35
1
2020
1682060084478_852
163-183
http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/135
تہذیب اور ثقافت کا مفہوم
کسی معاشرے کی بامقصد تخلیقات اور سماجی اقدار کے نظام کو تہذیب کہتے ہیں ۔ تہذیب معاشرے کی طرز فکر واحساس کا جوہر ہوتی ہے ۔ چنانچہ زبان،آلات واوزار پیداوار کے طریقے اور سماجی رشتے،رہن سہن ،فنون لطیفہ ،علم و ادب ،فلسفہ وحکمت ، عقائد وافسوں ،اخلاق وعادات ،رسوم وروایات ، عشق ومحبت کے سلوک اور خاندانی تعلقات وغیرہ تہذیب کے مختلف مظاہر ہیں ۔ انگریزی زبان میں تہذیب کے لیے’’کلچر‘‘کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔ کلچر لاطینی زبان کا لفظ ہے اس کے لغوی معنی ہیں ۔ ’’زراعت ،شہد کی مکھیوں ،ریشم کے کیڑوں ،سیپوں اوربیکٹیریا کی پرورش یا افزائش کرنا جسمانی یا ذہنی اصلاح وترقی،کھیتی باڑی کرنا ۔ اردو ،فارسی اور عربی میں کلچر کے لیے تہذیب کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ تہذیب عربی زبان کا لفظ ہے ۔ اس کے لغوی معنی ہیں کسی درخت یا پودے کو کاٹنا چھاٹنا تراشنا تاکہ اس میں نئی شاخیں نکلیں اور نئی کونپلیں پھوٹیں ۔ فارسی میں تہذیب کے معنی ’’آرا ستن پیراستن ،پاک ودرست کردن واصلاح نمودن‘‘ ہیں۔ اردو میں تہذیب کا لفظ عام طور سے شائستگی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔([1])
سر سید احمد خان اپنے رسالے ’’تہذیب الاخلاق ‘‘کے اغراض ومقاصد بیان کرتے ہوئے تہذیب کی جامع تعریف میں لکھتے ہیں ’’اس پرچے کے اجرا سے مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجہ کی سویلائزیشن (Civilization) یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جاوے تاکہ جس حقارت سے (سویلائزڈ )مہذب قو میں ان کو دیکھتی ہیں وہ رفع ہو وے اور وہ بھی دنیا میں معزز ومہذب قو میں کہلائیں ۔ سولائزیشن انگریزی لفظ جس کا تہذیب ہم نے ترجمہ کیا ہے مگر اس کے معنی نہایت وسیع ہیں ۔ اس سے مراد ہے انسان کے تمام افعال ارادی ،اخلاق اور معاملات اور معاشرت اور تمدن اور طریقہ تمدن اور صرف اوقات اور علوم اور ہر قسم کے فنون وہنر کو اعلیٰ درجے کی عمدگی پر پہنچانا اور ان کو نہایت خوبی وخوش اسلوبی سے برتنا جس سے اصل خوشی اور جسمانی خوبی ہوتی ہے اور تمکین ووقار اور قدر ومنزلت حاصل کی جاتی ہے اور وحشیانہ پن اور انسانیت میں تمیز نظر آتی ہے "([2])
اسی طرح جب ایک گروہ انسانوں کا کسی جگہ اکھٹا ہو کر بستاہو تو اکثر ان کی ضرورتیں اور ان کی حاجتیں ان کی غذائیں اور ان کی پوشاکیں ،ان کی معلومات اور ان کے خیالات ان کی مسرت کی باتیں اور ان کی بستا ہے نفرت کی چیزیں سب یکساں ہوتی ہیں اور اسی لیے برائی اور اچھائی کے خیالات بھی یکساں ہوتے ہیں اور برائی کو اچھائی سے تبدیل کرنے کی خواہش سب میں ایک سی ہوتی ہے اور یہی مجموعی خواہش تبادلہ یا مجموعی خواہش سے وہ تبادلہ اس قوم یا گروہ کی سویلائزیشن ہے"([3])
امریکی محقق و فلاسفر Samuel P. Huntington تہذیب اور ثقافت کی وضاحت کرتے ہیں کہ’’تہذیب اور ثقافت دونوں کسی قوم کے مجموعی طرز زندگی کی نشاندہی کرتے ہیں اور تہذیب جلی حروف میں لکھی ہوئی ثقافت ہے ۔ دونوں کا تعلق اقدار ،رواج ،ادارے اور ان طرز ہائے فکر سے ہے جنہیں کسی مخصوص معاشرے میں یکے بعد دیگرے مختلف پیڑھیوں نے بنیادی اہمیت دی ہو ۔ ‘‘([4]) اسی طرح برائڈل کی نظر میں ’’ تہذیب ایک مقام ایک ثقافتی خطہ ہے ۔ ثقافتی خواص ومظاہر کا ایک مجموعہ ہے ۔ ویلر سٹائن اس کی تعریف یوں کرتا ہے کہ یہ ’’دنیا کے بارے میں نقطہ نگاہ ،روایات ،ڈھانچوں اور ثقافت کا ایک مخصوص سلسلہ ہے جو ایک قسم کا تاریخی کل بناتا ہے اور جو اس مظہر کی دوسری متنوع شکلوں کے ساتھ وجود رکھتا ہے ۔ جبکہ ڈاسن کے مطابق تہذیب’’کسی خاص قوم کی ثقافتی تخلیق کے اصلی عمل کی پیداوار ہے اور ڈر کہائیم اور ماءوس کی نظر میں یہ ’’ایک قسم کا اخلاقی ماحول ہے جس کے دائرے میں اقوام کی کچھ تعداد آ جاتی ہے اور ہر قومی ثقافت کل کی صرف ایک مخصوص شکل ہوتی ہے ۔ جرمنی کے محقق فلاسفر Spengler کے خیال میں تہذیب ثقافت کا ناگزیر مقدر ہے وہ انتہائی خارجی اور مصنوعی کیفیات جن کی کوئی ترقی یافتہ انسانی نسل اہل ہو سکتی ہے ایک نتیجہ ،زیر تکمیل شے کے بعد آنے والی شے ہے ۔ تہذیب کی عملاً ہر تعریف میں ثقافت مشترک موضوع ہے ۔ ‘‘([5]) Samuel P. Huntington بھی کچھ اسی طرح کے الفاظوں سے بتاتے ہیں ’’انسانی تاریخ تہذیبوں کی تاریخ ہے ۔ نوع انسانی کے ارتقاء کے بارے میں کسی اور حوالے سے سوچنا ناممکن ہے ۔ یہ کہانی قدیم سمیری اور مصری تہذیبوں سے کلاسیکی اور میسوا ر ی کی سے مسیحی واسلامی تہذیبوں کی متعدد نسلوں اور صینی اور ہندو تہذیبوں تک پھیلی ہوئی ہے ۔ پوری تاریخ میں تہذیبوں سے ہی لوگوں کو شناخت کے وسیع ترین حوالے ملے ہیں ۔([6])
تہذیبوں اور ثقافتوں میں مشترکہ قدریں
انسانی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ’’ انسانیت نے موجودہ منزل تک پہنچنے کے لیے کیا کچھ مراحل طے نہیں کئے ۔ اس طویل مدت میں انسانوں نے کئی تمدن اپنائے، بڑے بڑے فلسفوں کی بنیاد رکھی گئی ،بے شمار علوم وفنون معرض وجود میں آئے ۔ اخلاق وعادات کے نت نئے معیار بنے ۔ انبیاء مبعوث ہوئے اور ان کی زبان سے خدا تعالیٰ کے پیغامات ان کے بندوں کو ملے ۔ الغرض اب تک اتنے تمدنی ،اخلاقی ،فلسفے اور دینی نظرئیے معرض وجود میں آچکے ہیں کہ ان کا شمار مشکل ہے ۔ ہر دور اک نئی فکر کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے ۔ ہر قوم نے ایک تمدن کی بنیاد رکھی اور اس نے دعویٰ کیا کہ جو تمدن اس کا ہے وہ کسی اور کا نہیں اور نہ آئندہ کسی کا ہو گا ۔ ’’انا ولا غیری‘‘(میرے سوا کوئی نہیں )کی صدائیں ہ میں ہر قوم کی تاریخ میں یہ بات سننے میں آتی ہیں ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان گوناں گوں اخلاقی نظریوں ،تمدنی اصولوں اور افکار وادیان میں بھی ایک گونہ وحدت ہے ،گو ارتقاء نے ان کو عجیب عجیب شکلیں دیں لیکن اس کے باوجود ان تمام میں چند بنیادی باتیں ایسی ہیں جو سب میں مشترک نظر آئیں گی ظاہر بینوں پر ہمیشہ یہ حقیقت مخفی رہی وہ اپنی ایک محدود دنیا بنا کر بیٹھے رہے اور اپنے طبقاتی فکر کو سب سے جدا اور الگ سمجھتے رہے ۔ انہوں نے اپنے ذہن کو باقی ذہن انسانی سے الگ تھلگ کر دیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس طرح پانی بہتے ہوئے دریا سے بے تعلق ہو جائے تو اس میں سڑاند پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح فکری اور ذہنی علیحدگی نے ایسی قوموں کے دماغوں کو مفلوج کر دیا ۔ یقینا آج کے دور میں بھی یورپ اور ایشیاء کی تہذیبوں اور تمدنوں کا یہی حال ہے ۔ مغربی تہذیب کو اپنے اوپر فخر ہے اور چینی، جاپانی، افریقی،ایشیائی اپنے تمدنوں کے پرچار میں مصروف ہیں ۔ بحر حال اس سے انکار نہیں کہ ہر قوم کی انفرادیت اپنی جگہ مسلم ہے اور ہر فکر نے اپنے اپنے زمانے میں نئی فضا بنائی ۔ لیکن جس طرح انسان تمام وقتی ،مکانی،عارضی اور ظاہری اختلافات کے باوجود اصل میں ایک ہیں اسی طرح ان گوناں گوں اخلاقی نظریوں تمدنی اصولوں اور افکار ونظریات وادیان میں بھی ایک گوناں وحدت ہے ۔ گو ارتقاء نے ان کو عجیب عجیب شکلیں دیں اور انہیں کہیں سے کہیں پہنچا دیا ۔ مثلا آج کے دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ارتقاء نے تمدن کو ایک انوکھے انداز سے ترقی کی راہوں پر رواں دواں کر دیا ہے ۔ اب اس تمدنی تنوع میں ایک مشترکہ حقیقت کی تلاش کرنا اور ایسے اصولوں کو سامنے لانا جو ساری انسانیت پر جامع ہوں اور اقوام کے مختلف تمدنوں کے باوجود ان میں وحدت اور قربت وہم آہنگی پیدا ہو سکے ۔
انسانی معاشرے میں پنپنے والی ان تہذیبوں اور ثقافتوں کے پیچھے جو مشترکہ حقیقت ’’انسانیت‘‘ہے یعنی دنیا کے کسی بھی گوشے میں رہنے والا کسی بھی تہذیب سے تعلق رکھنے والا ایک رشتہ میں جکڑا ہوا ہے وہ ہے’’انسانیت کا رشتہ‘‘یہی وہ مشترکہ قدر ہے جو کہ زمانوں کے تغیر وتبدل تہذیبوں کے عروج وزوال کے باوجود قائم ودائم ہے ۔ اب انسانیت کی بنیاد پر اس وحدت کو مختلف معاشروں میں زندہ کرنے کا تصور در حقیقت انسانوں کو تہذیبی اور تمدنی اعتبار سے قریب لا سکتا ہے ۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے عرب کے معاشرے میں جس جاندار تہذیب کو متعارف کروایا وہ اُس کی روح رواں جذبہ انسانیت اور انسانیت کا ارتقاء تھا ۔ آپ ﷺ نے یہ اعلان کر کے ساری دنیا کے انسانوں کو ہم آہنگی کی دعوت دی ۔
یا ایھا الناس الا ان ربکم واحد وان ابا کم وا حد الا لا فضل لعربی علیٰ عجمی ولا لعجمی علیٰ عربی ولا لابیض علی اسود ولا اسود علی ابیض الا بالقویٰ ([7])
”اے لوگو ۔ خبردار بے شک تمھارا خدا ایک ہے اور بے شک تمھارا باپ ایک ہے ۔ خبردار کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کسی سفید کو سیاہ پر اور کسی سیاہ کو سفید پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقوی اور پرہیز گاری کے۔‘‘
خاتم الانبیاء ﷺ کے مد نظر یہ تھا کہ تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے اور اس کنبے کی کفالت کرنا اُن کو ترقی وخوشحالی اور عظمت سے ہمکنار کرنا اُن کی ذمہ داری ہے ۔ اس ہمہ گیر نظریئے کو لے کر چلتے ہوئے آپ ﷺ نے انسانی معاشروں کو اپنے سے قریب کیا ۔ انسانی اقدار اور انسانیت کی حرمت اور انسانیت کی معاون تہذیب اور انسانیت کو ترقی دینے والے کلچر کو آپ ﷺ نے نہ صرف پسند کیا اس کی تعریف کی بلکہ اُسے معاشرے میں راءج کرنے کے اقدامات کئے ۔ رسول اکرم ﷺ نے یہ حقیقت سمجھائی کہ’’دین اسلام کسی ایک ملک ، قوم یا زمانے کے لیے مخصوص نہیں ۔ اسلام تمام انسانیت کا دین ہے اور قرآن کریم انسانیت کے اسی دین کا ترجمان ہے ۔ قرآن حکیم کی تعلیمات عالمگیر او ر ہمہ گیر ہے جتنی کہ خود انسانیت ہے ۔ مشیت ایزدی کا ظہور انسانیت کے تقاضوں کی صورت میں ہی ہوتا ہے ۔ قرآن چونکہ انسانیت کے انہی تقاضوں کا آئینہ دار ہے اس لیے وہ خدا کا قانون ہے ۔"([8])
یقینا ًدنیا کے تمام مفکرین اور حکماء اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے ۔ کہ بین التہذیبی اور بین الثقافتی ہم آہنگی اور تقارب کے لیے جس بنیادی جذبہ اور محرک کی ضرورت ہے وہ ’’جذبہ انسانیت ‘‘ہی ہے ۔ ’’حقیقت میں سب انسانوں کی اصل ایک ہی ہے لیکن ہر انسان کو مختلف حالات اور مختلف زمانوں کا سامنا کرنا پڑا اس لیے اس کے کام کاج اور اس کی بات چیت میں یکسانیت نہ رہی ۔ کوئی گرم ملک میں پیدا ہوا وہ کالا ہو گیا،کسی کو سرد ملک میں جگہ ملی تو سفید بن گیا ۔ کسی کی سوچ پچار اسے کہیں لے گئی اور کوئی دوسرے راستے سے منزل مقصود پر پہنچا ،مظاہر کے ان اختلافات کی بنا ماحول کے اختلافات پر ہے ۔ ورنہ سب انسانوں کی جبلت ایک ہی سی ہے اور سب کے بنیادی محرکات عمل بھی یکساں ہیں ۔ لیکن تجربات ہر ایک کے جدا جدا ہیں ۔ کیونکہ ہر ایک کو قسمت نے الگ الگ تجربہ گاہ اور مختلف وسائل تجربہ عطا کئے ۔ ‘‘ ([9]) اس طرح مختلف تمدن وجود میں آئے اور مختلف ثقافتیں معاشروں کے اندر نمودار ہو تی رہیں لیکن ان گوناں گوں ثقافتوں ،تمدنوں کے تنوع کے باوجود انسانیت کا تصور یکساں اور مشترکہ ہی رہا ہے۔
مختلف تہذیبوں کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے خاتم الانبیاء ﷺ کا بنیادی فکر
پیغمبر اسلام ﷺ نے انسانیت کے اس رشتہ کی بنیاد پر انسانوں سے قرب وتعلق اور ان کے تجربات سے استفادہ کی حکمت عملی اختیار فرمائی اور کنارہ کشی کی فضا کو ختم کیا اور سماج اشتراک اور وحدت انسانیت کے قیام کے لیے عملی اقدامات کئے اورآپ ﷺ نے جب نئی اور جاندار تہذیب کے لیے جدوجہد شروع کی تو دنیا کی تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کو پوری روشن خیالی ،اور تفکر وتدبر سے سمجھنے اور ان سے استفادہ کرنے کے لیے ایک اصول مرحمت فرمایا اوروہ یہ تھا کہ خذ ما تعرف ودع ما تنکر ([10])اچھی بات کو قبول کرلو اوربری بات کو ترک کردو ۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ آپ ﷺ کے زمانہ میں کس طرح مختلف قو میں اور تمدن آپس میں گتھم گتھا ہو رہے تھے اور ہر قوم اپنے آپ کو کافی بالذات اور مستغنی عن الغیرسمجھتی تھی عیسائی کہتے تھے کہ جو عیسائی نہیں ، وہ انسان ہی نہیں اسی طرح یہودیوں نے اپنے آپ کو سب سے جدا کر لیا تھا ایرانی اپنی جگہ مگن تھے اور ہندوستان والوں نے تو سمندر پار دیکھنا تک ادھرم بنا رکھا تھا اس وقت دنیا کی یہ حالت تھی کہ جیسے چھوٹے چھوٹے گڑھوں میں پانی رک گیا ہو ۔ ایک گڑھا دوسرے سے جدا ہو،اور سب الگ الگ سڑرہے ہوں عربوں کی نئی قوم ایک سیلاب کی طرح نازل ہوئی انہوں نے سب گڑھوں کو ایک کر دیا اور ساری نوع انسانی الگ الگ گڑھوں کی بجائے ایک ذخائر سمندر بن گئی سب قوموں کے ذہنی اور فکری دھارے اس میں گرنے لگے اور اس طرح مجموعی طور پر انسانیت کو آگے بڑھنے کا موقع ملا ۔
عرب ان پڑھ تھے انہوں نے سب قوموں کے علموں کو سر آنکھوں پر لگایا ان کا کوئی بندھا ٹکا نظام تمدن نہ تھا انہوں نے سب تمدنوں کو کھنگالا اور خذ ما تعرف ودع ما تنکر پر عمل کرتے ہوئے سب تمدنوں کے اچھے پہلو لے لیے اسی طرح انہوں نے عیسائیت ، یہودیت ،مجوسیت اور صائبیت سب کو ایک آنکھ سے دیکھا اور سب کو برملا طور پر کہہ دیا کہ انسان خواہ کوئی بھی ہو،جو انسانیت کے بنیادی اصولوں کو مان لے،وہ اچھا انسان ہے ،نام ،نسل،رنگ اور گروہوں کے امتیازات سب باطل ہیں ۔ دوسرے معنوں میں عربوں نے انسانیت کو جو ٹکڑوں میں بٹ چکی تھی اس کا شیرازہ پھر سے از سر نو باندھ دیا اور الگ الگ اور باہم مخالف اور متخاصم قومیتوں کو ایک صحیح بین الاقوامی نظام دیا یہی اسلام کا یہی عالمگیر انقلاب تھا ۔
اسلام کے اس تاریخی کارنامہ کی روح دراصل اس کی عالمگیریت اور جامعیت تھی مسلمانوں نے سب مذہبوں اور تمدنوں کو اصلاً ایک سمجھا ان کی مذہبی کتاب نے ساری انسانیت کو مخاطب کیا اُن کے مفکروں نے علم وفلسفہ پر بحث کی تو سب قوموں کے ذہنی سرمایہ کو چھان ڈالا اُن کے موَرخ تاریخ لکھنے لگے تو انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کر کے ساری قوموں کی تاریخ کو ایک زنجیر کی کڑیاں بنا کر پیش کیا ۔ مسلمان دنیا میں جہاں گئے پیغمبر اسلام ﷺ کےدیے گئے اسی اصول پر انہوں نے تہذیبی اور تمدنی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ ان کے اثرات قبول کئے اور اپنے اثرات سے اُنھیں متاثر کیاکیو نکہ’’ تہذیبی اکتساب کا دھارا ہمیشہ ایک ہی سمت میں نہیں رہتا بلکہ دو قوموں کے مابین جب کوئی مستقل رشتہ قائم ہوتا ہے تو وہ ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھتی ہیں ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو عربوں نے سندھ وہند کی تہذیب سے جو فیض حاصل کیا کہ وہ کہیں زیادہ دقیع تھا ۔ عربوں نے اس وقت تک اپنے ذہن کے دروازے بند نہیں کئے تھے بلکہ خذ ما صفیٰ ودع ما کدر کے اصول پر عمل کرتے تھے ۔ وہ نئے نئے علوم وفنون کی تلاش میں رہتے تھے اور جہاں کہیں کوئی کار آمد چیز مل جاتی تھی اس سے استفادے کی پوری کوشش کرتے تھے ۔ چنانچہ انہیں یہاں علم ہیت ، علم حساب وہندسہ ،طب ،کیمیا ،فلسفہ ، سیاست ،حربیات ،یوگا،تصوف اور ادب کی جو جو مستند کتابیں دستیاب ہوئیں انہوں نے ان کا ترجمہ عربی زبان میں کرلیا" ([11])
انسانیت کے احیاء و بقا اور وحدت کے لیےخذ ما تعرف ودع ما تنکر کا اصول جہاں مسلمانوں کو دیگر تہذیبوں سے استفادے کا ذریعہ بناتا ہے وہاں ساتھ ہی پیغمبر ﷺ نے تہذیبوں کے مابین ہم آہنگی کے لیے ایک اور اصول بھی دیا ہے فرمایا ایسے بنیادی نکات جو تہذیبوں میں مشترک ہیں ان پر اتحاد کیا جائے ۔ آپ ﷺ نے اہل کتاب کو اُن مشترکہ امور میں جو دونوں میں مشترک تھے کی بنیاد پر اس طرح دعوت دی۔ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کتب الیٰ صاحب الروم’’یا اہل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم‘‘ رسول اللہ ﷺ نے بادشاہ روم کو لکھا اے اہل کتاب آؤہم اس کلمہ پر جمع ہو جائیں جو ہم میں اور تم میں مشترک ہے"([12]) گویا یہ ایک کمال کا نکتہ ہے جو تہذیبوں اور ثقافتوں میں تلاش کیا جا سکتا ہے یعنی اگر تہذیبوں کے مشترکہ نکات ہوں تو باوجود تضادات کے ان مشترکہ نکات پر تقارب، وحدت اور ہم آہنگی کی حکمت عملی اختیار کی جا سکتی ہے ۔
عصر حاضر کی تہذیبوں اور ثقافتوں سے ہم آہنگی
اس اصول خذ ما تعرف ودع ما تنکر کی روشنی میں آج بھی دیگر تہذیبوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ مثلا مغربی تہذیب کے حوالے سے آج مسلم معاشروں میں ایک خوف کی فضا ہے اور اس کا رد عمل یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ کنارہ کشی اور علیحدگی پسندی کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جس کی وجہ سے مغربی علوم وفوائد کا یکسر انکار کر دینا،طببیعات ،ریاضیات اور ٹیکنالوجی جیسے علوم سے استفادہ ِعلمی کو حرام قرار دیا جائے اور جدید آلات ،مشینیں اور سازو سامان اور ضروریات زندگی کو قبول کرنے سے انکار کیا جائے ۔ ابو الحسن ندوی لکھتے ہیں۔”اس موقف کا قدرتی نتیجہ عالم اسلام کی پسماندگی اور زندگی کے رواں دواں قافلہ سے بچھڑنے کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا،اس سے عالم اسلام کا رشتہ باقی دنیا سےمنقطع ہو جائے گا اور ایک محدود وحقیر جزیرہ بن کر رہ جائے گا جس کا گردو بیش کی دنیا سے کوئی پیوند نہیں ہو گا۔“([13])
لہذا ضروری ہے کہ مغربی تہذیب وتمدن کا مطالعہ رسول اکرم ﷺ کےدیے گئے اسی اصول پر کہ اس تہذیب کے صالح عناصر اور انسانی ترقی کے پہلوءوں سے استفادہ کیا جائے اور اس تہذیب کے وہ عناصر جن سے انسانی مادی اور روحانی تقاضوں کی تکمیل میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اُسے صرف نظر کیا جائے ۔ علم وہنر کسی خاص قوم کی میراث نہیں ہے بلکہ یہ اسی کا ہے جس نے اسے حاصل کرنے کی تگ ودو کی ۔ آج کے دور میں دنیا علم ہی کی برکتوں سے ایک گاءوں میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے ۔ اس دور میں دیگر اقوام اور تہذیبوں کے ساتھ تعلقات اور قربتیں زیادہ ہو رہی ہیں ۔ ماضی کی نسبت بین التہذیبی اور بین الثقافتی استفادہ انتہائی آسان اور تیز رفتارہے ۔ لہذا مغربی تہذیب کے اثرات سے اپنے آپ کو علیحدہ نہیں رکھا جا سکتا ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس سے ہم آہنگی اس انداز سے پیدا کی جائے کہ مسلم تہذیب کی اقدار اور ثقافت متاثر نہ ہو اور بحیثیت مجموعی ترقی بھی حاصل ہو سکے ۔ مغربی تہذیب کی سب سے بڑی خصوصیت سائنس اور ٹیکنالوجی کی اساس پر ارتقاء ہے ۔
قرآن حکیم نے علم وتحقیق کی دعوت دی ہے ۔ کائنات کے سر بستہ رازوں کو جانچنے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق وجستجو کرنے کا درس دیا ہے ارشاد خدا وندی ہے :
اِنِّ فِی خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِلَاٰیٰتِ لّاِولِی الْاَلْبَابِ ۔ الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّٰہَ قِیٰماً وَّقُعُوداً وَّعَلیٰ جُنُوبِھِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فَیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض; رَبَّنَا مَاخَلَقْتَ ھٰذَابَاطِلاً سُبْحٰنَکَ فَقِنَاعَذَابَ النَّارِ ([14])
”بلا شبہ آسمان وزمین کی خلقت میں اور رات اور دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہتے ہیں ارباب دانش کے لیے بڑی ہی نشانیاں ہیں ،وہ ارباب دانش جو کسی حال میں اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتے کھڑے ہوں لیٹے ہوں لیکن ہر حال میں اللہ کی یاد ان کے اندر بسی ہوتی ہے اور جن کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ آسمان وزمین کی خلقت پر غور کرتے ہیں ۔ (اس ذکر وفکر کا یہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان پر معرفت حقیقت کا دروازہ کھل جاتا ہے وہ پکار اٹھتے ہیں )اے ہمارے پروردگار!یہ سب کچھ جو تو نے پیدا کیا ہے سو بلا شبہ بیکار وعبث پیدا کیا ، یقیناً تیری ذات اس سے پاک ہے کہ ایک فعل عبث اس سے صادر ہو،خدایا ہ میں عذاب آتش سے بچا لینا ۔“
پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا ہے : الکلمۃ الحکمۃ ضالۃ الموَمن فحیث وجدھا فھوا حتی بھا([15]) حکمت مومن کی متاع گمشدہ ہے جہاں سے بھی ملے لے لو "۔ماضی میں مسلمانوں نے پیغمبر اسلام ﷺ کی اسی حکمت کو اختیار کر کے تہذیبوں سے استفادہ کیا ۔ اس کی تائید کرتے ہوئے ایک یورپی مصنف جوزف ہیلی اپنی مشہور کتاب ’’عربوں کی تہذیب‘‘ میں تحریر کرتا ہے کہ ’’اسلام حصول علم کے ذی قدر جذبے ،علم کی آرزو اور رواداری کے جذبے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ علم کی سرحدوں کو وسیع سے وسیع تر کرنے کے لیے بے قرارری کا ایسا جذبہ تھا جو مسلمانوں کی ذہنیت کی امتیازی خصوصیت ظاہر کرتا ہے اور بلند مقصد کے لیے محرک ہوتا ہے ۔ ‘‘([16]) یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں نے سائنس کو بنیادیں فراہم کیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کار ہائے نمایاں انجام دیے اور پھر’’یہ اسلام کی عظمت ہے کہ اس نے سائنسی علوم کو مسجد میں وہی جگہ دی جو قرآن ،حدیث اور فقہ کے مطالعے کو دی ۔ یاد رہے کہ اپنے عہد عروج میں مسجد اسلام کی یونیورسٹی تھی ۔ مسجد میں کیمیا ،طبیعات ،نباتات ،علم الادویہ ، فلکیات اور فلسفے وغیرہ پر لیکچردیے جاتے۔‘‘([17])
بقول ایک مستشرق کے’’اسلام کی اسپرٹ اتنی کشادہ ہے کہ عملاًیہ غیر محدود ہے اس نے گردوپیش کی تمام قوموں کے قابل حصول خیالات اپنا لیے ہیں اور انہیں اپنی مخصوص طرز کی ہدایت بخشی ہے ۔ “([18])
شعوری مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ’’کائنات انقلابات سے عبارت ہے اس کے اندر ہمہ وقت تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں چاہے وہ سیاروں اور سیارچوں کی دنیا ہو یا انسانی معاشرے ہوں ،یوں ہر آنے والا دور پچھلے دور سے مختلف ہوتا چلا جاتا ہے موجودہ ترقیات دراصل اسی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہیں کائنات کی ہمہ گیر تبدیلیوں اور سماجیات کی ترقی کو مان کر اپنی تہذیب اور تمدن کو نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے والی اقوام ہی اپنے ارتقاء کو جاری وساری رکھ سکتی ہیں ورنہ ان کے تمدن بوسیدہ ہو جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ زوال کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں ۔ ’’بابل ،نینوا،مصر ، ایران ،یونان ، ہندوستان اور عرب تہذیبیں نظریہ ارتقاء کے اسی اصول کے تحت ابھریں اور ڈوب گئیں ‘‘([19]) لہذا یہ حقیقت مسلم ہے کہ’’اگر دنیا کا کوئی ملک چشم وگوش بن کر کے تہذیب جدید کے زبردست چیلنج کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا ہے یا اس کو یک قلم مسترد کر کے چین کی نیند سوتا ہے اور اپنی محدود دنیا سے باہر نکلنے پر کسی طرح آمادہ نہیں ہوتا تو وہ ملک زیادہ دنوں تک معتدل وپرسکون حالت پر قائم نہیں رہ سکتا ۔ “([20])
دور نبوی ﷺکے بعد کے ادوار میں بین التہذیبی اور ثقافتی طرز عمل
جب روم وایران سمیت دنیا کی تمام تہذیبیں انسانی ارتقاء اور بدلتے ہوئے عصری تقاضوں کا ساتھ دینے میں ناکام ہو گئیں تو پھر حجاز سے ایک ترقی پسند انقلابی تحریک کا آغاز ہوا جس نے کرہ ارض کے طول وعرض کو ایک جاندار اور صحت مند تمدن سے آشنا کر دیا اور وہ اسلام کی تحریک تھی جسے’’مسلمانوں نے اسلام کے اس عالمگیر انقلاب پر بعد میں ایک عالمگیر تمدن انسانی کی بنیاد رکھی ادھر بغداد میں ادھر قرطبہ میں مشرق ومغرب کی تمام قوموں اور ان کے افکار ومذاہب کا اجتماع ہوا ۔ ہر نسل کے لوگ آپس میں ملے ۔ ایک دوسرے کے خیالات سے واقف ہوئے ایک زبان کے علوم دوسری زبان میں ترجمہ ہوئے ۔ ہندوستان کی طب وحکمت یونان کے فلسفے اسکندریہ کے علوم ،ایرانیوں کا ادب ،یہودیوں اور عیسائیوں کی روایات مذہبی اور عربوں کی زبان اور دین سے انسانی تمدن کی ایک نئی ہیءت کی ترکیب ہوئی ۔ جو ماضی کے سارے علوم وفنون اور حکمت وفلسفے کا نچوڑ تھا اور حال واستقبال کے لیے مشعل راہ،یہ تھا اسلام کا تاریخی کارنامہ،انسانیت مسلمانوں کے اس احسان کو کبھی نہیں بھولے گی ۔ “([21])
اور اسی حوالے سے انسانی تہذیبی ارتقاء کی اس منزل کی اہمیت کے بارے میں یورپی مفکرایچ جی ویلزکہتے ہیں کہ’’عرب کاطر ز فکر ایک ہزار سال پہلے عام ہو جانے والی یونانی فکر سے کہیں زیادہ سرعت اور ڈرامائی انداز میں دنیا بھر میں سرایت کر گیا چین سمیت تمام مغربی دنیا میں قدیم تصورات کی تنسیخ اور نئے خیالات کی ترقی کی لہر غیر معمولی تیزی سے پھیلی ۔ ‘‘([22])
پھر یہ تصورات اتنی تیزی پھیلتے چلے گئے کہ’’آٹھویں صدی عیسوی تک عربی اثرات سے شرابور دنیا میں ایک عظیم علمی تنظیم پیدا ہوئی،نویں صدی عیسوی میں ا سپین میں قرطبہ کے مدرسوں کے فارغ ا لتحصیل قاہرہ، بغداد،بخارا اور ثمر قند کے اہل علم سے مباحث میں مصروف تھے یہودی فکر جلد ہی عربی فکر سے گھل مل گئے ایک زمانے تک یہ دونوں سامی النسل قو میں عربی زبان کے ذریعے ساتھ ساتھ نشوونما پاتی رہیں ۔“([23]) اور اس تہذیبی ارتقاء کے عمل سے ’’سامی دنیا کی حیرت انگیز حیات نو کے باعث اس کا بھی پھر سے احیاء ہوا،ارسطو اور اسکندریہ کے عجائب گھر جو مدتوں سے بے ثمر اور تہ خاک تاریکی میں گم تھا اس پر پھر سے کونپلیں پھوٹیں اور وہ ثمر آور ہوئے،ریاضیاتی ،طبی اور طبعی علوم میں اضافے ہوئے،رومی بھونڈے اعداد کی جگہ عربی ہندسوں نے لے لی جو ہم آج استعمال کرتے ہیں ۔ صفر کا استعمال بھی تبھی شروع ہوا،الجبرا بھی عربیوں ہی کا شاہکار ہے ۔ ’’کیمیا‘‘بھی عربی لفظ ہے ستاروں کے نام جیسےالگول،الڈبران اور بوٹس آسمان پر عربیوں کی فتوحات کے نشان ہیں ۔ یہ ان کے فلسفہ کا کمال ہے کہ اس نے فرانس ،اطالیہ اور تمام مسیحی دنیا میں قرون وسطی کے فلسفہ کے حیاء نو کو ممکن بنایا ۔ "([24])
اسی حوالے سے جارج برناڈشا اسلامی تہذیب کے پھیلاؤ کے بارے میں یہ تک کہتےہیں کہ’’انیسویں صدی ہی میں کار لائل،گبن اور گوءٹے ایسے دیانت دار مفکروں نے محمد کے دین کی حقیقی قدرومنزلت جان لی تھی ۔ اس وقت کئی آدمیوں نے یہ دین اختیار کر لیا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ یورپ کے قبول اسلام کا عہد شروع ہو چکا ہے ۔ ‘‘([25]) تاریخ انسانی میں اسلام کے فکرو فلسفہ نے تہذیبی وتمدنی ارتقاء میں اہم کرادار دا کیا، کم و بیش ایک ہزار سال تک مختلف حالات میں اسلام کی اساسی فکر کی روشنی میں دنیا کے مختلف خطوں پر اسلام کا سیاسی اور معاشی نظام انسانی معاشرے کے لیے خوشحالی اور امن واستحکام کا باعث بنا رہا ۔ زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کا عمل جاری رہا ۔ لب لباب یہ کہ مسلمان تہذیب کا آغاز بھی کرتے ہیں اورتحفظ بھی ۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ انہوں نے مغرب کو اپنی ذہانت اور عملی کمال کے ثمر سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی ۔ انہوں نے علمی معاملات میں بھی یہی رویہ اختیار کیا ۔
عصر حاضر کی تہذیبوں سے سماجی ہم آہنگی
رواداری اور وسعت نظری
اسلام کا یہ امتیاز ہے کہ وہ انسانی دنیا کے ساتھ ہمہ گیریت کے نظرئیے پر تعلقات قائم کرنے کی تعلیم دیتا ہے کیونکہ ’’اسلام کے حق میں دوام کا وعدہ محض اسی بنا پر تھا کہ وہ انسانیت عامہ کا تصور پیش کرتا ہے مسلمان دراصل وہ ہے جس کے ذہن میں کل انسانیت کی گنجائش ہے ایک لحاظ سے اللہ پر ایمان لانے کے بھی یہی معنی ہیں ۔ ‘‘([26]) اسی ہمہ گیر فکر کی بنیاد پر عالمی سطح پر اقوا م عالم کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دینا اور انسانی بنیادوں پر ان کی مدد کرنا اور انسانی قدروں کے تحفظ اور آبیاری کے لیے آواز اٹھانا ۔ بین التہذیبی ہم آہنگی کے لیے ایک اہم حکمت عملی ہے ۔ اسلام چونکہ ایک مکمل تہذیبی اساس رکھتا ہے اور تمام انسانیت کی ترقی کا داعی ہے اور ایک مسلمان کی جدو جہد کا دائرہ بھی کل انسانیت کی فلاح وبہبود ہوتا ہے لہذا اپنی تہذیب سے ساری دنیا کے انسانوں کو روشناس کروانے کا اس سے بہتر کوئی لائحہ عمل نہیں ہے ۔
رسول اکرم ﷺ نے انفرادی سطح ہو یا اجتماعی معاملات غیر مذاہب اور اقوام کے ساتھ ہر طرح کا تعاون اور مدد فرمائی اُن کے جان ومال عزت وآبرو کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا اس سلسلے میں میثاق مدینہ ایک زبردست مثال ہے ۔ ابن ہشام نے اس معاہدے کا پورا متن نقل کیا ہے اس کی دفعہ۲ملاحظہ ہو :
ان بینھم النصح والنصیحۃ والبر دونالا ثم([27])
”یہود اور مسلمان کے درمیان دوستی اور خیر خواہی رہے گی برائی نہیں رہے گی ۔“
یہ رسول اکرم محمد ﷺ کی وسعت نظری اوررواداری کی یہ زبردست مثال ہے کہ انہوں نے یہودیوں سے کسی قسم کی کراہت اور تعصب کا اظہار نہیں کیا ۔ بلکہ اجتماعیت کے مفاد کی خاطر ان کے ساتھ کھلے دل کے ساتھ اتحاد کیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہودی مسلمانوں کی تہذیبی اقدار کے اثرات سے مستفید ہوئے انہیں قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا اور آپس میں سے بغض اور تعصبات میں کمی واقع ہوئی ۔ یہ معاہدہ رواداری کی روح رواں تھا ۔ اِس نے یثرب کی اُس ریاست میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کو ایک اجتماعیت کی لڑی میں پرو کر رکھ دیا تھا ۔’’مدینہ منورہ میں قیام کے بعد حضور ﷺ نے مہاجرین و انصار کی جانب سے مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور نسل و مذہب کے اختلاف کے باوجود سب کو تمدن اور تہذیب کی بنیاد پر ایک جماعت قرار دیا۔‘‘([28])
آپ ﷺ کی امن پسندی اور صلح جوئی کا اندازہ صلح حدیبیہ کے اس تاریخی واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جب انھوں نے عام معاشرتی امن اور استحکام کی خاطرغیر مسلموں کے ساتھ دب کر صلح گوارہ کی لیکن معاشرتی امن و سکون کو برباد ہونے سے محفوظ کر لیا ۔ ’’علماء سیرت لکھتے ہیں کہ صلح کا نتیجہ یہ نکلا کہ کفار اور مسلمانوں کے درمیان سلسلہء آمدروفت قائم ہو جانے سے اس قدر اسلام کی اشاعت ہوئی کہ تھوڑی ہی مدت میں کفار کی اکثر جماعتیں مشرف باسلام ہو گئیں اور اسلامی اخلاق اور حسنِ سلوک نے ان کو بہت مسخر کر لیا ۔ ‘‘([29]) حالانکہ خاتم الانبیاء ﷺ کی وسعت نظری اور روداری کا یہ عالم تھا کہ آپ نے’’نہ صرف کھلے ذہن کے ساتھ اسلام سے پہلے کے کئی عرب اطوار کو قبول کیا بلکہ مزید ارشاد فرمایا کہ اسلام میں دور جاہلیت کی اچھی باتوں پرعمل جاری رہے گا ۔"([30])
اسلام چونکہ عقل وشعور کا دین ہے لہذا رسول اکرم ﷺ نے کبھی بھی جبر کے ساتھ اسلام میں داخل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اس کی تعلیم دی بلکہ غور وفکر اور تحقیق وجستجو کا پورا موقع فراہم کیا ۔ اس کی تائید میں یورپی مفکر کیرن آرم سٹرانگ لکھتی ہیں ۔ ’’جب عیسائی ورقہ بن نوفل نے حضرت محمد ﷺ کو سچا نبی تسلیم کیا تھا تو پیغمبر خدا ﷺ اور نہ ہی خود اسے اپنی تبدیلی مذہب کی توقع تھی رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھی یہودیوں یا عیسائیوں کو اتنی دیر تک اللہ کا دین قبول کرنے کو نہ کہا جب تک کہ وہ خود اس کے خواہشمند نہ ہوئے کیونکہ ان کے پاس بھی مستند وحی تھی قرآن میں سابقہ انبیاء کے پیغامات کو منسوخ نہیں کیا گیا بلکہ انسانیت کے مذہبی تجربہ کے تسلسل کی ضرورت پر زور دیا گیا ۔ "([31])
رسول اللہ ﷺ کی سیرت مبارکہ کے اِن پہلووَں پر بھی غور کیا جائے تو آج بھی بین التہذیبی اور بین الثقافتی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اس قسم کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں ۔
عدم تشدد کی حکمت عملی
انسانی معاشرے میں متشدد نظریات علم وشعور کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ خصوصاً تہذیب وتمدن کی تشکیل میں جہاں علم وہنر شعور وعقل ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں وہاں انتہاپسندی ،ظلم وجبر اور تشدد زوال اور انسانوں کے درمیان تقارب اور ہم آہنگی کی بجائے نفرت تعصب اور دوریاں پیدا کرتے ہیں ۔ اسی طرح تہذیبوں اور تمدنوں کے درمیان جنگ اور کشمکش کو رواج ملتا ہے ۔ لہذا انسانی معاشرے میں بین التہذیبی اور بین الثقافتی ہم آہنگی اور تقارب کے لیے ضروری ہے کہ متشدد نظریات اور طرز عمل کی حوصلہ شکنی ہو ۔ یقیناً افہام اور تفہیم وہیں ہو سکتاہے جہاں عقل وشعور اور صبر وبرداشت کو دخل ہو ۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے: وَلَا تُفْسِدُوْفِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَحِھَا([32])
”اور دنیا میں صلح و امن چھا جانے کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔“
پھر ارشاد فرمایا وَاللہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَمِنَ الْمُصْلِح ([33]) اور اللہ فساد کرنے والے اور اصلاح کرنے والے ہر ایک کو جانتا ہے سو لوگوں کے لیے (خدا کی رحمت سے )دوری ہے ۔ مزید فرمایا: وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ([34]) ”اورزمین میں فساد نہ کرتے پھرو ۔“
قرآن حکیم کی اس فکر کو رسول اکرم ﷺ نے معاشرے میں عام کیا اور ایک مسلمان کو ایسے اخلاق وکردار کا حامل ہونے کی تلقین کی جس سے انسانی معاشر کے ارتقاء میں کوئی خلل پیدا نہ ہو سکے ۔ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے: المومن امتہ الناس علی اموالہم و انفسہم ([35])”مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جان و مال کے لحاظ سے امن پائیں ۔ “
رسول اللہ ﷺ نے اپنے عمل اور تعلیم کے ذریعے کل انسانیت کو سلامتی اور امن کا پیغام دیا اور ہر طرح کے تعصب سے پاک رہ کر انسانی رشتوں کے احترام کی تعلیم دی اور کل انسانوں کو امن وسلامتی کے سائے تلے جمع ہونے کی دعوت دی ۔ آپ ﷺ نے ہرقل کی طرف لکھے جانے والے خط مےں اس طرح ارشاد فرمایا فانی ادعوک بد عایۃ الاسلام اسلم تسلم ([36]) ”میں تمھیں اسلام کی طرف بلاتا ہوں ۔ اسلام قبول کر لو امن و سلامتی میں رہو گے ۔“
آپ ﷺ کی یہ دعوت دراصل عالمی سطح پر ایک دوسرے تہذیب اور ثقافت کی طرف دوستی اور سلامتی کا پیغام تھا جس کے زیر سایہ ایک جاندار اور انسان دوست تہذیب کو پروان چڑھانے کا جذبہ کار فرما تھا ۔ ہمارے سامنے یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ صلح کو اہمیت دی ہر طرح کے تنازعات کو آپ ﷺ نے احسن طریقے سے حل کیا آپ نے قرآن حکیم کے اس حکم ’’وَاصْلِحُ خِیرٌ‘‘ ([37]) اور صلح بہر حال بہتر ہے کوہمیشہ مد نظر رکھا ۔
بنو قریظہ کے یہودیوں کے ساتھ آپ ﷺ کا معاہدہ بھی اس کی ایک اعلیٰ مثال ہے جس کے الفاظ ہیں: ”یہودیوں کی مدد اور اعانت کیجائے گی ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا نہ ان کے خلاف کسی دشمن کو مدد دی جائے گی یہودی اپنے مذہب پر قائم رہیں گے اور مسلمان اپنے مذہب پر اور اگر کوئی حملہ کرے گا تو ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔“([38]) ۴/ہجری مطابق ۲۲۶ء میں آپ ﷺ نے سینٹ کیتھرائن متصل کوہ سینا کے راہبوں اور تمام عیسائیوں سے ایک معاہدہ فرمایا جواہل کتاب کے ساتھ حریت ،مساوا ت وسعت نظری کی عالمگیر مثال پیش کرتا ہے اس میں یہ بیان کیا گیا کہ:”کوئی مسلمان ان احکام کی خلاف ورزی کرے گا تو وہ خدا کے عہد کو توڑنے والا اس کے احکام کے خلاف کرنے والا اور اپنے دین کا ذلیل کرنے والا خیال کیا جائے گا اس حکم کی رو سے خود پیغمبر ان کے ذمہ دار ہوئے اور نیز اپنے پیرو کاروں کو تاکید کی کہ وہ عیسائیوں کے گرجاءوں ،راہبوں کے مکانوں اور نیز زیارت گاہوں کو ان کے دشمن سے بچائیں اور تمام مضر رساں اور تکلیف رساں چیزوں سے پورے طور پر ان کی حفاظت کریں نہ ان پر بے جا ٹیکس لگایا جائے نہ کوئی اپنی حدود سے خارج کیا جائے نہ کوئی عیسائی اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا جائے نہ کوئی راہب اپنی خانقاہ سے نکالا جائے اور نہ مسلمانوں کے مکان اور مسجد بنانے کی غرض سے عیسائیوں کے گرجا مسمار کئے جائیں ۔ “ ([39])
پیغمبر اسلام ﷺ نے دیگر مذاہب اور اقوام کے ساتھ ہمیشہ رحم اور محبت کا رویہ رکھا اور ہمیشہ اس کی تلقین فرمائی ۔ یقیناً محبت اور ہمدردی کے رویئے انسانوں کی قربت اور ان کی آپس میں ہم آہنگی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے دوسروں پر رحم کرنے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا :
قال سعمت جریر بن عبدااللہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من لا یرحم لایرحم([40]) ”جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ۔“
دیگر اقوام کے رسم ورواج اور طریقہ عبادات کا احترام
تہذیبوں اور ثقافتوں سے کنارہ کشی سماجی دوڑ میں ہارنے کا سبب بنتی ہے ۔ کیونکہ انسان سماجی جدوجہد سے سیکھتا ہے قومی معاشرے میں یہ عمل قومی عروج کا باعث بنتا ہے اور عالمی معاشروں میں جہاں دوسری تہذیبیں مصروف عمل ہوتی ہیں ان سے بھی عصری تبدیلیوں کے ساتھ سیکھنے کا عمل جہاں عالمی معاشروں کو قریب لاتا ہے وہاں قومی زندگی کے اندر ایک مثبت تبدیلی آتی ہے اور بحیثیت قوم دوسری اقوام سے پیچھے رہنے کا سبب ختم ہو جاتا ہے ۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے دیگر تہذیبی اور ثقافتی رسوم وروج سے کراہت کا اظہار نہیں کیا بلکہ جو اُن کی صالح اور انسانیت کے لیے معاون اقدار تھیں ان کا احترام کیا ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ نے عیسائیوں کی ایک جماعت کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دی ۔ اس واقعہ کو ابن اسحاق نقل کرتے ہیں ۔
”جب نصاریٰ کا گروہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ ﷺ مسجد نبوی میں تشریف رکھتے تھے یہ لوگ بہت عمدہ لباس سے آراستہ تھے بعض صحابہ جنہوں نے ان کو دیکھا تھا فرماتے ہیں ہم نے ان کے بعد کوئی ایسا گروہ نہیں دیکھا جس وقت یہ لوگ آئے ہیں آپ ﷺ عصر کی نماز پڑھ رہے تھے ان کی نماز کا بھی وقت آیا یہ مسجد ہی میں نماز پڑھنے لگے آپ ﷺ نے فرمایا ان کو نماز پڑھنے دو کچھ نہ کہو ان لوگوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔“([41])
آپ ﷺ کے اس فیصلے اور طرز عمل کی روشنی میں علامہ ابن تیمیہ نے یہ فتویٰ دیا ۔ کہ اہل کتاب کی عبادت گاہ میں مسلمان نماز ادا کر سکتے ہیں ۔وتجوز الصلوٰۃ فی الکسینہ ([42])عیسائیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہوں میں مسلمان نماز پڑھ سکتے ہیں۔
آپ ﷺ کا یہ عمل مختلف تہذیبوں کے مابین ہم آہنگی کے لیے ایک زبردست مثال ہے کہ آپ نے اپنی عبادت گاہ میں انہیں اپنے طریقے سے عبادت کرنے کی اجازت دی ۔ ’’ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ قومی ہو یا بین الاقوامی، جو مسلمانوں کے زیر سایہ ہو“ غیر مسلموں کے لیے اس امر کی پوری آزادی تسلیم کر لی ہے کہ وہ اپنے شعائر دینی قائم کریں ۔ اپنے نقائص اور معابد میں اپنی مذہبی ریت رسم پورے اطمینان اور بے فکری کے ساتھ انجام دیں۔ غیر مسلموں کو اسلام نے اس کی بھی اجازت دی ہے کہ وہ اپنے معا ملات اور احوال شخصی پرسنل لاء میں اپنے احکام کی پوری آزادی کے ساتھ پیروی کریں ۔ اس رواداری اور اسلامی طرز عمل اور حریت اعتقاد کی بنےاد رسول اللہ ﷺ کا وہ ارشاد گرامی ہے ۔ جو آپ ﷺ نے ذمیوں کے بارے میں فرمایا تھا ۔ یعنی ہم اگر راحت میں ہیں تو وہ بھی آرام اٹھائیں گے ۔ ہم اگر دکھ میں ہیں تو وہ بھی مصیبت برداشت کریں گے ۔ جتنے عہد نامے غیر مسلموں سے کئے گئے ان میں جہاں ان کی حرمت ، ذات و مال تسلیم کی گئی ۔ وہاں ان کی عقائد اور اقامت شعائر کی آزادی بھی مانی گئی۔“ ([43])
تہذیبی اقدار ہمیشہ کسی نہ کسی بانی ،حکیم ،پیشوا ،اور مقدس ہستی کے ذریعے پروان چڑھتی ہیں ۔ یقیناً ہر قوم اپنے بزرگوں یا بانیان کا احترام کرتی ہے ۔ انسانی معاشرے میں ہر دور میں اور ہر علاقے میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہے جو انسانوں کی تہذیبی اور تمدنی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ۔ کیو نکہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے: اِنَّمَآاَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ ([44]) ”تم صرف خبردار کردینے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک راہ بتادینے والا ہے ۔“پھر ارشاد ہوتا ہے: وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّاخَلَافِیْہَا نَذَیْرٌ ([45]) ”اور کوئی امت ایسی نہیں ہے جس میں کوئی ڈرانے والانہ آیاہو ۔“
لہذا اس قرآنی حکم کی روشنی میں پیغمبر اسلام ﷺ نے دیگر اقوام کے مذہبی پیشواؤں کو کسی بھی قسم کی طعن زنی یا بے ادبی کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ تاریخ کے حوالے سے جن جن بزرگوں نے انسانی معاشرے کے ارتقاء میں کردار ادا کیا ان کا ادب احترام روا رکھا ۔ آپ ﷺ کا یہ طرز عمل دوسری تہذیبوں اور اقوام کے ساتھ یک جہتی اور ہم آہنگی کے لیے ایک اہم قدم تھا ۔ جو فی زمانہ ہمارے لیے بھی مشعل راہ ہے ۔ آج بھی اگر کسی بھی خطے یا بر اعظم سے تعلق رکھنے والی قوم کے حکماء،مذہبی علماء،جو کہ انسانیت کے لیے زندگی کے مختلف شعبوں میں کار ہائے نمایاں انجام دے چکے ہیں یا دے رہے ہیں ان کا ادب احترام ملحوظ خاطر رکھا جائے اس سے بین التہذیبی اور بین الثقافتی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا اور تہذیبوں کے درمیان جو دُوری ہے اس کا تدارک بھی ہو سکے گا نیز اسلام کی آفاقیت اور فلسفہ وفکر بھی دوسری اقوام کوسمجھانے کا ماحول پیدا ہو سکے گا ۔
معاشرتی تعلقات میں فراخدلی
معاشرتی زندگی میں ہم آہنگی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ سماجی طبقات کے ساتھ فراخدلانہ میل جول رکھا جائے اور کسی بھی قسم کی کراہت اور تعصب کو دل میں جگہ نہ دی جائے ۔ لہذا قرآن حکیم نے اسی وجہ سے اہل کتاب کے کھانے کو حلال قرار دیا ہے اور اس حوالے سے کسی قسم کی کراہت کو ختم کر دیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ ([46])
”اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے۔“
اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابو بکر جصاص فرماتے ہیں :روی عن ابن عباس و ابی الدار داء والحسن و مجاہد و ابراھیم و قتادہ والسدی انہ ذباءحھم وظاھرہ یقتضی ذلک لان ذباءحھم من طعامھم ولوا ستعملنا اللفظ علی عمومہ لا نتظم جمیع طعامھم من الذباءخ و غیر ھا و الاظھران یکون المداد الذبائح خاصتہ ([47]) ”ابن عباس ،ابو درداء ،حسن ،مجاہد ابراہیم،قتادہ اور اسدی سے مروی ہے کہ اس آیت میں طعام سے مراد غیر مسلموں کا ذبیحہ ہے اور ظاہر کلام سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے اس لیے کہ ذبائح اور طعام لازم ملزوم ہیں اور اگر اس لفظ کا ہم عمومی اعلان کریں تو تمام کھانے جن میں ذبائح وغیرہ بھی شامل ہیں حلال ماننا پڑیں گے لہذا ظاہر تر بات یہ ہے کہ اس جگہ طعام سے مراد ذبیحہ ہے ۔“
عرب مفکر عفیف طبارہ سماجی زندگی میں فراخدلانہ اشتراک عمل کے حوالے سے اسلام کے مزاج پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :
ومن التسامح فی الاسلام اباحتہ طعام اھل الکتاب وتحلیل ذبائحھم باحتہ للمسلم ان یتزوج من نسائھم قال اللہ تعالیٰ وطعام الذین اوتواالکتاب حل لکم وطعامکم حل لھم والمحصنات من المؤمنات والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم(المائدۃ:۵) والمواکلۃ والمصاھرۃ تدعو للمحبۃ وحسن المعاشرۃ والاخلاص فی المعاملۃ ۔ ومن التسامح ایضاً تسمیتھم باھل الذمۃ فلفظ الذمۃ معناہ ذمۃ اللہ وعھدہ ورعایتہ فورد الحدیث فی التوصیۃ بھم قولہ ﷺ من آذی ذمیا فنا خصمہ ومن کنت خصمہ خصمتہ یوم القیامۃ ([48])
”دین اسلام میں رواداری اور وسعت النظر ی کی ایک اور دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے اہل کتا ب کے کھانے اور ذبیحوں کو جائز قرار دیا ہے اور تو اور یہاں تک وسعت النظری کا مظاہرہ کیا ہے کہ ایک مسلمان مرد کو کتابی خواتین سے شادی کی اجازت دی گئی ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے ۔ ’’اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا انکے لیے حلال ہے ۔ اور حلال ہیں تمہارے لیے پاک دامن عورتیں مسلمان عورتوں میں سے اور پاک دامن عورتیں ان میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے۔“
یعنی کہ ایک دوسرے کے کھانے پینے میں شرکت، باہمی شادی بیاہ سے حسنِ معاشرت ،امن و آشتی اور محبت بڑھتی ہے ۔ جو ملٹی کلچر سوسائٹی میں فروغ امن کے ذمہ دار ہیں ۔اسی طرح رسول اکرم ﷺ نے معاشرتی زندگی میں جہاں دوسرے مذاہب کے افراد کے ساتھ وسعت اور رواداری کا رویہ ا اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے انہیں معاشرتی تعلقات استوار کرنے کی تعلیم فرمائی وہاں انہیں ان کی عزت اور ناموس کی حفاظت کی بھی تعلیم دی ۔ تاکہ اشتراک کے اس عمل میں اعتماد کی فضا پیدا ہو ۔ ارشاد نبویﷺ ہے:
ان اللہ تعالیٰ لم یحل لکم ان تد خلو ابیوت اھل الکتاب الا باذن ولا ضرب نساءھم ولا اکل ائمامرھم ([49])
”یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ بات تم پر حلال نہیں کی کہ اہل کتاب کے گھروں میں ان کی اجازت کے بغیر داخل ہو جاؤ یا ان کی عورتوں سے بدسلوکی کرو یا ان کے پھل کھا ڈالو ۔“
یقیناً یہ تہذیبی قربتوں اور ہم آہنگی کے حوالے سے ایک اہم قدم ہے ۔ رسول خدا ﷺ نے اہل کتاب پر جان ومال کے حوالے سے اعتماد کیا ہے اور ان سے باقاعدہ لین دین کیا ہے ۔
اس حوالے سے علامہ تیمیہ نے فتویٰ دیتے ہوئے یہ دلیل دی ہے کہ واذ کان الیھودی او النصرانی خبیراً با لطب جازلہ ان یستطیہ کما یجوزلہ ان یودحہ المال وان یعاملہ وقد استا جر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رجلا مشرکا لما ھاجرو کان ھادیا ماھر ابا لھدایتہ الی الطریق من المکۃ الی المدینۃ واءتمنہ علیٰ نفسہ وما لہ وقد روی ان الخارث ابن کلدۃ وکان کافراً امرھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یستطیوہ ([50])”اگر کوئی یہودی یا نصرانی فن طب میں ادراک رکھتا ہو تو یہ جائز ہے کہ اس سے معالجہ کرایا جائے جس طرح سے یہ بات جائز ہے کہ اس کے پاس مال بطور امانت رکھوایا جائے اور اس سے معاملت کی جائے خود رسول اللہ ﷺ نے ایک مشرک شخص کواجرت پر حاصل کیا جب آپ ﷺ نے ہجرت فرمائی تھی جو بڑا ماہر راہ شناس تھا تاکہ وہ مکہ سے مدینہ تک کے راستہ کی رہنمائی کرے اور اس کی امانت میں اپنی جان اور مال دے دیا نیز روایت ہے کہ حارث بن کلدہ(جو کافر تھا)کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ لوگ اس سے علاج کرائیں۔“
اسی طرح رسول اکرم ﷺ کا یہ طرز عمل اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ دوسری ثقافتوں اور تہذیبوں سے تقارب کے لیے ضروری ہے کہ معاشرتی تعلقات کو روا رکھا جائے اور ان امور میں جہاں اسلام نے قطعی حکم دیا ہے کے علاوہ کسی قسم کی کراہت کا مظاہرہ نہ کیا جائے ۔
مخالف اقوام کے ساتھ عدل کا برتاؤ
پیغمبر اسلام ﷺ نے غیر مسلم اقوام کے ساتھ کبھی بھی جارحانہ رویہ نہیں رکھا بلکہ آپ ﷺ نے ہمیشہ عادلانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ اسلام کے آفاقی اور عادلانہ نظام اور فکر کو عام کیا جائے اور دیگر تہذیبوں کو اس سے روشناس کروایا جائے ۔ اگر کبھی مخالفت کا سامنا ہو اور مخالف اقوام کے ساتھ معاملہ کرنا پڑے تو پھر بھی انتہائی احتیاط سے کام لینے کی تلقین کی گئی ہے ۔ قرآن حکیم نے اس کی سخت تاکید فرمائی ہے ۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے :
وَلَایَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قُوْمٍ عَلٰی اَلاَّ تَعْدِلُوْاطاِعْدِلُوْا ھُواَقْرَبُ لِلَّتَقْوٰیزوَاتَّقُواللّٰہَ ([51])
”اور کسی قوم کی سخت دشمنی بھی تمھیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو ۔ عدل کےا کرو (کہ) وہ پرہیز گاری سے نزدیک تر ہے اور اللہ سے ڈرا کرو۔“
اور پھررسول اللہ ﷺ نے اس پر عمل کر کے دکھایا ۔ آپ ﷺ نے جنگوں کے دوران بھی دامن عدل کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔ عہد نبوی میں دس سال میں دس لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح ہوا جس میں یقینا کئی ملین آبادی تھی اس طرح روزانہ تقریبا (۴۷۲ )مربع میل کے اوسط سے دس سال تک فتوحات کا سلسلہ ہجرت سے وفات تک جاری رہا ان فتوحات میں دشمن کا ماہانہ ایک آدمی قتل ہوا ۔ اسلامی فوج کا نقصان اس سے بھی کم ہے ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے (انا نبی الرحمہ انا نبی الملحمہ)” میں رحمت کا پیغمبر ہوں ، میں جنگ کا پیغمبر ہوں“ اس کا اس سے بہتر ثبوت کیا ہوسکتا ہے دشمن کے 70دمیوں کا مارا جانا ( جنگ بدر میں ) سب سے بڑی تعداد ہے یاد رہے کہ یہ عہد نبوی کی سب سے پہلی جنگ تھی ۔([52])
عصر حاضر میں پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت سے رہنمائی
پیغمبر اسلام ﷺ کے عطا کردہ اصولوں اور عمل کی روشنی میں عصر حاضر کی تہذیبوں اور ثقافتوں سے استفادے کی حکمت عملی وقت کا تقاضہ ہے اس میں ضروری ہے کہ اعتدال کی راہ اختیار کی جائے کھرے اور کھوٹے کو ، صالح اور غیر صالح کو اسلام کی دی گئی تعلیمات کی روشنی میں پرکھا جائے اور پر اسے اپنایا جائے ۔ لیکن وسعت نظری،عدم تشدد،رواداری،اور عدل کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر’’اسلام کو جدید صنعتی دنیا سے موافقت کے لیے لازمی اپنی فقہ تشکیل دینا ہو گی اور اکیسویں صدی میں جانے کے لیے شہری حقوق کا اپنا فلسفہ اور اقتصادی نظریہ وضع کرنا ہو گا۔ ‘‘ ([53]) اور مغرب کے مستشرقین کا یہ پروپیگنڈہ کے اب تہذیبوں کی جنگ ہے بقول مغربی محقق سموئیل پی ہنٹنگٹن کہ:’’اسلامی احیاء اور ایشیا کے معاشی تحرک سے ثابت ہوتا ہے کہ دوسری تہذیبیں زندہ اور جاندار ہیں اور کم از کم ممکنہ طور پر مغرب کے لیے خطرہ ہیں ۔ “([54])
یہ نظریہ کسی بھی صورت میں قابل قبول تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ کیونکہ بنیادی انسانیت کی مشترکہ اقدار ہر حال میں قائم رہتی ہیں اور ان ہی پر اتحاد اور اخوت قائم ہو سکتی ہے ۔ اسلام اور جدیدیت ہر گز متصادم نہیں ہے لیکن اسلام کا اخلاقی نظام ہر حال میں اپنی انفرادیت رکھتا ہے ۔ مسلمان دوسری تہذیبوں سے مشترکہ اقدار پر اتحاد کو یقینی بنا سکتے ہیں ۔ اس کا اقرار کرتے ہوئے مغربی مفکر لکھتا ہے :
”مسلمانوں کو اس بارے میں زیادہ آگاہی ہو جائے گی کہ وہ آپس میں کیا کیا مشترک رکھتے ہیں اور غیر مسلموں سے انہیں کون سی چیز ممتاز کرتی ہے ۔ نوجوانوں کی اکثریتی آبادی کی عمر بڑھنے کے ساتھ نظم ونسق سنبھالنے والی رہنماءوں کی نئی نسل ضروری نہیں بنیاد پرست ہو لیکن وہ اپنے پیش رووَں کی بہ نسبتاً اسلام سے زیادہ وابستگی رکھتی ہو گی ۔ اسلام کا احیاء معاشروں کے اندر اور ماورا معاشروں میں اسلام پسند سماجی ،ثقافتی ،معاشی اور سیاسی اداروں کا ایک جال چھوڑ جائے گا ۔ احیائے اسلام یہ بھی ثابت کر چکا ہو گاکہ اخلاقیات ،شناخت ،معانی اور عقیدے کے مسائل کے لیے اسلام حل ہے ۔ ‘‘ ([55])
اسلام اور جدیدیت سے متصادم نہیں ۔ متقی مسلمان سائنس کو ترقی دے سکتے ہیں ،فیکٹریوں میں بخوبی کام کر سکتے ہیں یا ترقی یافتہ ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں ۔ جدیدیت کے لیے کسی ایک سیاسی نظریئے یا اداروں کے مجموعے کی ضرورت نہیں :انتخاب ،قومی سرحدیں ،شہری تنظیمیں اور مغربی زندگی کےدوسرے امتیازی خواص معاشی نمو کے لیے لازمی نہیں ۔ عقیدے کی حیثیت سے اسلام مینیجمنٹ کنسلٹنٹس اور کسانوں دونوں کے لیے موزوں ہے ۔ جدیدیت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں شریعت کچھ نہیں کہتی ،جیسے زراعت سے صنعت کی جانب ،گاءوں سے شہر کی طرف یا سماجی استحکام سے سماجی بہاءو کی طرف تبدیلی ۔ نہ ہی یہ بڑے پیمانے پر تعلیم کو عام کرنے ،تیز مواصلات اور نقل وحمل کی نئی شکلوں یا صحت کی نگہداشت جیسے معاملات پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ ([56])
لہذا ضروری ہے کہ اسلام کی آفاقی اور ہمہ گیر تعلیمات کو پوری انسانیت تک پہنچا یا جائے اور انسان دوستی کی اس فضا میں انسانیت کا احیاء جو کہ تہذیبوں کے پیرائے میں موجود ہے اسے ہم آہنگی کے تناظر میں فروغ دیا جائے ۔
خلاصہ کلام
گزشتہ تمام تر تجزیہ اور بحث کا خلاصہ یہ سامنے آیا کہ نبی آخر زمان محمدﷺ کی حیثیت رحمت عالم کی تھی ۔ آپ ﷺ کا انتخاب خالق کائنات نے انسانی ارتقاء کی اس منزل یعنی بین الاقوامیت کی تکمیل کے لیے کیا تھاتاکہ انسانی دنیا اپنا فطری ارتقاء جاری وساری رکھ سکے اور عالمی سطح پر جو تہذیبی اور تمدنی زوال برپا تھا اس کا تدارک ہو سکے ،اور انسانیت جو ٹکڑوں میں بٹ کر زوال سے ہمکنار ہو چکی تھی انہیں پھر سے آپس میں شیر وشکر کیا جائے ۔ لہذا اسی مقصد کے حصول کے لیے رسول اللہ صلی ﷺ کو مبعوث کیا گیاتھا اور پھر آپ ﷺکی سیرت مبارکہ کے رہنما اصولوں سے پوری انسانیت کے لیے ایک گھر کے نظام سے لے کر پورے عالم کے نظام کی تشکیل میں رہبری کے واضح اصول ملتے ہیں ۔ بالخصوص معاشرتی تہذیب کے حوالے سے عالمگیر اصول وضوابط کومختلف سیرت نگاروں نے بہت خوبی سے گلدستہ کی صورت میں یکجا کردیا ہے ۔ آج میں آپ ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں انسانیت کا احیاء اور جدید تہذیبوں کے پیرائے کا جائزہ لیں تو ہمارے لیے بہت سے رہنماء پہلو اجاگر ہوسکتے ہیں ۔ بعض مفکرین کے نزدیک جدید تہذیب کا تصور وہ نئی ایجادات ہیں جسے مغربی تہذیب سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے ان جدید تہذیبی اثرات کو اسلامی حدود وقیود کی پابندی کرتے ہوئے قبول کرنے سے لے کر اختیار کرنے تک کے عمل میں انسانیت کی احیاء پوشیدہ ہے ۔ جیسا عمومی طور پر ہر معاملے میں بالخصوص غیر مسلم اور مغربی نئی تہذیبی ایجادات یعنی آلات جدیدہ کا استعمال کا استفادہ پوری دنیا میں بغیر تخصیص مذہب وملت ضرورت بن چکا ہے ۔ دین اسلام اور نبی علیہ السلام کی تعلیمات چونکہ عالمگیر ہیں اور یہ تہذیبوں کے مشترکہ مفادات کا نہ صرف تحفظ کرتے ہیں بلکہ آپس میں انسانی احیاء کے فروغ میں بہترین کردار بھی ادا کرتے ہیں ۔ لہذا ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ تعلیمات نبوی ﷺ کے تناظر میں اقوام عالم کے ساتھ تعلقات کے استحکام میں اعلیٰ اخلاقی قدروں کو بنیاد بناتے ہوئے مختلف تہذیبوں کے مثبت اثرات کو قبول کرنے سے معاشرے میں انسانی احیا ء اور وحدت کا تصور ابھر سکتا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ ۔سبط حسن، پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء، مکتبہ دانیال،2002،ص17۔18
- ↑ ۔ حامد حسن قادری،دبستان تاریخ اردو،مکتبہ کراچی،1966،ص344
- ↑ ۔ سر سید احمد خان،مقالات سر سید،ادبی ٹرسٹ لاہور،ج2،1962، ص3
- ↑ ۔ سموئیل پی ہنٹنگٹن ،تہذیبوں کا تصادم اور عالمی نظام کی تشکیل نو، ،ترجمہ:سہیل انجم،اوکسفرڈیونیورسٹی پریس،کراچی ، 2003،ص74
- ↑ ۔ جان لوئیس گیڈس (Toward the Post-Cold war world" foreign affairs, 70)کورنیلیونیورسٹی پریس،اتھاکا،1993ء،ص8-17
- ↑ ۔ محولہ بالا،تہذیبوں کا تصادم اور عالمی نظام کی تشکیل نو،ص45
- ↑ ۔ محمداحمدبن حنبل،الامام،مسند احمد، بیروت، داراحیاء التراث العربی،1993ء،باب 5،حدیث 411
- ↑ ۔ سرور،پروفیسر(افکارمولانا عبیداللہ سندھی )،حالات زندگی تعلیمات اور سیاسی افکار، المحمود اکیڈمی ،لاہور،1976ء ، ص228
- ↑ ۔ ایضاً ،ص54۔55
- ↑ ۔ ابو داود ،سنن ابن ماجہ،کنزالعمال ،مسند احمد،المعجم طبرانی،المکتب الاسلامی،بیروت 1985ء،حدیث نمبر 31138
- ↑ ۔ محولہ بالا،پاکستان میں تہذیب کا ارتقاءص134
- ↑ ۔ جصاص،علامہ،احکام القرآن تفسیر ،مطبوعہ مصر،س ن، ج2،ص401
- ↑ ۔ مولانا ابو الحسن ندوی،مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش،مجلس تحقیقات ونشریات اسلام،لکھنؤ، 1981ء، ص18
- ↑ ۔ القران،190۔191
- ↑ ۔ ترمذی، ابو عیسیٰ محمد بن السورہ ، جامع الترمذی ،مطبع العلمی،دہلی،1351ھ،باب ابواب العلم،نمبر1276
- ↑ ۔ نور احمد،مولوی ، مسلمانوں کے تہذیبی کارنامے،ترجمہ:رحمان مذنب،رحمان مذنب ادبی ٹرسٹ ،لاہور، 2002، ص106
- ↑ ۔ ایضاً،ص39
- ↑ ۔ ایضاً،ص235
- ↑ ۔ روش ندیم،پاکستان برطانوی غلامی سے امریکی غلامی تک،تخلیقات،لاہور،1993ء،ص5
- ↑ ۔ محولہ بالا،مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش،ص20
- ↑ ۔ سندھی، مولانا عبیداللہ ،شعور وآگہی(افادات مولانا سندھی) ،مکی دارالکتب،لاہور،1994،ص15
- ↑ ۔ ویلز، ایچ۔ جی۔،مختصر تاریخ عالم،ترجمہ:محمد عاصم بٹ،تخلیقات،لاہور،1996ص205
- ↑ ۔ ایضاً،ص205۔206
- ↑ ۔ ایضاً،ص206
- ↑ ۔ محولہ بالا،مسلمانوں کے تہذیبی کارنامے،ص233
- ↑ ۔ محولہ بالا،حالات ،تعلیمات،سیاسی افکار،ص94
- ↑ ۔ رحمانی، عبدالصمد، مولانا،پیغمبرعالم ﷺ ،دینی بک ڈپو ،دہلی،1961، ص217
- ↑ ۔ دہلوی، ملا واحدی ،حیات سرور کائنات ﷺ ،دفتر رسالہ نظام المشائخ ،کراچی،1953 ء ، ج 1،ص 202
- ↑ ۔ سیوہاروی، حفظ الرحمٰن ،مولانا،نورالبصرفی سیرت خیرالبشر،لاہور، سنی پبلیکیشنر،لاہور،1980ء،ص 122
- ↑ ۔ J.L. Esposito, Pakistani Quest for Islamic identity in Esposito (Ed) Islamic and 30 development religion and socio - political hang, p.143
- ↑ ۔ کیرن آرم سٹرانگ،خدا کی تاریخ،مترجم: یاسر جواد،نگارشات،لاہور،2004ء،ص132
- ↑ ۔ القرآن،56:7
- ↑ ۔ القرآن،220:2
- ↑ ۔ القرآن ،60:2
- ↑ ۔ ابن ماجہ، ابو عبداللہ محمد بن یزید ،سنن ابن ماجہ، دارالمعرفہ،بیروت، 1998ء ،ص 290
- ↑ ۔ عبد الرحمن ،قا ضی،شرح بخاری،ترتیب:افادات شبیر احمد عثمانی ،ادارہ علوم شرعیہ،کراچی،1973ء حدیث6 ، ج1، ص207
- ↑ ۔ القرآن ،128:4
- ↑ ۔ بخاری، ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل ،تفہیم البخاری ، دارالاشاعت ،کراچی،1985ء حدیث256، ج 3،ص387
- ↑ ۔ اسلام اور رواداری،ادارہ ثقافت اسلامی،لاہور،1955ء ،ص233
- ↑ ۔ محولہ بالا،تفہیم البخاری ،حدیث ۲۵۹، ج 3 ،ص387
- ↑ ۔ ابو محمدعبد الملک ، سیرۃ ابن ھشام ، مترجم: شیخ محمد اسماعیل پانی پتی ، اشرف پریس ،لاہور،1961 ،حصہ اول،ص43
- ↑ ۔ ابن تیمیہ ،امام، مختصر الفتاویٰ المصریہ،مطبوعہ مصر،س ن ،ص65
- ↑ ۔ ندوی،رئیس احمد جعفری،مولانا،اسلام اوررواداری ، ادارہ ثقافت اسلامی ،لاہور،1955ء،ص94-95
- ↑ ۔ القرآن، 7:13
- ↑ ۔ القرآن،24:35
- ↑ ۔ القرآن،5:5
- ↑ ۔ جصاص،علامہ،احکام القرآن تفسیر ،مطبوعہ مصر،س ن،ج2،ص394
- ↑ ۔ عفیف طبارہ ،روح الدین الاسلامی،مطبعۃ الجہاد ،بیروت،1962ء ،ص260
- ↑ ۔ ابو داؤدسنن ابو داؤد ،سلمان بن اشعث السجستانی ،ابو داؤد ،مترجم :خورشید عالم ،دارالاشاعت ،کراچی،س ن
- ↑ ۔ ابن تیمیہ ،مختصر الفتاویٰ المصریہ، مطبوعہ مصر ،صیضاً، ص 516
- ↑ ۔ القرآن،8:5
- ↑ ۔ حمیداللہ ،ڈاکٹر، عہد نبوی میں نظام حکمرانی،،مکتبہ ابراہیمیہ،حیدرآباد دکن ،1949ء ، ج 1،ص 265
- ↑ ۔ کیرن آرم سٹرانگ،مسلمانوں کا سیاسی عروج وزوال،نگارشات ،لاہور،2005،ص200
- ↑ ۔ جان لوئیس گیڈس(Toward the post .cold war world" foreign affairs 70)محولہ بالا،ص378
- ↑ ۔ ایضاً،ص149
- ↑ ۔ ڈینئیل پائپس,( In the name of God: Islam and political power) نیویارک،ص107-191
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 35 Issue 1 | 2020 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |