Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Az̤vā > Volume 37 Issue 57 of Al-Az̤vā

کنہ المراد فی بیان بانت سعاد میں سیوطی کا اسلوب |
Al-Az̤vā
Al-Az̤vā

Article Info
Authors

Volume

37

Issue

57

Year

2022

ARI Id

1682060078052_3037

Pages

169-184

DOI

10.51506/al-az̤vā.v37i57.478

PDF URL

https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/download/478/378

Chapter URL

https://journal.aladwajournal.com/index.php/aladwa/article/view/478

Subjects

Suyūṭī Kunhul Murād Bānat Su’ād Arabic Poetry

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

اللہ رب العزت کی حمد و ثناءکے ساتھ ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف بھی ہمیشہ اہل ادب کی توجہ کا مرکز اور علمی کاوشوں کا میدان رہی ہے۔ اس مبارک کام میں اہل اسلام تو پیش پیش رہے ہی اس مسابقت میں دیگر ادیان سے وابستہ افراد بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثناء خوانی کی تاریخ اس جہاں کی تاریخ سے بھی قدیم ہے کہ خود رب کائنات نے اس عمل کو شروع فرمایا اور پھر ہر دور میں نثر و شعر ہردو اقسام ادب میں ہوتی رہی اور ادب سے زیادہ عبادت کے رنگ کے ساتھ اس کی ترویج ہوئی۔

اشعار میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثناء کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے ہی جاری ہوگیا۔ یہ ایسا دور تھا جب عربی ادب اپنے پورے عروج اور زورپر تھا اور عرب میں بڑے بڑے شعراء اپنے بہترین قصائد کے ساتھ دوسروں سے مبارزت میں مصروف رہتے۔

تعارف شاعر

قصیدہ بانت سعاد صحابی رسول حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ تعالی عنہ کا وہ قصیدہ ہے جو آپ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو  اپنے اسلام لاتے ہی پیش فرمایا۔ ان کی کنیت ابو المطرف اور نام کعب بن زہیر بن أبی سلمی ہے اور ان کا تعلق قبیلہ مزینہ سے ہے۔[1] حضرت کعب کا شمار عرب کے بڑے ماہر اور خوش کلام شعراء میں سے ہوتا تھا۔ ان کے بہترین اشعار میں سے یہ اشعار نمایاں حیثیت رکھتے ہیں:

لو کنت أعجب من شئی لأعجبني          سعي الفتی وھو مخبوء لہ القدر

’’ اگر مجھے کوئی چیز  پسند آتی تو ضرور مجھے جوان کی کوشش پسند آتی جس کی تقدیر اس سے پوشیدہ ہے۔‘‘

یسعی الفتی لأمور لیس یدرکھا               والنفس واحدۃ والھم منتشر

’’ جوان ایسے کاموں کے لیے کوشش کرتا ہے جن کو وہ حاصل نہیں کرسکتا۔ اور جان تو ایک ہوتی ہے اور اس کے ارادے منتشر ہوتے ہیں۔‘‘

والمرء ما عاش ممدود لہ أصل              لاتنتھي العین حتی ینتھي الأثر[2]

’’ اور آدمی جب تک ایسے زندگی گزارتا ہے کہ اس کی امید بہت لمبی ہوں تو اس کی آنکھ کی انتہا نہیں ہوتی یہاں تک کہ اس کے نشان کی انتہا ہو جاتی ہے۔‘‘

قصيده بانت سعاد كا پس منظر

حضرت کعب بن زهير کے ایک بھائی بجیر تھے۔ یہ دونوں حجاز کے قریب برق الغداف مقام کے پاس گئے۔

یہ علاقہ بنو سعد کا تھا۔ یہاں بجیر نے کعب سے کہا کہ تم یہاں بکریوں کے پاس ٹھہرو میں اس شخص یعنی نبی ﷺ کے پاس جاتا ہوں اور اس کا کلام سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ اس کے پاس کیا ہے۔ چنانچہ کعب رک گئے اور بجیر چل دیے یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے ان کا کلام سنا اور آپ پر ایمان لے آئے۔ کعب کو اپنے بھائی بجیر کے ایمان لے آنے کا بڑا دکھ ہوا اور ان کی طرف یہ شعر لکھ بھیجے[3]:

ألا أبلغا عني بجیراً رسالۃ         فھل لک فیما قلت ویحک ھل لک

’’اے (میرے مخاطب) میرا ایک پیغام بجیر تک پہنچا دو کہ تو ہلاک ہوگیا۔ کیا جو تو نے کہا ہے وہ واقعی تو کرگزرا ہے؟ (یعنی کیا واقعۃ تو کلمہ پڑھ چکا ہے؟) "

سقاک بھا المأمون کأسا رویۃ                 فأنھلک المأمون منھا وعلکا

’’تجھے مامون نے باتوں کا ایک پیالہ پلا دیا ہے کہ اس نے پہلی مرتبہ اور پھر دوسری مرتبہ بھی تجھے وہ شراب پلا دی۔‘‘

ففارقت أسباب الھدی وتبعتہ               علی أي شیئ ویب غیرک دلکا

’’پس تو دور ہوگیا ہدایت کے اسباب سے اور تو نے اس کی اتباع کی، اس نے تیری کیسی چیز کی طرف رہنمائی کی اور تو بھی دوسروں کی طرح ہلاک ہوگیا۔‘‘

علی مذھب لم تلف أما ولا أبا                علیہ ولم تعرف علیہ أخالکا

’’(اس نے رہنمائی کی) ایک ایسے مذہب کی طرف جس پر تو نہیں پاتا کسی ماں کو اور نہ ہی باپ کو۔ اور تو نہیں جانتا اس پر اپنے کسی بھائی کو۔‘‘

فإن أنت لم تعرف فلست بآسف          ولا قائل إن ما عثرت لعا لکا[4]

’’پھر اگر تو میری بات کو نہیں سمجھتا تو مجھے کوئی افسوس نہیں اور اگر تو ٹھوکر کھا گیا ہے تو میں تجھے محفوظ رہنے کی دعا نہیں دوں گا۔‘‘

یہ اشعار کعب نے بجیر کی طرف بھیج دیے۔ جب بجیر نے یہ پڑھے تو رسول اللہ ﷺکو اس سے مطلع کیا جب آپ نے یہ شعر سنا ’’سقاک بھا المامون‘‘تجھے مامون (امانت دار) نے پلا دیا تو آپ نے فرمایا: "مامون واللہ! اللہ کی قسم امانت دار"  اور کفار بھی آپ کو امانت دار ہی پکارتے تھے۔ اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو کوئی بھی کعب بن زہیر کو دیکھے تو اسے قتل کردے۔

چنانچہ حضرت بجیر نے اپنے بھائی کعب کو یہ اشعار لکھ کر بھیج دیے:

من مبلغ کعب فھل لک في التي              تلوم بھا باطلا وھي أحزم

’’کون کعب تک یہ بات پہنچا دے کہ تو جس بات پر مجھے ناحق ملامت کر رہا ہے وہ زیادہ مضبوط ہے۔‘‘

إلی اللہ لا العزی ولا اللات بعدہٖ              فتنجو إذا کان النجاۃ فتسلم

’’تو لوٹ جا اللہ کی طرف نہ کہ عزی کی اور نہ ہی اس کے بعد لات کی طرف۔ اگر تو نجات کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسلام قبول کرکے بچ جا۔"

لدی یوم لا ینجو ولیس بمفلت              من الناس إلا طاھر القلب مسلم

’’اس دن جس دن نجات نہیں پاسکے گا اور نہ ہی بچ نکلے گا لوگوں میں سے مگر وہ جو پاکیزہ دل والا مسلمان ہو۔‘‘

فدین زهیر وھو لاشيئ دینہ                      ودین أبي سلمی علي محرم

’’پس زہیر کا دین کوئی دین نہیں ہے اور ابو سلمی کا دین مجھ پر حرام ہے۔‘‘

ان اشعار کے بعد بجیر نے کعب کو  یہ لکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کا خون معاف کردیا ہے اور یہ بھی کہ آپ نے مکہ میں بھی بہت سے ایسے شعراء کو قتل کردیا ہے جو آپ کی شان میں گستاخی کے مرتکب تھے یا کسی بھی انداز میں آپ کو ایذاء پہنچاتے تھے۔  قریش میں سے بھی بہت سے شعراء جیسے ابن الزبعری اور ہبیرۃ بن وہب بھی مختلف مقامات کی طرف بھاگ گئے ہیں۔ میرا یہ خیال ہے کہ تم بھی نہیں بچ سکو گے اگر تم زندہ رہنا چاہو تو فوراً یہاں آجاؤ اس لیے کہ جو یہاں توبہ کرکے آجاتا ہے تو یہ اس کو قبول کرلیتے ہیں اور اسلام سے پہلے کے کاموں کا سوال نہیں کرتے۔

حضرت  كعب كی بارگاه رسالت ميں آمد

جب یہ پیغام کعب تک پہنچا تو وہ قبیلہ مزینہ کے پاس آئے اور ان سے پناہ کا سوال کیا تاکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں ان کی حفاظت کریں۔ مزینہ نے انکار کردیا۔ لہٰذا اب زمین ان پر تنگ ہوگئی ان کو خود پر ترس آنے لگا اور دشمن بھی یہ بات بکثرت کرنے لگے کہ یہ اب عنقریب مارا جائے گا۔[5]

ان ہی حالات میں آپ نے یہ قصیدہ کہا جس میں رسول اللہ ﷺ کی تعریف کی اور اپنے خون اور دشمنوں کی افواہ اور بدخوئی کا ذکر کیا پھر آپ چلے اور مدینہ منورہ پہنچ گئے اور قبیلہ جھینہ کے ایک صحابی کے پاس آکر ٹھہرے جس کے ساتھ پہلے سے جان پہچان تھی۔ وہ ان کولے کر مسجد آگئے اور اشارہ کرکے کہا کہ یہ رسول اللہ ﷺ ہیں تم کھڑے ہو اور ان سے امان کا سوال کرو۔ حضرت کعب نے بھی رسول اللہ ﷺ کو ان صفات سے پہچان لیا جن کو وہ پہلے لوگوں سے سن چکے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی مجلس ایسے تھی آپ درمیان میں تھے اور آپ کے اردگرد صحابہ حلقہ بحلقہ بیٹھے تھے۔ کعب اس جانب بڑھے اور آپ ﷺ کے بالکل سامنے جا کر بیٹھ گئے اور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! بے شک کعب بن زہیر توبہ کرکے آیا ہے اور آپ سے امان کا سوال کرتا ہے۔ کیا آپ توبہ قبول کرلیں گے اگر میں اسے آپ کے پاس لے کر آجاؤں؟ آپ نے جواب ارشاد فرمایا کہ ہاں ۔ کعب نے عرض کیا کہ: ’’ یا رسول اللہ میں ہی کعب بن زہیر ہوں۔‘‘ آپ نے فرمایا کہ وہی جس نے وہ شعر کہا تھا؟ پھر آپ حضرت ابوبکر کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے اس شعر کے سنانے کا فرمایا۔ حضرت ابوبکر نے یہ شعر سنایا:

سقاک بھا المامون کاساً رویۃ

’’مامون( امانت دار) نے اس کلمے کے ساتھ باتوں کا ایک جام پلا دیا‘‘

 کعب نے عرض کیا میں نے یہ نہیں کہا تھا۔ میں نے تو کہا تھا کہ تجھے ابوبکر نے باتوں کا جام پلا دیا اور تجھے مامون نے پہلی شراب پلا دی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مامون واللہ (اللہ کی قسم امانت دار)۔

اسی اثنا میں ایک انصاری صحابی چھلانگ لگا کر کعب پر پہنچ گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں میں اس اللہ کے دشمن کی گردن جدا کردوں۔ آپ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو بے شک یہ توبہ کرکے اور تلافی کرکے آیا ہے۔

پھر حضرت کعب نے اپنا یہ قصیدہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے پڑھا اور آپ جناب سنتے رہے۔ ابوبکر انباری کی روایت میں ہے کہ جب آپ قصیدے میں اس شعر پر پہنچے:

إن الرسول لسیف یستضاء بہ               مھند من سیوف اللہ مسلول

’’بے شک یہ رسول ایسی چمکدار تلوار ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور جو ہند کی تیز اور اللہ کی تلواروں میں سے سونتی ہوئی تلوار ہیں۔‘‘

اس شعر کو سن کر رسول اللہ ﷺ نے اپنی چادر مبارک جو آپ نے زیب تن فرما رکھی تھی حضرت کعب کی طرف پھینک دی۔ ابن عبدالبر نے الاستعیاب میں ذکر کیا ہے کہ جب حضرت کعب اس شعر پر پہنچے:

أنبئت أن رسول اللہ أوعدني                    والعفو عند رسول اللہ مأمول

’’مجھے خبر دی گئی ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے مجھے دھمکی دی ہے اور معافی کی تو رسول اللہ  سے امید رکھی جاتی ہے۔‘‘

اس شعر پر رسول اللہ ﷺ نے جو صحابہ آپ کے گرد موجود تھے انہیں اشارہ فرمایا کہ سنو یہ کیا کہتا ہے۔[6]

کعب بن مالک کا یہ قصیدہ رسول اللہ ﷺ کی مدح و ثناء پر مشتمل ہے لیکن اس میں آپ کا اسلوب بالکل وہی ہے جو ایک جاہلی دور کا شاعر اپناتا تھا۔ لہذا اس میں ایسا نہیں ہے کہ نعت پر شروع ہو کر اسی پر اختتام پذیر ہوجائے بلکہ ستاون اشعار میں سے اکثر خالص جاہلی ادبی رنگ میں پیش کئے گئے جن میں محبوبہ کے لئے غزل سے ابتداء ہوتی ہے۔

اس قصیدہ کی اہمیت اور خوبیوں کے باعث کئی متقدمین شراح نے اس کی شرح لکھی جن میں سے تبریزی، ابو البرکات بن الانباری، عبد اللطیف البغدادی، ابن الھشام الانصاری، ابن حجہ الحموی اور علامہ سیوطی  قابل ذکر ہیں۔

مضامین قصيده بانت سعاد كا خلاصہ

 سیوطی نے اپنی شرح کنہ المراد فی شرح قصیدۃ بانت سعاد کے مقدمہ میں تمام اشعار کا اجمالی خلاصہ بیان فرمایا جس کا ماحصل یہ ہے کہ یہ قصیدہ ستاون (۵۷) اشعار پر مشتمل ہے۔ آپ نے اس کی ابتداء اپنے دل کی حالت بیان کی کہ محبوبہ کی فراقت کے وقت ان کے دل پر کیا بیتی۔ چنانچہ ابتداء اس شعر سے کردی کہ:

بانت سعاد فقلبي الیوم متبول

 اس کے بعد محبوبہ کو دوسرے شعر میں عمدہ خوبیوں والے ہرن سے تشبیہ دی اور کہا:

 وما سعاد غداۃ البین اذ رحلوا

اس کے بعد اس کے دانتوں اور لعاب کی خوبصورتی بیان کرتے ہوئے اس کو تیسرے شعر میں شراب کے ساتھ تشبیہ دی۔ پھر اس شراب میں پانی کے ملنے کا ذکر کیا اور اس کے ذکر کو طویل کرتے ہوئے اس میں ملائے گئے پانی کے وصف کو بیان کیا یہاں تک کہ اس وادی سے بہنے والے پانی کے ریلے کا ذکر کیا جس سے وہ پانی حاصل کیا گیا۔ اس کے بعد وعدہ خلافی اور محبوبہ کا نصیحت کو قبول نہ کرنا چھٹے شعر میں بیان کیا:

أکرم بھا خلۃ لو أنھا صدقت

پھر اس کو ساتویں شعر میں مکمل کرنے کے بعد اس کی محبت کے مختلف رنگوں کا ذکر آٹھویں شعر میں کیا۔ پھر یہ بھی بیان کیا کہ وہ وعدہ خلافی کی مرتکب تھی پھر اس کی تاکید کی اور کہا کہ جو کچھ وہ وعدہ کرتی ہے وہ صرف امیدیں ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ پھر گیارہویں شعر میں اس کے وعدہ کے ٹال مٹول کو بیان کیا۔ اس کے بعد بارہویں شعر میں خود پر ملامت کی جو اس کے وعدوں پر یقین کرلیا ہے۔ تیرہویں شعر میں اس کے اور اپنے درمیان دوری کو ذکر کیا اور پھر یہ بات بیان کی کہ اتنی مسافت تک اس کو نہیں پہنچا سکتی مگر ایک اونٹنی جس میں ایسی ایسی صفات ہوں۔ پھر اس اونٹنی کے ذکر کو خوب طویل کردیا جیسا کہ عرب کی عادت تھی اور یہ طویل ذکر چودہویں شعر سے شروع ہو کر بتیسویں شعر تک جاری رہتا ہے۔ گویا کہ انیس اشعار اس بیان میں ہو گئے۔ اس کے بعد وہ حاسدین اور چغل خوروں کا ذکر کرتے ہیں اور ان کے ساتھ جو معاملہ ہوتا ہے اس کو بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ تینتسویں شعر میں

 تسعی الوشاۃ جنابیھا

 کہا پھر اس بات کو طویل کرتے جاتے ہیں یہاں تک کہ پینتیسویں شعر تک اس کو لے جاتے ہیں۔ یہاں غزل کے اشعار مکمل ہو جاتے ہیں۔

اس کے بعد وہ سب کچھ چھوڑ کر مدح النبی ﷺ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ یہ فرماتے ہوئے:

نبئت أن رسول اللہ أوعدنی

اور یہ مدحیہ اشعار اڑتالیسویں شعر تک جاری رہتے ہیں۔ پھر وہ حضرات صحابہ میں سے مہاجرین رضی اللہ عنہم کی مدح انچاسویں شعر میں بیان فرماتے ہیں یہ فرماتے ہوئے:

فی فتیۃ من قریش

 اور یہ ذکر قصیدے کے آخری شعر تک جاری رہتا ہے۔

سبب تاليف و منہج شرح

سیوطی نے اپنی شرح کے مقدمے میں اس شرح کی وجہ تصنیف ذکر فرمائی کہ:

"وكانت الشروح الموضوعة عليها فيما وقفت عليه قاصرة على شرح غريبها وإعراب ألفاظها المؤدية إلى حل تركيبها دون التعرض لمعانيها التي هي قصد طلابها"[7]

"وہ شروحات جن پر میں مطلع ہوا وہ صرف مشکل الفاظ کی شرح اور ترکیبات کے حل کرنے تک ہی محدود تھیں اور ان معانی سے بحث نہیں کرتی تھیں جو کہ اس کے طالب کا مقصد ہوتے ہیں۔"

لہذاسیوطی نے اس قصیدے کی شرح میں تین کاموں کا التزام کیا ہے:

۱۔ مفردات کی لغوی تحقیق

۲۔ الفاظ کے معانی اور انکی دلالت

۳۔ حاصل معنی کی سیاق وسباق کی روشنی میں تشریح۔

مفردات کی تحقیق میں سیوطی نے بہت مبالغہ سے کام نہیں لیا اور اس کی وجہ وہی ہے جو خود آپ نے بیان فرمائی کہ اس پر ماقبل شراح نے کافی کام کردیا تھا۔ آپ نے اتنا ضرور کیا کہ الفاظ کی تشکیل، اس کے تلفظ اور اور اس کے کئی ایک معانی میں سے راجح کی نشاندہی کردی۔ اس سے ایک تو مفردات اپنے ہم شکل الفاظ سے ممتاز ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے درست تلفظ کی وجہ سے اشعار کا وزن بھی سلامت رہتا ہے۔ اور اگر کسی مقام پر راجح متعدد ہوئے تو ایک سے زائد معنی نا صرف ذکر کئے بلکہ ہر ایک سے حاصل ہونے والے مطلب کو بھی علیحدہ علیحدہ ذکر کر دیا۔ اسی منھج اور طرز شرح و توضیح کا بالتفصیل مشاهدہ ان کی اس شرح کو دیکھ کر بخوبی کیا جاسکتا ہے جو آپ نے قصیدے کے مطلع میں استعمال کیا ہے۔

قصیدے کا مطلع ہے:

بانت سعاد فقلبي الیوم متبول              متیم إثرھا لم یفد مکبول

اس شعر میں مستعمل لفظ سعاد جو کہ مؤنث علم ہے اس کے سلسلے میں شارح  اس میں موجود دو احتمالات کو ذکر فرماتے ہیں کہ یا تو وہ شاعر کی حقیقی محبوبہ کا نام ہے یا پھر فرضی محبوبہ کا۔ بہردوصورت اس کے تذکرے سے قصیدے کی ابتدا کی عرب شعراء کے طریقے کے موافق تشبیب اور غزل کہلاتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسےلیلی اور مجنون  کا تذکرہ ملتا ہے نیز  بہت سے عشاق شعراء زمانہ جاہلیت  بلکہ بعد اسلام کے بھی تشبیب کا استعمال کرتے رہے ہیں۔[8]

لغوی توضیح

شرح کا اولین مقصد کلمات کی ایسی وضاحت ہوتا ہے  جو حقیقی معنی تک بہتر رسائی کروا سکے  چنانچہ سیوطی بھی کلمات کی شرح کا بھرپور اہتمام فرماتے ہیں۔

قصیدے کے پہلے کلمے ’’بانت‘‘ کی شرح لغوی میں سیوطی سیوطی فرماتے ہیں:

’’بانت‘‘عربی میں اس وقت بولا جاتا ہےجب عورت اپنے خاوند کو چھوڑ دے اسی طرح کی جدائی کے لیے جو طلاق دی جاتی ہے طلاق بائن بھی کہا جاتا ہے۔ جو غیر رجعی طلاق ہوتی ہے ۔ یہاں سیوطی نے بانت کی شرح کی غرض سے اس کے لغوی معنی کی تفصیلات میں جائے بغیر اس کی توضیح کے لئے عربی عرف عام میں اس کے استعمال کو ذکر فرمایا اور یہ اسلوب بارہا شرح میں دیکھا جاسکتا ہے۔[9]

اسی طرح لفظ قلب جو کہ دو معنی کا احتمال رکھتا ہے اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ دو معنی میں سے پہلا تو اس سے دل مراد لیا جاسکتا ہے اور یہی معنی زیادہ واضح ہے یہی لفظ اللہ تعالیٰ کے قول میں بھی ہے:

﴿وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمۡعِهِ وَقَلۡبِهِ﴾[10]

اور مہر لگا دی اس نے کان اور دل پر

 اور اس کا محل بدن سینے میں ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا قول ہے:

﴿فَإِنَّهَا لَا تَعۡمَى ٱلۡأَبۡصَـٰرُ وَلَـٰكِن تَعۡمَى ٱلۡقُلُوبُ ٱلَّتِی فِی ٱلصُّدُورِ﴾[11]

بے شک ان کی آنکھیں اندھی نہیں ہیں بلکہ وہ دل اندھے ہیں جو سینوں میں ہیں۔

قلب کے معنی میں دوسرا احتمال چونکہ عقل کا ہو سکتا ہے لہذا اس کو بھی بیان فرمایا ہے۔ اس معنی پر بطور استشھاد آیت قرآنی بھی ماقبل کی طرح پیش کرتے ہیں اور تشریح میں یہ بات ذکر کرتے ہیں کہ شاعر کی عقل محبت اور عشق کی شدت اور غلبے کی وجہ سے اس قدر کمزور ہوچکی ہے اور وہ بدحواسی اور پریشانی کی ایسی حد کو پہنچ چکی ہے جس کو کوئی افاقہ اور شفاء بھی نہیں ملتی۔

اسی نہج پر  ’’متبول‘‘  کی لغوی تشریح کرتے ہوئے شارح نے اس کو وہ بیماری قرار دیا جس کی وجہ سے انسان اپنی تمام قوت کو کھو بیٹھتا ہو، گویا کہ موت کے انتہائی قریب پہنچ جائے۔ ’’متیم‘‘ غلام اور تابع فرمان کو کہا جاتا ہے اسی طرح محبت اور عشق کے ساتھ جب اس لفظ کو استعمال کیا جائے تو اس سے مراد عشق میں مقید ہو جانے والا عشق ہوتا ہے۔

’’لم یفد‘‘ کا مطلب یہ ذکر کیا ہے کہ جس قید میں وہ مبتلا ہوا اس سے خلاصی اور چھٹکارے کے لیے کوئی بھی ایسا شخص میسر نہیں آیا ہے اس کا فدیہ دے کر اسے آزاد کروا سکے۔ یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ اس نے خود ہی فدیہ دے کر آزادی حاصل کرنے کو اختیار نہیں کیا کہ اس کے لیے محبت میں گرفتار رہنا آزاد ہو جانے سے زیادہ محبوب ہے۔[12]

اختلاف نسخ

قصیدے کے مختلف نسخوں میں اگر کچھ اختلافات پائے گئے تو شارح ان اختلافات سے صرف نظر نہیں کرتے بلکہ ان کلمات کو مع ان کی لغوی تشریح اور مفھوم کے بیان فرماتے ہیں چنانچہ’’لم یفد‘‘ کی شرح میں فرماتے ہیں کہ قصیدے کے بعض نسخوں میں اس مقام پر ’’لم یفد‘‘ کی جگہ ’’لم یشف‘‘ نقل کیا گیا ہے جس کے معنی ہونگے کے عشق میں بیمار ہو جانے کے بعد اس مرض سے شفاء حاصل نہیں ہوئی۔ ’’مکبول‘‘ میں بھی دو مطلب لیے جاسکتے ہیں۔ اور دونوں کا تعلق گرفتاری کے ساتھ ہے۔ ایک معنی دوران گرفتاری زنجیروں سے جکڑے جانے کا ہے اور دوسرا معنی جیل وغیرہ میں قید کردیے جانے کا ہے۔[13]

قرآن کے ساتھ استشہاد

 آپ نے الفاظ کے معنی کے تعین کے لئے جابجا آیات قرآنیہ سے استشھاد کیا جیسا کہ ’’ الیوم‘‘ کی شرح میں اس کی توقیت میں مطلق زمانہ ہونے کو ترجیح دینے کے بعد یہ بیان فرماتے ہیں کہ یہاں الیوم کا استعمال دن اور رات دونوں کے لئے ہوسکتا ہے اور اس پر بطور استشھاد قرآنی اس آیت کو ذکر فرماتے ہیں۔[14]

﴿وَءَاتُوا۟ حَقَّهُۥ یَوۡمَ حَصَادِهِ﴾[15]

 ’’اور اس زمین کی پیداوار کا حق ادا کرو اس کی کٹائی کے وقت ‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَیَوۡمَىِٕذ یَفۡرَحُ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ بِنَصۡرِ ٱللَّهِۚ یَنصُرُ مَن یَشَاۤءُۖ﴾[16]

 ’’اس وقت ایمان والے اللہ کی مدد کی وجہ سے خوش ہوں گے اللہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے۔‘‘

اسی طرح ’’ أثر‘‘کی شرح میں فرماتے ہیں کہ یہ قدموں کے زمین پر بننے والے نشانات کو کہتے ہیں۔ چونکہ یہ علامت ہوتی ہے جو کوئی شخص اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ [17] اس سے کلمہ ’’ أثَر‘‘ بھی ہے جو اللہ کے اس قول میں استعمال ہوا ہے:

﴿وَنَكۡتُبُ مَا قَدَّمُوا۟ وَءَاثَـٰرَهُمۡۚ﴾[18]

’’اور ہم لکھتے ہیں جو انہوں نے آگے بھیجا اور جو وہ پیچھے چھوڑ آئے‘‘

اسی طرح غم فراق کے بيان ميں فرماتے ہیں کہ ہم قرآن مجید میں  دیکھتے ہیں جب اللہ رب العزت حضرت یعقوب علیہ السلام کی حالت کا ذکر کرتے ہیں جس وقت وہ حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی کے غم میں مبتلا تھے۔[19] چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَتَوَلَّىٰ عَنۡهُمۡ وَقَالَ یَـٰۤأَسَفَىٰ عَلَىٰ یُوسُفَ وَٱبۡیَضَّتۡ عَیۡنَاهُ مِنَ ٱلۡحُزۡنِ فَهُوَ كَظِیم﴾[20]

’’اور وہ ان سے پلٹے اور کہا کہ ہائے افسوس ہو یوسف اور ان کی آنکھوں میں سفیدی اتر آئی اس غم کی وجہ سے اور وہ دل دل میں گھٹے جاتے تھے۔‘‘

حدیث اور سیرت طیبہ کے ساتھ استشہاد

قرانی آیات کے علاوہ حدیث و سیرت طیبہ سے استدلال و استشھاد بھی برموقع ضرور فرماتے ہیں لہذا جدائی اور فراق کے ذیل میں ارشاد فرمایا[21] :

اور یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسا کہ جنابِ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر فرمایا جب آپ نے اپنے صاحبزادے ابراہیم جو بچپن میں وفات پاگئے تھے انہیں اپنی گود میں اُٹھایا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے پوچھا کہ آپ بھی روتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ یہ رحمت ہے پھر آپ نے فرمایا کہ بے شک آنکھ روتی ہے اور دل غم کرتا ہے اور ہم کوئی ایسی بات نہیں کرتے جو اللہ کو ناپسند ہو اور بے شک ہم اے ابراہیم تیری جدائی پر غمزدہ ہیں۔[22]

قلب کی شرح میں یہ حدیث بھی ذکر فرمائی[23]:

’’وإن في الجسدِ مضغةً إذا صلَحت صلحَ لها سائرُ الجسدِ، وإذا فسدت فسد لها سائرُ الجسدِ ألا وهي القلبُ‘‘[24]

’’بے شک جسم میں ایک ٹکڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہو جائے تو پورا بدن ٹھیک ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے۔ خبردار وہ دل ہے۔‘‘

عربی اشعار كى ساتھ استشہاد

قرآن و حدیث کے استشہادات کے علاوہ سیوطی نے  اپنے عمدہ شعری ذوق کے پیش نظر برموقع مناسب اشعار کو بھی معنی یا مفہوم کے اثبات کے لئے استشہادا پیش کیا ہے۔ مطلع میں محبوبہ کی جدائی کے غم کو ذکر کرتے ہوئے حضرت یعقوب علیہ السلام کے غم کو شاعر کے کلام سے نقل کرتے ہوئے ذکر کیا کہ ایک شاعر نے کہا ہے کہ:

إنی لأکرہ أن أنام فألتقي         بک في الکری خوف الفراق الثاني

’’میں نیند کو بھی اس خوف کی وجہ سے ناپسند سمجھتا ہوں کہ کہیں تجھ سے خواب میں ہی ملاقات نہ ہو جائے اور (جاگنے کی صورت میں) ایک مرتبہ پھر فراق کا سامنا کرنا پڑے۔‘‘[25]

اقوال حكماءکے ذریعے شرح

سیوطی بغرض شرح علماء، حکماء و ادبائے عرب کے مقولات، ضرب الامثال  اور کہاوتیں بھی ضرور بیان کرتے ہیں چنانچہ مطلع میں قلب کی شرح فرماتے ہوئے سیوطی حکماء و اطباء کے اقوال جو قلب کی حقیقت اور اس کے اعمال کے متعلق ہیں بالتفصیل ذکر فرماتے ہیں جس میں دل کے بدن انسانی میں محل وقوع اور اس کا مادہ، دوران خون میں اس کا کردار، احساسات اور جذبات کے ساتھ اس کا تعلق اور بعض حکماء کا اس کے بارے میں یہ قول  کہ: دل تمام اعضاء کا بادشاہ ہے اور تمام اعضاء اس کے سپاہی اور خدام ہیں۔ عقل اس کا وزیر، سمجھ اس کا مددگار ، آنکھیں اس کی راہبر اور کان اس کے جاسوس ہیں۔نیز سیوطی صوفیاءکا لطائف قلبیہ کے بارے میں مؤقف بھی ذکر یوں  فرماتے ہیں:

’’اسی جدائی اور فراق کے بارے میں اقوال علماء و ادبائے عرب سے یہ نقل کیا کہ : فراق کو نہیں پیدا کیا گیا مگر برائے تعذیب عشاق۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر جدائی اور فراق کی کوئی صورت ہو تو دل ڈر جائے اور پہاڑ گر جائے اور غضی لکڑی کا انگارہ (یہ ضرب المثل عرب میں اس وجہ سے کہ اس لکڑی کی آگ اور اس کا انگارہ بہت دیر تک جلتے رہتے ہیں) جدائی کی آگ کے مقابلے میں بہت ہلکا عذاب ہے‘‘[26]

 اسی طرح علامہ زمحشری کا یہ  قول بھی نقل کیا کہ انسان کے بدن میں دل سے زیادہ کوئی چیز بھی نرم نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اور چیز ہے جو کسی تکلیف کو محسوس کرسکے جو اسے پہنچے۔ اور یہ بھی کہ دل ہی بدن میں ایک خود مختار عضو ہے اور باقی تمام اعضاء اس کے تابع ہیں۔[27]

فرامین اسلاف

اسلاف کے فرامین اور واقعات کو بھی بغرض تشریح تحریر فرماتے ہیں چنانچہ غم و جدائی کی شرح میں حسن بصری رحمہ اللہ کا یوں ذکر فرمایا کہ: یہ بھی روایت نقل کیا گیا حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ اپنے کسی بچے یا کسی اور پر رو پڑے، آپ سے جب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا  کہ میں نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا کہ حضرت یعقوب کے غم کو ان کے لیے عیب بنایا ہو۔ [28]

مجموعی معنی و بیان اسرار و رموز

شعر کے کلمات کے مختصر بیان کے بعد سیوطی اشعار کے مجموعی معنی اور مطلب بھی بہت عمدہ پیرایہ میں  بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ قصیدے کے مطلع کا مجموعی مطلب یہ بیان فرماتے ہیں کہ شاعر کا دل محبوبہ کی جدائی کے بعد بہت ہی بیمار اور بدحال ہوگیا اسی طرح وہ مغلوب اور گرفتار ہوگیا۔ زنجیر اور قید خانے میں جکڑ لیا گیا اور اس کے لیے نہ بھاگ نکلنے کی کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی اس غلامی سے خلاص کے لیے کوئی فدیہ کی صورت۔[29]

اس کے بعد شارح  شعر میں موجود اسرار ادب کی پردہ کشائی کرتے ہوئے شاعر رضی اللہ عنہ کی طرف سے استعمال شدہ صنعت غزل و تشبیب کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ شاعر نے اس قصیدے کی ابتداء غزل اور تشبیب سے کی ہے اور یہی عادت اس زمانے کے اکثر شعراء کی تھی۔ تشبیب کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ عاشق اور محب اپنی محبت اور الفت کو بیان کرے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ محبت اور عشق کی آگ بطور خاص اس وقت بھڑک اٹھتی ہے جب جدائی کا وقت ہوتا ہے اور فراق میں یہ شدید تر ہو جاتی ہے۔ اسی لیے عرب شعراء ابتداء میں ہی اپنے اس درد اور اسم کو ذکر کردیا کرتے تھے تاکہ بعد میں آنے والے اشعار کو اسی تناظر میں سمجھ لیا جائے اور کسی بھی نامناسب شعر میں جو آئندہ کلام میں واقع ہو ان کو معذور تصور کیا جائے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ محبت کرنے والوں کے لئے جدائی سے بڑا کوئی غم اور اس سے سخت کوئی مصیبت نہیں ہوتی۔

سیوطی شاعر پر کئے جانے والے ممکنہ اعتراضات کے جوابات بھی ضرور دیتے ہیں چنانچہ تشبیب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ شاعر اس طرح عورت کے تذکرے کے ساتھ رسول اللہﷺ کی موجودگی میں غزل کہیں تو  اس کا جواب یہ ہے کہ شاعرنے عرب کی عادت کے موافق ہی اپنے قصیدے کو شروع کیا اور نبی ﷺ کا اس کو سننا اور برقرار رکھنا اور اس سے منع نہ کرنا اس کے جائز ہونے کی دلیل ہے۔[30]

 اس کی ایک اور وجہ یہ  بھی بیان فرمائی  کہ اس بات کا احتمال ہے کہ شاعر نے کسی خاص عورت کا قصد کیا ہو جو ان کے حلال عقد میں تھی اور پھر جدا ہوگئی لہٰذا اپنے غم کی حالت کا بیان کردیا۔ اسی طرح بعض علماء کی یہ صراحت بھی نقل کی کہ  عورت کے تذکرے کے ساتھ وہ غزل ممنوع ہے جب کوئی متعین اجنبی عورت کا ذکر کیا جائے۔ اپنی منکوحہ یا غیر معین کا ذکر کرنا ہرگز منع نہیں ہے۔ خصوصاً جبکہ ان کی محبت ان کو بدگوئی اور فحش کلامی تک نہیں لے جاتی۔ اسی وجہ سے بہت سے اسراء عشق نے اپنی جانیں دے دیں لیکن فراق کے غم کو جھیلتے رہتے اور صبر کرتے رہے اور انہیں وصال نصیب ہی نہ ہوا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ پاک دامنی عفت اور مروت کو اپنی خواہشات پر مقدم رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات یہ اپنی محبتوں کے ساتھ خلوت میں ہونے کے باوجود عفت کو ترجیح دیتے تھے۔ [31]

تصحیح و تضعییف روایات

سیوطی اپنی شرح میں مشہور روایات کو ذکر کرتے ہوئے بیان کردہ احادیث کی صحت و ضعف کو بھی بیان

کرتے جاتے ہیں۔ چناچہ عشق میں پاک دامنی کے بیان کے دوران واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص جس کا تعلق بنی عذرہ سے تھا اس سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ تم میں ایک شخص عشق میں جان دے دیتا ہے لیکن اس عورت سے ملتا نہیں تو جواب دیا کہ اس لیے کہ ہم میں جمال اور عفت دونوں ہے۔

اس کے بعد بعض علماء کی یہ رائے نقل فرماتے ہیں جنہوں نے عشق میں جان دے دینے والے پاک دامن عاشق کو شہداء میں شمار کیا ہے جیسے کہ ڈوبنے والے اور طاعون میں ہلاک ہونے والے اور پیٹ کی بیماری میں مرنے والے وغیرہ کو  اور ان کی دلیل وہ حدیث ہے جو دارقطنی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کی ہے کہ:

 ’’ من عشق فعف فکتم فمات فھو شہید‘‘[32]

’’جس نے عشق کیا اور پاک دامن رہا اور بعد میں اس کو چھپاتا رہا اور مر گیا تو وہ شہید ہے۔‘‘

پھر اس کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’لیکن یہ حدیث سند کے لحاظ سے انتہائی ضعیف ہے بلکہ بہت سوں کے ہاں تو یہ موضوع روایت ہے۔‘‘[33]

خلاصہ بحث

قصیدہ بانت سعاد میں شاعر نے جاہلی اسلوب کے مطابق اپنے اشعار جمع کئے جن میں رسول اللہ ﷺ کی مدح سے پہلے دیگر اصناف شعریہ کو استعمال کیا۔ شارح سیوطی نے بھی اپنی شرح  کنہ المراد فی بیان بانت سعاد میں قدیم اور روایتی طرق کو  اختیار فرماتے ہوئے ہر ہر لفظ کی مفصل شرح وتوضیح کی طرف توجہ کی۔ اس کے بعد تفصیلی شرح میں اپنے نکتہ نظر کے استشہادات قرآن و سنت کے علاوہ ادب عربی کے ذخیرہ سے بھی پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس شرح سے  نہ صرف یہ کہ قصیدہ کے معانی و مفاہیم نکھر کر سامنے آجاتے ہیں بلکہ ان سے متعلقہ بہت سی علمی وادبی مباحث سے بھی قاری مستفید ہوجاتا ہے۔اشعار کے مضامین کی شرح کے دوران دوسرے شعراء کے کلام کے ذریعے ایسی منظر کشی کرتے ہیں جن سے گویاقاری شاعر کے اشعار کے منظر کو بھی اپنی نگاہوں کے سامنے پالیتا ہے۔اس شرح کی طوالت کے باوجود یہ یقینا سیوطی کی دیگر  تصانیف کی طرح علمی شغف رکھنے والوں کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ قصیدہ بانت سعاد کی جملہ شروحات میں اس کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔

حواشی و حوالہ جات



[1]         الدينوري، ابن قتيبہ، عبد الله بن مسلم، الشعراء، دار الحديث، القاهرة، 1423ه، ج:1، ص: 153

Al-Dinūrī, Ibn Qutaibah, Abdullah bin Muslim, Al-Sha’ir wa al-Shu’arā, Dār al-Ḥadīth, Cairo, 1423A.H, v:1,pg:153

[2]        مرجع سابق، ج:1، ص: 151

Ibid, pg:151

[3]        ابن هشام، عبد الملك بن هشام، السيرة النبوية، شركة مكتبہ ومطبعة مصطفى البابي وأولاده، مصر، طبعة:2، 1375ه/1955م، ج:2، ص: 501

Ibn Hishām, Abdul Malik bin Hishām, as-Sīrah an Nabawiyah, Shirkah maktaba wa maṭba’ Muṣṭafā al Bābī wa Awlādihī, Egypt, 1375A.H./1955, v:2, pg: 501

[4]        الحاكم، محمد بن عبد الله، المستدرك على الصحيحين، دار الكتب العلميہ، بيروت، الطبعة:1، 1433ه/1990م، ج: 3، ص: 674

Al Ḥākim, Muḥamad bin Abdullah, Al Mustadrak alā al-Ṣaḥīḥain, Dārul Kutub al ‘Ilmiyah, Beirūt, 1433A.H./1990, v:3, pg:674

[5]        ابن هشام، عبد الملك بن هشام، السيرة النبوية، ج:2، ص: 503

Ibn Hishām, Abdul Malik bin Hishām, as Sīrah an Nabawiyah,v: 2, pg: 503

[6]        ابن عبد البر، يوسف بن عبد الله، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، دار الجیل، بيروت، طبعه:1، 1412ه/1992م، ج:3، ص:1315

Ibn Abd al-Bar, Yūsuf bin Abdullah, Al isti’āb fī m’arifat al Aṣḥāb, Dār ul Jail, Beirūt, 1412A.H./1992, v:3 pg: 1315

[7]        السيوطي، جلال الدين، عبد الرحمن بن كمال، كنه المراد في بيان بانت سعاد، مؤسسة الرسالة، بيروت، طبعه: 1،1426ه/2005م، ص:99

As Suyūṭī, Jalal ud Din, Abdur Raḥman bin Kamāl, Kunhul Murād fi bayān Bānat Su’ād, Muassah al Risalah, Beirūt, 1426A.H./2005, pg: 99

[8]        مرجع سابق، ص:118

Ibid, pg: 118

[9]        مرجع سابق، ص:117

Ibid, pg: 117

[10]      سورة الجاثیة: 23

Sūrah al-Jāthiya : 23

[11]      سورۃ الحج: 46

Sūrah al Ḥajj : 46

[12]      السيوطي، جلال الدين، عبد الرحمن بن كمال، كنه المراد في بيان بانت سعاد، ص:122

As Suyūṭī, Jalal ud Din, Abdur Raḥman bin Kamāl, Kunhul Murād fi bayān Bānat Su’ād, pg: 122

[13]      حواله سابقه

Ibid.

[14]      مرجع سابق،  ص:120

Ibid, pg: 120

[15]      سورة الأنعام: 141

Sūrah al In’ām: 141

[16]      سورة الروم: 4

Sūrah ar Rome: 4

[17]      السيوطي، جلال الدين، عبد الرحمن بن كمال، كنه المراد في بيان بانت سعاد، ص:121

As Suyūṭī, Jalal ud Din, Abdur Raḥman bin Kamāl, Kunhul Murād fi bayān Bānat Su’ād, pg: 121

[18]      سورة يس: 12

Sūrah Yāsin: 12

[19]      السيوطي، جلال الدين، عبد الرحمن بن كمال، كنه المراد في بيان بانت سعاد، ص:123

As Suyūṭī, Jalal ud Din, Abdur Raḥman bin Kamāl, Kunhul Murād fi bayān Bānat Su’ād, pg: 123

[20]      سورة يوسف: 84

Sūra Yūsuf: 84

[21]      السيوطي، جلال الدين، عبد الرحمن بن كمال، كنه المراد في بيان بانت سعاد، ص:123

As Suyūṭī, Jalal ud Din, Abdur Raḥman bin Kamāl, Kunhul Murād fi bayān Bānat Su’ād, pg: 123

[22]      بخاري، محمد بن اسماعيل، صحيح البخاري، دار طوق النجاة، طبعه:1، 1422ه، ج:2، ص:83، رقم الحديث: 1303

Bukhārī, Muḥammad bin Ismā’el, Ṣaḥīḥ al-Bukhārī, Dār ut Tawq al Nijāḥ, 1422A.H.,v: 2, pg: 83, Ḥadīth No.: 1303

[23]      السيوطي، جلال الدين، عبد الرحمن بن كمال، كنه المراد في بيان بانت سعاد، ص:119

As Suyūṭī, Jalal ud Din, Abdur Raḥman bin Kamāl, Kunhul Murād fi bayān Bānat Su’ād, pg: 119

[24]      بخاري، محمد بن اسماعيل، صحيح البخاري، ج:1، ص:20، رقم الحديث: 52

Bukhārī, Muḥammad bin Ismā’el, Sahih al Bukhārī, v: 1, pg: 20, Ḥadīth No.: 52

[25]      السيوطي، جلال الدين، عبد الرحمن بن كمال، كنه المراد في بيان بانت سعاد، ص:123

As Suyūṭī, Jalal ud Din, Abdur Raḥman bin Kamāl, Kunhul Murād fi bayān Bānat Su’ād, pg: 123

[26]      مرجع سابق، ص:125

Ibid., pg: 125

[27]      مرجع سابق، ص:126

Ibid., pg: 126

[28]      مرجع سابق، ص:123

Ibid., pg: 123

[29]      مرجع سابق، ص:134

Ibid., pg: 134

[30]      مرجع سابق، ص:134

Ibid.

[31]      مرجع سابق، ص:135

Ibid., pg: 135

[32]      الدارقطني، علي بن عمر بن أحمد، تعليقات الدارقطني على المجروحين لابن حبان،الفاروق الحديثہ للطباعة والنشر، دار الكتاب الإسلامي – القاهرة، طبعه:1، 1414ه/1994م، ص:119

Al Dārqṭnī, Ali bin ‘Umar bin Aḥmad, T’alīqāt al Dārquṭnī alā al Majrūḥīn li ibn Ḥabbān, Al Farūq al Ḥadītha li Al Ṭabā’a wa al Nashr, Dār al Kutub al Islami, Cairo, ed.:1,1414A.H./1994, pg: 119

[33]           السيوطي، جلال الدين، عبد الرحمن بن كمال، كنه المراد في بيان بانت سعاد، ص:136

As Suyūṭī, Jalal ud Din, Abdur Raḥman bin Kamāl, Kunhul Murād fi bayān Bānat Su’ād, pg: 136

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...