33
1
2019
1682060084478_1056
41-55
http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/78
قراءت قراءۃ کی جمع ہے اور مصدر ہے قرأ فعل کا اور یہ مصدر قراءۃ اور قرآنا دونوں طرح استعمال ہوا ہے اورلفظ قراءات تلاوت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اگرچہ اس کے حقیقی معنی الجمع والضم کے آتے ہیں، یعنی جمع کرنا، ملانا۔چنانچہ عرب کایہ مشہور مقولہ بھی اسی قبیل سے ہے: ماقرأت ہذہ الناقۃ جنینًا قط۔ یعنی اس اونٹنی کی بچہ دانی کبھی بھی بچہ والی نہیں ہوئی۔ اور قرآن کریم کو بھی قرآن اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ آیات اور سورتوں کا جامع ہےاوران کوآپس میں ملانے والا ہے۔([1])
قراءا ت کی اصطلاحی تعریف
قراء کرام نے قراءا ت کی متعدد تعریفیں کی ہیں، لیکن ان میں سب سے بہترین اور جامع تعریف امام ابن جزری ر حمہ اللہ نے کی ہے:علم بکیفیۃ أداء کلمات القرآن واختلافھا معزوًا لناقلہ۔یعنی علم القراءا ت کلمات قرآنیہ کی ادائیگی کی کیفیت اور کلمات قرآنیہ میں جو اختلاف ناقلین سے منقول ہے ا س کو جاننے کا نام ہے۔([2])
جبکہ شیخ عبدالفتاح القاضی رحمہ اللہ نے علم قراء ات کی جو تعریف کی ہے، اس کا حاصل یہ ہے : ھو علم یعرف بہ کیفیۃ النطق بالکلمات القرآنیۃ وطریق أدائھا اتفاقًا واختلافًا مع عزو کل وجہ لناقلہ۔یعنی علم القراءا ت اس علم کا نام ہے جس سے قرآنی کلمات کے تلفظ ونطق کی کیفیت اور ان کی ادا (یعنی حذف وغیرہ) میں قرآن مجید کے ناقلین کا وہ اتفاق و اختلاف معلوم ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہونے کی بنا پر ہو، ذاتی رائے پر مبنی نہ ہو اور اس میں اختلافی و اتفاقی وجہ کو اس کے ناقل کی طرف منسوب بھی کیا جائے۔ ([3])
خلاصہ یہ ہے کہ قراءات چونکہ منقولی چیز ہے،اس لیے اس میں اصل مدار نقل پر ہے، یعنی وہی قراءا ت معتبر ہوں گی جو رسول ﷺ سے سندِ متواتر کے ساتھ ثابت ہو ں۔([4])
علم قراءات کا موضوع
علم قراءات کا موضوع ان کلماتِ قرآنیہ کے اصولی اور فرشی اختلافات کا تلفظ اور کیفیت ادا ءکا پڑھنا پڑھانا ہے جو ائمہ قراء ات سے منقول ہوں اور سند صحیح اور متواتر سے حضورﷺ سے ثابت ہوں۔([5])
علم القراءات کی اصطلاحات
1۔القراء ۃ 2۔الروایۃ 3۔الطریق 4۔الوجہ 5۔الاصول 6۔الفرش
۱۔القراءۃ
ہر وہ اختلاف جو ائمہ قراء ت میں سے کسی امام کی طرف منسوب ہو اور اس کلمے کو تمام راویوں نے ایک ہی طرح نقل کیا ہو جیسے سورۂ فاتحہ میں کلمہ ملک یوم الدین" میں دو قراءتیں ہیں:
(الف)ملک یوم الدین، یعنی حذف الف کے ساتھ، یہ امام ابو جعفر، امام نافع، امام ابن کثیر، امام ابوعمرو، امام ابن عامر اور امام حمزہ کی قراء۱ت ہے۔
(ب)مالک یوم الدینیعنی اثبات الف کے ساتھ، یہ امام عاصم، امام کسائی امام یعقوب اور امام خلف کی قراءت ہے۔ان مذکورہ ائمہ کے رواۃ کا اس کلمے کے نقل کرنے میں کوئی اختلاف منقول نہیں ۔ ([6])
پس اسی وجہ سے قراء ت منسوب ہوتی ہے ان راویوں کے شیوخ کی طرف اور اس اختلاف مذکور کو قراء ات سے تعبیر کیا جاتا ہے، چنانچہ کہا جاتا ہے، قراء ات ِ امام نافع، قراءا ت امام عاصم وغیرہ۔
۲۔الروایۃ
قراءات کا ہر وہ اختلاف جو ائمہ قراءا ت میں سے کسی امام کے راوی کی طرف منسوب ہو تو وہ اختلاف روایت کہلاتا ہے، خواہ وہ راوی براہ راست اس امام کا شاگرد ہو یا بالواسطہ شاگرد ہو، جیسے سیدنا دوری کی روایت امام ابو عمرو سے یحیی یزیدی کے واسطے سے ہے؛ کیونکہ دوری یحیی یزیدی کے شاگرد ہیں، انھوں نے براہ راست امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ سے قراءت حاصل نہیں کی، اور یحیی یزیدی ابو عمر و بصری کے شاگرد ہیں، لیکن دوری کی شہرت ابوعمرو بصری كے راوی کے طور پر ہے۔
جبکہ قالون اور ورش کی روایت امام نافع سے اور اسی طرح شعبہ اور حفص کی روایت امام عاصم سے براہ راست ہے، کیونکہ ان حضرات نے اپنے شیخ سے براہ راست قراءت اخذ کی ہے اور اس طرح انھیں شرفِ تلمذ حاصل ہے، چنانچہ ہر وہ اختلاف جو امام سے اخذکرنے والے کی طرف منسوب ہو خواہ وہ واسطہ ہی سے کیوں نہ ہو، اُسے روایت کہا جاتا ہے، جیسے کلمہ "الصراط" جہاں کہیں آئے تو یہ خالص سین کے ساتھ پڑھتے ہیں، امام قنبل کی روایت ہے امام ابن کثیرسے اور رویس کی روایت ہے امام یعقوب سے۔([7])
۳۔الطریق
قراءات کا ہر وہ اختلاف جو راوی کے شاگرد کی طرف منسوب ہو، اگرچہ وہ شاگرد کتنے ہی واسطوں سے ہو طریق کہلاتا ہے، جیسے روایت ورش کے لیے اصبہانی کا طریق اور روایت حفص کے لئے عبید بن صباح کا طریق وغیرہ۔([8])
۴۔الوجہ
قراءات کا ہر وہ اختلاف جو جائز اور مباح کے قبیل سے ہو "الوجہ" کہلاتا ہے، جیسا کہ دو سورتوں کے درمیان وصل یا فصل کے ساتھ بسم اللہ کا پڑھنا۔ چنانچہ جس قاری نے دو سورتوں کے درمیان پڑھی ہے، اس کے لیے یہ بات جائز ہے کہ وہ آنے والی وجوہ میں سے کسی بھی وجہ سے پڑھے، وہ وجوہ یہ ہیں:
وصل الکل:اس کا مطلب یہ ہے کہ پچھلی سورت کی آخری آیت اور بسم اللہ اور اگلی سورت کی ابتدا ان تینوں کو ایک سانس میں پڑھنا۔
فصل الکل:پچھلی سورت کی آخری آیت پر وقف کرےاورپھر بسم اللہ پر وقف کرے اور پھر اگلی سورت کو الگ پڑھے، یعنی تینوں اجزا کو الگ الگ سانس میں پڑھنا۔
وصل الثانی بالثالث: پچھلی سورت کی آخری آیت پر وقف کرنا اور بسم اللہ اور اگلی سورت کی آیت کو ملا کر پڑھنا۔
وصل الاول بالثانی وہو ممنوع:اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پچھلی سورت کی آخری آیت اور بسم اللہ کوایک سانس میں پڑھنااور اگلی سورت کو الگ سانس میں پڑھنا، یہ صورت ناجائز ہےاور اس کی وجہ یہ ہے کہ بسم اللہ کا پچھلی سورت سے وصل کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بسم اللہ پچھلی سورت کا جز ہے ، حالانکہ یہ غلط ہے، بلکہ بسم اللہ اگلی سورت کا حصہ ہے۔مثال: وأما بنعمۃ ربک فحدث۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ألم نشرح لک صدرک۔ان میں آخری وجہ ناجائز ہے، باقی جائز ہیں۔([9])
۵۔الاصول
ہر وہ حکم کلی اصل کہلاتا ہے جو ہر چیز پر لگتا ہوجس میں اس حکم کلی کی تمام شرائط پائی جائیں، اس کا اطلاق احکام کلیہ پر بھی ہوتا ہے، جیسا کہ میم جمع کا صلہ، مدات، ہمزہ کی تسہیل، نقل حرکت، امالہ وغیرہ۔ ([10])
۶۔الفرش
وہ اختلافات جو ائمہ کی طرف منسوب ہیں، لیکن وہ کلی اختلافات نہ ہوں، مثال کے طور پر کلمہ مالک یوم الدین میں الف کے حذف اور اثبات دونوں کےساتھ پڑھا گیا ہے، اب یہ اختلاف ہر جگہ نہیں، صرف سورۂ فاتحہ میں ہے۔([11])
قراءات کی قسمیں
قراءا ت کی دو قسمیں ہیں :(الف)قراءا ت مقبولہ (ب)قراءا ت مردودہ
(الف)قراءا تِ مقبولہ :وہ قراءا ت ہیں، جن میں تین شرائط پائی جائیں:
1۔وہ قراء ت تواتر سے ثابت ہو۔
2۔لغت عربی کے موافق ہو، اگر چہ کسی بھی ایک وجہ سے ہو۔
3۔مصاحف عثمانیہ میں سے کسی بھی ایک مصحف کے رسم کی موافقت کرے اگر چہ یہ موافقت احتمالاً ہو۔
قراءاتِ مقبولہ کاحکم: یہ قراءات کی وہ قسم ہے، جس کے بارے میں علماء نے فرمایا ہے:
1۔ہر مسلمان پر اس قسم کی قراءا ت کے بارے میں قرآن ہونے کا عقیدہ رکھنا واجب ہے۔
2۔ان کے مطابق نماز، خارج نماز بطور عبادت تلاوت کی جائے گی ۔
3۔اس قسم کی قراء ت کا منکر کافر قرار دیا جائے گا، اگرچہ کسی ایک حرف کا منکر ہو ۔
(ب)قراءاتِ مردودہ:قراءات مردودہ وہ قراء ت ہے جن میں قراءات مقبولہ کی شرائط ثلاثہ میں سے کوئی بھی ایک یا ایک سے زیادہ شرائط نہ پائی جائیں۔
قراءاتِ مردودہ کاحکم: قراءات شاذہ کے بارے میں ائمہ قراءات کا کہنا ہے :
1۔اس قسم کی قراءا ت کے بارے میں قرآن ہونے کا اعتقاد رکھنا جائز نہیں۔
2۔عبادت کے طور پر قراءا ت شاذہ کی تلاوت کرنا جائز نہیں۔
3۔جو شخص قراء ات شاذہ کو بطور عبادت کے پڑھنے پڑھانے پر اصرار کرے، اس پر تعزیر جاری کرنا واجب ہے۔ ([12])
علم قراءات کی فضیلت
علم قراءت تمام علوم میں سب سے عظمت والا علم ہے اور مرتبے کے لحاظ سے تمام علوم میں سب سے اونچی شان والا ہے؛ کیونکہ اس کا تعلق ایک ایسی کتاب سے ہے جو تمام آسمانی کتابوں میں علی الاطلاق سب سے اشرف اور افضل کتاب ہے اور یہ وہ عظمت و شرافت والی کتاب ، قرآن مجید اور کتاب مبین ہے، جس کو اللہ تعالی نے مخلوق کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے اتارا ہے، اور اس کو ایک واضح شریعت اور پوری انسانی زندگی کے لیے مکمل ضابطۂ حیات بنا کر نازل فرمایا ہے، اور اللہ تعالی نے اس کتاب کو دوسری کتابوں پر فضیلت بخشی ہے اور اس کو ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:”اور ہم نے یہ کتاب آپ کے پاس بھیجی ہے، جو خود بھی صدق کے ساتھ موصوف ہے، اور اس سے پہلے جو کتابیں ہیں، ان کی بھی تصدیق کرتی ہے اور ان کتابو ں کی محافظ ہے۔“ ([13])
اور اللہ تعالی نے اس عظیم کتاب کی قراءت اور تلاوت کو ایک عظیم عبادت اور پسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ”سب سے افضل عبادت تلاوت قرآن ہے۔“([14])
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”میری امت کی عبادت میں سب سے افضل عبادت قرآن مجید پڑھنا ہے۔“([15])
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کو جہاد کے مقابلے میں تلاوت قرآن زیادہ محبوب تھی؛ کیونکہ سرور دوعالم ﷺ کا ارشادہے:” تم میں سب سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے۔“([16])
حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قصہ منقول ہے: وہ فرماتے ہیں کہ” میں خواب میں اللہ تبارک وتعالی کی زیارت و دیدار سے شرف یاب ہوا، میں نے عرض کیا: اے میرے پروردگار! تقرب حاصل کرنے والے جن ذریعوں سے آپ کا قرب حاصل کرتے ہیں، ان میں سے سب سے افضل ذریعہ کیا ہے؟ فرمایا: اے احمد! میرا کلام (قرآن مجید) ہے، میں نے عرض کیا، یا اللہ، سمجھ کر پڑھا جائے تب یا بے سمجھے بھی؟ فرمایا: سمجھ کر پڑھے یا بے سمجھے، دونوں صورتوں میں میرے قرب کا ذریعہ ہے۔“
قرآن مجید کے شرف اور رتبے کی وجہ سے حاملین قرآن اس امت کی اشرف ہستیاں ہیں، اور قرآن پاک پڑھنے اور پڑھانے والے اس امت میں سب سے افضل لوگ ہیں۔
قرآن پاک کی اس عظمت کی وجہ سے بزرگان دین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور حضرات تابعین قرآن پاک پڑھنے پڑھانے کے انتہائی شیدائی تھے، اور یہ حضرات کسی چیز کو قرآن مجید پڑھانے کے برابرقرار نہیں دیتے تھے، روایت میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کسی نے یہ پوچھا:”آپ (نفل) روزے بہت کم رکھتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا: یہ اس وجہ سے ہے کہ جب میں روزہ رکھتا ہوں تو قرآن مجید کی تلاوت سے عاجز ہوجاتا ہوں اور اس میں کمی آجاتی ہے، اورقرآن مجید کی تلاوت مجھے زیادہ محبوب ہے۔“([17])
جلیل القدر تابعی حضرت ابو عبدالرحمان السلمی رحمہ اللہ تعالی (وفات سن۷۳ ھ یا۷۴ ھ) ([18]) کے بارے میں آتا ہے کہ” آپ جب یہ حدیث "خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ"روایت کرتے تو ارشاد فرماتے کہ: مجھے اس حدیث نے یہاں (مسجد کوفہ میں) قرآن کے پڑھنے پڑھانے کے لیے بٹھا دیا ہے، اس سے آپ کا ارشاد جامع مسجد کوفہ میں بیٹھ کر قرآن پڑھانے کی طرف تھا، باوجود یہ کہ لوگ آپ کے علوم سے فیض یاب ہونے کے محتاج تھے اور آپ ایک متبحر عالم اورجلیل القدر ہستی تھے، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود چالیس سال جامع مسجد کوفہ میں بیٹھ کر لوگوں کو قرآن پڑھاتے رہے، اور حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہما نے بھی آپ سے اکتساب فیض کیا۔“ ([19])
اللہ تعالی نے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو ان کی اس کتاب مقدس کے بارے میں (جس کو اس امت کے نبی الرحمۃ ﷺ پر نازل فرمایا) وہ خصوصیت بخشی ہے، جو کسی اور امت کو ان کی کتابوں سے متعلق نہیں بخشی، وہ خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کی حفاظت کی ذمے داری خود لی ہے، اور اس کی حفاظت کی ذمے داری ہم پر نہیں ڈالی، بخلاف دوسری آسمانی کتابوں کے کہ ان کی حفاظت کی ذمے داری اللہ تعالی نے خود نہیں لی، اللہ تعالی کا ارشاد ہے، ترجمہ:”بے شک ہم نے اس کتاب کو اتارا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔“ ([20])
امام ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:”قرآن مجید نبی کریم ﷺ کی نبوت کے ثبوت کے لیے ایک عظیم الشان معجزہ ہے، اور یہی زیادہ بلند پایہ معجزہ بن گیا اور یہ معجزہ اس لیے ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے ان کو قرآن کی ایک ہی سورت کے مثل لے آنے کے ذریعے چیلنج کیا اور وہ لوگ جوتمام عرب میں فصیح تر اور ضد و عناد اور ظلم و انکار میں نہایت سخت ہیں،اور اس کے باوجود قرآن جیسی ایک آیت نہ بناسکے۔“ ([21])
اور قرآن مجید کی توصیف بیان کرتے ہوئے علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”بلکہ قرآن اتنا بڑا سمندر ہے کہ اس کی کوئی تہہ نہیں، کہ جہاں وہ ختم ہوجائے، اور نہ اس کے اخیر کی کوئی انتہا ہے، کہ جس جگہ وہ ٹہر جائے۔“([22])
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ علم قراءات تمام علو م میں قدرومنزلت کے لحاظ سے سب سے اشرف اور مرتبے کے لحاظ سے اعلی اور ارفع علم ہے اور یہی عمومی طورپر تمام علوم عربیہ کا سرچشمہ ہے،اور خاص طورپر علوم شرعیہ کا منبع ہے، قراء کرام، مفسرین، محدثین، فقہاء اور علماء لغت تمام کے تمام یکساں طورپر علم قراءات کے محتاج ہیں، اور اسی علم کے ساتھ کچھ دوسرے علوم بھی متعلق ہوتے ہیں، مثلا علم تراجم قراء ، علم توجیہ قراءات،علم رسم المصحف، علم الضبط، علم الفواصل، علم التجوید، علم الوقف والابتداء اور دوسرے علوم۔ یہیں سے اس علم کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے اور اس کی قدرومنزلت واضح ہوجاتی ہے۔
امام شہاب الدین قسطلانی رحمہ اللہ(متوفی۹۲۳ ھ)فرماتے ہیں:” یقیناً قرآن مجید تمام علوم کا سرچشمہ اور ان کے پھلنے پھولنے کی جگہ ہے، نیز علوم معرفت کا معدن (کان) اور ان کا مبدأ ہے، اور شریعت کے احکام اور قواعد کی بنیاد اور جڑہے، اور ہر علم کی اصل اور اس کی روح ہے، قرآن مجید کے معانی پر مطلع ہونا، اس کی تراکیب اور تالیف اور اس کے اشتقاق و اصل کو سمجھے بغیر ممکن نہیں، اور وجوہ قراءت و اختلاف روایت کا علم حاصل کیے بغیر قرآن مجید کے ان حقائق و معانی کو جاننے کی امید نہیں کی جاسکتی، جن حقائق و معانی کے عجائبات و نکات کی کوئی انتہا نہیں، اسی وجہ سے علم قراء ات تمام علوم نافعہ میں سب سے عظیم ہے اور جب یہ بات ہے کہ علم کی شرافت اس کے متعلق کی شرافت کی وجہ سے ہوتی ہے تو یقینًا اس علم کے ان حاملین کو جو اللہ تعالی کے قرب والے اور اس کے خاص بندے ہیں، اس شرافت کے ساتھ خاص کیا گیا کہ وہ اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے چنیدہ ہستیاں اور اس کی پیدا کردہ خلائق میں سب سے زیادہ برگزیدہ ہیں، تمھارے لیے یہ عظیم شرف اور پائیدار بزرگی کافی ہے، اس پر مستزاد وہ فضائل ہیں جو اس دنیا و آخرت میں ملنے والے ہیں، اور وہ درجات ہیں جو ان کے لئے عنداللہ مقرر ہیں، چنانچہ ان کے اوصاف کا ہمیشہ تذکرہ رہے گا اور ان کی خوبیاں رہتی دنیا تک ظاہر کی جائیں گی۔“ ([23])
نیز علم قراءات کے ذریعے تفسیری وجوہ میں سے کسی وجہ کو ترجیح دی جاتی ہے اور احکام فقہ مختلف فیہا میں بعض کو بعض پر ترجیح دی جاتی ہے، اسی سے قرآن کی وجوہِ اعجاز واضح ہوجاتی ہیں، اور اس کی بلاغت کی شان ظاہر ہوجاتی ہے، قرآن کا قراءا ت مختلفہ پرمشتمل ہونااس کی ایک ایسی خصوصیت ہے، جس کی نظیر کسی اور آسمانی کتاب میں نہیں ملتی۔
ارض پاکستان میں علم قراءات کا ایک چمکتا ستارہ
ارض پاک میں اس مقدس علم کی شروعات کرنے والے اور عظیم سطح تک اس علم قراءات کو پہنچانے والے بزرگ کا بھی اس مقام پر مختصر تذکرہ کردینا مناسب ہوگا کہ سر زمین ِپاکستان بجا طور پر ان کی قراءات پر خدمات کا احسان مند ہے۔
آپ کا نام رحیم بخش بن چوہدری فتح محمد تھا، آپ کی ولادت ضلع کرنال محلہ چوڑا کنواں (انڈیا) میں رجب المرجب 1341ھ کو ہوئی۔ ساڑھے تین برس کی عمر میں والد ماجد کا سایۂ عاطفت اٹھ گیا اور والدہ ماجدہ نے تعلیم دلانے کی سعی فرمائی۔ آپ فطرتاً ذہین تھے ۔چار سال کی عمر میں پڑھنا شروع کیا، قاعدہ، ناظرہ قرآن سے فراغت پر مدرسہ اشرفیہ پانی پت میں حفظ قرآن کی ابتداءامام القراء حضرت قاری فتح محمد صاحب سے آٹھ سال کی عمر میں کی اور دو سال کی عمر میں حفظ مکمل کرلیا۔ فارسی اور ابتدائی عربی کتب ( شرح جامی، کنز الدقائق وغیرہ تک) حضرت مولانا قاری فتح محمد صاحب اور حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب مفتی پانی پت سے 1358 ھ تک پڑھیں ۔ اسی دوران 28 /محرم الحرام 1357ھ بعمر سولہ سال پہلا نکاح ہوا۔ بعد ازاں تکمیل علوم کی غرض سے 8 /ذی قعدہ 1358ھ کومدرسہ دارالعلوم دیو بند پہنچے اور چار سال وہاں رہ کر بعمر 21 سال تمام علوم متداولہ سے فراغت حاصل کی۔
دارالعلوم میں آپ کے اساتذہ میں ان جبال العلم اساتذہ کے نام سرفہرست ہیں
1۔حضرت مولانا حسین احمد مدنی،2۔ حضرت مولانا اعزاز علی،3۔حضرت مفتی ریاض الدین، 4۔ حضرت مولانا قاری اصغر علی، 5۔ حضرت مولانا سید اختر حسین، 6۔ حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیالوی،7۔حضرت مولانا فخر الحسن صاحب ،8۔ حضرت مفتی محمد شفیع رحمہم اللہ ۔
پاکستان بننے سے چار سال قبل ذی قعدہ 1362ھ مطابق 1942ء میں حضرت مولانا محمد علی جالندھری کی دعوت پر جامعہ محمدیہ تعلیم القرآن مسجد سراجاں حسین آگاہی ملتان میں تدریس شروع کی۔ مدرسہ محمدیہ کے جامعہ خیر المدارس میں ضم ہوجانے کے بناپر استاد العلماء حضرت مولانا خیر محمد صاحب جالندھری کی دعوت پر شوال 1467ھ میں بعمر 26 سال جامعہ خیر المدارس ملتان میں بحیثیت صدر مدرس شعبہ حفظ و تجوید و قراءات تدریسی خدمات انجام دینے لگے۔ ان کے انداز تدریس میں سب سے نمایا ں وصف ان کا پابندیٔ وقت کا عنصر تھا۔
اوقات تدریس کی پابندی قاری صاحب کی طبیعت ثانیہ بن گئی تھی۔سردی، گرمی، بیماری کمزوری کوئی چیز بھی قراءات کی تدریس کے لیےرکاوٹ نہ تھی ۔ آپ کاآغاز تدریس کا سن 1362 ھ اور اختتام 1402ھ ہے، اس چالیس سالہ دور تدریس میں آپ سے سینکڑوں قراء و حفاظ فیض یاب ہوئے، صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ سعودی عرب، ایران، افریقہ، لندن، کنیڈا، ملائیشیا میں علم تجوید و قراءات کی خدمات سر انجام دیں۔([24])
علم القراءات پاکستان میں ایک نئے انداز سے
حضرت قاری نے سب سے پہلےاس بات کی کوشش کی کہ عجم میں قرآن پاک کو بالعموم تجوید کے ساتھ نہیں پڑھا جاتا، قرآن کریم کو حفظ تو کرلیا جاتا ہے لیکن اداکے لحاظ سے عرب کے لب و لہجے اور مخارج و صفات کا خیال بالکل نہیں رکھا جاتا۔لہٰذا حفظ میں ادا پر ایسی کوشش کی جائے تاکہ قرآن پاک کا حق ادا ہوجائے اور ادا کے درست کرنے کے جو قواعد ائمہ تجوید و قراءات نےمرتب کیے ہیں ان کو عملی جامہ پہنایا جائے اور عربی کتابوں کو ایسے آسان انداز میں اردو زبان میں پیش کیا جائے تاکہ پاکستان کے لوگ ان سے بآسانی استفادہ کرسکیں، لہذا علم تجوید کی مایہ ناز کتاب ”المقدمہ الجزریہ“ کی اردو میں شرح لکھی ” العطایا الوہبیہ“ کے نام سے، جو صرف شرح نہیں بلکہ تجوید کے تمام مسائل کو اس میں ذکر کردیا جو متقدمین علمائے کرام نے اپنی مختلف کتابوں میں ذکر کیے تھےاور اردو دان حضرات ان سے ناواقف تھے بلکہ بہت ساری کتابیں اس وقت نایاب اور مخطوطات کی شکل میں تھیں۔ قرآن پاک کو مکمل تجوید کے ساتھ حفظ کرنے کا طریقہ کار پر بھی ایک کتاب لکھی جو کہ ”آداب تلاوت“ کے نام سے مشہور ہے۔
علم قراءات سے تو گویا پاکستان کے لوگ بالکل نا واقف تھے اور اکثر اہل علم کا بھی جو کہ فقہ، تفسیر، عربی لغت کے پڑھنے پڑھانے پر اکتفا کیے ہوئے تھے علم قراءات کی طرف بالکل رجحان نہ تھا۔ عمومی طور پر قراءات سے گویا لوگ نا آشنا تھے بلکہ بعض جاہل لوگ قراءات کے ساتھ تمسخر کیا کرتے تھے ایسے وقت میں قاری صاحب نے ضروری سمجھا کہ قراءات کے اس علم کو زندہ کیا جائے۔ اس کے لیے اردو زبان میں الگ الگ کتابیں لکھیں تاکہ حفظ پختہ کرنے کے بعد ان قراءات کو یاد کیا جائے اور عملی طور پر ان کو پڑھا جائے۔ لہذا حضرت قاری رحمہ اللہ نے ہر قاری اور پھر ان کے راوی کے لیے الگ الگ کتاب لکھی پہلے اصول و قواعد تحریر کیے اور پھر فاتحہ سے لے کر والناس تک تمام اختلافی کلمات تحریر فرمائے۔ حافظ جب ان کو یاد کرے تو نہایت ہی آسان طریقے سے کیونکہ اتفاقی کلمات تو یاد کرلیے جاتے ہیں حفظ میں اور اختلافی کلمات ان کتابوں سے یاد کرکے قرات میں پڑھنا آجاتا ہے، مثلا: روایت قالون رحمہ اللہ پر کتاب تحریر فرمائی گویا کہ وہ پورا قرآن پاک ہے فاتحہ سے لے کر والناس تک تمام اختلافی کلمات مندرج ہیں۔
قراءات عشرہ دس ہیں اور ان کے روات عشرین بیس ہیں، لہٰذا ہر ایک کے لیے الگ الگ کتاب تحریر فرمائی اور اس پر بس نہیں بلکہ عملی طور پر ہر ایک روایت کو یاد کروایا اور مکمل قراءات عشرہ کے حفاظ و قراء تیار کیے ا س طرح ایک عظیم اور تجدیدی کام انجام دیا۔ اس وقت کے اساتذہ اور علم قراءات کے ماہرین نے انھیں علم قراءات کا مجدد کہا۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ قاری صاحب علم قراءات پر جتنی کتابیں عربی میں موجود تھیں ان کا ترجمہ کیا اور عظیم شروحات بھی تحریر فرمائیں۔ ان کی کتابوں کے صرف نام پڑھ لینے سے ان کے کام اور لگن کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
قاری صاحب کا پہلا بڑا کارنامہ
امام ابو عمرو ودانی کی کتاب تیسر جو کہ قراءات کی امہات الکتب میں سے ہے اس کے متعلق امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی منظوم کتاب حرز الامانی میں فرماتے ہیں( وفی یسرها التیسیر رمت اختصارہ )یعنی میں نے اپنی کتاب کو تیسیر سے لیا ہے اور امام شاطبی کی کتاب کو پوری دنیا میں قراءات کے حصول کے لیے پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے ۔لہذا حضرت قاری صاحب نے تیسیر کی شرح اور ترجمہ لکھ کر اہل پاکستان پر عظیم احسان فرمایا ۔مثلاً ادغام کی بحث میں قاری صاحب نے یہ بات تحریر فرمائی کہ مثلین کا ادغام سترہ حروف میں ہوتا ہے اور ان کا مجموعہ بنا کرلکھا (بت ،ثح ،رس ،عغ ،فق کلمن ،وھی ) ہے اور پھر مثالیں بھی اسی ترتیب سے درج فرمائیں۔([25])
قاری صاحب کا دوسرا بڑا کارنامہ
ایک کتاب خالص اردو زبان میں قراءات سبعہ کے اصول پر تحریر فرمائی جس کا نام تکثیر النفع فی القراءات السبع ہے ۔([26])
مثال کے طور پر اس کتاب کے صفحہ ۱۷ پر اکیلا ہمزہ کے عنوان کے تحت ایک اصول ذکر فرمایا :
(الف )اگر ہمزہ ساکن ہو اور فا کلمہ میں ہو جو اکثر "ا تین موف "حروف کے سات حرفوں کے بعد آیا کرتا ہے تو امام ورش اور امام سوسی دونوں اور اگر عین کلمہ یا لام کلمے میں ہوتو تو صرف امام سوشی اس ہمزہ کو فتحہ کے بعد الف سے اور کسرہ کے بعد یا سے اور ضمہ کے بعد واؤ سے بدل لیتے ہیں ۔یہ اتنا عظیم کام ہے کہ قاری رحیم بخش صاحب کےاستاد اور علم القراءات کے ماہر قاری فتح محمد صاحب لکھتے ہیں کہ تکثیر کو میں نے حر فا حرفا سنا بلکہ بعض عزیزوں نے اس مبارک تصنیف کو مجھ سے پڑھا بھی ہے اللہ کے فضل سے میں نے اس کو قراءات سبعہ بطریق شاطبی کی جملہ وجوہ کے لیے نہایت جامع پایا ،اور کمال یہ ہے کہ کہ یہ بے حد آسان بھی ہے اور بالکل مختصر بھی جس کو طلبا آسانی سے یاد کر سکتے ہیں حق تعالی شانہ قبول فرماکر اسم با مسمی بنائے اور طلبا کو زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آخر میں تحریر فرماتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ اختصار کے باوجود ایسی جامع کتاب کا مرتب کرنا مؤلف کا بے مثال اور نرالا کارنامہ ہے۔([27])
تیسرا بڑا کارنامہ
علم قراءات کے عظیم محقق اور امام محمد بن الجزری رحمۃ اللہ علیہ کی علم قراءات پر عظیم کتاب النشر فی القراءات العشر اور پھر اس کتاب کا منظومہ طیبہ النشر ایسی لاجواب کتابیں ہیں کہ خود امام جزری لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قراءات مردہ ہو گئے ہیں لیکن میری اس کتاب النشر نے قراءات کو زندہ کردیا ہے ۔حضرت قاری رحیم بخش رحمۃ اللہ علیہ نے امام جزری کی کتاب طیبۃالنشر کی اردو میں آسان انداز میں شرح تصنیف فرمائی جو کہ المراٰۃ النیرہ فی حل طیبہ کے نام سے موسوم ہے ۔باب الفتح والامالہ وبین الفظنین کے تحت جو شرح فرمائی اور کسی نے ایسی آسان الفاظ میں تشریح نہیں کی یہ قاری صاحب کا قرأت کے پڑھنے والوں پر بڑا احسان فرمایا ۔([28])
اردو زبان میں رسم قرآن سے متعلق سب سے پہلی خدمت
قاری رحیم بخش رحمۃ اللہ علیہ کا قرآن کی رسم(کتابت)سے متعلق عظیم کام جو کہ آپ سے پہلے اردو زبان میں کسی نے نہیں کیا تھا اور وہ "الخط العثمانی فی رسم القرآنی" کے نام سے ہے ،یہ کتاب آپ نے رسم کے اصول اور قواعد پر لکھی ،خط اور رسم الخط کے فرق کو اس کتاب میں واضح کیا کیونکہ آج کل لوگ خط کو رسم الخط سمجھتے ہیں،الخط العثمانی کے صفحہ 2 پر تحریر فرماتے ہیں:
۱۔خط کے معنے ہیں کلمے کو اس کے ان حروف ہجا سے لکھنا جو اس پر وقف اور اس سے ابتدا کرنے کے وقت پائے جاتے ہیں ۔
۲۔رسم الخط کے معنی ہیں قرآنی کلمات کو حذف وزیادت اور وصل و قطع کی پابندی کے ساتھ اس شکل پر لکھنا جس پر صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اجماع ہے اور تواتر کے ساتھ نبی اکرم ﷺ سے منقول ہے۔ پس محققین کی رائے میں قرآن کے خط میں تبدیلی درست ہے یعنی نسخ عربی کے بجائے کوفی وغیرہ میں لکھنا ،لیکن رسم الخط میں تبدیلی قطعاً ناجائز ہے۔
مختصر یہ کہ خط العثمانی بڑی عظیم کتاب ہے قراء حفاظ ،علماء اورقرآن کے شائقین اور ماہرین کے لیے۔([29])
قرآنی آیات سے متعلق تجدیدی کام
قرآن پاک کی آیات کی تعداد کتنی ہے اس میں اختلاف ہے مکی عدد، مدنی عدد،کوفی عدد، بصری عدد، شامی عدد، مدنی اخیر پاکستان کے مصاحف میں کوفی عدد کو لیا گیا ہےجس کی بابت قاری صاحب فرماتے ہیں یہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف منسوب ہے جس کو سلیم بن عیسیٰ حنفی نے بواسطہ امام حمزہ بن ابی لیلی سے اور انھوں نے ابو عبدالرحمن سلمی سے اور انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے نقل کیا ہے،اور اس عدد کی دوسری سند یہ ہے کی سفیان نے عبدالاعلی سے اور انھوں نے ابو عبدالرحمن سے اور انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے نقل کیا ہے اور اس شمار میں آیات کی تعداد 6236 ہے۔
پس کوفی شمار دو ہیں ایک وہ جس کو مدنیین سے نقل کرتے ہیں اور کسی خاص امام کی طرف منسوب نہیں کرتے اور دوسرا یہ ہے کہ جو ان کا اپنا اختیار کیا ہوا ہے اور امام حمزہ سے منقول ہے ۔([30])
آج کل جو عوام میں ایک بات مشہور ہے کہ قرآنی آیات کی تعداد 6666 ہے، عملی طور پر قرآن پاک میں یہ تعداددرج نہیں ہیں اور ائمہ عددالآیۃنے ان کو لیا بھی نہیں ہے البتہ قاری صاحب نے اپنی کتاب ہدایات الرحیم میں لکھا ہے یہ شمار حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف منسوب ہے ۔([31])
قاری صاحب نےارض پاکستان کے لوگوں پر یہ بڑا احسان فرمایا کہ قرآن پاک اور علم قراءات سے متعلق جملہ علوم کو نہایت ہی سہل انداز میں مرتب فرمایا، کتابیں لکھیں اور ماہرین پیدا کیے جنھیں اس وقت کے محققین نے قبول ہی نہیں کیا بلکہ تحسین بھی فرمائی جیسا کہ ہدایات الرحیم صفحہ نمبر24 پر قاری فتح محمد رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے کام اورکتابوں کوبے نظیر اور بے مثل تحفہ لکھا ہے۔([32])
علم تجوید پر محققانہ کام
قاری صاحب نےامام جزری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مقدمۃالجزری ،جو کہ صرف 107 اشعار پر مشتمل رسالہ ہے اور جو تجوید کے نصاب میں شامل ہے، کی ایسی مفصل شرح لکھی جس میں تجوید کے تمام مسائل اور قواعد بیان کر دیے شرح کا نام العطایا الو ہبیہ شرح مقدمہ الجزریہ ہے ۔ اس شرح میں مدات کی اقسام میں مد معنوی کی بحث کو لکھ کر اس بات کو واضح کیا کہ مد کے اسباب دو طرح سے ہیں :
۱۔لفظی جو کہ مشہور ہے ۔
۲۔معنوی سبب جو کہ تلفظ میں نہیں آتا اور معنے کے ظاہر کرنے کے لیےہوتا ہے اور معنوی سبب بھی دو ہیں:
(الف )نفی میں مبالغہ یعنی نفی کو خوب اور پوری طرح ظاہر کر دینا ا اسی لیے طیبۃ کے طریق سے امام حمزہ رحمۃ اللہ علیہ نفی جنس کے لا میں توسط کرتے ہیں، جیسے: لاریب وغیرہ اور اس کو مد مبالغہ بھی کہتے ہیں ۔
(ب)تعظیم یعنی شان کی بڑائی ظاہر کرنا اور یہ لفظ اللہ میں ہوتا ہے اس میں فقہاء نے غیر قرآن میں سات الف تک مد کرنا درست بتایا ہے اور اس کو مد تعظیمی کہتے ہیں ۔([33])
یہ وہ مسائل تجوید ہیں جو عام اردو کی کتابوں میں درج نہیں ہیں اگرچہ تجوید پر اردو میں قاری رحیم بخش سے پہلے بھی کام ہوچکا تھا جیسا کہ فوائد مکیہ،قاری عبدالرحمن ، جمال القرآن، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اورتیسیر التجوید، قاری عبدالخالق صاحب نے تحریر فرمائی مگر یہ سب کتابیں مختصر ہیں۔
ان کے علاوہ حضرت قاری صاحب تصانیف مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔المہذبہ فی وجوہ الطیبہ۲۔تکمیل الاجر فی القراءات العشر
3۔اور الگ الگ قراءات کی کتابیں جو علم قراءات میں اپنی مثال آپ ہیں:٭روایت سیدنا امام قالون رحمہ اللہ ٭روایت سیدنا امام ورش رحمہ اللہ ٭روایت سیدنا بزی و قنبل رحمہمااللہ ٭روایت سیدنا دوری، سوسی٭ روایت سیدنا ہشام، ابن ذکوان رحمہمااللہ ٭روایت سیدنا امام حلف وخلاد رحمہما اللہ ٭روایت سیدنا امام ابو الحارث و دوری کسائی رحمہمااللہ۔
4۔قرات ثلاثہ پر ایک مستقل کتاب جس میں تین ائمہ قراءات کی قراءات کو تحریر فرمایا۔ یعنی امام ابو جعفر، امام یعقوب اور امام خلف العاشر۔
5۔احکام آلاٰن6۔ وضوح الفجر7۔ آداب تلاوت 8۔متشا بہات القرآن 9۔مجمع البحرین
یہ تمام تحریرات وہ ہیں جو کہ اہل پاکستان کے لیے خصوصی طور پر اور اردو زبان کو سمجھنے والوں کے لیے بالعموم علم قراءات میں عظیم ذخیرہ ہیں۔اس لیے قراء و علمائے امت نے قراءات اور اس کی تدوین و تسہیل اور پھر ان کی تالیف و تدریس اور قرآن کریم کے معیاری حفظ و تحفیظ میں آپ کی مجددانہ صلاحیتوں، خدمات اور خداداد بصیرت کے پیش نظر آپ کو امام بلکہ مجدد تسلیم کیاہے۔
حوالہ جات
- ↑ ()ابن منظور الافریقی ،لسان العرب، مؤسسۃ التاریخ العربی، بیروت ،۱۴۱۳ ھ، طبع عام، ج ۱، ص۱۲۸
- ↑ ()ابن الجزری ،منجد المقرئین ومرشد الطالبین، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، طبع عام، ۱۴۰۰ھ،ص۳
- ↑ ()عبدالفتاح القاضی،مصطفی البابی ،البدور الزاہرۃ، مصر، طبع ۱ول عام،۱۳۷۵ ھ،ص۵
- ↑ ()ابن مجاہد،السبعۃ،تحقیق الدکتور شوقی ضیف، دار المعارف ،طبع دوم،ص۴۹
- ↑ ()دکتور عبدالقیوم بن عبدالغفور سندھی، صفحات فی علوم القراء ات، المکتبۃ الامدادیہ، مکۃ المکرمۃ،۱۴۳۳ھ،طبع خامس، ص۱۸
- ↑ ()ایضًا ، ص ۱۸
- ↑ ()ایضًا، ص۱۹
- ↑ ()ایضًا، ص۱۹
- ↑ () عبدالرحمان مکی، فوائد مکیہ،مکتبۃ البشری،طبع ۱۴۲۸ھ/۲۰۰۷ء، ص ۱۳
- ↑ ()دکتور عبدالقیوم بن عبدالغفور سندھی،صفحات فی علوم القراء ات،محولہ بالا،ص ۲۱،۲۲
- ↑ ()عبدالفتاح القاضی،الوافی فی شرح الشاطبیہ،مکتبۃ السوادی، جدۃ، ط:۵، ۱۴۲۰ھ،۹ ۱۹۹ ، ص۱۹۹
- ↑ ()دکتور عبدالقیوم بن عبدالغفور سندھی،صفحات فی علوم القراء ات،محولہ بالا، ص۲۴،۲۵
- ↑ () المائدہ: ۴۸
- ↑ ()عبدالباقی بن قانع،ابو الحسین ،معجم الصحابۃفی باب الالف، تحقیق: صلاح بن سالم المصراتی،ط: ۱۴۱۸ھ، مکتبۃ الغرباء الاثریہ، مدینہ، ج۱،ص۵۶
- ↑ ()ابو بکر احمد بن حسین البیہقی،شعب الایمان، باب الحادی عشر فی الخوف من اللہ،تحقیق: محمد سعید بسیونی زغلول، ط: دار الکتب العلمیہ، بیروت، طبع: ۱۴۱۰ھ، ج۲،ص۳۵۴
- ↑ ()صحیح البخاری فی كتاب فضائل القرآن، فی باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ، رقم الحدیث: ۵۰۲۷، ج۱ ،ص ۴۰۵
- ↑ ()ابن الجزری ،النشر فی القراء ات العشر، تصحیح علی محمد الضباع، ط: دار الفکر، بیروت۔ ۱/۴
- ↑ ()شمس الدين ابو عبد الله محمد بن احمد بن عثمان الذہبی ،الکاشف،تصحیح صدقی جمیل عطار، طبع اول، ۱۹۹۷ء/۱۴۱۸ھ، المکتبۃ التجا ریۃ،ج۲،ص ۷۶
- ↑ ()ابن الجزری ،النشر فی القراء ات العشر،محولا بالا، ۱/۳
- ↑ () الحجر : ۹
- ↑ ()ابن الجزری ،النشر فی القراء ات العشر،محولا بالا، ۱/۱۱
- ↑ ()ابن الجزری ،النشر فی القراء ات العشر،محولا بالا، ۱/۱۱
- ↑ ()شہاب الدین قسطلانی ،لطائف الاشارات لفنون القراءات، تحقیق: شیخ عامر عثمان، د.عبدالصبور شاہین، ط: ۱۳۹۲، لجنۃ احیاء التراث الاسلامی، قاہرہ،ص۳۰
- ↑ ()آداب تلاوت، ادارہ نشرواشاعت اسلامیات حسین آگاہی،ملتان،ص،۴
- ↑ ()قاری رحیم بخش ،تکثیر النفع فی القراءات السبع،ادارہ نشرواشاعت اسلامیات حسین آگاہی ،ملتان،عنایات رحمانی،ج1
- ↑ () ایضاً،ہدایات الرحیم فی آیات الکتاب الحکیم ،مؤ لف ادارہ نشر و اشاعت اسلامیات حسین آگاہی، ملتان ، ص عنایات، رحمانی ،ج1،مؤلف قاری فتح محمد اکیڈمی لاہور، طبع اول،ص17
- ↑ ()ایضاً،تنویر ترجمۂ قراءت ،اکیڈمی الفضل مارکیٹ اردو بازار ،لاہور، طبع اول
- ↑ ()ایضاً،تکثیر النفع فی القراءت السبع، محولہ بالا،ص225
- ↑ () ایضاً،المراة النیرة فی حل الطیبة، ادارہ نشر و اشاعت اسلامیات حسین آگاہی، ملتان، سول اینڈ ملٹری پریس لمیٹڈ کراچی
- ↑ ()الخط العثمانی فی رسم القرآنی، طبع دوم ادارہ نشر و اشاعت اسلامیات حسین آگاہی ،ملتان
- ↑ ()قاری رحیم بخش، ہدایات الرحیم فی آیات الکتاب الحکیم، محولہ بالا،ص13
- ↑ ()ایضاً،ص14،15
- ↑ ()ایضاً،محولہ بالا،ص44 (33)ایضاً، العطایا الوہبیہ شرح المقدمہ الجزریہ، ناشر،مدرسہ تعلیم القرآن ،مسجد سراجاں حسین آگاہی، ملتان
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |