2
1
2023
1682060081177_3169
31-44
https://journals.iub.edu.pk/index.php/jwrih/article/download/1750/846
https://journals.iub.edu.pk/index.php/jwrih/article/view/1750
World Religions Quran and Sunnah Interfaith Harmony Peaceful Coexistence Pakistan
تعارف
بین المذاہب ہم آہنگی سے مراد مختلف مذہبی عقائد کے لوگوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی اور تعاون ہے۔ یہ خلاصہ بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت، اس میں رکاوٹ بننے والے چیلنجز، اور اس کے حصول کی طرف آگے بڑھنے کے راستے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت دنیا بھر میں مذہبی عقائد اور طرز عمل کے تنوع سے پیدا ہوتی ہے، جو غلط فہمی، تنازعہ اور تشدد کا باعث بن سکتی ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی مختلف عقائد کے لوگوں کے درمیان باہمی احترام، افہام و تفہیم اور تعاون کو فروغ دیتی ہے، جس سے ایک زیادہ پرامن اور انصاف پسند معاشرہ بن سکتا ہے۔تاہم، بین المذاہب ہم آہنگی کا حصول چیلنجوں کے بغیر نہیں ہے۔ ان چیلنجوں میں مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان جہالت، تعصب، خوف اور عدم اعتماد شامل ہیں۔ ایسے سماجی، معاشی اور سیاسی عوامل بھی ہیں جو بین المذاہب تعلقات کے ٹوٹنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ان چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے، بین المذاہب ہم آہنگی کے حصول کے لیے آگے بڑھنے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں تعلیم اور بیداری بڑھانے کے اقدامات شامل ہیں جو بین المذاہب افہام و تفہیم اور مکالمے کو فروغ دیتے ہیں۔ بین المذاہب تنظیمیں بھی ہیں جو مختلف عقائد کے لوگوں کو باہمی تعاون اور مدد کے لیے اکٹھا کرتی ہیں۔ مزید برآں، ایسے سیاسی اور قانونی اقدامات ہیں جو مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کر سکتے ہیں اور معاشرے میں ان کی مکمل شرکت کو یقینی بنا سکتے ہیں۔آخر میں، ایک پرامن اور انصاف پسند معاشرے کی تعمیر کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی ضروری ہے۔ اگرچہ اسے حاصل کرنے کے لیے چیلنجز موجود ہیں، بین المذاہب افہام و تفہیم، تعاون اور احترام کو فروغ دینے کے راستے بھی ہیں۔
سابقہ معلومات کا جائزہ
ملک کے متنوع مذہبی منظرنامے اور مذہبی کشیدگی کی تاریخ کے پیش نظر بین المذاہب ہم آہنگی پاکستان میں بہت دلچسپی اور اہمیت کا موضوع رہا ہے۔ پاکستان میں اس موضوع پر متعدد کتابیں، مضامین اور تحقیقی مقالے شائع کیے گئے ہیں، جو ملک میں بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت، چیلنجز اور آگے بڑھنے کے راستے کے بارے میں قابل قدر بصیرت فراہم کرتے ہیں۔اس موضوع پر قابل ذکر کتابوں میں سے ایک انیس احمد کی "پاکستان میں بین المذاہب مکالمہ: ایک تنقیدی مطالعہ" ہے۔ یہ کتاب پاکستان میں بین المذاہب مکالمے کے لیے کیے گئے مختلف اقدامات کا جائزہ لیتی ہے اور اس طرح کی کوششوں کے چیلنجوں اور حدود کو اجاگر کرتی ہے۔اس موضوع پر ایک اور کتاب "پاکستان میں بین المذاہب تعلقات: مسائل اور امکانات" ریاض حسین کی ہے۔ کتاب پاکستان میں بین المذاہب تعلقات کے تاریخی، سماجی اور سیاسی تناظر پر توجہ مرکوز کرتی ہے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے مختلف طریقوں پر بحث کرتی ہے۔نسرین غفران کی "Peaceful Existence in Pakistan: The Role of Civil Society" ایک اور کتاب ہے جو پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے میں سول سوسائٹی کی اہمیت پر بحث کرتی ہے۔ کتاب بین المذاہب مکالمے اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے لیے سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے کیے گئے مختلف اقدامات پر روشنی ڈالتی ہے۔دیگر قابل ذکر کاموں میں ریاض حسین کا "پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی"، ارشد علی کا "پاکستان میں بین المذاہب تعلقات اور کمیونٹی کی ترقی" اور علی عثمان قاسمی اور میگن ایڈمسن سیجاپتی کی "پاکستان میں مذہبی تکثیریت: ایک تاریخی جائزہ" شامل ہیں۔یہ کام پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت، چیلنجز اور ممکنہ حل کا ایک جامع جائزہ فراہم کرتے ہیں، اور اس شعبے میں کام کرنے والے پالیسی سازوں، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے اداکاروں کے لیے ایک قیمتی وسیلہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
بین المذاہب مکالمے کا تاریخی پس منظر
یہ 1857ء کی بات ہے جب سامراج مستعمر علاقوں میں آئے،جن کے مذہبی اظہار میں جزوی طور پر مشنری عیسائیت بھی شامل تھی، یہی وقت تھا جب مذہبی جدلیات کا آغاز ہوا، جو انتہائی پیچیدگی کی حامل تاریخ رکھتا ہے، ان میں مسلمانوں کی دنیا سے جو اہم نام ہیں وہ سر سید احمد خان، شیخ محمد اکرام، علامہ اقبال سے لے، مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور شیخ احمد دیدات شامل رہے ہیں۔مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور شیخ احمد دیدات کو اس صدی کے عظیم مبلغین میں شمار کیا جاتا ہے۔جب کہ شیخ احمد دیدات کے بارے میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ 1857ء کے زمانے میں بین المذاہب مکالمہ کی ثقافت کو زندہ کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ جن سے انکار ممکن ہی نہیں۔جنہوں نے اخلاقی رواداری اور صبر و تحمل کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیا اور اس طریق پر مکالمہ بین المذاہب اور ہم آہنگی کا حق بخوبی ادا کیا۔ اسی طرح قرآن مجید نے ایک داعی کے لئے مکالمے کے جو بنیادی اصول بیان کئے ہیں وہ یہ ہیں :
اُدْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ1
’’آپ ﷺلوگوں کو اپنے پروردگارکی طرف حکمت اوراچھی نصیحت سے بلائیے اوران کے ساتھ پسندیدہ طریقہ سے بحث کیجئے۔‘‘
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بھی ایسے اسلوب کی فروانی ملتی ہے جب حدیبیہ کے موقع پر صلح کی شرائط طے ہورہی تھیں اور بعض مراحل پر ایسی صورتِ حال بھی در پیش آئی کہ دونوں طرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ کفار کی طرف سے سخت لہجہ اختیار کرنے کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائمی اور حقیقی مفادات جن سے مستقبل میں اسلام کو بہت سے فوائد پہنچ سکتے تھے، کو مدِّنظر رکھتے ہوئے بعض مسنون اور مستحب امور کو ترک کردیا مثلاً جب شرائط طے ہوگئیں اور اب معاہدہ تحریر کرنے کا وقت آیا تو کفار نے تحریری وثیقہ کی ابتداء میں بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم لکھنے پر اعتراض کیا حالانکہ اُن کا یہ اعتراض بے جا اور ہٹ دھرمی کا عملی مظاہرہ تھا۔ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ معاہدہ ختم ہوجاتا مگر اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نرم روی اور ہم آہنگی سے کام لیتے ہوئے تسمیہ کی جگہ صرف ’’باسمک اللہم‘‘ لکھنے کا حکم دے کر حالات کو کشیدگی کی طرف لے جانے سے بچالیا۔2
دیکھا جائے تو آج اپنی گفتگو میں دلائل جیتنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر انیسویں صدی میں گفتگو کے اسلوب میں علم و دلائل کے ساتھ تہذیب کا اظہار ضروری گردانا جاتا تھا۔لہذا یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے آیا کہ موجودہ دور میں مکالمہ بین المذاہب اور ہم آہنگی نظام میں، انیسویں صدی کے عظیم مبلغین کے طرز اسلوب پر چلتے ہوئے اقوامِ عالم میں موجود تصادم کو روک کر امن و محبت کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے یا نہیں؟معاصر وقتوں میں دیکھا جائے تو شیخ احمد دیدات کے بعد اس طرز کو جو اپنائے ہوئے ہیں ان میں اہم نام ڈاکٹر زاکر نائک کا بھی ہے جو مسلم دنیا کی جانب سے مکالمہ بین المذاہب اور ہم آہنگی کی پر امن شرائط پر پورا اتر کر عملی کام سر انجام دے رہے ہیں۔
بین المذاہب مکالمے کی ضرورت و اہمیت
جب بھی مکاملہ بین المذاہب اور ہم آہنگی کو موضوع گفتگو بنایا جاتا ہے تو مختلف آراء رکھنے والے لوگوں سے سامنا ہوتا ہے ان میں سے ایک گروہ وہ بھی ہے جو اس نظام کو سرے سے ایک شاطرانہ چال گردانتے ہیں اور اس موضوع کو گفتگو کے قابل نہیں سمجھتے۔ حالاں کہ اس نظام میں موجود اولالباب جو صحیح معنوں میں بین المذاہب مکالمہ اور ہم آہنگی کے خواہاں ہیں وہ کبھی بھی فروعی یا اصولی اختلافات کو زیر بحث نہیں لاتے، بلکہ سماجی اور اجتماعی مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور یہ کوشش مکالمے کے بغیر ممکن نہیں اور تب تک ممکن نہیں جب تک اقوامِ عالم، آپس کے اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کی بجائے ان اختلافات کو تسلیم کر کے زندگی بسر کریں۔ ان اختلافات کو تسلیم کرنے کے بعد اگلہ مرحلہ، مشترکات پر مکالمے کو فروغ دینا ہے۔ کیوں کہ تہذیبی آثار کا انتقال ایک فطری روش ہے۔ اور تہذیبیں کئی اسالیب کے ذریعے اپنے آثار کو منتقل کرتی ہیں۔ جن میں سے ایک مکالمہ ہے جس کے ذریعے تہذیبیں آپس میں اپنے آثار علمیہ کو منتقل کرتی ہیں۔
مکالمہ دراصل مختلف انداز جہاں بینی کے مابین کھلنے والے روزن سے عبارت ہے۔ جب کہ تہذیب پر مردنی طاری ہونے کے کئی داخلی اور خارجی اسباب ہوتے ہیں اور مکالمہ انہیں میں سے ایک ہے جس کا خاتمہ تہذیب کو ویران کر دیتا ہے۔ مکالمہ دراصل بین التہذیبی تعاملات کے دوران نئے علوم کا منشا بنتا ہے۔ علم کلام اور اصول کے اکثر مباحث مسلم تہذیب کے شاندار علوم مسلم اور یونانی تہذیبی ورثے کے مکالماتی آثار ہیں۔ اس سے بڑھ کر کسی بھی تہذیب کے جدلیاتی علوم اصلا مکالمے کی ہموار کردہ زمین پر پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ مکالمے کی ثقافت کو زندہ کرنا ایک مثبت عمل ہے۔"اس وقت مختلف سطحوں پر بین المذاہب مکالمے کی ضروت و اہمیت پر زور دیا جارہا ہے۔ تاریخ میں اس پر ہونے والی کانفرنسز سے بھی اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے چنانچہ جون ؍۲۰۰۴ء میں اوسلو (ناروے ) میں پہلی بین المذاہب کانفرنس منعقد ہوئی جس میں گورنمنٹ آف ناروے اور نارویجن چرچ کی دعوت پر مولانا محمد حنیف جالندھری ،مفتی منیب الرحمن، ریاض حسین نجفی اور بشپ سموئیل عزرایاہ وغیرہ نے شرکت کی۔ عالمی سطح کی اس بین المذاہب کانفرنس میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے بین المذاہب ہم آہنگی اور محبت کی فضا کو فروغ دینے پر زور دیا’’اعلانِ اوسلو‘‘کے تحت پاکستان میں بھی ’’ورلڈ کونسل آف ریلیجنز برائے عالمی امن وعدل اجتماعی ‘‘کے زیر اہتمام ۱۶؍ستمبر ۲۰۰۴ء کو نیشنل لائبریری ہال، اسلام آبا د، میں پہلی بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا گیا ۔اس کے بعد سے یہ سلسلہ مسلسل جاری وساری ہے"۔3
بین المذاہب مکالمے کے مقاصد
بین الادیان مکالمہ دراصل بین التہذیب مکالمے کا تسلسل ہے مگر یہاں کچھ مزید مقاصد بھی شامل ہو گئے ہیں۔ جیسے دہشت گردی کے ظہور کے بعد ادیان کا کردار اہم مگر یہ منظم صرف مکالمے کی فضا میں ہوگا۔ اسی طرح دنیوی سسٹم کی مادی تشکیل کے بعد ماورا کا کوئی روزن باقی نہیں رہا اور یہ ادیانی مکالمہ اسی روزن کی بقا کی گارنٹی ہے۔مکالمہ بین المذاہب کے مقاصد کے حوالے سے مائیکل نذیر لکھتا ہے ۔
“For Christians, Dialogue will always be about listening and learning, our partner faith may expect on our own. We must however also be committed to let the light of Christ, shine through our conservation and reflection without that Dialogue remains unfulfilled for the Christians.4
دنیا میں اس وقت تک امن کا قیام ممکن نہیں جب تک مذاہب کے در میا ن امن قائم نہیں ہوگا ۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ ،مذہبى شعار کا احترام اور عبادت گاہوں کا احترام نہیں ہوگا۔ جب خالق کا ئنات نے لوگوں کو مختلف ر نگ و نسل ، سوچ اور عقائد دیے تو یہاں اختلاف تو رہیں گے ۔ ان تمام باتوں سے بالائےطاق ہو کر دنیا میں پر امن فضا پیدا کرنا اولین مقصد ہے ۔‘‘مکالمہ بین المذاہب کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ڈاكٹر عطاء اللہ صدیقی کہتے ہیں:
“The Reality is that the differences of religions are the plan of God and it is going to remain so for ever the human burden is to connect with the other and with respect”5
بین المذاہب عالمی اتحا د ، یگانگت و ہم آہنگی ، کائناتى امن ، رواداری ، افہام و تفہیم اور مفاہمت و مصالحت ، عقیدہ توحید اور دیگر مشترک اقدار بین المذاہب مکالمہ کے ذریعے حا صل ہو سکتا ہے دنیا کو امن کا گہو ارہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مثبت مکالمات کے ذریعے تکثیری معاشروں میں اجتماعی عدل کا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔ دیگر مذاہب اور مکتبہ ہائے فکر کے لوگوں کے بارے میں صحیح فہم اور اظہار ِ پسندیدگی اس وقت ترویج پا سکتی ہے جب ان کے عقیدہ اور فلسفہ کے بارے میں صحیح علم اور آگاہی ہو ۔ایسا مکالمہ بین المذاہب سے ممکن ہے۔ ہر قسم کا تشدد اور دہشت گردی اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک ہر قسم کی ناانصافی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔اسی نقطہ نظر کے تحت بین المذاہب ہم آہنگی کے مزید مقاصد ، جو سیاق و سباق اور پہل کے مخصوص اہداف کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہ ہیں:
تفہیم اور احترام کو فروغ دینا
بین المذاہب ہم آہنگی کا بنیادی مقصد مختلف عقائد کے لوگوں کے درمیان افہام و تفہیم اور احترام کو فروغ دینا ہے۔ اس میں لوگوں کو دوسری قوموں کے عقائد، طریقوں اور رسم و رواج کے بارے میں جاننے اور ان کی تعریف کرنے کے مواقع پیدا کرنا شامل ہے۔
امن اور مفاہمت کو فروغ دینا
بین المذاہب ہم آہنگی ان افراد اور برادریوں کے درمیان امن اور مفاہمت کو فروغ دینے کی کوشش کرتی ہے جو شاید تاریخی طور پر تنازعات کا شکار رہے ہوں۔ مکالمے اور افہام و تفہیم کو فروغ دے کر، بین المذاہب ہم آہنگی تناؤ کو کم کرنے اور گروہوں کے درمیان اعتماد پیدا کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔
تعاون اور تعاون کی حوصلہ افزائی
بین المذاہب ہم آہنگی کا مقصد مختلف مذہبی برادریوں کے درمیان تعاون اور اشتراک کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ اس میں مشترکہ اہداف اور اقدامات پر مل کر کام کرنا شامل ہے جس سے معاشرے کو مجموعی طور پر فائدہ پہنچے۔
تعصب اور امتیاز کا مقابلہ کرنا
بین المذاہب ہم آہنگی مذہب کی بنیاد پر تعصب اور امتیاز کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس میں رواداری اور شمولیت کے کلچر کو فروغ دینا، اور مختلف عقائد کے بارے میں دقیانوسی تصورات اور غلط فہمیوں کو چیلنج کرنے کے لیے کام کرنا شامل ہے۔
سماجی انصاف کو فروغ دینا
بین المذاہب ہم آہنگی بھی سماجی انصاف کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ بن سکتی ہے۔ مل کر کام کرنے سے، مختلف مذہبی کمیونٹیز ایسی پالیسیوں اور طریقوں کی وکالت کر سکتی ہیں جو سب کے لیے انصاف، مساوات اور انصاف کو فروغ دیتی ہیں۔
مذہبی شناخت کو مضبوط کرنا
بین المذاہب ہم آہنگی بھی مذہبی شناخت کو مضبوط کرنے کا ایک ذریعہ ہو سکتی ہے۔ مکالمے میں مشغول ہو کر اور دوسرے عقائد کے بارے میں سیکھنے سے، افراد اور کمیونٹیز اپنی مذہبی روایت کے لیے گہری تعریف حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی مذہبی برادری کے اندر تعلق کا زیادہ احساس پیدا کر سکتے ہیں۔
مخلتف برادریوں کے درمیان پل بنانا
بین المذاہب ہم آہنگی کا مقصد مختلف ثقافتوں اور برادریوں کے درمیان پل بنانا ہے۔ مکالمے اور افہام و تفہیم کو فروغ دے کر، بین المذاہب ہم آہنگی ایک زیادہ مربوط اور جامع دنیا بنانے میں مدد کر سکتی ہے جہاں مختلف عقائد کے لوگ ہم آہنگی کے ساتھ مل کر رہ سکتے ہیں اور کام کر سکتے ہیں۔
مکالمہ بین المذاہب اور ہم آہنگی کو در پیش چیلنجز
دوسرے مذاہب کو سمجھنے کا فقدان
دوسرے مذاہب کی تفہیم کا فقدان بین المذاہب ہم آہنگی کو درپیش اہم چیلنجز میں سے ایک ہے۔ لوگ اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے دوسرے مذاہب کے بارے میں سیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ تفہیم کی یہ کمی دقیانوسی تصورات، تعصب، اور یہاں تک کہ مختلف مذہبی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے نفرت کا باعث بن سکتی ہے۔اس مسئلے کا ایک حل تعلیم ہے۔ اسکول، یونیورسٹیاں اور مذہبی ادارے لوگوں کو مختلف مذاہب کے بارے میں تعلیم دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تعلیمی پروگرام بین المذاہب مکالمے کو فروغ دے سکتے ہیں اور لوگوں کو مذاہب کے درمیان مماثلت اور فرق کو سمجھنے میں مدد کر سکتے ہیں-
تاریخی تنازعات
مذہبی گروہوں کے درمیان تاریخی تنازعات بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے بھی چیلنج بن سکتے ہیں۔ بہت سے مذہبی تنازعات صدیوں سے چل رہے ہیں، اور زخم گہرے ہیں۔ تنازعات نے مذہبی گروہوں کے درمیان بداعتمادی اور نفرت کو جنم دیا ہے جس پر قابو پانا مشکل ہو سکتا ہے۔اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ماضی کے تنازعات اور حال پر ان کے اثرات کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ بین المذاہب مکالمہ ماضی کی غلطیوں کو دور کرنے اور پرامن بقائے باہمی کے لیے کام کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔
سیاسی عوامل
سیاسی عوامل جیسے حکومتی پالیسیاں، قانون سازی، اور پروپیگنڈہ بین المذاہب ہم آہنگی کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ سیاسی رہنما مذہب کو طاقت اور لوگوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے استعمال کر تے ہیں۔ اس سے مذہبی گروہوں کے درمیان تناؤ اور تصادم پیدا ہوتا ہے۔اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسی پالیسیوں کو فروغ دیا جائے جو مذہبی تنوع کا احترام کریں اور حکومتیں ایک ایسا ماحول بنانے کے لیے بھی کام کریں جو بین المذاہب مکالمے کو فروغ دے اور مذہبی رواداری کو فروغ دے۔
انتہا پسندی
انتہا پسندی بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔ انتہا پسند گروہ اکثر تشدد اور دہشت گردی کو جواز فراہم کرنے کے لیے مذہب کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ان کے مذہبی عقائد دوسروں سے برتر ہیں اور وہ اپنے خیالات دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے تشدد کا استعمال کرنے کو تیار ہیں۔اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے مذہبی گروہوں کے اندر اعتدال پسند آواز کو فروغ دینا ضروری ہے۔ مذہبی رہنما اپنی برادریوں میں امن اور رواداری کے پیغام کو فروغ دینے کے لیے کام کر سکتے ہیں۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ انتہا پسندانہ پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے اور امن اور رواداری کے پیغام کو فروغ دینے کے لیے بھی کام کریں.
سوشل میڈیا
میڈیا جس طرح اسلام کے بارے میں تاثر پھیلا رہا ہے اس سلسلے میں یہ رپورٹ ملاحظہ ہو:
"In the press, contemptuous stereotypes and cartoons were not confined to the tabloids but in clouded the broadsheets across the political spectrum. If some of the political cartoons has featured a Jewish rather than a Muslim character, they undoubtedly would have been judge anti-Semitic. The danger in this is that a ‘conceptual Muslim' will be fixed in the public mind as the 'conceptual Jew' was in the history of anti-Semitism"6
اس رپورٹ میں موجود مواد اور جن مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے وہ برطانوی سماج کے لیے نئے نہیں ہیں یہ تو مغرب کے دماغ کی پیداوار ہے کہ ہر چیز کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے اور اس کا غلط تاثر لیا جاتا۔ موجودہ دور میں جرمنی میں اسلام سیاسی اور سماجى سطح پر پھیل رہا ہے جرمن تشخص میں میڈیا اہم کردار ادا کر رہا ہے مختلف برادریوں کے اندر میڈیا اسلام کے تاثر کو دھندلا کر پیش کر رہا ہے جیسے اسلام دوسروں کے لیے خطرہ اور دھمکی ہو حالانکہ اسلام وہاں اقلیتی مذہب ہے۔سوشل میڈیا بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے بھی چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو مختلف مذہبی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور پروپیگنڈا کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔اس چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال کو فروغ دیا جائے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نفرت انگیز تقاریر کا مقابلہ کرنے اور بین المذاہب مکالمے کو فروغ دینے کے لیے کام کر سکتے ہیں۔ افراد اپنے آپ کو مختلف نقطہ نظر سے روشناس کرانے اور مختلف مذہبی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ باعزت مکالمے میں مشغول ہونے کی طرف بھی کام کر سکتے ہیں۔ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم انیسویں صدی کے کامیاب مکالموں کا دور واپس لا سکیں اور اس وقت کے عظیم مبلغین کے طرز پر چل کر معاشرے میں امن کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکیں۔
بین المذاہب ہم آہنگی پر مختلف قلم کاروں کی آراء
In "Interfaith Dialogue: A Guide for Muslims," Muhammad Shafiq emphasizes the importance of interfaith harmony, stating that it is crucial for promoting peace and understanding between people of different faiths. He also acknowledges the challenges of interfaith dialogue, such as language barriers and deeply held prejudices, but argues that these can be overcome through respectful and open-minded engagement.
محمد شفیق بین المذاہب ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان امن اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے لیے بہت ضروری ہے۔ وہ بین المذاہب مکالمے کے چیلنجوں کو بھی تسلیم کرتا ہے، جیسے کہ زبان کی رکاوٹیں اور گہرے تعصبات، لیکن دلیل دیتے ہیں کہ ان پر احترام اور کھلے ذہن کی مصروفیت کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہے۔7
In "The Pluralism Project: Interfaith Encounters in America," Diana Eck explores the need for interfaith harmony in the United States, where religious diversity is on the rise. She notes that interfaith dialogue can help to build bridges between different communities and create a more inclusive and equitable society. However, she also acknowledges that interfaith work can be challenging, particularly in a society where religious differences are often politicized.
Diana Eck نے ریاستہائے متحدہ میں بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت کو تلاش کیا، جہاں مذہبی تنوع بڑھ رہا ہے۔ وہ نوٹ کرتی ہے کہ بین المذاہب مکالمہ مختلف کمیونٹیز کے درمیان پل بنانے اور ایک زیادہ جامع اور مساوی معاشرے کی تشکیل میں مدد کر سکتا ہے۔ تاہم، وہ یہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بین المذاہب کام مشکل ہو سکتا ہے، خاص طور پر ایسے معاشرے میں جہاں مذہبی اختلافات کو اکثر سیاسی رنگ دیا جاتا ہے۔8
In "The Interfaith Alternative: Embracing Spiritual Diversity," Steven Greenebaum argues that interfaith harmony is not just a nice idea, but a necessary response to the urgent problems facing our world today. He contends that interfaith dialogue can help to overcome the polarization and divisiveness that plagues our society, and foster greater compassion and understanding between people of different backgrounds.
اسٹیون گرینبام نے دلیل دی ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی صرف ایک اچھا خیال نہیں ہے بلکہ آج ہماری دنیا کو درپیش فوری مسائل کا ایک ضروری جواب ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ بین المذاہب مکالمہ اس پولرائزیشن اور تفرقہ بازی پر قابو پانے میں مدد کر سکتا ہے جو ہمارے معاشرے کو متاثر کرتا ہے، اور مختلف پس منظر کے لوگوں کے درمیان زیادہ ہمدردی اور افہام و تفہیم کو فروغ دیتا ہے۔9
In "Interfaith Leadership: A Primer," 6. Reflects on the challenges of interfaith work, particularly in a world where religious differences are often a source of conflict. However, he also emphasizes the potential for interfaith dialogue to create positive change, stating that it can help to build bridges between communities and create a more peaceful and just world.
ایبو پٹیل بین المذاہب کام کے چیلنجوں کی عکاسی کرتے ہیں، خاص طور پر ایسی دنیا میں جہاں مذہبی اختلافات اکثر تنازعات کا باعث ہوتے ہیں۔ تاہم، وہ مثبت تبدیلی پیدا کرنے کے لیے بین المذاہب مکالمے کی صلاحیت پر بھی زور دیتے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ یہ کمیونٹیز کے درمیان پل بنانے اور ایک زیادہ پرامن اور منصفانہ دنیا کی تشکیل میں مدد کر سکتا ہے۔10
In "The Heart of the Qur'an: An Introduction to Islamic Spirituality," Lex Hixon discusses the concept of interfaith harmony from an Islamic perspective. He notes that Islam teaches respect for people of all faiths, and emphasizes the importance of working together to create a more just and compassionate world. He also acknowledges the challenges of interfaith work, but argues that these can be overcome through a shared commitment to the common good.
لیکس ہیکسن نے اسلامی نقطہ نظر سے بین المذاہب ہم آہنگی کے تصور پر بحث کی ہے۔ وہ نوٹ کرتے ہیں کہ اسلام تمام مذاہب کے لوگوں کا احترام سکھاتا ہے، اور ایک زیادہ منصفانہ اور ہمدرد دنیا بنانے کے لیے مل کر کام کرنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ وہ بین المذاہب کام کے چیلنجوں کو بھی تسلیم کرتا ہے، لیکن دلیل دیتا ہے کہ ان پر مشترکہ مفاد کے لیے مشترکہ عزم کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہے۔11
"Interfaith dialogue is not an option, it is a necessity" writes Karen Armstrong in her book "The Case for God". She argues that the world's major religions have more in common than most people think, and that we must recognize these shared values if we hope to build a more peaceful and harmonious world. Armstrong stresses the importance of empathy, compassion, and understanding as we engage in interfaith dialogue.
کیرن آرمسٹرانگ لکھتی ہیں "بین المذاہب مکالمہ کوئی آپشن نہیں ہے، یہ ایک ضرورت ہے۔" وہ استدلال کرتی ہے کہ دنیا کے بڑے مذاہب میں زیادہ تر لوگوں کے خیال سے زیادہ مشترکات ہیں، اور یہ کہ اگر ہم زیادہ پرامن اور ہم آہنگ دنیا کی تعمیر کی امید رکھتے ہیں تو ہمیں ان مشترکہ اقدار کو تسلیم کرنا چاہیے۔ آرمسٹرانگ ہمدردی اور افہام و تفہیم کی اہمیت پر زور دیتے ہیں جب ہم بین المذاہب مکالمے میں مشغول ہوتے ہیں۔12
Eboo Patel speaks from his own experience as a young Muslim-American struggling to reconcile his faith with the larger society. He writes about the challenges of building bridges between different religious communities, and the need to confront our own prejudices and assumptions in order to do so. Patel argues that interfaith harmony requires not just tolerance, but active engagement and collaboration.13
ایبو پٹیل ایک نوجوان مسلمان امریکی کے طور پر اپنے تجربے سے بات کرتے ہیں جو بڑے معاشرے کے ساتھ اپنے عقیدے کو ملانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ مختلف مذہبی برادریوں کے درمیان پل بنانے کے چیلنجوں کے بارے میں لکھتے ہیں، اور ایسا کرنے کے لیے ہمیں اپنے تعصبات اور مفروضوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پٹیل کا استدلال ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے صرف رواداری نہیں بلکہ فعال مشغولیت اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔
Gustav Niebuhr is a comprehensive look at the state of interfaith relations in the United States. Niebuhr writes about the challenges facing different religious communities as they seek to build bridges with one another, including political polarization, cultural misunderstandings, and institutional barriers. He argues that interfaith harmony requires not just individual effort, but also structural change, and calls for a more inclusive and equitable society.14
Gustav Niebuhr امریکہ میں بین المذاہب تعلقات کی حالت پر ایک جامع نظر ڈالتے ہیں۔ Niebuhr مختلف مذہبی کمیونٹیز کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں لکھتے ہیں کیونکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ پل بنانے کی کوشش کرتے ہیں، بشمول سیاسی پولرائزیشن، ثقافتی غلط فہمیاں، اور ادارہ جاتی رکاوٹیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے نہ صرف انفرادی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ اس کے لیے ساختی تبدیلی بھی ہوتی ہے، اور اس کے لیے زیادہ جامع اور مساوی معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے۔
نتائج بحث
پرامن اور عدل و انصاف پر مبنی، معاشرے کی تشکیل بين المذاہب مكالمہ کا اہم تقاضا ہے۔ جیسا کہ دور حاضر ميں انتہا پسندى آئے دن بڑھتی چلی جا رہی ہے، جو عالمی امن کے لئے زہر قاتل ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے مکالمے کی پرامن فضا قائم کی جائے اور اس اس طرز کو رواں رکھا جائے جن پر عمل پیرا ہو کر بزرگان دین نے دنیا میں پر امن معاشرے کی تشکیل کو ممکن بنایا تا کہ مذہب کے امتیازات سے قطع نظر سب کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جا سکے اور کسی کی عزت نفس کو مجروح کئے بغیر اور کسی کر حقیر، کمزور سمجھے بغیر معاشرے کی بقا کو ممکن بنایا جا سکے۔ بیسویں صدی میں مکالمہ بین المذاہب ہم آہنگی سے متعلق دنیا کے رجحانات کا جائزہ لینے کے لئے زیر نظر مقالہ میں مکالمہ بین المذاہب ہم آہنگی کی تاریخ، اس کی اہمیت، چیلنجز اور مختلف مقاصد کو مد نظر رکھا گیا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی ابتدا سے اب تک کن عوامل نے اقوام کی ذہنی اور فکری ارتقا میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس لیے تحقیق میں اہمیت و مقاصد کی طرف زیادہ توجہ دی گئی ہے جو موجودہ دور متشدد اور مذہبی تنافر کے سدباب کے لئے انتہائی اہم عوامل ہیں ۔
اس بحث سے درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں:
1- مذاہب کا آپس میں پر امن طریقے سے رہنے کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش میں لگے رہنا۔
2- دنیا کے مذاہب کو زیر مطالعہ لا کر ایک دوسرے کو سمجھنے کی لگن۔
3- مختلف اہم شخصیات کا تعارف جنہوں نے بین المذاہب ہم آہنگی میں اہم کردار ادا کیا۔
4-مذاہب کے آپس کے اختلافات کو ختم کرنے کی بجائے انہیں تسلیم کر کے زندگی بسر کرنا۔
5-مذاہب کا آپس میں شترکات پر مکالمے کو اہمیت دینا۔
اس مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اقوام کی بہتری اور پر امن زندگی کا واحد حل بین المذاہب ہم آہنگی ہے اور مکالمے کی فضا کو بہتر بنا کر پر امن معاشرہ قائم کرنا یے۔ مکالمے کو پر اثر اور جدید تناظر میں رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کرنا جن سے مذاہب عالم کا کسی قسم کی ہتک کا شکار نہ ہوں۔ اور ایسا رویہ اپنایا جائے جو انسانیت کے معیار پر پورا اترتا ہو، ایسا اسلوب جو مکالمہ بین المذاہب کے آغاز میں اہم ترین شخصیات اپنائے ہوئے تھیں۔ جنہوں نے مکالمہ بین المذاہب ہم آہنگی کی ثقافت کو بیدار رکھا اور اپنے بہترین انداز گفتگو سے معاشرے میں مثبت بدلاو کا سبب بنے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا شخصیات کی "فکر" بین المذاہب ہم آہنگی آخر کن عوامل کی مرہون منت تھی؟ کیا ان لوگوں نے محض اسلام کو واحد سچا دین ثابت کرنے پر زور دیا یا امن کی خاطر تمام مذاہب کو برابر رکھا یا بعد ازاں ان کی فکر اور اسلوب میں کوئی نئی تبدیلی آئی یا نہیں۔؟
1 القرآن 125 : 16۔
2 محمد حسین ھیکل، سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ) لاہور: مکتبہ کارواں،1971ء(، 25 ۔
3 محمد اکرم ورک، بین المذاہب مکالمہ کی اہمیت، ترجیحات اور تقاضے (فیصل آباد : مرکزِ تحقیق ،2006ء )، 85۔
4 Michael Nazir Ali, Mission and Dialogue: Proclaiming the Gospel Afresh in Every Age (London: SPCK, 1995), 128.
5 Attaullah Siddique, the purpose of interfaith dialogue, www.mine.org.uk.
6 Douglas Pratt, The Challenge of Islam: Encounters in Interfaith Dialogue (Turkmenistan: Ashgabat ltd, 2005), 190.
7 "Muhammad Shafiq, Interfaith Dialogue: A Guide For Muslims (Herndon: International Institute of Islamic Thought, 2011), 10.
8 Kate McCarthy, Interfaith Encounters in America (London: Rutgers university press, 2007),12.
9 Steven Greenbaum, The Interfaith Alternative: Embracing Spiritual Diversity (Oakland: Berrett-Koehler Publishers 2012), 25.
10 Eboo Patel, Interfaith Leadership: A Primer (Boston: beacon press, 2016), 24.
11 Lex Hixon, The Heart of the Qur'an: An Introduction to Islamic Spirituality (Wheaton IL: Quest book, 2003), 124.
12 Karen Armstrong, The Case for God (Manhattan: A division of random house, 2009), 29
13 Eboo Patel, Acts of Faith: The Story of an American Muslim (Boston: Beacon Press, 2007), 42
14 Gustav Niebuhr, Beyond Tolerance: Searching for Interfaith Understanding in America (New York: Viking publisher, 2008), 55.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 2 Issue 1 | 2023 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2023 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2023 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2023 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2023 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |