34
1
2019
1682060084478_1151
219-239
http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/108
آج کی دنیا انتہا پسندی کے مختلف الانواع رجحانات کا شکار ہے اور ان میں سے ایک اہم رجحان مذہبی انتہا پسندی کا ہے۔آج دنیا انتہاپسندی اور اس کے پہلو سے جنم لینے والی دہشت گردی سے پریشان ہے۔ یوں تو دنیا کے ہربڑے مذہب میں انتہا پسند ی کے رجحانات رکھنے والے افراد موجود ہوتے ہیں لیکن اسلام کوشدت سے مطعون کیا جاتا ہے کہ یہ انتہا پسندی کی حوصلہ افزائی کرتاہےاورمسلمان انتہا پسندہوتے ہیں۔اسلام اورانتہا پسندی کومترادف سمجھا جاتا ہے۔اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ نصوص کی روشنی میں واضح کیا جائے کہ انتہا پسندی کے بارے میں اسلام کاکیا موقف ہے اور اس کے تدارک کے لیے اسلام نے کیا اقدامات کیے ہیں۔
انتہا پسندی کا مفہوم
انتہا پسندی کے لیے عربی زبان میں ”غلو “کے الفاط استعمال ہوتے ہیں ۔
امام راغب الاصفہانی ؒ(م502ھ)لکھتے ہیں:
الغُلُوُّ: تجاوز الحدّ ([1])
”حدسے تجاوز کرنا غلو کہلاتاہے ۔“
امام راغب الاصفہانیؒ ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
الغلو: الخروج عن القصد، ومفارقة العدل ([2])
”میانہ روی سے نکلنا اور اعتدال سے الگ ہونا غلو کہلاتاہے ۔“
انگریزی زبان میں انتہا پسندی کے لیے“Extremism”کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے ۔جس کےمختلف “Dictionaries”میں متعدد معانی بیان کیے گئے ہیں ۔
According to the Oxford Advanced Learner’s Dictionary
“Extremism:Political, Religious etc. ideas or actions that are extreme and not normal, reasonable or acceptable to most people. ([3])
”ایسے سیاسی ،مذہبی خیالات یا اقدامات جونارمل کیفیت سے نکل کر انتہا تک پہنچ جائیں اور لوگوں کی اکثریت کے ہاں وہ معقول یا قابل قبول نہ ہوں انتہا پسندی کہلاتے ہیں۔“
مذہبی انتہا پسندی کا مفہوم
مذہبی انتہا پسندی سے مراد دینی معاملات میں حد سے بڑھنا ہےجبکہ اسلام معتدل دین ہے جوافراط اور تفریط کے درمیان واقع ہے ۔امام رازیؒ(م606ھ)لکھتے ہیں :
والغلو نقيض التقصير. ومعناه الخروج عن الحد، وذلك لأن الحق بين طرفي الإفراط والتفريط، ودين الله بين الغلو والتقصير([4])
”اورغلو کمی اورکوتاہی کی ضد ہے۔غلو کا معنی حد سے نکل جانا ،اوریہ اس لیے کہ حق، زیادتی اور کمی کے درمیان واقع ہوتاہے۔اوراللہ کا دین شدت اور کمی کے درمیان ہے ۔“
مذکورہ بالا تعریفا ت کی روشنی میں کہا جاسکتاہے کہ شریعت اسلامیہ میں جو وسعت اوراعتدال پسندی ہے اس کو نظر انداز کرتے ہوئے مذہبی تعلیمات اور معاملات کوایسی انتہا کی بھینٹ چڑھادینا ،جو روح شریعت سے متصادم ہو، مذہبی انتہا پسندی ہے ۔
مذہبی انتہا پسندی کا آغاز
مذہبی انتہا پسندی کی تاریخ اور آغاز پر جب نظر ڈالی جاتی ہے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کا تعلق صرف امت مسلمہ سے نہیں ہے بلکہ یہ سوچ اور نظریہ آنحضرت ﷺ کی بعثت سے قبل یہودیت وعیسائیت یا مسیحیت میں بھی موجود تھا مثلا یہود نے حضرت عزیر ؑ کو اورنصاریٰ نے حضرت عیسی ؑ کو خدا کا بیٹا قراردیا ۔جس کی شہادت قرآن مجید میں موجود ہے ۔
حضرت موسی ؑ اور حضرت عیسی ؑ نے اپنی اپنی اقوام کو دعوت تو حید دی اور فلاح دارین کے راز بتائے کہ اللہ کی اطاعت میں ہی سب کچھ مضمر ہے ۔کچھ عرصے وہ اپنے مذہب کی اصل تعلیمات پر عمل پیرا رہے مگر جب وہ اپنے انبیاء ؑکے بتائے ہوئے طریقۂ اطاعت اور اعتدال کے حصار کو توڑ کر باہر نکلے تو ان میں انتہا پسندی اور شدت پسندی کا جذبہ پیدا ہوا۔چنانچہ انھوں نے ایسی ایسی باتیں کہنی شروع کی جو ان کے انبیاء کی بنیادی تعلیمات سے متصادم تھیں۔
یہود ونصاری میں انتہا پسندی کی مثالیں
1۔مثلا یہود نے حضرت عزیر ؑ کو اورنصاری نے حضرت عیسی ؑ کو خدا کا بیٹا قراردیا ۔قرآن کریم میں ہے :
وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ ([5])
”اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔“
یہ حد سے بڑی ہوئی بات تھی اس کے جواب میں اللہ تعالی نے فرمایا:
ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ ۚ يُضَاهِــــُٔـوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ۭ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ ([6])
” یہ ان کی منھ کی باتیں ہیں وہ کافروں کی سی باتیں بنانے لگے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں اللہ انھیں ہلاک کرے یہ کدھر الٹے جا رہے ہیں۔“
2۔اسی طرح یہود ونصاری غلو میں مزید آگے بڑھے اور خود کو خدا تعالی کے بیٹے قراردیا۔ارشاد ربانی ہے :
وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ([7])
”اور یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں ۔“
یہ بھی ایک حدسے بڑھی ہوئی بات تھی چنانچہ اللہ تعالی نےان کی اس بات کی تردید کرتے ہوئے استفہامیہ انداز میں فرمایا :
قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوبِكُمْ بَلْ أَنْتُمْ بَشَرٌ مِمَّنْ خَلَقَ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ ([8])
” کہہ دو پھر تمھارے گناہوں کے باعث وہ تمھیں کیوں عذاب دیتا ہے بلکہ تم بھی اور مخلوقات کی طرح ایک آدمی ہو جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے سزا دے اور آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی سلطنت اللہ ہی کے لیے ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“
چونکہ یہود کی یہ باتیں انتہا پسندی پر مبنی تھیں اس لیے اللہ تعالی نے یہو دونصاریٰ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو پھر تمھاری نافرمانیوں اور گناہوں کے باعث اللہ تمھیں عذاب کیوں دیتاہے ؟ سوچنے کا مقام ہے ۔
3۔پھر ایک ایسا وقت آیا کہ یہود ونصاری ایک دوسرےکے اس قدر خلاف ہوئے کہ ایک دوسرے کی نفی کرنے لگے ۔
قرآن کریم میں ہے :
وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ لَيْسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰي شَيْءٍ ۠ وَّقَالَتِ النَّصٰرٰى لَيْسَتِ الْيَهُوْدُ عَلٰي شَيْءٍ ۙ وَّھُمْ يَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ ۭ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ فَاللّٰهُ يَحْكُمُ بَيْنَھُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فِيْمَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ ([9])
”اور یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ ٹھیک راہ پر نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودی راہ حق پر نہیں ہیں حالانکہ وہ سب کتاب پڑھتے ہیں ایسی ہی باتیں وہ لوگ بھی کہتے ہیں جو بےعلم ہیں پھر اللہ قیامت کے دن ان باتوں کا، کہ جس میں وہ جھگڑ رہے ہیں، خود فیصلہ کرے گا۔“
یہ بھی یہود ونصاریٰ کی انتہا پسندی کی واضح مثال ہے کہ صر ف خود کوراہ حق پر سمجھا اور دوسرے کو راہ حق سے دور قرار دیا ۔چنانچہ ان کو غلو سے منع کیاگیا۔ارشاد ربانی ہے :
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ ([10])
”اے اہِل کتاب تم اپنے دین میں حد سے نہ نکلو۔“
بعض کہتے ہیں یہ آیت نصاریٰ کے بارے میں نازل ہوئی اور حضرت حسن بصری ؒ کہتے ہیں یہود ونصاریٰ دونوں کے بارے میں نازل ہوئی ۔([11])
اس آیت کی تفسیر میں چند مفسرین کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں ۔امام قرطبی ؒ(م671ھ)اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
ويعني بذلك فيما ذكره المفسرون غلو اليهود في عيسى حتى قذفوا مريم، وغلو النصارى فيه حتى جعلوه ربا، فالإفراط والتقصير كله سيئة وكفر([12])
”مفسرین نے ذکر کیاہے کہ یہود کا غلو عیسی ؑ کے بارے میں یہ تھا کہ ان کی والدہ مریم ؑ پر بہتان لگائے ،اور نصاری کا غلو یہ تھا کہ انھوں نے عیسی ؑ کو رب قرار دیا ، زیادتی اور کمی دونوں گناہ اور کفر ہیں ۔“
قاضی ثناء اللہ پانی پتی(م 1225ھ) لکھتے ہیں :
قيل الخطاب للفريقين اليهود والنصارى فاليهود غلت فى تنقيص عيسى حتى كذبوه وسبوا امه والنصارى فى رفعه حتى اتخذوه الها ([13])
” کہا گیا کہ یہ خطاب یہودونصاری ٰدونوں فریقوں کو ہے ۔یہود نے غلو کیا عیسی ؑ کی تنقیص کی حتی کہ ان کو جھٹلایا اور ان کی والدہ کو برا بھلاکہااور نصاری ٰنے عیسیؑ کا مرتبہ اتنا بلند کیا کہ خدا بنالیا ۔“
امام جمال الدین قاسمی ؒ(م-1332ھ)لکھتے ہیں :
يا أَهْلَ الْكِتابِ لا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ أي:بالإفراط في رفع شأن عيسى عليه السلام وادعاء ألوهيته. فإنه تجاوز فوق المنزلة التي أوتيها. وهي الرسالة. واستفيد حرمة الغلو في الدين وهو مجاوزة الحد([14])
”اے اہِل کتاب تم اپنے دین میں حد سے نہ نکلو،یعنی عیسی ؑ کی شان بڑھانے میں اور ان کے لیے الوہیت کا دعویٰ کرنے میں افراط سے کام نہ لو ،بے شک یہ اس مرتبے سے تجاوز کرنا ہے جو ان کو دیا گیا اور وہ مرتبہ رسالت ہے ۔اور اس آیت سے یہ فائدہ بھی معلوم ہوا کہ دین میں غلو حرام ہے اور وہ حدسے تجاوز کرناہے ۔“
مذکورہ بحث سے معلوم ہوا یہود ونصاریٰ نے غلو کرتے ہوئےشرعی حدود سے تجاوز کیا ،حضرت عزیر ؑ اور حضرت عیسی ؑ کے بارے میں افراط وتفریط پر مبنی نظریات قائم کیےجو ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے ۔
مذہبی انتہا پسندی قرآن کی روشنی میں
جیسا کہ یہ بات پیچھے بیان ہوچکی ہے کہ غلو اور انتہا پسندی حدود سے تجاوز کرنا ہے ۔اسلامی تعلیمات کا مطالعہ اس بات کی بڑی صراحت سے وضاحت کرتاہے کہ اس کے جملہ احکامات اوامر ونواہی میں اعتدال کا تناسب ہے۔جن میں شدت پسندی ،انتہا پسندی کی سرے سے گنجائش موجود نہیں ہے ۔اس لیے لوگوں کی ذہن سازی ہونی چاہیے کہ قرآن کریم میں انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
قرآن کریم میں غلو (انتہا پسندی)کی سختی سےممانعت آئی ہے ۔ یہود ونصاریٰ نےجب غلوکیا تواللہ تعالی نے واضح الفاظ میں منع کرتے ہوئے فرمایا:
قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ ([15])
” کہہ دیجئے! اے اہل کتاب تم اپنے دین میں ناحق زیادتی مت کرو۔“
علامہ جاراللہ زمخشریؒ(م 538ھ) لکھتے ہیں :
غَیر الْحَقِّ صفة للمصدر أى لا تغلوا في دينكم غلوا غير الحق أى غلواً باطلا ([16])
”غیرالحق مصدر کی صفت ہے یعنی لا تغلوا في دينكم غلوا غير الحق،تم اپنے دین میں ناحق حدسے نہ نکلویعنی غلوباطل نہ کرو۔“
علامہ ز مخشری ؒ کی اس تفسیر سےمعلوم ہوا کہ آیت کریمہ میں ”غیرالحق“کی قید سے”غلو حق“ کی اجازت دیناہےاور غلو باطل کی ممانعت کرنا ہے ۔چنانچہ انھوں نے ” غلو “کی دو قسمیں بیان کی ہیں:غلو حق اور غلوباطل ،اور دیگر ائمہ نے بھی ان کے موقف کی تائید کی ہے ۔
جبکہ دیگر بعض اہل علم کے ہاں غلو حق کا کوئی مطلب نہیں ہےبلکہ غلو” ناحق“ ہی ہوتاہے ۔ جن میں امام راغب ؒ،قاضی شہاب الدین ؒ ،قاضی ثناء اللہ ؒ ، علامہ آلوسی ؒومفتی محمد شفیع شامل ہیں۔
علامہ زمخشری کا موقف
علامہ زمخشری ؒ لکھتے ہیں:
لأنّ الغلو في الدين غلوّان غلوّ حق، وهو أن يفحص عن حقائقه ويفتش عن أباعد معانيه، ويجتهد في تحصيل حججه كما يفعل المتكلمون من أهل العدل والتوحيد رضوان اللَّه عليهم وغلوّ باطل وهو أن يتجاوز الحق ويتخطاه بالإعراض عن الأدلة واتباع الشبه، كما يفعل أهل الأهواء والبدع ([17])
”غلو فی الدین کی دو صورتیں ہیں ،غلو حق یہ ہے کہ انسان حقائق کو ظاہرکرے اور دور کے معانی کی تحقیق کرے اوراس کے دلائل کے حاصل کرنے کی انتہائی کوشش کرے ،جیسا کہ حضرات متکلمین کا طرز عمل ہے۔اور غلو باطل ،حق سےتجاوز ، دلائل شرعیہ سے اعراض،اور شبہات کی پیروی کرنا جیسا کہ خواہشات اور بدعات کی پیروی کرنے والے کرتے ہیں ۔“
امام فخرالدین رازیؒ کارجحان بھی اس طرف ہے وہ لکھتے ہیں:
لأن الغلو في الدين نوعان: غلو حق، وهو أن يبالغ في تقريره وتأكيده، وغلو باطل وهو أن يتكلف في تقرير الشبه وإخفاء الدلائل([18])
”غلو فی الدین کی دو قسمیں ہیں۔غلو حق یہ ہے کہ انسان دین کے اثبات اور تاکید میں مبالغہ کرے ،اور غلوباطل یہ ہے کہ انسان شبہات کو ثابت کرنے اور دلائل کو چھپانے میں تکلف کرے ۔“
اما م ابو العباس احمد بن یوسف الحلبی ؒ(م756ھ)لکھتے ہیں:
لا تغلُوا فيه وهو باطلٌ، بل اغْلُوا فيه وهُوَ حَقٌّ؛ ويؤيِّد هذا ما قاله الزمخشريُّ ([19])
”دین میں غلو باطل نہ کرو ،بلکہ دین میں جو غلو کرو وہ حق ہو،اور اس کی تائید زمخشری کے کلام سے بھی ہوتی ہے ۔“
امام محمد بن حسین القمی النیشا پوریؒ(م-850ھ) لکھتے ہیں :
بأن الغلو في الدين غلوان ،حق وهو أن يبالغ في تقرير الحق وتوضيحه واستكشاف حقائقه، وباطل وهو أن يتبع الشبهات على حسب الشهوات، والثاني منهي عنه دون الأوّل ([20])
”غلوفی الدین دو قسم کے ہیں : غلو حق یہ ہے کہ حق کے ثابت کرنے اوراس کی وضاحت اور حقائق کے کھولنے میں مبالغہ کرناہے ،اور غلوباطل،وہ خواہشات کے مطابق شبہات کی اتباع کرناہے،اور یہ دوسری قسم ممنوع ہےنہ کہ پہلی قسم۔“
امام شوکانیؒ(م1250ھ)لکھتے ہیں:
واما الغلو في الحق بابلاغ كلية الجهد في البحث عنه واستخراج حقائقه فليس بمذموم([21])
”اور رہا غلو فی الحق کہ شرعی مباحث اور حقائق کے استخراج میں انتہائی درجہ کی کوشش کرنایہ مذموم نہیں ہے ۔“
اختصار کے پیش نظر چند مفسرین کے اقوال درج کیے ہیں ،وگرنہ اور بھی اہل علم کا یہی موقف ہے ۔جن میں ابو حیان اندلسی ؒ(م 745ھ)امام ابو حفص عمر بن علی ؒ(م 775ھ)امام الخطیب الشربینی (م977ھ)امام نووی الجاویؒ(م 1316ھ)امام جمال الدین قاسمی ؒؒ(م1332ھ)شامل ہیں ([22])
غلو حق اور باطل کی تشریح اور وضاحت میں ائمہ کے مذکورہ بالا اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے خلاصہ درج ذیل ہے ۔
غلو حق
حق کی معرفت ، اثبات،توضیح اور حقائق کے استخزاج اور چھان بین میں پوری کوشش اور انتہا کرنا ۔جیسا کہ عقائد کے مسائل میں متکلمین حضرات اور فقہی مسائل کے اخذ واستنباط میں فقہاء کا طریقہ کار سامنے آتاہے کہ وہ بڑی گہرائی میں جاکر غو روفکر کرکے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں،یہ مذموم نہیں ہے۔
غلو باطل
خواہشات کی اتباع میں مشتبہات کے ثابت کرنے کی کوشش ،دلائل کا چھپالینا ،یہ مذموم ہے۔
امام راغبؒ وغیرہ کا موقف
امام راغب ؒ(م 502ھ)کے ہاں غلو حق کا کوئی مطلب ومفہوم نہیں ہے غلو” ناحق“ ہی ہوتاہے ۔
علامہ محمودآلوسی ؒ (م-1270ھ)اس بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے امام راغب کے موقف کو بطور تائید نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
غَيْرَ الْحَقِّ نصب على أنه صفة مصدر محذوف أي غلو غير الحق- أي باطلا- وتوصيفه به للتوكيد فإن الغلو لا يكون إلا غير الحق على ما قاله الراغب ([23])
”غَيْرَ الْحَقِّ ،مصدر محذوفغلوکی صفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ۔عبارت یوں ہوگی غلو غیر الحق،یعنی باطل غلو نہ کرو،اوریہ صفت تاکید کے لیے لائی گئی ہے اس لیےکہ غلو ناحق ہی ہوتاہے جیسا کہ امام راغبؒؒ نے کہا ۔“
قاضی شہاب الدین خفاجی ؒ (م 1069ھ)لکھتے ہیں:
غير الحق صفة مصدر أي غلوا غير حق، ووصفہ به للتوكيد فإن الغلو لا يكون إلا غير حق ([24])
”غیرالحق مصدر کی صفت ہے ای غلوا غیرالحق اور یہ صفت تاکید کے لیے لائی گئی ہے ۔اس لیے کہ غلو غیر حق میں ہی ہوتاہے ۔“
قاضی ثناء اللہ پانی پتی (م 1225ھ)لکھتے ہیں :
غَيْرَ الْحَقِّ منصوب على المصدرية اى غلوا باطلا غير الحق وفيه تأكيد والا فالغلو لا يكون الا باطلا ([25])
”غَيْرَ الْحَقِّ ،مصدر محذوف غلو کی صفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ۔اور اس میں تاکید ہے وگرنہ غلو صرف باطل میں ہوتاہے ۔“
مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں :
”آیت مذکورہ میں لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ کے ساتھ لفظ غیر الحق لایا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ناحق کا غلو مت کرو، یہ لفظ محققین اہل تفسیر کے نزدیک تاکید کےلیے استعمال ہوا ہے، کیونکہ غلو فی الدین ہمیشہ ناحق ہوتا ہے اس میں حق ہونے کا احتمال ہی نہیں اور علامہ زمخشری وغیرہ نے اس جگہ غلو کی دو قسمیں قرار دی ہیں، ایک ناحق اور باطل جس کی ممانعت اس جگہ کی گئی ہے۔ دوسرے حق اور جائز جس کی مثال میں انھوں نے علمی تحقیق و تدفیق کو پیش کیا ہے۔ جیسا کہ عقائد کے مسائل میں حضرات متکلمین کا اور فقہی مسائل میں فقہاء رحمہم اللہ کا طریقہ رہا ہے، ان کے نزدیک یہ بھی اگرچہ غلو ہے۔ مگر غلو حق اور جائز ہے، اور جمہور کی تحقیق یہ ہے کہ یہ غلو کی تعریف میں داخل ہی نہیں، قرآن و سنت کے مسائل میں گہری نظر اور موشگافی جس حد تک رسول کریم ﷺاور صحابہ و تابعین سے ثابت ہے وہ غلو نہیں اور جو غلو کی حد تک پہنچے وہ اس میں بھی مذموم ہے۔“([26])
لیکن بعض محققین نے کہا” غیرالحق“ یہ تاکید کے لیے نہیں بلکہ تقیید کے لیے ہے ۔اور امام راغب کا قول قابل تسلیم نہیں ہے ۔قاضی شہاب الدین خفاجی ؒ (م 1069ھ)لکھتے ہیں:
وقيل إنه للتقييد لأنه قد يكون غير حق، وقد يكون حقا كالتعمق في المباحث الكلامية ([27])
”اور یہ بھی کہا گیاہے کہ یہ صفت تقیید کے لیے ہے اس لیے کہ غلو کبھی غیر حق پر ہوتا ہے اور کبھی حق پر جیسا کہ کلامی مباحث میں نہایت غور وفکر کرنا۔“
علامہ محمود آلوسی بغدادی (م1270ھ)لکھتے ہیں:
وقال بعض المحققين: إنه للتقييد، وما ذكره الراغب غير مسلم، فإن الغلو قد يكون غير حق، وقد يكون حقا كالتعمق في المباحث الكلامية ([28])
”اوربعض محققین نے کہا یہ غیر الحق صفت تاکید کے لیے نہیں بلکہ تقیید کے لیے ہے۔اور جوامام راغب نے کہا وہ قابل تسلیم نہیں ہے ۔اس لیے کہ غلو کبھی ناحق ہوتاہے ۔اور کبھی حق پر ہوتاہے جیسا کہ کلامی مباحث میں بہت زیادہ گہرائی میں جانا پڑتاہے ۔“
مذکورہ بالا بحث کو نکات کی صورت میں ذکر کیاجاتاہے ۔
(الف)امام راغب ؒ وغیرہ کی رائے میں” غَيْرَ الْحَقِّ “مصدر محذوف” غلو“ کی صفت تاکید کے لیے لائی گئی ہے ۔اس لیے کہ غلو ناحق ہی ہوتاہے ۔لہذا حق پر غلو کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
(ب)غَيْرَ الْحَقِّ یہ مصدر محذوف ”غلو“ کی صفت تقیید کے لیے ہے ۔یعنی ناحق غلو نہ کرو ۔اور حق پر غلو اس سے خارج ہے اس کی ممانعت نہیں ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ غلو کی دو قسمیں ہیں جیسا کہ امام زمخشری ؒ ودیگر اہل علم کامؤقف ہے ۔
(ج)بعض محققین نے امام راغب کے اس قول کوتسلیم نہیں کیا ۔ان کے ہاں غَيْرَ الْحَقِّ،غلو مصدر محذوف کی صفت ، تقیید کے لیے ہے ۔اور مقصود صرف” غلو ناحق“ کی نفی ہے ۔لہذ ا غلو حق کا اثبات ہورہاہے اور وہ جائز ہوگا جیسا کہ علم الکلام سے متعلقہ مباحث میں بہت زیادہ غوروفکر ہوتاہے۔
علامہ آلوسی ؒ کا اعتراض
علامہ آلوسی ؒ نے اسی بحث میں امام زمخشری ؒ کی بیان کردہ غلو کی اقسام بیان کرکے غلو حق کی مثال پر اعتراض اٹھا یا ہے ۔علامہ آلوسی لکھتے ہیں:
وقد يناقش فيه على ما فيه من الغلو في التمثيل بأن الغلو المجاوزة عن الحد، ولا مجاوزة عنه ما لم يخرج عن الدين، وما ذكر ليس خروجا عنه حتى يكون غلوا ([29])
”اور تحقیق زمخشر ی ؒ نے غلو میں جو مثال دی ہے اس پر اعتراض کیا جاتاہے کہ غلو کہتے ہیں حد سے تجاوز کرنااورجب تک دین سے خروج نہ ہوجائے اس وقت تک تجاوز کرنا نہیں پایا جاتا اور زمخشری نے جو ذکرکیا ان میں دین سے خروج نہیں ہوتا کہ اس کو غلو کہا جائے۔“
جواب
علامہ آلوسی ؒ کے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر غلو میں دین سے خروج پایا جائے اس لیے کہ دین کے اثبات اور توضیح اور اجتہادی وکلامی مسائل میں حدسے زیادہ غور وفکر ہوتا ہے اور ان کے مقابلے میں دیگر مسائل میں ایسی کیفیت وحالت نہیں ہوتی تو ان کے مقابلے میں پہلے قسم کے مسائل میں غور وفکر اور تعمق غلو حق ہی کہلائے گا ۔اس لیے کہ نفس غلو تو ان میں پا یا ہی جارہاہے ۔
بہرکیف اگربغور دیکھا جائے تو علماء کی یہ بحث محض تعبیر کا فرق ہے ۔ا س لیے کہ جوعلماء” غلو فی الحق“ کو جائز قرار دیتے ہیں ان کے ہاں بھی یہ اس صورت کے ساتھ مشروط ہےکہ” غلو حق ہو اور شریعت کے دائرہ کار اور حد بندی سے تجاوز نہ ہو۔“جیسا کہ زمخشری ؒ ودیگرائمہ کی غلو حق میں دی گئی مثالوں سے واضح ہورہاہے کہ ان میں غلو ہے مگر دین سے خروج نہیں ہورہا،اور جو کہتے ہیں کہ غلو” باطل“ میں یا ناحق ہی ہوتاہے ان کا مطلب ”دینی کاموں میں حد سے تجاوز نہ ہو تو وہ غلو نہیں کہلاتا۔“
یا یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ امام زمخشری ؒ وغیرہ نے جن امور کو ”غلوحق “میں شمار کیا ہے وہ ”نفس غلو “کے اعتبار سے ہے ،”غلو اصطلاحی“ مراد نہیں ہے ۔اور امام راغب ؒ وغیرہ کے ہاں ”غلو اصطلاحی “مراد ہے اور وہ حق میں ہو یا باطل میں ہو منع ہے۔بہرکیف یہ لفظی بحث ہے ۔مذکورہ بالا بحث کے بعد کہا جاسکتاہے کہ قرآن وسنت میں جس غلو اور انتہا پسندی کی ممانعت ہے وہ ”غلو باطل“ ہے ۔
واضح رہے کہ دین کی تمام مطلوبہ باتوں پر عمل کرنا غلو میں داخل نہ ہو گا ۔مثلا ًبنیادی عقائد اسلام([30]) جمیع پر ایمان رکھنا ضروری ہے بعض پر ایمان رکھنا کافی نہیں ہے ۔اسی طرح ارکان اسلام میں شہادتیں ،نماز ،روزہ ،حج ،زکوۃ شامل ہیں([31]) تو ان تمام پر عمل کرنا ضروری ہے ۔اگر کوئی شخص پورے دین پر عمل کرے تو اسے انتہا پسند نہیں کہا جائے گا ۔اس لیے کہ یہ بات شرعاً مطلوب ہے ۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّةً ([32])
”مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔“
امام ابن کثیر ؒ (م774ھ)اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
يقول الله تعالى آمرا عباده المؤمنين به المصدقين برسوله أن يأخذوا بجميع عرى الإسلام وشرائعه، والعمل بجميع أوامره، وترك جميع زواجره، ما استطاعوا من ذلك، قال العوفي، عن ابن عباس ومجاهد وطاوس والضحاك وعكرمة وقتادة والسدي وابن زيد في قوله ادخلوا في السلم يعني الإسلام([33])
یعنیاللہ تعالیٰ اپنے اوپر ایمان لانے والوں اور اپنے نبی کی تصدیق کرنے والوں سے ارشاد فرماتا ہے کہ وہ کل احکام کو بجا لائیں کل ممنوعات سے بچ جائیں کامل شریعت پر عمل کریں۔ مختلف مفسرین نے کہا ہے کہ آیت ادخلوا في السلم میںسلم سے مراد اسلام ہے۔
لہٰذا جو شخص پورے دین پر عمل کرے اور جملہ احکامات کو بجا لائے تووہ ”انتہا پسند“ نہیں کہلائے گا ۔قرآن کریم نے یہود کی مذمت بیان کی ہے کہ وہ” تورات “کے بعض احکامات کو مانتے تھے اور بعض کا انکار کرتے تھے جو کہ شرعاً ممنوع تھا ۔ارشاد ربانی ہے :
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ([34])
” کیا تم کتاب کے بعض حصے پر ایمان لاتے ہو اور بعض کے منکر ہوتے ہو ۔“
یہ ایک جرم تھا جس کی دو سزائیں بیان کی گئیں ،دنیا میں ذلت ورسوائی کا سامنا اور آخرت میں سخت عذاب ہوگا ۔ارشاد ربانی ہے:
فَمَا جَزَاۗءُ مَنْ يَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يُرَدُّوْنَ اِلٰٓى اَشَدِّ الْعَذَابِ ۭ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ([35])
”سو کوئی سزا نہیں اس کی جو تم میں یہ کام کرتا ہے مگر رسوائی دنیا کی زندگی میں اور قیامت کے دن پہنچائے جاویں سخت سے سخت عذاب میں، اور اللہ بے خبر نہیں تمھارے کاموں سے۔“
علامہ شبیراحمد عثمانی(م 1369ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
”یعنی بعض احکام کومانے اور بعض کا انکار کرے۔اس لیے کہ ایمان کا تجزیہ تو ممکن نہیں تو اب بعض احکام کا انکار کرنے والا بھی کافر مطلق ہوگا۔ صرف بعض احکام پر ایمان لانے سے کچھ بھی ایمان نصیب نہ ہوگا۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوگیا کہ اگر کوئی شخص بعض احکام شرعیہ کی تو متابعت کرے اور جو حکم کہ اس کی طبیعت یا عبادت یا غرض کے خلاف ہو اس کے قبول میں قصور کرے تو بعض احکام کی متابعت اس کو کچھ نفع نہیں دے سکتی۔“([36])
معلوم ہوابعض احکام شرعیہ کی تعمیل اور دیگر بعض کا ترک دنیاوی واخروی لحاظ سے نقصان دہ ہے ۔اور اگر بعض احکام شرعیہ کو مان لیا اور جو احکام طبیعت اور خواہش کے مطابق نہ تھے ان کا انکار کردیا تو یہ معاذ اللہ کفر ہے ۔اس لیے کہ جمیع احکام شرعیہ پر ایمان ضروری ہے ۔ایمان چونکہ تجزی(ٹکڑوں)کو قبول نہیں کرتا اس لیے بعض پر ایمان اور بعض کا انکار معتبر نہیں ہے ۔
مذکورہ بحث کاخلاصہ یہ نکلا کہ قرآن کریم میں انتہا پسندی(غلو باطل) کی ممانعت ہے ۔شریعت اسلامیہ کے دائرہ میں رہتے ہوئےجو کام ہوگا وہ انتہا پسندی نہیں کہلائے اور جو اس سے متجاوز ہوگا وہ انتہا پسند ی ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا ۔اللہ تعالی ٰ نے امت محمدیہ ﷺکو معتدل بنایا ۔ارشاد ربانی ہے :
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ([37])
”اور اسی طرح کیا ہم نے تم کو امت معتدل تاکہ تم ہو گواہ لوگوں پر اور ہو رسول تم پر گواہی دینے والا۔“
ایک مقام پر فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ ([38])
”بے شک الله تعالیٰ اعتدال کاحکم دیتاہے ۔“
امام صنعانی ؒ(م1182ھ)لکھتے ہیں:
أي بالتوسط في كل أمر قصده العبد ولذا نهى عن الغلو في الدين([39])
”یعنی ہر کام میں اعتدال ہو جس کا بندہ ارادہ کرے اور اسی لیے غلوفی الدین کی ممانعت آئی ہے ۔“
اس لیے امت مسلمہ کے لیےضروری ہے کہ وہ تمام معاملات میں اعتدال اور میانہ روی سے کام لے اور ہرقسم کی انتہا پسندی سے دور رہے ۔
مذہبی انتہا پسندی احادیث کی روشنی میں
احادیث مبارکہ میں بھی ”غلو فی الدین“ کی ممانعت آئی ہے اور انتہا پسندی سے منع کیاگیاہے ۔اس لیے عوام کے سامنے ان احادیث کی خوب وضاحت ہونی چاہیے کہ انتہا پسندانہ رویوں کی احادیث مبارکہ میں حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور اعتدال پسندی مطلوب ہے تاکہ معاشرےمیں رائج انتہا پسندی کا تدارک ہو سکے۔ارشادنبویﷺہے :
وَإِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ، فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ ([40])
”اور تم دین میں انتہا پسندی سے بچنا کیونکہ تم سے قبل کی امتیں دین میں غلو (انتہا پسندی) اختیار کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں۔“
امام ابن بطال ؒ (م 449ھ)لکھتے ہیں :
أن الغلو فى الدين مذموم والتشديد فيه غير محمود ([41])
”تحقیق غلو فی الدین مذموم ہے اور اس میں سختی کرنا ناپسندیدہ ہے ۔“
علامہ ابن تیمیہ ؒ(م728ھ)اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
عام في جميع أنواع الغلو، في الاعتقاد والأعمال ([42])
”یہ حدیث عقائد اور اعمال میں غلو کی تمام انواع کو شامل ہے ۔“
عقائد میں غلو کی بڑی واضح مثال یہود ونصاری کا طرز عمل ہے کہ انھوں نے حضرت عزیز ؑ اورحضرت عیسی ؑ کو خدا کا بیٹا قرار دیا ۔([43])اسی طرح امت مسلمہ کے بعض افراد جو قبرپرستی اور مزارات کو سجدے کررہے ہیں یا عقائد کی قرآن وسنت کو چھوڑ کر من پسند توضیح وتشریح کررہے ہیں یہ بھی غلو فی العقائدہے جو کہ قابل مذمت ہے ۔
اسی طرح نصاریٰ نے عمل میں غلو کرتے ہوئے ایسے احکامات اپنے اوپر لازم کرلیے جو اللہ تعالی کی طرف سے نہیں تھے اور پھران کو نباہ بھی نہ سکے ۔ارشاد ربانی ہے :
وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَــتِهَا ([44])
”اور ترک دنیا جو انھوں نے خود ایجاد کی ہم نے وہ ان پرفرض نہیں کی تھی مگر انھوں نے رضائے الہیٰ حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا پس اسے نباہ نہ سکے جیسے نباہنا چاہیے تھا۔“
امت مسلمہ میں بھی بہت سے ایسے اعمال پائے جاتے ہیں جن کا شرعاً ثبوت اور وجود نہیں ہے مگر ان کو عین ثواب سمجھ کر کیا جارہا ہے تو یہ عمل میں” غلو “ہے ۔چونکہ غلو کرنے والا بہت سے کاموں کو باعث اجرو ثواب سمجھ کر اد اکرتا ہے حالانکہ شرعاًوہ کام ناجائز اور غلط ہوتاہے اسی لیے آپ ﷺنے غلو کرنے والوں کے بار ے میں وعید بیان فرمائی ہے ۔حدیث میں ہے ،نبی کریمﷺ نےتین بار ارشاد فرمایا:
هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ ([45])
”غلو کرنے والے ہلاک ہو گئے۔“
امام نووی ؒ (م676ھ)اس حدیث کی تشریح میں لکھتےہیں:
هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ» أي المتعمقون الغالون المجاوزون الحدود في أقوالهم وأفعالهم ([46])
”یعنی وہ لوگ جو بہت زیادہ غلو کرنے والے اوراقوال وافعال میں حدود سے تجاوز کرنے والے ہیں۔“
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
المتنطعون جمع متنطع وهو المبالغ في الأمر قولا وفعلا ([47])
” متنطعون متنطع کی جمع ہے اور اس کا مطلب کسی بھی معاملے میں قول اور فعل کے ذریعے مبالغہ کرنے والا ۔“
دین کے جمیع احکامات اور جملہ معاملات میں انتہا پسند ی سے منع کیا گیا اور اعتدال ومیانہ روی کا حکم دیا ۔
ایک حدیث میں ہے ۔آپ ﷺنے فرمایا:
سَدِّدُوا ([48])
” کہ اعتدال اختیار کرو۔“
دوستی اور دشمنی کے معاملات میں بھی انتہا پسندی سے منع کیاہے اور اعتدال ومیانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیاہے۔ارشاد نبوی ﷺ ہے :
أَحْبِبْ حَبِيبَكَ هَوْنًا مَا عَسَى أَنْ يَكُونَ بَغِيضَكَ يَوْمًا مَا، وَأَبْغِضْ بَغِيضَكَ هَوْنًا مَا عَسَى أَنْ يَكُونَ حَبِيبَكَ يَوْمًا مَا ([49])
”اپنے دوست کے ساتھ میانہ روی کا معاملہ رکھو۔ شاید کسی دن وہ تمھارا دشمن بن جائے اور دشمن کے ساتھ دشمنی میں بھی میانہ روی ہی رکھو کیونکہ ممکن ہے کہ کل وہی تمھارا دوست بن جائے۔“
عصر حاضر میں دینی معاملات کو اس طرح بیان کیا جاتاہے کہ سننے والا محسوس کرتا ہے شاید اس کے لیے اس پر عمل کرنا دشوار ہو۔یا کوئی کسی گناہ میں مبتلا ہو توا س کو ایسے تنبیہ کی جاتی ہے گویا اس کی بخشش بہت مشکل ہے ۔ دین میں آسانیاں رکھی گئی ہیں آج اس انتہا پسندانہ رویہ کی وجہ سے دینی احکامات پر عمل دشوار لگتاہےجبکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے :
إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ ([50])
”دین بہت آسان ہے ۔“
اور دوسرے مقام پر فرمایا:
يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا ([51])
”آسانی کرو اور سختی نہ کرو، لوگوں کو خوش خبری سناؤ اور متنفر نہ کرو۔“
ایک مشہور واقعہ ہےکہ ایک شخص نےآپ ﷺ سے آکر عرض کیا([52]) ہو سکتا ہے کہ میں باجماعت نماز نہ ادا کرسکوں ،کیونکہ فلا ں شخص ([53]) ہمیں بہت طویل نماز پڑھایا کرتا ہے ابومسعودانصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نصیحت کرنے میں اس دن سے زیادہ کبھی نبی کریم ﷺ کو غصے میں نہیں دیکھاآپ ﷺ نے فرمایا:
فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ مُنَفِّرُونَ، فَمَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمُ المَرِيضَ، وَالضَّعِيفَ، وَذَا الحَاجَةِ ([54])
” آپ نے فرمایا کہ اے لوگو! تم ایسی سختیاں کر کے لوگوں کو دین سے نفرت دلاتے ہو، دیکھو جو کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے اسے چاہیے کہ ہلکی نماز پڑھائے اس لیے کہ مقتدیوں میں مریض بھی ہوتے ہیں اور کمزور بھی ہوتے ہیں اور ضرورت والے بھی ہوتے ہیں۔“
علامہ کرمانی ؒ(م 786ھ)اس حدیث کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
إِنَّكُمْ مُنَفِّرُونَ أي عن الجماعات والأمور الإسلامية وخاطب الكل ولم يعين المطول كرما ولطفا عليه وكان هذه عادته حيث ما كان يخصص العتاب والتأديب لمن يستحقه حتي لا يحصل له الخجل ([55])
”تم لوگوں کو متنفر کرتے ہو جماعات اور اسلامی امور سے،آپ ﷺنےیہ بات سب کو مخاطب کرکے کہی اس شخص کا نام نہیں لیا جو لمبی نماز پڑھاتا تھااس پر شفقت وکرم کرتے ہوئے ،اور یہ آپ کی عادت تھی کہ جو ڈانٹ ڈپٹ اور تادیب کا مستحق ہوتاتھا اس کی تخصیص نہیں کرتے تھے تاکہ اس کو شرمندگی نہ ہو۔“
نماز میں طویل قرأت کرنا ممنوع نہیں ہے ،اکیلا آدمی ہو یا مقتدیوں میں سے کسی کو عذر نہ ہو تو طویل قرأت کی جاسکتی ہے ۔لیکن اگر کسی کو تکلیف یا عذ ر کا سامنا ہو تو پھر اس کی ممانعت ہے ۔چونکہ اس طرز پر نماز باجماعت کی ادائیگی معذوروں کے لیے پابندیٔ جماعت میں حارج ہورہی تھی اس لیے آ پﷺنے سختی سے منع فرمایا اور کمال شفقت دیکھیے کہ امام کا نام لیے بغیر تمام افراد کو مخاطب کرکے تنبیہ کی تاکہ حقیقی اور اصل مخاطب شرمسار نہ ہو اور آپ ﷺ کا تادیب میں یہی اسلوب کارفرما تھا ۔
آپﷺکو اگر دو کاموں میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کی نوبت آتی تو آسانی اور سہولت والے کام کو اختیار کرتے تھے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا، مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا، فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ ([56])
” کہ نبی ﷺ کو جب دو کاموں میں سے ایک کام کرنے کا اختیار دیا جاتا تو آپ ﷺان میں سے آسان کام کو اختیار فرماتے تھے بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہوتا ہو اور اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ ﷺ سب لوگوں سے بڑھ کر اس کام سے دور رہتے۔“
اس حدیث کی تشریح میں شارحین حدیث کی بحث ہوئی ہے کہ امرین کااختیار دینے والا کون تھا ۔؟اور ان کا تعلق دینی معاملات سےتھایادنیاوی معاملات سے تھا ؟
اگر دینی معاملات سے ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ تخییر منجانب اللہ تھی تو اس پر ایک بڑا وزنی سوال ہوگا کہ اگر وہ دونوں معاملے دینی تھے تو ان میں ایک گناہ کا کام کیسے ہوگیا؟
اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کو ایسی دوچیزوں میں سے کوئی ایک چیز پسند کرلینے کا اختیار کیسے دیا جاسکتا تھا جس میں سے کوئی بھی ایک چیز گناہ کاموجب ہوتی؟امام ابن بطالؒ (م449ھ)کی رائے یہ ہے کہ ان کا تعلق دنیاوی معاملات سے تھا۔ ([57])
امام بدرالدین عینی ؒ (م 855ھ)کی بھی یہی رائے ہے۔کہ امرین کا تعلق دنیاوی امور سے ہے ۔اور اس پر قرینہ حدیث مبارکہ کے یہ الفاظ ہیں ۔مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا (جب تک کہ وہ کام گناہ نہ ہوتا )اس لیے کہ دینی کاموں میں گناہ نہیں ہوتا ۔ا گر آسان کام میں گناہ کا اندیشہ ہوتا تو پھر مشقت والے کام کو اختیار کرتے تاکہ گناہ کا ارتکاب نہ ہو ([58]) معلوم ہوا امرین کا تعلق دنیاوی امور سے ہے ۔
رہا یہ سوال کہ یہ اختیار کس کی جانب سے تھا ۔تو اس کا جواب بھی معلوم ہوگیا کہ جب ان معاملات کا تعلق دنیاوی امور سے تھا تو وہ بندوں کی طرف سے تھا ۔اس میں پھر بحث ہوئی کہ وہ بندے کفار میں سے تھے یا اصحاب رسول ﷺ تھے ؟
اگر یہ اختیار کفار کی طرف سے تھا تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ دو کاموں میں سے ایک ضرور گناہ کا موجب بنتا اس لیے کہ کفار سے گناہوں کا صدور ممکن ہے وہ تو شریعت کے پابند نہیں ہیں ۔ اورا گر یہ اختیار مسلمانوں کی طرف سےتھا تو اس کا مطلب وہ کام جو گناہ تو نہیں ہے مگر اس کا باعث ہوسکتاتھا۔ ([59])
بعض اہل علم کا موقف یہ ہے کہ اگر یہ اختیاراللہ تعالی کی طرف سے ہو تو اس سے مراد گناہ نہیں ہوگا بلکہ وہ چیز جو گناہ تک پہنچاسکتی ہو مثلاً عبادات میں مجاہدہ اور میانہ روی کا اختیار ملنا ،اگر چہ دینی کاموں میں مجاہدے معصیت نہیں ہے لیکن اگر مجاہد ہ میں اتنی شدت اور سختی کی جائے کہ نوبت ہلاکت تک پہنچ جائے تو یہ ممنوع ہوگا ۔ ([60])
اللہ تعالیٰ کی طرف سےآپﷺکو اختیار ملنے کی مزیدصورتیں بھی اہل علم نے بیان کی ہیں کہ جن کا تعلق آپ ﷺکی ذات اقدس سے نہیں بلکہ امت سے ہے ۔چنانچہ قاضی عیاضؒ(م544ھ)نے ان کو بیان کیا ہے جن کا مفہوم درج ذیل ہے۔
1۔کہ اپنی امت کے حق میں کسی گناہ کی ان دو سزاؤں میں سے ایک کا انتخاب کرلیجیے۔تو آپﷺنے امت کے حق میں ہلکی تھی اس کو اختیار کرلیا ۔
2۔یا اس بات کا اختیار ملا کہ گرفتا ر ہوکر آنے والے کفار کو چاہے قتل کردیں اور مناسب سمجھیں تو جزیہ لے لیں،ان میں جزیہ والی صورت میں آسانی تھی آپ ﷺنے ا س کو اختیار کرلیا ۔
3۔ آپﷺ کو امت کے حق میں یہ اختیار دیا کہ اللہ تعالی کی عبادت میں مجاہدہ یا میانہ روی میں سے جو چاہتے ہیں وہ منتخب کرلیں آپ ﷺ نے میانہ روی کا انتخاب کیا کیونکہ اس میں امت کے حق میں سہولت ہے ۔ ([61])
بہرکیف آپ ﷺکے اس طرز عمل سے معلوم ہوا کہ آسان اور سہولت والاایسا معاملہ اختیار کرنا چاہیے جو گناہ کا باعث نہ ہو اور تمام معاملات میں میانہ روی معتبر ہے ۔دور نبوی ﷺ کا مشہورواقعہ ہے :
” تین آدمی تھے ،ان میں سے ایک نے کہا میں رات بھر نماز پڑھا کروں گا ،دوسرے نے کہاہمیشہ روز ہ رکھوں گا ،تیسرے نے کہا میں نکاح نہیں کروں گا اور ہمیشہ عورتوں سے الگ رہوں ہوگا۔اس کے بعد رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا تم لوگوں نے یوں یوں کہا ہے؟ اللہ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ سے تمھاری بہ نسبت بہت زیادہ ڈرنے والا اور خوف کھانے والا ہوں، پھربھی روزہ رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور ساتھ ساتھ عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، یاد رکھو جو میری سنت سے روگردانی کرے گا، وہ میرے طریقے پر نہیں۔“ ([62])
چونکہ اس طریقے سے عبادات وغیرہ کی ادائیگی شرعا مطلوب نہیں ہے اس لیے آپ ﷺ نے سختی سے منع کیا اور اس کی مذمت کی ۔حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
أن الغلو ومجاوزة القصد في العبادة وغيرها مذموم([63])
”تحقیق غلو اور میانہ روی سے تجاوزکرنا عبادات وغیرہ میں مذمو م ہے۔“
علامہ شوکانی لکھتے ہیں:
ان الغلو في العبادة والافراط في الطاعة على وجه تخرج به عن الحد الذي حده والمقدار الذي قدره ممنوع منه منهي عنه ([64])
”عبادت اور نیکی کے کاموں میں غلو اورافراط کرتے ہوئے اس حد اور مقدار سے نکل جانا، جو شریعت نے مقرر کی ممنوع ہے ۔“
معلوم ہوا کوئی بھی دینی معاملہ ہوعبادات سے متعلق ہو یا طاعات سے اس میں شریعت کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے،جیسا کہ تین صحابیوں کا واقعہ اوپر گزرا کہ آپ ﷺ نے انہیں عبادات میں افراط سے منع کیاکیونکہ اس میں انتہا پسندی کی طرف رجحان ہورہا تھا ۔
ایک اورواقعہ حدیث میں مذکور ہے جس سے اعتدال پسندی کا سبق ملتاہے ۔آپ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ کو فرمایا ” اے عبداللہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم دن کو روزہ رکھتے ہو اور رات کو کھڑے ہو جاتے ہو۔ میں نے کہا ہاں یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا: روزے بھی رکھو اور افطار بھی کرو۔ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہو تو رات کو سویا بھی کرو،اس لیے کہ :
فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا ([65])
”بےشک تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے ۔اورتیری آنکھوں کاتجھ پرحق ہے ۔تیری بیوی اور مہمان کا تجھ پر حق ہے ۔“
انسان جب انتہا پسندی کی طرف مائل ہوتا ہے تو وہ رفتہ رفتہ ان تمام حقوق کی ادائیگی سے دور ہوتا جاتاہے جو اس کے ذمے ہوتے ہیں اس لیے شرعاً ایسے طرز عمل کے اختیار کرنے سےمنع کیا گیا ہے ۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے ۔ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
قَالَ: كُنَّا نَغْزُو مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ لَنَا نِسَاءٌ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلاَ نَسْتَخْصِي؟ فَنَهَانَا عَنْ ذَلِكَ ([66])
”کہ ہم رسول ﷺ کے ہمراہ جہاد کرتے تھے، اس وقت ہماری بیویاں نہ تھیں، تو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ اجازت دیتے ہیں کہ ہم خصی ہوجائیں، تو آپ ﷺ نے اس سے ہمیں منع فرمایا۔“
چونکہ یہ ایک شدت پر مبنی انتہائی قدم تھا اس لیے آپ ﷺ نے اس کی اجازت نہیں دی ۔حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (م 852ھ)اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں جس کا مفہوم درج ذیل ہے:
”اس حدیث میں جو نہی بیان ہوئی ہے وہ وہ تحریمی ہے یعنی یہ قدم اٹھانا حرام ہے ۔کیونکہ اس میں بہت سے نقصانات اور مفاسد ہیں ،مثلا اپنی جان کو اذیت میں مبتلا کرنا ،ضرر کی وجہ سے ہلاکت کا خطرہ ،قوت مردانہ کاخاتمہ ،اللہ کی تخلیق میں تبدیلی ،اور نعمت کا انکار اس لیے کہ اللہ تعالی نے مرد کے روپ میں پیدا کرکے انعام عظیم کیا جب یہ صلاحیت زائل کردی جائے گی تو عورتوں سے مشابہت ہوگی اور نیز ایک کمال والی حالت سے نقص والی حالت کا اختیارکرنا۔ ان وجوہ سے آپ ﷺ نے خصی ہونے سے منع فرمایا۔“ ([67])
حدیث مبارکہ میں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ آپﷺ نے جہاں غلو اور انتہا پسندی کے اثرات دیکھے تو فوری اس سے منع کیا ۔ اس لیے دینی ومذہبی تعلیم اور وعظ ونصیحت کے وقت ان تمام روایات کو نہ صرف کھول کھول کر بیا ن کیا جائے بلکہ اس کا اطلاق آج کی صورت حال پر کر کے ذہن سازی کی جائےاور یہ بات ذہن نشین کرادی جائے کہ وہی کام شرعاً موجب اجرو ثواب ہوگا جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوگا جو شرعی حدود قیود سے متجاوز ہو گا وہ شدت پسندانہ کہلائے گا جو کہ باعث مذمت ہے ۔
خلاصۂ بحث
مذکورہ بالا بحث کاخلاصہ یہ ہےکہ انتہا پسندی جس کے لیے غلوکا لفظ استعمال کیا جاتا ہے،کسی چیز کی اصل حیثیت سےتجاوز کرنے اور حد سے آگے بڑھ جانے کا نام ہے ۔ بعض ائمہ نے ” غلو “کی دو قسمیں بیان کی ہیں:غلو حق اور غلوباطل ۔جبکہ دیگر بعض اہل علم کے ہاں غلو حق کا کوئی مطلب نہیں ہےبلکہ غلو” ناحق“ ہی ہوتاہے ۔ جن میں امام راغب ؒ،قاضی شہاب الدین ؒ ،قاضی ثناء اللہ ؒ ، علامہ آلوسی ؒومفتی محمد شفیع ؒ شامل ہیں۔بہرکیف اگربغور دیکھا جائے تو علماء کی یہ بحث محض تعبیر کا فرق ہے ۔غلو یہودونصاری کے عقائد واعمال میں بھی پایا جاتا ہے جس کی اسلامی تعلیمات میں مذمت کی گئی۔ اسلام میانہ روی اور اعتدال کا مذہب ہے ، جو شخص اسلامی تعلیمات میں غور کرے گا چاہے وہ قرآنی آیات ہوں یا احادیث ہوں ، وہ محسوس کرے گا کہ اسلامی احکام کی بنیادیں میانہ روی ، اعتدال ، سہولت اور کشادگی پر قائم ہیں اور تشدد ، تعذیب اورانتہاپسندی کا اس سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ اسلام نے ہر طرح کے غلو اور انتہاپسندی کی مذمت کی ہے، غلو کی ہر قسم سے ڈرایا ہے اوراس سے مسلمانوں کو ہر حال میں بچنے کی تاکید کی ہے۔
حوالہ جات
- ↑ ۔ الراغب الاصفہانی،ابو القاسم ،الحسین بن محمد،المفردات فی غریب القرآن،دارالقلم بیروت،1412ھ،ج1،ص613
- ↑ ۔ ایضاً،تفسیر الراغب الاصفہانی ،کلیۃ الآداب ،جامعہ طنطنا،1420ھ،ج4،ص 238
- ↑ .Oxford Advanced Learner’s Dictionary of Current English A S Hornby ,seventh edition Oxford University Press,P.541
- ↑ ۔ الرازی،فخرالدین ،محمد بن عمر بن الحسن ،مفاتیح الغیب،دار احیاء التراث العربی بیروت ،1420ھ،ج12،ص411
- ↑ ۔التوبہ:30
- ↑ ۔ایضاً
- ↑ ۔المائدۃ:18
- ↑ ۔ایضاً
- ↑ ۔البقرہ:113
- ↑ ۔ النساء:171
- ↑ ۔ ابن جوزی،عبدالرحمن بن علی ،ابو الفرج ،زاد المسیر فی علم التفسیر ،دار الکتاب العربی بیروت ،1422ھ،ج1،ص501
- ↑ ۔ القرطبی ،محمد بن احمد بن ابی بکر،ابو عبداللہ،الجامع لاحکام القرآن،دارالکتب المصریۃ القاہرہ،1384ھ،ج6،ص21
- ↑ ۔ المظہری،محمد ثناء اللہ ،القاضی ،التفسیر المظہری ،کتبۃ الرشدیہ،1412ھ،ج2،ص279
- ↑ ۔ القاسمی ،جمال الدین بن محمد ،محاسن التاویل ،دارالکتب العلمیہ بیروت ،1418ھ،ج3،ص477
- ↑ ۔المائدہ:77
- ↑ ۔الزمخشری،محمود بن عمرو،الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل ،دارالکتاب العربی بیروت،1407ھ،ج1،ص666
- ↑ ۔ایضاً،الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل،ج1،ص666
- ↑ ۔الرازی،مفاتیح الغیب،ج12،ص411
- ↑ ۔السمین الحلبی،احمد بن یوسف ،ابو العباس،الدرالمصون فی علوم الکتاب المکنون،دارالقلم دمشق،ج4،ص380
- ↑ ۔القمی النیشا پوری،نظام الدین الحسن بن محمد ،غرائب القرآن ورغائب الفرقان،دارالکتب العلمیۃ بیروت ،1416ھ، ج2،ص624
- ↑ ۔الشوکانی ،محمد بن علی ،فتح القدیر ،دار ابن کثیر بیروت،1414ھ،ج2،ص75
- ↑ ۔ابو حیان محمد بن یوسف ،البحر المحیط فی التفسیر،دارلفکر بیروت،1420ھ،ج4،ص335 النعمانی،عمر بن علی ،ابو حفص ،اللباب فی علوم الکتاب ،دارالکتب العلمیۃ بیروت،1419ھ،ج7،ص466؛الخطیب الشربینی،محمد بن احمد،السراج المنیر فی الاعانۃعلی معرفۃبعض معانی کلام ربناالحکیم الخبیر،القاہرہ،مطبعۃ بولاق الامیریۃ، 1285ھ،ج1،ص390؛نووی الجاوی،محمد بن عمر،مراح لبیدلکشف معانی القرآن المجید،دارالکتب العلمیۃ بیروت،1417ھ،ج1،ص286؛ القاسمی ،جمال الدین،محاسن التاویل،ج4،ص218
- ↑ ۔آلوسی، محمودبن عبداللہ،روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی ،دارالکتب العلمیۃ بیروت، 1415ھ، ج3، ص 375
- ↑ ۔الخفاجی،شہاب الدین،احمد بن محمد ،عنایۃ القاضی وکفایۃ الراضی علی تفسیر البیضاوی،دارصادر بیروت،س ن ، ج3 ، ص 271
- ↑ ۔ثناء اللہ ،قاضی ،المظہری،ج3،ص150
- ↑ ۔مفتی محمد شفیع،معارف القرآن،کراچی ،مکتبۂ معارف القرآن ،1429ھ،ج3،ص212
- ↑ ۔الخفاجی،عنایۃ القاضی وکفایۃ الراضی علی تفسیر البیضاوی،ج3،ص271
- ↑ ۔آلوسی، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی ،ج3،ص375
- ↑ ۔ایضاً ،ج3،ص375
- ↑ ۔ البقرہ:177
- ↑ ۔ البخاری،محمد بن اسماعیل ،ابو عبداللہ ،الجامع الصحیح ،دار طوق النجاۃ،1422ھ،ج1،ص11
- ↑ ۔ البقرہ:208
- ↑ ۔ ابن کثیر،اسماعیل بن عمر،ابو الفداء،تفسیر القرآن العظیم ،دارالکتب العلمیۃ بیروت،1419ھ،ج1،ص422
- ↑ ۔ البقرہ:85
- ↑ ۔ ایضاً
- ↑ ۔ عثمانی،شبیراحمد ،علامہ،تفسیر عثمانی ،الطاف اینڈ سنز کراچی،ص17
- ↑ ۔ البقرہ:143
- ↑ ۔النحل:90
- ↑ ۔محمد بن اسماعیل بن صلاح،التنویرشرح جامع الصغیر،مکتبہ دارالسلام الریاض،1432ھ،ج3،ص243
- ↑ ۔ النسائی،احمد بن شعیب،ابو عبدالرحمن ،السنن،حلب،المکتب المطبوعات الاسلامیۃ،1406ھ،ج5،ص268
- ↑ ۔ابن بطال،علی بن خلف،ابو الحسن ،شرح صحیح البخاری لابن بطال،الریاض،مکتبۃ الرشد،1423ھ،ج8،ص405
- ↑ ۔ابن تیمیہ الحرانی،ابو العباس ،احمد بن عبدالحلیم،اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم،دار عالم الکتب بیروت،1419ھ،ج1،ص238
- ↑ ۔التوبہ:30
- ↑ ۔الحدید:27
- ↑ ۔ مسلم بن الحجاج،ابوالحسن ،الصحیح ،داراحیاء التراث العربی بیروت ،س ن ،ج4،ص2055
- ↑ ۔ النووی،یحیٰ بن شرف،ابو زکریا ،المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج،داراحیاء التراث العربی بیروت، 1392ھ، ج16،ص220
- ↑ ۔ العسقلانی ،ابن حجر،احمد بن علی ،فتح الباری شرح صحیح البخاری،ج1،ص196
- ↑ ۔ البخاری،الجامع الصحیح ،ج8،ص98
- ↑ ۔ الترمذی،محمد بن عیسی ٰ،ابو عیسی ٰ،السنن،مکتبۃ ومطبعۃمصطفی البابی الحلبی ،1395ھ،مصر،ج4،ص360
- ↑ ۔ البخاری،الجامع الصحیح ،ج1،ص16
- ↑ ۔ البخاری،الجامع الصحیح ،ج1،ص25
- ↑ ۔ وہ صحابی حضرت حزم بن ابی کعب تھے ۔(فتح الباری،ج1،ص252)
- ↑ ۔ وہ صحابی حضرت معاذ بن جبل تھے۔(فتح الباری،ج1،ص252)
- ↑ ۔ البخاری،الجامع الصحیح ،ج1،ص30
- ↑ ۔ الکرمانی ،محمد بن یوسف،شمس الدین ،الکواکب الدراری فی شرح صحیح البخاری،داراحیاء التراث العربی بیروت،1401ھ، ج2،ص79
- ↑ ۔ البخاری،الجامع الصحیح ،ج4،ص189
- ↑ ۔ ابن بطال،شرح صحیح البخاری،ج8،ص405العینی،بدرالدین،محمود بن احمد ،عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،داراحیاء التراث العربی بیروت،س ن ،ج16،ص112
- ↑ ۔ العینی،بدرالدین،محمود بن احمد ،عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،ج16،ص112
- ↑ ۔ الکرمانی،محمد بن یوسف ،شمس الدین ،الکواکب الدراری فی شرح صحیح البخاری،ج22،ص3
- ↑ ۔ الکرمانی،الکواکب الدراری فی شرح صحیح البخاری،ج22،ص3
- ↑ ۔ عیاض بن موسی ،ابو الفضل ،القاضی ،اکمال المعلم بفوائد مسلم،دار الوفاء للطباعۃ والنشر والتوزیغ مصر، 1419ھ، ج7،ص291
- ↑ ۔ البخاری،الجامع الصحیح ،ج7،ص2
- ↑ ۔العسقلانی،ابن حجر،فتح الباری،ج10،ص526
- ↑ ۔الشوکانی ،محمد بن علی ،فتح القدیر ،دار ابن کثیر بیروت،1414ھ،ج2،ص600
- ↑ ۔ البخاری،الجامع الصحیح ،ج3،ص39
- ↑ ۔ البخاری،الجامع الصحیح ،ج7،ص4
- ↑ ۔ العسقلانی ،فتح الباری شرح صحیح البخاری،ج9،ص119
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |