Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 33 Issue 1 of Al-Tafseer

مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی کے تفسیری نکات سماجی بہبود کے تناظر میں |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

33

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060084478_1158

Pages

30-40

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/77

Subjects

Quranic commandments Moulana Shafi Okarvi social welfare.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

اللہ کریم نے انسانوں کی حقیقی فوز و فلاح کے لیے انبیائے کرام کو مبعوث کیا تاکہ وہ اُن کو راہ حق و ہدایت پر گامزن کریں ۔ ہر نبی و رسول کو اللہ کریم وحی کے ذریعے پیغامات عطا کرتا رہا ہے۔ وہ پیغامات ہدایت ہی کا گلدستہ ہوتے تھے ۔اس ضمن میں اللہ کی طرف سے صحائف و کتب بھی نازل کی گئیں انبیاء و رسل کے سلسلے کی آخری کڑی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات اقدس ہے اور آپ پر جو کتاب مبین نازل کی گئی وہ ہدایت کی آخری کتاب ہے اب کائنات میں حصول ہدایت کاقیامت تک واحد ذریعہ قرآن مجیدہے ۔ خود قرآن کا یہ فرمان ہے کہ یہ کتاب سب کے لیے ہدایت ہے۔ ایک ہدایت یافتہ شخص ہی فکری و علمی طور پر ایسا بندہ بنتا ہے کہ جس کی ذات فرد اور معاشرے دونوں کے لیے نفع بخش ثابت ہوتی ہے ۔

نزول قرآن کی ابتدا سے اختتام تک نبی کریم ﷺ بذات خود قران کریم کی تفسیر،جہاں ضرورت پیش ہوتی فرمایا کرتے تھے ۔ آپ کے بعد صحابۂ کرام اور علمائے اسلام نے ہر دور اور ہر علاقے میں قرآن کریم کی تفسیر کی ہے۔اس میں بڑا تنوع ہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ معروف عالم دین مولانا محمد شفیع اوکاڑوی نے بھی قرآن پاک کے حوالے سے تفسیری نکات مختلف موضوعات میں تحریر، تقریر اور دروس کی صورت میں پیش کیے ہیں ۔ زیر نظر مقالے میں مولانا اوکاڑوی کے سماجی بہبود کے حوالے سے تفسیری نکات پیش کیے جارہے ہیں ۔

مولانا اوکاڑوی کا تعارف

مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ کی ولادت قصور (جو پنجاب پاکستان کا ایک مشہور شہر ہے) سے پانچ میل دور ایک قصبے کھیم کرن (بھارت) میں ہوئی۔ مولانا اوکاڑوی کے برادرِ اصغر محمد لطیف نقشبندی کھیم کرن کے حوالے سے فرماتے ہیں:

کھیم کرن اُن دنوں ایک فصیل نما قصبہ تھا، جس کے تین کوٹ (محلے) (نواں کوٹ، پرانا کوٹ، درمیانہ کوٹ )تھے۔ ایک کوٹ مسلمان آبادی پر مشتمل تھا جس میں اکثریت شیخ برادری کی تھی جو تاجرپیشہ تھے۔ جبکہ دیگر دوکوٹ میں مختلف مذاہب کے لوگ آباد تھے۔ مولانا اوکاڑویؒ مسلم آبادی والے درمیانہ کوٹ میں رمضان المبارک 1929ء میں پیدا ہوئے۔دستور زمانہ کے مطابق مولانا اوکاڑویؒ کے والدین نے اپنے بیٹے کو اپنے دینی مزاج کے مطابق تعلیم سے بہرہ ور کرنا چاہا، جس کے لیے انھوں نے سب سے پہلے ان کو قرآن حفظ کروانے کی طرف توجہ دی۔ مولانا اوکاڑوی کو کھیم کرن میں، بمبلاں والی مسجد جو اہل سنت کا مرکز تھی، حافظ کرم الہٰی صاحب جو بصارت سے محروم لیکن صاحب بصیرت آدمی تھے، کے پاس حفظ ِ قرآن کے لیے داخل کروایا گیا۔

مولانا اوکاڑویؒ ابتدئی کتب صرف و نحو پڑھے چکے تھےبعد ازاں انھوں نے میاں غلام اللہ شرق پوری المعروف ثانی صاحب (م1957ء)کے ساتھ تحریک پاکستان میں حصہ لیا ۔ 14/اگست1947ء کو پاکستان کا قیام وجود میں آیا۔ مولانااوکاڑوی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ہجرت کرکے پنجاب کے وسطی شہر اوکاڑہ آگئے ۔ اُس کے بعد انھوں نے قرآن و حدیث کی تعلیم کے لیے علامہ غلام علی اوکاڑویؒ (م2000ء)کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیا۔ علامہ غلام علی اوکاڑوی کے علاوہ مولانا محمد شفیع اوکاڑوی نے علوم دینیہ میں علامہ سید احمد سعید کاظمی (م1986ء)سے بھی مہارت و کمال حاصل کیااور اسناد حاصل کیں۔([1])

مولانا اوکاڑویؒ کی کراچی آمد

مولانا اوکاڑوی کی خطابت، خوش الحانی،تبلیغ دین کے لیے احسن اور پرجوش جذبات اہل کراچی سے بھی مخفی نہ رہ سکے۔ تحریک ختم نبوت1952ء کے بعد مولانا اوکاڑوی کو کراچی کے حلقوں کی طرف سے بھرپور دعوت دی جاتی رہی۔ مولانا اوکاڑوی کا یہ طریقہ تھا کہ ہر کام بزرگوں کے مشورے سے کرتے تھے۔ چنانچہ جب کراچی والوں کے اصرار نے شدت اختیار کی تو آپ نے حضرت پیرسید محمد اسماعیل شاہ بخاری کرماںوالا شریف (م1966ء) کو بتایا۔ جنھوں نے دعاؤں کے ساتھ اجازت دی اور فرمایا حافظ جی کراچی چلے جائیں۔ وہ مدینہ شریف کا دروازہ ہے اور ہم نے وہاں لوگوں کو قرآن پڑھ کر سنانا ہے۔ کراچی آ کر مولانا اوکاڑوی نے اپنی ذات کو تبلیغ دین کے لیے وقف کر دیا، جس کے لیے تقریر، تحریر، دروس، اداروں کا قیام، سیاسی و سماجی سطح پر عوامی فلاح و بہبود کے لیے مخلصانہ کوششیں اور ہر وہ طریقہ اپنایا جس سے مخلوق خدا کی اعتقادی، عملی اور سماجی حالت سنور سکے۔

مولانا اوکاڑوی1955ء میں کراچی کے مذہبی حلقوں کے شدید اصرار پر کراچی آئے۔ کراچی کی سب سے بڑی مرکزی میمن مسجد بولٹن مارکیٹ کے خطیب و امام مقرر ہوئے اور جب سے تا دم آخر شب و روزدین کی تبلیغ میں مصروف رہے۔([2])

مولانا اوکاڑویؒ کی تصانیف

اپنی شب و روز کی ہمہ جہت مصروفیات میں سے وقت نکال کر مولانا اوکاڑویؒ نے مختلف موضوعات پر بڑی گراں قدر کتب تحریر فرمائیں۔ جن کے نام یہ ہیں:

ذکر جمیل، ذکر حسین(دو حصے)، راہِ حق ،درس توحید،شام کربلا، راہ عقیدت امام پاک اور یزید پلید، برکات میلاد شریف، ثواب العبادات، نماز مترجم، سفینۂ نوح (دو حصے)، مسلمان خاتون، انوار رسالت، مسئلہ طلاق ثلاثہ، نغمۂ حبیب، مسئلہ سیاہ خضاب، انگوٹھے چومنے کا مسئلہ، تعارف علمائے دیوبند اور مختلف رسائل و جرائد میں مقالات۔([3])

مولانا اوکاڑویؒ نے حج و عمرہ، زیارت مقامات مقدسہ اور تبلیغ دین کی غرض سے حجاز مقدس، عراق، شام، فلسطین، جنوبی افریقہ، متحدہ عرب امارات، انڈیا، ماریشس اور بنگلہ دیش کاسفر کیا۔

مولانااوکاڑوی سولہ مرتبہ حج و عمرہ کی سعادت سے مشرف ہوئے۔اس کے علاوہ دین کی تبلیغ کے لیے مولانا اوکاڑوی نے شرق اوسط،خلیج کی ریاستوں، بھارت اور جنوبی افریقہ ،ماریشس اور دوسرے ملکوں کے دورے کیے۔ صرف جنوبی افریقہ میں 1980ء تک مولانا کی تقاریر کے ساٹھ ہزار کیسٹ فروخت ہوچکے تھے۔([4])

مولانا اوکاڑویؒ کا وصال و مدفن

مولانا اوکاڑویؒ نے 56ء-1955ء سے 1984ء تک اپنی زندگی کے تقریباً اٹھائیس برس کراچی میں گزارے۔اُن کے شب و روز دین اسلام کی تبلیغ کے لیے وقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریر، تدریس، تصنیف اور تبلیغ کے ساتھ ساتھ اُن کی زندگی سیاسی، سماجی معاملات سے بھی بھرپور تھی۔ اندرون و بیرون ملک اسفار اس کے علاوہ تھے۔ اتنی گوناگوں مصروفیات سے آپ کی صحت بھی متاثر ہونے لگی اور آپ عارضۂ قلب میں مبتلا ہوگئے۔ یہی مرض جان لیوا ثابت ہوا۔

20/اپریل1984ء کو آخری خطاب جامع مسجد گلزار حبیب میں نماز جمعہ کے اجتماع سے کیا۔ اسی شب تیسری بار دل کا شدید دورہ پڑا اور قومی ادارہ برائے امراض قلب میں داخل ہوئے اور 24/اپریل 1984ء کی صبح 55برس کی عمر میں اذان فجر کے بعد درود و سلام پڑھتے ہوے خالق حقیقی سے جا ملے۔مولانا اوکاڑویؒ کی وفات پر پورے ملک میں سیاسی، سماجی، مذہبی اور عوامی حلقوں میں غم و رنج کی لہر دوڑگئی اور ہزاروں کی تعداد میں ہر شعبۂ زندگی کے لوگ آپ کے جنازے میں شرکت کے لیے کراچی پہنچے۔ اہل کراچی، جن میں علامہ اوکاڑویؒ نے اپنی آدھی زندگی گزاری،اپنے محبوب مذہبی لیڈر کی جدائی پر بڑے غمناک تھے۔ آپ کے جنازے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ 25/اپریل 1984ء کو نشترپارک کراچی میں علامہ سید احمد سعید کاظمی کی امامت میں ہزاروں افراد نے نماز جنازہ ادا کی اور مسجد گلزارِ حبیب کے احاطے میں مدفون ہوئے۔ ([5])

ایک عالم دین کا دینی فریضہ ہوتا ہے کہ وہ ہمہ وقت دین اسلام کا مبلغ ، قرآن و سنت کی تعلیمات کو فروغ دینے والا اور اسلامی اقدار کو عام کرنے والا ہو۔ علوم دینیہ کی تحصیل کے بعد اپنے عہد کے عرف و تعامل پر اس کی گہری نظر ہو،تا کہ وہ عوامی رحجانات و رسوم کی تہذیب و تصویب کر سکے ۔ امتِ مسلمہ کی ایک ذمے داری پیغام حق کو عام کرنا ہے ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے۔

كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ([6])

’’تم بہترین امت ہو جو اس لیے ظاہر کیے گئے ہو کہ تم حکم دیتے ہو نیکی کا اور برائی سے روکتے ہو اور تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر۔‘‘

اب سب لوگ ہی اگر دعوت و تبلیغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں لگ جائیں تو دیگر معاشرتی امور کی ادائی میں ہو سکتا ہے کہ کچھ مشکلات پیش آئیں ۔ اس لیے ایک مستقل جماعت کو اس فریضے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا گیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ([7])

’’ضرور ہونی چاہیے تم میں ایک جماعت جو بلایا کرے نیکی کی طرف اور حکم دیا کرے بھلائی کا اور روکا کرے بدی سے اور یہی لوگ کامیاب و کامران ہیں۔‘‘

اس قرآنی حکم کے مطابق عہد ر سالت اور خلفائے راشدین کے ادوارکے بعد پوری اسلامی تاریخ میں ہمیشہ ایک ایسا گروہ رہا ہے جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ اد کرتا رہا ہے اور اب جبکہ دنیوی اور مادی امور میں گم ہو کر مسلمان دین سے قدرے دور ہوچکے ہیں مگر ایسے لوگ ہمیشہ موجود رہتے ہیں جو سچ کی طرف بلانے اور باطل سے روکنے کی ذمے داری لیے ہوئے ہیں۔

حقوق العباد کی اعتدال کے ساتھ ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم ہو ۔ ایک دوسرے پر فوقیت اور برتری کی سوچ نہ ہو ۔ انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے ہر ایک کے لیے اچھی سوچ ہو، اس حوالے سے سورۂ حجرات کی تفسیر کرتے وقت ’’نسل و رنگ کے امتیازات اور اسلام ‘‘ کے موضوع پر درس دیتے ہوئے مولانا اوکاڑوی فرماتے ہیں :

’’آج اسی دین فطرت کے علمبردار بھی اس دین کی تعلیمات کے خلاف نسل و رنگ کے امتیاز کا شکار ہو کر اس جاہلیت کو اپنے اندر گھسنے کا موقع دے رہے ہیں جس کو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے تشریف لا کر مسلمانوں سے دور کیا ۔ یہ علاقائی عصبیتیں ان مسلمانوں کے دلوں میں گھر کر رہی ہیں جن مسلمانوں کا دین ان کو جڑ سے اکھاڑنے آیا تھا۔ باہمی اتحاد و اتفاق ہی ملت اسلامیہ کا ستون اور اس کے استحکام کا باعث ہے اور باہم اختلاف و افتراق دشمن پر ہمارے رعب کو ختم کر دے گا اور ہماری قوت و ہمت کو پست کر دے گا اور اسی طرح جو ہماری دھاک بیٹھی ہوئی ہے وہ سب ختم ہو کر رہ جائے گی ۔ تاریخ کا ہر طالب علم اس حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے کہ جب تک مسلمانوں نے نسل و رنگ کے امتیاز اور علاقائی عصبیت سے بلند ہو کر محض ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا اور ہر شخص کی قابلیت کے مطابق اس کے حقوق کا تحفظ کیا وہ روز بروز ترقی کرتے رہے اور ان کے اقبال کا سورج بلند تر ہوتا گیا اور پوری دنیا پر ان کی عظمت و برتری کا سکہ بیٹھ گیا۔‘‘([8])

کسی انسان کا اپنے عہدے پر متمکن ہوتے ہوئے اپنے حق سے زیادہ لینا رشوت کہلاتا ہے ۔ بالخصوص کسی کا حق مار کر یا کسی کا ناجائز کام کروا کر ان سے کچھ مال یا کچھ اور لے لینا معاشرتی ناہمواری کا سبب بنتا ہے ۔ عموماً سرکاری ملازمین اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے لوگوں کے جائز کام کے لیے بھی ان سے معاوضہ طلب کرتے ہیں کچھ طلب کرنے کے لیے صحیح کام میں بھی خرابیاں اور غلطیاں نکال دیتے ہیں لیکن جب ان کو کچھ دے دیا جائے تو پھر غلط کام کو بھی صحیح بنا دیتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ سماجی ظلم میں آتا ہے کہ حق دار کو اس کا حق نہ دینا ۔

اس حوالے سے ’’رشوت ‘‘ کے موضوع پر درس دیتے ہوئے آیت ان اللہ یامر بالعدل و الاحسان کے تحت فرماتے ہیں :

’’بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ یہ حکم عام ہے اس میں امیر و غریب، اپنے اور پرائے کو کوئی تخصیص نہیں۔ کسی کی قربت و محبت، امارت و بزرگی یا غریبی و مفلسی اور کسی قسم کا لالچ یا رشوت وغیرہ عدل و انصاف کی راہ میں حاکم کے لیے بے انصافی کا باعث نہ ہونا چاہیے ۔ کیونکہ جو شخص کسی بھی چیز سے متاثر ہو کر عدل و انصاف کا دامن چھوڑ دیتا ہے وہ درحقیقت نظم عالم کو ابتر کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ وہ ظلم کی بنیادیں استوار کرتا ہے ، جس سے عالم کے امن و امان کے درہم برہم ہو جانے کا خطرہ ہے ۔ اس لیے کہ عالم کا پورا نظام محض عدل کی وجہ سے قائم ہے۔ ہر حکومت اور ہر جماعت کے قیام کا باعث ہی قانون عدل ہے۔ اگر اس کو مٹا دیا جائے تو حکومت اور جماعت کا شیرازہ بکھر جائے اور کسی کی جان و مال اور آبرو سلامت نہ رہے ۔ اگر ہمارے باہمی معاملات اور لین دین قرآن کی تعلیمات اور حضور اکرم ﷺ کے ارشادات کے مطابق ہو جائیں تو اسلامی معاشرہ تمام خرابیوں سے پاک ہو جائے اور ماحول نہایت پاکیزہ اور خوشگوار ہو جائے … یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی قوم یا فرد اس وقت تک حکومت و سلطنت کے کسی عہدے یا مقام کا مستحق نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ صفت عدل سے متصف نہ ہو، راشی کے اندر یہ صفت آہستہ آہستہ معدوم ہو کر رہ جاتی ہے ۔ پھر وہ ظلم وستم پر کمر باندھ لیتا ہے ۔ اللہ کا خوف اس کے دل سے نکل جاتا ہے ۔ ملک و ملت کے مفاد کی اس کو قطعاً کوئی پروا نہیں ہوتی ۔ وہ حرص و ہوس کا پُتلا بن کر در پردہ ملک کے امن و امان کو تباہ کرتا رہتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پوری قوم اجتماعی طور پر اس برائی کے خلاف جہاد کرے اور اس تباہ کن جرم کو ختم کرنے کے سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا جائے۔‘‘ ([9])

فرد اور معاشرہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ کسی معاشرے سے افراد کو نکال دیا جائے تو وہ معاشرہ نہیں کہلا سکے گا۔ اسی طرح کوئی فرد معاشرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسلام فرد اور معاشرے میں توازن قائم کرتا ہے دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق عائد کرتا ہے تاکہ معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ بن سکے۔ اسلامی عبادات ، نظریات، ضابطۂ اخلاق سب ہی انسان کی زندگی کو سنوارنے کے لیے واضح احکام رکھتے ہیں اور جب بھی کوئی فرد احکامات اسلامیہ کے مطابق اپنی زندگی کر لے گا تو نہ صرف یہ کہ اس کی دنیا بلکہ اس کی آخرت بھی سنور جائے گی ۔

اس حوالے سے مولانا اوکاڑوی اُولی الامر منکم کے تحت لکھتے ہیں:

’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کی اطاعت کے ساتھ مسلمان امراء اور حکام کی اطاعت کا بھی حکم دیا گیا ہے ۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے بعد ملک و ملت کے امور کی ذمہ داری خلفاء و امراء نے سنبھالنی تھی۔ اس لیے ان کی اطاعت کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے کہ ہر اس امر میں ان کی اطاعت کرو جو ملک و ملت کے لیے بہتر ہو اور اس کی خلاف ورزی کرنا صرف سرکاری جرم ہی نہیں بلکہ ایک دینی جرم بھی ہے ۔ قوانین عوام کی بہتری کے لیے ہی بنائے جاتے ہیں جو لوگ ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ ملک میں بدنظمی اور بد امنی پھیلاتے ہیں جس سے ملک و ملت کی معاشی اور اقتصادی خوشحالی متاثر ہوتی ہے اور اس کے استحکام کو نقصان پہنچتا ہے۔ لہٰذاہر فرد کا دینی اور اخلاقی فرض ہے کہ وہ ہمیشہ ملک و ملت کے مفاد کو اپنے پیش نظر رکھے اور اس کی حفاظت کرے۔‘‘ ([10])

باہمی تعاون کیا ہے اس ضمن میں آیت وتعا و نواعلی البرو التقوی کے تحت مولانا اوکاڑوی فرماتے ہیں :

’’باہمی تعاون یہ ہے کہ کسی معاشرے کو قبول کر لینے کے بعد معاشرے کے افراد پر جو فرائض اور ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں انھیں خوش اسلوبی سے انجام دیا جائے ۔ فرائض اور ذمے داریوں کے بجا لانے کے لیے باہمی تعاون رگِ جان کی حیثیت رکھتا ہے اور رگِ جان پورے جسم میں سب سے زیادہ اہم ہے ۔ اس لیے اس کا تحفظ بھی سب سے زیادہ ضروری ہو گا۔ باہمی تعاون میں عوام اور نظم و ضبط میں حکومت کی حیثیت بنیادی ہے۔ اس لیے شہری زندگی کی گاڑی ان دو پہیوں کے بغیر کسی طرح نہ چل سکے گی ۔ حکومت کے ساتھ بہترین تعاون کی صورت یہ ہے کہ ملکی قوانین کا پورا پورا احترام کیا جائے اور کسی وقت بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کی جائے ۔ اگر ہر شہری زندگی کے ہر شعبے میں نظم و ضبط قائم رکھے تو معاشرے کو کتنی پریشانیوں سے نجات مل سکتی ہے اور زندگی کتنی آسان ہو سکتی ہے ۔ معاشرے میں بیشتر خرابیاں اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ لوگ نظم و ضبط کے تقاضے پورے نہیں کرتے اور ایک دوسرے سے تعاون اور ہمدردی نہیں کرتے۔‘‘ ([11])

مرد اور عورت کی جدا جدا حیثیت کو واضح کرتے ہوئے الرجال قوامون علی النساء کے تحت مولانا اوکاڑوی لکھتے ہیں:

’’خالق کائنات اگر سب کو ایک جیسی صلاحیت ایک جیسی قوت، ایک جیسی عقل، ایک جیسا فہم، ایک جیسی استعداد ، ایک جیسا حسن و جمال، ایک جیسا علم و عمل، ایک جیسا خلق و عادت اور ایک جیسا مال و دولت عطا فرمادیتا اور سب کو ہم درجہ و ہم رتبہ بنا دیتا تو کوئی کسی کا محتاج نہ ہوتا اور نہ کوئی کسی کا کام کرتا تو یہ نظام کائنات کس طرح چلتا؟ اس لیے اس نے مختلف افراد کو مختلف صلاحیتیں اور جداگانہ قوتیں اور الگ الگ فضیلتیں بخشی ہیں تاکہ یہ نظام کائنات قائم رہے اور ہر ایک اپنا اپنا کام کرتا رہے۔ اسی فطری قانون کے مطابق اس نے مرد و عورت کے درمیان مختلف خصوصیات پیدا کیں اور مختلف ذمے داریاں ان کو سونپیں اور حکم دیا کہ دونوں اپنی اپنی ذمے داریوں کو پورا کریں۔ اب ظاہر ہے کہ ان دونوں نے اگر ایک دوسرے کے کام اور ذمے داری میں دخل دیا تو یہ قانون فطرت کے خلاف ہوگا جس سے نظام فطرت درہم برہم ہوجائے گا اور معاشرہ تباہ ہوگا۔ آج کل کے بعض افراد جو اسلامی تعلیمات سے نا آشنا ہیں اور مغربی تہذیب و تمدن کے دلدادہ و شیدائی ہیں، وہ قانون فطرت کے خلاف یہ نعرہ بلند کررہے ہیں کہ عورت کو ہر میدان میں مردوں کے برابر ہونا چاہیے ۔ وہ کبھی عورتوں کا عالمی دن اور کبھی عالمی سال مناتے ہیں اور کبھی عورتوں کو مظلوم قرار دے کر ان کے عنوان سے مضامین و تحریریں شائع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عورتوں کے خلاف ہر قسم کا امتیاز ختم کردیا جائے اور زندگی کے ہر معاملے میں ان کو مساوی حقوق دیے جائیں وغیرہ۔ انھی لوگوں کی اس غلط اور تباہ کن تحریک کا نتیجہ ہے کہ آج بعض عورتیں فطرت کے اصولوں کی خلاف ورزی کررہی ہیں جس سے ایک طرف خود عورت کی عزت اور مخصوص حیثیت ختم ہورہی ہے اور دوسری طرف معاشرے پر تباہ کن اثر ہورہا ہے۔ عورتوں اور مردوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب قدرت نے انھیں ان کے مختلف اغراض و مقاصد کے لیے پیدا کیا ہے تو ان کی بہتری اسی میں ہے کہ جس جس غرض کے لیے انھیں پیدا کیا گیا ہے اور انھیں جو مخصوص اور فطری صلاحیتیں اور قوتیں بخشی گئی ہیں ان کو وہ صرف انھی اغراض و مقاصد کے لیے عمل میں لائیں اور ہر ایک اپنے آپ کو اپنے دائرے میں رکھے اور اس سے آگے نہ بڑھے ۔ ‘‘([12])

زوجین کے آپس میں تعلق کا ذکر کرتے ہوئے مولانااوکاڑوی قرآنی آیت نسآءُ کم حرث لکم کے تحت لکھتے ہیں:

’’مردو عورت کے درمیان کسان اور کھیتی کا تعلق ہے اور ظاہر ہے کہ کسان اور کھیت کا دائرہ کار الگ الگ ہے۔ دونوں ہی سے ایک طرح کا کام لینا فطرت کے خلاف ہوگا، اسی طرح مرد و عورت کا پورا نظام جسمانی بنایا ہی اس طور پر گیا ہے کہ ایک میں قوت فعل اور کیفیت فاعلیہ ہے اور دوسرے میں انفعالی اور قبولی کیفیت اور صلاحیت ہے ۔ اس بات سے ہمارا مقصود یہ ثابت کرنا ہے کہ مرد قوت و طاقت اور فاعلیت کے لحاظ سے عورت پر فضیلت اور فوقیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ فاعلیت قوت و غلبہ اور مفعولیت کمزوری اور مغلوبیت کی دلیل ہے ۔ اگر دونوں کو برابر اور یکساں رکھا جاتا ہے اور کوئی غالب و موثر اور کوئی مغلوب و متاثر نہ ہوتا تو فعل کیسے واقع ہوتا اور مرد و عورت کی تخلیق اور زوجیت کا مقصد کیسے پورا ہوتا ۔‘‘ ([13])

مولانا اوکاڑوی کے نزدیک مرد کے عورت سے قوی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ عورت حقیر ہے یا جسمانی لحاظ سے مرد سے کمزور ہونے کی بنا پر یہ اس کا نقص ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے دونوں میں کچھ اس طرح کی استعداد رکھی ہے کہ ایک کو غالب اور دوسرے کو مغلوب یا ایک کو فاعل اور دوسرے کو مفعول بنایا۔ اس کے علاوہ مرد کے قوی ہونے سے اس کا عورت کا نگران و نگہبان ہونا بھی ظاہر ہوا۔

من عمل صالحا من ذکر او انثی و ھو مومن فلنحیینّہ حیوۃ طیبہ کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا اوکاڑوی نے زندگی کی چار اقسام بیان کی ہیں:

۱-طبعی زندگی، ۲-عقلی زندگی، ۳-ایمانی زندگی اور 4۔عرفانی زندگی ۔طبعی زندگی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ کھانا پینا، رہنا سہنا، حیوانی تقاضا ، طبعی تقاضا ہے۔ حیوان کھاتے ہیں گھر بناتے ہیں، انسان بھی کھاتا ہے اور گھر بناتا ہے مگر طبعی زندگی حیوانیت سے ترقی نہیں ہے ۔ طبعی زندگی کے بعد عقلی زندگی ہے کہ ہر کام کو سوچ سمجھ کر کیا جائے ۔ طبعی تقاضوں کو شعور کے تحت کیا جائے، ظرافت، لطافت، جمال پسندی، یہ سب عقل کا تقاضا ہیں۔ عقل آتی ہے تو نفع و نقصان اور آداب تمدن کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن اعمال کو عقل کے مطابق انجام دینا اللہ کی رضا نہیں بلکہ خدا کی رضا ایمان کا تقاضا ہے ۔ بعض دفعہ جب ظاہری اسباب کی بنا پر عقل کسی چیز کی درست قرار دے گی لیکن جب اس کام کو ایمان کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا تو وہ غلط معلوم ہوگی۔ تو اب عقل کے مطابق کام کیا جائے یا ایمان کے مطابق؟ جب زندگی کے مادے میں ایمانی شعور پیدا ہوگا تو پھر زندگی اب طبعی یاعقلی نہ رہے گی بلکہ ایمانی ہوجائے گی۔ پھر طبیعت و عقل کو ایمان کے تابع کیا جائے گانہ کہ ایمان کو طبیعت و عقل کے ۔ عقل کہے گی چاہے سانپ کھالو چاہے خنزیر لیکن ایمان مخالفت کرے گا ۔ عقل حصول دولت کے لیے کوئی خاص اسباب کو اپنانے کا نہیں کہے گی بلکہ ہر وہ سبب جس سے عقل مطمئن ہوگی اس کو روا رکھے گی جبکہ ایمان صرف انھی اسباب سے حصول دولت کی تلقین کرے گا جو رب کی منشا اور اس کا حکم ہے۔ ایمانی کے بعد عرفانی زندگی کا درجہ آئے گا، پھر قانون والے کا منشا دیکھنا پڑے گا ، تھوڑا خرچ کرنا قانون سب خرچ دینا منشا ، پھر مشاہدہ شروع ہوگا، دور والا قانون کا پابند ، قریب والا منشا کا۔ عرفانی زندگی خواص کی زندگی ہے ، عوامی اور انسانی زندگی کے لیے ایمانی زندگی اصل مقصود ہے۔ یہی حیوٰۃ طیبہ ہے اور اسی میں رب کی رضا ہے ۔ ([14])

خلاصہ

قرآن کریم انسانوں کو ایک مکمل ، بہتر اور مستقل زندگی گزارنے کا لائحہ عمل دیتا ہے۔ اُس کا تعلق کسی علاقے یا افراد کے گروہ یا کسی خاص وقت کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اپنے نزول سے لے کر قیامت تک قرآن ہر انسان کی زندگی کو سنوارنے کے لیے جامع نظام عطا کر تا ہے علمائے اسلام نے ہر دور میں قرآنی نظام زندگی پر اپنے اپنے حاصل تحقیق کو تفسیری صورت میں پیش کیا ہے۔ معروف عالم دین مولانا محمد شفیع اوکاڑوی نے اپنی زندگی میں کوشش کی کہ انسانی حیات کو قرآنی فلسفۂ حیات کے قریب تر کیا جائے کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ زندگی کے مسائل مشکلات کا خاتمہ قرآن ہی سے ممکن ہے۔ آپ نے فرد اور معاشرے کے باہمی تعلقات و معاملات اور فلاح و بہبود کے حوالے سے جو نکات احکامات قرآنیہ کی تفسیر کے حوالے سے پیش کیے ہیں وہ بالکل واضح ،مدلل، قابل عمل و قابل نفاذ ہیں اور اُن پر عمل پیرا ہو کر انسانی زندگی کو خوش گوار اور بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

 

حوالہ جات

  1. () محمد لطیف نقشبندی ، انٹرویو ، جنوری 2009، اوکاڑہ ، (یہ مولانا محمد شفیع اوکاڑی کے چھوٹے بھائی ہیں اور اوکاڑہ ہی میں رہائش پذیرتھے ۔1935میں پیدا ہوئے ۔ دورہ ٔ تفسیر اور علوم دینیہ مولانا غلام علی اوکاڑوی سے حاصل کیے آپ میاں غلام اللہ شرق پوری المعروف ثانی صاحب سے سلسلہ نقش بندیہ میں بیعت ہیں۔ شہر اوکاڑہ کی معروف مسجد و مدرسہ جامعہ غوثیہ رضویہ کے بانیوں میں سے ہیں اور تادمِ آخر اُس کے ناظم اعلیٰ رہے ۔فروری 2017 ء میں ان کا انتقال ہوا۔ مزید دیکھیے ۔ مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی، ماہنامہ جہان رضا ، لاہور ، مارچ اپریل ، 2009ء،ص50، ڈاکٹر ناصر الدین صدیقی ،بزرگان کراچی ، ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر ، سندھ کے اولیائے نقش بند ، صاحبزادہ سید محمد زین العابدین شاہ ، انوار علمائے اہل سنت سندھ ، سید محمد قاسم ، انسائیکلو پیڈیا ، پاکستانیکا ۔
  2. () خطیب پاکستان اپنے معاصرین کی نظر میں ، مولانا اوکاڑوی اکادمی دادابھائی فاؤنڈیشن، کراچی،1986ء،ص 10-12
  3. () ایضاً
  4. ()ایضاً
  5. ()ایضاً
  6. ()آل عمران:110
  7. ()آل عمران:104
  8. ()درس۔ ریڈیو پاکستان کراچی (مولانا اوکاڑوی 1959ء سے اپنے وصال 1984ء تک مسلسل ریڈیو پاکستان میں مختلف پروگراموں مختلف موضوعات پر درس دیتے رہے ہیں ۔ مولانا کے ان تمام دروس کو کتابی شکل بنام ’’اخلاق و اعمال ‘‘ دی جار ہی ہے ۔)
  9. ()ایضاً، 19/اکتوبر 1967ء
  10. ()ایضاً، 3/مئی 1969ء
  11. ()ایضاً،س۔ ن
  12. ()غیرمطبوعہ کتاب،بنام،مسلمان خاتون،مخزونہ،علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی،کراچی،1979ء،ص2-3
  13. ()ایضاً
  14. ()ذاتی ڈائری،بنام کتاب الاشارات،مخزونہ،علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی،کراچی،ص۔ن۔
Loading...
Issue Details
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index