37
57
2022
1682060078052_3033
97-118
https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/download/506/374
https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/view/506
موضوعِ تحقیق کا تعارف
اسلام سے پہلے خواتین غلامی ، ذلت اور ظلم و استحصال کا شکار تھیں ۔اسلام نے آ کر عورت کو غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادکرایا۔ اسلام نے ان تمام بُری رسوم کو ختم کردیا جو خواتین کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور اُن کو وہ حقوق عطا فرمائے جن سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ۔[i]
"اُن کے خدا نے ان کی دعا کو درجہ ٔ قبولیت عطا فرمایا کہ میں تم سے کسی کام کرنے والے کے کام کو رائیگاں نہیں ہونے دوں گا،اس کا تعلق رجال سے ہو یا نساء سے ۔ "
نبی اکرمﷺ نے معاشرتی اور خانگی ہر دو سطح پر خواتین کو ان کے درست مقام و مرتبے اور انسانی عزت و عظمت سے نوازا ۔حقیقت میں معاشرے میں خواتین کو عطا کیا جانے والا مقام و مرتبہ اس لحاظ سے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اس عزت افزائی کی وجہ سے نہ صرف خود ان کی شخصیت اور ان کے کردار کا تعین ہوتا ہے بلکہ پورا معاشرہ ان سے متاثر ہوتا ہے ۔ نبی اکرمﷺ کی حقیقی والدہ تو آپ ﷺ کے بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھیں لیکن آپ ﷺ کی رضاعی والدہ حضرت سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا جب آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں تو آپ ﷺ نے اُن کے لیے اپنی چادر بچھائی اور خود اُن کے سامنے دوزانو ہو کر تشریف فرما ہو گئے۔[ii] آپ ﷺ کی دودھ شریک بہن شیما جنگ حنین میں گرفتا ہوئیں تو آپ ﷺ نے انہیں ایک دستہ کے ساتھ مختلف تحائف دے کر رخصت فرمایا ۔[iii] ازواجِ مطہرات کے ساتھ اپنے عمل کی خود گواہی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
خیرکم خیرکم لأهله وأنا خیرکم لأهلی۔[iv]
"تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں ۔"
نبی اکرمﷺ نے اپنے قول و عمل سے یہ ثابت کیا کہ بیٹیاں شفقت کی مستحق ہوتی ہیں ۔ آپ ﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں ۔ سیدہ جب آپ ﷺ کی بارگاہ میں آتی تو آپﷺ کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے، ان کو بوسہ دیتے ، ہاتھ پکڑ لیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے ۔[v] بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے والے لوگوں کے سامنے آپ ﷺ نے اپنی چاروں صاحبزادیوں کی پرورش فرمائی ،ان کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور ان لوگوں کو یہ دکھایا کہ بیٹیوں کےساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے ۔ خواتین کے معاشرتی حقوق سے متعلق اسلام نے ایسی روشن تعلیمات چھوڑی ہیں کہ اُن پر عمل کر خواتین کو اُن کے معاشرتی حقوق عطا کیے جاسکتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود دور ِ حاضر میں خواتین کو اُن کے بہت سارے معاشرتی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیرت النبیﷺ کی روشنی میں خواتین کے معاشرتی مسائل کو معاشرے کے سامنے لایا جائے ۔نیز دور ِ حاضر میں خواتین کو درپیش تحدیات کو ذکر کیا جائے ۔ اسی مقصد کی تکمیل کے لیے زیر نظر مقالہ تحریر کیا گیا ہے۔
سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں خواتین کی معاشرتی حیثیت
دینِ اسلام انسانوں کے لیے عزت ، وقار ، عظمت اور حقوق کے تحفظ کا پیغام لے کر آیا۔ اسلام کی آمد سے پہلے معاشرے کے کمزور افراد طاقتور افراد کے ماتحت تھے ۔ تاہم اس معاشرے میں خواتین کی حالت سب سے زیادہ کمزور تھی۔نبی اکرمﷺ نے عورت کے مذہبی ، سیاسی ،قانونی ، انتظامی اور معاشرتی حقوق کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس کے تمام حقوق کی ضمانت بھی عطا فرمائی ۔ مرد اور عورت کے ماں ، بہن ، بیوی اور بیٹی چار بنیادی رشتے ہوتےہیں ۔نبی اکرم ﷺ نے اپنے عمل کے ساتھ ان چاروں کی معاشرتی اجاگر کر کے لوگوں کو بتلایا کہ خواتین معاشرے کا اہم فرد ہیں ۔
۱۔ نبی اکرمﷺ کا والدہ کے ساتھ سلوک
آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ آمنہ تو اس وقت وفات پا گئی تھیں جب آپ ﷺ کی عمر مبارک ابھی صرف چھ سال تھی ۔ لیکن آپ ﷺ کی رضاعی مائیں تھیں ، جب وہ آپ ﷺ سے ملنے کے لیے آتیں تو آپ ﷺ ان کا ادب و احترام کرتے اور محبت و پیار کے ساتھ پیش آتے ۔حضرت سیدہ ثویبہ رضی اللہ عنہا کا شمار بھی آپ ﷺ کی رضاعی ماؤں میں ہوتا ہے ۔ یہ نبی اکرمﷺ کی خدمت اقدس میں برابر آیا کرتی تھیں اور آپ ﷺ اپنی اس ماں کے سات حسنِ سلوک ،صلہ رحمی اور نیکی سے پیش آیا کرتے تھے ۔ اُن کی شان کے مطابق اُن کو عزت دیتے ، اُن کی ضروریات کو پورا کرتے اور انہیں مختلف اقسام کے مال بھی عطا فرمایا کرتے تھے ۔ بلاذری[vi] لکھتے ہیں :
وکانت ثویبة تأتی النبیﷺ فیبرها ویکرمها۔[vii]
"حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتی تو آپ ﷺ ان کے ساتھ نیکی سے پیش آتے اور اُن کی عزت افزائی کرتے۔ "
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو نبی اکرمﷺ کی پہلی زوجہ محترمہ ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ آپ ﷺ کی کی وجہ سے وہ بھی حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا کا احترام کیا کرتی اور اُن کو نوازتی تھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ابو لہب ہاشمی کو کہا تھا کہ وہ انہیں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دےتاکہ ان کو کامل آزادی نصیب ہو جائے ۔اس حوالے سے علامہ سہیلی کے الفاظ یہ ہیں :
وکانت خدیجة تکرمها وهی ملک ابی لهب وسألته ان یبعها فامتنع۔[viii]
"حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اُن کی عزت کرتی تھیں اور یہ ابو لہب کی ملکیت میں تھیں انہوں نے کہا کہ وہ اسے بیچ دیں اور باز آ جائیں ۔"
پورے مکی دور میں وہ حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی خدمات اور اُن کے انعام و اکرام سے فائدہ اٹھاتی رہیں ۔یہ سلسلہ ہجرت سے تین سال پہلے تک چلتا رہا ۔پھر حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا ۔ حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ محبت اور جود و سخا کا یہ سلسلہ صرف مکی زندگی تک محدود نہیں رہا بلکہ مدنی زندگی میں بھی برابر حضور ﷺ اُن کے ساتھ یہ احسان فرماتے رہے۔ مدینہ منورہ سے اُن کے لیے کپڑے ، ہدیے اور اموال وغیرہ بھیجا کرتے تھے ۔ [ix] نبی اکرمﷺ حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا کی رضاعت کو ایک قرض اور احسان ِ محبت سمجھتے تھے اور اپنے چچا محترم حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے رضاعی برادروں کے ساتھ ان کے احسان کا صلہ ان کو عطا کرنا چاہتے تھے ۔
رضاعت کا مستقل سہرا حضرت سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کے سر بندھتا ہے۔ حقیقت میں ان کی ذات گرامی ہی نبی اکرمﷺ کی اصل رضاعی والدہ کہلاتی ہیں۔مختلف روایات سے پتا چلتا ہے کہ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرمﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضری دیا کرتی تھیں ۔ مکی دور میں ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہا حضورﷺ سے ملاقات کے لیے مکہ مکرمہ آئی تھیں ۔ اس حوالے سے امام ابن جوزی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا جس شہر میں رہتی تھیں وہاں قحط نازل ہوا تو وہ نبی اکرمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں۔ اُس وقت نبی اکرمﷺ کا نکاح حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہو چکا تھا ۔حضور ﷺ کی بارگاہ میں پہنچ کر انہوں نے قحط سالی کی شکایت کی ۔سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کی بات سن کر آپؐ نے اپنی شریکۂ حیات حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو فرمائی تو انہوں نے سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کو چالیس بکریاں اور ایک اونٹ دیا۔[x]حلبی کہتے ہیں کہ پہلی مرتبہ زیارت وملاقات میں سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہااپنے شوہر اور اپنے بچوں کو بھی ساتھ لائی تھیں اور رسول اللہ ﷺ نے ان سب کو اپنی چادر پر بٹھایا ۔[xi] حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پر نبی اکرمﷺ کی تربیت کا ہی اثر تھا کہ انہوں نے مشکل حالات میں آپ ﷺ کی رضاعی والدہ کو مال و متاع عطا کیا ۔اس روایت کا ظاہر مطلب یہی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ سلسلۂ خیر و عطا قائم فرما رکھا تھا ۔ بلاذری کے مطابق نبی اکرمﷺ نے انہیں ان کے خاندان والوں کے ساتھ بھلائی اور خیر کے ساتھ بھیج دیا ۔[xii] مدنی دور میں نبی اکرمﷺ سے حضرت سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کی ملاقات کی ایک مرتبہ حنین[xiii] کے زمانے میں ہوئی۔ کچھ سیرت نگار لکھتے ہیں کہ اس موقع پر حضرت سیدہ حلیمہ سعدیہ تشریف لائیں تو آپ ﷺ نے ان بڑے شاندار طریقے سے اُن کا استقبال فرمایا اور اُن کی شان کے مطابق انہیں مقام و مرتبہ عطا فرمایا۔ ابن سعد کہتے ہیں کہ ایک خاتون نبی اکرمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی جس نے بچپن میں نبی اکرمﷺ کو دودھ پلانے کا شرف حاصل کیا تھا تو آپ ؐ نے "میری ماں، میری ماں "کہتے ہوئے ان کا بڑے محبت بھرے انداز میں ان کا استقبال فرمایا اور اپنی چادر مبارک بچھا کر انہیں اس پر بٹھا دیا ۔ [xiv] فتح مکہ کے موقع پر ایک بڑا دلچسپ واقعہ پیش آیا ۔ بلاذری وغیرہ نے جو الفاظ نقل کیے ہیں وہ درج ذیل ہیں :
وقدمت علی رسول اللهﷺ یوم فتح مکة وهو بالابطح ،اخت حلیمة ومعها اخت زوجها واهدت الیه جرابا فیه اقط ونحیی سمن ، فسأل اخت حلیمة عن حلیمة ،فاخبرته بموتها فذرقت عیناه ، وسألها عمن خلفت ، واخبرته نجلة و حاجة فأمر ها بکسوة وحمل ظعینة واعطاها مائتی درهم وافیة وانصرفت وهی تقول نعم المکفول انت صغیرا وکبیرا۔[xv]
" فتح مکہ کے دن نبی اکرمﷺ "ابطح " نامی مقام پر تشریف فرما تھے کہ حضرت سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کی بہن آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں ۔ اُن کے ساتھ اُن کے شوہر کی بہن بھی تھیں ۔ انہوں نے آپﷺ کی بارگاہ میں پنیر اور خالص گھی کی ایک تھیلی پیش کی ۔ آپ ﷺ نے اُن سے حضرت سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا سےمتعلق پوچھا تو انہوں نےبتایا کہ وہ وفات پا چکی ہیں ۔اُن کی موت کی خبر سن کر آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے ۔ پھر آپ ﷺ نے اُن کے اخلاف سےمتعلق پوچھا ، انہوں نے اپنی ضرورت اور حاجت سے آپ کو آگاہ کیا تو آپ ﷺ نے انہیں کپڑے ، سامان سے بھرا ہوا ایک اونٹ اور دوسو درہم عطا فرمایا ۔ واپس جاتے ہوئے کہنے لگیں کہ آپ ﷺبچپن اور بڑے ہو کر بہترین زیرِ کفالت بچے رہے ہیں ۔ "
قبیلہ ہوازن اور قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے جو دلیل استعمال کی ، اس کو علامہ شبلی نے بڑے احسن انداز میں بیان کیاہے ۔ جب یہ لوگ حضور ﷺ کی بارگاہ میں اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے پہنچے تو وہ عرض کرنے لگے کہ جو عورتیں چھپروں میں محبوس ہیں انہیں میں آپ کی پھوپھیاں اور آپ کی خالائیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی قسم اگر عرب کے سلاطین میں سے کسی نے ہمارے خاندان کی کسی عورت کا دودھ پیا ہوتا تو ان سے بڑی امیدیں تھیں۔ آپ سے تو اُن سے بھی زیادہ امیدیں ہیں ۔ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ خاندانِ عبد المطلب کا جتنا حصہ ہے وہ تمہارا ہے ۔ لیکن سارے قیدیوں کی رہائی کا طریقہ یہ ہے کہ نماز کے بعد جب لوگ جمع ہوں تو سب کے سامنے یہ اعلان کرو۔ نماز ظہر کے بعد ان لوگوں نے یہ اعلان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے صرف اپنے خاندان پر اختیار ہے لیکن اہل اسلام سے میں ان کی سفارش کرتا ہوں ۔ مہاجرین اور انصار فوراً بول اٹھے کہ ہمارے حصے بھی حاضر ہیں ۔اس طرح چھ ہزار افراد ایک ہی دفعہ آزاد کر دیے گئے ۔ جدید اصطلاحات کی روشنی میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہوازن کے سرداروں نے اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے رضاعتِ نبوی ﷺ کا کارڈ استعمال کیا جو کہ صحیح تھا۔[xvi]
نبی اکرمﷺ نے اپنے اس عمل مبارک سے بتلا دیا کہ ماں حقیقی ہو یا رضاعی ، وہ قابل عزت و احترام ہے۔ اُسے ہر حال میں نہ صرف عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے بلکہ حتی المقدور اس کی خدمت کرنے کی کوشش کی جائے ۔
۲۔ نبی اکرمﷺ کا بہن کے ساتھ سلوک
نبی اکرمﷺ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے ۔ آپ ﷺ کا نہ تو کوئی حقیقی بھائی تھا اور نہ بہن ۔ البتہ رضاعی بھائی اور بہنیں ضرورتھیں۔غزوہ حنین بڑی معرکۃ الآراء جنگ تھی۔ اس کے بارے میں قرآن آتا ہے:
وَيَوْمَ حُنَيْنِ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ کَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِيْنَ ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَه عَلٰي رَسُوْلِه وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْاوَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الْکٰفِرِیْنَ۔[xvii]
"اور یاد کریں حنین کا دن جب تمہیں تمہاری کثرت تمہیں تعجب میں ڈالتی تھیں تو اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں دیا اور اپنی سعت اور گشادگی کے باوجود زمین تم پر تنگ ہو گئی ۔پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ اور اہل اسلام پر سکون نازل فرمایا اور ایسے لشکروں کو نازل فرمایا جو تمہیں نظر نہیں آ رہے تھے اور اس نے کفار کو عذاب دیا اور کفار کی یہی سزا ہے۔ "
اس جنگ کے قیدیوں میں حضرت شیما بنت حارث رضی اللہ عنہا بھی تھیں جو حضور اکرم ﷺ کی رضاعی بہن تھیں ، مسلمان نہیں جانتے تھے کہ یہ حضور ﷺ کی رضاعی بہن ہیں۔بی بی شیمابڑھاپے کی حدود سے گزر رہی تھیں ، انہوں نے سپاہیوں سے فرمایاکہ تم نہیں جانتے ہو کہ میں تمھارے صاحب کی رضاعی بہن ہوں۔ لہذامیرے ساتھ ادب سے بات کرو۔ لیکن سپاہیوں کو یقین نہ آیا۔ وہ انہیں حضور ﷺ کی خدمت میں لے آئے۔سیدہ شیما رضی اللہ عنہا نے اپنی پیٹھ کھول کر دکھائی ۔ ایک دفعہ بچپن میں آنحضرت ﷺ نے انہیں دانت سے کاٹا تھا، یہ اس کا نشان تھا ۔ یہ دیکھ کر فرط محبت سے آپﷺ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، اپنی ردا مبارک بی بی شیما کے بیٹھنے کے لئے بچھادی، محبت کی باتیں کیں اور فرمایاکہ اے بہن تم میرے یہاں رہنا چاہو تو تمہارا گھر ہے اور اگر واپس تشریف لے جانا چاہو تب بھی مجھے اصرار نہیں۔سیدہ شیما نے اپنے قبیلہ میں جانے کو ترجیح دی ۔مگر اسی روز مسلمان ہوگئیں۔نبی اکرم ﷺ نے انھیں غلام اور اموالِ خمس میں سے کچھ حصہ دے کر رخصت فرمایا۔حضور اکرم ﷺ نے بی بی شیما کو ایک غلام مکحول نامی اور ایک لونڈی عطا فرمائی۔شیما نے مکحول کی شادی لونڈی سے کردی اور بنی سعد میں اس کی نسل موجود ہے۔[xviii] نبی اکرمﷺ کے اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہن ایک قابل عزت رشتہ ہے ۔ اس کو ہمیشہ احترام و عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے ۔
۳۔ نبی اکرمﷺ کا ازواج مطہرات کے ساتھ سلوک
خواتین کو بیوی ہونے کی حیثیت سے نبی اکرمﷺ نے وہ معاشرتی مقام عطا فرمایا جو کسی بھی معاشرے نے اسے نہیں دیا ۔ آپ ﷺ کی کل ۱۱ جبکہ ایک وقت میں ۹ بیویاں تھیں ۔ اتنی خواتین کے ساتھ نکاح کرنے کی محققین نے کئی حکمتیں بیان کی ہیں ۔ اُن میں سے ایک حکمت یہ تھی کہ اس کے ذریعے وہ احکام لوگوں تک پہنچائے جائیں جن کی تبلیغ امہات المؤمنین کے ذریعے ہی ممکن تھی ۔[xix]ایک حکمت یہ تھی کہ کچھ ایسی معلمات معرض وجودمیں آ جائیں ، جو امت محمدیہ کی خواتین کو دین اسلام کے احکام کی تعلیم دی سکیں ۔ کیونکہ بہت سارے مسائل ایسے ہوتے تھے جن کو بتانےمیں حیا مانع ہو جاتی تھی ۔ نبی اکرم ﷺ آخری نبی ہیں ، آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس لیے ضروری تھا کہ آپ ﷺ اپنی زندگی میں ہی ان تمام مسائل کا حل پیش کر جاتے جن سے لوگوں کو واسطہ پڑتا ہے ۔ گھر سے باہر پیش آمدہ مسائل کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دیکھ اور سن کر یاد کر لیتے تھے لیکن گھر گھر کی چار دیواری میں پیش آنے والے مسائل کا حفظ اور پھر ان کا لوگوں تک پہنچانے کے صرف یہی ذریعہ تھا کہ آپ ﷺمتعدد خواتین سے نکاح فرماتے ۔ وہ مقدس خواتین گھر میں پیش آنے والے مسائل لوگوں تک پہنچاتی۔ایک حکمت یہ تھی کہ مختلف قبائل کے ساتھ رنجش کا خاتمہ کیا جائے ۔ [xx] ایک حکمت یہ تھی کہ مختلف قبائل کےساتھ تعلقات قائم کیے جائیں۔[xxi] ازواج مطہرات کے ساتھ نبی اکرمﷺہمیشہ حسنِ سلوک سے پیش آتے اور انہیں ہمیشہ عزت و احترام عطا فرماتے ۔ ازواج کے بارے میں آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
"خَيْرُکُمْ خَيْرُکُمْ لِأَهْلِه، وَأَنَا خَيْرُکُمْ لِأَهْلِي۔[xxii]"
"تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے او رمیں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب
سے بہتر ہوں ۔ "
نبی اکرمﷺ اپنے گھر والوں کس قدر بہتر تھے ۔ اس کا انداز آپ ﷺ کی عائلی زندگی کو پڑھ کر کیا جا سکتا ہے ۔ ذیل میں چند احادیث طیبہ اس حوالے سے پیش کی جا رہی ہیں :
۱۔حضرت اسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ نبی اکرمﷺ گھر میں کیا فرمایا کرتے تھے ؟ تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
کَانَ يَکُوْنُ فِي مِهْنَةِ أَهْلِه، تَعْنِي خِدْمَةَ أَهْلِه، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاةِ۔[xxiii]
" آپ ﷺ گھر کے کام کرتے تھے اور نماز کے وقت نماز کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔"
۲۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ اپنی ازواج میں سے کسی زوجہ محترمہ کے پاس تشریف فرما تھے کہ باقی امہات المومنین میں سے کسی نے آپ ﷺ کے لیے کھانا بھیجا ، جن کے گھر آپ ﷺ تشریف فرما تھے انہوں نے خادم کےہاتھ پر کوئی چیز ماری، جس کی وجہ سے وہ برتن ٹوٹ گیا ۔ آپ ﷺ نے اس برتن کے ٹکڑے جمع کیے پھر گرے ہوئے کھانے کو جمع فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری ماں کو غیرت آ گئی تھی ۔ پھر آپ ﷺ نے اس خادم کو اس وقت تک روکے رکھا جب تک گھر والی زوجہ محترمہ نے نیا برتن منگوا کر نہ دیا ۔ ٹوٹا ہوا برتن انہی کے گھر میں رہنے دیا ۔ [xxiv]
۳۔حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میں نبی اکرمﷺ کے پاس تھی تو لڑکیوں کے ہمراہ کھیل کود کیا کرتی تھی، وہ لڑکیاں میری سہیلیاں تھیں ۔جب حضورؐ تشریف لاتے تو وہ چھپ جاتی ۔
فَيُسَرِّبُهُنَّ إِلَيَّ فَيَلْعَبْنَ مَعِی۔[xxv]
"حضور ﷺ اُن کو میرے پاس بھیجتے اور وہ میرے ساتھ دوبارہ کھیلنا شروع کر دیتیں ۔"
۴۔سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم ! مجھے وہ منظر آج بھی نظر آ رہا ہے کہ نبی اکرمﷺ میرے گھر کے دروازے پر تشریف فرما تھے اور مجھے آپﷺ اپنی چادر مبارک میں چھپائے ہوئے تھے۔آپ ﷺ کی مسجد میں حبشی لوگ جنگی مشقیں کر رہے تھے ۔
ثُمَّ يَقُوْمُ مِنْ أَجْلِي حَتّٰی أَکُوْنَ أَنَا الَّتِي أَنْصَرِفُ، فَاقْدِرُوْا قَدْرَ الْجَارِيَةِ الْحَدِيْثَةِ السِّنِّ، حَرِيْصَةً عَلَی اللَّهْوِ۔[xxvi]
"حضور ﷺ وہاں میری وجہ سے قیام فرما رہے ۔میرا دل بھر گیا اور میں خود وہاں سے چلی گئی۔ اب تم خود اندازہ کر لو کہ ایک کمسن اور کھیل کی شائق لڑکی کتنی دیر کھیل کو دیکھتی ہے۔"
۵۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کا ایک غیر عربی پڑوسی تھا ، اسے سالن بنانے میں بڑی مہارت حاصل تھی ۔ایک دن اس کا جی چاہا کہ میں حضور ﷺ کی دعوت کروں ۔ اس مقصد کے لیے اس نے بہترین قسم کا سالن تیار کیا ۔جب وہ آپ ﷺکو بلانے گیا تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ یہ دعوت میرے اکیلے کی ہے یا عائشہ رضی اللہ عنہابھی ساتھ ہوں گی ؟اس نے عرض کیا کہ آپ اکیلے کی ہے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اس دعوت میں نہیں آ سکتا ۔ اس شخص نے دوسری مرتبہ پھر دعوت کی تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ میری اکیلے کی ہے یا عائشہ بھی ساتھ ہوں گی ؟ تو اس نے کہا کہ آپ اکیلے کی ۔ تو آپ ﷺ نے پھر جانے سے انکار فرمادیا ۔ اس نے تیسری مرتبہ پھر آپ ﷺ کی دعوت کی تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ میرے اکیلے کی ہےیا عائشہ رضی اللہ عنہاکی بھی ؟ اس نے عرض کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھی ۔
فَقَامَ يَتَدَافِعَانِ حَتّٰی أَتَيَا مَنْزِلَه۔[xxvii]
" پھر دونوں ایک دوسرے کو تھامتے ہوئے اُٹھے اور اُس شخص کے گھر تشریف لے گئے۔"
۶۔حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ جب آپ مجھ سے راضی ہوتی ہو تب بھی مجھے پتا چل جاتا ہے اورجب آپ مجھ سے ناراض ہوتی ہو تب بھی مجھے پتا چل جاتا ہے ۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! وہ کیسے ؟نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب آپ مجھ سے راضی اور خوش ہوتی ہیں تو آپ کہتی ہیں کہ محمد ﷺ کے رب کی قسم اورجب آپ مجھ سے ناراضی ہوتی ہیں تو کہتی ہیں کہ ابراہیم کے رب کی قسم ۔ سیدہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ
أَجَلْ، وَاللهِ، يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا أَهْجُرُ إِلَّا اسْمَکَ۔[xxviii]
" اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! اُس وقت میں صرف آپ کا نام ہی تو چھوڑتی ہوں۔"
نبی اکرمﷺ کی کی زندگی مبارکہ کے اس پہلو سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کو اپنی بیوی کے اتنا قریب ہونا چاہیے کہ اس کے ناراضگی اور خوشی کے جذبات کو آسانی سے سمجھ لے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ شوہر بیوی کے ساتھ اس کے رویے کے مطابق بات کرے گا۔
۷۔سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرمﷺ کے ہمراہ تھیں کہ میں نے آپؐ کے ساتھ دوڑ لگائی۔ اس دوڑ میں حضور ﷺ سے میں آگے نکل گئی ۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد جب میرا وزن زیادہ ہو گیا تو پھر ہم نے دوڑ لگائی جس میں نبی اکرمﷺ آگے نکل گئے تو آپ ؐ نے ارشا فرمایا :
هٰذِه بِتِلْکَ السَّبْقَةِ۔[xxix]
" عائشہ! یہ اُس جیت کا بدلہ ہو گیا۔"
سیرت النبیﷺ کے اس پہلو سے واضح ہوتا ہے کہ شوہر اور بیوی آپس میں کوئی کھیل کھیل سکتے ہیں ۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کھیل کھیلنے کی وجہ سے ذہنی تھکاوٹ ختم ہو جاتی ہے اور وہ تروتازہ ہو جاتا ہے ۔
۸۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی
اکرمﷺ کے گھر مبارک کی طرف گئے اور آپ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت مانگی ۔ اندر داخل ہو کر انہوں نے دیکھا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرمﷺ سے بلند آواز سے بات کر رہی ہیں تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انہیں تھپڑ مارنے کے لیے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے کہ تمہیں پتا نہیں چل رہا کہ تم نبی اکرمﷺ کی بارگاہ میں اپنی آواز کو اونچا کر رہی ہو ۔نبی اکرمﷺ چونکہ وہاں خود تشریف فرما تھے آپ ﷺ نے انہیں تھپڑ مارنے سے روک دیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ غصے سے بھرے ہوئے تھے وہ اسی حالت میں باہر چلےگئے ۔ اُن کے جانے کے بعد حضور ﷺ نے سیدہ سے فرمایا :
کَيْفَ رَأَيْتِنِي أَنْقَذْتُکِ مِنَ الرَّجُلِ، قَالَ: فَمَکَثَ أَبُوْ بَکْرٍ أَيَامًا، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَوَجَدَهُمَا قَدِ اصْطَلَحَا، فَقَالَ لَهُمَا: أَدْخِـلَانِي فِي سِلْمِکُمَا کَمَا أَدْخَلْتُمَانِي فِي حَرْبِکُمَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : قَدْ فَعَلْنَا، قَدْ فَعَلْنَا۔[xxx]"
" دیکھا میں نے تمہیں اِس آدمی سے کیسے بچا لیا؟ کچھ دنوں بعد دوبارہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اندر آنے کی اجازت طلب کی اور دونوں کو باہم خوش پایا تو عرض کیاکہ مجھے اپنی صلح میں شامل کر لیں جیسے اپنی لڑائی میں شامل کیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایاکہ ہم نے شامل کر لیا ، ہم نے شامل کر لیا۔"
سیرت النبی ﷺ کی اس پہلو سے معلوم ہوتا ہےکہ خاوند اور بیوی کی آپس میں کسی وجہ سے اگر رنجش ہو جائے تو اُن کو یہ معاملہ خود سلجھانا چاہیے ۔
۹۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سفر کرنے سے پہلے نبی اکرمﷺ اپنی ازواج مطہرات کے ناموں کی قرعہ اندازی کرتے ، جس کا نام نکلتا اسے اپنے ساتھ سفر پر لے جاتے ۔ نبی اکرمﷺ نے اپنی ازواج میں سے ہر ایک کے لیے ایک دن اور رات مقرر کر رکھے تھے ۔ یعنی ہر زوجہ محترمہ کے پاس ایک دن اور ایک رات قیام فرماتے تھے ۔ صرف حضرت سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا اس حکم سے مستثنیٰ تھیں ۔ اس کی وجہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاخود بیان فرماتی ہیں کہ
وَهَبَتْ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا لِعَائِشَةَ رضي الله عنها زَوْجِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم تَبْتَغِي بِذَالِکَ رِضَا رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم۔[xxxi]
" اُنہوں نے اپنی باری اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دی ہوئی تھی اور اِس سے اُن کا مقصود آپ ﷺ کی رضامندی تھی۔"
اگر ایک آدمی کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اُن کے درمیان عدل و انصاف سے کام لے ۔ امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ آدمی پر واجب پر اور ضروری ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے مابین تقسیم کرنے میں عدل انصاف سے کام لے ، مجھے اس بارہ میں کسی بھی مخالفت کا علم نہيں۔[xxxii] علامہ ابن حزم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ بیویوں کے مابین عدل انصاف اوربرابری کرنا فرض ہے ، اوریہ عدل راتوں کی تقسیم میں سب سے زيادہ ہونا چاہیے۔[xxxiii] لہذا شوہر کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی ایک سے زائد بیویوں کے درمیان عدل وانصاف کرے ، جن امور میں اسے انصاف کرنا واجب ہے اس میں تقسیم اورباری بھی شامل ہے ۔اس لیے اسے چاہیے کہ وہ ہر ایک بیوی کے لیے ایک دن اوررات مقرر کرے اورپھر اس دن رات میں اس کے پاس لازمی رہے ۔
۴۔ نبی اکرم ﷺ کا بیٹی کے ساتھ سلوک
اسلام کی آمد سے پہلے عرب کے کچھ قبیلوں میں بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا ہے ۔ان حالات میں نبی اکرمﷺ نے نہ صرف اپنے قول سے لوگوں پر واضح کیا کہ بیٹیاں شفقت و محبت کی مستحق ہوتی ہیں بلکہ اپنی چاروں بیٹیوں کی پرورش کی ، ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا اور لوگوں کو دکھایا کہ بیٹیوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے ۔ جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ۔ [xxxiv] ایک مقام پر آپ ﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی ناراضگی پر ناراض ہوتا ہے اوراور آپ کی رضا پر راضی ہوتا ہے ۔ [xxxv] ایک جگہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ فاطمہ میری ٹہنی ہے جس چیز سے اسے خوشی ملتی ہے اس سے مجھے خوشی ملتی ہے اور جو چیز اسے تکلیف پہنچاتی ہے وہ چیز مجھے تکلیف پہنچاتی ہے ۔[xxxvi] سیدہ سے نبی اکرمﷺ کی محبت کے ایک انداز کو حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا یوں بیان فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا نبی اکرمﷺ کی بارگاہ میں حاضری دیتی رہتی تھیں ۔ نبی اکرمﷺ جب انہیں آتے ہوئے دیکھتے تو آپ ﷺ کھڑے ہو کر انہیں خوش آمدید کہتے ،ان کو بوسہ دیتے اور انہیں اپنی اس جگہ پر بٹھا دیتے جہاں آپ ﷺ پہلے خود تشریف فرما ہوتے ۔بالکل یہی معاملہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی اس وقت فرماتی جب حضور ﷺ ان کے ہاں تشریف لے جاتے کہ حضور ﷺ کو آتا دیکھ کر کھڑے ہو کر خوش آمدید کہتی اور آپ ﷺ کو بوسہ دیتی ۔[xxxvii]نبی اکرمﷺ کی چاروں بیٹیاں جوان ہوئیں اور اُن کی شادیاں بھی ہوئیں ۔ ان چاروں میں سے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی نبی اکرمﷺ کے بعد زندہ رہیں ۔ باقیوں کا وصال پہلے ہی ہو چکا تھا اور اُن کی نسل بھی آگے نہیں چلی ۔ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نسل آگے چلی ۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ باقی انسانوں کی نسل بیٹوں سے چلتی ہے جبکہ نبی اکرمﷺ کی نسل اُن کی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے آگے چلی ہے ۔ آج دنیا میں جتنے بھی سادات عظام ہیں وہ سب ہی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد ہیں ۔
۵۔ دیگر خواتین کے ساتھ نبی اکرمﷺ کا سلوک
نبی اکرمﷺ سارے جہانوں کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے ۔انسانوں میں سے آپ ﷺ نے نہ صرف مردوں پر شفقت فرمائی بلکہ خواتین کوبھی اُن کا مقام و مرتبہ عطا فرمایا ۔ آپ ﷺ سب کے کام کر دیا کرتے تھے ۔ اس سلسلے میں آپ ﷺ نے کبھی یہ فرق نہیں کیا کہ یہ آزاد ہے یا غلام ۔کسی کی مدد کرنے کے معاملے میں آپؐ کبھی عار اور شرم محسوس نہیں کیا کرتے تھے ۔ مدینہ منورہ کی باندیوں میں سے اگر کوئی باندی آپ ؐ کو کوئی کام کہتی تو آپ ﷺ اس کا کام بھی کر دیتے تھے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ کی کوئی بھی باندی کسی کام کے سلسلے میں نبی اکرمﷺ کا ہاتھ پکڑ کر کسی بھی جگہ لے جاتی تھی۔[xxxviii] نبی اکرمﷺ یہ شفقت صرف عقل مند لوگوں کے ساتھ ہی نہیں فرمایا کرتے بلکہ کم عقلوں اور پاگلوں کے ساتھ بھی آپ ﷺ کا یہی معاملہ تھا۔ مدینہ منورہ کی ایک خاتون کی عقل خرابی تھی ۔ یعنی اس کی عقل ٹھیک نہیں تھی تو اس نے ایک مرتبہ آپ ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے آپ سے کچھ کام ہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے ام فلاں !مدینہ منورہ کی جس گلی میں چاہو میرا انتظار کرو میں تمہارا کام کر دوں گا۔ یہ کہنے کے بعد آپ ﷺ نے راستہ میں ہی اس کا مسئلہ حل فرما دیا۔ [xxxix]ان روایات میں مدینہ منورہ کی قید اتفاقی ہے ۔ یعنی کسی بھی علاقے ، کسی بھی قبیلے اور کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے کا کوئی بھی آدمی آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاجت کے لیے حاضر ہوتا تو آپ ﷺ اس کی حاجت روائی فرماتے ۔
۶۔ خیارِ بلوغ اور سیرت النبی ﷺ
باپ یا دادا کے علاوہ کسی اور ولی کے کیے ہوئے نکاح کو بلوغت کے بعد رد کردینے کے اختیار کو خیارِ بلوغ کہا جاتا ہے ۔ نبی اکرمﷺ کی حیات ِ طیبہ میں ایک ایسا واقعہ ملتا ہے جس میں ایسے نکاح کو رد کیا گیا ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا ۔ انہوں نے اپنے پیچھے خویلہ بنت حکیم بن امیہ بن حارثہ بن اوقص سے ایک صاحبزادی چھوڑی اور اپنے بھائی قدامہ بن مظعون کو وصیت کی۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں میرے خالو تھے۔ میں نے قدامہ بن مظعون کو عثمان بن مظعون کی بیٹی سے پیغامِ نکاح بھیجا تو اس نے میرا نکاح اس سے کرا دیا ۔اس لڑکی ماں کسی کے ساتھ اس کا نکاح کرنا چاہتی تھی ۔ لڑکی بھی اپنی ماں کے ساتھ تھی ۔لہذا لڑکی اور اس کی ماں دونوں نے اس نکاح سے نکار کر دیا ۔یہ معاملہ نبی اکرمﷺ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا ۔قدامہ بن مظعون نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے اور میرے بھائی نے مجھے اس کے متعلق وصیت کی تھی۔ اس لیے میں نے اس کی شادی اس کے ماموں زاد عبداللہ بن عمر سے کر دی۔ میں نے اس کی بھلائی اور کفو میں کوئی کمی نہ کی لیکن یہ عورت اپنی ماں کی خواہش کی طرف مائل ہو گئی اس پر رسول اللہﷺنے فرمایا کہ وہ یتیم ہے، لہٰذا اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔[xl] اس پسِ منظر سے واضح ہوتا ہے کہ اگر نبی اکرمﷺ نے لڑکی کو خیارِ بلوغ دیا ہے ۔جسے وہ بلوغت کے بعد استعمال کر کے اپنا نکاح ختم کروا سکتی ہے ۔
۶۔تعلیم ِ نسواں اور سیرت النبیﷺ
بعثت نبوی سے قبل عرب کے معاشرے میں ایسا ماحول پیدا ہو گیا تھا کہ خواتین کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ تو دور کی بات تھی اس ماحول میں خواتین کے وجود کو برداشت کرنا بھی قیامت سے کم نہ تھا اسلام نے آ کر مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعلیم و تربیت کے حصول پر زور دیا ۔ نبی اکرم ﷺ کے پیغام ہدایت کو سیکھنے سکھانے اور آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے انہوں نے کوئی کسر بھی نہ اٹھا رکھی نبی اکرم ﷺ نے ہر مومن مرد و عورت کے لیے حصول علم کو لازمی قرار دیتے ہوئے فرمایا:
طَلَبُ العِلمِ فَرِیضَةٌعَلٰی کُلِ مُسلِمِ۔[xli]
"علم حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے۔ "
یہاں پر مسلمان سے مراد صرف مرد نہیں ہے بلکہ عورت بھی ہے کیونکہ اس سے پہلے ’’کل ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں ’’ ہر ایک پر ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ طلب علم کے فریضہ سے کوئی مسلمان بھی مستثنیٰ نہیں ہے ۔اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ خطاب بھی صرف مردوں سے نہیں بلکہ خواتین سے بھی ہے کیونکہ ان دو جگہوں کے علا وہ باقی وہ تما م جگہیں جہاں پر حصول علم کی ترغیب دی گئی ہے ان میں اگرچہ بظاہر مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے لیکن یہ مذکر کا صیغہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی شامل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے لہذا آپ ﷺ کی تعلیمات کو صرف نوع انسانی کی ایک جنس کے ساتھ خاص کر دینا درست نہ ہو گا ۔اسلام نے خواتین میں حصول علم کے لیے اس قدر شوق ، ولولہ اور جنون پیدا کر دیا کہ ان کے اندر حصول علم کی ایسی پیاس پید ا ہو گئی جس کی تسکین کے لیے انہوں نے براہ راست نبی اکرمﷺ سے فیض یاب ہونے کی درخواست کی ۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خواتین نے نبی اکرمﷺ کی بارگاہ میں عرض کی کہ آپ ﷺ کے دربار میں ہمیشہ مردوں کا غلبہ رہا ہے ۔ یعنی ہر کام میں مرد حضرات آگے ہیں ۔ آپ ﷺ سے گزارش ہے کہ آپ ﷺ ہمارے لیے ایک دن مقرر فرمائیں جو خاص ہمارے لیے ہو ۔ اس میں صرف ہم خواتین آپ سے مسائل پوچھ سکیں۔ خواتین کے پرزور اصرار پر آپ ﷺ نے اُن کے لیے ایک دن مقرر فرمادیا ۔ اس دن آپ ﷺ ان پاس تشریف لے جاتے ، انہیں نصیحت فرماتے اور اچھے کام کرنےکا حکم ارشاد فرماتے ۔ ظاہر ہے اس دوران صرف وعظ ہی نہیں ہوتا ہو گا بلکہ خواتین کو جو مسائل درپیش ہوتے تھے وہ بھی آپ ﷺ سے پوچھ لیتی ہوں گی۔ کیوں وعظ تو اس کے علاوہ بھی ہوتے تھے جہاں مرد بھی ساتھ ہوتے تھے ۔ اس وعظ میں آپ ﷺ نے انہیں فرمایا کہ جس خاتون کے تین بچے انتقال کر جائیں تو وہ بچے اس خاتون کو دوزخ میں جانے سے روک دیں گے ۔ایک خاتون نے عرض کیا کہ اے اللہ تعالیٰ کے رسول ! جس کے دو بچےانتقال کر جائیں تو وہ دو بچے بھی اس کے لیے کوئی فائدہ مند ہوں گے یا نہیں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ دو بچے بھی اسے جہنم کی آگ سے بچا لیں گے۔ [xlii]مرد اور عورت کے معاشرتی تعلقات کی برابری ، گھریلو زندگی میں خواتین کے مقام و مرتبہ، لوگوں میں عورت کی حیثیت اور مرد و خواتین کے اختیارات کی تقسیم میں جو حدود نبی اکرمﷺ نے مقرر کی ہیں وہ حقیقی اور فطری ہیں ، انہیں پر ہم واپس آئیں گے تو معاشرے میں برابری قائم ہو گی ۔ اس کے بغیر معاشرے میں توازن قائم کرنا ناممکن ہے ۔
خواتین کی معاشرتی حیثیت سے متعلق عصری تحدیات
دور ِ حاضر میں خواتین معاشرتی اعتبارسے کچھ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ذیل میں اُن کا تذکرہ کیا جا رہا ہے :
۱۔ بیٹی کو اللہ تعالیٰ نے رحمت قرار دیا ہے ۔ ہمارے پیارے نبی اکرمﷺ نے بیٹی کو ایک ایسا مقام ومرتبہ عطا فرمایا جو کسی بھی معاشرے میں اسے عطا نہیں کیا گیا ۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے کہ میرے پاس ایک غریب خاتون اپنی دو بچیوں کے ہمراہ آئی۔ میں نے اس کو تین کھجور دیئے، اس نے اپنی دو بیٹیوں کو ایک ایک کھجور دے دیئے اور تیسرا کھانا ہی چاہتی تھی کہ ایک بیٹی نے وہ کھجور بھی اس سے مانگ لیا اور ماں نے اس کھجور کے دو حصے کرتے ہوے دونوں میں برابر بانٹ دیئے اور خود کچھ نہ کھایا اور مجھے اس کا یہ عمل بہت پسند آیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی آمد ہوئی تو میں نے آپ سے اس خاتون کے عمل کا ذکر کیا اور آپ ﷺ نے فرمایااس ایک کھجور کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے اس خاتون کے لئے جنت واجب کردی اور اس کو جہنم سے نجات دے دی۔[xliii] بیٹیوں کی تربیت کو اجاگر کرنے کے لیے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس تین لڑکیاں، یا تین بہنیں، یا دو لڑکیاں، یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کے حقوق کے سلسلے میں اللہ سے ڈرے تو اس کے لیے جنت ہے۔[xliv] بدقسمتی سے دورِ حاضر میں کئی گھروں میں لڑکی کی پیدائش پر غمزدگی اور افسردگی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ کچھ لوگ تو باقاعدہ ماتم کرکے دکھ کا اظہار بھی کرتے ہیں حتیٰ کہ کئی پڑھ لکھے گھرانوں میں بھی لڑکی کی پیدائش پر اتنی خوشی نہیں منائی جاتی جتنی لڑکے کی پیدائش پر منائی جاتی ہے ۔ اس صورتِ حال میں خواتین اپنے آپ کو گھر والوں پر ایک بوجھ محسوس کرتی ہیں ۔
۲۔ وراثت میں جس طرح مردوں کے حصے مقرر کیے گئے ہیں اسی طرح خواتین کے حصے بھی مقرر کیے گئے ہیں ۔
اسلام نے لازم کیا ہے کہ جس طرح مردوں کے حصے اُن تک پہنچانا ضروری ہے اسی طرح خواتین کی وراثت کا حصہ بھی اُن تک پہنچانا ضروری ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا۔[xlv]
"ماں باپ اور رشتے داروں کے ترکے میں خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ لڑکوں کا حصہ ہے اور ماں باپ اور رشتے داروں کے ترکے میں خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ لڑکیوں کا بھی حصہ ہے اور یہ حصے خدا کی طرف سے مقررہ ہیں۔"
دوسری جگہ ارشاد باریٰ تعالیٰ ہے :
يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ۔[xlvi]
"تمہاری اولاد سے متعلق اللہ کا یہ تاکیدی حکم ہے کہ ترکے میں لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔ اگر اکیلی لڑکی ہو تو اسے آدھا ترکہ ملے گا اور (میت کے) ماں باپ میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا بشرطیکہ وہ اپنے پیچھے اولاد بھی چھوڑے، اگر اس کے کوئی اولاد نہ ہو اور وارث ماں باپ ہی ہوں تو ماں کے لئے ایک تہائی (ماں باپ کے ساتھ) بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہوگا۔"
بیٹوں کا والد مرحوم کے ترکہ میں بہنوں کو ان کا حق وحصہ نہ دینا بلکہ والد صاحب کی ساری جائیداد صرف آپس میں تقسیم کرلینا بلاشبہ بہنوں کی حق تلفی اور ان کے ساتھ ظلم وزیادتی اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ دور ِ حاضر میں اکثر لوگ اپنی بہنوں کو وراثت سے حصے نہیں دیتے ۔ اگر وہ مانگتی ہیں تو انہیں شرمندہ کیا جاتا ہے ۔
۳۔ نکاح کے بعد اسلام نے عورت کو حق دیا ہے کہ اگر اس کا خاوند اس سے اچھا سلوک نہیں کرتا اور اچھے طریقے سے اس کے حقوق پورے نہیں کرتا تو وہ عدالت سے رجوع کر کے اس سے خلع لے سکتی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ۔[xlvii]
"پس اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود قائم نہ رکھ سکیں گے تو (اندریں صورت) ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی حاصل کر لے۔"
بہت ساری احادیث طیبہ سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
أن امرأة ثابت بن قيس أتت النبي ﷺ فقالت : يا رسول الله. ثابت بن قيس، ما اعتب عليه في خلق ولا دين، ولکني اکره الکفر في الاسلام. فقال رسول الله ﷺ : أتردين عليه حديقته؟ قالت : نعم. قال رسول الله ﷺ : اقبل الحديقة و طلقها تطليقة۔[xlviii]
"حضرت ثابت بن قیس کی اہلیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں : یارسول اللہ! میں کسی بات پر ثابت بن قیس سے ناخوش نہیں ہوں، نہ ان کے اخلاق سے اور نہ ان کے دین سے، لیکن میں اسلام میں احسان فراموش بننا ناپسند کرتی ہوں۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا تم ان کا باغ واپس دینا چاہتی ہو؟ اُنہوں نے کہا : ہاں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کا باغ دیدو اور ان سے طلاق لے لو۔"
چونکہ بیوی پر شوہر کے کوئی مالی حقوق واجب نہیں ہوتے، اس لئے شریعت نے طلاق کا حق مرد کو دیا ہے اور عورت کے لئے خلع کا حق رکھا ہے تاکہ اس کے پاس بھی تفریق کا حق موجود ہو۔ لیکن دور حاضر میں عورت کو ایساکرنے پر عار دلائی جاتی ہے ۔ ایسا کرنا سراسر اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔
۴۔ اسلام کی ابتداء ہی علم سے ہوئی ۔ اس نے ہمیشہ علم کے حصول پر زور دیا ۔ اس ضمن میں اسلام نے مرد و عورت کے درمیان تمیز نہیں کی ۔ جس قدر علم کا حصول مردوں پر لازم کیا اسی قدر خواتین پر بھی ضروری کیا ۔پہلی وحی کے نزول میں ہی تعلیمات کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍO اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُO الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِO عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ۔[xlix]
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کی تعلیم و تربیت کو اتنا ہی اہم اور ضروری قرار دیا ہے جتنا کہ مردوں کی۔ اسلامی معاشرے میں یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ کوئی شخص لڑکی کو لڑکے سے کم درجہ دے کر اس کی تعلیم و تربیت نظرانداز کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :
الرجل تکون له الامة فيعلمها فيحسن تعليمها و يودبها فيحسن ادبها ثم يعتقها فيتزوجها فله اجران۔[l]
"اگر کسی شخص کے پاس ایک لونڈی ہو پھر وہ اسے تعلیم دے اور یہ اچھی تعلیم ہو۔ اور اس کو آداب مجلس سکھائے اور یہ اچھے آداب ہوں۔ پھر آزاد کرکے اس سے نکاح کرے تو اس شخص کے لیے دوہرا اجر ہے۔"
اس سے ظاہر ہے کہ اسلام اگر باندیوں تک کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کو کارِ ثواب قرار دیتا ہے تو وہ آزاد لڑکوں اور لڑکیوں کے تعلیم سے محروم رکھے جانے کو کیونکر گوارا کر سکتا ہے۔ بڑے تعجب سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ دورِ حاضر میں کچھ خاندان ایسے بھی ہیں جو مردوں کے لیے تعلیم کو درست قرار دیتے ہیں لیکن خواتین کے لیے ناجائز قرار دیتے ہیں ۔
۵۔ مسلم خواتین میں اکثر خود نہیں کماتی بلکہ ان کی روزی وغیرہ کا دارو مدار والد، بھائی ، شوہر اور بیٹے کی کمائی پر ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم خواتین میں سے اکثر ایسے کاموں کو ترجیح دیتی ہیں جو گھر میں کیے جاسکیں۔ دور حاضر میں گھر میں کیے جانے والے کام تقریباً ختم ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ بیروزگاری کا شکار ہو گئی ہیں اور اُن کا انحصار مرد حضرات پر ہے ۔
خلاصۂ بحث
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مرد و عورت انسان کی حیثیت سے برابر ہیں ۔اس ضمن میں نہ تو مرد کی مردانگی قابل ِ فخر ہے اور نہ ہی عورت کی نسوانیت باعثِ شرمندگی ۔ نبی اکرمﷺ نے اپنے عمل سے یہ واضح فرما دیا کہ جس طرح مرد قابل ِ احترام اور قابل عزت ہے اسی طرح خواتین بھی قابل ِ احترام ہیں ۔ آپ ﷺ کی سیرت سے ثابت ہے کہ عورت اگر بیوی ہے تو اس کا خرچہ اس کے شوہر پر ، اگر بیٹی ہے تو اس کے باپ پر اور اگر بہن ہے تو اس کے بھائی پر لازم ہے ،وراثت سے اُن کو باقاعدہ حصہ دیا جائے گا،شوہر کے انتخاب میں اسی آزادی حاصل ہے ،نکاح کےبعد وہ خلع لے سکتی ہے اور گھر کی خواتین سے مشورہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس پُر فتن دور میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ خواتین کی معاشرتی حیثیت سے متعلق سیرت النبیﷺ کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے ۔ کیونکہ نبی اکرمﷺ کی سیرت طیبہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے اور یہی ہماری بنیاد ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دورِ حاضر میں ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے لوگ بیٹی کی پیدائش پر ندامت کی بجائے خوشی کا اظہار کریں، بہنوں کو وراثت سے خوشی خوشی حصہ دیں ،عورت کو خلع لینے پر شرمندہ نہ کریں اور علم کے حصول میں اُن کے لیے رکاوٹ پیدا نہ کریں ۔ اسی ضرورت کی تکمیل کے لیے زیر نظر مضمون تحریر کیا گیا ہے۔
نتائج
زیر نظر موضوع سے حاصل ہونے والے نتائج درج ذیل ہیں :
۱۔ قبل از اسلام معاشرے میں خواتین کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی ۔ کسی بھی رشتے میں اس کی عزت اور اس کو مقام و مرتبہ عطا نہیں کیا جاتا تھا ۔ معاشرتی اعتبار سے عورت کے حقوق مکمل طور پر ضبط کر لیے گئے تھے حتیٰ کہ عرب کے کچھ خاندانوں میں اسے زندہ رہنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔
۲۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسان ہونے کے اعتبار سے مرد و خواتین کی حیثیت برابر ہے ۔ اس اعتبار کسی کو بھی دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں ہے ۔
۳۔ اسلام نے جس طرح مرد حضرات کو قابل عزت اور قابل احترام کہا ہے اسی طرح اسلام کی نظر میں خواتین بھی قابل عزت ہیں اور معاشرے میں اُن کا اہم کردار ہے ۔
۴۔ نبی اکرمﷺ کی سیرت طیبہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے ۔ آپ ﷺ نے اپنی عملی زندگی سے ثابت کیا کہ ماں ، بیٹی ، بہن ،بیوی اورباقی دوسرے رشتوں کے اعتبار عورت قابل رحم اور قابل احترام ہے ۔ عرب کے معاشرے میں آپ ﷺ نے اپنی چار بیٹیوں کی پرورش کر کے ثابت کر دیا کہ عورت بھی انسان ہے ۔ لہذا اسے بھی حقوق عطا کیے جائیں ۔
حواشی و حوالہ جات
[i] آل عمران ۱۹۵:۳
Āl-‘Imrān 3:195
[ii] الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ، بیروت:دار الاعلام ،س ن ، ج۴، ص۳۷۴
Al-Iṣti’āb fi Ma’rifah al-Aṣḥāb, Beirūt, Dār al-a’lām, vol. 4, pg. 374
[iii] ابن ہشام ،محمد عبد الملک ،السیرۃ النبویۃ ، بیروت : دار الکتب العلمیہ ، س ن ،ج۲،ص۳۸۹
Ibn Hishām, Abdul Malik, al-Sīrah al-Nabawiyyah, Beirūt, Dar al-Kutub al-‘Ilmiyyah, vol. 4, pg. 389
[iv] ہیثمی ، علی بن ابو بکر ، مجمع الزوائدومنبع الفوائد ، بیروت:دار الکتب العلمیہ ، ۲۰۰۱م، ج۴،ص۳۰۳
Haythamī, Ali ibn Abu Bakr, Majma’ al-Zawā’id Manba’ al-Fawā’id, Beirūt, Dar al-Kutub al-‘Ilmiyyah, 2001AD, vol. 4, pg. 303
[v] ابن حبان ،محمد تمیمی ، الصحیح ، بیروت:مؤسسۃ الرسالۃ ،س ن ، ج۱۵، ص۴۰۳
Ibn Ḥibbān, Muḥammad Tamīmī, al-Ṣaḥīḥ, Beirūt, Mu’assisah al-Risālah, vol. 15, pg. 403
[vi] ان کا پورا نام ابو الحسن احمد بن یحییٰ بن جابر بن داؤد البلاذری ہے ۔ پیدائش ۸۰۶ء جبکہ وفات ۸۹۲ء ہے ۔ تیسری صدی ہجری کے نامور عرب مؤرخ، جغرافیہ دان، شاعر اور ماہر الانساب تھے۔(الصفدی، صلاح الدین ،الوافی بالوفیات، بیروت: دار احیاء التراث العربی،۲۰۰۰م، ج ۴،ص۲۱۷
Al-Ṣafdī, Ṣalāh al-Din. Al-Wāfī bi al-Wafiyyāt, Beirūt, Dar Iḥya’ al-Turāth al-‘Arabi, 2000AD, vol. 4, pg. 217
[vii] بلاذری ،احمد بن یحیٰ بن جابر ، فتوح البلدان ، بیروت:دار ومکتبۃ الہلال ، ۱۹۸۸م، ج۱، ص۹۵
Balāzrī, Aḥmad ibn Yaḥyā ibn Jābir, Futūḥ al-Buldān, Beirūt, Dar Maktabah al-Hilāl, 1988AD, vol. 1, pg. 95
[viii] سہیلی ،ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ ،الروض الانف ، بیروت: دار احیاء التراث العربی ،۲۰۰۰م، ج۵،ص۱۹۱
Suhaylī, Abu al-Qāsim Abdul Rehman, al-Rawḍ al-Unf, Beirūt, Iḥya’ al-Turāth al-‘Arabi, 2000AD, vol. 5, pg. 191
[ix] سہیلی ، الروض الانف ،ج۱،ص۱۶۴
Ibid, vol. 1, pg. 164
[x] ابن جوزی، کتاب الحدائق فی علم الحدیث والزہدیات ، بیروت:دار الکتب العلمیہ ،س ن ، ج۱، ص۱۶۹
Ibn Jawzī, Kitāb al-Ḥadā’iq fi ‘Ilm al-Ḥadīth wa al-Zuhdiyyāt, Beirūt, Dar al-Kutub al-‘Ilmiyyah, vol. 1, pg.169
[xi] حلبی ،علی بن برھان الدین ،سیرت حلبیہ ، حیدر آباد دکن،انڈیا،۱۸۹۴ء، ج۱، ص۱۰۳
Ḥalabī, Ali ibn Burhān, Sīrat Ḥalabiyyah, Hayderābād Dakkan, India, 1894AD, vol. 1, pg. 103
[xii] بلاذری ،فتوح البلدان، ج۱،ص۹۵
Balāzrī, Futūḥ al-Buldān, vol. 1, pg. 95
[xiii] حُنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔ جہاں بنو ہوازن اور بنو ثقیف نام کے دو قبیلے آباد تھے۔ یہاں شوال 8ھ بمطابق جنوری، فروری 630ء میں زبردست جنگ ہوئی۔ جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔(بلاذری، فتوح البلدان،ج۱،ص۱۱۵)
Ibid, vol. 1, pg. 115
[xiv] سہیلی ،الروض الانف ، ج۲،ص۱۹۷
al-Rawḍ al-Unf, vol. 2, pg. 197
[xv] بلاذری ،فتوح البلدان ،ج ۱،ص۹۵
Balāzrī, Futūḥ al-Buldān, Vol. 1, pg. 95
[xvi] شبلی نعمانی ،سیرت النبی ﷺ ، لاہور: مکتبہ اسلامیہ ،۲۰۱۲ء، ج۱،ص۵۴۶
Shiblī Nu’mānī, Sīrat al-Nabī ﷺ, Lahore, Maktabah Islamiyyah, 2012, vol. 1, pg. 546
[xvii] التوبۃ ۲۵:۹۔۲۶
Al-Tawba 9:25,26
[xviii] ابن سعد ،ابو عبد اللہ ، الطبقات الکبریٰ ، بیروت:دار صادر ،۱۹۶۸م، ج۱،ص۱۱۹
Ibn Sa’ad, Abu Abdullah, al-Ṭabاqāt al-Kubrā, Beirūt, Dar Ṣādir, 1968AD, vol. 1, pg. 119
[xix] آلوسی ، محمود احمد ، روح المعانی ، بیروت: دار الکتب العلمیہ ، ۲۰۰۸م، ج۲۲، ص۳۲۸
Ālūsī, Maḥmūd Aḥmad, Rūḥ al-Ma’āni, Beirūt, Dar al-Kutub al-‘Ilmiyyah, 2008AD, vol. 22, pg. 328
[xx] Margolioth,D.S/Encyclopedia of Religion and Ethics,Edenburg,1967,Vol No iii,p878
[xxi] الصابونی ، محمد علی ، شبہات و اباطیل حول تعدد زوجات الرسول ﷺ،بیروت: دار الکتب العلمیہ ،س ن ،ص۳۵
Al-Ṣābūnī, Muḥammad Ali, Shubhāt wa abāṭīl Ḥawl Ta’adu Zawjāt al-Rasūl ﷺ, Beirūt, Dar al-Kutub al-‘Ilmiyyah, pg. 35
[xxii] الترمذی ، محمد بن عیسیٰ ، الجامع ، کتاب المناقب ، باب فضل ازواج النبی ﷺ ، الریاض: دار السلام للنشر والتوزیع،۲۰۰۷م،حدیث نمبر:۳۸۹۵
Al-Tirmidhī, Muḥammad ibn ‘Īsā, al-Jāmī, Kitāb al-Manāqib, Bab Faḍl Azwāj al-Nabi ﷺ, al-Riyādh, Dar al-Salām li al-Nashr wa al-Tawzī’, 2007AD, Ḥadīth no.3895
[xxiii] البخاری، محمد بن اسماعیل ، الجامع الصحیح ، کتاب الاذان ، باب من کان فی حاجۃ اہلہ فاقیمت الصلوٰۃ فخرج ، الریاض: دار السلام للنشر والتوزیع،۲۰۰۹م،حدیث نمبر:۶۴۴
Al-Bukhārī, Muḥammad ibn Ismā’īl, al-Jāmī al-Ṣaḥīḥ, Kitāb al-Adhān, Dar al-Salam li al-Nashr wa al-Tawzī’, 2009AD, Ḥadīth no. 644
[xxiv] السجستانی ، سلیمان بن اشعث ، السنن ،کتاب البیوع ، باب فیمن افسد شیئا یغرم مثلہ ، الریاض: دار السلام للنشر والتوزیع،۲۰۰۹م، حدیث نمبر:۳۵۶۷
Al-Sajistānī, Sulaymān ibn Ash’ath, al-Sunan, Kitāb al-Buyū’, al-Riyādh, Dar al-Salam li al-Nashr wa al-Tawzī’, 2009AD, Ḥadīth no. 3567
[xxv] القشیری ، مسلم بن حجاج ، الجامع الصحیح ، کتاب فضائل الصحابۃ ، باب فی فضل عائشۃ رضی اللہ عنہا ، الریاض: دار السلام للنشر والتوزیع،۲۰۰۷م، حدیث نمبر:۲۴۴۰
Al-Qushayrī, Muslim Ibn Ḥajjāj, al-Jāmi’ al-Ṣaḥīḥ, Kitāb Fada’il al-Ṣaḥābah, Dar al-Salam li al-Nashr wa al-Tawzī’, 2007AD, Ḥadīth no. 2440
[xxvi] النسائی ، احمد بن شعیب ، السنن ،کتاب صلوٰۃ العیدین ، باب اللعب فی المسجد یوم العید ونظر النساء الی ذلک ، الریاض: دار السلام للنشر والتوزیع، ۲۰۰۷م،حدیث نمبر:۱۵۹۵
Al-Nisā’ī, Aḥmad ibn Shu’ayb, Kitāb Ṣalāh al-Eidayn, Dar al-Salam li al-Nashr wa al-Tawzī’, 2007AD, Ḥadīth no. 1595
[xxvii] احمد بن حنبل ، المسند ،بیروت:دار الکتب العلمیہ، س ن ، حدیث نمبر:۱۲۲۶۵
Aḥmad Ibn Ḥanbal, al-Musnad, Beirūt, Dar al-Kutub al-‘Ilmiyyah, Ḥadīth no. 12265
[xxviii] الطبرانی ، سلیمان بن احمد بن ایوب،المعجم الکبیر ،بیروت: دار الکتب العلمیہ ، س ن ، حدیث نمبر:۱۲۲
Al-Ṭabarānī, Sulayman ibn Aḥmad, al-Mu’jam al-Kabīr, Beirūt, Dar al- Kutub al-‘Ilmiyyah, Ḥadīth no. 122
[xxix] القزوینی ، محمد بن یزید ، السنن ، کتاب النکاح ، باب حسن معاشرۃ النساء ، الریاض: دار السلام للنشر والتوزیع،۲۰۰۷م،حدیث نمبر:۱۹۷۹
Al-Qazwīnī, Muḥammad ibn Yazīd, al-sunan, Kitāb al-Nikāḥ, Dar al-Salam li al-Nashr wa al-Tawzī’, 2007AD, Ḥadīth no. 1979
[xxx] البزاز ،ابو بکر احمد بن عمرو، المسند ،مدینہ منورہ:مکتبۃ العلوم والحکم ،۲۰۰۹م، حدیث نمبر:۳۲۷۵
Al-Bazzār, Abu Bakr Aḥmad ibn ‘Amar, al-Musnad, Madinah Munawwarah, Maktabah al-‘Ulūm wa al-Ḥ
ikam, 2009AD, Ḥadīth no. 3275[xxxi] الدارمی ،عبد اللہ بن عبد الرحمن ، السنن ، بیروت:دار الکتاب العربی ،۱۴۰۷ھ، حدیث نمبر:۲۲۰۸
Al-Dārmī, Abdullah ibn Abdul Rehman, al-Sunan, Beirūt, Dar al-Kitāb al-Arabi, 1407AD, Ḥadīth no. 2208
[xxxii] الشافعی ، محمد بن ادریس ، کتاب الام ، بیروت: دار ابن حزم ،س ن ، ج۵،ص۲۸۰
Al-Shāfa’ī, Muḥammad ibn Idrīs, Kitāb al-Umm, vol. 5, Beirūt, Dar ibn Ḥazam, pg. 280
[xxxiii] ابن حزم ، ابو محمد علی بن احمد ،المحلی ، بیروت:دار الفکرللطباعۃ والنشر والتوزیع،س ن ، ج۹، ص۱۷۵
Ibn Ḥazam, Abu Muḥammad Ali ibn Aḥmad, al-Muhallā, Beirūt, Dar al-Fikr li al-Ṭabā’ah wa al-Nashr wa al-Tawzī’, vol. 9, pg. 175
[xxxiv] البخاری،الجامع الصحیح ، کتاب المناقب ، باب مناقب قرابۃ رسول اللہ ﷺ ، حدیث نمبر:۳۵۱۰
Ṣaḥīḥ Bukhārī, Kitāb al-Manāqib, Ḥadīth no. 3510
[xxxv] حاکم ،زین الدین عبد الرحیم بن الحسین ، المستدرک علی الصحیحین ، قاہرہ:مکتبۃ السنۃ ،۱۴۱۰ھ، حدیث نمبر:۴۷۳۰
Al-Ḥākim, Zayn al-Din, al-Mustadrak ala al-Ṣaḥīḥayn, al-Qāhirah, maktabah al-Sunnah, 1410H, Ḥadīth no, 4730
[xxxvi] ابو نعیم ،احمد بن عبد اللہ بن احمد ، حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، بیروت: دار الکتاب العربی،۱۴۰۹ھ، ج۳،ص۲۰۶
Abu Nu’aym, Aḥmad ibn Abdullah, Ḥilyah al-Awliyā’ wa Ṭabaqāt al-Aṣfiya’, vol. 3, Beirūt Dar al-Kitāb al-Arabi, 1409H, pg. 206
[xxxvii] البخاری ، محمد بن اسماعیل ، الادب المفرد ، لاہور: مکتبہ رحمانیہ ،س ن ،حدیث نمبر:۹۴۷
Al-Bukhārī, Muḥammad ibn Ismā’īl, al-Adab wa al-Mufrad, Maktabah Rahmāniyyah, Lahore, Ḥadīth no. 947
[xxxviii] النووی ، یحییٰ بن شرف ،ریاض الصالحین ،بیروت، لبنان :مؤسسۃ الرسالۃ ،۱۹۹۸م، حدیث نمبر:۱۷۱
Al-Nawawī, Yaḥyā ibn Sharf, Riyād al-Ṣāliḥīn, Beirūt, Lebanon, Mu’assisah al-Risālah, 1998AD, Ḥadīth no. 171
[xxxix] القشیری، الجامع الصحیح ، کتاب الفضائل ، باب قرب النبی ﷺ من الناس وتبرکہم بہ ، حدیث نمبر:۲۳۲۶
Ṣaḥīḥ Muslim, Kitāb al-Fada’il, Ḥadīth no. 2326
[xl] دار قطنی ،علی بن عمر ، السنن، بیروت: دار المعرفۃ ،۲۰۰۱م، ج۳،ص۲۳۰
Dāraquṭnī, Ali ibn Umar, al-Sunan, vol. 3, Beirūt, Dar al-Ma’rifah, 2001AD, pg. 230
[xli] القزوینی،السنن،المقدمۃ،باب فضل العلماء و الحث علی طلب العلم، حدیث نمبر:۲۲۴
al-Qazwīnī, Al-Sunan li Ḥadīth no. 224
[xlii] البخاری ، الجامع الصحیح ، کتاب العلم ،باب ہل یجعل للنساء یوم علی حدۃ فی العلم،حدیث نمبر۱۰۱
Ṣaḥīḥ Bukhārī, Kitāb al-‘Ilm, Ḥadīth no. 101
[xliii] الترمذی ، الجامع ، کتاب البر والصلۃ عن رسول اللہ ﷺ ، باب ما جاء فی النفقۃ علی البنات والاخوات ،حدیث نمبر:۱۹۱۵
Al-Jāmī al-Tirmidhī, Ḥadīth no. 1915
[xliv] الترمذی ، الجامع ، کتاب البر والصلۃ عن رسول اللہ ﷺ ، باب ما جاء فی النفقۃ علی البنات والاخوات ،حدیث نمبر:۱۹۱۶
Ibid, Ḥadīth no. 1916
[xlv] النساء۷:۴
Al-Nisa’ 4:7
[xlvi] النساء ۱۱:۴
Ibid 4: 11
[xlvii] البقرۃ ۲۲۹:۲
Al-Baqarah, 2:229
[xlviii] البخاری،الجامع الصحیح ،کتاب الطلاق، باب الخلع،حدیث نمبر:۴۹۷۱
Ṣaḥīḥ al-Bukhārī, Kitāb al-Ṭalāq, Bāb al-Khul’, Ḥadīth no. 4971
[xlix] العلق ۱:۹۶۔۵
Al-‘Alaq 96:1-5
[l] البخاری، الجامع الصحیح،کتاب الجہاد،باب فضل من اسلم ، حدیث نمبر:۲۸۴۹
Ṣaḥīḥ al-Bukhārī, Kitāb al-Jihād, Bab faḍl Man Aslama, Ḥadīth no. 2849
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |