37
57
2022
1682060078052_3034
119-130
https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/download/479/375
https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/view/479
Construction of a new temple constitutions equal religious rights Islamic state
جون 2020ء کے اَواخر میں اسلام آباد کے ایچ نائن؍2 سیکٹر میں چار کنال کے پلاٹ پر شری کرشن بھگوان کے مندر کا سنگِ بنیاد رکھا گیا جس میں وزارتِ انسانی حقوق کے پارلیمانی سیکرٹری لال مالہی(ایم این اے) مہمانِ خصوصی تھے۔ 2017ء میں اسلام آباد میں گنتی کے چند ہندو ملازمین کی عبادت کے لئے ’ہندوپنچائیت‘ نامی تنظیم کو CDA (کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کی طرف سے الاٹ کیا گیا تھا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایسی نظریاتی ریاست کے ’اسلام‘ کے نام سے آباد کردہ دارا لحکومت کے عین قلب میں بت کدے کی تعمیر سے اسلامیان پاکستان کے دینی جذبات متاثر ہوئے، اور اسلام آباد سمیت ملک بھر میں مظاہروں اور احتجاجی بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اسلام آباد میں اہل علم حضرات نے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر بھی عوام کے ساتھ آواز اُٹھائی۔
26 جون 2020ء کے اخبارات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان سے پی ٹی آئی کے چار غیرمسلم ارکانِ اسمبلی نے وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری کے ساتھ ملاقات کی جس میں وزیر اعظم نے مندر کی تعمیر کے لئے فوری فنڈز جاری کرنے کی ہدایت کی۔
جیو نیوز پر چلنے والی ویڈیو میں یکم جولائی 2020ء کو پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کو اسلام کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ
’’اسلام آباد میں نیا مندر بنانا نہ صرف اسلام کی روح کے خلاف ہے بلکہ یہ ریاستِ مدینہ کی بھی توہین ہے۔فتح مکہ کے موقع پر حضور نبی کریم ﷺ نے سیدنا علی کے ساتھ بیت اللہ میں موجود 360 بتوں کو توڑا اور فرمایا کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ ‘‘
مسلم معاشرے میں ’کفریہ دعوت کی ممانعت ‘پر مولانا امین احسن اصلاحی (م 1999ء) لکھتے ہیں:
’’ہمارے پڑوس میں کوئی شخص دو قومی نظریہ پر ایمان رکھ کر سانس نہیں لے سکتا۔ روس میں کمیونزم کے بنیادی اصولوں کے منکرین کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اسلامی حکومت اپنے بنیادی اصولوں کے منکرین اور مخالفین کو نہ صرف یہ کہ اپنے دائرہ اقتدار میں پناہ اور وہ سارے حقوق دیتی ہے ، جن کا ابھی اوپر ذکر گزرا ہے بلکہ انہیں اس بات کا بھی پورا حق دیتی ہے کہ جو عقائد ونظریات وہ رکھتے ہیں ، ان پر قائم رہیں۔ ان کو اپنے اخلاف میں بطور ورثہ منتقل کریں۔ اپنے دائرہ کے اندر ان کی حفاظت وترقی کے لئے جو کچھ کرسکتے ہیں ، وہ بے روک ٹوک کریں۔ البتہ ریاست ان کو اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ وہ ان نظریات کو ایک نظام زندگی کی حیثیت سےبرپا اور ان کو اسلامی حکومت کے بنیادی اصولوں پر بالفعل غالب کرنے کی کوشش کریں ۔ غور کیجئے تو اس بات میں غیر مسلموں کو اسلام نے مسلمانوں سے بھی زیادہ آزادی عطا کی ہے کیونکہ غیرمسلم تو اسلامی حکومت کے اندر اپنی پسند کے ہر دین ومذہب اور نظریہ وخیال کو اختیار کرنے کے لئے کاملاً آزاد ہیں مگر مسلمانوں کو اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ اسلامی مملکت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے، اسلام کے سوا کسی اور نظریہ وخیال کو اعتقادا بھی اختیار کریں۔‘‘[i]
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی (م 1979ء) لکھتے ہیں:
’’تبلیغ کی کئی شکلیں ہیں: ایک شکل یہ ہے کہ کوئی مذہبی گروہ خود اپنی آئندہ نسلوں کو اور اپنے عوام کو اپنے مذہب کی تعلیم دے۔ اس کا حق تمام ذمی گروہوں کو حاصل ہوگا۔ دوسری شکل یہ ہے کہ کوئی مذہبی گروہ تحریر یا تقریر کے ذریعے سے اپنے مذہب کو دوسروں کے سامنے پیش کرے اور اسلام سمیت دوسرے مسلکوں سے اپنے وجوہ اختلاف کو علمی حیثیت سے بیان کرے ، اس کی اجازت بھی ذمیوں کو ہوگی۔ مگر ہم کسی مسلمان کو اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے اپنا دین تبدیل کرنے کی اجازت نہ دیں گے۔ تیسری شکل یہ ہے کہ کوئی گروہ اپنے مذہب کی بنا پر ایک منظم تحریک اُٹھائے جس کی غرض یا جس کا مال یہ ہو کہ ملک کا نظام زندگی تبدیل ہوکر اسلامی اصولوں کی بجائے اس کے اصولوں پر قائم ہوجائے۔ ایسی تبلیغ کی اجازت ہم اپنے حدود اقتدار میں کسی کو نہیں دیں گے۔ ‘‘[ii]
غیرمسلموں کی آبادیوں میں ان کے نئے معابد کی تعمیر وتجدید پر تو تفصیلات ملتی ہیں تاہم ایسے شہر جنہیں مسلمانوں نے ہی بسایا ہو، اور وہاں پہلے سے غیرمسلموں کی کوئی آبادی نہ ہو، تو ایسے شہروں میں کفریہ عبادت گاہوں کی تعمیر سرے سے ممنوع ہے، جیسا کہ امام عینی حنفی (855ھ) لکھتے ہیں:
مَا مَصَّرَهُ الْمُسْلِمُونَ مِنْهَا، کَالْکُوفَةِ وَالْبَصْرَةِ وَبَغْدَادَ وَوَاسِطٍ، فَلَا یَجُوزُ فِیهَا ِإحْدَاثُ بِیعَةٍ، وَلَا کَنِیسَةٍ وَّلَا مُجْتَمَعٍ لِصَلَوَاتِهِمْ وَلَا صَوْمَعَةٍ بِإجْمَاعِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَلَا یَمْلِکُونَ فِیهِ شُرْبَ الْخَمْرِ وَاتِّخَاذَ الْخِنْزِیرِ وَضَرْبَ النَّاقُوسِ. [iii]
’’جن شہروں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہو، جیسے کوفہ، بصرہ، بغداد اور واسط ہوئے۔ ان میں نیا گرجا یا کنیسہ بنانا جائز نہیں۔ اسی طرح کفار کی انفرادی اور اجتماعی عبادت گاہ نہیں بنائی جائے گی، اس پر اہل علم کا اجماع ہے۔ ایسے شہر میں شراب پینے ، خنزیر رکھنے اور ناقو س بجانے کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔‘‘
اور شیخ الاسلام ابو العباس احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ (م 728ھ)لکھتے ہیں:
وَقَدْ اتَّفَقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَنَّ مَا بَنَاهُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ الْمَدَائِنِ لَمْ يَكُنْ لِأَهْلِ الذِّمَّةِ أَنْ يُحَدِثُوا فِيهَا كَنِيسَةً؛ مِثْلَ مَا فَتَحَهُ الْمُسْلِمُونَ صُلْحًا وَأَبْقَوْا لَهُمْ كَنَائِسَهُمْ الْقَدِيمَةَ. [iv]
’’مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ جن شہروں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہوتو اہل ذمہ کو اس میں اسی طرح نیا گرجا بنا نے کی اجازت نہیں ہے،جس طرح کسی علاقے کو مسلمانوں نے صلح سے فتح کرکے صرف سابقہ گرجوں کو باقی رہنے کی اجازت دی ہو۔‘‘
عالمی مغربی قوانین
دوسری طرف مذہبی مساوات کے عالمی اور ملکی قوانین اس امر کی اجازت دیتے ہیں اور اس کو بنیادی حقوق کا حصہ قرار دیتے ہوئے، عدالتیں بھی اس کو درست قرار دیتی ہیں۔
- چنانچہ اقوامِ متحدہ کے ’عالمی منشورانسانیت ‘1948ء UDHRکے آرٹیکل نمبر 2 کا متن ہے کہ
Everyone is entitled to all the rights and freedoms set forth in this Declaration, without distinction of any kind, such as race, colour, sex, language, religion, political or other opinion, national or social origin, property, birth or other status. Furthermore, no distinction shall be made on the basis of the political, jurisdictional or international status of the country or territory to which a person belongs, whether it be independent, trust, non-self-governing or under any other limitation of sovereignty.
’’ہر شخص ان تمام آزادیوں اور حقوق کا مستحق ہے جو اس اعلان میں بیان کئے گئے ہیں۔ اور اس حق پر نسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب اور سیاسی تفریق کا یا کسی قسم کے عقیدے، قوم، معاشرے، دولت یا خاندانی حیثیت وغیرہ کا کوئی اثر نہ پڑے گا۔
اس کے علاوہ جس علاقے یا ملک سے جو شخص تعلق رکھتا ہے، اس کی سیاسی کیفیت، دائرہ اختیار یا بین الاقوامی حیثیت کی بنا پر اس سے کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ چاہے وہ ملک یا علاقہ آزاد ہو یا تولیتی ہو یا غیر مختار ہو یا سیاسی اقتدار کے لحاظ سے کسی دوسری بندش کا پابند ہو۔‘‘
- اس عالمی منشور کی پاسداری میں اقوام متحدہ کے ’چارٹر برائے ریاستی حقوق وفرائض 1949ء‘ Declaration on Rights and Duties of States کے آرٹیکل نمبر 6 یوں ہے:
Every State has the duty to treat all persons under its jurisdiction with respect for human rights and fundamental freedoms, without distinction as to race, sex, language, or religion.
’’ہرریاست کا فرض ہے کہ نسل، صنف، زبان اور مذہب کا امتیازکئے بغیر اپنے دائرہ حکومت میں موجود شہریوں کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کا تحفظ کرے۔‘‘
یعنی مغربی تصورِ ریاست کی رو سے دو چیزوں کا تحفظ کرنا ریاست کا اساسی فرض ہے :
انسانی حقوق اور بنیادی آزادی
اور چار چیزوں میں امتیاز نہ کرنا اس کا فرض ہے:
۱۔ نسل ۲۔ زبان ۳۔ صنف ۴۔ مذہب
- اسی مذہبی مساوات کی اسلامی جمہوریہ افغانستان کے نئے دستور 2004ء کے آرٹیکل 6 میں غیرمشروط ضمانت دی گئی ہے :
The state shall be obligated to create a prosperous and progressive society based on social justice, preservation of human dignity, protection of human rights, realization of democracy, attainment of national unity as well as equality between all peoples and tribes and balance development of all areas of the country.[v]
’’ریاست کا فرض ہوگا کہ وہ سماجی انصاف، انسانی شرف کےتحفظ ، انسانی حقوق کے تحفظ، جمہوریت کےاحساس، قومی اتحاد کے حصول، تمام اقوام اور قبیلوں کی مساوات اور ملک کے تمام علاقوں میں متوازن ترقی پر مبنی ایک خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرہ تخلیق کریں ۔‘‘
- یہی صورتحال الجزائر میں بھی ہے جس کے دستور 1989ء کے آرٹیکل 29 کا متن یہ ہے :
The citizens shall be equal before the law without any discrimination on the basis of birth, race, gender, opinion or any other personal or social condition or circumstances.[vi]
- مذہبی مساوات کو یہی کامل اور مطلق تحفظ انڈیا کے دستور کے آرٹیکل 15 میں یوں دیا گیا ہے:
(1) The State shall not discriminate against any citizen on grounds only of religion, race, caste, sex, place of birth or any of them.
(2) No citizen shall, on grounds only of religion, race, caste, sex, place of birth or any of them, be subject to any disability, liability, restriction or condition...
’’ریاست کسی شہری سے مذہب، نسل ، ذات، صنف، اور جائے پیدائش کی بنا پر کسی امتیاز کو بروے کار نہیں لائے گی۔ اور کوئی شہری ان وجوہات وغیرہ کی بنا پر کسی نااہلی، اہلیت، پابندی اور شرط کا سامنا نہیں کرے گا کہ وہ کسی دکان، ہوٹل، تفریحی مقامات، سٹرکوں، کنووں، آرام گاہوں، غسل خانوں سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔‘‘
جب مغرب کے وحی الٰہی سے ماورا سیاسی نظریہ ’مغربی جمہوریت‘ کے مطابق جدید ریاست انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کے تحفظ پر قائم ہے، تو اس کا لازمی نتیجہ ایک ایسی کثیر المذہبی ریاست ہے جس کا مادر پدر آزادی اور خود ساختہ حقوق کے فروغ کے سوا اپنا کوئی موقف نہ ہواور یہی الحادی ریاست ہوتی ہے جبکہ پاکستانی دستور میں مغربی سیاسی نظریات اور خالص مغربی جمہوریت کی بجائے اسلام سے مشروط سیاسی نظریات کی پاسداری کا دعویٰ اور نظام پیش کیا گیا ہے۔
بنیادی حقوق مطلق نہیں بلکہ مشروط !
مذکورہ بالا عالمی قوانین دراصل مغربی جمہوریت پر عمل پیرا ممالک میں بنیادی حقوق کے نام سے موجود ہیں، جبکہ جمہوریت وغیرہ کو جن مسلمان آبادی والے ممالک میں اسلام سے مشروط کرکے نافذ کیا گیا ہے، وہاں مذہبی مساوات مطلق نہیں ہے، چنانچہ
- OIC نے5؍ اگست 1990ء میں منعقدہ قاہرہ کانفرنس میں اسلامی انسانی حقوق کے 25 نکاتی چارٹر Cairo Declaration on Human Rights in Islam (CDHRI)میں پیش کرکے،رکن ممالک سے دستخط لئے ہیں جو اقوام متحدہ کے چارٹر کا متبادل ہے۔اس چارٹر کے آخری آرٹیکلز 24 اور 25 کا انگریزی متن یہ ہے :
24. All the rights and freedoms stipulated in this Declaration are subject to the Islamic Sharī’ah.
25. The Islamic Shari'ah is the only source of reference for the explanation or clarification of any of the articles of this Declaration.
’’24۔ اس اعلامیہ ؍چارٹر میں مندرج تمام حقوق اور آزادیاں شریعتِ اسلامیہ سے مشروط ہیں۔ ‘‘
25۔اس اعلامیہ میں مندرج تمام آرٹیکلز کی تشریح اور وضاحت کا واحد مستند ماخذ شریعتِ اسلامیہ ہے۔ ‘‘
- اقوام متحدہ کے منشور انسانیت کی تعمیل کرتے ہوئے مختلف مسلم و سیکولر ممالک کے دساتیر میں یہ مذہبی مساوات کا بنیادی نظریہ تو موجود ہے، جیسا کہ سعودی عرب کے انسانی حقوق کمیشن هيئة حقوق الانسان میں اس کی ضمانت موجود ہے ۔ کمیشن کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق : وتوجب أنظمة المملكة على جميع أجهزة الدولة إنصاف الإنسان أياً كانت ديانته أو عرقه أو جنسه أو جنسيته.[vii]
’’مملکتِ سعودیہ کے قوانین حکومت کے تمام اعضاء کے لیےمذہب، نسل، جنس اور قوم کے امتیاز کے بغیر انسانی اکرام و انصاف کو ضروری ٹھہراتے ہیں۔‘‘
سیکولر ریاستوں کے برعکس سعودی عرب کے دستور میں مساوات کی اجازت تو دی گئی ہے مگر دوسری طرف اس کمیشن سے بالاتر سعودی دستور کے آرٹیکل 8 کا متن ، اس مساوات کو محدود اور مقید کرتا ہے، “equality in accordance with the Islamic Shari‘ah” [viii] پر زور دیا گیا ہے۔ جیسا کہ آرٹیکل نمبر 8 میں ہے :
’’آرٹیکل نمبر8: حکومت، شریعت اسلامی کے مطابق عدل و انصاف، شورائیت اور مساوات جیسے بنیادی اصولوں پر قائم رہے گی۔‘‘
- اسی طرح پاکستان میں بھی بنیادی حقوق مطلق Absoluteنہیں بلکہ شریعت ِ اسلامیہ سے مشروط ہیں۔ اس بنا پر انہی آئینی حقوق کا دعویٰ معتبر ہوگا جن کو تحفظ شریعتِ اسلامیہ نے دیا ہے۔پاکستانی دستور میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ذریعے اسلامی قوانین کا تعین (آرٹیکل 227) اور پھر نفاذ اور وفاقی شرعی عدالت کے ذریعے غیر اسلامی قوانین کا خاتمہ (آرٹیکل 203د) کے مسلمہ آئینی ادارے یہ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان کےدستور پر اُصولی طور پر قرآن وسنت کی بالاتر ی ہے،قوانین ان کے مطابق بنائے جائیں او ران کے خلاف قوانین کو ختم کیا جائے۔
- چنانچہ پاکستانی دستور 1973ء كے قانونی طور پر مؤثر حصے ’قرار دادِ مقاصد ‘ میں بھی یہ طے کیا گیا ہے کہ
’’پاکستان میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی، اور ان حقوق میں قانون اور اخلاقِ عامہ کے تابع حیثیت اور مواقع میں مساوات ، قانون کی نظر میں برابری، معاشرتی، معاشی اور سیاسی انصاف اور خیال، اظہارخیال، عقیدہ، دین ، عبادت اور اجتماع کی آزادی شامل ہوگی۔ ‘‘
تاہم اسی قرارداد کا تیسرا جملہ ’’جس میں جمہوریت، آزادی، مساوات، روا داری اور عدل عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پوری طرح عمل کیا جائے گا۔‘‘ بتاتا ہے کہ انسانی حقوق کے مسلّمہ اُصول پاکستان میں بھی اسلام کی تشریح کے تابع ہیں۔ اسلامی شریعت ان تمام اُصولوں پر بالاتر ہے اور ان کو اسلامی شریعت کی روشنی میں ہی سمجھا جائے گا۔
- اسی طرح پاکستان میں ’آزادی اظہار‘ کا آرٹیکل 19 بھی اسلام اور پاکستان کے مفادات سے مشروط ہے:
Article 19: Every citizen shall have the right to freedom of speech and expression, and there shall be freedom of the press, subject to any reasonable restrictions imposed by law in the interest of the glory of Islam or the integrity, security or defence of Pakistan or any part thereof, friendly relations with foreign States, public order, decency or morality, or in relation to contempt of court, [commission of] or incitement to an offence.[ix]
’’19۔ اسلام کی عظمت وتعلیمات یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیش نظر یا توہین عدالت، کسی جرم، کے ارتکاب یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع ، ہر شہری کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق ہوگا۔ اور پریس کی آزادی ہوگی۔ ‘‘[x]
- اسی اسلامی نظریہ کی پاسداری کرتے ہوئے پاکستانی دستور کے باب ’بنیادی حقوق ‘کے تحت درج ہے کہ
’’ آرٹیکل نمبر 20 : قانون، امن عامہ او راخلاق کے تابع...
- ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا۔ ‘‘
- ہر مذہبی گروہ ، اور اس کے ہرفرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، برقرار اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہوگا۔ ‘‘
اسلامیانِ پاکستان ،جب بھی اس آرٹیکل کو پڑھتے ہیں تو اس سے ان کی توجہ ان حقوق کی طرف جاتی ہے جو اسلام نے شہری ، عدالتی اور مذہبی طور پر غیر مسلموں کو دیے ہیں۔کہ ان کا احترام کیا جائے، ان کی عیادت کی جائے، ان کے جنازوں کا احترام کیا جائے، ان کی تالیفِ قلبی کی جائے، ان کو اپنے دین پر قائم رہنے کی اجازت دی جائے، ان کے دفاع اور تحفظ کے حق کو یقینی بنایا جائے اور اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں تو ان کے ساتھ بھی حسن سلوک اور مکمل عدل وانصاف کیا جائے ۔وغیرہ وغیرہ
واضح رہے کہ یہ قانون بھی غیر مشروط نہیں ، بلکہ قانون ، امن عامہ او راخلاق کے تابع ہے۔ گویا اس قانون کو عین اسی طرح پاکستان کے سماجی اور شرعی وقانونی ڈھانچے میں سمجھا جائے گا جیساکہ عدلِ عمرانی اور آزادی اظہار کے سلسلے میں دستور میں بھی اس کی صراحت موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس آرٹیکل کو پڑھنے سے کسی کی توجہ غیرمسلموں کے مسلمانوں کو کفرکی دعوت دینے کے ناروا حق کی طرف نہیں جاتی۔ اگر پاکستان شہروں میں خنزیر کھلے پھرنے لگیں، شراب نوشی کھلے عام ہونا شروع ہوجائے، اور بل بورڈز اور اعلانات پر یہودیت یا بت پرستی کی کھلی دعوت دی جانے لگے اور اس پر اس آرٹیکل سے استدلال کیا جائے تو ہم کہیں گے کہ اس آرٹیکل کے بعض معانی درست اور قابل قبول ہیں اور بعض مفاہیم متنازعہ ہیں۔ اور آج تک اس کو محل بحث نہ بنانے کی وجہ یہی ہے کہ اس قانون کا مسلم معاشرے میں سیاق انہی جائزمفاہیم کا تقاضا کرتا ہے۔
اب ہندو اور سکھ اس کے متنازعہ معانی پر اصرار کریں تو پھر دستور پاکستان میں ایسے امکانی خلافِ شرع قوانین کی وضاحت اور انہیں محدود کرنے کے لئے وفاقی شرعی عدالت موجود ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کا وجود ہی اس امر کی دلیل ہے کہ پاکستانی قوانین میں بعض پہلؤوں کے خلاف اسلام ہونے کا امکان موجود ہے۔ چنانچہ فوری طور پر پاکستان مسلمانوں کو وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کرکے اس قانون کی ایسی وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ دستور کے باقی معانی اور قرار دادمقاصد کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے۔
- ماضی میں بھی وفاقی شرعی عدالت اس آرٹیکل سے قادیانیوں کو استثنیٰ دینے کا فیصلہ کرچکی ہے جب انہوں نے ایک غیرمسلم اقلیت ہونے کا دعویٰ کرکے، مساوی مذہبی حقوق کا مطالبہ کیا تھا۔ چنانچہ 28؍ اکتوبر 1984ء کو وفاقی شرعی عدالت میں قادیانیوں نے درخواست دی تھی کہ ان کو باقی غیر مسلموں کی طرح بحیثیت اقلیت تسلیم کیا جائے اور جس طرح باقی غیر مسلم کے حقوق ہیں، ہمیں بھی وہ حیثیت دی جائے، جس پر بحث مباحثے کے بعد ان کی درخواست خارج کردی گئی تھی۔ درخواست کا نمبر of 1984 17/I اور 2/L تھا جسے وزارتِ مذہبی واقلیتی اُمور نے شائع کررکھا ہے۔ جب یہ معاملہ ماضی میں بڑے بحث مباحثے کے بعد طے ہوچکا ہے، تو نامعلوم اس پر کیوں باربار قوم کا وقت ضائع کیا جاتا ہے؟ اس فیصلے میں دیگر بہت سے دلائل کے بعد، نکتہ نمبر 16 کے آخر میں یہ قرار دیا گیا کہ
In these circumstances, the Ordinance appears to be covered by the exception in Article 20 about its being subject to maintenance of law and order.
’’1974ء کی دوسری دستوری ترمیم کے نتیجے میں جو مسلمانوں کے ایک متفقہ مطالبہ کا نتیجہ تھا ، یہ ممکن نہیں تھا کہ قادیانی اپنے آپ کو مسلمان قرار دیں یا اپنے نظریات والے اسلام کو حقیقی اسلام کے طور پر پیش کریں۔ لیکن اُنہوں نے اس آئینی ترمیم کا کبھی احترام نہ کیا اور ماضی کی طرح اپنے نظریات کو اسلام کے نام سے ہی کتابیں اور روزناموں کے ذریعے برملا پھیلاتے رہے۔ مزید یہ کہ مسلم افراد میں بھی اپنے دھوکہ آمیز نظریات کو نفرت پیدا کرنے کے لئے انہوں نے پھیلانا جاری رکھا جس سے واضح طور پر قانون اور امن عامہ کی صورت حال خراب ہونے کا قوی امکان تھا ۔ اور یہ سب اس وقت تک جاری رہا تاآنکہ ’امتناعِ قادیانیت آرڈیننس1984ء‘ کو منظور کرلیا گیا۔ ان حالات میں یہ آرڈیننس قادیانیوں کو دستور کے آرٹیکل 20 سے حاصل شدہ رعایت سے استثنیٰ کا اظہار کرتا ہے کیونکہ قومی امن وامان کو بحال رکھنے کا یہی تقاضا ہے۔ ‘‘
٭قابل توجہ امر یہ ہے کہ دستور پاکستان کے اس آرٹیکل 20 کا دوسرا حصہ پاکستان میں فرقہ واریت کی بقا اور تحفظ کو دستوری بنیادفراہم کرتا ہے۔ ایک طرف اسلام وحدت و اتحاد کا داعی ہے، اور افتراق وانتشار کو اللہ کی طرف سے تازیانہ قرار دیا گیا ہے، تو دوسری طرف دستور پاکستان کا یہ مجمل حصہ فرقہ واریت کو قانونی تحفظ دیتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ذیلی شق کو بھی نظریاتی تحفظ اور علمی نقطہ نظر تک محدود کیا جائے اور اس کی بنا پر باقاعدہ متحارب ومتقابل گروپوں، جماعتوں اور عصبیتوں کی نفی کی جائے کیونکہ اسلام کی رو سے ملی وحدت کو توڑنے، مسلم اخوت کو پارہ پارہ کرنے والی فرقہ واریت ناجائز ہے۔
- عالمی قوانین میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں کہ کسی ملک میں بنیادی حقوق کو مطلق قرار دینے کی بجائے، علاقائی اور معاشرتی امور سے مشروط کیا جاسکتا ہے، چنانچہ اقوام متحدہ کا ’بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری وسیاسی حقوق‘ ICCPR مجریہ 1976ء بیان کرتا ہے کہ تمام آزادیاں اور حقوق قانون میں عائد پابندیوں اور دوسروں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کے احترام سے مشروط ہیں، چنانچہ آرٹیکل نمبر 19(2) میں ہے :
’’شق نمبر 2 میں مذکور حقوق اس امر سے مشروط ہیں کہ دوسروں کے حقوق کا احترام اور اس کی معاشرتی ساکھ کو ملحوظ رکھا جائے۔‘‘
- اسی طرح پورے یورپ میں نافذ ’یورپی کنونشن برائے تحفظ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیاں‘ECHRمجریہ 1953ء کے آرٹیکل 10 (2) میں قرار دیا گیا ہے کہ
’’آزادیوں اور حقوق پر ایسی شرائط عائد کی جاسکتی ہیں،جو دوسروں کے حقوق کی حفاظت سے متعلق ہوں۔‘‘ مختصراً
گویا بنیادی حقوق کو مشروط کرنے کی مثالیں، یورپی ممالک میں بھی پائی جاتی ہیں۔
سفارشات
پاکستانی قانون کے آرٹیکل 20 کا یہ پہلو ماضی میں نمایاں نہیں ہوسکا، کہ غیرمسلم یہاں مساوی سطح پر مسلمانوں کو اپنے مذہب کی دعوت دے سکتے ہیں، حالانکہ پاکستانی معاشرہ میں ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں پائی جاتی اور اس کو قبول کرنے کو بھی معاشرہ بالکل تیار نہیں ہے۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر دستوری قوانین اور عدالتی فیصلوں کی طرح مذہبی مساوات کے اس قانو ن کی بھی مناسب قانونی تشریح کرکے، اس کو مشروط قرار دلوایا جائے۔
اس موقع پر عام عدالتوں سے رجوع کرنا یا حکومت کا اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کرنا زیادہ فائدہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ عام عدالتیں اکثر اوقات مروّجہ قوانین کی روشنی میں فیصلہ کرتی ہیں، اور قوانین کے شرعی اور غیرشرعی ہونے کا فیصلہ کرنا ان کا موضوع نہیں ہے۔ نیز مذہبی مساوات کے اس قانون کو وسیع پیرائے میں ، اس کے مماثل قوانین کو دیکھ کر فیصلہ دینا بھی غیرمعمولی اہمیت کا کام ہے، جیسا کہ اوپر نشاندہی کی گئی۔ایک جج پر مشتمل مروّجہ عدالتیں موجود قوانین کی روشنی میں ، شہری تقاضے پورے ہونے پر ایسے قوانین کا ایسا فیصلہ دیں گی جس سے دستور پاکستان کے مزاج سے غیرہم آہنگ ، قانونی نظیر قائم ہوکر مزید اُلجھن کا باعث بنے گی۔
جہاں تک اسلامی نظریاتی کونسل ہے تو اس کی سفارشات کی حیثیت بھی وعظ وتلقین سے زیادہ نہیں کیونکہ اس کی سفارشات ارکان اسمبلی کے لئے مشاورت کا کام دیتی ہیں ، قانونی پابندی عائد نہیں کرتیں۔ جبکہ وفاقی شرعی عدالت کا اصل کام ہی متنازعہ ومبہم قوانین کی اصلاح اور وضاحت کرنا ہے۔ اور وفاقی شرعی عدالت قانونی اصلاح کے بعد ، عدالتی طاقت سے فیصلہ کرنے کی بھی مجاز اتھارٹی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل محض قانونی سفارش جبکہ وفاقی شرعی عدالت واجب العمل فیصلہ دیتی ہے اور تمام عدالتوں کی طرف سے قوانین میں ترمیم کا عملی نوٹی فکیشن بہر حال وزارتِ قانون سے ہوتا ہے۔ اس متنازعہ قانون کا دستوری حل شرعی عدالت کے پاس ہی ہے۔
چونکہ پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ملک ہے اور یہاں کے حکام وعوام اسلام کے مطابق ہی زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، جس پر دستور کی درجنوں دفعات شاہد ہیں ، اور اسی کی علمائے کرام لمبی جدوجہد کرتے آئے ہیں۔ اس لئے دستور پاکستان کے عین مطابق وفاقی شرعی عدالت سے واضح موقف لینا چاہیے۔ حکومت رجوع نہ کرے تو کسی مخلص مسلمان کو یہ سعادت ضرور حاصل کرلینی چاہیے۔ اور جس طرح بابری مسجد کے معاملے پر بھارتی حکومت نے دنیاکے سامنے عدالتی فیصلے کا سہارا لے رکھا ہے، اسی طرح ہمیں بھی اپنے دستور اور وفاقی شرعی عدالت کے ذریعے پاکستانی قوم کو اس مخمصے سے نکالنا چاہیے۔
حواشی و حوالہ جات
[i] اسلامی ریاست کے اُصول ومبادی‘ از مولانا امین احسن اصلاحی: ص 214،215
Islami Riyāsat kay Usūl wa Mabādī, Mawlānā Amīn Aḥsan Iṣlāḥī, pg. 214,215
[ii] اسلامی ریاست : ص 31 بحوالہ: اسلامی ریاست اور غیر مسلم شہری از ڈاکٹر محمد سعد اللّٰہ : ص 602
Islami Riyāsat: pg 31 with reference to Islami Riyāsat awr Ghayr Muslim Shahrī, Dr Muhammad Saa’d-Ullāh, pg. 602
[iii] البِنایة شرح الهدایة للعیني، دار الكتب العلمية ،بيروت 1420ھ،:7؍256؛ البحر الرّائق لابن نجیم دار الكتاب الإسلامي، 5؍121
Al-Bināyah Sharḥ al-Hidāyah li al-‘Aynī, 7/256, Dār al-Kutub al-‘Ilmiyyah, Beirūt, 1420H, al-Baḥr al-Rā’iq li ibn Nujaym, 5/121, Dār al-Kitāb al-Islamī.
[iv] مجموع فتاوی ابن تیمیہ، مجمع الملك فهد ،المدينة النبوية، 1416ھ، : 28؍634،635
Majmū’ Fatāwa ibn Taymiyyah, 28/634,635, Majma’ al-Malik Fahad, al-Madinah al-Nabawiyyah, 1416H.
[v] Constitution of Islamic Republic of Afghanistan, 2004, Article 6
[vi] Algeria’s Constitution of 1989, reinstated in 1996, as amended in 2008, Article 29
[viii] Basic Law of Governance, Saudi Arabia, 1992, Article 8
[ix] Constitution of Islamic Republic of Pakistan, 1973, Article 19
[x] اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور ، قومی اسمبلی، پاکستان، ترمیم شدہ ایڈیشن جنوری 2015ء ، ص 11
Islami Jamhūriyyah Pakistan Ka dustūr, pg.11, Tarmīm Shudah Edition January 2015, National assembly Pakistan
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |