Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of World Religions and Interfaith Harmony > Volume 2 Issue 1 of Journal of World Religions and Interfaith Harmony

An Analytical Study of the Economic Condition of Jews in Fatimid Egypt |
Journal of World Religions and Interfaith Harmony
Journal of World Religions and Interfaith Harmony

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2023

ARI Id

1682060081177_3167

Pages

1-13

DOI

10.52461/jwrih.v2i1.1736

PDF URL

https://journals.iub.edu.pk/index.php/jwrih/article/download/1736/844

Chapter URL

https://journals.iub.edu.pk/index.php/jwrih/article/view/1736

Subjects

Fatimid Egypt Muslims Jews minorities Economic Conditions

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف

بنو فاطمیہ کی حکومت سب سے پہلے مغرب ادنی میں قائم ہوئی اور اس کی بنیاد عبیداللہ المہدی نے 296 ہجری میں ڈالی۔ اس کے بعد ان کی حکومت مصر اور دوسرے علاقوں جو بنو عباس کے زیر اثر تھے پر پھیلتی چلی گئی ۔ ان کی حکومت کو فاطمیہ اور عبیدیہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ فاطمیہ کے نام سے اس وجہ سے مشہور ہوئے کیونکہ یہ حضرت محمد ﷺ کی بیٹی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سے تھے ۔ دوسرا عبیدیہ ان کو اس حکومت کے بانی عبیداللہ المہدی کے نام سے کہا جاتا ہے۔ جلال الدین سیوطی رحمۃاللہ علیہ(1505ء-1445ء) نے اپنی کتاب "تاریخ الخلفاء" میں ان کو " دولت خبیثیہ عبیدیہ " کے نام سے موسوم کیا ہے اور کہا ہے ذہبی رحمۃاللہ علیہ ( 1348ء-1274 ء) کے نزدیک عبیدیہ کے چودہ بادشاہ گزرےجوبزورطاقت خلیفہ بنے یعنی کسی نے از خود ان کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا ۔ 1 دولت فاطمیہ کا ظہور سب سے پہلے شمالی افریقہ میں ہواجس کی باگ ڈور ابو عبداللہ شیعی نامی شخص جو عبید اللہ المہدی کا دائی تھا کے ہاتھ میں ہوئی تھی جو 280 ہجری میں یمن کے بر بروں کے ایک بہت بڑے قبیلے جس کا نام " کتامہ " تھا کو اہل بیت سے عقیدت ومحبت رکھنے کی دعوت د ے کر اپنا حامی بنا لیااور ان کو اپنی خفیہ تحریکوں جو اس نے بنو عباس کے خلاف جاری رکھی ہوئی تھیں میں شامل کر لیا۔ ان لوگوں کے شامل ہونے سےان تحریکوں نے زور پکڑ لیا اور اسی مناسبت سے اس نے اپنے داعی عبیداللہ المہدی کو وہاں بلا لیا۔ جب بنو عباس کا دور خلافت اپنے عروج پر تھا تو اس وقت مصر میں فاطمیوں کی حکومت بغیر کسی جنگ و جدل کے وجود میں آئی اور اس طرح فاطمیوں کا غلبہ اور اس کی ابتداء دراصل بنا کسی جنگی محاذآرائی اور قتل و غارت کے بتدریج مقبولیت اور مختلف علاقوں کے غلبے سے وجود میں آئی۔

افریقہ میں حکومت کا قیام

فاطمی حکومت کی سیاسی تاریخ یہ ہے کہ شمالی افریقہ میں ایک شیعی خاندان اس نے قبل اس کے کہ اسماعیلی داعی اپنا عقیدہ پھیلاتے انہوں نے اپنی حکومت قائم کر لی اوراس علاقے میں ان کی دعوت کے نتیجے میں پھیلنے کا سبب یہ ہو ا کہ بغداد کی مرکزی حکومت سے یہ بہت دور تھا اور اس علاقے کے بر بر عباسی گورنروں کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ اسی اثنا میں عبیدیوں کاستارہ چمکا اور ان کی دعوت رنگ لانے لگی اور اس رنگ کو ابو عبد اللہ شیعی اور اس کے بھائی ابو العباس نے دگنا کر دیا اور انہیں اہل بیت کی محبت کے جذبے سے سر شار کر دیا ۔ جب عبیداللہ المہدی آیا تو اس نے افریقہ میں خلافت فاطمیہ قائم کی پھر قیروان جوتیونس کا شہر ہے کو اپنا پایہ ء تخت بنایا ۔ اس کے آتے ہی دعوت فاطمی جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے لگی اور مغرب پر شیعوں کی بالا دستی قائم ہو گئی ۔ المہدی نے 308 ہجری بمطابق 920ء میں اپنا دارالحکومت " مہدیہ" کو بنا لیا۔ 2

عبیداللہ المہدی کو شروع سے احساس تھا کہ مصرپر قبضہ کیے بغیر گزار ا نہیں ہو گا ۔ چنانچہ فتح مصر کے لیے اس نے بری اور بحری حملے اپنے ولی عہد ابو القاسم کی سر کردگی میں شروع کر دیئے اور قریب تھا کہ مصر کے دارالحکومت پر قبضہ کر لے، کیونکہ اس کا بحری بیڑا شہر تک پہنچ گیا تھا لیکن عباسی خلیفہ مقتدر(932ء-895ء) کے خادم خاص مونس ملقب بہ المظفر نے اسے پیچھے دھکیل دیا، کیونکہ مصر میں حملے رد کرنے کی ابھی قوت باقی تھی ۔ اس کے بعد فاطمی مغرب میں خارجیوں کی شورش رفع دفع کرنے میں مصروف ہو گئے اور مصر کی طرف متوجہ نہ ہو سکے۔

مصر میں حکومت کا قیام

جب شمالی افریقہ میں فاطمی حکومت پورے طور پر مستحکم ہو گئی تو فاطمی خلیفہ المعز لدین اللہ نے فتح مصر کا اٹل فیصلہ کر لیا۔ اسماعیلی داعی خفیہ خفیہ اپنا کام کر رہے تھے اس لیے فتح کا مرحلہ اور آسان ہو گیا ، یہ وہ وقت تھا جب دولت عباسیہ کمزور ہو چکی تھی ۔ اندلس میں امویوں کا پرچم لہرارہا تھا ۔ اخشیدیوں کا مصر میں اور فاطمیوں کا مغرب میں اس طرح اور بھی کئی چھوٹی چھوٹی ریاستیں آزاد اور خود مختار حکومت کی حیثیت سے قائم ہو چکی تھیں۔

المعز لدین اللہ مصر کی جغرافیائی اور حربی اہمیت سے واقف تھا۔ اس نے کا فور کے مرتے ہی ایک بہت بڑی فوج زیادہ سے زیادہ سا زو سامان کے ساتھ فتح مصر کے لیے روانہ کر دی جس کا سالا ر اس کا رومی غلام جو ہر صقلی تھا ۔ اس نے اخشیدیوں کے ہاتھ سے مصر کی حکومت چھین لی اور پھر جو ہرصقلی نے خلیفہ المعزلدین اللہ کو فتح مصر کی خوش خبری بھیجی۔ المعزلدین اللہ جب قصر خلافت میں آیا تو سجدے میں گر پڑا۔ دور کعت نماز پڑھی جو لوگ اس کے ساتھ تھے انہوں نے بھی نماز میں شرکت کی اور اس طرح مصر فاطمیوں کا دارالخلافہ بن گیا ، جس کی حیثیت اب تک صرف دارالامارۃ ہی کی تھی ۔

اب عالم اسلام میں بیک وقت تین خلافتیں قائم تھیں:

1۔ مصر میں خلافت بنی فاطمیہ

2۔ اندلس میں خلافت امویہ

3۔ بغداد میں خلافت عباسیہ 3

فاطمی خاندان نے ڈھائی سو سے پونے تین سو سال مصر اور اس کے گرد ونواح کے علاقوں پر حکومت کی ۔ فاطمی حکومت عبیداللہ المہدی سے شروع ہو کر آخری چودھویں خلیفہ العاضدلدین اللہ کی وفات پر 567 ہجری میں اختتام پذیر ہو گئی۔جس کی وضاحت درج ذیل ہے :

فاطمی خلافت کی بنیاد عبیداللہ المہدی نے 296 ہجری میں رکھی اور خود 322 ہجری میں وفات پائی ۔ اس کے بعد اس کا بیٹا القائم با مر اللہ جانشین ہو ا اور 333 ہجری میں مر گیا ۔ اس کے قائم مقام اس کا بیٹا المنصور اسمعیل تخت نشین ہو ا جو 341 ہجری میں مرگیا پھر اس کا بیٹا المعزلدین اللہ بادشاہ ہو ا، جو 362 ہجری میں مصر کے شہر قاہرہ میں داخل ہوا اور 365 ہجری میں مر گیا ۔ اس کی جگہ اس کا بیٹا العزیز جانشین ہو ا اور وہ بھی 386 ہجری میں وفات پا گیا ۔ اس کے بعد اس کا بیٹا الحاکم بامر اللہ منصور تخت نشین ہو ا ، جو 411 ہجری میں قتل کر دیا گیا ۔ پھر اس کا لڑکا الظاہر لا عزاز دین اللہ علی سلطنت پر قائم ہو ا جو 428 ہجری میں فوت ہو گیا۔اس کے بعد اس کا بیٹا المستنصر تخت پر قابض ہوا جو 487 ہجری میں فوت ہو گیا ۔ اس نے ساٹھ سال حکومت کی ۔ اس کے بعد اس کا بیٹا المستعلی باللہ احمد قائم ہو ا، جو 495 ہجری میں مر گیا ۔ اس کے بعد پھر اس کا بیٹا الآ مر با حکام اللہ منصور بعمر پانچ سال بادشاہ ہوا اور 524 ہجری میں بغیر کوئی اولاد چھوڑے قتل کر دیا گیا ۔ اس کے بعد اس کا چچاز اد بھائی الحافظ لدین اللہ عبدالمجید بن محمد بن المستنصر قائم ہو ا جو 544 ہجری میں مر گیا ۔ اس کی جگہ اس کا بیٹا الظافر باللہ اسماعیل قائم ہو ا جو 549 ہجری میں قتل کر دیا گیا ۔ اس کے بعد اس کا بیٹا الفائز بنصر اللہ عیسیٰ تخت نشین ہو ا ۔ یہ بھی 555 ہجری میں مر گیا۔ سلطنت پر اب آخری خلیفہ العاضد لدین اللہ عبداللہ بن یوسف بن الحافظ لدین اللہ متمکن ہوا۔ پھر 567 ہجری میں علیحدہ ہو ا اور اسی سال مر گیا۔مصر میں فاطمی حکومت کا خاتمہ ہو ا اور دوبارہ عباسی حکومت شروع ہو گئی۔4

فاطمیوں کے مذہبی عقائد

فاطمی ، شیعوں کے اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتے تھے ۔ فاطمی سلطنت دراصل اسماعیلی شیعہ سلطنت تھی جنہوں نے عباسی خلافت کے زیر اثر علاقوں میں سے اپنا وجود نکالا ۔5اسماعیلی فرقہ ایک خفیہ جماعت سے عبارت ہے جس کی سرداری جس شخص کے ہاتھ میں ہوتی ہے اسے "امام" کہتے ہیں اور "صاحب الزمان " بھی اس کا نا م ہے۔ اسے اپنے ارکان جماعت کی جان و مال پر پور ا تسلط اور اقتدار حاصل ہوتا ہے ۔ اس جماعت کے اسرار و رموز انہی لوگوں پرمنکشف کیے جاتے ہیں، جو مختلف مراحل ، تربیت اور آزمائش کے طے کر لیتے ہیں۔ ان سے سخت قسم لی جاتی ہے کہ اپنے مذہب کے اسرار دوسروں پر فاش نہیں کریں گے، نہ کسی کو اپنی جمعیت کے راز بتائیں گے ۔ قسم ان لوگوں سے لی جاتی ہے جو تین مرحلے کامیابی کے ساتھ ختم کر کے مرتبہ رابعہ پر فائز ہوچکےہوتے اور اسماعیلی مذہب کے عام لوگ اپنے اعلیٰ درجے پر فائز لوگوں کے اخلاص اور صدق ایمان پر بھروسہ کرتے اور ان کے نزدیک صرف وہی لوگ صراط مستقیم پر گا مزن ہیں۔ آنکھ بند کر کے ان کی اطاعت کرتے ۔

اسماعیلی فرقے میں علم اور تہذیب و تربیت کے لحاظ سے کئی درجے ہوتے لیکن نویں درجے کا طبقہ سب سے اعلیٰ اور خاص اہمیت کا حامل ہوتا اور اس درجے پر ہر کوئی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ صرف گنتی کے چند مخصوص لوگ ہی پہنچ سکتے تھے۔ خود دعاۃ تک درجہ خامسہ سے آگے نہیں بڑھ پاتے یہ وہ درجہ ہے جس پر پہنچنے کے بعد داعی بعض اسرار جمعیت سے واقف ہوجا تا۔

اسماعیلی جماعت کے جو لوگ درجہ رابعہ تک نہیں پہنچ پاتے انہیں صرف دینی اور ادبی مبادیات6 کا علم ہو تا ۔ سیاسی ، اجتماعی اور اقتصادی تعلیمات کا انکشاف ان پر اس وقت تک نہیں کیاجاتا جب تک وہ درجہ رابعہ میں داخل نہ ہو جائیں۔ اس طرح اسماعیلیوں نے اپنے اتباع اور پیروؤں کے مختلف مراتب اور مدارج قائم کر لیے ۔ عام لوگوں کی رسائی توصرف ان کی عقل و فہم کے مطابق مبادی اور اصول عامہ تک ہو تی تھی ۔ مراتب عالیہ پر فائز ہونے والوں کے لیے خاص اسرار و رموز کا انکشاف کیا جاتا۔

اسماعیلی فرقے نے عباسیوں کی خلافت کو ختم کرنے کے لیے یہ کہنا شروع کر دیا کہ جو امام منتظر جو علوی ہے ، قیروان میں موجود ہے اور اب لوگوں پر خلفائے بنی عباس کی اطاعت واجب نہیں رہی ۔ اور امام کے پاس تمام مسائل کا حل موجود ہے اور یہ لوگوں میں عدل کو عام کر دے گا ۔ ان میں سے بعض نے اپنے امام کےبارے میں فرط جذبات سے اس درجہ غلو کیا کہ یہاں تک کہنے لگے اللہ تعالیٰ نے امام علی کے جسم میں اور ان کے بعد ان کی اولاد کے جسم میں حلول کر لیا ہے ۔ فاطمیوں نے اپنی دعوت میں بہت سے انوکھے اور انتہائی حیران کن دعوے شامل کیے کہ یہ دعوت جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی چلی گئی اور جس کی لپیٹ میں شمالی افریقہ ، صقلیہ ( سسلی)، مصر، شام ، اور سواحل بحیرۃ احمر تک کے علاقے آگئے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ بسا سیری نے خلیفہ عباسی قائم ( 1075 ء۔ 1031ء) کا نام بغداد میں خطبہ سے نکال دیا ۔ اور فاطمی خلیفہ مستنصر کا نام داخل کر دیا اور یہاں تک بھی نہ رکے کہ اذان میں بھی "حی علی خیر العمل" کا اضافہ کر دیا7۔

یہودیت کا تعارف

فاطمیوں کےزیر اثر مختلف اقلیتیں قیام پذیر تھیں جن میں یہودی بھی ایک اقلیت تھے جو بنی ا سرائیل کے نام سے بھی موسوم کیے جاتے ہیں۔"یہودی " عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی "یہودا کے قبیلہ سے " کے ہیں ۔ یہودیت کا شمار دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں ہوتا ہے جس کی تاریخ تقریباً 1500 سے 2000 سال قبل مسیح بیان کی جاتی ہے ۔8"بنی اسرائیل سب سے زیادہ اس لیے کہ اول اول ان کا خاندان دنیا کے تمام خاندانوں سے بزرگ شریف تھا۔ تقریبا ً ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک جو اس قوم کے صاحب الشریعت پیغمبر تھے "۔9 بہت انبیا ء اور رسول اس قوم پر مبعوث ہوئے اسی وجہ سے ان میں عصبیت پائی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق ان کو دولت وسلطنت بھی عطا کی۔ لیکن ایک مدت دراز کے بعد ان کو ان کے مراتب عالیہ سے محروم ہونا پڑا ۔ ذلت وخواری ان کے حصہ میں آئی ۔ مجبوراًجلا وطنی اختیار کی۔ ہزاروں برس کی غلامی اور محکومی ان کا مقدر رہی ہے ۔ لیکن خیال شرافت ان میں بھی باقی ہے کوئی ہارونی کہلاتا ہے کوئی آل یوشع ، کوئی کالب کی فرزندی پر نازاں ہے تو کوئی یہودا کے انتساب سے فخرومباہات کرتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہودیوں کی تاریخ بہت پرانی ہے اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے بہت نوازا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ قوم فخرمیں آگئی جہاں سے ان کا زوال شروع ہوا۔ اس قوم کےلیے آسمان سے کھانے بھی نازل ہوئے لیکن اپنی عصبیت میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ ناشکری پر اتر آئے۔

یہودی قوم مسلمانو ں کے زیر اثر

"یہودی مذہب عرب میں پینتسویں صدی دینوی بمطابق پانچویں قبل مسیح ہنگامہ بخت نصر میں آیا چند دنوں کے بعد یہودیوں کو اطمینان حاصل ہوگیا تو انہوں نے اپنے مذہب کو پھیلانا شروع کیا حتیٰ کہ رفتہ رفتہ 365 دینوی بمطابق 354 قبل مسیح میں ذوالنواس حمیری بادشاہ یمن یہودی بن گیا او ر اس سے عرب میں یہودیت کو بہت ترقی ہوئی۔"10

درج بالا سطور سے واضح ہوتا ہے کہ یہودی رسول اللہﷺ کی پیدائش سے کئی سو سال قبل عرب کے خطے میں آچکے تھے اور کافی استحکام حاصل کرلیا تھا اور ان کے مذہب کو بھی عرب میں مقبولیت حاصل ہو چکی تھی حتی کہ یمن کا بادشاہ بھی یہودی مذہب اختیار کر چکا تھا اس سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ عرب کا خطہ یہودیوں کو راس آگیا ہوگا اور انہوں نے عرب میں اپنے قدم جما لیے ہوں گے اور معاشی لحاظ سے استحکام حاصل کر لیا ہوگا ۔ عرب کے خطے میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا مطلب یہی ہے وہ یہاں معا شی طور پر بہتر ہو گئے ہوں گے ۔

عہد نبوی میں یہودی

رسول اللہ ﷺکے دور نبوت میں مدینہ کے اطراف میں یہودیوں کے تین بڑے قبائل آباد تھے۔ بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ جو کہ یہودیوں کے بڑے قبائل مانے جاتے تھے ۔ رسول اللہ ﷺکا مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آنے کے بعد ان قبائل سے معاہدات ہو ئے جن میں سے ایک "معاہدہ مدینہ" بھی ہے ۔ لیکن ان قبائل نے معاہدات کا پاس نہیں رکھا اور یکے بعد دیگرے معاہدات توڑتے چلے گئے جس کے بعد ان کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ ہوئی اور وہ شکست فاش ہوئےتو رسول اللہ ﷺنے یہودیوں کو مدینہ سے جلا وطن کر دیا اور وہ خیبراوراس کے گردنواح میں جا بسے لیکن بعد ازاں جب خیبر بھی فتح ہو ا تو آپ ﷺنے جزیہ کی شرط پر ان کو وہاں رہنے کی اجازت دے دی ۔

خلا فت راشدہ کے دور میں یہودی

عہد نبوی سے لے کر عہد فاروقی تک یہودی جزیہ کی شرط پر قائم رہے لیکن عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جب رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد معلوم ہو ا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :

"لا یبقی دینان بارض العرب"

" عرب کی سرزمین میں دو دین ایک ساتھ نہیں رہ سکتے"11

چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ یہود کو جزیرہ عرب سے نکال دیا جائے ان کی جلا وطنی کے بعد مسلمانوں نے ان کے کھیتوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور حضرت جابر بن صخر اور زید بن ثابت نے ان کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا ۔ لیکن عہد نبوی اور اس کے بعد خلفاء راشدین کے ادوار میں یہودیوں کی معاشی حالت بہت بہتر رہی ہے جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ یہودیوں کے پاس با غات اور کافی املاک تھیں اور ان کو مذہبی آزادی بھی حاصل رہی ہے لیکن وہ اپنے عصبیتی مزاج کی وجہ سے ہمیشہ در بدر ہو تے رہے ہیں۔

بنو امیہ کے دور میں یہودی

"عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے عبدالرحمن بن نعیم کو لکھا کہ کسی ایسے گرجا ، یہودیوں کی خانقاہ یا آتش خانہ کو منہدم نہ کرنا جس کے قائم رکھے جانے کا عہد نامہ صلح میں وعدہ کیا گیا ہو ۔"12 بنو امیہ کے دور میں یہودیوں کو مذہبی اور معاشی آزادی رہی ہے۔ ان کو اقلیتوں کے تمام حقوق حا صل رہے ہیں۔

بنو عباس کے دور میں یہودی

بنو عباس کے دور میں چند عباسی خلفا ء نے یہودیوں پر سختیاں کی ، جن میں سے ان کو زبر دستی خاص لباس پہنایا گیا اور ان کی ٹوپیوں کا رنگ مسلمانوں کی ٹوپیوں کے رنگ سے جدا رکھنے کا کہا گیا جس سے وہ الگ نظر آئیں اور ان کی آسانی سے پہچان ہو سکے کہ یہ اقلیت ہیں۔ 13 یہودیوں کو ذمیوں کے پورے پورے حقوق نہ مل سکے اوران پر مذہبی پابندیاں بھی عائد کی گئیں ۔ اس دور کے چند ایک حکمرانوں نے اس طرح کا کام کیا ۔لیکن پھر بھی اس طرح کے واقعات تاریخ میں بہت کم نظر آتے ہیں۔

بنوفاطمیہ کے دور میں یہودی

بنو فاطمیہ کے زیر اثر مختلف اقلیتیں قیام پذیر تھیں جن میں سے یہودی بھی ایک اقلیت تھے۔ جوبنو فاطمیہ کے آغاز سے اختتام تک ان کے زیر اثر رہے ہیں۔ اس دور میں یہودیوں کے ساتھ حسن سلوک روا رکھا گیااور ان کو عہدوں اور مال و دولت سے بھی نوازا گیا ۔ ان کو مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ معاشی آزادی بھی تھی ۔ وہ اپنی آزاد انہ تجارت کر سکتے تھے اور زمینیں بھی خرید کر سکتے تھے کسی اسلامی حکومت میں یہودیوں کو اس قدر نہیں نواز ا گیا جس قدر فاطمی دور میں نوازا گیا ۔

ان سب مباحث سے معلوم ہو تا ہے کہ یہودی مسلمانوں کے زیر اثر بہت زیادہ عرصے تک رہتے آئے ہیں اور ان کو بہت زیادہ حد تک معاشی استحکام حاصل رہا اس کے علاوہ وہ مذہبی آزادی کے ساتھ رہے لیکن کچھ ادوار میں ان پر پابندیاں لگیں لیکن وہ وقتی طور پر تھیں۔ یہودی ہمیشہ اپنی سازشوں کی وجہ سے دربدر ہو تے رہے ہیں اور ان کی مسلمانوں سے جنگیں بھی ہوئیں ۔

فاطمی دور میں یہودیوں کے معاشی حالات

جب فاطمیوں نےمصر فتح کیا اور اس پر اپنی خلافت قائم کی تو اس وقت وہ تعداد میں بہت کم تھے کیونکہ ان کے مقابلے میں اہل سنت کی صورت میں ان کے مسلمان بھائیوں کا ایک بڑا فرقہ وہاں موجود تھا۔ جس وجہ سے فاطمیوں کا ان علاقوں پر اپنی خلافت قائم رکھنا بہت ہی مشکل تھا اور ان کو وہاں پر سب سے زیادہ اپنے مسلمان بھائیوں سے خطرہ لاحق تھا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے انہوں نےحکمت علمی یہ اختیار کی کہ غیر مسلموں کو بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز کر دیا جائے اور ان کو بنیادی شہری حقوق بشمول مذہبی آزادی بھی دی جائے اوراسی وجہ سے اس دور میں یہودیوں کو زیادہ نوازہ گیا ۔

"تقریباً1200 سے 20000 کے لگ بھگ یہودی اس وقت مصر میں مقیم تھے ۔"14اور یوں فاطمی مصر میں اپنی خلافت قائم کرنے میں کامیاب رہے ۔ فاطمیوں نے اپنی خلافت کے استحکام کے لیے یہودیوں کی ہر طرح سےمدد کی جس طرح سے بھی ممکن ہوسکا جس میں ان کے جزیہ میں کمی کی گئی ، بنیادی شہری حقوق اور مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ ان کو معاشی امدادیں بھی مہیا کی گئیں۔

فاطمی دور خلافت میں یہودیوں کی معاشی حالت بہت بہتر رہی ہے اور ان کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گیا جس وجہ سے ان کی معاشی اور مذہبی حالت بہت مضبوط او ر مستحکم ہوئی ۔ فاطمی دور میں یہودی وزیروں نے خوب دولت جمع کی اور مصر کی بہتر زمینیں بھی خرید یں۔ "ان دراز دستیوں سے متاثر ہو کر کبھی کبھی بعض فاطمی خلفاء نے اہل ذمہ پر سختیاں بھی کیں جو رائے عامہ کے دباؤ اور ذاتی مشاہدات کا نتیجہ تھیں۔"15 لیکن یہ سختیاں چند ایک خلفا ء نے کیں اس کے برعکس باقی ادوار میں ان کو مذہبی اور معاشی آزادی حاصل تھی۔ جس وجہ سے انہوں نے معیشت میں اپنے قدم مضبوط کیے اور انہیں آزادیوں کا بے جا فائدہ اٹھایا ۔ فاطمی خلفاء نے اپنے مسلمان بھائیوں کی بہ نسبت غیر مسلم خاص طور پر یہودیوں کو بڑے بڑے عہدوں اور سرکاری مملکت میں جگہ دی اور ان کو وزارت اعلیٰ کے مناصب پر فائز کیا۔

اس دور میں یہودیوں پر کشور کشائی کی گئی اور ان کو ہر لحاظ سے نوازا گیا تو انہوں نے بھی اس سے ناجائز فائدہ اٹھانے میں کوئی کمی نہ چھوڑی جیسا کہ "تاریخ دولت فاطمیہ" میں ہے:

"فاطمی خلفاء نے اہل ذمہ (یہودی) کو وزارت کے منصب عطا کیے لیکن انہوں نے ناجائز فائدہ اٹھانے میں کوئی کمی نہیں کی۔ رعایا کی غیر معمولی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی لیکن یہ غیر مسلم وزیر اپنے ابنائے ملت کو مسلمانوں پر ترجیح دے کر ان کو سرکاری عہدوں پر فائز کر دیتے تھے۔"16 فاطمی دور میں یہودیوں نے زبر دست معاشی استحکام حاصل کیا۔ فاطمیوں کی یہودیوں پر ان کرم نوازیوں اور عہدبخشیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ابو سعید نستری نامی یہودی نے اپنے یہودیوں کو اتنا نوازا اور اس کے برعکس مسلمانوں کو اتنا پامال کیا کہ ایک کے بعد دوسرے مسلمانوں میں خوف و حراص بڑھنے لگا اور ان کی پامالی پر ایک شاعر جل کر کہہ اٹھا:

"اس زمانے کے یہودیوں نے اپنی تمنائیں حاصل کر لی ہیں۔ ان کے پاس عزت ہے، دولت ہے، وزارت ہے۔ اے اہل مصر! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں، یہودی بن جاؤ"

ان اشعار سے واضح ہورہاہے کہ فاطمی دور میں یہودیوں کو اپنی تمنائیں اور خواہشات حاصل ہوئیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کو عزت و شہرت اور دولت ووزارت سے نوازا گیا ۔ ان کو اس حد تک نوازا گیا کہ اگر اس دور کا پچھلے تمام مسلم ادوار سے موازنہ کیا جائے تو باقی ادوار کی بہ نسبت فاطمی دورمیں یہودیوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے اور ان کو مسلمانوں پر تر جیح دی جاتی رہی ہے۔ جس وجہ سے یہودی وزارتوں کے منصب پر فائز ہوکر مذہبی او ر معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم ہوئے ہیں اور انہوں نے بہت ساری دولت اور زمینیں بنائی ہیں۔

فاطمی دور میں خلیفہ کے بعد وزیر ہی کا مرتبہ تھا۔ سیوطی کا قول ہے:

"خلافت کے بعد وزارت ہی کا منصب ہے"17

فاطمی دور میں خلیفہ کے بعد وزیر ہی ہوتا تھا جو مملکت کے نظام سنبھالتا تھا ۔ اور پچھلی مباحث سے ثابت ہو چکا ہے کہ اس دور میں غیر مسلم لوگوں خاص طورپر یہودیوں کو وزارت کے اعلیٰ منصب دیئے گئے۔ جن میں مشہور نام ابو الفراج یعقوب بن کلس جو بہت بڑا ماہر مالیات تھا اور نظم ومملکت کا تجربہ رکھتا تھا یہودی تھا۔

اس دور میں وزیروں کے ساتھ ساتھ ان کی اولادوں، ان کے ذاتی مددگاروں اور ان کے تمام تر اخراجات کو سرکاری خزانے سے ادا کیا جاتا تھا۔ اور بڑے بڑے عہدوں اور وزارتوں پر غیر مسلم خاص طور پر یہودی معمور ومتمکن تھے۔

فاطمیوں کے عہد میں ایک اور محکمہ جس کا نام "دیوان الانشاءوالمکاتبات" تھا حسب نسب کے اعتبار سے بر تر ، باوقار،بردبار،سنجیدہ اور متین لوگ اس منصب پر فائز ہونے کے قابل تھے ۔ لیکن اس منصب پر صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ یہودی بھی فائز ہوئے ہیں ۔ فاطمیوں کے ہاں دین کی کوئی تخصیص نہ تھی۔ مثلاً فاطمی خلیفہ حافظ لدین اللہ کا کاتب دیوان یہودی تھا۔

ابن مماتی رحمۃاللہ علیہ18 (1209ء۔1149ء) نے اس منصب دار کی شرائط تحریر کرتے ہوئے لکھا ہے:

"ضروری ہے کہ وہ آزاد ہو، مسلمان ہو، عاقل ہو، صادق ہو، ادیب ، فقیہ اور عالم ہو۔ احساس ذمہ داری سے بہرہ ور ہو۔ امین اور محرم اسرار ہو۔ ذہین وفطین ہو۔ قوت ارادی مضبوط رکھتا ہو۔ خوش بیان اور خوش فکر ہو۔ شیریں زبان اور بردبار ہو۔ باوقار اور کریم الاخلاق ہو ۔ نہ کوئی ہدیہ قبول کرے، نہ کسی سے کوئی ہدیہ لے!"19

فاطمیوں کے دور میں تہذیب وتمدن میں ترقی کے علاوہ انسانی حقوق کے احترام کا بڑا چرچہ ہوا۔ مسلمانوں کی طرح، یہودیوں کو بھی مکمل شہری آزادی حاصل تھی۔ زندگی کے ہر شعبے اور ہر مقام پر پہنچنے کے لیے ہر شخص کے لیے تمام درواز ے یکساں طور پر کھلے تھے۔ اور ان کے دور خلافت میں مسلمانوں اور اہل ذمہ (یہودی) میں کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا تھا۔ مسلمانوں کی طرح یہودیوں کو بھی ہر چیز کی آزادی اور مکمل بنیادی شہری ہونے کا اختیار حاصل تھا۔20مملکت کے ہر شعبہ میں یہودیوں کو عہدوں اور انعام وکرام سے نوازا جاتا رہا ہے۔ ان سے بہت کم جزیہ لیا جاتا تھا اور ان پر عقد عمر کی شقوں کو لاگو نہیں کیا گیا۔ اور جو ادا نہیں کر سکتے تھے ان کو معاف کر دیا گیا۔ اس دور کی نمایاں خصوصیات میں تھا کہ یہودیوں کو اعلیٰ وزارتوں اور عہدوں پر فائز کیا گیا اور ان کو معاشی اور مذہبی آزادی دی گئی۔

اس دور میں یہودیوں کو اپنی عباد ت گاہوں کی تعمیر و مرمت کی مکمل آزادی حاصل رہی ہے اور حتیٰ کہ ان کے مدارس کے لیے معاشی امداد بھی دی جاتی تھی۔ یہودیوں میں رئیس الیہود کی آسامی کے لیے "نجد"21کا سرکاری عہدہ تھا ۔ پوری ریاست میں یہودی قاضیوں کی تعیناتی بھی نجد ہی کے ذمہ تھی۔ نجد کا عہدہ زیادہ تر ایسے یہودیوں کو دیا جاتا تھا جو فاطمی خلیفہ کے طبیب کے طور پر کام کرچکے ہوتے تھے۔ زیادہ تر فاطمی فرماں رواؤں کے طبیب یہودی تھے جیساکہ ابن میمون جو اپنی قابلیت کی وجہ سے خلیفہ کے طبیب مقرر ہوئے اور ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد کے حصے میں یہ عہد ہ آیا۔

فا طمی خلیفہ العزیز اپنے دور خلافت میں یہودیوں کے ساتھ بہت زیادہ روا داری کا برتاؤکرتا تھا ۔ یہودیوں کو اس نے منصب جلیلہ پر فائز کر رکھا تھا۔ اس کی اس رواداری سے فائدہ اٹھا کر یہودی مسلمانوں پر زیادتی کرتے تھے ۔ اس کا برتاؤ اتنا زیادہ رواداری کا تھاکہ اس نے یہودیوں کو وزارت اور امارت کے اعلی مناصب پر فائز کیا ہوا تھا۔

بعض مئورخین کا کہنا ہے کہ فاطمی خلفاء دین کے معاملے میں ظا لم وجابر تھے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ ظالم وجابر تھے۔ تو انہوں نے یہودیوں کو اتنے بڑے عہدے اور مناصب کیوں عطاء کیے ہوئے تھے۔ فاطمی خلفاء کے ظلم وجبر کے چند واقعات اگر تاریخ میں ملتے بھی ہیں تو وہ ایک یا دو فاطمی خلفاء کی طرف منسوب ہیں لیکن پوری فاطمی خلافت کی طرف منسوب کرنا غلط ہے ۔ فاطمی خلفاء دین اور مذہبی آزادی کے معاملے میں نرم رویہ رکھتے تھے۔ اس بات کا اندازہ فاطمی خلیفہ العزیز کے اس نقطہ نظر سے لگایا جا سکتا ہے ۔ العزیز کے بارے میں رقم ہے:

"اسلام میں مرتدکی سزا قتل نہیں ہے"22

اس کے عہد میں ایک شخص نے عیسائی مذہب قبول کرلیا ۔ اس کے خلاف شورش ہوئی اور اسے سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا گیا لیکن العزیز نے اس مطالبے کو نہیں مانا اور اس شخص کو سزا نہیں دی۔ اس واقعہ سے وہ روایات باطل ثابت ہو جاتی ہیں جن کی رو سے العزیز اور دوسرے فاطمی خلفاء پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ یہودیوں کے ساتھ ظلم و جبر کرتے تھے۔

فاطمی خلیفہ الحاکم کے دور میں بھی اہل کتاب (یہودیوں ) کو نوازنے کی مثالیں بھی ملتی ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ فاطمی دور میں یہودیوں کی معاشی حالت بہتر رہی ہے ۔ الحاکم کے بارے میں ہے کہ :

"اہل کتاب (یہودی) کے ساتھ رواداری پر مائل ہوتا تو انہیں نوازنے میں ضرورت سے زیادہ اعلیٰ ظرفی اور دریا دلی کا مظاہرہ کرتا"

نتائج

اس تحریر سے درج ذیل نتائج اخذہوتے ہیں:۔

  • ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے لوگوں کے لیے فاطمی اپنے طریقہ دعوت میں بہت انوکھے دور دل پذیر ثابت ہوئے جس کی وجہ سے وہ ہر دلعزیز ہوئے اور یہی چیز ان کی خلافت کی بنیاد بنی۔

  • فاطمی خلفاء نے یہودیو ں کے ساتھ حسن سلوک روا رکھا اور انہیں مناصب وامارات سے نوازا۔

  • فاطمی خلفاء مذہبی سختیوں کے قائل نہیں تھے ۔

  • فاطمی خلفاء اپنی خلافت کے استحکام کے لیے یہودیوں کو بڑے بڑے عہدوں پر فائز کرتے تھے۔

  • فاطمی مصر میں یہودیوں کی معاشی حالت قابل رشک تھی۔

  • فاطمی خلافت کے دور میں عزت و تکریم اہل سنت کی بہ نسبت غیر مسلموں (یہودیوں ) کو زیادہ دی گئی۔

     

    1 ۔ جلال الدین سیوطی ،تاریخ الخلفاء (لاہور: ضیاء القرآن پبلی کیشنز ، 2006ء) ،924-925۔

    2 ۔ رئیس احمد جعفری ،تاریخ دولت فاطمیہ (لاہور :ادارہ ثقافت اسلامیہ،2004ء) ،14-15۔

    3 ۔ رئیس احمد جعفری ،تاریخ دولت فاطمیہ، 16.

    4 ۔ جلال الدین سیوطی ، تاریخ الخلفاء، 924-925.

    5 ۔ خالد سیف اللہ رحمانی، آسان علم کلام ( سہارنپور (یو پی ): کتب خانہ نعیمیہ دیوبند، 2020 ء) ، 49 ۔

    6 ۔ مبادیات: شروع کی وہ باتیں جو کسی فن کو پڑھنے سے پہلے سیکھی جاتی ہے اور جن کی معلومات کے بغیر وہ علم مکمل نہیں ہوتا ، ابتدائی امور ، بنیادی باتیں۔

    7 ۔ رئیس احمد جعفری، تاریخ دولت فاطمیہ، 8.

    8 ۔ زوہیب احمد ، مطالعہ یہودیت ( ساہیوال:فروغ زبان پبلشرز، 2021 ء)، 3.

    9 ۔ عبدالرحمن ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون ( کراچی: دارالاشاعت، 2009ء)، 174 : 1۔

    10 ۔ ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، 44 : 3۔

    11 ۔ ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، 99 : 3۔

    12 ۔ابی جعفر محمد بن جریر الطبری ، تاریخ طبری ( کراچی: نفیس اکیڈمی، 2004 ء) ، 45 : 5۔

    13 ۔ ا بن جریر الطبری ، تاریخ طبری،31 : 7۔

    14 ۔زوہیب احمد ، مطالعہ یہودیت، 77۔

    15 ۔ رئیس احمد جعفری ، تاریخ دولت فاطمیہ، 356۔

    16 ۔ رئیس احمد جعفری ، تاریخ دولت فاطمیہ، 355۔

    17 ۔ رئیس احمد جعفری ، تاریخ دولت فاطمیہ، 358۔

    18 ۔ ابن مماتی: اسعد بن مماتی جو ایک مصری اہلکار تھے جنہوں نے صلاح الدین اور اس کے جانشین العزیز عثمان کے ماتحت سر کاری محکموں کے سر براہ کے طور پر خدمات انجام دیں ، ساتھ ہی ایک مشہور شاعر اور نا مور مصنف بھی تھے۔

    19 ۔ رئیس احمد جعفری ، تاریخ دولت فاطمیہ، 362۔

    20 ۔ عبدالرؤف ، تصویری تاریخ اسلام ( لاہور: فیروز سنز ( پرائیوٹ) لمیٹڈ، 1995 ء) ، 119۔

    21 ۔ نجد : ایک طرح سے ریاست میں بسنے والے تمام یہودیوں کا حاکم ہوتا تھا جو انہیں سزائیں بھی دے سکتا تھا اور پابند سلا سل بھی کر سکتا تھا ۔

    22 ۔ رئیس احمد جعفری ، تاریخ دولت فاطمیہ، 144۔

     

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...