33
1
2019
1682060084478_883
96-107
http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/81
اللہ تعالیٰ نے انسان کو لا تعداد نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے عظیم نعمت انسانی جان ہے۔انسانی جان کو شریعت میں اتنی اہمیت حاصل ہے کہ ایک شخص کے قتل کو تمام انسانیت کا قتل اور ایک جان بچانے کو تمام انسانیت کا بچانا کہا گیا ہے۔‘‘جان’’اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اس لیے خود کشی کرنے اور خود کو ہلاک میں ڈالنے کی شریعت میں انتہائی مذمت کی گئی ہے تاہم اسلام کے دفاع کے لیے، اللہ تعالیٰ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے اور مسلمانوں کی جان ،مال،عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے اگر کوئی شخص اپنی جان قربان کر دے تو اس کے لیے جنت کی بشارت ہے اور ایسے شخص کو ’’شہید‘‘کہا جاتا ہے۔ہر قوم و مذہب میں کسی عظیم مقصد کے لیے اپنی جان قربان کرنے اور شہید ہونے کا تصور پایا جاتا ہے۔ انسان کی زندگی میں بعض اشیاء اس کے نزدیک اس قدر محبوب ہوتی ہیں کہ وہ ان کی خاطر اپنی جان دینے اور دوسرے کی جان لینے سے گریز نہیں کرتا۔وہ شخص جو اپنی قوم ،مذہب یا سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کر دے اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس کا اس قدر احترام کیا جاتا ہے آئندہ آنے والی نسلیں اس کے طریقے کو اختیار کرتے ہوئے اپنی جان قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق شہادت ایک عظیم رتبہ ہے جس کی بدولت شہید کو اللہ کی رضا کا مقام جنت عطا ہوتا ہے۔مقام شہادت اس قدر لائق تعظیم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود شہادت کی تمنا کا اظہار ان کلمات سے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي أَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَأُقْتَلُ ثُمَّ أَغْزُو فَأُقْتَلُ ثُمَّ أَغْزُو فَأُقْتَلُ ([1])
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے میں یہ اس بات سے شدید محبت کرتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں جہادد کروں پھر شہید کردیا جاؤں پھر جہاد کروں پھر شہید کردیا جاؤں پھر جہاد کروں پھر شہید کر یا جاؤں۔‘‘
نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق شہادت کی حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے خلوص نیت کے ساتھ اللہ کے لیے اپنی جان قربان کر دے۔جس طرح قربانی کے جانور میں اللہ کو جانور کا گوشت و خون مطلوب نہیں ہوتا اسی طرح شہات میں بھی خون نہیں بلکہ اخلاص اور رضا و تسلیم مطلوب ہے جس کے پیش نظر ایک مجاہد اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کرتا ہے۔اسی لیے قیامت کے دن ان لوگوں کا خون رائیگاں جائے گا جنہوں نے خود کو شہید کہلوانے کے لیے دنیاوی مقاصد کے تحت اپنی جان دی ہو گی اور اللہ رب العزت کے نزدیک آخرت میں ان کے لیے کوئی جزاء نہ ہوگی۔ حدیث شریف میں ہے:
وَيُؤْتَى بِالَّذِي قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ فِي مَاذَا قُتِلْتَ فَيَقُولُ أُمِرْتُ بِالْجِهَادِ فِي سَبِيلِكَ فَقَاتَلْتُ حَتَّى قُتِلْتُ فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى لَهُ كَذَبْتَ وَتَقُولُ لَهُ الْمَلَائِكَةُ كَذَبْتَ وَيَقُولُ اللَّهُ بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ فُلَانٌ جَرِيءٌ فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ ثُمَّ ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رُكْبَتِي فَقَالَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أُولَئِكَ الثَّلَاثَةُ أَوَّلُ خَلْقِ اللَّهِ تُسَعَّرُ بِهِمْ النَّارُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ([2])
’’جو اللہ کی راہ میں شہید ہوا تھا اس کو بلوایا جائے گا اللہ اس سے فرمائے گا تو کس راہ میں قتل کیا گیا؟وہ کہے گا مجھے تیری راہ میں جہاد کا حکم دیا گیا تو میں سے قتال کیا یہاں تک کہ میں شہید ہو گیا اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا اور اللہ فرمائے گا بلکہ تو نے یہ ارادہ کیا کہ یہ کہا جائے کہ فلاں بہت بہادر تھا اورتجھے یہ کہا گیا پھر رسول رسول اللہ ﷺ نے(راوی کہتے ہیں)میرے گھٹنے پر ہاتھ مار کر فرمایا اے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ تینوں اللہ کی پہلی مخلوق ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جہنم میں داخل فرمائے گا۔‘‘
شہید کی تعریف
شہید عربی زبان میں حاضر ہونے والے اور گواہ کو کہا جاتا ہے۔اصطلاح شریعت میں شہید کو شہید اس لیے کہتے ہیں کہ شہادت کے وقت ملائکہ اس کے اکرام میں حاضر ہوتے ہیں اور اس کی روح کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر کیا جاتا ہے۔قیامت کے دن اس کا خون اس کے لیے گواہی دے گا نیز یہ کہ اللہ کی رضا کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والا در حقیقت اسلام کی حقانیت پر گواہی یتا ہے۔فقہاء نے شہید کی تین اقسام بیان کی ہیں۔شہید کامل،شہید الآخرۃ اور شہید الدنیا۔شہید کامل سے مراد وہ شہید ہے جو دنیا اور آخرت کے اعتبار سے شہید قرار پائے ۔اس صورت میں اس کو غسل نہیں یا جائے گااور اسی کے لباس میں اسے کفن دیا جائے گا البتہ اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی اور اللہ تعالیٰ کے پاس اس کے لیے اجر عظیم ہے۔شہید دنیا سے مراد وہ شخص ہے جس کاجان دینااللہ کی رضا کے لیے نہ ہو بلکہ مال غنیمت،شہرت یا عصبیت کے لیے جان دی ہو۔ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی اجر نہیں۔شہید آخرت سے مراد وہ مسلمان ہیں جو دنیاوی احکامات کے اعتبار سے تو شہید نہیں یعنی ان کو غسل بھی دیا جائے گا۔ان کی تکفین بھی عام طریقے سے ہو گی اور ان کی نماز جنازہ بھی ادا کی جائے البتہ آخرت میں ان کو شہید کا ثواب عطا کیا جائےگا۔جیسے ایک شخص کا پانی میں ڈوب کر مرنا یا جنگ میں زخمی ہونے کے بعد اپنے بستر پر مرنا۔[3]حدیث شریف میں ہے:
وعن جابر بن عتيك قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " الشهادة سبع سوى القتل في سبيل الله : المطعون شهيد والغريق شهيد وصاحب ذات الجنب شهيد والمبطون شهيد وصاحب الحريق شهيد والذي يموت تحت الهدم شهيد والمرأة تموت بجمع شهيد " . ([4])
’’از جابر بن عتیک مروی ہے کہ کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :شہات کی اللہ کی راہ میں قتل کیے جانے کے علاوہ ساتھ اقسام ہیں۔طاعون زدہ شہید ہے اور پانی میں غرق ہونے والا شہید ہے اور پھیپھڑوں کے مرض والا اور پیٹ کے مرض میں مرنے والا اور جل کر مرنے والا اور وہ جو دیوار کے نیچے آکر مر جائے اور عورت جو حاملہ ہو مر جائے تو شہید ہے۔‘‘
شہید کون ہے اور کون نہیں اس کے بارے میں فقہاء نے تفصیلاً کتب فقہ میں بحث کی ہے۔یہاں ہم صرف اس بات کا ذکر کریں گے کہ کیا شہید ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ مقتول ہونے کی اضافت دشمن کی طرف ہو یا نہیں؟
کیا شہید ہونے کے لیے دشمن کے ہاتھوں قتل ہونا ضروری ہے؟
کتب فقہ میں شہید کامل کے لیے کچھ شرائط ذکر کی گئی ہیں۔جیسے مقتول کا مظلوما قتل ہونا،مسلمان ہونا،وغیرہ وغیرہ۔ان شرائط کی بنیاد پر جب کسی کے بارے یہ کہا جائے کہ یہ شہید نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر شہید الدنیا و الآخرۃ کے احکامات جاری نہ ہوں گے بلکہ دنیاوی اعتبار سے اسے غسل بھی دیا جائے اور اس کی تکفین کا بھی اہتمام ہو گا۔ شہید کامل کے حوالے سے کتب فقہ میں ایک بحث یہ بھی ہے کہ کیا میدان جنگ میں مسلمان کے شہید ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی موت کے حصول کی نسبت دشمن کے فعل کی طرف ہو؟ جوہرہ نیرہ میں ہے کہ شہید وہ ہے جس کو براست کفار قتل کریں یا اس کے قتل کا سبب بنیں۔پھر اس کے بعد مصنف لکھتے ہیں:
وَكَذَا الْمُسْلِمُونَ إذَا انْهَزَمُوا فَأَلْقَوْا أَنْفُسَهُمْ فِي الْخَنْدَقِ أَوْ مِنْ السُّورِ فَمَاتُوا لَمْ يَكُونُوا شُهَدَاءَ إلَّا أَنْ يَكُونَ الْعَدُوُّ هُمْ الَّذِينَ أَلْقَوْهُمْ بِالطَّعْنِ أَوْ الدَّفْعِ أَوْ الْكَرِّ عَلَيْهِمْ . ([5])
’’اور اسی طرح اگر مسلمان شکست کھا جائیں اور خود کو خندق میں گرا دیں یا دیوار سے پھینک دیں اور مر جائیں تو و ہ شہید نہیں ہوں گے مگر یہ کہ دشمن ان کو نیزہ مار کر یا دھکا دے کر یا مار کر ڈال دے۔‘‘
یعنی اگر مسلمانوں نے کسی معرکہ میں شکست کھانے کے بعد اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کرنے کے بجائے خود کو خندق میں پھینک دیا یا دیوار سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی تو اس صورت میں انہیں شہید نہیں کہا جائے گا۔ان کا یہ عمل اس وقت ان کی بزدلی پر دلالت کرتا ہے ۔ان کو چاہئے تھا کہ وہ خودکشی کرنے کے بجائے دشمن سے لڑتے لڑتے شہید ہوجاتے کیونکہ ان کی موت کا سبب کفار نہیں بنے اس لیے ان کا شمار شہداء میں نہیں ہو گا۔البتہ اگر کفار نے خو ان کو دھکا دے کر خندق میں ڈال دیا تو اس صورت میں وہ شہداء میں شمار ہوں گے۔اس مسئلہ میں امام محمد اور امام ابو یوسف علیہما الرحمۃ کےمابین اختلاف ہے۔امام محمد کے نزدیک اگر کوئی شخص دشمن پر حملہ آور ہو اور اپنے گھوڑے سے گر مر جائے تو اس صورت میں وہ شہید نہیں ہو گا۔ان کے اس بیان کی بنیا اس بات پر ہے :
إذَا صَارَ مَقْتُولًا بِفِعْلٍ يُنْسَبُ إلَى الْعَدُوِّ كَانَ شَهِيدًا ، وَإِلَّا فَلَا([6])
‘‘جب وہ مقتول ہو ایسے فعل کی وجہ سے جو منسوب ہو دشمن کی طرف تو وہ شہید ہو گا ورنہ نہیں۔’’
یعنی مرنے والے کے قتل کی نسبت کا دشمن کی طرف ہونا ضروری ہے اگر اس کی نسبت دشمن کی طرف نہ ہو تو اسے شہید کامل قرار نہیں دیا جائے۔امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے نزدیک میدان جنگ میں مسلمان کی موت کے فعل کی نسبت دشمن کی طرف ہونا ضروری نہیں ۔آپ کی رائے کے بارے میں علامہ کاسانی لکھتےہیں:
وَالْأَصْلُ عِنْدَ أَبِي يُوسُفَ أَنَّهُ إذَا صَارَ مَقْتُولًا بِعَمَلِ الْحِرَابِ ، وَالْقِتَالِ كَانَ شَهِيدًا ، وَإِلَّا فَلَا سَوَاءٌ كَانَ مَنْسُوبًا إلَى الْعَدُوِّ ، أَوْ لَا([7])
’’اور ابو یوسف کے نزدیک اصل یہ ہے کہ جب وہ دوران جنگ اور لڑائی قتل کر دیا جائے تو وہ شہید ہو گا چاہے اس فعل کی نسبت دشمن کی طرف ہو یا نہیں۔‘‘
قاضی خان کی شرح الزیادات میں ہے:
قال ابو یوسف رحمہ الله لا یغسل اذا صار مقتولا فی ھذہ القتال سواء کان مضافا الی العدو او لم یکن([8])
’’ابو یوسف علیہ الرحمۃ نے فرمایا :اسے غسل نہیں دیا جائے گا جب وہ اس قتال میں مقتول ہو چاہے اس کی نسبت دشمن کی طرف ہو یا نہ ہو۔‘‘
یعنی آپ کے نزدیک شہید ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ مسلمان کے قتل کا سبب بالواسطہ یا بلا واسطہ دشمن کا فعل ہو۔مسلمان جنگ میں کسی بھی طور پر جنگ و قتال میں جاں بحق ہو وہ شہید کہلائے گا چاہے اس کی موت کی نسبت دشمن کی طرف ہو یا نہ ہو۔بہر صورت اسے شہید شمار کیا جائے گا اور اس پر دنیاوی اعتبار سے شہید کے احکامات جا ری ہوں گے۔
اس بارے میں امام حسن بن زیاد کی رائے یہ ہے :
وَالْأَصْلُ عِنْدَ الْحَسَنِ بْنِ زِيَادٍ أَنَّهُ إذَا صَارَ مَقْتُولًا بِمُبَاشَرَةِ الْعَدُوِّ ، بِحَيْثُ لَوْ وُجِدَ ذَلِكَ الْقَتْلُ فِيمَا بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ فِي دَارِ الْإِسْلَامِ لَا يَخْلُو عَنْ وُجُوبِ قِصَاصٍ ، أَوْ كَفَّارَةٍ كَانَ شَهِيدًا ، وَإِذَا صَارَ مَقْتُولًا بِالتَّسَبُّبِ لَمْ يَكُنْ شَهِيدًا([9])
’’حسن بن زیاد کے نزدیک اصل یہ ہے کہ جب وہ براہ راست دشمن کے فعل سے قتل ہو تو وہ شہید ہے اگر وہ مسلمانوں کے درمیا ن دار الاسلام میں مقتول پایا جائے تو ووہ وجوب قصاص یا کفارہ سے خالی نہ ہوگا اور جب وہ کسی سبب سے مقتول ہو تو وہ شہید نہیں ہو گا۔‘‘
یعنی آپ کے نزدیک مسلمان کی موت کا سبب براہ راست دشمن سے قتال کرنا ہو ۔اگر مسلمان دشمن سے براہ راست قتل کے بجائے کسی اورسبب سے مر جائے تو اس صورت میں آپ کے نزدیک وہ شہید نہیں ہو گا۔
اگر امام محمد کے اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو مسلمان فوج کے وہ تمام لوگ جو جنگ میں کسی ہوائی یا بحری جہاز کے حادثہ میں جاں بحق ہو جائیں ان میں سے کوئی بھی شہید نہیں ہو گا۔جنگ کے دوران بہت سےفوجی پل بنانے،سامان رسد لے جانے اور مرمت وغیرہ کے کام کے دوران یا سفر کی شدت کی وجہ سے یا گاڑی سے گر کرمر جاتے ہیں۔اس اصول کی بنیاد پر ان میں سے کسی کو بھی شہید قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ان کی موت کے فعل کی نسبت دشمن کے فعل کی طرف نہیں۔ اسی طرح امام حسن نے تو تسبب کی بھی نفی کر دی جس کے نتیجے میں بہت سے وہ مسلمان فوجی جو دشمن کے بچھائے ہوئے بارود کی زد میں آکر یا دشمن کی کھودی ہوئی خندق میں خو دگر کر یا مسلمانوں کے جنگی مال کی حفاظت کے دوران جاں بحق ہوتے ہیں ان میں سے کوئی بھی شہید نہ ہو گا۔ہماری رائے میں اس حوالے سے حضر ت امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے مذہب میں توسع ہے۔یہ بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جنگ میں عمل حراب و قتال میں مسلمان کسی بھی طور پر مقتول ہو چاہے اس کی موت کے فعل کی نسبت دشمن کی طرف ہو یا نہ ہو وہ مجاہد بہر صورت شہید کہلائے گا۔لہذا شہید وہ شخص ہو گا جو جنگ میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے اللہ کی راہ میں کسی بھی طور پر مارا جائے۔اس مسئلہ میں امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے قول پر ہی فتویٰ دینا چاہئے تا کہ اس سے مسلمان فوج کا مورال بلند ہو اور ان میں اللہ کی راہ میں جان دینے کا جذبہ بیدار رہے۔
شہادت میں نیت کا بہت دخل ہے۔ایک انسان اگر چہ بظاہر شہید ہو لیکن اگر اس کی نیت اللہ کی رضا کی نہیں تو اگر چہ لوگ اسے شہید کہتے رہیں یا اس کو طمغے دیئے جاتے رہیں وہ عند اللہ شہید نہ ہو گا۔ہم یہاں چند احادیث طیبہ نقل کریں گے جس سے یہ بات مزید واضح ہو جائے گی۔حضرت امام ابو داؤد روایت فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سَلَّامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَبِي سَلَّامٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَغَرْنَا عَلَى حَيٍّ مِنْ جُهَيْنَةَ فَطَلَبَ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ رَجُلًا مِنْهُمْ فَضَرَبَهُ فَأَخْطَأَهُ وَأَصَابَ نَفْسَهُ بِالسَّيْفِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخُوكُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ فَابْتَدَرَهُ النَّاسُ فَوَجَدُوهُ قَدْ مَاتَ فَلَفَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثِيَابِهِ وَدِمَائِهِ وَصَلَّى عَلَيْهِ وَدَفَنَهُ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَشَهِيدٌ هُوَ قَالَ نَعَمْ وَأَنَا لَهُ شَهِيدٌ([10])
’’ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے جہینہ کے ایک محلے پر حملہ کیا تو مسلمانوں میں نے ایک شخص نے ان کے ایک آدمی کو للکارا تو اس نے جب وار کیا وہ خطا گیا اور وہ تلوار کا وار اس کے خود لگا ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے مسلمانو! تمہارا بھائی! لوگ اس کی طرف لپکے وہ مر چکا تھا رسول اللہ ﷺ نے اس کو لپیٹا اس کے کپڑوں میں اور اس کے خون میں اور اس پر نماز جنازہ ادا کی اور اسے دفن کیا ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا یہ شہید ہے؟فرمایا :ہاں اور میں اس پر گواہ ہوں۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ بظاہر اس صحابی رسول ﷺ نے غلطی سے خودکشی کا ارتکاب کیا تا ہم رسول اللہ ﷺ نے اسے اس کی نیت کے درست ہونے کی وجہ سے شہید قرار دیا۔اس مسئلہ میں اس کی خطا کو عذر تسلیم کرتے ہوئے اس کی نیت کا اعتبار کیا گیا اور نبی کریم ﷺ نے انہیں شہید قرار دیا کیونکہ اس کا مقصود اصلی دشمن کو قتل کرنا تھا نہ کہ خودکشی کرنا۔اس سے یہ معلوم ہوا کہ حصول شہادت میں اصل نیت کا اعتبار ہے۔حضرت امام مسلم علیہ الرحمۃ غزوہ خیبر کا ایک واقعہ حضرت عامر بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
كَانَ سَيْفُ عَامِرٍ فِيهِ قِصَرٌ فَتَنَاوَلَ بِهِ سَاقَ يَهُودِيٍّ لِيَضْرِبَهُ وَيَرْجِعُ ذُبَابُ سَيْفِهِ فَأَصَابَ رُكْبَةَ عَامِرٍ فَمَاتَ مِنْهُ قَالَ فَلَمَّا قَفَلُوا قَالَ سَلَمَةُ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي قَالَ فَلَمَّا رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاكِتًا قَالَ مَا لَكَ قُلْتُ لَهُ فَدَاكَ أَبِي وَأُمِّي زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ قَالَ مَنْ قَالَهُ قُلْتُ فُلَانٌ وَفُلَانٌ وَأُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ كَذَبَ مَنْ قَالَهُ إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ ([11])
’’حضرت عامر رضی اللہ عنہ کی تلوار چھوٹی تھی ۔آپ نے اس سے ایک یہودی کی ٹانگ پر وار کیا تا کہ اسے قتل کریں ۔ آپ کی تلوار کی دونوں طرف کی دھار آپ ہی کو لگی جس سے حضرت عامر رضی اللہ عنہ کا گھٹنا زخمی ہو گیا اور آپ اس سے شہید ہو گئے۔راوی کہتے ہیں کہ جب فوج واپس جانے لگی تو سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اور وہ میرا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مجھے دیکھا کہ میں خاموش ہوں تو فرمایا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ﷺ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر فدا ہو جائیں ۔لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت عامر رضی اللہ عنہ کے اعمال ضائع ہو گئے ۔آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کس نے کہا ہے ؟ میں نے عرض کی : فلاں بن فلاں نے اور اسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ نے ۔آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے بھی یہ کہا ہے اس نے جھوٹ کہا اس کے لیے دو اجر ہیں ۔آپ ﷺ نے اپنی دونوں مبارک انگلیوں کو جمع فرمایا اور فرمایا کہ اس نے تو مجاہد بن کر جنگ کی ہے ۔‘‘
اس حدیث شریف سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کسی مجاہد سے میدان جہاد میں دشمن پر حملہ کرتے ہوئے غلطی ہو جائے اور دشمن پر وار کرتے ہوئے بظاہر وہ خود کشی کا مرتکب ہو تو اس حدیث کے مطابق اس کی موت کو حرام موت قرار دینا درست نہیں۔جو ایسے مجاہد کی موت کو خودکشی قرار دیتے ہوئے اس کے اعمال برباد ہونے کی خبر دیں ان کی تکذیب رسول ﷺ نے خود فرمائی ہے۔ اسی طرح حضرت امام بخاری فرماتے ہیں کہ اہل اسلام اور اہل شرک کے ایک معرکہ میں ایک شخص بہت زیادہ بہادری سے لڑ رہا تھا تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ آج کے دن یہ اجر میں سب پر سبقت لے جائے گا مگر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ اہل جہنم مں سے ہے ۔ایک صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے سوچا اب میں اس کے ساتھ رہوں گا یہاں تک کہ آپ ہر مقام پر اس کے ساتھ ہی لڑتے رہے ۔ جب وہ شخص شدید زخمی ہوا تو اس نے زخم کی شدت کے باعث موت کو جلدی طلب کیا اور تلوار کا پھل اور اس کی دھار اپنے سینے کے درمیان میں رکھ کر زور لگایا اور خود کشی کر لی ۔وہ صحابی اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں ۔۔۔۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ”بے شک ایک شخص اہل جنت والے کام کرتا ہے یہاں تک کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ جنتی ہے جبکہ وہ جہنمی ہوتا ہے اور ایک شخص اہل جہنم والے کام کرتا ہے اور لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ جہنمی ہے لیکن وہ جنتیوں میں سے ہوتا ہے ۔“ ([12])
اس حدیث شریف سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر چہ کوئی شخص میدان جہاد میں اپنی تلوار سے کفار کو قتل کرتا رہے لیکن اگر اس کا اختتام خودکشی پر ہو تو وہ شہید نہیں کہلا سکتا۔اس مسئلہ میں اس کا مقصود اصلی خود کشی کرنا تھا تا کہ وہ زخموں کی تکلیف سے خود کو نجات دے سکے۔ہماری رائے میں ان تمام احادیث میں غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان مختلف واقعا ت میں نیت اور مقاصد کا اعتبار کیا ہے۔لہذا جہاد کے جدید مسائل اور بالخصوص فدائی حملوں میں بھی احکامات کے بیان میں مقاصد ، نیت اور مسلمانوں کے فائدے کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
شہید اور اس کے فضائل
شہید کے بارے میں امام مسلم حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا :
يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُذْكَرَ وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُرَى مَكَانُهُ فَمَنْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ أَعْلَى فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ([13])
’’اے اللہ کے رسول ﷺ ایک آدمی قتال کرتا ہے مال غنیمت کے لیے اور ایک آدمی قتال کرتا ہے اس لیے کہ اس کا ذکر کیا جائے اور ایک آدمی قتال کرتا ہے کہ اس کی شان بڑھ جائے اللہ کی راہ میں کون ہے ؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے قتال کیا تا کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو تو اس نے اللہ کی اللہ میں قتال کیا۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے :
عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الرَّجُلِ يُقَاتِلُ شَجَاعَةً وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً وَيُقَاتِلُ رِيَاءً أَيُّ ذَلِكَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ([14])
’’حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا ایک آدمی کے بارے میں جو بہادری کے لیے قتال کرتا ہے اور حمیت کے لیے اور ریا کے لیے ان میں سے اللہ کی راہ میں کو ن ہے؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جسن ے اس لیے قتال کیا کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے تو وہ اللہ کی راہ میں ہے۔‘‘
ایک اور روایت میں اس طرح ہے:
عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْقِتَالِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ الرَّجُلُ يُقَاتِلُ غَضَبًا وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً قَالَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيْهِ وَمَا رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيْهِ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ قَائِمًا فَقَالَ مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ([15])
’’از ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے اللہ عزوجل کی راہ میں قتال کے بارے میں سوال کیا تو عرض کی کہ ایک آدمی غصہ میں قتال کرتا ہے اور ایک آدمی حمیت میں قتال کرتا ہے کہا آپ ﷺ نے اسک ی طرف اپنا سر اٹھا یا کیونکہ وہ کھڑا ہوا تھا فرمایا:جس نے اس لیے قتال کیا کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔‘‘
ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے شہید کے بارے میں فرمایا:
عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ([16])
’’از سعید بن زید رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو اپنے مال کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے اور جو اپنے دین کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے اور کو اپنے خون کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے اور جو اپنے خاندان والوں کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے۔‘‘
ایک اور حدیث شریف میں ہے:
وعن أبي مالك الأشعري قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : " من فصل في سبيل الله فمات أو قتل أو وقصه فرسه أو بعيره أو لدغته هامة أو مات في فراشه بأي حتف شاء الله فإنه شهيد وإن له الجنة " .( [17])
’’از ابو مالک اشعری مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو اللہ کی راہ میں نکلا اور مر گیا یا قتل کر دیا گیا یا اس کے گھوڑے نے اس کو پھینک دیا یا اس کے اونٹ نے یا اس کو کسی موذی نے کاٹ لیا یا وہ اپنے بستر پر مر گیا چاہے وہ جیسے اللہ نے چاہا کسی بھی طرح سے مرے وہ شہید ہے اور اس لے لیے جنت ہے۔‘‘
ان روایات سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی مسلمان قومی حمیت و غیرت کے لیے یا شہرت و ریا کے لیے یا مال غنیمت کے حصول کے لیے یا بدلہ لینے کےلیے لڑتے لڑتے اپنی جان دے دیتا ہے تو وہ عند اللہ شہید نہیں ہو سکتا۔اللہ کے نزدیک شہادت کا رتبہ اسی کو ملے گا جس نے اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے تلوار اٹھائی ہو اور اس کے پیش نظر فقط اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا ہو۔اسی طرح اگر کسی شخص نے اپنی جان ، مال اور اہل و عیال کی حفاظت میں جان دی تو وہ بھی شہید ہے۔فقہاء کرام نے شہید کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
وَهُوَ فِي الشَّرْعِ مَنْ قَتَلَهُ أَهْلُ الْحَرْبِ وَالْبَغْيِ وَقُطَّاعُ الطَّرِيقِ([18])
’’شریعت میں اس سے مراد وہ ہے جسے اہل حرب نے اور باغیوں نے یا ڈاکوؤں نے قتل کر دیا ہو۔‘‘
قرآن مجید میں اللہ کی راہ میں جان دینے کی فضیلت کئی ایک مقامات پر بیان کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ([19])
”بیشک اﷲ نے اہلِ ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال، ان کے لئے جنت کے عوض خرید لئے ہیں، (اب) وہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں، سو وہ (حق کی خاطر) قتل کرتے ہیں اور (خود بھی) قتل کئے جاتے ہیں۔ (اﷲ نے) اپنے ذمۂ کرم پر پختہ وعدہ (لیا) ہے، تَورات میں (بھی) انجیل میں (بھی) اور قرآن میں (بھی)، اور کون اپنے وعدہ کو اﷲ سے زیادہ پورا کرنے والا ہے، سو (ایمان والو!) تم اپنے سودے پر خوشیاں مناؤ جس کے عوض تم نے (جان و مال کو) بیچا ہے، اور یہی تو زبردست کامیابی ہے۔“
ایک اور مقام پر شہدا کے بارے میں کہا گیا کہ انہیں مردہ نہ کہ و وہ زندہ ہیں :
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ([20])
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں انہیں ہرگز مردہ خیال (بھی) نہ کرنا، بلکہ وہ اپنے ربّ کے حضور زندہ ہیں انہیں (جنت کی نعمتوں کا) رزق دیا جاتا ہے۔
ایک اور مقام پر اللہ کے لیے جان دینے والوں کے بارے میں کہا گیا اللہ کی راہ میں جان وہی شخص دیتا ہے جس کا عقیدہ آخرت پر ایمان ہو :
فَلْيُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ وَمَن يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا([21])
”پس ان (مؤمنوں) کو اللہ کی راہ میں (دین کی سربلندی کے لئے) لڑنا چاہئے جو آخرت کے عوض دنیوی زندگی کو بیچ دیتے ہیں، اور جو کوئی اللہ کی راہ میں جنگ کرے، خواہ وہ (خود) قتل ہو جائے یا غالب آجائے توہم (دونوں صورتوں میں) عنقریب اسے عظیم اجر عطا فرمائیں گے۔“
ایک حدیث شریف میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
وعن المقدام بن معدي كرب قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " للشهيد عند الله ست خصال : يغفر له في أول دفعة ويرى مقعده من الجنة ويجار من عذاب القبر ويأمن من الفزع الأكبر ويوضع على رأسه تاج الوقار الياقوتة منها خير من الدنيا وما فيها ويزوج ثنتين وسبعين زوجة من الحور العين ويشفع في سبعين من أقربائه "([22])
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شہید کے لیے اللہ کے ہاں چھ خصلتیں ہیں ،اللہ اس کی پہلی دفعہ میں ہی مغفرت فرما دیتا ہے، وہ جنت میں اپنا مقام دیکھ لیتا ہے اور عذاب قبر سے اس کو نجات ملتی ہے اور وہ سب سے بڑی ہولناکی سے محفوظ رہے گا اور اس کے سر پر یاقوت کا ایک ایسا تاج وقار رکھا جائےگا جو دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے زیادہ بہتر ہو گا اور اس کا نکاح بہتر جنت کی بڑی آنکھوں والی حوروں سے کیا جائے گا اور و ہ اپنے اقرباء میں سے ستر کی شفاعت کروائے گا۔‘‘
ان تمام حوالہ جات سے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام کے مطابق انسانی جان کی بہت اہمیت ہے اور یہ جان اللہ کی امانت ہے اسی لیے خود کشی اور ہر ایسا اقدام حرام ہے جس میں انسان کو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا پڑےلیکن اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے میدان جنگ میں گولیوں کی تڑ تڑاہٹ اور جہازوں کی بمباری کا سامنا کرتے ہوئے اپنی جان خطرے میں ڈالنا اور اللہ کی رضا کے لیے اپنی جان کی قربان دینا خود کو ہلاکت میں ڈالنا نہیں بلکہ مطلوب و مقصود مؤمن ہے۔ایسے خوش نصیب افراد کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے اجر عظیم کا وعدہ ہے۔
حوالہ جات
- ↑ () قشیری ،ابو الحسن مسلم بن الحجاج ،صحیح مسلم، فرید بک سٹال،اردو بازار لاہور،پاکستان،طبع تاسع ۱۴۲۲ھ، رقم الحدیث:۴۷۴۴، ج:۵/ص:۸۸۰
- ↑ () ترمذی،ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورہ ،جامع الترمذی، مکتبہ رحمانیہ،اقرا سینٹر غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور،پاکستان، سن ندارد ، ص:۵۱۳
- ↑ () پاشا، احمد بن سلیمان ابن کمال ،الایضاح فی شرح الاصلاح فی الفقہ الحنفی، دارالکتب العلمیۃ ،بیروت ،لبنان ،طبعہ اولیٰ ۱۴۲۸ھ،ج:۱/ص:۱۷۶
- ↑ () نسائی، احمدبن شعیب بن علی ،سنن النسائی ، المصباح، لاہور،پاکستان ،سن ندارد ،ج:۱/ص:۲۶۱
- ↑ () یمنی،ابو بکر بن علی بن محمد،الجوھرۃ النیرۃ، قدیمی کتب خانہ،آرام باغ کراچی پاکستان ،سن ،ن د،ج:۱/ص:۱۳۳
- ↑ () کاسانی ،علاؤالدین ابو بکر بن مسعود،بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، مکتبہ رشیدیہ،سرکی روڈ کوئٹہ ،،سن ،ن د،ج:۲/ص:۷۱
- ↑ () کاسانی ،علاؤالدین ابو بکر بن مسعود،بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، ج:۲/ص:۷۱
- ↑ () قاضی خان ،حسن بن منصور بن محمو اوزجندی فرغانی،شرح الزیادات ،المجلس العلمی، کراتشی، باکستان، ۲۰۰۰ء:ج:۱/ص:۱۹۳
- ↑ () کاسانی ،علاؤالدین ابو بکر بن مسعود،بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،ج:۲/ص:۷۱
- ↑ () ابو داؤد، سلیمان بن اشعث سجستانی،سنن ابی داؤد، مکتبہ رحمانیۃ ،لاھور ،پاکستان،سن ن د ، رقم الحدیث:۲۵۳۸، ج:۱/ص:۳۶۷
- ↑ () قشیری ،ابو الحسن مسلم بن الحجاج ،صحیح مسلم، رقم الحدیث:۴۵۵۳، ج:۵/ص:۵۸۶
- ↑ () بخاری،محمد بن اسماعیل،صحیح البخاری،دار الکتب العلمیۃ،بیروت لبنان،طبعہ تاسعہ،۱۴۳۸ھ، رقم الحدیث:۲۸۹۸، ص:۵۳۳
- ↑ () قشیری ،ابو الحسن مسلم بن الحجاج ،صحیح مسلم، رقم الحدیث:۴۸۰۴، ج:۵/ص:۹۱۴
- ↑ () قشیری ،ابو الحسن مسلم بن الحجاج ،صحیح مسلم، رقم الحدیث:۴۸۰۴، ج:۵/ص:۹۱۴
- ↑ () قشیری ،ابو الحسن مسلم بن الحجاج ،صحیح مسلم، رقم الحدیث:۴۸۰۴، ج:۵/ص:۹۱۴
- ↑ () ترمذی،ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورہ ،جامع الترمذی،ص:۳۹۴
- ↑ ( ) ابو داؤد، سلیمان بن اشعث سجستانی،سنن ابی داؤد، رقم الحدیث:۲۴۹۹ ، ج:۱/ص:۳۶۱
- ↑ () الشیخ نظام و جماعۃ من علماء الھند،الفتاویٰ الھندیۃ، دار الکتب العلمیۃ،بیروت ،لبنان،طبعہ ثانیہ ۲۰۱۰ء،ج :۱/ص:۱۸۴
- ↑ () [javascript:void(0) التوبہ: ١١١]
- ↑ () [javascript:void(0) آلعمران: ١٦٩]
- ↑ () [javascript:void(0) النساء: ٧٤]
- ↑ () ولی الدین،محمد بن عبد اللہ الخطیب، مکتب اسلامی ،بیروت، لبنان ،طبعہ ثالثہ، ۱۴۰۵ھ ،قم الحدیث:۳۸۳۴، ج:۲/ص:۳۷۲
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |