33
1
2019
1682060084478_504
108-119
http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/82
شریعتِ اسلامیہ میں نکاح کرنا ایک شرعی حکم کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو اس کی ترغیب دلائی ہے ۔ قرآن مجید میں سورةالنور میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰی مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىِٕكُمْ ؕ اِنْ یَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (النور:۲۳)
”اور تم میں سے جو لوگ تنہا (مجرد ) ہوں ، اور جو تمھارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے نیک ہیں ان کے نکاح کر دو ۔ اگر وہ غریب ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انھیں غنی کر دے گا۔ اور اللہ بہت وسعت والا اور علم والا ہے ۔ “
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
النکاح من سنتی فمن لم یعمل بسنتی فلیس منی و تزوّجوا فاِنی مُکاثر بکم الامم ومن کان ذا طّول فلینکحُ ([1])
”یعنی نکاح کرنا میری سنت ( طریقہ ) ہے ۔ پس جس نے میرے طریقے پر عمل نہیں (اعراض)کیا تو اس کا مجھ (اسلام) سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔پس نکاح کرو کیونکہ میں تمھاری کثرت کے باعث دوسری امتوں پر (روزِ قیامت ) فخر کروں گا۔ اور جو طاقت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ ضرور نکاح کرے۔ “
نکاح ہمارے رسول ﷺ کی سنت مبارکہ ہے اور اسلام میں اس کا ایک اہم مقام ہے۔ مذکورہ بالا روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شریعت میں نکاح نبی علیہ السلام کی سنت ِ موکدہ ہے ۔ اور اس حدیث میں صیغہ امر اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ واجب بھی ہے کیونکہ اصولِ فقہ کا قائدہ ہے کہ کسی چیز میں حکم کا ہونا اس کے واجب ہونے کی دلیل ہے ۔ اور یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ شریعت کی نگاہ میں نکاح کا مقصد محض لذت حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ نکاح کامقصدنسلِ انسانی کا فروغ اور جائز طریقے سے نسلِ انسانی کو پروان چڑھانا ہے ۔
فقہاءنے نکاح کے حکم کے بارے میں یہی فرمایا ہے کہ اگر گناہ(زنا) میں مبتلاہونے کا خوف ہے اور استطاعت بھی رکھتا ہے تو نکاح کرنا واجب ہے ورنہ سنت تو ہے ہی ۔دوسرا یہ کہ نکاح کا اصل مقصد اولاد کا حصول ہونا چاہیے نہ کہ محض جسمانی لذت اور فائدے کا حصول ۔ اس لیے اتباعِ سنت اور حرام سے بچنے کی نیت کے ساتھ نکاح کرنا باعثِ ثواب بھی ہے اور باعثِ برکت بھی ہے ۔
آج کے اس جدید دور میں خاندانی منصوبہ بندی(ضبطِ تولیدBirth Control/) کا بول بالا ہے ۔ موجودہ دور میں خاندانی منصوبہ بندی چونکہ باقاعدہ مہم ، تحریک اور سرکاری سطح پر متعارف کروائی جاتی ہے اس لیے اس کے ناجائز ہونے میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں، البتہ بعض علماءکرام انفرادی طور پربعض شرعی مجبوریوں کے تحت ضبطِ تولید(Birth Control) کو جائز قرار دےتے ہیں۔ اب ذیل میں اس کے جواز اور عدم جواز دونوں پر بحث کی جائے گی۔
عدم جواز
نکاح کرنا حضور ﷺ کی سنت مبارکہ ہے، اور اس کااصل مقصد یہ ہے کہ نسلِ انسانی کو فروغ ملے اور جائز طریقے سے نسلِ انسانی پروان چڑھے۔ اسی لیے نکاح پر اجروثواب رکھاگیاہے اور اس عورت کو بہتر قرار دیا گیا ہے جس کی اولاد کثیر ہو ۔ جیسا کہ اس حدیث میں ذکر ہے :
تزوّجواالودودالولودفانّی مکاثربکم الاممُ ([2])
لیکن بدقسمتی سے ہم نے آج مغرب کی دیکھا دیکھی دو بچوں کو کافی سمجھ لیا ہے اور منصوبہ بندی پر ملک کا لاکھوں روپیہ ضائع کر رہے ہیں، اور بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہاگر بچے زیادہ ہوں گے تو مسائل زیادہ ہوجائیں گے، وسائل کیسے پورے کیے جائیں گے اور ان کی خوراک کا بندوبست کہاں سے کریں گے۔ ایسی سوچ رکھنے والوں کواللہ تعالیٰ کے مندرجہ ذیل فرامین ذہن میں رکھنے چاہییں۔
قرآنِ کریم اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَكَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا ۗۖ اَللّٰهُ یَرْزُقُهَا وَ اِیَّاكُمْ ۖؗ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (العنکبوت:60)
”اور کتنے ہی زمین میں چلنے والے ایسے ہیں کہ جو اپنی روز ی (اپنے ساتھ) نہیں رکھتے ہیں۔اللہ ہی ان کو بھی روزی دیتا ہے اور تم کو بھی اور وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ “
اسی کے مثل ایک اور مقام پر ارشاد ہوتاہے :
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰهِ رِزْقُهَا (سورة الھود:6)
”زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا جاندار نہیں مگر اس کا رزق(کا ذمہ) اللہ پر ہے ۔ “
ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے :
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ ؕ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْ (الاسرا: ۱۳)
”اور (اے لوگو!) تم اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی ۔ “
حالانکہ جب ابھی بچہ پیدا بھی نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی اس کے رزق کا بندوبست فرما دیتا ہے۔ ماں کے بطن ہی میں جب بچہ چار ماہ کا ہو جاتا ہے ، اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ عالی شان ہے کہ :
یبعث اللہ ملکاً ویؤمر باربعٍ کلماتٍ و یقال لہ اکتب عملہ ورزقہ واجلہ و شقی أ و سعید ثمّ ینفخ فیہ الروح ([3])
”اللہ ایک فرشتے کو بھیجتا ہے اور اس کو چار باتوں کا حکم دیتا ہے یعنی اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل ، رزق، موت اور شقی ہے یا سعید ، یہ چار باتیں لکھ دے ، پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ )
اب جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ انسان کی زندگی کے بارے میں سب کچھ پہلے ہی سے لکھ دیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ انسان کو مل کر ہی رہتا ہے تو ہمیں رزق کی فراہمی کے معاملے میں غمزدہ نہیں ہونا چاہیے۔سید ابوالاعلیٰ مودودی سورةالاسراکی آیت ۱۳ کے تحت لکھتے ہیں کہ:
”یہ آیت ان معاشی بنیادوں کو قطعاًمنہدم کر دیتی ہے جن پر قدیم زمانے سے آج تک مختلف ادوار میں ضبطِ ولادت کی تحریک اٹھتی رہی۔ یہ آیت انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ رزق رسانی کا انتظام تیرے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ اس خدا کے ہاتھ میں ہے جس نے تجھے زمین میں بسایا ہے جس طرح وہ پہلے آنے والوں کو روزی دیتا رہا ہے بعد میں آنے والوں کو بھی دے گا، تاریخ کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں کھانے والوں کی آبادی جتنی بڑھ گئی ہے اتنے ہی بلکہ بارہا اس سے بہت زیادہ معاشی ذرائع وسیع ہوتے چلے گئے۔ لہٰذا خدا کے تخلیقی انتظامات میں انسان کی بے جا دخل اندازیاں حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ “([4])
ایک دوسری جگہ جناب مودودی صاحب لکھتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
”عزل کے حکم کے متعلق جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا اس کا تعلق انفرادی ضروریات او ر استثنائی حالات سے تھا۔ضبطِ ولادت کی کوئی عام دعوت و تحریک ہر گز پیشِ نظر نہ تھی اور ان احادیثِ مبارکہ کو ہر گز خاندانی منصوبہ بندی کی موجودہ تحریک کے حق میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ “([5])
مفتی محمد شفیع عثمانی خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے لکھتے ہیں :
” قرآن کریم کے اس ارشاد سے اس معاملے میں بھی روشنی پڑ تی ہے جس میں آج کی دنےا گرفتارہے۔ کثرتِ آبادی کے خوف سے ضبطِ تولید اور منصوبہ بندی کو رواج دے رہی ہے، اس کی بنےاد بھی اس جاہلانہ فلسفہ پر ہے کہ رزق کا ذمے دار اپنے آپ کو سمجھ لیا گیا ہے۔یہ معاملہ قتلِ اولاد کے برابر گناہ نہ سہی مگر اس کے مذموم ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ “([6])
وہ صورتیں جن میں خاندانی منصوبہ بندی ناجائز ہے :
۱۔ خاندانی منصوبہ بندی خالص نجی نوعیت کا مسئلہ ہے ۔ اس لیے اس کو کسی عام قانون کے ذریعے جبراً تمام مسلمانوں پر لاگو کرنا قطعاً جائز نہیں ہے ۔
۲۔ تنگی ٔرزق (خشیةاملاق) کے خوف کی وجہ سے ضبطِ تولید کرناکہ بچے پیدا ہوگئے تو انہیں کھلائیں گے کیسے وغیرہ۔
۳۔ کوئی شخص لڑ کیوں کی پیدائش سے بچنے کے لیے ضبطِ تولید کروائے۔ یہ بھی ناجائز ہے ۔
۴۔ صرف خاص منصوبہ بندی کے لیے بغیر کسی شرعی عذر کے عورت یا مرد کو بانجھ کر دینا کسی حال میں بھی جائز نہیں۔
مندرجہ بالا صورتوں کے علاوہ منصوبہ بندی کے جواز کے لیے مہم جوئی کرنا خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو شرعاًممنوع اور ناجائز ہے۔
جواز
عن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال کنا نعزل والقراٰن ینزل زاد اسحاق قال سفیان لو کان شیئاً ینھیٰ عنہ لنھانا عنہ القراٰن ([7])
” حضرت جابرؓ سے روایت ہے ہم عزل کرتے تھے اور قرآن نازل ہوتا رہتا تھا۔اسحاق نے اتنا زائد کیا کہ سفیان نے کہا : اگرعزل برا کام اور ممنوع تو قرآن ہم کو اس سے روک دیتا۔ “
دوسری روایت میں ارشاد ہے :
عن جابر قال قلنا یا رسول اللہ انا کنا نعزل فزعمت الیھود انہ الموؤدة الصغریٰ فقال کذبت الیھود ان اللہ اذا اراد ان یخلقہ لم یمنعہ ([8])
”حضرت جابر سے مروی ہے کہ ہم نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ہم عزل کرتے تھے تو یہودیوں نے کہاکہ یہ زندہ درگور کرنے کی چھوٹی قسم ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہودیوں نے جھوٹ کہا ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو کوئی چیز اس کو روک نہیں سکتی ۔ “
عزل کی تعریف
علامہ عینی علیہ الرحمۃ عزل کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
الرجل ذَکرہُ من الفرج لینزل منیہ خارج الفرج فراراً من الاحبال ([9])
” حمل سے بچنے کے لیے انزال کے وقت مرد کا اپنے آلہ کو فرج سے باہر نکال دینا۔“
قاموس الفقہ میں لکھا ہے : عزل کا مطلب یہ ہے کہ ہم بستری کے موقع پر جب مرد قریب بہ انزال ہو جائے تو اپنا عضو باہر نکال لے ، تا کہ شرمگاہ میں انزال نہ ہونے پائے اور حمل نہ ٹھہرے ، اسی کو عزل کہتے ہیں ۔ ([10])
ضبطِ تولید کی شرعی بنیادعزل ہے :
مصری علمانے لکھا ہے کہ منع حمل یا نسل کم کرنے کے بارے میں قرآن میں کوئی تصریح نہیں، البتہ احادیث میں بظاہر اس کی ممانعت معلوم ہوتی ہے۔ امام غزالی شافعی علیہ الرحمۃ نے احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ عزل کی اباحت یا کراہت کے بارے میں چار مذہب ہیں۔ بعض علما نے عزل کو مطلقاً مباح قرار دیا ہے، بعض نے مطلقاً مکروہِ تحریمی قرار دیا ہے۔ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک عزل مباح ہے۔ عزل کے پانچ اسباب ہیں (جن کا ذکر آگے آئے گا،ان شاءاللہ)۔حنفی و مالکی علمانے بھی حمل سے بچنے کے لیے عزل کو جائز کہا ہے، فقہ جعفریہ میں بھی اس کی اباحت ہے۔
بنا بریں خاندانی منصوبہ بندی کی شرعی بنیاد عزل ہے اور یہ کتاب و سنت کی صراحت کے خلاف نہیں ہے۔ ([11])
قرآن مجید فرقان حمید میں رزق کی تنگی کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنے کی ممانعت کی گئی ہے ۔ موجودہ دور میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے جو طریقے رائج ہیں ان میں سے کوئی طریقہ بھی اولاد کو قتل کرنے کی تعریف میں نہیں آتا، کیونکہ حمل ٹھہرنے کے نو ماہ بعد ولد وجود میں آتاہے اورعصرِ حاضر میں ضبطِ تولید کا عمل استقرار نطفہ کے وقت کیا جاتا ہے۔ جب ولد کا کسی قسم کا وجود نہیں ہوتا۔ پس جب ولد ہی نہیں تو قتلِ ولد کیسے لازم آئے گا۔ لہٰذا رز ق کی تنگی کے ڈر سے ضبطِ تولید ناجائز ٹھہرے گا۔اس کے بر عکس کوئی اور وجہ یا کوئی مجبوری ہو تو بعض شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دے دی جائے گی ۔ (خاندانی منصوبہ بندی کی شرائط اگلے صفحات میں نقل کی گئی ہیں۔ )
اور جہاں تک انسان کے رزق کا تعلق ہے تو پچھلے صفحات میں حدیث ذکر کر ی گئی ہے کہ پیدا ہونے سے قبل ہی انسان کے مقدر میں اس کا رزق لکھ دیا جا تا ہے ۔ ( دیکھیےحوالہ نمبر:3)
لہٰذا انسانوں کو رزق کی فراہمی پر غم زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں یہ بات ضرورہے کہ ہر بچے کو اس کاپورا حق دینا چاہیےاوراس کو پورے دو سال دودھ پلانا چاہیے کیونکہ ماں کے دودھ کا کوئی نعم البدل اس دنیا میں موجود نہیں ہے ۔ ماں کا دودھ پینے والے بچے نفسیاتی اور جسمانی اعتبار سے مضبوط اور طاقتور ہوتے ہیں۔ جدید تحقیقات کے مطابق ماں کی چھاتی سے دودھ پینے والے بچے مضبوط قوت مدافعت رکھنے کے باعث ۰۱ فیصد کم اسپتال میں لائے جاتے ہیں۔ ماں کا دودھ پینے والے بچے عام بچوں کی بہ نسبت زیادہ ذہین ہوتے ہیں اور موذی امراض سے محفوظ رہتے ہیں اور ان بچوں میں سرطان(Cancer) کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔ جبکہ جن بچوں نے اپنی ماں کا دودھ نہیں پیا ہوتا وہ اکثر خاموش اور سہمے سہمے رہتے ہیں کیونکہ ماں کے دودھ میں کچھ اسے اجزاہوتے ہیں جو کہ گائے اور بھینس کے دودھ اور مارکیٹ میں ملنے والے دیگر خشک دودھ میں موجود نہیں ہوتے اور اپنے بچوں کو دودھ پلانے والی عورت بھی سینے اور پستان کے سرطان(Chest and Breast Cancer) سے محفوظ رہتی ہے۔آج کل خواتین میں جو یہ بیماریاں عام ہوتی جارہی ہیں ، اس کی ایک بڑی وجہ بچوں کودودھ نہ پلانا بھی ہے ۔
ان تمام باتوں کو جان لینے کے بعد یہ کہا جائے کہ بچے کو اس کا پورا حقِ رضاعت دیا جانا چاہیے تو کم از کم چھے ماہ مدتِ حمل اور دو سال مدتِ رضاعت ، یہ کل اڑھائی سال بنتے ہیں۔
اس لحاظ سے تقریباً دو بچوں کے درمیان شریعت نے اڑھائی سال کا وقفہ عطا کیا ہے اور اس وقفے کے دوران عورت کی صحت بھی مکمل بحال ہو جاتی ہے اور جسمانی اعتبار سے بھی وہ اور مضبوط ہوجاتی ہے۔ لہٰذابچوں کی پیدائش میں اس قدر وقفہ تو شرعی اعتبار سے بھی ثابت ہے۔
نطفے میں روح پڑنے سے پہلے حمل گرادینے میں اختلاف آج کے زمانے کا نہیں ہے ، بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے دور سے ہی اس مسئلہ میں اختلاف چلا آرہا ہے۔ یعنی یہ مختلف فیہ مسئلہ ہے ۔ لہٰذا بوقتِ مجبوری اس پر عمل کرنے کی گنجائش شریعتِ مطہرہ میں صحابہ کرام کے عمل سے بھی ملتی ہے۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمۃ اس معاملے میں صحابہ کرام کے اختلاف کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ :
” روح پڑنے سے پہلے حمل گرا دینے میں صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اختلاف ہوا ہے کہ جان پڑنے سے پہلے حمل گرانا جائز ہے یہ ناجائز؟ بعض فرماتے تھے کہ عذرِ شرعی کی وجہ سے گرا دینا جائز ہے،مثلاً ولادت کی تکلیف کا تحمل اگر نہ ہو، یا عیّال کی کثرت ہو، یا تنگ دستی اور مسافرت سے دو چار ہے وغیرہ۔ لیکن بعض صحابہ کرام احتیاط کے پیشِ نظر اس کے جواز کے قائل نہ تھے ۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ جائز ہے عزل پر قیاس کرتے ہوئے۔ اور عزل کا جواز روایاتِ صحیحہ مشہورہ سے ثابت ہے، ’لا شبہة فیہ‘ (اس میں کوئی شبہ نہیں ہے) اسی طرح مانع حمل دوائیں استعمال کرنا، حمل سے پہلے یا بعدمیں، عزل کی طرح جائز ہے۔ “([12])
وہ صورتیں جن میں خاندانی منصوبہ بندی جائز ہے
جن طبعی مجبوریوں اور پیچیدگیوں میں مخصوص حالات کے تحت انفرادی طور پر منصوبہ بندی جائز ہے وہ درجِ ذیل ہیں:
۱۔ اگر سلسلۂ تولید قائم رکھنے سے عورت کے شدید بیمار ہونے کا خدشہ ہو توضبطِ تولید جائز ہے۔
۲۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آپریشن کے ذریعے سے بچہ ہوتا ہے (موجودہ دور میں اکثر بچوں کی ولادت زیادہ تر آپریشن کے ذریعے سے ہی ہو رہی ہے۔) آپریشن کے ذریعے سے ولادت میں متعدد پیچیدگیاں ہوتی ہیں ۔ اس صورت میں بیوی کو آپریشن کی تکالیف اور جان کے خطرے سے بچانے کے لیے یہ عمل جائز ہے۔
۳ ۔ بچوں کی ولادت عام طریقے ( ڈلیوری ) سے نہ ہو رہی ہو اور اگر ماہر ڈاکٹر یہ کہے کہ آپریشن کے ذریعے سے مزید بچہ پیدا ہونے سے عورت کی جان خطرے میں پڑ جائے گی تو اس صورتحال میں سلسلۂ تولید بند کرنا ضروری ہو جائے گا بلکہ واجب کے زُمرے میں آئے گا۔
شیخ الازہر شیخ حسن مامون نے اس بارے میں لکھا ہے کہ :
” میری رائے میں جب خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت محسوس ہو تو اس پر عمل کرنے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں۔ بشرطیکہ لوگ اس کو اپنی مرضی سے اختیار کریں اور اس میں کسی قسم کا کوئی دباؤ نہ ہو بلکہ لوگوں کے اپنے حالات کی روشنی میں ہو اور اس خاندانی منصوبہ بندی کا ذریعہ بھی جائز ہو۔ “([13])
پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری اس سلسلے میں لکھتے ہیں :
” اگر اولاد کی صحت کا مسئلہ ہو کہ بچہ صحت مند اور توانا نہیں ہو گا اور مستقل بیمار رہے گا ایسی صورت میں منصوبہ بندی جائز ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کے حالات ابتر ہوں اور وہ یقین کی حد تک محسوس کرے کہ میرے وسائل اس قدر نہیں اور اتنی اولاد ہوئی تو ان کی کفالت حرا م طریقے سے کرے گا، ایسی صورت میں منصوبہ بندی جائز ہے۔بہت سے ائمہ کا فتویٰ ہے کہ اگر خطرہ ہو کہ کثیر اولاد کو حلال رزق کھلانا ممکن نہیں تو منصوبہ بندی جائز ہے۔ “([14])
مفتی اسماعیل نورانی خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں :
” وقفہ کی جتنی صورتیں فی زمانہ مروج ہیں وہ تقریباً جدید ہیں ۔ لیکن وقفہ کرنے کا تصور قدیم زمانہ سے چلا آرہا ہے ۔ چنانچہ پہلے کے لوگ اسے ’ عزل ‘ سے تعبیر کرتے تھے ۔ عزل کا مطلب ہے : ”اذا قارب الانزال فنزع وامنی خارج الفرج “(قاموس الفقہی،ص250) صحبت کے دوران جب منی نکلنے کا وقت قریب آ جائے تو مرد اپنا عضو مخصوص باہر نکال دے تا کہ منی اندر نہ جانے پائے ۔ “
احادیثِ مبارکہ میں بھی عزل سے متعلق تفاصیل موجود ہیں ۔ لیکن احادیث اس بارے میں مختلف ہیں ۔ بعض احادیث سے جواز معلوم ہوتا ہے اور بعض سے ممانعت ۔ بہرحال عزل ( Birth Control ) کے جائز ہونے اور نہ ہونے کا دارومدار اس کے سبب پر ہے ۔ سو اگر پیدائش میں وقفہ اس بنیاد پر ہو کہ اولاد زیادہ ہونے کی وجہ سے رزق میں تنگی ہو گی تو پھر وقفے کا کوئی طریقہ جائز نہیں ۔ اس لیے کہ قرآنِ کریم میں صراحتاً اس کی ممانعت ہے ۔ (الاسرا: 31)
اسی طرح اگر وقفے اس بنیاد پر ہو کہ آدمی بچیوں کی پیدائش اور کثرت سے بچنا چاہتا ہے تو بھی وقفہ کا کوئی طریقہ جائز نہیں ۔ اس لیے کہ یہ نیت زمانہ جاہلیت کے مشرکین اور کفار کی ہوا کرتی تھی کہ وہ بچی کی پیدائش کو عار سمجھتے تھے اور بچیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے ۔ مسلمانوں کو یہ سبق دیا گیا کہ : تزوجوا المودود الولود فانی مکاثر بکم الامم (سنن ابی داودٔ)
ہاں! اگر وقفہ کرنے کی وجوہات یہ ہوں کہ کثرتِ ولادت سے عورت شدید بیمار ہو جائے گی یا بچوں کی مسلسل پیدائش سے ان کی تربیت و نگہداشت میں حرج واقع ہو گا تو پھر وقفہ کے جو طریقے جائز ہیں، مثلاً Condom, Loop Method, Tablets, Injection, Chemical ان کا استعمال شرعاً درست ہے ۔ مگر محققین نے جائز ہونے کے باوجود ان کے مضر اثرات بھی بیان کیے ہیں ۔ چنانچہ شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں کہ استقرارِ حمل کو روکنے کے لیے گولیاں کھائی جائیں ، کیمیائی اشیالگائی جائیں یا خارجی حائل ( ساتھی اور چھلہ وغیرہ ) کا استعمال کیا جائے ، ان میں سے کوئی چیز بھی حمل سے رکاوٹ کا یقینی سبب نہیں ہے ۔
بسااوقات دوائیں اور کیمیائی اشیاءاثر نہیں کرتیں ، بعض دفعہ ڈایا فرام کے استعال کے باوجود قطرات رحم میں چلے جاتے ہیں اور حمل ہو جاتا ہے ۔ اور بعض اوقات چھلے کے استعمال کے باوجود حمل ہو جا تا ہے ۔اور بعض اوقات (کنڈوم) ساتھی پھٹ جاتا ہے اور قطرے رحم میں چلے جاتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا ہے : ” جس پانی سے بچہ پیدا ہو نا ہے اگر تم اس کو پتھر پر بھی ڈال دو تو اللہ تعالیٰ اس سے بچہ پیدا کرے گا “ ۔ اور یہ بارہا مشاہدہ ہوا کہ ضبطِ تولید کے تمام ذرائع استعمال کرنے کے باوجود بچے پیدا ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات جڑواں بچے بھی پیدا ہو جاتے ہیں ۔ علاوہ ازیں ان تمام چیزوں کے مضر اثرات بہت زیادہ ہیں ۔ چھلّہ اور ڈایا فرام کے استعمال سے الرجی اور انفیکشن کی شکایات عام ہیں اور کھانے والی دواؤں سے سنا گیا ہے کہ چھاتی کا کینسر ہو جا تا ہے ۔ انسان جب بھی اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے فطری اور طبعی نظام سے ہٹ کر کوئی کام کرے گا ، مشکلات میں گرفتا ر ہو گا ۔ اس لیے ناگزیر حالات کے علاوہ ضبطِ تولید سے احتراز کرنا چاہیے ۔ (شرح صحیح مسلم،جلد:۳،ص:889 )
اقتباسِ مذکور سے یہ بات واضح ہو گئی کہ انتہائی ناگزیر حالات کے علاوہ ضبطِ تولید سے بچنا نہایت مفید ہے ۔ تاہم اگر ایسے حالات پیش آجائیں ، جن میں ضبطِ تولید کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ ہو تو اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں : یجوز لھا سد فم رحمھا کما تفعلہ النساء (شامی،ج۴، ص252) عورت کے لیے اپنی بچہ دانی کا منھ بند کرنا جائز ہے ۔ “([15])
خلاصۂ کلام
الحاصل کلام یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی (ضبطِ تولید Birth Control/) دراصل میاں اور بیوی کا نجی معاملہ ہے ۔ اگر مرد اور عورت خود آپس میں یہ معاملات طے کرلیں تو یہ زیادہ بہتر ہے ، بہ نسبت اس کے کہ حکومتی سطح پر لاکھوں ، کروڑوں روپے خرچ کر کے اس کی ایک باقاعدہ مہم چلائی جائے ۔ مسلمانوں کے لیے مغرب کی اندھی تقلید میں خاندانی منصوبہ بندی کو قبول کرنااور اس کی تشہیر پر کروڑوں روپے خرچ کرنا قطعاً درست نہیں کیونکہ مسلم معاشرے کی اپنی اخلاقی اور روحانی اقدار ہوتی ہیں جن کو مٹانا اسلام کے نظامِ حیات کومٹانے کے مترادف ہے ۔
خاندانی منصوبہ بندی کا جواز یا عدم جواز انسان کی نیت اورحالات کے موقع و محل پر منحصر ہے۔ بعض علمائے کرام اس کے جواز کے قائل ہیں اوربعض اس کے عدم جوازکے، اور دونوں جانب کے علمائے کرام کے دلائل پچھلے صفحات میں تحریر کر دیے گئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ عالی شان ہے:الدین یسر (دین آسان ہے) اسی لیے حالات کو مدّ ِ نظررکھتے ہوئے ہمیں جس طریقہ میں سہولت ہو وہ اختیار کرنا چاہیے تا کہ زندگی میں مشکلات کا سامنا نہ ہو اور زندگی کی گاڑی بآسانی چلتی رہے۔
حال ہی میں ملکِ پاکستان کے چیف جسٹس صاحب نے اس سلسلے میں باقاعدہ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔اور اس کا سبب ملکِ پاکستان میں وسائل کی کمی کو قرار دیا جارہاہے۔ حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے، انسانوں کی رزق(وسائل) کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے اور مسلمانوں کو سختی کے ساتھ منع کیا ہے کہ وہ رزق (وسائل) کی کمی کے خوف سے اپنی اولادوں کو ہرگز قتل نہ کریں ۔اللہ کے فضل و کرم سے ملکِ پاکستان میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے ، کمی ہے تو صرف اس بات کی کمی ہے کہ موجودہ وسائل کو کام میں کیسے لایا جائے۔ اس کا تعلق انسان کے خلوص کے ساتھ ہے اگر ہم خلوصِ نیت کے ساتھ موجودہ وسائل کو بروئے کار لائیں تو ہمارا ملک اور اس میں موجود وسائل کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔ مگر نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کرپشن جیسے عناصر نے اس ملک کے وسائل کو برباد کر دیا ہے۔ اگر معاشرے سے غربت ختم کرنی ہے اور ایک خوشحال معاشرہ قائم کرنا ہے تو معاشرے میں بڑھتی کرپشن کو ختم کیا جائے ، نہ کہ آبادی کو ختم کرنے کے لیے طرح طرح کے اقدامات کیے جائیں۔
لہٰذا اس مسئلے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کو حکومتی سطح پر متعارف کروانے اور اس کے لیے مہم جوئی کرنا یا کوئی تحریک چلانا جائز نہیں ہے۔ اس معاملے میں دونوں جانب ( جواز و عدم جواز ) کے علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ ایسا کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ۔البتہ انفرادی طور پر اگر کوئی شخص خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرنا چاہے تو شرعی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اس پر عمل کر سکتا ہے، شریعتِ مطہرہ نے مسلمانوں کو اس کی مشروط اجازت مرحمت فرمائی ہے ۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اخلاص کے ساتھ دینِ اسلام پر چلنے کی توفیق دے ۔ آمین !
حوالہ جات
- ↑ ()قزوینی ، ابنِ ماجہ محمد بن یزید ،السنن ، ابواب النکاح ، باب ما جآءفی فضل النکاح ، مکتبہ رحمانیہ ، لاہور ، سن ندارد،ص248
- ↑ () سجستانی،ابی داؤدسلیمان بن اشعث،السنن،کتاب النکاح،باب،فی تزویج الابکار،مکتبہ حقانیہ،ملتان،سن ندارد ، ج1،ص287
- ↑ ()بخاری،محمدبن اسمٰعیل البخاری،صحیح بخاری، کتاب بدٔالخلق،باب، ذکر الملائکة ،قدیمی کتب خانہ،کراچی،1382ھ ۔1961ء،ص456
- ↑ () مودودی،سیدابو الاعلی سیدمودودی،تفہیم القرآن ،ادارۂ ترجمان القرآن،لاہور،1982ء،لاہور،ج2،ص613
- ↑ () علی، علامہ محمدعلی،شرح موطا امام محمد، کتاب النکاح،فرید بک اسٹال،لاہور،اگست،2005ء،ج2،ص111
- ↑ () عثمانی ،مفتی محمد شفیع،معارف القرآن،ادارة المعارف،کراچی،جنوری،2005ء،ج5،ص463
- ↑ ()قشیری،مسلم بن حجاج ،صحیح مسلم، کتاب النکاح،باب،حکم العزل، قدیمی کتب خانہ،کراچی،1375ھ۔1856ء، ص465
- ↑ () ترمذی،محمدبن عیسیٰ،جامع ترمذی،ابواب النکاح،باب،ما جأفی العزل،قدیمی کتب خانہ،کراچی،سن ندارد،ج1، ص215
- ↑ ()عینی،علامہ بدرالدین عینی،عمدة القاری شرح صحیح البخاری،کتاب النکاح،دارالکتب العلمیہ،بیروت،لبنان،۱۲۴۱ھ ۔ 2001ء،ج20،ص274۔275
- ↑ ()رحمانی،مولاناخالدسیف اللہ رحمانی،قاموس الفقہ ،زمزم پبلشرز ،کراچی،اگست،2007ء،ج4،ص388
- ↑ () سعیدی،علامہ غلام رسول سعیدی،شرح صحیح مسلم، کتاب النکاح،فرید بک اسٹال،لاہور،فروری،2001ء،ج ثالت،ص884
- ↑ ()دہلوی،شاہ عبدالعزیزمحدث،تفسیرِعزیزی،مترجم:مولانامحمدعلی چاندپوری،سورة التکویر،ادارۂ اسلامیات،لاہور، نومبر ۲۰۰۲ ء،ص172۔173
- ↑ () سیفی،حافظ نذیراحمدسیفی،شبِ زفاف اوراس کےتقاضے،ضیا ءالقرآن پبلی کیشنز ،لاہور،اگس2004ء،ص146
- ↑ () طاہرالقادری،ڈاکٹر،عصرِحاضرکےجدیدمسائل،منہاج القرآن پبلی کیشنز ،لاہور،سن ندارد،ص54۔55
- ↑ ( )نورانی،مفتی محمداسماعیل نورانی،انوارالفتاویٰ،فریدبک اسٹال،لاہور،اپریل،2007ء،ج1،ص414تا416
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |