32
1
2018
1682060084478_1155
109-120
http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/61
اس جہاں میں موجود اشیا انسانوں کی خدمت اور بھلائی کے لیے پیدا کی گئی ہیں ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بہت سی اشیاانسانوں کی ملکیت کردی ہیں تاکہ لوگوں کے لیے ان اشیا سے استفادہ ممکن ہونے کے ساتھ ساتھ سہل بھی ہو۔لیکن دین اسلام میں ملکیت کا ایک خاص مفہوم اور متعین دائرہ کار ہے جو کہ سرمایہ دارانہ نظام اور مغربی تصور سے بالکل مختلف ہے۔ انسان اپنی عملی زندگی سے ملکیت کاایک عام تصورپیش کرتا ہےاوروہ یہ کہ انسان جیسے چاہے اپنی مملوکہ چیز میں تصرف کرسکتاہے اور غیر کو اس میں تصرف کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ لیکن یہ فقط ہمارا ایک ذہنی تصور ہے اور وسیع تصور ہے ورنہ شریعت نے اس کی ایک حد متعین کی ہے وہ یہ کہ مالک اپنی مملوکہ شے میں ایک محدود دائرے میں رہ کر تصرف کرسکتا ہے۔ انسان اس سلسلے میں آزاد اور بے قید بالکل بھی نہیں ہے۔ہمیشہ اللہ اور رسول کے احکامات کا محتاج ہے۔ اور ملکیت کے مفہوم کے مابین یہی وہ اختلاف ہے جو شریعت اسلامیہ اور مغربی محققین کے درمیان پایا جاتا ہے۔ ہمارے فقہائےکرام قرآن وحدیث کی روشنی میں اورمغربی محققین ملکیت کا کیا مفہوم بیان کرتے ہیں۔ذیل میں چندمحققین کی آرااورتشریحات ذکرکی جاتی ہیں۔
ملکیت کا مفہوم قرآن و حد یث کی روشنی میں
امام ابن ہمام رحمتہ اللہ علیہ ”فتح القدیر“ میں تحریر فرماتے ہیں:
وھوعبارةعن القدرة علی التصرفات فی المحل شرعاًالالمانع ([1])
” ملکیت اس قدرت کو کہتے ہیںجو انسان کو اپنی مملوکہ شے میں تصرف کے وقت ازروئے شرع حاصل ہو مگر یہ کہ کوئی مانع موجود ہو۔“
علامہ ابن نجیم رحمتہ اللہ علیہ ملکیت کا مفہوم اپنی مشہور کتاب ”الاشباہ والنظائر“ میں کچھ اس طرح لکھتے ہیں:
الملک قدرة یثبتھا الشارع ابتدائََ علی التصرف الالمانع ([2])
” ملکیت شے مملوکہ میں ابتداً اس تصرف کرنے کا نام ہے جس کا منبع شارع کا اذن اور اجازت ہو مگر یہ کہ کوئی مانع موجود ہو۔“
ملکیت کی انھی دو تعریفوں کو محققین نے ترجیح دی ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ ان سے اس بات کا ثبوت فراہم ہوتا ہے کہ مالک اور شے مملوک میں جو تعلق ہے وہ تعلق شرعی ہے کہ حقیقت میں ازروئے شرع مالک کو مالکانہ حقوق دیے گئے ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ کسی مالک کیلئے شارع کی اجازت ہی وہ دائرہ اورحدہے جو کہ مقصود ہے یعنی شارع جہاں اجازت دے وہاں مالک کےلیے تصرف کرنا جائز ہے اور جہاں تصرف کرنے سے شارع روکے،وہاں مالک کے لیے اپنی مملوکہ شے میں تصرف کرناناجائز ہے۔ اور اسی کو علامہ ابن ہمامؒ اورعلامہ ابن نجیمؒ نے مزید ”الالمانع“کہہ کر واضح کردیا ہے کہ اگر اس شے مملوکہ میں تصرف کرنے کے لیے کوئی مانع موجود ہو تو پھر مالک اس میں تصرف نہیں کرسکتا۔ یہاں اہل علم نے مانع کی تشریحات دو طرح سے کی ہیں اور دونوں ہی یہاں مرد ہیں۔ایک تشریح کا تعلق مالک کے ساتھ ہے اور دوسری کا تعلق مالک کے علاوہ دیگر افراد کے ساتھ ہے۔ مالک کے لیے اس کا جنون اور بچپنا وغیرہ مانع ہیں۔ اور دوسری صورت میں دیگر افراد کا ضرر مانع ہے، کہ مالک کو کسی ایسے تصرف کا اختیار نہیں ہے جس سے دوسرے لوگوں کو تکلیف ہو۔چنانچہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانامجیب اللہ ندوی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب” اسلامی فقہ“ میں لکھتے ہیں:
”اپنی ملکیت کے تصرف اور انتقال میں آدمی اس وقت تک آزاد ہے جب تک دوسرا مانع نہ ہو یعنی وہ حق استعمال دوسروں کے لیے مضرنہ ہو مثلاًایک شخص اپنی زمیں میں کنواں کھود رہا ہے مگر وہ راستے پر پڑتا ہے تو اسے اس سے روک دیا جائے گا“ ([3])
مولانا مجیب اللہ ندوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہاں مانع سے وہ تشریح مراد لی ہے جس کا تعلق مالک کے علاوہ دیگر افراد کے ساتھ ہے کہ اپنی مملوکہ شے میں ایساتصرف کرنا جس سے دوسرے لوگوں کوتکلیف ہویہ جائزنہیں۔ شرع اس کی اجازت نہیں دیتا،جیسے اگرکوئی شخص اپنی مملوکہ زمین میں کنواں کھودے اور اس سے دوسرے لوگوں کوگزربسروغیرہ کے حوالے سے تکلیف ہوتوحاکم وقت مالک کواس طرح کے تصرف سے روک سکتاہے۔
اسی سے فقہائےکرام نے یہ اصول وضع کیاہے کہ:
یتحمل الضررالخاص لدفع ضررالعام
” کہ عام لوگوں کوتکلیف سے بچانے کے لیے اپنے نقصان کو برداشت کرناہوگا۔“
صاحب مجلہ ملکیت کا مفہوم ان الفاظ کے ساتھ تحریر کرتے ہیں:
الملک ماملکہ الانسان سواءکان اعیاناًاومنافع ([4])
” ملک وہ ہے جس کا انسان مالک ہوجائے خواہ وہ مملوک اعیان کے قبیل سے ہو یا منافع کے قبیل سے۔“
اعیان اورمنافع کی تشریح
پھراسی مفہوم کی روشنی میں شرح المجلہ والے نے اعیان اورمنافع کی تشریح کی ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں:
الاعیان کالعروض والعقاروالحیوان۔والمنافع کالسکنی([5])
” اعیان عروض،جائیداد اورحیوان کو اورمنافع رہائش کو کہتے ہیں۔“
یعنی جو چیزیں ہمیں آنکھوں سے نظرآنے والی ہیں وہ اعیان ہیں جیسے مکان عین ہے اسی طرح زمین اورگاڑی وغیرہ اعیان ہیں، البتہ ان چیزوں سے حاصل والے جو منافع ہیں مثلاََمکان سے رہائش کافائدہ، زمین سے کھیتی باڑی اور زراعت وغیرہ کا فائدہ اور گاڑی سے سواری کا فائدہ، یہ اعیان نہیں بلکہ منافع میں سے ہیں۔ الغرض اعیان ہوں یا منافع یہاں دونوں کو ملکیت میں شمار کیا گیا ہے۔
ہمارے فقہائے کرام کی طرف سے ملکیت کا ایک اورمفہوم جس سے متعلق دکتوروھبہ الزحیلی فرماتے ہیں:
وقدعرف الفقہاءالملک بتعاریف متقاربة مضمونھاواحدولعل افضلہاھومایاتی ([6])
اور البتہ ملکیت سے متعلق فقہائے کرام نے مختلف تعریفیں کی ہیں جو ایک دوسرے کے قریب ہیں اور شاید بہتر تعریف وہ ہے جو ابھی ذکر کی جاتی ہے۔
گویا دکتوروھبہ الزحیلی”ولعل افضلہاھومایاتی“کہہ کرآنے والی اس تعریف کو ترجیح دے رہے ہیں۔
چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:
الملک اختصاص بالشیءیمنع الغیرمنہ،ویمکن صاحبہ من التصرف فیہ ابتداءالالمانع شرعی ([7])
” ملکیت کسی شے کے اس طرح خاص کردینے کو کہتے ہیںجو غیر کو اس شے سے روکے اور مالک کیلئے ابتداءً اس میں تصرف کرنا ممکن ہو مگر یہ کہ کوئی شرعی مانع موجود ہو۔“
مطلب یہ ہوا کہ ملکیت کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شے کسی کے ساتھ ایسے خاص ہو جائے کہ کوئی دوسراپھر اس میں تصرف نہ کرسکے۔ اور وہ شے مالک کے ساتھ اس طرح خاص ہوجائے کہ مالک شریعت کی رو سے جس طرح تصرف کرنا چاہے کرسکے اور وہ اس شے میں تصرف کرنے میں غیر کی اجازت کا محتاج نہ ہو۔
”الالمانع“ کی تشریح
اس تعریف کے بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر وہبہ الزحیلی خود اس کی وضاحت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
فاذا حاز الشخص مالاً بطریق مشروع اصبح مختصابہ واختصاصہ بہ یمکنہ من الانتفاع بہ و التصرف فیہ الا اذا وجد مانع شرعی یمنع من ذٰلک کالجنون ا¿والعتہ ا¿و السفہ ا¿و الصغر و نحوھا کما ان اختصاصہ بہ یمنع الغیر من الانتفاع بہ ا¿و التصرف فیہ الا اذا وجد مسوغ شرعی یبیح لہ ذٰلک کولایة ا¿ووصایة ا¿و وکالة ([8])
”پس جب کوئی شخص ازروئے شرع اپنے پاس کوئی چیز روکے تو وہ شے اس کے ساتھ خاص ہوجاتی ہے۔ اور اس شے کے خاص ہو جانے کی وجہ سے اس آدمی کا اس سے فائدہ اٹھانا اور تصرف کرنا ممکن ہو جاتا ہے مگر یہ کہ کوئی مانع شرعی موجود ہو جو اسے ان کاموں سے روکے، جیسے جنون،کم عقلی،بیوقوفی یا بچپنا وغیرہ۔ اور اسی طرح وہ شے اس آدمی کے ساتھ ایسے خاص ہو جو غیر کو اس سے فائدہ اٹھانے اور تصرف کرنے سے روکے، مگر یہ کہ کوئی ایسا شرعی سبب موجود ہو جو غیر کے فائدہ اٹھانے اور تصرف کرنے کو مباح کردے، جیسے ولایت، وصیت اور وکالت۔“
گویا ڈاکٹروہبہ الزحیلی رحمتہ اللہ یہاں مانع سے وہ تشریح مراد لے رہے ہیں جس کا تعلق مالک کے ساتھ ہے۔اور درست بات بھی یہی ہے کہ مانع سے دونوں طرح کی تشریحات مراد لی جائیں۔کیونکہ دونوں کا منبع قرآن و سنت ہے۔ اور فقہاانھی موانع کو اپنی تشریحات میں بیان کرتے ہیں۔ اس وضاحت سے یہ بات ظاہرہوئی کہ مالک کے لیے اپنی شے مملوکہ میں تصرف کرنے اور فائدہ اٹھانے سے جو چیز رکاوٹ ہے وہ جنون،بیوقوفی اور صغر ہے،اور اسے فقہاءکے ہاں حجر کہا جاتا ہے۔ اور حجر کسی کو تصرف وغیرہ سے روک دینے کو کہتے ہیں ، چنانچہ صاحب ہدایہ اس سے متعلق لکھتے ہیں:
الاسباب الموجبة للحجر ثلٰثة الصغر، الرق و الجنون فلایجوز تصرف الصغیر الا باذن ولیہ و لاتصرف العبد الا باذن سیدہ و لایجوز تصرف المجنون المغلوب بحال([9])
” وہ اسباب جو کسی کو تصرف سے روک دینے کا موجب ہیں و ہ تین ہیں بچپنا،غلامی اور جنون ۔ پس چھوٹے کا تصرف جائز نہیں مگر اپنے ولی کی اجازت سے اور نہ ہی غلام کا تصرف مگر آقا کی اجازت سے اور مجنون مغلوب العقل کا تصرف کبھی بھی جائز نہیں ہے۔“
معلوم یہ ہوا کہ چھوٹا بچہ اس وقت اپنی ملکیت میں تصرف کرسکتا ہے جب اس کو اس کا ولی اجازت دے اور غلام اپنی ملکیت میں تصرف اس وقت کرسکتا ہے جب اس کو اس کا آقا اجازت دے، لیکن مغلوب العقل انسان کسی بھی صورت اپنی ملکیت میں تصرف نہیں کرسکتا۔ اب یہ کہ اس قسم کے افراد اپنی ملکیت میں تصرف کیوں نہیں کرسکتے ہیں۔؟ صاحب ہدایہ خود اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
اما الصغر فلنقصان عقلہ غیر ا ن اذن الولی اٰیة اھلیتہ و الرق لرعایة حق المولی کیلایتعطل منافع عبدہ۔ و الجنون لایجامعہ الاھلیة فلایجوز تصرفہ بحال ([10])
”بچہ عقل کے کم ہونے کی بناپر لیکن ولی کی اجازت اس کی اہلیت کی نشانی ہے اور غلام آقا کے حق کی رعایت رکھنے کی وجہ سے تاکہ غلام سے حاصل ہونے والے منافع معطل نہ ہوجائیں اور مجنون صلاحیت کے بالکل نہ ہونے کی بناپر، پس اس کا تصرف کبھی بھی جائز نہیں۔“
مندرجہ بالا عبارت میں بچے، غلام اور مجنون کو اپنی اپنی ملکیت میں تصرف نہ کرسکنے کی علت بیان کی گئی ہے کہ بچہ اس لیے تصرف نہیں کرسکتا کہ کم عقل ہے، ہوسکتا ہے اس کم عقلی کی بناپر وہ کوئی ایسا فیصلہ اور تصرف کر ڈالے جو ازروئے شریعت ممنوع ہو اور دوسروں کیلئے تکلیف کا سبب بنے۔ لیکن فرمایا کہ جب وہ بچہ بڑا ہوجائے اور ولی اس میں کوئی صلاحیت اور اہلیت دیکھ کر اسے تصرف کرنے کی اجازت دے تو ایسی صورت میں اس کا تصرف درست تصور کیا جائے گا۔ اور غلام کو اپنے آقاکی ملکیت میں ہونے کی وجہ سے تصرف سے روکا جاتا ہے اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ غلام کے کسی تصرف کی وجہ سے،آقا کے جو اپنے اس غلام سے منافع تھے، وہ تعطل کا شکار ہو جائیں۔ تو آقا کے حقوق کی رعایت کی بناپر غلام کو ہر قسم کے تصرف سے روک دیا جاتا ہے۔ اور مجنون کو تصرف سے روکے جانے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں تصرف کرنے کی بالکل ہی اہلیت اور صلاحیت نہیں ہوتی کیونکہ وہ مستقل مغلوب العقل ہونے کی وجہ سے کبھی بھی صحیح اور درست فیصلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
اب صاحب ہدایہ نے جو صغر یعنی چھوٹے کے تصرف نہ کرسکنے کی وجہ بیان کی ہے اس حوالے سے صاحب بنایہ ابومحمدمحمودبن احمدالعینی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
أما الصغیر أی الصغیر العاقل أما الصغیر الذی لاعقل لہ فہوکالمجنون المغلوب ([11])
” صغیر سے مراد وہ بچہ ہے جو عقلمندہو لیکن اگر بچہ بیوقوف ہو تو پھر وہ مجنون مغلوب العقل کی طرح ہے۔“
علامہ عینی بے وقوف بچے کو مجنون کے حکم میں رکھتے ہیں ، کہ جس طرح مجنون مغلوب العقل کو کبھی بھی(ولی کی اجازت ہو یا نہ ہو) اپنی ملکیت میں کسی بھی قسم کے تصرف کے اجازت نہیں ہوتی بالکل اسی طرح بے وقوف بچے کو بھی اپنی ملکیت میں(ولی کی اجازت ہویا نہ ہو) کسی بھی قسم کے تصرف کی اجازت نہ ہوگی،کیونکہ بالغ مجنون مغلوب العقل اور بے عقل بچے میں اپنی ملکیت میں تصرف نہ کرسکنے کی وجہ ایک ہے اوروہ ہے اہلیت اور صلاحیت کا نہ ہونا۔
ملکیت کا مفہوم مغربی محققین کے نزدیک
ہمارے فقہائے کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ملکیت کا جو مفہوم بیان کرتے ہیں اس کے مقابلے میں مغربی محققین اس حوالے سے کیا کہتے ہیں۔ مشہورمغربی محقق ماہر قانون جان آسٹن لکھتے ہیں:
”اپنے اصل مفہوم کے اعتبار سے یہ کسی متعین شے پر ایک حق کی نشاندہی کرتا ہے جو استعمال کے اعتبار سے غیر محدود اور تصرف و انتقال کے اعتبار سے بے قید ہے“([12])
گویا ان کے ہاں ملکیت کے اس مفہوم کی روسے انسانی ذہن میں ملکیت کا تصور بالکل بے قیدہوکر رہ جاتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے کیونکہ اس تعریف سے اس بات کی بو آتی ہے کہ انسان جس طریقے پر چاہے دولت حاصل کرے۔ اور یہ کہ مالک جس طرح چاہے اپنی مملوکہ شے میں تصرف کرے اگرچہ ایک عام آدمی کو اس سے ضرر ہو۔ جبکہ یہ ہرگز درست نہیں کیونکہ ہمارا مذہب اس کی اجازت بالکل نہیں دیتا کہ انسان جس طرح چاہے دولت سمیٹے اور پھر اس میں تصرف کے حوالے سے عام لوگوں کی تکلیف کا احساس بھی نہ کرے۔
تنقیدی جائزہ
شریعت اسلامیہ نے مالک کے اپنی مملوکہ شے میں تصرف کرنے کے لیے جو ایک محدود دائرہ متعین کیا ہے مغربی محقق جان آسٹن نے اپنی تعریف میں ”غیر محدود“کہہ کر اس دائرے کو بھی ختم کردیا ہے جبکہ اس محدود دائرے کا ہونا لازمی ہے کیونکہ اس محدود دائرے میں رہ کر ہی ہمارا دین مالک کو تصرف کی اجازت دیتا ہے اور اس سے باہر کے تصرف سے روکتا ہے۔
چنانچہ اسی کی وضاحت کرتے ہوئے مولانامحمدتقی امینی ’ ’اسلام کازرعی نظام“میں تحریر فرماتے ہیں:
”اسلام نے اس بحث کو ایک لفظ خلافت سے ختم کردیا ہے کہ کھیتی باڑی ہی کی کیا خصوصیت ہے زمین و آسمان کی ہر چیز کا حقیقی مالک اللہ ہے اور یہ ساری چیزیں بحیثیت خلیفہ انسان کو بطور امانت استعمال کے لیے دی گئی ہیں، اور ہر امین کو ان کے استعمال کا حق اسی وقت تک ہے جب تک اس سے مفاد عامہ میں خلل پڑنے کا اندیشہ نہ ہو، ورنہ خلافت کو اس کا جائز حق پائمال کیے بغیر ہر تصرف کا اختیار دیا گیا ہے۔“
اس حق استعمال اور حق انتفاع کو ملکیت سے تعبیر کریں تو مضائقہ نہیں اور نہ اس سے کسی اصول کلیہ پر زد پڑتی ہے بلکہ اسلام میں جہاں کہیں بھی شخصی و اجتماعی ملکیت کا ذکر ہے اس سے اسی قسم کی ملکیت مراد ہے“([13])
مولانامحمدطاسین رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب”اسلام کی عادلانہ اقتصادی تعلیمات“میں تحریر کرتے ہیں:
”مطلب یہ کہ اللہ کی طرف جو مال کی اضافت ہے وہ حقیقی مالک کی طرف ہے جو ہر شے کا خالق اور رب ہے، ان آیات میں مومن بندوں کے لیے یہ ہدایت ہے کہ وہ یہ باور کریں کہ ان کے پاس جو بھی مال ہے وہ حقیقت میں اللہ کا مال ہے، لہٰذاوہ اس کے خرچ کرنے میں اللہ کی مرضی کا پورا لحاظ رکھیں، قرآن مجیدمیں مال کے خرچ کرنے کے متعلق جو ہدایات ہیں ان کے مطابق خرچ کریں، اور جیسا کہ پہلے ایک مقام پر عرض کیا گیا کہ کسی شے کے متعلق کسی انسان کی جو ملکیت ہوتی ہے وہ اللہ کی بہ نسبت نہیں دوسرے انسانوں کی بہ نسبت ہوتی ہے ، اللہ کی بہ نسبت کوئی انسان نہ صرف یہ کہ کسی چیز کا مالک نہیں بلکہ خود بھی اللہ کا مملوک ہے۔“([14])
درج بالا وضاحت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ انسان کو ہر اعتبارسے بغیر کسی قید اور حد کے اپنی مملوکہ شے میں مکمل تصرف کا اختیار اس وقت ہوگا جب انسان حقیقت میں اس شے کا مالک ہوجائے گا لیکن بات یہ ہے کہ انسان تو حقیقی مالک ہے ہی نہیں، انسان کو تو فقط منصب خلافت کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے عارضی طور پر مالک بنایا ہے۔ انسان کی حیثیت امین کی ہے جس کی وجہ سے انسان اشیاکے استعمال میں بالکل آزاد نہیں ہے بلکہ دین کے احکامات کا محتاج ہے۔
جان آسٹن کے اسی مغربی نظرےے کو سامنے رکھتے ہوئے مولانا محمد حفظ الرحمن سیوہاروی رحمة اللہ علیہ بطور تبصرہ اپنی کتاب ”اسلام کا اقتصادی نظام“میں یوں لکھتے ہیں:
”اور اسی طرح انفرادی ملکیت کو کلیتہً بے قیداور محدود رکھنا، سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے تمام اثرات اور نتائج بد کو بروئے کار لانا ہے۔ اس لیے اعتدال کی راہ یہ ہے کہ آمدنی اور ذرائع آمدنی(مثلاََزمین)میں انفرادی ملکیت کے جواز کو ایسے قیود و شرائط کے ساتھ مقید کردیا جائے کہ مفاسد پیدا نہ ہونے پائیں اور انسان کے انفرادی حقوق کا انسداد بھی لازم نہ آئے ، کیونکہ علم الاخلاق اور علم الاجتماع دونوں کا یہ مسلمہ نظریہ ہے کہ انفرادی حقوق و فرائض کا اعتدال ہی اجتماعی حقوق و فرائض کا بہترین کفیل ہے۔“([15])
مولانا مجیب اللہ ندوی ؒ اپنی کتاب’ ’اسلامی فقہ“ میں لکھتے ہیں:
”اس تعریف میں ملکیت کے انتقال اور تصرف کے حق کو بالکل بے قیدبنادیا گیا ہے ، جو حدود قیود سے بالکل آزاد ہے ، خواہ اس سے دوسرے کو کتنا ہی نقصان پہنچے، اس کے برخلاف اسلامی شریعت میں ملکیت کے تصرف اور انتقال میں دو قیدیں ایسی لگی ہوئی ہیں کہ اس سے ملکیت میں تصرف اور اس کا انتقال اور استبدال شتر بے مہارنہیں ہو پاتا، ایک شرط تو یہ لگی ہوئی ہے کہ ملکیت میں تصرف شارع کی اجازت سے ہو یعنی شریعت نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے اس کا استعمال اور تصرف جائز نہیں، دوسرے اپنی ملکیت کے تصرف اور انتقال میں آدمی اس وقت تک آزاد ہے جب تک دوسرامانع نہ ہویعنی وہ حق استعمال دوسروں کیلئے مضر نہ ہو، مثلاً ایک شخص اپنی زمین میں کنواں کھود رہا ہے ، مگر وہ راستے پر پڑتا ہے تو اسے اس سے روک دیا جائے گا۔“([16])
مولانا ابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ اپنی کتاب”معاشیات اسلام“میں صفحہ۸۵پرلکھتے ہیں:
”جائز ذرائع سے جو کچھ انسان حاصل کرے اُس پر اسلام اس شخص کے حقوق ملکیت تو تسلیم کرتا ہے مگر اس کے استعمال میں اسے بالکل آزاد نہیں چھوڑتا، بلکہ اس پر بھی متعدد طریقوں سے پابندی عائد کرتا ہے۔“([17])
تھوڑاسا آگے چل کر مولانا ابوالاعلی مودودی رحمتہ اللہ مزیدوضاحت کے ساتھ تحریرکرتے ہیں:
”خرچ کرنے کے جتنے طریقے اخلاق کو نقصان پہنچانے والے ہیں یا جن سے سوسائٹی کو نقصان پہنچتا ہے وہ سب ممنوع ہیں۔ آپ جوئے میں اپنی دولت نہیں اڑا سکتے، آپ شراب نہیں پی سکتے،آپ زنا نہیں کرسکتے، آپ گانا بجانے اور ناچ رنگ اور عیاشی کی دوسری صورتوں میں اپنا روپیہ نہیں بہاسکتے، آپ ریشمی لباس نہیں پہن سکتے،آپ سونے اور جواہر کے زیورات یا برتن استعمال نہیں کرسکتے، آپ تصویروں سے اپنی دیواروں کو مزین نہیں کرسکتے۔ غرض یہ کہ اسلام نے ان تمام دروازوں کو بند کردیا ہے جن سے انسان کی دولت کا بیشتر حصہ اس کی اپنی نفس پرستی پر صَرف ہوجاتا ہے ۔ وہ خرچ کی جن صورتوں کو جائز رکھتا ہے وہ اس قسم کی ہیں کہ آدمی بس ایک اوسط درجہ کی شستہ اور پاکیزہ زندگی بسر کرے۔“
اس سے زائد اگر کچھ بچتا ہو تو اسے خرچ کرنے کا راستہ اس نے یہ تجویز کیا ہے کہ اسے نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ،رفاہ عام میں،اور ان لوگوں کی امداد میں صَرف کیا جائے جو معاشی دولت میں سے اپنی ضرورت کے مطابق حصہ پانے سے محروم ہوگئے ہیں۔ اسلام کے نزدیک بہترین طرز عمل یہ ہے کہ آدمی جو کچھ کمائے اسے اپنی جائز اور معقول ضرورتوں پر خرچ کرے اور پھر بھی جو بچ رہے اُسے دوسروں کو دے دے تاکہ وہ اپنی ضرورتوں پر خرچ کریں۔“([18])
ڈاکٹرنجات اللہ صدیقی اپنی کتاب ”اسلام کا نظریہ ملکیت“میں تحریرکرتے ہیں:
”حق ملکیت کی یہ تعریف اسلامی تصور ملکیت سے ہٹی ہوئی ہے کیونکہ اسلامی تصور ملکیت میں اطلاق اور بے قیدی کا پہلو نہیں پایا جاتا، مالک کا تصرف اللہ کے حکم کے تابع ہے ، اللہ نے فرد کے اس حق کو ایسے حدود کا پابند بنایا ہے جن کا منشا خود مالک کی شخصیت اور دوسرے افراد نیز پورے معاشرے کو ملکیت کےمضر استعمال سے محفوظ رکھتاہے۔ ساتھ ہی اللہ نے حق ملکیت کے ساتھ مالک پر کچھ مثبت ذمے داریاں بھی عائد کی ہیں جو اس حق سے علیحدہ نہیں کی جاسکتیں ، اکثر اوقات یہ ذمے داری اپنی ملکیت میں دوسروں کا حق تسلیم کرنے، اس میں سے ان کا حصہ نکالنے یا انھیں اس کے استعمال کا موقع دینے اور خود استعمال کرتے وقت دوسروں کے مصالح کو بھی ملحوظ رکھنے کی شکل میں عائد کی گئی ہیں، ظاہر ہے کہ ان حدود اور ذمے داریوں کے ہوتے ہوئے ملکیت کا کوئی بے قیداور مطلق تصور اسلامی نظریہ میں راہ نہیں پاسکتا۔“([19])
معلوم ہوا کہ ملکیت کی تعریف بے قید اور غیر محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کے کچھ اصول و ضوابط اور تصرف کے لیے ایک دائرہ متعین ہونا چاہیے، اور یہ سب کچھ دین اسلام نے پہلے ہی بیان کردیا ہے۔ اور اسلام نے کچھ حدود و قیود بیان کرکے مالک کو دائرہ تصرف اور ملکیت کے اصولوں میں قید کردیا ہے۔ اور خاص طور پر دین اسلام یہ ہدایت کرتا ہے کہ مالک اپنی ملکیت میں تصرف اوراس کے انتقال میں اس وقت تک آزاد ہے جب تک کسی غیر کو اس سے کسی بھی قسم کا نقصان نہ ہو ورنہ دوسرے فرد کی تکلیف کا احساس کرتے ہوئے اس تصرف سے خود کو روکنا ہوگا۔ اور مولانا مودودی رحمتہ اللہ نے اس محدود دائرے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے تفصیل کے ساتھ وہ ناجائز ذرائع بتا دےدیے جن میں دولت خرچ کرنا درست نہیں ہے۔
قوم شعیب اورنظریہ ملکیت
مغربی ماہرقانون جان آسٹن کی معروضات کی روشنی میں جب ہم ذراماضی کی طرف دیکھتے ہیں تو قرآن کریم کے مطالعے سے ہمیں یہ بات ملتی ہے کہ ملکیت کے حوالے سے کچھ ایسا ہی نظریہ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کا بھی تھا۔ اس قوم میں ایک بہت بڑا مرض اشیاکو ناپ تول میں کمی کے ساتھ فروخت کرنا تھا جس کے ذریعے وہ لوگوں کے ساتھ زیادتی کیا کرتے تھے۔ اور ظاہر ہے کہ ثمن یعنی قیمت کی مکمل وصولی کرنے کے بعد ناپ تول میں کمی کرنا گاہک پر زیادتی کرناہے۔ جوکہ یقیناََ حرام ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان کی اس قبیح حرکت کو مختلف مقامات پر بیان فرمایا ہے۔
اس برائی کے بارے میں حضرت شعیب علیہ السلام نے مختلف انداز سے اپنی قوم کو سمجھایا۔ حضرت شعیب علیہ السلام سے متعلق ایک موقعے پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”آپ خطیب الانبیاءہیں۔“آپ نے اپنے حسن بیان کے ذریعے اپنی قوم کو مختلف طریقوں سے سمجھانے کی کوشش فرمائی، مگر یہ سب کچھ سننے کے بعدقوم نے حضرت شعیب علیہ السلام کو وہی جواب دیا جوظالم قومیں اپنے مصلحین کو دیا کرتی ہیں۔ قوم نے مذاق اڑایا اور کہنے لگے:
یاشعیب أصلوٰتک تامرک ان نترک مایعبد اٰبائنا او أن نفعل فی أموالنا مانشاء ([20])
”اے شعیب(علیہ السلام)کیا تمہاری یہ نمازتمہیں یہ حکم کرتی ہے کہ ہم اپنے ان معبودوں کو چھوڑدیں جن کی پرستش اور پوجا ہمارے آباواجداد کرتے چلے آئے ہیں،اور یہ کہ ہم اپنے مال میں جو چاہیں تصرف کریں۔“
یعنی قوم نے کہا کہ آپ کی نمازیں ہمارے معاملات پر اثر انداز نہ ہوں۔ عبادات کو معاملات سے بالکل الگ رکھا جائے۔ کیونکہ ہم اپنے اموال میں اپنی صوابدید پر تصرف کرتے ہیں۔ لہٰذا اس حوالے سے حلال و حرام کے مابین کے مسائل پر عمل کرنے کے لیے ہمیں مجبور بالکل نہ کیا جائے۔ گویا کہنا چاہ رہے تھے کہ اس سلسلے میں ہم بے قید اور آزاد تھے، اب بھی بے قید اور آزاد ہی رکھا جائے۔ جیسا کہ مفتی محمد شفیع عثمانی رحمتہ اللہ علیہ” معارف القرآن“ کی جلد ۴،صفحہ ۳۶۶ پر تحریر فرماتے ہیں:
”ان کے اس کلام سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ بھی یوں سمجھتے تھے کہ دین وشریعت کا کام صرف عبادت تک محدود ہے ، معاملات میں اس کا کیا دخل ہے، ہر شخص اپنے مال میں جس طرح چاہے تصرف کرے، اُس پر کوئی پابندی لگانادین کا کام نہیں۔“([21])
اسی پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے مولانا ابوالاعلی مودودی رحمتہ اللہ ’ ’معاشیات اسلام“میں لکھتے ہیں:
”اسی بنیاد پر قرآن یہ اصول قائم کرتا ہے کہ انسان ان ذرائع کے اکتساب اور استعمال کے معاملے میں نہ تو آزاد ہونے کا حق رکھتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے خود حرام و حلال اور جائز و ناجائز کے حدود وضع کرلینے کا مجاز ہے، بلکہ یہ حق خدا کا ہے کہ اس کے لیے حدود مقرر کرے، وہ عرب کی ایک قدیم قوم،مدین کی اس بات پر مذمت کرتا ہے کہ وہ لوگ کمائی اور خرچ کے معاملے میں غیر محدود حق تصرف کے مدعی تھے۔“ ([22])
گویا اپنی دولت کو خرچ کرنے میں بے قید اور آزاد تصور قوم شعیب میں پایا جاتا تھا جس پر ان کی مذمت کی گئی اور ان کے اس عمل کو فساد فی الارض کا سبب کہا گیا۔ لہٰذا قرآن وسنت کی روشنی میں فرد اپنی دولت کو صَرف کرنے میں ہرگز آزاد نہیں ہوگا بلکہ دین اسلام کے احکامات کا محتاج اور پابند ہوگا۔
خلاصہ
دین اسلام انسان کی انفرادی ملکیت کو تسلیم کرتا ہے۔البتہ شریعت اسلامیہ میں ملکیت کا وہ تصور نہیں ہے جو سرمایہ دارانہ نظام اور اہل مغرب کا ہے۔اس حوالے سے مغربی تصور بالکل آزاد اور بے قید ہے، جبکہ اسلام اس تصور کو آزاد بالکل نہیں رکھتا بلکہ مالک کو قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی املاک میں تصرف اور استعمال کا حکم کرتا ہے۔ تاکہ کوئی نااہل تصرف نہ کرسکے اور فرد کے تصرف سے کسی دوسرے شخص کو ضرر اور تکلیف نہ پہنچے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اہل علم نے یہی تصریحات کی ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ ()ابن ہمامؒ،کمال الدین،فتح القدیر،المکتبة الرشید ،کوئٹہ، 1405ھ،ج5،ص456
- ↑ ()ابن نجیم ؒ،زین الدین بن ابراہیم،الاشباہ والنظائر،تعلیمیہ پریس،کلکتہ ، 1260ھ،ص605
- ↑ ()ندویؒ،مجیب اللہ،مولانا،اسلامی فقہ،مکتبہ مدینہ،لاہور،1406ھ،ص305
- ↑ ()مصنف ندارد،المجلہ،قسطنطنیہ،المطبعة العثمانیة،1305ھ،مادہ125،ص20
- ↑ ()اللبنانی،سلیم رستم باز،شرح المجلہ،دارالاشاعت العربیہ،قندھار،1389ھ،ص69
- ↑ ()الزحیلی،وہبہ،ڈاکٹر،ا لفقہ الاسلامی وادلتہ،دارالفکر،دمشق،1405ھ،ج4،ص56
- ↑ ()ایضاً،ص57
- ↑ ()ایضاً
- ↑ ()علی ابن ابوبکرؒ،ابوالحسن،الہدایہ،کتاب الحجر،مکتبہ شرکت علمیہ،ملتان،1396ھ،ج3،ص352
- ↑ ()ایضاً
- ↑ ()العینیؒ،محمودبن احمد،ابومحمد،البنایہ فی شرح الہدایہ ، دمشق،دارالفکر،1411ھ،ج10،ص87
- ↑ ()John Austin, Lectures on Jurisprudence,Vol II.London Murray, P.790 (بحوالہ: ڈاکٹرنجات اللہ صدیقی،اسلام کانظریہ ملکیت،اسلامک پبلی کیشنز،لاہور1991ء،حصہ اول،ص128)
- ↑ ()امینی،محمدتقی ،مولانا،اسلام کازرعی نظام،مکتبہ امدادیہ،ملتان،1954ء،ص18
- ↑ ()طاسین ؒ،مولانا،اسلام کی عادلانہ اقتصادی تعلیمات ،مجلس علمی،کراچی،1997ء،ص142
- ↑ ()سیوہارویؒ،حفظ الرحمن،مولانا،اسلام کااقتصادی نظام،ادارہ اسلامیات،لاہور،1984ء،ص229
- ↑ ()ندویؒ،مجیب اللہ،مولانا،اسلامی فقہ،ص304
- ↑ ()مودودی،ابوالاعلی،سید،معاشیات اسلام،اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ،لاہور،1996ء،ص58
- ↑ ()ایضاً،ص59
- ↑ ()صدیقی،نجات اللہ،ڈاکٹر،اسلام کانظریہ ملکیت،محوّلہ بالا
- ↑ ()القرآن11:87
- ↑ ()عثمانی ؒ، شفیع،مفتی،معارف القرآن،ادارۂ المعارف،کراچی،1415ھ،ج4،ص663
- ↑ ) )مودودی،ابوالاعلی،سید،معاشیات اسلام،ص71
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |