37
57
2022
1682060078052_3036
151-168
https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/download/512/377
https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/view/512
تعارف
انسانی تمدن نے عہد طفولیت سے شباب و کمال تک کا سفر انبیائے کرام علیہم السلام کی زیر پرستی کتب سماویہ کی رہنمائی میں طے کیا ہے۔ اختلاف ِزمانہ اور علاقائی تفاوت سے شریعتوں کے احکام میں تبدیلی رونما ہوتی رہتی تھی لیکن انسانی تمدن کے عہد شباب میں خدائے لم یزل نے سرور عالمیاں ،خاتم النبیین ﷺکو وہ شریعت ِبیضاء دے کر بھیجا جو تا قیام ِقیامت انسانیت کے لئے رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے۔اس میں ثبات کے وہ قوانین بھی ہیں جو تبدیلی سے ناآشنا ہیں اور تغیر کے وہ احکامات بھی ہیں جو مختلف ادوار کے حالات کے تقاضوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔قرآن وسنت سے براہِ راست احکامِ شرعیہ کااستنباط اوردلائلِ شرعیہ سے غیرمنصوص مسائل کاشرعی حل معلوم کرلینا انسانی فہم وبصیرت میں فطری تفاوت کے باعث ہرآدمی کے لیےممکن نہیں ہے۔ اسی لیے پیش آمدہ معاملات میں صاحبانِ استنبا ط کی طرف رجوع کرنے کاحکم دیاگیاہے ۔نبی رحمت ﷺنے نہ صرف اجتہادکی اجازت دی بلکہ مجتہدصحابہ کرام ؓکے اجتہادکی تحسین بھی فرمائی اورمجتہد مخطئ کے لیے ایک اورمجتہدمصیب کے لیے دوہرے اجرکی بشارت دی۔نبی رحمت ؐ کے خاتم الانبیاء والمرسلین ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام کی حفاظت کے لیے ہرعہد میں ایسے رجالِ کارپیدافرمائے جن کے بروقت اجتہادی وتجدیدی اوراصلاحی ودعوتی کارناموں نے دین ِ اسلام کی حقانیت ثابت کرکے باطل قوتوں کوہمیشہ مات دی ہے ۔اوراسے ہردورمیں قابلِ عمل قراردیاہے۔
بلاد اسلامیہ کے طول و عرض میں بہت سی ایسی ہمہ جہت شخصیات گزری ہیں جن کے شب روز دین متین کے شجر سایہ دار کی آبیاری میں گزرے،جن کی شبانہ روز تبلیغ سے کفر کے ظلمستان میں اسلام کی شمع ضوفشاں ہوئی ۔انہوں نے ایسے علمی،فکری ،روحانی اور تجدیدی کا رہائے نمایاں انجام دیے، جنہوں نے برصغیر پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کیے۔انہی نابغۂ روزگار ہستیوں میں امام عبدالوہاب شعرانیؒ (۹۷۳ھ) اور شاہ ولی اللہؒ(۱۷۰۳ء) سر فہرست ہیں۔ انھوں نے اپنی خداداد علمی صلاحیت، فقہی بصیرت اور نبوی راہنمائی کی روشنی میں ائمہ مجتہدین کا نہ صرف مقام و مرتبہ واضح کیا بلکہ ان کے باہمی فقہی فروعی اختلاف کی حیثیت بھی متعین کی کہ یہ اختلاف امت کے لیے سراپا رحمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ فقہ باہمی اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کا احترام اور محبت کرتے تھے۔ نیز یہ بھی واضح کیا کہ ’’فقہ‘‘ کا مطلب اپنی طرف سے شریعت میں اضافہ نہیں بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کا حل نکالنا ہے کیونکہ فقہ اسلامی کے پہلے معلم خود نبی اکرمﷺ ہیں اور اولین مؤسسین صحابہ کرامؓ ہیں۔
امام شعرانیؒ(۹۷۳ھ( اور شاہ ولی اللہ ؒ (۱۷۰۳ء) اپنے دور اور ممالک کی قد آور ، نامور سر بر آوردہ ، علمی،
فکری ، روحانی اور مجددانہ صلاحیت کی حامل شخصیات ہیں۔ اس مقالے کا بنیادی مقصد فقہی اختلاف سے متعلق مختلف زاویوں سے مذکورہ بالا ہر دوشخصیات کے نظریات کے تناظر میں تقابلی مطالعہ کرنا ہے۔ امتِ مسلمہ کے باہمی تشتت و افتراق اور خلاف و مخالفت کی بڑھتی ہوئی ناپسندیدہ روش کے اِس دور میں فقہی اختلافات اور اجتہادوتقلید کے درمیان اِن شخصیات کے مدلل اور معتدل موقف کو اجاگر کرنا مقصود ہے تاکہ علمی میدان کے شہ سوار اسلاف کے اِن مبارک رویوں سے استفادہ کرتے ہوئےمعاشرے کو نیاگانِ کُہن کی مخلصانہ روش کا امین بناکر ایک پر امن معاشرہ بنانے میں اہم کردار ادا کرسکیں۔
۱- اختلافاتِ ائمہ کی شرعی حیثیت… امام شعرانیؒ اور شاہ ولی اللہ ؒکے نظریات
آئمہ فقہ کے مابین اختلاف اصل مسئلہ کی مشروعیت میں نہیں ہے بلکہ افضلیت کے اعتبار سے ہے اور یہ اس طرح ہے جس طرح مختلف اطباء اور ڈاکٹرز کے طریق علاج میں ہوتا ہے۔
فقہی اختلافات : امام شعرانی ؒکا نقطۂ نظر
امام عبدالوہاب شعرانیؒ(۹۷۳ھ) نے واضح کیا کہ فقہاء اور مجتہدین کے اقوال شریعت مطہرہ کے زریں قوانین کے ماتحت ہیں اور انھیں کے انوار کی چمکتی ہوئی شعاعیں ہیں اور کوئی ایک قول بھی شریعت سے باہر نہیں ہے۔ تمام مذاہبِ فقہ شریعت مطہرہ کے چشمۂ صافیہ سے نکلنے والی نہریں ہیں۔ سرچشمہ شریعت کی مثال ہتھیلی اور مذاہب مجتہدین کی مثال انگلیوں کی سی ہے:
’’فجميع المذاهب الآن عندي متّصلة ببحر الشريعة اتّصال الأصابع بالكفّ والظلّ بالشاخص‘‘[i]
”اب تمام مذاہب میرے نزدیک بحر شریعت سے اس طرح متصل ہیں جس طرح انگلیاں ہتھیلی سے اور سایہ تیر سے متصل ہوتا ہے۔“
’’الميزان الکبريٰ‘‘ کے مقدمہ میں امام شعرانیؒ (۹۷۳ھ) رقم طراز ہیں:
’’الحمد للّٰه الذي جعل الشريعة المطهرة بحراً يتفرّع منه جميع بحار العلوم الفافعة والخلجان، وأجري جداوله علي أرض القلوب حتي روي منها قلب القاصي من حيث التقليد لعلمالها والدان، ومن عليٰ من شاء من عباده المختصين بالاشراف علي نبوع الشريعة المطهرة وجميع احاديثها وآثارها المنتشرة في البلدان واطلعه الله من طريق كشفه علي عين الشريعة الأولٰي التي يتفرع منها كلّ قولِ في سائرالأدوار والأزمان فأقرّ جميع أقوال المجتهدين و مقلديهم بحق حين رأي اتصالها بعين الشريعة من طريق الكشف والعيان‘‘[ii]
”تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے شریعت مطہرہ کو ایسا سرچشمہ بنایا جس سے تمام نفع بخش علوم کے دریا اور نہریں پھوٹتی ہیں اور اس کی ندیاں دلوں کی سرزمین پر اس طرح بہائیں کہ جس طرح نزدیک رہنے والے کا دل ان سے سیراب ہو سکتا ہے اسی طرح دور دراز رہنے والے شخص کا دل بھی علماء شرع کی تقلید کر کے ان سے شاد کام ہو سکتا ہے اور جس پر چاہا چشمۂ شریعت، جملہ احادیث و آثار، جو مختلف بلادو امصار میں شائع اور رائج ہیں، پر آگاہ کرنے کا اس پر احسان فرمایا اور بذریعہ کشف اسے شریعت کے چشمہ اولیٰ سے آگاہی بخشی جس سے ہر دور اور ہر زمانہ کے جملہ اقوال متفرع ہوتے ہیں۔ پس جب اس (عارف باللہ) نے بطریق کشف و معائنہ ہر دو طریقوں سے اتصال دیکھ لیا تو جملہ مجتہدین اور ان کے مقلدین کے اقوال کے برحق ہونے کا اقرار کر لیا۔“
آئمہ مجتہدین کے اقوال اور اجتہادات کا مأخذ
امام شعرانیؒ(۹۷۳ھ)نے یہ حقیقت بھی واضح کی ہے کہ ائمہ مجتہدین کا اختلاف، درحقیقت صحابہ کرامؓ کے اختلاف رائے سے ماخوذ ہے کیونکہ ہر مجتہد نے صحابہ کرام کا راستہ اختیار کیا ہے:
’’ومعلومٌ أن المجتهدين علي مدرجة الصحابة سلكوا فلاتجد مجتهداً الا وسلسلته متصلة بصحابي قال بقولِه أو بجماعة منهمٌ ‘‘[iii]
”اور یہ امر معلوم ہے کہ ائمہ مجتہدین نے صحابہ کرام کا راستہ اختیار کیا ہے۔ چنانچہ کسی مجتہد کو نہ پاؤ گے کہ اس کا سلسلہ کسی صحابی یا جماعت صحابہ کے اقوال سے متصل نہ ہو۔“
امام شعرانیؒ(۹۷۳ھ)نے اپنے شیخ حضرت علی خواصؒ (۹۴۹ھ)کے حوالہ سے ذکر کیا ہے کہ ائمہ مجتہدین کا کوئی قول بھی ایسا نہیں ہے جو شریعت کے اصول میں سے کسی اصل کی طرف منسوب نہ ہو:
’’ما ثمَّ قل مِنْ اقوال العلماء اِلاّ و هو مستند الٰي أصل من أصول الشريعة لمن تامل لان ذلك القول اما أن يكون راجعاً الي آية أوحديثٍ أو أثرٍ أوقياس صحيح علٰي أصل صحيح، لكن من اقوالهم ماهو ما خوذمن صريح الايات أوالأخبار أوالآثار و منه ماهو ماخوذ من الماخوذ أومن المفهوم، فمن اقوالهم ما هو قريب و منها ماهوأقرب و منها ماهو بعيد و منها ما هوأبعد و مرجعها كلها الي الشريعة لأنها مقتسبة من شعاع نورهاً[iv]
”علماء کے اقوال میں سے کوئی قول ایسا نہیں ہے جو شریعت کے اصول میں سے کسی نہ کسی اصل کی طرف منسوب نہ ہو کیونکہ جو بھی غوروتامل کرے گا اس پر واضح ہو جائے گا کہ ہر قول کسی آیت سے ماخوذ ہے یا کسی حدیث سے، کسی اثر سے ماخوذ ہے یا قاعدہ صحیحہ کے مطابق قیاس صحیح ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ بعض اقوال تو ایسے ہیں جو صریح آیات، صریح احادیث یا صریح آثارسے ماخوذ ہیں اور بعض اقوال ان کے مطالب اور مفاہیم سے ماخوذ ہیں، جو آیات و احادیث سے سمجھے جاتے ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ بعض اقوال تو چشمۂ شریعت سے قریب ہیں اور بعض قریب تر، اسی طرح بعض اقوال چشمۂ شریعت سے بعید ہیں تو بعض بعید تر، مگر تمام کا مرجع شریعت مطہرہ ہے کیونکہ وہ تمام اقوال نور شریعت سے مقتبس ہیں ۔“
اختلافاتِ ائمہ کی شرائع سابقہ سے مشابہت
امام شعرانیؒ(۹۷۳ھ)نے اپنے شیخ حضرت علی خواصؒ(۹۴۹ھ) کے حوالے سے یہأمر بھی واضح کیا ہے کہ ائمہ مجتہدین کے اختلافات میں بھی ایک گو نہ فضیلت ہے اور وہ یہ ہے کہ سابقہ شریعتوں کی جملہ فضیلتیں، شریعت محمدیﷺ میں در آئی ہیں:
’’ما من قول من أقوال المذاهب المستعملة و المندرسة الّا وقد كان شرعاً لنبي تقدم فأرادالحق تعاليٰ بفضله و رحمته أن يجعل لهذه الأمة نصيباً من العمل ببعض تشريع الأنبياء ليحصل لهم بعض الأجرالذي كان يحصل العاملين بنحو ما عملوا به من شرائع الانبياء خصوصية لهذه الأمة من حيث ان شريعة نبيهم صلي الله عليه وسلم حاوية لمجموع احكام الشرائع المتقدمة‘‘ [v]
”مذاہب مستعملہ یا مذاہب متروکہ میں سے کوئی قول ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی گزشتہ نبی علیہ اسلام کی شریعت میں داخل نہ رہ چکا ہو تو حق تعالیٰ نے چاہا کہ وہ اپنے فضل و رحمت سے اس امت کو پہلے انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں کے بعض احکام پر بھی عمل کرنا نصیب فرمائے تاکہ انبیاء سابقین علیہم السلام کی شریعتوں پر عمل کرنے کا اجر و ثواب سابقہ امم کی طرح اس امت کو بھی حاصل ہو جائے اس حیثیت سے کہ ان کے نبیﷺ کی شریعت، تمام گزشتہ شریعتوں کے احکام کی جامع اور حاوی ہے۔“
مندرجہ بالا بحث سے ثابت ہوا کہ امام عبد الوہاب شعرانی ؒ(۹۷۳ھ) آئمہ مجتہدین کے فقہی اختلافات کو نہ صرف مستحسن سمجھتے ہیں بلکہ انھیں نور شریعت سے مقتبس شعاعیں قرار دیتے ہیں اور واضح کرتے ہیں ائمہ فقہ کے اختلافات میں سابقہ شائع کے بعض احکام پر عمل کرنے کا اجر و ثواب بھی حاصل ہو جاتا ہے نیز یہ اقوال اصول شریعت میں سے کسی نہ کسی اصل سے یا اس کے مفاہیم سے ماخوذ ہیں۔
فقہی اختلافات: شاہ ولی اللہؒ کا نقطۂ نظر
برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں شاہ ولی اللہؒ (۱۷۰۳ء)کی شخصیت مرکز ثقل کی حیثیت رکھتی ہے۔ بلاشبہ شاہ ولی اللہؒ(۱۷۰۳ء) سے پہلے بھی برصغیر میں ہر علم و فن کے بڑے بڑے نابغۂ روزگار منصہ ّ شہود پر آئے اور اپنے کارہائے نمایاں سے ملت اسلامیہ کے وقار کو بڑھایا لیکن شاہ ولی اللہؒ کی شخصیت، ایک ہمہ جہت شخصیت ہے، جن کی جامعیت و آفاقیت، توازن و اعتدال، فکر کی گہرائی اور رسائی اور آدم گری و افراد سازی کی نظیر برصغیر کی تاریخ میں بہت مشکل سے ملے گی۔
شاہ ولی اللہؒ(۱۷۰۳ء)نے فقہی اختلافات کی حیثیت اور اختلافی مسائل میں سلف صالحین کے طرز عمل کے پیشِ نظر اپنے عمیق مطالعہ، متواز ی و معتدل رجحان اور گہری بصیرت کی روشنی میں اس نتیجہ پر پہنچ کے فروعی مسائل میں بے جا تعصب کو ختم کر کے مذاہبِ فقہ کے مابین باہمی رواداری کو فروغ دیا جا سکتا ہے لہٰذا آپ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں فقہی مذاہب کے درمیان جمع و تطبیق کی تشکیل کا عزم فرمایا اور واضح کیا کہ فقہاء کے درمیان اکثر اختلاف کی صورتیں بالخصوص ان مسائل میں جن میں صحابہ کرام کے موافق و مخالف اقوال موجودہیں،دو اقوال میں سے ایک قول کی ترجیح کا ہے۔ اصل مسئلہ کی مشروعیت میں سلف کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، ان کا اختلاف محض اس بات میں ہے کہ ان دونوں میں سے افضل کیا ہے؟ فرماتے ہیں:
’’اكثر صوره الاختلاف بين الفقهاء لاسيما في الماسئل التّي ظهر فيها اقوال الصحابة في الجانبين كتكبيرات التشريق و تكبيرات العيدين و نكاح المحرم و تشهد ابن عباس و ابن مسعود والاخفاء بالبسملة و مآ مين والاشفاع والايتار في الاقامة و نحوذلك انما هو في ترجيح أحد القولين، ولأن السلف لايختلفون في اصل المشروعية وانما كان خلافهم في أولي الأمرين و نظيره اختلاف القتراء في وجوه القراء ة و قد عللوا كثيراً من هذا الباب بأن الصحابة مختلفون وأنهم جميعاً علي الهدي“[vi]
”فقہاء کے درمیان اکثر اختلاف کی صورتیں بالخصوص ان مسائل میں جن میں صحابہ کرام کے اقوال دونوں جانب ہیں جیسے تکبیرات تشریق، تکبیرات عیدین، حالت احرام کا نکاح، ابن عباسؓ اور ابن مسعودؓ کا تشہد، بسم اللہ اور آمین کو آہستہ پڑھنا، اقامت میں (الفاظ قامت) دو بار یا ایک بار کہنا وغیرہ، ان میں اختلاف دو اقوال میں سے ایک قول کی ترجیح کاہے۔ اصل مسئلہ کی مشروعیت میں سلف کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ان کا اختلاف محض اس بات میں ہے کہ ان دونوں میں سے افضل ادائیگی کی کون سی صورت ہے؟ یہ اختلاف ایسا ہی ہے جیسے قرأت کے الفاظ میں قُرّاء کا اختلاف ہے۔ فقہاء نے اس باب کے بیشتر مسائل میں یہ وجہ بیان کی ہے کہ ان میں صحابہ کرام کا اختلاف ہے اور سارے صحابہ ہدایت پر ہیں ۔“
فقہی اختلاف کی تاریخ، اس کی حیثیت و حقیقت اور مذاہبِ اربعہ کے مقام و مرتبہ کاتعین کر کے واضح کیا کہ فقہاء کا اختلاف نہ صرف مشروع اور مستحسن ہے بلکہ اس میں امت کے لیے یُسر اور سہولت ہے۔ مذاہبِ اربعہ دراصل ایک ہی شجرۂ شریعت کی شاخیں ہیں ان سب کا ماخذ اور سرچشمہ ایک ہی ہے اور وہ قرآن و سنت ہے۔
۲- تقلید اور اجتہاد: امام شعرانیؒ اور شاہ ولی اللہؒ کے نظریات
امام عبد الوہاب شعرانی ؒ کا نقطۂ نظر: مختصر جائزہ
امام عبد الوہاب شعرانی (۹۷۳ھ) شریعت کے چشمہ کبریٰ سے ناواقف کے لیے تقلید کو نہ صرف جائز بلکہ
واجب قرار دیتے ہیں تاکہ وہ خود بھی گمراہ نہ ہو اور کسی دوسرے کو بھی گمراہ نہ کرے اور جو مقلدین، شریعت کے چشمۂ کبریٰ سے محجوب ہیں وہ معذور ہیں۔ اپنے شیخ حضرت علی خواصؒ(۹۴۹ھ)کے حوالہ سے مذہب معین کی پابندی لازمی قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک سرچشمۂ شریعت سے آگاہی سے قبل مذہب معین کا التزام نہ کرنا گمراہی کے مترادف ہے۔ نیزیہ بھی فرماتے ہیں کہ کسی فقیہ کا کوئی قول بھی شریعت کے اصول میں سے کسی نہ کسی اصل سے ماخوذ ہے ہاں یہ الگ بات ہے کہ فقہاء کے کچھ اقوال صریح آیات، صریح احادیث یا صریح آثار سے ماخوذ ہیں اور کچھ ان کے مطالب اور مفاہیم سے یہی وجہ ہے کہ کچھ اقوال چشمہ شریعت کے قریب ہیں اور کچھ قریب تر اسی طرح بعض بعید ہیں اور بعض بعید تر مگر تمام کا مأخذ و مرجع شریعت مطہرہ ہی ہے کیونکہ جملہ اقوال ائمہ نور شریعت سے مقتبس ہیں۔
علماء کے متعلق آپ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ وہ کسی مجتہد کے پردہ کی آڑ میں رہ کر صرف تقلید پر اکتفا نہ کریں بلکہ وہ اجتہاد کی صلاحیت پیدا کریں۔ امام احمد بن حنبلؒ کے قول:لَا تُقَلِّدْنِي وَلَا تُقَلِّدْ مَالِكًا وَلَا الثَّوْرِيَّ وَلَا الْأَوْزَاعِيَّ، وَخُذْ مِنْ حَيْثُ أَخَذُوا[vii] (نہ میری تقلید کرو، نہ مالک، اوزاعی اور نخعی کی بلکہ تم بھی وہیں سے احکام کا استنباط کرو جہاں سے انھوں نے کیا ہے) کی توجیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ کا یہ فرمان اس شخص پر محمول ہے جسے قرآن و سنت سے استنباط کی صلاحیت ہو ورنہ عامی کے لیے تقلید واجب ہے تاکہ وہ گمراہ نہ ہو جائے۔ آپ مقلد کو نصیحت کرتے ہیں وہ کسی مجتہد کے قول پر معترض نہ ہو نیز یہ بھی اعتقاد رکھے کہ کسی بھی امام نے جو تشدیدیا تخفیف کا نقطۂ نظر اپنایا ہے، وہ اپنے پروردگار کی طرف ہدایت پر ہے اور اس سلسلے میں اہل کشف کا اجماع نقل کیا ہے کہ امت سے رفع حرج کرنا ان پر تنگی واقع کرنے سے بہتر ہے۔
امام شعرانیؒ (۹۷۳ھ)نے اولیاء کرام کی مذاہبِ فقہ کی تقلید کے ضمن میں لطیف نکات اٹھائے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ وہ اولیاء کرام جن کا قدم ولایت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام میں پہنچ جاتا ہے تو وہ احکام شرعیہ کو وہیں سے اخذ کرنے لگتے ہیں جہاں سے مجتہدین اخذ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے صرف رسول اللہﷺ کی تقلید باقی رہتی ہے۔ معین مذہب اور معین شیخ کی پیروی ضروری ہونے کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ اس طرح مقصود تک رسائی آسان اور یقینی ہو جاتی ہے کیونکہ سرچشمۂ شریعت یا معرفت الٰہی کے دربار کی مثال ہتھیلی کی سی ہے اور مجتہدین کے مذاہب اور مشائخ کے سلاسل کی مثال انگلیوں کی سی ہے کسی مذہب فقہ یا طریق شیخ کے ساتھ مشغول رہنے کے زمانوں کی مثال انگلیوں کے پوروں کی گرہوں کی سی ہے اگر مرید کے سلوک یا طالب فی العبادۃ کے دربار معرفت الٰہی جل شانہٗ یا سرچشمۂ شریعت تک رسائی کی مدت مثلاً تین سال ہو تو اگر یہ مرید یا طالب معین شیخ یا معین مذہب فقہ کی پیروی کرے گا تو ایک دن ضرور مقصود اصلی تک پہنچ جائے گا۔ برعکس اس شخص کے جو ایک سال کسی مذہب فقہ یا طریق کی پیروی کرے اور اگلے سال کسی اور کی۔ اس طرح ایک مذہب فقہ یا طریق شیخ سے رجوع کر جانے اور دوسرے کی طرف متوجہ ہونے کے سبب اس نے مقصود کو فوت کر دیا اس لیے کہ ہر شیخ یا مجتہد دوسرے طریق تصوف یا مذہب فقہ پر بنا نہیں کرتا بلکہ اس کو لوٹا کر پھر لب راہ لے آتا ہے تو گویا وہ شخص تینوں سال ایک ہی گرہ پر مقیم رہا اور اگر وہ شخص ایک ہی طریق شیخ یا مذہب فقہ پر مداومت کرتا تو اتنی مدت میں اسے مقصود اصلی تک رسائی ہو جاتی کیونکہ ایسے شخص کی مثال اس کی طرح ہے جس نے دور دراز جگہ کا قصد کر کے سفر اختیار کیا جب ایک تہائی راستہ طے کر چکا تو اس نے سوچا تو اس کے اجتہاد نے اسے دوسرے راستے سے سفر کرنے کی طرف مائل کیا چنانچہ وہ اس خیال سے واپس لوٹ آیا اور دوسرے راستہ سے سفر کرنا شروع کیا پھر جب ایک تہائی راستہ طے ہو گیا تو واپس لوٹ آیا اور تیسرے راستہ سفر شروع کیا تاکہ مقصود تک جلدی پہنچ جائے تو ایسا شخص تمام عمر راستہ میں ہی ضائع کر دے گا اور منزل مقصود تک اس کی کبھی بھی رسائی نہ ہو پائے گی۔
اولیاء کرام کے مذہب معین کی تقلید سے متعلق فرماتے ہیں کہ اولیائے مذہب معین کی تقلید یا تو مقام کمال تک پہنچنے سے پہلے کرتے ہیں یا پھر کسی مسئلہ میں اس امام فقہ کے ادب کی غرض سے اس کے مذہب فقہ کی پیروی کا اظہار مقصود ہوتا ہے کیونکہ وہ امام متعلقہ مسئلہ میں اس ولی سے سابق ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے امام اور مقتدا بنایا ہے اور کبھی متعلقہ مسئلہ میں تقلید اس کی دلیل سے آگاہی کی بنا پر کر رہے ہوتے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امام کی تقلید کر رہے ہیں حالانکہ بذریعۂ کشف انھیں اس مسئلہ کی حقانیت کا علم ہو چکا ہوتا ہے۔ شیخ عبد القادر جیلانی اور شیخ محمد حنفی کے بالترتیب امام احمدؒ اور امام ابو حنیفہؒ کے مقلد ہونے کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ یہ مقام کمال تک پہنچنے سے پہلے واقعی مقلد تھے لیکن مقام کمال تک رسائی کے بعد وہ مقلد نہ رہے اور لوگ استصحاب حال کے طور پر انھیں مقلد سمجھتے رہے حالانکہ وہ تقلید کے دائرہ سے باہر آ چکے تھے۔
شاہ ولی اللہؒ کا نقطۂ نظر: مختصر جائزہ
شاہ ولی اللہؒ نے مذاہبِ اربعہ (حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی) کی تقلید کو منشائے نبوت قرار دیتے ہوئے درجہ اور رتبہ کے اعتبار سے بھی مساوی قرار دیا ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کی پسندیدگی اس میں ہے یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ کی طبع کے برعکس رسول اللہﷺ نے انھیں مذاہبِ اربعہ کی تقلید کے دائرہ سے نکلنے سے منع فرمایا۔ شاہ صاحب نے مذاہبِ اربعہ کی تقلید کے متعلق واضح انداز میں فرمایا ہے کہ ان مذاہب کی تقلید پر اجماع ہو چکا ہے اور اب انھی مذاہب و مسالک کی تقلید میں بہت سے اسرار اور حکمتیں پوشیدہ ہیں جو اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہیں بالخصوص دور حاضر (شاہ صاحب نے اپنے دور کی طرف اشارہ کیا ہے) میں کہ لوگوں کی ہمتیں جواب دے گئی ہیں اور وہ خواہشات کے اسیر ہو گئے ہیں نتیجتاً ہر شخص اپنی اپنی رائے پر نازاں ہے (جبکہ ہمارے دور میں تو اپنی اپنی رائے پر نازاں ہونے سے بڑھ اختلاف رائے کرنے والے کو تو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جا رہا ہے)
شاہ صاحب نے مذاہبِ اربعہ کی تقلید کو نہ صرف ضروری قرار دیا ہے بلکہ اسے ناقابل تردید دلائل سے ثابت کیا ہے (جس کی تفصیل ’’عقد الجيد‘‘، ’’الانصاف‘‘،’’حجة الله البالغة‘‘ اور ’’التفهيمات الالٰهية‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے) شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں لوگ ایک معین مذہب کی پیروی پر متفق نہ تھے (یہ الگ بات ہے کہ صرف ائمہ مجتہدین کسی نہ کسی صحابی رسولؐ کے اقوال کو اپنے اجتہاد و استنباط کا منبی قرار دیتے تھے) اس دور میں دو طبقے تھے: علماء اور عوام، جو کسی بھی عالم سے مسئلہ دریافت کر کے اس پر عمل کر لیتے تھے۔ اور پھر علماء کے دو طبقے تھے: ایک وہ جنھیں قرآن و سنت اور آثار کے تتبع کی بنا پر اجتہاد و افتاء کی صلاحیت حاصل ہوگئی تھی اور یہ ’’مجتہد مطلق‘‘ کے نام سے موسوم ہوئے جبکہ دوسرے طبقے میں وہ علماء تھے جنھیں قرآن، سنن اور آثار کی اتنی معرفت حاصل تھی جس سے وہ فقہ کے اصول اور اس کے بنیادی مسائل کو ان کے تفصیلی دلائل کے ساتھ جان سکتے تھے۔ بعض مسائل میں انھیں واضح اور غالب رائے حاصل ہوجاتی تھی، بعض میں وہ علماء کے مشورہ کے محتاج ہوتے چونکہ ان کے پاس وہ وسائل نہ تھے جو مجتہد مطلق کو حاصل تھے۔ لیکن دو صدیوں کے بعد لوگوں میں کسی نہ کسی مذہب فقہی کو اختیار کرنا عام ہو گیا چنانچہ بہت کم لوگ ایسے تھے جو کسی خاص اور معین مجتہد کے فقہی مذہب کے پابند نہ ہوتے۔ اس زمانے میں تقلید امر واجب ہو گئی جس کی شاہ صاحب نے متعدد وجوہات بیان فرمائی ہیں۔
پھر اس اعتراض کہ ایک شریعت کے ہوتے ہوئے امر غیر واجب، واجب کیسے ہو سکتا ہے؟ کا شافی و کافی جواب دیا ہے۔ فرماتے ہیں: جس بات پر امر واجب موقوف ہوتا ہے وہ بات بھی واجب ہو جاتی ہے اور جب ادائے واجب کے متعدد طرق ہوں تو ان میں سے کسی ایک طریقہ کو اختیار کرنا واجب ہو گا۔ اس کے لیے کسی خاص طریقہ کا تعین لازمی نہیں۔ اگر ادائے واجب کاایک ہی طریقہ ہو تو خاص اسی طریقہ کا حصول واجب ہو گا۔ پھر شاہ صاحب نے اس کی متعدد مثالیں بھی پیش کی ہیں مثلا ً اسلاف، علم نحو و لغت کے حصول میں مشغول نہ ہوئے تھے کیونکہ عربی ان کی اپنی زبان تھی لیکن آج نحو و لغت کا علم باقاعدہ حاصل کرنا واجب ہو گیا ہے کیونکہ اس کے بغیر عربی زبان سے واقفیت ممکن نہ ہے جس کا سمجھنا قرآن، سنن اور آثار و قوال کے فہم اور تفہیم کے لیے واجب اورلابدی امر ہے۔ اسی پر امام معین (۲۳۳ھ) کی تقلید کے واجب ہونے کو قیاس کرنا چاہیے جس کی تقلید کبھی واجب ہوتی ہے اور کبھی واجب نہیں ہوتی مثلاً ایک جاہل شخص ہندوستان یا ماوراء النہر کے کسی خطہ میں ہو اور اس کے قریب کوئی شافعی، مالکی یا حنبلی عالم موجود نہ ہو، نہ ان کے مسالک فقہ کی کوئی کتاب موجود ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ امام ابو حنیفہؒ کے مذہب فقہ کی تقلید کرے اور اس سے باہر جانا اس کے لیے حرام ہو گا اس لیے کہ اگر اس وقت اس نے ایسا کیا تو وہ اپنے آپ کو دائرہ شریعت سے نکال لے گا اور شتر بے مہار بن کر رہ جائے گا بخلاف اس شخص کے جو حرمین شریفین میں ہو۔ وہاں تمام مذاہبِ فقہ سے واقفیت کی بنا پر اس کے لیے کسی غیر معتبر مسلک یا طنی بات پر عمل کرنا کافی نہ ہو گا بلکہ حقیقت حال تک رسائی اس کے لیے واجب ہو گی۔
شاہ ولی اللہؒ(۱۷۰۳ء)نے ابنِ حزمؒ (۴۵۶ھ)کے حرمت تقلید کے نقطۂ نظر پر بڑا متوازن اور وقیع نقد بھی کیا ہے۔ پھر چند ان اشخاص کا تذکرہ بھی کیا ہے جن پر تقلید حرام ہے جبکہ عامی پر تقلیدکو واجب قرار دیا ہے۔ شاہ صاحب اتباع ہویٰ نہ ہونے کی صورت میں مذہب معین کی پابندی ضروری قرار نہیں دیتے کیونکہ ان کے نزدیک عام آدمی کا کوئی معین فقہی مذہب نہیں ہوتا اس کا مذہب صرف مفتی کا فتویٰ ہوتا ہے۔ مزید برآں شاہ صاحب نے تقلید کے عام ہونے کے اسباب بیان فرماتے ہوئے تقلید محض کے دور پر بھی روشنی ڈالی ہے پھر اپنے دور کے حوالے سے نام نہاد فقیہ اور نام نہاد محدث ہونے پر بھی بھرپور نقد کیا ہے جبکہ ایسی ہستیوں کا بھی ذکر کیا ہے جو ہر زمانے میں ’’حجۃ اللہ فی الارض‘‘ ہوتی ہیں اگرچہ یہ افراد کم ہوتے ہیں۔ شاہ صاحب نے اس تلخ حقیقت کو بھی بیان فرمایا ہے کہ لوگوں کے سینے کس طرح بصیرت کی امانت سے خالی ہوئے اور نتیجہ کے طور پر وہ دینی امور میں ترک غورو خوض پر مطمئن ہو گئے۔ آخر میں اجتہاد کی صلاحیت سے عاری ہونے اور تقلید محض پر قانع ہونے کا شکوہ بارگاہ الٰہی میں اس طرح کیا ہے:’’والي الله المشتكي و هوا المستعان وبه الثقة و عليه التكلان‘‘
۳۔محاسنِ اختلاف
امام شعرانیؒ (۹۷۳ھ) اختلاف کے محاسن بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
" ایک اصول ذہن میں رہے کہ خالق کائنات ازل تا ابد ہر چیز کو جاننے والا اور ہر معاملے میں حکمت سے کام لینے والا ہے۔ جب اس نے اس جہان کو پیدا کر کے مستحکم کیا اور اس کے عیب کو الگ اور کمال کو ممتاز کیا تواس میں وہ اختلاف پیدا فرمائے جن کا احاطہ حدود امکان سے ماوراءہے۔ غرض ہر چیز کو دوسری چیز سے مزاج اور صورت، وضع قطع اور جملہ حالتوں میں، جس طرح اس کے علم قدیم اور ارادہ کا تقاضا تھا، باہم مخالف پیدا فرمایا۔ چنانچہ ایک وسیع عالم ظہور میں آیا، جس میں اس نے اپنے فرمان سے ایسے ایسے مختلف عجائبات مہیا فرمائے، جن کی انتہا نہیں۔ من جملہ اس کی نادر حکمتوں اور بیش قیمت نعمتوں اور وسیع رحمتوں کے سب سے زیادہ عجیب یہ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو دو قسموں پر منقسم فرمایا، سعادت مند اور بدبخت۔ پھر ہر ایک سے وہ وہ کام لیے جن کے واسطے وہ پیدا کیا گیا ہے خواہ وہ ایسے (احکام و نواہی) ہوں جن کے بدلے میں جنت کا وعدہ کیا گیا ہے یا ایسے جن کی سزا کے طور پر عذاب کی وعید آئی ہے اور ہر ایک کے لیے اپنے فضل و کرم سے وہ چیزیں بنائیں جو دنیا و آخرت میں اس کے حال کے مناسب ہیں مثلاً ظاہر چیزوں کو دلکش صورت عنایت کی اور باطنی اشیاء کو ہماری نظروں سے اوجھل اور عجائبات کو حیرت انگیز کاریگریوں سے مزین فرمایا اور شریعت کے احکام اور بدکاروں کے لیے حدود مقرر کیں۔ تب جا کہ مخلوقات کے لیے ایک عالم کی باقاعدہ ترتیب ہوئی اور زمان و مکان کا کامل انتظام ہوا اور اس درجہ کامل کہ بڑے بڑے اہل خرد اور حکماء بول اٹھے کہ اس طرح کی شان خلاقیت و ابداع حیطۂ امکان سے باہر ہے ۔ ارشاد ربانی ہے: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ [التين:۵] ”یقیناً بلاشبہ ہم نے انسان کو نہایت ہی حسین پیرائے میں تخلیق فرمایا۔“ مزید برآں اللہ تعالیٰ نے عالم کی ہر چیز کو ہر کسی کے لیے مفید نہیں بنایا اور نہ ہر مضر کو ہر کسی کے لیے نقصان دہ بنایا بلکہ ایک چیز کسی لیے نفع بخش ہے تو کسی کے لیے نقصان دہ اسی طرح اس کے برعکس یہاں تک کہ ایک چیز کسی کے لیے ایک وقت میں نفع بخش ہے تو وہی چیز دوسرے وقت میں اس کے لیے نقصان دہ ہے جیسا کہ ہر قسم کی ظاہری اور باطنی اشیاء میں روزمرہ میں مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ اس میں ایسے مفاہیم چھپے ہیں جو فکر و نظر سے کی دسترس سے ماوراء ہیں اور ایسے بھید ہیں جن پر آگاہی اس عالم الاسرار (بھیدوں کو جاننے والی ذات) کی توفیق کے بغیر ناممکن ہے۔"[viii]
اس مضمون سے حدیث نبویؐ کا مفہوم واضح ہو گیا:كل ميسر لما خلق له [ix] ”ہر شخص کے لیے وہ چیز آسان ہے، جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے“۔امام شعرانیؒ مزید کہتے ہیں:
مذکورہ بالا قاعدہ کی روشنی میں یہ حقیقت مبرہن ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے مرد سعید کو جو ہمیشہ کے لیے مکلف بنایا ہے تو نعوذ باللہ اس سے کچھ مکر نہیں کیا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ امت محمدیہ کا فروع دین میں مختلف ہونا ہدایت اور آخرت میں محمود ہونے کا باعث ہے اور یہ بھی کہ پروردگار عالم نے ہمیں لغو اور قسم قسم کی تکالیف کا مکلف فضول میں نہیں بنایا بلکہ جب کوئی مکلف امور دینیہ میں سے کسی امیر کو کسی رسول یا کسی امام کے فرمان کی وجہ سے عبادت سمجھ کر بجالاتا ہے تو اس وقت اس کی ازلی نیکیوں میں سے اس کو اس کے شایان شان اعلیٰ مرتبہ سعادت حاصل ہوتا ہے۔[x]
چنانچہ امتِ مسلمہ میں جو اختلافات واقع ہوئے ہیں اور جو ہمیشہ ہوتے رہیں گے وہ فطری ہیں اور ان کے پیچھے مشیت ایزدی کار فرما ہے۔ یہ فطری اختلافات اگر اپنی حدود سے متجاوز نہ ہوں اور ان کے اصول و آداب کا التزام کیا جائے تو یہ بہت ہی مفید اور نفع بخش ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ نبی کریمﷺ نے ان کو رحمت قرار دے کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکرؓ (جو بچپن میں یتیم ہوجانے کی وجہ سے اپنی پھوپھی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے زیر تربیت آ گئے تھے، ام المومنین ہی کی آغوش شفقت میں انھوں نے ہوش سنبھالا، انھیں سے علم و عمل کی پختگی ان کے حصہ میں آئی حتی کہ ان کا شمار فقہاء سبعہ میں ہوتا ہے کا قول کتب میں منقول ہے:
’’لقد نفع الله باختلاف اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم… في أعمالهم لا يعمل العامل بعمل رجل منهم الا راٰي انه في سعة و راي ان خيراً منه عمله‘‘[xi]
”نبی اکرمﷺ کے صحابیوں کے جو اختلافات ان کے اعمال میں تھے، اللہ تعالیٰ نے اس سے یہ نفع پہنچا دیا کہ مسلمانوں میں سے جو کوئی کسی بھی صحابی کے طرز عمل کے مطابق عمل پیرا ہوتا ہے، وہ اپنے آپ کو گنجائش میں پاتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ جو کام وہ کر رہا ہے اسے اس سے زیادہ بہتر آدمی نے کیا تھا۔“
مولانا مناظر احسن گیلانیؒ (۱۹۸۷ء)فرماتے ہیں:
’’صحابہؓ کے اختلافات پر تو خیر یہ بات صادق ہی آتی ہے ہم عامیوں کے لیے یہی حال ائمہ کے
اختلافات کا بھی ہے کہ امام مالک کا نہ سہی، امام ابو حنیفہؒ کا تو یہ عمل ہے یا امام شافعی کا نہ سہی امام احمد کا تو عمل ہے اور ہم سے تو بہرحال سب ہی بہتر اور خیر ہیں ۔‘‘[xii]
کیونکہ ائمہ مجتہدین قول بالرائے سے بری ہیں اختلافی مسائل میں وہ کسی نہ کسی صحابی کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں اور کسی بھی صحابی کی پیروی کرنا صراط مستقیم کی پیروی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکرؓ نے تنبیہ فرمائی ہے: اي ذلك أخذت بل لم يكن في نفسك منه شي [xiii]
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ تو علانیہ فرماتے تھے: ما احب ان اصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم لم يختلفوا[xiv] (اگر اصحاب رسولﷺ میں اختلاف نہ ہوتا تو میرے لیے یہ بات پسندیدہ نہ ہوتی)۔
بلکہ وہ تو یہاں تک فرماتے تھے: مايسر ني ان لي باختلافهم حمر النعم[xv] (صحابہ کرام کے باہم اختلافات کے بدلے مجھے سرخ اونٹ بھی دیئے جائیں تو مجھے خوشی نہ ہو گی)۔
یاد رہے کہ ’’حمر النعم‘‘ (سرخ اونٹ) عرب کا ایک محاورہ تھا اس سے مراد وہ ایسی چیز لیتے تھے جس سے زیادہ بہتر اور قیمتی دنیا میں کوئی دوسری چیز نہ ہو کیونکہ آپ فرماتے تھے: لانه لوكان قولاً واحداً كان الناس في ضيق[xvi] (اگر ان امور میں ایک ہی فتویٰ ہوتا تو لوگ تنگی میں مبتلا ہو جاتے)۔
سنن دارمی میں آپ کا قول منقول ہے: لو اجتمعوا علي شيء فتركه ترك السنة ولو اختلفوا فاخذ رجل بقول أحد أخذ السنة[xvii] (اگر صحابہ کرام ایک ہی بات پر متفق ہو جاتے تو اس بات کا چھوڑنے والا سنت کا تارک قرار پاتا اور جب ان میں اختلاف رائے ہوا تو ان میں سے جس کسی کے قول کو بھی کوئی شخص اختیار کرلے گا تو سمجھا جائے گا کہ اس نے سنت ہی کو اختیار کیا ہے)۔
سنن دارمی میں ہے کہ آپ کو کہا گیا کہ کاش آپ لوگوں کو ایک ہی مسلک پر (بزور حکومت) جمع کر دیتے تو اتفاق کے اس میموریل کے جواب میں ارشاد فرمایا: مايسرني أنهم لم يختلفوا[xviii](وہ (صحابہ کرام) اگر مختلف نہ ہوتے تو یہ بات مجھے اچھی نہ لگتی)۔
امام دارمیؒ (۲۵۵ھ) نے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ: ثم كتب الي الآفاق أو الي الامصار ليقضي كل قوم بما اجتمع عليه فقهاء هم[xix](پھر انھوں نے اپنے تمام محروسہ ممالک کے ارباب بینس و دانش کے نام یہ فرمان لکھوا بھیجا کہ ہر ملک کے باشندے ان ہی مسائل کی روشنی میں باہم فیصلے کیا کریں جن پر ان کے فقہاء کا اتفاق ہو چکا ہے)۔
حضرت قاسمؒ، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مذکورہ بالا قول کے متعلق فرمایا کرتے تھے: لقد اعجبني قول عمر بن عبد العزيز ماأحب ان لم يختلفوا[xx] (عمر بن عبد العزیز کی یہ بات ’’صحابہ کرام میں اختلاف نہ ہوتا تو یہ بات میرے لیے پسندیدہ نہ ہوتی‘‘ مجھے بہت پسند آئی)۔
ان فقہی اختلافات کی علمی وقعت کیا ہے؟ اس کا اندازہ حضرت قتادہ ؒ کی طرف منسوب مندرجہ ذیل قول سے ہوتا ہے: من لم يعرف الاختلاف لم يشم أنفه الفقه[xxi] (جسے اختلاف کی معرفت نہیں اس کی ناک نے فقہ کی بو بھی نہیں سونگھی)۔یا سعید بن عروبہ ؒ کا فرمانا: من لم يسمع الاختلاف فلا تعده عالماً[xxii] (جسے اختلافات کی خبر نہیں ہے اسے عالم شمار نہ کرو)۔یا قبیصہ بن عقبہؒ کا فرمان: لا يفلح من لا يعرف اختلاف الناس[xxiii] (جو اختلافات سے واقف نہیں ہے، وہ کامیاب نہیں ہو سکتا)۔
بھی فقہی اختلافات کے وقیع ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
حضرت ایوب سختیانیؒ (۱۳۱ھ)تو فرماتے تھے: امسك الناس عن الفتيا اعلمهم باختلاف العلماء[xxiv] (حکم لگانے میں جلدی نہ کرنے والا وہی ہو سکتا ہے جو علماء کے اختلاف سے زیادہ واقف ہے)۔ اور اپنے استاد ابن عینیہؒ کا قول بیان فرماتے تھے:اجسر الناس علي الفتيا أقلهم علماً باختلاف العلماء[xxv] (فتویٰ دینے میں زیادہ جری وہی ہو سکتا ہے (یعنی کسی چیز کے حرام یا حلال ہونے کے متعلق قطعی حکم لگانے والا) جو علماء کے اختلاف سے ناواقف ہو گا)۔
صحابہ کرام ؓکے مابین اختلافات کا ذکر کرتے ہوئے امام شاطبیؒ (۷۹۰ھ)نے نہایت حسین اور روح پرور تبصرہ کیا ہے:
انما اختلفوا فيما أذن لهم من اجتهاد الرأي والاستنباط من الكتاب و السنة فيما لم يجدوا فيه نصاً و اختلف في ذلك اقوالهم فصاروا محمودين لانهم اجتهدوا فيما أمروا به [xxvi]
(وہ انھیں باتوں میں مختلف ہوئے جن میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا انھیں حکم ملا ہوا تھا یعنی جن پیش آمدہ حوادث و امور کے متعلق نص میں انھیں کوئی صراحت نہ ملی تو انھوں نے کتاب و سنت سے استنباط و اجتہاد کیا تو ان کے اقوال و آراء مختلف ہو گئے اور وہ اپنے اس اختلاف میں تحسین و مدح کے مستحق ہیں کیونکہ جس باب میں انھیں اجتہاد کا حکم دیا گیا تھا، اسی میں انھوں نے حکم کی تعمیل کی)۔
لیکن مختلف امور و مسائل میں اختلاف کے باوجود ان کی باہمی محبت و احترام اور اخوت و رواداری میں کوئی فرق نہیں آیا تھا اس لیے کہ ان کا یہ اختلاف للہیت پر مبنی تھا۔ امام شاطبیؒ (۷۹۰ھ) لکھتے ہیں: وكانوا مع هذا أهل مودة وتناصح و أخوة الاسلام فيما بينهم قائمة[xxvii] (اس اختلاف کے باوجود باہمی الفت و محبت رکھنے والے لوگ تھے، ایک ایک کا بہی خواہ و خیر اندیش تھا، اسلام نے جو بھائی چارہ ان میں قائم کر دیا تھا وہ اپنے حال پر باقی اور قائم تھا)۔ ہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ اس غلط فہمی کا کہ ’’کہ ائمہ اربعہ میں سے صرف ایک حق پر‘‘ازالہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
والحق مانسب الي الائمة الأربعة قول مخرج من بعض تصريحا تهم و ليس نصاً منهم وانه لاخلاف للأمة في تصويب المجتهدين في ماخير فيه نصاً و اجماعاً [xxviii]
(حق یہی ہے کہ ائمہ اربعہ کی طرف جو یہ بات منسوب کی گئی ہے (یعنی ائمہ اربعہ میں سے صرف ایک حق پر ہے) اس کی کوئی تصریح ان بزرگوں نے نہیں فرمائی ہے بلکہ جن باتوں کی انھوں نے تصریح کی ہے ان سے دوسروں نے یہ نتیجہ خود نکال لیا ہے… دراصل امتِ مسلمہ میں اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے یعنی نصاً اور اجماعاً یہ طے شدہ فیصلہ ہے کہ جن مسائل میں مسلمانوں کو اختیار دیا گیا ہے ان میں تمام مجتہدین حق پر ہیں) ۔
یہ بات پیشِ نظر رہے کہ نظریہ مراعاۃ الخلاف کے تحت فقہائے کرام کے جن اختلافات سے رعایت اور تخفیف کی گنجائش نکالی جاتی ہے وہ اصولی نہیں بلکہ فروعی ہیں۔ ورنہ جہاں تک شریعت کے اصولوں کی بات ہے تو ان پر سب متفق ہیں کیونکہ اصول دین میں اختلاف قطعاً حرام ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ[الشوريٰ:۱۳]
(تمھارے لیے اس نے وہی دین مقرر فرمایا جس کا اس نے نوحؑ کو حکم دیا تھا اور جس کو ہم نے آپﷺ کی طرف بذریعۂ وحی بھیجا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم، موسی اور عیسی علیہم السلام کو حکم دیا تھا (اور ان کی امتوں کو حکم دیا تھا) کہ اسی دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا)۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت جس اختلاف اور تنازع سے منع کرتے ہیں وہ اختلاف ہے جس کی وجہ سے مسلمان ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں، مختلف فرقوں میں بٹ کر باہم ایک دوسرے سے اس طرح الگ ہو جائیں کہ ہر گروہ اپنے دین کو دوسرے گروہ سے الگ چیز خیال کرے جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ[الانعام :۱۵۳] (یہ ہے میرا سیدھا راستہ، اسی کی اتباع کرو اور دیگر راستوں پر نہ چلنا کہ کہیں تمھاری یہ روش تمھیں اللہ کے راستے سے دور نہ کر دے)۔
جبکہ’’مختلف فیہا مسائل میں پایا جانیوالا فقہاء کرام کے مابین اختلاف، دراصل پہلوؤں، سمتوں اور جہتوں کے حوالہ سے ہے۔ ان فقہی اختلافات کی وجہ سے ایک ہی شریعت کی مختلف سمتیں اور جہتیں روشن ہو گئی ہیں، جس کے باعث شریعتِ اسلامیہ کو اس عظیم الشان ثمربار درخت کی مانند قرار دیا جا سکتا ہے جس کی بہت سی شاخیں ہیں اور ہر سمت میں ہیں تاکہ کوئی شخص جدھر سے بھی آئے اس کے پھل سے لطف اندوز ہو سکے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس درخت کی صرف ایک ہی شاخ ہو اور ہر جانب سے آنے والے کو لازمی طور پر ایک ہی سمت سے راستہ اختیار کرتے ہوئے اس تک پہنچ کر اس کا پھل کھانا ہو گا‘‘۔[xxix]
آئمہ مجتہدین کے مابین اختلافات کی مولانا مناظر احسن گیلانی کی حکمت افروز توجیہ ملاحظہ ہو:
’’سچ تو یہ ہے کہ بیضۂ اسلام سے قصداً و اختیاراً ہی نکلنے کا جنوں کسی پر سوار ہو جائے تو خیر الگ بات ہے، ان کوتاہ نصیبوں کا تو کوئی علاج نہیں، ورنہ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو گا کہ جو اسلام ہی کے دائرہ میں جینا اور مرنا چاہتا ہے وہ پائے گا کہ گنجائشوں کے پیدا کرنے میں اسلام نے کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے۔ یقینا ان گنجائشوں کا ایک بڑا باب ان فقہی اختلافات ہی کی بدولت کھلا ہے اور اسی لیے بجائے شر کے میں ان اختلافات کو اسلام اور مسلمان دونوں ہی کے لیے خیر عظیم خیال کرتا ہوں۔‘‘[xxx]
امام عبد الوہاب شعرانیؒ (۹۷۳ھ) اور شاہ ولی اللہؒ(۱۷۰۳ء) نے فقہی اختلاف کی تاریخ، اس کی حیثیت و ماہیت اور اس میں پوشیدہ حکمتوں کی نقاب کشائی کر کے واضح کیا کہ یہ اختلاف نہ صرف مشروع اور محمود ہے بلکہ اس میں امت کے لیے سہولت اور تخفیف ہے۔ ان ہر دو حضرات نے فقہی مذاہب سے بالعموم اور مذاہبِ اربعہ (حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) میں سے بالخصوص مشترکہ بنیادوں کو تلاش کیا اور ملت کو احساس دلایا کہ فقہی مذاہب و مسالک کا تنوع، اصل دین سے اختلاف کا سبب کیونکر بنا چاہتا ہے؟ وہ حسن جو اس گلشن کا امتیازی وصف تھا وہ دین کی جڑیں کاٹنے کا باعث کیسے بن رہا ہے؟ بلاشبہ ان بزرگوں کی مساعی جمیلہ، احیائے ملت کی پہلی نمایاں فکری و عملی کاوش قرار پائیں گی۔
امام شعرانی ؒ(۹۷۳ھ) اور شاہ ولی اللہؒ(۱۷۰۳ء) کی تطبیقی کاوشوں سے استفادہ لمحۂ موجود کی اشد ضرورت ہے کیونکہ سیکولر ذہنیت کے حامل افراد فقہی اختلافات کا سہارا لے کر اسلام کے عملی نفاذ کو سبوتاژ کرنے کی مذموم سعی کرتے ہیں اور ان کی دلیل کا منبیٰ یہی ہوتا ہے کہ معاشرتی، معاشی، قانونی، سیاسی اور تعلیمی نظام کو اسلامائز کرنے میں فقہی اختلافات آڑے آتے ہیں۔ حالانکہ یہ اختلافات امتِ مسلمہ کے لیے سہولت اور یسر کا باعث ہیں۔ ہر ترقی یافتہ اور مہذب قوم میں اختلاف رائے کو مستحسن سمجھا جاتا ہے اور اس طرح خوب سے خوب تر کی جستجو جاری رہتی ہے لیکن غلامانہ ذہنیت اور منفی سوچ رکھنے والے اسے ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
امام شعرانی (۹۷۳ھ) اور شاہ ولی اللہؒ(۱۷۰۳ء) نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ فقہی اختلافات میں اصل مسئلہ کی مشروعیت میں سلف میں کوئی اختلاف نہیں ہے ان کا اختلاف محض اس بات میں ہے کہ ان دونوں میں سے افضل کون ہے؟ یہ اختلاف ایسا ہی ہے جیسے الفاظ قرأت میں قراء کا اختلاف ہے یا مختلف اطباء کے درمیان ایک ہی مرض کے طریق علاج میں ہوتا ہے۔ ارباب فکر و دانش امام عبد الوہاب شعرانی (۹۷۳ھ) اور شاہ ولی اللہؒ(۱۷۰۳ء) کی تطبیقی کاوشوں سے استفادہ کرکے نہ صرف موجودہ اختلافات کا حل نکال سکتے ہیں بلکہ آج جبکہ دنیا گلوبل ویلج (عالمی بستی) کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے اور صدیوں کی مسافتیں لمحوں میں طے ہونے لگی ہیں، اجتماعی فقہ کی تدوین کی طرف عملی پیش قدمی بھی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
نتیجۂ بحث
امام عبد الوہاب شعرانیؒ (۹۷۳ھ) اور شاہ ولی اللہؒ (۱۷۰۳ء)نظریات کا تفصیلی اور اجمالی جائزہ لینے کے بعد مندرجہ ذیل امور واضح ہوتے ہیں:
۱- فقہی اختلاف عہد رسالت مآبﷺ سے موجود ہے اور مختلف اسباب کے تحت اس کا دائرہ بڑھتا رہا۔ لیکن یہ اختلاف اخلاص پر مبنی تھا اور اسے حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکرؒ، حضرت عمر بن عبد العزیزؒ اور دیگر نامور رجال اسلام نے امت کے حق میں رحمت قرار دیا جبکہ عصر حاضر میں اختلاف رائے کی بجائے مخالفت اور خواہشات نفسانی کی پیروی عام ہو گئی ہے۔
۲- ائمہ مجتہدین اور فقہاء کرام کا کوئی قول بھی شریعت مطہرہ سے خارج نہیں ہے بلکہ جملہ اقوال نور شریعت سے ہی مقتبس ہیں کیونکہ وہ قول بالرائے اور اتباع ہوی ٰ سے دور تھے۔
۳- تقلید میں اعتدال پسندی ملحوظ رکھنی چاہیے، مجتہد کے لیے تقلید حرام جبکہ عامی کے لیے واجب ہےاور اگر اتباع ہویٰ نہ ہو تو معین فقہی مذہب کی پابندی بھی ضروری نہیں ہے۔
۴- مقلد کو تمام ائمہ مجتہدین کا ادب پیشِ نظر رکھنا چاہیے اور مقصود اصلی تک رسائی کے لیے ایک معین فقہی مذہب یا طریق شیخ کی پیروی کرنی چاہیے۔
۵- اولیاء کرام، مقام کمال تک پہنچنے سے پہلے ضرور مقلد ہوتے ہیں لیکن مقام کمال تک رسائی کے بعد وہ دائرہ تقلید سے باہر آ جاتے ہیں لیکن کسی نہ کسی مذہب فقہ کے مطابق امور شریعت کی بجا آوری کے پیشِ نظر لوگ استصحاب حال کے طور پر انھیں مقلد سمجھتے رہتے ہیں۔
یہ ہے فقہی اختلافات اور اجتہاد و تقلید کے درمیان امام شعرانیؒ(۹۷۳ھ) اور شاہ ولی اللہؒ(۱۷۰۳ء) کا انتہائی معتدل اور مدلل موقف، جو اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ ان کی تصانیف میں موجود ہے۔ فی زمانہ ’الفقہ العولمی‘کی اٹھتی صداؤں کے تناظر میں امام شعرانی ؒاور شاہ ولی اللہؒ کےقابل قدر کام سے استفادہ کرتے ہوئے مذاہبِ فقہ کے مابین تطبیق کے لیے رہنما اصول وضع کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے لئے مختلف مذاہبِ فقہ کے دلائل کو قرآن و سنت اور اجماع امت پر پیش کیا جائے جس فقہی مذہب کی دلیل قرآن و سنت اور اجماع امت کے موافق ہو اور اس کو اپنانے میں امتِ مسلمہ کے لیے یسر اور سہولت بھی ہو، اسے ترجیح دی جائے۔پھر ان راحج اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے ’’اجتماعی فقہ کی تدوین‘‘ کی طرف پیش قدمی کی جائے۔
حواشی و حوالہ جات
[i] شعرانی، عبد الوهّاب(۹۷۳ھ)، الميزان الكبريٰ،(عیسی البابی الحلبی، مصر، ۱۴۱۸ھ )، ۱: ۲۸
Sha'rānī, Imām ‘Abdul Wahhāb (973H). Al-Mīzān al-Kubrā. Egypt: ‘īsā Bābī Ḥalbī, 1418H, 1: 28
[ii] شعرانی، الميزان الكبريٰ، ، ۵/۱۔
Sha'rānī. Al-Mīzān al-Kubrā., 1: 5
[iii] شعرانی، الميزان الكبريٰ،، ۳۹/۱۔
Sha'rānī. Al-Mīzān al-Kubrā., 1: 39
[iv] شعرانی، الميزان الكبريٰ،، ۴۴/۱۔
Sha'rānī. Al-Mīzān al-Kubrā., 1: 44
[v] شعرانی، الميزان الكبريٰ،، ۴۳/۱۔
Sha'rānī. Al-Mīzān al-Kubrā., 1: 43
[vi] دہلوی، شاہ ولی اللہ (۱۷۰۳ء)، الانصاف في بيان سبب الاختلاف،(هيئة الاوقاف بحكومة البنجاب، ۱۹۷۱)، ص ۶۳۔دہلوی، شاہ ولی اللہ (۱۷۰۳ء)، حجة الله البالغة، ،(قدیمی کتب خانہ کراچی)، ۴۵۵/۱۔
Dehlvī, Shāh Walīullāh (1073), Al-Inṣāf fī biyān sabab al-Ikhtilāf. Punjab: Hay’at al-Awqāf bi Hakumat Punjab, 1971, p: 63. Dehlvī, Shāh Walīullāh, Ḥujjat Allah al-Bālighah. Karachi: Qadīmi Kutub Khanah, 1: 455.
[vii] ابن القيم، اعلام الموقعين، (دار الكتب العلمية، ييروت، ۱۹۹۱)، ۲: ۱۳۹
Ibn al-Qayyim, I’lām al-Muwaqqi’īn. Beirut: Dār al-Kutub al-Ilmiyyah, 1991, 2: 139.
[viii] شعرانی، الميزان الكبريٰ، ۱۰-۱۱/۱۔
Sha'rānī. Al-Mīzān al-Kubrā., 1: 10-11.
[ix] بخاری ، محمد بن اسماعیل (۲۵۶ھ)، صحيح البخاري، (دار طوق النجاة، ۱۴۲۲ھ)،كتاب التوحيد، باب قول الله تعالى ولقد يسرنا القرآن الخ، ۹: ۱۵۹
Bukhārī, Muḥammad bin Ismāīl (256H), Ṣaḥīḥ al- Bukhārī. Dār al-Ṭawq al-Najāt, 1422H, 9: 159
[x] شعرانی، الميزان الكبريٰ، ۱۰-۱۱/۱۔
Sha'rānī. Al-Mīzān al-Kubrā., 1: 10-11.
[xi] الشاطبی، ابراہیم بن موسى (۷۹۰ھ)، الموافقات في اصول الشريعة، ۵ : ۶۷ ۔
Al-Shāṭbī, Ibrāhīm bin Mūsā (790H), Al-Muwāfaqāt fī Uṣūl al-Sharī’ah. Dār Ibn ‘Affān, 1997, 5: 67.
[xii] گیلانی، سید مناظر احسن ،مقدمہ تدوین فقہ، (المیزان، لاہور)، ص۲۰۵۔
Gīlānī, Syyed Manāẓir Aḥsan, Muqaddamah Tadwīn e Fiqh. Lahore: Al-Mīzān. P: 205.
[xiii] الشاطبی، ۵: ۶۷
Al-Shāṭbī, 5: 67.
[xiv] الشاطبی، ۵: ۶۷
Al-Shāṭbī, 5: 67.
[xv] الشاطبی، ۵: ۶۷
Al-Shāṭbī, 5: 67.
[xvi] الشاطبی، ۵: ۶۷
Al-Shāṭbī, 5: 67.
[xvii] الدارمی، عبد الله بن عبد الرحمن (۲۵۵ھ)، سنن الدارمي، (دار المغني للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية، ۲۰۰۰) باب اختلاف الفقهاء، ۱: ۴۹۰
Al-Dārmī, ‘Abdullah bin ‘Abdul Raḥmān (255H), Sunan Al-Dārmī. Saūdiyyah: Dār al-Mughnī Li al-Nashr wa Tawzī’, 2000, Bāb Ikhtilāf Fuqahā, 1: 490.
[xviii] الشاطبی، ۵: ۶۷۔ الدارمی، ۱: ۴۸۹
Al-Shāṭbī, 5: 67. Al-Dārmī, 1:489.
[xix] الدارمی، ۱: ۴۸۹
Al-Dārmī, 1:489.
[xx] الدارمی، ۱: ۴۸۹
Al-Dārmī, 1:489.
[xxi] الشاطبی، 5: 122
Al-Shāṭbī, 5: 122.
[xxii] ایضاً، 5: 122
Ibid, 5: 122.
[xxiii] ایضاً، 5: 122
Ibid, 5: 122.
[xxiv] ایضاً، 5: 122
Ibid, 5: 122.
[xxv] ایضاً، 5: 122
Ibid, 5: 122.
[xxvi] ایضاً،5: 160
Ibid, 5: 160.
[xxvii] ایضاً، 5: 160
Ibid, 5: 160.
[xxviii] دہلوی، شاہ ولی اللہ (۱۷۰۳ء)، عقد الجيد في أحکام الاجتهاد والتقليد،(مطبعہ مجتبائی دہلی ، ۱۳۴۴ھ)،ص۲۴۔
Dehlvī, Shāh Walīullāh (1073), ‘Iqd-ul-Jīd fī Aḥkām al-Ijtihād wa Taqlīd. Dehlī: Maṭba’ Mujtabā’ī, 1344H, p: 24.
[xxix] ڈھلوں، عرفان خالد، ”نظریہ مراعاۃ الخلاف“، سہ ماہی منہاج، دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری، لاہور، ج۱۳، شمارہ۱-۲ (جنوری-اپریل ۱۹۹۵ء)، ص۱۶۴۔
Dhilon, Irfān Khālid, Naẓriyyah Murā’āt al-Khilāf. Al-Minhaj, 13(1-2), 1995, 164.
[xxx] گیلانی،مقدمۂ تدوین فكر ، ص۱۶۳۔
Gīlānī, Muqaddamah Tadwīn e Fiqh. P: 163.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |