32
1
2018
1682060084478_500
90-108
http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/60
Of the several factors that justify the greatness of Islamic Culture and survived the test of time, one is the pride of place ascribed to woman in human society. Since the dawn of Islamic civilization, woman has been respected and cored and her rights have been protected and, thus, womanfolk has been made a purposeful existence. However, Islam, being a religion of nature, does not bring woman on the line of equality with man as the Islam is the religion of justice; not that of equality. The Holy Quran has very apparently determined the rights and duties of man and woman and these all are based on natural facts and laws as well. In the contemporary times, progressive as well as west-inspired circles of our society have put numerous objections on the issue of divorce. They opine that by giving man right to divorce, woman has been deprived of equal status; hence this one-sided right has not only disturbed the family life, but put woman at an interior place. This point of view does not testify to the very facts of Islamic practices in connection with the institution of divorce. In order to understand the historical background of the institution of divorce, laws and practices in vogue in two major religions of the world-Judaism and Christianity, are discussed in a brief manner. Besides, various reforms, from time and again, introduced in divorce in west are also touched upon in nutshell. However, major portion of this article focuses on Islamic teachings regarding divorce and its implications. Therefore, this research article attempts to highlight the various aspects of divorce in the light of Islamicteachings in a comprehensive manner so as to remove the doubts of so-called west-oriented circles of our society.
اسلام دین فطرت ہے، اس کے تمام احکام فطری حقیقتوں پر مبنی ہیں۔ اور فطری تقاضوں کو قانونی صورت دینے کا دوسرا نام شریعت ہے۔ عورت کے بارے میں اسلام کی تعلیمات بھی اس بنیادی اصول پر مبنی ہیں۔ اسلامی شریعت میں عورت اور مرد کی مساوات کا کوئی تصور نہیں ہے اسلام دین عدل ہے دین مساوات نہیں ہے، اسلام مواقع میں مساوات دیتا ہے لیکن اہلیت کی بنا پر اگر کوئی آگے بڑھ جائے تو مساوات کے نام پر ناانصافی کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے۔ قرآن نے عورت اور مرد دونوں کے حقوق اور فرائض متعین کر دیے ہیں مسلمان مرد اور عورتیں احکام الہی پر راضی ہوتے ہیں اور یہ ان کے عقیدے کا معاملہ ہے۔قرآن نے مرد اور عورت کے لیے ان کی خلقت کے مطابق حقوق اور فرائض رکھے ہیں دونوں پر لازم ہے کہ اللہ کو ایک مانیں اسی کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ارکان اسلام پر ایمان لائیں ۔
عصر حاضرمیں بعض روشن خیال طبقوں، متاثرین مغرب اور مستشرقین نے اسلامی تعلیمات پر طرح طرح کے ایسے اعتراض اٹھانا شروع کر دیے ہیں جن کی نظیر گزشتہ صدیوں میں بھی ملتی ہے اور بعض ایسے اعتراضات ہیں جن کا تعلق دور جدید کی عقل پرستی سے ہے ۔ چونکہ اسلام کی بنیاد اور اساس قرآن کریم ہے اس لحاظ سے دشمنان اسلام نے سب سے زیادہ اعتراضات قرآنی آیات پر اٹھائے ہیں۔ طلاق کا مسئلہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہےیعنی اگر عورت ومرد کا تعلق ازدواج ناکام ہوجائے ، حدوداللہ کے اندر رہتے ہوئے مرد وعورت میں صلح وآشتی اور اتحاد واتفاق کی زندگی گزارنا محال ہوجائےتو ایسے موقعے پر مرد اپنی خواہش سے عورت کو علیحدہ کرسکتا ہے، مگر یہ بالکل آخری شکل ہے۔اسلامی تعلیمات میں اس حوالے سے مختلف صورتیں بیان کی جاچکی ہیں۔
چناںچہ موجودہ دور میں ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ مرد کو حق طلاق دے کر عورت اور مرد کی مساوات پر قدغن لگائی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے گھر تباہ ہورہے ہیں، خاندانی زندگی متاثر ہورہی ہے اور مرد جیسے چاہتا ہے عورت کو ذلیل کرتا ہے۔ اورقرآن مجید کی تعلیمات سے ثابت ہے کہ عورت اور مرد میں بحیثیت مجموعی کوئی فرق نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں‘ زندگی گزارنے میں دونوں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے طلاق کا نظام اسلام سے پہلے بھی رائج تھااور تمام مذاہب میں طلاق کا بے مہار سلسلہ چلتا تھا اور اسلام نے طلاق کو مربوط ، منظم اور قواعد وضوابط کا پابند کیا۔ لہٰذا زیر نظر مقالے میں حق طلاق کے حوالے سے اسلام کی تعلیمات پر تحقیقی انداز میں روشنی ڈالی جائے گی۔
عورت اور مرد کے حقوق وفرائض
اسلامی شریعت میں عورت اور مرد کی مساوات کا کوئی تصور نہیں ہے اسلام دین عدل ہے دین مساوات نہیں ہے، اسلام مواقع میں مساوات دیتا ہے لیکن اہلیت کی بنا پر اگر کوئی آگے بڑھ جائے تو مساوات کے نام پر ناانصافی کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے، قرآن نے عورت اور مرد دونوں کے حقوق اور فرائض متعین کر دیے ہیں مسلمان مرد اور عورتیں احکام الہی پر راضی ہوتے ہیں اور یہ ان کے عقیدے کا معاملہ ہے۔قرآن نے مرد اور عورت کے لیے ان کی خلقت کے مطابق حقوق اور فرائض رکھے ہیں۔ دونوں پر لازم ہے کہ اللہ کو ایک مانیں، اسی کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ارکان ایمان اور ارکان اسلام پر ایمان لائیں۔ دونوں پر لازم ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کریں، صلہ رحمی کریں، نیکی کا حکم دیں، برائی سے روکیں، دین حق کی ترویج اور اشاعت کریں ،حلال روزی کمائیں اور کھائیں، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں،غیبت نہ کریں، چوری نہ کریں، تجسس نہ کریں، برے ناموں سے نہ پکاریں، الغرض ہر قسم کے احکام وقوانین جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے ہو، اللہ تعالی نے دونوں پر یکساں عائد کیے ہیں اس کے علاوہ قرآن نے دونوں کے لیے الگ الگ قوانین بھی بیان کیے ہیں اس لیے کہ دونوں کو فطری طور پر دو مختلف کاموں کے لیے پیدا کیا گیا ہے اس لحاظ سے مردوں کے لیے بطور خاص درج ذیل کام ضروری ہیں:
حقوق و فرائض میں مساوات
بنیادی طور پر قرآن نے عورت اور مرد کو حقوق و فرائض اور جزاو سزا کے حوالے سے بالکل مساوی قرار دیا ہے۔ اگر کوئی مرد نیکی کرے گا تو اجر پائے گا اور اگر کوئی عورت نیکی کرے گی تو اجر پائے گی۔ اگر آپ عبادات پر نظر دوڑائیں تو نماز، روزہ، حج، زکوۃٰ میں مکمل مساوات ہے۔ دونوں پریہ عبادات یکساں فرض ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا خَلَقَ الذَّكَـرَ وَالْاُنْثٰى o اِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتّـٰى o فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَاتَّقٰى o وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰى o فَسَنُـيَسِّرُه لِلْيُسْرٰىo وَاَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰىo وَكَذَّبَ بِالْحُسْنٰىo فَسَنُـيَسِّرُه لِلْعُسْرٰى ۔ ([1])
” تم لوگوں کی کوشش طرح طرح کی ہے تو جس نے اللہ کے رستے میں مال خرچ کیا اور پرہیز گاری کی اور نیک بات کو سچ جانا اس کو ہم اس کو ہم آسان طریقے کی توفیق دیں گے او رجس نے بخل کیا اور بے پروا بنا رہا اور نیک بات کو جھوٹ سمجھا اسے سختی سے پہنچائیں گے ۔“
اور فرمایا:
وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰئِكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّـةَ وَلَا يُظْلَمُوْنَ نَقِيْـرًا ([2])
”اور جو نیک کام کرے گا مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان بھی ہو گا تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ برابر بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔“
اور فرمایا:
اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِيْنَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِيْنَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِـرِيْنَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِيْنَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّآئِمِيْنَ وَالصَّآئِمَاتِ وَالْحَافِظِيْنَ فُرُوْجَهُـمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِـرِيْنَ اللّـٰهَ كَثِيْـرًا وَّالذَّاكِـرَاتِ اَعَدَّ اللّـٰهُ لَـهُـمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا ([3])
”مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور راستباز مرد اور راستباز عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں کچھ شک نہیں کہ ان کے لیے اللہ نے بخشش اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے ۔“
ان آیات مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مذکر و مونث کا الگ الگ تذکرہ کر کے واضح کر دیا کہ دونوں کوبرابر اجر ملے گا۔ بالکل اسی طرح رب تعالیٰ نے جزا و سزا اور غلطیوں پر مواخذے میں بھی برابری کا اعلان کر دیا۔ فرمایا:
تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم نے جہاں بھی مذکر کے صیغے سے خطاب کرتے ہوئے کوئی حکم دیا ہے اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہوتے ہیں۔ البتہ اگر کہیں واضح قرینہ موجود ہووہاں حکم مختلف ہوتا ہے۔بعض معاملات میں اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان فرق ملحوظ رکھتے ہوئے عورت کی سہولت کی خاطر اسے رخصت دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت جو نسلوں کی پرورش اور ان کی تربیت کرتی ہے، اس کی گھرمیں ان گنت مصروفیات ہوتی ہیں اس لیے عورت کی آسانی کی خاطر جمعہ کی نماز اس پر فرض نہیں کی، جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ضروری قرار نہیں دیا، جہاد میں جانے کی پابندی نہیں لگائی، کسی کے نان نفقہ کا بوجھ اس پر نہیں ڈالا، اسے شادی کے موقعے پر کسی قسم کا خرچ برداشت نہیں کرنا پڑتا یا تو والدین خرچ کرتے ہیں یا سسرال والے۔ اسی طرح کے چند امور اور ہیں جن میں عورت کو سہولت دی گئی ہے اور جن کے متعلق مستشرقین اور اسلام مخالف قوتوں نے یہ اعتراض کیا ہے یا غلط فہمیاں پیدا کی ہیں کہ اسلام نے عورت کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ جہالت اور اسلام سے عدم واقفیت کی بنا پر مسلمانوں میں سے ایک طبقہ بھی ان دشمنان اسلام کی سازشوں کا حصہ بن گیا ہے۔ یہاں ان اعتراضات کا جائزہ لیا جائے گا جن کو بنیاد بنا کر قرآن میں عورت کی حیثیت کو متنازع بنایا گیا ہے۔
آج کل مسلمانوں میں موجود روشن خیال طبقوں، متاثرین مغرب اور مستشرقین نے اسلامی تعلیمات پر طرح طرح کے ایسے اعتراض اٹھانا شروع کر دیے ہیں جن کی نظیر گزشتہ صدیوں میں بھی ملتی ہے اور بعض ایسے اعتراضات ہیں جن کا تعلق دور جدید کی عقل پرستی سے ہے ۔ چونکہ اسلام کی بنیاد اور اساس قرآن کریم ہے اس لحاظ سے دشمنان اسلام نے سب سے زیادہ اعتراضات قرآنی آیات پر اٹھائے ہیں یہاں تک کہ بعض حضرات نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ قرآن عربوں کے لیے نازل ہوا ہے اور محمد ﷺ عربوں کے نبی تھے نیز یہ کہ عرب کے بھی اس دور کے لیے قرآنی تعلیمات ہیں جب یہ نازل ہو رہا تھا اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ قرآن میں موجود اونٹ، ریگستان، کجھور، عربی ماحول کی دیگر اشیا اس بات پر گواہ ہیں کہ یہ جزیرہ عرب کے بھی اسی دور کے لیے تھا آج کے دور سے اس کو کوئی مطابقت نہیں ۔
گھریلو نظم میں مرد اور عورت کے اختیارات
خواتین سے متعلق قرآنی آیات کو موضوع بحث بنا کر یہ اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں کہ عورت کے ساتھ قرآن نے زیادتی کی ہے اس کو محکوم رکھا ہے اس کو کم تر گراننا گیا ہے اس کی حیثیت بھی آدھی رکھی گئی ہے اس کی گواہی اوردیت اس پر دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ مساوات کا دور دور تک اسلام میں تصور بھی نہیں ہے حق طلاق مردوں کے پاس ہے عورت کو مرد کا مرہون منت اور رعیت بنا دیا گیا ہے مرد کو قوام بنا کر سارے اختیارات اسے دے دیے گئے، یہاں تک کہ مرد کو مارنے اور پیٹنے کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے قانون فطرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے پورے توازن کے ساتھ میاں بیوی کے حقوق متعین کردیے ہیں۔ انسان ہونے کی حیثیت سے جیسے حقوق مرد کے ہیں ویسے ہی عورت کے ہیں۔ اسی حوالے سے قرآن مجید میں ارشاد ہے:
لَـهُـنَّ مِثْلُ الَّـذِىْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ([4])
” عورتوں کے بھی حقوق ہیں جیسے مردوں کے ہیں۔“
مگر انتظامی اعتبار سے یہ مساوات مشکل تھی، جس طرح ایک مملکت میں دو بادشاہ حکمران نہیں رہ سکتے، کسی تعلیمی ادارے یا فیکٹری میں دو منیجر یا پرنسپل نہیں رہ سکتے اسی طرح گھر کی محدود ریاست میں میاں بیوی دونوں حاکم نہیں ہوسکتے۔ اگر ایسا ہوتا تو گھر کا ادارہ، درہم برہم ہوجاتا، خانگی نظام تہہ و بالا ہوجاتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے گھر میں انتظامی امور کی ذمے داریاں مرد کو بخشی۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
لِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ([5])
”مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت حاصل ہے۔“
دوسری آیت میں مرد کی فوقیت کی وجہ بھی بتادی:
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّـٰهُ بَعْضَهُـمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِـهِـمْ ([6])
”مرد عورتوں پر نگراں ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ وہ ان پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔“
حضور ﷺ نے اس حوالے سے وضاحت فرمادی:
الرجل راع علی اھلہ وھو مسئول عنہ ([7])
”مرد اپنے بیوی بچوں پر حکمران ہے اور اپنی رعیت میں اپنے عمل پر جوابدہ ہے۔“
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرد کو خاندان میں برتر حیثیت حاصل ہے۔ وہ قوام اور نگران ہے۔ وہ بیوی کی مالی ذمے داریاں اور اس کے ساتھ بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا بوجھ بھی اٹھاتا ہے۔ اس لیے وہ جوابدہ ہے۔
دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور میں بعض روشن خیال اور آزاد فکر کے علمبردار عورتوں کے حوالے سے مادرپدر آزادی کے خواہاں ہیں اور ان لوگوں کے شبہات یہ بھی ہیں کہ قرآن نے عورت کو پردے میں قید کر کے اس کی آزادی کی حق تلفی کی ہے اور حجاب میں یہ اعتراض لگاتے ہیں کہ یہ تو ایک اضافی مصیبت ہے جو عورت پر ڈال دی گئی ہے یہ رجعت پسندی اور پسماندگی کی دلیل ہے ،اس سے عورت کی شخصیت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ پردہ تو دل کا ہوتاہے ، پرانے زمانے میں تو پردہ اور محرم کے ساتھ سفر شاید لازمی ہوتا ہو گا اس زمانے میں وہ حالات نہیں ہیں، پردہ تو عورت کے حقوق تلفی اور آزادی کی ضد ہے، عورت اور مرد میں مساوات ہونی چاہیے جو نہیں ہے ، عورت پر مرد کو حکمران بنا کر مسلط کر دیا گیا ہے،عورت عقل اور دین میں مرد سے کم ہے ،اسلام عورت کی تعلیم میں رکاوٹ ہے عورت کو کام سے معطل کر کے دنیا کی آدھی معیشت کو معطل کر دیا گیا ہے، اس طرح کے کئی اعتراضات مستشرقین نے اٹھائے ہیں جن کی ہاں میں ہاں ملانے والوں میں امت مسلمہ کے ایسے فرزند بھی شامل میں جو مغربی تعلیم یافتہ ہیں اور اپنے دین کے بارے میں یا قرآن و حدیث کے بارے میں سطحی علم بھی نہیں رکھتے ان میں سے بعض اعتراض ایسے ہیں جو براہ راست قرآن کی آیات اور احادیث ذکر کر کے لگائے جاتے ہیں جیسے تعدد زوجات حالانکہ سوال یہ ہے کہ کیا اسلام سے پہلے تعدد زوجات جائزنہیں تھی؟ کیا اسلام نے اس کو بہتر نہیں کیا؟ اسلام نے اس لامحدود اجازت کو محدود نہیں کیا اور کیا کیا شرائط عائد کی ہیں اور تعدد زوجات بہتر ہے گرل فرینڈسے جن کی کوئی تعداد محدود نہیں ہوتی ۔اسی طرح طلاق کے بارے میں اعتراض ہے کہ طلاق ہونی ہی نہیں چاہیے۔ حالانکہ اسلام نے طلاق کو بھی قانونی شکل دی ہے اور خواہ مخواہ شوہر سے لٹکے رہنے کی بجائے علیحدگی کی صورتیں نکالی ہیں۔
طلاق کا مسئلہ
اسلام کے قانون طلاق پر روشن خیال طبقے کی جانب سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس نے طلاق کا حق مرد کو دے کر عورت کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ مرد کو حقِ طلاق دے کر عورت اور مرد کی مساوات پر قدغن لگائی گئی ہے جس کی وجہ سے گھر تباہ ہو رہے ہیں، خاندانی زندگی متاثر ہو رہی ہے اور مرد جیسے چاہتا ہے عورت کو ذلیل کرتا ہے۔ اس کے لیے کسی معقول وجہ کا پایا جانا بھی ضروری نہیں ہے۔ یہ سراسر یکطرفہ کارروائی ہے اور مرد کی مرضی پر اس کا انحصار ہے۔ وہ جب چاہے کسی معمولی غلطی پر، بلکہ بغیر کسی غلطی کی بھی طلاق کے ذریعے اسے الگ کرسکتا ہے۔ طلاق کے حوالے سے نامور عالم دین سید جلال الدین عمری رقم طراز ہیں:
” جس بھیانک شکل میں طلاق کا ذکر کیا جاتا ہے، ایک تو یہ مسلم معاشرے میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ طلاق بہت سے خانگی جھگڑوں اور پیچیدگیوں کا مناسب اور معقول حل ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات عورت اور مرد کے لیے مل جل کر ازدواجی زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کو قبول نہیں کرتے، کبھی ان کے درمیان اتنا زیادہ معاشی اور معاشرتی فرق ہوتا ہے کہ اس کا دور کرنا دشوار ہوتا ہے، کبھی دونوں کی فکری اور علمی سطح ایک نہیں ہوتی جس کی وجہ سے جسمانی قربت کے باوجود ذہنی دوری کا احساس ہوتا ہے، کبھی ایسی اخلاقی کمزوریاں سامنے آتی ہیں کہ آدمی ان کی اصلاح سے مایوس بھی ہوتا ہے اور انھیں برداشت بھی نہیں کرپاتا۔ اس طرح کی صورتوں میں عقل اور سمجھ کا تقاضا یہی ہے کہ دونوں میں علیحدگی ہوجائے۔ اگر عیسائیت کی طرح طلاق کی اجازت نہ ہو اور دونوں کو ساتھ رہنے پر مجبور کیا جائے تو اس سے وہ مقاصد ہرگز پورے نہیں ہوتے جن کے لیے ان کے درمیان نکاح ہوا تھا۔ اس کے کئی نقصانات ہیں:۱۔ عورت مرد کے لیے ایک بوجھ بن جائے گی اور وہ اس کے ساتھ بد سے بدتر سلوک کرے گا۔۲۔ طلاق کے بعد عورت کا کسی ہم مزاج سے رشتہ ہوسکتا ہے اور وہ بہتر زندگی گزارسکتی ہے، طلاق کا راستہ بند کردینے کے بعد یہ امکان ختم ہوجائے گا۔ ۳۔ اس کے گھر کی زندگی جہنم زار بن جائے گی اور دونوں کا ذہنی سکون ختم ہوجائے گا۔ ۴۔ دونوں کی آپس کی کشمکش کی وجہ سے اولاد پر وہ توجہ نہیں دی جاسکے گی جو فی الواقع دی جانی چاہیے۔ اس سے ان کی صحیح تربیت نہ ہوگی اور وہ جھگڑالو ماں باپ کے جھگڑالو بچے بن کر ابھریں گے۔([8])
طلاق کا قانون یہود میں
اسلام نے طلاق کا جو ضابطہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اس کی تفصیل سے پہلے یہ بات بھی ہمارے سامنے رہے کہ طلاق کی اجازت اور گنجائش دوسرے مذاہب و ادیان میں بھی ہے۔ یہود کے یہاں طلاق میں بہت ڈھیل ہے۔شوہر کی خواہش ہی طلاق کے لیے کافی سمجھی گئی ہے، یعنی شوہر اگر چاہے کہ موجودہ بیوی کو علیحدہ کردے اور اس سے خوبصورت بیوی کرلائے تو اس کو طلاق کی اجازت حاصل ہوگی۔ اسی طرح عورت کے معمولی معمولی عیوب بھی وجہ طلاق بن سکتے ہیں۔ مثلاً عورت کی دونوں آنکھیں برابر نہ ہوں، چھوٹی بڑی ہوں، عورت کی بغل سے بو آتی ہو، لنگڑی یا کبڑی ہو، یا بانجھ ہو جس طرح یہ خلقی عیوب طلاق کی وجہ کے لیے کافی سمجھے گئے ہیں اسی طرح کچھ اخلاقی عیوب بھی، جیسے سخت مزاج ہو، زیادہ بولنے والی ہو، گندہ دہن ہو، لالچی ہو، کھانے میں نفاست پسند نہ ہو، خوراک زیادہ ہو اور اسی طرح کے دوسرے عیوب۔([9])
یعنی یہود میں مرد کو طلاق کے لیے اتنے وسیع اختیارات مگر عورت کے ساتھ ظلم یہ ہے کہ وہ مرد کے ہزاروں عیوب کے بعد بھی مرد سے علیحدگی کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔
طلاق کا قانون عیسائیوں میں
عیسائیت میں پہلے سرے سے یہ جائز نہیں تھا کہ طلاق کسی وجہ سے بھی دی جائے، رشتہ نکاح دوامی سمجھا جاتا تھا۔ موت کے سوا جدائی کی کوئی اور وجہ ناممکن تھی اور یہ ساری سختی حضرت مسیح کے اس قول سے اخذ کی گئی تھی۔
”جسے خدا نے جوڑا اسے آدمی جدا نہ کرے“ ([10])
حالاں کہ اس قول کا یہ مطلب سرے سے غلط تھا۔ یہ ایک اخلاقی ہدایت تھی اور منشا بے وجہ طلاق دینے کو روکتا تھا، کیونکہ خود متی کی دوسری آیت یہ موجود ہے۔
”جو کوئی اپنی بیوی کو حرام کاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑے اور دوسرا بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے۔“ ([11])
اس آیت میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ بوقت ضرورت طلاق دی جاسکتی ہے مگر مسیحی علما نے اس کو پہلی آیت سے متعارض سمجھ کر یہ تاویل کی کہ بعد کا اضافہ ہے، اس دوسرے قول پر عمل جائز نہ ہوگا اور بعض مسیحی علما نے یہ مطلب اخذ کیا کہ: ’’حرام کاری کی صورت میں میاں بیوی میں تفریق کرادی جائے، مگر رشتہ نکاح بدستور قائم رہے۔ یعنی مرد عورت میں سے کوئی اس تفریق کے بعد دوسری شادی نہیں کرسکتا۔‘‘
آپ یہ سن کر حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ صدیوں مسیحی دنیا اسی قانون پر عامل رہی۔ ایک تو طلاق ہی ناجائز سمجھی جاتی تھی۔ اور جن لوگوں کے یہاں طلاق جائز تھی ان کے یہاں فیصلہ یہ تھا کہ مرد عورت دونوں اب تجردکی زندگی گزاریں۔ بعد میں مشرقی کلیسا نے کچھ صورتیں رشتہ نکاح کے ختم کرنے کی پیدا کیں مگر مغربی مذہبی پیشواؤں نے اس کے تسلیم کرنے سے انکار کرو یا اور وہ کلیسائے روم ہی کی فقہ پر عامل رہے کہ موت کے سوا کوئی دوسرا سبب اس رشتے کو منقطع نہیں کرسکتا، تقریباً پندرہ سو سال تک عیسائیوں کو کلیسا کے اس ظالمانہ اور جابرانہ قانون کی وجہ سے مصیبتوں میں مبتلا رہنا پڑا۔
قانون طلاق کی اصلاح
سولھویں صدی سے طلاق کے قانون کی اصلاح کی آواز اٹھی مگر نتیجے کے اعتبار سے کچھ زیادہ سود مند ثابت نہ ہوئی۔ انگلستان میں ۱۸۸۷ء سے پہلے تک جب تک زنا اور ظالمانہ برتاؤ نہ ثابت کیا جائے قانونی تفریق کا فیصلہ بھی نہیں ملتا تھا اگرکسی نے یہ دو جرم ثابت کردیے تو صرف قانونی تفریق حاصل ہوتی، یعنی اس کو اب بھی دوسری شادی کی اجازت حاصل نہیں ہوتی۔ اور ہر حال میں شرط یہ تھی کہ مقدمہ عدالت میں پیش ہو اور عدالت ہی فیصلہ دے اور مرد و عورت میں سے جو بھی طلاق کا خواہش مند ہو اس پر ضروری تھا کہ دوسرے پر زنا ثابت کرے اور عورت فریادی ہے تو مرد پر زنا کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ بھی۔ یہ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ قانون نے یہ بھی حق دیا تھا کہ مرد اپنی بیوی کے ناجائز دوست سے ہرجانہ یا یوں کہیے بیوی کی عصمت کا معاوضہ وصول کرسکتا ہے۔
۱۸۶۶ء کے قانون میں عدالت کو حق دیا گیا کہ خطاکار شوہر پر مطلقہ عورت کے نفقہ کا بار بھی ڈال دے۔ اور ۱۹۰۷ء میں ‘‘خطاکار’’ کی شرط بھی اڑادی گئی۔ یعنی میاں بیوی میں کامل، انقطاع کے باوجود عدالت کو حق تھا کہ مرد سے مطلقہ بیوی کو نفقہ دلوائے۔
۱۸۹۵ء میں طے کیا گیا شوہر کے ظلم و جور کی وجہ سے اگر عورت گھر چھوڑ کر نکل جائے اور شوہر سے الگ ہوکر رہے تو عدالت شوہر کو بیوی کے پاس جانے سے روک دے گی مگر بیوی کو شوہر سے نفقہ دلوائے گی۔ اسی قانون میں یہ بھی طے کیا گیا کہ عورت اگر شوہر کے تغافل اور بدسلوکی کی وجہ سے زنا کی مرتکب ہوئی اور شوہر نے بیوی پر مقدمے کرکے طلاق کا مطالبہ کیا تو عدالت شوہر کے مقدمہ کو خارج کردے گی۔([12])
مختصر یہ کہ یہود کے یہاں افراط تھی تو عیسائیوں نے تفریط سے کام لیا اور اس کا انجام یہ ہوا کہ جونہی قانون نے طلاق کی معمولی اجازت دی، طلاق بہ کثرت ہونے لگی، ان اعداد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اسلام میں طلاق سخت ناپسندیدہ عمل
اسلام نے وقت ضرورت طلاق کی اجازت ضرور دی ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی بتادیا ہے کہ یہ کوئی مستحسن فعل نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ ایک سخت ناپسندیدہ اقدام ہے۔ اس لیے ناگزیر ضرورت اور انتہائی مجبوری ہی میں یہ اقدام ہونا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ابغض الحلال الی اللہ عزوجل الطلاق ([13])
”اللہ عزوجل کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔“
حضرت محارب بن دثار ؓ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں:
ما احل اللہ شیئا ابغض الیہ من الطلاق ([14])
”اللہ نے کوئی ایسی چیز حلال نہیں کی جو طلاق سے زیادہ اسے ناپسند ہو۔“
حقیقت یہ ہے کہ طلاق کا نظام اسلام سے پہلے بھی رائج تھا۔ تمام مذاہب میں طلاق کا بے مہار سلسلہ چلتا تھا۔ اسلام نے طلاق کو مربوط منظم اور قواعد و ضوابط کا پابند کیا۔ مغرب میں کليسا کے اندھے قانون نے طلاق کو حرام قرار دیا اور زوجین کے لیے لازمی قرار پایا کہ ہمیشہ اکٹھے رہیں۔ اس غیر فطری قانون کی وجہ سے معاشرہ انتہائی مشکلات کا شکار ہو گیا اور یورپ اورامریکہ کے دانشوروں نے مل کر كليسا کے فیصلے کے خلاف یہ حل نکالا کہ جو جوڑے اکٹھے نہیں رہ سکتے ان کو علیحدگی کا اختیار دیا جائے۔ گویا مرد اور عورت دونوں کو طلاق دینے کا احتیار دے دیا گیا۔ اس فیصلے کے فوراً بعد ۶۰ کی دھائی میں ہر چوتھے جوڑے نے طلاق کے ذریعے سے ایک دوسرے سے رہائی حاصل کی۔ جبکہ ایک سروے کے مطابق ۱۹۷۸ء میں امریکہ میں طلاق کاتناسب ۴۰ فیصد تھا جبکہ سوئٹزرلینڈمیں ۶۰ فیصد اور جرمنی میں تیس فیصد تھا۔ دیگر مغربی ممالک میں یہ تناسب ۸۵ فیصد تک پہنچ گیا۔ ([15])
حق طلاق کا اختیار
اسلام میں مرد کو طلاق کا حق دیا گیا ہے اور عورت کو اس سے محروم رکھا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا عائلی نظام تمام اصول و قواعد کی وضاحت کرتا ہے لیکن کسی خطہ زمیں پر اس پر درست عمل نہ کرنا وہاں کے مسلمانوں کی کمزوری ہے ۔طلاق دراصل اس بیماری کا آخری علاج ہے جس کے لیے دیگر تمام علاج ناکام ہو جائیں اور آخری علاج کے طور پر رشتۂ ازدواجیت ختم کیا جاتا ہے۔ طلاق میں سو فیصد مرد اپنی مرضی نہیں استعمال کرتا بلکہ اس کی متعدد قسمیں ہیں۔ بعض اوقات میاں بیوی باہمی مشورےسے علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور بعض اوقات مرد اپنی مرضی استعمال کرتا ہے اور بعض اوقات عورت کی مرضی سے طلاق ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے اسلام نے مرد کے اختیارات کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی علیحدگی کا احتیار دیا ہے۔
جہاں تک مرد کے اختیارِ طلاق کا تعلق ہے تو جب مرد طلاق دیتا ہے تو اس پر مالی ذمہ داریاں بھی پڑتی ہیں۔ وہ عورت کو عدت کا نان نفقہ دینے کا پابند ہے۔ حاملہ ہونے کی صورت میں مزید اخراجات دینا ہوتے ہیں۔ مہر کی رقم بھی عورت کے پاس رہتی ہے۔ اگر عورت کی طرف سے کوئی زیادتی نہ ہوئی اور عورت کی طرف سے طلاق کا مطالبہ ہو تو عدالت کے ذریعے سے علیحدگی ہو جاتی ہے۔ اگر شوہر کی طرف سے کوئی زیادتی ہو تو عدلت اس کا تدارک کرتی ہے۔ اور عورت علیحدگی ہی اختیار کرنا چاہے تو اس کو بذریعہ قاضی اختیار مل جاتا ہے۔([16])
حقیقت یہ ہے کہ اگر حق طلاق عورت کو دیا جائے تو بھی اس سے طلاق کا غلط اور بے جا استعمال ختم نہ ہوگا۔ مرد حق طلاق کے ناروا استعمال سے عورت کو پریشان کرسکتا ہے تو اس امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس حق کے ملنے پر عورت اس کا نامناسب استعمال کرتے ہوئے مرد کو مصیبت میں ڈال دے۔ نامور عالم دین مولانا جلال الدین عمری لکھتے ہیں کہ:
عورت کو یہ حق دینے میں بعض قباحتیں بھی ہیں وہ یہ ہیں:۱۔ مرد کے ساتھ یہ بہت بڑی زیادتی اور ناانصافی ہے کہ عورت کی ساری ذمے داریاں مرد اٹھائے اور حق طلاق عورت کے ہاتھ میں رہے۔۲۔ طلاق سے مرد کا نقصان ہے، عورت کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ اگر طلاق کا اختیار اسے حاصل ہو تو کوئی بھی بد اخلاق عورت جب چاہے مرد کو طلاق دے کر بچوں کو اس کے حوالے کردے گی اور مہر اور زیورات لے کر گھر سے نکل کھڑی ہوگی۔ پھر نئے مہر اور نئے سازو سامان کے دوسرے مرد سے شادی کرلے گی۔۳۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت زیادہ جذباتی ہی ہوتی ہے۔ وہ کسی بھی وقتی جوش اور جذبے کے تحت مرد سے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے۔ اس سے طلاق کا تناسب بہت بڑھ جائے گا اور معاشرہ ایک نئے بحران سے دوچار ہوجائے گا۔([17]) چناں چہ ۲۰۱۸ء کے ایک ابلاغی سروے کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تقریباً ایک سال میں ساڑھے دس ہزار طلاق کے کیس رجسٹر ہوئے۔ جبکہ سینکڑوں کیس ایسے ہیں جو رجسٹر بھی نہ ہوسکے۔([18])
خلع
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عورت اگر ازدواجی تعلقات کو ختم کرنے کے لیے قاضی کی طرف رجوع کرے اور قاضی مخصوص شرائط کی روشنی میں زوجین میں جدائی کا فیصلہ کردے تو اسے خلع کہتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک روایت ملتی ہے کہ: رسول اللہ ﷺ کے زمانہ ٔمبارک میں حضرت ثابت بن قیس کی زوجہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میں اپنے خاوند کی خدمت نہ کرکے ناشکری اور شوہر کی نافرمانی کے خوف کا اندیشہ رکھتی ہوں تو آپ ﷺ نے ان کے شوہر سے فرمایا: باغ قبول کرلو اور اسے ایک طلاق دے دو۔([19])
اسلام کی تعلیمات کے مطابق طلاق کا حق تو مرد کے پاس ہوتا ہے لیکن عورت خلع کے ذریعے سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :انما الطلاق لمن اخذ بالساق([20])بے شک طلاق دینا اسی کا حق ہے جس نے نکاح کیا ہے۔ یہ حدیث ایک غلام اور لونڈی کے نکاح کے بارے میں ہے۔ جس میں ذکر ہے کہ غلام کے مالک نے اپنے غلام کی شادی ایک لونڈی سے کرا دی۔ اب مالک خود ہی ان دونوں میں علیحدگی کر رہا تھا تو غلام رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا طلاق کا اختیار اسی کو ہے جس نے شادی کی ہے۔([21]) اور علمائےکرام نے اس کے اسباب ذکر کیے ہیں ایک یہ کہ میاں بیوی کے خفیہ معاملات ہوتے ہیں جن کا اظہار مناسب نہیں ہوتا۔ دوسرا یہ کہ شاید اس کے اظہار میں خاتون کی بدنامی ہو۔ تیسرا یہ کہ بعض ایسے اسباب ہوتے ہیں جن کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ نہ تو ان پر جرح ہو سکتی ہے نہ گواہ اور نہ عدالت ہی کوئی فیصلہ کر سکتی ہے۔ راز کا افشا کرنا شریعتِ اسلامی میں ممنوع ہے۔ اس کے علاوہ مرد چونکہ مہر مؤجل ،نفقہ ،اجرت مالی ،بچوں پرورش وغیرہ کے اخراجات کا ذمے دار ہوتا ہے۔ اس لیے اس کو اختیار دیا جاتا ہے کہ ان نقصانات کو پیش نظر رکھ کر طلاق دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرے۔ علیحدگی کی نوبت آنے سے پہلے اتفاق کی تمام ممکنہ صورتوں تک پہنچنے کے لیے قرآن کی سورہ ٔ بقرہ اور سورۂ نساء میں جس قدر تفصیل سے ان احکام کو بیان کیا گیا ہے اس سے معاملے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اگر معاملہ عدالت میں چلا جائے تو بدنامی ہوتی ہے” راز فاش ہوتے“ معاملات مزید بگڑ جاتے ہیں۔ اس لیے قرآن نے میاں بیوی کی علیحدگی کی صورت میں بھی ایسے مرحلے رکھے ہیں کہ جڑنے کی آخری امید برقرار رہے۔([22]) پہلے ایک طلاق دے کرتین ماہ کے لیے موقع دیا جاتاہے تاکہ ملنے کی صورت ہوتو بہتر ورنہ دوسری طلاق کے بعد آخری موقع دیا جاتا ہے۔ اور تیسری طلاق وہ کڑوی گولی ہوتی ہے جس کے بغیر مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اسلام وہ واحد نظام ہے جس میں رجعت کا اصول پایا جاتاہے تاکہ اگر تین ماہ کے عرصے میں بھی فریقین کو پتہ چل جائے کہ غلطی ہوئی تھی تو اس کی تلافی ہو سکے۔
اسلامی تعلیمات میں عورت کی بھلائی
اگر عورت اور مرد دونوں کو روزمرہ کے مسائل اور حالات کا سامنا کرتے ہوئے دیکھا جائے تو ایک سروے کے مطابق عورت مرد کی نسبت زیادہ جذباتی ہوتی ہے اور کسی بھی واقعے،حادثے یا حالات سے بہت جلد متاثر ہو جاتی ہے۔ جبکہ مرد کی طبعیت اس کے برعکس ہے اور وہ بہت دیر سے متاثر ہوتا ہے۔طلاق کے ضمن میں ایک مثال اسلامی ممالک میں سے تیونس کی ہے جہاں خواتین کو حکومت نے طلاق دینے کی اجازت دی اور اس کا محرک بھی مغربی مساوات ہی تھا۔ ایک برس کے بعد رپورٹ آئی کہ طلاق کی شرح کئی گنا بڑھ گئی ہے اور طلاق دینے کی وجہ محض جذبات تھے کہ جب مرد نے کوئی سخت بات کہہ دی یا غلط رویے کا اظہار کیا تو خاتون کی جانب سے فوراً تین طلاقیں صادر ہو گئیں۔([23])
جبکہ اس کے برعکس اسلام نے مرد اور عورت کا جوڑا اس لیے بنایا ہے تاکہ دونوں ایک دوسرے سے سکون حاصل کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمِنْ اٰيَاتِه اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُـوا اِلَيْـهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّّرَحْـمَةً اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّـقَوْمٍ يَّتَفَكَّـرُوْنَ ([24])
” اور اسی کے نشانات میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس کی عورتیں پیدا کیں تاکہ ان کی طرف مائل ہو کر آرام حاصل کرواور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔ جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لیے ان باتوں میں نشانیاں ہیں۔“
یہ جوڑا اس لیے نہیں بنایا گیا کہ وہ ایک دوسرے کو طلاق دے کر فارغ ہو جائیں۔ طلاق وہ انتہائی عمل ہے جو اسی وقت بروئے کار لایا جانا چاہیے جس کے بغیر اور راستہ نہ بچے۔ اس لحاظ سے شریعت اسلامی کو امتیاز حاصل ہے کہ اس نے انسان کے ایسے مسائل کے حل کا بھی خیال رکھا ہے جن کی کبھی کبھار صرف کسی ناسور کو کاٹنے کے لیے ضرورت پڑ سکتی ہے۔
مرد کی سر پرستی
جس طرح ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ مرد کو حق طلاق کے اختیار اس لیے بھی ہے کہ مرد کو قوام (سرپرست۔ حاکم) بنا دیا گیا ہے۔ در حقیقت ایک گھر خاندان کنبہ وغیرہ معاشرے کی اکائی اور پہلا ادارہ ہے کئی کنبوں سے مل کر ایک محلہ بنتا ہے اور کئی محلوں سے مل کر ایک قریہ اور پھر ایک شہر بنتا ہے اور کئی شہروں سے مل کر ایک ملک بنتا ہے اس لحاظ سے قرآن نے مدنی اور معاشرتی زندگی کی اکائی کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے احکام دے دیے ہیں اس دنیا میں کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جس کا کوئی سربراہ نہ ہو اور وہ کامیاب ادارہ ثابت ہو سکے یا ایک ادارے کے دو سربراہ ہوں اور وہ کامیاب ہو سکے ۔ گھر بھی ایک ادارہ ہے اس ادارے کو چلانے کے لیے ایک نہ ایک سربراہ کا ہونا ضروری ہے اگر دو سربراہ ہوں گے تو یہ ادارہ جو معاشرے کی اکائی کہلاتا ہے تباہ ہو جائے گا ۔ خود اللہ تعالی نے زمین و آسمان کی بادشاہی کے لیے اس اصول کو بیان فرمایا کہ اس میں دوِ الہٰ ہو تے تو یہ تباہ ہو جاتے ۔فرمایا :
لَوْ كَانَ فِيْـهِمَآ اٰلِـهَةٌ اِلَّا اللّـٰهُ لَفَسَدَتَا ([25])
”اگر زمین اور آسمان میں اللہ کے سوا اور الہ ہوتے تو یہ تباہ ہوجاتے۔“
اس لحاظ سے میاں بیوی اور بچوں پر مشتمل یہ ادارہ بھی اپنے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک سربراہ کا محتاج ہوتا ہے ۔ اب اگر دو سربراہ یا سرپرست ہوں تو یہ ادارہ تباہ ہو جائے گا آئے دن ہم پڑھتے اور سنتے ہیں کہ فلاں میاں بیوی میں لڑائی ہو گئی فلاں نے طلاق دی، فلاں عدالت چلی گئی ، فلاں نے آگ لگا دی، اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس انتہائی اہم ادارے میں ہر دو ارکان اپنے آپ کو سربراہ سمجھ بیٹھتے ہیں اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچے متاثر ہوتے ہیں خاندان تباہ ہوتے ہیں اور نوبت قتل و غارت تک پہنج جاتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دو برابر اختیارات رکھنے والے سربراہ کسی بھی ادارے کو تباہ کر دیتے ہیں۔([26])
نامور مفکر شاہ ولی اللہ ؒ (۱۷۰۳ء-۱۷۶۲ء)مرد کی قوامیت کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:
ضروری ہے کہ مرد کو اپنی بیوی کا قوام بنایا جائے اور فطرت کا تقاضا ہے کہ عورت پر مرد کو غلبہ حاصل ہو، اس لیے کہ مرد عقل میں کامل، سیاست میں ماہر، حمایت میں مضبوط اور تگ و عار کو دور کرنے کی صلاحیت کا مالک ہے او راس حیثیت سے بھی مرد کو عورت پر برتری حاصل ہے کہ مرد عورت کو کھانا، لباس اور گھر میں فراہم کرتا ہے۔)[27](
دور حاضر میں دنیا ئےعرب کے معروف عالم و محقق اورمفسر شیخ احمد القطان لکھتے ہیں کہ ازدواجی زندگی ایک سربراہ کا تقاضا کرتی ہے تاکہ جب کوئی بھی اختلاف رائے پیدا ہو تو ہر ایک اپنی مرضی نہ کرتا پھرے کہ خاندان کا شیرازہ ہی بکھر جائے اس سربراہی کے لیے مرد ہی زیادہ حق دار ہے ۔ آگے لکھتے ہیں : اللہ نے عورت کو بھی وہی حقوق دیے ہیں جو مرد کو دیے ہیں عورت تو مردوں کے ہاں ایک مال تصور ہوتی تھی رومیوں نے عورت کو لونڈی بنا رکھا تھا جو محض مرد کی خدمت پر مامور تھی ، تمام سابقہ قوموں میں عورت کو کوئی حق نہیں دیا جاتا تھا ۔([28])
جب ہم عورت اور مرد کی جبلت کا جائزہ لیتے ہیں تو مرد کے مقابلے میں عورت بالعموم جذبات سے فیصلہ کرتی ہے سوچ اور غور وفکر سے نہیں کرتی کسی حادثے کو دیکھ کر دل برداشتہ ہو جانا، چیخنا چلانا، اوسان خطا ہو جانا عورت کی جبلت میں شامل ہے۔ جب کہ مرد عورت کے مقابلے میں تحمل مزاج ہوتا ہے واقعات و حالات کا بغور جائزہ لیتا ہے کوئی خطرناک واقعہ رونما ہو بھی جائے تو جذباتی نہیں ہوتا اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ذمے داری اس فرد کی ہونی چاہیے جو غور وفکر اور سوچ بچار سے زیادہ کام لیتا ہے ۔ شیخ محمد قطب کہتے ہیں مرد اپنی غیر جذباتی اور فکری طبیعت ہونے کے ناطے کشمکش اور نزاع کے وقت اپنے اعصاب پر قابو رکھتا ہے اور نتائج و عواقب پر نظر رکھتا ہے اس لحاظ سے گھر کی سربراہی کے لیے زیادہ بہتر ہے بلکہ خود عورت ایسے مرد کو احترام کی نظر سے نہیں دیکھتی جو اسی کی باتیں مانتا رہے حاضر جناب کا رویہ اپنائے بالعموم عورت ایسے شوہر کو حقیر سمجھتی ہے اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔([29])
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّـٰهُ بَعْضَهُـمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا ([30])
اس آیت میں اللہ تعالی نے مردوں کو قوام بنا کر ان پر ذمے داری بھی ڈال دی ہے کہ نان نفقہ ان کے ذمے ہے گھر کا نظام چلانا ان کی ذمہ داری ہے عورت پر، اس کی اولاد پر، اور دیگر مواقع پر اخراجات کا ذمے دار بھی مرد ہے۔یہاں مرد کی سربراہی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جو چاہے کرتا پھرے بلکہ شریعت اسلامی کا امتیاز ہے کہ ہر شخص کو مشاورت کا پابند کیا گیا ہے خود رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی کو حکم ہوتا ہے کہ معاملات میں ان کے ساتھ مشورہ کر لیا کرو وَشَاوِرْهُـمْ فِى الْاَمْرِ ([31])معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کرو۔حالانکہ آپ پر ہر مسئلے کے بارے میں وحی نازل ہوتی تھی ۔گویا ایک فرد چاہے گھر کا سربراہ ہو یا سکول کا، مسجد کا ذمے دار ہو یا فیکٹری کا انچارج ،فوج کا سپہ سالار ہو یا ملک کا سربراہ ہو یا کسی بھی ذمے داری پر ہو، مشورہ کرنا اس کے لیے ضروری ہے ۔مرد کو سربراہ بنانے کے بعد اس پر کچھ شرائط اور پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں فرمایا: وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْـرُوْفِ ([32]) اور ان کے ساتھ اچھی طرح سے رہو سہو۔ اور رسول اللہ صﷺ نے فرمایا : خیرکم خیرکم لأهلہ ([33]) تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے حق میں زیادہ بہتر ہے ۔
عاشروہَن کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ:
۱۔ ان سے اچھے انداز میں مخاطب ہونا اچھا سلوک کرنا جیسے تم ان سے رویہ کی امید رکھتے ہو اسی طرح کا رویہ ان سے بھی رکھو۔ ([34])
۲۔ نان نفقہ رہائش اچھا سلوک اچھی گفتگو خوش اخلاقی۔([35])
۳۔ ان کا مہر نفقہ اور استحقاقات پورے ادا کرو ،ان سے بد سلوکی نہ کرو، سخت کلامی نہ کرو، ان کے علاوہ دوسری عورتوں کی طرف میلان نہ رکھو، ان کو بلا وجہ برا بھلا نہ کہو وغیرہ۔([36])
علمائے کرام کے نزدیک سرپرستی اسی صورت میں درست ہو گی جب وہ یہ شرائط پوری کرے گا حدیث شریف میں آتا ہے: استوصوا بالنساء خیراً میں تمھیں عوتوں کے ساتھ بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں۔([37]) اور فرمایا : تم میں سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے اور تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اہل خانہ کے ساتھ بہتر رہے([38]) ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ :خیرکم خیرکم لأهلہ و أنا خیرکم لأهلی([39]) تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہتر رہے اور میں تم میں سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ زیادہ بھلائی کرنے والا ہوں۔
اسلام کی تعلیمات اور حقوق نسواں کی تنظیمیں
اسلام کی تعلیمات پر اعتراض کرنے میں جو لوگ مسلمانوں میں سے پیش پیش ہیں ان میں نمایاں حقوق نسواں کی ایسی تنظیمیں ہیں جو بظاہر عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا علم لے کر اٹھی ہیں۔اگر پورے عالم اسلام کا جائزہ لیا جائے تو ان تنظیموں میں ایسی خواتین شامل ہیں جو سراسر اسلام کے خلاف زندگی گزارنے میں فخر محسوس کرتی ہیں اسلام کو رجعت پسندی اور تخلف کا نام دیتی ہیں۔ ان کا لباس، پوشاک ،ان کی وضع قطع ،ان کا چال چلن، ان کے شب و روز بالکل مشرقیت یا اسلام سے دور کے تعلق کو بھی ظاہر نہیں کرتے۔ مغربی ثقافت اور تہذیب ان کے اندر رچ بس چکی ہوتی ہے۔ گھر کی چار دیواری کو ایسی خواتین قید سے تعبیر کرتی ہیں۔ اپنے گھر کے مرد حضرات کو اپنا سربراہ نہیں سمجھتی ہیں لیکن ایسی خواتین کی تعداد اسلامی معاشروں میں اگر مشرق سے مغرب تک دیکھا جائے تو انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے اور اسلامی معاشرے میں عورت اور مرد دونوں مل کر زندگی گزارتے ہیں۔ ہر ایک اپنے دائرہ کار میں کا م کرتا ہے۔ یہاں کوئی الجھن نہیں ہوتی اگر آپ پاکستان کی مثال لیں اشرافیہ کی گنی چنی خواتین کے علاوہ جنھوں نے مغربی تعلیمی اداروں میں تربیت پائی ہے ایک بھاری اکثریت اپنے گھروں میں نہ صرف آباد ہے بلکہ ان کو اس نظام پر فخر ہے جہاں عورت کی حفاظت کے لیے اس کا بھائی، باپ ،بیٹا، ماموں، چچا جان تک دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ جہاں کوئی کسی کو کم تر نہیں سمجھتا جہاں سب کوتمام حقوق ملتے ہیں۔
مغرب زدہ نسوانی تنظیموں کی نمائندہ خواتین کی گفتگو ہمیشہ اسلامی قوانین کے کے خلاف گھومتی ہے کہ اسلام نے عورت کو گھر میں قید کر دیا ہے ۔ حالانکہ اسلام نے عورت کو گھر میں وہ ذمے داری ہے کہ وہ گھر سے باہر کام کرنے والی نسل کی اولین تعلیم و تربیت کرتی ہے۔ عورت کو اسلام نے تعلیم کے مواقع دیے ،کاروبار کے مواقع دیے، اپنی رائے کے اظہار کے مواقع دیے اور بہن، بیٹی، ماں، بیوی ،خالہ، پھوپھی وغیرہ جیسے پاکیزہ رشتے دیے ۔اسلام میں اور مغرب میں اس لحاظ سے بہت بڑا فرق ہے، جہاں عورت کو محض ایک تسکین کا آلہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے بعد اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے اسلام میں ماں گھر کی رونق اور شان ہوتی ہے لیکن مغرب میں جب وہ بوڑھی ہوتی ہے تو اسے اولڈہاؤس میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جو خواتین اسلامی شعار اخلاقیات اقدار اور روایات کو جانتی ہیں کبھی بھی ایسی تنظیموں کی آلۂ کار نہیں بنتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص سوائے مغرب پرست میڈیا کے ایسی نام نہاد حقوق نسواں کی تنظیموں کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ صہیونی لابی کا اصل مقصد یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں ایسا زہر گھولا جائے کہ معاشرے میں دراڑیں پڑ جائیں، خاندانی سسٹم تباہ ہو جائے، عورت آزادی کے نام پر بے حیائی کی طرف چل پڑے ،بھائی اور باپ کا احترام ختم ہوجائے اوراباحیت ،بے راہ روی اور فحاشی عام ہو جائے ،عورت کو بازار کی رونق بنا دیا جائے ۔
عالمی یہودی لابی اور ماسونیت نے صدیوں سے اسلام کے خلاف محاذ کھڑا کیا ہو اہے۔ ہر قسم کے دیگر اعتراضات کے علاوہ اب تو قرآن کی تذلیل اور اہانت کے ساتھ ساتھ خود توہین رسالت بھی ان کے میڈیا کا حصہ بنتی جار رہی ہے۔ نبی رحمتﷺ پر دیگر الزامات کے ساتھ ساتھ عورتوں پر ظلم کرنے کے الزام بھی لگ رہے ہیں اور اس موضوع پر ان کی نام نہاد تحقیقات سامنے آرہی ہیں۔ ماسونیت نے اب عورت کے موضوع کو اس قدر اچھال دیا ہے کہ مغرب پرستانہ اداروں میں پڑھنے والی مسلمان خواتین بھی اس پروپیگنڈے کے سیلاب میں بہہ رہی ہیں۔ عورت کی آزادی اور حقوق کے نام پر یہود و نصاری نے مغرب و مشرق میں ایک عرصے سے شور اٹھارکھا ہے ۔۱۸۸۴ء میں مشرق کی عورت کے نام سے کتاب منظر عام پر آئی جس میں اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا گیا پردہ، اختلاط مرد و زن،طلاق، تعدد زوجات وغیرہ کے مسائل کو اچھالا گیا اس کتاب میں ایک عیسائی پادری فہمی نے مصری عورتوں کی غیر مسلموں سے شادی تک کو جائز قرار دلایا۔([40]) ایک اور کتاب ۱۸۹۴ء میں سامنے آئی جس میں حجاب پر بہت طعن تشنیع کی گئی تھی یہ کتاب فرانسیسی مصنف کونٹ ڈار کورنے لکھی۔ اس میں بھی اسلام پر بڑے حملے کیے گئے اورمصری عوام سے مطالبہ کیا گیا کہ پردہ اتار دو، دنیاکو دیکھو پسماندگی کو چھوڑ یہ پردہ در اصل عقل کا پردہ ہے ۔عرب سے نامور دانشور خواتین و حضرات جو فرانس برطانیہ وغیرہ گئے واپس آکر انھوں نے یہاں مغرب پرستی کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اور آج عرب دنیا میں جو بے حیائی اور فحاشی دیکھنے میں آتی ہے وہ اسی ماسونیت سے متاثر مغرب زدہ طبقے کی وجہ سے ہے جنھوں نے مغرب کی اسلام دشمن پالیسیوں کو من وعن قبول کر لیا ہے۔
چناں چہ ایسے خواتین و حضرات جن میں اسلامی ممالک کے نام نہاد ترقی پسند بھی شامل ہیں الہامی قوانین پر اعتراض کرتے ہیں۔ اللہ کے عطا کردہ نظام کو توڑنے پر فخر کرتے ہیں۔حالانکہ ان کو علم ہے کہ عورت نے مغرب میں اسی قسم کے آزادی حاصل کرنے کے بعد کیا کھویا اور کیا پایا ۔کیا وہ عورت کھلونا بن کر نہیں رہ گئی، ایک قابل فروخت چیز نہیں بن گئی، اس کا نہ کوئی گھر ہے ،نہ ٹھکانا، خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے بچے کو معلوم نہیں ہوتا میرا باپ کون ہے باپ کو علم نہیں ہوتا میرا بچہ کون ساہے ۔ مغرب میں عورت اب اپنے آپ کو مظلوم سمجھ رہی ہے وہاں کے معاشرے نے اسے سامان تعیش بنا کر چھوڑ دیا ہے۔
خلاصہ بحث
- قرآنی آیات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عورت اور مرد میں مساوات ہے، بلکہ قرآن نے مرد کو عورت کا نگران بنایا ہے ۔
- احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نگرانی اور سرپرستی کی شرائط ہیں جن کو پورا کرنا مرد پر لازم ہے۔
- حقوق اور ذمے داریوں کے حوالے سے اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ بحیثیت انسان مرد اور عورت میں کوئی امتیاز اور فرق نہیں اور نہ ہی صرف جنس کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فوقیت حاصل ہے یا صرف صنف کے طور پر کوئی کسی سے کم تر یا ناقص ہے لیکن سیادت، برتری اور فضیلت کی بات ہی الگ ہے اور کے حوالے سے اللہ تعالی کے وضع کردہ معیار کا انکار کرنا بھی مناسب رویہ نہیں۔
- اگر کوئی شخص نگہبان اور محافظ ہونے کو بنیاد بناکر مرد کو عورت کا ان داتا قرار دے کر اس کے حقوق کو پامال کرنے کا حق دیتا ہے یا اس پر ظلم و زیادتی اور جبر و تشدد کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے تو یہ اسلامی تعلیمات سے لاعلمی اور رو گردانی ہے۔
- اسی طرح مرد کے قوام ہونے میں بھی بات عورت کی تنقیص یا کمتری کی بالکل نہیں بلکہ فطری طور پر صنفِ نازک کے جذبات، نفسیات اور صلاحیتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور اس کی جسمانی و ذہنی کیفیات کو ملحوظِ خاطر رکھ کر مرد کو اس کے نگہبان اور محافظ کی ذمے داری سونپ دی گئی ہے اور اسی بنیاد پر مرد کو اس پر فضیلت بھی دی گئی ہے۔
- اللہ تبارک وتعالےٰ نے مرد اور عورت کو بحیثیت بشر یکساں طبیعت اور فطرت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور دونوں پر عبادات فرض ہیں، دونوں کو جرم کے ارتکاب پرسزا برابر ملتی ہے ۔
- عورت اپنی ساخت ،بناوٹ اور میدان عمل کے لحاظ سے مرد سے مختلف ہے۔
- تعدد زوجات اسلام ہی میں نہیں بلکہ تمام مذاہب میں جائز ہے اسلام نے تعدد زوجات کے لامحدودتصور کو ختم کر کے چار کی قید لگائی اور ساتھ عورت کو عزت وتکریم دی۔ اسلام سے قبل عورت کو متاع تصور کیا جاتا تھا اسلام نے اس کو حقوق دیے اور تاریخ گواہ ہے کہ مرد کی ایک سے زیادہ شادیاں کرنے میں خود عورت کے لیے فوائد ہیں۔
- طلاق اور تعدد ازواج کے لیے شریعت کی جانب سے کچھ آداب اور شرائط رکھی گئی ہیں۔ان شرائط و آداب میں ذرا بھی کوتاہی خاندانی نظام کو درہم برہم کردیتی ہے۔ اس لیے موجودہ دور میں ایسے نظام بنائے جاسکتے ہیں جن سے خاندانی نظام کو بچایا جاسکتا ہے۔
- نظم و ضبط کی بحالی اور ادارے کی اصلاح کے لیے سربراہ بوقت ضرورت اپنے ماتحت کی سرزنش کر سکتا ہے ورنہ دنیا کا نظام نہ چل سکے۔
- طلاق میں سو فیصد مرد اپنی مرضی نہیں استعمال کرتا بلکہ اس کی متعدد قسمیں ہیں۔ بعض اوقات میاں بیوی باہمی مشورےسے علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور بعض اوقات مرد اپنی مرضی استعمال کرتا ہے اور بعض اوقات عورت کی مرضی سے طلاق ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے اسلام نے مرد کے اختیارات کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی علیحدگی کا احتیار دیا ہے۔
- اسلام کی تعلیمات کے مطابق طلاق کا حق تو مرد کے پاس ہوتا ہے لیکن عورت خلع کے ذریعے سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہے۔
- طلاق سے مرد کا نقصان ہے، عورت کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ اگر طلاق کا اختیار اسے حاصل ہو تو کوئی بھی بد اخلاق عورت جب چاہے مرد کو طلاق دے کر بچوں کو اس کے حوالے کردے گی اور مہر اور زیورات لے کر گھر سے نکل کھڑی ہوگی۔ پھر نئے مہر اور نئے سازو سامان کے دوسرے مرد سے شادی کرلے گی۔
- عورت اور مرد دونوں کو روزمرہ کے مسائل اور حالات کا سامنا کرتے ہوئے دیکھا جائے تو ایک سروے کے مطابق عورت مرد کی نسبت زیادہ جذباتی ہوتی ہے اور کسی بھی واقعے،حادثے یا حالات سے بہت جلد متاثر ہو جاتی ہے۔ جبکہ مرد کی طبیعت اس کے برعکس ہے اور وہ بہت دیر سے متاثر ہوتا ہے۔
- یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت زیادہ جذباتی ہی ہوتی ہے۔ وہ کسی بھی وقتی جوش اور جذبے کے تحت مرد سے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے۔ اس سے طلاق کا تناسب بہت بڑھ جائے گا اور معاشرہ ایک نئے بحران سے دوچار ہوجائے گا۔
- چناں چہ ۲۰۱۸ء کے ایک ابلاغی سروے کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تقریباً ایک سال میں ساڑھے دس ہزار طلاق کے کیس رجسٹر ہوئے، جبکہ سینکڑوں کیس ایسے ہیں جو رجسٹر بھی نہ ہوسکے۔
حوالہ جات
- ↑ ()اللیل: ۳۔۱۰
- ↑ ()النساء :۱۲۴
- ↑ ()الاحزاب: ۳۵
- ↑ () البقرہ: ۲۲۸
- ↑ ( )البقرہ: ۲۲۸
- ↑ ( )النساء: ۳۴
- ↑ ( )البخاری،محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح بخاری، باب الجمعۃ فی القریٰ والمدن، حدیث نمبر ۸۹۳
- ↑ ( )عمری، جلال الدین، سید، مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ، اسلامی ریسرچ اکیڈمی کراچی، مئی۲۰۱۵ء، ص ۱۰۷
- ↑ ()تفصیل کے لیے دیکھیے سعادۃ الزوجین، جلد سوم، احکام الطلاق عند اسرائیلیں اور نداء للجنس اللطیف، ص ۹۷
- ↑ ()متی، باب: ۱۹:۶
- ↑ ()ایضاً، باب: ۱۹:۹
- ↑ ()مولانا ظفرالدین، اسلام کا نظام عفت و عصمت، دارالاشاعت اردو بازار، کراچی، طبع اول ۱۴۱۳، ص ۱۸۹
- ↑ ( )ابوداوَد، کتاب الطلاق، باب فی کراہۃ الطلاق ابن ماجہ، ابواب الطلاق
- ↑ ( )ایضاً
- ↑ ()دکتور مصطفی السباعی، المراءۃ بین الفقہ والقانون، ۱/۳۲۳
- ↑ ()محمد رشید رضا، تفسیر االمنار، تفسیر سورہ ٔ نساء: ۳۴
- ↑ ( )عمری، جلال الدین،سید، مسلمان عورت کے حقوق،ص ۱۱۰
- ↑ ( )سما ٹی وی نیوز کی یکم فروری ۲۰۱۹ء کی رپورٹ
- ↑ ( )محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح المختصر (الطبعۃ الثالثہ) بیروت، لبنان، دار ابن کثیر ۵/۲۰۲۱
- ↑ ()ابن ماجہ، ابو عبد الله محمد بن یزید ، السنن، با ب طلاق العبد،حدیث:۲۰۸۱
- ↑ ()ایضاً
- ↑ ()مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: حاشیہ السندی علی ابن ماجہ، باب طلاق العبد: ۴/۳۲۱
- ↑ ()تفصیل كے لیے دیكھیے: ندا عبدالرزاق القصیر‘ المرأۃ المسلمۃ بین الشریعۃ الاسلامیہ والاضالیل الغربیہ: ۱/۲۹ مؤسسۃ الریان بیرت بدون سنہ
- ↑ ()الروم: ۲۱
- ↑ ()الانبیاء:۲۲
- ↑ ()مزید تفصیل کے لیے دیکھیے :سید قطب ، شبہات حول الاسلام، قوامۃ الرجل ص ۳۲
- ↑ ( )قطب الدین احمد(شاہ ولی اللہ)، حجۃ اللہ البالغۃ، حقوق الزوجیۃ جلد ۲، ص ۱۳۶
- ↑ ()احمد القطان، تفسیر القطان المکتبۃ الشاملۃ ، تفسیر سورہ ٔ نساء : ۳۴:۱/۱۲۹
- ↑ ()مزيد تفصيل كے لیے دیكھیے :محمد قطب ، شبہات حول الاسلام ص ۱۱۹
- ↑ ()النساء:۳۴
- ↑ ()آل عمران :۱۵۹
- ↑ ()النساء:۱۹
- ↑ ()الترمذی ، ابو عیسی محمد بن عیسی، السنن، باب فضل ازواج النبی حدیث:۳۸۳۰
- ↑ ()عماد الدین ابن کثیر ، تفسیر القرآن العظیم، تفسیر سورہ ٔ نساء : ۱۹، ۱/۴۶۶
- ↑ ()الزمحشری جار اللہ ، الکشاف، تفسیر سورہ ٔ نساء : ۱۹،۱/۴۹۰
- ↑ ()ابو بکر الجصاص ، احکام القرآن، تفسیر سورہ ٔ نساء :۲/۴۷
- ↑ ()مسلم بن الحجاج، الجامع الصحیح:۱۰/۵۸
- ↑ ()الترمذی، السنن:۴/۳۵
- ↑ ()ابن ماجۃ، السنن:۱/۶۳۴
- ↑ ()فريح بن صالح البہلال،الاستيعاب في ما قيل في الحجاب:۱/۱۳، یہ مقالہ ۱۴۲۵ھ/۷/۳۰ كو شائع ہوا۔
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |