Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Az̤vā > Volume 37 Issue 57 of Al-Az̤vā

حالات و زمانہ کی رعایت سے متعلق جمہور فقہاء کرام کی تصریحات (عصر حاضر کے تناظر میں ایک مطالعہ) |
Al-Az̤vā
Al-Az̤vā

Article Info
Authors

Volume

37

Issue

57

Year

2022

ARI Id

1682060078052_3030

Pages

23-46

DOI

10.51506/al-az̤vā.v37i57.444

PDF URL

https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/download/444/371

Chapter URL

https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/view/444

Subjects

Circumstances Change Rules of Shariah Jurists Contemporary issues Workable solutions

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ حالات و زمانہ کے تبدیل ہونے سے انسانی مزاج میں تبدیلی آتی ہے جس سے اس کی ضروریات اور حاجات بھی بدل جاتی ہیں ۔ انتہائی سادگی سے شروع ہونے والی انسانی زندگی مختلف ادوار سے گزرتی ہوئی تبدیل ہوتی چلی گئی ۔انسان کے رہن سہن،طرز بود و باش اور اسلوب حیات میں حیران کن تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں ۔اگر ہم اپنے مرحوم دادا یا پردادا کے احوال دیکھیں اور معاصر صورت حال کا جائزہ لیں تو اس تغیر کو سمجھنا مشکل محسوس نہیں ہوگا ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء کرام کو ملنے والے مختلف احکام بھی تبدیل ہوتے رہے،بعض احکام منسوخ کر دیئے گئے اور بعض کو نرم یا ضرورت کے مطابق سخت کر دیا گیا ۔حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں بھائی بہنوں کے باہمی نکاح کو جائز رکھا گیا تاکہ نسل انسانی کا سلسلہ آگے بڑھ سکے بعد میں اس سے منع کر دیا گیا ،طوفان نوح کے بعد جانورں کی قلت کی بناء پر ہر طرح کے جانور کا گوشت مباح کر دیا گیا بعد میں اس سے منع کر دیا گیا۔ اسی طرح دو بہنیں ایک ہی وقت میں حضرت یعقوب علیہ اسلام کے نکاح میں تھی بعد ازاں ممنوع قرار پایا ۔علی ھذا القیاس نبی کریم ﷺ اور خلفاء راشدین کے زمانہ میں بھی ایسی تبدیلیاں ہوتی رہیں اور انہیں حالات و زمانہ کے ساتھ منسلک کیا گیا جیسے زیارت قبور سے ممانعت کے بعد اجازت ،قربانی کے گوشت کو تین دن رکھنے کی پابندی کے بعد زیادہ دیر رکھنے کی اجازت،خواتین کے مسجد میں آنے کی ممانعت،وغیرہ لہذا معلوم ہوا کہ جب انسانی زندگی کے احوال میں تغیر ضروری ہے تو اس پر نافذ ہونے والے احکام میں بھی تبدیلی ہوگی چاہے وہ تبدیلی عارضی ہو یا دائمی ۔

قرون اولیٰ و وسطیٰ کی نسبت عصر حاضر میں ہونے والی تبدیلیاں فقہاء کرام کی خصوصی توجہ کی متقاضی ہیں تاکہ معاصر مسلمان کو اس کی موجودہ ضرورت کے مطابق راہنمائی مل سکے اور وہ شرعی احکام پر مطمئن ہوکر عمل پیرا ہوسکے۔خوش قسمتی سے ہمارے پاس ایسا فقہی ذخیرہ موجود ہے جس کی روشنی میں نہ صرف معاصر مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے بلکہ آنے والے دور کے لیے بھی راہنمائی فراہم کی جا سکتی ہے ۔ہمارے آئمہ فقہاء نے اس حوالے سے کار ہائے نمایاں سر انجام دئیے ہیں۔امام ابوحنیفہ ؒہوں یا امام شافعی ؒ ،امام مالک ؒہوں یا امام احمد بن حنبل ؒ،سب نے اپنی اپنی فکر کے مطابق ایسے اصول وضع کیےجن کی روشنی میں ہر زمانہ کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے ۔ان فقہاء کی تعلیمات سے اظہر من الشمس ہو جاتا ہے کہ انسانی زندگی کے احوال کی تبدیلی اور زمانے کا تغیر ہر فقہیہ کے پیش نظر رہتا ہے اور وہ اس کے مطابق مسائل کا حل پیش کرتے ہیں ۔زیر نظرمقالہ میں فقہاء ثلاثہ یعنی امام شافعی ؒ، امام مالک ؒ اور امام احمد بن حنبل اور ان کے خوشہ چیں فقہاء کی تعلیمات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے جس سے واضح ہو گا کہ احوال و زمانہ کی تبدیلی کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسائل میں تبدیلی پر یہ فقہاء متفق دکھائی دیتے ہیں ۔چنانچہ ان فقہاء کی کاوشوں سے استفادہ کر کے ہم موجودہ زمانے کے مسائل سے نبرد آزما ہوسکتے ہیں اور مسلمانان عالم کے لیے ان کا قابل عمل حل پیش کر سکتے ہیں ۔

فقہ شافعی ؒ اور رعایتِ حالات و زمانہ

حضرت امام شافعی ؒ علم فقہ و اصول فقہ میں گہری نظر رکھتے تھے ۔ احکام کے استنباط میں احتیاط و ورع کی بنا پر ایک جدید فقہ کے بانی تسلیم کیے گئے۔آج امت مسلمہ کی کثیر تعداد اقوال امام شافعی کی تقلید کرتی ہے اور انہیں اپنا امام اور راہنما مانتی ہے۔آپ نے اپنی تدریسی اور فقہی خدمات کا آغاز مکہ مکرمہ سے کیا پھرہارون الرشید کے دور میں آپ بغداد آ گئے اور یہاں تشنگان علم کی پیاس بجھاتے رہے پھر واپس مکہ گئے اور پھر واپس بغداد آ گئے بعد ازاں مصر منتقل ہو گئے۔مصر میں امام شافعی کے فقہی افق میں تبدیلی کا سورج طلوع ہوا اور یوں فقہ شافعی میں قول جدید اور قول قدیم کی بحث کا آغاز ہوا۔ فقہاء بیان کرتے ہیں کہ جب اما م شافعی مصر میں آئے تو یہاں کے حالات و عرف بغداد کی نسبت جدا تھے۔ نیز زمانہ بھی تبدیل ہو چکا تھا لہٰذا حالات و زمانہ اور عرف و عادت کے تبدیل ہونے کی بنا پر امام شافعی کے فقہی دلائل بھی تبدیل ہوئے۔ انہیں نئے حالات کی بنا پر نیا موقف اختیار کرنا پڑا۔ چنانچہ پہلے موقف کو قول قدیم اور دوسرے موقف کو قول جدید کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ ان اقوال(جدید اور قدیم) میں تطبیق دینے کے لیے باقاعدہ سے کتب تحریر کی گئی ہیں جیسا کہ ڈاکٹر محمد سمیعی الرستاقی اور ڈاکٹر عین الناجی کی کتب معروف ہیں۔ڈاکٹر محمد سمیعی رقمطراز ہیں:

”عدل الامام الشافعی فی مصر عن بعض آراۂ و فتاویہ السابقۃ فی بغداد بما عرف بمذھبہ القد یم وکان تغییر الزمان و المکان و الاعراف عند قدومہ الی مصر وصولہ الی ادلۃ جدیدۃ ھو السبب الرئیسی فی تدوین مذھبہ الجدید“i

"امام شافعی نے مصر میں آ کراپنی بعض آراء اور بغداد میں جاری کیے گئے سابقہ فتاوی جات سے رجوع کر لیا جو ان کے مذہب قدیم کے نام سے معروف ہیں ایسا اس وجہ سے ہوا کہ مصر میں آ کر زمانہ، جگہ، اور عرف تبدیل ہو چکے تھے نیز نئے دلائل انہیں حاصل ہو چکے تھے۔ لہٰذا مذہب جدید کی تدوین میں یہ ایک ہم سبب ہے"۔

معلوم ہوا کہ امام شافعی علیہ الرحمۃ کے مذہب کی بنیاد میں زمان، جگہ اور عرف کی تبدیلی موجود ہے۔ جس کی بنا پر ان کے اقوال دو حصوں میں منقسم ہو گئے، اقوال قدیمہ اور اقوال جدیدہ۔دیگر فقہاء عظام کی مانند شافعیہ بھی حالات و زمانہ کے تبدیل ہونے سے شرعی مسائل کے تبدیل ہونے کو بیان فرماتے ہیں۔ اور شریعت نے جو رخصتیں مہیا کی ہیں ان سے نہ صرف استدلال کرتے ہیں بلکہ نئے پیش آمدہ مسائل کا استنباط بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ امام جلال الدین سیوطی شافعی فرماتے ہیں:

عبادات وغیرہ میں تخفیف کے اسباب سات ہیں۔ علامہ نووی نے آٹھ کا قول بیان فرمایا ہے۔ii

(۱)سفر (۲) مرض (۳) الاکراہ (۴) النسیان

(۵) الجھل (۶) العسر (۷) عموم بلوی

امام شافعیؒ احناف اور مالکیہ کی طرح استحسان اور مصالح مرسلہ کے قائل تو نہیں لیکن اگر ان کے بیان کردہ مسائل اور ان کے اصحاب کی کتب کا بغور مطالعہ کیا جائے تو واضح ہو تا ہے کہ لوگوں کی مصلحت،مشقت، حرج اور تکلیف کا بہر حال خیال رکھتے ہیں۔ مثلاً: زکوٰۃ کی فرضیت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے امام جوینی ذکر کرتے ہیں کہ:

”قال الشافعی رضی اللہ عنہ المقصود من الزکاۃ انما ھو سد الخلات و دفع الجوعات و رد الفاقات و الاحسان الی الفقراء و اغاثۃ الملھوفین و احیاء المھج و تدارک الحشاشۃ، والجثث فقال اللا ئق بھذ ا الغرض ان تکون الزکاۃ علی الفور و ان لا تسقط بالموت لانا لو قلنا انہ یکون علی التراخی و لا یکون علی الفور و انھا تسقط بالموت ادّی ذلک الی ابطال ھذہ الحکمۃ المطلوبۃ “iii

”امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کا مقصد محتاجی کی روک تھام کرنا، فاقوں کو دور کرنا، فقراء سے حسن سلوک کرنا، نادار لوگوں کی مدد کرنا، پژ مردہ کو جینے کے قابل بنانا، زخمی روحوں اور جسموں پر مرہم رکھنا ہے۔ اس مقصد کی بنا ء پر زیادہ مناسب یہی ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی فورًا کی جائے اور یہ موت سے بھی ساقط نہ ہو۔ کیونکہ اگر ہم تاخیر کے ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی کا کہیں اور یہ کہیں کہ موت سے زکوٰۃ ساقط ہو جاتی ہے تو اس طرح یہ اس حکمت مطلوبہ کے ابطال کا باعث بنے گا“۔

اسی طرح حج کے حوالے سے مرقوم ہے:

”قال الشافعی ان الحج عبادۃ عظیمۃ و قربۃ جسیمۃ لا یکون الا بکثیر کلفۃ و

عظیم مشقۃ و ھو عبادۃ عمر، قال الشافعی رضی اللہ عنہ اللائق بھذ ہ العبادۃ و منھاجھا ان تکون علی التراخی لانا لوقلنا انہ علی الفور لا دی الی ان یلزم علی کافۃ العالمین و عامۃ الخلق اجمعین، ان یحجوا فی سنۃ واحدۃ و لادی ذلک الی حرج عظیم و کلفۃ و مشقۃ من حیث انہ یودی الی تخریب البلاد و افساد امور العباد من حیث ان فیہ اجلاء العباد عن البلاد فتبقی الاموال ضائعۃ و یبقی الفقراء عیلۃ علی الاغنیاء و یتکففون وجوہ الناس من غیر ان یجدوا ملجأ و ملاذا و معتصما و معادا یلحبؤن الیہ و یعتمدون علیہ“iv

”امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ حج ایک عظیم عبادت ہے اور بہت بڑے ثواب کا ذریعہ ہے اس لیے یہ بہت زیادہ کلفت کے ساتھ اور بڑی مشقت کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ عمر کی عبادت ہے۔ امام شافعی نے فرمایا ہے کہ اس عبادت کے لائق یہ ہے اور اس کا اسلوب یہ(ہونا چاہیے ) کہ یہ (فرض) علی التراخی ہو۔کیونکہ اگر ہم کہیں کہ علی الفور ادائیگی ضروری ہے تو اس سے تمام لوگوں پر لازم ہو جائے گا کہ وہ ایک ہی سال حج کریں۔ اس طرح تو لوگوں کو بہت بڑے حرج میں مبتلا کر دیا جائے گا۔ اس طرح کہ شہر بے آباد ہوں جائیں گے اور لوگوں کے امور فساد کا شکار ہو جائیں گے۔ کیونکہ فورًا حج لازم ہونے کا فتویٰ دینا لوگوں کوشہروں سے نکال باہر کرنا ہو گا اس طرح اموال ضائع ہو جائیں گے،فقراء، اغنیاء پر بوجھ بنیں گے اس کے ساتھ ساتھ نہ ان کے لیے کوئی پناہ گاہ ہوگی، نہ جائے خیام اور نہ بھروسہ کی جگہ کہ جس کی وہ پناہ لے سکیں۔ اور جس پر اعتماد کر سکیں“۔

امام غزالی کے ہاں مصلحت کی رعایت

شریعت کے تمام امور مصالح کے ساتھ منسلک ہیں ا س میں کسی فقیہ کا اختلاف نہیں۔ اختلاف صرف

تعبیر و تشریح میں اور اس سے مسائل کے استخراج میں ہے۔ احناف اور مالکیہ کی طرح اگرچہ شوافع علانیۃ ً اس کے قائل نہیں۔ لیکن اس کی حدود و قیود بیان کر کے وہ بھی اس کے قائل دیکھائی دیتے ہیں۔ امام غزالی لکھتے ہیں:

”اما المصلحۃ فھی عبادۃ فی الاصل عن جلب منفعۃ او دفع مضرۃ و لسنا نعنی بہ ذلک۔ فان جلب المففعۃ و دفع المضرۃ مقاصد الخلق و صلاح الخلق فی تحصیل مقاصد ھم لکنا نعنی بالمصلحۃ المحافظۃ علی مقصود الشرع۔ و مقصود الشرع من الخلق خمسۃ و ھو ان یحفظ علیھم دینھم و نفسھم و عقلھم و نسلھم و مالھم فکل ما یتضمن حفظ ھذہ الاصول الخمسۃ فھو مصلحۃ و کل ما یفوت ھذا الاصول فھو مفسدۃ و دفعھا مصلحۃ“v

”مصلحت اصل میں منفعت حاصل کرنے اور نقصان کو دورکرنے سے عبارت ہے۔ اور یہاں ہماری یہ مراد نہیں ہے کیونکہ منفعت حاصل کرنا اور نقصان کو دور کرنا یہ خلق کے مقاصد میں سے ہے۔ اور اس کا تعلق لوگوں کے مقاصد کے حصول کی اصلاح کے ساتھ ہے۔ لیکن مصلحت سے ہماری مراد مقصد شرع کی حفاظت ہے۔ خلق کے لیے مقصود شرع پانچ ہیں کہ(۱) ان کے دین (۲) ان کے نفوس (۳) ان کی عقول (۴) ان کی نسل (۵) اور ان کے مال کی حفاظت ہو۔ لہٰذا ہر وہ چیز جو ان پانچ اصولوں کی حفاظت کو متضمن ہو وہ مصلحت ہو گی اور جس سے یہ اصول ضائع ہو رہے ہوں وہ فساد ہوگا اور اسے دور کرنا مصلحت ہوگی“۔

لہٰذا شرع کا مزاج لوگوں کی مصلحتوں کا خیال کرنا ہے۔ اور ان مصالح کے تبدیل ہونے سے مسائل فقہیہ تبدیل ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا جب حالات و زمانہ کے تبدیل ہونے سے مصالح تبدیل ہو جائیں تو مصلحت کی تبدیلی کی بنا پر فتویٰ تبدیل ہو جاتا ہے۔ فقیہ کا کام یہ ہے کہ وہ مسئلہ کی تشریح و توضیح کے وقت سائل اور مسؤل عنہ کے حالات اور مصالح پر نظر رکھے۔ امام غزالی مصلحت کو اپنی ذات کے اعتبار سے ضروریات، حاجات اور تحسینات و تزینات میں تقسیم کرتے ہیں اور پھر ان پر مرتب ہونے والے مسائل کا تذکرہ کرتے ہیں لکھتے ہیں:

”ھذہ الاصول الخمسۃ حفظھا واقع فی رتبۃ الضرورات فھی ا قوی المراتب فی المصالح“vi

پانچ اصول کی حفاظت کرنا یہ ضروریات کے رتبہ میں آتا ہے اور مصالح کے مراتب میں سے قوی ترین مرتبہ یہی ہے۔

ضروریات کے رتبہ میں موجود مصلحت پر ایک مثال ذکر کرتے ہوئے اما م غزالی لکھتے ہیں:

”اس کی مثال یہ ہے کہ جب کفار مسلمان قیدیوں کو ڈھال بنا لیں تو اگر ہم ان مسلمان قیدیوں کو دیکھتے ہوئے حملہ کرنے سے رک جائیں تو کفار ہمیں شکست دے دیں گے اور دار الاسلام پر غالب آ جائیں گے اور تمام مسلمانوں کو قتل کردیں گے اور اگر ہم ان پر تیر اندازی کرتے ہیں تو ہم معصوم مسلمان (جن کو کفار نے ڈھال بنایا ہے) قتل کر ڈالیں گے جن کا کوئی قصور نہیں اور شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ(بے گناہ مسلمانوں کو قتل کیا جائے)لیکن اگر ہم کفار پر حملہ کرنے سے باز رہتے ہیں تو کفار تمام مسلمانوں پر غالب آ جائیں گے،انہیں بھی قتل کر دیں گے اور ان قیدیوں کو بھی قتل کر ڈالیں گے۔ یہ کہنا جائز ہے کہ قیدی تو ہر حال میں قتل کر دیئے جائیں گے۔ لہٰذا باقی مسلمانوں کو بچانا مقصود شرع کے زیادہ قریب ہے“۔

امام غزالی کا مقصد یہ ہے کہ کسی بے گناہ کو قتل کرنا درست نہیں لیکن حالات ایسے پیدا ہو چکے ہیں کہ دیگر تمام مسلمانوں کی زندگی بچائی جا سکتی ہے۔ لہٰذا مصلحت کا تقاضا ہے کہ حملہ کر دیا جائے اگرچہ اس میں مسلمان قیدی شہید ہی ہو جائیں۔ شوافع مصلحت کے تعین کو کسی عام شخص کی ذاتی رائے پر نہیں چھوڑتے بلکہ اسے قرآن و سنت اور اجماع کے ساتھ منسلک کرتے ہیں وگرنہ قیاس کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لہٰذا ان سارے مصالح، استحسان وغیرہ کا تعلق قیاس سے بنتا ہے علیحدہ شرعی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔

اعتبار عرف و عادت

حالات و زمانہ کی تشریح میں عرف و عادات کا تذکرہ فقہاء شافعہ کی کتب میں خصوصیت سے ملتا ہے۔ مختلف قواعد کی تشریح میں ان مسائل کو بیان کیا جاتا ہے جن کا تعلق عرف و عادت کے ساتھ ہے۔ فقہاء شافعیہ میں امام جلال الدین سیوطی منفرد علمی مقام رکھتے ہیں، آپ فرماتے ہیں:

”اعلم ان اعتبار العادۃ و العرف رجع الیہ فی الفقہ فی مسائل لا تعد کثرۃ فمن ذلک الحیض و البلوغ۔۔۔ والخطبۃ و الجمعۃ۔۔۔و فی الشرب و سقی الدواب من الجد اول والانہار المملوکۃ۔۔۔۔ و فی رد الظرف الھدیۃ و عد مہ و فی وزن و کیل ما جھل حالہ فی عھد رسول اللّٰہ ﷺ فان الاصح انہ یراعی فیہ عادۃ بلد البیع و فی ارسال المواشی نھارا و حفظھا لیلا و لو اطردت عادۃ بلد بعکس ذلک اعتبرت العادۃ فی الاصح۔۔۔ فی المسابقۃ او المناضلۃ اذا کانت للرماۃ فی مسافۃ تنزل المطلق علیھا و فیھا اذا ا طرر دت عادۃ المتبار زین بالامان و لم یجر بینھما شرط فالاصح انھا تنزل منزلۃ الشرط“ vii

عادت و عرف کا اعتبار فقہ کے مسائل میں اس کثرت سے ہے کہ ان مسائل کی کثرت کا شمار ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ان مسائل میں حیض، بلوغت کی عمر۔۔۔خطبہ، جمعہ۔۔۔پانی کی باری اور کھالوں سے زمین کو سیراب کرنے اور مملوکہ نہروں کے مسائل۔۔۔ تحفہ کے برتن واپس کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں اور وزن و کیل(ماپنا) کے متعلقہ مسائل جو رسول اللہ ﷺ کے عہد میں مجہول تھے۔ صحیح موقف یہ ہے کہ ان میں بیع والے شہر کی عادت کا خیال رکھا جائے گا۔ جب دوڑ کے مقابلہ میں اور تیر اندازی کے مقابلہ میں۔۔۔تیر اندازوں کی مسافت میں ایک عادت ہو تو مطلق کو اسی عادت پر محمول کیا جائے گا۔ اس میں تلوار وغیرہ سے مقابلہ کرنے والوں کی جو عادت معمول ہو اور ان کے درمیان کوئی شرط طے پاتی ہو تو اصح قول یہ ہے کہ یہی عادت شرط کے قائم مقام ہو جائیگی۔

امام سیوطیؒ کی مذکورہ عبارت واضح کرتی ہے کہ انسان کے تمام معاملات سن بلوغت سے لے کر اس کی عبادات، معاملات بلکہ تمام اقوال و افعال میں عرف و عادت کا خیال رکھا جائے گا۔لہذا جب ان کی عادت تبدیل ہوگی تو ان مسائل میں بھی لازمی طور پر تبدیلی آئے گی ۔ علامہ سبکی شافعی عرف کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

”اشتھر عند الفقہاء ان ما لیس ضابط فی اللغۃ و لا فی الشرع یرجع فیہ الی العرف و ھذا صریح فی تقدیم اللغۃ علی العرف عند الاصولیین ان العرف مقدم علی اللغۃ و لا منافاۃ بین الامرین لعدم توارد ھما علی محل واحدو فی حاشیتہ قال فی التکملۃ من القواعد المشتھرۃ علی السنۃ الفقہاء ان ما لیس لہ حد فی الشرع و لا فی اللغۃ یرجع فیہ الی العرف۔۔۔ الجمع بین کلامین اذا تعارض معناہ فی العرف و معناہ فی اللغۃ قدمنا العرف“viii

”فقہاء کے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ جس چیز کا لغت میں کوئی ضابطہ نہ ہو اور نہ ہی شرع میں، اس میں عرف کی طرف رجوع کرتے ہیں اور یہ دلیل عرف پر لغت کو مقدم کرنے میں صریح ہے۔ اور اصولیوں کے ہاں عرف کو لغت پر مقدم کیا جائے گا۔ اس کے حاشیہ میں ہے کہ فقہاء کے ہاں مشہور قواعد میں سے یہ قاعدہ ہے کہ جس چیز کی لغت میں یا شرع میں کوئی تعریف نہیں کی گئی اس کی وضاحت کے لیے، عرف کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ دونوں عبارتوں کو جمع اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ جب اس کا عرفی معنی اور لغوی معنی متعارض ہوجائیں تو عرفی معنی کو ترجیح دی جائے گی“۔

عز بن عبد السلام شافعی ؒ اور حالات و زمانہ کی رعایت

احوال زمانہ کی رعایت پر علامہ عز بن عبد السلام شافعیؒ کی درج ذیل عبارت بھی دلالت کرتی ہے۔علامہ زرکشیؒ لکھتے ہیں:

”نقل عن الشیخ بن عبد السلام انہ قال یحدث للناس فی کل زمان من الاحکام ما یناسبھم و قد یتاید ھذا بما فی البخاری عن عائشۃ انھا قالت لو علم النبی ﷺ ما احدثتہ النساء بعد ہ لمنعھن من المساجد وقول عمر بن عبد العزیز یحدث للناس اقضیۃ علی قدر ما احد ثوا من الفجور ای یجددون اسبابا یقضی الشرع فیھا امورا لم تکن قبل ذلک لاجل عد مہ منھا قبل ذلک لا انھا شرع مجدد۔۔۔۔“ ix

”شیخ بن عبد السلام سے منقول ہے کہ لوگوں کے لیے ہر زمانے میں ایسے احکام نئے آتے ہیں جو ان کے لیے مناسب ہوتے ہیں اس کی تائید امام بخاریؒ کی اس روایت سے ہوتی ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا اگر نبی کریم ﷺ کے علم میں یہ تبدیلی آتی جو اب عورتوں کے احوال میں پیدا ہو چکی ہے تو آپ ﷺ بھی عورتوں کو(مسجد میں آنے سے) منع فرما دیتے۔حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا یہ فرمان بھی ہمارے مؤقف کی تائید کرتا ہے کہ لوگوں کے لیے اسی طرح کے فیصلے ہوں گے جس طرح ان میں نافرمانی پیدا ہو چکی ہے۔یعنی انہوں نے ایسے نئے اسباب پید ا کر لیے ہیں جو پہلے نہیں تھے۔ان نئے فیصلوں کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کوئی نئی شریعت وجود میں آگئی ہے“۔

فقہاء شافعیہ کے مذکورہ بالا اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ فقہاء ہر دورمیں ہونے والی تبدیلی اور اس کے موافق احکام کو پیش نظر رکھتے ہیں اور اس کے مطابق لوگوں کو حل پیش کرتے ہیں ۔ کسی فقیہ کو یہ زیبا نہیں کہ وہ لوگوں کے مصالح سے پہلو تہی کرے اور ایک ہی طرح کے احکام پر ڈٹا رہے جس سے لوگ حرج میں مبتلا ہو جائیں ، یہی وجہ ہے کہ فقہاء اپنے علاقے اور زمانے میں ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں اور فتوی دیتے ہوئے ان سے مدد حاصل کرتے ہیں۔

 

فقہ مالکی اور حالات و زمانہ کی رعایت

امام مالکؒ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ مدینہ منورہ میں قیام پذیر رہے اور جلیل القدر تابعین سے اکتساب فیض کیا۔ جن میں سب سے معروف حضرت امام نافعؒ ہیں جو سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓکے آزاد کردہ غلام تھے اور نہایت ذہین اور پختہ علم رکھنے والے تھے۔ امام مالکؒ نے بارہ سال ان کی معیت سے فیض حاصل کیا۔ پھرمدینہ منورہ میں مسند حدیث پر فائز ہوئے اور حدیث نبوی کو حرز جان بنائے رکھا۔ المؤطا آپ کی گراں قدر کاوشوں کا ثمرہ ہے۔ جس میں آپ نے احادیث اور آثار صحابہ جیسے دلائل کی روشنی میں فقہ مالکی کی بنیاد رکھی۔ امام مالک، آپ کے اصحاب اور آپ کے مذہب کے مجتہدین کی کتب حالات و زمانہ کی رعایت پر عمل پیرا دیکھائی دیتی ہیں۔ امام مالکؒ کے ہاں بھی فقہاء حنفیہ کی طرح کچھ اصطلاحات اور کچھ فقہی قواعد ہیں جن کی مدد سے مسائل کے حل میں آسانی ممکن ہوتی ہے۔فقہ مالکی کی کتب میں اس بات کے دلائل بہت آسانی سے مل جاتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ امام مالک نے لوگوں کی عادات اور عرف کا اعتبار کرتے ہوئے مسائل کا استنباط کیا ہے۔ چنانچہ امام قرافی مالکی لکھتے ہیں: طلاق کے ایک مسئلے میں آئمہ ثلاثہ کے بر خلاف امام مالک نے تین طلاقوں کا فتویٰ دیا اور اس فتویٰ کا اعتبار عرف کی دلیل پر کیا گیا۔ لکھتے ہیں:

“امام مالکؒ نے اس عادت کی بنا پرتین طلاقوں اور بینونت کا فتویٰ دیا جو کہ ان کے زمانہ میں تھی“ x

اس کی وضاحت میں مزید لکھتے ہیں:

”القاعدۃ ان اللفظ متی کان الحکم فیہ مضافا لنقل عادی بطل ذلک الحکم عند بطلان ذلک العادۃ و تغیر الی حکم آخران شھدت لہ عادۃ اخری فھذ ا الفقۃ المتجہ“ xi

”قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی لفظ پر حکم نقل عادی کی بنا پر ہو تو وہ حکم اس عادت کے باطل ہونے سے باطل ہو جاتا ہے اور وہ حکم دوسرے حکم کی طرف تبدیل ہو جاتا ہے اگر دوسری عادت اس پر شاہد ہو۔ یہی قابل توجہ فقہ ہے“۔

اس کی شرح میں ابو عبد اللہ مالکی یوں تبصرہ کرتے ہیں۔

”و ما قالہ من ان مالکا رضی اللّٰہ عنہ بنی علی عرف زمانہ ھو الظاہر و ما قالہ من لزوم تغیر الحکم بتغیر العرف صحیح۔“xii

“اور جو یہ کہا ہے کہ امام مالک رضی اللہ عنہ نے مسئلہ کی بنا اپنے زمانہ کے عرف پر رکھی ہے تو یہ ظاہر سی بات ہے اور جو انہوں نے فرمایا ہے کہ عرف کے تبدیل ہونے سے مسئلہ تبدیل ہو جاتا ہے یہ بھی بالکل صحیح ہے“۔

امام قرافی ایک اور مسئلہ میں امام مالک سے فقہاء مالکیہ کے اختلاف اور وجہ اختلاف کا ذکر کرتے ہیں کہ:

”المد ونۃ میں ہے کہ امام مالکؒ نے فرمایا ہے کہ اگر کسی نے کہا کہ میرے ذمہ دس کفارے، میثاق یا نذر ہے تو اس نے جتنے کفارے ذکر کیے اتنے کفارے لازم ہو جائیں گے۔“(امام قرافی فرماتے ہیں) میں کہتا ہوں کہ قسم کا کفارہ قسم کھائے اور توڑے بغیر مکلف پر لازم نہیں ہوتا۔۔۔ مزید لکھتے ہیں:

”ھذا النقل ان یراقب فیہ اختلاف الازمنۃ و اختلا ف الاقالیم و البلدان فکل زمان تغیر فیہ ھذا العرف بطل فیہ ھذا الحکم و کل بلد لا یکون فیہ ھذا العرف یلزم فیہ ھذا الحکم۔۔۔ لعل مالکا رحمہ اللّٰہ افتی بذلک لمن سئل انہ کان نواہ او کان عرف زمان یقتضی ذلک“ xiii

”اس نقل میں زمانوں کا اختلاف،ملکوں اور شہروں کا اختلاف مد نظر رکھا جاتا ہے لہٰذا ہر وہ زمانہ جس میں عرف بدل جاتا ہے اس میں وہ حکم بھی باطل ہو جاتا ہے۔ اور ہر وہ شہر جس میں یہ عرف نہ ہو وہاں یہ حکم لازم ہوگا۔ امام مالک نے شاید یہ فتویٰ اس لیے دیا تھا کہ انہوں نےسائل سے اس کی نیت کے متعلق سوال کا جواب دیا تھا یا ان کے زمانے کا عرف ہی اس کا تقاضا کرتا تھا“۔

امام مالکؒ کے زمانے کا عرف اور تھا چنانچہ انہوں نے اس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فتویٰ دیا جبکہ بعد زمانہ میں عرف بدل گیا۔ لہٰذا اس بنا پر حکم و مسئلہ بھی بدل جائے گا۔ عرف و عادت کی رعایت امام مالک اور آپ کے متبعین کے ہاں بھی پائی جاتی ہے۔

علامہ عمر الجیدی کی رائے

علامہ عمر الجیدی نے امام کے مذہب کو بڑی تفصیل سے واضح کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

”و قد لاحظ ھذ ہ الحقیقۃ المرحوم الشیخ محمد ابو زھرۃ اذ ورد فی کلامہ ان الفقہ المالکی کالفقہ الحنفی یاخذ بالعرف و تعتبرہ اصلا من الاصول الفقھیۃ فیما لا یکون فیہ نص قطعی بل انہ او غل فی احترامہ اکثر من المذہب الحنفی لان المصالح دعامۃ الفقہ المالکی فی الاستدلال و لا شک ان مراعاۃ العرف الذی لا فساد فیہ ضرب من ضروب المصلحۃ لا یصح ان یترکہ الفقیہ“xiv

”مرحوم شیخ محمدابو زہرۃ نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ عرف کا اعتبار کرنے میں فقہ مالکی، فقہ حنفی کی مانند ہے اورجن مسائل میں نص قطعی نہ ہو ان مسائل میں اسے فقہی اصولوں میں سے ایک اصل شمار کرتے ہیں، بلکہ مالکیہ تو عرف کے احترام میں حنفیوں سے بھی زیادہ آگے ہیں کیونکہ مصالح کا اعتبار مسائل کے استدلال میں فقہ مالکی کی بنیاد ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے عرف کا خیال رکھنا جس میں کوئی فساد نہ ہو مصلحت کی ایک قسم ہے۔ فقیہ کا اسے ترک کرنا صحیح نہیں ہو سکتا“۔

علامہ عمر الجیدی نے درج ذیل فقہاء مالکیہ کے اقوال اسی حوالے سے تذکرہ کیا ہے :

علامہ ابن العربی کا قول

”فقہاء مالکیہ میں سے علامہ ابن العربی عادت کو اصول میں سے ایک اصل قرار دیتے ہیں اور ایسی دلیل مانتے ہیں جس کی طرف رجوع کرنا واجب ہے،کہتے ہیں:

”ان العادۃ دلیل اصولی بنی اللّٰہ علیہ الاحکام و ربط بہ الحلال و الحرام“

علامہ المقری مالکی کا فرمان

قواعد المقری میں یہ بات درج ہے کہ: ”اصل مالک اعتماد العرف الخاص و العام“

امام مالکؒ کی اصل عرف خاص و عام پر اعتماد ہے۔

یہ قاعدہ بھی قواعد المقری میں ہے کہ: ”العادۃ عند مالک کالشرط تقید المطلق و تخصص العام“

امام مالک کے نزدیک عادت شرط کی مانند ہے جو مطلق کو مقید بھی کرتی ہے اور عام کو خاص بھی۔

الو نشریسی نے نقل کیا ہے کہ: ”ان من اصول الشریعۃ تنزیل العقود المطلقۃ علی العوائد المتعارفۃ“

یعنی اصول شریعت میں سے یہ اصل بھی ہے کہ عقود مطلقہ کو عادات متعارفہ پر منطبق کیا جائے گا۔ اسی طرح المھدی الوازنی بیان کرتے ہیں کہ:

”ان العادۃ و العرف رکن من ارکان الشریعۃ عند مالک و عامۃ اصحابہ“ xv

”امام مالکؒ اور آپ کے اکثر اصحاب کے نزدیک عاد ت و عرف ارکان شریعت میں سے ایک رکن ہے“۔

فقہ مالکی اور اعتبار ِ عرف و عادت

فقہ مالکی سے وابستہ فقہاء و مجتہدین کی کثیر تعداد امام مالک کے اس نظریہ کو اپنی کتب میں بیان کرتی ہے اوروہ فقہاء ان پر مسائل متفرع فرماتے ہیں۔ مذکورہ بالا فقہاء جن میں ابن عربی علامہ مقری اور ابو نشریسی شامل ہیں نے بڑی وضاحت سے اس موقف کو بیان کیا کہ امام مالک عرف و عادت کا نہ صرف اعتبار کیا کرتے تھے بلکہ اسے رکن و اساس شریعت گردانتے تھے۔

جن احکام کا تعلق عادات و عرف کے ساتھ ہے اگر وہ عادات و عرف تبدیل ہو جائیں اور عرف و عادت اس کے خلاف بن جائے تو کیا احکام میں تبدیلی کے لیے موثر ہوں گے یا یوں کہا جا ئے گا کہ ہم مقلد محض ہیں اور نئے مسائل میں ماضی کے فقہاء کی کتب سے ہی جواب لیے جائیں گے۔ اور کتب منقولہ سے یہ فتوی دیئے جائیں گے؟حقیقت حال یوں ہے کہ فقہاء نے کبھی بھی جمود کی کیفیت طاری نہیں ہونے دی بلکہ خود بھی اور اپنے تلامذہ کو بھی اس بات کے لیے تیار کیا کہ حالات و زمانہ کاخیال کرتے ہوئے فتویٰ ترتیب دیں اور پیش آمدہ مسائل کاحل عرف اور عادت کا خیال رکھ کے تلاش کریں۔

امام قرافی کا موقف

”ہر وہ شرعی مسئلہ جو عادات کے تابع ہوتا ہے اس میں عادت کے بدلنے سے حکم تبدیل ہو کر نئی عادت کے تقاضا کے مطابق ہوتا ہے۔ فی الحقیقۃ یہ مقلدین کا نیا اجتہاد نہیں ہے کہ اس میں اہلیت ِاجتہاد کی شرط لگائی جائے بلکہ یہ قاعدہ ایسا ہے جس میں علماء اجتہاد کر چکے ہیں اور اس پر اجماع ہو چکا ہے۔ ہم بغیر کسی نئے اجتہاد کے اس قاعدہ میں ان فقہاء کی اتباع کرتے ہیں۔ کیا خیال ہے کہ علماء کا اس پر اجماع نہیں ہو چکا کہ معاملات میں جب ثمن کو مطلق رکھا جائے گا تو اسے شہر میں استعمال ہونے والی غالب کرنسی پر محمول کیا جائے گا۔ اگر عادت کسی نقد معین کی ہو تو اطلاق کو اس پر محمول کریں گے اور اگر عادت کسی اور کرنسی کی طرف منتقل ہو چکی ہو تو ہم بھی اس کو معین کریں گے جس طرف عادت منتقل ہو چکی ہے اور پہلی عادت کو لغو قرار دے دیں گے“ xvi

لہٰذا فقہ میں عادات، طبائع اور زمانے کا عرف نہایت اہمیت کے حامل گردانے جاتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ فقہاء مالکیہ تو کہتے ہیں کہ عادت تبدیل ہو تو فور ا ً حکم تبدیل ہو جائے گا۔ یہاں تک اگر ہم ایک شہر سے دوسرے شہر میں جاتے ہیں تو وہاں کی عادت کے مطابق مسئلہ تبدیل ہو جائے گا۔ امام قرافی مزید لکھتے ہیں:

”لو خرجنا نحن من ذلک البلد الی بلد آخر عوائد ھم علی خلاف عادۃ البلد الذی کنا فیہ افتیناھم بعادۃ بلد ھم و لم نعتبر عادۃ البلد الذ ی کنا فیہ وکذلک اذا قد م علینا احد من بلد عادتہ مضادۃ للبلد الذی نحن فیہ لم نفتہ الابعادۃ بلد ہ دون عادۃ بلد نا“xvii

”اگر ہم ایک شہر سے دوسرے شہر جائیں اور وہاں کی عادات ہمارے شہر کی عادت سے مختلف ہو ں تو ہم ان کے شہر کے مطابق فتویٰ دیں گے اور ہمارے شہر کی عادت وہاں معتبر نہیں ہوگی اسی طرح اگر کوئی شخص ہمارے پاس آتا ہے اور اس کی عادت ہمارے شہر کی عادت سے متضاد ہے تو ہم اس کے شہر کی عادت کے مطابق فتویٰ دیں گے نہ کہ ا پنے شہر کی عادت کے مطابق“۔

معلوم ہوا کہ عادت کا فتوی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اور مفتی کی حالات و زمانہ سے واقفیت نہایت اور از بس ضروری ہے۔ وگرنہ وہ فتویٰ دینے کا اہل نہ ہوگا۔

 

علامہ قلشقانی کی رائے

علامہ قلشقانی عرف کو شرط کی مانند قرار دیتے ہیں اور قاضی و مفتی کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں کہ صرف روایات کے ساتھ نہ جڑا رہے بلکہ اپنے معاصر حالات و واقعات اور عرف کو پیش نظر رکھے ۔چنانچہ رقمطراز ہیں:

”ان العرف کالشرط فیجب علی القاضی المفتی الا یجمد مع الروایات و یقطع النظر عن العرف الجاری بین الناس فی ھذا الباب ولا فی کل باب اصلہ ملاحظۃ العرف و لا حظ ابن عبد السلام التونسی ان العرف یتوسع فیہ ما لا یتوسع فی غیرہ۔۔۔ ھکذا یکون المذہب المالکی قد توسع فی الاخذ بالعرف و اعتبرہ اصلا اصیلا تبنی علیہ ا لاحکام و یرجع الیہ الفقیہ و القاضی و المفتی فی معرفۃ الاحکام الشریعۃ و تطبیقھا علی الوقائع و الجزئیات حیث لا یوجد نص من الشارع“ xviii

”عرف شرط کی مانند ہے لہٰذا قاضی اور مفتی پر ضروری ہے کہ وہ روایات کے ساتھ جما نہ رہے اور نہ لوگوں کے درمیان جاری عرف سے قطع نظر کر لے اور نہ کسی ایسے باب میں جہاں عرف کالحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ابن عبد السلام تیونسی سے فرمایا کہ عرف میں جتنی وسعت ہے اتنی وسعت کسی میں بھی نہیں۔۔۔ مذہب مالکی میں اسی طرح عرف کو اختیار کرنے میں نہایت وسعت کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور اسے بنیادی اصل قرار دیا ہے جس پر احکام کی بنا ہوتی ہے۔ فقیہ، قاضی اور مفتی احکام شرعیہ کی معرفت اور انہیں واقعات اور جزئیات پر منطبق کرنے میں اسی طرف کی رجوع کرتا ہے۔ جبکہ وہاں شارع کی طرف سے کوئی نص موجو د نہ ہو“۔

چند دیگر فقہی اصطلاحات و امتیازات

فقہاء حنفیہ کی طرح مالکیہ کے ہاں بھی ایسی اصطلاحات مستعمل ہیں جن کا مقصد لوگوں کے احوال و کیفیات کو ملاحظہ کر کے ان کے لیے مسائل کی تخریج و استنباط کرنا ہے۔ عرف و عادت کے حوالے سے گزشتہ صفحات میں تفصیلی بحث ہو چکی ہے۔ عرف و عادت کے علاوہ جس طرح حنفی فقہاء استحسان کو ا یک دلیل اور حجت سمجھتے ہیں ویسا ہی نظریہ فقہاء مالکیہ کا بھی ہے وہ بھی استحسان کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔محمد یحی لکھتے ہیں:

”ان الاستحسان من ادلۃ مالک رحمہ اللّٰہ التی یحتج بھا فی الشرعیات“ xix

”استحسان امام مالک رحمہ اللہ کے دلائل میں سے ہے جس کی مدد سے وہ شرعی مسائل میں دلیل حاصل کرتے ہیں“۔

اگرچہ خود امام مالک کی کتب میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔

”قال عبد الوھاب لم ینص علیہ مالک و کتب اصحابنا مملوء ۃ منہ کابن القاسم و اشھب وغیرھما“xx

علامہ شاطبی نے بھی یہی لکھا ہے کہ امام مالک کے مذہب میں استحسان دلیل کلی کے مقابلہ میں جزوی مصلحت کو اختیار کرنا ہے۔

”الاستحسان فی مذہب مالک الاخذ بمصلحۃ جزئیۃ فی مقابلۃ دلیل کلی“

"استحسان یہ امام مالک کے مذہب میں ہے جس کا مطلب دلیل کلی کے مقابلہ میں جزی مصلحت کو اختیار کرنا ہے۔" xxi

شرعی مسائل میں استحسان کی بہت سی مثالیں ہیں۔ جیسے "مثال کے طور پر قرض جو اصل کے لحاظ سے سود ہے کیونکہ اس میں درہم کے بدلے درہم ایک مدت کے لیے ہوتا ہے لیکن وہ اس لیے مباح کیا گیا کہ اس میں محتاجوں کے حق میں نرمی اور کشادگی ہے اگر وہ اپنی اصل کی بنا پر منع ہوتا تو اس میں مکلفین کے لیے تنگی تھی۔"xxii

اصحاب امام مالک میں سے اشھب کہتے ہیں کہ:

”ان الاستحسان ھو تخصیص الد لیل العام بالعادۃ لمصلحۃ الناس فی ذلک“

”لوگوں کی مصلحت کی بنا پر دلیل عام کو عادت کے ساتھ خاص کر دینے کا نام استحسان ہے“۔

”جیسا کہ حمام (سوئمنگ پول) میں داخل ہونے کا جواز یہ استحسان کی بنا پر ہے۔ کیونکہ عمومی طور پر نہ تو اس میں ٹھہرنے کا وقت مقرر ہوتا ہے اور نہ پانی کی مقدار کا تعین ہوتا ہے۔ حالانکہ عام دلیل شرعی اس کے مانع ہے۔ کیونکہ یہ غرر میں داخل ہے۔ جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح مشکیزے میں پانی کو بغیر ماپے فروخت کرنا۔ کیونکہ یہ قدرے کم غرر ہے۔ استحساناً قابل معافی ہے۔ ان دونوں امور کو جائز قرار دینے میں وجہ استحسان یہ ہے کہ ان دونوں میں پانی کو ماپنا یعنی غسل کرنے والے پانی مقدار معین کر لینا اور حمام میں ٹھہرنے کی مدت معین کرنا نیز دوسرے مسئلہ میں پانی پینے کی مقدار ماپنا عادۃ قبیح سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ان کے جواز کا فتویٰ دیا جائے گا“۔xxiii

المصالح المرسلۃ

” شریعت اسلامیہ کی نصوص اور دلائل میں غور و فکر کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے احکام لوگوں کی مصلحت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

”و ما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین“xxiv

نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر سراپا رحمت بنا کر سارے جہانوں کےلیے اور

”یا ایھا الناس قد جاء تکم موعظۃ من ربکم و شفاء لما فی الصدور و ھدی و رحمۃ للمومنین“ xxv

"اے لوگو! آ گئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے پروردگار کی طرف سے اور (آگئی ہے)شفاء ان روگوں کے لیے جو سینوں میں ہیں اور (آگئی ہے)ہدایت اور رحمت اہل ایمان کے لئے۔"

صاحبان عقل سلیم کے نزدیک یہ مصلحت واضح اور بین دلیل ہے۔۔۔ امام مالک وہ فقیہہ ہیں جنہوں نے مصلحت مرسلہ کا علم بلند کیا ہے۔xxvi

مصلحت سے مراد منفعت حاصل کرنا اور نقصان کو دور کرنا ہے۔ امام مالک اور آپ کے اصحاب کے ہاں مصالح مرسلہ کو حجت شرعی شمار کیا جاتا۔ فی الواقع مصالح مرسلہ کا تعلق بھی لوگوں کی آسانیوں اور سہولتوں کے ساتھ ہے۔ اسی وجہ سے فقہاء مالکیہ نے اسے اختیار کیا ہے۔ ڈاکٹر زیدان لکھتے ہیں:

”فریق آخر اخذ بالمصالح المرسلۃ و اعتبرھا حجۃ شرعیۃ ومصد را من مصادر التشریع و اشھر من عرف عنہ ھذا ا لاتجاہ الامام مالک ثم احمد بن حنبل“xxvii

"ایک دوسرا فریق ہے جو مصالح مرسلہ سے دلیل لیتا ہے اور اسے حجت شرعیہ،اور شرعی مصادر میں سے ایک مصدر شمار کرتا ہے۔مصالح مرسلہ سے دلیل قائم کرنے میں معروف امام مالک پھر امام احمد بن حنبل ہیں۔"

فقہ مالکی میں ان اصطلاحات کے علاوہ اور دیگر کئی ایسے الفاظ و اصطلاحات ہیں جنہیں لوگوں کے احوال اور کیفیات کے مطابق شرعی مسائل کے حل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے الاستصحاب، سد ذرائع، تعامل اھل مدینہ، المشقۃ، المسقطۃ وغیرہ

حالات و زمانہ کی رعایت، چند مثالیں

(۱) اگر ایک شخص نے اپنی بکریاں چرانے کے لیے کسی کو دیں اوردونوں کا اختلاف ہو گیا کہ ان بکریوں کے بچوں کا خیال کون رکھے گا۔ چرواہا یا بکریوں کا مالک؟

فقہاء مالکیہ فرماتے ہیں:

”فینظر فی ذلک الی عرف البلد“ xxviii اس حوالے سے شہر کے عرف کو دیکھا جائے گا اور اس کے مطابق فیصلہ ہوگا۔

(۲)”اگر حکومت وقت کے پاس کسی وجہ سے بیت المال خالی ہو جائے تو وہ امیر لوگوں پر ٹیکس لگا دے“۔ xxix

اب چاہیے تو یہ کہ یہ ٹیکس لگانا جائز نہ قرار دیا جائے کیونکہ اس میں ان اغنیاء کا تو کوئی قصور نہیں لیکن فقہاء مالکیہ کے ہاں مصلحت عامہ کا خیال کرتے ہوئے ٹیکس نافذ کرنا جائز ہوگا۔

(۳) اگر خاوند اور بیوی کا دخول کے بعد اختلاف ہو جائے۔ خاوند کہے کہ میں نے مہر دے دیا ہے اور بیوی کہے کہ اس نے مہر نہیں دیا تو اس کا حل کیا ہوگا؟ قاعدہ یہ ہے ”اصل بقاء ما کان علی ما کان “ کے تحت خاوند پر مہر لازم قرار دیا جائے اور عورت کا قول قبول کیا جائے۔ لیکن امام مالک فرماتے ہیں کہ اس میں خاوند کا قول قبول کیا جائے گا۔ قاضی اسماعیل کہتے کہ مدینہ میں یہی عادت تھی کہ جب تک خاوند تمام مہر ادا نہ کرتا تو وہ بیوی کے قریب نہ جا سکتا تھا۔ لیکن اب ان کی عادت اس کے خلاف ہو گئی ہے۔ لہٰذا اب بیوی کا قول قسم کے ساتھ قبول کیا جائے گا۔ کیونکہ عادات بدل چکی ہیں“۔ xxx

فقہا ء حنابلہ اور حالات و زمانہ کی رعایت

سیدنا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ان فقہاء کبار میں سے ہیں جنہیں مجتہد مطلق قرار دیا جاتا ہے۔ آپ فقہ حنبلی کے موسس اعلی ہیں۔ آپ کے جلیل القدر اساتذہ میں سے فقہ شافعی کے سرخیل حضرت محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا سب بڑا کام مسند احمد کی تالیف ہے۔ جو احادیث کے حوالے سے وقیع کتاب گردانی جاتی ہے۔ آپ نے اس میں چالیس ہزار احادیث کا انتخاب کیا۔ آپ کے علم حدیث کے متعلق اس قدر وسیع مطالعہ اور ذوق سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے جس فقہی مذہب کی بنیاد رکھی اس میں احادیث سے کتنا استناد اور استدلال کیا جاتا ہوگا۔فقہاء اربعہ میں سے ہر فقیہ کے لیے بنیادی مصادر قرآن و حدیث اور اجماع ہیں۔ اورا ن تینوں میں مسئلہ کی صورت حال واضح نہ ہو رہی ہو تو قیاس کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ امام احمد بن حنبل کے ہاں بھی ایسا ہی ہے۔ کیونکہ زمانے کی بدلتی ہوئی صورت حال، نئے پیش آمدہ مسائل اور لوگوں کی مجبوری دیکھ کر فقیہ کو مجبوراً قیاس کی طرف جانا پڑتا ہے۔ اور یہی حالات و زمانہ کی رعایت کا تقاضا بھی ہے بقول ڈاکٹر مصطفی الشکعہ:

۱۔ ”و الذی علیہ جمھرۃ المسلمین و الحنابلۃ منھم ان القیاس مبد ا لا مناص من الاخذ بہ لانّ احداث الحیاۃ مستمرۃ و فیھا الجدید غیر المسبوق الذی لم یرد فی الافتاء فیہ نص صریح او فتوی صحابی او تابعی فکان لا بد للفقیہ من الاخذ بہ بل ان رسول اللّٰہ ﷺ کان یصدر من الاحکام ما یمکن ان یکون معلما للناس لکن یستعملوا القیاس متی دعت الضرورۃ الی ذلک۔“ xxxi

”جس موقف پر جمہور مسلمین اور حنابلہ قائم ہیں وہ یہ ہے کہ قیاس بنیادی چیز ہے اسے اختیار کیے بغیر چارہ کار نہیں کیونکہ زندگی کے حوادث جاری ہیں اور ان میں نیا مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے جس کے بارے میں پہلے سے کوئی صریح نص، فتوی صحابی تا فتوی ٰ تابعی موجود نہیں ہوتا۔ لہٰذا فقیہ کے لیے قیاس پر عمل ضروری ہو جاتا ہے بلکہ رسول اللہﷺ نے کتنے ایسے احکام صادر فرمائے جن کا مقصد لوگوں کو تعلیم دینا تھا کہ وہ قیاس کو استعمال کریں جب اس کی ضرورت پیش آئے“۔

فقیہ کا مقصد اپنے دائرہ کار کے اندر رہ کر شرعی معاملات میں یسر پیدا کرنا ہوتا ہے۔ لیکن حالات و زمانہ کی وجہ سے کبھی سخت فتوی بھی دینا پڑ جاتا ہے۔ مگر اس میں ایک فریق کے لیے مشکل محسوس ہوتی ہے۔ لیکن دوسرے کے لیےآسانی ہوتی۔ مثلا اگر بھوک یا پیاس کی بنا پر ایک شخص فوت ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھی اسے کھانا یا پانی نہیں دیتا۔ تو شرعی دلائل کی روشنی میں اس کا قتل ساتھ والے پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ لیکن امام احمد بن حنبل نے اس میں سختی کی ہے اور ساتھ والے کو نہ صرف قاتل قرار دیا بلکہ اس کے اوپر دیت بھی لازم کی۔ تا کہ جو لوگ ان معاملات میں سستی کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ ایسا نہ کر سکیں۔ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے اور ان کے حالات کی رعایت کے بارے میں ”امام احمد اس حد تک گئےہیں کہ اس کا ہم تصور ہی کر سکتے ہیں۔ ان کا یہ فتوی صرف لوگوں کی بھلائی کے لیے ہے۔ آپ کے اس فتوی کے مطابق جسے کھانے یا پانی کی ضرورت پڑے اور اس کے ساتھ والا شخص نہ دے یہاں تک آدمی بھوکا مر جائے تو اس ساتھی پر دیت واجب ہو گی حالانکہ شرعی طور پر دیت کا حکم اس شخص کے لیے ہے جس نے قتل عمد یا قتل خطا کیا ہو۔ لیکن امام احمد بن حنبل کی رائے یہ ہے کہ اس شخص کا کھانا یا پانی نہ دینا یہ موت کا وسیلہ اور سبب بنا ہے۔ لہٰذا سبب بننے والے پر دیت واجب ہو گی تا کہ انانیت کی صورت میں پیدا ہونے والے شرکا دروازہ بند کیا جا سکے اور لوگوں کے درمیان خیر کا پود ا بویا جا سکے اور ایک دوسرے سے تعاون اور تکافل کی طرف دعوت مل سکے۔“ xxxii

لوگوں کے احوال کی معرفت اور فتاویٰ نویسی

مذکورہ بالا فتوی پر غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ جب حالات کی رعایت کرتے ہوئے امام احمد بن حنبل اس قدر سخت فتوی جاری فرما رہے ہیں۔ تو حالات و زمانہ کی رعایت ایک مجتہد، مفتی، فقیہہ اور قاضی کے لیے بے حد اہم ہو جاتی ہے۔ ابن قیم جوزی حنبلی لکھتے ہیں:

”اما قولہ معرفۃ الناس فھذا اصل عظیم یحتاج الیہ المفتی والحاکم فان لم یکن فقیھا فیہ فی الامر و النھی ثم یطبق احد ھما علی الآخر و الاکان ما یفسد اکثر مما یصلح فانہ لم یکن فقیھا فیہ فقیھا فی الامر لہ معرفۃ بالناس تصور لہ الظالم بصورۃ المظلوم وعکسہ و المحق بصورۃ المبطل و عکسہ و راج علیہ المکر و الخدع و الاحتیال و تصور لہ الزند یق فی صورۃ الصدیق و الکاذب فی صورۃ الصادق و لبس کل مبطل ثوب زور تحتھا الاثم و الکذب والفجور و ھو لجھلہ بالناس و احوالھم و عوائد ھم و عرفیاتھم لا یمیز ھذا من ھذا بل ینبغی لہ ان یکون فقیھا فی معرفۃ مکر الناس و خداعھم و احتیالھم و عوائد ھم و عرفیاتھم فان الفتوی تتغیر بتغیر الزمان و المکان والعوائد و الاحوال و ذلک کلہ من دین اللّٰہ“ xxxiii

”جہاں تک ”معرفۃ الناس“قول کا تعلق ہے تو یہ ایک اصل عظیم ہے جس کے مفتی اور حاکم محتاج ہوتے ہیں۔ اگر وہ اس میں فقاہت نہ ر کھتا ہو تو امر اورنہی میں فقاہت رکھتا ہو گا۔ اگر لوگوں کے احوال کی معرفت نہیں ہوگی تو اصلاح کی نسبت فساد زیادہ ہوگا۔ کیونکہ جب لوگوں کے معاملات کی معرفت نہیں ہو گی تو اس طرح ظالم مظلوم کی شکل بنا لے گا اور مظلوم ظالم کی شکل میں ہو جائے گا۔ اسی طرح حقدار باطل کی شکل میں اور باطل حقدار کی شکل میں آجائے گا۔ اس طرح تو مکر و فریب اور حیلہ سازی کا راج ہو جائے گا۔ زندیق صدیق کی صورت اختیار کرلے گا اور کاذب صادق کی۔ ہر جھوٹ کا لبادہ اوڑھے ہوئے شخص کے اندر گناہ، جھوٹ اور نا فرمانی ہی نہیں چھپی ہوتی، لہٰذا مفتی وحاکم لوگوں کے معاملات، احوال، عادات اور عرفیات سے نا واقف ہونے کی وجہ سے غلط اور صحیح میں امتیاز نہیں کر سکے گا۔ لہٰذا چاہیے یہ کہ وہ لوگوں کے مکر، فریب، حیلہ سازی، عادات اور عرفیات سب کا جاننے والا ہو، بلا شبہ فتوی زمانے، مکان، عادات اور احوال کے تبدیل ہونے سے تبدیل ہو جاتا ہے، اور یہ سارے کا سارا اللہ کا دین ہی ہے“۔

چنانچہ حالات و زمانہ کے تبدیل ہوجانے سے فتوی کا تبدیل ہونا نہ تو شریعت سے بغاوت ہے اور نہ ہی صاحب مذہب کے خلاف کوئی نیا مذہب ایجاد کرنے کی کوشش ہے۔ بلکہ یہ حالات کا تقاضا ہے اور اسی طرح کی لچک ہمیں صاحب مذاہب اور اصحاب تخریج و ترجیح کے ہاں دیکھائی دیتی ہے۔ جس کاحکم صاحب فتوی کو مل رہا ہے۔ کہ مفتی کو فتوی دیتے ہوئے متعلقہ عرف اور عادات کا مکمل علم ہونا چاہیے۔ وگرنہ وہ فتوی دینے میں درست سے زیادہ غلط فتوؤں کا مرتکب ہو گا۔ الفقہ الحنبلی المیسر میں ہے:

”ولا یجوز ان یفتی فیما یتعلق باللفظ کا لطلاق و العتاق و الایمان بما اعتادہ ھو من فھم تلک الالفاظ دون ان یعرف عرف اھلھا و المتکلمین بھا بل یحملھا علی ما اعتادوہ و عرفوہ“ xxxiv

”مفتی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ایسے مسائل،جن کا تعلق الفاظ سے ہے جیسے طلاق، عتاق اور قسمیں وغیرہ ان الفاظ میں لوگوں کے عرف یا اہل زمانہ کے عرف کو پہچانے بغیراپنی عادت اور سمجھ کے مطابق فتوی دے۔ بلکہ وہ ان الفاظ کو لوگوں کی عادات اور عرف پر محمول کرے۔“

ان اصولوں کے مطابق ہمیں فقہاء حنابلہ میں سے بلند پایہ فقیہہ دیکھائی دیتے ہیں کہ وہ مسائل کی وضاحت اور تلقین کرتے ہوئے موقع و محل اور حالات کو زمانہ کی رعایت کا نہ صرف خود خیال رکھتے ہیں بلکہ اپنے تلامذہ اور متبعین کو بھی یہی درس دیتے ہیں۔ علامہ ابن قیم جوزی حنبلی نے اعلام الموقعین ہی میں علامہ ابن تیمیہ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ حالات وزمانہ کی رعایت کی جاتی رہی اور مسائل کے بیان میں ان کا خیال رکھا جاتا رہا۔ لکھتے ہیں:

”میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ قدس اللہ روحہ و نور ضریحہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ”میں (ابن تیمیہ) اور میرا ایک ساتھی زمانہ تاتار میں ایک قوم کے پاس سے گزرے جو شراب پی رہے تھے۔ میرے ساتھی نے انہیں برا بھلا کہا میں نے اپنے ساتھی کو منع کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے شراب اس لیے حرام کی ہے کہ وہ شراب اللہ کے ذکر اور نماز سے روکتی ہے۔ اور ان لوگوں کو تو شراب نے لوگوں کو قتل کرنے اور ان کے بچوں کو غلام بنانے اور ان کے اموال لوٹ لینے سے روکا ہوا ہے۔ لہٰذا ن کو شراب پینے سے منع نہ کرو۔“xxxv

حالانکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم کوئی برائی دیکھو تو اسے اپنے ہاتھ سے روکو اگر ہاتھ سے نہ روک سکو تو زبان سے روکو اور اگرایسا بھی نہ کر سکو تو دل میں برا جانو اور یہ کمزور ترین ایمان ہے ۔لیکن علامہ ابن تیمیہ نے نہ انہیں خود روکا اور نہ ساتھی کو روکنے دیا۔ علامہ ابن تیمیہ کا اپنے ساتھی کو شرابیوں کو منع کرنے سے روکنا ان کے حالات کی وجہ سے تھا۔ جب وہ ہوش کی حالت میں ہوتے ہیں تو لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور نقصان پہنچاتے ہیں لہذا ان کا شراب کے نشے میں دھت رہنا ہی بہتر ہے۔ بعد ازاں علامہ ابن القیم جنگ میں ہاتھ نہ کاٹے جانے کے متعلق نبی کریم ﷺ کی حدیث ذکر کرتے ہیں کہ:

”ان النبی ﷺ نھی ان تقطع الا یدی فی الغزو"

”نبی کریم ﷺ نے جنگ میں (چور کے) ہاتھ کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔“

حالانکہ ہاتھ کاٹنا اللہ کی حد ہے اور نبی کریم ﷺ حدود اللہ کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ جب حضرت

اسامہ نے ایک مخزومیہ کے ہاتھ کاٹنے کے بارے میں سفارش کی تھی اور آ پ نے فرمایا تھا:

”اتشفع فی حد من حدود اللّٰہ۔۔۔ لو فاطمۃ بن محمد سرقت۔۔۔لقطعت یدھا“

اس قدر سخت حکم کے باوجود جنگ کے موقع پر ہاتھ کاٹنے کو منع دینا، حالات زمانہ کی رعایت کی وجہ سے تھا۔ علامہ ابن القیم کچھ مزید مثالیں ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

”لیس فی ھذا ما یخالف نصا و لا قیاسا و لا قاعدۃ من قواعد الشرع و لا اجماعا بل لو ادعی انہ اجماع الصحابہ کان اصوب قال الشیخ فی المغنی ھذ ا اتفاق لم یظھر خلافہ قلت: اکثر ما فیہ تاخیر الحد لمصلحۃ راجحۃ اما من حاجۃ المسلمین الیہ او من خوف ارتد ادہ و لحوقہ بالکفار و تاخیرالحد لعارض امرٌ و ردت بہ الشریعۃ کما یوخر عن الحامل و المرضع و عن وقت الحرّ و البرد و المرض فھذا تاخیر لمصلحۃ المحدود فتاخیرہ لمصلحۃ الاسلام اولیٰxxxvi

”اس حوالے سے کوئی ایسی دلیل نہیں جو نص، یا قیاس کے مخالف ہو اور نہ ہی قواعد شرعیہ میں سے کسی قاعدہ کے خلاف اور نہ اجماع کے خلاف کوئی دلیل ہے۔ بلکہ اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ یہ اجماع صحابہ ہے تو زیادہ درست ہوگا۔ شیخ (ابن قدامہ حنبلی) نے المغنی میں فرمایا ہے کہ اس میں اتفاق ہے اور اس کا خلاف ظاہر نہیں ہوا۔ میں کہتا ہوں کہ اکثر اوقات حد کو موخر کرنے میں کوئی راجح مصلحت ہوتی ہے مثلا مسلمان اس کی ضرورت سمجھتے ہیں یا اس مجرم کے مرتد ہونے اور دار الحرب بھاگ جانے کا خوف ہوتا ہے لہٰذا حد کو کسی امر عارض کی بنا پر موخر کرنے میں شریعت وارد ہوئی ہے جیسا کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی سے حد کو موخر کرنا اور گردمی سردی اور مرض کی بنا پر احکام موخر کرنا۔لہٰذا یہ تاخیر محدود (جس پر حد لگائی جا رہی ہے) کی مصلحت کی بنا پر ہے۔ اس لیے اسلام کی مصلحت کی بنا پر حد کو موخر کرنا بدرجہ اولیٰ درست ہوگا۔“

اگرچہ احمد بن حنبل کے ہاں مصالح مرسلہ کی باقاعدہ اصطلاح تو مستقل نہیں ملتی لیکن ان کے مقلدین فقہاء کے ہاں اس اصطلاح کا استعمال ملتا ہے۔ جبکہ امام احمد بن حنبل کے اپنے اقوال میں وہ ساری مصالح کی رعایت ملتی ہے جو مصالح مرسلہ کا تقاضا ہیں۔ ڈاکٹر مصطفی لکھتے ہیں:

”اذا کان الامام احمد لم یذکرھا صراحۃ کاصل من اصول فقھہ و مصدر من مصادرہ فان کثیرا فی فتاوہ التی استھد فت صلاح الناس و صیانۃ المجتمع و دفع الضر عنہ تعتبر مما یندرج تحت باب المصالح المرسلۃ۔۔۔و الحقیقۃ ان المصالح مصدر من مصادر التشریع و اصل من اصول الاستباط منذ العصر الباکر للخلفاء الراشدین والامام احمد تلمیذ امین لمدرسۃ الصحابۃ فی الفقہ و رؤوس الصحابۃ ھم الخلفاء الرشدین“xxxvii

”اگرچہ امام احمد رحمہ اللہ نے مصالح مرسلہ کو اپنے اصول فقہ میں کسی اصل کی طرح یا مصادر میں کسی مصدر کی طرح ذکر تو نہیں کیا لیکن ان کے وہ کثیر فتاوی جن کا مقصد لوگوں کی اصلاح،معاشرے کی حفاظت اور ان سے ضرر کو دور کرنا تھا انہیں مصالح مرسلہ کے تحت ہے شامل کر کے اعتبار کیا جا سکتا ہے۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ خلفاء راشدین کے عہد اولیں سے ہی”مصالح مرسلہ“ شریعت کے مصادر میں سے ایک مصدر شمار ہوتا ہے اور اصول استنباط میں سے ایک اصل ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ فقہ میں درسگاہ صحابہ کے امین شاگرد رشید ہیں اور صحابہ کرام کے سر خیل حضرات خلفاء راشدین ہی ہیں“۔

انہی مصالح کی بنا پر شرعی مسائل قائم ہوئے ہیں جن کا فقیہ خیال رکھتا ہے۔ دیگر فقہاء حنابلہ کے ہاں بھی

ہمیں ان مصالح کے دلائل ملتے ہیں، ابن قدامہ لکھتے ہیں:

”ذکر القاضی ان للوصی قرض مال الیتیم فی بلاد لیوفیہ فی بلاد آخر لیربح خطر الطریق قال شیخنا و الصحیح جوازہ لانہ مصلحۃ لھما من غیر ضرر بواحد منھما و الشرع لا یرد بتحریم المصالح التی لا مضرۃ فیھا و لان ھذ ا لیس بمنصوص علیہ ولا فی معنی المنصوص فوجب ابقاء ہ علی الاباحۃ“ xxxviii

"قاضی نے ذکر کیا ہے کہ وصی کے لیے جائز ہے کہ یتیم کے مال کو ایک شہر میں قرض دے تا کہ دو سرے شہر میں اس سے وصول کر لے تا کہ وہ راستے کے خطرہ کا نفع حاصل کرے۔ ہمارے شیخ نے فرمایا کہ صحیح قول یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے۔ کیونکہ اس میں بغیر کسی کے نقصان کے دونوں کی مصلحت ہے۔ اور شریعت ایسے کسی مصالح کو حرام قرار دے کر رد نہیں کرتی جس میں کوئی نقصان نہ ہو۔ کیونکہ یہ منصوص علیہ مسئلہ نہیں اور نہ ہی منصوص علیہ کے معنی میں ہے لہٰذا اس کو اباحت پر باقی رکھا جائے گا۔"

چنانچہ جو مسئلہ منصوص علیہ نہیں اور نہ منصوص علیہ کے حکم میں ہے اس میں مصلحت کو دیکھا جائے گا اگر اس سے مصالح حاصل ہو رہے ہیں، کسی کو کوئی نقصان نہیں ہو رہا اور نہ ہی شریعت کے کسی حکم کی مخالفت لازم آرہی ہے۔ تو ان مصالح کو دیکھتے ہوئے اس کے جواز کا فتویٰ دیا جائے گا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ مسائل کے استنباط و ا ستخراج کے وقت جمہور فقہاء کرام جن میں فقہاء حنابلہ بھی شامل ہیں نے مصالح عامہ کو پیش نظر رکھا ہے المغنی کی ایک مثال دے کر آگے چلتے ہیں:

”اگر کسی شخص نے مسلمانوں کے نفع کے لیے کنواں کھودا، مثلا اس نے کنواں کھودا تا کہ راستے سے بارش کا پانی اس میں جمع ہو جائے گا۔ راہ گیر اس سے پانی پی سکیں گے۔ وغیرہ وغیرہ (اگر اس میں گرنے سے کسی کو نقصان ہوتا ہے) تو وہ کھودنے والا ضامن نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس نے تو ایسا کر کے اچھا کیا ہے اور کنواں کھود کر کسی پر ظلم نہیں کیا۔۔۔ اس بارے میں امام احمد کا قول ہے کہ وہ ضامن نہیں ہوگا جبکہ دوسرے قول سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ ضامن ہوگا۔ بعض فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر امام سے اجازت لے کر کھودا تو ضامن نہیں ہوگا اور ا گر بغیر اجازت کھودا تو ضامن ہوگا“۔ صاحب المغنی اپنا تبصرہ درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”الصحیح ھو الاول لان ھذا مما تدعوا الحاجۃ الیہ و یشق استئذان الامام فیہ تعم البلوی بہ و ففی وجوب استئذ ان الامام فیہ تفویت لھذ ہ المصلحۃ العامّۃ لانہ لا یکاد یوجد من یتحمل کلفۃ استئذانہ و کلفۃ الحفرمعا فتضیع ھذہ المصلحۃ فوجب اسقاط استئذانہ کما فی سائر المصالح العامۃ من بسط حصیر فی مسجد او تعلیق قندیل فیہ او وضع سراج او رم شعث فیہ و اشباہ ذلک“xxxix

”صحیح پہلا قول ہے(یعنی ضامن نہیں ہوگا) کیونکہ یہ کام ان کاموں میں سے ہے جن کی حاجت ہوتی ہے اور امام (حاکم وقت) سے اجازت لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ اور اس میں عموم بلوی ہوتا ہے۔ امام سے اجازت لینے کو واجب قرار دینے میں اس مصلحت عامہ کو فوت کرنا ہے کیونکہ کوئی شخص اس جھنجھٹ میں تو پڑنے سے رہا کہ وہ امام سے اجازت لینے کی تکلیف بھی برداشت کرے اور پھر کنواں کھودنے کی بھی۔ اس طرح تو یہ مصلحت ضائع ہو جائے گی۔ لہٰذا امام سے اجازت لینے کو ساقط کرنا واجب ہے۔ اسی طرح باقی مصالح عامہ میں بھی اجازت طلب کرنے کی حاجت نہیں مثلا مسجد میں چٹائی بچھانا، مسجد میں قندیل معلق کرنا، یا دیئے روشن کرنا یا مٹی صاف کرنا، اسی طرح دیگر اس سے ملتے جلتے معاملات ہیں“۔

نتائج

فقہاء شافیہ،مالکیہ اور حنابلہ نے مسائل کے حل میں حالات و زمانہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے لوگوں کے لیے شرعی احکام پر عمل کو آسان بنایا ہے ۔امام شافعی جو فقہ کا بہت بڑا نام ہیں آپ کی فقہی مساعی اسی سے عبارت ہےیہی وجہ ہے کہ امام شافعی نے مصر میں آ کراپنی بعض آراء اور بغداد میں جاری کیے گئے سابقہ فتاوی جات سے رجوع کر لیا تھا جو ان کے مذہب قدیم کے نام سے معروف ہیں ۔اس کی وجہ یہ بنی کہ مصر میں آ کر زمانہ، جگہ، اور عرف تبدیل ہو چکے تھے نیز نئے دلائل انہیں حاصل ہو چکے تھے۔چنانچہ فقہاء شافیہ تسلیم کرتے ہیں کہ لوگوں کے لیے ہر زمانے میں ایسے احکام نئے آتے ہیں جو ان کے لیے مناسب ہوتے ہیں اس کی تائید امام بخاری کی اس روایت سے ہوتی ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا اگر نبی کریم ﷺ کے علم میں یہ تبدیلی آتی جو اب عورتوں کے احوال میں پیدا ہو چکی ہے تو آپؐ بھی عورتوں کو(مسجد میں آنے سے) منع فرما دیتے۔فقہاء شافیہ کی مانند فقہاء مالکیہ بھی اس کاخیال رکھتے ہیں جیسا کہ امام ابو زھرہ نے لکھا ہے کہ عرف کا اعتبار کرنے میں فقہ مالکی، فقہ حنفی کی مانند ہے اورجن مسائل میں نص قطعی نہ ہو ان مسائل میں اسے فقہی اصولوں میں سے ایک اصل شمار کرتے ہیں، بلکہ مالکیہ تو عرف کے احترام میں حنفیوں سے بھی زیادہ آگے ہیں کیونکہ مصالح کا اعتبار مسائل کے استدلال میں فقہ مالکی کی بنیاد ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے عرف کا خیال رکھنا جس میں کوئی فساد نہ ہو مصلحت کی ایک قسم ہے۔ فقیہ کا اسے ترک کرنا صحیح نہیں ہو سکتا۔ فقہاءحنابلہ دیگر فقہاء کی لوگوں کے مصالح کا خیال کرتے ہیں اور حالات و زمانہ کی رعایت کرتے ہوئے مسائل بیان کرتے ہیں جیسا کہ علامہ ابن تیمیہ نے شرابیوں کو شراب پینے سے منع نہیں کیا بلکہ دوسرے ساتھی کو بھی منع کرنے سے روک دیا تاکہ خلق خدا ان کےشر سے محفوظ رہ سکے۔مصالح عامہ ،عرف و عادت اور حالات و زمانہ کی رعایت ، فقہاء کی تعلیمات کا وہ ہم حصہ ہیں جن سے پہلو تہی ممکن نہیں بلکہ ان کا خیال رکھے بغیر شرعی مسائل میں لوگوں کی راہنمائی کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔

سفارشات

مقالہ ہذا کی روشنی میں درج ذیل سفارشات درج ذیل ہیں :

1۔ حالات و زمانہ کی رعایت سے متعلق تمام فقہی مکاتب فکر کا از سر نو مطالعہ کیا جائے۔

2۔ فقہاء کرام کی ان اصطلاحات پر تحقیق کی جائے جن کا تعلق لوگوں کے مصالح کے ساتھ ہے اور مسائل کے حل میں ان سے مدد لی جائے ۔

3۔ جدید مسائل کے حل میں حالات و زمانہ کی رعایت سے متعلق فقہاء کرام کی راہنمائی سے استفادہ کو ضروری قرار دیا جائے۔

4۔ اسلامی نظریاتی کونسل اس عنوان پر باقاعدہ اہل علم سے کام کروائے ،اس پر علمی بحث ہو اور دار الافتاءاور عدالتوں میں اسے نافذ العمل قرار دیا جائے۔

5۔ اہل مدارس فقہ کی تدریس کرتے ہوئے حالات و زمانہ کی رعایت سے متعلق فقہاء کی تصریحات کو پیش نظر رکھیں بلکہ اسے نصاب کا حصہ بنایا جائے۔

 

حواشی و حوالہ جات

i ۔الرستاقی، ڈاکٹر محمد سمیعی سید عبد الرحمن، القدیم و الجدید من اقوال امام الشافعی، دار ابن حزم، ط۴۰۰۲ء، ص۴۸

Ālrstāqī, Dr. Muḥammad smīī Syed ʿAbd ālrḥmān، ālqdīm w āljadīd mīn āqwāl Īmām Ālšḥāfʿī، dār ībīn e ḥzm، 2004ʾP 48

ii ۔السیوطی، جلال الدین،عبد الرحمن،م ۱۱۹ھ: الاشباہ و النظائر فی قواعد و فروع فقہ الشا فعیہ،دار الکتب العلمیہ،بیروت،ط۱۹۳۸،ص۷۷،۷۸

Ālsīwṭī، ǧlāl āldīn،ʿbd ālrḥmn, 911Ḥ: Ālāšbāḥ w ālnẓāāīr fī qwāīd w frwoī fīqḥ ālšhāfī،dār ālktb ālʿlmīḥ،bīrwt،1983, P.77,78

iii۔ ڈاکٹرلمین الناجی:القدیم و الجدید فی فقہ الشافعی، دار ابن القیم، الریاض، ط۷۰۰۲ء، ج ۱، ص ۳۳۶

Dr.lāmīn ālnājī:ālqādīm w āljādīd fī fqḥ ālšhāfʿī، dār ībīn ālqyyīm، ālrīāḍ, 2007، v.1، P 336

iv ۔ ایضا ً، القدیم والجدید، ص ۳۳۸

Ībiḍ , P 338

v ۔ الغزالی، محمد بن محمد، الامام،م ۵۰۵ھ : المستصفی من علم الاصول،داراکتب العلمیہ،ط۱٩۳٩ء ،ص ۱۷۴

Ālġzālī، Muḥammad bīn Muḥammad ، āl īmām، 505ḥ : Ālmustāsfī mīn ʿ īlm ālāswl،Dārāktb ālʿlmīḥ،1939 ،P.174

vi ۔ایضا ً، ص ۱۷۷

Ībiḍ, P.177

vii ۔ السیوطی، جلال الدین عبد الرحمن: الاشباہ و النظائر فی قواعد و فروع فقہ الشافعیہ، ص ۹۰

Ālsīwṭī، Jālāl uldīn ʿbīd Ābdulrāḥmān: Ālāšhbāḥ w ālnẓāāīr fī qwāʿd w frwʿ fīqḥ ālšhāfʿī، P 90

viii۔ السبکی، عبد الوہاب بن علی، م ۱۷۷ ھ: الاشباہ و النظائر، دار الکتب العلمیہ بیروت، ط۱۹۹۱ء، ج ۱،ص ۵۱

Ālsubkī، Ābdālwḥāb bīn Ālī، 177 Ḥ: Ālāšhbāḥ w ālnẓāāīr، dār ālktb ālʿlmīḥ bīrwt، 1991, v.1،P.51

ix۔الزرکشی،محمد بن بہادر،بدر الدین،۴۹۷ھ :البحر المحیط فی اصول الفقہ،دار الحفوۃ،الکویت،ط۱۹۹۲ء،ج۱،ص۱۶۶

Ālzrkšī،Muḥammad bīn bāḥādr،bādr uldīn، 497h :Ālbḥrulmuḥīṭ fī āpwl ālfqḥ،dār ulḥāfwh،ālkwīt,1992،V,1،P.166

x ۔القرافی، احمد بن ادریس، م۶۸۴،: کتاب الفروق، انواء البرو ق فی انواء الفروق، دار السلام،ط۲۰۰۱ء، ج ۲،ص۷۷۹

Ālqrāfī، Āḥmd bīn ādrīs، m684: ktāb ālfrwq، ānwāʾ ālbrw q fī ānwāʾ ālfrwq، dār ālslām،2001،V, 2،P.779

xi ۔ ایضاً

Ibiḍ

xii ۔ مالکی،محمد بن احمد،م۱۲۹۹ھ : منح الجلیل شرح مختصر خلیل،دارالفکر بیروت،ط۱۹۸۹ء،ج۴،ص۱۵۹

Mālkī،Muḥammad bīn Āḥmād،1299 h : Mīnḥuljalīl šhrḥ mukẖtāsār kẖālīl،dārālf īkr bīrwt,1989, V,4،P.159

xiii ۔ کتاب الفروق، انواء البرو ق فی انواء الفروق،ج۲، ص ۷۵۸

Kītābulfārwq، Ānwāʾ ālbrwq fī Ānwāʾ ālfārwq،V.2، P.758

xiv ۔ الجیدی، عمر بن عبد الکریم : العرف و العمل فی المذہب المالکی، مطبعۃ الفضالۃ المحمدیہ، س ن، ص ۸۳

Āljīdī, Ūmār bīn Ābd ū lkārīm : Āl ūrf w ālʿmāl fī ālmḏḥāb ālmālkī، māṭbʿh ālfḍālh ālmūḥmādīḥ، P.83

xv ۔ ایضاً، ص ۸۴

Ibiḍ, P 84

xvi ۔ القرافی، احمد بن ادریس،م۶۸۴: الاحکام، دار البشائر الاسلامیہ بیروت، ط۱۹۹۵ء، ص ۲۱۸،۲۱۹

Ālqrāfī، Āḥmd bīn īdrīs، 684: Ālāḥkām, dār ālbšāāīr ālīslāmīḥ bīrwt، 1995، P 218،219

xvii ۔ایضاً

Ibiḍ

xviii ۔ العرف و ا لعمل فی المذہب المالکی، ص ۸۶،۸۷

Āl ūrf w ālʿmāl fī ālmḏḥāb ālmālkī, P.86,87

xix ۔الولاتی، محمد بن یحی المختار،م۱۳۳۰: ایصال السالک الی اصول مذہب الامام مالک، دار ابن حزم، بیروت،ط ۲۰۰۶ء، ص ۱۶۵

Ālwlātī، Muḥammad bīn Yāḥyā ālmukẖtār،1330: Īsāl u sālīk īlā āswl mḏḥāb āl īmām Mālīk، dār ībīn e ḥāzm، bīrw,2006 , P 165

xx ۔الحنبلی،محمد بن مفلح، شمس الدین،م۷۶۳: اصول الفقہ، مکتبہ العبیکان،س ن، ج۴،ص ۱۴۶۱

Ālḥānblī،Muḥammad bīn Muflīḥ، Šhāms uldīn،763: Uswl ulfīqḥ، mktbḥ ālʿbīkān,V.4،P 1461

xxi ۔شاطبی،ابراہیم بن موسی،م ۷۹۰ھ: الموافقات فی اصول الشریعۃ،دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری لاہور،ط۲۰۰۶ء، ج۴،ص۳۱۴

Šhāṭbī, Ībrāḥīm bīn Musā, 790Ḥ: Ālmwāfīqāt fī Uswl ālšhrīh،dīāl sngh trust library Lāḥore ,2006, V.4, P.314

xxii ۔ایضا ً،۳۱۵

Ibiḍ,315

xxiii ۔الولاتی، محمد بن یحی المختار: ایصال السالک الی اصول مذہب الامام مالک،ص۱۷۰

Ālwlātī، Muḥammad bīn Yāḥyā ālmukẖtār, P.170

xxiv ۔سورۃ الانبیاء۲۱:۱۰۷

Al.Quran,21:107

xxv ۔سورۃ یونس ۱۰:۵۷

Al.Quran,10:57

xxvi ۔ابو زہرہ: اصول الفقہ، ص ۲۷۹

Ābu zuḥrḥ: Uswl ulfīqḥ ، Dārulfīkr ālārābī, P 279

xxvii ۔زیدان، عبد لکریم، ڈاکٹر: الوجیز فی اصول الفقہ، موسسۃ الرسالۃ، ۱۹۸۷، ص ۲۳۸

Zīdān، Ābud lkārīm,Dr.: Ālwjīz fī Uswl ulfīqḥ, Muāssāh ālrīsālh، 1987، P 238

xxviii ۔الفاسی،عبید بن محمد،الشیخ، النظائر فی الفقہ المالکی،دار البشائر الاسلامیہ،بیروت،ط۲۰۱۰ء، ص۱۲۷

Ālfāsī،Ubāīd bīn Muḥammad،ālšhīkẖ، Ālnẓāāīr fī ālfqḥ ālmālkī،dār ālbšāāīr ālāslīmīḥ،bīrwt,2010, P127

xxix ۔زیدان، عبد لکریم، ڈاکٹر: الوجیز فی اصول الفقہ، ص ۳۴۳

Zīdān، Ābud lkārīm,Dr.: Ālwjīz fī Uswl ulfīqḥ, P 343

xxx ۔القرافی، احمد بن ادریس،م۶۸۴: الاحکام،، ص ۲۲۰

Ālqrāfī، Āḥmd bīn īdrīs, Ālāḥkām,ālāḥkām, P 220

xxxi ۔ ڈاکٹر مصطفی الشکعہ، الائمۃ الاربعۃ، دار الکتب المصری، القاہرہ، ط۲۰۱۲ء، ج۴،ص۶۳

Dr. Musṭfā ālšhākḥ, Ālāāīmh ālārbāh، Dār ālkutub ālmāsrī، Ālqāḥ īrḥ, 2012 V.4,P.63

xxxii۔ایضًا، ص ۶۴۲

Ibiḍ ,P. 642

xxxiii۔ ابن القیم، محمد بن ابو بکر، م ۱۵۷: اعلام الموقعین عن رب العالمین، دار ابن الجوزی، ریاض،ط ۱۴۲۳ء، ج ،ص،۳۱۱

Ībn ul qāyīm، Muḥammad bīn Ābw bākr: Īʿlām ulmwqʿīn ān rābbīlʿālāmīn، dār ābīn āljwzī، rīāḍh,1423, P. 311

xxxiv۔ الزحیلی، ڈاکٹر وھبہ: الفقہ الحنبلی المیسر، دار القلم، دمشق،ط ۱۹۹۷ء، ج۴، ص ۳۱۰

Ālzuḥīlī,Dr. wahbāḥ: ālf īqḥ ulḥānbālī ālmuyāssār، dār ālqlm، Dimāšhq,1997,V.4,P.310

xxxv۔ ابن القیم، محمد بن ابو بکر، م ۱۵۷، اعلام الموقعین عن رب العالمین،ج۴،ص۳۴۰

Ībn ul qāyīm، Muḥammad bīn Ābw bākr: Īʿlām ulmwqʿīn ān rābbīlʿālāmīn, V.4, P.340

xxxvi ۔ ایضاً،ص ۳۴۴،۳۴۵

Ibid, P.344, 345

xxxvii۔الشکعہ،مصطفی،ڈکٹر،الائمۃ الاربعۃ،الامام احمد بن حنبل، دار الکتب المصری، القاہرہ، ط۲۰۱۲ء،ج۴،ص۲۴۰

Dr. Musṭfā ālšhākḥ, Ālāāīmh ālārbāh، ،Āl īmām āḥmd bīn ḥānbāl، ، Dār ālkutub ālmāsrī، Ālqāḥīrḥ, 2012,P.240

xxxviii۔الحنبلی، عبدالرحمن بن محمد بن قدامۃ،م۲۸۶: الشرح الکبیرعلی متن المقنع،دار الکتاب العربی،س ن، ج ۴، ص۳۶۰

Ālḥnblī، , Ābdurḥmān bīn Muḥammad bīn Qādāmh, 682 Ḥ: Ālšhrḥ ālkbīrʿālā mātān e Ālmqnā, Dār ālktāb āl ārābī,V.4, P. 360

xxxix۔المقدسی،عبد اللہ بن احمد،موفق الدین،م۶۲۰ ھ :المغنی،مکتبۃ القاہرۃ،ط۱۹۸۶ء،ج۸،ص۴۲۴

Ālmuqādāsī، Ābdullḥ bīn Āḥmd،Muwāfāquddīn, 620 Ḥ :Ālmuġhnī،māktbh Ālqāḥrh1986,V.8, P.424

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...