33
1
2019
1682060084478_818
82-95
حضورﷺ جس دور میں دنیا میں رونق افروز ہوئے اس وقت پوری دنیا تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔اس دور کودورِ جاہلیت بھی کہاجاتا ہے اس کی ایک وجہ تونورِ اسلام سے بہرہ ورنہ ہونا تھا اوردوسری اہم وجہ جوکہ ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ کہ اہل عرب اس وقت بہت زیادہ جنگ وجدل میں غرق رہے تھے کفر و شرک عام تھا۔خاص طور پرعدل وانصاف کا فقدان ہونا بھی ایک اہم وجہ تھی۔
اس وقت ہندوستان ،بابل، نینوا اور یونان کا شمار مہذب اقوام میں ہوتا تھا۔روم وایران کی عظیم سلطنتیں بادشاہت کی ظاہری چمک دمک سے منّور تھیں۔شاہ پرستی کایہ عالم تھاکہ وہ بادشاہ کوخدا تصور کرتے۔لیکن جاگیردارانہ نظام نے عوام کودبا کررکھ دیاتھا۔ان پر بھاری ٹیکس عائد کرکے ان کاخون چوسا جاتا تھا۔انسانوں کے ساتھ جانوروں کاساسلوک کیا جاتاتھا۔عورتوں کے ساتھ بدترین سلوک کیاجاتا تھاان کومال ومتاع کی طرح سمجھا جاتاتھا اور انھیں بازاروں میں فروخت کیاجاتاتھا۔
ایسی صورت حال میں حضور ﷺ کادنیا میں رونق افروز ہونا اور دنیا کو اس ظلم وبر بریّت سے نجات دلانا بعثت نبوی کا ایک اہم مقصد تھا۔حضورﷺ کے مقصد بعثت کوسمجھنے کے لیے ہمیں اس وقت کے عرب کے حالات کامختصراً جائزہ لینا پڑے گا کیونکہ اللہ رب العزت نے ہمیشہ اپنے انبیاء کو مختلف ادوار میں بنی نوع انسان کووہاں کے ظالم لوگوں سے نجات دلانے کے لیے بھیجا جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں فرعون کاظلم و بربریت انتہا کو پہنچ چکاتھا۔ بنی اسرائیل کوفرعون نے غلام بنا کررکھا ہواتھاوہ اپنی طاقت کاغلط استعمال کرکے وہ خدائی دعوے دار بن چکاتھا۔اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں کفروبت پرستی عام تھی۔نمرود کی طاغوتی قوتوں کے مقابلے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بعثت کی غرض وغایت یہی تھی کہ عدل وانصاف کی ترویج ہو۔
عرب معاشرہ قبل از نبوت
انسانی زندگی پرسب سے زیادہ اثرانداز اس کامذہب ہوتاہے لہٰذا ہم سب سے پہلے وہاں کے مذہبی حالات کامختصراً جائزہ لیں گے اس وقت عربوں کاسب سے بڑا مذہب بت پرستی تھا۔مؤرخین کے مطابق عرب کافی عرصے تک دین ابراہیم پرقائم تھے۔یعنی توحید کے قائل تھے ۔
بنو خزاعہ کاایک شخص عمروبن الحئی جوکہ خانہ کعبہ کامتولی بھی تھا شام سے ایک بت لایا تھا۔جس کے بعد وہاں کے لوگوں نے بتوں کی پوجا شروع کی۔ خانہ کعبہ جسے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا پھرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدائے واحد کی عبادت کے لیے تعمیر نو کی۔([1]) مگر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خداکاگھر اپنے عہد کاسب سے بڑا بت کدہ بن چکاتھا۔
اس کے سب سے پہلے پروہت بنوجرہم تھے پھربنوخزاعہ اس کے کلید بردار ہوئے اسی دوران میں بت داخل کیے گئے۔اس کے بعد قریش اس کے نگران بنے۔([2]) ظہوراسلام کے وقت اس میں ۳۶۰ بت رکھے ہوئے تھے۔اس کے علاوہ عرب میں مجوسی ،سبائی حنیف اور مدینے میں یہودی اورعیسائی مذاہب بھی موجود تھے۔
معاشرتی حالت
عربوں میں اگرچہ کچھ محاسن بھی تھے مثلاًفیاضی ،مہمان نوازی ،ایفائے عہدوغیرہ مگران سے کئی گنازیادہ وہ برائیاں تھیں، جو ان کی جہالت کا سبب بنی ہوئی تھیں۔ لوگ حسب نسب پرفخر کرتے تھے خواہشات نفسانی کے پیکر انتقام کے جذبے سے سرشار اوراعلانیہ فواحش کاارتکاب پرفخر کرتے ذراذرا سی باتوں پہ لڑتے جھگڑتے اور ایک دوسرے کاسر کاٹنے کوتیار رہتے۔ ایک خاندان دوسرے خاندان کے ساتھ طویل عرصے تک برسرپیکاررہتا۔ اولاد کی پرورش اپنے آباؤاجداد کے انتقام کے لیے کرتے۔ ان لڑائیوں کومؤرخین و اہل ادب ’ایام العرب‘ کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔([3]) شعراء اپنے اشعار میں اپنے عشق کی داستانیں بے باکی سے بیان کرتے تھے فاحشہ عورتیں اپنے گھروں کے سامنے جھنڈیاں لگاکر بیٹھتی تھیں۔([4])
معاشرے میں زنا کاری معیوب نہ تھی ۔عورتوں کامعاشرے میں کوئی مقام نہ تھا۔عورت کوایسی مخلوق سمجھا جاتا تھا جن کامصرف محض ترقی نسل اور مردوں کی خدمت تھا۔مرد ہرطرح سے ان پرتصرف رکھتے تھے۔لڑکیوں کی پیدائش کوعار سمجھ کران کوزندہ درگور کرتے ۔مورث کے ترکے میں ان کاحصہ نہ تھا۔
عربوں میں یہ بات مشہور تھی کہ میراث اس کاحق ہوتاہے جوتلوار پکڑسکتا ہو۔اس بنا پر چھوٹے بچے اور عورتیں وراثت سے محروم رہتے تھے۔
انتقام کاجذبہ عربوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔انتقام لینے کووہ واجب سمجھتے تھے ۔انتقامی جذبے کواُبھارنے میں جہاں کئی محرکات شامل تھے وہیں ان کے فرسودہ عقائد کابھی بڑا دخل تھا۔جیسے یہ عقیدہ کہ مقتول کی روح پر ندہ بن کراڑتی ہے اور اپنا انتقام لینے کے لیے وہ کوہ وبیابان میں چھپتی پھرتی ہے مقتول کابدلہ لیاجائے تووہ زندہ رہتا ہے ورنہ بے جان ہی رہتاہے۔([5])
ظہور اسلام کے وقت عربوں میں شراب نوشی عام تھی اور بہت کم لوگ ایسے تھے جواس لعنت سے محفوظ تھے۔شراب پی کر لڑنا جھگڑنا اور بد اخلاقیوںکاارتکاب کرنا آئے دن کی بات تھی۔جوا،شراب کی محفلیں عام تھیں ان کے ذکر سے عربی اشعار بھرے پڑے ہیں۔([6]) شراب کے ساتھ قمار بازی (جوئے) کی لعنت بھی عام تھا بڑی بڑی شرطیں لگائی جاتی تھیں۔اسی طرح گھڑدوڑمیں شرطیں لگائی جاتیں۔بتوں سے استخارہ کرنا اور فال کے تیر نکالے جانا ان کا مشغلہ تھا۔([7])
مذکورہ حالات کاجائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ عربوں میں کچھ محاسن موجودتھے مگر پورا معاشرہ ظلم وبربریت سے بھرا ہواتھا لہٰذا اللہ رب العزت نے نہ صرف عرب معاشرے کوبلکہ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے عدل وقسط کو رائج کرنے کے لیے آپ ﷺ کی بعثت فرمائی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰئکَ اللّٰہ ([8])
’’یقینا ہم نے آپ ﷺ پرحق کے ساتھ کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ ﷺ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ عدل کر سکیں۔ جواللہ نے تمھیں سکھائی۔‘‘
اسی طرح سابقہ انبیاء کی بعثت کا مقصد ہی عدل وانصاف کانفاذقراردیا۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْط ([9])
’’بے شک ہم نے اپنے رسولوں پرواضح نشانیوں کے ساتھ کتاب ومیزان نازل کی تاکہ وہ لوگوں میں عدل قائم کرسکیں اورظلم سے دنیا کو پاک کریں۔‘‘
آپ ﷺجوشریعت لے کرآئے اس کے بعد تمام سابقہ شریعتوں کو منسوخ کردیا اور اسی کو واجب عمل تاقیامت قرارفرمایا۔ارشاد باری تعالیٰ:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ([10])
’’آج میں پورادے چکا تم کوتمھارا دین اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اورپسند کیا میں نے تمھارے لیے دینِ اسلام۔ ‘‘
اس میں زندگی کاایک سچا معیارپیش کیاگیا ہے ،اس میں معروف ومنکر کی ایسی واضح تصویرپیش کی گئی ہے جسے عدل ومیزان کا آخری اوردائمی نصب العین قراردیا جاسکتا ہے۔جوکہ ہرطرح کے عیوب ونقائص سے پاک ہے کیونکہ یہ کسی انسان کا بنایا ہوا قانون نہیں بلکہ اللہ رب العزت کی بنائی ہوئی شریعت ہے۔جس کے سامنے دنیا کے تمام منشور بے وقعت ہیں۔ دنیا کی قتل وغارت گری اورذہنی الجھنوں کاخاتمہ اسی قانون پرعمل کرکے ممکن ہے۔
تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ جب تک انسانوں نے حضورﷺ کی لائی ہوئی شریعت پہ عمل کیا اس وقت تک دنیا امن وسلامتی کاگہوارہ بنی رہی۔ جہاںاس سے روگردانی کی وہیں ذلت ورسوائی اس کامقدر بنی اور دنیا ظلم وتشدد کاشکار ہوئی۔
یوں توآپ ﷺ کی پوری زندگی ترویج عدل کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔تاہم بحیثیت سربراہ ریاست آپؐ کے چند عملی اقدامات پیش خدمت ہیں۔
ریاست مدینہ میں نظام عدل
مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی مسلمانوں میں باہمی نزاعات کاظہور ہوناایک فطری امرتھا۔ وہاں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہود اورمنافقین بھی رہائش پذیر تھے۔ایسے حالات میں جرائم کی روک تھام کے لیے ایک مربوط نظام عدل یاقضاء کی ضرورت تھی۔ لہٰذا ابتدا میں آپﷺ نے منصب قضاۃ کوخود سنبھالا اور رب العزت نے اس کی تائید یوں فرمائی:
فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ([11])
’’پس اے نبی آپ ﷺ کے رب کی قسم یہ کبھی بھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے باہمی اختلافات میں آپ ﷺ کو فیصلہ کرنے والے نہ مان لیں۔ پھرجوفیصلہ آپ فرمائیں اس پراپنے دلوں میں تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سرتسلیم خم کریں۔‘‘
اس کے علاوہ آپ ﷺ نے اپنے عہد مبارکہ میں چند دوسرے صحابہ کوبھی قاضی مقرر فرمایا۔حضرت علی ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یمن کاقاضی مقرر کرکے بھیجا تومیں نے رسول اللہﷺ سے کہاکہ آپ ﷺمجھے ایسی پرانی اور بڑی قوم کی طرف بھیج رہے ہیں جوسن رسیدہ ہے مجھے اندیشہ ہے کہ میں صواب کونہ پہنچوں گا۔ فرمایا اللہ تمھاری زبان کوثابت کردے گا اورتمھارے قلب کو ہدایت دے گا۔([12])
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن قاضی بناکر بھیجا۔ حضرت معاذ ؓسے مروی ہے۔ آپ ﷺ نے حضرت معاذ سے پوچھا: تمھارے سامنے کوئی قضیہ پیش کیاگیا توتم کس (قانون) سے فیصلہ کروگے انھوں نے کہا کتاب اللہ سے۔ آپ ﷺنے فرمایا اگر کتاب اللہ میں نہ ہو تو۔انھوں نے کہاجورسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیااس کے مطابق فیصلہ کروں گا آپ ﷺ نے فرمایااگر اس میں بھی نہ ہو جس کارسول اللہؐ نے فیصلہ کیا؟ انھوں نے کہا اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور کوتاہی نہ کروں گا۔ پھر آپ ﷺنے میرے سینے پرہاتھ پھیرا اورفرمایا تمام تعریفیں اُسی اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہؐ کے قاصد کواس امر کی توفیق دی جس سے اللہ اور اس کا رسول راضی ہو۔([13])
محمدبن سہل بن ابی خثیمہ نے اپنے والد سے روایت کی رسول اللہ ﷺکے زمانے میں جولوگ فتویٰ دیتے تھے وہ تین مہاجرین میں سے تھے اور تین انصار تھے۔ حضرت عمرؓ،حضرت عثمان ؓ،حضرت علیؓ، حضرت ابی کعبؓ،حضرت معاذ بن جبلؓاورحضرت زید بن ثابتؓ ۔([14])
اسی طرح ابوموسیٰ اشعری کے حوالے سے حضرت قتاوہؓ سے مروی ہے کہ ابوموسیٰ نے کہا:
’’ قاضی کومناسب نہیں کہ وہ فیصلہ کرے۔تاوقت یہ کہ اسے حق اتنا واضح نہ ہو جائے کہ جیسے رات دن سے ظاہر ہوجاتی ہے۔ حضرت عمرؓ کومعلوم ہواتو فرمایا ابوموسیٰ نے سچ کہا۔‘‘([15])
ان اصحاب کے علاوہ بھی عہدنبوی میں قضاۃ کاتذکرہ ملتا ہے جن میں حضرت معقل بن یسارؓ،حضرت عمروبن العاصؓ ، حضرت حذیفہ بن یمانؓ،حضرت عقاب بن اُسیدؓ ،حضرت وحیہ کلبی ؓ،حضرت ابن ابی کعبؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ مشہور ہیں۔([16])
آپ ﷺ نے فرمایا میرے بعد شیخین (ابوبکروعمرؓ)کی اتباع کرو۔ قاسم بن محمد سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ، عمرؓوعثمانؓ وحضرت علیؓ عہد رسالت میں فتویٰ دیتے تھے۔([17])
عدل وانصاف کی اہمیت اس سے زیادہ کیاہوسکتی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:
’’مسلمان حاکم اگرظالم ہوتو اس کی حکومت تباہ ہوجائے گی اوراگر کافر حاکم انصاف پسند ہوتو اس کی حکومت باقی رہے گی۔‘‘
یہی وجہ تھی کہ مسلمان سمجھ دار حکمرانوں نے ہمیشہ عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کی اورظلم و ناانصافی سے حتی المقدور دور رہے۔اسی حوالے سے ایک مشہور حدیث:
’’قیامت کے روز جب ایک سائے کے علاوہ کوئی دوسراسایہ نہ ہوگا تواللہ رب العزت سات اشخاص کو اپنے سایۂ رحمت میں لے گاان میں سے ایک امام عادل ہوگا۔‘‘([18])
حدود کانفاذ
عدل کی فراہمی میں جہاں بہت سے عوامل کارفرما ہیں وہیں معاشرے کوجرائم وفواحش سے پاک کرنے کے لیے حدود وتعزیرات کامؤثر ہونا بے حد ضروری ہے۔نبی اکرم ﷺ نےنظام حدودکوجاری فرمایااوراپنی زندگی ہی میں حدود سے متعلق کئی فیصلے فرمائے اورمجرمین پر شرعی حدود نافذ کیں۔ ذیل میں آپ ﷺکے دور میں نفاذِ حدود سے متعلق چند نظائر پیش کی جاتی ہیں:
بنومخزوم کی ایک عورت نے چوری کی اوروہ پکڑ ی گئی۔ عزت کی وجہ سے لوگ چاہتے تھے کہ یہ معاملہ دب جائے اورملزمہ کوسزا نہ ہو۔حضرت اسامہؓ کو رسول اللہ ﷺکے پاس سفارش کے لیے بھیجا جس پر آپ ﷺناپسندیدگی کا اظہار کیااورفرمایا خداکی قسم اگراس کی جگہ محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی توسزا ضرور پاتی۔تم سے سابقہ اقوام اسی لیے تباہ ہوئیں کہ جب امیر جرم کرتے توبخش دیے جاتے اورغریبوں کو سزا ملتی۔([19])
اس سے زیادہ عدل کی مثال کہاں مل سکتی ہے ۔
چوری کے حوالے سے قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا ایدیھما ([20])
’’جومرد چوری کریں اورعورت چوری کریں دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔‘‘
ام المومنین حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ جب میری برأت کی آیات نازل ہوئی تو حضور ﷺنے منبرپر کھڑے ہوکر متعلقہ آیات کی تلاوت فرمائی اور دو مردوں اورایک عورت پرحد قذف جاری کی اوراس پرعمل بھی ہوا۔
اسی طرح حدشراب کے حوالے سے امام محمد نے کتاب الاثار میں یوں لکھا ہے:
’’نبی اکرم ﷺ کے سامنے ایک شخص کومخمورحالت میں لایا گیا۔آپ ﷺنے صحابہ کوحکم دیاکہ اسے جوتوں سے ماریں اس وقت وہاں چالیس صحابہ موجود تھے ہرایک نے دودو جوتے مارے۔‘‘([21])
اسی طرح صحیح بخاری میں محصن کورجم کرنے کاواقعہ یوں مذکور ہے:
’’حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کاایک شخص نبی اکرم ﷺکی خدمت میں حاضرہوا اوراس نے اعتراف زنا کرلیا۔ تو آپ ﷺنے پوچھا کیاتجھے جنون کامرض لاحق ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں ۔پھرآپ ﷺنے پوچھا کیاتو شادی شدہ ہے اس نے کہا ہاں جب یہ تمام مراحل طے ہو چکے ۔توآپ ﷺنے اسے رجم کرنے کاحکم دیا اس پراتنے پتھر برسائے گئے یہاں تک کہ وہ مرگیا ۔‘‘([22])
اس موقعے پر آپ ﷺنے اس شخص کے لیے کلمۂ خیرکہااور نماز جنازہ پڑھائی۔
اس کے علاوہ قتل وغارت گری بھی ایک سنگین مسئلہ ہے اس کی روک تھام کے لیے اسلام میں قصاص یعنی قتل عمد کے بدلے قتل کی سزا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃ’‘ ّیٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن ([23])
’’اے عقل والو تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔‘‘
اسلام چاہتا ہے کہ انسانی معاشرہ صالح ، معیاری اور مثالی ہو۔جرائم وفواحش سے پاک ہو لوگوں کی جان ومال عزت و آبرو محفوظ ہو۔کیونکہ انسان خوف وخطرے میں اپنی جسمانی وذہنی صلاحیتوں کوٹھیک طور پر بروئے کار نہیں لاسکتا اور خوشحالی وترقی کی طرف گامزن ہونا بھی ممکن نہیں۔ اسی وجہ سے اسلام نے جرائم کی روک تھام کے لیے سخت سزائیں تجویز کیں۔مگراس میں بھی عمل درآمد کے لیے شرائط مقرر کر دیں۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ جن ممالک میں بھی سزائے موت کوموقوف کردیاگیا ہے وہاں قتل وغارت گری میں اضافہ ہورہاہے ۔ہم اپنے ملک پاکستان کی مثال لیں جہاں کچھ عرصے سے بین الاقوامی دباؤ میں آکر سزائے موت کوموقوف کیاگیا تھا جس کانتیجہ دہشت گردی میں بے پناہ اضافے کی صورت میں سامنے آیا۔ آخرکار سانحہ پشاور ۱۶/دسمبر ۲۰۱۴ء کے بعد دہشت گردی کی روک تھام کے لیے سزائے موت پردوبارہ عمل درآمد کرنا پڑا۔ اوریہ وہی سزا یعنی قصاص ہے جسے آج سے چودہ سوسال قبل رب العزت کے حکم سے عہدنبویﷺمیں رسول اللہﷺ نے نافذ فرمایا تھا۔
قصاص کے ساتھ ساتھ اسلام نے معافی اوردیت کاراستہ بھی کھلا رکھاہے۔ عبداللہ بن سہل کو خیبر کے یہودیوں نے قتل کردیامقتولوں کے وارثوں نے عدالت نبوی ﷺ میں مقدمہ پیش کیا۔ عینی شاہد کی عدم دستیابی پرحضور ﷺنے ان پر سواونٹوں کی دیت کا فیصلہ صادر فرمایا۔ (خون بہا دلوایا)۔اسی حوالے سے ایک اور روایت بھی ہمارے پیش نظر ہے:
’’آپ ﷺکے پاس ایک شخص کسی آدمی کوپکڑ کے لایا اور عرض کی کہ یارسول اللہ ﷺ اس نے میرے بھائی کوقتل کیاہے۔آپ ﷺ نے حکم دیا کہ قصاص میں اس کو بھی قتل کرڈالو۔قاتل نے مقتول کے وارث سے معافی مانگی اورکہاکہ معاملہ یوم حشر پرچھوڑ دو۔اس شخص نے قاتل کو معاف کردیا۔جب آپ ﷺکومعلوم ہوا تو خوش ہوئے اورفرمایا مقتول یوم حشر کواللہ سے فریاد کرے گا۔‘‘ ([24])
عورت کامقام
حضورﷺ کی تعلیمات میں عورتوں کے حقوق واحترام کوبنیادی اہمیت حاصل ہے۔
آپﷺ اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرہؓ سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ جب وہ آتیں تو آپ ﷺ احتراماً اٹھ جاتے۔اورفرمایا:الفاطمۃ قرۃ عینی۔’’فاطمہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔‘‘
دورِجاہلیت میں عرب میں عورتوں کی کوئی عزت نہ تھی۔وہ ان کومال املاک کی طرح تصورکرتے، بیٹی کی پیدائش کوعار سمجھ کراسے اکثر زندہ درگور کرتے۔ رسول خداﷺنے نہ صرف اس قبیح رسم کاخاتمہ کیابلکہ سخت وعید سنائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ط نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَاِیَّاھُمْ ([25])
’’اورناداری کے اندیشے سے اپنی اولاد کوقتل نہ کرو کیونکہ تم کو اوران کوہم ہی رزق دیتے ہیں۔‘‘
خطبہ حجۃ الوداع کے موقعے پرآپ ﷺنے واضح الفاظ میں فرمایا:
’’آج تک عورتیں ایک طرح سے شوہروں کی جائداد منقولہ رہی ہیں۔جومردوں میں ہاری اورجیتی جاتی تھیں۔مگرآج پہلا دن ہے کہ یہ مظلوم طبقہ انصاف کی داد پاتا ہے اور فرمایا۔ عورتوں کے معاملے میں خداسے ڈرو۔تمھارا حق عورتوں پراور عورتوں کاحق تم پرہے۔‘‘ ([26])
اسی طرح اللہ رب العزت نے عورتوں کووراثت میں حصے دار قراردیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لِلرِّجَالِ نَصِیْب’‘ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ص وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْب’‘ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ کَثُرَ ط نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا ([27])
’’مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جوماں باپ اور رشتہ دار چھوڑتے ہیں ۔اورعورتوں کے لیے بھی حصہ۔پس جومال باپ اوررشتے دار چھوڑتے ہیں خواہ وہ تھوڑا ہو یابہت، یہ حصہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ کے حوالے سے مولانا مودودی لکھتے ہیں:
’’میراث صرف مردوں کاحق نہیں بلکہ عورتیں بھی اس کی حق دار ہیں۔اورمیراث ہرحال میں تقسیم ہوگی خواہ کم ہویازیادہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا ہی چھوڑا ہو اور اگراس کے دس وارث ہوتو وہ کپڑا دس حصوں میں تقسیم ہوگا۔‘‘ ([28])
غیر مسلموں کے ساتھ برتاؤ
مدینہ منورہ میں جب آپ ﷺنے اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تووہاں مسلمانوں کے علاوہ یہودی اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی آبادتھے ۔یہودیوں کے تین قبائل بنونضیر ،بنوقینقاع اوربنو قریظہ شامل تھے۔یہودیوں نے شروع ہی سے مسلمانوں کے ساتھ حاسدانہ رویہ اختیار کیاہوا تھا۔ مگر آپ ﷺ نے ان کے ساتھ نہایت رحم دلانہ رویہ اختیار کیا۔جس کا سب سے بڑا ثبوت میثاق مدینہ ہے۔
ڈاکٹرمحمد حمیداللہ اپنی کتاب ’الوثائق السیاسیہ ‘میں رقم طراز ہیں:
’’فریقین معاہدہ میں ایک طرف رسول اللہ اور مہاجرین وانصار تھے اوردوسری طرف یہودونصاریٰ اوردیگر غیر مسلم باشندے تھے۔ان تمام فریقوں کوسیاسی طورپر ایک جماعت کی حیثیت دی گئی کہ مدینے پرحملے کی صورت میں مل کر مدینے کی حفاظت کریں گے ۔ اپنے ہمسائے کی طرف داری اپنے نفس کی مانند کریں گے ۔انصاف رسائی پوری جماعت کافریضہ قرارپایا اس حوالے سے کسی رشتے داری یاقربت کاپاس ولحاظ ممنوع ہوا۔ کسی مجرم وقاتل کوکوئی بھی پناہ نہ دے گا۔‘‘([29])
میثاق مدینہ میں یہ بھی طے پایا کہ تنازعہ یاباہمی اختلاف کاحتمی فیصلہ رسول خدا ﷺخود کریں گے ۔اس طرح انفرادی وانتقام جوئی کی جگہ مرکزی عدل گستری کانظام اورتمام مذاہب کے درمیان محبت ویگانگت کی فضا قائم کرنا مقصود تھا۔ عہد نبوی میں خیبر۷ ہجری میں فتح ہواتووہاں کے یہودیوں کے بارے میں آپ ﷺ کانہایت ہمدردانہ سلوک وہاں کے باشندوں کومتاثر کیے بغیر نہ رہ سکا۔
مسلمانوں نے یہودیوں کی زمینوں پرقبضہ کیاتو یہودیوں نے درخواست کی ہم اپنی زمینوں پر رہناچاہتے ہیں اورہم اس کے معاوضے میں نصف پیداوار دیا کریں گے۔آنحضرتﷺ نے ان کی درخواست منظور فرمائی۔جب بٹائی کاوقت آیا توحضرت عبداللہ بن رواحہ کوبھیجا گیا وہ غلّے کودوحصوں میں تقسیم کرتے اور کہتے جوحصہ چاہے لے لو۔ یہودیوں پراس کااتنا اثر ہواکہ کہنے لگے۔زمین وآسمان ایسے ہی عدل پرقائم ہیں۔([30])
حضورﷺ نے یہودیوں کی ایک شریف خاتون جنھوں نے اسلام قبول کرلیاتھا،سے شادی بھی کی(ام المومنین حضرت صفیہ )۔ اس شادی کا یہ نتیجہ نکلا کہ یہودیوں کے ساتھ رسول خدا کی رشتے داری ہوئی مسلمانوں اوریہودیوں کے تعلقات بھی خوشگوار ہوئے۔ یہودیوں کوخیبر میں رہائش کی اجازت کے ساتھ ساتھ اس وقت تک ان کے ساتھ کوئی لڑائی جھگڑا نہیں کیا گیا جب تک وہ لوگ امن وسکون سے رہے۔ ضرورت مندوں کے وظائف مقرر کیے گئے اور بت پرستوں کی نسبت ان کو ہرمعاملے میں ترجیح دی گئی۔ ان سے صرف معمولی جزیہ وصول کیا جاتا۔ جو ادانہ کرسکے اسے یہ بھی معاف تھا۔
اسی طرح نجران میں کافی تعداد میں عیسائی آبادتھے۔محمدﷺ نے ان کے ساتھ بھی نہایت دوستانہ اورخوشگوار رویہ اختیار کیا ۔ یہ لوگ بھی یہودیوں کی طرح اہل کتاب تھے۔اسی زمانے میں کوہ سنائی کے قریب واقع راہب خانہ سینٹ کیتھرین کے راہبوں کو بلکہ سارے عیسائیوں کوایک سند نامہ حقوق Charterعطا کیاگیا۔اس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ تاریخ میں روشن خیالی اور رواداری کی اشرف ترین مثال ہے۔
سیدامیرعلی اپنی کتاب Spirit of Islam (روح ِاسلام) میں لکھتے ہیں:
’’آپ ﷺنے عیسائیوں کی حفاظت،ان کے گرجاگھروں کی اوران کے پادریوں کے مکانوں کی پاسبانی اورانھیں ہرطرح کے گزند سے بچانے کی ذمے داری اپنی ذات پربھی اوراپنے متعلقین پر بھی عائد کی اوران سے وعدہ کیاکہ ان پرکوئی ناجائز ٹیکس نہیں لگایاجائے گا،کسی عیسائی کواپنامذہب ترک کرنے پر مجبور نہ کیا جائے گا،کسی راہب کواس کے راہب خانے سے خارج نہ کیا جائے گا۔ان کواس بات کی بھی ضمانت دی گئی کہ مسجدیں یامسلمانوں کے گھر بنانے کے لیے کبھی بھی ان کے گرجا گھروں کومسمار نہ کیاجائے گا۔اوران عیسائی عورتوں کوبھی یقین دلایا گیاکہ جنھوں نے مسلمانوں سے شادی کررکھی تھی کہ وہ اپنے مذہب پرقائم رہنے کی مجاز ہوں گی۔‘‘([31])
یہ تھیں رواداری اورحسن سلوک کی مثالیں جورسول اللہ نے اپنے عہد مبارکہ میں قائم فرمائیں۔
آنحضرتﷺ اس مملکت اوررعایا کی جان ومال اورآزادی کے محافظ کی حیثیت سے عدل کرتے تھے تومجرم کو ان کی سزاپوری پوری دیتے تھے لیکن رسول خدا اورمعلم اسلام کی حیثیت سے اپنے بدترین دشمن کوبھی معاف کرتے تھے اوران کے ساتھ نرمی کاسلوک کرتے تھے۔
جیسے فتح مکہ کے موقعے پر ابوسفیان اورحزام بن حکیم کے گھر کودارالامن قرار دیا۔ آپﷺکی ذات میں وہ افضل ترین صفات جن کا تصور انسان کرسکتا ہے یعنی عدل اور رحم بدرجہ اولیٰ موجود تھیں۔ آپ ﷺنے بازنطینیوں کے خلاف جواسلامی فوج بھیجی ان سے مخاطب ہوکریوں فرمایا:
’’جوہمیں گزند پہنچائے صرف ان سے انتقام لینا۔جولوگ تنگ نہ کریں جواپنے گھروں میں خلوت نشین ہوں ان سے تعرض نہ کرنا۔ طبقہ اناث کی کمزوریوں کاخیال رکھنا۔ دودھ پیتے بچوں صاحب فراش اور بیماروں کوتکلیف نہ دینا۔ جولوگ تمھارے مقابلے میں آئیں ان کے گھروں کومسمار نہ کرنا ان کے ذریعہ معاش اِن کے پھل دار درختوں کوتباہ نہ کرنا۔‘‘ ([32])
یہ تھیں ہمارے نبی کی عدل وانصاف کی مثالیں آپ انسان توکیا جانوروں اوراشجار تک کی حفاظت کوضروری تصور کرتے۔
غلاموں کے ساتھ سلوک
عہدنبوی میں عربوں میں بھی دوسرے اقوام کی طرح غلاموں کوالگ طبقہ تصور کرکے ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیاجاتا تھا۔ اسلام چونکہ بنی نوع انسان کے ساتھ کامل مساوات کی تعلیم لے کرآیا ۔ توغلاموں کے ساتھ بھی اچھاسلوک کرنے کاحکم دیااور ان کوآزاد کرنے کواجر وثواب قرار دیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوْھُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْرًا صلے ق وَّاٰتُوْھُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْٓ اٰتٰئکُمْ ط وَلَا تُکْرِھُوْا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَآئِ اِنْ اَرَدْن تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ط وَمَنْ یُّکْرِھْھُّنَّ فَاِنَّ اللّٰہَ مِنْ م بَعْدِ اِکْرَاھِہِنَّ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ ([33])
’’ اور جو غلام تم سے مکاتبت چاہیں اگر تم ان میں(صلاحیت اور)نیکی پاؤتواُن سے مکاتبت کرلو اورخدا نے جومال تم کوبخشا ہے اُس میں سے اُن کو بھی دو اوراپنی لونڈیوں کواگروہ پاک دامن رہنا چاہیں تو(بے شرمی سے)دنیاوی زندگی کے فوائد حاصل کرنے کے لیے بدکاری پرمجبورنہ کرنا اورجوان کو مجبورکرے گاتو ان(بیچاریوں)کے مجبور کیے جانے کے بعد خدابخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
زیدبن حارثہ آپ ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ آپ ﷺ نے ان کی اپنے بیٹوں کی طرح پرورش کی اوراپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت حجش کی شادی بھی ان سے کردی جوکہ خاندان بنوہاشم سے تعلق رکھتی تھیں حالانکہ کہ شادی ایک نازک مسئلہ ہوتاہے جس میں عموماً برادری کاسوال دوسرے سوالات سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔([34])
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام رنگ ونسل کے امتیازات کومٹاکر تمام بنی نوع انسان کومساوات کادرس دیتا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:ان اکرمکم عنداللہ اتقکم
’’تم میں سے زیادہ عزت والاوہ ہے جوزیادہ متقی ہو۔برتری کامعیار صرف تقویٰ ہے۔‘‘
اسی طرح مواخات مدینہ کے موقعے پرحضرت زید بن حارثہؓ کوحضرت حمزہؓ کا، جو آپ ﷺ کے چچا تھے، بھائی بنایا۔ حضرت ابوبکرؓ کے بھائی ابن زیدؓ قرارپائے۔ خالدؓ اور بلالؓ ابن رباع بھائی قرار پائے۔یہ بھائی چارہ صرف الفاظ تک نہ تھا بلکہ زندگی کاایک ایسا پختہ رشتہ بن گیاجوخونی رشتے کے برابر تھا۔جان ومال اورزندگی کے تمام معاملات میں ان کے درمیان قرابت داری قائم ہوتی۔([35])
زید بن حارثہؓ کوغزوۂ موتہ میں سپہ سالار بناکر بھیجنابھی غلاموں کی حوصلہ افزائی کی ایک مثال ہے۔بعد ازاں عہدصدیقیؓ میں ان کے فرزند اسامہ بن زیدؓ کی کامیاب مہم جوئی کی روشن مثال بھی اسی حوصلہ افزائی کاتسلسل ہے۔
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ آپؐ نے چند غلاموں کوآزاد کرکے غلاموں کی آزادی کی ترغیب دی۔حضرت خدیجہؓ زید بن حارثہ کی مالکہ تھیں۔انھیں حکیم بن خزام ابن خولد نے عکاظ کے بازار سے خریدا تھا۔ نکاح کے بعد حضرت خدیجہؓ نے انھیں اور ان کی بیوی برکہ کوآزاد کردیاتھا۔ثوبانؓ یمن کے ایک شخص تھے ان کوآپ ﷺنے مدینے میں خریدکرآزاد کیا۔
بلال بن رباح حبشی تھے انھیں بھی رسول خدانے آزادی عطا فرمائی۔([36])
ان کے علاوہ ابورافع فیضہ اورمدغم وغیرہ کوبھی آپﷺ نے آزاد کیا۔اس حوالے سے آپ ﷺکی حدیث مبارکہ ہے:
’’ایک مومن شخص جس نے ایک غلام کو آزاد کیا اللہ تعالیٰ اس کے ہرعضو کے بدلے اس کے ہر عضو کو دوزخ کی آگ سے بچائے گا جیسے ہاتھ کے بدلے ہاتھ آنکھ کے بدلے آنکھ۔‘‘ ([37])
غلامی کامسئلہ جنگی قیدیوں کے ساتھ بھی تھا۔ قرآن وسنت سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اسلام نے غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک اوران کوآزاد کرانے کی ہمیشہ ترغیب دی اوران کے ساتھ مکاتبت کاطریقہ بھی بتایا۔گزشتہ سطور میں کیا جاچکاہے۔
اسی سے آج کے دور میں خادموں اور زیر دستوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کادرس ملتاہے۔ عہدنبوی میں عدل اجتماعی کی عملی صورت کی مندرجہ بالا امثال سے اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کو مثالی ریاست بنانے کے لیے جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا وہ عدل وانصاف ہی تھا۔ آپ ﷺ نے نہ صرف اپنے اقوال سے بلکہ اپنے اعمال سے بھی اس کی ترویج فرمائی کیونکہ معاشرے میں شروفساد وظلم وزیادتی کاخاتمہ ہرحال میں ناگزیر تھا۔اوریہ تبھی ممکن تھا جب ہرذی روح کواس کاحق ملے۔
گویا اسلامی تعلیمات کی رُو سے وہی معاشرہ اسلامی معاشرہ کہلانے کاسزاوار ہے جو اللہ رب العزت کے نازل کردہ قانونِ عدل کے مطابق ہو وہ قانونِ عدل جس کی بے شمار نظیریں قرآن وسنت میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ () البقرہ :۱۲۷، آل عمران :۹۶۔۹۷
- ↑ () نعمانی ،شبلی،سیرت النبیؐ،۱۹۳۵ء،دارالمصنفین،دہلی، ج۱،ص ۱۱۷
- ↑ () ایضاً،ج۴،ص۲۶۸
- ↑ () ایضاً،ص۳۹۲
- ↑ () مودودی ،ابوالاعلیٰ،جہاد فی الاسلام ،ادارہ ترجمان القرآن،لاہور،ص۱۹۱
- ↑ () عماد الدین ،ابولفداء،نفیس اکیڈمی،کراچی،ج۱،ص۷۹
- ↑ () ابن اثیر،ج۱،ص۲۷۵۔۲۷۶
- ↑ () النساء: ۱۰۵
- ↑ () الحدید: ۲۵
- ↑ () المائدہ:۳
- ↑ () النساء:۶۵
- ↑ () سعد البصری علامہ ابوعبداللہ محمد،طبقات ابن سعد، دارالاشاعت ،حصہ دوم،ص۶۱۵
- ↑ () ایضاً،ص۶۲۰
- ↑ () ایضاً ،ص۶۲۲
- ↑ () ایضاً ،ص۶۱۹
- ↑ () محمد ضیاء ،قضیہ الرسول ،الرحمٰن،ادارۂ معارف اسلامی،۱۹۷۸ءص۳۵۔۴۷
- ↑ () محمدابوعبداللہ،سعد البصری، طبقات ابن سعد،دارالاشاعت لاہور،۱۹۶۸ء ،حصہ دوم،ص۶۱۳
- ↑ () سرخسی امام مطبوعہ السعادۃ ،المبسوط،مصر،۱۳۳۱ھ،ص۱۰۹
- ↑ () بخاری شریف، باب الحدود
- ↑ () المائدہ:۳۸
- ↑ () محمد بن حسن شیبانی ، کتابُ ا لاثار،مترجم:ابوفتح،کراچی،ص۲۳۶
- ↑ () امام بخاری،صحیح بخاری، کتاب الحدود،بابُ الرجم،محمد سعید اینڈ سنز
- ↑ () البقرہ:۱۷۹
- ↑ () سنن ابی داؤد،سنن نسائی،ابن ماجہ،حدیث ۸۱۹
- ↑ () انعام :۱۵۱
- ↑ () ندوی سلیمان ،رحمت عالم،علامہ ،فہیم پبلی کیشنز، لیاقت باغ کراچی،ص۱۱۸
- ↑ () النساء:۷
- ↑ () مودودی ابوالاعلیٰ ،تفہیم القرآن ،ادارہ ترجمان القرآن،لاہور،جلداول،ص۳۲۴
- ↑ () ماہنامہ دعوۃ ،رسول اللہ کے عہدمیں نظام عدل،السلام آباد،ایس۔ اے۔رحمن پبلی کیشنز،ص۲۴
- ↑ () احمد ندوی ،شاہ معین الدین ،تاریخ السلام،غضنفر اکیڈمی اردو بازار کراچی، ۱۹۷۵ء ،ص۶۷
- ↑ () امیرعلی ،سید،روح السلام،مترجم:سیدہادی میں ،ادارہ ثقافت اسلامیہ،ص۱۷۹
- ↑ ()ایضاً،ص۱۸۲
- ↑ () النور: ۳۳
- ↑ () سید قطب، مترجم:صدیقی نجات اللہ،اسلام میں عدل اجتماعی ،اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ لاہور،ص۴۰۰
- ↑ () ایضاً
- ↑ () سعد البصری،طبقات ابن سعد، ابوعبداللہ علامہ، دارلاشاعت ،ص۵۴
- ↑ ()ایضاً
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |