Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Riphah Journal of Islamic Thought & Civilization > Volume 1 Issue 1 of Riphah Journal of Islamic Thought & Civilization

اسلامی اخلاقیات واقدار کے فروغ میں خاندانی ماحول کا کردار؛معاصرانہ چیلنجز اور لائحہ عمل The role of family environment in the development of Islamic ethics and values, Contemporary challenges, and action plan |
Riphah Journal of Islamic Thought & Civilization
Riphah Journal of Islamic Thought & Civilization

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2023

ARI Id

1708415925413_3305

Pages

10 to 27-10 to 27

PDF URL

https://journals.riphah.edu.pk/index.php/jitc/article/download/1695/972

Chapter URL

https://journals.riphah.edu.pk/index.php/jitc/article/view/1695

Subjects

Islamic ethics role of family Moder Era Moral Values.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

@page { size: 6.79in 9.25in; margin-left: 0.39in; margin-right: 0.39in; margin-top: 0.32in; margin-bottom: 0.12in } p { margin-bottom: 0.1in; direction: ltr; line-height: 115%; text-align: left; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } h1 { margin-bottom: 0in; direction: ltr; color: #2e74b5; line-height: 108%; text-align: left; page-break-inside: avoid; orphans: 2; widows: 2; background: transparent; page-break-after: avoid } h1.western { font-family: "Calibri Light", serif; font-size: 16pt } h1.cjk { font-family: ; font-size: 16pt } h1.ctl { font-family: "Times New Roman"; font-size: 16pt } p.sdendnote { margin-bottom: 0in; direction: ltr; font-size: 10pt; line-height: 100%; text-align: left; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } a:link { color: #0000ff; text-decoration: underline } a.sdfootnoteanc { font-size: 57% } a.sdendnoteanc { font-size: 57% }

{RJITC} Vol:I, Issue:01 Jan-June2023

Picture 3 Picture 1 Riphah Journal of Islamic Thought & Civilization Published by: Department of Islamic Studies,

Riphah International University, Islamabad

Email: editor.rijic@riphah.edu.pk

Website: https://journals.riphah.edu.pk/index.php/jitc

ISSN (E): 2791-187X




اسلامی اخلاقیات واقدار کے فروغ میں خاندانی ماحول کا کردار؛معاصرانہ چیلنجز اور لائحہ عمل

The role of family environment in the development of Islamic ethics

and values, Contemporary challenges, and action plan

ضیاءالمصطفیٰ 1

Abstract

Islamic rules and moral values are unique in all aspects. The members of Muslim Ummah have always tried to promote them. At the national level, this duty was carried out by people at different levels whether they were teachers, businessmen or lay man of the society. At international level, some rulers, business professionals and religious leaders played their role. Man's first relationship is with family. This relationship is the cornerstone in the development of a personality.

There has been a lot of change taken place in the family system. In the past, due to the limited necessities of life the financial responsibility was limited to a few people. Media was not that advanced and bold and family members were loving and respectful. With the beginning of advance era, human needs were widened and to satisfy them, women started participating in economic activities along with men. Due to which the child was shifted from his home to day care centre, while the media gave birth to the social media, the stories of compassion and care in home became the past. In the present era, there is a dire need to remove these barriers that hinder the development of Islamic values through balance between income and expenditure, positive and moderate use of media and positive attitude in family.

These issues will be discussed under the answers to the following questions.

1. What is the role of family in the development of Islamic ethics?

2. What are the problems faced by the family in the development of Islamic moral values?

3. What are the solutions to the present-day problems?

Key words: Islamic ethics, role of family, Moder Era, Moral Values.


اسلامی اخلاقیات واقدارکے صاف وشیریں چشمےسے سیراب ہونے والوں کا گلشن حیات سدا بہار رہتا ہے کبھی خزاں رسیدہ نہیں ہوتا اس ماء زلال کے اولین ساقی خاندان کے افراد ہوتے ہیں خاندان معاشرے کی ایک اکائی ہے چند اکائیاں مل کر ایک کوچہ آبادکرتی ہیں اور چندکوچے مل کر ایک محلہ پھر چند محلوں کا اجتماع ایک شہر وجود میں لاتا ہے اس اعتبار سے دیکھا جائے تو خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے اگر ہر ہراکائی اسلامی اقدار کی حامل ہوگی تومعاشرے میں خود بخود اسلامی اقدار کا فروغ ہوگا جب تک خاندان کا ہر فرد اان اقدار کاحامل رہا اور ان کو اگلی نسل میں منتقل کرنے کی ذمہ داری ادا کرتا رہا اور ان اقدار کو فروغ نصیب ہوتارہا لیکن جب سے زندگی کی رفتار میں تیزی آئی اوران ذمہ داریوں سے کنارہ کش ہونے کا آغاز ہوااس ترقی نے تنزلی کی طرف سفرشروع کردیااب بھی اگر اس جانب توجہ مبذول نہ کی گئی تو اسلامی اخلاقیات واقدار قصہ پارینہ بن جائیں گے اورموجودہ دور میں تو یہ ذمہ داری دوچند ہوگئی ہےکیونکہ فتنوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سیلاب اسلامی اقدار کوبہا لے جانے کے لئے بڑھا چلا آرہا ہے۔

شریعت اسلامیہ عقائد ،عبادات،،معاملات اوراخلاقیات پر مشتمل ہے۔ جیساکہجسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمۃ نے سورۃ البقرۃ کی آیت 177کی تفسیر میں تحریرفرمایا

"اسلام کی ساری تعلیم ان چار عنوانوں کے نیچے درج کی جاسکتی ہے۔

1 ۔ عقائد 2 ۔ معاملات 3 ۔ عبادات۔ 4 ۔ اخلاقیات"1

آپ علیہ الرحمۃ کی بیان کردہ تقسیم کی تائید علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ کی اس تحریر سے بھی ہوتی ہے جو ان کی معروف کتاب رد المحتارالمعروف فتاوی شامی میں مرقوم ہے علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں ۔

"اعْلَمْ أَنَّ مَدَارَ أُمُورِ الدِّينِ عَلَى الِاعْتِقَادَاتِ وَالْآدَابِ وَالْعِبَادَاتِ وَالْمُعَامَلَاتِ"2

اسلام عمدہ آداب اوراخلاقیات واقدار کو جامع ہےشرم و حیاء،حُسنِ کلام،حسن سلوک اسلامی اخلاقیات کی اہم اقدار میں سے ہیں سطور ذیل میں ان اقدارکے فروغ میں ماضی میں خاندان کے کردار،زمانہ حال میں ان کی ترویج میں حائل رکاوٹ اور ان کو دور کرنے کے طریقوں پر بحث کی جائے گی۔

شرم وحیاء :۔

اخلاقیات واقدارمیں سے ہر مذہب کی کوئی نا کوئی مخصوص قدر ہوتی جس میں اس کو باقی مذاہب پر فوقیت حاصل ہوتی ہے شرم وحیاء اسلامی اخلاقیات کی ایک اہم امتیازی قدر ہےسنن ابن ماجہ میں روایت کی گئی مندرجہ ذیل حدیث شریف میں نبی مکرم ﷺنے اس کو اسلام کا خلق قرار دیا ۔

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ لِكُلِّ دِينٍ خُلُقًا، وَخُلُقُ الْإِسْلَامِ الْحَيَاءُ

''بے شک ہر دین کا ایک خُلق ہوتا ہے اوراسلام کا خُلق حیاء ہے ۔''3

اگر حقدار کو اس کے حق سے محروم کرکےغیر مستحق کو دیناظلم کہلاتا ہےآنکھ کی بینائی کا ناحق استعمال،جسم کے حسن وجمال کی بےجاخود نمائی اور دل ودماغ کے جذبات کا بے محل اظہاربےحیائی ہے اور یہی ظلم ہے اورجہنم میں لے جانےوالی ہےجیساکہ حضور نبی رحمت علیہ الصلوۃ والسلام کے مندرجہ ذیل فرمان میں ہے :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الحَيَاءُ مِنَ الإِيمَانِ، وَالإِيمَانُ فِي الجَنَّةِ، وَالبَذَاءُ مِنَ الجَفَاءِ، وَالجَفَاءُ فِي النَّارِ

''حیاء ایمان کاحصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جانے والا ہے جبکہ بے حیائی ظلم میں سےہے اور ظلم جہنم میں لے جانے والاہے۔''4

پردہ ،پاکیزہ نگاہیں اور پاکدامنی حیاءکے اہم امور ہیں ماضی میں ان امور کے فروغ میں خاندان نے اپنا کردار بڑے ہی احسن انداز سے نبھایا۔

اگر عورت باپردہ رہے تو بد نگاہی کے امکانات کم ہوجاتے ہیں ماضی میں خاندان کی بالغ عورتیں اپنےلباس میں اسلامی حکم ولا یبدین زینتهُن5 کو مدنظر رکھتی تھیں چاردیواری سے بغیر مقصد کے قدم باہر نہ نکلتےاور اگر کسی مقصد کے لئے باہرمجبورجانا بھی پڑتا تو ولا یضربن بارجلهُن لیعلم ما یخفین من زینتهن6 کی قرآنی نہی ذہن نشین رہتی اس کے ساتھ ساتھ چھوٹی بچیوں کو ابتدائی عمرمیں ہی ایسے لباس کی عادت ڈالی جاتی جو شرم وحیاء کی اسلامی اقدار کے مطابق ہوتا تھا نتیجتا ان کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی بچیاں بھی اسی روش کو اختیار کرتی تھیں اور معاشرے کا باحیاء فرد بنتی تھیں۔

پھر وقت نے کروٹ بدلی ،زمانے نے ترقی کے زینے طے کئےاورکچھ گھرانوں میں انسانی ضروریات میں تعیشات کی حد تک ہوش ربا اضافہ ہوا ایک فرد کی معاشی کاوشیں ان ضروریات کی تسکین کے لئے کم پڑگئیں تو کچھ عورتوں نے بھی مرد کے شانہ بشانہ معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے گھر سے قدم باہر رکھا ابتدائی دور میں عورت نے پردے کا اہتمام بھی رکھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برقع چادر میں تبدیل ہوااور چادر باریک دوپٹے میں پھر دوپٹہ سر سےڈھلک کر کندھے پر آگیاالیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اورسوشل میڈیا کے ذریعے مغربی تہذیب کا گھروں میں مشاہدہ ہونےلگا اور پھر آہستہ آہستہ لباس میں ان کی تقلید ہونے لگی نیم عریاں اور چست لباس گھروں میں رواج پانے لگا تو لباس کا یہ انداز نسل نو میں منتقل ہونے لگا اور اس نے جذبات میں وہ آگ بڑھکائی کہ اس کے شعلوں سے خشک شاخوں کے ساتھ ساتھ معصوم ان کھلی کلیاں بھی جھلس گئیں

شرم وحیاء میں نگاہ کا مرکزی کردارہےنگاہ پہلے دیکھنے کا عمل کرتی ہے پھر دل میں جذبات پیدا ہوتے ہیں گویانگاہ ان معاملات کا داخلی دروازہ ہے اگرداخلی د روازے کو بند کر دیا جائے تو نہاخانوں تک لٹیروں کی رسائی ممکن نہیں رہتی۔ جب نظر کسی اجنبی کی طرف نہیں اٹھے گی تو دل اس کی طرف میلان نہیں کرے گا۔ اور قلبی میلان کے بغیر تو بدفعلی کا ارتکاب ہی بعید ازقیاس ہے۔ اس بات کو بیان کرتے ہوئےسورۃ نور کی آیت30کی تفسیر میں علامہ قرطبی مالکی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :

"البصرهُوالباب الاکبرالی القلب وبحسب ذالک کثر السقوط من جهته ووجب التحذ یر منهُ وغضهُ واجب عن جمیع المحرمات وَكُلِّ مَا يُخْشَى الْفِتْنَةُ مِنْ أَجْلِهِ7

"نظر دل کی طرف کھلنے والاسب سے بڑادروازہ ہے ۔ناگاہ کی برراہ روی کے باعث اکثر لغزشیں ہوتی ہیں،اس لئے اس سے بچنا چاہئےاور تمام محرمات اور اس کی وجہ سےجن فتنوں کا خوف ہوان سے اسے جھکاناواجب ہے"۔

دشمن کی طرف سے مارےگئے عام تیرکےزخم کا علاج کیا جائے تو زخم مندمل ہوجاتا ہے لیکن اگر تیر زہر آلود ہو تو اس کا زخم تو علاج کے ذریعے مندمل ہوجاتاہے لیکن اس کی وجہ جسم میں زہر کے اثرات بعد بھی جان لیوا ہوسکتے ہیں۔ ابلیس انسان کا شدید دشمن ہے۔وہ ہمیشہ انسان کو راہ راست سے ہٹانے کے لئے اپنے تیر وتفنگ استعمال کرتا ہے اورجنسی بے راہ روی کے لئےنظر اس کے ہتھیاروں میں سےایک خطرناک اسلحہ ہے بلکہ حدیث پاک میں تو نظر کواس کے بد اثرات کی وجہ سے شیطان کا زہر آلودتیرقراردیا گیا ہےنیز اس کے ترک پرحلاوت ایمان کا وعدہ کیاگیا ہے جیساکہ معجم الکبیر کی مندرجہ ذیل روایت سے واضح ہے ۔

"عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مسعود قَال قال رسول الله (صلی الله عليه وآله وسلم)ان النظرسهم من سهم ابلیس مسموم من تركه مخافتی مسموم ابدلته ایمانایجدحلاوته فی قلبه"8

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہےآپ نے کہاکہ رسول اللہﷺنے فرمایابے شک نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر آلود تیر ہے جس نے اس کومیرے ڈر سے چھوڑ دیا اسے ایسے ایمان کے ساتھ بدلہ دوں گاجس کی شرینی وہ اپنے دل میں پائے گا۔

چونکہ اس کا تعلق مرد وزن دونوں کے ساتھ ہے اس لئے اسلام نے دونوں کو بدنگاہی سے منع فرمایا تاکہ فعل شنیع کا داخلی دروازہ ہی بند ہو جائے۔ کیونکہ جب دونوں ایسی نظر سے دیکھیں گے ہی نہیں جو جذبات کو مشتعل کرےتو حیا سوزی کا ارتکاب بھی نہیں کریں گے ۔

ماضی میں بد نگاہی کےاسباب بہت کم تھے نہ کوئی تصویر ہوتی تھی نہ ویڈیو،نہ کوئی موبائل تھانہ تیز رفتار انٹر نیٹ، نہ کیبل تھی نہ ڈش اس کے علاوہ اعزاءواقرباسے ملاقات کو جاتے وقت حکم الٰہی يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا9 پرعمل کئے بغیر گھروں میں آنے جانےکی عادت نہ تھی جس کے نتیجہ میں غیر محرم مردوں کا سامناکرنےسے پہلے عورتیں اپنے پردے کامناسب انتظام کر لیتیں اور مرد بھی غیر محرم عورتوں کے سامنے آنے سے پہلے زنان خانے سے الگ ہوکرمردان خانے میں گوشہ نشین ہو جاتے تھے جس کی وجہ سے مردوزن بد نگاہی سے بہت حدتک محفوظ رہتے اور بچے اس ماحول میں پرورش پاکر انہی آداب کو اپنا لیتے لیکن پھر میڈیا نےجنم لیا پرنٹ میڈیا نےتصاویر کے ذریعے اورالیکٹرانک میڈیانےتصاویر اورویڈیوکےذریعےبد نگاہی کو فروغ دیا بعد موبائل ایجاد ہو توسوشل میڈیا نے گھربلکہ بستر کے اندرتک بد نگاہی کا سامان فراہم کیااور اس کابخار بڑوں سے لے کرچھوٹوں تک سب کو چڑھااس کےساتھ ساتھ دوسروں کے گھروں میں آنے جانے کے اسلامی آداب کو پس پشت ڈال دیا گیابلااجازت آمد ورفت کو اپنائیت اوراجازت لینے کو پرایا پن سمجھا جانے لگا تو نگاہوں کی پاکیزگی متاثر ہونے لگی ۔

اوائل بلوغت میں شادی پاکدامنی کا سبب بنتی ہے۔ کیونکہ جب ہیجانی کیفیات کو تسکین کاجائز موقع مل جائے تو انسان کو ناجائز ذرائع کی ضرورت نہیں رہتی ۔ماضی میں کئی خاندانوں میں چڑھتی جوانی میں شادی کا رواج تھاقانونی طور پر عمر کی کوئی حد مقرر نہیں تھی شادی تین نقطوں کے بغیر سادی سی ہوجاتی تھی لمبی چوڑی خاندانی رسم ورواج نہ تھیں اس لئے ان خاندانوں کے مردوزن عفت وپاکدامنی کی دولت سے مالامال تھے لیکن جب سے جائز طریقے پر قانونی پابندیاں عائد کردی گئیں، عمر کی ایک حد مقرکردی گئی اور خاندانوں کورسم ورواج میں جکڑ کر شادی کی سادگی کو دھوم دھوم میں تبدیل کردیاگیا تب سے ناجائز راستوں کو تلاش کیا جانےلگا۔ شرعی اعتبار سے لڑکااگر بارہ سال کی عمر کےبعد اور لڑکی نو سال کی عمر کوپہنچ کر بلوغت کادعویٰ کریں توان کی بات مان لی جائے گی۔اوراگر بارہ اور پندرہ سال کی عمر کے دوران بالغ ہونے کے آثار میں سے کوئی چیز ظاہر نہ ہو توفتوی ٰ اس بات پر ہے کہ پندرہ برس کی عمر میں ان کوبالغ شمار کرلیاجائے گا۔ لیکن قانونا اٹھارہ برس سے پہلے مرد اور سولہ برس سے پہلے عورت کانکاح قانونا ممنوع ہوگیا اور ایسے نکاح کو رجسٹرڈکرنے پر پابندی عائد کردی گئی زیادہ عرصہ بن بیاہے رہنے کےسبب نگاہوں کی پاکیزگی اور عفت کو برقرار رکھنا انتہائی مشکل امر ہوگیا۔

شریک حیات کاچناو ایک دودن کا فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ پوری زندگی کا فیصلہ ہوتا اس میں دانشمندی کی ضرورت ہوتی ہے خاندان کی بزرگ شخصیات مردم شناس ہوتے ہیں ،ان کو شاہراہ حیات کے نشیب وفراز کا خوب علم ہوتا ہے وہ معاملے کی شش جہات کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کو بھی پرکھتے ہیں ان کے فیصلے دانشمندی پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان میں شفقت کا پہلو بھی غالب ہوتا ہے اس لئے وہ اپنی اولاد کے لئے شریک حیات کے انتخاب کے وقت ہر معاملے کو دیکھتے ہیں ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ معاملہ فہمی کو مدنظر رکھتے ہیں مالی حیثیت کے ساتھ ساتھ تقوی کے معیار پر نظر رکھتے ہیں ماضی میں جب تک چادر وچار دیواری میں رہی اس کے لئے شریک انتخاب کا فیصلہ بزرگوں کے ہاتھ میں رہا لیکن جب سے عورت نے ان مقامات پر جانا شروع کیا جہاں اختلاط مرد وزن ہوتا ہے تب سے اولاد نے یہ فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے لیا لیکن اسلام اس رویہ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے ۔

آج اس امر کی ضرورت ہے کہ تعشیات کو ترک کرکے صرف مرد کی آمدنی سے اپنی ضروریات زندگی کو پورا کیا جائے عورت کے لئے باپردہ رہ کراگر معاشی سرگرمیوں میں شرکت ممکن ہوتو ٹھیک ورنہ مال پر اقدار کو ترجیح دی جائے ۔

میڈیا کے مثبت استعمال کو عام کیا جائے فحاشی وعریانی پر مشتمل پروگرام دیکھنے کے بجائے ان پروگراموں کو دیکھنے میں فارغ اوقات بسر کئے جائیں جو اس گدلےپن سے پاک ہوں نیز ان میں اخلاقی تربیت کا عنصر بھی موجود ہو تاکہ بدنظری سے حفاظت ہوسکے۔

اوائل بلوغت میں شادی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیاجائے قانون پر نظر ثانی کی جائے اورٖفضول رسم ورواج میں تبدیلی لا کر سادہ انداز میں شادی کا رواج بنایا جائے کہ نکاح سہل انداز سے ہوسکے ہواور پاکدامنی کو برقرار رکھناآسان ہوجائےاور اس کے ساتھ شریک حیات کا انتخاب بزرگوں کی دانشمندانہ رائے کے ساتھ کیا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کو بے حیائی کےعیب سے محفوظ رکھاجاسکےاوروہ حیاء کےزیور سے مزین رہیں کیونکہ بے حیائی جس چیز میں ہوتی ہے اسکو عیب دار کرتی ہے اور کسی میں حیاءکی موجودگی اس کو زینت بخشتی ہے۔جیساکہ مندرجہ ذیل حدیث پاک میں ہے ۔

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا شَانَهُ، وَلَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا زَانَهُ''10

حسن کلام :۔

قوت گویائی رب کریم کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان ہے۔اس کے ذریعے انسان اپنے ما فی الضمیر کو بیان کرتا ہے ،اپنی ضروریات کوآسانی سےبیان کرتا ہےاوراپنےغم ،مسرت ،غصے،ناراضگی،محبت،نفرت اورتعجب کےجذبات کااظہارکرکےدوسروں تک منتقل کرتا ہے اسلام اپنےنظام اخلاقیات میں حسن کلام کی حسین اقدار کا حامل ہے اگرمومن کے پاس کہنے کو اچھی بات نہ ہوتواسے حکم ہے کہ خاموش ر ہے۔رسول اکرم ﷺ کا ارشادگرامی ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ

''جو اللہ عزوجل اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کرے یا سکوت اختیار کرے۔''11

کسی بھی زبان کو سیکھنے کے تین فطرتی مراحل ہیں۔

سماعت وفہم :۔ کسی زبان کےسمجھنےکا سب سے ابتدائی مرحلہ ہوتا ہے بچہ پہلے گفتگو کو صرف سن کر سمجھتا ہے ۔

تکلم :۔اس کے بعد گفتگو کرنے کا مرحلہ آتا ہے بچہ آہستہ آہستہ بولنا سیکھتا ہے ۔

قرات وکتابت:۔اس کے بعد آہستہ آہستہ بچہ پڑھنا اور لکھنا سیکھتا ہے ۔

ابتدائی دو مراحل میں خاندان اہم کردار کرتا ہےاگر ان مراحل پر اسلامی اقدار کے مطابق تربیت کی جائے تو بچہ گفتار میں اسلامی اقدار کا خوگر ہوجاتا ہےافراد خانہ سے جب وہ اذان ،نماز ،کلمہ ،قرآن کریم کی تلاوت،حمد ونعت ،درود پاک ،ادعیہ ماثورہ اور اذکارواستغفار سنے گاتو وہ انہی بابرکت کلمات کاعادی ہوگا۔

باہمی گفتگو میں اسلام باہمی احترام کا قائل ہے افرادخانہ کا اندازتکلم اپنے بچوں کے ساتھ ناصحانہ اور اپنے بزرگوں کے ساتھ مودبانہ ہوگاتو یہ بچہ بھی اسی اندازتکلم کی پیروی کرے گا اور

وقل لهُماقولا کریما12کے امر الٰہی پر عمل کرکے اجروثواب کمائےگا لیکن اگر گھر کے بزرگوں کےہرعمل پر اف اف کی جائے گی اور ہربات پر جھڑک دیا دیا جائے گا تو بچہ بھی اسی انداز تخاطب کو اپناکر

فلاتقل لهُما اف ولاتنهرهُما13

کی نہی کا مرتکب ہوگااور آج کا بچہ جس انداز تکلم کا عادی ہوگاکل جوان ہوکر اپنی معاشرتی زندگی میں اسی کو اپنائے گا۔

اسلام صدق مقال کی حوصلہ افزائی اورکذب بیانی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے سچائی کو نجات دہندہ اورجھوٹ کو باعث ہلاکت قراردیا گیاجیساکہ مندرجہ ذیل حدیث پاک میں ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى البِرِّ، وَإِنَّ البِرَّ يَهْدِي إِلَى الجَنَّةِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يَكُونَ صِدِّيقًا. وَإِنَّ الكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الفُجُورِ، وَإِنَّ الفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا14

اگر افراد خانہ سچ کےعادی ہوں گے اور جھوٹ سے دور بھاگنے والے ہوں گے تو بچہ بھی اسی نہج پرچل کر نجات پائے گا اور ہلاکت سے محفوظ رہے گا نیز معاشرے میں عملی زندگی میں وہ سچائی پر کاربند رہ کر سچ کابول بالاکرے گا۔

فحش گوئی وسب وشتم انتہائی قبیح افعال ہیں یہ چہرے کےحسن ،لباس کی نفاست اور شخصیت کے سحر کوگہنا کر رکھ دیتے ہیں اسلام نے سب وشتم کو فسق قرار دیا ہےجیساکہ مندرجہ ذیل حدیث پاک میں ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ15

اور بعض گالیوں پراسلام نےجسمانی سزابھی مقررکی ہے جہاں پر افراد مل کر زندگی بسر کرتے ہیں وہاں پر چھوٹےموٹےاختلافات بھی جنم لیتے ہیں اگر ان کے اظہار میں باہمی گالی گلوچ داخل ہوجائے تو باہمی منافرت پیدا ہوجاتی ہے جب بچہ ایسے موحول میں پروان چڑھتا ہے تو گالم گلوچ کی خوئے بد میں مبتلا ہوجاتا ہے اور معاشرے میں جب وہ کسی کو سب وشتم کرتا ہے تو جوابا کہیں نہ کہیں اسےگالی دی جاتی ہے لیکن اگر اختلاف رائے کااظہار عمدہ پیرائےمیں کیا جائے تواختلافات مخالفت میں نہیں بدلتے اس طرح اس ماحول میں پروان پڑھنے والا بچہ مستقبل میں نہ کسی کو گالی دیتا ہے نہ اسے گالی دی جاتی ہے ۔

کسی کی غیرحاضری میں اس کے متعلق وہ گفتگو کرناکہ اگر وہ موجود ہوتا تو اس کو سن کرناپسند کرتا غیبت کہلاتا ہے غیبت کی قباحت کو قرآن کریم نے

ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیه میتا فکرهتموه 16

کے الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا کہ کیا تم سے کوئی انے فوت شدہ بھائی کے گوشت کو تناول کرناپسند کرتا ہےاس لئے زبان کوغیبت سے محفوظ رکھنا اسلامی اقدار کا حصہ ہے اگر گھر کے اہل خانہ اس سے اپنی زبان کومحفوظ رکھیں گے تو بچے کی زبان بھی اس فعل کی آلودگی سے محفوظ رہے گی

ماضی میں خاندن کے افراداپنی زبان کو جملہ نفاستوں سے مزین اور غلاظتوں سے پاک رکھتےتھے تو بچے بھی ان کی پیروی کرتےتھے ماں اپنے یتیم بچے کو تعلیمی سفرپر روانہ کرتے ہوئے سچ کی تلقین کرتی تو راستے میں بچے کے سچ بولنے کی وجہ سے ڈاکوں کا گروہ تائب ہوجاتا تھا آج باپ گھر پر موجود ہوکر موبائل فون پر جب بچے کے سامنے جھوٹ بول کر اپنی عدم موجودگی کا اظہار کرتاہے اورافراد خانہ کوئی چیز دینے کا بہانہ کر کے بچے اپنے پاس بلانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس چیز موجود نہیں ہوتی اور اس کو جھوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا حالانکہ حدیث پاک میں اس کو جھوٹ کہا گیا ہےحضرت سیدنا عبداللہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی مُکَرَّم ﷺہمارے گھر تشریف فرما تھے کہ میری امی نے مجھے اپنے پاس بلاتے ہوئے کہا کہ ادھر آؤ میں تمہیں کوئی چیز دوں گی۔ رسولِ اکرم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم نے اسے کیادینے کارادہ کیاہے''انہوں نے عرض کی کہ میں اسے کھجور دوں گی تو آپ ﷺ نے فرمایاکہ اگر تم اسےکوئی چیز نہ دیتی تو تمہارا ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا ۔17

اسی طرح جب بھی اہل خانہ مل بیٹھتے ہیں تو کسی قریبی عزیز کی ذات کو موضوع سخن بنا کر اس کی غیبت کی جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ میڈیاکے پروگراموں میں بھی کسی نہ کسی کی غیبت کی جاتی ہے ۔جیسے غیبت پرمشتمل گفتگوکرناگناہ ہے اسی طرح اس کے سننے میں مشغول رہنا بھی ممنوع ہے اس سے بچے کے اخلاق پر برااثر پڑتاہے اور وہ اس انتہائی برے عمل کو کچھ بھی نہیں سمجھتا اس لئے افراد خانہ کو چاہئے کہ زبان کی جملہ آلائشوں سے اپنی زبان کو پاک رکھیں گفتگو میں بزرگوں کاادب اور چھوٹوں پرشفقت کا پہلوغالب رہے گالی گلوچ سے مکمل پرہیزکیاجائے اور بچوں کوبھی ایسے ماحول سےمحفوظ رکھا جائے جس میں بات بات پر گالی ہوجب مل بیٹھنا ہو توبجائے غیبت کے لوگوں کی اچھائیوں کا تذکرہ کیا جائے نیزمیڈیا کے ایسے پروگراموں کودیکھنا اورسنناترک کردیاجائے جن میں غیبت ہی غیبت ہواوران کے بجائےایسے اچھے پروگراموں کی طرف رجوع کیاجائے جو کہ تعمیر شخصیت میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔

حسن سلوک :۔

کسی کے ساتھ سلوک اخلاقیات کا اہم جز ہے اس پہلو سے اسلامی اقدار انتہائی حسین امور کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں اسلام حسن سلوک کی طرف داعی ہے اللہ تعالی نے جہاں اپنی عبادت کاحکم ارشاد فرمایا وہی اپنی مخلوق کے بہت سارے گروہوں کےساتھ حسن سلوک کابھی حکم ارشاد فرمایا سورۃ النساء میں ارشادباری تعالیٰ ہے ۔

وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِه شَـيْـــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ18

اور عبادت کرو اللہ تعالیٰ کی اور کسی کواس کےساتھ شریک نہ بناواوروالدین ،قریبی رشتہ ،یتیموں،مسکینوں ،قریبی پڑوسیوں،دور کے پڑوسیوں،ہم مجلس،مسافر اور لونڈیوں سے اچھاسلوک کرو۔

اس آیت کریمہ میں مندرجہ ذیل افراد سے نیک سلوک کاحکم ہوا ۔

والدین

رشتہ دار

یتیم ومسکین

پڑوسی

ہم مجلس

مسافر

غلام

والدین:۔

اللہ تعالیٰ انسان کا خالق ہے اور والدین اس کے دنیامیں آنے کاسبب ہیں اس لئےوالدین کے حقوق سب سے زیادہ ہیں اور اللہ کریم نے اپنی بندگی کے بعد والدین سے اچھاسلوک کرنے کے بارے میں ارشاد فرمایانیز رسول مکرمﷺنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاں نماز کے بعد سب سے محبوب کام قراردیا جیسا کہ امام بخاری علیہ الرحمۃ نے اپنی صحیح میں آپ ﷺسے رویات کیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزديک سب سے پسنديدہ عمل کےمتعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺنے جواب میں فرمایا:

الصَّلاَةُ عَلَى وَقْتِهَا، قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ ،قَالَ: ثُمَّ بِرُّ الوَالِدَيْنِ19

''(اللہ عزوجل کے نزديک سب سے پسنديدہ کام) وقت پر نماز پڑھنا ہے۔ پوچھا گیا پھر کون سا عمل(اللہ عزوجل کے نزديک سب سے پسنديدہ عمل)تو ارشاد فرمایا: والدین سےحسن سلوک سے پیش آنا ''

اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کے طریقے مندرجہ ذیل آیت کریمہ بیان فرمائے۔

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًااِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا 20

اس آیت کریمہ میں بیان کردہ احکام کی اہمیت کواور ان پر عمل پیرا ہونےکی برکت کو جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمۃ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:

ان میں اسلامی تمدن کے بنیادی اصول بیان کئے گئے ہیں جن کے طفیل اسلامی معاشرہ کو اقوام عالم میں ایک منفرد مقام حاصل ہوگیا ہے۔ ان آیات میں بڑے دلکش انداز میں بتایا جا رہا ہے کہ انسان کا تعلق اپنے کریم و رحیم پروردگار سے کیسا ہونا چاہئے۔ اور اپنے ماں باپ، قریبی رشتہ دار اور معاشرہ کے دوسرے افراد کے ساتھ اس کا برتاؤ کیسا ہونا چاہئے۔ آج بھی جب مادی تہذیب کی چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہے اور کئی سادہ لوح اس پر فریفتہ ہوچکے ہیں ان ہدایات کے پیش نظر ہم بڑے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ان تعلقات کو جس طرح قرآن حکیم نے صحیح انسانی بنیادوں پر استوار کیا ہے۔ ان کی برکت سے ہمارے باہمی تعلقات زیادہ اخلاص و محبت پر مبنی ہیں۔"21

اس آیت کریمہ میں پہلے والدین کے ساتھ عمومی حسن سلوک کا ذکرہواپھر بڑھاپے کی حالت میں سلوک کا ذکر ہواکیونکہ جب والدین عالم شباب میں ہوتے ہیں اور اپنی حاجات کی خود کفالت کرتے ہیں توعموما اس زمانےمیں تو ان کے ساتھ فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ وہ والدین کے محتاج ہوتے ہیں ۔ مگرجب والدین بوڑھے ہوجاتے ہیں ان کاجسم کمزورہوجاتا ہے بیماریاں ان کوگھیرلیتی ہیں وہ کمانے کے قابل نہیں رہتےاور اولاد کے سہارے کی ان کوضرورت ہوتی ہےتو ایسے اوقات میں ان کی خدمت گزاری اولادکے لئے خوش بختی کاباعث ہوتی ہے۔اوراگر والدین مریض ہوں اور مرض کی شدت ان کے مزاج میں چرچڑے پن کاسبب بنے اوروہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو محسوس کرکے خفگی کااظہار کریں تو اولاد اپنے بچپن کے زمانے کویاد کرکے ان کے ساتھ وہی شفقت ونرمی والاسلوک کرے جو ان کے والدین ان کے ساتھ بچپن میں کیا کرتے تھے اوران کی بیماری کواپنے لئے زحمت نہ سمجھے بلکہ اس موقع کوغنیمت جان کر دل وجان سے ان کےعلاج معالجے کااہتمام کرے ۔چیں بجبیں ہونے کے بجائے اس کے لب پر تبسم سجاہو ۔زبان ان کے لئے کلمات خیر اداکررہی ہواور اس طرح ان کی خدمت پرکمربستہ ہوجائے کہ ان کے دل سے اس کےلئے دعانکلے اور ان کادل مطمئن ہوکہ جس اولاد کے لئے انہوں نے اپنی جوانی میں مشقت وتکالیف برداشت کیں آج ان کی اولاد جوان ہوکر احسان فراموشی کاثبوت نہیں دے رہی۔

ماضی میں والدین کے ساتھ حسن سلوک مثالی رہا ان کے ساتھ دھیمےلہجے کے ساتھ گفتگو،خدمت گزاری،گھر سے نکلتے وقت قدم بوسی ودعااورواپسی پر سب سے پہلےان کی خدمت میں حاضری اور ان کی ضروریات کےدھیان سے اولاد سعادت مند رہی اس کاصلہ ان کی اولاد ان کوبھی حسن سلوک کی صورت میں دیتی رہی لیکن پھرکسی کو معاشی مصروفیات نے گھیرا تو اس نےاپنے والدین کو اولڈ ہاوسز میں بھیج دیا یا ملازموں کے حوالے کردیا اورکسی کی شریک حیات کو وہ آشیانہ دل نہ لگا تووہ اپنی اولاد کوان کے والد سمیت لےکر نئے کاشانے میں منتقل ہوگئی لیکن یہ خیال نہ آیا کہ آج جو کتاب ان بچوں کے اذہان پر لکھی جارہی ہے اس پر جب وہ عمل پیرا ہونگے تو اس دکھ کو سہنا کتنا کٹھن ہوگا۔

رشتہ دار:۔

رشتہ داروں سے حسنِ سلوک سے انسان کے رزق اور عمر میں برکت نصیب ہوتی ہے نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:

مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ، أَوْ يُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ

"جس کو یہ بات خوش کرے کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو یااس کی عمر میں اضافہ ہوجائےتو اسے صلہ رحمی کرنی چاہئے۔"22

ادوار سابقہ میں رشتہ داروں سے حسن سلوک معاشی حالت کو دیکھے بغیر کیا جاتا تھا خاندانی رشتے مالی رشتوں سے مقد م ہوتے تھے رشتہ داروں میں امداد باہمی کمزوروں کو سہارا فراہم کرتی اور غمگساری غم کی شدت میں کمی کا باعث بنتی لیکن پھرمادیت پرستی کی وبا نے سماجی فاصلے کو جنم دیا اور خون کے رشتے دور ہوگئے اور مال کے رشتے قریب ہوگئے مفاد پرستی کے جراثیم خود غرضی کاسبب بنے پہلے فارغ اوقات رشتہ داروں سے بالمشافہ ملاقات میں صرف ہوتے تھے اب طمع جاہ ومال کےسبب فراغت نصیب ہی نہیں ہوتی اگر ہو بھی جائے توسوشل میڈیاکی ایسی دوستی اس فراغت کو بہا کر لے جاتی ہے جس میں مد مقابل کے نہ مزاج کاعلم ہوتاہے نہ خاندان کا پتا نہ جنس کے بتانے میں سچ کا یقین ہوتا ہے نہ عمر کے فرق کا لحاظ اور جو دکھ اورتکلیف کے مواقع میں شریک ہوکر نہ مداوہ کر سکتا ہے نہ پر مسرت لمحات میں شرکت سے لطف کو دوبالا۔

یتیم ومسکین:۔

کبھی کوئی بندہ فوت ہوجاتاہے اور اپنے پیچھے ایسے نابالغ بچے چھوڑ جاتاہے جو اپنے نان ونفقہ کا اہتمام نہیں کرسکتے اوربعض اوقات خاندان کے ایسے بالغ افرادبھی ہوتے ہیں جن کے پاس ضروریات زندگی کے لئے مال نہیں ہوتا تو اسلام ایسے یتیموں اور مسکینوں سے اچھے اندازمیں پیش آنے کی دوعت دیتاہے اور یہ قومی وحدت اور باہمی کفالت کا وہ پربھرا درس ہے جس کی جانب کتاب حکیم ہمیں متوجہ کرتی ہے جس کی طرف قرآن ہر مناسب موقع پر ہماری توجہ مبذول کراتا ہے۔اسی طرح حضورسیدعالم ﷺنےبھی یتیم سے حسن سلوک کی ترغیب دی اور یتیم کے ساتھ براسلوک کرنے کی مذمت کی آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

''مسلمانوں کے گھروں ميں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس ميں يتيم سے اچھاسلوک کيا جائے اور مسلمانوں کے گھروں ميں سے برا گھر وہ ہے جس ميں يتيم سے برا سلوک کيا جائے۔23''

پڑوسی:۔

پڑوسی بھی خاندان کے افراد کی مثل ہوتے ہیں پڑوسی تین طرح کے ہوتے ہیں ۔

رشتہ داراورپڑوسی

مسلمان اور پڑوسی

غیر مسلم اور پڑوسی

جو پڑوسی مسلمان بھی ہے اور رشتہ دار بھی اس کے حقوق اسلام ،رشتہ دار اور پڑوس ہونے کے اعتبار سےہیں اور جو مسلمان ہےاور پڑوسی ہے اس کے حقوق دو رشتوں کےاعتبار سے مذکورہ بالا آیت کریمہ میں رشتہ دارپڑوسی اور غیر رشتہ دار پڑوسی دونوں سے احسان کرنے کاارشاد ہوا اور جو غیر مسلم ہے اس کا بھی پڑوس کی وجہ سے حق ہے ۔

پڑوسی سے حسن سلوک کے مختلف اندازہیں۔

جب وہ مدد مانگے اس کی مدد کی جائے ۔

جب قرض مانگے قرض دیا جائے۔

جب مرض میں مبتلاءہوعیادت کی جائے۔

جب اس کوخوشی نصیب ہو تو مبارک باد دی جائے۔

جب غم سے آزمایا جائے توغمگساری کی جائے۔

فوت ہوتواس کی نمازجنازہ ادا کی جائے۔

اس کی اجازت کے بغیر اپنی عمارت بلند نہ کی جائے، کہ اس کی ہوا رکے

ماضی میں پڑوسی کا سگے رشتہ داروں کی طرح سلوک کیا جاتا ان کے مردوں کودادا،چچا ،ماموں اور بھائی کا درجہ دیا جاتا اور عورتوں کو دادی ،نانی،خالہ ،پھوپھی،بہن اور بھابی کادرجہ دیا جاتا ان کے دکھ درداور خوشی غمی میں اسی طرح شرکت کی جاتی جیسے اپنے سگے رشتہ داروں کے ان مواقع میں شرکت ہوتی لیکن پھر آہستہ آہستہ نئے شہر آباد ہوئے اور مختلف علاقوں کے لوگوں نے اعلی تعلیم ومعاش کے لئے ان شہروں کارخ کیا اور حالت ایسے ہوگئے کہ پڑوسی ایک دوسرے کے لئے انجان ہوگئے ایک زمین پر بنے مکان کے بالا خانے میں بسنے والے افراد کو نچلے حصے میں رہنے والے افراد کی خبر نہیں ہوتی اور مالک مکان کو اپنے گھر کی ایک منزل میں آباد افراد پر اتنا اعتماد نہیں ہوتا کہ پیشگی کرایہ نہ لے ۔

ہم مجلس:۔

خاندانی زندگی میں اکثر مل بیٹھنا نصیب ہوتا ہےاس طرح مل بیٹھنے میں اٹھنے ،بیٹھنے ،گفتگوکرنے کے افعال کئے جاتے ہیں اسلام نے اس لئے اپنے ہم مجلس کے ساتھ حسن سلوک کادرس دیا اور مجلس کے آداب بھی سکھائے ان میں سے کچھ کا ثبوت قرآن کریم سے ہے کچھ کا احادیث مبارکہ سے اور کچھ فقہاء کے اقوال سے ان کو بالترتیب بیان کیا جائے گا۔

(1) مجلس میں موجود لوگوں کےآداب :۔

جب مجلس قائم ہو اور باہر سے کچھ لوگ آجائیں تو اس مجلس میں موجود لوگوں کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے اس کے متعلق قرآن کریم میں رب ذوالجلال کاارشاد گرامی ہے۔

یٰۤاَیُّهُا الَّذِینَ اٰمَنُوا اِذَا قِیلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوا فِی الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوا یَفْسَحِ اللهُ لَکُمْ 24

اے ایمان والوں جب تم کوکہاجائے کہ مجلس میں جگہ دو تو تم جگہ دو اللہ تعالیٰ تمہیں جگہ دے گا۔

اس آیت مبارکہ میں مومنوں کومجلس کےان آداب سے آگاہ کیاجارہاہے جن کواپناناباہمی الفت اوراحترام میں اضافے کاسبب ہے۔اگر مجلس منعقد ہواورمجلس میں باہر سے کچھ لوگ شرکت کی غرض سے حاضر ہوتواہل مجلس کایہ حق بنتاہے کہ وہ ان نئے آنے والوں کے بیٹھنے کے لئےمناسب جگہ کااہتمام کریں ۔ان کوپورے احترام سے جگہ دیں اگر مجلس میں جگہ تنگ ہوتو جتنااپنے آپ کوسمیٹ سکتے ہیں سمیٹ لیں اور ان کے لئے کشادگی کابندوبست کریں ۔ایک تواس سے ان لوگوں کے دلوں میں ان کاکی محبت اور عزت میں اضافہ ہوگا اور اس کے ساتھ دنیا میں اللہ تعالیٰ ان کے رزق میں فراخی عطافرمائے گااورآخرت میں بھی وسعت نصیب ہوگی۔

(2)باہر سے مجلس میں آنے والوں کے آداب:۔

اسلام ماخوذ ہی سلامتی سے ہے اس لئےسلام کو عام کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔ نبی کریمﷺ کاارشاد گرامی ہے:

أَوَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ

"کیا میں ایسی چیز کی طرف تمہاری راہنمائی نہ کروکہ جب تم سے سرانجام دو تو تم میں باہمی محبت پیداہو۔اپنے درمیان سلام کوعام کرو"25

اگر گھر میں آتے جاتے وقت سلام دینے اورسلام کا جواب دینے کارواج ہوگا تو بچہ بھی گھر سے نکلتے وقت اور واپسی پرسلامتی کی اس دعا کو ورد زبان بنا لےگااور اسی طرح مختلف مجالس ومحافل میں شرکت کے وقت اس کو عام کرے گا توان تمام مقامات پر سلامتی کانزول ہوگا۔

جو لوگ مجلس میں پہلے سے موجود تھے انہیں اس آیت کریمہ میں یہ سکھایاگیاکہ وہ نئے حاضرین کےلئے جگہ بنائیں اورحدیث پاک میں باہر سے آنے والوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ مجلس میں پہلے سے موجود افراد کو اواپنی جگہ سے اٹھاکر خود ان کی جگہ پر قبضہ کرکے نہ بیٹھ جائیں بلکہ جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائیں ۔ ارشاد نبوی ہے ۔

لا یقیم الرجل الرجل من مجلسه ثم یجلس فیه26

کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کو اس کے بیٹھنےکی جگہ سےنہ اٹھائے(کہ)پھر اس جگہ میں خود بیٹھ جائے۔

(2)اگر مجلس سے کوئی بندہ اٹھ کر کسی کام کوجائے اور مجلس میں بیٹھےافراد کواس کے واپس آنے کاعلم ہوتو کسی دوسرے کواس کی جگہ پر بیٹھنے سے پرہیز کرناچاہئے کیونکہ وہ اس جگہ بیٹھنے کازیادہ حق دار ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا قَامَ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسٍ ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ27۔

(3)اگر مجلس میں دوشخص قریب بیٹھ کر آپس میں گفتگو میں مصروف ہوں تو ان کی اجازت کے بغیر ان کے درمیان میں نہیں بیٹھناچاہئے البتہ اگر وہ اجازت دے دین توپھر کوئی مضائقہ نہیں ۔جیسا کہ حدیث پاک میں ہے لَا يُجْلَسْ بَيْنَ رَجُلَيْنِ إِلَّا بِإِذْنِهِمَا28۔

کیونکہ ممکن ہے وہ اپنی کسی نجی گفتگو میں یا اہم مشاورت میں مشغول ہوں اور ان پر کسی اور کا دخل اندازی کرنا گراں گزرے ۔

(4)جس قدرممکن ہوجمائی کو روکاجائے اگر پھر بھی نہ رکے تو منہ کوبائیں ہاتھ کی پشت یا کپڑے سے ڈھانپ لیناچاہئے۔

(5)زیادہ آواز کے ساتھ قہقہ لگا کر کر نہیں ہنسنا چاہئے کہ اس سے دل مردہ ہوجاتاہے۔29

فقہاء نے جو آداب مجلس بیان کئے وہ درج ذیل ہیں ۔

(1)جو بندہ تمہارےساتھ ملاقات کرنے کےلئے آئے توتم مسرت کااظہار کرتے ہوئے اس کی خاطراپنی جگہ سے ذرا ہٹ جاو تاکہ اسے اپنی قدرومنزلت کاعلم ہو۔

(2)سردار بن کر مجلس میں نہ بیٹھوبلکہ جوجگہ مل جائے وہیں بیٹھ جاوتکبر اللہ تعالیٰ کوبہت زیادہ ناپسند ہے اور عاجزی کواللہ تعالیٰ بہت زیادہ پسندفرماتاہے۔

(3)مجلس میں چھینک آنے کی صورت میں اپنے منہ پر ہاتھ یاکپڑارکھ لواور آہستہ آوازکے ساتھ چھینکواور اونچی آوازکےساتھ الحمدللہ کہواور مجلس میں موجود افراد جو بااونچی آوازسے یرحمک اللہ کہیں ۔30

مجلس برخاست کرنے کی دعا:۔اللہ تعالیٰ کے رسول مکرم ﷺکاارشاد گرامی ہے کہ جوشخص مجلس سے اٹھ کرتین بار یہ دعاپڑھے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کوختم کردےگااور جو بندہ خیر اور ذکر کی مجلس میں اس ے پڑھےگااللہ تعالی اس کےلئے خیر پرمہرلگادے گا۔

سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَ بِحَمْدِکَ لَا اِلَٰه اِلَّااَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَ اَتُوْبُ اِلَیْکَ31۔

اےہمارے اللہ ہم تیری حمد کے ساتھ تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں توہی معبود برحق ہے میں تجھ سے مغفرت کاسوال کرتاہوں اورتجھ سے توبہ کرتاہوں۔

اگر انسان پھولوں کی دکان پر بیٹھتا ہو اور اس کو وہاں سے کوئی منفعت نہ بھی ہوتو اتنا ضرور ہوگا کہ جب تک دکان میں بیٹھے گااس کے مشام جاں پھولوں کی مہک سے معطر رہیں گےمجلس کاانسانی زندگی پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے آدمی اپنے ہم نشین سے پہچانا بھی جاتا ہے اوران کی عادات واطوار کو لاشعوری طور پر اپنا بھی لیتاہے اس لئے مجلس کے انتخاب میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ماضی میں مجلس کے انتخاب میں خاندان اہم کردار ادا کرتا والدخود بھی بری مجلس سے دور رہتا اور اولاد کی کڑی نگرانی کرتا کہ وہ بری مجلس کا حصہ نہ بنے لیکن وٹس ایپ اور فیس بک گروپس کیوجہ سے اب یہ اس بات پر نظر رکھنا مشکل ہوگیا ہے ۔

ماضی میں خاندانی مجالس میں ان آداب کاخاص لحاظ رکھا جاتا تھا نیزا س کے ساتھ ساتھ بزرگوں کی موجودگی میں سنجیدگی کادامن ہاتھ سے نہ چھوٹتا تھا بات بات پر قہقہے،بزرگوں کی بات پر عدم دھیان اور فضول گوئی سے پرہیز کیا جاتا تھاپھر اقدار میں تبدیلی آئی مل بیٹھنے کا وقت نایاب ہوگیا اگر میسر بھی آیا تو ہر ایک نے موبائل پر اپنا جہاں آباد کر لیا ہر وقت کےبے محل قہقہے خوش مزاجی ٹھہرے،ہر بات پر جواب خود اعتمادی کی علامت ہوا اوراول تو بزرگوں کی محفل میں موجودگی کو بھارسمجھا جانے لگا اور ان سے الگ تھلگ بیٹھنے کا اہتمام ہونے لگا اور اگر وہ اپنی تنہائی سے بے زار ہوکر مجلس میں ہی گئے تو ان کی بات سے زیادہ دھیان موبائل فون میں ہونے لگا ۔

مسافر و مہمان :۔

سفر میں انسان مشکلات وتھکاوٹ کا شکار ہوتاہے اور اس کو دوران سفرسکونت وخورد ونوش کی ضرورت ہوتی ہے ۔اسلام نے مسافر ومہمان کے ساتھ اچھے سلوک پرابھاراہے ۔ اگر انسان مسافر کے ساتھ اچھےانداز سے پیش آئے اور مسافر دعاکر دے تو اس کی دعا مستجاب ہوتی ہے۔جس طرح کہ ذیل کی روایت سے واضح ہوتاہے ۔

"ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ لَا شَكَّ فِيهِنَّ: دَعْوَةُ الْوَالِدِ، وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ"32

''تین دعائیں مقبول ہیں: مظلوم کی دعا، اور مسافر کی دعااور والد کی اپنے بچے کےلئے دعا ۔''

اور اگر مسافر کے ساتھ بدسلوکی کی جائےتو انسان قیامت کے دن رب کریم کے ساتھ کلام ،اسکی نظر رحمت اور جنت کے داخلے سے محروم ہوجائے گا جیسا کہ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: رَجُلٌ عَلَى فَضْلِ مَاءٍ بِالْفَلَاةِ يَمْنَعُهُ مِنَ ابْنِ السَّبِيلِ،الحدیث33

کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایاقیامت کےدن تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ گفتگو نہیں فرمائے گااور نہ ان کی طرف نظررحمت فرمائے گااور نہ ان کو پاک فرمائےگااور ان کے لئے دردناک عذاب ہے(ان میں سے)ایک آدمی وہ ہے جس کےقبضے میں بیابان میں پانی ہووروہ اسے مسافر سے روک دے۔الحدیث

کبھی کبھی مسافرمہمان بن کرآتا ہے اورمہمان نوازی اسلامی اقدار کا خاصہ ہے حضورسید عالم ﷺنے ارشاد فرمایا:

وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ34

اور جوشخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پرایمان رکھتا ہواسے مہمان کی عزت کرنی چاہئے۔

ذرائع آمد ورفت کی ترقی سےقبل لوگ جب کسی جگہ سفر کرکے جاتے تو عموما وہاں پر قیام کرتے اوران کی مہمان نوازی خاندانی روایات کاحصہ تھی دالان کھلے اور قلب وسیع تھے تکلف سے عاری اور خلوص سے بھرپور ضیافت کا اہتمام کیا جاتا اور مہمان اس کو خوش دلی سے تناول کرتے محلے ،گاوں اوربرادری کےمشترکہ مہمان خانےہوتے اور وہی مشترکہ چوپال ہوتی ایک خاندان کا مہمان سب کامہمان شمار ہوتا ہر خاندان اپنی وسعت کے مطابق اس کی مہمان نوازی کی کوشش کرتا اورشام کے وقت جب چوپال سجتی تومہمان کو بالکل اجنبیت محسوس نہ ہوتی لیکن پھر وقت بدلا کچی سڑکیں کارپٹ روڈز اور موٹروے میں تبدیل ہوئیں سست رفتار ذرائع آمد ورفت تیز رفتار اور آرام دہ ذرائع میں تبدیل ہوئے لوگوں نے دوسری جگہ قیام پر سفر کرکے اپنے گھر پہنچنے کو ترجیح دی اور مکان ودلان کے تنگ ہونے کے ساتھ ساتھ دل بھی تنگ ہوگئے بےتکلفی کی جگہ تکلف نے لی گھر وں کے مہمان خانے ویران ہوئے اور ہوٹل و شادی ہال آباد ہوگئے تومسافر ومہمان کے ساتھ حسن سلوک کی اسلامی اخلاقی اقدار بدل گئیں۔

غلام :۔چونکہ موجودہ دور میں غلام ناپید ہیں اس لئے اس پر بحث نہیں کی جارہی

خلاصہ بحث:۔

اسلام شرم و حیاء،حُسنِ کلام،حسن سلوک کی اہم اخلاقی اقدار کو جامع ہے زمانہ ماضی میں خاندان نے ان کے فروغ میں اہم کردار اد کیا لیکن تغیرات زمانہ نے اس کی راہ میں چند رکاوٹیں حائل کردی ہیں ۔

شرم وحیاء کے فروغ میں بدنگاہی ،اظہار زینت،اختلاط مردوزن، اوائل بلوغت میں شادی میں حائل سماجی وقانونی رکاوٹوں ،میڈیاکے غلط استعمال اور شریک انتخاب میں بزرگوں کی عدم شرکت جیسے مسائل کا سامنا ہے اور اس کا حل یہ ہےکہ تعشیات کو ترک کرکے صرف مرد کی آمدنی سے اپنی ضروریات زندگی کو پورا کیا جائے ،میڈیا کے مثبت استعمال کو عام کیا جائے ،اوائل بلوغت میں شادی کی راہ میں حائل قانونی وسماجی رکاوٹوں کو دور کیاجائے۔

بچوں سے معاندانہ طرزگفتگو،بزرگوں سے گستاخانہ انداز تخاطب، کذب بیانی ،فحش گوئی وبکواس بازی اور غیبت کا رواج پکڑنا حسن کلام کو عام کرنے میں رکاوٹ بن رہا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہاہمی گفتگو میں بچوں سے ناصحانہ اور بزرگوں سے مودبانہ رویہ اختیار کیا جائے،کذب بیانی کو چھوڑ کر صدق مقال کو اپنایا جائے فحش گوئی ،بکواس بازی اور غیبت کے جملہ اسباب کا خاتمہ کیا جائے خصوصا میڈیا کے استعمال میں احتیاط برتی جائے ۔

والدین ،رشتہ دار،پڑوسی، یتیم ومسکین،ہم مجلس اورمسافرومہمان کے ساتھ حسن سلوک کو اگلی نسل وجدید معاشرے میں منتقل کرنے میں بڑھاپے میں والدین سے عدم توجہی،رشتہ داری پر مادیت پرستی کاغلبہ،یتیم و مسکین کی فلاحی تنظیموں کوسپردگی،آداب مجلس کا عدم لحاظ اور تنگ دامنی وتنگ مکانی جیسے اسباب مانع ہیں اس لئے ضروری ہے کہ والدین کاپڑھاپے میں سہارا بن کر نسل نو کے سامنے عمدہ مثال پیش کی جائے،مادیت پرستی پر اقراباء پروری کو ترجیح دی جائے،یتیم ومسکین کی کفالت کاانتظام ان کا خاندان خود کرے،اور انتخاب مجلس وآداب مجلس کا خیال رکھا جائے خصوصا سوشل میڈیا کے گروپس میں شمولیت کے وقت احتیاط برتی جائےاور کشادہ دلی سے مسافر ومہمان کی ضیافت کااہتمام کیا جائے ۔

حواشی:۔

1 نائب مفتی ومدرس دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف ضلع سرگودھا

1 محمدکرم شاہ الازہری، ضیاءالقرآن) لاہور :ضیاءالقرآن پبلی کیشنز،س ن(،1/119۔

2 محمد امین بن عمر ابن عابدین ،ردالمحتار علی الدر المختار) بیروت :دارلفکر،1412ھ (،1/79۔

3ابوعبداللہ ابن ماجہ ،السنن ،کتاب الزھد ، باب الحیاء (بیروت :دار احیاء الکتب العربیۃ ،س ن( ،2/ 1399۔

4 ابو عیسیٰ محمد بن عیسی الترمذی ،الجامع، ابواب البر ولاصلۃ،باب ماجاء فی الحیاء، 3/ 433۔

5 القرآن:24/31۔

6 القرآن:24/31۔

7 ابو عبداللہ محمد بن احمدالقرطبی ،الجامع لاحکام القرآن (قاہرہ : دارالکتب المصریۃ،س ن)، 12/223۔

8 ابوالقاسم سلیمان بن احمد الطبرانی،معجم الکبیر(قاہرہ : مکتبہ ابن تیمیہ،س ن)، 10/173۔

9 القرآن :27/24۔

10 ابن ماجہ ،السنن ،کتاب الزھد ، باب الحیاء،2/ 1400۔

11 محمد بن اسماعيل البخاري ، الجامع الصحیح ، کتاب الرقاق،باب حفظ اللسان (بیروت:دار طوق النجاة، 1422ھ)،4/2405۔

12 القرآن :17/23۔

13 القرآن : 17/23۔

14 بخاري ، الجامع الصحیح ، کتاب الادب،بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِين۔۔۔الخ،8/25۔

15 ابو الحسن مسلم بن الحجاج ، الصحیح ، کتاب الایمان، باب بیان قول النبی ﷺ :سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُہ كُفْر ، 1/57 ۔

16 القرآن :12/49۔

17 ابوداو سلیمان بن اشعث ،سنن ،کتاب الادب،باب ماجاء فی تشدیدفی الکذب(بیروت:المکتبہ العصریہ ،س ن )،4/298 ۔

18 القرآن :36/4۔

19 بخاري ، الجامع الصحیح ، ،کتاب المواقیت الصلاۃ ، باب فضل الصلاۃ لوقتھا ،1/112۔

20 القرآن :23/17۔

21 ازہری، ضیاءالقرآن(،650/2۔

22 بخاري ، الجامع الصحیح ،کتاب البیوع، بَابُ مَنْ أَحَبَّ البَسْطَ فِي الرِّزْقِ،3/56۔

23 ابن ماجہ ،السنن ،کتاب الادب ، باب حق الیتیم ،5/ 2697۔

24 القرآن:11/58۔

25 مسلم ، الصحیح ،کتاب الایمان ،باب بیان ان لا یدخل الجنۃ ۔۔۔الخ، 1/53 ۔

26 بخاري ، الجامع الصحیح ،کتاب الاستئذان،باب لاَ يُقِيمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ مَجْلِسِه،8/61۔

27 ابوداو دسلیمان بن اشعث ،السنن ، کتاب الادب،باب اذا قام الرجل من مجلس ۔۔الخ،4/264۔

28 ابوداود ،السنن ،کتاب الادب،باب فی الرجل یجلس بین الرجلین ۔۔۔الخ،4/262۔

29 ابن ماجہ ،السنن،کتاب الزھد ، باب الحزن ولبکاء،دار احیاء الکتب العربیۃ ،2/ 1403۔

30 لجنۃعلماء برئاسہ نظام الدين بلخی ،الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔إلخ(بیروت :دار الفکر، 1310ھ (،5/326۔

31 ابوداود سلیمان بن اشعث ،السنن، کتاب الادب،باب فی کفارۃ المجلس، 4/264 ۔

32 ابوداو سلیمان بن اشعث ،السنن ،کتاب الصلاۃ، باب الدعاء بظھر الغیب،2/89 ۔

33 مسلم ، الصحیح ، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم ۔۔۔الخ، 1/103 ۔

34 مسلم ، الصحیح ، کتاب الایمان، باب الحث علی اکرام الجار والضیف۔۔۔الخ، 1/68 ۔


[19]


Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index