33
1
2019
1682060084478_736
09-29
قرآن کریم کا بہت سے مسلمان اور مستشرق علماء نے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔ قرآن حکیم کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے والا پہلا شخص الیگزینڈر راس (Alexander Ross) تھا۔ اس نے اپنے ترجمۂ قرآن جس کا انحصار دوغیے (du Ryer) کے فرانسیسی ترجمۂ قرآن پر تھاکو 1649ء میں شائع کیا۔ جارج سیل (George Sale) نے 1734ء میں قرآن مجید کا عربی سے براہِ راست انگریزی میں ترجمہ کیا۔ بعد ازاں کتاب اللہ کے بہت سے انگریزی تراجم شائع ہوئے۔ اللہ کی کتاب کے نمایاں انگریزی مترجمین میں جان میڈو راڈ ویل (John Meadow Rodwell)، ایڈورڈ ہینری پامر (E. H. Palmer) رچرڈ بیل (Richard Bell) اور آرتھر جان آربیری (Arthur John Arberry) شامل ہیں۔ ہندوستانی علماء میں پٹیالہ کے ڈاکٹر عبدالحکیم خان اس میدان کے پیشرو ہیں۔ مولوی محمد علی وہ قادیانی عالم تھا جس کا انگریزی ترجمہ و تفسیرِ قرآن محمد مارماڈیوک پکتھال کے انگریزی ترجمے اور عبداﷲ یوسف علی کے ترجمہ و تفسیر قرآن کے منصۂ شہود پر آنے سے پہلے بہت مقبول تھا۔ اس مضمون میں حافظ غلام سرور کے ترجمۂ قرآن کریم کا تعارف کرایا جائے گا۔ اندرونی اور بیرونی شہادتوں کی روشنی میں حافظ صاحب کے متعلق ان الزامات کی تردید کردی گئی ہے کہ ان کا تعلق احمدی فرقے سے تھا۔
حافظ غلام سرور 1863ء میں مشرقی پنجاب (اب بھارت) کی ریاست کپورتھلہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک ایسے مذہبی گھرانے سے تھا کہ جس میں حفاظ قرآن مجید کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ آپ نے سکول کی تعلیم شروع کرنے سے پہلے حفظِ قرآن کریم کی تکمیل کرلی۔([1]) آپ نے 1890ء سے 1894ء تک چار سال گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی۔ آپ مشہور احمدی مترجم قرآن مولوی محمد علی لاہوری کے ہم عصر تھے اور دو سال تک بی۔اے۔ عربی میں ان کے ہم جماعت رہے۔([2]) پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔اے۔ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کیمبرج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلستان چلے گئے جہاں سے آپ نے 1897ء میں گریجویشن مکمل کی۔ آپ نہ صرف 1894ء سے 1897ء تک انڈین گلکرائسٹ سکالر رہے بلکہ آپ نے 1896ء سے 1900ء تک عربی زبان و ادب کے امپیریل انسٹی ٹیوٹ میں ماڈرن سکالر کے طور پر بھی کام کیا۔ ابتدا میں آپ کو بہت سے پیشوں سے وابستہ رہنا پڑا۔ آپ پہلے غیر یورپی تھے جنہیں ملایا کی سول سروس میں شامل کیا گیا۔([3]) آپ نے وہاں 1896ء سے 1928ء تک خدمات انجام دیں۔([4]) ایک ہندوستانی مسلمان موشے یی گر (Moshe Yegar) کے مطابق محمڈن میریجز آرڈیننس (Mohammedan Marriages Ordinance) کے تحت حافظ غلام سرور کو 1920ء میں پے نینگ (Penang) ([5]) کا مفتی مقرر کیا گیا اور آپ نے 1923ء سے 1928ء تک سول ڈسٹرکٹ جج (Civil District Judge) کے طور پر خدمات انجام دیں۔([6]) آپ حج کی ادائیگی کے لیے حجاز مقدس تشریف لے گئے۔ اس طرح ’’الحاج‘‘ کا سابقہ آپ کے نام کا حصہ بن گیا۔ ’’دنیا کے زندہ مذاہب“ (Living Religions of the World) کے زیرِ عنوان لندن میں ہونے والی ایک کانفرنس میں آپ نے شرکت کی جس کا انتظام پروفیسر تھامسن (Thomson) ، پروفیسر گیڈیس (Geddes)، پروفیسر مائیپ ورتھ (Maipworth) اور ان کے معاونین نے کیا۔ کانفرنس کا انعقاد سکول آف اورینٹل اسٹڈیز (School of Oriental Studies) کی زیرِ سرپرستی کیا گیا۔ علی گڑھ کالج کے بہت سے علماء خطاب فرمانے والوں میں شامل تھے۔ خواجہ کمال الدین اور (مرزا بشیر الدین محمود) ابن مرزا غلام احمد قادیانی کے مقالات ان دونوں کی غیر موجودگی میں ان کے نمائندوں نے پڑھ کر سنائے۔([7]) میلاد النبی ﷺ کے دو مواقع پر 1924ء اور 1925ء میں حافظ صاحب نے لندن میں مقالات پیش کیے۔([8])
حافظ غلام سرور عربی اور انگریزی زبانوں کے اچھے عالم تھے۔ عربی زبان میں اپنی مہارت کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
”میں کلاسیکی عربی کو سمجھتا ہوں۔ میں چار سال تک گورنمنٹ کالج لاہور اور انڈین سول سروس میں عربی پڑھتا رہا۔ میں نے عربی کے حوالے سے امپیریل انسٹی ٹیوٹ سے 200 پاؤنڈ کا انعام بھی جیتا۔“([9])
خُوسلمہ نسوشن (Khoo Salma Nasution) کے مطابق وہ اردو اور عربی زبانوں میں اچھی مہارت اور روانی رکھتے تھے۔‘‘([10])
جب پے نینگ میں کپتان کلنگ مسجد کے وقف کا جھگڑا سامنے آیا تو آپ نے متولیوں (Trustees) کی غیر موجودگی میں وقف کی خاطر مالیاتی نظم و نسق کے لیے اپنی خدمات فراہم کیں۔ ملایا کی دستاویزات کے مطابق، اُن حالات میں (وقف کے) کرایے ’’شریف آف پے نینگ‘‘ نے وصول کیے، عدالت نے حافظ غلام سرور کو وصول کنندہ مقرر کیا۔ آپ نے اپنا فرض نہایت ایمان داری اور یکسوئی سے ادا کیا۔ آپ کی رائے یہ تھی:
”اسلامی روایات اور قانون کے مطابق وقف کی زمین اور مکانات سے حاصل ہونے والا سارا منافع وقف کنندہ کے (بتائے ہوئے) حقیقی مقصد پر خرچ ہونا چاہیے۔ کسی فرد کو یہ منافع نہیں ملنا چاہیے۔ اُن کی رائے یہ تھی کہ وقف کی اضافی آمدنی کی صورت میں قرآن کریم اور دوسرے اسلامی علوم پڑھانے والا اسلامی مدرسہ اس کا مناسب مصرف ہوسکتا ہے۔‘‘([11])
حافظ غلام سرور نے اسلام کے حوالے سے بہت کچھ لکھا، اس میں ’’فلسفۂ قر آن“ (The Philosophy of the Qur'an) نامی ایک کتاب بھی شامل ہے۔ اس کتاب کا باب اول درج ذیل عنوان سے ’’دی اسلامک ریویو ووکنگ“ (The Islamic Review-Woking)میں شائع ہوا:
([12])(Words are as Breath and Will is all)
”الفاظ منھ سے نکلنے والے سانس کی طرح بے حقیقت ہوتے ہیں، اصل حیثیت لکھی ہوئی وصیت کی ہے۔‘‘
مکمل کتاب کافی دیر بعد شائع ہوئی۔([13]) آپ کی ایک اور کتاب (Muhammad the Holy Prophet) ([14])”محمد ﷺ، پیغمبرِ اکرم‘‘ کے زیرِ عنوان سامنے آئی، لیکن آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ترجمۂ قرآن کریم "Translation of the Holy Qur'an" ہے جو 1920ء کے عشرہ کے آخر میں منصَّۂ شہود پر آیا۔([15])
اس ترجمۂ قرآن کے سرورق کی مکمل تحریر کچھ یوں ہے:
"Translation of the Holy Qur'an: From the original Arabic text with critical essays, Life of Muhammad, complete summary of contents."
آپ نے قرآن کریم کے عربی متن کو اپنے انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع نہیں کیا۔ لیکن درج ذیل تین اجزاء پر مشتمل ایک جامع تعارف حوالۂ قرطاس کیا۔
۱۔قرآن کریم کے قدیم انگریزی تراجم کا ایک جائزہ
۲۔نبی کریم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ پر دو مضامین
۳۔قرآن حکیم کی سورتوں اور رکوعات کے مشتملات کا ایک خلاصہ
آپ نے قرآن کریم کے اہم انگریزی تراجم کا جائزہ لیا۔ جن میں تین مستشرقین، جارج سیل، جے۔ایم۔ راڈویل اور ای۔ایچ۔ پامر کے تراجم اور ایک قادیانی عالم مولوی محمد علی لاہوری کا ترجمۂ قرآن تھا۔ آپ نے مغربی مترجمین کی اغلاط، تحریفات اور غلط تعبیرات کو آیات قرآنی، اجزائے آیات اور نظر انداز کیے جانے والے الفاظ کے حوالے سے نمایاں کیا۔ آپ نے مستشرقین کی جانب سے پیغمبرِ اسلام ﷺکے خلاف اٹھائے گئے اعتراضات کی بہت شدت سے تردید کی اور ان تراجمِ قرآن کے لسانی معیار کو بھی ہدفِ تنقید بنایا۔
انگریزی کے قدیم تراجمِ قرآن کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد حافظ غلام سرور نے اپنے ترجمۂ قرآنِ کریم کی نمایاں خصوصیات کو یوں بیان کیا ہے:
۱۔میں نے کوشش کی کہ جس قدر ہوسکے واضح لکھوں۔ اس مقصد کے لیے میں نے اپنے جملوں کو چھوٹے فقروں میں تقسیم کردیا اور جہاں کہیں متنِ قرآن کریم کی تلاوت میں قدرتی وقفہ تھا، میں نے اپنی بات مکمل کردی اور نئی بات جس طرح انگریزی شاعری میں کرتے ہیں، بڑے حرف (Capital letter) سے شروع کی۔
۲۔میرا خیال ہے کہ اس ترجمۂ قرآن حکیم کا پڑھنا اور سمجھنا قدیم تراجم کی نسبت بہت آسان ہے۔
۳۔میں نے اپنی توجہ ترجمۂ متن تک محدود رکھی اور میں حواشی اور مفسرین سے جتنا ہوسکا بچتا رہا۔ میں نے جان بوجھ کر نہ تو متن قرآن کریم میں کچھ شامل کیا اور نہ ہی اس میں سے کچھ حذف کیا۔
۴۔جس قدر ہوسکا میں نے لاطینی محاورات والی انگریزی کو اختیار نہیں کیا۔
۵۔میرا ترجمۂ قرآن کریم کی طرح ایک گفتگو کا تأثر دیتا ہے۔
۶۔تین مقاصد ہمیشہ میرے زیرِ نظر رہے۔ وضاحت، آسانی اور صحت۔
۷۔تمام تفاسیر کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ابن عباس کی تفسیری روایات سب سے اعلیٰ ہیں۔ ایک مترجم قرآن کریم کے لیے سب سے کارآمد کتاب امام راغب اصفہانی کی ’’مفردات‘‘ ہے۔([16])
’’تعارف‘‘کے دوسرے حصے میں آپ نے رسول کریم ﷺ کی حیات مبارکہ کے حوالے سے دو مضامین کو شامل کیا ہے جو دراصل لندن میں سیرت رسول ﷺ پر دیے گئے آپ کے دو خطبات ہیں۔ ان دونوں خطبات میں کتب سیرت کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔
دوسرا مضمون درج ذیل ذیلی سرخیوں پر مشتمل ہے: عربوں کی تین اقسام، مکہ شہر کا بانی، محمد ﷺ کی پیدائش اور جوانی، حُضور ﷺ کی شادی، خانہ کعبہ کی تعمیر نو، پہلی ہجرت، نبی کریم ﷺ کا سفرِ طائف، ہجرت کے بعد کے واقعات سال بہ سال اور محمد ﷺ قرآن کریم کی روشنی میں۔([17])
حافظ غلام سرور کا انگریزی ترجمۂ قرآن کریم اعلیٰ درجے کا معیاری کام ہے۔ لیکن احمدیوں کے ساتھ نام نہاد تعلق کا الزام ہونے کی وجہ سے آپ کے ترجمۂ قرآن کریم کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ ایڈون ای۔کل ورلی (Edwin E. Calverly) نے آپ کو ’’ایک ہندستانی احمدی‘‘([18]) قرار دیا اور احمدی مخالف ویب سائٹس نے بھی آپ کا شمار قرآن کریم کے احمدی مترجمین میں کیا ہے۔ ([19])
احمدی قائدین جیسے کہ مرزا غلام احمد (1835ء۔1908ء) اس کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود (1889ء۔1965ء)مولوی محمد علی(1874ء۔1951ء) اور خواجہ کمال الدین(1870ء۔1932ء) سے آپ کے تعلقات تھے۔ حافظ صاحب ریاست کپورتھلہ کے اسی گاؤں میں پیدا ہوئے جو خواجہ کمال الدین کی بھی جنم بھومی ہے اور آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں مولوی محمد علی لاہوری کے ہم جماعت رہے۔([20]) قادیانیوں کے ساتھ انھی واسطوں کی وجہ سے آپ کو احمدی نقطۂ نظر کا پیروکار خیال کیا گیا۔ یہ بالکل سچ ہے کہ حافظ صاحب مرزا کو پسند کرتے تھے، اس کی تقاریر سُنا کرتے تھے، اس کی کتابیں ان کے زیرِ مطالعہ رہیں لیکن یہ سب اس کے جھوٹے دعویٔ نبوت سے پہلے کی باتیں ہیں۔ آپ کے اپنے بیان کے مطابق، آپ مرزا غلام احمد قادیانی کو ذاتی طور پر جانتے تھے، جب وہ لاہور میں اقامت پذیر تھا تو آپ نے اسے دیکھا، اس کی تقریریں سنیں، اس کی کتب کا مطالعہ کیا اور 1884ء سے 1894ء تک وہ لاہور میں مرزا کے حمایتیوں کی صفِ اول میں شامل رہے۔ حافظ غلام سرور 1894ء میں ہندوستان سے روانہ ہوگئے۔ اس کے بعد آپ نے مختلف وقفوں میں قریباً بیس ماہ وہاں گزارے۔ آپ نہ تو بعد میں آنے والی نسل سے اور نہ ہی 1894ء کے بعد ہونے والے واقعات سے واقف تھے۔([21])
آپ کی مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے سے ایک ملاقات لندن میں ہوئی۔ اس کے ساتھ رات کا کھانا کھایا اور اس کی امامت میں نماز ادا کی۔([22])
عملی زندگی کے ابتدائی مراحل میں مرزا ایک مسلمان عالم دین تھا جو دوسرے مذاہب کے علماء سے مناظرے کرتا اور اپنی تحریروں میں اسلام کا دفاع کرتا۔ لیکن سال 1900ء کے آخر یا 1901ء کے شروع میں اس نے نبوت کا دعویٰ کردیا۔([23])
حافظ غلام سرور اس واقعے سے بہت پہلے ہندوستان سے جاچکے تھے اور اس کے دعویٔ نبوت سے ناواقف تھے۔ دوسرے مسلمان جن میں علماء بھی شامل تھےمرزا کے دعویٔ نبوت سے قبل اس سے ملتے رہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد 25/مئی 1905ء کو مرزا غلام احمد قادیانی سے ملاقات کے لیے قادیان تشریف لے گئے اور اس کے ساتھ پہلی صف میں حافظ عبدالکریم کی امامت میں نماز جمعہ ادا کی۔ مرزا قادیانی پہلی صف میں کھڑے ہونے کے بجائے امام سے دو بالشت پیچھے کھڑا ہوا۔([24]) کسی نے مولانا آزاد پر اعتراض نہ کیا جو ہندوستان ہی میں قیام پذیر تھے اور ان کے پاس مرزا کی تحریروں کو پڑھنے کے زیادہ مواقع موجود تھے۔ چونکہ حافظ غلام سرور مرزا قادیانی کے دعویٔ نبوت کے بعد ہندوستان میں موجود نہیں تھے اس لیے انھیں ٹھوس ثبوت کے بغیر احمدی قرار نہیں دینا چاہیے۔
حافظ صاحب نے احمدیوں کے ساتھ تعلق کا انکار کیا کیوں کہ انھوں نے سلسلۂ احمدیہ کے بانی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی تھی۔ سنگاپور کی عدالت عالیہ میں آپ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ تسلیم کرتے ہیں کہ مرزا قادیانی ایک عظیم مصلح تھا؟ اس پر آپ نے جواب دیا کہ ’’میں احمدیوں کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتا کہ وہ (مرزا قادیانی) ایک عظیم مصلح تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر صدی ہجری کے آغاز میں ایک مجددِ دین آتا ہے اور مرزا قادیانی چودھویں صدی ہجری کا مجدد تھا۔ نہ تو میں اس کے حمایتیوں میں سے ہوں اور نہ ہی میں اس پر بہتان باندھنے والوں میں سے ہوں جب میں لندن میں تھا تو میں نے مرزا قادیانی کے بیٹے سے پوچھا میں تمھارے والد پر ایمان نہیں رکھتا، کیا میں کافر ہوں؟ اس نے جواب دیا، نہیں‘‘([25]) یہ بیان واضح طور پر اشارہ کرتا ہے کہ حافظ صاحب مرزا قادیانی کے پیروکار نہیں تھے۔ مزید یہ کہ آپ نے احمدیوں کی طرح مرزا کا ذکر عقیدت سے نہیں کیا۔
حافظ غلام سرور نے اپنے انگریزی ترجمۂ قرآن سے پہلے محمد علی لاہوری کے انگریزی ترجمۂ قرآن کو سب سے اچھا قرار دیا لیکن آپ نے لاہوری کے ترجمۂ قرآن کی زبان کو موردِ تنقید بنایا۔([26]) اگر وہ سلسلۂ احمدیہ کے پیروکار ہوتے تو وہ لاہوری کے ترجمۂ قرآن پر تنقید کرتے اور نہ ہی اس میں موجود غلطیوں کی نشاندہی کرتے۔
عبداﷲ یوسف علی نے انگریزی میں قرآن کریم کے احمدی (قادیانی اور لاہوری) تراجم کا ذکر کیا ہے لیکن حافظ غلام سرور کے انگریزی ترجمۂ قرآن کو ان میں شامل نہیں کیا۔ انگریزی زبان کے اس معروف مترجم قرآن نے حافظ صاحب کے ترجمۂ قرآن کو ’’اعلیٰ درجے کا مسلم ترجمۂ قرآن“ (Muslim translation of great merit)قرار دیا۔
عبداﷲ یوسف علی نے مزید لکھا: ’’حافظ غلام سرور کا ترجمۂ قرآن (جو 1929ء یا 1930ء میں شائع ہوا) اس بات کا حق دار ہے کہ اس کا تعارف زیادہ سے زیادہ ہو۔‘‘ حافظ صاحب نے سورتوں کے ہر رکوع کے بہت اچھے اور مکمل خلاصے دیے ہیں لیکن عملی طور پر آپ نے اپنے متن کے حواشی بالکل نہیں لکھے۔ میرا خیال ہے کہ اس طرح کے حواشی متن کی کامل تفہیم کے لیے ضروری ہیں۔([27])
ایک اور اسکالر، حسین عبدالرؤف نے بھی حافظ صاحب کے ترجمۂ قرآن کو ’’اعلیٰ درجے کا مسلم ترجمۂ قرآن‘‘ قرار دیا ہے۔([28])
ڈاکٹر محمد مُہر علی (1932ء۔2007ء) نے حافظ صاحب کے ترجمۂ قرآن کے ’’تعارف‘‘ کے مطالعے کی سفارش کی ہے۔([29]) اس طرح بہت سے مسلم علماء نے حافظ صاحب کو احمدی نہیں سمجھا۔
کسی بھی احمدی ترجمۂ قرآن کو بڑی آسانی سے ان آیات کے ترجمے کے ذریعے پہچانا جاسکتا ہے۔ جن کا تعلق عیسیٰ ؑ کی دنیاوی زندگی سے ہے کیوں کہ ان آیات مبارکہ کا اس لیے غلط ترجمہ یا غلط تفسیر کی جاتی ہے تاکہ آپ علیہ السلام کی زمینی موت کو ثابت کیا جاسکے۔ اس بات کا تعین کرنے کے لیے یہ ایک دلیل بن جاتی ہے کہ کوئی شخص احمدی ہے یا نہیں ہے۔ سورۃ آل عمران کی آیت ۵۵ (حافظ صاحب کے ترجمے میں ۵۴) کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
"When GOD said, "O Jesus, I will give thee full (reward) And I will exalt thee toward Me And I will clear thee of those who choose disbelief. And I am going to make those who follow thee above those who choose disbelief to the day of the Awakening; Then towards Me is your return, so that I will decide amongst you As to that in which you used to differ”.([30])
”جب خدا نے کہا، ’’اے عیسیٰ، میں تمھیں پورا (بدلہ) دوں گا، اور میں تمھیں اپنی طرف رفعت دوں گا اور میں تمھیں ان سے نجات دوں گا جنھوں نے کفر کا انتخاب کیا اور جنھوں نے تمھاری پیروی کی، میں انھیں ان پر غلبہ دوں گا جنھوں نے کفر کا انتخاب کیا۔ اس دن جب (سب) جاگ اُٹھیں گے۔ پھر میری طرف ہی تمھیں لوٹ کر آنا ہے تاکہ میں تمھارے درمیان فیصلہ کروں اس معاملے میں جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔“
زیادہ تر عیسائی اور تمام احمدی مترجمین قرآن نے اس آیت کا ترجمہ اس طور کیا ہے کہ عیسیٰ ؑ کی تصلیب یا موت ثابت ہوجائے۔ جیسا کہ قرآن کریم کے احمدی مترجم قرآن محمد علی لاہوری کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
"Whe[n] Allah said: 'O Jesus! I will cause you to die and exalt you in My presence'...”.([31])
”جب اﷲ نے کہا، اے عیسیٰ ؑ! میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور تجھے اپنی طرف بلند کرنے والا ہوں…‘‘(۳۱۔A)
ایک اور احمدی مترجم قرآن، محمد ظفر اﷲ خان، نے آیت کے اس حصے کو بالکل اسی انداز میں ترجمہ کیا ہے:
"Allah reassured Jesus: 'I shall cause thee to die a natural death, and shall exalt thee to Myself...”.([32])
”اﷲ نے عیسیٰ ؑ کو یقین دلایا: میں تمھیں ایک قدرتی موت دوں گا، اور تمھیں اپنی جناب میں رفعت عطا کروں گا… “
حافظ غلام سرور نے صلیب کے انکار پر مبنی سورۃ النساء کی دو آیات کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے:
"And their saying: - 'surely, we have shed the blood of Messiah', Jesus son of Mary, the messenger of GOD; And they shed not his blood, And they crucified him not, But it so appeared to them. And, surely, those who differ with regard to him are in a certain doubt about him; they have no knowledge; but are merely following a guess. And they shed not his blood for certain. On the contrary, GOD raised him towards Himself; And GOD is powerful, wise... (We did what we did).”([33])
”اور ان کا یہ کہنا: یقینا ہم نے اﷲ کے رسول مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کا خون بہا دیا ہے۔ اور انھوں نے اس کا خون نہیں بہایا اور اس کو صلیب نہیں دی بلکہ انھیں ایسا دکھائی دیا اور یقینا وہ جنھوں نے اس کے حوالے سے اختلاف کیا وہ اس کے معاملے میں ایک خاص شک میں ہیں۔ ان کے پاس کوئی علم نہیں ہے بلکہ وہ تو محض ایک اندازے کی پیروی کر رہے ہیں۔ اور یقینا انھوں نے اس کا خون نہیں بہایا۔ اس کے برعکس، خدا نے اسے اپنے ہاں رفعت دی، اور خدا طاقتور اور حکمت والا ہے… (ہم نے کیا جو کرنا تھا)۔‘‘ (النساء ۴:۱۵۷۔۱۵۸)
ان آیات کا ترجمہ جو محمد علی لاہوری نے کیا ہے وہ حافظ غلام سرور کے ترجمے سے مختلف ہے اور اس نے اس آیت کے تحت حاشیے میں زور دیا ہے کہ عیسیٰ ؑ صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے بلکہ وہ (بعد ازاں) قدرتی موت مرے تھے۔([34])
درج بالا دلیل سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ حافظ غلام سرور اس حوالے سے احمدی نہیں تھے کہ مذکورہ بالا آیات (النساء ۴:۱۵۷۔۱۵۸) کا جو ترجمہ آپ نے کیا ہے وہ بالکل مسلمان مترجمین جیسا ہے۔ نہ تو احمدیوں کے ذخائر آپ کے احمدی ہونے کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ ہی احمدیوں کا دونوں میں سے کوئی فرقہ انھیں ایک احمدی کے طور پر قبول کرتا ہے۔([35])
حافظ غلام سرور کا انگریزی ترجمۂ قرآن بہت سے مقامات پر ندرتِ معنی کا اظہار کرتا ہے۔ آپ ذاتی فکر کے حامل ایک ذہین آدمی تھے۔ آج ان کے انگریزی ترجمۂ قرآن پر تنقید کی جاسکتی ہے کیوں کہ اب قرآن کریم کے بہت سے انگریزی تراجم سامنے آچکے ہیں لیکن آپ کے ترجمۂ قرآن سے پہلے کسی مسلمان کے قلم سے نکلنے والا کوئی اچھا انگریزی ترجمۂ قرآن موجود نہیں تھا۔ آپ کے انگریزی ترجمۂ قرآن کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
"This grand book! There is no doubt that it is a guidance for the use of the reverent: who believe in the (Great) Unseen, and keep up the prayer; and out of what We have provided them with do they spend; and who believe in what has been sent to thee (O Muhammad); and what was sent before thee; and full faith have they in the future. These are on a guidance from their Lord, and these are the people who succeed. Surely as to those who choose disbelief, it is all one to them whether thou warn them, or thou warn them not ___ they will not believe. Upon their hearts, and upon their ears, has GOD set a seal; and upon their eyes there is a covering, and for them is a great agony.” ([36])
”یہ کتاب عظیم! اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ متقیوں کے لیے ہدایت ہے: جو غیب (عظیم) پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے عطا کیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جو اس پر ایمان لائے ہیں جو (اے محمدؐ ) آپ پر بھیجا؛ اور جو کچھ آپ سے پہلے بھیجا گیا؛ اور مستقبل پر ان کا پورا یقین ہے۔ یہ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔ یقینا ان کے لیے جنھوں نے کفر کا انتخاب کیا۔ یہ سب برابر ہے خواہ آپ انھیں خبردار کریں یا آپ انھیں خبردار نہ کریں… وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ ان کے دلوں پر، اور ان کے کانوں پر خدا نے مہر لگا دی ہے؛ اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے، اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘ (البقرہ ۲:۲۔۷)
اس اقتباس میں درج ذیل عربی الفاظ کے ترجمے میں ان کی انفرادیت کو دیکھا جاسکتا ہے:
الکتاب: (grand book) عظیم کتاب، متقین: (reverent) تعظیم کرنے والے، یقیمون: (keep up): قائم کرتے ہیں، الآخرۃ :(the future) مستقبل اور عذاب عظیم :(great agony) : شدید آزار۔
آپ کی مخصوص ترجمہ نگاری کی کئی دوسری مثالیں آپ کے انگریزی ترجمۂ قرآن میں ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہیں، جیسے کہ:ملائکہ (messenger-spirits) ([37]) پیغام بر ارواح
شیطان (Evil One) ([38]) وہ جو بہت بُرا ہے
ابلیس (Disappointed-one) ([39]) وہ جو مایوس ہے
الزکوٰۃ (The stated alms) ([40]) لازمی خیرات
شعائر اللّٰہ (The token of GOD) ([41]) اﷲ کی نشانیاں
المشرکات (pagan women) ([42]) مشرک عورتیں
قردۃ (ape-like) ([43]) بندر جیسے
بلاء (great discipline) ([44]) نظمِ عظیم
لکم دینکم (For you is your judgment) ([45]) آپ کے لیے آپ کی رائے۔
حافظ غلام سرور نے بہت سی آیات کا ترجمہ عربی متن کے لفظی معنی کو سامنے رکھتے ہوئے کیا۔ مثال کے طور پر آپ نے قرآن کریم کی پہلی آیت کا ترجمہ یوں کیا:
([46])"All praise belongs to GOD, Lord of all worlds"
”تمام تعریفیں خدا کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘ (الفاتحہ ۱:۱)
یہ ایک بالکل درست ترجمہ ہے جو ’’الحمد‘‘ اور ’’العالمین‘‘ دونوں کی وضاحت کرتا ہے۔ جارج سیل پر تنقید کرتے ہوئے حافظ صاحب کہتے ہیں، ’’اس نے ’الحمد ﷲ‘ کا ترجمہ Praise be to God، تعریف خدا کے لیے ہے، کیا ہے۔ اس نے ’حمد‘ کے شروع میں موجود حرفِ تعریف ’ال‘ کا ترجمہ چھوڑ دیا ہے۔ بیضاوی اور تمام دوسرے مسلمان مفسرین اور مترجمینِ قرآنِ کریم نے لفظ ’الحمد‘ میں ’ال‘ کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے۔ وہ سب اس کے ترجمے کے لیے ان الفاظ پر متفق ہیں، all (تمام)، complete (مکمل)، whole )سارا( یا The maximum (زیادہ سے زیادہ) All praise belongs to God، سب تعریفیں خدا کے لیے ہیں، کا ترجمہ خدا کے ساتھ شریک (سمجھے جانے والے) دوسرے معبودوں کی تردید کرتا ہے۔([47])
حافظ صاحب خدا سے متعلق قرآنی آیات کے ترجمے میں بڑے محتاط تھے۔ مولوی محمد علی لاہوری نے سورۃ آل عمران کی آیت ۱۴۲ کا ترجمہ یوں کیا ہے:
"Do you think that you will enter the garden while Allah has not yet known those who strive hard from among you, and (He has not) known the patient?" ([48])
” کیا تم سمجھتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی اﷲ نے تم میں سے ان لوگوں کو نہیں جانا جو جہاد کرتے ہیں، اور (تاکہ) وہ صبر کرنے والوں کو جانے۔‘‘(۴۸۔A)
یہ ترجمہ بتاتا ہے کہ خدا کا علم ناقص ہوسکتا ہے، جوکہ مکمل طور پر ایک غلط بات ہے۔ اس ذاتِ کبریا کا علم زمان و مکان کی حدود سے ماوراء ہے۔ حافظ غلام سرور نے اس آیت کا احتیاط سے یوں ترجمہ کیا ہے:
"Do you calculate on entering the garden before GOD has distinguished those amongst you who strive hard and distinguish those who persevere?" ([49])
” کیا تم نے اس بات کو جانا کہ جنت میں داخلے سے پہلے خدا نے تم میں سے ان لوگوں کو نمایاں کردیا جنھوں نے جہاد کیا اور ان کو نمایاں کیا جو مستقل مزاج رہے۔“
حافظ غلام سرور نے تسمیہ کا ترجمہ مختلف انداز میں کیا ہے جو یہ ہے:
"(We commence) with the name of GOD, The most Merciful (to begin with) the most Merciful (to end with)." ([50])
(ہم شروع کرتے ہیں) اﷲ کے نام کے ساتھ،
(جو شروع کرنے کے لیے) بہت مہربان ہے (ہر اچھے کام کا آغاز) اس کی کمال مہربانی سے ہے۔
(جو اختتام کے لیے) نہایت رحم والا ہے۔‘‘ (ہر اچھے کام کا اختتام) اس کے بے حد رحم سے ہے۔
قرآن کریم کے انگریزی تراجم کی تاریخ میں یہ ایک شاذ ترجمہ ہے۔ عبداﷲ یوسف علی اپنے ترجمۂ قرآن میں زیادہ محتاط رہے، تسمیہ کا ان کا ترجمہ درج ذیل ہے:
“In the name of God, Most Gracious, Most Merciful." ([51]) ”خدا کے نام سے، بہت مہربان، نہایت رحم والا۔“
پیر محمد کرم شاہ الازہری کے ضیاء القرآن کے انگریزی ترجمہ میں تسمیہ کا ترجمہ یوں ہے:
"I commence in the name of Allah, the Most Kind, the Ever Merciful." ([52])
”میں اﷲ کے نام سے شروع کرتا ہوں، جو بہت ہی مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔“
تسمیہ کا ترجمہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس طرح کیا ہے:
"In the name of Allah, Most Compassionate, Ever-Merciful...” ([53])
”اﷲ کے نام سے، بہت شفیق، ہمیشہ رحم فرمانے والا۔“
حافظ غلام سرور نے (خدا کے صفاتی اسماء) میں سے ’’غفور‘‘ کا ترجمہ Forgiving ([54]) (معاف فرمانے والا) اور ’’علیم‘‘ کا Knowing ([55]) (جاننے والا) کیا ہے۔ حالانکہ ان کا ترجمہ Most Forgiving (سب سے زیادہ معاف فرمانے والا) اور All Knowing (سب چیزوں کا علم رکھنے والا) کرنا چاہیے تھا۔
حافظ صاحب نے سورۃ التوبۃ کی آیت ۱۱۵ کے آخری حصے (إِنَّ اللّہَ بِکُلِّ شَیْء ٍ عَلِیْم) کا ترجمہ بایں الفاظ کیا ہے:
“Surely GOD knows all things. ([56])
”یقینا خدا ہر چیز سے واقف ہے۔“
بعد میں آنے والے قرآن کریم کے انگریزی مترجمین نے آیت کے اس حصے کا ترجمہ یوں کیا ہے:
“Lo! Allah is Aware of all things.” ([57]) (Pick hall) ”دیکھو! اﷲ تمام باتوں سے آگاہ ہے۔“
"For God hath Knowledge of all things." ([58]) (A. Y. Ali)
” کہ خدا تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے۔“
“Verily, God has full knowledge of everything." ([59]) (Asad)
”بے شک، خدا ہر چیز کا مکمل علم رکھتا ہے۔“
حافظ صاحب نے درج ذیل آیات کے ترجمے میں قرآنی لفظ ’ملک‘ اور ’الملک‘ کا ترجمہ The Kingdom (سلطنت) اور ’ملکوت‘ کا ترجمہ The government (حکومت) کیا ہے۔
وَلِلَّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرضِ وَیَومَ تَقُومُ السَّاعَۃُ یَوْمَئِذٍ یَخْسَرُ الْمُبْطِلُونَ(الجاثیہ، ۴۵:۲۷)
"And to God belongs the kingdom of the heavens and the earth, and the day the Hour shall be established - that day - the liars shall lose." ([60])
’’اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اﷲ ہی کی ہے اور جس روز قیامت برپا ہوگی… اس روز … اہل کذب خسارے میں رہیں گے۔‘‘
تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیْرٌ (الملک، ۶۷:۱)
“BLESSED is HE in whose hand is the kingdom and He is capable of doing all He pleases." ([61])
”برکت والا ہے وہ جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور وہ جس کام میں خوشی محسوس کرے اسے کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔“
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْئٍ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ (یٰسٓ ، ۳۶:۸۳)
“Therefore glory be to Him in whose hand is the government of all things and towards Him are you going to be returned" ([62]) ”اس طرح پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں تمام چیزوں کی حکومت ہے اور اسی کی طرف تم کو لوٹ کر جانا ہے۔“
قرآنی لفظ ’’ملک‘‘ کا ترجمہ Dominion (حکومت، قبضہ، عمل داری) ہونا چاہیے جیسے کہ عبداﷲ یوسف علی([63]) اور محمد اسد([64]) نے کیا ہے۔
حافظ غلام سرور کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تمام انبیاء کی معصومیت پر ایمان رکھتے تھے۔ انبیاء اور ان پر نازل ہونے والے صحائف پر ایمان اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔ قرآن کریم کے ایک مترجم کو انبیاء سے متعلق الفاظ کو دوسری کسی زبان میں ترجمہ کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔ حافظ صاحب نے اس معاملے میں بہت احتیاط برتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے انبیاء کے حوالے سے آیات کا انگریزی میں یوں ترجمہ کیا ہے:
حضرت یوسف علیہ السلام
وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہِ وَہَمَّ بِہَا لَوْلا أَن رَّأَی بُرْہَانَ رَبِّہِ کَذَلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوء َ وَالْفَحْشَاء إِنَّہُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ (یوسف، ۱۲:۲۴)
"And most surely she resolved to have him and he would have resolved for her had he not seen the power of his Lord. It was thus in order that we might turn evil and indecency from him. Surely he was one of our devoted Servants." ([65])
”اور یقینا اس عورت نے ان کو حاصل کرنے کا قصد کیا اور وہ بھی اس کو حاصل کرنے کا قصد کرتے اگر انھوں نے اپنے خدا کی طاقت نہ دیکھی ہوتی۔ یہ اس لیے تھا کہ ہم برائی اور بے حیائی کو ان سے دور کرسکیں۔ بے شک وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے۔“
حضرت یعقوب علیہ السلام
قَالُواْ تَاللّہِ إِنَّکَ لَفِیْ ضَلاَلِکَ الْقَدِیْمِ (یوسف، ۱۲:۹۵)
“They replied: "By GOD! Thou art most surely in thy old love (lit. error)." ([66])
”انھوں نے جواب دیا: ’’خدا کی قسم! یقینا آپ اپنی پرانی محبت میں سرشار ہیں (لفظی معنی، غلطی)۔“
حضرت مریم علیھا السلام
وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْ أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا(التحریم: ۶۶:۱۲)
(a) "And (...) Mary, daughter of Amran, she who guarded her chastity." ([67])
”اور (...) مریم، عمران کی بیٹی، وہ جس نے اپنی پاکیزگی کی حفاظت کی۔“
یَا أُخْتَ ہَارُونَ مَا کَانَ أَبُوکِ امْرَأَ سَوْء ٍ وَمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیّاً (مریم، ۱۹:۲۸)
(b) "O Sister of Aaron! Thy father was not a bad man, nor was thy mother an unchaste (woman)" ([68])
”اے ہارون کے بہن! نہ تو آپ کے والد بُرے آدمی تھے، نہ ہی آپ کی والدہ آلودہ دامن (خاتون) تھیں۔“
قَالَتْ أَنَّی یَکُونُ لِیْ غُلَامٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَلَمْ أَکُ بَغِیّاً (مریم، ۱۹:۲۰)
(c) "She said: 'How can there be a son to me and no man has touched me and I am not unchaste?" ([69])
”اس نے کہا: ’میرے ہاں لڑکا کیوں کر ہوگا اور مجھے کسی مرد نے چھوا تک نہیں اور میں آلودہ دامن بھی نہیں۔“
قرآن کریم کے مطابق خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کو نہ صرف اس دنیا کے لیے بلکہ دوسری دنیاؤں کے لیے بھی رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ حافظ غلام سرور نے سورۃ الانبیاء کی آیت ۱۰۷ کے ترجمے کے لیے درج ذیل الفاظ منتخب کیے:وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ (الانبیاء،۲۱:۱۰۷)
"And we have not sent thee (O Muhammad) sent as a mercy for the people of the world." ([70])
”اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا (اے محمد ﷺ) مگر جہان کے لوگوں کے لیے رحمت بنا کر۔“
مترجم نے نبی کریم ﷺ کی رحمت کو محدود کردیا ہے، جس میں نہ صرف بنی نوع انسان بلکہ دوسری مخلوقات جیسے پالتو اور گھروں میں رہنے والے جانور، پرندے اور حتیٰ کہ جنگلی جانور بھی شامل ہیں۔ جنوں کو بھی آپ ﷺ کی رحمت سے خارج نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ آپ ﷺ نے انھیں بھی تبلیغ فرمائی اور وہ آپ ﷺ پر ایمان لائے۔
قرآن کریم نے ایک لفظ جِلْبَابْ کی جمع جَلابیب استعمال کیا ہے جس کا معنی ہے ایک بیرونی کپڑا، ایک لمبا چوغہ جو سارے جسم کو ڈھانپ لے، یا ایک اوڑھنی جو گردن سے سینے کو ڈھانپ لے۔ سورۃ الاحزاب کی آیت ۵۹ میں حافظ صاحب نے اس لفظ کا ترجمہ Head covering (سر کی اوڑھنی) کیا ہے۔
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ (الاحزاب: ۳۳۔۵۹)
"O thou Prophet! say to thy wives and thy daughters and the wives of the faithful that they lower upon them their head covering a little." ([71])
”اے نبی ﷺ! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی بیویوں سے کہہ دو کہ اپنی اوڑھنیوں کو تھوڑا لٹکا لیا کریں۔“
عبداﷲ یوسف علی کا ترجمہ زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے:
"O Prophet! Tell thy wives and daughters and the believing women that they should cast their outer garments over their persons (when abroad)." ([72])
”اے نبی ﷺ! اپنی بیویوں، اور بیٹیوں اور مومن عورتوں کو بتا دیں کہ انہیں اپنے جسم پر ایک بیرونی کپڑا لینا چاہیے (جب وہ گھر سے باہر ہوں)۔‘‘ (الاحزاب: 3۳۔۵۹)
اپنے پیشروؤں کی طرح، حافظ صاحب نے بھی قرآنی لفظ ’علق‘ کا ترجمہ (clot of blood) ([73]) خون کا لوتھڑا‘ کیا ہے۔ اس کا ترجمہ (hanging mass) ([74]) ’معلق وجود‘ یا (clinging form) ([75]) ’چمٹا ہوا وجود‘ ہونا چاہیے تھا۔ سورۃ القیامۃ کی دو آیات (القیامۃ، ۷۵:۳۷۔۳۸) أَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّن مَّنِیٍّ یُمْنَی O ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوَّی O کا ترجمہ جو آپ نے کیا ہے وہ قرآنی متن کا درست معنی نہیں سمجھاتا جیسے کہ:
"Was he not a life-germ from seed sown? And then he was a clot of blood; He made him and He perfected him" ([76]) ” کیا وہ مادۂ حیات کا ایک قطرہ نہ تھا؟ پھر وہ خون کا لوتھڑا تھا؛ اس (خدا) نے اسے (انسان کو) بنایا اور اس (خدا) نے اسے کامل بنایا۔“
عبداﷲ یوسف علی نے ان آیات کے انگریزی ترجمہ کے لیے یہ الفاظ منتخب کیے:
"Was he not a drop of sperm emitted (in lowly form)? Then did he become a leech-like clot; then did (God) make and fashion (him) in due proportion." ([77])
”کیا وہ منی کا ایک قطرہ نہ تھا جِسے (بے شکل حالت میں) ٹپکا دیا گیا؟ پھر وہ جونک کی شکل کا لوتھڑا بنا، پھر خدا نے اسے بنایا اور ہر لحاظ سے موزونیت بخشی۔“
ڈاکٹر طاہر القادری نے ان آیات کا ترجمہ زیادہ سائنسی انداز میں کیا ہے:
"Was he not (in the beginning) a sperm drop ejaculated? Then it developed into a hanging mass (clinging to the womb like a nest). Then He created (in it) the preliminary form of all limbs of the body. Then He set (them) right." ([78]) ’’کیا وہ (اپنی ابتداء میں) منی کا ایک قطرہ نہ تھا جو (عورت کے رحم میں) ٹپکا دیا جاتا ہے۔ پھر وہ (رحم میں جال کی طرح جما ہوا) ایک معلق وجود بن گیا، پھر اس نے (تمام جسمانی اعضاء کی ابتدائی شکل کو اس وجود میں) پیدا فرمایا، پھر اس نے (انہیں) درست کیا۔‘‘(۷۸۔A)
بعض آیات کے ترجمے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حافظ غلام سرور نامیاتی ارتقاء پر یقین رکھتے تھے۔ درج ذیل آیات کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
وَلَوْ نَشَاء لَمَسَخْنَاہُمْ عَلَی مَکَانَتِہِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِیّاً وَلَا یَرْجِعُونَ (یٰسٓ:۳۶۔۶۷)
1. "And if we pleased we could surely metamorphose them where they are, they would not then be able to go (forward) or to return." ([79])
”اور اگر ہم چاہیں تو ان کی جگہ پر ان کی شکلیں بدل دیں پھر وہ وہاں سے نہ (آگے) جاسکیں اور نہ پیچھے مڑ سکیں۔“
قُلْ یُحْیِیْہَا الَّذِیْ أَنشَأَہَا أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمٌ (یٰسٓ۔۳۶:۷۹)
2. "Say: 'He will put life into them who evolved them the first time, for He knows all makes." ([80]) کہہ دیجئے: ان میں وہ زندگی پیدا کرے گا جس نے ان کو پہلی بار ارتقاء بخشا تھا۔ کیونکہ وہ ہر قسم کا پیدا کرنا جانتا ہے۔“
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَۃٍ مِّن طِیْنٍ O ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ O ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَاماً فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْماً ثُمَّ أَنشَأْنَاہُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَکَ اللَّہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَO (المؤمنون۲۳:۱۲۔۱۴)
"And most surely we have made man from an extract of clay. Then we placed him as a sperm in a firm resting-place. And then we made the sperm into a clot, and we made the clot into a lump of flesh, then we made the lump of flesh into bones, and we dressed the bones with muscles (lit-flesh), thereafter we evolved him into another make. Therefore blessed be GOD, the Best to make." ([81])
”اور یقینا ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے۔ پھر ہم نے اسے نطفے کے طور پر ایک محفوظ جائے آرام میں رکھا۔ اور پھر ہم نے نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر ہم نے لوتھڑے سے گوشت کا ڈھیلا بنایا اور پھر ہم نے گوشت کے ڈھیلے سے ہڈیاں بنائیں۔ اور ہم نے ہڈیوں پر پٹھے (لفظی معنی، گوشت) چڑھائے۔ اس کے بعد ہم نے اس کو نئی شکل میں ارتقاء بخشا۔ تو خدا سب سے بہتر بنانے والا، بڑا بابرکت ہے۔“
درج بالا ترجمے میں استعمال ہونے والے افعال Metamorphose (شکل بدلنا) اور evolve (ارتقاء بخشا) کو دوسرے انگریزی مترجمینِ قرآنِ کریم نے استعمال نہیں کیا۔
"Thereafter we evolved him into another make."
مذکورہ بالا آیات کے حصے ” ثُمَّ أَنشَأْنَاہُ خَلْقاً آخَرَ “(المؤمنون، ۲۳:۱۴) کے حوالے سے پکتھال کا ترجمہ زیادہ درست ہے:
“Then produced it as another creation." ([82]) ”پھر اسے ایک اور مخلوق کے طور پر تخلیق کیا۔“
قرآن کریم کے انگریزی تراجم کے میدان میں پاک و ہند کے مسلمانوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان تراجم کی جماعت بندی چار بڑے درجوں میں کی جاسکتی ہے:
۱۔ہندی مسلمانوں کے انگریزی تراجمِ قرآن کریم
۲۔نو مسلموں کے انگریزی تراجمِ قرآن کریم
۳۔احمدیوں (جنھیں غیر مسلم قرار دیا گیا) کے انگریزی تراجمِ قرآن کریم
۴۔قرآنِ کریم کے اردو تراجم کے انگریزی تراجم
حافظ غلام سرور پر غلطی سے احمدی مترجم قرآن ہونے کا الزام لگا دیا گیا۔حالانکہ آپ "خاتم النبیین" کا ترجمہ بھی وہی کرتے ہیں جو اہلسنت کے یہاں معروف ہے یعنی “Seal of the Prophets”(83)۔ مذکورہ بالا شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک سچے مسلمان تھے جنھوں نے پوری ایمان داری سے قرآن کریم کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی۔
حوالہ جات
- ↑ ()Mallal, Bashir A. (ed.) Trial of Muslim Libel Case (Singapore, 1928) p.65
- ↑ ()Ghulam Sarwar, Hafiz, Translation of The Holy Qur'an (London and Woking: Unwin Brothers Limited, n.d.) introduction, p.xxxvi
- ↑ ()Ghulam Sarwar, Hafiz, Translation of The Holy Qur'an, title
- ↑ () Khoo Salma Nasution, Colonial intervention & transformation of Muslim waqf settlements in urban Penang: case study of Capitan Kling Mosque waqf & achene street mosque waqf, p.8
- ↑ () Moshe Yegar, Islam and Islamic Institutions in British Malaya: Policies and Implementation (Jerusalem: Magnes Press, Hebrew University, 1979) p.151
- ↑ () Ghulam Sarwar, Hafiz, Translation of The Holy Qur'an, title
- ↑ () Mallal, Bashir A. (ed.) Trial of Muslim Libel Case, pp.75-76
- ↑ () Ghulam Sarwar, Hafiz, Translation of The Holy Qur'an, pp.l-lxx
- ↑ () Mallal, Bashir A. (ed.) Trial of Muslim Libel Case, p.65
- ↑ () Khoo Salma Nasution, colonial intervention & transformation of Muslim waqf settlements in urban Penang: case study of Capitan Kling mosque waqf & achene street mosque waqf, p.8
- ↑ ()Hand Book of the Mohammedan and Hindu Endowments Board (Penang, 1932) p.29
- ↑ () Ghulam Sarwar, Hafiz, Words are as Breath and Will is all, The Islamic Review, Vol.xxx, No.5, (May, 1937) pp.167-188
- ↑ () Ghulam Sarwar, Hafiz, Philosophy of the Qur'an (Lahore: Muhammad Ashraf, 1991), p.245
- ↑ () Ghulam Sarwar, Hafiz, Muhammad The Holy Prophet (Lahore: Muhammad Ashraf, 1949) pages 472. This book was reprinted in 1967 (pp.410) by the same publisher.
- ↑ () According to Abdullah Yousaf Ali, H.G. Sarwar published the "Translation of the Holy Qur'an" in 1929 or 1930. This translation bears no publication date but there is some evidence from which it can be deduced that Ali's estimation is not wrong. H.G. Sarwar wrote an open letter to Dr. S. M. Zwemer, the editor of the Moslem World on April 1930 in which he stated that my son has sent my translation to you. (The Islamic Review, July 1930, pp.251-258). Islamic Review also published an advertisement for his translation in September 1930. (Islamic Review, September 1930, p.343). Perhaps it was published in the end of 1929. عبداﷲ یوسف کے مطابق ۱۹۲۹ء یا ۱۹۳۰ء حافظ غلام سرور نے قرآنِ کریم کا انگریزی ترجمۂ قرآن "Translation of the Holy Qur'an" شائع کیا۔ اس ترجمے پر تاریخِ اشاعت کا ذکر نہیں ہے لیکن کچھ اشارات گواہی دیتے ہیں کہ عبداﷲ یوسف علی کا اندازہ غلط نہیں تھا۔ حافظ غلام سرور نے مجلہ مسلم ورلڈ (Moslem World) کے مدیر ڈاکٹر ایس۔ ایم۔ زویمر (Dr. S. M. Zwemer) کو ایک کھلا خط اپریل 1930ء میں لکھا۔ جس میں حافظ صاحب نے بیان کیا کہ میرا بیٹا میرے انگریزی ترجمۂ قرآن کو آپ کے ملاحظے کے لیے بھیج چکا ہے۔ (دی اسلامک ریویو، جولائی 1930، ص ۲۵۱۔۲۵۸) مجلہ اسلامک ریویو نے ستمبر 1930ء میں آپ کے ترجمہ قرآن کا ایک اشتہار بھی شائع کیا۔ (دی اسلامک ریویو، ستمبر 1930ء، ص۳۴۳) شاید یہ انگریزی ترجمۂ قرآن 1929ء کے آخر میں شائع ہوا۔
- ↑ () Ghulam Sarwar, Hafiz, Translation of The Holy Qur'an, pp.liv-xlvi
- ↑ () Ibid, pp.l-lxx
- ↑ () Calverly, Edwin E., Book Review: The English Translation and Commentary, part 1 in the Journal of Bible and Religion, vol.18, No. 2, (April, 1950) p.146
- ↑ () e.g. Anti Ahmadiyya Movement in Islam, Ahmadiyya and the Qur'an http://alhafeez.org/rashid.qtranslate.html
- ↑ () Mallal, Bashir A. (ed.) Trial of Muslim Libel Case, p.72
- ↑ () Ghulam Sarwar, Hafiz, Translation of The Holy Qur'an, p.xxxvi
- ↑ () Mallal, Bashir A. (ed.) Trial of Muslim Libel Case, p.65
- ↑ () Shahid, Dost Muhammad Tarikh Ahmadiyyat (Rabwah: Idara-ul-Musanniffin) vol.3, p.189; Mahmud, Bashiruddin, Haqiqat al-Nabuwah, p.221
- ↑ () Shahid, Dost Muhammad Tarikh Ahmadiyyat, vol.3, p.405; Malihabadi, Abul Kalam ki kahani khud un ki zubani (Lahore: Maktabah Chatan, 1963) p.330
- ↑ () Mallal, Bashir A. (ed.) Trial of Muslim Libel Case, pp.72-73
- ↑ () Ghulam Sarwar, Hafiz, Translation of The Holy Qur'an, pp.xxxvi-xlii
- ↑ () Yusuf Ali, A., The Holy Qur'an… Translation and Commentary, introduction, p.vii
- ↑ ()Abdul-Raof, Hussein, Qur'an Translation: Discourse, Texture and Exegesis (Surrey: Curzon Press, 2001) p.20
- ↑ () Mohar Ali, Muhammad, The Qur'an and the Orientalists (Suffolk: Jam'iyat 'Ihhaa' Minhaaj as-Sunnah, 2004) pp.331,335,340
- ↑ () Ghulam Sarwar, Hafiz, Translation of The Holy Qur'an, p.33
- ↑ ()محمد علی، مولانا، بیان القرآن، (لاہور: احمدیہ انجمن اشاعت اسلام، اشاعت۴، ۱۹۸۰ء) ص ۲۲۴۔۲۲۶
- ↑ ()Zafrulla Khan, Muhammad, The Qur'an: Arabic text with a new translation (London and Dublin: Curzon Press, 1971) p.58 () Ghulam Sarwar, Hafiz, Translation of The Holy Qur'an, p.58
- ↑ ()Muhammad Ali, The Holy Qur'an Containing the Arabic Text With English
- ↑ Translation and Commentary, pp.241-243
- ↑ ()The author contacted Zahid Aziz website editor, www.ahmadiyya.com, who wrote in his email dated January 19, 2010 that H.G. Sarwar was not an Ahmadi, either Lahori or Qadiyani. مقالہ نگار نے لاہوری احمدیوں کی ویب سائٹ www.ahmadiyya.com کے مدیر زاہد عزیز سے رابطہ کیا، اس نے 19 جنوری 2010ء کی اپنی ای میل میں لکھا کہ حافظ غلام سرور کا احمدی فرقہ سے تعلق نہیں تھا۔ وہ احمدی یا قادیانی کسی فرقے سے وابستہ نہیں تھے۔
- ↑ () Ghulam Sarwar, Hafiz, Translation of The Holy Qur'an, p.2
- ↑ () Ibid, pp.4, 32
- ↑ ()Ibid, p.4
- ↑ ()Ibid, pp.4, 150
- ↑ () Ibid, p.4
- ↑ ()Ibid, p.14
- ↑ ()Ibid, p.20
- ↑ ()Ibid, p.6
- ↑ ()Ibid, p.5
- ↑ ()Ibid, p.376
- ↑ ()Ibid, p.1
- ↑ ()Ibid, introduction, p.x
- ↑ () Muhammad Ali Maulvi, The Holy Qur'an Containing Arabic Text with English Translation and Commentary (Lahore: Ahmadiyya Anjuman-e-Ishaat-i-Islam, 1920) p.181 محمد علی لاہور، مولانا، بیان القرآن، (لاہور: احمدیہ انجمن اشاعت اسلام، اشاعت ۴، ۱۹۸۰ء) ص۲۷۰
- ↑ () Ghulam Sarwar, Hafiz, Translation of The Holy Qur'an, p.39
- ↑ () Ibid, p.1
- ↑ () Yusuf Ali, A., The Holy Qur'an… Translation and Commentary, introduction, p.14
- ↑ ()Al-Azhari, Muhammad Karam Shah, Diya' al-Qur'an (Lahore: Zia-ul-Qur'an Publications, 1402 A.H.) vol.1, p.21/ English translation by Anis Ahmad, The Beauteous Qur'an (Lahore: Zia-ul-Qur'an, 2001) p.20
- ↑ () Muhammad Tahir-ul-Qadri, Dr., The Holy Qur'an, English Translation, p.6
- ↑ ()Ghulam Sarwar, Hafiz, Translation of The Holy Qur'an, p.114
- ↑ ()Ibid, p.110, 114
- ↑ ()Ibid, 115
- ↑ () Pickthall, The Meanings of the Glorious Qur'an, p.124
- ↑ ()Yusuf Ali, A., The Holy Qur'an… Translation and Commentary, p.283
- ↑ ()Muhammad Asad, The Message of the Qur'an, p.283
- ↑ ()Ghulam Sarwar, Hafiz, Translation of The Holy Qur'an, p.292
- ↑ ()Ibid, p.336
- ↑ () Ibid, p.257
- ↑ ()Yusuf Ali, A., The Holy Qur'an… Translation and Commentary, introduction, p.1576
- ↑ ()Muhammad Asad, The Message of the Qur'an, p.879
- ↑ ()Ghulam Sarwar, Hafiz, Translation of The Holy Qur'an, p.139
- ↑ ()Ibid, p.176
- ↑ ()Ibid, p.335
- ↑ ()Ibid, p.176
- ↑ () Ibid, p.175
- ↑ ()Ibid, p.189
- ↑ ()Ibid, p.45
- ↑ ()Yusuf Ali, A., The Holy Qur'an… Translation and Commentary, introduction, p.1126
- ↑ ()Ghulam Sarwar, Hafiz, Translation of The Holy Qur'an, p.370
- ↑ ()Muhammad Tahir-ul-Qadri, Dr., The Holy Qur'an, English Translation, (Irfan-ul-Quran) p.1043
- ↑ ()Abdel Haleem, M.A.S., The Qur'an: A new translation (Oxford: Oxford University Press, 2008) introduction, p.428
- ↑ () Ghulam Sarwar, Hafiz, Translation of The Holy Qur'an, p.350
- ↑ ()Yusuf Ali, A., The Holy Qur'an… Translation and Commentary, introduction, p.1653
- ↑ () Muhammad Tahir-ul-Qadri, Dr., The Holy Qur'an, English Translation, (Irfan-ul-Qur'an), p.997 طاہر القادری، ڈاکٹر، محمد، شیخ الاسلام، عرفان القرآن، (لاہور: منہاج القرآن پبلی کیشنز، اشاعت، ۳۴، ۲۰۱۰ء) ص۹۴۳
- ↑ () Ghulam Sarwar, Hafiz, Translation of The Holy Qur'an, p.256
- ↑ ()Ibid, p.257
- ↑ () Ibid, p.195
- ↑ ()Pickthall, The Meanings of the Glorious Qur'an, p.209 (83)Ghulam Sarwar, Hafiz, Translation of The Holy Qur'an, p.244
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |