34
1
2019
1682060084478_503
62-75
http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/118
ولادت
آپ کا نام محمد بن حسن فرقد شیبانی ہے اور کنیت ابو عبداللہ۔جس نے آپ کے دادا کا نام فرقد کی بجائے واقد بیان کیا ہے ، اس نے غلطی کی ہے۔([1]) اور یہ بھی روایت ہے کہ آپ کا نام محمد بن حسن بن طاؤس بن ہُر مز ملک بنی شیبان ہے۔([2])مگر صحیح نسب نامہ پہلا ہی ہے کیوں کہ اسی پر اکثر قدیم و جدید مؤرخین متفق ہیں۔
ان کے والداپنا آبائی گاؤں "حرستا" ترک کر کے واسط آگئے اور یہاں قیام کیا۔ امام محمد رحمہ اللہ یہیں واسط میں پیدا ہوئے. آپ کا سن پیدائش صحیح قول کے مطابق 132 ہجری ہے ،پھر واسط(عراق)سے ان کا خاندان کوفہ منتقل ہو گیا جہاں مستقل سکونت اختیار کرلی، چنانچہ کوفہ آنے کے بعد امام محمد رحمہ اللہ کی تعلیم و تربیت ،نشو ونما اور بلوغ و شعور کے مراحل یہیں اتمام کو پہنچے اور وطنی نسبت بھی یہیں سے قائم ہوگئی اور لوگوں کو رفتہ رفتہ آپ کی سابقہ وطنی نسبتیں فراموش ہو گئیں اور صرف اتنا یاد رہ گیا کہ امام محمد رحمہ اللہ کوفی تھے۔
جس طرح عراق منتقل ہونے سے پہلے امام محمد کے خاندان کے وطن کےتعین کے بارے میں اختلاف ہے، اسی طرح آپ کی تاریخ ولادت میں بھی اختلاف ہے۔بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ کی ولادت 131ہجری میں ہوئی، بعض کا خیال ہے کہ آپ کی ولادت 132ہجری میں ہوئی اور بعض دوسرے اہل علم کا خیال ہے کہ 135ہجری میں ہوئی۔ ([3])
بعض محدثین کا یہ قول کہ آپ 135ہجری میں پیدا ہوئے ،درست معلوم نہیں ہوتا([4]) کیوں کہ امام موصوف نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہے۔ان کے ساتھ آپ کا مضبوط تعلق رہا ہے اور ان سے آپ نے بہت سی روایات لی ہیں۔ بعض کا خیال یہ ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ ر حمہ اللہ کی شاگردی صرف ایک سال یا اس کے لگ بھگ کی ہے،راقم اس بات سے متفق نہیں ہے کیوں کہ آپ نے پہلے پہل جو کچھ دین کے حوالے سے علم حاصل کیا وہ امام ابو حنیفہ سے حاصل کیا اور ان کے ساتھ رہ کر آپ نے جن حالات و واقعات کا مشاہدہ کیا وہ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ان سے آپ کا تعلق اور ان کی شاگردی میں آپ کا رہنا ایک سال سے کہیں زیادہ عرصے پر محیط ہے۔
محمد زاہد الکوثری رقم طراز ہیں:
ولما بلغت سنہ اربع عشرۃ سنۃ حضر مجلس ابی حنیسۃ لیسالہ عن مسالۃ نزلت بہ ۔ فسالہ قائلاً:ماتقول فی غلام احتلم باللیل بعد ماصلی العشاء ؟ھل یعیدالعشاء۔ قال:نعم ! فقام واخذ نعلہ واعاد العشاء فی زاویۃ المسجد۔ وھواول ما تعلم من ابی حنیسۃ فلما رآہ یعید الصلاۃ اعجبہ ذالک وقال:ان ھذا الصبی یفلح ان شاء اللہ تعالیٰ ([5])
”یعنی جب (امام محمدؒ) کی عمر چودہ برس ہوگئی تو وہ امام ابوحنیفہ ؒ کی مجلس میں حاضر ہوئے، ایک مسئلہ دریا فت کرنے کے لیے جو ان کو درپیش ہوا۔ پس انھوں نے وہ مسئلہ دریافت کیا کہ آپ کیا فرماتے ہیں اس لڑکے کے بارے میں، جو نمازِ عشاء ادا کرے (اور سوجائے اور پھر ) اسے احتلام ہوجائے، کیا وہ نمازِ عشاء لوٹائے گا؟ انھوں نے فرمایا : جی ہاں ! وہ(امام محمدؒ) کھڑے ہوئے اور اپنا جوتا اٹھایا اور مسجد کے ایک جانب نمازِ عشاء لوٹائی۔ یہ پہلا مسئلہ تھا جو انھوں نے امام ابو حنیفہ سے سیکھا۔ امام ابو حنیفہ ؒ نے جب ان کا یہ عمل دیکھا کہ وہ عشاء کی نماز لوٹا رہے ہیں، تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ کامیاب ہوجائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔“
محمد زاہد الکوثری آگے لکھتے ہیں:
ومن ذالک الحین اقبل محمد بن حسن الی العلم بکلیتہ یلازم حلقۃ ابی حنیفۃ، ویکتب اجوبۃ المسائل فی مجلسہ ویدونھا وبعد ان لازمہ اربع سنین علی ھذا الوجہ مات ابو حنیفۃ رضی اللہ عنہ([6])
”اس وقت سے محمد بن حسن آئے علم کی تکمیل کے لیے اور امام ابو حنیفہ ؒ کے حلقہ درس سے وابستہ ہوگئے۔ اور ان کی مجلس میں مسائل کے جوابات لکھتے اور ان کو مدون کرتے۔ اس کا دورانیہ چار سال پر محیط ہے۔ پھر امام ابو حنیفہ کا انتقال ہو گیا۔ اللہ ان سے راضی ہو۔“
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ کا سن ولادت 135ہجری ہے وہ اپنے قول میں درست نہیں ہیں ۔اس بات کو وہ بیان تقویت دیتا ہے جو ابن خلکان کی وفیات الاعیان میں ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ کئی سال تک امام ابوحنیفہ کی مجلس میں شریک رہے ،اس کے بعد امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔([7])
جن مؤرخین کا خیال یہ ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ کا سن ولادت 132ہجری ہے ان میں ابن سعد وغیرہ شامل ہیں۔([8]) مگر جب وہ ان کی تاریخ وفات بیان کرتے ہیں تو 189ہجری بتاتے ہیں،جس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ آپ اٹھاون سال کے تھے۔اس کا مطلب بھی یہی ہوا کہ آپ کی صحیح تاریخ ولادت 131ہجری ہے۔ جیسا کہ دوسرے مؤرخین کا خیال ہے۔ مرحوم شیخ محمد زاہد الکوثری، امام محمد رحمہ اللہ کا سن ولادت 132 ہجری قرا ر دیتے ہیں ۔([9])
لیکن اس تاریخ کے بارے میں اس بناء پر شبہ بھی قائم رہتا ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ اٹھاون سال کی عمر میں 189 ہجری میں فوت ہوئے۔ درست بات یہی ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ 131 ہجری کے اواخر یا 132ہجری کے اوائل میں پیدا ہوئے ،اور 189 ہجری کے اواخر میں فوت ہوئے اور یہ عام مؤرخین کی اس متفقہ رائے سے ہم آہنگ ہے ۔([10])
ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ امام محمدؒ کا سن ولادت 131ہجری ہے ، اور وہ چودہ (14) برس کی عمر یعنی 145 ہجری میں امام ابو حنیفہ ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور ان کی وفا ت 150 ہجری تک ان کی خدمت میں حاضر رہے، اس حساب سے امام ابو حنیفہ ؒ کے حلقہ درس سے وابستگی کا دورا نیہ چار سال چند ماہ بنتا ہے۔
خاندان اور وطن
جمہور مؤرخین بالخصوص اصحاب طبقات وانساب میں سے بعض کی رائے یہ ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ کا اصل وطن ’’حرستا‘‘ تھا۔([11]) مگر صمیری نے اپنی کتاب اخبار ابی حنیفہ واصحابہ میں بیان کیا ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ کا اصل وطن فلسطین کے شہر رملہ کی ایک بستی تھا جب کہ صاحب تاریخ بغداد نے اپنی بعض روایات میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ کا اصل تعلقجزیرہسے تھا،اور یہ کہ آپ کے والدمحترم لشکر میں شامل تھے،اور جب یہ لشکر واسط پہنچا تو وہاں امام محمد رحمہ اللہ کی ولادت ہوئی۔
مرحوم شیخ کوثری کا رجحان آخر الذکر رائے کی طرف ہے ،مگر اس کے ساتھ وہ یہ اضافہ کرتے ہیں امام محمد رحمہ اللہ کے والد نے لشکر شام میں شامل ہونے کے بعد ایک مرتبہ حرستا میں قیام کرنا پسند کیا اور دوسری مرتبہ فلسطین کی بستی میں رہائش پذیر رہے،اور یہ دونوں شام کے علاقے میں شامل تھے،پھر وہ کوفہ منتقل ہوگئے اور واسط میں مفوضہ ذمےداری ادا کرنے کی غرض سے قیام کیا تھا۔([12])
شیخ کوثری کی یہ رائے محض مؤرخین کی مختلف آراء کے درمیان تطبیق دینے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔کیوں کہ تاریخی دلائل اس انداز فکر کی تائید نہیں کرتے۔تاہم اس رائے کو قبول کرنا ممکن تھابشرطیکہ عام مؤرخین بالخصوص اصحاب طبقات کا اس بات پر اتفاق نہ ہوتا کہ امام محمد رحمہ اللہ کا اصلی وطن ’’حرستا‘‘ تھا۔
ہمیں یقینی طور پر معلوم نہیں کہ امام محمد اپنے والدین کے اکلوتے تھے یا ان کے علاوہ بھی ان کی کوئی اولاد تھی۔تاریخ اس بارے میں خاموش ہے۔جہاں تک امام موصوف کے والد محترم کا معاملہ ہے تو ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں ان کا اتنا واجبی اور سطحی سا تعارف کرایا ہے کہ اس میں ان کی تاریخِ ولادت و وفات کی طرف اشارہ تک نہیں کیا۔صرف اس وضاحت پر اکتفاء کیا ہے کہ وہ ’’حرستانی‘‘تھے اور وہ اہل شام کی فوج میں ملازم تھے اور دولت مند تھے۔اسی طرح امام محمد رحمہ اللہ کے حالات زندگی تحریر کرنے والے مؤرخین کی بڑی تعداد نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے،لیکن یہ اتنے سطحی اشارات ہیں جو امام موصوف کے والد کی زندگی کے مختلف مراحل پر روشنی نہیں ڈالتے۔صرف یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ شام سے عراق منتقل ہوئے اور یہ کہ امام محمد رحمہ اللہ واسط شہر میں پیدا ہوئے۔([13])
حسن بن فرقد کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ایک مالدار آدمی تھے اس کی دلیل امام محمد رحمہ اللہ سے منقول یہ روایت ہے کہ میرے والد نے ترکےمیں میرےلیے تیس ہزار دینار چھوڑے تھے جن میں سے پندرہ ہزار علم لغت و شعر کی تحصیل میں اور پندرہ ہزار فقہ و حدیث کی تحصیل میں صرف کردیے۔یہ بے حد و حساب مال و دولت جو حسن بن فرقد نے اپنے پیچھے چھوڑی ان کے انتہائی دولت مند ہونے کی دلیل ہے اور یہ کہ ان کے بیٹے نے آسودگی میں نشوونما پائی ،اس آسود گی اور خوشحالی میں پروان چڑھنے کا امام محمد رحمہ اللہ کی زندگی پر خاص اثر تھا۔ چناںچہ آپ کے متعلق منقول ہے کہ آپ پیدائشی طور پر خوبصورت ڈیل ڈول والے اور پورے طور پر صحت مند اور طاقت ور تھے۔اس دولت و ثروت کا امام محمد کی زندگی میں اہم اور نمایاں اثر نظر آتا ہے،جو بے مقصد زندگی کا ذریعہ نہ تھی بلکہ ایک عمدہ اور فائدہ مند علمی زندگی کے لیے تھی ۔امام موصوف کو اس کی بدولت حصول علم کے لیے فراغت اور وسائل میسر تھے۔آپ نے تقریبا اپنی پوری عمر کام،تعلیم و تالیف و تدوین کے لیے وقف کردی تھی۔اس ثروت و خوشحالی اور اپنے والد سے ملنے والی میراث کے سبب آپ کو اپنی گھریلو ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہونے اور اپنے اخراجات کے لیے کسب معاش کی بالکل ضرورت نہ تھی۔([14])
امام محمد کی قرآن فہمی
امام محمد سے تفسیر قرآن کے موضوع پر ایسی کوئی یادگار تالیف نہیں جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ کتاب اللہ کی تفسیر میں ان کا خاص متعین منہج کیا تھا۔ آپ کی زیادہ تر توجہ علم فقہ اورا س کی تدوین پر مرکوز رہی ،لیکن بعض واقعات جو قرآن کریم کے بارے میں امام محمد کی فصاحت و بلاغت کے حوالے سے منقول ہیں،ان سے پتا چلتا ہے کہ امام محمد قرآن کریم کو ایسے محفوظ انداز میں ایسے بھرپور طریقے سے سمجھتے تھے جس کی بنیاد عقل و نقل دونوں پر تھی۔نیز آپ قرآن میں غورو تدبر کرنے اورا س کا فہم حاصل کرنے کے لیےکثرت سے تلاوت قرآن کیا کرتے تھے۔اس سلسلے میں امام شافعی کا قول ہے’’ اگر میں یہ کہوں کہ قرآن محمد بن حسن کی لغت میں نازل ہوا ہے تو ان کی بے مثال فصاحت وبلاغت کی بناپر میں کہہ سکتا ہوں۔‘‘یہ صلاحیت کتاب مجید کو مسلسل اور باقاعدہ کثرت سے پڑھتے رہنے سے حاصل ہوتی ہے۔([15])
صاحب جواہر المضیہ کہتے ہیں:امام محمد کے لیے فقہ میں درجہ امامت کو پہنچنا ممکن نہ تھا اگر آپ احکام فقہ کے مصدر اول(قرآن کریم) پر اور اس کے اسلوب ،حلال وحرام اور ناسخ و منسوخ کی حیثیت کے بارے میں پورا عبور حاصل نہ کرلیتے اس لیے آپ کے بارے میں مذکور ہے کہ آپ کتاب اللہ کے سب سے بڑے عالم تھے۔([16])
چند مثالیں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:
1۔امام محمد کے فہم قرآن کے بارے میں اسد بن فرات کی روایت ہے: ” میں نے ایک دن محمد بن حسن سے کہا:ذبیح اللہ کے بارے میں مختلف روایات ہیں کہ وہ کون تھے ؟کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسحاق تھے،جب کہ دوسرے کہتے ہیں کہ وہ اسماعیل تھے۔امام محمد نے جواب دیا: ہمارے نزدیک صحیح ترین روایت یہ ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل تھے۔ اس کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے۔: فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ ([17]) ” ہم نے ابراہیم کی بیوی کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی“ بھلا پھر ذبح اسحاق کے ذریعے ابراہیم کی آزمائش کیونکر ہوتی جب کہ اللہ تعالی نے اسے اطلاع دی تھی کہ اسے اسحاق بیٹے سے نوازا جائے گا اور ا سحاق کا بیٹا یعقوب ہوگا؟ سب پر واضح ہے کہ آزمائش اور امتحان تو اس چیز کا ہوتا ہے جس کا انجام معلوم نہ ہو اور وہ حضرت اسماعیل تھے۔([18])
2۔قرآن کریم میں ارشاد ہوا :
اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِكَةً ؗ وَّ الزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ ([19])
”بدکار مردنکاح نہیں کرتا مگر بدکار عورت سے یا شرک والی سے،اور بدکار عورت سے نکاح نہیں کرتا مگر بدکار مرد یا مشرک۔“
مؤطا امام محمد میں ہے کہ:
اخبرنامالک اخبرنا یحیی بن سعید عن سعید بن المسیب فی قول اللہ عزوجل الزانی لاینکح الا زانیۃاو مشرکۃ والزانیۃ لاینکحھا الا زان او مشرک قال وسمعتہ یقول انھا قد نسخت ھذہ الایۃ بالتی بعدھا ثم قرأ وانکحواالایامی منکم والصالحین من عبادکم وامائکم قال محمد وبھذا نأخذ وھو قول ابی حنیفۃ والآامۃ من فقہائنا لابأس بتزوج المرأۃ وان کانت قد فجرت وان یتزوجھا من لم یفجر ([20])
”امام مالک نے ہمیں خبر دی کہ ہمیں حضرت یحییٰ بن سعید نے روایت کیا کہ حضرت سعید بن مسیب سے اللہ تعالی کے اس ارشاد کےبارے میں زانی زانیہ سے نکاح کرے اور مشرک مشرکہ سے ۔حضرت یحییٰ بن سعید نے کہا میں نے حضرت سعید بن مسیب سے سنا وہ فرما رہے تھے کہ یہ آیت اس آیت سے منسوخ ہے جو اس کے بعد ہے پھر انھوں نے پڑھا وانکحوا الایامی منکم و الصالحین من عبادکم و امائکم ”اور تم بیوہ عورتوں سے نکاح کرو اور صالحین غلاموں اور باندیوں سے۔“امام محمد نے فرمایا اسی پر ہمارا عمل ہے امام ابوحنیفہ اور ہمارے دوسرے فقہاء فرماتے ہیں کہ اس عورت سے نکاح کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں خواہ وہ عورت فاجرہ ہو اور آدمی نیک صالح۔“
3۔قرآن کریم میں ارشاد ہوا:
اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ ([21])
”اے پیغمبر! سورج ڈھلنے کے وقت سے لے کر رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو،اور قرآن پڑھنا فجر کا۔“
مؤطا میں ہے کہ:
اخبرنا مالک حدثنا داؤد بن حصین عن ابن عباس قال قال یقول دلوک الشمس میلھا وغسق اللیل اجتماع اللیل وظلمتہ،قال محمدھذاقول ابن عمروابن عباس وقال عبد اللہ بن مسعود دلوکھاغروبھاوکل حسن۔
”امام مالک نے ہمیں خبر دی کہ ہمیں داؤد بن حصین نے حضرت عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث بیان فرمائی کہ وہ فرماتے تھے کہ دلوک الشمس سے مراد سورج کا ڈھلنا ہے اور غسق اللیل سے مراد رات اور اس کا اندھیرے کا جمع ہونا ہے۔“
امام محمد نے فرمایا کہ یہ حضرت عبد اللہ ابن عمر اور حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کا قول ہے۔اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کا فرمان ہے کہ دلوک سے سورج کا غروب ہوجانا مراد ہے۔اور یہ تمام اقوال عمدہ ہیں۔
مؤطا میں ہے کہ:
اخبرنامالک حدثناعبداللہ بن دیناران عبد اللہ بن عمراخبرہ ان رسول اللہ ﷺ قال انمااجلکم فیماخلامن الامم کمابین صلوۃ العصرالی مغرب الشمس وانمامثلکم ومثل الیھود و النصاری کرجل استعمل عمالا فقال من یعمل لی الی نصف النھارعلی قیراط قیراط قال فعملت الیھودثم قال من یعمل لی من نصف النھارالی العصرعلی قیراط قیراط فعملت النصاری علی قیراط قیراط ثم قال من یعمل لی من صلوۃ العصرالی مغرب الشمس علی قیراطین قیراطین،الا فانتم الذین یعملون من صلوۃ العصر الی مغرب الشمس علی قیراطین قیراطین قال فغضبت الیھود والنصاری وقالوا نحن اکثر عملاواقل عطاء قال ھل ظلمتکم من حقکم شیئا قالوا لا قالوا فانہ فضلی اعطیہ من شئت۔ قال محمد ھذا الحدیث یدل علی ان تاخیر العصر افضل من تعجیلھا الا تری انہ جعل ما بین الظھر الی العصر اکثر مما بین العصر الی المغرب فی ھذا الحدیث ومن عجل العصر کان ما بین الظھر الی العصر اقل مما بین العصر الی المغرب،فھذا الحدیث یدل علی تاخیر العصر وتاخیر العصر افضل من تعجیلھا مادامت الشمس بیضاء نقیۃ لم تخالطھا صفرۃ وھو قول ابی حنیفۃ والآامۃ من فقہائنا رحمھم اللہ تعالی اجمعین ۔ ([22])
”امام مالک نے ہمیں خبر دی کہ ہمیں عبداللہ بن دینار نے حدیث بیان فرمائی کہ بےشک انھیں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : دوسری امتوں کے مقابلے میں تمھاری عمریں اس قدر ہیں جیسے عصر اور مغرب کا درمیانی وقفہ ہوتا ہے تمھاری اور یہودونصاری کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے مزدور کو کام پرلگایا اور کہا کہ کون ہے جو میرے لیے دوپہر تک ایک قیراط کے بدلے یہ کام کرے گا یہود نے یہ کام کیا۔پھر اس نے کہا کہ کون ہے جو ایک قیراط کے بدلے عصر تک کام کرے؟ نصاری نے ایک قیراط کے بدلے عصر تک کام کیا۔پھر اس شخص نے کہا دوقیراط کے بدلے نماز عصر سے مغرب تک کون ہے جومیرے لیےکا م سر انجام کرے؟ سن لو وہ لوگ تم ہی ہو جو عصر کا نماز سے مغرب تک دو قیراط کے بدلے کام کرتے ہو۔رسول ﷺ نے فرمایا کہ اس بات پر یہود بگڑ گئے اور کہنے لگے ہم نے زیادہ کام سر انجام دیا مگر مزدوری کم ملی اس شخص نے کہا کیا میں نے تمھارے حق میں کسی قسم کی کمی کی ہے؟یہود و نصاری نے جواب دیا نہیں اس نے کہا یہ میری طرف سے احسان ہے میں جس پر چاہوں احسان کروں۔“
امام محمد نے فرمایا یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز عصر کا تاخیر سے پڑھنا جلد پڑھنے سے افضل ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ ظہر اور عصر کے درمیان جو وقفہ ہے وہ عصرا ور مغرب کے درمیانی وقفے سے زیادہ ہے۔لہٰذا یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ نماز عصر تاخیر سے پڑھنا جلد پڑھنے سے بہتر ہے، جب تک سورج سفید اور صاف رہے اور اس میں زردی پیدا نہ ہوچکی ہو۔امام ابو حنیفہ اور ہمارے دوسرے فقہائےکرام کا یہی قول ہے۔
4۔قرآن کریم کی آیت ہے:
ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ یَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ([23])
”یہ حکم ان کے لیےہے جو مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں۔“
امام محمد،کتاب الآثار میں فرماتے ہیں کہ:
محمد قال اخبرنا ابوحنیفۃ عن حماد عن ابراہیم فی رجل من اھل مکۃ اعتمرفی اشھرالحج ثم حج من عامہ ذلک،قال لیس علیہ ھدی بمتعتہ،قال محمد وبہ وھو قول ابی حنیفہ رحمہ اللہوذلک قول اللہ تعالی ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضر المسجد الحرام ([24])
”حضرت ابراہیم نے مکہ والے کے بارے میں فرمایا کہ وہ اشہر حج میں عمرہ کرے پھر اسی سال حج کرے تو اس پر تمتع کی وجہ سے ھدی لازم نہیں آئے گی۔ امام محمد نے فرمایا ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ کا فرمان ہے اور یہ اس لیے کہ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے ’’ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضر المسجد الحرام۔''
5۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوا:
نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ ۪ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ ([25])
”تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں،سو جاؤ اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو۔“
اس آیت کے متعلق امام محمدکتاب الآثار میں فرماتے ہیں کہ:
محمد اخبرنا ابوحنیفۃ عن کثیر الاصم الرماح عن ابی زراع عن ابن عمررضی اللہ عنہماقال سألتہ عن ھذہ الآیۃ: نساؤکم حرث لکم فاتو حرثکم انی شئتم کیف شئت،ان شئت عزلا وان شئت غیرعزل،قال محمد وبہ ناخذ وھو قول ابی حنیفۃ رحمہ اللہ ([26])
”حضرت ابو زراع حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں میں نے ان سے اس آیت نساؤکم حرث لکم فاتو حرثکم انی شئتمکے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا جس طرح چاہو۔ اگر چاہو تو عزل کرو اور چاہو تو بغیر عزل ہم بستری کرو۔ امام محمد نے فرمایا ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں یہی امام ابو حنیفہ کا فرمان ہے۔“
معلوم ہوا کہ فقہ حنفیہ میں خاندانی منصوبہ بندی کا تصور پایا جاتا ہے ۔ امام ابوحنفیہ اور امام محمدؒ اسی کے قائل معلوم ہوتے ہیں نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آدمی کو ہم بستری فظری تقاضوں کے مطابق کرنی چاہیے۔
6۔قرآن کریم کی آیت ہے:
وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ([27])
”اور جو عورتیں حاملہ ہوں ،ان کی (عدت کی) میعاد یہ ہے کہ وہ اپنے پیٹ کا بچہ جن لیں۔“
امام محمد کتاب الاثار میں فرماتے ہیں کہ:
محمد قال اخبرناابو حنیفۃ عن حمادعن ابراہیم عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال نسخت سورۃ النساء کل عدۃ فی القرآن:واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن،قال محمد وبہ ناخذاذاطلقت اومات زوجھا فولدت بعد ذلک بیوم او اقل واکثر انقضت عدتھا،وحلت للرجال من ساعتھاوان کانت فی نفاسھا وھو قول ابی حنیفۃ رحمہ اللہ۔ ([28])
” حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا چھوٹی سورہ نساء نے قرآن کریم کی تمام عدتوں کو منسوخ کردیا فرمایا کہ"واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن امام محمد نے فرمایا ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اگر عورت کو طلاق دی گئی یاا س کے شوہر کا انتقال ہوا اور اس کے بعد ایک دن یا اس سے کم میں یا زیادہ میں اس کا بچہ پیدا ہوگیا تو اس کی عدت پوری ہوگئی اور وہ اسی وقت مردوں کے لیے حلال ہے۔ چاہے نفاس میں کیوں نہ ہو۔ یہی امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔“
اس مثال سے بھی امام محمد کی قرآن فہمی کا اندازہ کرسکتے ہیں۔
7۔قرآن کریم کی آیت ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ([29])
"اے ایمان والو!اللہ نے تمھارے لیے جو پاکیزہ چیزیں حلال کی ہیں ان کو حرام قرار نہ دو،اور حد سے تجاوز نہ کرو،یقین جانو کہ اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"
آیت مذکورہ کے حوالے سے امام محمد کتاب الآثار میں فرماتے ہیں کہ:
محمد قال اخبرناابوحنیفۃ عن حمادعن ابراہیم ان مغفل بن مقرن المزنی اتی عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بامۃ لہ زیت،قال جلدھاخمسین جلدۃ،فقال انھالم تحصن،قال عبد اللہ:اسلامھا احصانھا۔ قالافان عبدا لی سرق من عبدلی آخر قالا لیس علیہ قطع،مالک بعضہ فی بعض،قال انی حلفت ان لاانام علی فراش ابدا،یریدالعبادۃ قال ابن مسعودرضی اللہ عنہ:یایھاالذین امنوالاتحرمواطیبات مااحل اللہ لکم ولاتعتدواان اللہ لا یحب المعتد ینفقال الرجل:لولا ھذہ الایت لم أسئلک،فامران یکفہ بعتق رقبۃ، وکان موسراوان ینام علی فراش،قال محمد:وھذا کلہ قول ابی حنیفہ وقولنا،الا فی خصلۃ واحدۃ،الحد لایقیمہ الاالسلطان، فاذازنیت الامۃ اوالعبدکان السلطان ھو الذی یحد ہ دون المولی۔"30؎ ([30])
”حضرت ابراہیم سے مروی ہے کہ مغفل بن مقرن مزنی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی زانیہ باندی کو لے کر آئے تو انھوں نے فرمایا اسے پچاس کوڑے لگاؤ انھوں نے کہا یہ محصنہ نہیں ہے،حضرت عبد اللہ نے فرمایا اس کا اسلام قبول کرنا اس کا محصنہ ہونا ہے۔ انھوں نے عرض کیا میرے ایک غلام نے میرے دوسرے غلام کی چوری کی ہے،انھوں نے فرمایا اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا،اس لیے کہ یہ تمھاراہی مال ہے جو ایک دوسرے کے پاس ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے یہ قسم کھائی تھی کہ کبھی بستر پر نہیں سوؤں گا۔ مراد یہ تھا کہ عبادت کرتا رہوں گا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا "یایھاالذین امنوا لاتحرموا طیبات مااحل اللہ لکم ولاتعتدوا ان اللہ لایحب المعتدین"ان صاحب نے کہا اگر یہ آیت نہ ہوتی تو میں آپ سے پوچھتا ہی نہیں۔حضرت ابن مسعود نے ایک غلام آزاد کرنے کا حکم دیا،وہ مال دار تھےاور یہ حکم دیا کہ بستر پر سویا کریں۔امام محمد نے فرمایا یہ سب ہمارا اور امام ابو حنیفہ کا قول ہے سوائے ایک مسئلے کے کہ حد کو بادشاہ قائم کرے گا اگر باندی یا غلام زنا کرلیں تو مولیٰ حد نہیں لگائے گابلکہ بادشاہ حد لگائے گا۔“
8۔قرآن کریم کی آیت ہے:
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا ([31])
” چورمرد ہو اورچور عورت، اس کے ہاتھ کاٹ ڈالو۔“
امام محمد کتاب الآثار میں فرماتے ہیں کہ
محمدقال: اخبرنا ابوحنیفۃ قال حدثنا قاسم بن عبد الرحمان عن ابیہ عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما قال: لایقطع ید السارق فی اقل من عشرۃ دراھم، قال محمد: وبہ نأخذ وھو قول ابی حنیفۃ رحمہ اللہ ([32])
” حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دس درہم سے کم میں چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔امام محمد نے فرمایا ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ کا فرمان ہے۔“
ہمارے معاشرے میں یہ تصور کہ ہر چوری کرنے والے کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں درست نہیں۔ دوسرا یہ کہ قرآن کریم میں ہر چوری کرنے والے کی بات بھی نہیں کی گئی بلکہ فرمایاگیا:
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا ([33])
” چورمرد ہو اورچور عورت، اس کے ہاتھ کاٹ ڈالو۔“ یعنی جو پیشہ ور چور ہیں۔
9۔قرآن کریم کی آیت ہے:
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْا ۚ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ([34])
”ہاں جو لوگ اس کے بعد توبہ کرلیں،اور (اپنی )اصلاح کرلیں،تو اللہ بہت بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔ “
امام محمد آیت مذکورۃ کے تحت کتاب الآثار میں فرماتے ہیں:
محمد قال:اخبرناابوحنیفۃ قال حدثناحمادعن ابراہیم قال اذاجلد القاذف لم تجزشھادتہ ابدا، وقال فی قول اللہ تعالی:الاالذین تابوامن بعد ذلک واصلحوا،قال یدفع عنہ اسم الفسق،فاما الشھادۃ فلا تجوزابدا،قال محمد وبہ نأخذ،وھو قول ابی حنیفۃ رحمہ اللہ ([35])
”حضرت ابراہیم نے فرمایا جب تہمت لگانے والے کو حد قذف لگ جائے تو پھر اس کی گواہی کبھی قبول نہ ہوگی اور اللہ جل شانہ کے درج ذیل فرمان مبارک"الاالذین تابوا من بعد ذلک واصلحوا"کے بارے میں فرمایا اس سے فسق کا نام ختم ہو جاتاہےلیکن اس کی گواہی قبول نہ ہوگی۔امام محمد نے فرمایا ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں،یہی امام ابو حنیفہ کا قول ہے۔“
10۔قرآن کریم کی آیت ہے:
اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ۔ وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ۔ لَیْلَةُ الْقَدْرِ ۙ۬ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ ([36])
”بے شک ہم نے اس(قرآن)کو شب قدر میں نازل کیا۔اور تمھیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا چیز ہے۔شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔“
امام محمد ؒ آیت مذکورہ کی تفسیر کے تحت کتاب الآثار میں فرماتے ہیں کہ:
محمدقال: اخبرنا ابوحنیفۃقال:حدثناعاصم بن ابی النجود عن زرابن حبیش عن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ قال لیلۃ القدرلیلۃ سبع وعشرین وذلک ان الشمس تصبح صبیحۃ ذلک الیوم لیس لھا شعاع،کانھا طست ترقرق ([37])
” حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا "لیلۃ القدر،ستائیس رمضان کی شب ہے اور یہ اس لیے کہ اس دن کا سورج بغیر شعاع کے نکلتا ہے گویا وہ چمکتا ہوا طشت ہے۔" مسلمانوں کے ہاں عمومی طور پر اسی پر عمل ہے کہ وہ شب قدر ستائیس رمضان کی شب کو تصور کرتے ہیں۔“
خلاصہ
مذکورہ حوالوں اور مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مام محمد قرآن کریم کو اس انداز میں سمجھتے تھے اور اس کی آیتوں سے استدلال کرتے جس کی بنیاد عقل و نقل دونوں پر تھی۔ وہ احادیثِ صحیح اور ائمہ باالخصوص اپنے استاد امام ابوحنیفہ ؒ کے ان اقوال کو بھی قرآنی آیات سے استدلال کے دوران پیش کرتے تھے جو قرآن و عقل دونوں سے مطابقت رکھتے ہوں۔
حوالہ جات
- ↑ ۔ الکوثری،محمد زاہد،بلوغ الامانی،ایچ۔ایم ۔سعید کمپنی،کراچی،1403ھ،ص4
- ↑ ۔ طاش کبری،احمد بن مصطفیٰ،مفتاح السعادۃ(حیدرآباد دکن،دائرۃ المعارف العثمانیہ،حیدرآباد دکن،1980ءج2،ص1
- ↑ ۔ حنبلی،عبد الحئی بن عماد،شذرات الذہب،دار احیاء التراث العربی،بیروت،س ن،ج1،ص322
- ↑ ۔ بلوغ الامانی،ص 5
- ↑ ۔ الکوثری،محمد زاہد،سیر ائمۃ الاحناف،ایچ۔ایم ۔سعید کمپنی ،کراچی،س ن،ص 152
- ↑ ۔ ایضاً
- ↑ ۔ ابن خلّکان،وفیات الاعیان،منشورات الرضی،قم،س ن،ج4،ص184
- ↑ ۔ محمد بن سعد،طبقات ،نفیس اکیڈمی،کراچی،س ن،ج7،ص384
- ↑ ۔ بلوغ الامانی،ص5
- ↑ ۔ ابن کثیر،حافظ ، البدایۃ والنہایۃ،دارالریان، بیروت، 1408ھ،ج5،ص210
- ↑ ۔ القرشی،عبد القادر،الجواہر المضیہ،دارالعلوم،ریاض،1399ھ،ج3،ص123
- ↑ ۔ بلوغ الامانی،ص5
- ↑ ۔ ابن عساکر،تاریخ مدینہ و دمشق،دارالفکر،بیروت،لبنان، 1415ھ،ج13،ص346
- ↑ ۔ نوری،جلال الدین ،امام محمد بن الحسن الشیبانی الواسطی ،مؤسسۃ الامام ابی حنیفہ،کراچی،س ن،ص 8۔ 9
- ↑ ۔ خطیب بغدادی،تاریخ بغداد،بیروت،لبنان،س ن،ج2،ص175
- ↑ ۔ الجواہر المضیہ،ج3،ص124
- ↑ ۔ ہود:71
- ↑ ۔ المالکی،عبد اللہ بن محمد،ریاض النفوس،دارالعرب الاسلامی،بیروت، لبنان،1403ھ،ج1،ص325
- ↑ ۔ نور:3
- ↑ ۔ محمد،امام،مؤطا،قدیمی کتب خانہ،کراچی،س ن،ص407
- ↑ ۔ بنی اسرائیل:78
- ↑ ۔ مؤطا،ص407
- ↑ ۔ بقرہ:196
- ↑ ۔ ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ،کتاب الآثار،بروایت امام محمد ،الرحیم اکیڈمی،کراچی،1410 ھ،ص236
- ↑ ۔ بقرہ:223
- ↑ ۔ کتاب الآثار،ص267
- ↑ ۔ طلاق:4
- ↑ ۔ کتاب الآثار ،ص274
- ↑ ۔ مائدہ:87
- ↑ ۔ کتاب الآثار،ص309
- ↑ ۔ مائدہ:38
- ↑ ۔ کتاب الآثار،ص312
- ↑ ۔ مائدہ:38
- ↑ ۔ نور:5
- ↑ ۔ کتاب الآثار،ص315
- ↑ ۔ قدر:1 تا 3
- ↑ ۔ کتاب الآثار،ص381
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 34 Issue 1 | 2019 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |