32
1
2018
1682060084478_498
68-59
http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/59
یہ بات محتاج ِ وضاحت نہیں کہ اسلام ایک اکمل اور اُتم دین ہے جس کا ثبوت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المائدہ:3) (یعنی آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی) سے واضح طور پر ملتا ہے ،اور شریعت ِ محمدیہ تاقیامت نو پیدا شدہ انسانی مسائل و ضروریات کے حل کے لیے کافی وشافی ہے ۔زمانہ نبوی سے لے کر آج تک ہر دور میں زمانے اور حالات کے بدلنے سے نئے نئے مسائل انسانیت کو درپیش رہے اور خدا جانے قیامت تک مزید کتنے مسائل پیش آنے والے ہیں ،لیکن شریعتِ اسلامی کا یہ خصوصی امتیاز ہے کہ یہ ہر دور میں انسانی مسائل کے حل کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئی ہے۔ عہد رسالت سے آج تک کوئی بھی ذی شعور اور سلیمُ الفطرت شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکا اور نہ ہی آئندہ کر سکے گا کہ مجھے زندگی کے فلاں شعبے میں فلاں مسئلہ درپیش ہوا لیکن شریعتِ اسلامی میں اس کا حل نہیں ملا۔اس لیے کہ اگر شریعت کسی بھی انسانی زندگی کو درپیش مسئلے کے حل سے قاصر ہوجائے تو اسلام کی ابدیت اور ہمہ گیریت پر انگلیاں اٹھیں گی ،اور العیاذ باللہ دعویٰ قرآنی الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي کا باطل ہونا لازم آئے گاجو کہ بداہتاً باطل ہے ۔
البتہ یہ ہر دور کے ماہرین مجتہدین علماء و فقہاء کا کام ہے کہ وہ لوگوں کو پیش آمدہ جدید مسائل کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں، تاکہ روزِ روشن کی طرح یہ حقیقت آشکارا ہوجائے کہ واقعتہً اسلام قیامت تک کے انسانوں کے لیے رہبر و رہنما ہے ۔نیزمعترضین کا رَد بھی ہو جائے کہ اسلام کوئی فرسودہ نظام نہیں ہے بلکہ یہ قانونِ فطرت اور زندہ و جاوید شریعت ہے۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ اسلامی نظام اس قدر جامع اور مسائل زندگی پر اس قدر حاوی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی دوسرا نظام ہر گز اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتا۔
اب مسائل و احکام کی دو قسمیں ہیں ۔پہلی قسم ان مسائل کی ہے جن کا حکم قرآن و سنت میں صراحتا ً ملتا ہے ، ایسے مسائل کو”احکام ِ منصوصہ“ کہا جاتا ہے ۔اس قسم کے مسائل میں اجتہاد یا رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ دوسری قسم ان مسائل کی ہے جن کا حکم کسی آیتِ قرآنی یا حدیث ِ نبوی سے صراحتاً نہ ملتا ہو ، بعد میں علمائے مجتہدین دلائل و نصوص میں غور و فکر کر کے اجتہاد کے ذریعے اس کا شرعی حل تلاش کریں ۔ایسے مسائل کو” احکام ِ غیر منصوصہ “کہا جاتا ہے،درحقیقت یہی مسائل اجتہاد کا محل اور اس کے دائرہ کار میں شامل ہیں ۔ فقہائے کرام نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اجتہاد کے تعریف مختلف الفاظ اور انداز سے بیان کی ہیں ،ان میں سے چند یہ ہیں :
امام غزالی ؒ کے نزدیک
أَنْ يَبْذُلَ الْوُسْعَ فِي الطَّلَبِ بِحَيْثُ يُحِسُّ مِنْ نَفْسِهِ بِالْعَجْزِ عَنْ مَزِيدِ طَلَبٍ
”اجتہاد اسے کہتے ہیں کہ مجتہد شرعی مسائل کے حل (اور احکام کی معرفت کے لئے ) اپنی پوری طاقت خرچ کردے ، اس طور پر کہ وہ مزید تلاش( اور کوشش )سے اپنے کو قاصر سمجھے۔“ ([1])
شاہ ولی اللہ ؒ کے نزدیک
استفراغ الْجهد فِي إِدْرَاك الْأَحْكَام الشَّرْعِيَّة الفرعية من أدلتها التفصيلية ([2])
یعنی احکام شرعیہ فرعیہ کو اس کے تفصیلی دلائل سے حاصل کرنے میں مجتہد جو محنت صَرف کرتا ہے، اسے اجتہاد کہتے ہیں ۔
علمائے اصولیّین کے نزدیک
هُوَ اسْتِفْرَاغُ الْفَقِيهِ الْوُسْعَ لِتَحْصِيلِ ظَنٍّ بِحُكْمٍ شَرْعِيٍّ ([3])
یعنی فقیہ کسی مسئلے کے شرعی حکم کے گمان تک پہنچنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں صَرف کردے ، تو اس کو اجتہاد کہتے ہیں۔
ان تعریفات سے پتہ چلا کہ کسی مجتہد کے استنباط کردہ مسائل اور ان کے دلائل کو محض سمجھ لینے کا نام اجتہاد نہیں ہے بلکہ اجتہاد یہ ہے کہ اصولِ کلیہ کی معرفت حاصل کر کے ان سے جزئیات و فروع کا استخراج کرنےکی مہارت اور ملکہ پیدا ہوجائے،اور اس مقصد کے حصول کے لیے مجتہد اپنی تمام توانائی اور صلاحیتوں کو بروئے کار لائے ۔
اجتہاد سے متعلق چند غلط فہمیاں اور ان کا ازالہ
اجتہادکی حقیقت سے ناواقفیت کی بنا پر بعض لوگوں میں اجتہاد کے متعلق مختلف قِسم کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ،جن میں سے دو کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
1۔بعض لوگوں کو اس آیت وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (القمر:17) ( اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنا دیا ہے، تو کیا کوئی ہے جونصیحت حاصل کرے ؟)سے غلط فہمی ہو گئی کہ جب قرآن آسان ہے تو پھر اس سے مسائل کا استنباط و استخراج صِرف علماء کے ساتھ کیوں خاص ہے ، ہر شخص کو اس کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟
اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی مذکورہ آیت میں یَسَّرنَا کے بعد لِلذِّکرکا لفظ موجودہے ، مطلب یہ کہ قرآن نصیحت و عبرت حاصل کرنے کے لیے آسان ہے ، مسائل و احکام کے استنباط و استخراج کے لیے نہیں، بلکہ قرآن کریم میں دوسری جگہ مذکور ہے کہ مسائل و احکام کا استنباط محققین اور راسخین فی العلم کا کام ہے ۔جیسا کہ سورۂ نساء میں مذکور ہے:
وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ (النساء: 83)
علامہ ابن کثیرؒ مذکورہ آیت کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں :
”اگر یہ لوگ اس (مسئلہ) کو رسول ؐ کے یا اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کر لیتے جو تحقیق کا مادہ رکھتے ہیں۔“([4])
اس سے معلوم ہوا کہ پیش آمدہ جدید مسائل کا استنباط و استخراج ہر ایک کے بس کی بات نہیں بلکہ اصحابِ تحقیق اور اہلِ استنباط اس کےاصل حق دار ہیں ۔
2۔ بعض لوگوں کویہ بھی شبہ ہوتا ہے کہ جب قرآن اور حدیث ہمارے پاس موجود ہیں تو پھر ہم خود ان سے مسائل کا استنباط کیوں نہ کریں اور دوسروں کی تقلید کے محتاج کیوں رہیں ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کم فہم لوگ آئمہ مجتہدین کے ساتھ حِرص کرتے ہیں ،حالانکہ وہ یہ بات نہیں جانتے کہ قرآن اور حدیث سے مسائل کے استنباط و استخراج کے لیے جس قدر علمی امتیاز اور دیگر اوصاف کی ضرورت ہے ائمہ مجتہدین اس سے پوری طرح مزیّن تھے ، اور انھیں اجتہاد کا پورا ملکہ حاصل تھا جبکہ یہ نام نہاد مجتہدین اس معیار پر ہر گز پورے نہیں اترتے ۔
نااہل مجتہدین کےفاسد اجتہادات
اجتہاد کوئی ایسی معمولی چیز نہیں ہے کہ ہر شخص اس کی جسارت کر بیٹھے،بلکہ یہ ایک اہم اور نازک (Delicate)دینی فریضہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام ہر شخص کو اس کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اگر ہر شخص کو اس کی اجازت مل جائے تو ہر ایک اپنے مزاج کے مطابق شرعی احکام میں تصرّف کرے گا ،اس طرح دین ِ اسلام ایک کھیل بن جائے گااور فتنوں کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا ۔ اسی لیے علمائے محققین نے اس کے لیے انتہائی سخت اور کڑی شرائط (Conditions)مقرر کی ہیں ۔جس شخص میں وہ شرائط (Conditions)پائی جائیں گی وہ اجتہاد کا اہل ہوگا وگرنہ یہ نام نہاد (So-called)ا جتہاد سراسر گمراہی اور پرلے درجے کی حماقت ہوگی ۔
نیز اگر نااہل یا معمولی صلاحیت والے لوگ اجتہاد کریں گے تو بعض اوقات ایسے مضحکہ خیز لطیفے ہوں گے کہ جن کو سن کر ہنسی آئے گی، اور کبھی ایسے شرمناک اجتہادات سامنے آئیں گے کہ عقل دنگ رہ جائے گی ۔یہاں نااہل مجتہدین کے اجتہادات کی چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں، ملاحظہ فرمائیے :
پہلی مثال
ایک پڑھے لکھے صاحب نماز میں کھڑے کھڑے جھوما کرتے تھے۔ایک دن جب نماز سے فارغ ہوئے ،تو کسی نے پوچھ لیا کہ صاحب یہ حرکت کیسی ؟انھوں نے جواب دیا کہ حدیث شریف میں اس کا حکم آیا ہے ۔سائل نے کہا کہ ہم نے تو آج تک ایسی کوئی حدیث نہ پڑھی،نہ سُنی ،نہ دیکھی جس میں نماز ہِل کر پڑھنے کا حکم آیا ہو ۔وہ کون سی حدیث ہے ہمیں بھی تو دِکھاؤ ۔وہ صاحب حدیث کے اردو ترجمے والی کتاب لے کرآئے جس میں حدیث إِذَا أَمَّ أَحَدُكُمُ النَّاسَ، فَلْيُخَفِّفْ ([5]) آیا ہے کہ جب کوئی شخص لوگوں کی امامت کرے تو ہلکے نماز پڑھے۔ ان صاحب نے ہَلکے بمعنی ”خفیف“ کو ہلکےبمعنی”حرکت کرنا“پڑھا ۔اور اپنے خود ساختہ اجتہاد سے یہ مطلب نکالا کہ نماز کو حرکت کر کے یعنی ہِل ہِل کے پڑھنا چاہیے۔ یہ ہے حقیقت ان کےانوکھے اجتہاد کی ۔
دوسری مثال
ایک متجدّد نے کہا کہ اگر کوئی شخص کسی غیر محرم اجنبیہ عورت کے چہرے کی طرف دیکھ لے تو اس کو بھی سَو (100)کوڑے بطورِ حد لگائے جائیں،کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے الْعَيْنَانِ تَزْنِيَانِ ([6]) یعنی آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں۔لہذا جب نظر سے زنا پایا گیا تو کوڑے بھی لگائے جائیں گے ۔حالانکہ کسی بھی محدّث نے اس حدیث کا یہ مطلب بیان نہیں کیا ،بلکہ محدثینِ کرام کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ النظر یرید الزنا یعنی نظر بذاتِ خود زنا نہیں بلکہ زنا کا ذریعہ ہے ۔ اس کی تائید دوسری حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے زِنَا العَيْنِ النَّظَرُ ([7]) یعنی آنکھ کا زنا نظرکے ذریعے ہوتا ہے ۔آج کل کے متجددین کا حال یہ ہے کہ وہ ایسی ایسی فحش غلطیاں کرتے ہیں کہ تھوڑی بہت اسلامی معلومات رکھنے والا بھی ان کے غلط ہونے کو محسوس کرتا ہے ۔
بہرحال نااہل مجتہدین کے فاسد استدلالا ت کی یہ چند مثالیں ہیں،اس طرح کے عجیب وغریب استدلالات سن کر انا للہ وانا الیہ راجعونہی کہا جا سکتا ہے ۔ان مثالوں سے پتہ چلا کہ اجتہاد کے لیے صرف سطحی معلومات (Surface information) کافی نہیں بلکہ رسوخ فی العلم ہونا ضروری ہے ۔ ان نااہل مجتہدین کو سرسری اور سطحی نوعیت کی معلومات سے اپنے مجتہد ہونے کا دھوکہ ہوتا ہے ،اورآئے دن بغیر دلیل کےمن گھڑت اور انوکھے اجتہادات داغتے رہتے ہیں۔ وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ طبیب وہ ہوتا ہے جو پوری طِب کے مزاج سے واقف ہو ،محض چند دوائیوں کے نام یاد کر لینے سے کوئی طبیب نہیں بن جاتا، بالکل اسی طرح مجتہد وہ ہوتا ہے جو پوری شریعت کے مزاج کو اچھی طرح جانتا اورسمجھتا ہو،جزوی معلومات سے کوئی مجتہد نہیں بن جاتا ۔ اس قِسم کے شائقینِ اجتہاد بکثرت پائے جاتے ہیں ۔ ان پر یہ شعر صادق آتا ہے :
گر مجتہد ہیں آپ تو کچھ لائیے ثبوت دعویٰ بلا دلیل تو مانا نہ جائے گا
بغیر اہلیت کے اجتہاد کرنے پر سخت وعیدیں
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقیت ہے جیسا کہ ابھی ماقبل میں ذکر ہوا ہے کہ اجتہادایک عظیم المرتبت کام ہے اور یہ علم کا ایسا بلند ترین مقام ہے جس کے لیے اہلیت و صلاحیت کا ہونا انتہائی ناگزیر (Inevitable)ہے ۔ اہلیت و صلاحیت کے بغیر کیا گیا اجتہاد محض تسکینِ قلب کے لیے ہوگا جو نفس پرستی ہوگی اور نفس پرستی کی خاطر اجتہاد و افتاء بہت بڑی جسارت کی بات ہے ، جس پر احادیث میں سخت وعیدیں اور تنبیہات موجود ہیں ۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أجرؤكم على الفتيا، أجرؤكم على النار ([8])”جو لوگ تم میں سے بغیر تحقیق فتوی دینے (اجتہاد کرنے)میں جَری ہیں وہ تم میں سے آگ میں داخل ہونے میں بھی جَری ہوں گے۔“
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:
من أفتى بغير علم كان إثمه على من أفتاه ([9])
” جو شخص بغیر علم (دلیل) کے لوگوں کو فتویٰ دے گا تو جس کو فتویٰ دیا گیا ہے اس (پر عمل کرنے) کا گناہ بھی فتویٰ دینے والے کو ہوگا۔“
اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے سخت تنبیہ ہے جو تحقیق اور دلیل کے بغیر فتویٰ دیتے ہیں ، اور ان کو شرعی اصول و قواعد پر اس درجہ دسترس اور مہارت حاصل نہیں جو ایک مفتی اور مجتہد میں ہونا ضروری ہے لیکن اس کے باوجود وہ لوگ فتویٰ اور اجتہاد کی کٹھن وادی میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہی وہ لوگ ہیں جو خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔نیز حضرت ابوبکر صدیق ؓکے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ:
أي سماء تظلني وأي أرض تقلني إذا قلت في القرآن برأيي، وفي رواية: إن قلت في آية من كتاب الله برأيي ([10])
” کون سا آسمان مجھ پر سایہ کرے گا اور کون سی زمین میرے بوجھ کو اٹھائے گی اگر میں قرآن مجید کے بارے میں کوئی بات اپنی رائے سے کہوں۔ایک اور روایت میں ہے :اگر میں کتاب ُ اللہ کی کسی آیت کے بارے میں اپنی رائے سے کوئی بات کہوں۔“
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا یہ قول اگرچہ تفسیر بالرائے کے بارے میں ہے ،تاہم اس سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ بغیر علم و فہم اور بغیر دلیل کے محض اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر قرآن وسنت اور احکام شریعت میں تصرّف کرنا بہت بڑا جرم ہے ۔ البتہ اگر کسی شخص میں اجتہاد کی صلاحیت و استعداد اور مطلوبہ شرائط(Required Conditions)پائی جائیں،اور اجتہاد دلیلِ صحیح کی بنیاد پرکیا جائے تو ایسا اجتہاد جائز ہے، اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے امام محمد بن حسن الشیبانی ؒ فرماتے ہیں:
مَنْ كان عالمًا بالكتاب والسنة وبقول أصحاب رسول اللَّه صلى اللَّه عليه وسلم و بما استحسن فقهاء المسلمين وَسِعَهُ أن يجتهد رأيه فيما يُبتلى به ۔ ([11])
”جو شخص کتاب اللہ اور سنّت رسول ﷺ اورصحابہ کرام کے اقوال اور فقہائے مسلمین کے استحسان کو جاننے والا ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی رائے سےاجتہاد کرےاس مسئلہ میں جس میں وہ مبتلا ہے ۔“
پتہ چلا کہ دلیل کی بنیاد پر ہونے والا اجتہاد جائز ہے ،خود رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے اصحاب نے اجتہاد کیا جس پر ذخیرہ احادیث اور مجموعہ روایات شاہد ہیں ،لیکن یہ بحث اس تفصیل کی متقاضی نہیں ۔نیز دلیل کی بنیاد پر ہونے والا اجتہاد نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے اور اجتہاد کرنے والا عند اللہ بڑے اجر کا مستحق ہوگا ۔ چنانچہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
إذَا حَكَمَ الحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ ([12])
”جب حاکم (قاضی) فیصلہ کرے اور اجتہاد کرے پھر اس نے درست فیصلہ کیا تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور جب وہ اجتہاد سے فیصلہ کرے پھر خطا ہوگئی تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔ “
نیز مسندِ احمد کی ایک اَور روایت میں آتا ہے کہ فَلَهُ عَشَرَةُ أُجُورٍ ([13]) یعنی اگر اس کا اجتہاد درست ہے تو اس کے لیے دس نیکیاں ہیں۔امام محمد بن حسن الشیبانی ؒ سے پوچھا گیا کہ آدمی فتویٰ (اجتہاد)کا اہل کب ہوتا ہے ؟تو امام محمد ؒ نے جواب دیا : إذا کان صوابه أکثر من خطئه ([14]) یعنی جب اس کے اجتہاد سے کیے گئے درست فیصلے اس کے غلط فیصلوں سے زیادہ ہوں۔کیونکہ جب درست فیصلوں کی تعداد زیادہ ہوگی تو وہی غالب ہوں گے اور غالب کے مقابلے میں مغلوب کا اعتبار نہیں ہوتا ،جیسا کہ اصول ِ فقہ کا مشہور ضابطہ ہے القلیل کالمعدوماسی لیے احکام شرعیہ کا مدار اعم اور اغلب پر ہے۔
اہلیت ِ اجتہاد کے لیے درکار شرائط (Required Conditions)
اگر اجتہاد کی حقیقت پر غور و خوض کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ اجتہاد محض اٹکل یا قیاس آرائی کانام نہیں ہے بلکہ اس کے کچھ لگے بندھے اصول ( (Tied rulesاور طے شدہ قواعدو ضوابط اور مقررہ شرائط ہیں۔ لہذا اب ان اصول و قواعد اور شرائط کو ذکر کیا جاتا ہے جن کا ایک مجتہد میں پایا جانا ضروری ہے اور جن کے بغیر اجتہاد کے میدان میں قدم رکھنا جائز نہیں ہے ۔وہ حسب ذیل ہیں :
1۔لسانِ عربی پر مہارت
بلاشبہ عربی قرآن و حدیث کی زبان ہے اور اس کے بغیر اسلامی تعلیمات اور شرعی احکام سے واقفیت اور مسائل کی صحیح تخریج ممکن نہیں۔ نیز بغیر عربی زبان کے اجتہاد تو درکنار آیات و احادیث کا نفسِ مطلب بھی سمجھ نہیں آسکتا،اس لیے لغت عربی سے واقفیت مجتہد کے لیے بنیاد اور اساس کی حیثیت رکھتی ہے ۔لہذا مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ وہ علومِ عربیت میں پوری مہارت رکھتا ہو ،محض تھوڑی بہت عربی دانی کافی نہیں ،قواعد ِ عربیہ سے باخبر ہو اور عربی زبان کو جاننے کے لیے جن علوم و فنون کی ضرورت ہے مثلا ً صرف ونحو اور بلاغت میں ماہر ہو،خاصیاتِ ابواب اور اشتقاق پر مطلع ہو ،کیونکہ اعراب کے بدلنے اور تعریف وتنکیر میں معمولی سا فرق آجانے سے بھی کلام کے معنیٰ بالکل بدل جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ مجتہد کے لیے عربی زبان سے واقفیت کو واجب قرار دیتے ہیں ، چنانچہ شاہ ولی اللہ ؒ تحریر فرماتے ہیں:
وَكَذَلِكَ يجب أَن يعرف من علم اللُّغَة مَا أَتَى فِي كتاب أَو سنة فِي أُمُور الْأَحْكَام دون الْإِحَاطَة بِجَمِيعِ لُغَات الْعَرَب ([15])
”اور اسی طرح مجتہد پر واجب ہے کہ وہ اس علم ِ لغت کو جانتا ہو جو قرآن و سنت میں امور احکام کے بارے میں ہے ،عرب کی تمام لغات کا جاننا ضروری نہیں ہے ۔“
بے شک مجتہد کے لیے عربی زبان سے واقفیت از حد ضروری ہے تاہم اس کے لیے یہ شرط نہیں لگائی گئی کہ وہ عرب کی تمام لغات جانتا ہو بلکہ جس لغت میں قرآن نازل ہوا ہے صرف اس پر مہارت رکھتا ہو ، اور یہ شرط بھی نہیں ہے کہ وہ امام النحو ہو اور نحوی علوم کی معرفت میں علامہ خلیل اور علامہ مبرد رحمہا اللہ(دونوں نحو کے مشہور امام ہیں) کا ہم پلّہ ہو ۔ چنانچہ امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
لَا يُشْتَرَطُ أَنْ يَبْلُغَ دَرَجَةَ الْخَلِيلِ وَالْمُبَرِّدِ وَأَنْ يَعْرِفَ جَمِيعَ اللُّغَةِ وَيَتَعَمَّقَ فِي النَّحْوِ، بَلْ الْقَدْرالَّذِي يَتَعَلَّقُ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَيَسْتَوْلِي بِهِ عَلَى مَوَاقِعِ الْخِطَابِ وَدَرْكِ حَقَائِقِ الْمَقَاصِدِ مِنْهُ. ([16])
”مجتہد کےلیے یہ شرط نہیں لگائی گئی کہ وہ علامہ خلیل اور علامہ مبرّد کے درجے کا ہو اور نہ یہ کہ وہ تمام لغات جانتا ہو اور نحو میں گہرائی رکھتا ہو ،بلکہ اس قدر عربی جاننا ضروری ہے جو کتاب اور سنت سے متعلق ہو،اور اس کے ذریعے وہ خطاب کے مواقع اور مقاصد کے حقائق سے واقف ہو جائے ۔“
2۔قرآن و حدیث پر مکمل عبور
احکام شرعیہ کا اصل منبع و ماخذ(Source)قرآن و حدیث ہیں ،جو اسلامی قانون کی بنیاد ہیں ،لہذا مجتہد کے لیے ان آیات و احادیث پر مکمل عبور اور گہری نظر ہونا لازم ہے جن کا تعلق احکام سے ہے ۔ وہ آیات جن سے حکم شرعی صراحتاً معلوم ہوتا ہے ،ان کی تعداد تقریبا پانچ سوہے۔ان آیات کا حافظ ہونا ضروری نہیں بلکہ اتنا کا فی ہے کہ بوقتِ ضرورت ان سے احکام کا استنباط کر سکے ۔چنانچہ اما م غزالی ؒ اپنی مشہورِ زمانہ کتا ب "المستصفیٰ"میں رقم طراز ہیں :
أَمَّا كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَهُوَ الْأَصْلُ وَلَا بُدَّ مِنْ مَعْرِفَتِهِ ۔ ۔ ۔ أَحَدَهُمَا: أَنَّهُ لَا يُشْتَرَطُ مَعْرِفَةُ جَمِيعِ الْكِتَابِ بَلْ مَا تَتَعَلَّقُ بِهِ الْأَحْكَامُ مِنْهُ وَهُوَ مِقْدَارُ خَمْسِمِائَةِ آيَةٍ.الثَّانِيَ: لَا يُشْتَرَطُ حِفْظُهَا عَنْ ظَهْرِ قَلْبِهِ بَلْ أَنْ يَكُونَ عَالِمًا بِمَوَاضِعِهَا بِحَيْثُ يَطْلُبُ فِيهَا الْآيَةَ الْمُحْتَاجَ إلَيْهَا فِي وَقْتِ الْحَاجَةِ. ([17])
” بہر حال اللہ عزّ وجلّ کی کتاب (قرآن)ہی اصل چیز ہے اور (مجتہد کے لیے ) اس کی معرفت ضروری ہے ۔۔۔ایک یہ کہ پوری کتاب کو جاننے کی شرط نہیں لگائی گئی بلکہ ان آیات کو جاننا کافی ہے جن کا تعلق احکام سے ہے اور وہ پانچ سو آیات ہیں ۔دوسرے یہ کہ ان آیات کو زبانی یاد کرنا شرط نہیں ہے بلکہ اتنا کافی ہے کہ وہ ضرورت کے وقت مطلوبہ آیات کی جگہوں کو جانتا ہو ۔“
ا س کے ساتھ ہی اسباب نزول اور ناسخ ومنسوخ سے پوری طرح آگاہ ہو ۔متواتر اور شاذ قراءات سے بخوبی واقف ہو تاکہ آیات کی درست تفسیر اور احکام کی صحیح کیفیت سامنے آسکے ۔ اسی طرح وہ احادیث جو احکامات سے متعلق ہیں ان کی تعداد تقریبا ً تین ہزار ہے۔منصبِ اجتہاد پر فائز ہونے والے کے لیےلازم ہے کہ وہ احادیث متعارضہ کے درمیان تطبیق و ترجیح کے اصول اور طریقہ کار کو جانتا ہو ، اسمائے فنِ رجال یعنی جن راویوں سے روایات لی گئی ہیں ان کے احوال پر نظر ہو،اور ان راویوں کے بارے میں آئمہ جرح و تعدیل کے اقوال پر مطلع ہو ۔حدیث صحیح ، ضعیف ، معلل ، شاذ ، مرفوع ، موقوف اور مقطوع کے فرق کو بھی سمجھتا ہو تاکہ احادیث کی درست تشریح اور ان سے مسائل کی صحیح تخریج کرسکے ۔تمام احادیث کا مجموعہ تو لاکھوں میں ہے ، مجتہد کے واسطے تمام احادیث کو جاننا اور ان کو زبانی یاد کرنا ضروری نہیں بلکہ جو احکام سے متعلق ہیں ان کا شعور ہونا کافی ہے، البتہ احکامات والی احادیث کو یاد کرلینا مستحسن اور افضل ہے ۔ جیسا کہ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں :
أَمَّا السُّنَّةُ فَلَا بُدَّ مِنْ مَعْرِفَةِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي تَتَعَلَّقُ بِالْأَحْكَامِ۔۔۔إذْ لَا يَلْزَمُهُ مَعْرِفَةُ مَا يَتَعَلَّقُ مِنْ الْأَحَادِيثِ بِالْمَوَاعِظِ وَأَحْكَامِ الْآخِرَةِ وَغَيْرِهَا. الثَّانِي:لَا يَلْزَمُهُ حِفْظُهَا عَنْ ظَهْرِ قَلْبِهِ۔۔۔وَإِنْ كَانَ يَقْدِرُ عَلَى حِفْظِهِ فَهُوَ أَحْسَنُ وَأَكْمَلُ ۔ ([18])
” بہرحال سنت پس ان احادیث کا جاننا ضروری ہے جن کا تعلق احکام سے ہے ،اس لیے ان احادیث کی معرفت لازم نہیں ہے جن کا تعلق مواعظ اور احکام آخرت(قیامت ، جنت اور دوزخ ) وغیرہ سے ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس کے لیے ان احادیث کو زبانی یاد کرنا ضروری نہیں ہے ،اور اگر ان کے حفط پر قادر ہوجائے تو یہ احسن اور اکمل ہے ۔“
نیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ا ورتابعین ؒ کے اقوال اور ان کے فتاویٰ پر بھی مکمل عبور ہو، کیونکہ جس چیز پر ان نفوسِ قدسیہ کا اجماع ہوجائے اس کا اتباع ہم پر واجب ہےاور اس سے خروج قطعا جائز نہیں ہے ۔مجتہد کے لیے تمام اجماعی اور اختلافی مسائل کا احاطہ بھی ضروری نہیں ہے بلکہ جس مسئلہ کے بارے میں وہ فتویٰ دے رہا ہے یا جس میں وہ اجتہاد کر رہا ہے ،اس کے تمام پہلوؤں کو کما حقّہ جاننا ضروری ہے تاکہ خرقِ اجماع لازم نہ آئے ۔چنانچہ ”المستصفیٰ“ میں مذکور ہے:
وَأَمَّا الْإِجْمَاعُ فَيَنْبَغِي أَنْ تَتَمَيَّزَ عِنْدَهُ مَوَاقِعُ الْإِجْمَاعِ حَتَّى لَا يُفْتِيَ بِخِلَافِ الْإِجْمَاعِ۔۔۔لَا يَلْزَمُهُ أَنْ يَحْفَظَ جَمِيعَ مَوَاقِعِ الْإِجْمَاعِ وَالْخِلَافِ بَلْ كُلِّ مَسْأَلَةٍ يُفْتِي فِيهِ فَيَنْبَغِي أَنْ يَعْلَمَ أَنَّ فَتْوَاهُ لَيْسَ مُخَالِفًا لِلْإِجْمَاعِ (ايضاً)
” اجماع کے سلسلے میں اسے اجماع کے مواقع معلوم ہونے چاہییں تاکہ وہ اجماع کے خلاف فتویٰ نہ دے ۔لیکن یہ ضروری نہیں کہ اسے اجماع اور اختلاف کے تمام مواقع یاد ہوں ،بلکہ جس مسئلہ میں وہ فتویٰ دے رہا ہے، پس ضروری ہے کہ اس میں اسے یہ معلوم ہو کہ ( اس مسئلہ میں) اس کا فتویٰ اجماع کے خلاف نہیں ہے۔ “
3۔ اصول فقہ بالخصوص قیاس کے اصول وشرائط کا علم
مجتہد کے لیے ایک لازمی شرط یہ ہے کہ وہ علم اصول فقہ پر کامل بصیرت رکھتا ہو ،کیونکہ اصول ِ فقہ پر ہی اجتہاد کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ اسی اہمیت کے پیشِ نظر علامہ فخر الدین رازی ؒ اسے أهم العلوم اور امام غزالی ؒ اسےأعظم العلومقرار دیتے ہیں ۔چنانچہ علامہ رازی ؒ اپنی کتاب المحصول میں تحریر فرماتے ہیں :
أن أهم العلوم للمجتهد علم أصول الفقه ([19])
” بیشک مجتہد کے لیے تمام علوم میں سے سب سےاہم علم اصول فقہ ہے ۔“
قَالَ الْغَزَالِيُّ: إِنَّ أَعَظْمَ عُلُومِ الِاجْتِهَادِ يَشْتَمِلُ عَلَى ثَلَاثَةِ فُنُونٍ:الْحَدِيثِ، وَاللُّغَةِ وَأُصُولِ الْفِقْهِ ([20])
”امام غزالی ؒ فرماتے ہیں :علوم اجتہاد میں جو سب سے عظیم علم ہیں وہ تین ہیں :حدیث ، لغت اور اصولِ فقہ ۔“
اصولِ فقہ کی کتابیں ادلّہ اربعہ یعنی کتاب اللہ ،سنّتِ رسول اللہ ، اجماعِ امت اور قیاسِ شرعی کی تفصیلی مباحث پر مشتمل ہیں ۔قرآن و حدیث سے صحیح استدلال کے لیے ضروری ہے کہ وہ اصولِ فقہ کی اصطلاحات مثلا مثلاً ظاہر، نص، مفسر، محکم، مجمل، متشابہ، عبارۃ النص، اشارۃ النص ،دلالۃ النص اور اقتضاءا لنص وغیرہ سے واقف ہو کیونکہ جس شخص کو ان چیزوں کا معلوم نہ ہو تو وہ کیسے درست مسئلہ مستنبط کرسکتا ہے۔ بالخصوص قیاس کے اصول و قواعد اور شرائط و ضوابط میں دقیق النظر اور کامل الفہم ہو، کیونکہ قیاس ہی وہ جوہر ہے جو مجتہد کی صلاحیت کو نکھار کے سامنے لاتا ہے ۔ جیسا کہ مجتہد کی صفات کے بیان میں ذکر کیا گیا ہے :
أن يكون عارفا بوجوه القياس وذلك بمعرفة العلل والحكم والأنساب والشروط و أن يكون عارفا بوقائع الناس وأحوالهم ومعاملاتهم حتى يعرف ما يتحقق فيه على الحكم۔۔۔ويكون عنده ملكة الاستنباط فيسير في طريق الاجتهاد وهوآمن من الخاطر. ([21])
”مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ وہ وجوہِ قیاس کو جانتا ہو یعنی اسے علتوں ،حکمتوں ،انساب اور شروط کی معرفت حاصل ہو ۔اسی طرح اسے لوگوں کے واقعات اور ان کے حالات و معاملات کا پتہ ہو یہاں تک کہ وہ جانتا ہو جن حکمتوں پر وہ احکام متحقق ہوتے ہیں اور اس کو استنباط احکام کا ملکہ حاصل ہو ، ان تمام امور کے بعد وہ اجتہاد کے میدان میں اس طرح چلے کہ خطرات سے مامون ہو ۔“
4۔ خدا داد فہم و فراست
مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ من جانب اللہ اس کو نورِ فہم اورفراست ایمانی اور نورِ ایمانی سے خاص حصہ ملا ہو، ذکاوت اورذہانت میں ایسا ممتاز ہو کہ بڑے بڑے اذکیاء اور عقلاء کی گردنیں اس کی خداداد فہم کے سامنے خم ہوں۔ اجتہاد کے لیےمعمولی علم اور معمولی فہم کافی نہیں ۔اس کے لیے ایسا غیر معمولی فہم اور ادراک چاہیے کہ جو علماء ، فضلاء، عقلاء اور اذکیاء میں ضرب المثل بن گیا ہو ۔ ([22])
چنانچہ ”الاجتہاد فی الشریعۃ الاسلامیۃ“ میں بھی مجتہد کی شرائط میں سے ایک شرط یہ لکھی ہے:
أن يكون ذكي الفؤاد، متوقد الذهن، فطنا، حافر البديهة فلاينسى دليلا ولا يغفل عن نص ولا يفوت عليه إشارة فيأمن الخطاء في اجتهاده إلى حد كبير. ([23])
”مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ وہ سمجھ دار دل ،روشن دماغ ،عقل مند ،اور حقیقت کی گہرائی تک پہنچنے والا ہو،کبھی دلیل کو نہ بھولے اور نہ ہی نص سے غافل ہو ،اور نہ اس سے اشارہ فوت ہو اور اپنے اجتہاد میں بڑی حد تک غلطی سے محفوظ ہو ۔“
5۔ حالاتِ زمانہ کے تقاضوں سے آگاہی
اجتہاد کے لیے مجتہد کا زمانہ شناس ہونا بھی ایک لازمی شرط ہے ۔مجتہد کےلیے ضروری ہے کہ وہ قومی و ملکی مصلحتوں اور زمانہ کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے اچھی طرح آگاہ ہو،لوگوں کے عرف و عادات اور معاملات کی جدید صورتوں کو جانتا ہو ، کیونکہ حالات ِ زمانہ کے تقاضوں سے مکمل آگاہی کے بغیر وہ جدید پیش آمدہ مسائل میں صحیح حکم شرعی تک رسائی اور درست نتیجہ اخذ نہیں کرسکتا ، اس لیے لوگوں کے حالات سے باخبر ہونا ضروری ہے۔ اس بارے میں فقہائے کرام کا مشہور مقولہ ہے:
من جهل بأهل زمانه فهو جاهل ([24])
” جو شخص اپنے زمانے کے لوگوں سے بے خبر ہو وہ جاہل ہے۔“
امام غزالیؒ ائمہ مجتہدین کے اس خصوصی وصف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
كل واحد منهم كان عابداً وزاهداً وعالماً بعلوم الآخرة وفقيهاً في مصالح الخلق في الدنيا ([25])
”ان( آئمہ مجتہدین )میں سے ہر ایک عابد و زاہد اور علوم آخرت کو جاننے والا اور مخلوقِ خدا کی دنیاوی مصلحتوں سے پوری طرح باخبر تھا ۔“
نیزایک اور جگہ مجہتد کے اوصاف کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :
أن ينظر في مصالح الخلق ويقيسها بمعيار الشريعة ([26])
” وہ مخلوقِ خدا کی مصلحتوں میں غور و فکر کر نے والا اور ان کو شریعت کے معیار پر قیاس کرنے والا ہو ۔“
اسی طرح علامہ شامی ؒ نے عرف و عادات میں تغیّرکے بارے میں ایک مستقل رسالہ تحریر کیا ہے،جس میں وہ لکھتے ہیں :
فكثير من الأحكام تختلف باختلاف الزمان لتغير عرف أهله أو لحدوث ضرورة، أو فساد أهل الزمان ، بحث لو بقي الحكم علی ما كان عليه أولاً للزم من المشقة والضرر بالناس، ولخالف قواعد الشريعة المبنية على التخفيف و التيسير، و دفع الضرر و الفساد، لبقاء العالم على أتم نظام و أحسن احكام۔ ([27])
”بہت سے احکام ہیں جو زمانے کی تبدیلی کے ساتھ بدل جاتے ہیں ،اس لیے کہ اہلِ زمانہ کا عرف بدل جاتا ہے، نئی ضرورتیں پیدا ہو جاتی ہیں ، اہلِ زمانہ میں فساد پیدا ہو جاتا ہے ، اب اگر شرعی حکم پہلے کی طرح باقی رکھا جائے تو یہ مشقت اَور لوگوں کے لیے ضرر کا باعث ہوجائے گی اور ان شرعی اصول و قواعد کے خلاف ہوجائے گا جو سہولت وآسانی پیدا کرنے اور نظام ِ کائنات کو بہتر اور عمدہ طریقہ پر رکھنے کے لیے ضرر و فساد کے ازالہ پر مبنی ہے ۔“
علامہ ابن قیم ؒ نے امام احمد بن حنبل ؒ سے نقل کیا ہے کہ کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ جب تک اس میں پانچ خصلتیں نہ پائی جائیں اپنے آپ کو فتویٰ (اجتہاد)کے لیے پیش کرے ۔ان میں سے پانچویں یہ ہے کہ اسے لوگوں کے احوال کا پتہ ہو ۔آگے چل کر علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں:
وَأَمَّا قَوْلُهُ"الْخَامِسَةُ مَعْرِفَةُ النَّاسِ"فَهَذَا أَصْلٌ عَظِيمٌ يَحْتَاجُ إلَيْهِ الْمُفْتِي وَالْحَاكِمُ ([28])
”بہر حال پانچویں شرط "لوگوں کے احوال کی معرفت"یہ بہت بڑا اصول ہے جس کے مفتی اور حاکم دونوں محتاج ہیں ۔“
6۔اجتہاد کا موقع ومحل اور طریقے
مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ اسے اجتہاد کا مقام اور موقع و محل معلوم ہو اور وہ اجتہاد کے طریقوں کو علیٰ وجہ البصیرت جانتا ہو کہ کس مسئلے میں کس وقت اور کس طرح اجتہاد کیا جاتا ہے ، درپیش مسائل میں ائمہ کے مسالک اور ان کے اختلاف سے واقف ہو اور یہ بات معلوم ہو کہ انھوں نے ان مسائل کا حل ادلۂ تفصیلیہ سے کیسے اخذ کیا ۔فقہائے کرام ؒ نے بڑی شدّ و مد کے ساتھ اس بات کی صراحت کی ہے کہ جو شخص متعلقہ مسائل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ کرام ؒ کے مسالک اور ان کے اختلاف سے ناآشنا ہو وہ ہرگز مجتہد ہونے کا اہل نہیں ۔چنانچہ حضرت قتادۃؒ فرماتے ہیں:
من لم يعرف الاختلاف لم يشمّ أنفه الفقه ([29])
” جس شخص نے (علماء وفقہاء) کے اختلاف کی معرفت حاصل نہیں کی اس کو فقہ کی ہوا بھی نہیں لگی۔“
ہشام بن عبد اللہ الرازیؒ فرماتے ہیں:
مَنْ لَمْ يَعْرِفِ اخْتِلَافَ الفُقَهَاءِ فَلَيْسَ بِفَقِيهٍ (ايضاً)
”یعنی جو شخص فقہاء کے اختلاف کو نہ جانتا ہو تو وہ فقیہ نہیں ہے۔“
حضرت عطاء رحمہ اللہ تعالیٰ سے منقول ہے :
لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يُفْتِيَ النَّاسَ حَتَّى يَكُونَ عَالِمًا بِاخْتِلَافِ النَّاسِ.(أيضاً)
”کسی شخص کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو فتویٰ دے یہاں تک کہ وہ لوگوں(علماء و فقہاء) کے اختلاف کو جان لے ۔“
نیز اس کے ساتھ اختلافِ صحابہ اور اختلافِ ائمہ ؒ سے استفادہ اور ان میں تطبیق و ترجیح کی صلاحیت بھی اس میں موجود ہو۔
7۔تقویٰ و پرہیزگاری
ایک انتہائی اہم اور بنیادی شرط یہ ہے کہ مجتہدتقویٰ و پرہیزگاری اور عند اللہ جواب دہی کا یقینِ کامل رکھتا ہو ، کیونکہ تقویٰ ایسا جوہر ہے جس کے بغیر شرعی مسائل کاصحیح استنباط تقریبا ناممکن ہے کیونکہ جس شخص کا دل خوف خدا سے خالی ہو گا وہ اس ذمے داری کو اپنے لیے بوجھ سمجھے گا اور اس بوجھ کو اتارنے کے لیے وہ اٹکل پچو سے کام لے گا ۔نیز یہ کہ وہ عادل ہو فاسق نہ ہو ، کبائرکے ارتکاب اور صغائر پر اصرار سے بچتا ہو ، خواہشاتِ نفسانی اور ہویٰ پرستی سے اجتناب کرنے والا ہو اور زبانِ حال سے اس شعر کا صحیح مصداق ہو:
أنا عبد الحق لا عبد الهوى | لعن الله الهوى فيما لعن |
” میں حق کا بندہ ہوں، خواہشات ِ نفسانی کا بندہ نہیں ہوں، خواہشاتِ نفسانی پر اللہ کی لعنت ہو۔“
اگر ہم آئمہ مجتہدین کے حالاتِ زندگی پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ وہ سب حضرات تقویٰ و طہارت ،اخلاص و للہیت ،خوفِ خدا اور عند اللہ جواب دہی کا احساس رکھنے والے تھے۔
8۔مقاصد شریعت سے واقفیت
مجتہد کے لئے ضروری ہے کہ وہ مقاصد ِ شریعت اور مزاج ِ شریعت سے پوری واقفیت رکھتا ہو ۔ شریعت کی روح اور اس کے رموز و اسرار کا اسے علم ہو۔ نصوص شرعیہ کو سمجھ کر اسے واقعات پر منطبق کرنا مقاصدِ شریعت کی معرفت پر موقوف ہے ۔ جو شخص مقاصد شریعت کا شعور نہ رکھتا ہو اسے اجتہاد کا درجہ حاصل نہیں ہو سکتا ۔ لوگوں کی مصلحتوں اور اغراض سے بھی تفصیلی طور پر باخبر ہو کیونکہ شریعت کی بنیاد ہی لوگوں کی مصلحتوں اور ان کے مفادات کو سامنے رکھ کر رکھی گئی ہے لیکن مفادات کا اعتبار شریعت کے متعین کردہ طریقوں پر ہوگا ۔ مقاصد شریعت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ علامہ شاطبی ؒ اجتہاد کے لیے دو بنیادی شرطوں کو لازم قرار دیتے ہیں،ان میں سے ایک مقاصدِ شریعت کی فہم کا ادراک ہے۔ چنانچہ علامہ شاطبی ؒ فرماتے ہیں :
إِنَّمَا تَحْصُلُ دَرَجَةُ الِاجْتِهَادِ لِمَنِ اتَّصَفَ بِوَصْفَيْنِ:أَحَدُهُمَا: فَهْمُ مَقَاصِدِ الشَّرِيعَةِ عَلَى كمالها. والثاني: الممكن مِنَ الِاسْتِنْبَاطِ بِنَاءً عَلَى فَهْمِهِ فِيهَا.أَمَّا الْأَوَّلُ؛ فَقَدْ مَرَّ فِي كِتَابِ الْمَقَاصِدِ أَنَّ الشَّرِيعَةَ مَبْنِيَّةٌ عَلَى اعْتِبَارِ الْمَصَالِحِ، وَأَنَّ الْمَصَالِحَ إِنَّمَا اعْتُبِرَتْ مِنْ حَيْثُ وَضَعَهَا الشَّارِعُ كَذَلِكَ، لَا مِنْ حَيْثُ إِدْرَاكِ المكلَّف؛ إِذِ الْمَصَالِحُ تختلف عند ذلك بالنسب والإضافات ([30])
” اجتہاد کا مرتبہ صرف اس شخص کو حاصل ہوسکتا ہے جو دو صفتوں کے ساتھ متّصف ہو ۔ان میں سے ایک مقاصدِ شریعت کی فہم کا کامل ہونا ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس کی فہم پر بناء کرتے ہوئے مسائل کا استنباط ممکن ہو ۔ بہرحال پہلی شرط کتاب المقاصد میں گزر چکی ہے کہ شریعت لوگوں کی مصلحتوں کے اعتبار پر مبنی ہے مصالح کا اعتبار اس لیے کیا گیا ہے کہ شارع نے اسے اسی طرح وضع کیا ہے نہ کہ مکلف کے ان مصالح کو حاصل کرنے کی وجہ سے ،اس لیے کہ مصلحتیں نسب اور اضافات کے وقت مختلف ہوتی ہیں ۔“
اجتہاد کی ان آٹھ شرائط کو تفصیل سے بیان کرنے کے بعد امام غزالیؒ فرماتے ہیں :
اجْتِمَاعُ هَذِهِ الْعُلُومِ الثَّمَانِيَةِ إنَّمَا يُشْتَرَطُ فِي حَقِّ الْمُجْتَهِدِ الْمُطْلَقِ الَّذِي يُفْتِي فِي جَمِيعِ الشَّرْع ([31])
” ان آٹھ شرائط کا مجتہد مطلق میں جمع ہونا شرط ہے جو شریعت کے تمام مسائل میں فتویٰ دیتا (اجتہاد کرتا)ہے۔“
بہر حال ! جو شخص ان مذکورہ بالا طے شدہ شرائط کی روشنی میں اجتہاد کرے گا وہ معتبر و مقبول ہوگا اور ان شاء اللہ تعالیٰ نصر ت ِ خدا وندی اس کو حاصل ہوگی ، اور جو اجتہاد ان متعینہ اوصاف اور مطلوبہ شرائط کے بغیر کیا جائے گا وہ غیر معتبر اور غیر مقبول ہوگا ،اور فتنہ کا باعث بنے گا ۔ لہذا شرائظ کے بغیر اجتہاد جائز نہیں ہے ۔ یہ ماقبل میں ذکر کردہ شرائط تقریباً متفق علیہا ہیں،اگر ان میں کوئی معمولی سا اختلاف ہے بھی سہی تو وہ لائقِ التفات نہیں ۔
فائدہ: عصر حاضر میں مجتہد کی ذکر کردہ تمام صفات کا کسی ایک شخص میں جمع ہونا تقریبا مشکل ہے ،کیونکہ فسادِ زمانہ کے سبب ہویٰ پرستی اور علمی انحطاط دن بدن بڑھ رہا ہے ،اور اگر کوئی ایسا شخص پایا جائے جو ان تمام صفات سے مزین ہو تو کسی کرامت اور معجزے سے کم نہیں ۔لہذا اب علمائے کرام کو انفرادی اورشخصی اجتہاد کے بجائے اجماعی اجتہاد کرنا چاہیے کیونکہ اجماعی اجتہاد میں غلطی کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے ۔
اہلیتِ اجتہاد کے لیے مختلف فیہا شرائط
اجتہاد کی متفق علیہا شرائط کے بعد اب ان شروط کو ذکر کیا جا رہا ہے جن کے بارے میں قابلِ ذکر اختلاف پایا جاتا ہے۔بعض لوگ ان شروط کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن جمہور حضرات انھیں لازم قرار نہیں دیتے ۔وہ شرائط حسب ذیل ہیں :
1۔علم اصول ِ دین سے واقفیت
”اصول دین“سے مراد علمِ کلام ہے اور وہ احکام ہیں جو عقائد سے متعلق ہیں ۔
اجتہاد کے لیے مجتہد کا اُصولِ دین سے واقف ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ یہ ایسی شرط ہے جس کے بارے میں اختلاف ہے ۔معتزلہ کے نزدیک یہ شرط ہے،لیکن جمہورِ فقہاء کے نزدیک اصول ِ دین سے واقفیت ضروری نہیں بلکہ مجتہد کا صحیح العقیدہ مسلمان ہونا کافی ہے۔چنانچہ علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی ؒ جمہور کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ورأيى أن هذا العلم ليس بضروري للمجتهد في الفقه ، وحسبه أن يكون مسلما صحيح العقيدة وقد كان من أئمة السلف من ينكر"علم الكلام"و هو مروي عن مالك والشافعي وأحمد، فرأي الجمهورهو الأولىٰ ۔ ([32])
”میری رائے (بھی)یہ ہے کہ مجتہد فی الفقہ کے لیے(اصول ِ دین)کو جاننا ضروری نہیں ہے ،بلکہ اس کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ وہ صحیح العقیدہ مسلمان ہو ۔ ائمہ اسلاف ( مجتہد کے لیے )علمِ کلام کے شرط ہونے کا انکار کرتے ہیں ،اور یہی رائے امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ سے مروی ہے ،لہذا جمہور کی رائے اولیٰ ہے ۔“
2۔علم منطق کو جاننا
دوسری مختلف فیہا شرط یہ ہے کہ آیا اجتہاد کے لیے مجتہد کا علم ِ منطق کو جاننا ضروری ہے یا نہیں ؟اصولیین میں سے بعض حضرات مثلاً امام رازی ؒ اور امام غزالی ؒ وغیر ہ کے نزدیک اجتہاد کے لیے منطق کا جاننا ضروری ہے ،کیونکہ وہ علمِ منطق کو تمام علوم کے لیے میزان قرار دیتے ہیں ۔لیکن جمہور فقہاء مثلا شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور علامہ سیوطی رحمہما اللہ وغیرہ کےنزدیک یہ شرط نہیں ہے ،بلکہ جمہور کے نزدیک اتنا کافی ہے کہ مجتہدعقل و فہم اور عمدہ بصیرت رکھنے والا ہو اور مسائل اخذ کرنےکی قدرت و مہارت رکھتا ہو ۔چنانچہالاجتهاد فی الشریعة الاسلامیة میں مذکور ہے:
و قد نقد شيخ الإسلام إبن تيمية المنطق نقدا علميا في كتابين له :كبيروصغير، و بين أن المنطق لايحتاج إليه الذكي ولاينتفع به البليد۔ ([33])
”اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے اپنی دونوں کتابوں (کبیر اور صغیر)میں علم منطق پر علمی اعتبار سے جَرح کی ہے۔اور یہ بات بیان کی ہے کہ سمجھ دار آدمی منطق کا محتاج نہیں ہوتا اور عقل مند اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا ۔“
بلاشبہ صحابہ کرام ،تابعین ؒ ،تبع تابعین ؒ اور آئمہ مجتہدین ؒنے اپنے اپنے دور میں نئے پیش آمدہ مسائل میں اپنے اجتہادات پیش کیے اور امت نے ان کے اجتہادات کو قبول کیا ، حالانکہ ان حضرات کے دور میں یونانی علمِ منطق عربی میں منتقل نہیں ہوا تھا ،اور یہ حضرات اس کو نہیں جانتے تھے ۔ ہمارے اسلاف میں سے بعض تو اس کے حصول کو اضاعتِ وقت قرار دیتے ہیں ،جبکہ بعض سرے سے حرام ہونے کے قائل ہیں،جیسا کہ مذکور ہے :
حتى إن من العلماء من حرم تعلم المنطق مثل ابن الصلاح والنووي كما ذكر ذلك صاحب السلم فكيف يعد شرطا ضروريا من يراه بعض العلماء حراما؟ (حوالہ بالا)
یعنی علماء میں سے بعض حضرات نےمنطق کے سیکھنے کو حرام قرار دیا ہے مثلا ً ابن صلاحؒ اور نووی ؒ جیسا کہ صاحبِ سُلّم ؒنے ذکر کیا ہے ۔پس جس چیز کو بعض علماء حرام کہیں وہ کیسے اجتہاد کے لیے ضروری شرط ہو سکتی ہے ؟
آخر میں ڈاکٹریوسف القرضاوی ؒ اپنی رائے پیش کرتے ہیں:
وبهذا نرى أن المنطق ليست شرطا للإجتهاد، كيف ولم يكن يعرفه أحد من الأئمة المتبوعين۔(حوالہ بالا)
”ہماری رائے یہی ہے کہ منطق اجتہاد کے لیے شرط نہیں ہے اور یہ شرط کیسےہو سکتی ہے حالانکہ ئمہ متبوعین میں سے کوئی بھی منطق نہیں جانتا تھا ۔“
3۔فقہ کےفروعی مسائل کا علم
تیسری اختلافی شرط بہت اہمیت کی حامل ہے اور وہ یہ ہے کہ مجتہد کے لیے فقہ کے فروعی مسائل کا علم ضروری ہے یا نہیں ؟بعض حضرات مثلاً ابو اسحاق ؒ اور ابو منصور ؒ اس کو شرط قرار دیتےہیں ،جبکہ جمہور حضرات فرماتے ہیں کہ صرف اصولِ فقہ کی ممارست ضروری ہے،تفریعی مسائل کو جاننا لازم نہیں۔چنانچہ امام رازی ؒ فرماتے ہیں :
وأما تفاريع الفقه فلا حاجة إليها ۔ ([34])
”اور بہر حال(مجتہد کے لیے ) فقہ کے تفریعی مسائل کوجاننے کی کوئی حاجت نہیں ہے ۔“
اور امام غزالی ؒ سے بھی منقول ہے :
فأما الكلام و تفاريع الفقه فلا حاجة إليهما ‘ كيف يحتاج إلى تفاريع الفقه‘ و هذه التفاريع يولدها المجتهدون ويحكمون فيها‘ بعد حيازة منصب الإجتهاد؟فكيف تكون شرطا في منصب الإجتهاد‘ وتقديم الإجتهادعليها شرط؟ ([35])
”بہرحال علم الکلام اور فقہ کے تفریعی مسائل کے علم کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔فقہی تفریعات کی ضرورت کیسے ہوسکتی ہے حالانکہ یہ تفریعات خود مجتہدین کے اجتہاد سے پیدا ہوتی ہیں اور وہی منصبِ اجتہاد میں مہارت حاصل ہونے کے بعد اس میں فیصلہ کرتے ہیں ۔ لہذا یہ منصبِ اجتہاد کے لیے کیسے شرط ہوسکتی ہے حالانکہ اجتہاد کااس پر مقدم ہونا شرط ہے ؟“
4۔ غیرمسلم کا مجتہد ہونا
چوتھی شرط جس میں اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ آیا مجتہد کا مسلمان ہونا ضروری ہے یا پھر غیر مسلم بھی منصب ِ اجتہاد پر فائز ہو سکتا ہے؟جمہور فقہائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اجتہاد کے لیے اسلام شرطِ اوّل ہے ،البتہ علامہ شاطبی جمہور سے تفرد اختیار کرتے ہیں اور ان کی رائے یہ ہے کہ اجتہاد کے لیے اسلام شرط نہیں، لہٰذا اگر کسی غیر مسلم شخص میں اجتہاد کی دیگر تمام شرائط پائی جائیں تو وہ اجتہادکا اہل ہوگا۔چنانچہ علامہ شاطبی کا یہ تفرد اُن کی کتاب الموافقاتمیں مذکور ہے ،جس میں وہ فرماتے ہیں:
وَقَدْ أَجَازَ النُّظَّارُ وُقُوعَ الِاجْتِهَادِ في الشريعة من الكافر المنكر لِوُجُودِ الصَّانِعِ وَ الرِّسَالَةِ وَالشَّرِيعَةِ۔ ([36])
ترجمہ: اہل نظر و فکر نے شریعت میں کافر کو(بھی) اجتہاد کرنے کی اجازت دی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور رسالت و شریعت کا منکر ہو۔
لیکن جمہورِ امت کے نزدیک غیر مسلم اجتہاد کا مجاز اور اس کا اہل نہیں ہے کیونکہ اجتہاد نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے ،اور یہ قطعا ً ممکن نہیں کہ ایک شخص جو نور ِ ایمانی سےمحروم اور حکمتِ نبویؐ سے نا آشنا ہو پھر بھی وہ اجتہاد کرنے لگے۔اس لیے جمہور کی طرف سے علامہ شاطبی ؒ کے اس تفرّد کو سختی سے ردّ کیا گیا ہے ۔چنانچہ مشہور رسالہ الإجتهادالجماعي في التشريع الإسلامي میں مذکور ہے :
بأن هذا القول غير مستقيم، لأن الاجتهاد في الشريعة الإسلامية لا يسوغ إلا لمن كان مؤمنًا بها، أما من لم يتشبع بروح التشريــع اعتقــــادًا وسلوكـــًا، لن يصــل إلى معرفــة الأحكـــام على وجههـــا الصحيح . . . فأساس الاجتهاد في الإسلامِ الإيمانُ بالوحي، وبصدق الموحى إليه وهو الرسول صلى الله عليه و سلم، ومن لم يؤمن بالوحي وصاحبه، فكيف يجتهد مستندًا إلى أساس، وهو غير مسلمٍ به. ([37])
” (علامہ شاطبی کا) یہ قول صحیح نہیں ہے ،اس لیے کہ شریعتِ اسلامیہ میں اجتہاد کی گنجائش صرف مومن کے لیے ہے ۔بہر حال جوشخص شریعت کی روح سے اعتقاد و عمل کے اعتبار سے سیراب نہیں ہوا تو وہ صحیح طریقے سے ( شرعی) احکام کی معرفت تک نہیں پہنچ سکتا۔ پس اسلام میں اجتہاد کا مدار اس بات پر ہے کہ وحی اور جس ذات پر وحی نازل کی گئی یعنی رسول اللہ ﷺ پر ایمان لایا جائے ،اور جو شخص وحی اور صاحبِ وحی پر ایمان نہیں رکھتا تو وہ کیسے مجتہد ہو سکتا ہے؟ حالانکہ وہ غیر مسلم ہے ۔“
لہذا یہ ضروری ہے کہ مجتہد عاقل بالغ ہو ،اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر کامل ایمان رکھتا ہو ، اور رسول اللہ ﷺکی ذات ِ اقدس اور آپؐ کی تعلیماتِ مطہرہ پر پورا یقین رکھتا ہو۔ بہر حال پتہ چلا کہ غیر مسلم مجتہد نہیں بن سکتا ، اسی لیے جمہور فقہاءِ امت نے علامہ شاطبیؒ کے اس تفرد کو قبول نہیں کیا۔
علامہ شاطبیؒ کی رائے کا محل
ہمارے نزدیک علامہ شاطبیؒ کی رائے کا مطلب وہ نہیں ہے جو ظاہر سے سمجھ آرہا ہے بلکہ اس کا صحیح اور صحت مند محل یہ ہے کہ جمہوری اسلامی پارلیمنٹ میں کچھ لوگ ایک ایسے مسئلہ پر غور کریں جو خالص دنیاوی نوعیت کا ہو تو اس میں علمائے اسلام تو یہ واضح کردیں کہ اسلام کا اس سے کیا تعلق ہے اور اس کے کون کون سے گوشے دین سے متاثر ہوتے ہیں؟اورا ہلِ دنیایا کچھ غیر مسلم اس کے ان پہلوؤں کو اجاگر کریں جن کا تعلق واقعات اور خارجی دنیا سے ہے تو ایسا کرنے کے وہ بھی شرعاً مجاز ہیں۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس طرح کی ملی جلی فکری اور اجتہادی کوششوں سے مسئلہ اَور نکھر جائے گا اور تعیین و اطلاق کی ایک لا ئقِ عمل شکل اختیار کر لے گا ۔اس کی رائے کو عدم اسلام کے عذر کی بنا پر غیر مقبول قرار نہیں دیا جائے گا ۔البتہ یہ بات بہت ہی ضروری ہے کہ ایسا شخص مجتہد ہرگز نہیں کہلائے گا کیونکہ اجتہاد کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ ([38])
ایک شبہ کا ازالہ
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مجتہد وہ ہے جسے شریعت کے ہر ہر مسئلہ کا پورا علم اور مکمل واقفیت ہو حالانکہ ایسا نہیں ہے ، بلکہ مجتہد کے لئے اتنا کافی ہے کہ جن مسائل میں وہ اجتہاد کر رہاہے ان مسائل کی پوری تحقیق اور اس کے متعین پہلوؤں کی چھان بین میں اس کی رائے مجتہدانہ ہو اور درپیش مسائل میں اجتہاد کے حوالے سے ان تمام چیزوں کا پورا علم رکھتا ہو جو اسے مطلوبہ نتائج تک پہنچا دیں ، چنانچہ"صاحبِ کشف الاسرار" فرماتے ہیں:
وَلَيْسَ مِنْ شَرْطِ الْمُفْتِي أَنْ يُجِيبَ عَنْ كُلِّ مَسْأَلَةٍ بِجَوَابٍ فَقَدْ سُئِلَ مَالِكٌ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ أَرْبَعِينَ مَسْأَلَةً فَقَالَ فِي سِتٍّ وَثَلَاثِينَ لَا أَدْرِي وَتَوَقَّفَتْ الصَّحَابَةُ وَعَامَّةُ الْمُجْتَهِدِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فِي الْمَسَائِلِ. فَإِذَنْ لَا يُشْتَرَطُ إلَّا أَنْ يَكُونَ عَلَى بَصِيرَةٍ فِيمَا يُفْتِي فَيُفْتِي فِيمَا يَدْرِي۔ ([39])
”مفتی (مجتہد) کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ ہر مسئلے کا جواب دے ،امام مالک ؒ سے چالیس سوالات پوچھے گئے تو انہوں نے چھتیس کے بارے میں فرمایا : لاادری(یعنی میں نہیں جانتا) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور مجتہدین کرام ؒ بہت سے مسائل کے بارے میں توقف فرماتے تھے ۔پس شرط یہ ہے کہ جس مسئلہ کے بارے میں وہ فتویٰ دے رہا ہے اس میں پوری بصیرت رکھتا ہو ،جس مسئلہ کو جانتا ہے اس بارے میں فتویٰ دے ۔ “
بہرحال مذکورہ عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مجتہد کے لئے ہرہر شرعی مسئلے کا جاننا شرط نہیں ہے بلکہ جن مسائل میں وہ اجتہاد کررہا ہے اس کے تمام پہلوؤں سے آگاہی ضروری ہے۔ صحابہ کرام، تابعین ؒ اور آئمہ مجتہدین ؒ کو بھی بساا وقات ایسے مسائل سے واسطہ پڑتا تھا جن کا انہیں علم نہ ہوتا تھا باوجود یہ کہ وہ مجتہد تھے ۔یہی وجہ ہے کہ ان حضرات سے بہت سے مسائل میں "لاادری "یعنی میں نہیں جانتا ، کہنا ثابت ہے جس سے ان کی شان اجتہاد میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
نتائج بحث
اب تک جو معروضات پیش کی گئیں ہیں ان سب کا حاصل اور لب لباب حسب ذیل ہے :
1۔اجتہاد کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ بہت اہم اور نازک دینی و شرعی فریضہ ہے ۔
2۔اسلام ہر شخص کواجتہاد کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اس کے لیے تبحّرِ علمی ،دقّتِ نظر ،عقل و فہم اور غیر معمولی صلاحیتیں درکار ہیں ۔
3۔بغیر اہلیت و صلاحیت کے کیا گیا اجتہاد غیر مقبول و غیر معتبر ہے ،ایسا نام نہاد اجتہاد قابلِ ردّ ہے اور یہ لوگوں میں فتنہ و فساد کے پھیلنے کا ذریعہ ہے ۔
4۔ اہلیتِ اجتہاد کی متفق علیہا اور متعیّنہ شرائط یہ ہیں :لسانِ عربی پر مہارت ،قرآن و حدیث پر مکمل عبور ،اصولِ فقہ بالخصوص قیاس کے اصول و شرائط کا علم ، خداداد فہم و فراست ،حالات زمانہ کے تقاضوں سے آگاہی ،اجتہاد کا موقع و محل اور اس کے طریقوں سے شناسائی ،تقویٰ و پرہیزگاری اور مقاصد شریعت سے واقفیت ۔
5۔ اجتہاد کے لیے بعض شرائط مختلف فیہا ہیں مثلاً اصولِ دین (علم ِ کلام) کی معرفت ، علم منطق کو جاننا ، فقہ کے فروعی مسائل کاعلم اور غیر مسلم کا اجتہاد وغیرہ۔ بعض حضرات کے نزدیک مجتہد میں ان چیزوں کا پایا جانا شرط ہے لیکن جمہور علماء و فقہاء ان کو شرط لازم قرار نہیں دیتے ۔ علامہ شاطبی ؒ نے جمہور سے تفرّد اختیار کرتے ہوئے غیر مسلم کو بھی اجتہاد کی اجازت دی ہے،لیکن جمہور ِ فقہاء کے نزدیک غیر مسلم اجتہاد کا اہل نہیں ۔
6۔ دلائل و شرائط کی روشنی میں کیا گیا اجتہاد مقبول و مستحسن ہے اور جو اجتہاد بغیر دلائل و شرائط کے کیا جائے وہ مردود ہے اور احادیث میں اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ۔
حوالہ جات
- ↑ ( )الغزالي، أبو حامد محمد بن محمد الطوسي، المستصفى: 342 ،الناشر: دارالكتب العلمية، الطبعة الأولى: 1413هـ -1993م
- ↑ () شاه ولي الله، أحمد بن عبد الرحيم بن الشهيد وجيه الدين الدهلوي، عقد الجيد في أحكام الاجتهاد والتقليد:3 ،الناشر: المطبعة السلفية ـ القاهرة
- ↑ ( )عبد العزيز بن أحمد بن محمد علاء الدين البخاري الحنفي، كشف الأسرار شرح أصول البزدو ي:4/ 14،الناشر: دار الكتاب الإسلامي
- ↑ ( )ابن کثیر ،اسماعیل بن عمر حافظ عماد الدین الدمشقی ،تفسیر ابن کثیر : 1 /589
- ↑ () مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري، صحيح مسلم :1/ 341،الناشر: دار إحياء التراث العربي بيروت
- ↑ () الدارمي، محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ، صحيح ابن حبان: 10/ 267 ، الناشر: مؤسسة الرسالة بيروت، الطبعة الثانية:1414 – 1993
- ↑ () البخاري، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله الجعفي البخاري ، صحيح البخاري: 8/ 54، الناشر: دار طوق النجاة، الطبعة الأولى: 1422ه
- ↑ () أبو محمد عبد الله بن عبد الرحمن بن الفضل بن بَهرام الدارمي ، الدارمی، کتاب العلم:1/258، الناشر: دار المغني،المملكة العربية السعودية،الطبعة الأولى: 1412 هـ - 2000 م
- ↑ () أبوداود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشيرالأزدي السِّجِسْتاني،سنن أبي داود:3 /321، الناشر: المكتبة العصرية بيروت
- ↑ ( )ابن قيم، محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين الجوزية، إعلام الموقعين عن رب العالمين: 1 / 43، الناشر: دار الكتب العلمية ييروت،الطبعة الأولى 1411هـ - 1991م
- ↑ () ابن قيم، محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين الجوزية، إعلام الموقعين عن رب العالمين: 2 / 123، الناشر: دار الكتب العلمية ييروت،الطبعة الأولى 1411هـ - 1991م
- ↑ () البخاري، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، الصحیح للبخاری: 9 / 108، رقم الحدیث: 7352 ، الناشر: دار طوق النجاة ،الطبعة الأولى: 1422هـ
- ↑ () أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني، مسند احمد: 11 / 367 ،رقم الحدیث: 6755 ، الناشر: مؤسسة الرسالة،الطبعة الأولى: 1421 هـ - 2001 م
- ↑ () سراج الدين عمر بن إبراهيم بن نجيم الحنفي، النهر الفائق شرح كنز الدقائق:3/ 599،الناشر: دار الكتب العلمية،الطبعة الأولى: 1422هـ - 2002م
- ↑ () الشاه ولي الله، أحمد بن عبد الرحيم بن الشهيد وجيه الدين بن معظم بن منصورالدهلوي،عقد الجيد في أحكام الاجتهاد والتقليد:4 ،المطبعة السلفية - القاهرة
- ↑ ( )الغزالي، أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الطوسي، المستصفى: 344 ،الناشر: دارالكتب العلمية ،الطبعة الأولى: 1413هـ- 1993م
- ↑ ( )الغزالي، أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الطوسي، المستصفى: 342 ،الناشر: دارالكتب العلمية ،الطبعة الأولى: 1413هـ- 1993م
- ↑ ( )الغزالي، أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الطوسي، المستصفى: 343 ،الناشر: دارالكتب العلمية ،الطبعة الأولى: 1413هـ- 1993م
- ↑ () الرازي، أبوعبد الله محمد بن عمر بن الحسن الملقب بفخر الدين الرازي،المحصول: 6/ 25،الناشر: مؤسسة الرسالة ، الطبعة الثالثة:1418هـ ـ 1997م
- ↑ () الشوكاني، محمد بن علي بن محمد بن عبد الله اليمني، إرشاد الفحول إلى تحقيق الحق من علم الأصول:2/ 210، الناشر: دار الكتاب العربي، الطبعة الأولى: 1419هـ - 1999م
- ↑ () الدکتور عبد العزیز الخیاط ،الاجتهاد فی الشریعة الاسلامیة لمؤتمر الفقه الاسلامی، المسئلة الرابعة فی شروط الاجتہاد، ص: 30،29
- ↑ () کاندهلوی مولانا محمد ادریس ؒ ،اجتہاد اور تقلید ،بحث شروط الاجتہاد ص: 65
- ↑ () الدکتور عبد العزیز الخیاط ،الاجتهاد فی الشریعة الاسلامیة لمؤتمر الفقه الاسلامی، المسئلة الرابعة فی شروط الاجتہاد، ص: 30
- ↑ () ابن عابدين،محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي،رد المحتار على الدر المختار،الناشر: دار الفكر- بيروت،الطبعة الثانية: 1412هـ - 1992م
- ↑ () الغزالي، أبو حامد محمد بن محمد الطوسي، إحياء علوم الدين: 1/ 24، الناشر: دار المعرفة – بيروت
- ↑ () الدکتور عبد العزیز الخیاط ،الاجتهاد فی الشریعة الاسلامیة لمؤتمر الفقه الاسلامی، المسئلة الرابعة فی شروط الاجتہاد ،ص: 27
- ↑ () ابن عابدين،محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي الشامي، نشر العرف في بناء بعض الاحکام علی العرف،ص:125/126، الناشر مرکز البحوث الإسلامیة مردان ،الطبعة الأولى :2012 م _1433 ھ
- ↑ () ابن قيم، محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين الجوزي، إعلام الموقعين عن رب العالمين:4/ 152، الناشر: دار الكتب العلمية – ييروت ،الطبعة الأولى: 1411هـ - 1991م
- ↑ () الشاطبي، إبراهيم بن موسى بن محمد اللخمي الغرناطي، الموافقات:5/ 122، الناشر: دار ابن عفان، الطبعة الأولى: 1417هـ/ 1997م
- ↑ () الشاطبي،إبراهيم بن موسى بن محمد اللخمي الغرناطي،الموافقات :5/ 42،41‘ الناشر: دارابن عفان،الطبعة الأولى: 1417هـ/ 1997م)
- ↑ ( )الغزالي، أبو حامد محمد بن محمد الطوسي، المستصفى: 345 ،الناشر: دارالكتب العلمية ، الطبعة الأولى: 1413هـ - 1993م
- ↑ ( )القرضاوي ، الدكتور محمد يوسف‘ الإجتهاد في الشريعة الإسلامية ص:51‘ الناشر: دارالقلم بالكويت‘ الطبعة الأولى1417ھ 1996م
- ↑ ( )القرضاوي ، الدكتور محمد يوسف‘الإجتهاد في الشريعة الإسلامية ص:53‘الناشر:دارالقلم بالكويت‘الطبعة الأولى: 1417ھ 1996م
- ↑ ( )الرازي، أبوعبد الله محمد بن عمر بن الحسن الملقب بفخر الدين الرازي،المحصول: 6/ 25،الناشر: مؤسسة الرسالة، الطبعة الثالثة:1418هـ ـ 1997م
- ↑ ( )القرضاوي ، الدكتور محمد يوسف‘ الإجتهاد في الشريعة الإسلامية ص:54‘ الناشر: دارالقلم بالكويت‘ الطبعة الأولی: 1417ھ 1996م
- ↑ ( )الشاطبي، إبراهيم بن موسى بن محمد اللخمي الغرناطي، الموافقات:5/49،48، الناشر: دار ابن عفان، الطبعة الأولى: 1417هـ/ 1997م
- ↑ ( )عمر عبيد حسنة،الإجتهادالجماعي في التشريع الإسلامي(کتاب الأمة:سلسلة دوریّة تصدر کل شھرین عن وزارۃ الاوقاف و الشؤون الاسلامیة-قطر)ص:61،62 ،الطبعۃ:ذو القعدۃ 1418ھ
- ↑ ( )مولانا محمد حنیف ندویؒ ، ماخوذ از مسئلہ اجتہاد : ص 116، ناشر ادارہ ثقافت اسلامیہ کلب روڈ لاہور، طباعت ثانی 1961 ء
- ↑ ( )العزيز بن أحمد بن محمد، علاء الدين البخاري الحنفي ، كشف الأسرار شرح أصول البزدوي : 4/ 17 ،الناشر: دار الكتاب الإسلامي ،الطبعة: بدون طبعة وبدون تاريخ
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 32 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 32 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 32 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 32 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 32 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 32 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 32 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 32 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 32 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 32 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 32 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 32 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 32 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 32 Issue 1 | 2018 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |