34
1
2019
1682060084478_1152
203-218
http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/109
’’مشاجرات صحابہ ‘‘ترکیب اضافی ہے جس میں لفظ ’’مشاجرات‘‘ مضاف ہےاور لفظ ’’صحابہ‘‘ مضاف الیہ ہے، ’’مشاجرات ‘‘ جمع ہے مشاجرۃ کااور ’’مشاجرۃ‘‘ ماخوذ ہے لفظ شجر سے ،شجر باب نصر ینصر سے آتاہے،شجرشجورا کامعنیٰ ہے
زیر بحث ہونا،مختلف فیہ ہونا۔ ([1])
شجرالامر بینھم،’’باہم کسی معاملہ کامتنازعہ ہونا،مختلف فیہ ہونا،کسی بات پرباہم اختلاف ہونا‘‘۔ ([2])
اور لفظ شجر کا عربی میں لغوی معنی ہے درخت ،قرآن مجید میں بھی لفظ مشاجرہ مذکورہے:فلا و ربک لا یؤمنون حتی یُحَکِموک فی ما شَجَر بینھمم ثم لایجدوافی انفسھم حرجا مماقضیت ویسلمو تسلیما ([3])
’’نہیں ،(اے پیغمبر )تمہارے پروردگار کی قسم !یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک یہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تمہیں فیصل نہ بنائیں، پھر تم جوکچھ فیصلہ کرو، اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں ،اور اس کے آگے سر تسلیم خم کردیں۔‘‘
مجاہد ؒ نے کہا :حرجاًسےمراد شک ہے ، کیونکہ شک کرنےوالا ہمیشہ اپنے معاملےمیں تنگی محسوس کرتاہے۔ ([4])
لفظ شجر کچھ اور معنوں میں بھی آتاہے،لغت کی ایک بڑی کتاب میں مذکورہے:
الشجر بمعنی مفرج الفم ومابین اللحین وقال الاصمعی الشجر الذقن ([5])
’’ شجر سے مراد جو دوجبڑوں کے درمیان ہے۔“
اصمعیؒ کہتے ہیں شجر بمعنی توڑی ہے‘‘اسی طرح حدیث میں بھی لفظ شجر مذکورہے، سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ :
قالت عائشۃؓ توفی رسول اللہ ﷺ فی بیتی وفی یومی وبین شجری ونحری وصدری وسحری ([6])
’’ نبی اکرم ﷺمیرے گھر میں وفات پاگئے اورمیری باری تھی اورآپ ﷺکاسر میرے توڑی اورسینےکےدرمیان تھا۔‘‘
لغوی اعتبار سے لفظ ’’مشاجرہ ‘‘ کامطلب درختوں کا گھنا ہونا یادرخت کی شاخوں اور ڈالیوں کا ایک دوسرے میں گھس جانا ،گتھ جانااور آپس میں ٹکراناہے۔ یہیں سے اس کااطلاق جھگڑے اور نزاع کےمعنی میں ہواہے۔اس لیے کہ لڑنے والے ،ایک دوسرےمیں گتھ جاتےہیں۔
علما ئے کرام نے صحابہ کرام ؓ کے درمیان جو اختلافات پیش آئےاور کھلی جنگوں تک نوبت پہنچ گئی،ان کو جنگ وجدال سے تعبیر نہیں کیا،بلکہ ازروئے ادب مشاجرہ کے لفظ سے تعبیر کیاہے۔ کیونکہ درخت کا ایک دوسرے میں گھسنا اور ٹکرانا،مجموعی حیثیت سے کوئی عیب نہیں ہے،بلکہ درخت کی زینت اور کمال ہے۔([7])
شریعت کی اصطلاح میں ’’مشاجرۃ‘‘ کا مطلب ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اختلاف ، نزاع اور آپس میں لڑائی ۔ چونکہ درختوں کے شاخوں کا آپس میں اختلاف اور مختلف سمت ہونا کوئی عیب نہیں اور نہ اس پر کوئی اعتراض وارد ہوتا ہے بلکہ درخت کے مناسب لگتا ہے اسی وجہ سے صحابہ کے درمیان نزاع و اختلاف کوبھی علمائے دین نےبجائے جنگ اور لڑائی کے مشاجرہ کا نام دیا ہے کیونکہ ایک دین /عقیدے کے ساتھ جڑے ہوتےہوئے ان کا اختلاف مناسب تھا اور کوئی قابل اعتراض نہیں ہے جیسا کہ درخت کی شاخیں،تنے سے جڑے ہوئے ہونے کے باوجود تنےسے مختلف ہوتی ہیں ۔
صحابہ کرامؓ میں اختلافات ضرور ہوئے جنھیں آیت فیماشجربینھم کے عنوان کےمطابق’’ مشاجرات صحابہ کرامؓ ‘‘سے یادکیاجاتاہے۔لیکن ان میں شر نہ تھا خواہ وہ اختلافات دینیات سے متعلق تھے جیسے مسائل فقہ اور احکام فرعیہ کا اختلاف یاسیاست سےمتعلق تھے جیسے خلافت وامارت اور اس سے متعلقہ امور کا اختلاف، بہر صورت وہ شرسے خالی تھے۔اور ظاہر ہےکہ نفس اختلاف نہ مذموم ہے نہ کوئی قابل اعتراض چیزہے۔تکوین اور تشریع کاکون سادائرہ ہے،جس میں اختلاف نہیں ہوا،شرائع میں اختلاف رہاہے،جس کوانبیأ علیہم السلام کی طرف منسوب کیاجائے گا،یعنی ان کا اختلاف، اختلاف مزاج اور اختلاف ذوق شرائع کے ذریعے نمایاں ہوا۔ معقولات میں اختلاف رہاہے،جس کوفلاسفہ کا اختلاف کہاجاتاہے۔ اجتہادیات میں اختلاف رہاہے جس کو ائمہ ہدایت کا اختلاف کہاجاتاہے۔فتاوٰی میں اختلاف رہاہے،جس کو مفتیوں کا اختلاف کہاجاتاہے۔قوانین میں اختلاف رہاہے،جس کو حکام وسلاطین کا اختلاف کہاجائےگا۔
خلاصہ یہ کہ مادی یا روحانی،عقلی یا حسی،ذوقی یا وجدانی کون سافن ہے، جس میں قواعد واصول اورمسائل وفروع کا اختلاف نہیں۔عرض کوئی فن معقول ہو یا منقول اہل فن کے اختلاف سے خالی نہیں، اس لیے نفس اختلاف کومذموم نہیں بلکہ انسانی جوہر کہاجائےگا۔جب کہ خود انسانی طبائع، عقول،فہم،ذوق،وجدان وغیرہ سب ہی میں تفاوت ہےتویہ سارے اختلافات لازمی ہیں۔پھر انسانی صورتوں،رنگوں،ڈھانچوں،قدوقامت اور بدن کی ساخت تک میں تفاوت واختلاف موجودہے توباطنی قویٰ سےاختلاف کیسے مذموم ہوسکتاہے؟
انسانی قویٰ وافعال کاتفاوت ختم ہو تویہ اختلاف ختم ہو،اوریہ خاتمہ ناممکن ہے،تواختلاف کامٹ جانابھی ناممکن ہے۔اورظاہرہے کہ جب اختلاف ظاہر وباطن انسانی فطرت ہے،توفطری امور کبھی مذموم نہیں ہوسکتے کہ یہ ظہور فطرت ہے۔اسی کو حدیث نبویﷺ میں رحمت فرمایاگیاہے:
اختلاف امتی رحمۃ واسعۃ ([8]) ’’میری امت کا اختلاف وسیع رحمت ہے۔‘‘
البتہ اختلاف کو بے محل یا بدنیتی سے غیر مصرف میں استعمال کرنایانفسانی مفادات کا آلہ کار بنانا،اختلاف نہیں، بلاشبہ فتنہ وفساد اور مذموم ہے،جس کو وہی لوگ کرسکتے ہیں،جن کے دلوں میں کھوٹ،نیتوں میں فساد اور ذاتی اعراض ومقاصد کاہجوم ہو لیکن یہ ثابت ہوچکاہےکہ حضرات صحابہ کرامؓ اس قلبی کھوٹ اور بدنیتی سے مبرا ہیں،اس لیے ان کااختلافی عمل کسی بھی رنگ کا ہو بلحاظ منشا مذموم نہیں کہلایاجاسکتا،البتہ منشا عمل کی پاکیزگی کے ساتھ اگرصورت عمل غلط ہوجائےتویہ ممکن ہے،مگر یہ معصیت نہیں خطائےفکری ہے،جس کوخطائےاجتہادی کہا جاتاہےاور ظاہر ہے کہ یہ نہ گناہ ہے نہ معصیت، بلکہ اس پر ایک اجر ملتاہے۔توصحابہ کرام ؓ سے خطائے اجتہادی کاصدور کوئی امرمحال نہیں۔ اس لیے اس سے انکار نہیں کہا جاسکتاکہ صحابہ کرام ؓ میں اختلافات ہوئے۔لیکن یہ ضرور کہا جائےگاکہ وہ شر سےخالی تھے،جب کہ ان کا منشا پاک تھا۔کیوں کہ شر کے معنی اعراض دنیویہ کے ہیں،جونفسانی ہوتی ہیں اور وہ اصولا دو ہی ہوسکتی ہیں،جودنیامیں موجب فساد ونزاع بنتی ہیں۔جب جاہ اور حب مال،یہی دونوں رذائل ساری معصیتوں کاسرچشمہ ہیں اور انھی دو چیزوں کانام فی الحقیقت دنیاہے:
جیساکہ حدیث نبویﷺ میں راس المعصیۃ فرمایاگیا: حب الدنیا راس کل خطیۃ ([9]) ’’دنیاکی محبت ہرخطاکی جڑہوتی ہے‘‘
سو صحابہ کرام ؓ ان دونوں رذائل سے پاک کردیے گئے تھے۔ان کا تقوی باطن معیاری اورمثالی ہوچکا تھا،جس کی شہادت حق تعالیٰ شانہ نے دی اور اسی لیے اجماعی طور پر ساری امت نے سارے صحابہ کرامؓ کے متقی اور عادل ہونےپر اتفاق کیا، چنانچہ وہ سلطنتوں کے فاتح بھی ہوئے ،تاج وتخت بھی ان کے ہاتھ آئے،لیکن ان کے قلبی زہد میں کوئی فرق نہیں آیا، حتی کہ باہمی اختلاف سے بھی ان کی قناعت وتوکل میں کوئی ادنیٰ خلل نہیں ہوا۔ نہ دیانت وامانت میں کمی آئی، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ اگر صفین میں کامیاب ہوگئےتوانھوں نے محلات بناکر کھڑے کرلیے ہوں، یاسیدنامعاویہؓ اگر شام میں کامیاب ہوگئے تو ان کی انابت الی اللہ اور اطاعت وعبادت میں خلل آ گیاہو، اس لیے بلاشبہ ان حضرات کا اختلاف شر سے خالی اور محض اجتہادی تھا۔
جھگڑتے تھے لیکن نہ جھگڑوں میں شر تھاخلاف آشتی سے خوش آئند ترتھا
’’مشاجرات صحابہ کرامؓ ‘‘کے بارے میں یہ رویہ صرف محدثین اور فقہأ ہی کانہیں بلکہ محقق مورخین کا بھی ہے کہ صحابہ کرامؓ کے جھگڑوں میں شر نہ تھایعنی یہ عقیدہ ہی نہیں بلکہ تاریخی نظریہ بھی ہے،چنانچہ مشہور محقق علامہ ابن خلدونؒ سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کےباہمی جھگڑے کے بارے میں لکھتے ہیں:
ولما وقعت الفتنۃ بین علی ومعاویۃ وھی مقتضی العصبیۃ کان طریقھم فیھا الحق والاجتھاد ولم یکونوا فی محاربتھم لغرض دنیوی اولایثار باطل اولاستشمعار حقہ کما قد یتوھمہ متوھم وینزع الیہ ملحد وانما اختلف اجتھادھم فی الحق فاقتتلوا علیہ وان کان المصیب علیا ۔۔۔۔ یکن معاویۃ قائما فیھما لقصد الباطل انما قصدالحق واخطا والکل کانوا فی مقاصدھم علی حق ([10])
’’جب سیدناعلیؓ اور سیدنامعاویہؓ کے درمیان لڑائی ہوئی،جوخاندانی عصبیت کا (قدرتی)تقاضا تھا تو ان (صحابہ کرام ؓ) کاطریقہ اس میں حق طلبی اور اجتہاد تھا۔ان لڑائیوں میں کوئی دنیاوی غرض ، باطل پھیلانے کی اشاعت یا کینہ پروری سے نہیں تھی،جیساکہ بعض وہم پرست لوگ اس قسم کے وہموں میں پڑے ہوئے ہیں،اور بد دین اسے کھینچ تان کر ادھر ہی لاتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ حق کے بارے میں ان کا اجتہاد مختلف ہوگیاتو اس پر لڑپڑے،اگرچہ صواب پر سیدناعلیؓ تھے لیکن سیدنامعاویہؓ کسی برے قصد یا باطل پسندی سے کھڑے نہیں ہوئےتھے،جذبہ ان کا بھی حق طلبی اور حق بہ حق دار رسید کا تھا،لیکن اس میں ان سے خطائے فکری ہوئی،ورنہ (فریقین) کل کے کل اپنے مقاصد میں حق پرتھے۔‘‘
البتہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ ان مخلصانہ اختلافات سے ایک گروہ نے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور وہ منافقین اورخودغرضوں کا گروہ تھا۔ موقع پاکر دنیاوی مفاد حاصل کیا اور منافقین نے ان حضرات کو بدنام کرنے لیے واقعات کو جذباتی رنگ دےدیا،اوراہل ہواوحاسدین نے اس اختلاف کو ہوا دے کر فریقین کے معتقدین اور متوسلین کے جذبات کو ابھارا اور اختلاف رحمانی کو محض اس کی صورت ظاہری سامنے لاکر اختلاف نفسانی دکھلایا،ان کامقصد اس پاکباز جماعت کو بدنام کرکے اسلام کی توسیع اور وسیع فتوحات کاراستہ روکناتھا،جو سیلاب کی طرح بڑھتی جارہی تھی۔
بہرحال خودغرض،منافقین اورحاسدین نے ان اختلافات کوبڑے بڑے عنوانات دے کر دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کی تاکہ ادھر تو ان کے مقاصددنیویہ اوراعراض دنیویہ پوری ہوں اور ادھر ان حضرات سے لوگ بدظن ہوکر اسلام سے کترانے لگیں،مگر در حقیقت یہ صحابہ کرامؓ کامقدس گروہ اپنے ہی مقام پرتھا اور بلاشبہ ان باطنی رذائل سے پاک تھا، جن کی نسبت ان کی طرف کی جارہی تھی۔ یہی وجہ ہےکہ عین دوران اختلاف بھی جب فریقین کا کوئی معتقد فریق ثانی کی شان میں کوئی گستاخانہ یا توہین آمیز کلمہ کہہ دیتاتھاتوفریق اول کے بزرگ اسے ڈانٹتے اور اپنے مقابل کے منصوص فضائل شمارکرنا شروع کردیتے جس سے تاریخ کے اوراق بھرے ہوئےہیں جس سے واضح ہوا کہ فریقین کے قلوب ایک دوسرے کی ذاتی عظمت سے لبریز تھے۔اختلاف اصول کی بنا پر تھا نہ کہ ذاتیات کی بنا پر جذبہ اگرتھاتو اپنی اپنی رائے کے مطابق صرف تحفظ دین اوربقائے اصول دین کاتھا۔اس میں کسی نفسانی ضدیاعناد یاسخن پروری اورنفس پرستی کا شائبہ تک نہ تھا۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگر صحابہ کرام ؓ سارے متقی،عادل،ثقہ،زاہدفی الدنیا،آخرت کے خواہاں،ہرسست وگراں چیز پررضائے الٰہی کوترجیح دینے والے اور ہر حالت میں اللہ کی خوشنودی کے طالب تھے۔توان میں یہ زبردست اختلافات کیوں پیش آئے۔جن کے نتیجے میں خوفناک جنگیں اور خون ریز لڑائیاں ہوئیں۔
جواب یہ ہےکہ صحابہ کرامؓ کے باہمی اختلافات کی پیشں گوئی خود نبی کریمﷺنے کی ہے،چنانچہ سعیدبن المسیبؒ (متوفی ۹۴ھ ۷۱۳ع)نے سیدناعمرفاروقؓ کایہ بیان نقل کیاہےکہ میں نے رسول اللہ ﷺکویہ فرماتے ہوئے سناہے ،کہ:
سالت ربی عن اختلاف اصحابی من بعدی،فاوحی الی یامحمد!
’’میں نے پرودگار سے ،اپنے صحابہ کرامؓ کے اختلاف کے بارے میں دریافت کیاتو میرے پاس وحی آئی۔ ‘‘
ان اصحابک عندی بمنزلۃ النجوم فی السماٗ بعضھااقویٰ من بعض، ولکل نور فمن اخذ بشئی ماھم علیہ من اختلافھم، فھو عندی علی ھدی قال: وقال رسول اللہ ﷺ: اصحابی کالنجوم فبایھم اقتدیتم اھتدیتم ([11])
”اےمحمدﷺ! آپ کے صحابہ کرامؓ میرےنزدیک آسمان کےستاروں کی مانند ہیں۔کم وبیش ہرایک میں روشنی ہے،ان کے آپس کے اختلافات میں جس نے کسی رائے کولےلیا، وہ میرے نزدیک ہدایت پرہے۔“
راوی کہتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: میرے صحابہ کرامؓ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی پیروی کروگےہدایت یافتہ بن جاؤگے۔
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کے باہمی اختلافات کو امت مسلمہ کی اگلی نسلوں کےلیے رحمت قرار دیاہے۔سیدناابن عباس ؓ کی روایت میں فرمان نبوی ﷺ ہے:
ان اصحابی بمنزلۃ النجوم فی السماٗ فایھا اخذتم بہ اھتدیتم، اختلاف اصحابی لکم رحمۃ ([12])
’’میرے صحابہ کرامؓ کے قول کو اختیارکرو،میرے صحابہ کرامؓ آسمان میں تاروں کی مانند ہیں،ان میں سے جس کو پکڑلو گے ہدایت مل جائےگی،میرے صحابہ کرامؓ کااختلاف تمھارے لیے رحمت ہے۔‘‘
مسئلہ’’ مشاجرات صحابہ کرامؓ‘‘ پر یہ سطور تحریر کرتے ہوئے دل کانپ رہاہے اور قلم تھرتھرارہاہے،چونکہ پل صراط کی مانند یہ مسئلہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیزہے۔اگر اس پرخار وپرخطر وادی میں قدم رکھتے ہوئے ایمان ویقین کی طاقتور سواری اور عشق رسالت ﷺ کی بے پناہ قوت سلف صالحین کی دینی فہم وفراست کاغیر متزلزل اعتقاد ساتھ نہ ہو تو اچھا بھلا انسان راہ اعتدال کوچھوڑکر افراط وتفریط کا شکار ہوجاتاہے۔اور صحابہ کرامؓ کی بدگمانی کے اتنے گہرے گڑھے میں گرپڑتاہےکہ اس سے نکلنا نہایت مشکل ہوجاتاہے۔
چونکہ صحابہ کرامؓ انبیأ علیہم السلام کےبعد اپنے فضائل وکمالات،محاسن ومناقب کے اعتبار سے گلشن انسانیت میں ایک امتیازی مقام رکھتےہیں۔ جنھیں اللہ تعالیٰ نے رضی اللہ عنھم کااعزاز عطافرمایا۔رحمت دوعالم ﷺ کی زبان مبارک سے انھیں دنیاہی میں جنت کی بشارتیں ملیں۔ان کی بدگوئی وعیب جوئی کی ممانعت کردی گئی۔اس لیے اکابر اہلسنت والجماعت (جزاھم اللہ عنا بالخیرات)نے زندگی کے ایک موڑ پر ان کے باہم الجھنے اور ٹکرانے کےلیے ایک انوکھا عنوان تجویز کیاجس کانام ’’مشاجرۃ‘‘تھا،اس کی جمع ’’مشاجرات‘‘ آتی ہے۔اس کامعنی ہے ایک درخت کے شاخوں کادوسرے درخت کے شاخوں سے ٹکرانااور باہم الجھناکسی عدوات کے طور پر نہیں ہوتابلکہ خارجی محرک وعامل (ہواکےجھونکوں) کااثر ہوتاہےاور جونہی ہوا کے جھونکے ساکن ہوتے ہیں،تمام شاخیں اپنے اپنے مقام ومعمول پر آجاتی ہیں۔
اسی طرح تمام صحابہ کرامؓ ایک ہی شجرہ صحابیت کی سرسبز وشاداب شاخیں ہیں۔کسی موقعے پر ان کا باہمی الجھاؤ اور ٹکراؤ کسی عدوات کانتیجہ نہیں تھا۔بلکہ خارجی محرکات وعوامل کااثرتھا اور تاریخ شاہد ہےکہ فضا سازگارہوتے ہی اخوت ومحبت کاوہی سماں دوبارہ بندھ گیا۔اگرمنصف مزاج طبع اور جویائے حق اس عنوان پر ذرا غور کرے تو حقیقت تک رسائی آسان ہوجائے۔
ورنہ عقائدونظریات اوراعمال واخلاق کے اعتبار سے یہ حضرات باہم متحدومتفق ہیں۔ایک ہی نبی سے اکتساب فیض کیا اور سب کے سب ایک ہی کتاب (قرآن حکیم) کے ماننے والے اور ایک ہی دین (اسلام) کے پیروکار تھے۔اس مسئلے کی اساس قطعی طور پر اختلاف مذہب نہیں۔ درحقیقت خلیفہ راشد ثالث سیدناعثمان ذی النورینؓ کا مدینہ منورہ کی مقدس سرزمین میں ناحق خون اور آپؓ کی دردناک مظلومانہ شہادت مشاجرات کی بنیاد بنی ، جس سے باہم غلط فہمیاں پیداہوئیں۔ مزید برآں ابن سبا اور اس کے پیروکاروں کی شرپسند کاروائیوں اورمنافقانہ سرگرمیوں نے جلتی پرتیل کاکام کیا اوراس طرح ہنگامی طور پر ٹھنڈے دل سے پیش آمدہ مسئلہ پر غور فکر کرکے اسے حل کرنےکے مواقع مسدود ہوگئے معاملہ طول پکڑتاگیا اور نوبت جنگ تک پہنچی ضروری حد تک بات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے سیدناعثمان ذی النورینؓ کی شہادت کےحالات کوملحوظ رکھنا ضروری ہے۔اسی کے پس منظر میں سیدناعلی کرم اللہ وجہہ کی دم عثمانؓ سے براءت اور سیدنا معاویہ بن ابی سفیانؓ کاطرز عمل سمجھ میں آسکتاہے۔([13])
فضائل صحابہ کے بارےمیں قرآنی نصوص
صحابہ کرام کے بارے میں قران کریم میں اللہ تعالیٰ نے بہت احسن طریقے سے محاسن بیان کیے اور ان کے کارناموں کو سراہا ہے ۔ہم اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف بعض آیات کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں :
(الف)اولائک ھم المؤمنون حقا لھم درجٰت عند ربھم و مغفرۃ ورزق کریم ([14])
’’یہی لوگ جوحقیقت میں مومن ہیں،ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں،مغفرت ہے،اورباعزت رزق ہے۔‘‘
(ب) واعلموا ان فیکم رسول اللہ لو یطیعکم فی کثیرمن الامر لعنتم ولکن اللہ حبب الیکم الایمان وزینہ فی قلوبکم وکرہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان اولائک ھم الراشدون ([15])
’’ اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ تمھارے درمیان اللہ کے رسول موجودہیں۔بہت سی باتیں ہیں جن میں وہ اگر تمھاری بات مان لیں تو خود تم مشکل میں پڑجاؤ۔لیکن اللہ نے تمھارے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے،اور اسے تمھارےدلوں میں پرکشش بنادیاہے،اور تمھارے اندر کفرکی،گناہوں اورنافرمانی کی نفرت بٹھادی ہے۔ایسے ہی لوگ ہیں جو ٹھیک ٹھیک راستے پرآچکے ہیں۔‘‘
(ج) انماالمؤمنون الذین اٰمنوا باللہ ورسولہ ثم لم یرتابوا وجٰھدوا باموالھم وانفسھم فی سبیل اللہ اولائک ھم الصادقون ([16])
’’ایمان لانے والے تو وہ ہیں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کودل سے ماناہے،پھر کسی شک میں نہ پڑے،اور جنھوں نے اپنے مال ودولت اور اپنی جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کیاہے۔وہی لوگ ہیں جو سچے ہیں۔‘‘
(د) ان الذین اٰمنوا وعملوا الصلحٰت لا اولائک ھم خیرالبریہ ([17])
’’جولوگ ایمان لائے ہیں،انھوں نے نیک عمل کیے ہیں،وہ بے شک ساری مخلوق میں سب سے بہترہیں۔‘‘
(ر) جزآؤھم عند ربھم جنّٰت عدن تجری من تحتھا الانھٰر خٰلدین فیھا ابداط رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ ط ذالک لمن خشی ربہ ([18])
ان کے پروردگار کے پاس انعام وہ سدابہار جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں۔وہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ،اللہ ان سے خوش ہوگا،اوروہ اس سے خوش ہوں گے۔یہ سب اس کےلیےہے جو اپنے پروردگار کاخوف دل میں رکھتاہو‘‘۔
(ز) محمد رّسول اللہ والذین معہ اشداءعلی الکفار رحماء بینھم تراھم رکعاًسجدا یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود ذالک مثلھم فی التوراۃ ومثلھم فی الانجیل کزرع اخرج شطئہ فاٰزرہ فاستغلظ فاستوٰی علی سوقہ یعجب الزراع لیعیظ بھم الکفار وعداللہ الذین اٰمنوا وعملوا الصلٰحت منھم مغفرۃ واجرا عظیما۔([19])
’’محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں،(اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں۔ تم انھیں دیکھوگے کہ کبھی رکوع میں ہیں، کبھی سجدے میں،(غرض) اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں پرنمایاں ہیں۔یہ ہیں ان کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں۔ اور انجیل میں ان کی مثال یہ ہےکہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی،پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوگئی، پھر اپنے تنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کاشتکار اس سے خوش ہوتے ہیں، تاکہ اللہ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے۔ یہ لوگ جو ایمان ہیں،اور انھوں نےنیک عمل کیےہیں، اللہ نے ان سے مغفرت اور زبردست اور زبردست ثواب کا وعدہ کرلیاہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات سے بڑھ کر سچا اور کون ہے اور اس کی نازل کر دہ کتاب قران مجید میں تغیر و تبدیل کا امکان ہی نہیں بلکہ وہ اس کی حفاظت آپ ہی کر تا ہے لہٰذا اس کتاب کے مقا بلے میں خواہ انسانی کتابیں تاریخی ہویا دوسری جب وہ کہ قرآن کا معارض اور مخالف ہو تو اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہتی چہ جائے کہ ان کو قابل اعتماد سمجھ کر اس پر کسی عقیدے کی بنیاد رکھی جائے۔
فضائل صحابہ کے بارے میں احادیث نبویہ
امام ترمذی ؒ نے ایک ایک صحابی کے مناقب و فضائل ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے:
بابّ فی فضل من رای النبی ﷺ وصحبہ ([20])
’’باب ہے اس فضیلت کے بارے میں جس نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا اور اس کی صحبت اختیار کیا‘‘۔
جابرؓ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا ہے: لا تمس النار مسلما رانی او رای من رانی ([21])
’’اس مسلمان کو آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا ان کو دیکھا جس نے مجھے دیکھا۔‘‘
عبدا للہ ابن مسعود ؓسے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن مسعود رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيءُ أَقْوَامٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِينَهُ، وَيَمِينُهُ شَهَادَتَهُ ([22])
’’سب سے بہتر لوگ میرے دور کے ہیں، پھر وہ جو میرے دور کے لوگوں کے بعدآئیں گے، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے۔‘‘
یہ حدیث صحاح ستہ کی دیگر کتب یعنی بخاری اور مسلم میں بھی ہے ۔یہ چند احادیث بطورمشتے ازنمونہ از خروارے پیش کیں۔
آپ ﷺ کا صحابی کی صفائی ہونے پر خوش ہو جانا
آپﷺ اپنے صحابی کی صفائی وتعدیل بیان کرنے پر بہت خوش ہو جاتے تھے ،اور ان کی مذمت بیان کرنے والوں پر غصہ اور ناراض ہو جاتے تھے۔ مثلاً : جاہلیت کے زمانے میں لوگ حضرت اسامہ بن زید کے نسب پر جرح و قدح کرتےتھے کیونکہ ان کا رنگ کالا تھااور ان کے والد کا رنگ سفید تھا،تو مجرز قائف نے بتا یا کہ:ہذہ الاقدام بعضھا من بعض”تو آپ ﷺ نے ان کو طعن دینے پرجھڑک دیا کیونکہ وہ لوگ علم القیافہ پر عقیدہ رکھتے تھے ۔“ ([23])
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ آپ ﷺ اپنے صحابی کی صفائی پر اتنے خوش ہوئےکہ:
ان النبی دخل علیھا مسروراًتبرق اساریر وجھہ فقال الم تری ان مجرزاً نظر آنفا الی زید بن حارثۃ و اسامۃ بن زید فقال ہذہ الاقدام بعضھا من بعض ([24])
’’نبی کریم ﷺ خوشی خوشی ان کے پاس تشریف لائے،آپ ﷺکے چہرے کے خطوط چمک رہے تھے،آپ ﷺ نے فرمایا:’تم نے دیکھا نہیں،ابھی ابھی مجزرنے زید بن حارثہؓ اور اسامہ بن زیدؓ کو دیکھ کر کہا ہےکہ یہ قدم (یعنی ان کا رشتہ ) ایک دوسرے سے ہیں۔“
اسی طرح جب حضرت ماعز رضی اللہ عنہ کو اپنے اقرار جرم پر سزادی گئی تو بعض صحابہ اجمعین نے جب اس کا تذکرہ برے الفاظ میں کیا کہ:رُجِم رُجِم الکلب جب آپ ﷺ نے یہ سناتو ناراض ہوکر زجراً فرمایا:این فلاں و فلاں انزلا و کلا من جیفتہ ھذا الحمار
پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ماعز نے ایسی توبہ کی تھی کہ اگر اس کابدلہ سارے مدینے پر تقسیم کیا جاتا تو ہر ایک کا حصہ ہوتا ۔ ([25])
توہین صحابہؓ قابل تعزیر جرم
صحابہ کرام ؓ کو گالی دینے اور ان کی توہین کرنے سے نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے :
عن ابی سیعد الخدری قال رسول اللہ ﷺ لا تسبوا اصحابی فلو ان احدکم انفق مثل احد ذھباً ما بلغ مداحدھم ولا نصیفہ ([26])
" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میرے صحابہ کو گالی نہ دو اس لیے کہ اگر تم میں سے ایک شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ صحابہ کے ایک مد (68 تولہ 3 ماشہ ) بلکہ اس کے نصف تک بھی نہیں پہنچ سکے گا۔ "
اس حدیث میں صحابہ کرام ؓ کی شان میں بد زبانی اور ان کو گالی دینے سے منع کیا گیاہے اور قانون یہ ہے کہ جس کام سے منع کیا گیا ہو وہ گناہ ہوتا ہے اور ہر گناہ پر تعزیر دی جاتی ہے اگرچہ اس کی سزا مقررنہ ہو چونکہ صحابی کو گالی دینا ایک سنگین جرم ہے تو صحابہ کرامؓ کی توہین اور گالی دینے والوں کی سزا عدالت کی صوابدید پر منحصر ہےکہ عبرت ناک سز ا دی جائے، جیسا کہ امام نووی ؒنے لکھا ہے کہ گستاخ صحابی کو بعض مالکی علماء کے نزدیک قتل کیا جائے گا۔اسی طرح متعدد ائمہ کے اقوال نقل کیے ہیں کہ صحابہ کی توہین کرنے والے کو کوڑوں کی سزا دی جائے گی اور اگر پھر بھی باز نہ آئے تو اسے قید کر دیاجائے گا یہاں تک کہ توبہ کرلے یا مر جائے ۔لہٰذا صحابہ کرامؓ کی توہین پر مشتمل کتب مضامین اور تحریرات کو شائع کرنا اور نشر کرنا بھی قابل تعزیر جرم قرار دینا چاہئے اور ان لوگوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اس کی بجائے صحابہ کی فضیلت و شان و عظمت کو ترجیح دی جائے اور شاتم صحابی کے لیے سزا مقرر کی جائے ۔علامہ ابن تیمیہؒ نے روایت نقل کی ہے:
ما راءیت عمر بن عبدالعزیز ضرب انسانا قط الارجلا شتم معاویہ فضربہ اسواطا ([27])
’’میں نے عمربن عبدالعزیزؒ کونہیں دیکھا ہے کہ کسی کو ماراہو سوائے اس شخص کے جس نے سیدنا معاویہؓ کو برابھلا کہاتھاپس اس کو کوڑے مارے تھے۔‘‘
کیا صحابہ کرامؓ کے درمیان مشاجرہ واقع ہوا ہے ؟
یہاں یہ ایک امر بدیہی ہے کہ بعض صحابہ کرام ؓ کے درمیان’’ مشاجرہ‘‘ رونما ہوا ہے ،بالخصوص سیدنا علی کرم اللہ وجہہ ،سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ؓ اور سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کے درمیان جس کے نتیجے میں جنگ جمل اور جنگ صفین واقع ہوئیں، لیکن ان کی یہ لڑائی خلافت حاصل کرنے کے لیے نہیں تھی یعنی وجہ نزاع خلافت نہیں تھی بلکہ قصاص کی معاملے پر لڑائی لڑی گئی ۔جیسا کہ سیدنا معاویہؓ کا قول ابن ابی شیبہ ؒکی سندسےنقل کیا گیا ہے: ما قاتلت علیاً الا فی امر عثمان
"میں نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ جنگ نہیں لڑی تھی مگرسیدنا عثمان ؓ کے قصاص کے معاملے پر لڑی تھی۔ "صحابہ یا تابعین کے درمیان جو تنازع واقع ہوا ہے اس میں سبائی کا ہاتھ ہےیعنی عبداللہ بن سبا یہودی یمنی اور اس کی سبائی پارٹی کی کارستانیاں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کتب حدیث وتاریخ میں صراحت ہے کہ قتل عثمان میں کوئی صحابی شریک نہ تھا ۔ ([28])
سیدنا معاویہ بن ابی سفیانؓ،سیدہ عائشہ صدیقہ ؓارشادات نبوی ﷺکی روشنی میں
جیسا کہ پہلے ہم نے واضح کر دیا ہے کہ ہم اپنا دعوی قرآن و سنت کے روشنی میں ثابت کریں گے ،تو پہلے ہم نےصحابہ کے فضائل کے بارے میں عام قرانی نصوص اور احادیث نبویہ ذکر کیں ،اب ہم بعض و ہ احادیث بیان کریں گے جس میں مندرجہ بالا صحابہ کرام یؓا تابعی کی منقبت کا ذکر ہوا ہوتاکہ ان پر طعن کرنے والا سوچے کہ آیا ان نصوص کے موجودگی میں ان کو قابل اعتراض ٹھہرایاجاسکتا ہے ؟ اور کیا تاریخی واقعات اور باتوں سے نصوص کو ترک کیا جاسکتا ہے ؟ شاید یہ لوگ انصاف کے ترازو میں اپنے آپ کو تولیں کہ کہیں اپنے اسلاف پر فتوے لگانےکے بجائے الٹاان پر نہ لگ جائے ۔
سیدنا معاویہ ؓ کے بارے میں آپ ؐ کا ارشاد ہے: اللھم اجعلہ ھادیہ مھدیا واھد بہ ([29]) ’’اے اللہ ان کو ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا بنا۔‘‘
تو کیا ہادی پر کوئی اعتراض واقع ہو تا ہے ۔انّ فی ذلک لذکری لمن کان لہ قلب اوالقی السمع وھو شھید ([30])
”بے شک اس میں اس شخص کے لیے بڑی عبرت ہےجس کے پاس(فہیم ) دل ہو یا وہ متوجہ ہو کر (بات کی طرف) کان ہی لگا دیتا ہو۔‘‘
حضرت عائشہؓ کے بارے میں آپؐ کا ارشاد ہے:یا اُم سلمۃ لا تؤذینی فی عائشہ فانہا انزل علی الوحی وانا فی لحاف امرآۃ منکن غیرھا ([31])
’’اے ام سلمہؓ! عائشہؓ کے بارے میں مجھ کو نہ ستاو۔اللہ کی قسم ! تم میں سے کسی بیوی کے لحاف میں (جو میں اوڑھتا ہوں سوتے وقت) مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی ہاں(عائشہؓ کا مقام یہ ہے)ان کے لحاف میں وحی نازل ہوتی ہے۔‘‘
اس طرح فتح قسطنطنیہ کے بارے میں آپﷺ کاارشاد ہے: اوّلُ جیشٍ من اُمّتی یعزون مدینہ قیصر مغفورٗ لھم ۳۲ ([32]) ’’میری امت کا وہ پہلا لشکرجو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) پر حملہ کرے گامغفرت سے نوازاجائےگا۔‘‘
اصل وجہ یہ ہے کہ ہم اصول دین قرآن و سنت کو چھوڑکر تاریخ کے پیچھے پڑگئے ہیں ،اور تاریخی واقعات کو اپنا مستدل ٹھہرایا ہے ۔اور اسی طرح فضلو ا و اضلوا کا مصداق بن چکے ہیں ورنہ اگر ہم قران و سنت کی طرف رجوع کرتے تو ہمارے لیے صحابہ کے مناقب میں سینکڑوں دلائل مل جاتے ہیں ۔
علم تاریخ اور علم حدیث کے درمیان فرق
نمبر شمار | علم حدیث | علم تاریخ |
۱۔ | علم حدیث منسوب ہے نبیﷺکی طرف۔ | علم تاریخ منسوب نہیں کسی نبی یا صحابی کی طرف۔ |
۲۔ | علم حدیث اصول شرع میں سے ایک اصل ہے جس پر عمل کرنا واجب ہے ۔ | علم تاریخ اصول شرع میں سے نہیں ہے ۔ |
۳۔ | علم حدیث و تاریخ کا باہمی تعارض آجائے تو علم حدیث میں ثابت شدہ بات کو لیں گے ۔ | تاریخ سے ثابت شدہ بات کو رد کریں گے ۔ |
۴۔ | علم حدیث کے مؤلفین مسلم علماء ،صلحاء قران و حدیث کے ماہر تھے۔ | جبکہ علم تاریخ کے اکثر مؤلفین یہود و نصاریٰ مجوس و دیگر غیر مسلموں کا گروہ ہے جن کا نہ قران و سنت سے تعلق نہ تاریخ و جغرافیہ سے ۔ |
درجہ بالافرق کی بنیاد پر ہم یہ بات واضح طور پر کہہ سکتے ہیں،کہ جولوگ مشاجرات صحابہ کو بنیاد بناکر کسی صحابی کی تنقیص کرتے ہیں وہ تاریخ کو مآخذ اصلیہ بناتے ہیں حالانکہ تاریخ اصول شرع میں سے نہیں ہے بلکہ تاریخ جب نصوص قران و حدیث کے مخالف/متعارض ہوتو اس کو رد کیا جاتا ہے کیونکہ تاریخی روایات زیادہ سے زیادہ ظنی ہوتی ہیں اور قران وسنت یقینی ہے ،تو یقین کے مقابلے میں ظن کو ئی حیثیت نہیں ہوتی:انَّ الظنَ لا یُغنیِ مِن الحقِ شیا۔
اب ہم مختصراً بعض قابل توجہ اشکالات اور اس کے جوابا ت کا ذکر کریں گے تاکہ ذہنوں کو شکوک و شبہات سے پاک کیا جائے ۔
سوال ۱: سیدنا عمار ؓ کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: تقتلہ (عماراً) الفئتہ الباغیہ ؟ ’’ (عمارکو) ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘
اوریہ بات ثابت ہے کہ جنگ صفین میں سیدنا عمار ؓسیدناعلی ؓکے ساتھ تھےاورسیدنا معاویہ ؓ کی فوجوں کے خلاف لڑرہے تھے کہ ان میں سے کسی کے ہاتھ سے شہید ہوگئے تھے ۔
الجواب: اس سوال کے کئی طرح سے جوابات دیے گئے ہیں ۔
(الف ) سیدناعمار ؓ کے قاتل صحابی نہیں تھے بلکہ سبائی باغی تھے کیونکہ نحوی اصول کے مطابق الباغیہ یہ الفئتہ کی صفت ہے ۔پھر صفت موصوف تقتل کا فاعل ہے ،فاعل کا وجود فعل سے پہلے ہونا ضروری ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ گروہ پہلے ہی سے باغی ہے نہ کہ حضرت عمار کے قتل کے بعد ۔اور اس گروہ کی پہلی بغاوت امام برحق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف ہوئی۔
(ب)دوسری توجیہ یہ ہے کہ باغیہ یہ بغاوت سے نہیں بلکہ اس کا مصدر بغیہ ہے جس کا معنی ہے طلب کرنے والا،یعنی سیدنا عثمان ؓکے خون کا طلب کرنے والا۔
(ج)اگر بغاوت سےبھی ہو تو یہ بغاوت اجتہاد ی تھی یعنی تنازع خلافت کا نہیں تھا بلکہ قصاص سیدناعثمان ؓ کا تھا جیسا کہ سیدنا معاویہ ؓ نے اقرار کیا تھا کہ"میں نے سیدنا علی ؓ کےساتھ لڑائی صرف سیدنا عثمان ؓ کے معاملے میں تھی"۔([33])
سوال۲:اذ ا رایتم معاویہ علیٰ منبری فا قتلوہ ’’جب تم منبر پر معاویہ کودیکھو تو قتل کردو۔‘‘
جواب : یہ من گھڑت روایت ہے۔ ([34])
سوال ۳: بعض کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے سیدنا معاویہ ؓ کو فرمایا کہ تمھاری جسم سے مجھے بدبو آتی ہے تمہاری اولاد ہماری اولاد کے ساتھ ظلم کرے گی ۔
جواب: مذکورہ بالا روایت بلکہ سیدنا معاویہ ؓ اور اس کے بیٹے یزید کے ذم کے بارے میں روایات کے متعلق ملا علی قاریؒ نے لکھا ہے :و من ذالک الاحادیث فی ذم معاویہ ،ذم عمر و بن العاص ،وذم بنی الامیہ کلھم موضوعْ([35])
’’اسی طرح کی احادیث معاویہؓ کی مذمت میں،عمروبن العاصؓ کی مذمت میں اور بنی امیہ کی مذمت میں ہیں سب کے سب من گھڑت ہیں۔‘‘
سوال ۴:سیدنا معاویہ ؓ کے نام پر اعتراض کہ معاویہ کے معنی ہے بھونکنا؟
جواب : معاویہ باب مفاعلہ سے اسم فاعل ہے جس کے آخر میں "ۃ" مبالغہ کے لیے بڑھائی گی ہے مثل العلامہ ، مادہ اس کا عوی (ع و ی لفیف مقرو ن ہے ) جب مجرد ہو عوی یعوی عین بمعنی بھونکنا ہے اور جب ثلاثی مزید باب مفاعلہ میں استعمال ہوا تو متعدی ہوگیا بمعنی بھونکانا یعنی کتوں کو بھونکانا ([36])
سوال ۵: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس میدان میں کیوں کود پڑیں۔
جواب :جب بیٹوں کے درمیاں نزا ع ہو تو ماں صلح کے لیے درمیان میں آجاتی ہے یہ تو کوئی اعتراض کی بات ہی نہیں۔
اہل السنت و الجماعت کا صحابہ کے بارے میں عقیدہ
امام طحاوی متوفی331 ھ نے اس بارے میں اہل سنت والجماعت کا جو عقیدہ بیان کیا ہے وہ اجماعی عقیدے کا ترجمان ہے اور جامع بیان ہے:
ونحب اصحاب رسول اللہ ولا نفرط فی حب احد منھم ولا نتبرا من احدمنھم و نبغض من یغبضھم ولا نذکرھم الا بخیرو حبھم دیناً و ایماناً و بغضھم کفر ا ونفاقا و طغیاناً ([37])
’’ہم اصحاب رسول ﷺ سے محبت کرتے ہیں مگر ان کی محبت میں حد سے تجاوزنہیں کرتے،ہم اصحاب رسول میں سے کسی سے بھی برات نہیں کرتے ،ہم ان لوگوں سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ سے بغض رکھتے ہیں ،ہم صحابہ کا ذکر خیر اور بھلائی کے ساتھ کرتے ہیں اور ہم صحابہ سے محبت دین و ایمان سمجھتے ہیں اور ان سے بغض رکھنا کفر ،نفاق اور سرکشی سمجھتے ہیں۔‘‘
صحابہ کرامؓ پر اعتراضات کے جوابات کا خلاصہ
اس مختصر تحریر کے بعد ہم صحابہ کے بارے میں بطور خلاصہ یہ ذکر کرتے ہیں کہ جولوگ صحابہ پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی صحابی کے بارے میں کوئی طعنہ زنی ہو تو وہ صحابی نہیں ہوگا اگر صحابی ہو تو سند طعن خطا ہوگی اور اگر سند طعن درست ہو تو غلطی اجتہادی ہوگی اور اگر غلطی قصداً ہو تو اس نے توبہ کی ہوگی اگر توبہ بھی نہ کی ہوگی تو :ان الحسنات یذھبن السیات ([38]) ’’بے شک نیکیاں گناہوں کو مٹادیتی ہیں۔‘‘
صحابہ کرامؓ کے بارے میں زیادہ تر شکوک و شبہات کتب تاریخ کوماخذ بنانے کی وجہ سے ہوتے ہیں، تاریخ کے بارے میں ہم نے پہلے مختصراً گفتگو کی ہے، اب خلاصہ دوبارہ بیان کرتے ہیں کہ ہم قرآن و سنت کے تابع ہیں، تاریخ کوئی حجت نہیں۔ جیسا کہ مفتی محمد شفیع ؒ اپنی مشہور کتاب "شہید کربلا " کے حاشیے میں لکھتے ہیں: "لیکن یہ یادر کھنا چاہیے کہ تاریخ کی مستند روایات بھی تاریخ ہی کی حیثیت رکھتی ہیں" مستند تاریخ کا بھی وہ درجہ نہیں جو مستند و معتبر احادیث کا ہے کہ ان پر احکام ،عقائد و حلال و حرام کی بنیاد ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امام بخاریؒ جیسے نقاد حدیث کی تاریخ کبیر و صغیر کا وہ درجہ نہیں جو صحیح بخاری کا ہے ۔ ([39])
علامہ عنایت اللہ شاہ بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ:"صحابہ کے بارے میں گندگی کی مکھی بن کر تاریخ میں نہیں دیکھنا،نبی کے صحابی کے بارے میں شہد کی مکھی بن کر قرآن کے اوراق میں دیکھو۔" ([40])
حوالہ جات
- ↑ ۔معلوف،ہم لوئس ،المنجد،دارالاشاعت،کراچی،۱۹۹۴ء،ص۵۱۲
- ↑ ۔قاسمی،وحیدالزمان،القاموس الوحید،ادارہ اسلامیات،کراچی،۲۰۰۱ء،ص۸۴۲
- ↑ ۔النسا:۶۵
- ↑ ۔پانی پتی ؒ،ثنااللہ،قاضی،تفسیر مظہری،دارالاشاعت،کراچی،۱۴۱۱ھ،ج ۳،ص۱۶۰
- ↑ ۔القاموس الوحید،ص۸۶۵
- ↑ ۔حمیدی،نشوان بن سعید ،الکلام العرب ،دارالفکر،بیروت،۱۹۹۹ء،ج۵،ص۳۲۱
- ↑ ۔امینی،خلیل ،نورعالم،صحابہ رسول ﷺاسلام کی نظرمیں،ادارہ علم وادب،انڈیا،۲۰۰۲ء،ص۲۱۵
- ↑ ۔سیوطیؒ،جلال الدین، جامع الأحادیث،دارالجلیل،بیروت،۱۹۹۵ء،ج ۱،ص۱۲۴
- ↑ ۔مسلمؒ، امام ،صحيح مسلم،قدیمی کتب خانہ،کراچی،س ن،ج۲،ص۱۸۶
- ↑ ۔ابن خلدونؒ ،علامہ،مقدمہ ابن خلدون، دارالجلیل،بیروت،۲۰۰۰ء،ص ۲۵
- ↑ ۔دہلوی،قطب الدین،نواب،مظاہرحق جدید،دارالاشاعت،کراچی،۲۰۰۵ء،ج۵،ص۳۸
- ↑ ۔صحابہ رسول ﷺاسلام کی نظرمیں،ص۲۲۷
- ↑ ۔خطیب بغدادیؒ،الکتاب فی معرفۃ علم الروایۃ،مکتبہ اسلامیہ،حیدر آبادانڈیا،۱۳۵۷ھ ،ص۴۶
- ↑ ۔الانفال:۴
- ↑ ۔الحجرات:۷
- ↑ ۔الحجرات:۱۵
- ↑ ۔البینۃ: ۷
- ↑ ۔البینۃ: ۸
- ↑ ۔الفتح: 29
- ↑ ۔ترمذیؒ،ابو عیسی ،سنن ترمذی ،قدیمی کتب خانہ،اردوبازار،کراچی،س ن،ج۲،ص۲۱۱
- ↑ ۔مظاہرحق،ج۵،ص۴۸
- ↑ ۔بخاریؒ ،محمدبن اسمٰعیل،الجامع الصحیح،ایچ ایم سعیدکتب خانہ،کراچی،ج۲،ص۲۴۳
- ↑ ۔صحابہ رسول ﷺاسلام کی نظرمیں،ص۲۳۴
- ↑ ۔عسقلانی ،ابن حجر،دارالفکر،بیروت،2003ء،ج8،ص129
- ↑ ۔ایضاً،ج8،ص132
- ↑ ۔نوویؒ ، امام ، شرح مسلم ،دارلکتاب،بیروت،۲۰۰۶ء،ص۵۴۳
- ↑ ۔ابن تیمیہؒ، علامہ،صارم المسلول علی من شاتم الرسول ،دارلجلیل،بیروت،۲۰۰۲ء،ص۵۷۴
- ↑ ۔ شرح مسلم ،ج۲،ص۲۷۲
- ↑ ۔سنن ترمذی ،ج۲،ص۲۱۱
- ↑ ۔ق: ۳۷
- ↑ ۔سنن ترمذی،ج۲،ص۲۲۷
- ↑ ۔صحیح بخاری،ص۴۱۰
- ↑ ۔ابن شیبہؒ، المصنف لابن شیبہ ،دارالقرآن،لسبیلہ گارڈن،کراچی،۲۰۰۵ء،ج۱،ص۵۲
- ↑ ۔ابن تیمیہؒ،علامہ،منہاج السنۃ ،دارالسلام،ریاض، ص۲۰۱
- ↑ ۔قاریؒ،ملاعلی ، الموضوعات الکبیر ،دارالمعارف،بیروت،۱۹۸۸ء،ص ۱۰۶
- ↑ ۔المنجد،ص۵۳۹
- ↑ ۔طحاویؒ، امام، العقیدہ الطحاویہ ،مکتبہ ستاریہ،گلشن اقبال،کراچی،۲۰۰۴ء،ص۱۳
- ↑ ۔ھود:۱۱۴
- ↑ ۔شفیع ،مفتی محمد،شہید کربلا،دارالاشاعت،اردوبازار، کراچی،۲۰۰۳ء،ص۱۰
- ↑ ۔ صحابہ رسول ﷺاسلام کی نظرمیں،ص۲۴۵
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |