33
1
2019
1682060084478_789
152-164
http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/87
اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے"ولکل قوم ھاد([1])"اورہرقوم کے لیے رہنمائی کرنے والے آئے ہیں۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دین حنیف سے دوری کے باعث جب بھی انسان بے راہ روی کا شکار ہوا،خداوندتعالیٰ نے اپنے چنیدہ بندوں کے لیے اس کو ہدایت کا راستہ دکھایا۔ اولاً انبیاءکرام علیہم السلام کے ذریعے نوع انسانی کو ہدایت دے جاتی رہی حتی کہ ہادی کامل محسن انسانیت خاتم الانبیاء جناب حضرت محمدمصطفیٰﷺ کی بعثت کے ساتھ جمیع انسانیت کو لاریب ومکمل ہدایت ملی۔نبی کریمﷺ کے بعد مجددین کے ذریعے انسانیت کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی گئی۔نبی کریمﷺ نے تجدید دین کے اس پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ شَرَاحِيلَ بْنِ يَزِيدَ الْمُعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فِيمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا ([2])
”اللہ تعالیٰ ہر سو سال کے سرےپر اس امت کے لیے ایسے افراد پیدا کرے گا جو اس کے لیےاس کے دین کو نیا اور تازہ کرتے رہیں گے۔“
وہ لوگ جنہوں نے اپنے ادوار میں اٹھنے والے فتنوں کی فضاء میں احیاء شریعت اور تجدید دین کے لیے کاوشیں کیں ان میں حضرت عمربن عبدالعزیزؒ،ائمہ اربعہ، امام غزالیؒ،شیخ احمدسرہندی المعروف مجددالف ثانیؒ ،شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ وغیرہ سرفہرست ہیں۔یہ وہ مبارک نفوس ہیں جن کی جہدمسلسل سے اسلام کو نشاۃ ثانیہ نصیب ہوئی اور اسلامی تعلیمات کانفاذ ہوا۔ان مجددین میں شیخ احمدسرہندی المعروف مجددالف ثانیؒ کو خاص امتیاز حاصل ہے۔شیخ احمدسرہندیؒ14شوال 971ھ بمطابق 5/جون 1564ء کو جمعہ کی شب میں پیداہوئے۔([3]) آپ کا سن ولادت لفظ خاشع سے ماخوذ ہے۔([4]) آپ کا لقب بدرالدین اور کنیت ابوالبرکات ([5])تھی۔آپ نے ابتدائی تعلیم کے طور پر قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی ۔([6]) ابتدائی علوم کا اکتساب آپ نے اپنے والد ماجد سے کیا۔([7]) اپنے والد ماجد کے علاوہ آپ نے دیگر علماء کبار کے سامنے بھی زانوئے تلمذ کیا اور عصر حاضر میں مروج علوم مثلاً منطق،فلسفہ، علم الکلام اور اصول فقہ اس وقت کے بہترین عالم حضرت مولانا کمال شاہ کیتھلی سے حاصل کیے۔([8])حدیث کی بعض کتابیں شیخ شہاب الدین حجر کے شاگرد یعقوب کشمیری([9]) سے پڑھیں۔([10])فقط17 سال کی عمر میں ہی آپ علوم کے جامع بن گئے۔ تحصیل علم سے فارغ ہوکرآپ نے مسند درس وتدریس سنبھال لی۔آپ نے کامل ذمہ داری سے اس منصب کاحق ادا کیا اور بےشمار طلباء علوم نبوت نے آپ کے تبحرعلمی سے استفادہ کیا۔([11])
مجددالف ثانیؒ کےدور میں دشمنان اسلام کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے برصغیر پاک وہند میں اسلام کو مختلف فکری وعملی چیلنجز کا سامنا تھا۔ برصغیر جس میں دین فطرت کے شجرہ طیبہ کے نصب اور بارآور کرنے کےلیے چارسوبرس تک مسلسل بہترین انسانی توانائیاں اور ذہنی صلاحتیں اور اہل قلوب اوراصحاب صفہ کی روحانیتیں صرف ہوئی تھیں لیکن سولہویں صدی عیسوی میں برصغیر معاشرہ ایک ہمہ جہتی، دینی، ذہنی اور تہذیبی ارتداد کے راستہ پر پڑ رہاتھا، جس کی پشت پر اس عہد کی ایک عظیم ترین سلطنت اور فوجی طاقت تھی،جس کواپنےوقت کے متعددذہین وفاضل انسانوں کی علمی وذہنی کمک بھی حاصل تھی۔ا س وقت اگر حالات کاراستہ روک کر کھڑی ہوجانے والی کوئی طاقتور شخصیت یاکوئی انقلاب انگیز واقعہ پیش نہ آتا تو اس ملک کاانجام گیارہویں صدی ہجری میں بظاہر وہی ہوتاجو نویں صدی ہجری میں اسلامی اندلس کاہوا۔
اس دور میں مذہبی رواداری کے نام پر 'دین الٰہی' کی ترویج زوروشور سے جاری تھی جس کے باعث معاشرے میں ضعیف الاعتقادی بڑی تیزی سے اپنی جڑیں مضبوط کررہی تھی۔ملکی انتظام میں اسلام دشمن افراد کو خطرناک حد تک عمل دخل حاصل تھا جس کی وجہ سے بادشاہ وقت(اکبر)کی طبیعت میں بھی اسلام کے خلاف ضد کا عنصرپیدا ہوگیا تھا۔ مجددالف ثانیؒ ان تمام حالات پر انتہائی درد کا اظہار کرتے ہوئے درباراکبری کے اہم رکن شیخ فریدبخاری کو اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
”اسلام کی زبوں حالی اس سے پہلے زمانے میں اس سے آگے نہ گئی تھی کہ مسلمان اپنے دین پر رہیں اور کفار اپنے دین پر(لکم دینکم ولی دین)لیکن گذشتہ دور (دوراکبری)میں کھلے بندوں اسلامی سلطنت میں کفر کے قوانین غالب اور نافذ تھے۔اورمسلمان احکام اسلام کے اظہار سے عاجز وقاصر تھے۔ اگر اظہار کرنے کی جرات کرتے تو گردن مار دی جاتی۔آہ! کیسی مصیبت کا وقت تھا، کیسی حسرت وافسوس کا مقام تھا کہ محبوب رب العالمین حضرت محمد ﷺ کے نام لیوا ذلیل وخوار تھے،اور ان کے منکرین کو عزت واعتبار حاصل تھا۔مسلمان زخمی دل اسلام کے ماتم میں مصروف ہوں اور دشمن مذاق اڑااڑا کر دل بہلائیں اور زخموں پر نمک پاشی کریں۔“ ([12])
اکبربا د شاہ کے دربار کی حا لت کااندازہ ملا عبدالقادربدایونی کی اس تحریر سے لگایا جاسکتا ہے۔
”عبادت خانہ میں ہر شب جمعہ کو سادات ومشائخ اور علماء وامراء کی طلبی ہوتی، آگے پیچھے بیٹھنے میں مشائخ وعلماء سے نفسانیت کا اظہار ہوا، ہر ایک دوسرے سے آگے اور ممتاز جگہ بیٹھنا چاہتا تھا، بادشاہ نے اس مشکل کو اس طرح سے حل کیا کہ حکم دیا کہ امراء جانب مشرق بیٹھیں،سادات جانب مغرب،علماء جنوب میں اور مشائخ شمال میں، بادشاہ خودایک حلقہ میں آتا اور مسائل کی تحقیق کرتا۔“ ([13])
اعلیٰ دینی عہدیداروں میں ایک اہم رکن ملاعبداللہ سلطانپوری([14]) جن کا عہدہ ”مخدوم الملک“ تھا، محض اس لئے کہ حج نہ کرنا پڑے، فریضہ حج کے اسقاط کا فتویٰ دے دیا تھا۔ زکوٰۃ کے لئے بھی حیلے سے کام لیتے تھے۔([15])
دربار اکبری میں شیخ مبارک، ابوالفضل اورفیضی کا فتنہ بھی علماء سوء کا ہی فتنہ تھا۔([16]) ان علماء سوء نے گمراہی کے دو بڑے دروازے کھول رکھے تھے، ایک ان میں نااہلیت کے باوجود اجتہاد کا دعویٰ اور کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ میں تحریف کرکے نت نئے عقائد اور خیالات کا اختراع اور ان باطل عقائد ونظریات کی قرآن وحدیث کے مقدس ناموں سے ترویج واشاعت کرنا تھا۔ ان علماء سوء کی دوسری گمراہی بدعت حسنہ کے نام سے دین میں نئی نئی ایجادیں کرنا تھا جو معاشرے میں لادینی افکار وخیالات کی اشاعت کا سبب بن رہے تھے۔([17]) ان علماء سوء نے فلسفہ اور کتب کفار کی روشنی میں باطل عقائدونظریات کااختراع کیا اور ”دین اکبری“ یا”دین الٰہی“ کے ذریعے کفروالحاد کاپرچار شروع کردیا، جس کے نتیجے میں معاشرے میں ضعیف الاعتقادی و دیگر خرافات تیزی کے ساتھ سرایت کرگئیں جس نے نہ صرف عوام بلکہ خواص کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
علماءِ سوء میں سب سے پہلا نام شیخ مبارک کا ہے۔ سید ابو الحسن علی ندوی شیخ مبارک کی زند گی کے با رے میں لکھتے ہیں:
” شیخ مبارک کی طبیعت میں بے چینی اور دماغ میں فطرتاًشورش تھی۔ مذاہب اربعہ اور ان کے اختلافات سے واقف ہو کر ان کے اندر بجائے جمع وتطبیق اور تاویل وتوجیہ کے سب سے انکاروبیزاری کا رجحان پیدا ہو گیا تھا اور اس پورے فقہی ذخیرے اور اسلاف کی محنت سے بے اعتقاد ہوگئے۔ ان کے اندر ایک تلون وانتشار پیدا ہوگیا تھا اور ان میں ہر رنگ میں رنگے جانے اور ’’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘ پر عمل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔“ ([18])
اس پر مستزاد یہ کہ اس وقت دشمنان اسلام کی طرف سے 'دین الٰہی' کے نام پر جوملحد ا نہ فکر کی یلغار جاری تھی، اس کا مقصد یہ تھا کہ برصغیر معاشرے میں موجود دو بڑے مذاہب اسلام اور ہندومت کااعتقادات ،معاملات اور رسومات کے اعتبار سے اس طرح اختلاط کردیا جائے کہ ان کا جداگانہ تشخص ختم ہوجائے اوریہ ایک مذہب 'دین الٰہی' کے نام پریکجا ہوجائیں تاکہ معاشرے میں مذہبی انتشار کی فضا کو ختم کیا جاسکے۔اس مقصد کی خاطر مسلم عوام کواسلام کے متعدد عقائد سے انحراف کرنے کی سعی کی گئی اور اسلام میں ہندوانہ رسومات کو شامل کرنے کے لیے معاشرے میں بےشمار بدعات کو ترویج دی گئی ۔بےشمار نام نہاد صوفیاء وعلماء سوء نے بھی معاشرے میں بےدینی اور دین الٰہی جیسے ملحدانہ افکار کو ترویج دینے کے لیے عوام الناس کو ضلالت وگمراہی میں دھکیلنے کا راستہ اختیار کیا۔مسلمان مردوں کےساتھ ہندو عورتوں کے نکاح کوفروغ دیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے بھی اسلام اور مسلمانوں کے تشخص کو نقصان پہنچ سکے نتیجتاًاس وقت کے تمام سیکولر،لبرل اور روشن خیال افراد کی طرف سے ملت اسلامی کے تمام سرمایہ کو حادث وبدعقلی کا مجموعہ قرار دیا گیا اورلوگوں میں یہ خیال پروان چڑھایا کہ اس کے مبتدی (العیاذباللہ) عرب کے وہ چند نادار بدو تھے جوکہ تمام کے تمام قاتل اورراہزن تھے۔اس مقصد کے لیے شاہنامہ فردوسی کے دو مشہور شعروں سے استدلال کیا گیا جو اس نے بطور استشہادنقل کیے تھے۔
زشیرشترخوردنوسوسمار | عرب رابجائے رسیدست کار |
کہ ملک عجم راکننداآرزو | تفوبادوبرچراخ گرداں تفو([19]) |
دین الٰہی کی آڑمیں ملحدانہ افکار کےبرصغیر پرمذہبی اثرات
اسراء ومعراج واستہزاء
آخر اس بات کو عقل کس طرح مان سکتی ہے کہ ایک شخص بھاری جسم رکھنے کے باوجود یکایک نیند سے آسمان پر چلاجاتا ہے اور اللہ کے ساتھ طرح طرح کی نوے ہزار باتیں کرتا ہے۔لیکن اس کا بستر اس وقت تک گرم ہی رہتا ہے اورلوگ اس دعویٰ کومان لیتے ہیں اور اسی طرح شق القمر وغیرہ جیسی باتوں کو بھی مان لیتے ہیں۔پھر اپنی اٹھی ہوئی ٹانگ کی طرف حاضرین کو مخاطب کرکے سوال کرتا ہے ۔
ممکن نیست کہ تاپائے دیگربرجاماند | استادہ توانیم ایں چہ حکایتہاست([20]) |
دورجدیدمیں بھی کچھ اس طرح کی باتوں کو پیچیدہ کرکے عوام الناس میں پھیلاجارہاہے ۔عالم بالا سےتعلق، وحی کی کیفیات وغیرہ کو تشکیک کے پردے میں لپیٹ کر پیش کیاجارہاہے ۔وحی الٰہی کو لاشعوری واہمہ،وحی کی کیفیات کو صرع کانام دے دیا گیا ہے۔([21])
مجددالف ثانیؒ نے اپنے دور کے روشن خیال اہل علم اور طالبان علم کے نظریات کی مذمت کی جنہوں نے علوم عقلیہ دنیویہ ادب وانشاوفلسفہ وتاریخ وغیرہ کو اپنا معبود نہیں تو مقصود ضرور بنا رکھاتھا اور علوم نقلیہ سے روگردانی کرکے اپنی عقلوں کو معیار شریعت ومعیارعلوم کون ومکان ٹھہرایا ہوا تھا۔([22])مجددالف ثانیؒ ان آزاد خیال تعلیم یافتہ لوگوں کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”بے باک (یعنی آزاد خیال)طالب خواہ کسی فرقے سے ہویہ دین کے چور ہیں۔ان کی صحبت سے بچنا ضروریات دین میں سے ہے۔یہ سب فتنہ وفساد جودین میں پیداہواہےانہی لوگوں کی کم بختی کی وجہ سے ہے کیونکہ انہوں نے دنیاوی اسباب کی خاطر اپنی آخرت برباد کرلی ہے۔“([23])
مجدد الف ثا نی اپنے ایک مکتوب میں کابل کے مفتی خواجہ عبدالرحمن کولکھتے ہیں:
” نیزآپﷺ نے فرمایا”تمہیں لازم ہے کہ میری سنت اور میرے خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑواور اسکو دانتوں سے پکڑو، اور نئے پیداشدہ امور سے بچو،کیونکہ ہرنیاامربدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے“۔ پس جب دین میں ہرنیا امر بدعت ہے اور ہربدعت ضلالت،تو پھر بدعت میں حسن کے معنی کیا ہوئے؟نیز جو کچھ احادیث سے مفہوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہربدعت سنت کی رافع ہے، بعض کی کوئی خصوصیت نہیں، پس ہر بدعت سیّۂ ہے۔آں حضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ”جب کوئی قوم بدعت پیدا کرتی ہے تو اس سے اس جیسی ایک سنت اٹھا لی جاتی ہے“ پس سنت کومضبوط پکڑنا بدعت کے پیداکرنے سے بہتر ہے۔حضرت حسانؓ سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:”کسی قوم نے دین میں کسی بدعت کوجاری نہیں کیا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس جیسی ایک سنت کو ان میں سے اٹھا لیا، پھر اللہ تعالیٰ قیامت تک اس سنت کو ا ن کی طرف نہیں لوٹاتا۔“([24])
مزیدبراں مجددالف ثانیؒ نے معاشرے میں بڑھتے ہو ے خرا فا ت اور ضعیف الاعتقادی کے سدباب کے لئے اپنے مکتوبات میں عقائداسلام اور اجتہادوتقلید وغیرہ مسائل کلامیہ کے متعلق تحریر کیا۔چنانچہ مجددالف ثانیؒ اپنے ایک مکتوب میں جوحکیم عبدالوہاب کے نام ہے، تحریر کرتے ہیں:
”اے سعادت مند! جوکچھ ہم اور آپ پر لازم ہے وہ یہ ہے کہ اول اپنے عقائد کو کتاب وسنت کے مطابق اس طرح درست کریں کہ جس طرح علمائے حق نے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو مشکور فرمائے،ان عقائد کو کتاب وسنت سے سمجھا اور وہاں سے اخذ کیا ہے،کیونکہ ہمارا اور آپ کا سمجھنا اگر ان بزرگواروں کی فہم ورائے کے موافق نہیں ہے تووہ حدود واعتبار سے ساقط ہے،کیونکہ ہر بدعتی اور گمراہ اپنے باطل احکام کو کتاب وسنت سے ہی سمجھتا ہے اور ان کو وہیں سے اخذ کرتا ہے حالانکہ ان سے حق کے متعلق کسی چیز کا فائدہ نہیں ہوتا۔“
مجددالف ثانیؒ کی اس کاوش کو مدنظر رکھتے ہوئے عصر حاضر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ علوم دینیہ میں رسوخ حاصل کرکے ایسے دانشوروں اور طالبان علوم دینیہ کی تردید کی جائے جو مذہبی عقائد کے متعلق شکوک وشبہات میں مبتلا ہیں تاکہ وہ عوام الناس میں کسی طرح کےاغلاط آمیزافکار کی اشاعت کا سبب نہ بن سکیں اور مسلم معاشرہ مذہبی بے راہ روی کا شکار نہ ہو۔
مقام نبوت کی اہانت
اسی طرح مجدد الف ثا نی کے دور میں آپﷺ پرمختلف اعتراض کر تے جن میں الاوائل ہجرت میں قریش کے قافلہ کا لوٹنا ،چودہ عورتوں سے نکاح کرنا اور بیویوں کی رضامندی کے لیے شہد کوحرام کرنا شا مل ہیں(ان سے نبوت پر اعتراض کرنا تھا)۔([25])
دورحاضر کے بعض مفکرین ودانشوروں بھی کچھ اسی طرح کی گفتگو کرکے مخفی طورپر یہ تاثر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ داعی اسلام ﷺ(العیاذباللہ) لوٹ مار کرکے مہاجرین کی اقتصادی خودمختاری چاہتے تھے۔([26]) کچھ لوگ یہ نظریہ بھی پیش کرتے ہیں کہ پیغمبراسلامﷺکا مطمح نظر ابتداء سے ہی دنیاوی اقتدار تھا اور جب اقتدار میسر آگیا تو (نعوذباللہ)ممکنہ دادعیش دی اور یکے بعد دیگر نکاح پر نکاح کیے۔ ([27])
مجددالف ثانیؒ نے مقام نبوت الصلوٰۃ والسلام علی صاحبہاکی تحقیرکرنے والوں کی پرزورمذمت کرنے کے ساتھ ساتھ نمایاں تردید بھی کی اور ارباب حکومت کو ان کے شروفساد سے آگاہ کرکے اس سیلاب بے پناہ سے بروقت بچالیا۔([28]) حضرت مجددالف ثانیؒ نے ان علماء سوء سے علمی مناظرہ کیا اور ان کے عقائد باطلہ کے رد میں ”رسالہ اثبات النوۃ“ اور”رسالہ تہلیلیہ“تحریر کیا اور ان رسالوں کے ذریعے عقائداسلام کا دفاع کیا۔ مزیدبراں مجددالف ثانیؒ نے معاشرے میں بڑھتے ہو ے خرا فا ت اور ضعیف الاعتقادی کے سدباب کے لئے اپنے مکتوبات میں عقائداسلام اور اجتہادوتقلید وغیرہ مسائل کلامیہ کے متعلق تحریر کیا۔مجددالف ثانیؒ دربار جہانگیری کے ایک اور اہم رکن سیدشیخ فرید کے نام اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں:
”میرے مکرم!آج اسلام بہت اجنبی اور بےکسی کے عالم میں ہے آج اس کی تقویت کے لیے ایک جیتل(چاندی کاایک سکہ) خرچ کرنا کروڑہاروپے خرچ کے بدل مقبول ہے۔۔ ترویج دین اور تقویت ملت کسی بھی وقت خواہ کسی بھی شخص سے وقوع میں آئے بہتر اور زیبا ہے لیکن اس وقت جبکہ اسلام کی غربت کا زمانہ ہے آپ جیسے اہل بیت کے جواں مردوں کے لیے نہایت ہی زیبا اور بہترہے کیونکہ یہ دولت آپ ہی کے بزرگ خاندان سےملی ہے۔ اس کا تعلق آپ سے ذاتی ہے اور دوسروں سے ضمنی۔ حقیقت میں نبی اکرمﷺ کی وراثت اسی عظیم القدرامر کو حاصل کرنے میں ہے۔
اسلام اور اہل اسلام کی عزت کفر اور اہل کفر کی خواری میں ہے۔جس قدر اہل کفر کی عزت ہوگی اسی قدر اسلام ذلت ہے اس اصول پر اچھی طرح نظر رکھنی چاہیے اکثر لوگوں نے اس اصول کو ضائع کردیا ہے اور بدبختی سے دین کو برباد کردیا ہے۔مسلمانوں پر لازم ہے کہ بادشاہ اسلام کو ان بدمذہبوں کی رسموں کی خرابی سے مطلع کریں اور ان کو دور کرنے کی کوشش کریں،شاید بادشاہ کو ان بقایارسوم کی برائی کا علم نہ ہو۔“ ([29])
مجددالف ثانیؒ قدس سرہ پیرزادہ خواجہ عبداللہ کواپنے ایک مکتوب میں تحریر کرتے ہیں:
”اس وقت تمام جہان بدعتوں کے بہ کثرت ظاہر ہونے کے باعث بحر ظلمات کی طرح نظرآرہاہے اور سنت کا نور غربت وندرت کے باوجود اس بحرظلمانی میں کرمہائے شب افروز یعنی جگنوؤں کی طرح محسوس ہورہاہے، اور بدعت کا عمل اس ظلمت کو اور بھی زیادہ کررہاہے اور سنت کے نور کو کم کرتا جاتا ہے۔ سنت پر عمل کرنا اس (ظلمت) کے کم ہونے اور اس نورانیت کے زیادہ ہونے کا باعث ہے۔ اب اختیار ہے کہ خواہ کوئی شخص بدعتوں کی ظلمات کو زیادہ کرے یا سنت کے نور کو بڑھائے اور خواہ اللہ تعالیٰ کا گروہ زیادہ کرے یا شیطان کے گروہ کو بڑھائے۔الاان حزب اللّٰہ ھم المفلحون الاان حزب الشیطان ھم الخاسرون۔“ ([30])
موجودہ وقت میں بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ جس طرح مجددالف ثانیؒ نے اپنے دور میں اہل باطل کے اس مذموم فعل کا قلع قمع کیا بالکل اسی طرح آج بھی ارباب اقتدار سے مطالبہ کرکے اور انہیں اس مسئلہ کی نزاکت سے آگاہ کرکے اس فعل قبیح کا خاتمہ اور اس کے مرتکبین کو پابند سلاسل کیاجاسکتا ہے۔
ارکان اسلام کی توہین واستہزاء
ملامبارک کے ایک بیٹے نے جوابوالفضل کاشاگرد تھا، اسلامی عبادات کے متعلق اعتراض اور تمسخر کے پیرائے میں چند رسالے تصنیف کیے۔(شاہی جناب) میں اس کے ان رسالوں نے بڑی مقبولیت حاصل کی اور اس کی سرپرستی کاذریعہ یہی رسالے بن گئے۔([31]) غرض برصغیرمعاشرے میں سوداورجوئے کی حلت، شراب کی حلت، زنا کی تعظیم،مردوں کے لیے سونا اور ریشم،خنزیر اورکتوں کااحترام، ہندی علوم سے عقیدت،عربی سے نفرت،نماز کی عدم اجازت،مقام نبوت کی اہانت اور اس طرح کی اسلامی تعلیمات کے خلاف دیگر چیزوں کاحکومتی سطح سے نفاذ کیا گیا۔
مولاناسیدسلیمان ندویؒ اس تمام صورتحال کی عکاسی ان الفاظ میں کرتے ہیں:
”اس غفلت کی نیند پرچارسوبرس گزرگئے،اورمسافر کے آغاز سفر پر ہزارواں برس گزررہاتھا،یہ اکبر کا دور تھا جب عجم کے ایک جادوگر نے آکر بادشاہ کےکان میں یہ منتر پھونکا کہ دین عربی کی ہزارسالہ عمر پوری ہوگئی ،اب وقت ہے کہ ایک شہنشاہ امی کے ذریعہ نبی امی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دین منسوخ ہوکر دین الٰہی کا ظہور ہو،مجوسیوں نے آتش کدے جلائے،عیسائیوں نے ناقوس بجائے،برہمنوں نے بت آراستہ کئے اور جوگ اور تصوف نے مل کر کعبہ اور بت خانہ کو ایک ہی چراغ سے روشن کرنے پر اصرار کیا،اس پچ میل کا جو اثر ہوا اس کی تصویر اگر کوئی دیکھنا چاہے تو 'دبستان مذاہب'کامطالعہ کرے،کتنے زنارداروں کے ہاتھوں میں تسبیح اور کتنے تسبیح خوانوں کے گلوں میں زنار نظرآئیں گے،بادشاہی آستانہ پر کتنے امیروں کے سرسجدہ میں پڑے اور شہنشاہ کے دربار میں کتنے دستاربند کھڑے دکھائی دیں گے اور مسجد کے منبرسے یہ صدا سنائی دے گی،تعالیٰ شانہ اللہ اکبریہ ہی ہورہا تھا کہ سرہند کی سمت سے ایک پکارنے والے کی آوازآئی:"راستہ صاف کرو کہ راستہ کا چلنے والا آتا ہے"ایک فاروقی مجدد،فاروقی شان سے ظاہرہوا،یہ شیخ احمدسرہندی تھے۔“ ([32])
اِس زمانےمیں بھی بعض مفکرین ودانشور احادیث مبارکہ اور ان کے رواۃ پر اعتراضات کرکے ایسی تمام احادیث مبارکہ کو مشکوک بنارہے ہیں جن پر بڑی تعداد میں اسلامی عقائد واحکامات کا دارومدار ہے تاکہ بنیاد کو ہی غیراصل قرار دے کر اس پراستوارعمارت کی حیثیت واہمیت کو ختم کیاجاسکے۔ جبکہ دوسری طرف قرآنی آیات کی ایسی تاویلات وتوجیہات پیش کی جارہی ہیں جو ہوا پسندوں کے نزدیک بھی قابل قبول ہو اور باطل اسے بلاتذبذب قبول کرلے۔دورجدید میں ایسے بےشمار افراد کا مشاہدہ کیاجاسکتا ہے جو اس طرح کی سعی میں مصروف ہیں۔([33])
دوراکبری میں اراکین وعقائداسلام پر نکتہ چینی،تمسخرواستہزاء کرنے والوں کی تردیداوراحیاء دین کی تجدید مجددالف ثانیؒ شیخ فرید کے نام اپنے ایک مکتوب میں اس طرح کرتے ہیں:
”اہل اسلام اپنے اوپر لازم کرلیں کہ وہ شریعت کو رواج دینے اور مذہب کو قوت پہچانے میں بادشاہ کی رہنمائی کریں اور اس کے مددگار بنیں۔ خواہ یہ امداد زبان سے ہو یا ہاتھوں سے میسر ہو سب سے بڑھ کر امداد یہ ہے کہ کتاب وسنت واجماع امت کے مطابق مسائل شرعیہ کو بیان کیا جائے اور صحیح عقائد کو ظاہر کیا جائے تاکہ کوئی بدعتی اور گمراہ شخص درمیان میں آکر اسے راستے سے نہ ہٹا دے اور کام خراب نہ کردے اور یہ کامعلماء حق کے ساتھ مخصوص ہے ۔گذشتہ زمانے (دوراکبری) میں جومصیبت اسلام اور اہل اسلام کے سرپرآئی وہ دراصل علماء سوء کی بدبختی اور بےباکی کی وجہ سے تھی۔یہی لوگ بادشاہ کو گمراہ کرتے تھے۔بہتر فرقے جنہوں نے گمراہی کا راستہ اختیار کیا ہے ان سب کے پیشوا یہی علماء سوء ہوتے ہی۔بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو ایسے علماء کے بغیر گمراہ ہوئے ہوں اور ان کی گمراہی کا اثر دوسروں تک پہنچا ہو۔آپ کی بزرگ ذات سے توقع ہے کہ جب حق تعالیٰ نے آپ کو ذاتی قوت و طاقت اور بادشاہ کا قرب پورے طور پر عطا کیا ہے تو حضرت محمدﷺ کی شریعت کے رواج دینے میں خلوت وجلوت اور ظاہروباطن میں کوشش کرتے رہیں اور مسلمانوں کو ذلت اور پستی سے نکالیں۔کسی متروک سنت کو زندہ کرنے پر سوشہیدوں کا ثواب ہے تو معلوم کرنا چاہیے کہ کوئی اگر فرض واجب کو زندہ کرتا ہے تو اس کو کتنا اجر ملتا ہے۔“ ([34])
مجددالف ثانیؒ نے اراکین اسلام کے ساتھ تمسخر واستہزاء روکنے کے لیے سب سے پہلے بادشاہ وقت اور اراکین سلطنت کی اصلاح کابیڑہ اٹھایااور جب بادشاہ وارکان سلطنت کی اصلاح ہوگئی تو الناس علی دین ملوکھم کے مصداق دوسرے گروہوں کی اصلاح بھی ہوتی چلی گئی۔([35]) اس امر کو پیش نظر رکھتے ہوئے آج بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ وقت کے حاکم کی اصلاح کی کوششیں جدید ذرائع ابلاغ استعمال کرتے ہوئے کی جائیں تاکہ حکومت وقت ارکان اسلام کے ساتھ استہزاء کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کرے تاکہ معاشرے سے اس بلا کا خاتمہ ہوسکے۔
مذہبی انحراف کی کاوشیں
اکبر کے دور میں تبدیلی مذہب پر کوئی پابندی نہ تھی۔کوئی شخص جو مذہب چاہے اختیار کرسکتا تھا۔نومسلمین کو اختیاردے دیاگیا تھا کہ وہ چاہیں تو اپنے سابقہ مذہب پر لوٹ سکتے ہیں۔اس کے علاوہ ایک قانون یہ بھی تھا کہ اگر کوئی ہندوعورت کسی مسلمان مرد پر فریفتہ ہوکر مسلمان ہوجائے تو اس عورت کو جبرا پکڑ کر اس کے گھر والوں کے حوالے کردیاجائے ۔بت خانہ وگرجا وآتش کدہ وغیرہ کسی بھی عبادت گاہ کی تعمیر میں کافروں پر کوئی پابندی نہ تھی۔
اسی سلسلہ میں مجددالف ثانیؒ اپنے ایک مکتوب میں مولاناامان اللہ فقیہ کوتحریر کیا جس کا حاصل کلام یہ ہے کہ معلوم ہونا چاہیے کہ طریق سالک کی جملہ ضروریات میں سے ایک اعتقاد صحیح ہے جس کو علمائے اہل سنت والجماعت نے کتاب وسنت اورآثار ِسلف سے استنباط کیاہے اور کتاب وسنت کو ان معانی پر محمول رکھنا بھی ضروری ہے جن معانی کو تمام علمائے اہل حق یعنی اہل سنت والجماعت نے اس کتاب ا للہ وسنت ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھا ہے اور اگر بالفرض کشف والہام کے ساتھ ان معانیئ مفہومہ کے برخلاف کوئی امر ظاہر ہوتواس کا اعتبار نہ کرنا چاہیے اور اس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ مثلاً وہ آیات واحادیث جن کے ظاہر سے توحید ِوجودی سمجھی جاتی ہے اسی طرح (جن آیات واحادیث) احاطہ اور سریان اور قرب معیت ِذاتیہ معلوم ہوتے ہیں، جبکہ علمائے اہل حق نے ان آیات واحادیث سے یہ معنی نہیں سمجھے ہیں تواگر اثنائے راہ میں سالک پر یہ معانی منکشف ہوجائیں اور سوائے ایک کے موجودنہ پائے اور اسکومحیط بالذات جانے اور ازروئے ذات کے قریب جانے۔ اگرچہ اس وقت غلبہ ئحال اور سکر وقت کے باعث معذور ہے۔ لیکن اس کو چاہیے کہ ہمیشہ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں التجاء وزاری کرتا رہے تاکہ اس کو اس بھنور سے نکال کر جوامور کو علمائے اہل حق کی آرائے صابیہ کے مطابق ہیں اس پر منکشف کرے اور ان کے معتقدات حق کے برخلاف سر موظاہر نہ کرے۔
غرض علمائے اہل حق کے معانی مفہومہ کو اپنے کشف کامصداق اور اپنے الہام کی کسوٹی بنانا چاہیے کیونکہ وہ معانی جو ان کے مفہومہ معانی کے خلاف ہیں محل اعتبار سے ساقط ہیں، اس لئے کہ مبتدع یعنی بدعتی اور ضال یعنی گمراہ کتاب وسنت ہی کو اپنے معتقدات کامقتدا جانتا ہے اور اپنے ناقص فہم کے موافق اسی(کتاب وسنت) کے معانی غیر مطابقہ سمجھ لیتا ہے یضل بہ کثیراویھدی بہ کثیرا۔
موجودہ زمانے میں بھی اسی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں ۔باطل کو اپنے عقائد ونظریات کے اظہاروتبلیغ کی کھلی آزادی ہے۔ہر اسلامی ملک میں مختلف مشنری عیسائی اسکول کھل چکے ہیں جہاں مسلم اطفال کی ذہن سازی یہی مشنری اسکول کررہے ہیں اسی طرح گھر بیٹھے خط وکتابت کورس کے ذریعے باطل عقائد کی نشرواشاعت کی جارہی ہے ۔([36]) س امر کو پیش نظر رکھتے ہوئے آج بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ علماء حق اس میں اپنی خد ما ت کو مثبت اند از سے پیش کرےتا کہ مسلم معاشرے سے با طل عقائد ونظریات کا خاتمہ ہوسکے۔
خلاصہ
تجدیدی خدمات کے حاملین اکابرین میں مجددالف ثا نیؒ کانام ممتاز حیثیت رکھتاہے۔انہوں نے اس وقت ہندوستان میں باطل کی فکری اور اعتقای یلغار کامقابلہ کیا جب یہاں ضعیف الاعتقادی اور مذہبی بے راہ روی پوری طرح سرایت کرچکی تھی۔مجددالف ثانی نے برصغیرپاک وہند معاشرے میں موجود بےشمار فتنوں کاسدباب کیا جس کے نتیجہ میں اسلامی شعائر واقدار کے نفاذ کے لیے حکومتی سطح سے سعی ہوئی۔مجددالف ثانیؒ نے گمراہ ،بدعقیدہ اور باطل افکار کا پرچار کرنے والوں کی نشاندہی کی اور ان کے شروفساد سے مسلمانوں کو آگاہ کیا ۔آپ نے عوام الناس کی رہنمائی اہل سنت والجماعت کے مطابق صحیح عقائد اسلام کی طرف کی اور باطل کی تبلیغ وترویج روکنے کے لیے کاوشیں کیں۔لہٰذا موجودہ زمانے میں بھی جدید ذرائع ابلاغ مثلا الیکٹرانک میڈیاوسوشل میڈیا کا ا ستعما ل کرتے ہو ے علماء حق اہل باطل کے افکار کی تردید کرے تا کہ معاشرے میں ضعیف الاعتقادی پر قابوپایاجاسکے۔
حوالہ جات
- ↑ (1) الرعد : 7
- ↑ (2)سنن ابی داؤد،باب صدی پوری ہونے پر مجدد کے پیدا ہونے کا بیان،حدیث نمبر4291
- ↑ (3)سیدابوالحسن علی ندوی"تاریخ دعوت وعزیمت"مجلس نشریات اسلام کراچی(س ن)،جلدچہارم،ص148
- ↑ (4)سیدزوارحسین شاہ"حضرت مجددالف ثانی"زوارپبلشرز کراچی،2012ء،ص150
- ↑ (5)مکتوبات امام ربانی،جلداول،مکتوب نمبر2
- ↑ (6)سیدابوالحسن علی ندوی"تاریخ دعوت وعزیمت"مجلس نشریات اسلام کراچی(س ن)،جلدچہارم،ص 138
- ↑ () مکتوبات امام ربانی،جلداول،مکتوب نمبر2
- ↑ ( )مولاناکمال الدین بن موسیٰ کشمیر سے 971ھ میں سیالکوٹ تشریف لائے اور تقریباً پچاس سال تدریس میں مشغول رہے اور 1071ھ میں لاہور میں وفات پائی۔وہیں آپ کا مدفن ہے۔(بحوالہ نزہۃ الخواطر،جلد5،ص316)
- ↑ ( )مولانایعقوب کشمیری 908ھ میں پیداہوئے،تمام زندگی درس وتدریس میں گذاری۔21ذی الحجہ 1002ھ میں وفات پائی۔(بحوالہ نزہۃ الخواطر،جلد5،ص430)
- ↑ ()سیدابوالحسن علی ندوی"تاریخ دعوت وعزیمت"مجلس نشریات اسلام کراچی(س ن)، جلدجہارم،ص138
- ↑ ()مکتوبات امام ربانی،جلداول،مکتوب نمبر2
- ↑ ()مکتوبات امام ربانی،جلداول،مکتوب نمبر47
- ↑ ( )عبدالقادربدایوانی ،(س ن)، منتخب التواریخ،(مترجم محموداحمدفاروقی)،شیخ غلام علی اینڈ سنز،لاہور،جلد دوم، ص 202
- ↑ ( )سلطان پور مشرقی پنجاب میں جالندھر کے قریب ہے۔
- ↑ ( )حولان حول (ایک سال مکمل ہوجانا) سے پہلے وہ رقم جس پر زکواۃ فرض ہو رہی تھی۔ اہلیہ یا کسی دوسرے عزیز کو دے دیتے، وہ زکوٰۃ رقم لے لینے کے بعد واپس کر دیتا وہ اس طرح اس سال زکواۃ کی رقم سے بچ جاتے کہ زکوٰۃ فرض ہونے کے لیے حولان حول کی شرط ہے، وہ پوری بھی ہوتی۔
- ↑ ()سر ہندی ، شیخ احمد، فا روقی،تذ کر ہ مجدد الف ثا نی،دارلاشا عت،کراچی،2011ء ، ص 37
- ↑ ()محمد وکیل احمد،مجدد اسلام، محل پرنٹنگ پر یس، نا ظم آباد،کراچی،1977ء، ص 63
- ↑ ()سیدابوالحسن علی ندوی"تاریخ دعوت وعزیمت"مجلس نشریات اسلام کراچی(س ن)،جلدچہارم
- ↑ ( )عبدالقادربدایوانی"منتخب التواریخ"(مترجم محموداحمدفاروقی)،شیخ غلام علی سنز،(س ن)،ص307
- ↑ ()عبدالقادربدایوانی"منتخب التواریخ"(مترجم محموداحمدفاروقی)،شیخ غلام علی سنز،ص317
- ↑ ()ڈاکٹرعبدالقادرجیلانی"اسلام،پیغمبراسلامﷺ اور مستشرقین مغرب کا اندازفکر"کتاب سرائے لاہور،ص284
- ↑ () حضرت مولاناسیدزوارحسین شاہؒ"حضرت مجددالف ثانیؒ"زوار پبلی کیشنز، کراچی2012ء،ص509
- ↑ () حضرت مولاناسیدزوارحسین شاہ صاحب"حضرت مجددالف ثانیؒ"زوارپبلی کیشنز،کراچی،2012ء،ص479
- ↑ ()مجدد الف ثانی،مکتو با ت امام ربانی، (متر جم مو لو ی عا لم الد ین)تعلیمی پر نٹنگ پر یس،لاہور،(س ن)،جلداول،مکتوب نمبر186
- ↑ ()عبدالقادربدایوانی"منتخب التواریخ"(مترجم محموداحمدفاروقی)،شیخ غلام علی سنز،ص307
- ↑ () ڈاکٹرعبدالقادرجیلانی"اسلام،پیغمبراسلامﷺ اور مستشرقین مغرب کا اندازفکر"کتاب سرائے، لاہور،ص277
- ↑ () ڈاکٹرعبدالقادرجیلانی"اسلام،پیغمبراسلامﷺ اور مستشرقین مغرب کا اندازفکر"کتاب سرائے ،لاہور،ص337
- ↑ () حضرت مولاناسیدزوارحسین شاہؒ"مجددالف ثانیؒ"زوارپبلی کیشنز کراچی،2012ء،ص509
- ↑ () مکتوبات امام ربانی،جلددوم،مکتوب نمبر193
- ↑ ()البقرہ:26 الاان حزب اللہ ھم المفلحون الاان حزب الشیطان ھم الخاسرون
- ↑ ()عبدالقادربدایوانی"منتخب التواریخ"(مترجم محموداحمدفاروقی)،شیخ غلام علی سنز،ص351
- ↑ ()مفتی محمدفاروق"تذکرہ مجددالف ثانیؒ"دارالاشاعت، کراچی،ص55
- ↑ () ڈاکٹراسماعیل ریحان"الغزوالفکری"مکتبہ حکیم الامت ،کراچی،2010ء،ص18
- ↑ () مکتوبات امام ربانی،جلددوم،مکتوب نمبر87
- ↑ () حضرت مولاناسید زوار حسین شاہؒ"مجددالف ثانیؒ"زوارپبلی کیشنز، کراچی،2012ء،ص509
- ↑ () ڈاکٹراسماعیل ریحان"الغزوالفکری"مکتبہ حکیم الامت کراچی،2010ء،ص47
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |