33
1
2019
1682060084478_1059
165-189
http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/86
تمہید
اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کُتبِ سماویہ میں آخری کتابِ ہدایت قرآن کریم ہے، جسے سید العالمین محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کیا گیا ہے۔ قرآن میں ہر چیز کا روشن بیان ہے، یہ مسلمانوں کے لیے ہدایت، رحمت اور بشارت ہے۔([1]) یہ وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے۔([2]) اللہ تعالیٰ نے اس کتاب میں کچھ اُٹھا نہ رکھا([3])، یعنی: جملہ علوم اور تمام اشیاء کا علم اس میں ہے۔ جہاں قرآن تمام لوگوں کے لیے ہدایت ورہنمائی ہے([4])، وہیں یہ بات بھی قرآن ہی سے معلوم ہوتی ہے کہ اس کی ہدایت سے بہرہ مند صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے مسلمان ہی ہوتے ہیں۔([5])
قرآنی آیات میں دیگر چیزوں کے بیان کے ساتھ ساتھ روزِ قیامت، اُس کی ہولناکیوں اور اُس سے پہلے رونما ہونے والے واقعات، آثار اور علامات کا بیان بھی بڑے واضح انداز سے موجود ہے۔ اسی طرح یہ آثار وعلاماتِ قیامت ذخیرۂ احادیث میں بھی تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔
آثار وعلاماتِ قیامت سے متعلق غامدی صاحب کی رائے
جاوید احمد غامدی صاحب نے آثار و علاماتِ قیامت کی دو قسمیں قرآن کریم ، احادیث مبارکہ اور قدیم صحیفوں کی روشنی میں بیان کی ہیں، چنانچہ اپنی کتاب ’میزان‘ میں لکھتے ہیں:
’’یہ دن کب آئے گا؟ قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اِس کا وقت اُسی کے علم میں ہے اور اپنے کسی نبی یا فرشتے کو بھی وہ اِس پر مطلع نہیں کرتا۔ اِس کے آثار وعلامات، البتہ قرآن وحدیث اور قدیم صحیفوں میں بیان ہوئے ہیں۔‘‘([6])
پھر ان دونوں قسموں کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’اُن میں سے بعض عمومی نوعیت کے ہیں اور بعض کی نوعیت متعین واقعات وحوادث کی ہے۔ پہلی قسم کی علامات میں سے کوئی چیز قرآن میں بیان نہیں ہوئی۔ اِن کا ذکر روایتوں ہی میں ہوا ہے۔ دوسری قسم کی علامتوں میں سے بھی ایک ہی چیز قرآن میں بیان ہوئی ہے اور وہ یاجوج و ماجوج کا خروج ہے۔ لہٰذا یقینی علامت تو یہی ہے،اِس کے علاوہ جو علامات بالعموم بتائی جاتی ہیں، اُن میں سے بعض اُن روایتوں میں بیان ہوئی ہیں جو محدثین کی اصطلاح کے مطابق صحیح کے معیار پر پوری اترتی ہیں۔ اُن میں سے کچھ ظاہر ہو چکی ہیں اور باقی اگر رسول اللہﷺ کی طرف اُن کی نسبت میں کوئی غلطی نہیں ہو ئی تو لازماًظاہر ہو جائیں گی۔‘‘([7])
راقم السطور کی رائے کے مطابق اُن کا قرآن مجید کی روشنی میں صرف ’یاجوج وماجوج کے خروج‘ ہی کو یقینی علامات سے شمار کرنا حیرت کی بات ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف اُن کی اس کتاب ’میزان‘ بلکہ خود موصوف مصنف کے منتہائے علمی پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتا ہے، وجہ یہ ہے کہ اپنی اسی کتاب کے بارے میں اُن کا دعویٰ ہے کہ ’’کم وبیش ربع صدی کے مطالعہ وتحقیق سے میں نے اس دین کو جو کچھ سمجھا ہے، وہ اپنی اس کتاب میں بیان کر دیا ہے۔ اس کی ہر محکم بات کو پروردگار کی عنایت اور میرے جلیل القدر استاذ امام امین احسن اصلاحی کے رشحات فکر سے اخذ واستفادہ کا نتیجہ سمجھیے۔ اِس میں کوئی بات کمزور نظر آئے تو اُسے میری کوتاہیِ علم پر محمول کیجیے۔‘‘([8])
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ پچیس سال قرآن، اُس کی تفاسیر اور دیگر کُتب کے مطالعہ وتحقیق سے موصوف کو صرف ’ایک ہی چیز‘ قیامت کی متعین ویقینی علامت کے طور پر قرآن میں ملی ہے، حالانکہ اس میں ایک سے زیادہ اس قسم کی علامات ہیں، جسے درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنے والے تفسیرِ قرآن کے طلبہ بھی جانتے ہیں۔ پھر ایک چیز ہے، قرآن مجید میں اس قسم کی یقینی علاماتِ قیامت کا موجود ہونا، جو بلا شبہ اس کی آیات میں کئی ایک جگہ مذکور ہیں، جیسا کہ عن قریب ان کا بیان آتا ہے، اور ایک چیز ہے مطالعہ قرآن وتفسیر کے دوران اُن علامات کو پا لینا، وَشَتَّان مَا بَیْنَھُمَا۔([9]( اُس وقت حیرانی مزید بڑھ جاتی ہے، جب اسی کتاب ’میزان‘ میں کسی عقلی ونقلی دلیل کے بغیر اُن ’روایاتِ صحیحہ‘ کو بیک جنبشِ قلم ’محلِ نظر‘ ٹھہرا دیا جاتا ہے،جن کی تائید قرآنی آیات سے ہوتی ہے، جنھیں بالعموم محدثین نے قبول کیا ہے اور جو روایت کی صحت کے لیے محدثین کے قائم کردہ معیارات پر پورا اُتری ہیں، حالانکہ نفسِ کتاب میں دعویٰ یہ کیا تھا کہ معیارات پر پورا اُترنے والی روایات کی چیزوں کو متابعات کی حیثیت سے اس میں ذکر کیا ہے، اس سے کم تر درجے کی کوئی روایت اس میں شامل نہیں کی گئی۔([10]) تاہم کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ بھی محض ’دعویٰ‘ ہی رہا۔ تفصیلی مطالعے کے بعد مقالہ نگار کی رائے اس بات پر مستقر ہوئی ہے کہ اس کتاب میں ایک سادہ سے اُصول کے تحت ’روایات‘ شامل کی گئی ہیں، وہ یہ ہے کہ جہاں کوئی روایت اپنے موقف کے خلاف یا اُسے مشتبہ کرنے والی ہو، اگرچہ کتنی ہی اعلیٰ درجہ کی ہو، اُسے ذکر نہ کیا جائے، جیسے نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے باب میں وارد روایات صحیحہ متواترہ، جبکہ دوسری طرف اگر اپنے کسی مؤقف کی تائید میں کم درجہ والی روایت بھی ملے، اگرچہ کسی ’لغت‘ کی کتاب سے ہو، (مثلاً کلالہ کے معنی ومفہوم کے لیے)، یا قدیم صحیفوں ہی سے سہی (جیسے یاجوج وماجوج کے خروج سے متعلق بیان کے لیے)، اُسے ذکر کر دیا جائے۔ چونکہ سر دست ہمارا موضوع اس کتاب کی روایات کا نقد وجرح نہیں ہے، لہٰذا ہم اس ضمن میں یہاں مزید کچھ کہنے سے سکوت کرتے ہوئے،اپنے اصل مدعا کی جانب چلتے ہیں اور وہ ہے:’قرآن اور متعین ویقینی علاماتِ قیامت ‘۔
قرآن کریم اور متعین علاماتِ قیامت
ہم یہاں صرف اُن متعین علاماتِ قیامت میں سے چند کا ذکر کریں گے،جن کا ذکر قرآنی آیات میں ہوا ہے اور اُن کی تائید احادیث نبوی سے بھی ہوتی ہے،خواہ وہ علامات ظاہر ہو چکی ہوں یا قیامت سے پہلے ظاہر ہوں گی۔ نیز ہم یہاں قیامت کی اُن ہولناکیوں اور احوال کا ذکر نہیں کریں گے، جن کی قرآن کریم نے مختلف مقامات پر مختلف انداز سے منظر کشی کی ہے، مثلاً زمین میں زلزلہ آنا، پہاڑوں کا سرکنا، سمندر کا پانی بہا دیا جانا، آسمان کے ستاروں کا بجھ جانا وغیرہ۔ اب ذیل میں چند متعین علامات کو ذکر کیا جاتا ہے:
۱۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً١ۚ فَقَدْ جَآءَ اَشْرَاطُهَا١ۚ فَاَنّٰى لَهُمْ اِذَا جَآءَتْهُمْ ذِكْرٰىهُمْ (محمد ۴۷: ۱۸) ([11])
نیز اسی سے متعلق حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ، وَيَقْرنُ بَيْنَ إصْبَعَيْهِ السَّبَابَةِ وَالْوُسْطَى.
”مجھے اور قیامت کو اس طرح بھیجا گیا ہے اور آپ ﷺنے اپنی شہادت والی اور بیچ کی انگلی کو ملایا۔“([12])
جاوید احمد غامدی صاحب ’البیان‘ میں مذکورہ آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’(اِن کی سمجھ میں تمھاری بات نہیں آ رہی) تو اب یہ اِسی کے منتظر ہیں کہ قیامت اِن پر اچانک آجائے۔ سو یاد رکھیں کہ اُس کی علامتیں ظاہرہو چکی ہیں۔پھر جب وہ اِن پر آ ہی جائے گی تواِن کے لیے اِن کے سمجھنے کا موقع کہاں ہو گا!‘‘ ([13])
پھر اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا:
’’یعنی جب پیشگی آگاہی کی قدر نہیں کر رہے تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ یہی چاہتے ہیں اور اِسی کے منتظر ہیں۔ یہ رسول اللہﷺ کی بعثت کی طرف اشارہ ہے۔ آپ چونکہ آخری نبی تھے، اِس لیے اِس بات کی بھی علامت تھے کہ اب دنیا کی بساط لپیٹی جانے والی ہے۔ پھر مزید یہ کہ آپ کی قوم کے لیے تو قیامت گویا سرپر کھڑی تھی، کیونکہ آپ کی طرف سے اتمامِ حجت کے بعد ایک قیامت صغریٰ اُن کے لیے اِسی دنیا میں برپا ہونے والی تھی، جو درحقیقت اُس عدالت کبریٰ کے لیے توطیہ اور تمہید ہوتی ہے جو آخرت میں قائم ہو گی‘‘([14])
حیرت ہے کہ خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ کی ’بعثت‘ کوقیامت کی ’علامت‘ بتایا اگرچہ اشارۃً ہی سہی، تاہم اسے بعض متعین علامات سے شمار نہیں کیا، حالانکہ سب سے واضح، بڑی اور متعین علامت آپ ﷺ کی تشریف آوری ہی ہے۔ بظاہر کوئی معقول وجہ اب تک معلوم نہیں ہو سکی کہ اسے شمار کیوں نہ کیا گیا۔۔۔؟، وَلَعَّلَ الله يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْراً۔ شاید اُن سے یہ چوک اس لیے ہوئی کہ اپنی کتاب ’میزان‘ لکھتے وقت اُنھیں اپنے قائم کردہ ’مبادی تدبر قرآن‘یاد نہ رہے، مثلاً اُمہات کُتب تفاسیر اور ذخیرۂ احادیث کی طرف رجوع کرنا اور تفسیر کرتے وقت تاریخی پس منظر کو ملحوظ رکھنا وغیرہ، جیسا کہ آنے والی سطور میں اسے مزید تفصیل سے بیان کیا جائے گا۔
یہاں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ غامدی صاحب نے آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ایک ابہام کی صورتِ حال پیدا کر دی، وہ کیسے۔؟ وہ ایسے کہ ’قیامتِ صغریٰ‘ کو سر پر لا کھڑا کیا، جو اسی دنیا میں برپا ہونے والی تھی، تاہم ہمیں یہ وضاحت نہیں ملی کہ یہ قیامتِ صغریٰ قائم بھی ہوئی تھی یا نہیں، یا پھر مستقبل میں قائم ہو گی؟ اگر قائم ہو گئی تو کب،کیسے اور کہاں؟ اگر نہیں ، تو کیوں۔۔؟ البتہ پھر ہمیں بعد میں انھی کی تفسیر کے دیگر مقامات پڑھنے سے معلوم ہوا کہ یہ ’قیامتِ صغریٰ‘ قائم ہی نہیں ہوئی، بلکہ ٹل گئی تھی، کیونکہ قریش کے اکثر لوگ ایمان لے آئے تھے۔ بادی النظر میں ہمیں ان کی یہ توجیہ بھی محلِ نظر لگتی ہے، کیونکہ غور وتدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامتِ صغریٰ (عذاب) اس وجہ سے نہیں ٹالی گئی تھی کہ اکثر لوگ ایمان لے آئے تھے، بلکہ وجہ یہ ہے کہ اس سورت (محمد)([15]) کے نازل ہونے سے بہت پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کو (سورۂ انفال میں) یہ بشارت دے دی تھی کہ دیگر اُمتوں اور قوموں کی طرح اُمتِ محمدیہ پر کوئی عذاب نہیں آئے گا، چنانچہ ارشادفرمایا:
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ (الانفال ۸: ۳۳))[16](
’’اللہ (اُس وقت تو) اِن کو عذاب دینے والا نہیں تھا، جبکہ تم اِن کے درمیان موجود تھے اور نہ (اُس وقت) عذاب دینے والا ہو سکتا ہے، جبکہ یہ مغفرت چاہ رہے ہوں۔‘‘۔ (البیان))[17](
خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ سورۂ محمد کی آیت :۱۸سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے مطابق سب سے پہلی یقینی اور متعین علامتِ قیامت، ’محمد رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری‘ہے۔ جسے بہر حال (میزان /البیان میں) متعین علامات میں شمار کیا جانا چاہیے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
۲۔ چاند شق ہونا
چاند کا شق ہو جانا بھی قرآن کریم کے مطابق قیامت کی یقینی ومتعین علامت ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو قربِ قیامت سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ (القمر۵۴:۱)
’’وہ گھڑی قریب آ گئی (جس سے اِنھیں خبردار کیا جا رہا ہے )اور چاند شق ہو گیا‘‘۔ (البیان)([18])
اس کی تفسیر کرتے ہوئے غامدی صاحب نے لکھا:
’’یعنی قیامت کی گھڑی جو رسول کے مکذبین کے لیے اُس عذاب سے شروع ہو جاتی ہے، جو اُس کی تکذیب پر اصرار کے نتیجے میں اُن پر لازماً آتا ہے۔ قیامت کی جس گھڑی سے خبردار کیا ہے، یہ اُس کی علامت بیان ہوئی ہے۔ سورۂ حٰم السجدہ (۴۱) کی آیت ۵۳ میں فرمایا ہے کہ رسول اللہﷺکے انذار کی تقویت اور آپ کی قوم پر اتمام حجت کے لیے اللہ تعالیٰ عنقریب انفس وآفاق میں اپنی بعض غیر معمولی نشانیاں دکھائیں گے۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اِنھی میں سے ایک نشانی چاند کے شق ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوئی۔‘‘)[19](
پھر اپنے موقف کی تائید میں اپنے استاذ امام امین احسن اِصلاحی کی تفسیر سے یہ نقل کیا:
’’اِس طرح کی نشانیوں کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ رسول نے اِن کو اپنے معجزے کے طور پر پیش کیا ہو، بلکہ اِن کا ظہور کسی اعلان وتحدی کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ کفار نے بعینہٖ اُسی نشانی کا مطالبہ کیا ہو جو ظاہر ہوئی، بلکہ اُن کی طرف سے کسی مطالبے کے بغیر محض اِس لیے بھی اِن کا ظہور ہوتا ہے کہ کفار کے پیش کردہ شبہات کا اُن کو جواب مل جائے۔۔الخ‘‘ (تدبر قرآن ۸/ ۹۱))[20](
یہاں موصوف اور اُن کے استاذ امام سے ارادی یا غیر ارادی طور پر چند لغزشیں سر زد ہو گئی ہیں، جن کی نشان دہی نہایت ضروری ہے، اس کی ایک بنیادی وجہ عام روایت سے ہٹ کر جدید اندازِ تفسیر اختیار کرنا اور تفسیر کرتے وقت اپنے ہی قائم کردہ ’مبادی تدبر قرآن‘ کو سامنے نہ رکھنا ہے۔ ان لغزشوں میں سے چند درج ذیل ہیں:
اولاً یہ کہ شقِ قمر آفاق وانفس میں دکھائی جانے والی نشانیوں میں سے نہیں، بلکہ یہ معجزہ ہے اور اس سلسلے میں غامدی صاحب نے فنِ تفسیر کی اُمہات کُتب (ابن جریر کی تفسیر، رازی کی تفسیر اور زمخشری کی ’الکشاف‘) پر نظر نہیں ڈالی، جس سے مسئلہ واضح ہو جاتا ہے، حالانکہ خود لکھا: ’’۔۔۔قرآن کے طالب علموں کو بھی چاہیے کہ وہ قرآن کو سمجھتے، سمجھاتے اور اُس کی کسی آیت کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتے وقت کم سے کم تفسیر کی اُمہات کُتب پر ایک نظر ضرور ڈال لیں۔۔۔ پہلے یہ حیثیت تین تفسیروں کو حاصل تھی: ابن جریر کی تفسیر، رازی کی تفسیر اور زمخشری کی ’الکشاف‘۔۔۔۔ یہی تفسیریں ہیں، جنھیں اِس فن کی اُمہات کہا جا سکتا ہے۔‘‘([21]) مگر پھر بھی رائے قائم کردی کہ ’یعنی قیامت کی گھڑی جو رسول کے مکذبین کے لیے اُس عذاب سے شروع ہو جاتی ہے، جو اُس کی تکذیب پر اصرار کے نتیجے میں اُن پر لازماً آتا ہے‘۔ پھر سوال وہی ہو گا کہ ’یہ عذاب‘ آیا تھا یا نہیں ؟ اس جملے ”یہ اس کی علامت ہے“ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس عذاب کی گھڑی شروع ہو چکی تھی، اسی لیے اس علامت کا ظہور ہوا تھا۔ تاہم تاریخ بتاتی ہے کہ اس قسم کا کوئی ’عذاب‘ اُن پر نہیں آیا۔۔!
ثانیاً یہاں خود اپنے اُصول سے انحراف کیا اور ان احادیث وآثار کی کُتب کو پوری اہمیت نہیں دی([22])، جن میں اس معجزےسے متعلق بے شمار صحیح احادیث وآثار مذکور ہیں۔
ثالثاً اس طرح کی تفسیر ، اُن کے اپنے قائم کردہ’مبادی تدبر ِ قرآن‘ کی ایک اہم چیز ’تاریخ کا پس منظر‘سے کم یا عدم واقفیت کی غمازی بھی کرتی ہے، اس لیے کہ انھوں نے خود اس چیز کے تقاضوں میں ایک اہم تقاضا یہ بیان کیا ہے: ’’۔۔۔۔ اِن سب باتوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن کے الفاظ اور اُس کے نظم کی حکومت پوری طرح قائم رکھتے ہوئے اُس دور کی تاریخ سے، جس حد تک بھی وہ میسر ہو سکتی ہو، پوری طرح استفادہ کیا جائے۔ اِس سے قرآ ن کے بعض اشارات کو سمجھنے اور بعض غوامض کو کھولنے میں، حقیقت یہ ہے کہ بڑی مدد ملتی ہے۔‘‘([23]) مگر شاید یہاں اس معجزے کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے پوری طرح یا کسی بھی طرح استفادہ ہی نہیں کیا گیا، ورنہ یوں قرآن کے نظم کی حکومت مخدوش نہ ہوتی۔
رابعاً یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے ایک عظیم الشان معجزے (شقِ قمر) کا انکار کر دیا اور تاویل یہ کی : ’’اِس طرح کی نشانیوں کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ رسول نے اِن کو اپنے معجزے کے طور پر پیش کیا ہو، بلکہ اِن کا ظہور کسی اعلان وتحدی کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔۔الخ‘‘۔ حالانکہ کُتبِ تفاسیر وحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار نے بر ملا اس کا مطالبہ کیا تھا، جس پر رسول اللہ ﷺ نے انھیں یہ معجزہ دکھایا، جیسا کہ عن قریب اس کی تفصیل آتی ہے۔
خامساً: اسے حٰم السجدہ (۴۱)کی آیت ۵۳ کے حوالہ سے ’انفس وآفاق‘ میں اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی نشانیوں میں سے ہونا بیان کیا، جو کسی صورت درست نہیں۔ حٰم السجدہ مکی سورت ہے اور ترتیبِ نزول کے اعتبار سے اس کا نمبر ۶۱ ہے، جبکہ سورۂ قمر بھی مکی سورت ہے اور ترتیبِ نزول کے اعتبار سے اس کا نمبر ۳۷ ہے۔ اگر غامدی صاحب کی مذکورہ تفسیر وتوضیح درست مان لی جائے، تو نظمِ قرآن بگڑ جائے گا، وہ ایسے کہ ماضی میں واقع ہو جانے والے ایک واقعہ کو دوسری سورت میں مستقبل میں دکھائی جانے والی غیر معمولی نشانیوں کے طور پر دوبارہ دکھانے کا کہا جائے، حالانکہ قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ اس میں کوئی تعارض نہیں، ارشاد ہوتا ہے: اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ١ؕ وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا (النساء ۴:۸۲) ’’(تمھاری رسالت کے بارے میں اِنھیں تردد کیوں ہے)؟ سو کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں وہ بہت کچھ اختلاف پاتے۔‘‘([24])
سادساً اس قسم کی تفسیر پر کسی معترض کو یہ کہنے کا بہانہ مل جائے گا کہ مسلمانوں کا خدا کیسا ہے کہ پہلے کفارِ مکہ کو اپنی غیر معمولی نشانی (’شقِ قمر‘)دکھا دیتا ہے، پھر اسی نشانی کے لیے دوسری جگہ بعد میں نازل ہونے والی سورت (حٰم السجدہ) میں فرماتا ہے کہ ہم آفاق وانفس میں تمھیں اپنی غیر معمولی نشانیاں (مثلاً شقِ قمر) دکھائیں گے، یہاں تک کہ تم لوگوں پر واضح ہو جائے گا کہ یہ پروردگار کی طرف سے حق ہے، (معاذ اللہ !)۔لہٰذا معلوم ہوا کہ یہاں کم از کم یہ نشانی (شق قمر) از قبیل آفاق وانفس مراد نہیں ہو سکتی، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد مستقبل میں انھیں اپنی دیگر نشانیاں دکھائے گا، واللہ تعالیٰ بالصواب۔
شقِ قمر کی مختصر تفصیل
ہم اب ذیل میں رسول اللہ ﷺ کے اس عظیم الشان معجزے ’شقِ قمر‘ کے بارے میں مختصر تفصیل لکھتے ہیں، تاکہ کوئی اس قسم کی رائے پر مبنی تفسیر سے دھوکا کھا کر اس کا انکار نہ کر بیٹھے۔
شقِ قمر کا یہ معجزہ ہجرت نبوی سے پہلے واقع ہوا تھا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے معجزات میں سب سے زیادہ روشن اور واضح معجزہ ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے عالمِ بالا میں تصرّف فرمایا تھا۔ انبیاء سابقین علیہم الصلوٰۃ والسلام میں کسی سے ایسے معجزے کا ظہور نہ ہوا ، اُن سب کے معجزات اجسامِ ارضیہ سے متعلق تھے۔ اس معجزے والی حدیث کو روایت کرنے والوں میں امیر المؤمنین علی مرتضیٰ، عبد اللہ ابن عباس، عبد اللہ ابن عمر، عبد اللہ ابن مسعود، جُبیر بن مطعم، حذیفہ بن یمان اور انس بن مالک وغیرہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین شامل ہیں۔ اسی طرح تابعین نے صحابہ کرام سے اور تبع تابعین نے تابعین سے اس حدیث کو روایت کیا اور یوں یہ حدیث آج ہم تک پہنچی۔
وہ کفار جنھوں نے شقِ قمر کا مطالبہ کیا
امام ابو نعیم ’دلائل النبوۃ‘ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن ابو جہل بن ہشام، ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، عاص بن ہشام، اسود بن عبد یغوث، اسود بن مطلب وغیرہ کُفّارِ قریش رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ ﷺ سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ دعوئ نبوّت میں سچے ہیں، تو ہمیں چاند شق کر کے دکھائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں نے کر دیا تو تم ایمان لے آؤ گے؟ وہ بولے: ہاں ضرور۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اپنے ربّ کے حضور اس کی دعا کی اور اپنے دستِ مبارک (کی شہادت کی انگلی) سے چاند کی طرف اشارہ کیا، تو وہ دو ٹکڑے ہو گیا یہاں تک کہ ان لوگوں نے کوہِ حرا کو اُن دو ٹکڑوں کے درمیان دیکھا، یہ واقعہ چاند کی چودھویں رات کو پیش آیا، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: تم سب گواہ ہو جاؤ! (یعنی اس معجزہ پر)۔([25])
شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے”مدارج النبوت“میں حافظ ابن جوزی کی ”کتاب الوفاء“سے نقل کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے اُن لوگوں کو یوں پکارا کہ اے فلاں! اور اے فلاں! تم گواہ ہو جاؤ، سب نے یہ روشن نظارہ دیکھا۔ کفار بولے: ابو کبشہ کے بیٹے نے تم پر جادو کر دیا ہے، ان میں سے ایک بولا: اگر تم پر جادو کیا ہے تو تمام دنیا والوں پر جا دو نہیں کر سکتے، لہٰذا یہاں سے گزرنے والے قافلوں سے اس بارے میں پوچھو۔ مختلف جگہوں سے مسافر آتے رہے اور یہ کفار ِ قریش اُن لوگوں سے پوچھتے رہے ، سب نے بتایا کہ چاند دو ٹکڑے ہوا تھا۔ اِس پر ابو جہل بولا: یہ تو بڑا مضبوط جادو ہے۔([26])
معلوم ہوا کہ یہ شقِ قمر رسول اللہ ﷺ کا ایک عظیم الشان معجزہ ہے، جو قربِ قیامت کی یقینی اور متعین علامت بھی ہے، کفارِ مکہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا مطالبہ بطور تحدی اور علی الاعلان کیا تھا، پھر سب نے اسے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا اور آنے والے قافلوں نے اس کی تصدیق بھی کی۔ لہٰذا اس کی تفسیر میں اس واقعے کے معجزہ ہونے کی نفی یا غیر مقبول تاویل کسی صورت درست نہیں، واللہ تعالیٰ اعلم۔
۳۔ نزولِ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام
سیدنا عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام کا آسمان کی طرف اُٹھایا جانا اور آخری زمانے میں تشریف لانا، قرآن کریم کی آیات، رسول اللہ ﷺ کی احادیث اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہے۔ رفع کے وقت حیات ووفاتِ مسیح علیہ السلام کے مسئلے میں اختلاف رہا ہے، البتہ آخری زمانے میں نزول فرمانے اور دجال کو قتل کرنے میں کسی کو کلام نہیں کہ یہ بلا شبہ اہلسنت کا اجماعی عقیدہ ہے۔([27]) اسی طرح اس پر بھی سب متفق ہیں کہ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو جسد عنصری کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھایا گیا، جبکہ بعض اہلِ تحقیق جسمِ برزخی کے قائل ہیں۔([28]) نزولِ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام میں وارد احادیث متواترہ ہیں، جو کبار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں، ان میں حضرت ابو ہریرہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عثمان بن ابی العاص، حضرت حذیفہ بن یمان اور اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ وغیرہ رضی اللہ عنہم اجمعین شامل ہیں۔([29]) اسی طرح ائمہ اربعہ وغیرہم کا بھی یہی مذہب ہے کہ آخری زمانے میں عیسیٰ بن مریم علیہما السلام آسمان سے نزول کریں گے۔([30]) ان چیزوں سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ نزولِ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام یقینی ومتعین علامتِ قیامت سے ہے۔
غامدی صاحب نے علاماتِ قیامت کے تحت نزولِ عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق لکھا ہے:
’’اِن کے علاوہ ظہور مہدی اور مسیح علیہ السلام کے آسمان سے نزول کو بھی قیامت کی علامات میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہم نے اِن کا ذکر نہیں کیا۔۔۔ نزول مسیح کی روایتوں کو اگرچہ محدثین نے بالعموم قبول کیا ہے، لیکن قرآن مجید کی روشنی میں دیکھیے تو وہ بھی محل نظر ہیں۔۔الخ‘‘([31])
علم وعقل محوِ حیرت میں ہیں کہ غامدی صاحب نے اُن قرآنی آیات کی عجیب وغریب تفسیر یا تاویل کر ڈالی، جو نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں واضح بتاتی ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث اُن کی مؤید بھی ہیں، مگر غامدی صاحب نے اس بارے میں وارد احادیثِ متواترہ کو بیک جنبشِ قلم ’محلِ نظر‘ ٹھہرا دیا۔ پھر جائے تعجب یہ بھی ہے کہ اُن میں سے کسی ایک حدیث کے بھی محلِ نظر ہونے کی وجہ یا علت بیان نہیں کی، حالانکہ یہ مانا ہے کہ محدثین نے ان احادیث کو بالعموم قبول کیا ہے۔ اگر غامدی صاحب کا مؤقف درست مان لیا جائے، تو تمام محدثین کا مقام ومرتبہ بھی ’محلِ نظر‘ ہو جائے گا کہ آخر کیا وجہ تھی کہ قرآنی آیات کی روشنی میں ’محلِ نظر‘ ٹھہرنے والی احادیث (متواترہ) کو قبول کرتے ہوئے اپنی کُتب میں ذکر کیا ، کیا یہ قرآن کریم پر احادیث کو ترجیح دینا نہیں کہلائے گا۔۔! کیا اس سے حدیث کی حجیت اثر انداز نہیں ہو گی۔۔! ہم ذیل میں نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے ضمن میں صرف دو آیات مع تفسیر وتوضیح ذکر کرتے ہیں، تاکہ اس علامتِ قیامت کا بھی متعین اور یقینی ہونا واضح ہو جائے۔
آیت نمبر: ۱ وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِ ۔ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔ (الزخرف ۴۳: ۶۱)
’’(اِن سے کہو، اے پیغمبر کہ) یقیناً وہ قیامت کی ایک بڑی دلیل ہے، تو اُس کے برپا ہونے میں شک نہ کرو اور میری پیروی کرو، یہی سیدھی راہ ہے‘‘(البیان)([32])
غامدی صاحب اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’مسیح علیہ السلام بے باپ پیدا ہوئے اور اُن کو یہ حیرت انگیز معجزہ دیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کرتے اور مٹی سے پرندے کی مورت بنا کر اُس میں روح پھونک دیتے تھے۔ قرآن نے یہ اِسی بنا پر اُنھیں قیامت کی ایک بڑی دلیل قرار دیا ہے۔‘‘([33])
ہماری رائے میں اس تفسیر سے یہ لازم آتا ہے کہ سیدنا آدم بلکہ سیدہ حوا علیہما السلام بھی قیامت کی نشانیاں شمار کیے جائیں، کیونکہ سیدنا آدم بن ماں باپ کے اور سیدہ حواء محض آدم کی پسلی سے پیدا کی گئیں، اس رائے کو تقویت یہ آیت بھی دیتی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ۔ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ (آلِ عمران ۳: ۵۹)
’’اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے۔ اللہ نے اُسے مٹی سے بنایا، پھر حکم دیا کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔‘‘ (البیان) ([34])
پھر اس کی تفسیر میں لکھا: ’’یعنی: آدم علیہ السلام اگر ماں باپ ، دو نوں کے بغیر پیدا ہو کر معبود نہیں بن گئے، تو سیدنا مسیح کو یہ لوگ آخر کیوں معبود بنا بیٹھے ہیں؟‘‘([35])
مگر ظاہر ہے اگر وجہ یہی ہوتی تو ابو البشر اور اُم البشر بھی قیامت کی نشانیاں قرار پاتے، معلوم ہوا کہ وجہ یہ نہیں تھی اور نہ معجزات کا دیا جانا تھا، کیونکہ ہر نبی ورسول کو روشن نشانیوں (معجزات) کے ساتھ بھیجا جاتا ہے۔ بلکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو قیامت کی نشانی اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ وہ قیامت سے پہلے دوبارہ نزول فرمائیں گے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قریش مکہ سے فرمایا: اے گروہِ قریش! اللہ کے سوا کسی کی بھی عبادت کرنے میں خیر نہیں، قریشِ مکہ جانتے تھے کہ نصاریٰ عیسیٰ بن مریم کی عبادت کرتے ہیں اور یہ بھی جانتے تھے کہ نصاریٰ حضورؐ کے بارے میں کیا کہتے ہیں، انھوں نے رسول اللہ ﷺ سےکہا: کیا آپ گمان نہیں کرتے ہیں کہ عیسیٰ اللہ کے نبی اور اُس کے نیک بندوں سے ہیں؟ اگر آپ سچ کہتے ہیں،تو اُن کے معبودوں کا وہی حال ہو گا، جیسا تم لوگ کہتے ہو، اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیات نازل فرمائیں: وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ. حضرت ابن عباس کہتے ہیں: میں عرض کی : یہ يَصِدُّونَ کا کیا مطلب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’يَضِجُّونَ‘ یعنی: یہ اس پر شور وغل مچاتے ہیں۔ نیز وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ کی تفسیر میں فرمایا: وہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا قیامت سے پہلے ظاہر ہونا ہے۔‘‘ اسی طرح امام احمد بن حنبل نے اپنی ’مسند‘ میں([36])، امام حاکم نے ’مستدرک‘ میں([37])، امام طحاوی نے ’شرح مشکل الآثار‘ میں([38]) اور امام ابن حبان نے اپنی ’صحیح‘([39]) میں اسے روایت کیا ہے۔
آیت نمبر:۲ وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ١ۚ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا (النساء ۴: ۱۵۹)
” کوئی کتابی ایسا نہیں جو اُس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہو گا۔‘‘
یہود نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے نعوذ باللہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو قتل کر دیا ہے اور نصاری نے اس معاملے میں اُن کی تصدیق کی تھی،اللہ تعالیٰ نے النساء کی آیات (۱۵۷۔۱۵۸) میں ان دونوں کی تکذیب فرما دی اور بتا دیا کہ یقیناً انھوں نے نہ حضرت عیسیٰ کو قتل کیا نہ سولی دی، بلکہ اللہ تعالیٰ جو غالب حکمت والا ہے، اُس نے انھیں اپنی طرف اُٹھا لیا۔ اس کے بعد بتایا گیا کہ کوئی بھی اہلِ کتاب ایسا نہیں جو اُس (عیسیٰ بن مریم علیہما السلام) کی موت سے پہلے اُس پر ایمان نہ لے آئے۔یہاں مستقبل کی حتمی خبر دی جا رہی ہے کہ ہر ’اہلِ کتاب‘ ایمان لے آئے گا۔ لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ اور قَبْلَ مَوْتِهٖ میں ضمیر غائب (ہٗ) مختار قول کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہے، جیسا کہ اہلِ علم پر پوشیدہ نہیں ہے۔ اس کی تائید بخاری ومسلم وغیرہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے، جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضُ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ([40])
”اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! قریب ہے کہ تم میں ابن مریم علیہ السلام ایک عادل حاکم بن کر نزول فرمائیں، پس صلیب کو توڑ دیں گے اور سور کو قتل کر دیں گے اور جزیہ اُٹھا لیں گے اور مال کی اتنی فراوانی ہو گی کہ کوئی قبول کرنے والا نہیں ہو گا۔“
یہ بیان کرنے کے بعد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ١ (النساء: ۱۵۹) الْآيَةَ.
یعنی: اگر تم (اس کی دلیل جاننا) چاہو تو یہ آیت پڑھ لو:’اور کوئی کتابی ایسا نہیں جو اُس کی موت سے پہلے اُس پر ایمان نہ لائے۔‘ ([41])
غامدی صاحب کا مختلف ترجمہ کرنا
تعجب ہے کہ مذکورہ آیت کا ترجمہ کرتے وقت غامدی صاحب نظمِ قرآن اور سیاقِ کلام سے یکسر ہٹ گئے، اپنے نظریے کے مطابق اس آیت کا ترجمہ یوں کیا:
’’ (یہ اِن کے جرائم ہیں، اِس لیے اب قرآن کے سوا یہ براہ راست آسمان سے اتری ہوئی کسی کتاب کا مطالبہ کر رہے ہیں تو اِن کی پروانہ کرو، اے پیغمبر) اِن اہل کتاب میں سے ہر ایک اپنی موت سے پہلے اِسی (قرآن) پر یقین کر لے گا اور قیامت کے دن یہ اِن پر گواہی دے گا۔‘‘ (البیان) ([42])
جبکہ موصوف کے استاذ امام نے ترجمہ تو درست کیا تاہم تفسیر میں وہ بھی نظمِ قرآن اور سیاق سے دور چلے گئے، ترجمہ یوں کیا: ’’اور اہل کتاب میں سے کوئی نہیں ہے جو اس کی موت سے پہلے اس کا یقین نہ کر لے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہو گا۔‘‘([43])
پھر اس کی تفسیر میں یوں لکھا:
لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ اور قَبْلَ مَوْتِہٖ میں پہلی ضمیر کا مرجع ہمارے نزدیک قرآن ہے اور دوسری کا مرجع آنحضرت ﷺہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آج یہ اہل کتاب قرآن اور نبی کی صداقت تسلیم کرنے کے لیے یہ شرط ٹھہراتے ہیں کہ وہ آسمان سے کتاب اترتی ہوئی دکھائیں تب وہ یقین کریں گے کہ قرآن فی الواقع اللہ کی کتاب ہے اور محمد (ﷺ) واقعی اللہ کے رسول ہیں۔۔الخ‘‘ ([44])
اس آیت میں ان دونوں ضمائر کا الگ الگ محمل بتانا، اسی سورت کی آنے والی آیت نمبر ۱۶۲ کے خلاف ہے، کیونکہ اُس میں اللہ تعالیٰ نے واضح بتا دیا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہر کتابی صرف نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد سے لے کر اُن کی موت سے پہلے ہی ایمان لائے گا، بلکہ آج بھی اہلِ کتاب کا ایک گروہ علم وتقویٰ کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم پر ایمان لا کر اعمالِ صالحہ کرنے لگتا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
لٰكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَ الْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوةَ وَ الْمُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ سَنُؤْتِیْهِمْ اَجْرًا عَظِیْمًا ([45])
’’اِن میں سے، البتہ جو علم میں پختہ ہیں اور جو ایمان والے ہیں، وہ اُس چیز کو مانتے ہیں جو تم پر اتاری گئی اور جو تم سے پہلے اتاری گئی ہے اور خاص کر نماز کا اہتمام کرنےوالے اور زکوٰۃ دینے والے اور اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں ہم عنقریب اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔‘‘(البیان) ([46])
مثال کے طور پر جیسے عبد اللہ بن سلام اور آپ کے اصحاب وغیرہ۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ نزولِ عیسیٰ کے وقت اُن پر ایمان لانا در اصل محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانا ہی کہلائے گا، اس لیے کہ وہ آپ ﷺ کے دین کے داعی، مبلغ اور آپ ﷺ ہی کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے والے بن کر تشریف لائیں گے۔ مزید یہ کہ ایک بات کا اقرار تو خود غامدی صاحب اور آپ کے استاد امام دونوں کو ہے کہ قرآن کریم کی کئی آیات ’صالحینِ اہل کتاب‘کے حق میں نازل ہوئی ہیں۔([47]) غور وفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ النساء کی یہ آیت ۱۶۲ بھی اسی قسم کے لوگوں کے حق میں اُتری ہے۔ النساء کی آیت ۱۵۹ کی تفسیر میں غامدی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے، ہم اُس کے آخری کلمات انھی کے لیے اس اُمید پر نقل کرتے ہیں کہ وہ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق دوبارہ غور وخوض کریں اور متواتر احادیث کے انکار کا الزام اپنے سر نہ لیں، وہ کلمات یہ ہیں:
’’یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ یہ تہدید اور وعید کا جملہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس وقت جو باتیں اِنھیں دلیل سے سمجھائی جارہی ہیں، وہی آنے والے دنوں میں واقعہ بن جائیں گی۔ اِنھیں سوچنا چاہیے کہ اُس وقت یہ کیا کریں گے۔ ماننے کے سوا اُس وقت اِن کے لیے کوئی چارہ نہ ہو گا۔۔الخ‘‘([48])
بالکل درست لکھا ہے آپ نے۔۔! آپ کو بھی ان آیات اور اِن کی مؤید اُن متواتر احادیث میں ضرور سوچنا ہو گا، جنھیں آپ کے بقول محدثین نے بالعموم قبول کیا ہے۔۔۔جو اُمہات کُتب تفسیر میں ذکر کی گئی ہیں۔ میزان میں آپ نے جو’صحیح مسلم‘ کی روایت ذکر کی ہے، اُس کے آخری حصےمیں صریح نزولِ عیسیٰ کا ذکر ہے، اسی طرح اُس روایت سے پہلے والی روایت میں صریح نزولِ عیسیٰ کا ذکر ہے([49])، جسے آپ نے نہ جانے کیوں محلِ نظر ٹھہراتے ہوئے، درج ہی نہیں کیا، آپ کو سوچنا چاہیے کہ جب سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام نزول فرمائیں گے، تو اُس وقت آپ کیا کریں گے! ماننے کے سوا کیا چارہ ہو گا۔۔! خدارا انصاف! اتنی صریح آیات واحادیث کی آخر یہ تاویلات کیوں۔۔۔؟ ایک یقینی ومتعین علامتِ قیامت کا ذکر نہ کرنا، فہم واِدراک سے باہر ہے، واللہ الموفق للصواب۔
۴۔ یاجوج ماجوج کا نکلنا
یاجوج وماجوج کا نکلنا قرآن کریم کے مطابق قیامت کی یقینی ومتعین علامت ہے، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے مدینہ منورہ ہجرت کرنے سے پہلے آپ ﷺ پر جو سورتیں نازل فرمائیں، اُن میں سے دو میں یاجوج وماجوج کا ذکر کیا گیا ہے، چنانچہ سورۂ کہف میں ارشاد ہوتا ہے:
قَالُوْا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِنَّ یَاْجُوْجَ وَ مَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلٰۤى اَنْ تَجْعَلَ بَیْنَنَا وَ بَیْنَهُمْ سَدًّا قَالَ مَا مَكَّنِّیْ فِیْهِ رَبِّیْ خَیْرٌ فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍ اَجْعَلْ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ رَدْمًاۙ اٰتُوْنِیْ زُبَرَ الْحَدِیْدِ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا سَاوٰى بَیْنَ الصَّدَفَیْنِ قَالَ انْفُخُوْا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَعَلَهٗ نَارًا١ۙ قَالَ اٰتُوْنِیْۤ اُفْرِغْ عَلَیْهِ قِطْرًاؕ فَمَا اسْطَاعُوْۤا اَنْ یَّظْهَرُوْهُ وَ مَا اسْتَطَاعُوْا لَهٗ نَقْبًا قَالَ هٰذَا رَحْمَةٌ مِّنْ رَّبِّیْ١ۚ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ رَبِّیْ جَعَلَهٗ دَكَّآءَ١ۚ وَ كَانَ وَعْدُ رَبِّیْ حَقًّاؕ وَ تَرَكْنَا بَعْضَهُمْ یَوْمَىِٕذٍ یَّمُوْجُ فِیْ بَعْضٍ وَّ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰهُمْ جَمْعًا (الکہف ۱۸:۹۴۔۹۹)
’’ اُنھوں نے درخواست کی کہ اے ذوالقرنین، یاجوج اور ماجوج اِس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ تو کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ہم آپ کے لیے اخراجات کا بندوبست کریں اور آپ ہمارے اور اُن کے درمیان کوئی روک بنا دیں۔ اُس نے جواب دیا کہ جو کچھ میرے پروردگار نے میرے اختیار میں دے رکھا ہے، وہ بہتر ہے۔ تم البتہ ہاتھ پاؤں سے میری مدد کرو، میں تمھارے اور اُن کے درمیان ایک دیوار کھڑی کیے دیتا ہوں۔ مجھے لوہے کی سلیں لا دو۔ (چنانچہ وہ فراہم کر دی گئیں)، یہاں تک کہ جب اُس نے دونوں پہاڑوں کے درمیان خلا کو پاٹ دیا تو کہا کہ دھونکو، حتیٰ کہ جب اُس کو آگ کر دیا تو حکم دیا کہ لاؤ، اب میں اِس پر پگھلاہوا تانبا انڈیل دوں۔ سو (یہ ایسی دیوار بن گئی کہ) یاجوج وماجوج اب نہ اُس پر چڑھ سکتے تھے، نہ اُس میں نقب لگا سکتے تھے۔ ذوالقرنین نے کہا: یہ میرے پروردگار کی رحمت ہے۔ پھر جب میرے پروردگار کے وعدے کا ظہور ہو گا تو وہ اِس کو ڈھا کر برابر کر دے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ برحق ہے اُس دن ہم لوگوں کو چھوڑ دیں گے کہ ایک دوسرے سے موجوں کی طرح ٹکرا رہے ہوں گے اور صور پھونکا جائے گا۔ اِس طرح ہم اُن سب کو اکٹھا کر لیں گے۔‘‘ (البیان)([50])
نیز سورۂ انبیاء میں ارشاد ہوتا ہے:
حَتّٰۤى اِذَا فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَ مَاْجُوْجُ وَ هُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ (الانبیاء ۲۱:۹۶)
’’یہاں تک کہ وہ وقت آ جائے، جب یاجوج و ماجوج کھول دیے جائیں اور وہ ہر بلندی سے پل پڑیں۔‘‘ (البیان)([51])
مذکورہ دونوں آیات کی تفسیر میں جو کچھ غامدی صاحب نے لکھا ہے، اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس دن خدا کے وعدے کا ظہور ہو گا، یعنی ظہور قیامت کے قطعی آثار نمودار ہو جائیں اور اُس کے بارے میں کسی بحث کی گنجائش نہ رہے۔تو یاجوج اور ماجوج اِس (دیوارِ ذو القرنین) کو ڈھا کر برابر کر دیں گے۔ یہ اُس وقت کی تصویر ہے ، جب یہ اپنے علاقوں سے نکل کر ہر بلندی سے لوگوں پر پل پڑیں گے۔قیامت اُن کی اِسی عالم گیر یورش کے اندر سے نمودار ہو جائے گی۔ اِس لحاظ سے یاجوج وماجوج کا خروج اور قیامت گویا ایک ہی دن کے واقعات ہیں۔([52])
یاجوج وماجوج کون ہیں؟
غامدی صاحب اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یاجوج وماجوج حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی اولاد ہیں اور اُن کا اصل وطن وسط ایشیا کا علاقہ ہے۔پھر اُنھی کے بعض قبائل یورپ پہنچے اور اِس کے بعد امریکا اور آسٹریلیا کو آباد کیا۔ صحیفۂ حزقی ایل میں اِن کا تعارف روس، ماسکو اور توبالسک کے فرماں روا کی حیثیت سے کرایا گیا ہے۔([53]) یوحنا عارف کے مکاشفے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن کے خروج کی ابتدا نبیﷺ کی بعثت کے ایک ہزار سال بعد کسی وقت ہو گی۔ اُس زمانے میں یہ زمین کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوں گے۔ اِن کا فساد جب انتہا کو پہنچے گا تو ایک آگ آسمان سے اترے گی اور قیامت کا زلزلہ برپا ہو جائے گا۔(مکاشفہ ۲۰: ۷۔۹)([54])
یہاں غور وفکر کرنے سے صحیفۂ حزقی ایل اور مکاشفۂ یوحنا کی عبارت ہر اُس شخص کو کھٹکتی ہے، جو ان آیات کی تفسیر احادیثِ صحیحہ سے جانتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ غامدی صاحب مقر ہیں کہ ’یاجوج وماجوج کا خروج اور قیامت گویا ایک ہی دن کے واقعات ہیں‘، مگر مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ دیوار کو توڑ کر یا اُسے کود کر مختلف ممالک میں خروج کر کے آباد ہو چکے ہیں، بس اپنی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔ جبکہ قرآن کریم صراحت کرتا ہے کہ وہ قیامت سے پہلے نہ دیوار پر چڑھ کر اُسے پار کر سکتے ہیں اور نہ نقب لگا سکتے ہیں۔ ترجمہ ملاحظہ ہو: ’’سو (یہ ایسی دیوار بن گئی کہ) یاجوج وماجوج اب نہ اُس پر چڑھ سکتے تھے، نہ اُس میں نقب لگا سکتے تھے۔ ۔الخ‘‘۔ (البیان)([55]) اب اگر غامدی صاحب کی تفسیر کے مطابق موجودہ یورپ میں اُن کے بعض قبائل پہنچے، اس کے بعد امریکا اور آسٹریلیا میں آباد ہوئے اور یہی موجودہ روس، ماسکو اور توبالسک([56]) میں ہیں، تو سوال یہ ہے کہ یہ لوگ یہاں کیسے پہنچے، حالانکہ ابھی قیامت تو آئی نہیں ہے۔۔! دو ہی صورتیں ہیں: یا تو دیوار پر چڑھ کر پار کر لیا یا نقب زنی کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، مگر اس سے قرآن کریم پر حرف آتا ہے کہ یہ ابھی سے ہو گیا حالانکہ قیامت ابھی اتنی بھی قریب نہیں آئی۔۔! لہٰذا ان قتباسات کو اس آیت کی تفسیر میں ذکر کرنا کسی صورت درست نہیں رہتا، کیونکہ یہ قرآن کریم کے خلاف ہیں، نیز یہ بات تو غامدی صاحب کے نزدیک بھی مسلم ہے کہ دوسرے صحیفوں کے متن جب گم کر دیے گئے اور اُن کے تراجم میں بھی بہت تحریفات کر دی گئی ہیں تو اُن کے حق وباطل میں امتیاز کے لیے یہی قرآن کسوٹی اور معیار ہے، جو بات اِس پر کھری ثابت ہو گی، وہ کھری ہے اور جو اِس پر کھری ثابت نہ ہو سکے وہ یقیناً کھوٹی ہے، جسے لازماً رد ہو جانا چاہیے۔([57]) لہٰذا اس بنا پر اس کی تفسیر میں یہ آیاتِ بائبل کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہیں، بلکہ وہ احادیث قابلِ قبول ہیں، جن میں ذکر ہے کہ یاجوج وماجوج کا خروج،دجال کے مرنے کے بعد ہو گا اور یہ دنیا میں فتنہ پھیلانے لگیں گے، واللہ تعالیٰ اعلم۔
۵۔ آسمان میں ایک دھویں کا نکلنا
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍۙ یَّغْشَى النَّاسَ١ؕ هٰذَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ اِنَّا مُؤْمِنُوْنَاَنّٰى لَهُمُ الذِّكْرٰى وَ قَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌۙثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا مُعَلَّمٌ مَّجْنُوْنٌۘ اِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِیْلًا اِنَّكُمْ عَآىِٕدُوْنَۘیَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرٰى١ۚ اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ (الدخان ۴۴: ۱۰۔ ۱۶)
’’سو اُس دن کا انتظار کرو، (اے پیغمبر)، جب آسمان صریح دھوئیں کے ساتھ نمودار ہو گا۔ وہ لوگوں پر چھا جائے گا۔ یہ ایک دردناک عذاب ہے (وہ پکار اٹھیں گے کہ) ہمارے رب، ہم پر سے یہ عذاب ٹال دے، ہم ایمان لاتے ہیں اب اِن کے لیے نصیحت کہاں! اِن کے پاس تو (ہر چیز کو) کھول کر بیان کر دینے والا رسول آ گیا تھا۔ اِس پر بھی اِنھوں نے اُس سے منھ موڑا اور کہہ دیا کہ یہ تو ایک سکھایا پڑھایا باؤلا ہے ہم کچھ دیر کے لیے یہ عذاب (تم سے) ہٹا بھی دیں تو تم لوٹ کر وہی کرو گے جو تم کرتے رہے تھے یاد رکھو، جس دن ہم بڑی پکڑ پکڑیں گے، وہ دن ہو گا کہ ہم پورا بدلہ لے کے رہیں گے۔‘‘ (البیان)([58])
پھر اس کی تفسیر میں لکھا:
’’یہ ساف وحاصب کے طوفان کی تعبیر ہے، جس سے رسولوں کی قومیں بالعموم ہلاک کی گئیں۔اِسے دُخَانٍ مُّبِیْن یا صریح دھواں اِس لیے کہا گیا کہ اِس طرح کا طوفان اپنے ابتدائی مرحلے میں اٹھتے ہوئے ابر یا دھوئیں ہی کی صورت میں نظر آتا ہے۔‘‘([59]) (البیان)
موصوف کے استاذ امام اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’۔۔۔مفسرین میں سے ایک گروہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ دھواں ظہور قیامت کے وقت ظاہر ہو گا۔ اس کی تائید میں انھوں نے ایک روایت بھی نقل کی ہے لیکن ناقدین حدیث نے اس روایت کو قصہ گویوں کی روایت قرار دے کر اس کی تردید کر دی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ روایت آیات کے سیاق وسباق کے بھی خلاف ہے۔۔الخ‘‘([60])
حالانکہ غامدی صاحب نے ’صحیح مسلم‘ کے حوالے سے’میزان‘ میں ایک روایت نقل کی ہے،جس میں ’دخان‘ کا ذکر صاف طور پر موجود ہے اور اُس کی وضاحت میں لکھا ہے: ’ اِس سے مراد کوئی بڑا ایٹمی انفجار بھی ہو سکتا ہے‘۔([61]) مگر یہاں نہ جانے کیوں اس صریح نشانی سے صرفِ نظر کر بیٹھے اور اُس ’ایک یقینی‘ کے ساتھ اسے درج نہ کیا۔ مقالہ نگار اس دھویں کی تعبیر وتعیین میں موجود دو اقوال یعنی: ’’ساف وحاصب‘‘ اور ’’ایٹمی انفجار‘‘ میں سے کسی ایک کو بھی دوسرے پر ترجیح دینے سے عاجز ہے، کیونکہ اگر پہلی چیز کو درست تسلیم کیا جائے، تو آج تک اس کا کچھ وجوہ سے نہ ہونا لازم آتا ہے، یعنی: ایسا نہیں ہوگا کہ ’ساف وحاصب‘ آکر تباہی مچا دیں، کیونکہ غامدی صاحب کے مطابق اُصول یہ ہے کہ کسی بھی رسول کی قوم پر عذاب نہ آنے کی دو بلکہ تین وجوہ ہوتی ہیں: ۱۔ جب تک رسول اُن میں موجود رہے، ۲۔ اُن میں سے کچھ لوگ استغفار کرتے رہیں یا ۳۔ اُن کی اکثریت ایمان لے آئے۔ بظاہر رسول اللہ ﷺ ہم میں حیاتِ ظاہری کے ساتھ موجود نہیں، پر آج بھی دنیا میں استغفار کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور اسی طرح انسانوں میں ایک بڑی تعداد اسلام بھی قبول کر چکی ہے۔ لہٰذا غامدی صاحب کے اُصول وقواعد کے مطابق اس قسم کا کوئی عذاب بھی شاید یقیناً نہیں آنے والا۔۔! مگر سوال پھر بھی اُٹھے گا کہ آخر اس آیت کا معنی ومفہوم کیا ہو گا؟ نیز حدیث میں علاماتِ قیامت میں سے ایک دھویں کا نکلنا جو بتایا گیا ہے، اُس کا معنی ومفہوم کیا ہو گا۔۔؟ تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ چونکہ یہ آخری زمانے کے حوالہ سے قیامت کی نشانی بیان کی گئی ہے، اسی لیے یہ بالآخر ظاہر ہو کر رہے گی، جیسا کہ احادیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے، اسی لیے یہاں اس کی تعبیر میں ’ساف وحاصب اور ایٹمی انفجار‘ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ امام ابن جریر طبری اپنی تفسیر میں مذکورہ آیت کے تحت حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ دھواں کیا ہے؟ آپ ﷺ نے یہی مذکورہ آیت تلاوت کی اور فرمایا: یہ مشرق سے مغرب تک زمین میں پھیل جائے گا اور چالیس دن تک رہے گا، مؤمن اس کی وجہ سے زکام کی سی کیفیت محسوس کرے گا جبکہ کافر اس میں ایک نشے والے کی طرح ہو گا کہ اُس کے نتھنوں ، کانوں اور پیچھے سے دھواں نکلتا ہو گا۔([62])
رہا تفاسیر کی اُمہات کُتب اور صحاح ستہ وغیرہ کُتبِ احادیث میں موجود کسی روایت کو، جو اپنے موقف کے خلاف جاتی ہو، قصہ گویوں کی روایت کہنا، تو یہ یقیناً یہ بڑی جرأت وبےباکی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے اپنی حفظ وامان میں رکھے۔
۶۔ دابۃ الارض کا نکلنا
من جملہ یقینی ومتعین علاماتِ قیامت میں سے ایک دابۃ الارض (زمین کے جانور) کا نکلنا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے متعلق ارشاد فرماتا ہے:
وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ١ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ۠ (النمل ۲۷:۸۲)
” (اِس وقت تو،اے پیغمبر، تم اِنھیں سمجھا رہے ہو، لیکن) جب ہماری بات اِن پر پوری ہو جائے گی تو ہم اِن کے لیے زمین سے کوئی جانور نکال کھڑا کریں گے جو اِنھیں بتائے گا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے، (سو اب وہ قہر الٰہی بن کر سامنے آگئی ہیں)۔“ (البیان)([63])
غامدی صاحب نے اس کی تفسیر میں بڑی دل چسپ تحقیق لکھی ہے، ہمارا اسے دلچسپ کہنا اس طور پر ہے کہ اگر محض تحقیق کو درست مان لیا جائے، تو روایتیں درست نہیں رہتیں اور اگر روایتوں کو درست مانا جائے تو یہ تحقیق۔۔!، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’یعنی حجت پوری ہو جائے گی اور فیصلے کا وقت آ جائے گا۔ یعنی اپنے وجود سے یہ حقائق واضح کر دے گا۔ آیت میں اِس کے لیے تُکَلِّمُھُمْ کا لفظ آیا ہے۔ یہ اُسی مفہوم میں ہے، جس مفہوم میں یہ سورۂ روم (۳۰) کی آیت ۳۵ میں ہے۔ یہ اِس لیے ہو گا کہ جو لوگ خدا کے آخری پیغمبر کی بات بھی سننے کے لیے تیار نہ ہوں، اُن پرپھر جانوروں ہی کو گواہی دینی چاہیے۔ تاہم اِس کی نوبت نہیں آئی، اِس لیے کہ قریش کے بیش تر لوگ رسول اللہﷺ پر ایمان لے آئے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانے میں بھی لوگوں کے ساتھ اِسی طرح کا معاملہ ہو گا اور اُن پر گواہی کے لیے اِسی نوعیت کا ایک دَآبَۃُ الْاَرْضِ نکال کھڑا کیا جائے گا۔‘‘ ([64])
اسی طرح غامدی صاحب نے ’میزان‘ میں ’صحیح مسلم‘ کے حوالے سے دس علاماتِ قیامت لکھی ہیں، جن میں اسے بھی ایک شمار کیا اور لکھا ہے: ’’زمین کا جانور، جو غالباً اِسی طرح زمین کے پیٹ سے براہ راست پیدا ہو جائے گا، جس طرح تمام مخلوقات ابتدا میں پیدا ہوئی ہیں۔‘‘ ([65])
یہاں یہ پہلا موقع ہے، جہاں تفسیر اور میزان کی عبارات باہم یکسانیت اختیار کر لیتی ہیں، اگرچہ تفسیر کرتے ہوئے، دابۃ الارض والے قول کو ایک دوسرے قول کے طور پر بیان کیا گیا ہے، تاہم لکھا تو ہے، یہ اچھی روش ہے کہ اگر اُس سے متعلق احادیث میں کوئی اور بات ہو تو بر ملا لکھ دی جائے۔ہاں غور وتدبر سے دیکھا جائے تو موصوف کا اس آیت (نمل: ۸۲) سے متعلق یہ کہنا کہ ’’یہ اُسی مفہوم میں ہے، جس مفہوم میں یہ سورۂ روم (۳۰) کی آیت ۳۵ میں ہے‘‘، محلِ نظر ہے، دونوں کے مفہوم اور اسلوبِ کلام میں زمین آسمان کا فرق ہے، یہاں مستقبل میں ہونے والی ایک بات کی خبر دی جاری ہے، جبکہ وہاں سورۂ روم کی آیت ۳۵ میں اسلوبِ کلام، مشرکین کی تحقیر کا ہے، ہم تدبرِ قرآن سے اس پر سند لاتے ہیں، موصوف کے استاذ امام سورۂ روم کی مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اس حذف کو کھول دیجیے تو مطلب یہ ہو گا کہ ان نادانوں نے یونہی خدا کے شریک بنا رکھے ہیں یا ہم نے کوئی دلیل اتاری ہے جو ان کے شریکوں کے شریک خدا ہونے کی شہادت دے رہی ہو!! اس اسلوب کلام میں طنز و تحقیر اور غیظ و غضب سب جمع ہو جاتا ہے۔ آخری گروپ کی سورتوں میں اس کی نہایت بلیغ مثالیں آئیں گی۔‘‘ ([66])
دابۃ الارض سے متعلق چند روایات
اب ہم ذیل میں دابۃ الارض سے متعلق کچھ لکھتے ہیں، مفسرین کے مطابق یہ قربِ قیامت میں اُس وقت ہو گا، جب اس کی علامات ظاہر ہونے لگیں گی، اُس وقت اُن پر غضبِ الٰہی ہو گا اور عذاب واجب ہو جائے گا اور حُجّت پوری ہو چکے گی، وہ اس طرح کہ لوگ نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے منع کرنا چھوڑ دیں گے، اب اُن لوگوں کی درستی کی کوئی اُمید باقی نہ رہے گی اور اس وقت توبہ نفع نہ دے گی۔([67]) تو زمین سے ایک جانور نکلے گا، یہ ایک عجیب شکل کا جانور ہو گا جو کوہِ صفا سے برآمد ہو کر تمام شہروں میں بہت جلد پھرے گا، لوگوں سے فصاحت کے ساتھ کلام کرے گا ، اِس کے ہاتھ میں عصائے موسیٰ اور انگشتری سلیمان ہوگی، عصا سے ہر مسلما ن کی پیشانی پر ایک نشان نورانی بنائے گا اور انگشتری سے ہر کافر کی پیشانی پر ایک سخت سیاہ دھبّا، اُس وقت تمام مسلم وکافر علانیہ ظاہر ہوں گے۔([68]) علماء فرماتے ہیں کہ پھر یہ علامت کبھی نہ بدلے گی، جو کافر ہے ہر گز ایمان نہ لائے گا اور جو مسلمان ہے ہمیشہ ایمان پر قائم رہے گا۔([69])
۷۔ سورج کا مغرب سے نکلنا
قرآن کریم اور احادیث کے مطابق سورج کا مغرب سے نکلنا بھی قیامت کی ایک یقینی ومتعین علامت ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّكَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ١ؕ یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِیْۤ اِیْمَانِهَا خَیْرًا١ؕ قُلِ انْتَظِرُوْۤا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ (الانعام۶:۱۵۸)
’’ کیا وہ اِسی کے منتظر ہیں کہ اُن کے پاس فرشتے آئیں یا تیرا پروردگار آجائے یا تیرے پروردگار کی نشانیوں میں سے کوئی خاص نشانی ظاہر ہو جائے؟ جس دن تیرے پروردگار کی نشانیوں میں سے (اِس طرح کی) کوئی نشانی ظاہر ہو جائے گی، (اُس دن) کسی ایسے شخص کو اُس کا ایمان کچھ نفع نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا اپنے ایمان میں اُس نے کوئی بھلائی نہ کمائی ہو۔ کہہ دو کہ (اِسی پر اصرار کرتے ہو تو) انتظار کرو، ہم بھی انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ (البیان) ([70])
غامدی صاحب نے اس کی تفسیر میں محض اپنے استاذ امام سے کچھ باتیں نقل کی ہیں، تاہم پروردگار کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی کی ’نشان دہی‘ بالکل نہیں کی۔شاید یہاں بھی اُمہات کُتب تفسیر اور احادیث کی طرف بالکل التفات نہیں کیا گیا، ورنہ حقیقتِ حال بالکل واضح ہو جاتی کہ ’خاص نشانی‘ سے مراد سورج کا مغرب سے نکلنا ہے، چنانچہ امام ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ یہاں بعض نشانیاں ظاہر ہونے سے مراد ’سورج کا مغرب سے نکلنا‘ہے، اس سلسلے میں کئی صحابہ کرام سے روایات بھی بیان کی ہیں، ہم اُن میں سے صرف تین مرفوع روایات نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
پہلی روایت: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُهَا کی تفسیر میں فرمایا: اس سے مراد سورج کا مغرب سے نکلنا ہے۔
دوسری روایت: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہو گی، جب تک سورج مغرب سے نہ نکل آئے، فرمایا: جب لوگ اُسے دیکھیں گے تو ایمان لے آئیں گے، مگر اُن کا ایمان لانا انھیں نفع نہ دے گا، پھر یہ آیت تلا وت فرمائی: لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِیْۤ اِیْمَانِهَا خَیْرًا الآیہ۔
تیسری روایت: حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے ایک طویل حدیث بیان کی، جس میں یہ بھی ہے: رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا: جانتے ہو کس دن سورج مغرب سے نکلے گا؟ اُنھوں نے عرض کی:اللہ اور اُس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں، فرمایا: یہ وہ دن ہے، جس کے لیے اللہ نے فرمایا ہے: لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِیْۤ اِیْمَانِهَا خَیْرًا ([71]) معلوم ہوا کہ یہ نشانی بھی متعین ویقینی ہے، جس کی تائید آیت کے ساتھ ساتھ احادیث مرفوعہ سے بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے بھی اُس ایک متعین کے ساتھ شمار کیا جانا چاہیے، واللہ تعالیٰ اعلم۔
۸۔ صور پھونکا جانا
من جملہ علاماتِ قیامت میں سے ایک یقینی ومتعین علامت صور پھونکا جانا بھی ہے، قرآن کریم کی دس سورتوں میں مختلف انداز سے اس کا ذکر کیا گیا ہے([72])، آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو مرتبہ پھونکا جائے گا۔ چنانچہ سورۂ زمر میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ١ؕ ثُمَّ نُفِخَ فِیْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ (الزمر۳۹: ۶۸)
’’ (اُس دن ساری خدائی کا حال یہ ہو گا کہ) صور پھونکا جائے گا تو زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں، سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے، سوائےاُن کے جنھیں اللہ چاہے۔ پھر اُس میں دوبارہ پھونکا جائے گا تو دفعتاً وہ کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے۔‘‘ (البیان) ([73])
معلوم نہیں کن وجوہ کی بنا پر غامدی صاحب نے صور پھونکے جانے کو ایک متعین ویقینی علاماتِ قیامت سے شمار نہیں کیا، حالانکہ قرآن کریم میں اس کا کئی جگہ ذکر موجود ہے۔
یہاں تک ہم نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے ’یاجوج وماجوج کے خروج‘ کے علاوہ سات یقینی ومتعین علاماتِ قیامت کو آیاتِ قرآنی اور احادیث نبوی سے بیان کیا ہے، اس اُمید پر آئندہ کتاب میزان کی اشاعت کرتے وقت انھیں بھی مدِ نظر رکھا جائے گا اور اگر ان سات کے حوالے سے کوئی کلام ہوا، تو وہ بھی کیا جائے گا، خصوصاً سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے نزول کے حوالے سے، کہ جن کا دوبارہ آنا، قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ احادیثِ متواترہ سے بھی ثابت ہے، جیسا کہ گذشتہ سطور میں مذکور ہوا۔
حدیثِ جبریل علیہ السلام اور غامدی صاحب کی توجیہ
ہم یہاں تتمہ کے طور پر غامدی صاحب کی اُس شرح کا جائزہ لیتے ہیں، جو انھوں نے ’حدیثِ جبریل‘ کے تحت کی ہے، حدیثِ جبریل وہی ہے، جس میں ذکر ہے کہ جبریل علیہ السلام انسانی روپ میں ایک روز سیدِ عالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایمان، اسلام، احسان،قیامت اور اُس کی نشانیوں سے متعلق سوال کیا اور آپ ﷺ نے اُن کے جواب ارشاد فرمائے ۔ غامدی صاحب نے ’میزان‘ میں علاماتِ قیامت کے بیان سے متعلق اس کے یہ کلمات نقل کیے:
ان تلد الامۃ ربتہا، وان تری الحفاۃ العراۃ العالۃ رعاء الشاء یتطاولون فی البنیان.(مسلم، رقم ۹۳) ’’ایک نشانی یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جن دے گی اور دوسری یہ ہے کہ تم (عرب کے) اِن ننگے پاؤں، ننگے بدن پھرنے والے کنگال چرواہوں کو بڑی بڑی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے دیکھو گے۔‘‘ ([74])
پھر اس کے بعد شرح میں لکھا: ’’اِن میں سے دوسری علامت تو بالکل واضح ہے۔ پچھلی صدی سے اِس کا ظہور سر زمین عرب میں ہر شخص بچشم سر دیکھ سکتا ہے۔ پہلی علامت کا مصداق متعین کرنے میں لوگوں کو دقت ہوئی ہے۔ ہمارے نزدیک اُس کا مفہوم بھی بالکل واضح ہے۔ اُس سے مراد ایک ادارے کی حیثیت سے غلامی کا خاتمہ ہے۔ یہ دونوں واقعات ایک ہی زمانے میں ہوئے ہیں۔ اِس لحاظ سے یہ پیشین گوئی قرب قیامت کا زمانہ بالکل متعین کر دیتی ہے۔‘‘([75])
سر زمینِ عرب میں بلند وبالا عمارات کا بننا یقیناً بر محل شرح ہے، جس سے کوئی ذی عقل انکار نہیں کر سکتا ، البتہ ’لونڈی اپنی مالکہ کو جن دے گی ‘کے تعین میں علماء کرام کے بہت سے اقوال ہیں، مگر ظاہر ہے کہ وہ سب مجازی معانی ہیں، ہماری رائے میں رسول اللہ ﷺ کے کلماتِ شریفہ کی حقیقت اور واقعی حیثیت سے اُن کا کوئی تعلق وواسطہ نہیں ہے، مثلاً اُن مجازی معانی میں سے کچھ یہ ہیں کہ ۱۔ اولاد نا فرمان ہو جائے گی اور ماں سے لونڈی جیسا سلوک کرے گی، ۲۔ غلاموں کی کثرت ہو گی، ۳۔ غلاموں کی حکومت ہو گی، ۴۔ ناجائز اولاد زیادہ ہوں گی، وغیرہ وغیرہ۔ نیز جب غامدی صاحب کو اس کے تعین میں دقت ہوئی، تو انھوں نے اس کی وہ تعبیر کری ، جوبلا شبہ اب تک ہماری نظر سے نہیں گزری۔ یعنی: ’اُس سے مراد ایک ادارے کی حیثیت سے غلامی کا خاتمہ ہے‘۔ حالانکہ یہ بھی محلِ نظر ہے کیونکہ اسلامی نقطۂ نظر سے غلامی کے خاتے کو کئی سال گزر چکے ہیں([76]) اور اُس وقت سر زمینِ عرب میں بلند وبالا عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ بھی شروع نہیں ہوا تھا۔ مگر غامدی صاحب کے مطابق یہ ابھی ماضی قریب میں بلند عمارات کی تعمیر کے ساتھ بحیثیت ادارہ ختم ہو گیا ہے۔ خدا بہتر جانے ! یہ تشریحات وتوضیحات اور اُن کے پیش کرنے والے سب اپنی جگہ قابلِ احترام ہیں، لیکن ہماری نظر میں اس سے مراد آج کے جدید دور میں ’ٹیسٹ ٹیوب بے بی‘ کے عمل کے لیے غریب خواتین کا ’اپنے ارحام‘ کو دوسرے کے لیے پیش کرنا ہے، جسے انگریزی زبان میں ’Surrogacy‘ کہا جاتا ہے۔ ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعہ اولاد کے حصول کی ضرورت کی مختلف وجوہ بتائی جاتی ہیں: ۱۔ عورت یا مرد کی بیماری، ۲۔ عورت کی جسمانی ساخت کی خوبصورتی میں کمی کا اندیشہ یا ۳۔ استقرارِ حمل کی جھنجھٹ سے چھٹکارا پانا وغیرہ۔ اطلاعات کے مطابق اب کئی ممالک میں اسے قانونی تحفظ دیا جا چکا ہے، جن میں مغربی ممالک سرِ فہرست ہیں۔ ماہرین کے مطابق مرد کے جرثومے (sperms) اور عورت کے بیضے (eggs) لے کر ان کا ملاپ عورت کے رحم کے بجائے ایک ٹیوب میں کروایا جاتا ہے،جب عمل ہو جاتا ہے تو پھر اس کو اگلے مراحل کی تکمیل کے لیے ’ایک رحم‘میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ غریب خواتین اس کام سے منسلک ہو چکی ہیں، جنھیں باقاعدہ اُجرت پر اس کام کے لیے رکھا جاتا ہے، پھر بچے کی پیدا ئش کے بعد اُسے اُن کے اصلی ماں باپ کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔غور وتدبر کرنے سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ ایسی صورت میں بچہ جننے والی عورت، ’بچے کی ماں‘ نہیں کہلائے گی، بلکہ اُس کی حیثیت محض ایک نوکرانی یا کام کرنے والی کی ہو گی، جسے ہم مجازی وعرفی معنوں میں ’لونڈی‘ کہہ سکتے ہیں، بچے کے ماں اور باپ وہی تصور کیے جائیں گے، جن کے نطفے سے یہ بنا ہے۔ ہماری رائے میں یہ توجیہ دیگر کے مقابلہ میں کلماتِ شریفہ کی حقیقت سے نسبتاً زیادہ قریب لگتی ہے۔ تاہم اگر یہ توجیہ درست ہو، تو میرے پروردگار کی توفیق وعنایت ہے اور اگر غلط ہو تو میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول مکرم ﷺ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔
آخری بات یہ کہ غامدی صاحب کا روایتوں میں موجود علاماتِ قیامت سے متعلق یہ کہنا کہ ’۔۔۔اور باقی اگر رسول اللہﷺ کی طرف اُن کی نسبت میں کوئی غلطی نہیں ہو ئی تو لازماًظاہر ہو جائیں گی‘([77])، کسی صورت درست نہیں۔ اس لیے کہ اس طرح ’اگر‘ سے حقائق کو مشکوک ومبہم بنانا کسی مسلمان کو روا نہیں۔ یہ تو مستشرقین کا اندازِ تحقیق ہے کہ درست بات کو بھی اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ پڑھنے والا اُس کے بارے میں متذبذب ہی رہتا ہے۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ اس ایک ’اگر‘سے بات بڑھ کر بہت دور تک پہنچے گی اور پھر بڑھتے بڑھتے پورے دین ہی کو شامل ہو جائے گی، اللہ تعالیٰ ہمیں زلتِ فکر وقلم سے محفوظ فرما کر اِصابتِ فکر وقلم عطا فرمائے، آمین۔
حوالہ جات
- ↑ )( النحل ۱۶: ۸۹
- ↑ )( بنی اسرائیل ۱۷:۹
- ↑ )( الانعام ۶:۳۸
- ↑ )( البقرۃ ۲:۱۸۵
- ↑ )( البقرۃ ۲:۲
- ↑ )( غامدی، جاوید احمد، ’میزان‘، المورد لاہور ، شرکت پرنٹنگ پریس لاہور، طبع پنجم دسمبر ۲۰۰۹ء، ص۱۷۵
- ↑ )( ’میزان‘،ص۱۷۵
- ↑ )( ’میزان‘،ص۱۲
- ↑ )( یعنی: ان دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے۔
- ↑ )( ’میزان‘،ص۶۵۰
- ↑ )( ترجمہ: ’’تو کاہے کے انتظار میں ہیں،مگر قیامت کے کہ ان پر اچانک آ جائے کہ اس کی علامتیں تو آ ہی چکی ہیں،پھر جب وہ آ جائے گی تو کہاں وہ اور کہاں ان کا سمجھنا۔‘‘(کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن)
- ↑ )( قشیری، مسلم بن حجاج، امام، ’صحیح مسلم‘، دار المغنی، سعودیہ عربیہ، ۱۴۱۹ھ۔۱۹۹۸ء، کتاب الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ، رقم: ۸۶۷، ص۴۳۰
- ↑ )( غامدی، جاوید احمد، ’البیان‘، المورد لاہور ، ٹوپیکل پرنٹنگ پریس لاہور، نومبر ۲۰۱۶ء، ج۴، ص۵۴۴
- ↑ )( البیان، ج۴، ص۵۴۴
- ↑ )( سورۂ محمد کا نمبر ترتیبِ نزول کے اعتبار سے ۹۵، جبکہ سورۂ انفال کا ۸۸ ہے۔
- ↑ )( ترجمہ: ’’اور اللہ کا کام نہیں کہ انھیں عذاب کرے جب تک اے محبوب! تم ان میں تشریف فرما ہو،اور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں، جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔‘‘(کنز الایمان)
- ↑ )( غامدی، جاوید احمد، ’البیان‘، محولہ بالا، ج۲، ص۲۸۷
- ↑ )( غامدی، جاوید احمد، ’البیان‘، المورد، محولہ بالا، ج۵، ص۸۲
- ↑ )( البیان، ج۵، ص۸۲
- ↑ )( البیان، ج۵، ص۸۲۔۸۳
- ↑ )( ’میزان‘،ص۵۶۔۵۷، ملتقطاً
- ↑ )( ”تاریخ کا پس منظر“ کے تقاضوں میں سے دوسرے تقاضے کی وضاحت میں لکھا: ’دوسری یہ کہ نبیﷺ اور آپ کے صحابہ کی نسبت سے جو باتیں احادیث وآثار کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں، اُنھیں پوری اہمیت دی جائے‘۔ (دیکھیے: ’میزان‘، ص۵۶
- ↑ )( ’میزان‘،ص۵۵
- ↑ )(’البیان‘،ج۲، ص۵۲۴
- ↑ )( اصبہانی، احمد بن عبد اللہ، ابو نعیم، ’دلائل النبوۃ‘، دار النفائس، بیروت، طبعہ ثانیہ ۱۴۰۶ھ/۱۹۸۶ء، رقم: ۲۰۹، ج۱، ص۲۷۹
- ↑ )( دہلوی، عبد الحق، شیخ، ’مدارج النبوت، شبیر برادرز، لاہور، سن، باب ششم، ج۱، ص۲۲۹
- ↑ )( بریلوی، احمد رضا خان، امام ، ’فتاویٰ رضویہ‘، رضا فاؤنڈیشن لاہور، ۱۴۲۰ھ۔۱۹۹۹ء، ج۱۵، ص۶۱۵
- ↑ )( گولڑوی، مہر علی شاہ،سید، ’شمس الہدایۃ فی اثبات حیاۃ المسیح‘، ص۱۹، مشمولہ: ’عقیدۃ ختم النبوۃ‘ مرتبہ مفتی محمد امین، الادارۃ لتحفظ العقائد الاسلامیۃ،کراتشی، ۱۴۳۳ھ۔۲۰۱۲ء، ج۴، ص۲۷
- ↑ )( شمس الہدایۃ فی اثبات حیاۃ المسیح، ص۶۰، مشمولہ :’عقیدۃ ختم النبوۃ‘، ج۴، ص۶۸
- ↑ )( درانی، محمد حیدر اللہ خان، ’درۃ الدرانی علی ردۃ القادیانی‘،ص۲۲۶، مشمولہ ’عقیدۃ ختم النبوۃ‘ مرتبہ مفتی محمد امین، الادارۃ لتحفظ العقائد الاسلامیۃ،کراتشی، ۱۴۳۳ھ۔۲۰۱۲ء، ج۳، ص۲۵۰
- ↑ )(’میزان‘،ص۱۷۸
- ↑ )( البیان، ج۴، ص۴۶۸۔۴۶۹
- ↑ )( البیان، ج۴، ص۴۶۸۔۴۶۹
- ↑ )( ’البیان‘، طبع دوم، مئی ۲۰۱۴ء، ج۱، ص۳۶۰۔۳۶۱
- ↑ )(’البیان‘،ج۱، ص۳۶۱
- ↑ )( شیبانی، احمد بن محمد بن حنبل، ابو عبد اللہ، ’مسند احمد بن حنبل‘، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، طبعہ اولیٰ ۱۴۲۱ھ۔ ۲۰۰۱ء، مسند عبد اللہ بن عباس، رقم ۲۹۱۸، ج۵،ص۸۴۔ ۸۵
- ↑ )( نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ، ابو عبد اللہ، حاکم، ’المستدرک علی الصحیحین‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت، طبعہ اولیٰ ۱۴۱۱ھ۔ ۱۹۹۰ء، کتاب التفسیر، رقم: ۳۰۰۳، ج۲، ص۲۷۸
- ↑ )( طحاوی، احمد بن محمد بن سلامہ، ابو جعفر، ’شرح مشکل الآثار‘، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، طبعہ اولیٰ ۱۴۱۵ھ۔۱۹۹۴ء، رقم: ۹۸۷، ج۳، ص۱۷
- ↑ )( بستی، محمد بن حبان، ابو حاتم، ’الاحسان فی تقریب صحیح بن حبان‘، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، طبعہ اولیٰ ۱۴۰۸ھ۔ ۱۹۸۸ء، ذکر البیان بان عیسیٰ بن مریم من اعلام الساعۃ، رقم: ۶۸۱۷، ج۱۵، ص۲۲۸
- ↑ )( بخاری، محمد بن اسماعیل، ابو عبد اللہ، ’صحیح بخاری‘، دار ابن کثیر، دمشق، طبعہ اولیٰ ۱۴۲۳ھ۔۲۰۰۲ء، کتاب احادیث الانبیاء، باب نزول عیسیٰ بن مریم علیہما السلام، رقم: ۳۴۴۸، ص۸۵۴۔۸۵۵؛ ’صحیح مسلم‘،کتاب الایمان، باب نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً۔الخ، رقم: ۲۴۲، ص۹۱
- ↑ )( ’صحیح بخاری‘،کتاب احادیث الانبیاء، باب نزول عیسیٰ بن مریم علیہما السلام، رقم: ۳۴۴۸، ص۸۵۴۔۸۵۵ و’صحیح مسلم‘،کتاب الایمان، باب نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً۔۔الخ، رقم: ۲۴۲، ص۹۱
- ↑ )( ’البیان‘،ج۱، ص۵۷۳۔ ۵۷۴
- ↑ )( اصلاحی، امین احسن، مولانا، ’تدبر قرآن‘، فاران فاؤنڈیشن، لاہور نومبر ۲۰۰۹ء، ج۲، ص۴۱۷۔
- ↑ )(’تدبر قرآن‘، ج۲، ص۴۲۳۔
- ↑ )( ترجمہ : ’’ہاں جو اُن میں علم میں پکّے اور ایمان والے ہیں وہ ایمان لاتے ہیں، اُس پر جو اے محبوب! تمھاری طرف اُترا اور جو تم سے پہلے اترا اور نماز قائم رکھنے والے اور زکوٰۃ دینے والے اور اللہ اور قیامت پر ایمان لانے والے، ایسوں کو عنقریب ہم بڑا ثواب دیں گے ‘‘۔ (کنزالایمان)
- ↑ )(’البیان‘،ج۱، ص۵۷۵۔ ۵۷۶
- ↑ )( ملاحظہ ہو ’البیان‘:الانعام ۶: (۲۰) اور الرعد۱۳: (۴۳) کی تفسیر، نیز ملاحظہ ہو ’تدبر قرآن‘، القصص ۲۸: (۵۲) کی تفسیر وغیرہ۔
- ↑ )(’البیان‘،ج۱، ص۵۷۴
- ↑ )( صحیح مسلم ، کتاب الفتن، باب فی الآیات التی تکون قبل الساعۃ، رقم: ۲۹۰۱، ص۱۵۵۲ کی روایت کے کلمات یوں ہیں: قال شعبة: وحدثني عبد العزيز بن رفيع، عن أبي الطفيل، عن أبي سريحة، مثل ذلك، لا يذكر النبي صلى الله عليه وسلم، وقال أحدهما في العاشرة: نزول عيسى ابن مريم، وقال الآخر: وريح تلقي الناس في البحر. جبکہ اس سے پہلے والی روایت (ص۱۵۵۱) کے کلمات یوں ہیں: "عن حذيفة بن أسيد الغفاري قال: اطلع النبي صلى الله عليه وسلم علينا ونحن نتذاكر فقال: ما تذاكرون؟ قالوا: نذكر الساعة، قال: إنها لن تقوم حتى ترون قبلها عشر آيات، فذكر الدخان، والدجال، والدابة، وطلوع الشمس من مغربها، ونزول عيسى ابن مريم، ويأجوج ومأجوج، وثلاثة خسوف: خسف بالمشرق، وخسف بالمغرب، وخسف بجزيرة العرب، وآخر ذلك نار تخرج من اليمن، تطرد الناس إلى محشرهم".
- ↑ )( ’البیان‘، ج۳، ص۱۶۵، ۳۱۷
- ↑ ) (البیان، ج۳، ص۳۱۸۔۳۱۹
- ↑ ) (میزان، ص۱۷۵۔۱۷۶۔ نیز ملاحظہ ہو : ’البیان‘، ج۳، ص۱۶۵۔ وص۳۱۸۔۳۱۹
- ↑ ) (دیکھیے ۳۸: ۱۔۲ اور ۳۹: ۱۔۲
- ↑ ) (میزان، ص۱۷۶۔ و’البیان‘،ج۳، ص۳۱۸۔۳۱۹، ملتقطاً مختصراً
- ↑ ) (البیان، ج۳، ص۱۶۴
- ↑ ) (یہاں غامدی صاحب نے یہ وضاحت نہیں کی کہ موجودہ زمانے میں یہ ’توبالسک‘ کونسی جگہ ہے ۔
- ↑ )(’میزان‘، ص۲۵
- ↑ )( البیان، ج۴، ص۴۷۹۔۴۸۱
- ↑ )( البیان، ج۴، ص۴۸۰
- ↑ )(’تدبر قرآن‘،ج۷، ص۲۷۳
- ↑ )(’میزان‘،ص۱۷۷
- ↑ )( طبری، محمد بن جریر، ابو جعفر، ’جامع البیان عن تأویل آی القرآن‘، دار ہجر قاہرہ،طبعہ اولیٰ ۱۴۲۲ھ۔۲۰۰۱ء، ج۲۱، ص۱۹۔۲۰
- ↑ )( البیان، ج۳، ص۵۷۷
- ↑ )( البیان، ج۳، ص۵۷۷۔۵۷۸
- ↑ )( ’میزان‘،ص۱۷۷
- ↑ )(’تدبر قرآن‘،ج۶، ص۹۶۔۹۷
- ↑ )( ملاحظہ ہو:’جامع البیان عن تأویل آی القرآن‘،ج۱۸، ص۱۱۹۔۱۲۰
- ↑ )( قزوینی، محمد بن یزید، ابو عبد اللہ، حافظ، ’سنن ابن ماجہ‘، دار احیاء الکتب العربیۃ، بیروت، کتاب الفتن، باب دابۃ الأرض، رقم: ۴۰۶۶، جزء۲، ص۱۳۵۱۔۱۳۵۲۔ نیز ملاحظہ ہو: ’جامع البیان عن تأویل آی القرآن‘،ج۱۸، ص۱۲۲۔۱۲۳
- ↑ )( اعظمی، محمد امجد علی، مفتی، ’بہارِ شریعت‘، مکتبۃ المدینہ کراچی، ۱۴۲۹ھ۔۲۰۰۸ء، ج۱، حصہ اول، ص۱۲۶
- ↑ )(’البیان‘،ج۲، ص۱۲۲
- ↑ )(’جامع البیان عن تأویل آی القرآن‘، ج۱۰، ص۱۴۔۱۵
- ↑ )( ملاحظہ ہو: الانعام۶: (۷۳)، الکہف ۱۸: (۹۹)، طہٰ ۲۰: (۱۰۲)، المؤمنون ۲۳: (۱۰۱)، النمل ۲۷: (۸۷)، الزمر ۳۹: (۶۸)، ق ۵۰: (۲۰)، الحاقۃ ۶۹: (۱۳) اور النبأ ۷۸: (۱۸)
- ↑ )( البیان،ج۴، ص۳۴۸۔۳۴۹
- ↑ )( ’میزان‘،ص۱۷۶
- ↑ )(’میزان‘، ص۱۷۶
- ↑ )( اگرچہ دنیا کے کچھ ممالک میں آج بھی غلاموں کی منڈیا ں لگتی ہیں، جن میں ان کی خرید وفروخت ہوتی ہے، جیسا کہ اہلِ علم پر پوشیدہ نہیں ہے۔
- ↑ )( ’میزان‘،ص۱۷۵
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 33 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 33 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 33 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 33 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 33 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 33 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 33 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 33 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 33 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 33 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 33 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 33 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 33 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 33 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 33 Issue 1 | 2019 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |