1
1
2023
1708415925413_3309
77 to 96-77 to 96
https://journals.riphah.edu.pk/index.php/jitc/article/download/1919/1047
https://journals.riphah.edu.pk/index.php/jitc/article/view/1919
{RJITC} Vol: I, Issue: 01 Jan-June2023
Riphah Journal of Islamic Thought & Civilization Published by: Department of Islamic Studies,Riphah International University, Islamabad
Email: editor.rijic@riphah.edu.pk
Website: https://journals.riphah.edu.pk/index.php/jitc
ISSN (E): 2791-187X
اُسوہ نبوی ﷺ کی روشنی میں قیادت کےعصری تصورات(تجزیاتی مطالعہ)
In Contemporary Concepts of Leadership in the Light of the Holy Prophet
ﷺ )Analytical studies)
Sidra naziri
Rafiq khanii
Abstract
On a wide scale There is a (یاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ) need for an ideal leader and his leadership. If a believer talks about leadership, he will only have the concept of Islamic leadership. To which the verses and hadiths indicate, in this category there will be leaders and leaders who will be able to lead their supporters and followers towards physical and spiritual development. All kinds of leadership were given to the Prophet ﷺ. Whatever qualities he had within him were of a perfect level. The principles of Islamic guidance that the Prophet ﷺ had explained were followed by the Companions and the pious people and any leadership in the whole universe that we see. have also adopted it in full stubbornness, they emerged as the Ameerul Momineen and Caliphate of the Muslims of that time, and the principle of following the leadership of the Prophet ﷺ, an Islamic state and society, equally for both Muslim and non-Muslim minorities.While the principles and laws of the current situation are completely opposite. The question is what are the goals and demands of the leadership of the present age and how is prophetic leadership helpful in the improvement of the current leadership?Are following the principles of leadership mentioned by Karim ﷺ? In the paper under discussion, contemporary leadership principles and their analyzes will be examined in the light of Prophet Muhammad keeping in mind the requirements of the time.
Key words: modern times, leadership, principles, laws, prophethood
تمہید :
اسلام ایک کامل واکمل دین اور مکمل ضابطہ حیات ہے اسلام فرد کی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اسکی اجتماعی زندگی کے اصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں پہلو بہ پہلو انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے ۔ اسلام کا نظام ِ حکومت سیاسی دنیا کےلیے ناموسِ اکبر ہے حاکمیت کی جان ہے ۔ اسلامی نظام حکومت کا مآخذ اللہ کاآخری قانون ہے"امر بالمعروف" اور "نهی عن المنکر" کا حکم دیتا ہے ۔ اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے منفرد اوراس کے مفاسد اور نقا ئص سے مکمل طور پر پاک ہے ۔
اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے، اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں ۔ہم "سید ابو الاعلی مودودی "کے توسط سے ماوردی کا قول نقل کرتے ہیں :"کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں"1
اسلامی ریاست میں اقتداراعلی اور حاکمیت وحدہ لاشریک ہستی کے ساتھ مختص ہے ۔ اور اسی کا حق ہے کہ وہ انسانیت کے لئے طرز ِ زندگی اور کائنات کے قوانین مقرر کرے۔اور ایک پر امن اور اسلامی ریاست انہی قوانین کی بنیاد پر مستحکم ہوتی ہے ۔اسلامی ریاست میں اللہ کی حاکمیت کو زمین پر نافذ کرنے کا فریضہ اولوالامر کے سپرد کیا گیا ہے ۔رسول اللہ ﷺکے بعد یہ منصب خیر الامم کی طرف منتقل ہوا۔اللہ کا ارشاد ہے :
﴿یأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ﴾2
ترجمہ :"اے ایمان والوں ،اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور اپنے اولوالامر کی"
عصر
حاضر میں شرقاً
غربا ً قیادت
،سیادت اورسیاست
کی ہی گونج ہے
۔ ہر شخص خود کو
سردار مانتا
ہے اور دوسرے
لوگوں سے بھی
خود کو قائد
منوانے کی کوشش
میں رہتا ہے۔
حالاں کہ یہ
مرتبہ اخلاص
و للہیت سے ملتا
ہے۔ جو قوم کی
فلاح و بہبود
اور ہمدردی کے کام کرکے اس کے
دل میں جگہ بنا
سکے وہی دراصل
قائد بھی سردار
اور رہنما بھی
ہے ۔ اسلامی
تعلیمات کی رو
سے انصاف پسند
،ہمدرداور حق
گو قائد کی بڑی
اہمیت اور فضیلت
ہے۔کیوں کہ یہ
ہی وہ لوگ ہیں
جو اس کائنات
میں اللہ تعالیٰ
احکامات کو مدنظر رکھتے
ہوئے قوانین
کو لا گو کرنے
کا باعث بنتے
ہیں ۔اورجو
منصب ان کو عطا
کیا گیا ہے اس
کا تقاضا بھی
یہ ہے کہ شرعی
قوانین پر خود
بھی عمل کرے اور
اپنے ما تحت
لوگوں میں بھی
اسی کے قانون
کو نا فذ کریں ۔اللہ تعالی ہی وہ واحد ذات
ہے جو پوری کائنا
ت کا حقیقی حکمران
ہے۔ لہذا پوری
مخلوق کا منصب
صرف اطاعت اور
فرما نبرداری
کا ہے اگر کسی
کو اس دنیا میں
حکمرانی کا حق حاصل ہے تو
صرف وحدہ لاشریک
کے نمائندہ ہونے
کی حیثیت سے
حاصل ہے ۔اسی
وجہ سے کسی کو
قطعاً جا ئز
نہیں ہے وہ حقیقی
حکمران کے خلاف حکم دے اور شرعی
قوانین کے خلاف
خود بھی عمل
کرئے اگر کوئی
ایسے کرئے گا
تو مفاد پرست
اور نام ونمود
کے خواہاں قائد
و رہنما کا انجام
دنیا میں ذلالت اور آخرت میں
عذابِ جہنم
ہے۔
قیادت
کا معنی ومفہوم
:
لفط قیادت عربی میں قاد ، یقود سے مصدر کا صیغہ ہے 3یعنی رہنمائی کرنا ،رہبری کرنا ،کسی کےآگے چلنا وغیرہ جیسے :
’’قیادۃ الجَیشُ‘‘4 "یعنی لشکر کی کمانڈ کرنا "
قیادت : "رہنمائی ،رہبری کرنے کا عمل ،سربراہی "5
قائد : "فوج کا سردار،حاکم ،وہ جو اندھے کی لا ٹھی ہاتھ میں پکڑ کر اس کو راستے پر لے جائے "6
یعنی حکمرانی کرنے اور رہبری کرنے کا مطلب ہی قیادت ہے کیوں کہ حکمران اور رہبر ہی وہ قا ئد ہوتا ہے جو قوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے دنیا و آخرت کی کامیابی وکامرانی کا راستہ دیکھا سکتا ہے ۔ اور ذلت وبربادی کے راستے پر چلانے کا بھی باعث بن سکتا ہے۔معجم الرائد میں ہے :’’قاد یقود : قیادۃ (قود ) الجیش : کان رئیسا عليه یدبر ر وشوونه‘‘7"کسی لشکر کی قیادت ،اس کی منصوبہ سازی اور معاملات کی تدبیر کرنا ہے "جو عوام کی نمائندگی کرتا ہے اس کو اردو میں قیادت کہتے ہے اور عربی زبان میں عرفاءکہا جاتا ہے جو عریف کی جمع ہے ،جس کے بارے میں نبی کریم و نے ارشاد فرماىا:
8«إِنَّ الْعِرَافَةَ حَقٌّ وَلاَ بُدَّ لِلنَّاسِ مِنَ الْعُرَفَاءِ وَلَكِنَّ الْعُرَفَاءَ فِى النَّارِ»
"عریف راہنما ، سردار اورقائدکےمعنی میں آتا ہے "9جس کو نقیب بھی کہا جاتاہےاوراس کی جمع نقباء ہے۔ موسی نے بنی اسرائیل کےلیے بارہ نقیب 10مقرر کئےتھے جو اپنے قبیلوں کے نمائندگی اورقیادت کرتے تھے۔
"ارشد احمد بیگ کہتے ہیں":
"قیادت کا اصل مفہوم ایسی صلاحیت ہے جس سے دوسروں پر اثرانداز ہوا جاسکے،اور جس سے افرادِکار میں تحریک ،
فعالیت اور جزبہ عمل پیدا کیا جائے،اور اس کے نتیجے میں مطلوبہ معیارکےمطابق طے اہداف کا حصول ممکن ہوسکے"11
’’قَادَ الرَّجُلُ الْفَرَسَ قَوْدًا‘‘’’یعنی آدمی گھوڑے کو لے کرچلا تاکہ قیادت کرے"’’وَيُسْتَعْمَلُ بِمَعْنَى الطَّاعَةِ وَالْإِذْعَانِ وَانْقَادَ فُلَانٌ لِلْأَمْرِ وَأَعْطَى الْقِيَادَ إذَا أَذْعَنَ طَوْعًا أَوْ كَرْهًا"۔"قیادت اطاعت ماننے اور کسی کے ذمہ کوئی کام کرنے کےمعنی میں استعمال ہوتاہے اسی سے اسے قیادت دی گئی اس کی خوشی یا مجبوری سے "وَقَادَ الْأَمِيرُ الْجَيْشَ قِيَادَةً فَهُوَ قَائِدٌ وَجَمْعُهُ قَادَةٌ وَقُوَّادٌ وَانْقَادَ انْقِيَادًا 12" امیر نے لشکر کی قیادت کی اور وہ قائد کی طرح تھےاور اس کی جمع قادۃ اور قوداد وغیرہ"قیادت کے حوالے سے اگر قائد خود اصولِ مسلمہ کی پیروی کرئے تو رعایا سے ان تمام اصولوں کا مطالبہ آسان ہو جائے گا ۔ کیوں کہ قول و فعل کے تضاد سے قرآن مجید میں بچنے کا حکم ہے۔ارشاد باری تعالی ٰ ہے : ﱢ
﴿لِمَا تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ﴾13
"اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں"
تاریخ ِعالم رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ؓ کی قیادت و حکمرانی کی نظیر دھونڈنے سے قاصر ہے ، کیوں انہوں نے احکامات الہی کی حدود میں رہ کر حکومت کی اور سب سے زیادہ رعایا کے خیر خواہ تھے ۔ آپ ﷺنے فرمایا:
«الدِّينُ النَّصِيحَةُ (قال ثلاثاً) قَالُوا: لِمَنْ؟ قَالَ:« لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُؤْمِنِينَ وَعَامَّتِهِ«14
"دین میں خیر خواہی ہے،یہ بات آپﷺنے تین بار دہرائی صحابہ نے پوچھا کس کےلئے؟ آپ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالی ٰ کےلئے اس کے کتاب ، اس کے رسول، مسلمانوں کے لیڈرکے لئے اور عام رعایاکےلئے یہ خیر خواہی ہے"
اسلامی ریاست میں قیادت کا تصور:
"سرکار رسالت مآب صلى الله عليه وآله وسلم سے پہلے عرب کو ’’جلی ہوئی زمین ‘‘ کے نام سے یا د کیا جاتا تا تھا ۔صحراؤں میں انسان نما جانور رہتے تھے جوبات کا بتنگڑ بنانے میں دیر نہیں کرتے تھے بلکہ فساد و خوں ریزی انکی سرشت کا حصہ بن چکی تھی۔ قبیلہ وار جنگیں ہوتی رہتی تھیں ۔چونکہ زمانہ جاہلیت میں یہودیوں کا قومی پیشہ اسلحہ سازی تھا لہذا یہ دھندا اسی وقت پھل پھول سکتا تھا جب ہر طرف جنگ و خوں ریزی کا ماحول گرم ہو ۔لہذا یہودی منظم طریقے سے عربوں کی جہالت اور قبائلی عصبیت کا فائدہ اٹھا کر لوگوں کو آپس میں لڑواتے رہتے تھے ۔ذرا ذرا سی بات پر چالیس چالیس سال تک جنگیں ہوتی رہتی تھیں اس طرح یہودیوں کا قومی بزنس ترقی کرتا گیا اور عرب اپنا سارا سرمایہ اسلحہ کی خرید اور دشمنی نبھانے میں صرف کرتے رہےسرمایہ دار طبقہ زندگی کے ہر شعبہ پر حکمرانی کر رہا تھا ۔غریب افراد کو پیٹ پالنے کے لئے یا تو بھیڑ بکریوں کے دودھ پر گذارا کرنا پڑتا یا پھر وہ خالی کھجوریں کھاکر وقت گذار لیتے تھے ۔تجارت کے لئے اگر کسی سرمایہ دار سے قرض لیتے تو تجارت میں منافع کی کثیر رقم سود کی شکل میں سرمایہ دار کی تجوری میں چلی جاتی اور غرباء خط افلاس سے بھی نیچے زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔یہی لوگ قبیلے کے سردار اور خاندان کے سربراہ کہلاتے تھے ۔ کثرت اولاد اور دولت کی فراوانی پر بعض قبیلے بعض پر حسد کرتے۔ اپنے قبیلے کی قبور ِکثرت تعداد پر ناز کر نا عام بات تھی "15یہ جاہلانہ تہذیبی و اخلاقی تنزلی ،بے ہودہ رسومات ،خودساختہ مذہبی و سماجی بندشیں اپنے عروج پر تھی ۔لہذا ایسے میں ظلمت کے بادل پر نور ِ محمدی غالب آیا جس نے لوگوں کو ان کے حقوق ااورمقام دلوایا ایک وقت وہ بھی بذات خود سید عالم ﷺپہ گزرا جب آپ مکہ میں تھے اور طائف تشریف لے گئے اور شعب ابی طالب میں جو دن گزرے وہ بھلا کیسے بھلائے جا سکتے ہیں ۔
پھر وہ دن بھی آئے جب سید عالم صلى الله عليه وآله وسلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے اور مختصرسے وقت میں آپ نے دنیا کا رخ ہی بدل دیا ۔وہ بھی اس علاقے میں جہاں آپ ﷺسے پہلے کوئی بھی سیاسی مرکزیت آئی ہی نہ ہو اور نہ ہی اس سے پہلےکوئی قائد ایسا آیا جس نے قیادت کی ہو ۔اس نراج میں کسی نمونے کو سامنے رکھے بغیر راج قائم کیا ۔آپ ﷺ نے بحیثیت قائداعظم ایک مثالی مملکت قائم کی "جس کا آغاز شہر کے چند گھروں ،چند محلوں سے ہوا اور ستائیس (۲۷)ہی سال میں دنیا کی دو ؑظیم ترین شہنشاہتوں سے وقت واحد میں لڑ کر بیسوں دیگر سلطنتوں کو شکست دے کر ایشیاء ،افریقہ اور یورپ کے تین براعظموں پر پھیل گیا "16اس سیاست ،قیادت اور اس کے اصولوں کا مطالعہ صرف عظیم ماضی کا مطالعہ ہی نہیں بلکہ ایک ایسی شخصیت کے کارناموں کا مطالعہ جس کے ہر قول و فعل کو اللہ رب العزت نے وحی کا درجہ دیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى * إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى﴾17
ترجمہ :"یہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے ، یہ تو وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے "
یہاں وحی سے مراد وحی جلی اور وحی خفی دونوں مراد ہیں ۔جس کو آج بھی دنیا کی اکثریت اپنے لئے اسوہ حسنہ سمجھتی ہے ۔آپ وہی عظیم انسان ہے جنہوں نے بتایا کہ بہترین انسان ہی بہتر قیادت کر سکتا ہے اور بہتر قائدانہ کردار پیش کر سکتا ہےاور قائد کہلانے کا وہی اصل حق دار ہے جو رحم دل ،امانت دار ،عادل ،امن وامان کا خواہاں اور انسانیت کا خدمت گزار ہو ،ان کی ضروریات پوری کرنے والا ہو ،ان کی خالی جھولیوں کو بھرنے والا ہو نہ کہ خود عیش پرست اور اپنی تجوریاں مملکت کے خزانوں سے بھرنے والا ہو ۔یہ تمام صلاحیتں کس سے اور کہاں سے ملے گئی یہ تمام خوبیاں اس عظیم ہستی میں ملے گئی جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
﴿وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾
ترجمہ :"اور بے شک آپ اخلاق کے بلند مرتبے پر فائز ہیں "
قیادت نبویﷺ کے اصول:
نبی کریم ﷺ کی قیادت کے چند اصول عام اور ہمہ گیر تھے یہ مکہ والوں سے مقابلہ کرنے میں اتنے ہی ملحوظ رہے جتنے دیگر سیاسی وحدتوں کے سلسلے ہیں :
۱۔تبلیغ رسالت
سب سے پہلا اصول جو ہر حالت میں ملحوظ ِ خاطر رہا کہ جس مشن اور جس مقصد کے ساتھ آپﷺ مبعوث ہوئے اس کی اشاعت ہو ۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے آپ نے اپنی خواہش انتقام تک کو نظر انداز کر دیا آپ ﷺ نے مکہ کو بغیر کسی شرط اور ضد کے فتح کر لیا ۔اگر آپ چاہتے تو اس مالدار شہر کو لوٹ لیتے اور مہاجرین کی مغضوبہ جائداداور دیگر مالی اور جانی نقصان کا بدلہ لیتے مگر آپ نے قریش کی پیشکش کو بھی رد کر دیا اور اپنے مقصدیعنی تبلیغ سے با زنہ آئے ۔
۲۔اندرونی استحکام :
یہاں یہ دیکھنا مقصود ہے کہ باہمی اور ناگزیر اختلافات کو کس حکمت عملی کے تحت روکا یا دور کیا جاتا تھا اور کس طرح اختلافات کو مٹانے سے قوتوں میں اضافہ ہوتا تھا ۔کیوں کی عصر حاضر میں ہمیں اس حکمت ِ عملی پر عمل کرنے کی بہت ضرورت ہے ۔جب نبی کریم ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں یہ راج تھا ،کوئی بھی شہری مملکت تک نہ تھی کیوں کی اسلام کی شاخیں پوری طرح پھیل نہ پائی تھی صرف چند قبائل ہی مسلمان ہوئے تھے ۔اور اس کے اطراف میں بے شمار یہودی ایسے تھے جو صنعت ،تجارت ،زراعت ،یہاں تک کہ معاشی زندگی پر حاوی تھے ۔یہاں تک کہ ان میں خونریز اور دشمنیاں قائم تھی وہا ں جو سب سے بڑا مسئلہ پیش آیا وہ یہ تھا کہ تمام لوگ ہجرت کر کے آرہے ہیں ان کے پاس رہنے کے لئے گھر نہیں ،کھانے پینے کی اشیاء نہیں ،ان کے لئے زندگی گزارنا بہت مشکل ہے آپ ﷺ نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ان تما م عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی وحدت قائم فرمائی یہ آپ ﷺ کی سیاست کا بہترین پہلو ہے ۔آپ نے لوگوں کو بلوایا اور ان کے درمیان اپنی سیاست کے ذریعے یہ چیز رکھی کہ اب کو ئی یہ نہ سمجھے کہ یہ باہر سے آئے ہیں اور ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ سب آپ لوگوں کے مسلمان بھائی ہیں ۔اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ جہاں ایک کماتا تھا دو کمائے گئے اس طرح منافع دوگنا ہو گا ۔سب نے اس فیصلے کو بخوشی قبول کیا اور ہر ایک نے دوسرے کو اپنا بھائی تسلیم کر لیا ۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ نے دیکھا کہ ہم تعداد میں کم ہے دشمن کسی بھی وقت حملہ آور ہو سکتا ہے آپ ﷺ نے مدینہ کے تمام قبائل خواہ وہ مسلمان ہے یا نہیں ان کے سرداروں کو بُلوایا اور خود بھی دیگر تمام قبائل کا دورہ فرمایا اور ان کے سامنے رکھا کہ ہم اس بات پر متفق ہو جاتے ہیں کہ کل کو کوئی بھی ہمارے اوپر حملہ کرئے تو ہم سب مل کر اس کا مقابلہ کرئے کی بجائے ایک دوسرے کا ساتھ نہ دے اور دشمن ہمارا نام و نشان بھی مٹا دے یہ بات بھی تمام لوگوں کو بہت پسندآئی اور سب اکٹھے ہو گئے۔ اور انہوں نے سوچا کہ اس طرح واقعتا ً ہماری عزت ، آبرو ،جان ومال سب محفوظ ہو جائے گئے ۔
ایک اور اصول یہ قائم کیا کہ جو شخص ،خاندان یا قبیلہ عرب کا مسلمان ہو وہ کسی بھی وقت ہجرت کر کے مدینہ آسکتا ہے ۔اور یہ قانون فتح مدینہ تک قائم رہا نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان اسی اصول کا ہی مصداق ہے فرمانِ نبوی ﷺ ہے :
«"لا هجرۃ بعد الفتح"»18
اس اصول کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانون کی فوج میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا اور غیر مسلم میں اسلام پھیلتا گیا ۔ بنی کریم ﷺ نے یہ بتایا اختلافات کو ختم کر کہ کس طرح قو توں میں اضافہ کیا جا تا ہے ۔ اس طرح مدینہ میں آپ کے توسط سے ایک مملکت قائم ہوئی آپ نے ایسا دستور قائم کیا جس میں رعایا کے حقوق وفرائض کے ساتھ ساتھ انکی بکھری ہوئی اور آپس میں ٹکراتی ہوئی طاقتوں کو لا کر جمع کیا اور ان سے استفادہ حاصل کیا ۔
۳۔انسانی خون کی تکریم وحرمت
نبی کریم ﷺ کے زمانے میں دس لاکھ مربع میل سے زیادہ کا علاقہ فتح ہوا جس میں اس لہاذ سے دشمنوں کا قتل بھی محدود پیمانے پر ہوا اور اسلامی فوج کا نقصان اس سے بھی کم ہے اس کا ثبوت عہد ِنبوی کی سب سے بڑی جنگ بدر میں دشمن کے ستر آدمیوں کا مارا جا نا ہے دشمنوں سے مقابلہ کرنے اور بے تحاشا خونریزی کو کم کرنے کا ایک ہی طریقہ اختیار کیا کہ ہر اچھی چیز چاہے کسی ملک کی ہو اختیار کی گئی مثلاً:
۱۔جنگ بدر میں صف آرائی شروع کر دی گئی اور یہ ہدایات دی گئی کہ اسلحہ کا بے کا ر استعمال نہ کیا جائے ،اور سپاہیوں کے لئے واچ ورڈ مقرر کئے گئے جس کے ذریعے جب دو سپاہی مد مقابل آتے تو اس کو دہراتے اگر حریف اس کو نہ دہراتا تو معلوم ہوجاتا کہ وہ دشمن ہے اور جنگ خندق میں شہر کی مدافعت اسی اصول کی ایک دوسری مثال ہے جس کے ذریعے سے دشمن کو ناکام واپس کیا گیا ۔
۴۔تالیف ِقلب :
پہلی اسلامی مملکت عہد ِنبوی ﷺ میں ہی قائم ہوئی۔قرآن مجید میں جہاں خرچ کے حوالے سے باقی احکامات کا ذکر ہیں وہاں محتاجوں ،مسکینوں کے ساتھ بھی قرآن مجید کی سورہ التوبہ میں ’’المؤلفۃ قلوبھم‘‘کی ترغیب دی گئی کہ دین ِ اسلام کی طرف دلوں کو موہ لینے کے لئے خرچ کیا جا نا چاہیے ۔آپ ﷺ کی قیادت کے اصولوں میں غیر مسلموں کو دینِ اسلام سے متاثر کرنا بھی شامل تھا۔اسکے علاوہ غیر مسلموں کے اعزاز کا لحاظ رکھا،ان کو شاندار انعامات سے نوازاتاکہ ان کا جدید دین دینی اور آخروی لحاظ سے ہی نہیں بلکہ مادی اور دنیادی لحاظ سے بھی ان کے لئے فائدہ مند ثابت ہو ۔مثلاً
۱۔ حاتم طائی کا بیٹا مدینہ آیا تو اس کے لئے مسند بچھائی ۔
۲۔بخاری شریف میں ہے کہ فتح مکہ کے بعد ابو سفیان وغیرہ نو مسلموں کو سینکڑوں اونٹ فی کس بطور انعام دیئے گئے ۔
۵۔رعایاکواحتساب کا حق :
جناب رسول ﷺ نے حکومت کا نظام قائم کیا اور معاشرے کے ہر فرد کو احتساب کا حق دیا، حدیث مبارکہ :"عن أسید بن حضیر رجل من الانصار قال بینما ہو یحدث القوم، وکان فیہ مزاح بیننا یضحکہم ، فطعنہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم في خاصرتہ بعود، فقال أصبرني قال اصطبر، قال إن علیک قمیصا ولیس علیَّ قمیص، فرفع النبي صلی اللہ علیہ وسلم عن قمیصہ، فاحتضنہ ، وجعل یقبل کشحہ ، قال إنما أردت ہذا یارسول اللہ" 19
"حضرت اسید ابن حضیر جو ایک انصاری صحابی ہیں فرماتے ہیں کہ وہ اپنی قوم سے گفتگو فرما رہے تھے، مزاح ومذاق ان کے درمیان چل رہا تھا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کوکھ میں لکڑی لگادی، انہوں نے کہا مجھے بدلہ دیجئے، آپ ﷺنے فرمایا کہ بدلہ لے لو، انہوں نے کہا کہ آپ کے جسم اطہر پر قمیص ہے، جب کہ میرے جسم پر قمیص نہیں تھی، تو رسول ﷺنے اپنی قمیص مبارک اٹھادی، تو وہ صحابی آپ علیہ الصلاة والسلام سے لپٹ گئے اور پہلوئے مبارک کو بوسہ دینے لگے، اور کہا کہ میرا یہی مقصود تھا"جناب رسولﷺ نے حکومت کا جو تصور پیش کیا اس میں عام لوگوں کو احتساب کا حق دیا کہ اگر حاکم وقت میں کوئی غلط بات دیکھیں تو ٹوک دیں ۔
۶۔مشاورتی نظام :
قرآن مجید نے اسلامی ریاست کےنطام کو چلانے کے بہت سے اصول بیان کیے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ﴾20
ترجمہ:"(مسلمانوں) کا نظام ان کے باہمی مشورے کی بنیاد سے چلتا ہے"
اسلام کے سیاسی قوانین کے مطابق صرف وہی قائد کہلانے کا اصلاً حق دار ہے جو رعایا کے مشورے سے حکمران بنا ہو ۔نبی کریم ﷺ نے بذات خود اس نظام کی بنیاد رکھی کیوں کہ شورائی نظام ِمملکت کی ضرورت تھی ۔
» مَا رَأَيْتُ أَحَدًا قَطُّ كَانَ أَكْثَرَ مَشُورَةً لِأَصْحَابِهِ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»21
ترجمہ: "کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ لیتے رہنے والا کبھی کسی شخص کو نہیں پایا"
۷۔عدل وانصاف کی پاسداری :
عدل و انصاف اور مساوات ان سب کا معاشرے کے استحکام اور استقرار سے بہت گہرا تعلق ہے اور اس معاشرے میں آسانی سے نظم وضبط قائم ہو سکتا ہے جہاں عدل ، انصاف اور مساوات کا پاس رکھا جا تا ہے ۔اور ایک منظم معاشرہ ان مذکورہ تین ستون پر قائم ہو سکتا ہے اور امن وسکون کا گہوار بن سکتا ہے سیاسی عدل وانصاف یہ ہے کہ معاشرے میں موجودگروہ،طبقات ،قبائل اورعناصرکے ساتھ منصفانہ رویہ اختیار کرنا ، ان کے حقوق وفرائض کی ادائیگی کے لیے ہر وقت حاضر رہنا ،اور ایسی فضا قائم کرنا جس میں انساں واقعی سکون محسوس کرئے،اس سلسلے میں ترغیب دیتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے حکم دیا:
﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـَٔانُ قَوْمٍ عَلَىٰٓ أَلَّا تَعْدِلُوا ٱعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ﴾22
"اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث عدل کو ہرگز نہ چھوڑو، عدل کرو یہی تقویٰ کے بہت زیادہ قریب ہے"
یہ اسلامی ریاست کی معاشی ضرورت ہے اور اس میں کسی قسم کی بھی کوتاہی نہ کی جائے یہاں تک کہ اسلام میں تو باپ کا بدلہ بیٹے سے لینے سے منع فرمایاہے حدیث نبوی ﷺ ہے :
»لا يحنی والد على ولده »23
"شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ" فرماتے ہیں:"سیاست ِ شرعیہ کی عمارت دوستونوں پر قائم ہے۔ ایک ہے مناصب اور عہدے اہل تر لوگوں کو دینا اور دوسرا ہے عدل وانصاف کے ساتھ فیصلے کرنا۔ انصاف ہی پر دنیا ودین کی فلاح کا دارومدار ہے اور بغیر عدل کے فلاحِ دارین کا حصول ناممکن ہے"24
ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں :"امام عادل سے مراد وہ ذمہ داران ِ حکومت اور سربراہان ِ ریاست ہیں ۔جن کو مسلمانوں کے مصالح اور بہبود کے کام سپرد کئے گئے ہوں ۔امام عادل کا جو رتبہ ہے اس آدمی کو بھی ملے گا جو مسلمانوںکے کسی کام کا ذمہ دار بنایا گیا ہو اور عدل وانصاف کے ساتھ کام کرتا ہوں"25انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ عد ل ، انصاف مساوات کی عملی شکل انسانی تاریخ میں اس وقت سامنے آئی جب نبی کریم ﷺ نے امیر و فقیر ،غلام وآقا کے درمیان سے تمام اختلاف کو مٹایا اقبال اپنے قول سے اس کی ترجمانی کی ہے :
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود وایاز نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
بندہ وصاحب و محتاج وغنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے 26
معاشرے کو مستحکم بنانےاور جرائم سے مبرا کرنے کے لئے اس میں عدل وانصاف اوران جرائم کا ارتکاب کرنےوالوں کے لئے سزا نہایت ضروری ہے جن کی حدبندی شریعت ِ اسلامیہ نے کی ہے کیوں کے ان جرائم کی سزا دینے کا حق صرف اقتدار کے حامل لوگوں کے پاس ہے ،عصر ِحاضر میں عدل وانصاف اور مساوات کا باقاعدہ کوئی اہتمام نہیں اسی لئے معاشرے میں شراب نوشی ،لوٹ مار ،چوری ،زنا ،قتل اورغارت گری وغیرہ عام ہو گئے ہیں ۔
۸۔خوفِ خدا :
حاکم اول حضرت محمد ﷺ کی حکمرانی دنیا کے لئے قابل ِ تقلید اور بہترین اُسوہ حسنہ ہے ۔آپ کس قدر خوف ِ خدا رکھنے والے تھے ۔حضرت عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ :"خولہ بنت حکیم ،حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئی تو حضرت عائشہؓ نے پوچھا :آپ کو کیا ہوا ؟تو اس نے جواب دیا میرا شوہر قائم الیل اور صیام النھار آدمی ہے" ۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ حضرت عائشہ ؓکے پاس آئے تو آپ ﷺ کو اس بارے میں بتایا پھر آپ ﷺ ابن معظون ؓ سے ملے اور فرمایا :" إن الرھبانیۃ لم تکتب علینا ، افما لک فيَّ أسوۃ ؟ فواللّٰہ إني أخشاکم للہ ، و أحفظکم لحدودہ"27"ابن معظعون !ہمارے اوپر رہبانیت فرض نہیں ہے ۔ کیا آپ کے لئے میری اسوہ کافی نہیں ہے ؟قسم بخدا میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں اور اللہ کی حدود کا زیادہ محافظ ہوں "اسلامی حکومت کے قائد جہاں جہاں بھی مقرر تھے ان میں خوف خدا کا عنصر بخوبی پا یا جاتا تھا ۔ وہ ہر وقت رعایہ کی خدمت اور فکر میں مصروف عمل رہتے تھے ،کہ کہی کسی بھی معاملے میں کسی بھی قدم پر ہم سے کوتاہی نہ ہو جائے ۔اسی خدا خوفی کا نتیجہ تھا کہ ریاست کے ہر معاملے میں اللہ کی مدد شامل ِحال رہتی ۔اور رعایا بھی اپنے قائد سے مطمئین ہوتی تھی ۔اس کے برعکس آج ہماری رعایا اپنے قائد اور حکمران کے ہی خلاف ہیں اور ہماری مملکت طرح طرح کی پریشانیوں سے دو چار ہے ۔آج کا قائد وحکمران بے خوف ہے اس کو خدا کا ڈر نہیں رہا جس کی وجہ سے ان کےکسی بھی معاملے میں نصرت خداوندی شامل حال نہیں ۔
۹۔اصول پسندی :
قیادت میں اصول پسندی ایک بنیادی حثییت کی حامل ہے کیوں کہ یہ ہی وہ بنیادی اصول ہے جو ریاستی استحکام ،نظم وضبط ، استقرار معاشرہ اور قائد ورعایا کے مابین خوشگوار تعلقات قائم کرنے کا باعث بنتا ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ پر پختہ یقین ہی ہے جس نے ہمیں شریعی قوا نین کا پابند بنایا ہے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُم﴾
ترجمہ:"اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں "
اور اگر حکمران خود قوانین کے پابند ہے تو حکمران اور رعایا کے درمیان بہتر تعلق استور ہو گا ۔اور فرمانبرداری کا جذبہ پروان چڑھے گا اور یہ سب اطاعت الہی اور اطاعت نبوی ﷺ میں مضمر ہے حدیث مبارکہ ہے :
«السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ »28
"ایک مسلمان پر سمع وطاعت لازم خواہ برضا ورغبت ہو یا بکراہت ،جب تک اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے ،پھر جب اس کو معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ سمع ہے نہ طاعت "
گویا اصول ِ مسلمہ کی پابند قیادت اور مخلص قیادتدین اسلام کے لئے مدد گار ثابت ہوتی ہیں ۔اور ریاست کو ترقی کی شاہراہ کی جانب لے جاتی اور قوم بھی اس کے پیچھے پیچھے اس شاہراہ پر گامزن ہوتی ہیں ۔جبکہ عصر ِ حاضر کی نا اہل ،لا لچی اور پامال ِ اصول قیادت نے محنتی اور بہادر قوم کے پر جوش جذبوں کو تباہی کے گھٹر ے پر لا کھڑا کیا ہے اور موجودہ دور میں انتشار کا باعث بھی یہ مذکورہ بالا وجوہات ہے لہذا عصرِ حاضر کا تقاضہ ہی یہ ہے کہ ایسا قائد میسر ہو جو اہداف کا تعین کر سکے اور اصولِ مسلمہ کا پا بند اور اپنی رعایا کے ساتھ مخلص بھی ہو ۔ یہ صرف عصر حاضر کا تقاضا ہی نہیں بلکہ مسلم ریاستوں کی اہم ضرورت بھی ہے ۔
۱۰۔خود غرضی سے اجتناب :
خود غرض انسان کبھی بھی اچھا قائد نہیں بن سکتا اور نہ ہی اس کی قیادت رعایا کےاندرونی اور بیرونی دشمنوں سے حفاظت فراہم کر سکتے ہیں چنا نچہ امام رازی ؒ لکھتے ہیں :"جو شخص سیاسی قائد ہو اور اپنی ذاتی اغراض اور مفاد کے لئے حکومت کرتا ہو تو اس کے نتیجے میں خرابی پیدا ہو گی اور آخر کا ر یہ حکمران خود بھی تباہ ہوجائے گا ،لیکن جو حکمران اور سیاسی لیڈرشریعت حقہ کا پابند ہو تو مصالح اور بھلائیاں پھیلیں گی اور ریاست کا نظام احسن طریقے سے چلتا رہے گا "29
لہذ اخود غرض لوگوں کو قائد بننے کے تصور سے بھی دور رہنا چاہیے تاکہ بعد میں اپنے آپ پر نادم ہونے اور افسوس ہونے سے بچ سکے ۔نبی کریم ﷺ کا ارشادہے :
«انکم ستحرصون علی الامارۃ ،وستکون ندامة یوم القیامة»
"عنقریب تم میں امارت کی حرص پیدا ہوگی ،لیکن وہ قیامت کے دن ندامت کا باعث ہو گی "
لہذا قائد بننے اور امارت حاصل کرنے کی حرص نہیں ہو نی چاہیےجیسے عصر ِ حاضر میں امارت حاصل کرنے کی حرص میں انسان کچھ بھی کر جا نے کے لئے تیار ہوتا ہے ، اکثر اسلامی ممالک کی ہی حالت ہے عصر حاضر کا انسان کوئی بھی عہدہ مل جائے تو وہ اس کے خوب مزے لوٹتا ہے اور یہ بھول بیٹھا ہے کہ ایک دن اسکو یہ عہدہ چھوڑنا پڑے گا اور اصل حاکم کے سامنے جوابدہ ہونا ہے ۔
۱۱۔خوش مزاج اور ملنسار :
اگر انسان بحثییت قائدا پنا اخلاق رعایا کے ساتھ ملنسار ،محبت اورشگفتہ مزاجی والا رکھےتو معاشرہ مضبوط عمارت کی نظیر بن سکتا ہے ۔کیوں کہ بنی کریم ﷺ نہ صرف ایک رسول بنا کر تشریف لائے بلکہ آپ ایک حکمران بھی تھے ۔پوری کائنات اس پرفخر کرتی ہے لیکن آپ ﷺ نے کبھی بھی اس پر فخر نہیں کیا ۔آپ ﷺ کتنے ملنسار اور خوش مزاج تھےایک صحابی فرماتے ہیں :
«مارایت احدا ًاکثر تبسماً من رسول الله »30
"میں نے رسول ﷺ سے زیادہ کسی کو تبسم فرمانے والا نہیں دیکھا "
۱۲۔احساس ذمہ داری اور دیانت دار :
احساس ذمہ داری کا ہونا ہر سربراہ کا فرض ہے احساس ذمہ داری کا فقدان اور امانت ودیا نت داری ہی عصر ِ حاضر کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اسکی وجہ سے نہ ٖٖصرف ایک فرد متاثر ہوتا ہے بلکہ پوری مملکت ہل جاتی ہے کیوں کہ اس میں سرمایہ کا ضیاع ہوتا ہے جو ملک وقوم کی تباہی اور بربادی کا باعث بن رہا ہے ۔کیوں کہ کسی بھی نطام میں نظم وضبط اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے کہ ہر کوئی اپنی اہلیت کو مدنظر رکھ کر اپنی ذمہ داری کو نبھا تے ہوئے مفاد عامہ میں بہتری لا سکے ۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
«كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، الْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ »31
ترجمہ :"تم میں کا ہرشخص ذمہ دار ہے، ہرایک سے اس کی رعا یا کے سلسلے میں باز پرس ہوگی "
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی احساس عام کیا کہ ہر شخص کسی نہ کسی حیثیت سے قائد و رہنما ہے۔ اسے اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ روزِ قیامت جب کوئی کسی کا نہ ہوگا اُس سے ان کے بارے میں بازپرس کی جائے گی۔ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری حج میں صحابہؓ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا: کیا میں نے تم لوگوں تک خدا کا پیغام پورا پورا پہنچا دیا ہے؟صحابہ نے جواب دیا: ہاں یعنی کوئی بھی ہے کسی بھی عہدے پر ہے اس کو مالک حقیقی اور اصل حاکم کےسامنے جوبداہ ہونا ہے"
﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا﴾32
"مسلمانوں اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو، اللہ تم کو نہایت ہی عمدہ نصیحت کرتا ہے اوریقیناًاللہ سب کچھ دیکھتاہے"
یہ ذمہ داریاں ہی ہیں جو کسی بھی عہدہ پر فائض ہو وہ ان تمام خصوصیات کی بنا پر نمائندگی کرتا ہےاور یہ قیادت ایک قسم کی امانت ہے جو بغیر خیانت کے اہل امانت کے سپر د کرنے کا حکم دیا گیا ہے حدیث نبوی ﷺہے :
«لا ایمان لمن لا امانة له، ولا دین لمن لا عهد له»33 ترجمہ: "اس شخص میں ایمان نہیں جس میں امانت داری نہ ہو اور اس شخص میں دین کا پاس ولحاظ نہیں جس کے اندر عہد کی پاس داری نہ ہو"
یہ ہی وہ احساس جوابدہی ہے جس نے عام لاپرواہ شخص کو ذمہ دار شخص بنادیا ۔کیوں کہ ایک اچھا قائد ہی وہی ہے جس کی قیادت کے زِیر سایہ ایک عام ریاست اسلامی ریاست کی شکل اختیار کر لے ۔آج ہماری ریاست میں بھی اسی احساس کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔
۱۳۔باہمی اعتماد :
بہترین قائد وہی ہے جس کو رعایا کا اجتماعی اعتماد حاصل ہو ،جس سے ریاستی عوام محبت والفت رکھے اوروہ قائد اپنی رعایا سے دل و جان سے محبت کرئے ۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
«خیار ائمتکم الذین تحبونھم ویحبونکم وتصلون علیھم ویصلون علیکم»34
"تمہارے بہترین قائد وہ لوگ ہیں ،جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے ،تم ان کے لئے دعا خیر اور وہ تمہارے لئےدعا خیر کریں "
۱۴۔عفو در گذر:
قائد میں عفودرگذر کا ہونا ایسی صفتِ کامل ہے جو اس کے مقام وجمال کوظاہر کرتی ہے کیوں کہ عوام کا تعاون صرف اسی صورت میں حاکم وقت کے ساتھ ہو گا جب وہ عفو دورگز کا حامل ہو قرآن مجید میں اس صفت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے
﴿ والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس والله یحب المحسنین﴾35
"اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے در گذر کرنے والے، اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے "
»فمن عفا واصلح فاجرہ علی الله»36
"جس نے در گذر کیا اور معاف کیا تو اس کا اجر اللہ کے پاس ہے"
نبی کریم ﷺ نے بھی عفو در گذر کی باربار تاکید کی ہے ،آپ ﷺ کی بہت سی احادیث ہیں جو کہ عفو درگذر پر مبنی ہیں :
»جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، كم أعفو عن الخادم؟ فصمت رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال: يا رسول الله، كم أعفو عن الخادم؟ فقال: «كل يوم سبعين مره»37
"ایک شخص نبی کریم ﷺ کی بارگاہ آیا اور اور عرض کی یا رسو ل اللہ ﷺ ہم خادم سے کتنا در گذر کریں آپ ﷺ خاموش رہے پھر اس نے دوبارہ وہی بات کی آپﷺ خاموش رہے جب اس نے تیسری مرتبہ یہی سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا ہر روز ستر مرتبہ اسے معاف کرو"
لہذا حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اردگرد عوم کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا اسوہ نبوی ﷺ ہمارے سامنے ہیں کہ نبی کریم ﷺپر ایمان کی وجہ سے لوگوں نے آپ کے ہر حکم کی پیروی کی ۔عصر حاضر میں لوگ ایک دینی جماعت کے ساتھ اسی یقین ِ کامل اور دینی جذبے کے تحت مل کر کام کرتے ہیں ‘ لہٰذا ان کے لیڈر اور حکمرانوں کو ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آنا چاہیے اور ان کے جذبات کی قدرکرنی چاہیے ۔
۱۵۔عوامی رابطہ :
ایک ریاست تب ہی کامیاب اور بلندی کے آسمان کو چھو سکتی ہے جب اس کا قائد اپنی عوام کے ساتھ حُسن سلوک سے پیش آئے اپنی رعایا کی خدمت کے لئے ہر وقت حاضر رہے دور حاضر کی طرح عوام کی پہنچ سے دور نہ ہو ،اپنی عوام پر جبرو ستم نہ ہونے دے ،ان کے لئے رکاوٹیں کھڑی نہ کرئے ،ان سے بے جا ٹیکس نہ لے بلکہ ان سے ٹیکس لیتے ہوئے ان کے حالا ت مد نظر رکھے ،اور ان کے مسائل کے حل کے لئے تدابیر پیدا کرئے ، اگر کبھی رعایا سےغلطی ہو جائے تو اس کو دور گزر کرئے ،اپنی ذات سے غلطی سرزد ہو تو اس پر عوام سے معافی مانگ لے ۔
اسوہ نبوی ﷺ ہمارے سامنے ہیں کہ آپﷺ مسلم تو دور غیر مسلم سے کس طرح پیش آتے تھے بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ آپ نے اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف کر دیا :مثلاً!نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر ابو سفیان سے بدلہ لینے کی بجائے ان کو صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ ان کے گھر کو امان قرار دے دیا ۔
»قَالَ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ لِمُعَاوِيَةَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا مِنْ إِمَامٍ يُغْلِقُ بَابَهُ دُونَ ذَوِي الْحَاجَةِ وَالْخَلَّةِ وَالْمَسْکَنَةِ إِلَّا أَغْلَقَ اللَّهُ أَبْوَابَ السَّمَائِ دُونَ خَلَّتِهِ وَحَاجَتِهِ وَمَسْکَنَتِهِ فَجَعَلَ مُعَاوِيَةُرجُلًا عَلَی حَوَائِجِ النَّاسِ«38
"عمرو بن مرہ ؓنے معاویہ ؓسے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا ہے جو بھی امام، حکمران ضرورت مندوں اور غریبوں کے لیے بند رکھتا ہےاللہ اس کے لیے آسمانوں کے دروازے بند کردیتا ہے معاویہ ؓنے لوگوں کی ضروریات اور حاجات کے لیے آدمی مقرر کردیا"
۱۶۔وطن کی پاسداری اور حفاظت :
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :﴿وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِين﴾39
"مشرکین سے قتال کرو سب کے ساتھ کہ جب تک وہ تم سے لڑتے رہیں"
﴿یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ مِنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً ﴾40
"ایمان والوجو کفار تمہارے ساتھ لڑتے ہیں ان سے لڑو اور تم میں ان کے لیے سختی ہونی چاہیے"
اللہ نے مختلف مقامات پر کفا ر سے جہاد کرنے کا حکم دیا ہےلہذا یہ ذمہ داری ایک قائد پر ہے کہ وہ اپنے ملک کی حفاظت کے لئےاقدامات کرئے فوجی دستے تیار کرئے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنی بھرپور تیاری کرئے اسی لیے علماء نے کہاہے:"جہاد کا دارومدار امام پر ہے اگر امام نہ ہو اورمصلحت کا تقاضا ہو تو جہاد کو مؤخر نہیں کیا جاسکتا ۔جو بہتر آدمی ہو وہ لوگوں کو اس مہم پر روانہ کرسکتا ہے"41
خلاصۃالبحث :
آج امت مسلمہ جن مسائل اورپریشانیوں کے کرب میں پھنسی ہوئی ہے اس کرب سے نکلنے کہ لئے ایک بااصول، با ضابطہ قائد کی قیادت کی ضرورت ہے ۔اور اس کرب سے نکلنے کے لئے ایک پختہ منظم ڈھا نچے کی ضرورت ہے ۔یہ انتظامی ڈھا نچہ قائم کرنا عوام کی نہیں بلکہ ایک قائد کی ذمہ داری ہے اس مقالے میں اسوہ نبوی اور تعلیمات اسلامیہ کی روشنی میں قیادت کے چند اصول ذکر کئے گئے ہیں۔یہ وہ اصول ہے جن پر آپ ﷺ کے بعد آپ کے صحابہ ؓ نے عمل کر کہ مختلف فتوحات کے ذریعے پوری دنیا پر بادشاہت کی۔عصر حاضر قائدین کی زندگی گزارنے کے طرزکا جائزہ لیں تو بے باک یہ کہا جا سکتا ہے:
آج حکمرانوں نے حکمرانی کو عیاشی کا ذریعہ بنا لیا ہے کیوں کہ جن کے حکمران خوشحال ہو وہاں کی رعایا بد حال ہوتی ہے اورجس کا قائد مفلس ،تنگ دست ہو اس کی رعایا خوشحال ہوتی ہیں ۔
حضرت عمر بن عبد العزیز کو جب خلیفہ مقرر کیا گیا آپ پر گھبراہٹ کا عالم طاری تھا آپ خود اس کے خواہش مند نہ تھے۔کیوں کہ آپ کو احساس جواب دہی کی فکر تھی ۔لیکن اس کے برعکس آج امارت کے جھگڑے ہیں اقتدار حاصل کرنے کے لئے لوگ اپنا ضمیر تک بیچ دیتے ہیں ۔اور قوم کی خدمت کا جزبہ لے کر نہیں بلکہ قوم سے خدمت وصول کرنے کے لئےبادشاہی کے تخت پر بیٹھتے ہیں ۔
آج کا حکمران کیسا ہے کہ عوام آج حواس کی بھینٹ چڑھ رہی ہے لیکن حکمران بے خبر ہے ۔غریبوں کے حقوق مارے جا رہے ہیں ،غریب بھوکا مر رہا ہے لیکن حکمران کا دستر خواں شاہی کھانوں سے بھرپور ہے دن بدن عوم کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہےان سب کی وجہ یہ ہے آج کا قائد مغرب کا غلام بن گیا ہے جس نے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اس ملک کو ،اور اس کی آنے والی نسلوں کو ان کے ہاتھو ں بیچ دیا ہے ۔
افسوس ہے ان مسلمانوں پر جو اسوہ نبوی ﷺ کو چھوڑ کر مغربی تقلید میں گوشہ عافیت تلاش کررہے ہیں بدل دیا تونے رخ ِمشرق کو اے رخِ مغرب تیری ہوا سے بچائے خدا زمانے کو
آج مسلم ممالک میں حکمرانوں نے قیادت کے تصور کو ہی الٹ کر رکھ دیا ہے ،رعایا کو ان کے ذاتی ،سیاسی ،معاشرتی ،مسائل میں الجھا کر خود اپنے مسائل کو حل کر رہا ہے
افسوس کہ آج ہم پستی کی طرف جا رہے ہیں اور اغیار اسوہ نبوی ﷺ کی قیادت کے اصولوں کو اپنا کر حیران کن ترقی سے ہمکنار ہو رہے ہیں ۔
آج امت مسلمہ جس زبوں حالی کا شکار ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ایسی قیادت کا فقدان ہے جس کے پیشِ نظر تعلیمات ِاسلامی اور اسوہ نبوی ﷺ ہو ۔اس ضمن میں دوج زیل اقدامات کرنے ہوگے ۔
سب سے پہلے امت ، مسلمہ کے قائدین کا متحد ہونا ضروری ہے ۔
قائدین کو چاہیے کہ ہو قسم کے سیاسی ، گروہی مفادات کو پس ِ پشت ڈال کر دینی ،اسلامی ،ملکی اور قومی مفادات کا ترجیع دینا ہو گئی ۔
ہمیں بحال ہونے کے لئے اچھے قائدین پیدا کرنے ہوئے گئے اور جو اصول ِ مسلمہ کے تحت مخلص ہو کر قیادت کر رہے ہیں انکا ساتھ دینا چاہیے ۔
آپ ﷺ کی سیاست کے اصولوں پر عمل کر کے ہم عروج کی بلندیوں کو چُھو سکتے ہیں اور لہذا مسلمان آپ ﷺکی قیادت کےاصول پر عمل کر کے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں اور اگر ان اصولوں کو اپنائے گئے تویہ ہماری ریاست اور مملکت کے لئے معاون ومددگا ر ثابت ہو گئے ۔لیکن اگر ان مذکورہ بالا اصولوں پر عمل نہیں کرئے گئے تو مسلم تو کیا غیر مسلم بھی اس سے استفادہ حاصل نہیں کر سکتا ۔
نبی کریم ﷺ نبی ہونے کے ساتھ ساتھ حکمران ، عظیم مدبر ،سیاستدان تھے ،آپ ﷺ نے قیامت تک قائم رہنے والی دنیا کے لئے ایسا قابل عمل نمونہ چھوڑا کہ دنیا اس کی مثال قائم کرنے سے قاصر ہے ۔
i M.Phil. scholar, Department of Islamic Studies, University of Sialkot
ii M.Phil. scholar, Department of Islamic Studies, University of Sialkot
1 سید ابوالاعلی مودودی ،اسلامی ریاست(لاہور : اسلامی پبلیکیشنزپرائیوئٹ لمیٹڈ،۲۰۱۴)۔
2 القرآن: 4/59۔
3 قاسم بن علی حریری ،درۃ الغواص فی اوہام الخواص،( موسسۃالکتب الثقافیۃ،۱۹۹۸ء)، ۱/۲۶۷۔
4 عبدالحمید عمر احمد مختار ،معجمہ اللغۃ العربیہ المعاصرۃ،(عالم الکتب ،الطبعۃ الاولی،۱۴۲۹ھ۲۰۰۸ء)،ص۴۶۴۔
5 اردو لغت تاریخی اصول پر (کراچی ،اردو لغت بورڈ ۱۹۹۶ء)،۱۴ /۳۸۶۔
6 مولوی نور الحسن ، نور اللغات(اسلام آباد :نیشنل بک فاونڈیشن ،۲۰۰۶ء)، ۲/۸۳۱۔
7 جبران مسعود ،معجم الرائد، ۱/۱۶۸۔
8 سليمان بن اشعث ،سنن ابو داود ،باب فی العرافۃ، (دارالکتاب العربی ۳/۹۲، الحدیث:۲۹۳۴۔
9 فیروز اللغات،فیروز سنز،(لاہور، راولپنڈی، کراچی )،ص:۵۱۹۔
10 القرآن: 5/12۔
11 ارشد احمد بیگ ،لاہور ،ماہنامہ ترجمان القرآن(لاہور:نومبر ۲۰۱۴ء)،ص:۵۳۔
12 أحمد بن محمد بن علی الفيومی، المصباح المنير في غريب الشرح الكبير، (بیروت:المكتبۃالعلميۃ) ۲/۵۱۸۔
13 القرآن: 61/3۔
14 احمد بن حنبل،مسند(مؤسسۃالرسالۃ،طبع اول:۲۰۰۱ء )، ۲۸/ ۳۸۔
15 مجمع البیان جلد ۱۰ /۵۳۴۔
16 ڈاکٹر محمد حمید اللہ(کراچی :اُردو اکیڈمی سندھ ،۱۹۸۱)،۲۳۴۔
17 القرآن: 53/34۔
18 صحیح البخاری، ِکِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَر ،ص:۲۰۷۷۔
19 رواہ أبوداوٴد، باب فی قبلة الجسد، کتاب الأدب: ۲/۷۰۹۔
20 القرآن: 42/38۔
21مسند أحمد بن حنبل، رقم الحديث۱۸۹۲۸، ۲۴۴/۳۱۔
22 القرآن: 5/8۔
23 دار قطنی ،علی بن عمر ،السنن ،کتاب البیوع ،لاہور ،مکتبہ قدسیہ ،۳/۴۵۔
24 السیا سیۃ الشریعہ ،ص،۷۔
25 ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی ،فتحالباری شرح صحیح البخاری(بیروت ،دار المعرفہ ،۱۳۷۹), ۱۴۴/۲۔
26 علامہ محمد اقبال ،بانگ دراء،شکوہ ،رابعہبک ہاوس،(لاہور ،کریم مارکیٹ)،ص:۱۴۹۔
27عبد الرزاق بن ہمام ،تحقق:حبیب الرحمن اعظمی(بیروت ،المکتب الاسلامی)،۷ٍ /۸۷۔
28محمد بن اسماعیل ،صحیح بخاری ،باب،السمع الطاعہ للامام،(قاہرہ :دارالشعب ،طبع الاول )،ح:۷۱۴۴ ۔
29 رازی ،محمد بن عمر رازی،التفسیر الکبیر،(بیروت ، داراحیاءالتراث العربی)، ۲۶/۱۹۹۔
30 عبد اللہ بن مبارک ، الزھد والرقائق(دار الکتب العلمیہ) ۱/۴۷۔
31 البخارى، محمد بن اسماعيل، صحيح بخارى، باب العبد راع عن مال سيده، دار طوق النجاة،( الطبعة الاولى: ۱۴۲۲)ج3، ص۱۵۰،الحديث: ۲۵۵۸۔
32 القرآن: 4/58۔
33أحمد بن حنبل، مسند أحمد بن حنبل، (الناشر: مؤسسة الرسالةالطبعة: الأولى، ۲۰۰۱)، ج۱۹، ص۳۷۶ ، الحديث: ۱۲۳۸۳۔
34 مسلم بن الحجاج ،صحیح مسلم ،باب :خیارائمته وشرارھم،(بیروت: دار إحياء التراث العربي )،ص:۱۴۸۱،الحدیث:۱۸۵۵۔
35 القرآن: 3/134۔
36 القرآن: 42/40۔
37 محمد بن عيسى الترمذیِ ِ،سنن الترمذى، باب ما جاء في العفو عن الخادم، ( مصر:شركة مكتبة ،۱۹۷۵)ح:۱۹۴۹،ص:۳۳۶،جلد ۴
38 ترمذی ،باب:ما جاء فی امام راعیۃص:۶۱۱،ج۳، الحدیث:۱۳۳۲۔
39 القرآن: 9/36۔
40 القرآن: 9/123۔
41 المغنی :ج ۸،ص ۱۵۲۔۱۵۳
[78]
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 1 | 2023 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2023 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2023 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2023 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2023 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |