Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Majallah-e-Talim o Tahqiq > Volume 6 Issue 1 of Majallah-e-Talim o Tahqiq

وراثت میں خواتین کا حصہ : یہودیت ، عیسائیت اور اسلامی قانونِ وراثت کا ایک تقابلی جاِئزہ |
Majallah-e-Talim o Tahqiq
Majallah-e-Talim o Tahqiq

Article Info
Authors

Volume

6

Issue

1

Year

2024

ARI Id

1711041655482_4005

PDF URL

https://ojs.cer.edu.pk/index.php/mtt/article/download/308/162

Chapter URL

https://ojs.cer.edu.pk/index.php/mtt/article/view/308

Subjects

Christianity Judaism Islam Women's Inheritance Rights Property

@page { size: 8.27in 11.69in; margin-left: 1in; margin-right: 1in; margin-top: 0.69in; margin-bottom: 0.49in } p { margin-bottom: 0.1in; direction: ltr; line-height: 115%; text-align: left; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.sdfootnote { margin-bottom: 0in; direction: ltr; font-size: 10pt; line-height: 100%; text-align: left; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } a:link { color: #0000ff; text-decoration: underline } a:visited { color: #954f72; text-decoration: underline } a.sdfootnoteanc { font-size: 57% }


Majallah-yi Talim o Tahqiq

مجلہ تعلیم و تحقیق

Markaz Talim o Tahqiq, Gulshan-e-Taleem, Sector H-15, Islamabad, Pakistan

مرکز تعلیم و تحقیق، گلشن ِ تعلیم ، ایچ ۔۱۵ ، اسلام آباد ، پاکستان

ISSN (P):  2618-1355, ISSN (Online): 2618-1363

Issue 1, Vol 6, January-March,2024

شمارہ ۱، جلد ۶،جنوری – مارچ ،۲۰۲۴








وراثت میں خواتین کا حصہ : یہودیت ، عیسائیت اور اسلامی قانونِ وراثت کا ایک تقابلی جاِئزہ

Women's Inheritance Rights: A Comparative Study in Judaism, Christianity, and Islamic Law

توقیر احمد1

وصی الرحمن2



Keywords:

Christianity

Judaism, Islam

Women's

Inheritance

Rights,

Property,






Abstract:

One of the fundamental sources of property’s transmission and distribution is inheritance. It is deeply established in various societies and religious beliefs, particularly in Judaism, Christianity, and Islam. This research aims to conduct a comparative analysis of inheritance laws across revealed religions, with a particular focus on women's property rights. The study investigates women's property rights and heir entitlements within Christianity, Judaism, and Islam, exploring the differences in distribution patterns in each of these religions. Special attention is given to addressing criticisms regarding women's inheritance rights in Islam, as raised by some Western researchers. By examining primary religious texts (Quran, Sunnah, and the Bible) and current laws that are in effect in the Christian and Muslim worlds

This research seeks to shed light on the diversity of inheritance practices concerning gender equity in inheritance laws, especially within the Islamic context. The methodology involves a systematic review of religious scriptures, legal documents, and scholarly interpretations to provide a comprehensive understanding of inheritance practices and the position of women across these three religions.

تعارف موضوع :

انتقال ملکیت کی ایک صورت وراثت ہے اور دنیا کے ہر معاشرے اور ہر مذہب میں اس کی کوئی نہ کوئی صورت موجود رہی ہے۔ بالخصوص تمام الہامی مذاہب میں میت کے ترکہ اور ورثا کے تعین کے لحاظ سے ہدایات موجود ہیں ۔ موجودہ دور میں خواتین کی حقوق کی تحریکیں ہر سطح پر کام کر رہی ہیں ،جہاں اسلام کے قانون وراثت کے حوالے سے بھی بعض تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے ، بالخصوص عورت کے حق وراثت کے حوالے سے بعض سوالات اٹھائے جاتے ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ دیکھا جا ئے کہ اس وقت مختلف الہامی مذاہب میں وراثت سے متعلق کیا ہدایات ہیں ؟ اس کے متعلق قوانین کیا ہیں اور اسلام کا موقف کیا ہے؟ ۔ وراثت کے سلسلے میں اسلامی نقظہ نظر بیان کرنے سے پہلے دیگر مذاہب اور قوموں کے نظریے کا تذکرہ کرنا مناسب ہے تاکہ تقابل میں آسانی ہو جس سے اسلامی شریعت کا اعتدال اور توازن نمایاں ہوگا۔

تورات و انجیل میں خواتین کے حق وراثت کا جائزہ

تورات اورانجیل کی تحریف شدہ نسخوں کامطالعہ کرنےکے بعد یہ بات بہت واضح ہے کہ خواتین کو حق وراثت سے مکمل طور پر محروم کیا گیاہے ۔ تورات کے قانون وراثت میں صرف نسب کو ملحوظ نظر رکھا گیا ہے اور اس میں بھی مذکر ومونث کے فر ق کو معیار بنایا ہے کہ مرد وارث کی موجودگی میں عورت حق وراثت سے محروم ہو جا تی ہے ۔

ولا ترث الانثی سواء كانت اما او اختا او زوجة اما الابنة فترث اذا مات الاب ولم يكن له ابناء ذكور فقط اما فى غير هذه الحالة فلا ميراث لها۔3عورت کو وراثت نہیں ملتی خواہ وہ ماں، بہن ،یا بیوی ہو ، الا یہ کہ بیٹی کا تعلق ہو وہ بھی صرف اس صورت میں میراث لے سکتی ہے جب باپ فوت ہو جائے اور اس کی کوئی اولاد نہ ہو، ورنہ اس کو بھی میراث میں حصہ نہیں ملتا ۔

لہذاعورت وارث نہیں ہوتی، برابر ہے کہ وہ ماں ہو یا بہن ہو یا بیوی ۔ ہاں بیٹی وارث ہوتی ہے مگر صرف تب جب باپ مر جائے اور اس کا کوئی بیٹا نہ ہو اس کے علاوہ وہ بھی کسی صورت میں وارث نہیں ہے ۔

اسی طرح تورات کے قانون وراثت میں بیٹی کے لیے ایک دو صورتوں کے علاوہ ما ں ، بہن اور بیوی کے حق کا بالکل تذکرہ موجود نہیں ہے۔

مورث کی وراثت میں بیٹی کا حصہ :

تورات میں خواتین کی میراث کا جو ذکر موجود ہے اس میں صرف بیٹی وراث بن سکتی ہے وہ بھی ایک خاص اور نادر صورت میں اس کی علاوہ خواتین کا میراث میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔وہ صورت یہ ہے کہ اگر میت کا بیٹا موجود نہ ہو تو اس کی بیٹی اس کی وراث ہوگی ،کتاب مقدس میں لکھاہے : "بنی اسرائیل سے کہہ کہ اگر کوئی شخص مرجائے اور اس کا کوئی بیٹا نہ ہو تو اس کی میراث اس کی بیٹی کو دینا ا ور اگر اس کی کوئی بیٹی بھی نہ ہو تو اس کے بھائیوں کو اس کی میراث دینا "4اس کے ساتھ یہ قانون بھی ان کے ہاں ہے کہ اگر کسی بیٹی کو مذکورہ صورت میں حصہ مل گیا تو اس کی لیے ضروری ہے کہ اپنے ہی قبیلے میں کسی مرد سے شادی کرے اور وہ دوسرے قبیلے میں کسی مرد سے شادی نہیں کرسکتی تھی کیونکہ بنی اسرائیل میں یہ قانون تھا کہ ایک قبیلے سے میراث دوسرے قبیلے میں منتقل نہیں ہو سکتی تھی اس لیے وہ مجبو ر ہوکر اپنی ہی قبیلے میں شادی کرتی تھی ۔اس حوالے سے تورات میں صلافحا د کی بیٹیوں کاقصہ مذکورہے :

صلافحاد کی بیٹیوں کے حق میں خداوند کا حکم یہ ہے کہ وہ جن کو پسند کریں ان سے ہی بیاہ کریں ,لیکن اپنے باپ دادا کے قبیلے ہی کے خاندانوں میں بیاہی جائیں۔ یوں بنی اسرائیل کی میراث ایک قبیلے سے دوسرے قبیلہ میں نہیں جانے پائےگی ,کیونکہ ہر اسرائیلی کو اپنے باپ دادا کے قبیلہ کی میراث کو اپنے قبضے میں رکھنا ہوگا۔5

تورات اور انجیل کے موجودہ نسخوں میں عورتوں کی میراث کے حوالے سے صرف یہ ایک واقعہ ملتا ہے صلافحاد کی بیٹیوں کا ، اس کے علاوہ کہیں دوسری جگہ کوئی روایت نہیں ملتی۔

شوہر کی میراث میں بیوی کا حق وراثت:

تورات میں بیوی کے حق وراثت کے متعلق کسی قسم کی کوئی روایت موجود نہیں ہے البتہ یہودیوں کے قانون وراثت کے متعلق جتنی کتابیں لکھی گئ ہیں اس میں اکثر جگہ یہی بات لکھی ہے کہ بیوی شوہر سے میراث نہیں لےسکتی اور اگر بیوی فوت ہوجائے تو شوہر پورے ترکے کا وارث ہوگا۔عورتوں کے ساتھ حق وراثت میں ظلم کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بیوی کو میراث میں حصہ دینے کےبجائے بیوی کو ہی ترکہ سمجھاجاتا ہے۔ استاذ السید محمد مصطفی عاشور اپنی کتاب مرکزالمراۃفی الشریعۃالیھودیۃ :میں لکھتے ہے کہ:

"أما النساء فلم يكن لهن نصيب مما ترك الرجل، بل هن أنفسهن كن يعتبرن جزءا من التركة وكن يورثن مع ما يورث من سائر متاع الرجل، فكانت المرأة إذا مات عنها زوجها ولم يكن قد أولدها ورثها أخوه أو بعض أقاربه، ۔۔۔۔۔۔وأما الزوجة فلا حق لها في ميراث زوجها بتاتاً بل هي جزء من متاع الرجل يرثها ذوو قرباها .6 جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے تو ان کا اس میں سے حصہ نہیں تھا جو مرد نے چھوڑا تھا، بلکہ وہ خود بھی جائیداد کا حصہ سمجھی جاتی تھیں اور مرد کے باقی مال کے ساتھ وراثت میں مل جاتی تھیں جو اس نے وراثت میں حاصل کی تھیں اور اس نے اسے جنم نہیں دیا تھا، اس کے بھائی یا اس کے کچھ رشتہ دار اس سے وراثت میں ملے تھے۔ بلکہ یہ مرد کے مال کا حصہ ہے اور اس کے رشتہ داروں کو وراثت میں ملاہے۔

اس کے علاوہ تورات وانجیل کے موجودہ نسخے میں ماں ،بہن اور بیوی کے حق وراثت کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وراثت کا حقدار صرف مرد ہی ہے حتی کہ مردوں میں بھی عادلانہ تقسیم نہیں کی گئ ۔ بیٹے کی وراثت میں باپ کو محروم کیا گیاہے اسی طرح اگر ایک سے زیادہ بیٹے موجود ہوں تودیگر بیٹوں کی بنسبت بڑے بیٹے کو دگنا حصہ ملےگا جس کو پہلوٹا کہا جاتا ہے ۔

انجیل میں خواتین کے حق وراثت میں حصہ:

حضرت عیسی علیہ السلام بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے۔انہیں مستقل کوئی نئی شریعت نہیں دی گئی تھی بلکہ وہ موسی علیہ السلام کی شریعت کےپابند تھے ۔ اس لیے انجیل میں کوئی الگ احکامات نازل نہیں ہوئے وہی احکامات جو تورات میں موجود تھےوہ عیسائیوں کے لیے بھی تھے۔ انجیل کے مختلف نسخے ہیں جس میں ایک متٰی کے نام سے مشہور ہے اس میں لکھا ہے کہ’’یہ نہ سمجھو کہ میں تو ریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہو ں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں ‘‘7۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں کےلیے وہی قانون وراثت تھا جو یہودیوں کےلیے تھا ۔

انجیل میں خواتین کے حق وراثت کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے ۔لیکن عیسائیت کےچند مشہور سکالرز کی عبارات کو نقل کرتے ہیں جس سے اس بات کا اندازہ ہو جائےگا کہ مذہب عیسائیت میں خواتین کی کیا حیثیت ہے اور وراثت میں ان کو کیا حق ملتا ہے ۔ عہد نامہ جدید کے ماہر اسکالر بین ویر نگٹن کا کہنا ہے:

Limited women’s roles and functions to the home, and severely restricted: 1their right of inheritance, (2) their choice of relationship (3) their ability to pursue a religious education or fully participate in synagogue and (4) limited their freedom of movement8

ترجمہ: بائبل نے خواتین کے کردار اور افعال کو گھر تک محدود رکھا ہے اور ان پر سختی سے درج ذیل پابندی عائد کی ہیں:

۱ ۔وراثت کے حقوق پر پابندی۔

۲تعلقات کے انتخاب پر پابندی ۔

۳مذہبی تعلیم حاصل کرنے کی ، مکمل صلاحیت یا مکمل طورپر عبادت خانے میں شریک ہونے پر پابندی ۔

۴۔نقل وحرکت کی آزادی پر پابندی۔

ایک اور سکالر مایئکل برجر لکھتا ہے :

Property was transferred through the male line and women could not inherit unless there were no male heirs. these and other gender based differences found in the Torah suggest that women were seen as subordinate to men; however they also suggest that biblical society viewed continuity property and family unity as paramount.9

ترجمہ : عیسائیت میں صرف مرد کے ذریعہ ہی جائیداد منتقل کی گئ ہے ۔ جب تک مرد کا مذکر وارث نہ ہوتا خواتین کو وارث نہیں بنایا جاسکتا تھا ، تورات میں پائے جانے والے اس طرح کے صنفی اختلافات بتاتے ہیں کہ خواتین کو مردوں کے ماتحت سمجھاجاتا تھا ۔ تاہم وہ یہ بھی تجویزکرتے ہیں کہ بائبل کے معاشرے میں تسلسل جائیداد اور خاندانی اتحاد کو اہمیت حاصل تھی۔

ان دونوں عبارتوں سے معلوم ہوتا ہےکہ انجیل میں وراثت کے متعلق کوئی مستقل قانون نہیں تھا بلکہ تورات اور اور رومن قوانین کو اکٹھا کیاگیا تھا اور اس میں بھی وقت کے ساتھ مختلف تبدیلیاں کی گئیں ۔

یورپ اور عیسائی ممالک میں خواتین کے حق وراثت سے متعلق رائج قوانین

وراثت کے متعلق ہر ملک کے قوانین مختلف ہیں،یورپ اور دیگر عیسائی ممالک کےجو قوانین ہیں وہ' وضعی قوانین' ہیں جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی کی جاتی رہتی ہیں ۔یورپی ممالک میں سے انگلینڈ[England]جو ایک اثر و رسوخ رکھنے والا ملک ہے۔ یورپ کی دوسری ریاستوں میں اس کو الگ مقام حاصل ہے۔ اس لیے اس فصل میں [England] کے قوانین وراثت کو موضوع بحث بنایا جائے گا اور یہ بات جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ اس ملک کے قوانین وراثت نے خواتین کو کتنا حصہ دیا ہے اور یہ قانون سازی کن بنیادی اصولوں پر کی گئی ہے؟

وراثت کے متعلق انگلینڈ کے بعض قوانین:

The Laws of Intestacy in England and Wales

In England and Wales, if a person dies without a will, their estate will be distributed according to the laws of intestacy. These laws determine who will inherit the deceased's assets, and in what proportions.

The laws of intestacy are complex, and they can vary depending on the circumstances of the deceased's death. However, there are some general principles that apply in all cases.

The first priority is given to the deceased's spouse or civil partner. If the deceased is survived by a spouse or civil partner, they will inherit the entire estate, regardless of whether they have any children.

If the deceased is not survived by a spouse or civil partner, the estate will be distributed to their children. The children will inherit the estate in equal shares, regardless of their age or whether they are biological or adopted children.

If the deceased is not survived by any children, the estate will be distributed to their parents. The parents will inherit the estate in equal shares.

If the deceased is not survived by any parents, the estate will be distributed to their siblings. The siblings will inherit the estate in equal shares.

If the deceased is not survived by any siblings, the estate will be distributed to their grandparents. The grandparents will inherit the estate in equal shares.

If the deceased is not survived by any grandparents, the estate will be distributed to their aunts and uncles. The aunts and uncles will inherit the estate in equal shares.10

ترجمہ: انگلینڈ اور ویلز میں بغیر وصیت کے وراثت کے قوانین

انگلینڈ اور ویلز میں اگر کوئی شخص بغیر وصیت کے مر جائے ، تو اس کی غیر منقولہ جائیداد کو’ بلا وصیت قوانین‘ کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔ یہ قوانین طے کرتے ہیں کہ مورث کے اثاثوں کا وارث کون ہوگا اور کس تناسب سے حصہ پائے گا۔

بغیر وصیت کے قوانین پیچیدہ ہیں، اور وہ مورث کی موت کی صورتحال کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ تاہم، کچھ عام اصول ہیں جو ہر معاملے میں لاگو ہوتے ہیں:

  • سب سے پہلی ترجیح مورث کے شریک حیات کو دی جاتی ہے۔ شریک حیات میں شوہر اور بیوی دونوں شامل ہیں، اگر مورث کے پیچھے شریک حیات زندہ ہو تو وہ پوری جائیداد کا وارث ہوگا، چاہے اس کے کوئی بچے ہوں یا نہ ہوں۔

  • اگر مورث کا کوئی شریک حیات زندہ نہ ہو تو جائیداد کو ان کے بچوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ بچوں کے درمیان جائیداد کو برابر حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ، چاہے ان کی عمر کتنی ہی ہو ،خواہ وہ حقیقی بچے ہوں یا گود لیے ہوئے ۔

  • اگر مورث کی کوئی اولاد نہ ہو تو جائیداد کو ان کے والدین میں تقسیم کیا جائے گا، والدین کے درمیان جائیداد کو برابر حصوں میں تقسیم ہوگی ۔

  • اگر مورث والدین نہ ہوں تو جائیداد کو ان کے بھائی بہنوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ بھائی بہنیں کو جائیداد میں برابر حصہ ملے گا۔

  • اگر مورث کاکوئی بھائی بہن زندہ نہ ہو، تو جائیداد ان کے دادا، دادی میں تقسیم ہوگی ۔ دادا ،دادی کو جائیداد میں برابر حصہ ملے گا۔

  • مذکورہ بالا قوانین دیکھنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہےکہ مورث کے ترکے میں بنیادی اصول یہ ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں کس کو کتنے مال کی وصیت کی۔ اگروہ موت سے قبل کل مال یا اس کے کچھ حصےکی وصیت کردے تو اس کی وصیت نافذ ہوگی ،چاہیےاس کے قریب ترین رشتہ دار یعنی بچے اور بیوی محروم ہوجائیں، البتہ اگر اس نے وصیت نہ کی ہو تو اس صورت میں درجہ بالا نکات کے مطابق ترکہ تقسیم ہوگا۔

  • اگر مورث کے ورثا میں ان کی بچے ،بیوی یا سول پارٹنر موجود ہو تو اس صورت میں بیوی یا سول پارٹنر کو ترکے کا آدھا حصہ ملتا ہیں اور آدھا حصہ بچوں میں مساوی تقسیم ہوگا ۔

    For deaths that took place on or after 26 July 2023

    In England and Wales, when someone dies intestate, leaving a spouse or civil partner and surviving children or other descendants:

    the spouse or civil partner inherits the personal effects or chattels of the deceased, the first £322,000 of the estate and half of the remaining estate. This means that in cases where the estate is less than £322,000 the spouse or civil partner will inherit the whole of the estate;

    the children inherit the other half of the remaining estate. In cases where a son or daughter has died, their share of the inheritance will be divided among their children11

    ترجمہ: ۲۶ جولائی ۲۰۲۳ ء کو یا اس کے بعد ہونے والی اموات کے لیے وضع کردہ قانون وراثت

    انگلستان اور ویلز میں، جب کوئی شخص مرجائے ،اس حال میں کہ اس نے وصیت نہ کی ہو،اور اس کے ورثا میں اس کی بیوی یا سول پارٹنر ،بچےیا پوتے و پڑپوتے ہوں تو اس صورت میں درج ذیل قوانین لاگو ہوں گے :

  • شریک حیات یا سول پارٹنر کو مرنے والے کے ذاتی اثرات یا چیٹلز، اثاثہ کا پہلا £322,000 اور بقیہ اثاثہ کا آدھا حصہ ملتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایسی صورتوں میں جہاں اثاثہ ۳۲۲۰۰۰ پونڈ £سے کم ہے ،شریک حیات یا سول پارٹنر کو پوری جائیداد کی واراثت ملے گی۔

  • بچے باقی جائیداد کے باقی نصف کے وارث ہوتے ہیں۔جن صورتوں میں بیٹا یا بیٹی فوت ہو جائے تو ان کا حصہ ان کے بچوں میں تقسیم کیا جائے۔

  • اگر مورث کے ورثا میں صرف ان کی والدین موجود ہوں ، اور بیوی ،بچے موجود نہ ہوں تو اس صورت میں پوری جائیداد والدین کے درمیان مساوی تقسیم ہوگی۔

  • The deceased is survived by a parent In England and Wales, when someone dies intestate, leaving no spouse, surviving children or other descendants, their whole estate is shared equally between the surviving parents.12

  • ترجمہ انگلینڈ اور ویلز میں، جب کوئی شخص وصیت کیے بغیر مر جاتا ہے،اور کوئی شریک حیات، زندہ بچ جانے والے بچے یا دیگر اولاد نہیں چھوڑتا، تو اس کی پوری جائیداد زندہ رہنے والے والدین کے درمیان یکساں طور پر بانٹ دی جاتی۔

  • اگر مورث کے ورثا میں سوتیلے بہن بھائی موجود ہوں اور دیگر ورثا نہ ہوں تو اس صورت میں ترکہ ان سوتیلے بہن بھائی میں تقسیم ہوگا ۔

    The deceased is survived by half-blood siblings or their descendants،The rules of intestacy for England and Wales stipulate that an estate must pass in its entirety to the deceased’s half-blood siblings or their descendants when there is no surviving:

  • spouse or civil partner.

  • children or other descendants

  • parents

  • full-blood brothers and sisters or their descendants.

    In cases where a half-blood brother or sister has died, their share of the inheritance will be divided among their children 13

    ترجمہ: انگلستان اور ویلز کے قوانین ِوراثت کے مطابق اگر میت کے ورثا میں صرف سوتیلے بہن بھائی یا ان کی اولاد ہو،تو غیر منقولہ جائیداد ان کے مابین تقسیم کی جائےگی،بشرط یہ کہ مندرجہ ذیل میں کوئی وارث موجود نہ ہو:

  • شریک حیات یا سول پارٹنر۔

  • بچے یا دیگر اولاد۔

  • والدین۔

  • سگے بھائی اور بہنیں یا ان کی اولاد۔

    ایسی صورتوں میں جہاں سوتیلے بھائی یا بہن کی موت ہو گئی ہو، وراثت میں ان کا حصہ ان کے بچوں میں تقسیم کیا جائے گا۔

    ان ممالک کےقوانین میں بنیادی طورپر بہت زیادہ تبدیلی کی جاچکی ہے اس لیے اس میں کہیں نہ کہیں بائبل کے قوانین کی جھلک ہے مگر مجموعی طور پر یہ بالکل ایک نئی شکل ہے،جو کہ کئی سالوں کی انسانی تحقیق اور کاوشوں کا نتیجہ ہے جس میں مغرب کا جدید نقطہ نظر [ ورلڈ ویو ] کارفرما ہے ۔

    حاصل کلام:

    انگلینڈ کے قوانین وراثت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول وصیت ہے اور اکثر قوانین وصیت پر مبنی ہیں اس کے ساتھ مورث کو پورا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ وارث اور غیر وارث دونوں کے لیے وصیت کر سکتا ہے اور ترکہ میں وصیت کےلیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔

    ان قوانین میں تقسیم وراثت میں مساوات کا نظریہ پایا جاتا ہے مثلا اگر بیٹااور بیٹی کے درمیان وراثت تقسیم کرنا ہو تو دونوں کو برابر حصہ ملے گا۔ اس طرح اگر والدین کے درمیان ترکہ تقسیم کرنا ہو تو دونوں کو برابر حصہ ملے گا ۔

    ان قوانین میں گود لیے ہوئے بچوں کو حقیقی بچوں کے ساتھ وراثت میں شریک کیا گیا ہے جبکہ سوتیلے بچوں کو محروم کیا ہے۔

    اس طرح ان قوانین میں اس با ت کی وضاحت موجود ہے کہ شوہر ،بیوی یا سول پارٹنرکو وراثت پانے کے لیے مورث کی وفات کے ۲۸ دنوں بعد تک زندہ رہنا ضروری ہے بصورت دیگر وہ میرث کے حقدار نہیں بنیں گے۔

    ان قوانین میں مورث کی بیوی اور بچوں کی موجودگی میں ماں باپ کو حق وراثت سے محروم کیا گیا ہے اور قرابت کا کوئی لحاظ نہیں کیا گیا۔ حالاں کہ قرابت کا تقاضا یہ ہے کہ ماں باپ ،بیوی اور بچوں کے درمیان ایک ایسے تناسب سے تقسیم کی جائے کہ سب کو اپنا اپنا حصہ مل جائے۔

    درج بالا نکات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انگلینڈ کے یہ قوانین وراثت، عدم توازن کاشکار ہیں اوربگاڑ سےبچنے کے لیے گزشتہ دس سالوں کے دوران ان قوانین میں مختلف تبدیلیاں کی گئ ہیں ۔

    اسلام میں حق وراثت

    اسلام ایک عدل پر مبنی نظام ہےجس میں انسان کی انفرادی واجتماعی زندگی کی تمام صورتوں میں رہنمائی موجود ہے ان میں سے ایک میراث کا مسئلہ ہے۔ جہاں تمام دوسرے ادیان افراط وتفریط کا شکار ہیں وہیں پر اسلام نے قانون میراث کے ذریعےکمزورافراد ،عورتوں اور بچوں کو ان کے حقوق دیے اور ان کاخاطرخواہ تحفظ کیا ، جبکہ دیگر مذاہب اور تہذیبوں میں عورت اپنے جائز حق وراثت سے ہی محروم رہی ہے۔اس وجہ سے اسلام کا قانون وراثت بالکل نمایاں اور اعتدال پر مبنی ہے۔

    اسلام کے قانون وراثت میں خواتین کے حصے

    اسلام نے مرد وعورت کے درمیان میراث کو ایک خاص تناسب سے تقسیم کیا ہے جو اعتدال پر مبنی ہے ان کے ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے لیےحصےمقررکئے ہیں۔ تقسیم میراث کے لیے ایک ترتیب بنائی ہے جس میں پہلے ذوی الفروض کےلیے حصے مقرر ہیں،پھر عصبہ کےلیے پھر ذوی الارحام کے لیے حصے متعین ہیں ۔ان تینوں صورتوں میں مرد کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی وارث قرار دیا ہے کہیں پربھی عورت کو نظرانداز نہیں کیاگیا ۔

    عورت کو ہر صورت مثلاً ماں ،بیٹی ،بہن ، بیوی ، یا دادی ہوان مختلف صورتوں میں مختلف حصے ملتے ہیں کہیں پر بھی عورتوں کو محروم نہیں کیا گیا۔

    عورت کاحق وراثت بحیثیت ذوی الفروض

    ذوی الفروض علم میراث کی ایک اہم اصطلاح ہے اس کو جاننا ضروری ہے تاکہ وارث کا صحیح تعین ہوجائے اور اس کے مطابق اس کو حصہ مل جائے۔ اسلام کے علاوہ دووسرے ادیان میں عورت کو میراث سے یا تو بالکل محروم کیا گیا ہے یا جہاں ان کو حصہ دیا گیا ہے وہاں بھی انصاف نہیں کیاگیاہے۔ اس کے برعکس اسلام نے میراث میں عورت کو ان کو پورا پورا حق دیا ہے۔زمانہ جاہلیت میں عورتوں کےساتھ حقوق دینے میں ظلم کارویہ اختیارکیا جاتاتھا خاص طور پر میراث میں عورت کو بالکل حقدار نہیں سمجھا جاتا تھا ۔اسلام نے اس ظلم کے نظام کو رد کرکے عورت کو میراث میں بطور ذوی الفروض حصہ دیا ۔

    ذوی الفروض: وهم الذين لهم سهام مقدرة في كتاب الله تعالى ، أو سنة رسوله ، أو الإجماع، سواء أكانوا من ذوي القرابة النسبية أم السببية14ذوی الفروض وہ لوگ ہیں جن کےلیے حصہ مقررہو ں قرآن میں یا سنت رسول ﷺ میں یا اجماع کی وجہ سے ، خواہ وہ قرابت نسبی ہو یا سببی ہو۔

    ذوی الفروض کی تعداد بارہ ہے،جس میں دس نسب کی وجہ سے ہیں اور دو سبب کی وجہ سے ہیں ان میں سے آٹھ خواتین ہیں اور چار مرد ہیں ۔ان ذوی الفروض کو جو حصے ملتے ہیں وہ چھ ہیں ۔

    ۱۔نصف۲/۱ ۲۔ربع ۴/۱ ۳۔ثمن۸/۱ ۴۔ثلثان۳/۲ ۵۔ثلث۳/۱ ۶۔سدس۶/۱

    ذوی الفروض کےلیے یہ حصے شریعت نے مقررکیے ہیں۔ ان میں کسی قسم کی کمی بیشی کی گنجاش نہیں ہے سوائے رد اور عول کی صورت کے ۔

    1۔ماں

    وراثت میں ماں کے حصے کی تین صورتیں ہیں۔

  • مورث [میت] کی اگر اولاد موجود ہو تو اس صورت میں ماں کو چھٹا حصہ ملےگا۔وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ15 اگرمیت صاحب اولادہوتواس کےوالدین میں سے ہر ایک کوترکےکا چھٹاحصہ ملنا چاہیے۔

  • اگر مورث کے ہاں اولاد نہیں ہے اور اس کے بہن بھائی موجود نہ ہوں تو اس صورت میں ماں کو ثلث یعنی ایک تہائی حصہ ملےگا۔فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُث16اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اوروالدین ہی اس کےوارث ہوں تو ماں کو تیسراحصہ دیا جائے۔

  • اگر مورث کے بہن ،بھائی میں سے کوئی ایک موجود ہو تو اس صورت میں ماں کو سدس یعنی چھٹا حصہ ملےگا۔فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ17 اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹےحصے کی حق دار ہوگی۔

    نوٹ:

    مذکورہ جن دو صورتوں میں ماں کو ثلث ملےگا اس سے مراد ثلث کل ہے یعنی کل ترکہ کا ایک تہائی حصہ ہے اس کےعلاوہ ایک خاص صورت یہ ہے کہ مورث کی بیوی یا شوہر موجود ہو اور اس کی اولاد نہ ہو اور ماں بھی موجود ہو تو اس صورت میں ماں کو ’ثلث باقی‘ملے گا۔ ثلث باقی کا مطلب یہ ہے کہ پہلے زوج یا زوجہ کاحصہ نکالنا ہوگا بعد میں ماں کو ثلث دیا جائے گا اس کو ثلث باقی کہتے ہیں ۔ ماں کو دو صورتوں میں ثلث کل اور ایک صورت میں ثلث باقی ملے گا ۔

    2۔بیوی

    ذوی الفروض میں سے دوسرےنمبر پر بیوی ہے جس کےلیے شریعت نے حصہ مقرر کیا ہے وراثت میں بیوی کے حصےکی دو صورتیں ہے :

  • اگر مورث کی کوئی اولاد نہ ہو چاہے اس بیوی سے یاکسی اور بیوی سے تو اس صورت میں بیوی ایک چوتھائی حصے کی حقدار قرار پائے گی۔وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ 18اور وہ تمھارےترکے میں سےچوتھائی کی حق دار ہوگی اگرتم بے اولاد ہو'

  • اگر مورث کے ہا ں کوئی اولاد ہوچاہےاس بیوی سے یا کسی دوسری بیوی سے تو ترکہ میں سے آٹھواں حصہ پائے گی۔

    فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ19اگر آپ صاحب اولادہوں تو اس صورت میں ان کا حصہ آٹھواں ہوگا۔

    شوہر کا ترکہ تقسیم کرتے وقت ا س بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ بیوی کا حق مہر ادا کیا ہے یا نہیں، اگر مہر ادا نہیں کیا ہے تو سب سے پہلے ترکہ سے مہر ادا کیا جائے گا اور بیوی کو اس کے ساتھ حق وراثت بھی ملے گا اگر مہر کی مقدار کل ترکہ سے زیادہ بھی ہو تو پہلے مہر ادا کیاجائےگا۔اس کےعلاوہ اگر کوئی شخص غلطی سے قتل ہوجائے تو مقتول کے ورثا کو جو دیت ملےگی اس میں بھی بیوی کو حصہ دیاجائے گا اور یہ صورت سنت رسولﷺ سے ثابت ہے۔

    عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: الدِّيَةُ عَلَى العَاقِلَةِ وَلاَ تَرِثُ الْمَرْأَةُ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا شَيْئًا، حَتَّى أَخْبَرَهُ الضَّحَّاكُ بْنُ سُفْيَانَ الكِلاَبِيُّ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَيْهِ أَنْ: وَرِّثْ امْرَأَةَ أَشْيَمَ الضِّبَابِيِّ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا.20 سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر رضی الله عنہ کہتے تھے: دیت کی ادائیگی عاقلہ پر ہے، اور بیوی اپنے شوہر کی دیت سے میراث میں کچھ نہیں پائے گی، یہاں تک کہ ان کو ضحاک بن سفیان کلابی نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک فرمان لکھا تھا: ”اشیم ضبابی کی بیوی کو اس کے شوہر کی دیت سےمیراث دو۔

    اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے بیوی کے حقوق کا کتنا تحفظ کیا ہے یعنی اگر میراث تقسیم ہوتے وقت مہر ادا نہیں کیا گیا تو سب سے پہلے جو کہ بیوی کا بنیادی حق ہے اس کو ادا کیا جائے گا حتی کہ شوہر کی دیت میں بھی اسے حصہ دیا گیا ہے ۔

    3:بیٹی

    ذوی الفروض میں سے تیسری بیٹی ہے وراثت میں حصہ لینے کےلیے ان کی تین صورتیں ہیں،دو صورتوں میں ذوی الفروض کی حیثیت سے اورایک صورت میں عصبہ کی حیثیت سے ۔

  • اگر بیٹی اکیلی ہے اور اس کے کوئی بہن بھائی نہیں ہیں تو مورث کے ترکے سے نصف حصہ لے گی۔وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ21اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔

  • اگر دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں ہوں اوران کا بھائی نہ ہو تو اس صورت میں ان کو دو تہائی حصہ ملےگافَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ22اگر{ میت کی وارث }دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انھیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔

  • اگر بیٹی کی ساتھ اس کا بھائی موجود ہو تو ذوی الفروض کے حصص کی ادائیگی کے بعد جو ترکہ بچ جائے وہ بیٹیوں اور بیٹوں کے درمیان عصبہ کی حیثیت سے تقسیم ہوگا ،

    اور یہ وہ صورت ہے جس میں بیٹی عصبہ بنتی ہے،اس صورت میں بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ ملےگا ۔يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ23 تمھاری اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ :مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابرہے۔

    4۔پوتی

    ذوی الفروض میں سے ایک پوتی ہے۔

    وراثت کی تقسیم کے اعتبار سے اس کی چھ حالتیں بنتی ہیں۔

  • اگر مورث کا بیٹا اور بیٹی دونوں نہ ہو ں اور صرف ایک پوتی ہو تو اس صورت میں پوتی نصف حصے کی حقدار ہوتی ہے ۔

  • اگرپوتیاں دو یا دو سےزیادہ ہو اور حقیقی بیٹااور بیٹی نہ ہو ں تو اس صورت میں پوتیوں کو دو تہائی حصہ ملے گا۔وَقالَ زَيْدٌ: وَلَدُ الأبْنَاءِ بِمنْزلَةِ الْوَلَدِ إذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُم وَلَدٌ ذَكَرٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ، وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرثُونَ، ويَحْجُبونَ كَمَا يَحْجُبونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الاِبْنِ.24زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ پوتے بیٹوں کے درجہ میں ہے ۔

  • اگر مرنے والے کا کوئی بیٹا نہ ہو ۔ ایسی صورت میں پوتے بیٹوں کی طرح اور پوتیاں بیٹیوں کی طرح ہوں گی ۔ انہیں اسی طرح وراثت ملے گی جس طرح بیٹوں اور بیٹیوں کو ملتی ہے اور ان کی وجہ وہ عزیز و اقارب وراثت کے حق سے محروم ہو جائیں گے جو بیٹے اور بیٹیوں کی موجودگی میں محروم ہوتے ہیں ، البتہ اگر بیٹا موجود ہو تو پوتا وراثت میں کچھ نہیں پائے گا۔کیونکہ ان دو صورتوںمیں پوتی حقیقی بیٹی کی قائم مقام ہےجس طرح ایک بیٹی کو نصف اور دویادو سے زیادہ بیٹیوں کو ثلثان ملتا ہے اسی طرح ایک پوتی کو نصف اور دویا دو سے زیادہ پوتیوں کو ثلثان ملے گا ۔

  • پوتی ایک ہو یا ایک سے زیادہ ہو اور مورث کی ایک بیٹی بھی ہو تو پوتیوں کو سدس یعنی چھٹا حصہ ملتا ہے ۔عن هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيل قالَ: سُئِلَ أبُو مُوسَى عِنَ ابْنَةٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ؟ فَقال: للاِبْنَةِ النِّصْفُ، وَللأُخْتِ النِّصْفُ، وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ؛ فَسَيُتابِعُني، فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ، وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبي مُوسَى، فَقالَ: لَقَدْ ضَلَلْتُ إذاً وَمَا أنَا مِنَ المُهْتَدِينَ، أَقْضي فَيِهَا بِمَا قَضَى [أو قال: قال النبيُّ - صلى الله عليه وسلم "للاِبْنَةِ النَّصْفُ، وَلاِبْنَةِ الاِبْنِ السُّدُسُ؛ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ، وَمَا بَقِيَ فَللأخْتِ"25ھزیل بن شرحبیل سے روایت ہے فرماتا ہے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے بیٹی ، پوتی اور بہن کی میراث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا اور بہن کو آدھا ملے گا اور تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے یہاں جا ، شاید وہ بھی یہی بتائیں گے ۔ پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی بات بھی پہنچائی گئی تو انہوں نے کہا کہ میں اگر ایسا فتویٰ دوں تو گمراہ ہو چکا اور ٹھیک راستے سے بھٹک گیا ۔ میں تو اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا ، پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا ، اس طرح دو تہائی پوری ہو جائے گی اور پھر جو باقی بچے گا وہ بہن کو ملے گا 

  • اگر پوتیوں کے ساتھ ایک سے زائد حقیقی بیٹیاں ہوں تو اس صورت میں پوتی ،یا پوتیاں محروم ہوجائیں گی ۔

  • اگر حقیقی بیٹیاں ایک سے زیادہ ہوں اور پوتیوں کی ساتھ کوئی پوتا بھی موجود ہو تو وہ ان کو عصبہ بالغیر بنادےگا اور دوسرے اصحاب الفروض کو حصہ دینے کےبعد باقی ترکہ ان پوتے ،پوتیوں پر للذکر مثل حظالانثیین کے تحت تقسیم ہو گا ۔

  • اگر پوتیوں کے ساتھ مورث کا کوئی بیٹا موجود ہو تو اس صورت میں پوتیاں محروم ہو جائیں گی کیونکہ میراث عصبات میں الاقرب فالاقرب کو ملتی ہے۔

    5۔جدہ الصحیحہ(دادی ،نانی)

    میراث کی تقسیم میں جدہ کی دوحالتیں ہیں ۔

  • دادی ،نانی ایک ہو یاایک سے زیادہ ہو ں چھٹے حصے کی حقدار ہو ں گی اوراس چھٹے حصے میں شریک ہوں گی اگر ایک سے زیادہ ہو تو ہر ایک لیے الگ الگ سدس نہیں ہے ۔عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ قَالَ: جَاءَتِ الجَدَّةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا، قَالَ: فَقَالَ لَهَا: مَا لَكِ فِي كِتَابِ اللهِ شَيْءٌ، وَمَا لَكِ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ، فَارْجِعِي حَتَّى أَسْأَلَ النَّاسَ، فَسَأَلَ النَّاسَ فَقَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ: حَضَرْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهَا السُّدُسَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَلْ مَعَكَ غَيْرُكَ؟ فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ الأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَأَنْفَذَهُ لَهَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: ثُمَّ جَاءَتِ الجَدَّةُ الأُخْرَى إِلَى عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا، فَقَالَ: مَا لَكِ فِي كِتَابِ اللهِ شَيْءٌ، وَلَكِنْ هُوَ ذَاكَ السُّدُسُ، فَإِنْ اجْتَمَعْتُمَا فِيهِ فَهُوَ بَيْنَكُمَا، وَأَيَّتُكُمَا خَلَتْ بِهِ فَهُوَ لَهَا.26ابوبکر رضی الله عنہ کے پاس ایک دادی یا نانی میراث سے اپنا حصہ پوچھنے آئی، ابوبکر رضی الله عنہ نے اس سے کہا: تمہارے لیے اللہ کی کتاب ( قرآن ) میں کچھ نہیں ہے اور تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بھی کچھ نہیں ہے، تم لوٹ جاؤ یہاں تک کہ میں لوگوں سے اس بارے میں پوچھ لوں، انہوں نے لوگوں سے اس بارے میں پوچھا تو مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، آپ نے دادی یا نانی کو چھٹا حصہ دیا، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: تمہارے ساتھ کوئی اور بھی تھا؟ محمد بن مسلمہ انصاری رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور اسی طرح کی بات کہی جیسی مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ نے کہی تھی۔ چنانچہ ابوبکر رضی الله عنہ نے اس کے لیے حکم جاری کر دیا، پھر عمر رضی الله عنہ کے پاس دوسری دادی ( اگر پہلی دادی تھی تو دوسری نانی تھی اور اگر پہلی نانی تھی تو دوسری دادی تھی ) میراث سے اپنا حصہ پوچھنے آئی۔ انہوں نے کہا: تمہارے لیے اللہ کی کتاب ( قرآن ) میں کچھ نہیں ہے البتہ وہی چھٹا حصہ ہے، اگر تم دونوں ( دادی اور نانی )  اجتماعی طور پر وارث ہو تو چھٹا تم دونو کے درمیان تقسیم کیا جائے گا ۔

  • مورث کی ماں کی موجودگی میں دادی اور نانی دونوں محروم ہوجاتی ہیں جبکہ باپ کی موجودگی میں صرف دادی محروم ہوتی ہے،دلیل:عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِيهِ : أَنَّ مَعَانِى هَذِه الْفَرَائِضِ وَأُصُولَهَا عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَأَمَّا التَّفْسِيرُ فَتَفْسِيرُ أَبِى الزِّنَادِ عَلَى مَعَانِى زَيْدٍ قَالَ : وَمِيرَاثُ الْجَدَّاتِ أَنَّ أُمَّ الأُمِّ لاَ تَرِثُ مَعَ الأُمِّ شَيْئًا وَهِىَ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ يُفْرَضُ لَهَا السُّدُسُ فَرِيضَةً وَأَنَّ أُمَّ الأَبِ لاَ تَرِثُ مَعَ الأُمِّ وَلاَ مَعَ الأَبِ شَيْئًا وَهِىَ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ يُفْرَضُ لَهَا السُّدُسُ فَرِيضَةً27خارجہ بن زید بن ثابت اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ: ان فرائض کے معنی اور ان کی ابتدا زید بن ثابت کی سند سے ہے، اور جہاں تک تفسیر کا تعلق ہے تو یہ ابوالزناد کی تفسیر ہے۔ زید کے معنی ہیں، انہوں نے کہا: دادیوں کی وراثت یہ ہے کہ ماں کی ماں کو ماں کے ساتھ کچھ حاصل نہ ہو، اور اس کے علاوہ اس کے لیے چھٹا حصہ واجب ہے، اور باپ کی ماں کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ اسے ماں یا باپ کے ساتھ کچھ بھی وراثت نہیں ملتی ، ماں اور باپ کی عدم موجودگی میں دادی کے لیے چھٹا حصہ فرض کیا گیا ہے۔

    6۔حقیقی بہن

    وراثت کی تقسیم میں حقیقی بہن کی پانچ صورتیں بنتی ہیں

  • اگر مورث (میت)کے اصول وفروع نہ ہوں یعنی کلالہ ہو اور صرف ایک حقیقی بہن موجود ہو تو اس کو ترکہ سے نصف حصہ ملےگا إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ 28اگر کوئی شخص بے اولاد مرجائے اور اس کی ایک بہن ہو تو وہ اس کے ترکے میں سے نصف پائے گی۔

  • اگر دو یا دو سے زیادہ حقیقی بہنیں ہوں تو ان کو دو تہائی ثلثان ملے گا ۔

  • انْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ29اگر میت کی وارث دو بہنیں ہوں تو ترکے میں سے دو تہائی کی حق دار ہوں گی

  • اگر حقیقی بہنوں کے ساتھ ان کا ایک حقیقی بھائی موجود ہو تو اس صورت میں حقیقی بہنیں عصبہ بالغیر بن جائیں گی اور باقی ماندہ ترکہ للذکر مثل حظ الاثین کے حساب سے تقسیم ہوگا۔ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ30 اور اگر کئی بھائی بہنیں ہوں تو عورتوں کا اکہرا اور مردوں کا دہرا حصہ ہو گا ۔

  • اگر حقیقی بہنوں کے ساتھ مورث کی ایک بیٹی اور ایک پوتی ہو تو اس صورت میں بیٹی اور پوتی کو بطور ذوی الفروض حصہ ملے گا اور بہنوں کو بطور عصبہ ملےگا کیونکہ بہن بیٹی کی وجہ سے عصبہ بن جاتی ہے ۔قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : لَأَقْضِيَنَّ فِيهَا بِقَضَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ لِلِابْنَةِ النِّصْفُ، وَلِابْنَةِ الِابْنِ السُّدُسُ، وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ31عبداللہ رضی اللہ عنہ نےفرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ بیٹی کو آدھا، بیٹے کی بیٹی کو چھٹا حصہ، اور جو بچتا ہے وہ بہن کوجاتا ہے۔

  • اگرمورث کا باپ ،بیٹا یاپوتے میں سے کوئی موجود ہو تواس صورت میں بہن محروم ہوگی۔

    7۔باپ شریک بہن:

    وراثت کی تقسیم کےاعتبار سے باپ شریک بہن کی سات صورتیں ہیں :

  • باپ شریک بہن اگر اکیلی ہواور اس کے ساتھ مورث کی حقیقی بہن نہ ہو تو وہ نصف حصہ لے گی۔

  • باپ شریک بہنیں دو یادو سےزیادہ ہوں اور ان کےساتھ حقیقی بہن نہ ہو تو بہنوں کو دوتہائی حصہ ملےگا۔

  • مورث کی باپ شریک بہن کےساتھ ا گر اس کا باپ شریک بھائی موجود ہو تو اس صورت میں باپ شریک بہن، بھائی کے ساتھ عصبہ بن جاتی ہے اور بطور عصبہ حصہ لیتی ہے۔دلیل : يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ32 ( اے نبی ! ) لوگ تم سے کلالہ کے معاملہ میں فتویٰ پوچھتے ہیں ۔ کہو اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے ۔ اگر کوئی شخص بے اولاد مر جائے اور اس کی ایک بہن ہو تو وہ اس کے ترکہ میں سے نصف پائے گی ، اور اگر بہن بے اولاد مرے تو بھائی اس کا وارث ہوگا ۔ اگر میّت کی وارث دو بہنیں ہوں تو وہ ترکے میں سے دو تہائی کی حقدار ہوں گی ، اور اگر کئی بھائی بہنیں ہوں تو عورتوں کا اکہرا اور مردوں کا دہرا حصّہ ہوگا ۔

    باپ شریک بہن کے ساتھ اگر ایک حقیقی بہن ہو تو باپ شریک بہن کو چھٹا حصہ ملے گا۔

  • اگر مورث کا حقیقی بھائی ہو یا دو سے زیادہ حقیقی بہنیں ہوں تو اس صورت میں باپ شریک بہن میراث سے محروم ہوگی۔

  • اگر مورث کے اصول میں یعنی باپ،دادا ہو یا فروع بیٹا،پوتا موجود ہو تو باپ شریک بہن محروم ہوگی۔

    بنی العلات کے حق وراثت کے متعلق اصولی بات یہ ہے کہ حقیقی بہن بھائی کی عدم موجودگی میں ان کو حصہ ملے گا اور ان کی جو صورتیں بنتی ہیں وہ اوپر ذکر کی گئی ہیں ۔جیسا کہ المبسوط میں امام سرخسی فرماتے ہیں :

    "وميراث بنى العلات كميراث أولاد الابن على معنى أنهم عند عدم بني الأعيان يقوم ذكورهم مقام ذكورهم وإناثهم مقام إناثهم كأولاد الابن عند عدم أولاد الصلب فإنهم لا يرثون مع الذكر من بني الأعيان شيئا كما لا يرث أولاد الابن مع الابن حتى أن الأخت لأب لا ترث مع الأخ لأب وأم ولا تصير عصبة مع البنت إذا كان معها أخ لأب وأم33

    ترجمہ میراث میں بنی العلات [باپ شریک بچے] پوتوں کی طرح ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی اولاد کی عدم موجودگی میں بنی العلات ان کے قائم مقام ہوتے ہیں ،مذکر مذکر کی جگہ اور مونث ،مونث کی جگہ قائم مقام ہیں، جس طرح بیٹے کی اولاد حقیقی اولاد کی عدم موجودگی میں حصہ نہیں لیتا ۔حقیقی اولاد میں مذکر کے ساتھ باپ شریک اولاد حصہ نہیں لیتا جیسا کہ پوتے حقیقی بیٹے کے ساتھ حصہ نہیں لیتا جب کہ باپ شریک بہن حقیقی بھائی کے ساتھ حصہ نہیں لیتا اور باپ شریک بہن بیٹی کے ساتھ عصبہ نہیں بنتا جب حقیقی بھا ئی موجود ہو۔

    8۔اخیافی بہن ، ماں شریک بہن

    تقسیم وراثت کے اعتبار سے اخیافی بہن کی تین حالتیں ہیں :

  • ماں شریک بہن بھائی ایک ایک ہوں اور مورث کی اولاد نہ ہو اور باپ دادا بھی نہ ہو تو اس صورت میں ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا

  • اگر مورث کی اولاد اور باپ دادا نہ ہو اور اخیافی بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوتو اس صورت میں ان کو ایک ثلث ملے گا جس میں سب شریک ہوں گے۔دلیل : وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ34وہ مرد یا عورت کلالہ ہو یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو ، اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے اور اگر اس سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں۔

  • اگر مورث کی اولاد موجود ہو یا اصول میں باپ دادا موجود ہو تو اس صورت میں ماں شریک بہن محروم ہوگی۔ماں شریک بہن بھائیوں کے بارے میں امام مالک ؒ نے ایک اصولی بات ذکر کی ہے قَالَ مَالِك :الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا أَنَّ الْإِخْوَةَ لِلْأُمِّ لَا يَرِثُونَ مَعَ الْوَلَدِ وَلَا مَعَ وَلَدِ الْأَبْنَاءِ ذُكْرَانًا كَانُوا أَوْ إِنَاثًا شَيْئًا وَلَا يَرِثُونَ مَعَ الْأَبِ وَلَا مَعَ الْجَدِّ أَبِي الْأَبِ شَيْئًا35امام مالک نے فرمایا کہ یہ حکم ہمارے نزدیک متفق علیہ ہے کہ ماں شریک بہن بھائی (میت کی )اپنی اولاد اور اپنے بیٹوں کی اولاد خواہ مذکر ہو یا مونث کے ہوتے ہوئے وارث نہیں ہوتے اور نہ ہی مورث کے باپ دادا کی موجودگی میں وراث ہوسکتے ہیں ۔

    ذوی الفروض میں شریعت نے آٹھ خواتین کاذکر کیا ہے ۔ ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے عورتوں کو میراث میں پورا حق دیا ہے بلکہ عورتوں کو مقدم بھی کیا ہے کیونکہ تقسیم میراث میں ذوی الفروض کا حق مقدم ہوتا ہے پہلے میراث ان ذوی الفروض میں تقسیم ہوتی ہے پھر جو ترکہ بچ جائے وہ عصبات میں تقسیم ہوگا۔

    عورت کا حق وراثت بطور عصبہ

    ذوی الفروض کے بعد دوسرے نمبرپر عصبات آتے ہیں جو وراثت کے حقدار ہوتے ہیں ۔ عصبہ، عاصب کی جمع ہے۔ اس کا لغوی معنی ہے قرابۃ الرجل ۔ علم الفرائض کے رو سے عصبہ وہ شخص ہےجو تنہاوارث ہو تو کل ترکہ اور اگرذوی الفروض کے ساتھ وارث بنے توان سےجوبچ رہے اس کا مستحق ہو۔36

    عصبہ کی تین قسمیں ہے ۔۱ ۔ عصبہ بانفس ۲۔عصبہ بالغیر ۳۔عصبہ مع الغیر

    عصبہ بالغیر: میت کی وہ خاتون رشتہ دار جس کا حصہ مقر رہو اور ذوی الفروض ہو مگر جب اس کے ساتھ اس کا بھائی ہو تب یہ ذوی الفروض سے عصبہ بن جاتی ہےاور یہ چار لوگ ہیں ۔كل أنثى لها فرض مقدر وجد معها ذکر من درجتها، فتصير به عصبة ولا هذا النوع إلا فيمن فرضه النصف عند الانفراد والثلثان عند التعدد، وهي اربعہ فقط37

  • اگر مورث کی بیٹی کے ساتھ مورث کا بیٹا موجود ہو تو اس صورت میں ذوی الفروض کےحصوں کی ادائیگی کےبعد باقی ترکہ بیٹی اور بیٹے میں للذکر مثل حظ الانثین کےاصول کے تحت تقسیم ہوگا۔

  • اگرمیت کی پوتی کےساتھ پوتا موجود ہو تو ذوی الفروض کے حصوں کی تقسیم کے بعد باقی ترکہ اس پر للذکر مثل حظ الانثین کے قاعدے کےمطابق تقسیم ہو گا ۔

  • اگرمورث کے حقیقی بہن بھائی موجود ہوں تو اس صورت میں بہن کو بطور عصبہ حصہ ملےگا بھائی کے ساتھ للذکر مثل حظ الانثین کے قائدے کےتحت ۔

    باپ شریک بہن کی بحیثیت عصبہ دو صورتیں ہیں:

  • باپ شریک بہن کے ساتھ باپ شریک بھائی موجود ہو تو تقسیم للذکر مثل حظ الانثین کے حساب سے ہوگی ۔

  • اور اگر باپ شریک بہن کے ساتھ بھا ئی نہ ہو اور میت کی بیٹی،پوتی یاپڑپوتی ہو تو اس صورت میں ذوی الفروض کو حصہ دینے کے بعد مابقیہ بہن کو بطور عصبہ ملے گا ۔

    اسلامی نظام وراثت میں خواتین کے حصوں پر جدید شبہات اور اس کا جائزہ۔

    اسلام زندگی کا ایک جامع ومنظم دستور العمل ہے ۔ انسانی حیات کا کوئی پہلو خوا ہ انفرادی ہو یا اجتماعی سماجی ہو یا معاشی ، تمدنی ہو یا سیاسی، اسلامی تعلیمات سے خالی نہیں ہے ۔زندگی کےہر قدم پر اسلامی تعلیمات کی رہنمائی موجود ہے جس میں سے ایک تقسیم وراثت کامسِئلہ ہے ۔ اسلام کا قانون وراثت عدل اور انصاف پر مبنی قانون ہے جس میں مردوعورت کی ضرورت اور ان کی حیثیت کے مطابق ان کے لیے حصے مقرر کیے ہیں ۔اس کے برعکس دوسرےادیان ومذاہب میں عورت کومیراث سے بالکل محروم کیا گیا ہےاور اگر کسی مذہب میں عورت کو حصہ دیاگیا ہے تو وہ بھی غیرمنصفانہ تقسیم پر مبنی ہے ۔اس کےباوجود اسلام کے عدل پر مبنی قانون وراثت پربعض لوگ مختلف قسم کے شبہات کااظہار کرتے ہیں ۔

    پہلا شبہ:

    دین بےزار ملحدین اپنی عادت سے مجبور ہوکر احکام میراث پر بھی اعتراضات کرتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ تقسیم میراث میں مرداور عورت برابرحصہ کے حقدار ہیں مرد کو عورت کے مقابلے میں دوگنا حصہ کیو ں ملتا ہے۔ یہ عورت کے ساتھ ناانصافی اور ظلم ہے۔

    جواب: اس قسم کے اعتراض سےپہلے یہ معلو م ہونا چاہے کہ یہ تقسیم کہ مرد کو عورت کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملے گا، یہ تمام صورتوں میں ہے یا بعض خاص صورتوںمیں؟ اور اس کےپیچھےکیا حکمت ہے؟تقسیم میراث میں سب سے پہلا نمبر ذوی الفروض کا آتا ہے۔ سب سے پہلے ان کو حصہ دیا جاتا ہے جن کی کل تعداد بارہ ہے ، آٹھ خواتین ہیں اور چار مرد ہیں ۔گویا کہ اسلام نے عورتوں کی زیادہ تعداد کو ترکہ میں حصہ دیا ہے یعنی حصہ پانے والی عورتوں کی تعداد مردوں کےمقابلے میں دگنی ہے ۔

    اسلام نے للذکر مثل حظ الانثیین کا اصو ل اور قاعدہ بیان کرکےاس بات کی وضاحت کی کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل میں لڑکیوں کے حصے کا ذکر کرنا مقصود ہے اور لڑکے کے حصے کو ضمنا ً ذکر کیا گیا ہے ۔ قرآن کے اس بلیغ اسلوب سے شائد ا س طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ دنیا میں آج تک عورتوں کو میراث سے محروم رکھ کر جو ظلم کیا گیا ہے قرآن کریم کے نزول کےبعد اسلامی حدود اور شریعت میں یہ ظلم نہیں ہوگا ۔مسلمانوں کو اس بات کی تعلیم دی گئی کہ میراث میں مرد اور عورت دونو ں شریک ہیں اور قران کریم میں دونوں کے لیے اپنے اپنے حصے مقرر کیے ہیں جس میں تغیر وتبدل ممکن نہیں ہے اور ان کو حدود اللہ کے نام سے تعبیر کیا گیا ۔قران کریم میں وراثت کے متعلق جو آیات نازل ہوئی ہیں اس سے بہت سےفوائد اور احکام مستنبط کیے گئے ہیں جن میں ا س شبہے کا جواب موجود ہے جو نکات کی صورت میں درج ذیل ہے:

  • پہلا نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تقسیم میراث کے حوالے سے جو حصے مقرر فرما دیئے ہیں ان میں عقل انسانی کو دخل دینے اور کسی کمی بیشی کےلیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جس طرح زندگی اور موت کا قانون اٹل ہے اس طرح موت کے نتیجے میں جو حقوق مقرر کردیئے گئے ہیں وہ بھی ایسے محکم اوراٹل ہیں کہ ان میں تبدیلی کا وہم بھی نہیں ہو سکتا ۔دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے میراث کے جو اصول مقرر فرمائے، جو حقوق متعین کیے اور جو احکام دیئے ہیں وہ اللہ تعالی کے ہمہ گیر علم اور گہری حکمت کا نتیجہ ہیں۔ اس لیے ان میں کسی طرح کی تبدیلی کرنے کی کوشش کرنا اپنے آپ کو علم اور حکمت سے محروم کرنا ہے۔ عقل سلیم کا تقاضا یہ ہے کہ ان قوانین کی پیروی کی جائے جو خالق نے وضع کیے ہیں۔

    مرد کو جن صورتوں میں دگنا حصہ ملتا ہے وہ تین صورتیں ہیں ۔

    الف:جب میت کے ورثا بیٹااور بیٹی ہوں ۔

    ب:جب میت کے ورثا پوتا اورپوتی ہوں۔

    ج:جب میت کے وارث حقیقی بہن بھائی ہوں یا میت کے وارث علاتی بہن بھائی ہوں ۔

    تو ان تین صورتوں میں مرد کو عورت کے مقابلے میں دگنا حصہ ملتا ہے لیکن ایک حکمت کی بنیاد پر ۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورت کے ساتھ تقسیم میں ناانصافی ہوئی ہےیا عورت کی حق تلفی کی گئی ہے یا اس کی تذلیل کی گئی ہےبلکہ مردوعورت کے فرائض کو مدنظررکھ کر یہ تقسیم کی گئی ہے۔ ۔مرد کو دگنا حصہ ملنےکی یہ حکمت ہے کہ مرد پر مختلف مالی ذمہ داریاں عائدکی گئی ہیں مثلا نان ونفقہ کا خرچہ، مہر کا خرچہ وغیرہ ۔ اس لیے مرد کو دگنا حصہ دیا گیا ہے ۔علامہ نوویؒ فرماتے ہیں :وَحِكْمَتُهُ أَنَّ الرِّجَالَ تَلْحَقُهُمْ مُؤَنٌ كَثِيرَةٌ بِالْقِيَامِ بِالْعِيَالِ وَالضِّيفَانِ وَالْأَرِقَّاءِ وَالْقَاصِدِينَ وَمُوَاسَاةِ السَّائِلِينَ وَتَحَمُّلِ الْغَرَامَاتِ وَغَيْرِ ذَلِكَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ38 (مردوں کو میراث زیادہ دینے کی) حکمت یہ ہے کہ مردوں پر بہت سی مالی ذمہ داریاں آپڑتی ہیں ۔ اہل وعیال، مہمان، غلام، آنے جانے والے کی ذمہ داری، مانگنے والوں کی دل جوئی اور تاوان کا بوجھ وغیرہ۔اس طرح شاہ ولی اللہ ؒ حجۃاللہ البالغہ میں فرماتے ہیں کہ:وَمِنْهَا أَن الذّكر يفضل على الْأُنْثَى إِذا كَانَا فِي منزلَة وَاحِدَة أبدا لاخْتِصَاص الذُّكُور بحماية الْبَيْضَة والذب عَن الذمار، وَلِأَن الرِّجَال عَلَيْهِم انفاقات كَثِيرَة، فهم أَحَق مَا يكون شبه المجان، بِخِلَاف النِّسَاء فَإِنَّهُنَّ كل على أَزوَاجهنَّ أَو آبائهن أَو أبنائهن، وَهُوَ قَوْله تَعَالَى: {الرِّجَال قوامون على النِّسَاء بِمَا فضل الله بَعضهم على بعض وَبِمَا أَنْفقُوا}39 مرد کو عورت پر (ترکہ میں ) صرف اسی صورت میں ہمیشہ ترجیح دی گئی ہے جب کہ دونوں ایک درجے میں ہوں ، (گویا اوپرکی ساری شکلیں اس میں آگئیں ) وطن کی حمایت اور اپنوں کے دفاع میں مرد کے خاص ہونے کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ مردوں پر بہت سے اخراجات لازم ہیں ۔اس لیے مفت کی طرح ملنے والے مال کے زیادہ حق دار ہیں ، برخلاف عورتوں کے، اس لیے کہ وہ (بلانکاح) اپنے باپ دادا، بیٹے پوتے اور (نکاح کے بعد) اپنے شوہروں پر بوجھ ہوتی ہیں اور یہ (باتیں ) اللہ تعالیٰ کے قول (میں ) ہیں : مرد عورتوں پر نگراں ہیں ، اس فوقیت کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر دی ہے اور اس وجہ سے کہ وہ اپنا مال (ان کی کفالت میں ) خرچ کرتے ہیں۔

    دراصل تقسیم میراث کی ان صورتوں میں جو فرق نظر آتاہے وہ مرد اور عورت کے درمیان 'جنس ' کے بنیاد پر نہیں بلکہ مالی ذمہ داریوں کے لحاظ سےکیا گیاہے۔ اب اندازہ کیجیے کہ اسلام میں ترکہ کی تقسیم عقل اور انصاف کے مطابق ہے یا عقل اور انصاف کے خلاف؟

       اعتراض کرنے والے جہاں عورتوں پر ظلم کی باتیں کرتے ہیں ، وہ خود اپنے ظلم کو اگر دیکھیں تو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی، انھوں نے عورتوں کو بکاو مال بنارکھا ہے، دکانوں ، ہوٹلوں اور قحبہ خانوں میں ان کی عزتیں نیلام ہورہی ہیں ، اُن کو اخراجات کا انتظام کرنے کا مکلف بنایا جا رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ ان کے معاشرے میں بیوی اپنا کماکر خود کھاتی ہے شوہر اپنا کماکر کھاتاہے، دونوں اپنی رہائش وآسائش کا انتظام خود کرتے ہیں۔ وہ ایک آنکھ سے اسلامی احکام کو دیکھ کر اعتراض کرتے ہیں ، اس لیے ان کو اسلام پر اعتراض ہوتا ہے۔ اگر دونوں آنکھیں کھول کر اسلام کے سارے قوانین کا مطالعہ کریں تو ان کے دل کی آنکھیں بھی کھل جائیں ۔

    دوسرا شبہ:یتیم پوتے پوتیاں میراث سے محروم کیوں ہیں ؟

    دوسراشبہ میراث میں یتیم پوتا پوتی کے حصے کےحوالے سے کیا جاتا ہے کہ دادا کےترکہ میں یتیم پوتے پوتیوں کو باپ کا قائم مقام بنا کر پوراحصہ دینا چاہیے اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنا چاہیے ۔مگر حقیقت میں دور جدید کے متجددین کا طریقہ کار یہ ہے کہ غیرمتعلقہ مباحث کو چھیڑ کر اور اسلام کے منصوص اوراجماعی احکام کو اجتہادی اور اختلافی مسائل کی شکل دے کر ان احکام کو مشکوک و مشتبہ بنا دیا جائے یہ طرز فکر اور طریقہ کار تحقیق نہیں بلکہ تلبیس ہے۔

    بنیادی طور پر یہ بات جاننا ضروری ہے کہ ترکہ کی تقسیم کا مدار شریعت نے قرابت [قریبی رشتوں ] پر رکھا ہے نہ کہ محتاج ہونے پر۔ اگر ایسا ہوتا تو سارے مالدار وارث محروم ہو جاتے اور غریب وارث ترکے کے مالک ہوتے لیکن ایسا نہیں ہے ۔اور نہ یتیمی کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے کیو نکہ پھر جو بھی یتیم ہوا سے میراث ملنی چاہیے خواہ پوتا ہو یا بھتیجا ہو یا بھانجا ہو اور اگر نفس قرابت معیار بنایا جائے پھر ہر انسان دوسرے کا وارث بن سکتا ہے اس لیے اسلام نے یتیمی ،ناداری اور نفس رشتہ داری کے بجائے 'الاقرب فالاقرب' کو بنیاد بنایا ہے اس لیے کہ تقسیم میراث کی علت یتیموں اور ناداروں کی مالی امداد اور معاشی کفالت نہیں ہے بلکہ انتقال ملکیت اس کی اصلی علت ہے۔

    دادا کے میراث میں یتیم پوتے کا حصہ:

    اگر یتیم پوتے کےساتھ دادا کا حقیقی بیٹا یعنی صلبی بیٹا موجود ہو تو اس صورت میں وراثت کا حق دار صرف حقیقی بیٹا ہوگا اور یتیم پوتا محروم ہوگا ۔اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے کہ:

    يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ40 تمھاری اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتو ں کے برابرہے۔لفظ اولاد کا اطلاق بیٹے کے اولاد[پوتوں ]اور صلبی اولاد سب پر ہوتاہے لیکن صلبی اولاد معنی حقیقی ہے اور پوتو ں پر اطلاق معنی مجازی ہے صلبی بیٹے کےموجودگی میں پوتے کو وارث بنانا ممکن نہیں ہے اس لیے کہ اصول فقہ کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ ایک لفظ سے بیک وقت حقیقی اور مجازی دونوں معنی مراد نہیں لیے جاسکتے ۔امام ابوبکر الجصاص فرماتے ہے کہ " أن اسم الأولاد يقع على ولد الابن وعلى ولد الصلب جميعا إلا أن أولاد الصلب يقع عليهم هذا الاسم حقيقة ويقع على أولاد الابن مجازا ولذلك لم يردوا في حال وجود أولاد الصلب ولم يشاركوهم في سهامهم41بیٹے" نام کا اطلاق بیٹے کی اولاد اور اولاد کی اولاد دونوں پر ہوتا ہے، سوائے اس کے کہ یہ نام حقیقت میں اولاد کی اولاد پر لاگو ہوتا ہے، اور علامتی طور پر بیٹے کی اولاد پر لاگو ہوتا ہے، اس لیے مقدمہ میں ان کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اولاد کی موجودگی کے بارے میں، اور انہوں نے ان کے حصص میں ان کے ساتھ حصہ نہیں لیا۔اس کے بعد اگر دوسرے مصدر اصلی یعنی سنت رسول کا مطالعہ کیا جائے اس سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یتیم پوتا حقیقی بیٹے کےساتھ دادا کی میراث میں حصہ نہیں لے سکتا ۔امام بخاری نے صحیح البخاری میں ایک باب قائم کیا ہے باب ميراث ابن الابن إذا لم يكن ابن ، اس کےتحت ایک حدیث نقل کرتے ہیں

    عن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فهو لأولى رجل ذكر۔ 42 ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرائض کو ان کے ساتھ لگاؤ ​​جو ان کے مستحق ہیں، اور جو کچھ باقی رہ گیا ہے وہ سب سے زیادہ لائق مرد کے لیے۔

    جس سے صراحتاًثابت ہوتا ہے کہ ذوی الفروض کو حصہ دینےکےبعد جو ترکہ بچ جائے وہ عصبات میں الاقرب فالاقرب کے اصول پر تقسیم ہو گا یعنی بیٹے کی موجودگی میں پوتے کو حصہ نہیں ملے گا ۔اسی حدیث کی بنیادپر زیدبن ثابت سے منقول قول ہے جو' اعلم بالفرائض 'ہیں فرماتے ہیں :وقال زيد ولد الأبناء بمنزلة الولد إذا لم يكن دونهم ولد ذكر ذكرهم كذكرهم وأنثاهم كأنثاهم يرثون كما يرثون ويحجبون كما يحجبون ولا يرث ولد الابن مع الابن43زید بن ثابت نے کہا: بیٹے اسی حیثیت میں پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ ان کے علاوہ کوئی بیٹا نہ ہو، ان کا لڑکا ان کے لڑکوں کی طرح ہوتا ہے اور ان کی لڑکی ان کی لڑکی کی طرح ہوتی ہے، وہ اسی طرح وارث ہوتے ہیں جیسے وہ وارث ہوتے ہیں اور اسی طرح پردہ ہوتے ہیں جیسے وہ پردہ کرتے ہیں، اور بیٹے کا۔ بچے کو بیٹے کے ساتھ وراثت نہیں ملتی

    اس طرح ابوبکر الجصاص فرماتے ہے کہ یہ تمام اہل علم صحابہ و تابعین کا قول ہے۔وَهَذَا قَوْلُ أَهْلِ الْعِلْمِ جَمِيعًا مِنْ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ44

    اجماع امت:قران و سنت کے دلائل کی بنیاد پر امت مسلمہ کے فقہاء کا اجماع ہے کہ بیٹے کی موجودگی میں پوتے کو میراث نہیں دی جاسکتی۔ امام مالک نے الموطا میں نقل کیا ہے أَنَّهُ قَالَ الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا وَاَلَّذِي أَدْرَكْت عَلَيْهِ أَهْلَ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَاأَنَّهُ ۔۔۔۔۔ وَمَنْزِلَةُ وَلَدِ الْأَبْنَاءِ الذُّكُورِ إذَا لَمْ يَكُنْ وَلَدٌ كَمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ سَوَاءٌ ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ وَيُحْجَبُونَ كَمَا يُحْجَبُونَ) فَإِنْ اجْتَمَعَ الْوَلَدُ لِلصُّلْبِ وَوَلَدُ الِابْنِ فَكَانَ فِي وَلَدِ الصُّلْبِ ذَكَرٌ فَإِنَّهُ لَا مِيرَاثَ مَعَهُ لِأَحَدٍ مِنْ وَلَدِ الِابْنِ،45انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان متفقہ طور پر جو معاملہ ہوا اور جس پر میں نے اپنے ملک کے اہل علم کو آگاہ کیا ہے وہ یہ ہے: ۔۔ اولاد نہ ہونے کی صورت میں مرد کی اولاد کی حیثیت مرد کے بچے کی طرح ہے، خواہ ان کا لڑکا ان کے لڑکوں جیسا ہو اور ان کی لڑکی ان کی لڑکی کی طرح ہو، وہ وراثت میں ملیں گے جیسا کہ وہ مناسب سمجھتا ہے۔ جس طرح وہ مسدود ہیں۔) اگر اولاد کی اولاد جمع ہو جائے اور بیٹا پیدا ہو اور اولاد میں ایک مرد ہو تو باپ کی اولاد میں سے کسی کے لیے اس کے ساتھ کوئی وراثت نہیں ہے۔

    پاکستان کےعائلی قوانین میں دفعہ ۴ جو یتیم پوتے کی میراث کے حوالے سے ہے جس کا متن یہ ہے کہ"اگروراثت کے شروع ہونے سے پہلے مورث کے کسی لڑکے یا لڑکی کی موت واقع ہوجا ئےتوایسے لڑکے یا لڑکی کے بچوں کو [اگرہوں] بحصہ رسدی وہی ملے گا جو لڑکے یا لڑکی کو [جیسی صورت ہو] زندہ ہونے کی صورت میں ملتا"46عائلی قانون کی یہ دفعہ نمبر ۴ اسلامی شریعت کےنصوص قران وسنت اور اجماع سے متصادم ہے۔ مختلف اوقات میں علماء کرام نے اس دفعہ کے اصلاح کےلیے سفارشات اور تجاویز پیش کی ہیں لیکن تاحال اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔

    یتیم پوتےکے حق میں وصیت واجبہ:

    وصیت واجبہ کے حوالے سے فقہا کی آرا مختلف ہیں ۔ اس میں ائمہ اربعہ کے نزدیک وصیت مستحب ہے ، بعض تابعین کے نزدیک وصیت واجب ہے جس میں طاوس ،قتادہ،سعید ابن مسیب ،حسن بصری شامل ہیں ،البتہ داود ظاہری ،ابن حزم اندلسی ،اور ایک قول امام احمد کا بھی شامل ہے ۔ معاصر فقہاء میں یوسف القرضاوی اور بدران ابوالعینین شامل ہیں۔ 47

    ان فقہاء کی آرا کو مد نظر رکھ کر بعض مسلم ممالک نے یتیم پوتے پوتیوں کے حق میں وصیت کو وصیت واجبہ کا درجہ دیا ہے۔ ان میں مصر ،اردن ،عراق ،الجزائر ،سوڈان یمن ،وغیرہ شامل ہیں ۔مثال کے طور پرالجزائر کا مدوّن قانون کا ذکر کرتےہیں

    الجزائر کا مدوّن قانون :

    قانون الاسرۃ الجزائری[جزائر کے عائلی قانون ] میں وصیت واجبہ کا قانون درجہ ذیل ہے :

    الوصیۃ واجبۃ لفرع الولد الذی مات موتا حقیقۃً فی حیاۃ ابیہ او امہ ۔48

    ترجمہ: وصیت اس بچے کی اولاد کے لیے واجب ہے جو درحقیقت اس کے والد یا والدہ کے زندہ ہونے کے دوران فوت ہوئے ہوں۔

    وہ بیٹا جو اپنے باب یا ماں کی زندگی میں حقیقتا فوت ہوگیا ہو اس کی اولاد کے لیے وصیت کرنا واجب ہے یہی حکم حکمی موت میں بھی ہے ۔

    حاصل کلام:

    یتیم پوتے کی وراثت کےمسئلے میں تفصیلی بحث موجود ہے اور اس مسئلےکوحل کرنے کےلیےمختلف تجاویز پیش کی گئی ہیں جس میں ایک وصیت واجبہ کا قانون ہےجس پر عمل کیا جاسکتا ہے لیکن اس قانون میں چند امور ملحوظ نظر رکھنا ضروری ہیں

    {الف}قانون میں تصریح ہونی چاہیے کہ بیٹے کی موجودگی میں پوتا وارث نہیں بن سکتا اور ذوی الفروض و عصبات کےموجودگی میں بیٹی کی اولاد وارث نہیں بن سکتی۔ یہ اس لیے کہ اسلام کےقانون میراث میں تحریف کرنے لیے دروازے بند ہوجائیں۔

    {ب}قانون میں یہ شرط نہ لگائی جا ئےکہ پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو ان کے باپ یا ماں کے حصے کے برابر حصہ دیا جائے گا جیسا کہ مصر کے قانون الوصیۃ میں شرط لگائی گئی ہےیہ اس لیے کہ اس سے یہ شبہ پیدا نہ ہو کہ یہ اپنے باپ یا ماں کا حصہ لےرہے ہیں بلکہ یہ شرط لگائی جائے کہ وصیت واجبہ کےتحت ان کو ایک تہائی سے زیادہ نہیں دیا جاسکتا ۔

    {ج}وصیت واجبہ کے قانون میں یہ تصریح ہونی چاہیے کہ قانون وصیت واجبہ سے وہی پوتےپوتیاں اور نواسے نواسیاں فائدہ اٹھاسکتی ہیں جن کے لیے نہ دادا نے وصیت کی ہو اور نہ ہبہ کے طور پر تملیک کی ہو۔49

    ان امور کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ ایک تو اسلام کے قانون میراث میں تحریف کی گنجائش ختم ہو جائے اور دوسرا یہ کہ کسی کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی نہ ہو بلکہ ہر ایک کواس کا اپنا حق ملے۔

    الہامی مذاہب اور اسلامی قانون وراثت میں خواتین کے حصوں کا تقابلی جائزہ

    پہلی فصل میں الہامی مذاہب میں عورت کےحق وراثت کاتفصیلی ذکر ہے اور دوسرے باب میں اسلامی قانون وراثت میں عورتوں کے حقوق کا ذکر ہے اب یہاں ایک تقابلی جائز ہ پیش خدمت ہے۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ اسلام وراثت میں خواتین کو کتنا حصہ دیتا ہے اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں کتنا معتدل اور انصاف پسند دین ہے۔

    ادیان ثلاثہ (اسلام ،یہودیت اور عیسائیت )میں بیٹی کے حق وراثت کا تقابلی جائزہ:

    یہودیت وعیسائیت میں بیٹی کو وراثت میں ایک ہی صورت میں حصہ ملتا ہے وہ بھی شرائط کے ساتھ مثلا تورات میں لکھا گیا ہے کہ: "اور بنی اسرائیل سے کہہ کہ اگر کوئی شخص مرجائے اور اس کا کوئی بیٹا نہ ہو تو اس کی میراث اس کی بیٹی کو دینا ا ور اگر اس کی کوئی بیٹی بھی نہ ہو تو اس کے بھائیوں کو اس کی میراث دینا "50اس طرح دوسری شرط یہ ہے کہ اپنے ہی قبیلے میں شادی کرنا ہوگی۔ اگر دوسری قبیلے میں شادی کی تو پھر میراث سے محروم ہوگی۔اسلام میں بیٹی کو وراثت میں تین صورتوں میں حصہ ملتا ہے۔ دو صورتوں میں بطور ذوی الفر وض کے اور ایک صورت میں بطور عصبہ کے حصہ ملتا ہے ۔اگر ایک بیٹی ہو اور بیٹا نہ ہو تو اس صورت میں بیٹی کو نصف حصہ ملتا ہے اگر دو بیٹیاں ہو تو ثلثان ملتا ہے اور بیٹی کے ساتھ بیٹا موجود ہو تو اس صورت میں وہ عصبہ بن جاتی ہے اور تقسیم للذکر مثل حظ الانثین کے حساب سے ہوتی ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ اسلام عورتوں کو وراثت میں کتنا حق دیتا ہے اور باقی ادیان میں عورتوں کو کتنا حصہ ملتا ہے۔

    ادیان ثلاثہ میں بیوی کے حق وراثت کا تقابلی جائزہ:

    تورات میں میراث کا سبب صرف 'نسب ' قرار دیا گیا ہے جس کے تحت میت کے ورثا حصہ دار بن سکتے ہیں۔ اس لیے بیوی کا وارثوں میں کہیں ذکر نہیں کیا گیا ۔ استاذ السید محمد مصطفی عاشور اپنی کتاب مرکزالمراۃفی الشریعۃالیھودیۃ میں لکھتے ہے کہ:

    "أما النساء فلم يكن لهن نصيب مما ترك الرجل، بل هن أنفسهن كن يعتبرن جزءا من التركة وكن يورثن مع ما يورث من سائر متاع الرجل،51جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے تو ان کے پاس اس میں حصہ نہیں تھا جو مرد نے چھوڑا تھا، بلکہ وہ خود بھی جائیداد کا حصہ سمجھی جاتی تھیں اور مرد کی جو بھی جائیداد وراثت میں ملتی تھی اس کے ساتھ انہیں وراثت میں مل جاتی تھی۔

    جب کہ اسلام کے قانون وراثت میں بیوی کو بطور ذوی الفروض حصہ دیا گیا ہے اور تقسیم میراث میں سب سے پہلے حصہ ذوی الفروض کو دیا جاتا ہے جن کو کسی صورت میں محروم نہیں کیا جاسکتا اِلا یہ کہ اس میں 'موانع ارث' میں کوئی مانع موجود ہو۔تقسیم میراث میں بیوی کے حصے کی دو حالتیں بیان ہوئی ہیں۔ اگر مورث کی اولاد موجودہو تو بیوی کوآٹھواں حصہ ملے گا اور اگر مورث کے ہاں اولاد نہ ہو تو اس صورت میں بیوی ترکہ میں سےایک چوتھائی کی حقدار قرار پائےگی۔

    ادیان ثلاثہ میں بہن اور ماں کے حق وراثت کا تقابلی جائزہ:

    یہودی قانون میں اگر مرد وارث موجود ہو تو عورت وراثت سے محروم ہو جا تی ہے اور مرد وارث کی عدم موجودگی میں صرف بیٹی حصہ لیتی ہے جن کی تفصیل گزر چکی ہے۔ اس کے علاوہ یہودی قانون وراثت میں ماں اور بہن کا کوئی تذکرہ موجودنہیں ہے ۔

    ولا ترث الانثی سواء كانت اما او اختا او زوجة اما الابنة فترث اذا مات الاب ولم يكن له ابناء ذكور فقط اما فى غير هذه الحالة فلا ميراث لها۔۱52عورت کو وراثت نہیں ملتی خواہ وہ ماں، بہن یا بیوی ہو، بیٹی کا تعلق صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب باپ فوت ہو جائے اور اس کی کوئی اولاد نہ ہو، ورنہ اس کی کوئی میراث نہیں۔

    جب کہ اسلام نے ماں اور بہن دونوں کو ذوی الفروض میں شمار کیا ہے البتہ بہن کچھ صورتوں میں بطور عصبہ حصہ لیتی ہے۔ اسلام کے قانون وراثت میں ماں کے حصے کی تقسیم بھی تین اعتبار سے ہے یعنی ماں کی تین حالتیں بیان ہوئی ہیں جس میں ماں بطور وارث حصہ لیتی ہے اور کسی صورت میں بھی محروم نہیں ہوتی۔ اس طرح بہنوں کی تین قسمیں ہیں :اخیافی بہن، علاتی بہن اورحقیقی بہن ۔ بطور وارث ان کی مختلف صورتیں ہیں ، بعض میں بطور ذوی الفروض اور بعض میں بطور عصبہ حصہ لیتی ہیں ۔

    اسلام نے ورثاء کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ذوی الفروض ،عصبہ اور ذوی الارحام۔ ان میں سب سے پہلے ذوی الفرض کو میراث دی جا تی ہے، اس کے بعد عصبہ کو پھر ذوی الارحام کو، اور ذوی الفروض کا اکثر حصہ عورتوں پر مشتمل ہے یعنی ان کی کل تعداد ۱۲ ہے جن میں آٹھ عورتیں ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے عورتوں کے حق وراثت کا کتنا لحاظ رکھا ہے ۔


    خلاصہ بحث:

    اس موضوع میں خواتین کے حق وراثت کے متعلق الہامی مذاہب کا ایک تقابلی جائزہ پیش کیا گیاہے جس سے اس بات کو واضح کرنے کوشش کی گئی ہےکہ کس مذہب میں عورتوں کو میراث میں پورا حق دیا گیا ہے اورکون سا مذاہب اس مسئلے میں افراط وتفریط کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ وراثت میں خواتین کے حقوق کےحوالے سے اسلام کے قانون وراثت پر جو اعتراضات اور شبہات کااظہار کیا جاتا ہے وہ بےبنیاد اور جہالت پرمبنی ہیں جن میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس مقالے میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ عورت کو وراثت میں پورا حق دینے والا دین صرف اسلام ہے جو ان کے تمام حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔دوسری طرف یورپ کے رائج قوانین کو ذکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بھی عورتوں کو وراثت میں پورا حقوق نہیں دیا گیا اگر چہ ان کے قوانین میں مساوات کا نظریہ پایا جاتا ہے۔اس کے باوجود یہ قوانین عدم توازن کا شکار ہیں ۔

    نتائج:

    اس موضوع سے اخذ کیے گئے نتائج نکات کی صورت میں درجہ ذیل ہیں:

  • تورات کے قانون وراثت میں وراث ہونے کےلیے صرف نسب کو ملحوظ نظر رکھا گیا ہےتورات کےقانون وراثت میں مذکر اور مونث کے فرق کو معیار بنایا ہے یہی وجہ ہےکہ تورات کے قانون وراثت میں مرد وارث کی موجودگی میں عورت وراثت سے محروم ہو جاتی ہے۔

  • تورات کےقانون وراثت کے مطابق خواتین میں صرف بیٹی وارث بن سکتی ہے وہ بھی ایک ہی صورت میں جب میت کا بیٹا موجود نہ ہو۔

  • یہودی مذ ہب میں بیوی کو وراثت میں حصہ نہیں ملتا بلکہ بیوی کو بھی ترکہ سمجھا جاتا تھا ۔۴یہودی مذہب میں وراثت کی تقسیم عادلانہ نہیں ہے حتی کہ مردوں کے درمیا ن بھی وراثت تقسیم نہیں ہوتی کیونکہ مورث کے ورثا میں بڑے بیٹے کو دگنا حصہ ملتا ہے خواہ وہ ولد الزنا کیو ں نہ ہو۔

  • یورپ[انگلینڈ] کے قوانین وراثت میں اگر چہ تقسیم کے لحاظ سے مساوات کا نظریہ موجود ہے پھر بھی وہ عورتوں کو بسا اوقات وراثت سے محروم ہی کردیتے ہیں ۔مثلا اگر مورث کے ورثاء میں ماں ،بیوی اور بچے موجود ہیں تو اس صورت میں ماں میرا ث سے محروم ہے۔

  • انجیل میں وراثت کےمتعلق کوئی حکم موجود نہیں ہے بلکہ وراثت کے احکام میں وہ تورات کےاحکام کے تابع ہے۔ ۷۔اسلام کے قانون وراثت میں عورتوں کو ان کاپورا حق دیا گیا ہے اور ان کےحقوق وراثت کو محفوظ بنانے کےلیے عورتوں کی اکثر تعداد ذوی الفروض میں ذکر کی گئی ہے ۔

  • اسلام میں تقسیم وراثت کی بنیاد قرابت ہے خوا ہ وہ وراث نسبی ہو یا سببی ہو ۔

  • اسلام میں تقسیم وراثت کی بنیاد قرابت ہے نہ کہ محتاجی یا غریبی اس لیے دادا کی میراث میں یتیم پوتا وارث نہیں ہے جب اس کے ساتھ دادا کا حقیقی بیٹا موجود ہو ۔

  • فقہاء نے یتیم پوتے کےلیے وصیت واجبہ کے قانون کے تحت حصہ مقرر کیا ہے لیکن بطور وارث وہ حصہ نہیں لے سکتا۔

    1 ۔ ایم فل سکالر،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد

    2 ۔ایم فل سکالر، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد

    3۔لیلی بن ابراھیم ، المیراث بین الیہودیۃ والاسلام ،( بیروت:الدار الثقافیۃ للنشر، 2007)،ص 54

    4۔ کتاب مقدس ، انارکلی بائیبل سوسائٹی ، ص 181 ،گنتی 27 آیت 8۔

    5۔کتاب مقدس ،گنتی 36 آ،یت 6،7،8، ص 191۔

    6۔ محمد مصطفی عاشور، مرکز المراۃ فی الشریعۃ الیھودیۃ ، )مصر:مکتبۃالایمان ،,(2004ص 43

    7کتاب مقدس ،انار کلی بائبل سوسائٹی ،ص 5 ،متی 5، 17

    8۔بین ویر نگٹن ،یہودیت اور عیساییت میں خواتین کے احکام وراثت کا تنقیدی مطالعہ، الوفاق، جلد نمبر 4، شمارہ نمبر 2 ،دسمبر 2021:،145، بحوالہ شازیہ رشید عباسی

    9 یہودیت اور عیساییت میں خواتین کے احکام وراثت کا تنقیدی مطالعہ" الوفاق" جلد نمبر 4، شمارہ نمبر 2، دسمبر 2021): 145۔

    10 Intestacy Rules | Intestacy laws | Laws of Intestacy (angliaresearch.co.uk) access 14.1.2024


    11 Intestacy Rules | Intestacy laws | Laws of Intestacy (angliaresearch.co.uk) access:14.1.2024

    12 hhttps://www.angliaresearch.co.uk/legal-services/intestacy-rules/#anchor4

    14.1.2024

    13The Laws of Intestacy, www.angliaresearch.co.uk, https://www.angliaresearch.co.uk/legal-services/intestacy-rules/#anchor5, 14.1.2024


    14 وہبہ زحیلی ، الفقہ الاسلامی وادلتہ،ج8،ص281، دارالفکر بیروت

    15۔ القرآن،4: 12

    16۔ القرآن،4: 12

    17 ۔ القرآن،4: 12

    18۔القرآن،4: 12

    19 النساء:12

    20 محمد عیسی الترمذی،سنن ترمذی ،باب الفرائض ،(بیروت،دارالغرب،الاسلامی۔بیروت ،سنۃالنشر 1998)،ح1415

    21 النساء :11

    22 النساء :11

    23۔ القرآن،4: 12

    24۔ محمد ابن اسماعیل البخاری،صحیح البخاری،کتاب الفرائض،باب میراث ابنۃابن مع ابنۃ، ح 1330

    25۔ بخاری،صحیح البخاری، ح۲۵۶۴

    26 محمد بن عیسی ترمذی، سنن الترمذی، اًبواب الفرائض، باب ماجاءفی میراث الجدۃ، ح۲۱۰۱

    27 احمد بن الحسین ابوبکر البیہقی،کتاب سنن البیہقی الکبری، کتاب الفرائض، باب لاترث مع الام جدۃ ،ح 12017

    28 النساء؛176

    29النساء؛176

    30 النساء:176

    31 صحیح البخاری،، کتاب الفرائض ،ح 6742

    32 النساء،176

    33محمد بن احمد ابی سھل،المعرف امام سرخسی، کتاب ،المبسوط، باب الاِخوۃوالاخوات ،(بیروت، دارالکتب العلمیۃ،،2009)، ج29 ،ص170

    34 ا لقرآن،4: 12

    35 مالک بن انس ، موطا، کتاب الفرائض ، باب میراث الاخوۃللام ،(ابو ظبی: مؤسسة زايد بن سلطان آل نهيان،1425)، ج3،ص734۔

    36ڈاکٹر عبد الحی ابڑو، کتاب ،میراث وصیت کے شرعی ضوابط، (اسلام آباد :شریعہ اکیڈمی،(2021 ،ص94 ۔

    37 وہبۃ الزحیلی ،الفقہ السلامی وادلتہ،ج8،ص337۔

    38 ۔حى بن شرف النووی،شرح مسلم ،کتاب الفرائض،( بيروت: دار احياء التراث العربی ،1972)، ج2،ص175

    39 ۔ احمد بن عبد الرحيم شاه ولی الله دهلوی، حجة الله البالغة , ، (بيروت: دار الجيل، 2005)ج 2، ص 185



    40 النساء 11

    41 احمد بن علی الجصاص ،احکام القران ،)بیروت: دار احیاء التراث العربی،2007 ( ، ج3،ص14

    42 بخاری،صحیح البخاری ،کتاب الفرائض، ح6354

    43 بخاری،صحیح البخاری ،کتاب الفرائض باب میراث ابن الابن اذالم یکن ، ح 2477

    44 ۔ابوبکر الجصاص، احکام القران ج3،ص15

    45 ۔ سليمان بن خلف بن سعد بن ايوب بن وارث قرطبی ، المنتقى شرح الموطا )قاہرہ: دار الكتاب الإسلامي، (2013 ج2،ص225

    46۔گوہر الرحمن ، تفہیم المسائل، مردان :مکتبہ تفہیم القران،(2016 ج5، ص452

    47 ۔حبیب الرحمن ،کتاب وصیت کے مبادی اور احکام (اسلام آباد: شریعہ اکیڈمی ،(2004 ص144

    48 ۔ د دغیش احمد ،التنزيل في قانون الاسرة الجزائری، 143 بحوالہ حبیب الرحمن ، وصیت کے مبادی اور احکام ، 148۔

    49 ۔تفہیم المسائل ، گوہر رحمن ،ج5، ص513۔

    50 کتاب مقدس ، انارکلی بائیبل سوسائٹی ، ص 181 ،گنتی با127، آیت8۔

    51 ۔محمد مصطفی عاشور، مرکز المراۃ فی الشریعۃ الیھودیۃ ،ص 43

    52 ۔لیلی بن ابراھیم ، ، المیراث بین الیہودیۃ والاسلام ، ص 54

    Shape1

    64

  • Loading...
    Issue Details
    Article TitleAuthorsVol InfoYear
    Article TitleAuthorsVol InfoYear
    Similar Articles
    Loading...
    Similar Article Headings
    Loading...
    Similar Books
    Loading...
    Similar Chapters
    Loading...
    Similar Thesis
    Loading...

    Similar News

    Loading...
    About Us

    Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

    Whatsapp group

    asianindexing@gmail.com

    Follow us

    Copyright @2023 | Asian Research Index