى،تَرتیب المَدارِک، دار الكلمة للنشر والتوزيع، بیروت، 2012ء، 1/33،نیز امام الزَّرقَانی ؒ! نے ان سے اپنی ’’المُؤطّا‘‘ کی شرح میں نقل کیا ہے۔ دیکھئے :1/6اور کتاب ’’المؤطّا‘‘ کے محقِّق سلَیم الْھِلالی نے انہیں اپنی آٹھ روایات کے ساتھ ’’المقدر‘‘ میں ترتیب دیاہے ۔ 1/132۔
Abu alfaẓal alqāzī Ayāz bin Mūsa, tartīb almadārik, dār alkalimah lin nashr waltūzie, Beirūt,2012, 1/132
[2] دیکھئے: مُقدَّمۃ:ڈاکٹر محمّد عبداللہ ولد کریم جو کہ ’’مؤطّأ امام مالک‘‘ بن اَنس ؒ! کی شرح میں لکھی جانے والی کتاب’القَبس‘ کی تحقیق میں ہے۔1/58۔
Dr. Muhammad Abdullah bin Karīm, mū’tta imām mālik,1/58
[3] ۔ حاجی خلیفہ، مصطفی بن عبداللہ کاتب جلبی،کَشْفُ الظُّنُون، دار الفکر، بیروت، 2007ء، 2/177۔
Ḥāji Khalifah, Mustafā Bin Abdullah Kātib Jalbī, Kashf Al-Zunūn, Dār Al-Fikr, Beirūt, 2007, 2/177
[4] ۔ مُسْنَد المؤطَّأ، امام محمد بن اسلم غافقی ؒ ! کی /نیز دیکھئے : السیوطی، تَنْوِیْرُ الْحَوالِک، 1/10؛ اَوْجز المَسَالک، 1/36۔
Musnad Al-Mū'tta, Imām Muhammad Bin Aslam Ghāfaqī, 1/10
[5] ۔ جلال الدين السيوطي عبد الرحمن بن أبي بكر، تَنْوِیرُ الْحَوَالِک، المكتبة التجارية الكبرى ، بیروت، 1445ھ،1/10؛شیخ عبدالحیّ لکھنوی ؒ ! نے اپنی کتاب ’’التَّعْلِیْقُ الممجَّد عَلٰی مؤطَّأ مُحمَّد‘‘ کے مُقدَّمہ میں ، جبکہ شیخ الشَّنْقیطی ؒ! نے اپنی کتاب ’’دَلِیْلُ السَّالِک إلٰی مؤطَّأ الامَام مَالِک‘‘ میں ’’المؤطَّأ‘‘ کے چودہ نُسخے ذکر کئے ہیں۔
Jalāl aldin al suyūtī abdul al rahmān bin 'abī bakar, tanwīr alḥawālik, almaktabat altijāriah alkubrā, Beirū,1445, 1/10
[6] ۔ محمد زكريا الكاندهلوي، أوجز المسالك إلى موطأ مالك، دار القلم، بیروت، 1424ھ، 1/36۔
Muhamad zakaria alkandilavī, 'ojaz almasālik 'ilaā mūtta mālik, dār al qalam, Beirūt, 1424, 1/36
[7] ۔ أبو الفضل، عياض موسى، الإلْماع، دار التراث، القاهرة، تونس،1379ھ،1/74۔
Abū alfaẓal, eiaz mūsā, al'ilmā, dār altarātḥ, alqāhira, tūnis, 1379, 1/74
[8] ۔ یہ ہماری اس ’’بحث‘‘ کا خلاصہ ہے (لِمَاذا روی بَعِصُ التَّابِعِیْنِ وَاَئِمَّۃُ أتْبَاعِ التَّابِعِیْنَ بِصِینَعۃِ العَنعَۃُ ۔(
[9] ۔ بَرْنَامج الموسُوْعَۃ الْحَدِیْثِیَّۃ، الاضدَار الثَّالِث مِنْ شرِکۃ، ص43۔ حَرف اور بَرْنَامج المکتبۃ الألفیۃ للسنُّۃ النبَّوِیَّۃِ، الاصْدَار الثَّالِثُ مِنَ التُّرَاثِ۔
Barnāmj almwsuāh al Ḥadithiyah, aladdar al ṭḥalīth men shrika, p43
[10] ۔ ان جُملہ دو سو ستاسی روایات کی کمپیوٹر میں نشاندہی کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے : پہلی رقم سیَاہ خط (لکیر) کے ساتھ جو کہ ’’صحیح بُخاری‘‘ میں ، شیخ محمّد فؤاد عبدالبَاقی ؒ! کے ترتیب شُدہ أحادیث کے نمبروں کے مطابق روایت کے نمبر کی جانب اشارہ کرتی ہے ۔ جبکہ دوسری رقم سُرخ خط (لکیر) کے ساتھ واضح کی گئی ہے ، جو کہ شیخ محمّد فؤاد عبدالباقی ؒ! کے ہی ترتیب شُدہ نمبروں کے مطابق ’’المؤطّا‘‘ میں روایت کی تخریج کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ روایات کے نمبرز (Numbers) درج ذیل ہیں۔ (2/474)سے لیکر آخر تک (7463/ 974/ 999/1012) ۔
[11] ۔ ان تمام مَذکُورہ روایات کے نمبرز (Numbers) بھی شیخ محمّد فُوّاد عبدالباقی ؒ ! کے ترتیب شُدہ نمبرز کی بُنیاد پر رَقم کئے گئے ہیں۔ جو کہ درج ذیل ہَیں۔ (۴۶/۴۲۵) ......... سے لیکر آخر تک (۷۵۴۸/۱۵۳)
[12] ان مذکُورۃ ایک سو نو ۱۰۹ روایات کے نمبروں (Numbers) کی ترتیب، شیخ محمّد فُؤاد عبدالباقی ؒ! کے ترتیب دئیے ہوئے أحادیث کے نمبروں (Numbers) پر رکھی گئی ہے ۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
(۲۹/۴۴۵)،........ سے لیکر آخر تک (۷۳۳۱/۱۰۲۰/۱۶۳۶)
[13] ۔ ان روایات کے نمبرز (Numbers) درج ذَیل ہَیں: (۶۵۴/۱۵۱/۲۹۵)، (۱۱۱۳/۳۰۷) ....... سے لے کر آخر تک (۷۴۸۶/۴۱۳)
[14] ۔ ان مذکُورہ پندرہ ۱۵ روایات کے نمبرز (Numbers) حسبِ ذیل ہیں: (۲۰۵۳/۱۴۴۹) .... سے لے کر آخر تک (۷۲۵۳/۱۵۹۹)
[15] ۔ ان مَذکورہ آٹھ 8 روایات کے نمبرز (Numbers) درج ذیل ہیں۔ (۱۱۸) ،(۳۲۵۶) ...... سے لےکر آخر تک (۷۳۹۳)
[16] ۔ ان مذکُورہ چھ۶ روایات کے نمبروں کی تفصیل حسبِ ذَیل ہے، جو کہ شیخ محمّد فؤاد عبدُ الباقی ؒ! کی دی گئی ترتیب پر اعتماد کرتے ہُوئے رقم کی گئی ہے ۔ (۲۴۳۶/۱۴۸۲)...... سے لیکر آخر تک (۴۹۷۵)
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 37 Issue 57 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 57 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 57 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 57 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 57 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 57 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 57 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 57 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 57 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 57 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 57 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 57 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 57 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 57 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 57 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 57 | 2022 | ||
Volume 37 Issue 57 | 2022 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |