34
1
2019
1682060084478_1159
30-42
http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/120
Zawwar Translator Biographer Mabda wa Ma’ad Muarif-eLudniya Maktoobat-e-Massomia Maktoobat Imam Rabbani
مقدمہ بحث
دین اسلام اس کارخانہ قدرت میں رب العالمین کا پہلا اور آخری پیغام ہے۔جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ کے ذریعے مکمل فرمایا۔(1) اب قیامت تک انسانیت کی فلاح کا مدار دین اسلام کے ساتھ پختہ وابستگی میں مضمر ہے۔شریعت اسلامی کو ایک مکمل ضابطہ حیات اور حضور انور ﷺکی اسوہ حسنہ کو اکمل واولیٰ (2) بنا کر تمام لوگوں کو اس کی اطاعت و متابعت اور طرز زندگی اپنا نے و اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ انسان سعادت ابدی کی
صدا ئے جانفز ا سے مسرور و مطمئن ہوسکے۔
چونکہ انسانی شخصیت و زندگی کے دو پہلو ہیں۔ایک پہلو ظاہری ہیت سے تعلق رکھتا ہے۔ جس کی اصلاح و اعمال اور تربیت کے لیے ظاہر احکام ہیں، جن کا تعلق انسان کے اعضا و جوارح سے ہے جس کی رہنمائی نبوت کے ظاہری پہلو ،تلاوت آیات اور کتاب و حکمت (3 ) کی تعلیم و تشریح سے اخذ کی جاتی ہیں اسے علم فقہ کا نام دیا گیا ہے ۔اور جن قدسی صفات حضرات کو نبوت کے ظاہر پہلو سے فیض و اکتساب علم کی سعادت ملی وہ مفسر،محدث اورفقہاء کے نام و تعارف سے جانے گئے ۔
انسانی شخصیت و کردارکا دوسرا پہلوباطنی ہے جس کے احکام کا تعلق اس کے باطن سے ہے، یعنی اس کا قلب و نفس اخلاص کامل، پاکیزگی اور بلند اخلاق و کردار،تقوی ، زہد واستغناء اور درجہ احسان (4) و مطمئنہ( 5) کی اعلیٰ و برتر کیفیات سے معطرومزین ہوجائے ۔اس کی رہنمائی و تعلیم کا تعلق نبوت کے باطنی پہلؤ تزکیہ( 6) باطن سے ہے۔ جس کا علم تصوف یا تزکیہ و احسان کہلاتا ہے۔ تصوف و سلوک یا تزکیہ واحسان جس چیز سے بحث کرتا ہے یا اس کے موضوع کا دائرہ کار یہ ہے کہ نفس انسانی کے عوارض کی تشخیص اور اس کا علاج کیسے کیا جائے تاکہ فرد کی شخصیت اعلیٰ اخلاقی و روحانی صفات سے مزین و بہرہ مند ہوسکے اور اسے اس بات کا شعور حاصل ہوجائے کہ کون سا فعل قرب الٰہی کا سبب بننا ہے اورکس عمل کی انجام دہی اللہ تعالیٰ سے دوری کا موجب بنتی ہے۔ نبوت کے اس باطنی پہلو سے اکتساب فیض کرنے والے نفوس قدسیہ کو اولیاء اللہ اور شیخ طریقت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
تعلیم و تزکیہ ، محبت و معرفت ، خداپرستی ،اور اصلاح نفس کے باب میں امت مسلمہ کی رہنمائی و تربیت کے لیے ان اولیاء مشائخ و اہل دل حضرات نے جو دل کی دنیا بسائیں انھیں ان کے نام ، علاقے یا کسی اور وجہ سے مختلف سلاسل کے نام سے منسوب کیا جانے لگا جو درحقیقت ایک ہی منزل پر پہنچنے کے مختلف ذرائع ہیں۔ ان ہی سلاسل میں ایک نا م سلسلہ عالیہ ٔ نقشبندیہ کا ہے۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی وسعت جب سرزمین ہند تک پھیلی تو یہ سلسلہ مجددیہ کے نام سے معروف ہوا ۔
مسلم برصغیر میں سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کی اشاعت و ترویج میں سب سے زیادہ جس چیز کو دخل حاصل رہا ہے وہ اس سلسلہ کے مشائخ عظام کے فارسی زبان میں تحریر کیے مکتوبات ہیں۔ چونکہ ہمارا موضوع سخن حضرت شاہ صاحبؒ کے تراجم ہیں تو اس عنوان کی مناسبت سے یہ امر ضروری ہے کہ حضرت شاہ صاحبؒ کی علمی سرگزشت کے بیان سے قبل آپؒ کی حیات و علمی خدمات کا تعارف اور اختصار سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کا تعارف و پس منظر پیش کیا جائے تاکہ آپؒ کے علمی کام کی اہمیت و افادیت روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے ۔
سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کا پس منظر
سلسلہ نقشبندیہ سلاسل روحانی میں قدیم سلسلہ ہے ۔ یہ سلسلہ اپنے آغاز میں پہلی صدی ہجری سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ (م13ھ)سے لے کر تیسری صدی ہجری طیفور بن عیسیٰ ابو یزید بسطامی رحمۃاللہ علیہ (م261ھ) تک سلسلہ نقشبندیہ سلسلہ صدیقیہ کے لقب سے پہچانا جاتا تھا۔ (7) حضرت شیخ با یزید بسطامی ؒ سے لے کر چھٹی صدی ہجری میں حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانیؒ ( م575 ھ) تک سلسلہ نقشبندیۂ سلسلہ طیفوریہ کے نام سے موسوم اور جانا جاتا تھا۔ (8) چھٹی صدی ہجری میں حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر آٹھویں صدی ہجری میں حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند رحمۃاللہ علیہ (م791 ھ) تک سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سلسلہ خواجگان کے نام سے معروف و مشہور تھا۔ (9) حضرت خواجہ بہاؤالدینؒ کی نسبت نقشبند (10) بارگاہ خدا لم یزل میں اس درجہ سند قبولیت سے نوازا گیا کہ یہ سلسلہ اسی نام سے معروف و مشہور ہوگیا اور صدیاں بیت گئی ہیں لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت نقشبند کا شہرہ و قبولیت روز اول کی طرح قائم و دائم ہے۔ اور پھر غربت کدہ ہند میں سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کا اولین نقش و آغاز گیارھویں صدی ہجری کی ابتدا میں حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ (م1012ھ) کی شخصیت کے ذریعے ہوا،(11 ) لیکن دوام و شہرت امام ربانی حضرت شیخ احمد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ (م1034ھ/1624ء )کی نسبت مجدد سے نقشبندی مجددی کو حاصل ہوا اور اسی نام و نسبت سے یہ سلسلہ اب مختلف دیار و امصار میں معروف و مشہور ہے۔
احوال حیات (حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحبؒ )
حضرت علامہ سید زوار حسین شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے چودھویں صدی کے نصف اول میں قصبہ گوہلہ (حال میں تحصیل ، ضلع کھیتل ، ریاست ہریانہ ، ہندوستان ) 26 / ذوالحج 1329ھ بمطابق 8/ دسمبر 1911ء بروز شنبہ کو اس جہاں رنگ و بو میں آنکھ کھولی۔ دادا سید اکبر علی شاہ نے نام زوار حسین تجویز کیا۔( 12 ) آپؒ نے مڈل کلاس تک کی تعلیم قصبہ ٹھسکہ میراں سے اور میٹرک 1944ء میں دہلی سے کیا۔(13 )عربی و فارسی زبان و ادب کی تعلیم پانی پت میں حضرت مولانا مفتی عبدالرحیم صاحب ؒ (م1370ھ/1950ء) خلیفہ مجاز حضرت خواجہ محمد سعید قریشیؒ (م1363ھ/1944ء) ، مولانا محمد علیم انصاری صاحب ؒ اور دہلی کے مشہور و معروف مدرسہ امینیہ کے استاد حضرت مولانا کفیل احمد صاحب ؒ کے درس میں شریک ہو کر تحصیل فرمائی۔( 14 ) علمی اشکال و دقائق اور علم فقہ کے حصول کی غرض و غایت سے مدرسہ امینیہ کے مہتمم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ (م1372ھ/1953ء) کی صحبت اختیار کی اور دوسرے حضرات سے درس نظامی کی بعض کتابیں پڑھیں۔ (15 ) راہ خدا کی شوق طلب میں آپؒ نے حضرت خواجہ محمد سعید قریشیؒ کے دست مبارک پر بیعت کی، حضرت خواجہؒ نے آپؒ کو تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزار کر حضرت خواجہ فضل علی قریشیؒ ( م1354ھ / 1935ء) کی خدمت میں پیش کیا اور حضرت خواجہ فضل علی قریشیؒ نے آپؒ کو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کی خلافت سے سرفراز فرمایا۔ (16)
حضرت شاہ صاحب ؒ کے کمالات وفضل کے گونا گوں پہلو ہیں ۔ آپؒ کی علمی و اصلاحی خدمات کے کام میں اتنا تنوع پایا جاتا ہے، جس کی مثال میں بہت کم پائی جاتی ہے ، آپؒ نے تحریر و تصنیف کے میدان میں شریعت اسلامی کی مختلف جہات میں لازوال خدمات انجام دی ہیں۔ آپؒ بلند پایہ مصنف تھے۔ آپ ؒ کی تصنیفی و تالیفی خدمات کا دائرہ کسی خاص پہلو کے بجائے دین و شرائع کے متنوع پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ آپؒ سوانح نگا ر ، فقیہ ، شاعر اور مترجم ہیں ، آپؒ تفقہ فی الدین کے باب میں عمدۃالفقہ اور زبدۃ الفقہ جیسی شاہکار کتب کے مؤلف ہیں۔ آپؒ نے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کے چار مشائخ عظام علیہم الرحمہ کی سوانح حیات مرتب فرمائی جو درحقیقت سلسلہ عالیہ کی ساڑھے تین سو سال کی دینی ،علمی ،روحانی و اصلاحی خدمات کی سرگزشت ہے ۔ترجمے کی صنف میں آپؒ نے مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانیؒ ، مکتوبات معصومیہ اور رسائل حضرت مجدد الف ثانیؒ کے فارسی سے اردو میں تراجم کیے ہیں۔ اور ایک گراں قدر کتاب عمدۃ السلوک تالیف فرمائی جو سلسلہ علیہ نقشبندیہ مجددیہ سے نسبت و تعلق رکھنے والوں کے لیے نصاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحب رحمۃاللہ علیہ نے کم و بیش 13 کتب تصنیف و تالیف فرمائیں۔ آپؒ کا وصال 70 سال کی عمر مبارک میں 22/رمضان المبارک 1400ھ بمطابق 5/اگست 1980ء بروز منگل کو کراچی میں ہوا۔ (17)
شاہ صاحبؒ کے تراجم
ترجمہ کیا ہے؟ اہلِ فن نے اپنے اپنے علم و تجربے کی روشنی میں اس سوال کا جواب دیا ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ’’ کسی زبان کے تحریری مواد، خیالات و احساسات کو دوسری زبان میں منتقل کرنے کا نام ترجمہ ہے۔‘‘ تاہم یہ کام اتنا سادہ اور آسان بھی نہیں۔ دراصل معانی و مطالب کو کسی دوسری زبان میں اس طرح منتقل کیا جانا ضروری ہے کہ اصل عبارت کی خُوبی پوری طرح قائم رہے۔ ڈاکٹر مسکین علی حجازی صاحب نے اس کی وضاحت یوں بیان کی ہے کہ:
’’ علمی ادبی اور فنی مواد کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنا خاصا دشوار کام ہے، یہ کام وہی شخص صحیح طور پر کر سکتا ہے جو متعلقہ علم، صنفِ ادب یا فن کا ماہر ہونے کے علاوہ دونوں زبانوں پر مکمل طور پر قادر ہو۔“ (18)
اردو زبان میں ترجمے کی روایت خاصی قدیم اور مستحکم ہے۔ چوں کہ مسلم ہندوستان کی سرکاری، تہذیبی اور علمی زبان فارسی تھی، تو بیش تر تراجم فارسی سے اُردو میں ہوئے، اور پھر یہ کہ اس خطّے کا تصوّف سے بڑا گہرا تعلق تھا تو کئی صوفیہ نے عوام النّاس اور اپنے عقیدت مندوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کُتب لکھیں جن کی زبان فارسی تھی۔لہٰذا اُردو کے ابتدائی دور میں ترجمہ ہونے والی بیش تر کتب تصوّف ہی سے متعلق تھیں۔ بعد کے ادوار میں بھی تصوّف سے متعلق کتب کے کثرت سے تراجم ہوتے رہے۔ حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحبؒ نے بھی ترجمے کے لیے کُتبِ تصوّف ہی کا انتخاب کیا، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی ایک صاحبِ سلسلہ ( نقشبندی) صوفی تھے۔حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحبؒ نے سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کی درج ذیل چار کُتب کے فارسی سے اردو میں تراجم کیےہیں۔
1۔مبدأ و معادتالیف، حضرت مجدّد الفِ ثانیؒ
2۔معارفِ لدنیہ تالیف،حضرت مجدّد الفِ ثانیؒ
3 ۔مکتوباتِ معصومیہ( حضرت خواجہ محمد معصوم ؒ کے 652 مکتوبات کا مجموعہ )
4۔مکتوباتِ امامِ ربّانیؒ(100 مکتوبات)
شاہ صاحب ؒکے ترجمے کی خُوبی
شاہ صاحبؒ نے جس دَور میں کتب کے تراجم کیے، اُن دنوں اُردو ترجمہ نگاری ارتقائی مراحل سے گزر رہی تھی اور اُس زمانے میں انفرادی سطح پر کیے جانے والے تراجم میں عام طور پر سائنسی اصولوں کی پابندی دیکھنے میں نہیں آتی، صرف ادارہ جاتی سطح پر ہونے والے تراجم، جیسے ورنیکلز ٹرانسلیشن سوسائٹی یا جامعہ عثمانیہ وغیرہ کے ہاں فنِ ترجمہ کے اصولوں کی پیروی ملتی ہے۔ تاہم یہ بات حیرت انگیز ہے کہ شاہ صاحب ؒکے اُس زمانے میں کیے گئے تراجم بھی سائنسی اصولوں کی سخت کسوٹی پر پورے اُترتے ہیں۔شاہ صاحبؒ کی ترجمہ کی گئی چاروں کتب فارسی میں ہیں اور اُن میں عربی عبارات بھی بہ کثرت شامل ہیں، تو سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ خود مترجم کو ان دونوں زبانوں پر کس قدر عبور حاصل تھا۔ کیوں کہ ترجمہ نگاری میں اسے شرطِ اوّل کا درجہ حاصل ہے۔شاہ صاحبؒ نے باقاعدہ طور پر فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ (19) نیز آپ فارسی کے استاد بھی رہے۔ پھر یہ کہ شاہ صاحبؒ کے ترجمے کی ایک نمایاں خوبی اُن کا تحقیقی ذوق ہے۔ اُن کا یہ رنگ ہر تصنیف میں نمایاں ہے۔ بہ قول ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں صاحبؒ " شاہ صاحب ؒکا مزاج محققانہ تھا اور آپ جزئیات تک کو شرح و بسط کے ساتھ پیش فرماتے تھے۔‘‘ (20)
آپؒ محض کسی کتاب کا کوئی نسخہ سامنے رکھ کر ترجمہ کرنے کے حق میں نہیں تھے بلکہ مسوّدے کی درستی کو بھی یقینی بناتے۔ جس طرح مبدأ ومعاد کے ترجمے سے قبل پانچ مختلف نسخوں کو سامنے رکھ کر صحیح ترین نسخہ سامنے لانے کی کام یاب کوشش کی۔ اسی طرح جب آپ نے حضرت مجدّد الف ثانی ؒ کی کتاب’’ معارفِ لدنیہ‘‘ کا ترجمہ کیا، تب بھی مذکورہ کتاب کے چار نسخے پیشِ نظر رہے۔ نیز آپ صرف لفظی ترجمے ہی تک محدود نہیں رہے بلکہ اصل متن میں آنے والی آیاتِ قرآنی اور احادیثِ مبارکہ کے حوالوں کے ساتھ، مصنّف کی جانب سے ذکر کی گئی شخصیات کا مختصر تعارف بھی حواشی میں پیش کیا تاکہ قاری زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکے۔
ترجمے کے دوران اصطلاحات کا معاملہ خاصا پیچیدہ ہوتا ہے اور جب بات تصوّف کی ہو تو نزاکت یوں بڑھ جاتی ہے کہ اس فن کی اصطلاحات کے لفظی معانی و مطالب کو جاننا ہی کافی نہیں بلکہ اگر مترجم اس دنیا کا شناور نہ ہو تو وہ ترجمے کا حق ادا نہیں کرپاتا۔ پھر یہ کہ اگر مصنّف حضرت مجدّد الفِ ثانیؒ جیسا راہِ سلوک کی پُر پیچ وادیوں اور اسرار و رموز کا استاد ہو اور اپنی کتب میں ان مقامات کا ذکر کیا ہو تو پھر مترجم کے لیے معاملہ آسان نہیں رہتا۔ شاہ صاحب کی خوش قسمتی رہی کہ وہ راہِ سلوک طے کر کے اُس مقام پر فائز تھے جہاں ان اصطلاحات کو صرف قال نہیں، بلکہ حال کے ذریعے بھی جان لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اُن کے ترجمے میں اس حوالے سے کوئی جھول نظر نہیں آتا ہے۔نیز،مترجم کے لیے ضروری ہے کہ وہ مصنّف کا مزاج آشنا ہو، تو اس کے مقصدِ تحریر سے بھی واقف ہو تب کہیں جا کر اچھا ترجمہ وجود میں آتا ہے۔ شاہ صاحب اُن مقامات ومنازل سے واقف تھے، جن کا مصنّف نے ذکر کیا۔ ماہرینِ فن نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ مترجم کا دیانت دار ہونا بے حد ضروری ہے کہ وہ مصنّف کے نظریے کو کسی کانٹ چھانٹ کے بغیر اُسی طرح پیش کرے، جیسے کہ مصنّف نے کیا ہے۔ البتہ مترجم کو حاشیے میں اختلافی نوٹ تحریر کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے شاہ صاحب کے تراجم کا جائزہ لیا جائے تو وہ دیانت کے اعلیٰ مقام پر فائز نظر آتے ہیں۔اس ضمن میں اُن کی احتیاط کا یہ عالم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکا، اصل متن کو بھی ترجمے کے ساتھ ہی شائع کیا تاکہ قارئین بہ وقتِ ضرورت اصل اور ترجمے میں موازانہ کرسکیں۔آپ کی یہ احتیاط ہی ہے جس کے پیشِ نظر مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی ؒ جیسے محقق نے بھی آپ کی تحریروں اور تراجم سے استفادہ کیا۔وہ اپنی معروف حوالہ جاتی کتاب’’ تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’عبارتوں کے تراجم’’ حضرت مجدّد الف ثانی‘‘ تالیف مولانا سیّد زوار حسین سے ماخوذ ہیں۔‘‘ (21)
علاوہ ازیں، ترجمہ سلیس اور عام فہم ہونا چاہیے تاکہ عام قاری بھی اُس سے استفادہ کر سکے ناکہ تراجم کی بھی شروحات لکھی جائیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ شاہ صاحب کا ترجمہ واضح، سلیس، عام فہم اور شگفتہ ہے کہ قاری کا ذہن الجھ نہیں پاتا حالاں کہ اُن کی ترجمہ کی گئی کُتب کو دقیق اصطلاحات اور موضوع کی وجہ سے مشکل تصوّر کیا جاتا ہے۔ بعض مترجم کسی مشکل عبارت کا ترجمہ کرتے ہوئے اس قدر تفصیل میں چلے جاتے ہیں کہ ترجمہ اصل عبارت سے بہت بڑھ جاتا ہے، ماہرینِ فن نے اسے نقائص میں شمار کیا ہے۔ اس حوالے سے شاہ صاحب کے تراجم کو دیکھیں تو وہ اس نقص سے پاک ملتے ہیں۔ حالاں کہ حضرت مجدّد ؒ جیسے مصنف کی تحریر کا اس طرح ترجمہ کرنا کہ مصنّف جتنے الفاظ استعمال کرتے ہوئے اپنی بات مکمل کر لی جائے، کوئی آسان کام نہیں اور ہم یہ نقص ،حضرت مجدّد ؒ کی کتب کے دیگر تراجم میں کثرت سے دیکھتے بھی ہیں۔ حضرت شاہ صاحبؒ کے تراجم کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
1۔مبدأ ومعاد
حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ (م1034ھ/ 1624ء)کے متفرق علوم و معارف پر مشتمل فارسی رسالہ ہے حضرت مجدّدِ الف ثانی ؒ1008 ھ میں سلسلہ عالیہ نقش بندیہ کے شیخ، حضرت خواجہ باقی باللہ ؒسے بیعت ہوئے اور اُن کی نگرانی میں سلوک کی منازل طے کرنا شروع کردیں۔ یہ سلسلہ کئی برس جاری رہا۔ اس دوران آپ پر جو کیفیات گزریں اور جو مشاہدات ہوئے، اُنھیں سپردِ قلم کرتے رہے۔ بعدازاں آپ کے ممتاز خلیفہ مولانا محمد صادق کشمی رحمتہ اللہ علیہ (1019 ھ/ 1610ء) نے رمضان 1019 ھ میں ان مضامین کو61 ابواب یا عنوانات میں تقسیم کرکے( جنھیں’’ منہا‘‘ کا نام دیا گیا) جمع کردیا۔ مبدأ ومعاد ان ہی مضامین کا مجموعہ ہے۔ دراصل، یہ ایک زیرِ تربیت سالک پر بیتے احوال کا تذکرہ ہے اور اسے راہِ سلوک کے مسافروں کے لیے نشانِ منزل بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ اس کے ذریعے اس راہ میں آنے والے اتار چڑھاؤ کو سمجھ سکیں۔ مبدأ ومعاد کا ترجمہ کرتے ہوئے شاہ صاحب کے سامنے ایک مخطوطہ اور چار مطبوعہ نسخے رہے۔جس کی تفصیل یہ ہے:
1۔غیرمطبوعہ نسخہ: حضرت مولانا حافظ محمد ہاشم جان نقشبندی مجددی ؒ ( متوفی: 1395ھ/ 1975 ء)سے حاصل ہوا۔
2۔مطبوعہ : 1307ھ / 1889 ء مطبع انصاری ،دہلی ، مولانا عبدالحلیم چشتی صاحب سے حاصل کیا گیا۔
3۔مطبوعہ: 1330ھ /1912 ء مطبع مجددی ،امر تسر جو مولانا عبدالرشید نعمانی صاحب ؒ سے دستیاب ہوا۔
4۔مطبوعہ : 1376ھ /1957 ء حکیم عبدالمجید سیفی ؒ (متوفی 1380ھ 1960) لاہور ۔
5۔مطبوعہ: 1385ھ/ 1965 ء ادارہ مجددیہ سعدیہ ، لاہور تصحیح کردہ حضرت مولانا محبوب الہیٰ ؒ (متوفی 1402ھ/ 1981ء)۔ (22)
ان پانچ نسخوں میں سے جس نسخے کا جو لفظ شاہ صاحب کو درست لگا، اُسے اپنے نسخے کے لیے لے لیا اور بقیہ نسخوں کے اختلاف کو علامات کے ذریعے اس طرح ظاہر کیا کہ پیر ہاشم جان کے مخطوطے کے لیے ش، مطبوعہ انصاری کے لیے ص، مولانا نور احمد کے لیے ن، حکیم عبدالمجید کے لیے ج اور مولانا محبوب الہٰی کے نسخے کے لیے م۔225 صفحات کے اس رسالے کے آغاز میں تفصیلی فہرست دی گئی ہے۔ پھر شاہ صاحب کا تحریر کردہ افتتاحیہ ہے۔ اس کے بعد صفحہ 9 سے 90 تک اصل فارسی متن دیا گیا، جس کے بعد مسلسل اردو ترجمہ ہے۔اردو ترجمے کے حاشیے پر فارسی نسخے کے صفحات کے نمبر دیے گئے ہیں تاکہ بہ وقتِ ضرورت اصل سے مطابقت کی جا سکے۔اس ترجمے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ رسالے کے آخر میں اشاریہ بھی دیا گیا ہے، جس میں 46 شخصیات اور دیگر موضوعات کی صفحات کے نمبروں کے ساتھ نشان دہی کی گئی ہے جن کا کتاب میں ذکر کیا گیا ہے۔ جگہ جگہ ذیلی عنوانات دیے گئے ہیں جس سے رسالے سے استفادہ کرنا مزید آسان ہو گیا ہےتو اشعار کا بھی منظوم ترجمہ کیا گیا ہے۔نیز متن میں مذکور بعض شخصیات کا حاشیے میں مختصر تعارف بھی پیش کیا گیا ہے، جن کی تعداد 11 ہے۔(23) شاہ صاحبؒ کا یہ ترجمہ 1304ھ بمطابق 1984 ء میں حاجی محمد اعلیٰ کی نگرانی میں ادارۂ مجدّدیہ، ناظم آباد، کراچی سے شائع ہوا۔
2۔معارفِ لدنیہ
حضرت مجدّدِ الف ثانیؒ کا یہ رسالہ 41 مضامین پر مشتمل ہے، جنھیں’’ معرفت‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ دراصل یہ آپ کے ابتدائی دور کی تصنیف ہے اور اسے مبدأ ومعاد سے قبل تحریر کیا گیا۔ اس کا فارسی متن پہلی بار رام پور کے مطبع احمد سے ۱۳۱۶ھ میں شائع ہوا۔بعدازاں مدینہ پریس، بجنور سے ۱۳۵۱ھ اور ادارۂ مجدّدیہ سعدیہ، لاہور سے ۱۳۸۵ھ میں مولانا محبوب الہٰی کی تصحیح کے ساتھ شائع ہوا۔معارفِ لدنیہ کا پہلا اردو ترجمہ قاضی محمد عالم الدین نقش بندی نے کیا جو لاہور سے’’ اللہ والے کی قومی دکان‘‘سے طبع ہوا۔ اسے ملک فضل الدین تاجر کتب کشمیری بازار، لاہور نے 1903 ء میں شائع کیا۔ (24)
حضرت شاہ صاحب ؒ نے اپنے تحقیقی ذوق کے عین مطابق معارفِ لدنیہ کو اردو کا پیرہن پہناتے ہوئے بھی چار دست یاب نسخوں کو پیشِ نظر رکھا جن میں ایک قلمی اور تین مطبوعہ نسخے تھے۔
1۔قلمی نسخہ حضرت مولانا محمد ہاشم جان نقشبندی مجددیہ سرہندی ؒ (ٹنڈو سائیں داد ، ٹنڈو محمد شان، سندھ ) سے حاصل کیا گیا۔
2۔مطبوعہ مجلس علمی، ڈابھیل ،ضلع سورت ،انڈیا ، مدینہ پریس بجنور ، 1351ھ/ 1932ء۔
3۔مطبوعہ 1376ھ/ 1956 ء حکیم عبدالمجید سیفی ؒ ، لاہور۔
4۔مطبوعہ ادارہ سعیدہ مجددیہ 1385ھ/ 1965ء ، لاہور۔ (25)
مبدأ ومعاد کی طرح اس میں بھی شاہ صاحب نے جس نسخے کی عبارت یا لفظ کو درست تصوّر کیا، اُسے ترجمے کے لیے منتخب کیا اور اختلافی الفاظ حذف کرنے کی بجائے حوالے کے ساتھ حاشیے میں درج کردیےمولانا ہاشم جان کے لیے ش، مجلسِ علمی کے لیے ع،حکیم عبدالمجید سیفی کے لیے ج اور مولانا محبوب الہٰی کے نسخے کے لیے م کی علامت استعمال کی گئی۔نیز ابتدا میں فارسی متن دیا گیا ہے اور پھر اردو ترجمہ۔ علاوہ ازیں، ترجمے کے حاشیے پر فارسی متن کے صفحہ نمبر بھی دیے گئے ہیں تو ذیلی عنوانات کا بھی انتہائی خوب صورتی سے اہتمام کیا گیا ہے۔ حسبِ روایت اشعار کا ترجمہ اشعار ہی میں کیا گیا ہے۔ پھر یہ کہ متن میں ذکر کیے گئے بزرگوں میں سے بعض کا تعارف دیا گیا ہے اور رسالے کے آخر میں مفید اشاریہ بھی ہے۔ یہ رسالہ بھی حاجی محمد اعلیٰ کی کاوشوں سے ادارۂ مجدّدیہ، ناظم آباد، کراچی نے ۱۳۸۸ ھ /1969ء میں شائع کیا۔ ۱۴۰۶ھ میں حاجی محمد اعلیٰ ہی کی کاوشوں سے یہ رسالہ دوسری بار طبع ہواجس میں حاجی پیر محمد شاہ روضہ احمد آباد، بھارت کے کتب خانے سے حاصل ہونے والے قلمی نسخے کی مدد سے رسالے کی تصحیح کی گئی جس کا’’ب‘‘ کے اشارے سے حوالہ دیا گیا۔ جب کہ مولانا نصراللہ قندھاری نے بھی اس پر نظرِ ثانی فرمائی ۔( 26) اب زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز، کراچی نے اس کی جنوری 2012ء میں جدید اشاعت کی ہے۔
3۔ مکتوبات حضرت مجدّدِ الف ثانیؒ
مکتوبات امام ربانی حضرت الف مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ (م1034ھ/ 1624ء) کے بلند پایہ مضامین علم و معرفت سے لبریز علوم کمالات کا ایک نادر عجوبہ ہے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مکتوبات شریعت اسلامی کی حرمت و عظمت ، تحقیق و معارف کی ایک زندہ یاد گار ہیں، پورے اسلامی علوم و معرفت ، تصوف و تزکیہ کی علمی سرگزشت میں ایک خاص امتیاز و مقام کے حامل ہیں ۔
حضرت مجدّد الف ثانیؒ اپنے خلفاء، مریدین اور دیگر متعلقین کو کثرت سے خطوط لکھا کرتے تھے، جن میں شریعت و طریقت، حقیقت و معرفت کے علاوہ مختلف سیاسی اور معاشرتی معاملات کو بھی موضوع بناتے۔ یہ مکتوبات اس قدر مشہور اور انھیں قبولیتِ عامّہ حاصل ہوئی کہ اب اگر صرف’’ مکتوبات‘‘ کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس سے حضرت مجدّدؒ کے مکتوبات ہی مُراد لی جاتی ہے۔ یہ مکتوبات تین دفاتر یعنی حصّوں پر مشتمل ہیں۔ مکتوبات امام ربانیؒ کے فارسی سے اردو ترجمہ کی بات کی جائے تو مولوی محمد حسین ساکن احمد آباد، ضلع جہلم اور مولوی عبدالرحیم نائب مدیر اخبار وکیل، امرتسر نے چند مکتوبات کا اردو میں ترجمہ کیا جو شائع بھی ہوئے۔ علاوہ ازیں، شاہ ہدایت علی نقش بندی نے’’ دُر لاثانی‘‘ کے نام سے مکتوبات کی اردو میں تلخیص کی، جسے’’ اعلیٰ کتاب خانہ، کراچی نے’’ انتخاب مکتوبات‘‘ کے نام سے 1961ء میں شائع کیا۔( 27) تاہم مکمل اردو ترجمہ مولوی قاضی عالم الدین نقش بندی، خلیفہ حافظ عبدالکریم نقش بندی نے کیا جو ۱۳۳۷ھ میں عباسی کتب خانہ، کراچی سے طبع ہوا ، (28) بعدازاں، اللہ والے کی قومی دکان، لاہور سے بھی شائع ہوا۔1970ء میں مدینہ پبلشنگ، بندر روڈ کراچی سے مولانا محمد سعید نقش بندی(خطیب و امام مسجدحضرت علی ہجویریؒ، لاہور) کا اردو ترجمہ شائع ہوا۔اسے پروگریسیو بکس، اردو بازار، لاہور نے 2006ء اور دوبارہ 2012ء میں شائع کیا۔
حضرت مولانا سید زوّار حسین شاہؒ نے دفتر اوّل کے 1 سے 100 مکتوبات کا اردو ترجمہ کیا، باقی مکتوبات کا ترجمہ اُن کے رفیق، حاجی محمد اعلیٰ اور پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد عادل نے کیا۔ اس حوالے نے حاجی محمد اعلیٰ کا کہنا ہے کہ:
’’ ترجمے کا زیادہ حصہ اور تشریح و تعلقات، نیز مکتوب الیہم اور دیگر بزرگوں کے تذکرے وغیرہ حضرت شاہ صاحب کی کتاب( حضرت مجدّد الف ثانیؒ) سے استنباط کیے گئے ہیں، اس لیے پیشِ نظر ترجمہ کو حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمہ کے نامِ نامی، اسمِ گرامی سے شائع کیا جا رہا ہے‘‘ (29)
حضرت شاہ صاحبؒ کے ترجمے کی زبان انتہائی سادہ، سلیس اور رواں ہے۔ دقیق عبارات اور مشکل اصطلاحات کا بھی عام فہم ترجمہ کیا گیا ہے۔ ان مکتوبات کے اردو ترجمے کی پہلی جلد ستمبر 1988 ء میں ادارۂ مجدّدیہ، ناظم آباد، کراچی سے شائع ہوئی۔ اسی ادارے نے دوسری جلد ۱۴۱۲ھ اور تیسرا حصّہ 1993 ء میں شائع کیا۔ مختلف شخصیات، مقامات اور اصطلاحات کے بارے میں حاشیے میں تعارفی نوٹ لکھے گئے ہیں جب کہ شاہ صاحب نے اشعار کا منظوم ترجمہ کیا۔ البتہ کئی اشعار ترجمے سے رہ گئے تھے، جن کا منظوم ترجمہ حضرت ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں صاحبؒ ( م2005ء ) نے کیا۔ (30)
حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے مکتوبات امام ربانی رحمتہ اللہ علیہ کے ترجمے کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے حضرت ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان صاحب ؒ رقمطراز ہیں کہ :
"ہمارے نہایت بزرگ حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے بھی مکتوبات شریفہ کا ترجمہ فرمایا تھا۔ اور اسے سلیس ،عام فہم بنانے کی کوشش فرمائی تھی پھر جیسی کہ ان کی عادت شریفہ تھی اس ترجمے میں بھی جگہ جگہ مفید حواشی اور تعلیقات بھی شامل فرمائے ہیں ۔ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کا مزاج محققانہ تھا اور وہ جزئیات تک کو شرح و بسط کے ساتھ پیش فرماتے تھے یہی خصوصیات اس ترجمے میں بھی عیاں ہے۔( 31)
4۔مکتوباتِ معصومیہ
مکتوبات معصومیہ حضرت مجدّد الف ثانیؒ کے صاحب زادے اور جانشین حضرت خواجہ محمد معصومؒ ( م 1079ھ/1668ء ) کے ان 652 مکتوبات کا مجموعہ ہے، جو آپ نے خلفاء اور مریدین وغیرہ کو تحریر فرمائے۔ شاہ صاحبؒ نے ان مکاتیب کی اہمیت اور ضرورت ان الفاظ میں اجاگر کی ہے:
"امامِ ربانی، حضرت مجدّد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی قدس سرہ السامی کے صاحبزادے اور جانشین عروۃ الوثقیٰ خواجہ محمد معصوم قدس سرہ کے مکتوبات شریف بھی بزبانِ فارسی و عربی آپ کے والد بزرگوار کے مکتوبات شریفہ کی طرح بہت بلند درجہ رکھتے ہیں اور شریعت و طریقت، حقیقت و معرفت کے جامع اور ادب و انشاء کا اعلی شاہکار ہیں، ان میں سالکانِ طریقت کو پیش آنے والے سوالات کے جوابات، خوابوں کی تعبیرات اور بہت سے فقہی مسائل کا حل ہے۔ نیز مکتوباتِ حضرت مجدّد الف ثانی قدس سرہ کے بہت سے ادق مقامات کی تشریح پر مشتمل ہیں جو سالکانِ طریقت کے لیے ایک بے بہا ذخیرہ اور انمول خزانہ ہیں۔‘‘ (32)
مکتوباتِ معصومیہ تین دفاتر( حصوں) پر مشتمل ہے۔پہلے حصّے کا تاریخی نام’’ درۃ التاج‘‘، دوسرے کا’’ وسیلۃ السعادات‘‘ اور تیسرے دفتر کا تاریخی نام’’ مکتوباتِ معصومیہ‘‘ ہے۔
1۔دفتر اول کی تدوین و ترتیب حضرت خواجہ محمد معصوم رحمتہ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت خواجہ محمد عبید اللہ مروج الشریعہ رحمتہ اللہ علیہ (م1083ھ/ 1672ء) نے کی، جس میں 239 خطوط ہیں اور انھیں 1039 ھ سے 1063ھ کے درمیان جمع کیا گیا۔ اس کا تاریخی نام درۃ التاج ہے۔
2۔دفتر دوم میں 158 مکتوبات ہیں ۔ جس کی ترتیب و تدوین اور جمع کا کام میر شرف الدین حسین بن عماد الدین محمد حسینی ہروتی رحمتہ اللہ علیہ نے کیا۔ اس مجموعے کی تکمیل کا سال 1072 ھ ہے۔ا س کا تاریخی نام وسیلہ السعادات ہے ۔
3۔دفتر سوم میں 255 خطوط ہیں اور انھیں حضرت خواجہ محمد عاشور بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے ۱۰۷۳ھ تا ۱۰۸۰ھ میں مرتب کیا۔ اس کا تاریخی نام مکاتیب قطب زمان ہے ۔
" پہلی بار دفتر اول کا فارسی نسخہ ۱۳۰۲ھ میں مطبع نظامی کانپور سے شائع ہوا۔ دفتر دوم پہلی بار لدھیانہ سے شائع ہوا۔ بعدازاں تینوں حصے مولانا نور احمد کی تصحیح سے ۱۳۴۰ھ میں الیکٹرک پریس امرتسر سے شائع ہوئے، جنھیں ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاںؒ نے 1976 ء میں پہلی بار پاکستان میں طبع کروایا۔ مکتوباتِ معصومیہ کا پہلا اردو ترجمہ مولانا نسیم احمد فریدی نے کیا جو ۱۳۷۰ھ میں مکتبۃ الفرقان، لکھنؤ، ۱۳۹۷ھ میں اسلامک بک فاؤنڈیشن، لاہور اور ۱۳۹۹ھ میں مکتبہ سراجیہ، موسیٰ زئی شریف، ڈیرہ اسماعیل خان سے شائع ہوا، تاہم یہ کوئی باقاعدہ ترجمہ نہیں تھا بلکہ انھوں نے مکتوبات کی تلخیص کی تھی۔ " (33) سو، مکتوباتِ معصومیہ کا مکمل اردو ترجمہ پہلی بار حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحبؒ ہی نے کیا، جس کا دفتر اوّل ۱۳۹۸ھ میں اداۂ مجدّدیہ کراچی سے شائع ہوا۔ اگلے برس دفتر دوم اور اُس سے اگلے برس دفتر سوم بھی اسی ادارے نے شائع کیا۔ ترجمے میں ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں صاحبؒ کے مطبوعہ فارسی نسخے کے صفحات کے نمبر بھی دیے گئے ہیں ، تاکہ فارسی مکتوب سے رجوع میں مشکل نہ ہو۔نیز، مکتوبات میں آئی آیات، احادیث اور حضرت مجدّد الف ثانیؒ کے خطوط کی عبارتوں کے حوالے بھی حاشیے میں درج ہیں۔ ہمارے سامنے مکتوباتِ معصومیہ کا جدید عکسی ایڈیشن ہے، جسے زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز، ناظم آباد، کراچی نے مارچ 2004 ء میں شائع کیا ہے۔ اس میں تینوں حصّوں کو یک جا کردیا گیا ہے۔
منظوم تراجم
حضرت شاہ صاحب نے اسکول کے زمانے ہی میں شعر کہنا شروع کردیے تھے۔ وہ’’ شمسی‘‘ اور پھر’’ زوّار‘‘ تخلص کیا کرتے تھے۔ اُنھوں نے ایک مشاعرہ بھی پڑھا تھا، (34) لیکن شعر وسخن کی جانب کوئی خاص توجّہ نہیں دی، حالاں کہ اُن کے دست یاب کلام کی روشنی میں ماہرینِ فن نے رائے قائم کی ہے کہ اگر وہ اس جانب توجّہ دیتے، تو اس صنف میں بھی اُن کا نمایاں مقام ہوتا۔ حضرت مجدّد الف ثانیؒ کی تحریروں میں کثرت سے فارسی اور عربی اشعار کا استعمال ہوا ہے ۔ حضرت شاہ صاحب نے ان اشعار کا ترجمہ بھی اشعار میں کیا ہے، جو اس قدر شستہ اور شگفتہ ہے کہ ترجمے پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔نیز، آپ نے’’ گلدستۂ مناجات‘‘ میں شامل عربی اور فارسی اشعار کا بھی انتہائی خُوب صورت ترجمہ کیا ہے۔ آپ کا عربی، فارسی اور اردو منظوم مناجات کا یہ مجموعہ 1950 ء میں ادارۂ مجدّدیہ، کراچی سے شائع ہوا تھا۔ آپ کے ترجمے کیے گئے اشعار کی مجموعی تعداد 126 ہے، جن میں 29 عربی اور 97 فارسی سے اردو میں ترجمہ کیے گئے۔ (35)
خلاصہ بحث
بر صغیر پاک و ہند میں سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کی تعلیمات اور اس کے اثرات میں مکتوبات کو بہت دخل رہا ہے، خصوصا مکتوبات امام ربانیؒ اور مکتوبات معصومیہ اس باب میں نمایا ں اہمیت کے حامل ہیں۔ اور حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحبؒ کی ترجمہ نگاری اس حوالے سے ایک خاص مقام رکھتی ہے کہ آپؒ کے تراجم ایک صاحب حال و ذوق کی علمی سرگزشت ہے جو اپنے دامن میں اتنی وسعت سموئے ہوئے ہے کہ اسے مختلف عنوانات کے تحت یونیورسٹی کی سطح پر ایم۔ فل اور پی ایچ۔ ڈی کے مقالہ جات کے لیے موضوع بحث بنایا جاسکتا ہے ، بالخصوص مکتوبات معصومیہ کا ترجمہ علمی و روحانی دقائق و معارف کی عقدہ کشائی کی وجہ سے اس مقام و حیثیت کا سزوار ہے کہ اس کے جدید ایڈیشن کی اشاعت عمل میں لائی جائے، تاکہ طالبان طریقت و معرفت تزکیہ و احسان کے حقیقی تفہیم و شعور سے آگاہی حاصل کر سکیں۔
zz
حوالہ جات
1۔القرآن : 3:5
2۔القرآن ، 21:33
3۔القرآن ، 151:2
4۔بخاری ، ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل ، الجامع الصحیح البخاری،دار ابن کثیر،،بیروت 1423ھ/2002ء، کتاب الایمان ، باب سوال جبریل ، رقم الحدیث 50
5۔القرآن ، 27:89
6۔القرآن ، 151:2
7۔مجددی ،محمد یوسف ،جواہر نقشبندیہ ، مکتبہ انوار مجددیہ ،فیصل آباد،1990ء، ص 57
8۔مجددی،جواہر نقشبندیہ ،ص57
9۔پروفیسر ،محمد عبد الرسول للہی ، تاریخ مشائخ نقشبند ، مکتبہ زاویہ،لاہور، 2007ء،ص28
10۔کشمی ، خواجہ محمد ہاشمؒ ، نسمات القدس، اردو ترجمہ:سید محبوب الحسن واسطی، المصطفیٰ پبلی کیشنز ،حیدرآباد، 1436ھ، ص25۔26
11۔رانجھا ، محمد نذیر ،تاریخ و تذکرہ خانقاہ سرہند شریف،جمعیت پبلی کیشنز ،لاہور،2011ء،ص 100
12۔قریشی ، حاجی محمد اعلیٰؒ ، مقامات زواریہ، ادارہ مجددیہ ،کراچی، 1403ھ ، ص 16
13۔قریشی ، مقامات زواریہ، ص 17، 31
14۔ایضاً، ص 20،21،33
15۔ رانجھا ، نذیر احمد، تاریخ و تذکرہ خانقاہ احمدیہ سعیدیہ ، جمعیت پبلی کیشنز ،لاہور،2010ء، ص 638
16۔قریشی ، مقامات زواریہ، ص 24
17۔قریشی، حاجی محمد اعلیٰؒ ، مقامات زواریہ، ص 8
18۔حجازی ،ڈاکٹر مسکین علی،صحافتی زبان، سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور، 2007 ء، ص 73
19۔قریشی ، مقامات زواریہ، ص 20۔21
20۔غلام مصطفیٰ خاں،ڈاکٹر " چل خسرو اپنے گھر"ماہنامہ تعمیر افکار،کراچی ، مسلسل شمار85،شمارہ11۔12،2008ء،ص 411
21۔ندوی ، ابو الحسن علی ، تاریخ دعوت و عزیمت ، مجلس نشریات اسلام،کراچی،س ن، ج 4،ص168
22۔شاہ ، مولانا سید زوار حسین ؒ ، مبدا و معاد ، (اردو ترجمہ) ، ادارہ مجددیہ،کراچی،1984ء، ص 7
23۔ایضاً ، ص 7۔8
24۔رانجھا ، نذیر احمد، "حضرت شاہ صاحبؒ کے تراجم" ماہنامہ’’ تعمیرِ افکار‘‘،کراچی، مسلسل شمارہ ۸۵، ج ۹، شمارہ ۱۱۔۱۲، ص 2 20
25۔مجددالف ثانی، شیخ احمد فاروقی ؒ ،معارف لدنیہ، (اردو ترجمہ: مولانا سید زوار حسین شاہؒ) ، زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، کراچی، 2012ء،ص7
26۔شاہ ، مولانا سید زوار حسین ؒ،معارف لدنیہ ،اردو ترجمہ،ادارۂ مجددیہ،کراچی،اشاعتِ دوم ۱۴۰۶ھ، ص 5
27۔مجدد الف ثانی ،شیخ ا حمد فاروقی ؒ ، مکتوبات امام ربانی ،( اردو ترجمہ، مولانا محمد سعید نقش بندی)، مدینہ پبلشنگ،کراچی، طبع اوّل 1970ء ، ج 1 ، ص 36
28۔مجدد الف ثانی، شیخ احمد فاروقی ؒ، مکتوبات ا مام ربانی ،(اردو ترجمہ: محمد نذیررانجھا) ، خانقاہ سراجیہ،کندیاں،2015ء، ج 1، ص31
29۔مجدد الف ثانی، شیخ احمد فاروقی سرہندیؒ ،مکتوبات امام ربانی،(اردو ترجمہ، مولانا سید زوار حسین شاہؒ )،ادارۂ مجددیہ،کراچی،1988ء ، ج 1، ص 27
30۔مجدد ، مکتوبات امام ربانی،( اردو ترجمہ، مولانا سید زوار حسین شاہؒ )، ج 1، ص 29
31۔ایضاً، ص 19
32۔ خواجہ ، محمد معصوم سرہندی ؒ، مکتوبات معصومیہ (اردو ترجمہ: مولانا سید زوار حسین شاہؒ) ، ادارہ مجددیہ،کراچی،1986ء، دفتر اول ، ص 18
33۔رانجھا ، نذیر احمد، "حضرت شاہ صاحبؒ کے تراجم" ماہنامہ’’ تعمیرِ افکار‘‘،کراچی، مسلسل شمارہ ۸۵، ج ۹، شمارہ ۱۱۔۱۲، ص221
43۔سرہندی ، خواجہ محمد معصوم ؒ ، مکتوبات معصومیہ (اردو ترجمہ: مولانا سید زوار حسین شاہؒ) ، ادارہ مجددیہ،کراچی، 1986ء،مکتوب نمبر 10 ،ص37
35۔حافظ ، سید فضل الرحمنٰ " اسلام اور شاعری" ماہنامہ’’ تعمیرِ افکار‘‘،کراچی، مسلسل شمارہ ۸۵، ج ۹، شمارہ ۱۱۔۱۲، ص۲۷۱
36۔شاہ ، مولانا سید زوار حسین ؒ ،گلدستہ مناجات،زوار اکیڈمی پبلی کیشنز،کراچی،2009ء
حوالہ جات
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |